Wednesday, 20 November 2024

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت" سے ثابت ہیں ، ان میں عمل خواہ ایک صورت پر ہو مگر تمام صورتوں کو شرعاً درست سمجھنا ضروری ہے ۔ اگر کوئی فرد یا جماعت ان مسائل میں اپنے مسلکِ مختار (اختیار شدہ راستہ) کا اتنا اصرار کرے ، کہ دوسرے مسلک پر طنز و تعریض ، دشنام طرازی اور دست درازی سے بھی باز نہ آۓ تو اس (فتنہ و فساد) کو ناجائز اور حرام قرار دیا گیا ہے ۔ باہم ٹکراتی اختلافی سنّتوں کے حکم میں فرق اصول حدیث و فقہ میں صرف ناسخ و منسوخ ، راجح و مرجوح یا اولیٰ اور غیر اولیٰ (افضل و غیرافضل) کا ہوتا ہے ۔ رفع (یعنی بلند کرنا) یدین (یعنی دونوں ہاتھ) ۔ یہ رفع یدین (یعنی دونوں ہاتھ بلند کرنا) ہر مسلمان نماز (کے شروع) میں کرتا ہے ، لہٰذا اختلاف یہ نہیں کہ رفع یدین نہیں کیا جاتا ، بلکہ اختلاف تو صرف نماز میں رفع یدین کتنی بار اور کن کن موقعوں پر کیا جانا چاہیے ، اسی بات کا ہے ۔ مثَلاً : جو لوگ نماز کے اندر رفع یدین کرتے ہیں ، وہ سجدوں میں جاتے اور اٹھتے ہوۓ کیوں نہیں کرتے ؟ جب کہ اس پر صحیح احادیث بھی موجود ہیں جنہیں ہم دوسرے حصے میں پیش کرینگے ان شاء اللہ ۔

نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم نماز کس طرح سے ادا فر ماتے تھے اس بارے میں جو اختلاف سب سے زیادہ شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ : نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم رفع یدین کرتے تھے یا نہیں ؟ اور آج رفع یدین کرنا درست ہے یا نہیں ؟ ۔ اگر ہم پوری امانت ودیانت کے ساتھ بغیر کسی غیر جانبداری کے نیک نیتی کے ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم کے طریقہ نماز سے متعلق روایتوں پر غور و فکر کر لیں تو یہ اختلاف ختم ہو سکتا ہے ۔ اس لیے ہم ذیل میں بغیر کسی جانبداری کے اس سے متعلق حقائق پیش کرتے ہیں ۔ آپ پڑھیں اور خود فیصلہ کریں ۔

رفع یدین : ⏬

نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم نماز میں رفع یدین کرتے تھے یا نہیں ۔ اس بارے میں دونوں طرح کی روایتیں مو جود ہیں ۔ اور دونوں طرف اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ۔ اب رہی بات کہ جب دونوں طرح کی روایتیں ہیں تو امت کس پر عمل کرے ؟ اور کس کو چھوڑے ۔ ایسے مقامات پر آکر امت کا اجماع ہے کہ یہ دیکھا جائے گا کہ نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم کا آخری عمل کس پر ہے کیونکہ بسا اوقات نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم نے ایک کام کیا پھر وہ کام حکم الہی کے تحت چھوڑ دیا جیسے پہلے نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم نے مسجدِ اقصیٰ کی طرف منہ کر کے نماز ادا فر مایا کرتے پھر حکم الہی کے تحت اس پر عمل چھوڑ کر خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا فر ماٸی یہاں تک نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم کادنیا سے تشریف لے جانے کے وقت بھی اسی پر عمل رہا ۔ تو جو نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم کا آخری عمل رہا اسی پر ہمیں بھی عمل کرنا ضروری ہے ۔ اسی طرح نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم نے کسی ایک کام کو کیا لیکن بعد میں اس سے منع فر مادیا تو اب امت پر ضروری ہے کہ وہ اس کام کو نہ کرے ۔ جیسے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز میں باتیں کرلیتے تھے اور نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم منع نہ فرماتے لیکن جب آیت کریمہ ”قوموا للہ قانتین“ نازل ہوئی تو نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم نے منع فرما دیا ۔ تو اب ضروری ہے کہ نماز میں کوئی بات نہ کرے ۔

اب یہ کیسے معلوم ہو کہ نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم کا آخری عمل کسی چیز کے بارے میں کیا تھا ؟ یا حضور صلی علیہ وآلہ وسلم نے اس چیز سے منع فرمایا ہے ۔ تو اس پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ اس کے بہت سارے طریقے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کا عمل کس پر تھا یہ دیکھنے سے معلوم ہو جائے گا کہ حضور صلی علیہ وآلہ وسلم کا آخری عمل کیا تھا کیو نکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عادت تھی کہ وہ نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم کے آخری عمل کے اعتبار سے ہی فتوی دیا کرتے تھے اور خود بھی اسی پر عمل کرتے تھے ۔ اسی طرح کوئی صحیح روایت مل جائے کہ نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم نے فلاں کام کرنے سے منع فر مایا ہے تو اس روایت سے معلوم ہو جائے گا کہ اب اس پر عمل کرنا درست نہیں ۔

ان تمام باتوں کو اپنے ذہن میں رکھتے ہوئے جب ہم رفع یدین کے مسئلے پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ بے شک نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم نے رفع یدین کیا لیکن نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم کا آخری عمل رفع یدین نہ کرنا تھا کیو نکہ نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد کا یہ واقعہ ہے کہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جو نماز میں پہلی صف میں نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم کے بالکل قریب کھڑے ہوتے تھے اور نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم کے اتنے قریبی تھے کہ باہر سے آنے والے لوگ آپ کو خاندانِ نبوت سے سمجھتے تھے انہوں نے ایک مرتبہ لوگوں سے کہا کہ : کیا میں تم لوگوں کو نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم کے نماز پڑ ھنے کی طرح نماز پڑھ کر نہ دکھا دوں ؟ یعنی نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم کیسے نماز پڑھا کرتے تھے وہ نہ دکھا دوں ؟ لوگوں کے ہاں میں جواب دینے پر آپ نے نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم کے نماز پڑھنے کی طرح نماز پڑھ کر دکھلایا اور اس نماز کے اندر آپ نے صرف ایک بار نماز کے شروع میں ہاتھ اٹھایا پھر دوبارہ رکوع میں جاتے وقت یا رکوع سے اٹھنے کے بعد ہاتھ نہ اٹھا یا ۔ اور اس حدیث کے صحیح ہونے پر تمام محدثین کا اتفاق ہے ۔ (سنن ترمذی باب ماجاء ان النبی صلی علیہ وآلہ وسلم لم یرفع یدیہ الا مرۃ حدیث نمبر ۲۵۷ صفحہ ۷۸،چشتی)

اب آپ غور کریں کہ ! یہ نماز حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حضور صلی علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد خاص اسی چیز کو دکھانے کے لئے پڑھی کہ نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم کیسے نماز پڑھتے تھے ؟ اور اس میں رفع یدین نہ کیا تو ہمیں یقینی طور سے معلوم ہوگیا کہ نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم کا آخری عمل یہی تھا اگر چہ نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں رفع یدین بھی فر مایا ہو ۔ کیونکہ صحابہ رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم کے آخری عمل کے اعتبار ہی سے فتوی دیتے تھے اور عمل کرتے تھے ۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر ۱۱۱۳)

اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد سیدنا عمر فاروق سیدنا مولی علی رضی اللہ عنہما اور ان کے علاوہ کثیر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی رفع یدین نہیں کرتے تھے ۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں جلیل القدر تابعی حضرت اسود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز ادا کی تو آپ نے صرف نماز کے شروع میں ہاتھ اٹھایا اور پھر دوبارہ نہ اٹھایا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ حدیث نمبر ۲۴۶۹)

اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں عاصم بن کلیب سے روایت ہے کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے تمام اصحاب صرف نماز کے شروع میں ہاتھ اٹھا تے تھے پھر دوبارہ نہیں ۔ امام تر مذی لکھتے ہیں کہ یہی مسلک ہے بہت سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ۔ (سنن ترمذی باب ماجاء ان النبی صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم لم یرفع یدیہ الا مرۃ حدیث نمبر ۲۵۷صفحہ ۷۸،چشتی)

ان سب کے علاوہ کتبِ احادیث میں یہ صحیح روایت بھی موجود ہے کہ : نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم نے رفع یدین کرنے سے منع کیا ۔ چنانچہ امام مسلم علیہ الرحمہ اپنی صحیح مسلم میں حضرت جابر بن سمرہ سے روایت کرتے ہیں کہ : نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے تو ارشاد فر مایا کہ : کیا بات ہے کہ میں تم لوگو ں کو سر کش گھوڑوں کی دموں کی طرح اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں ۔ اسکنوا فی الصلوۃ ۔ نماز میں سکون واطمینان سے رہا کرو ۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر ۴۳۰)

اس روایت سے یہ سمجھنا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز سے فارغ ہونے کے بعد جو ہاتھ اٹھاتے تھے اس سے نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا نہ کہ رفع یدین کرنے سے کسی طرح بھی درست نہیں ہو سکتا کیونکہ نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم نے رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا ، نماز میں سکون سے رہا کرو ، نماز میں ، کے لفظ پر غور کریں تو حقیقت خود بخود ظاہر ہو جاتی ہے کہ نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم نے یہاں یقینا نماز میں رفع یدین کرنے سے منع فر مایا ۔ لہٰذا کوئی ایسی تاویل جو حدیث کے ظاہر لفظ کے بالکل خلاف ہو نہیں سنی جا سکتی ۔ نہیں تو پھر زمین بول کر آسمان مراد لینا بھی درست ہو جائے گا جو کسی بھی عقلمند کے نزدیک درست نہیں ۔ بہر حال جب صحیح روایات سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم کا آخری عمل رفع یدین نہ کرنا تھا اور یہ بھی کہ نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم نے رفع یدین کرنے سے خود بھی منع فر مادیا تو اب بھی کوئی نہ مانے تو ہم انہیں کیا کہہ سکتے ہیں ۔فیصلہ آپ خود کر لیں ۔ ایک مزے کی بات یہ بھی ہے کہ : جس صحابی رسول رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم نے رفع یدین کیا وہ خود رفع یدین نہیں کرتے تھے ۔ چنانچہ بخاری و مسلم وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم نے رفع یدین کیا مگر خود حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رفع یدین نہیں کرتے تھے چنانچہ حضرت مجا ہد کہتے ہیں کہ : میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو نماز کے شروع کے علاوہ کبھی ہاتھ اٹھاتے نہیں دیکھا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ حدیث نمبر ۲۴۶۷،چشتی)

اب آپ خود سوچ سکتے ہیں جس صحابی رسول رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم نے رفع یدین کیا وہ خود رفع یدین کیوں نہیں کرتے تھے ؟ ۔ کیا اس لئے کہ وہ جان بوجھ کر نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کرتے تھے (معاذاللہ) ہم کسی صحابی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتے تو لازماً یہی بات ہوگی کہ نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم کا یہی آخری عمل تھا ، یا کبھی رفع یدین نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم نے کیا لیکن زیادہ تر نہیں کیا جس کی وجہ سے انہوں نے اس پر عمل کیا جس پر نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم کو زیادہ عمل کرتے ہوئے دیکھا ۔ ان سب حقائق کے با وجود سارے مسلک کے علماء کا یہ ماننا ہے کہ نماز میں رفع یدین کرنا ضروری نہیں ،  یعنی اگر کسی نے نہ کیا تو اس  کی نماز میں کوئی کمی نہ ہوگی بلکہ نماز ہو جائے گی ۔ یعنی یہ کوئی ایسی بات نہیں جس سے نماز ہی نہ ہو ۔ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ : پھر اس مسئلے کو لے کر جو کہ ایک غیر ضروری مسئلہ ہے ایک ایسے امام رحمۃ اللہ علیہ کو جنہیں امت کے اکابر اولیاء وعلماء علیہم الرّحمہ نے اپنا پیشوا تسلیم کیا اور جن کے ماننے والے دنیا میں سب سے زیادہ ہیں ۔ گالی دینا ، برا بھلا کہنا ۔ اور جگہ جگہ لوگوں میں فتنہ بر پا کرنا ، امت میں اختلاف اور انتشار پھیلانا ۔ یہ کون سا دین ہے اور کون سا اسلام ہے ؟ ۔ کیا یہ لوگ امت کے بد خواہ نہیں ؟ ۔ کیا ان لوگوں کو اسلام سے کوئی تعلق ہے ؟ کیا واقعی یہ لوگ اہل حدیث ہیں ؟ ۔ کیا ان لوگوں کو نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم سے کوئی تعلق ہے ؟

ہر ایک سوال کا جواب ہزاروں بار نفی میں ہو گا ۔ اور ان لوگوں کو بھلا اسلام سے کیا تعلق ہو سکتا جبکہ نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم نے جس گروہ کے بارے میں فر مایا کہ : تم ان کی نمازو تلاوت کے سامنے اپنی نماز و تلاوت کو کمتر سمجھو گے وہ قرآن ایسے پڑھیں گے جیسے گٹ گٹ دودھ پی رہے ہو ۔ یعنی کسی بات پر فٹافٹ قرآن کی آیتیں پیش کریں گے ۔ مگر ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔ وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے ۔ اور مختلف مواقع پر ان کی نشانیاں بیان فرمائیں وہ تمام نشانیاں اس جماعت کے اندر موجود ہیں ۔ کہ وہ ساری نشا نیا ں اس جماعت کے لوگوں میں موجود ہے یا نہیں ؟ اگر ہیں اور ضرور ہیں ۔ تو پھر ہمیں ان کی باتوں پر کوئی دھیان نہیں دینا چا ہیے ۔

آخری بات : امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی رفع یدین کے قائل ہیں ۔ تو یاد رکھیے کہ ان کے پاس بھی دلائل یقیناً ہیں مگر امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے جیسے نہیں ۔ پھر بھی ان اہل حدیثوں یعنی غیرمقلدین کا ان سے کوئی مطلب نہیں کیو نکہ اہل حدیث کا عقیدہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے عقائد کے بالکل خلاف ہے ۔ نیز امام شافعی رحمة اللہ علیہ مجتہد ہونے کی وجہ سے مختلف احادیث کے پیشِ نظر فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں اور بالفرض اگر ان سے خطا یا لغزش بھی ہو جائے تو انہیں گناہ نہیں بلکہ اجتہاد کا ثواب ملے گا جیسا کہ نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا ہے کہ : جب مجتہد اجتہاد کرے تو اگر صحیح فیصلہ کیا تو انہیں دو ثواب دیا جائے گا اور غلطی ہوئی تو ایک ثواب دیا جائے گا ۔ اسی لیے ہم ان کا احترام دل وجان سے کرتے ہیں اور انہیں حق مانتے ہیں ۔ مگر اہل حدیث (غیر مقلدین) جو حقیقت میں نو عمر ، کمزور عقل اور جاہل لوگوں کی ایک ٹولی ہے جن کا شعار صحابہ رضی اللہ عنہم ، اولیاء ، ببزرگانِ امت علیہم الرّحمہ کی گستاخی کرنا ہے ۔ ہم ان کی مذمت بسیار کرتے ہیں ۔ اور احادیثِ طیبہ کی روشنی میں انہیں اسلام سے خارج اور مسلمانوں کا قاتل ، سمجھتے ہیں ۔

تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفعِ یدین نہ کرنے کے دلائل : ⏬

ظاہری عہدِ نبوت میں وحی الہٰی سے دوسرے احکام کی طرح نماز کے احکامات کی تکمیل بھی تدریجاً ہوئی ہے ۔ اوائل اسلام میں رفع یدین رائج تھا، مگر بعدازاں شارع علیہ السلام نے اسے منسوخ کر دیا ۔ احناف کے ہاں اس پر قوی دلائل موجود ہیں ۔

عن البراء قال : رأیت رسول  الله صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم رفع یدیه حین استقبل الصلاة، حتی رأیت إبهامیه قریبًا من أذنیه ثم لم یرفعهما ۔ (مسند ابی یعلی مسند البراء بن عازب رضي الله عنه جلد 3 صفحہ 210 دار الحديث القاهرة)
ترجمہ : حضرت براء بن عازب رضی  اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول  اللہ صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ دونوں ہاتھوں کو اٹھایا جس وقت نماز شروع فرمائی تھی ، حتی کہ میں نے دیکھا کہ دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں کو دونوں کانوں کے قریب پہنچایا ، اس کے بعد پھر اخیر نماز تک دونوں ہاتھوں کو نہیں اٹھایا ۔

عن عبد الله بن مسعود عن النبي صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم أنه کان یرفع یدیه في أوّل تکبیرة ثم لایعود ۔ (‌‌شرح معانی الاثار باب بيان مشكل ما روي عن عبد الله بن مسعود عن النبي صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم في هذا المعنى جلد 15 صفحہ 35 مؤسسة الرسالة)
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ حضور صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف شروع کی تکبیر میں دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے ، پھر اس کے بعد اخیر نماز تک نہیں اٹھاتے تھے ۔

عن المغیرة قال : قلت لإبراهيم : حدیث وائل أنه رأی النبي صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم یرفع یدیه إذا افتتح الصلاة وإذا رکع وإذا رفع رأسه من الرکوع، فقال:إن کان وائل رآه مرةً یفعل ذلك فقد رآه عبد الله خمسین مرةً لایفعل ذلك  (‌‌شرح معانی الاثار باب بيان مشكل ما روي عن عبد الله بن مسعود عن النبي صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم في هذا المعنى جلد 15 صفحہ 37 مؤسسة الرسالة)
ترجمہ : حضرت مغیرہ نے حضرت امام ابراہیم نخعی علیہما الرحمہ سے حضرت وائل ابن حجر کی حدیث ذکر فرمائی کہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول  اللہ صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے جب نماز شروع فرماتے اور جب رکوع میں جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس پر ابراہیم نخعی نے مغیرہ سے کہا کہ اگر وائل بن حجر رضی  اللہ عنہ نے حضور صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح رفع یدین کرتے ہوئے ایک مرتبہ دیکھا ہے تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ نے حضور کو پچاس مرتبہ رفع یدین نہ کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔

کیوں کہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ مدینہ کے رہائشی نہ تھے ، بلکہ اسلام قبول کرنے کے بعد چند دن مدینہ منورہ میں رہ کر اسلامی تعلیمات سیکھ کر تشریف لے گئے تھے ، جب کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سفر وحضر میں رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہنے والے ، آپ صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادمِ خاص بھی تھے ، اور لسانِ نبوت صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم سے علم و فضل کی سند بھی حاصل کرچکے تھے ، اور آپ صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو ان کی پیروی کا حکم بھی دیا ہے، نیز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی ان سے علم حاصل کرتے تھے اور فتویٰ لیتے تھے ، حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما جیسے جلیل القدر اور اصحابِ فضل وعلم صحابہ کرام نے ان کے کمالِ علم کی تعریف فرمائی ۔

عن جابر بن سمرة قال: خرج علینا رسول  الله صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم فقال: مالي أراکم رافعی أیدیکم کأنها أذناب خیل شمس اسکنوا في الصلاة ۔ (‌‌صحیح مسلم كتاب الصلاة باب الأمر بالسكون في الصلاة والنهي عن الاشارة باليد جلد 1 صفحک 322 دار إحياء التراث العربي،چشتی)
ترجمہ : حضرت جابر بن سمرہ رضی  اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہماری طرف تشریف لاکر فرمایا : مجھے کیا ہو گیا کہ میں تم لوگوں کو نماز کے اندر اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں ، گویا کہ ایسا لگتا ہے جیسا کہ بے چینی میں گھوڑے اپنی دم کو اوپر اٹھا اٹھا کر ہلاتے ہیں ، تم نماز کے اندر ایسا ہرگز مت کیا کرو ، نماز میں سکون اختیار کرو ۔

عن علقمة، قال : قال عبد الله بن مسعود : ألا أصلي بكم صلاة رسول الله صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم فصلى فلم يرفع يديه ‌إلا ‌في ‌أول ‌مرة ۔ (‌‌‌‌سنن ترمذی ابواب الصلاة باب رفع اليدين عند الركوع جلد1 صفحہ 297 دار الغرب الإسلامي)
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ تم آگاہ ہوجاؤ! بے شک میں تم کو حضور صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز پڑھاکر دکھاتا ہوں ، یہ کہہ کر نماز پڑھائی اور اپنے دونوں ہاتھوں کو صرف اول تکبیر میں اٹھایا پھر پوری نماز میں نہیں اٹھایا ۔

عن علقمة ، عن عبد الله أنه قال : ألا أصلي بكم صلاة رسول الله صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم ؟ فصلى، ‌فلم ‌يرفع ‌يديه ‌إلا ‌مرة ‌واحدة ۔ (‌‌سنن نسائی كتاب التطبيق ‌‌باب رفع اليدين حذو المنكبين عند الرفع من الركوع الرخصة في ترك ذلك جلد 2 صفحہ 195 المكتبة التجارية الكبرى بالقاهرة،چشتی)
ترجمہ : حضرت علقمہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ سے نقل فرماتے ہیں کہ آگاہ ہو جاؤ ! میں تمہیں حضور صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نمازپڑھ کر دکھاتا ہوں ، یہ کہہ کر نماز پڑھی تو اپنے دونوں ہاتھوں کو صرف ایک مرتبہ اٹھایا پھر نہیں اٹھایا ۔

عن عبد الله بن مسعود قال : صلیت خلف النبي صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم ، وأبي بکر وعمرفلم یرفعوا أیدیهم إلا عند افتتاح الصلاة ۔ (‌‌‌‌سنن الکبری للبیہقی كتاب الصلاة ‌‌‌‌باب من لم يذكر الرفع إلا عند الافتتاح جلد 3 صفحہ 496 مركز هجر للبحوث والدراسات العربية والإسلامية)
ترجمہ : حضرت علقمہ علیہ الرحمہ ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ نے فرمایا : میں نے حضور صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے اور حضرات ابوبکر و عمر رضی  اللہ عنہما کے پیچھے نماز پڑھی ہے ان میں سے کسی نے اپنے ہاتھوں کو تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ کسی اور تکبیر میں نہیں اٹھایا ۔

معلوم ہوا کہ حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما جو باتفاقِ امت سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے افضل ہیں ، اور دنیا و آخرت میں آپ صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مصاحب ہیں ، صحابہ کرام میں سب سے اَعلم ہیں انہوں نے حضور صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز سے سنت اسی کو سمجھا کہ تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ رفعِ یدین نہ کیا جائے ۔ آگے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عمل بھی بحوالہ آرہاہے کہ وہ بھی تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ رفعِ یدین نہیں کرتے تھے ، گویا خلفاءِ راشدین مہدیین رضی اللہ عنہم کا عمل ترکِ رفع یدین ہے ، اور آپ صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں خلفاءِ راشدین کا طریقہ اختیار کرنے کا بھی حکم فرمایا ہے ، اگر حضور صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رفعِ یدین کے بارے میں صریح روایت نہ بھی منقول ہوتی اور خلفاءِ راشدین کا عمل اسی طرح ہوتا تو بھی یہ ترکِ رفع کے سنت ہونے کی کافی دلیل تھی ، کیوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دین کے حوالے سے کوئی بات بلادلیل نہ کہتے تھے نہ عمل کرتے تھے ۔

عن عاصم بن کلیب الجرمي عن أبیه قال: رأیت علی بن أبي طالب رفع یدیه في التکبیرة الأولی من الصلاة المکتوبة ولم یرفعهما فیما سوی ذلك ۔ (‌‌‌‌موطا امام مالک ابواب الصلاة ‌‌باب افتتاح الصلاة جلد 58 صفحہ 105 المكتبة العلمية)
ترجمہ : عاصم بن کلیب اپنے والد کلب جرمی سے نقل فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : میں نے حضرت علی رضی  اللہ عنہ کو دیکھا کہ فرض نماز میں صرف تکبیر تحریمہ میں ہاتھ اٹھاتے تھے ، اور اس کے علاوہ کسی اور تکبیر میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے ۔

امام مسلم کی روایت ہے : عن جابر بن سمرة قال خرج علينا رسول الله صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم فقال مالی اراکم رفعی يديکم کانها اذناب خيل شمس، اسکنوا فی الصلوٰة ۔۔۔۔ الخ ۔
ترجمہ : جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آقا صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرف تشریف لائے ۔ (ہم نماز پڑھ رہے تھے) فرمایا کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں شمس قبیلے کے سرکش گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ نماز میں سکون سے رہا کرو ۔ (صحيح مسلم جلد 1 صفحہ 201 طبع ملک سراج الدين لاہور)

اس حدیث پاک میں شارع علیہ السلام نے اسکنوا فی الصلوة (نماز میں سکون اختیار کرو) فرماکر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو واضح طور پر رفع یدین بعدالافتتاح سے منع فرمایا ہے ۔ امام مسلم نے اپنی کتاب ’الصحیح‘ میں ترک رفع یدین کا باب یوں قائم فرمایا ہے : باب الامر بالسکون فی الصلوٰة والنهی عن الاشارة باليد ورفعها عندالسلام واتمام الصفوف الاول واليراص فيهما والامر بالاجتماع ۔ نماز میں سکون اختیار کرنے ، سلام کے وقت ہاتھ سے اشارہ نہ کرنے ، پہلی صفوں کو مکمل کرنے اور ان میں جڑنے اور اجتماع کے حکم کے کا باب ۔

امام ترمذی اور امام ابو داؤد حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں : قال ابن مسعود الا اصلی بکم صلوٰة رسول الله صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم ؟ فصلیٰ فلم يرفع يديه الاّ فی اول مرة ۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے فرمایا! کیا میں تمہیں وہ نماز پڑھاؤں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز ہے ؟ تو آپ نے نماز پڑھائی اور رفع یدین نہیں کیا سوائے پہلی مرتبہ کے ۔

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رضي الله عنه قَالَ : صَلَّي مَعَ عَلِيٍّ رضي الله عنه بِالْبَصْرَةِ، فَقَالَ : ذَکَّرَنَا هَذَا الرَّجُلُ صَلَاَةً، کُنَّا نُصَلِّيهَا مَعَ رَسُوْلِ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، فَذَکَرَ أَنَّهُ کَانَ يُکَبِّرُ کُلَّمَا رَفَعَ وَکُلَّمَا وَضَعَ ۔ (بخاري في الصحيح، کتاب : صفة الصلاة، باب : إتمام التکبير في الرکوع، 1 / 271، الرقم : 751،چشتی)(بيهقي في السنن الکبري، 2 / 78، الرقم : 2326)(بزار في المسند، 9 / 26، الرقم : 3532)
ترجمہ : حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے فرمایا : انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بصرہ میں نماز پڑھی تو انہوں نے ہمیں وہ نماز یاد کروا دی جو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ) جب بھی اٹھتے اور جھکتے تو تکبیر کہا کرتے تھے ۔

عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّهُ کَانَ يُصَلِّي لَهُمْ، فَيُکَبِّرُ کُلَّمَا خَفَضَ وَرَفَعَ، فَإِذَا انْصَرَفَ قَالَ : إِنِّي لَأَشْبَهُکُمْ صَلَاةً بِرَسُوْلِ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ ۔ (بخاري في الصحيح، کتاب : صفة الصلاة، باب : إتمام التکبير في الرکوع، 1 / 272، الرقم : 752)(مسلم في الصحيح، کتاب : الصلاة، باب : اثبات التکبير في کل خفض ورفع في الصلاة، 1 / 293، الرقم : 392)(نسائي في السنن، کتاب : التطبيق، باب : التکبير للنهوض، 2 / 235، الرقم : 1155)(أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 236، الرقم : 7219(مالک في الموطأ، 1 / 76، الرقم : 166)(طحاوي في شرح معاني الآثار، 1 / 221)
ترجمہ : حضرت ابو سلمہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ انہیں نماز پڑھایا کرتے تھے ، وہ جب بھی جھکتے اور اٹھتے تو تکبیر کہتے ۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : تم میں سے میری نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز سے زیادہ مشابہت رکھتی ہے ۔

عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ ﷲِ رضي الله عنه قَالَ : صَلَّيْتُ خَلْفَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه، أَنَا وَعِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ، فَکَانَ إِذَا سَجَدَ کَبَّرَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأسَهُ کَبَّرَ، وَإِذَا نَهَضَ مِنَ الرَّکْعَتَيْنِ کَبَّرَ، فَلَمَّا قَضَي الصَّلَاةَ، أَخَذَ بِيَدِي عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ فَقَالَ : قَدْ ذَکَّرَنِي هَذَا صَلَاةَ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وآله وسلم، أَوْ قَالَ : لَقَدْ صَلَّي بِنَا صَلَاةَ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وآله وسلم. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ ۔ (بخاري في الصحيح، کتاب : صفة الصلاة، باب : إتمام التکبير في السجود، 1 / 272، الرقم : 753)(مسلم في الصحيح، کتاب : الصلاة، باب : إثبات التکبير في کل خفض و رفع في الصلاة، 1 / 295، الرقم : 393)(أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 444)
ترجمہ : حضرت مطرف بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے اور حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی جب انہوں نے سجدہ کیا تو تکبیر کہی جب سر اٹھایا تو تکبیر کہی اور جب دو رکعتوں سے اٹھے تو تکبیر کہی ۔ جب نماز مکمل ہو گئی تو حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : انہوں نے مجھے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز یاد کرا دی ہے (یا فرمایا) انہوں نے مجھے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز جیسی نماز پڑھائی ہے ۔

عَنْ أَبِي بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رضي الله عنه يَقُولُ : کَانَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِذَا قَامَ إِلَي الصَّلَاةِ، يُکَبِّرُ حِينَ يَقُوْمُ، ثُمَّ يُکَبِّرُ حِينَ يَرْکَعُ، ثُمَّ يَقُوْلُ : (سَمِعَ ﷲُ لِمَنْ حَمِدَهُ). حِينَ يَرْفَعُ صُلْبَهُ مِنَ الرَّکْعَةِ. ثُمَّ يَقُوْلُ وَهُوَ قَائِمٌ : (رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ). قَالَ عَبْدُ ﷲِ : (وَلَکَ الْحَمْدُ). ثُمَّ يُکَبِّرُ حِينَ يَهْوِي، ثُمَّ يُکَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأسَهُ، ثُمَّ يُکَبِّرُ حِينَ يَسْجُدُ، ثُمَّ يُکَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأسَهُ، ثُمَّ يَفْعَلُ ذَلِکَ فِي الصَّلَاةِ کُلِّهَا حَتَّي يَقْضِيَهَا، وَ يُکَبِّرُ حِينَ يَقُوْمُ مِنَ الثِّنْتَيْنِ بَعْدَ الْجُلُوْسِ ۔ (بخاري في الصحيح، کتاب : صفة الصلاة، باب : التکبير إذا قام من السجود، 1 / 272، الرقم : 756)(مسلم في الصحيح، کتاب : الصلاة، باب : إثبات التکبير في کل خفض ورفع في الصلاة، 1 / 293، الرقم : 392)
ترجمہ : حضرت ابوبکر بن عبدالرحمن نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو کھڑے ہوتے وقت تکبیر کہتے پھر رکوع کرتے وقت تکبیر کہتے پھر (سَمِعَ ﷲُ لِمَنْ حَمِدَهُ) کہتے جب کہ رکوع سے اپنی پشت مبارک کو سیدھا کرتے پھر سیدھے کھڑے ہوکر (رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ) کہتے ۔ پھر جھکتے وقت تکبیر کہتے۔ پھر سر اٹھاتے وقت تکبیر کہتے ۔ پھر سجدہ کرتے وقت تکبیر کہتے پھر سجدے سے سر اٹھاتے وقت تکبیر کہتے ۔ پھر ساری نماز میں اسی طرح کرتے یہاں تک کہ پوری ہوجاتی اور جب دو رکعتوں کے آخر میں بیٹھنے کے بعد کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے ۔

عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رضي الله عنه کَانَ يُکَبِّرُ فِي کُلِّ صًلَاةٍ مِنَ الْمَکْتُوبَةِ وَغَيْرِهَا، فِي رَمَضَانَ وَغَيْرِهِ، فَيُکَبِّرُ حِينَ يَقُوْمُ، ثُمَّ يُکَبِّرُ حِينَ يَرْکَعُ، ثُمَّ يَقُوْلُ : (سَمِعَ ﷲُ لِمَنْ حَمِدَهُ)، ثُمَّ يَقُوْلُ : (رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ)، قَبْلَ أَنْ يَسْجُدَ، ثُمَّ يَقُوْلُ : (ﷲُ أَکْبَرُ)، حِينَ يَهْوِي سَاجِدًا، ثُمَّ يُکَبِّرُ حِيْنَ يَرْفَعُ رَأسَهُ مِنَ السُّجُوْدِ، ثُمَّ يُکَبِّرُ حِيْنَ يَسْجُدُ، ثُمَّ يُکَبِّرُ حِيْنَ يَرْفَعُ رأسَهُ مِنَ السُّجُوْدِ، ثُمَّ يُکَبِّرُ حِينَ يَقُوْمُ مِنَ الْجُلُوْسِ فِي الاِثْنَتَيْنِ، وَيَفْعَلُ ذَلِکَ فِي کُلِّ رَکْعَةٍ، حَتَّي يَفْرُغَ مِنَ الصَّلَاةِ، ثُمَّ يَقُوْلُ حِينَ يَنْصَرِفُ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنِّي لَأَقْرَبُکُمْ شَبَهًا بِصَلَاةِ رَسُوْلِ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، إِنْ کَانَتْ هَذِهِ لَصَلَاتَهُ حَتَّي فَارَقَ الدُّنْيَا ۔ (بخاري في الصحيح، کتاب : صفة الصلاة، باب : يهوي بالتکبير حين يسجد، 1 / 276، الرقم : 770،چشتی)(أبوداود في السنن، کتاب : الصلاة، باب : تمام التکبير، 1 / 221، الرقم : 836)
ترجمہ : ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہر نماز میں تکبیر کہتے خواہ وہ فرض ہوتی یا دوسری ، ماہِ رمضان میں ہوتی یا اس کے علاوہ جب کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے اور جب رکوع کرتے تو تکبیر کہتے۔ پھر (سَمِعَ ﷲُ لِمَنْ حَمِدَهُ) کہتے۔ پھر سجدہ کرنے سے پہلے (رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ) کہتے ۔ پھر جب سجدے کےلیے جھکتے تو (ﷲُ اَکْبَرُ) کہتے ۔ پھر جب سجدے سے سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے، پھر جب (دوسرا) سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے ، پھر جب سجدے سے سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے ، پھر جب دوسری رکعت کے قعدہ سے اٹھتے تو تکبیر کہتے، اور ہر رکعت میں ایسا ہی کرتے یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہو جاتے ۔ پھر فارغ ہونے پر فرماتے : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! تم سب میں سے میری نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے ساتھ زیادہ مشابہت رکھتی ہے ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تادمِ وِصال اسی طریقہ پر نماز ادا کی ۔

عَنْ أَبِي قِلَابَةَ أَنَّ مالِکَ ابْنَ الْحُوَيْرِثِ رضي الله عنه قَالَ لِأَصْحَابِهِ : أَلَا أنَبِّئُکُمْ صَلَاةَ رَسُوْلِ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم؟ قَالَ : وَذَاکَ فِي غَيْرِ حِينِ صَلَاةٍ، فَقَامَ، ثُمَّ رَکَعَ فَکَبَّرَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأسَهُ، فَقَامَ هُنَيَةً، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأسَهُ هُنَيَةً، فَصَلَّي صَلَاةَ عَمْرِو بْنِ سَلَمَةَ شَيْخِنَا هَذَا. قَالَ أَيُّوْبُ : کَانَ يَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ أَرَهُمْ يَفْعَلُونَهُ، کَانَ يَقْعُدُ فِي الثَّالِثَةِ وَالرَّابِعَةِ. قَالَ : فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ، فَقَالَ : لَوْ رَجَعْتُمْ إِلَي أَهْلِيکُمْ، صَلُّوْا صَلَاةَ کَذَا فِي حِينٍ کَذَا، صَلُّوْا صَلَاةَ کَذَا فِي حِينٍ کَذَا، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ، فَلْيُؤَذِّنْ أَحَدُکُمْ، وَلْيَؤُمَّکُمْ أَکْبَرُکُمْ ۔ (بخاري في الصحيح، کتاب : صفة الصلاة، باب : المکث بين السجدتين إتمام التکبير في الرکوع، 1 / 282، الرقم : 785)
ترجمہ : حضرت ابوقلابہ سے روایت ہے کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا : کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز نہ بتاؤں ؟ اور یہ نماز کے معینہ اوقات کے علاوہ کی بات ہے ۔ سو انہوں نے قیام کیا، پھر رکوع کیا تو تکبیر کہی پھر سر اٹھایا تو تھوڑی دیر کھڑے رہے۔ پھر سجدہ کیا ، پھر تھوڑی دیر سر اٹھائے رکھا پھر سجدہ کیا ۔ پھر تھوڑی دیر سر اٹھائے رکھا ۔ انہوں نے ہمارے ان بزرگ حضرت عمرو بن سلمہ کی طرح نماز پڑھی ۔ ایوب کا بیان ہے وہ ایک کام ایسا کرتے جو میں نے کسی کو کرتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ وہ دوسری اور چوتھی رکعت میں بیٹھا کرتے تھے ۔ فرمایا : ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ٹھہرے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم اپنے گھر والوں کے پاس واپس جاؤ تو فلاں نماز فلاں وقت میں پڑھنا ۔ جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے ایک اذان کہے اور جو بڑا ہو وہ تمہاری امامت کرے ۔

عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ : قَالَ عَبْدُ ﷲِ بْنُ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه : أَلاَ أصَلِّي بِکُمْ صَلَاةَ رَسُوْلِ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَ : فَصَلَّي فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً.رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ، وَالنَّسَائِيُّ وَزَادَ : ثُمَّ لَمْ يُعِدْ.وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ ۔ (أبوداود في السنن، کتاب : التطبيق، باب : من لم يذکر الرفع عند الرکوع، 1 / 286، الرقم : 748)(ترمذي في السنن، کتاب : الصلاة عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : رفع اليدين عند الرکوع، 1 / 297، الرقم : 257،چشتی)(نسائي في السنن، کتاب : الافتتاح، باب : ترک ذلک، 2 / 131، الرقم : 1026)(سنن الکبري، 1 / 221، 351، الرقم : 645، 1099)(أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 388، 441)(ابن أبي شيبة في المصنف، 1 / 213، الرقم : 2441)
ترجمہ : حضرت علقمہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کیا میں تمہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز نہ پڑھاؤں ؟ راوی کہتے ہیں : پھر اُنہوں نے نماز پڑھائی اور ایک مرتبہ کے سوا اپنے ہاتھ نہ اٹھائے ۔ امام نسائی کی بیان کردہ روایت میں ہے : پھر انہوں نے ہاتھ نہ اٹھائے ۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ وَخَالِدُ بْنُ عَمْرٍو وَ أَبُوْحُذَيْفَةَ رضي الله عنهم، قَالُوْا : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بِإِسْنَادِهِ بِهَذَا، قَالَ : فَرَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ، وَ قَالَ بَعْضُهُمْ : مَرَّةً وَاحِدَةً. رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ ۔ (أبوداود في السنن، کتاب : التطبيق، باب : من لم يذکر الرفع عند الرکوع، 1 / 286، الرقم : 749)
ترجمہ : حضرت حسن بن علی ، معاویہ ، خالد بن عمرو اور ابو حذیفہ رضی اللہ عنہم روایت کرتے ہیں کہ سفیان نے اپنی سند کے ساتھ ہم سے حدیث بیان کی (کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے) پہلی دفعہ ہی ہاتھ اٹھائے ، اور بعض نے کہا : ایک ہی مرتبہ ہاتھ اٹھائے ۔

عَنِ الْبَرَاءِ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم کَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَي قَرِيْبٍ مِنْ أذُنَيْهِ ثُمَّ لَا يَعُوْدُ ۔ (أبوداود في السنن، کتاب : الصلاة، باب : من لم يذکر الرفع عند الرکوع، 1 / 287، الرقم : 750)(عبد الرزاق في المصنف، 2 / 70، الرقم : 2530)(ابن أبي شيبة في المصنف، 1 / 213، الرقم : 2440،چشتی)(دارقطني في السنن، 1 / 293)(طحاوي في شرح معاني الآثار، 1 / 253، الرقم : 1131)
ترجمہ : حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاتے، اور پھر ایسا نہ کرتے ۔

عَنِ الْأَسْوَدِ أَنَّ عَبْدَ ﷲِ بْنَ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه کَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ التَّکْبِيْرِ، ثُمَّ لَا يَعُوْدُ إِلَي شَيءٍ مِنْ ذَلِکَ. وَيَأثِرُ ذَلِکَ عَنْ رَسُوْلِ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ۔ (خوارزمي في جامع المسانيد، 1 / 355)
ترجمہ : حضرت اسود روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اُٹھاتے تھے ، پھر نماز میں کسی اور جگہ ہاتھ نہ اٹھاتے اور یہ عمل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا کرتے ۔

عَنْ عَبْدِ ﷲِ رضي الله عنه قَالَ : صَلَّيْتُ مَعَ رَسُوْلِ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَأَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ رضي ﷲ عنهما، فَلَمْ يَرْفَعُوْا أَيْدِيَهِم إِلَّا عِنْدَ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ ۔ (دارقطني في السنن، 1 / 295)(أبويعلي في المسند، 8 / 453، الرقم : 5039)(بيهقي في السنن الکبري، 2 / 79)(هيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 101)
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ نماز پڑھی ، یہ سب حضرات صرف نماز کے شروع میں ہی اپنے ہاتھ بلند کرتے تھے ۔

عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيْهِ، قَالَ : رَأَيْتُ رَسُوْلَ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّي يُحَاذِيَ بِهِمَا، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : حَذْوَ مَنْکَبَيْهِ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْکَعَ، وَبَعْدَ مَا يَرْفَعُ رَأسَهُ مِنَ الرُّکُوْعِ، لَا يَرْفَعُهُمَا، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : وَلَا يَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ ۔ (أبو عوانة في المسند، 1 / 423، الرقم : 1572)
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز شروع کرتے وقت اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھایا ، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکوع کرنا چاہتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے ، اور بعض نے کہا دونوں سجدوں کے درمیان (ہاتھ) نہیں اٹھاتے تھے ۔

عَنِ الْأَسْوَدِ، قَالَ : رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضي الله عنه يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَکْبِيْرَةٍ، ثُمَّ لَا يَعُوْدُ ۔ (طحاوي في شرح معاني الآثار، 1 / 294، الرقم : 1329)
ترجمہ : حضرت اسود بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو نماز ادا کرتے دیکھا ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ تکبیرِ تحریمہ کہتے وقت دونوں ہاتھ اٹھاتے، پھر (بقیہ نماز میں ہاتھ) نہیں اٹھاتے تھے ۔

عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَيْبٍ عَنْ أَبِيْهِ أَنَّ عَلِيًا رضي الله عنه کَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، ثُمَّ لَا يَعُوْدُ ۔ (ابن أبي شيبة في المصنف، 1 / 213، الرقم : 2444)
ترجمہ : عاصم بن کلیب اپنے والد کلیب سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ صرف تکبیر تحریمہ میں ہی ہاتھوں کو اٹھاتے تھے پھر دورانِ نماز میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے ۔


ظاہری عہدِ نبوت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں وحی الہٰی سے دوسرے احکام کی طرح نماز کے احکامات کی تکمیل بھی تدریجاً ہوئی ہے ۔ اوائل اسلام میں رفع یدین رائج تھا ، مگر بعد ازاں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے منسوخ کر دیا ۔ احناف کے ہاں اس پر قوی دلائل موجود ہیں ۔ جیسا کہ امام مسلم رحمة اللہ علیہ کی روایت ہے : عن جابر بن سمرة قال خرج علينا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فقال مالی اراکم رفعی يديکم کانها اذناب خيل شمس، اسکنوا فی الصلوٰة ... الخ ۔

ترجمہ : جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرف تشریف لائے ۔ (ہم نماز پڑھ رہے تھے) فرمایا کیا وجہ سے کہ میں تمہیں شمس قبیلے کے سرکش گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں ۔ نماز میں سکون سے رہا کرو ۔ (صحيح مسلم جلد 1 صفحہ 201 طبع ملک سراج الدين لاہور)


اس حدیثِ مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسکنوا فی الصلوة (نماز میں سکون اختیار کرو) فرماکر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو واضح طور پر رفع یدین بعدالافتتاح سے منع فرمایا ہے ۔ امام مسلم علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ’الصحیح‘ میں ترک رفع یدین کا باب یوں قائم فرمایا ہے : باب الامر بالسکون فی الصلوٰة والنهی عن الاشارة باليد ورفعها عندالسلام واتمام الصفوف الاول واليراص فيهما والامر بالاجتماع ۔

ترجمہ : نماز میں سکون اختیار کرنے، سلام کے وقت ہاتھ سے اشارہ نہ کرنے ، پہلی صفوں کو مکمل کرنے اور ان میں جڑنے اور اجتماع کے حکم کے کا باب ۔


امام ترمذی اور امام ابو داؤد حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں : قال ابن مسعود الا اصلی بکم صلوٰة رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم ؟ فصلیٰ فلم يرفع يديه الاّ فی اول مرة ۔

ترجمہ : عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے فرمایا! کیا میں تمہیں وہ نماز پڑھاؤں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نماز ہے؟ تو آپ نے نماز پڑھائی اور رفع یدین نہیں کیا سوائے پہلی مرتبہ کے ۔


عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رضي الله عنه قَالَ : صَلَّي مَعَ عَلِيٍّ رضي الله عنه بِالْبَصْرَةِ، فَقَالَ : ذَکَّرَنَا هَذَا الرَّجُلُ صَلَاَةً، کُنَّا نُصَلِّيهَا مَعَ رَسُوْلِ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، فَذَکَرَ أَنَّهُ کَانَ يُکَبِّرُ کُلَّمَا رَفَعَ وَکُلَّمَا وَضَعَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ ۔

ترجمہ : حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے فرمایا : انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بصرہ میں نماز پڑھی تو انہوں نے ہمیں وہ نماز یاد کروا دی جو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ) جب بھی اٹھتے اور جھکتے تو تکبیر کہا کرتے تھے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : صفة الصلاة، باب : إتمام التکبير في الرکوع، 1 / 271، الرقم : 751، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 78، الرقم : 2326، والبزار في المسند، 9 / 26، الرقم : 3532،چشتی)


عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّهُ کَانَ يُصَلِّي لَهُمْ، فَيُکَبِّرُ کُلَّمَا خَفَضَ وَرَفَعَ، فَإِذَا انْصَرَفَ قَالَ : إِنِّي لَأَشْبَهُکُمْ صَلَاةً بِرَسُوْلِ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ ۔

ترجمہ : حضرت ابو سلمہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ انہیں نماز پڑھایا کرتے تھے، وہ جب بھی جھکتے اور اٹھتے تو تکبیر کہتے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : تم میں سے میری نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز سے زیادہ مشابہت رکھتی ہے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : صفة الصلاة، باب : إتمام التکبير في الرکوع، 1 / 272، الرقم : 752، ومسلم في الصحيح، کتاب : الصلاة، باب : اثبات التکبير في کل خفض ورفع في الصلاة، 1 / 293، الرقم : 392، والنسائي في السنن، کتاب : التطبيق، باب : التکبير للنهوض، 2 / 235، الرقم : 1155، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 236، الرقم : 7219، ومالک في الموطأ، 1 / 76، الرقم : 166، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 1 / 221)


عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ ﷲِ رضي الله عنه قَالَ : صَلَّيْتُ خَلْفَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه، أَنَا وَعِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ، فَکَانَ إِذَا سَجَدَ کَبَّرَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأسَهُ کَبَّرَ، وَإِذَا نَهَضَ مِنَ الرَّکْعَتَيْنِ کَبَّرَ، فَلَمَّا قَضَي الصَّلَاةَ، أَخَذَ بِيَدِي عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ فَقَالَ : قَدْ ذَکَّرَنِي هَذَا صَلَاةَ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وآله وسلم، أَوْ قَالَ : لَقَدْ صَلَّي بِنَا صَلَاةَ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وآله وسلم. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ ۔

ترجمہ : حضرت مطرف بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے اور حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی جب انہوں نے سجدہ کیا تو تکبیر کہی جب سر اٹھایا تو تکبیر کہی اور جب دو رکعتوں سے اٹھے تو تکبیر کہی۔ جب نماز مکمل ہو گئی تو حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : انہوں نے مجھے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز یاد کرا دی ہے (یا فرمایا : ) انہوں نے مجھے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز جیسی نماز پڑھائی ہے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : صفة الصلاة، باب : إتمام التکبير في السجود، 1 / 272، الرقم : 753، ومسلم في الصحيح، کتاب : الصلاة، باب : إثبات التکبير في کل خفض ورفع في الصلاة، 1 / 295، الرقم : 393، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 444)


عَنْ أَبِي بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رضي الله عنه يَقُولُ : کَانَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِذَا قَامَ إِلَي الصَّلَاةِ، يُکَبِّرُ حِينَ يَقُوْمُ، ثُمَّ يُکَبِّرُ حِينَ يَرْکَعُ، ثُمَّ يَقُوْلُ : (سَمِعَ ﷲُ لِمَنْ حَمِدَهُ). حِينَ يَرْفَعُ صُلْبَهُ مِنَ الرَّکْعَةِ. ثُمَّ يَقُوْلُ وَهُوَ قَائِمٌ : (رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ). قَالَ عَبْدُ ﷲِ : (وَلَکَ الْحَمْدُ). ثُمَّ يُکَبِّرُ حِينَ يَهْوِي، ثُمَّ يُکَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأسَهُ، ثُمَّ يُکَبِّرُ حِينَ يَسْجُدُ، ثُمَّ يُکَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأسَهُ، ثُمَّ يَفْعَلُ ذَلِکَ فِي الصَّلَاةِ کُلِّهَا حَتَّي يَقْضِيَهَا، وَ يُکَبِّرُ حِينَ يَقُوْمُ مِنَ الثِّنْتَيْنِ بَعْدَ الْجُلُوْسِ.مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ ۔

ترجمہ : حضرت ابوبکر بن عبدالرحمن نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو کھڑے ہوتے وقت تکبیر کہتے پھر رکوع کرتے وقت تکبیر کہتے پھر (سَمِعَ ﷲُ لِمَنْ حَمِدَهُ) کہتے جب کہ رکوع سے اپنی پشت مبارک کو سیدھا کرتے پھر سیدھے کھڑے ہوکر (رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ) کہتے۔ پھر جھکتے وقت تکبیر کہتے ۔ پھر سر اٹھاتے وقت تکبیر کہتے۔ پھر سجدہ کرتے وقت تکبیر کہتے پھر سجدے سے سر اٹھاتے وقت تکبیر کہتے۔ پھر ساری نماز میں اسی طرح کرتے یہاں تک کہ پوری ہوجاتی اور جب دو رکعتوں کے آخر میں بیٹھنے کے بعد کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : صفة الصلاة، باب : التکبير إذا قام من السجود، 1 / 272، الرقم : 756، ومسلم في الصحيح، کتاب : الصلاة، باب : إثبات التکبير في کل خفض ورفع في الصلاة، 1 / 293، الرقم : 392،چشتی)


عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رضي الله عنه کَانَ يُکَبِّرُ فِي کُلِّ صًلَاةٍ مِنَ الْمَکْتُوبَةِ وَغَيْرِهَا، فِي رَمَضَانَ وَغَيْرِهِ، فَيُکَبِّرُ حِينَ يَقُوْمُ، ثُمَّ يُکَبِّرُ حِينَ يَرْکَعُ، ثُمَّ يَقُوْلُ : (سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَهُ)، ثُمَّ يَقُوْلُ : (رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ)، قَبْلَ أَنْ يَسْجُدَ، ثُمَّ يَقُوْلُ : (ﷲُ أَکْبَرُ)، حِينَ يَهْوِي سَاجِدًا، ثُمَّ يُکَبِّرُ حِيْنَ يَرْفَعُ رَأسَهُ مِنَ السُّجُوْدِ، ثُمَّ يُکَبِّرُ حِيْنَ يَسْجُدُ، ثُمَّ يُکَبِّرُ حِيْنَ يَرْفَعُ رأسَهُ مِنَ السُّجُوْدِ، ثُمَّ يُکَبِّرُ حِينَ يَقُوْمُ مِنَ الْجُلُوْسِ فِي الاِثْنَتَيْنِ، وَيَفْعَلُ ذَلِکَ فِي کُلِّ رَکْعَةٍ، حَتَّي يَفْرُغَ مِنَ الصَّلَاةِ، ثُمَّ يَقُوْلُ حِينَ يَنْصَرِفُ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنِّي لَأَقْرَبُکُمْ شَبَهًا بِصَلَاةِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، إِنْ کَانَتْ هَذِهِ لَصَلَاتَهُ حَتَّي فَارَقَ الدُّنْيَا.رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُوْدَاوُدَ ۔

ترجمہ : ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہر نماز میں تکبیر کہتے خواہ وہ فرض ہوتی یا دوسری، ماہِ رمضان میں ہوتی یا اس کے علاوہ جب کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے اور جب رکوع کرتے تو تکبیر کہتے۔ پھر (سَمِعَ ﷲُ لِمَنْ حَمِدَهُ) کہتے۔ پھر سجدہ کرنے سے پہلے (رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ) کہتے۔ پھر جب سجدے کے لئے جھکتے تو (ﷲُ اَکْبَرُ) کہتے ۔ پھر جب سجدے سے سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے، پھر جب (دوسرا) سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے، پھر جب سجدے سے سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے، پھر جب دوسری رکعت کے قعدہ سے اٹھتے تو تکبیر کہتے، اور ہر رکعت میں ایسا ہی کرتے یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہو جاتے۔ پھر فارغ ہونے پر فرماتے : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! تم سب میں سے میری نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے ساتھ زیادہ مشابہت رکھتی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تادمِ وِصال اسی طریقہ پر نماز ادا کی ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : صفة الصلاة، باب : يهوي بالتکبير حين يسجد، 1 / 276، الرقم : 770، وأبوداود في السنن، کتاب : الصلاة، باب : تمام التکبير، 1 / 221، الرقم : 836)


عَنْ أَبِي قِلَابَةَ أَنَّ مالِکَ ابْنَ الْحُوَيْرِثِ رضي الله عنه قَالَ لِأَصْحَابِهِ : أَلَا أنَبِّئُکُمْ صَلَاةَ رَسُوْلِ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم؟ قَالَ : وَذَاکَ فِي غَيْرِ حِينِ صَلَاةٍ، فَقَامَ، ثُمَّ رَکَعَ فَکَبَّرَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأسَهُ، فَقَامَ هُنَيَةً، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأسَهُ هُنَيَةً، فَصَلَّي صَلَاةَ عَمْرِو بْنِ سَلَمَةَ شَيْخِنَا هَذَا. قَالَ أَيُّوْبُ : کَانَ يَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ أَرَهُمْ يَفْعَلُونَهُ، کَانَ يَقْعُدُ فِي الثَّالِثَةِ وَالرَّابِعَةِ. قَالَ : فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ، فَقَالَ : لَوْ رَجَعْتُمْ إِلَي أَهْلِيکُمْ، صَلُّوْا صَلَاةَ کَذَا فِي حِينٍ کَذَا، صَلُّوْا صَلَاةَ کَذَا فِي حِينٍ کَذَا، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ، فَلْيُؤَذِّنْ أَحَدُکُمْ، وَلْيَؤُمَّکُمْ أَکْبَرُکُمْ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ ۔

ترجمہ : حضرت ابوقلابہ سے روایت ہے کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا : کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز نہ بتاؤں ؟ اور یہ نماز کے معینہ اوقات کے علاوہ کی بات ہے۔ سو انہوں نے قیام کیا، پھر رکوع کیا تو تکبیر کہی پھر سر اٹھایا تو تھوڑی دیر کھڑے رہے۔ پھر سجدہ کیا، پھر تھوڑی دیر سر اٹھائے رکھا پھر سجدہ کیا۔ پھر تھوڑی دیر سر اٹھائے رکھا۔ انہوں نے ہمارے ان بزرگ حضرت عمرو بن سلمہ کی طرح نماز پڑھی ۔ ایوب کا بیان ہے وہ ایک کام ایسا کرتے جو میں نے کسی کو کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ دوسری اور چوتھی رکعت میں بیٹھا کرتے تھے ۔ فرمایا : ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ٹھہرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم اپنے گھر والوں کے پاس واپس جاؤ تو فلاں نماز فلاں وقت میں پڑھنا۔ جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے ایک اذان کہے اور جو بڑا ہو وہ تمہاری امامت کرے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : صفة الصلاة، باب : المکث بين السجدتين إتمام التکبير في الرکوع، 1 / 282، الرقم : 785)


عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ : قَالَ عَبْدُ ﷲِ بْنُ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه : أَلاَ أصَلِّي بِکُمْ صَلَاةَ رَسُوْلِ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَ : فَصَلَّي فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً.رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ، وَالنَّسَائِيُّ وَزَادَ : ثُمَّ لَمْ يُعِدْ.وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ ۔

ترجمہ : حضرت علقمہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کیا میں تمہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز نہ پڑھاؤں؟ راوی کہتے ہیں : پھر اُنہوں نے نماز پڑھائی اور ایک مرتبہ کے سوا اپنے ہاتھ نہ اٹھائے۔‘‘ امام نسائی کی بیان کردہ روایت میں ہے : ’’پھر انہوں نے ہاتھ نہ اٹھائے ۔ (أخرجه أبوداود في السنن، کتاب : التطبيق، باب : من لم يذکر الرفع عند الرکوع، 1 / 286، الرقم : 748، والترمذي في السنن، کتاب : الصلاة عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : رفع اليدين عند الرکوع، 1 / 297، الرقم : 257، والنسائي في السنن، کتاب : الافتتاح، باب : ترک ذلک، 2 / 131، الرقم : 1026، وفي السنن الکبري، 1 / 221، 351، الرقم : 645، 1099، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 388، 441، وابن أبي شيبة في المصنف، 1 / 213، الرقم : 2441،چشتی)


حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ وَخَالِدُ بْنُ عَمْرٍو وَ أَبُوْحُذَيْفَةَ رضي الله عنهم، قَالُوْا : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بِإِسْنَادِهِ بِهَذَا، قَالَ : فَرَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ، وَ قَالَ بَعْضُهُمْ : مَرَّةً وَاحِدَةً. رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ ۔

ترجمہ : حضرت حسن بن علی، معاویہ، خالد بن عمرو اور ابو حذیفہ رضی اللہ عنھم روایت کرتے ہیں کہ سفیان نے اپنی سند کے ساتھ ہم سے حدیث بیان کی (کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے) پہلی دفعہ ہی ہاتھ اٹھائے، اور بعض نے کہا : ایک ہی مرتبہ ہاتھ اٹھائے ۔ (أخرجه أبوداود في السنن، کتاب : التطبيق، باب : من لم يذکر الرفع عند الرکوع، 1 / 286، الرقم : 749)


عَنِ الْبَرَاءِ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم کَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَي قَرِيْبٍ مِنْ أذُنَيْهِ ثُمَّ لَا يَعُوْدُ. رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ ۔

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاتے، اور پھر ایسا نہ کرتے ۔ (أخرجه أبوداود في السنن، کتاب : الصلاة، باب : من لم يذکر الرفع عند الرکوع، 1 / 287، الرقم : 750، وعبد الرزاق في المصنف، 2 / 70، الرقم : 2530، وابن أبي شيبة في المصنف، 1 / 213، الرقم : 2440، والدارقطني في السنن، 1 / 293، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 1 / 253، الرقم : 1131،چشتی)


عَنِ الْأَسْوَدِ أَنَّ عَبْدَ ﷲِ بْنَ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه کَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ التَّکْبِيْرِ، ثُمَّ لَا يَعُوْدُ إِلَي شَيءٍ مِنْ ذَلِکَ. وَيَأثِرُ ذَلِکَ عَنْ رَسُوْلِ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم. رَوَاهُ أَبُوْحَنِيْفَةَ ۔

ترجمہ : حضرت اسود روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد ﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اُٹھاتے تھے ، پھر نماز میں کسی اور جگہ ہاتھ نہ اٹھاتے اور یہ عمل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا کرتے ۔ (أخرجه الخوارزمي في جامع المسانيد، 1 / 355)


عَنْ عَبْدِ ﷲِ رضي الله عنه قَالَ : صَلَّيْتُ مَعَ رَسُوْلِ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَأَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ رضي ﷲ عنهما ، فَلَمْ يَرْفَعُوْا أَيْدِيَهِم إِلَّا عِنْدَ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ.رَوَاهُ الدَّارُقُطْنِيُّ ۔

ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابو بکر و عمر رضی ﷲ عنہما کے ساتھ نماز پڑھی، یہ سب حضرات صرف نماز کے شروع میں ہی اپنے ہاتھ بلند کرتے تھے ۔ (أخرجه الدارقطني في السنن، 1 / 295، وأبويعلي في المسند، 8 / 453، الرقم : 5039، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 79، والهيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 101،چشتی)


عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيْهِ، قَالَ : رَأَيْتُ رَسُوْلَ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّي يُحَاذِيَ بِهِمَا، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : حَذْوَ مَنْکَبَيْهِ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْکَعَ، وَبَعْدَ مَا يَرْفَعُ رَأسَهُ مِنَ الرُّکُوْعِ، لَا يَرْفَعُهُمَا، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : وَلَا يَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ . رَوَاهُ أَبُوْعَوَانَةَ ۔

ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنھما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز شروع کرتے وقت اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھایا، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکوع کرنا چاہتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے، اور بعض نے کہا دونوں سجدوں کے درمیان (ہاتھ) نہیں اٹھاتے تھے ۔ (أخرجه أبو عوانة في المسند، 1 / 423، الرقم : 1572)


عَنِ الْأَسْوَدِ ، قَالَ : رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضي الله عنه يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَکْبِيْرَةٍ، ثُمَّ لَا يَعُوْدُ. رَوَاهُ الطَّحَاوِيُّ ۔

ترجمہ : حضرت اسود بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو نماز ادا کرتے دیکھا ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ تکبیر تحریمہ کہتے وقت دونوں ہاتھ اٹھاتے ، پھر (بقیہ نماز میں ہاتھ) نہیں اٹھاتے تھے ۔ (أخرجه الطحاوي في شرح معاني الآثار، 1 / 294، الرقم : 1329)


عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَيْبٍ عَنْ أَبِيْهِ أَنَّ عَلِيًا رضي الله عنه کَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ ، ثُمَّ لَا يَعُوْدُ . رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ ۔

ترجمہ : عاصم بن کلیب اپنے والد کلیب سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ صرف تکبیر تحریمہ میں ہی ہاتھوں کو اٹھاتے تھے پھر دورانِ نماز میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔ (أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 1 / 213، الرقم : 2444،چشتی)


حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ : حدثناابوبکرۃقال حدثنامؤمل قال حدثناسفیان قال حدثنایزیدبن ابی زیادعن ابن ابی لیلی عن البراء بن عازب رضی اللہ عنہ قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذاکبرلافتتاح الصلاۃرفع یدیہ حتی یکون ابھاماہ قریبامن شحمتی اذنیہ ثم لایعود ۔

ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نمازشروع کرنے کے لیے تکبیرکہتے تورفع یدین فرماتے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں انگوٹھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں کانوں کی لوکے قریب ہوجاتے۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ساری نمازمیں) رفع یدین نہ فرماتے ۔ اس حدیث کوامام اعظم ابوحنیفہ نے اپنی مسند میں حدیث نمبر۶۰۲ ، امام ابوداودنے اپنی سنن میں حدیث نمبر۰۴۶،۱۴۶ ، امام دارقطنی نے اپنی سنن میں حدیث نمبر ۹۳۱۱ ،۳۴۱۱ ، امام ابن ابی شیبۃ نے اپنی مصنف میں جلد۱ص۷۶۲ ، امام عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں  جلد۲ص۱۷ ، اور امام طحاوی نے شرح معانی الآثارمیں جلد۱ص۴۸۳ ،  روایت فرمایا ۔


حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ:حدثناابن ابی داودقال حدثنانعیم بن حمادقال حدثناوکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبدالرحمن بن الاسودعن علقمۃعن عبداللہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ کان یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃثم لایعود ۔

ترجمہ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلی تکبیرکے وقت رفع یدین فرماتے،پھررفع یدین نہ فرماتے۔اس حدیث کو امام طحاوی نے شرح معانی الآثارمیں (جلد۱ص۴۸۳)روایت فرمایا ۔

انہی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری حدیث مروی ہے،فرمایا : حدثناابوعثمان سعیدبن محمدبن احمدالحناط وعبدالوھاب بن عیسی بن ابی حیۃ قال احدثنااسحاق بن ابی اسرائیل حدثنامحمدبن جابرعن حمادعن ابراہیم عن علقمۃعن عبداللہ قال صلیت مع النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ومع ابی بکرومع عمررضی اللہ عنہما فلم یرفعوا ایدیھم الاعندالتکبیرۃالاولی فی افتتاح الصلاۃ ۔

ترجمہ : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ، حضرت ابوبکرصدیق کے ساتھ،حضرت عمرفاروق کے ساتھ نمازادا کی۔پس ان تینوں نے،نمازکی ابتداء میں پہلی تکبیرکے علاوہ رفع یدین نہ فرمایاکرتے ۔ اس حدیث کوامام دارقطنی نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۴۴۱۱)امام ابن عدی نے کامل میں (جلد۶ص۲۵۱)روایت فرمایا ۔

حضرت علقمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی نے فرمایا:حدثناعثمان بن ابی شیبۃحدثناوکیع عن سفیان عن عاصم یعنی ابن کلیب عن عبدالرحمن بن الاسودعن علقمۃقال قال عبد اللہ بن مسعود الااصلی بکم صلاۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال فصلی فلم یرفع یدیہ الامرۃ ۔

ترجمہ : کیامیں تمہارے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نمازادانہ کروں۔علقمہ کہتے ہیں کہ جناب عبداللہ بن مسعود نے نماز ادا فرمائی اور سوائے ایک بارکے رفع یدین نہ فرمائے ۔ اس حدیث کوامام ابوداودنے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۹۳۶)امام ترمذی نے اپنی جامع میں (حدیث نمبر۸۳۲)امام نسائی نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۸۴۰۱) اور امام احمدبن حنبل نے اپنی مسندمیں (۴۹۹۳)امام ابن ابی شیبۃنے اپنی مصنف میں (جلد۱ص۷۶۲)اورامام دارقطنی نے علل میں جلد ۴ص۱۷۱)روایت فرمایا۔اورامام ترمذی نے اسے حسن فرمایا ۔


حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : حدثنا محمد بن عثمان بن ابی شیبۃ حدثنا محمد بن عمران بن ابی لیلی حدثنی ابی حدثناابن ابی لیلی عن الحکم عن مقسم عن ابن عباس رضی اللہ عنہماعن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال لاترفع الایدی الافی سبع مواطن حین یفتتح الصلاۃ وحین یدخل المسجدالحرام فینظرالی البیت وحین یقوم علی الصفاوحین یقوم علی المروۃوحین یقف مع الناس عشیۃ عرفۃ وبجمع والمقامین حین یرمی الجمرۃ ۔

ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاتھ سات مقامات کے علاوہ نہ اٹھائے جائیں : جب نمازکوشروع کرے ، جب مسجدحرام میں داخل ہو توبیت اللہ کو دیکھے ، جب صفا پر کھڑا ہو ، جب مروہ پر کھڑا ہو ، جب لوگوں کے ساتھ عرفۃ کی رات وقوف کرے ، اور جمع میں اور مقامین میں جب کہ رمی جمار کرے ۔ اس حدیث کوامام طبرانی نے معجم کبیر میں جلد۰۱ص۸۷،۴۴۱ روایت کیا ۔ اورامام ابن ابی شیبۃنے اپنی مصنف میں جلد۱ص۸۶۲ اس حدیث کو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے موقوفاً روایت فرمایا ۔


حضرت سیدناعلی رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی مروی ، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے راوی : عن علی عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہ کان یرفع یدیہ فی اول الصلاۃثم لایعود ۔

ترجمہ : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نمازکی ابتداء میں رفع یدین فرماتے پھر دوبارہ رفع یدین نہ کرتے ۔ اس حدیث کوامام دارقطنی نے علل میں (جلد۴ص۶۰۱) روایت کیا ۔


ان احادیث مبسرکہ میں اس بات کی صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نمازکی ابتداء میں رفع یدین فرماتے اس کے بعدرفع یدین نہ فرماتے ۔ اس کے علاوہ وہ صحابہ رضی اللہ عنہم جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نمازیں اداکیں ، اور پھرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تعلیم کردہ طریقے کے مطابق نماز ادا کی ، ان میں سے کئی ایک صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں بھی احادیث موجود ہیں کہ آپ نماز کی ابتداء میں رفع یدین کرتے اوراس کے بعدرفع یدین نہ کرتے ۔ جیساکہ عاصم بن کلیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ : حدثنا ابوبکرۃ قال حدثنا ابو احمد قال حدثنا ابوبکر النھشلی قال حدثناعاصم بن کلیب عن ابیہ ان علیارضی اللہ عنہ کان یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ من الصلاۃ ثم لایرفع بعد ۔

ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نماز کی پہلی تکبیرمیں رفع یدین فرماتے،اس کے بعدرفع یدین نہ فرماتے ۔باس حدیث کو امام محمد نے اپنی موطأ میں (ص۵۵) امام ابن ابی شیبۃ نے اپنی مصنف میں (جلد۱ص۷۶۲) اورامام طحاوی نے شرح معانی الآثار میں (جلد۱ص۵۸۳) روایت کیا ۔


حضرت مجاھد رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ : حدثناابن ابی داودقال حدثنا احمدبن یونس قال حدثنا ابوبکربن عیاش عن حصین عن مجاھد قال صلیت خلف ابن عمر رضی اللہ عنہما فلم یکن یرفع یدیہ الافی التکبیرۃالاولی من الصلاۃ ۔

ترجمہ : میں نے حضرت عبداللہ بن عمر کے پیچھے نماز ادا کی توآپ رضی اللہ تعالی عنہ نماز کی پہلی تکبیرکے علاوہ رفع یدین نہ فرماتے تھے ۔ اس حدیث کوامام ابن ابی شیبۃ نے اپنی مصنف میں (جلد۱ص۷۶۲) اور امام طحاوی نے شرح معانی الآثار میں (جلد۱ ص۶۸۳) روایت کیا ۔


حضرت ابراہیم سے مروی ہے کہ : حدثناابن ابی داود قال حدثنا احمدبن یونس قال حدثنا ابوالاحوص عن حصین عن ابراھیم قال کان عبداللہ لایرفع یدیہ فی شیئ من الصلاۃ الا فی الافتتاح ۔

ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نمازکے اندر ”سوائے ابتداء کے“ بالکل رفع یدین نہ فرماتے تھے ۔ اس حدیث کوامام ابن ابی شیبۃنے اپنی مصنف میں (جلد۱ص۷۶۲) امام عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں (جلد۲ ص۱۷،چشتی) اورامام طحاوی نے شرح معانی الآثار میں (جلد۱ص۸۸۳) روایت کیا ۔


حضرت اسود سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ : حدثناابن ابی داود قال حدثنا الحمانی قال حدثنا یحیی بن آدم عن الحسن بن عیاش عن عبدالملک بن ابجر عن الزبیر بن عدی عن ابراہیم عن الاسودقال رأیت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لایعود ۔

ترجمہ : میں نے حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو نماز کی پہلی تکبیر کے وقت رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا ۔ اس کے بعد دوبارہ آپ نے رفع یدین نہ فرمایا ۔ اس حدیث کو امام بیہقی نے السنن الکبری میں (جلد۲ص۶۸) امام ابن ابی شیبۃ نے اپنی مصنف میں (جلد۱ ص۷۶۲) اور امام طحاوی نے شرح معانی الآثار میں (جلد۱ ص۸۸۳،۹۸۳) روایت کیا ۔ امام طحاوی نے اس حدیث کوصحیح فرمایا ۔


یہ احادیثِ مطارکہ ہیں جو اس بات پرواضح دلالت کر رہی ہیں کہ پہلی تکبیر کے علاوہ رفع یدین نہیں کرنا چاہیے ۔ اور پھر خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات طیبہ کے آخری ایام کی نمازیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء میں اداکیں ، ان خلفائے راشدین میں سے حضرت ابوبکرصدیق ، حضرت عمر فاروق ، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کاعمل بیان ہواکہ آپ حضرات پہلی تکبیر کے علاوہ رفع یدین نہ فرماتے تھے ۔ یونہی حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہم جیسے فقہاء صحابہ بھی ، جن کی زندگیوں کا بڑا حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں گزرا ، رفع یدین نہ فرماتے تھے جیساکہ گذشتہ احادیث میں بیان ہوا ۔ لہٰذاجن احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رفع یدین کابیان آیاہے وہ منسوخ قرارپائیں گی ۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے رفع یدین فرمایا ، پھر ترک فرمادیا ۔ اوراس پردلیل یہ ہے کہ خلفائے راشدین جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کی آخری نمازیں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ساتھ ادا کیں ، وہ حضرات رفع یدین نہ کیاکرتے تھے ۔ پس اگر رفع یدین منسوخ نہ ہوچکا ہوتا تو یہ جلیل القدر صحابہ رضی الل عنہم کبھی بھی رفع یدین کو چھوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف کام نہ کرتے ۔


جب ان صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے کہ انہوں نے پہلی تکبیر کے علاوہ رفع یدین نہ فرمایا تو یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ظاہری زندگی کے آخری ایام میں رکوع میں جانے سے پہلے اور بعد رفع یدین کو ترک فرما دیا تھا ۔ اور اسی وجہ سے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم رفع یدین نہ فرماتے تھے ۔


نماز میں رفع یدین سنت ہے یا نہیں ؟ اس بارے میں ائمہ کرام کا اختلاف ہے ۔ ہر ایک کے پاس ان کی موید احادیث موجود ہیں ۔ لیکن یہ مسئلہ سب کے نزدیک متفق علیہ ہے کہ کوئی نماز میں رفع یدین کرے یا نہ کرے نماز بہر حال ہوجائے گی ۔یعنی یہ ضروریات میں سے نہیں ۔ مگر کچھ لوگ اس غیر ضروری مسئلے کو لے کر جگہ جگہ مسلمانوں کے درمیان فتنہ وفساد کی آگ بھڑ کانے میں مصروف رہتے ہیں اس لیئے ہم مستند دلائل کے ساتھ اس مضمون کو پیش کر رہے ہیں اہلِ ایمان خود پڑھیں اور خود ہی فیصلہ کریں کہ اصل معاملہ کیا ہے ؟

کتب احادیث میں ایسی روایتیں موجود ہیں کہ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نماز میں رفع یدین نہیں کرتے تھے ۔ چنانچہ حضرت برا ء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جب نماز شروع کر تے تو اپنے دونوں ہا تھوں کو کانوں تک اٹھاتے پھر دوبارہ ایسا نہ کرتے ۔ (ابوداود،کتاب الصلاۃ،باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع ،حدیث:۷۵۰)(مصنف عبد الر زاق،حدیث:۲۵۳۰)(مصنف ابن ابی شیبہ،حدیث:۲۴۴)

حضرت علقمہ بیان کرتے ہیں کہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فر مایا :کیا میں تم لو گوں کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نماز پڑھنے کی طرح نماز نہ پڑ ھا دوں ؟ راوی کہتے ہیں : پھر انہوں نے نماز پڑھائی،تو صرف ایک مر تبہ (یعنی شروع میں) ہاتھ اٹھا یا پھر دوبارہ ایسا نہ کیا ۔ (ترمذی ، کتاب الصلاۃ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، باب ما جاء ان النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم لم یرفع الا فی اول مرّۃ ، حدیث: ۲۵۷ ۔ نسائی،حدیث:۱۰۵۸،چشتی)(ابوداود حدیث :۷۴۸)(مصنف ابن ابی شیبہ،حدیث:۲۴۴۱)

یہ حدیث تمام محدثین کے نزدیک صحیح ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے نماز میں رفع یدین نہ کیا ۔ لہٰذا اس میں بھی شک کی کوئی گنجائش نہیں ۔

اس صورت میں تمام مسلک کے علماء کے نزدیک قاعدہ ہے کہ پہلے یہ دیکھاجائے کہ اس میں سے کون پہلے کی ہے اور کون بعد کی ؟ (یعنی کون منسوخ ہے اور کون ناسخ) ۔ پھر جو منسوخ ہو اس پر عمل نہ کیا جائے کیو نکہ بہت ساری ایسی باتیں ہیں جو شروع شروع میں جائز تھیں ، خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بھی کیا مگر بعد میں اس سے منع فر مادیا ۔ جیسے شروع میں حضور  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز ادا کی مگر بعد میں منع فر مادیا گیا اور خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑ ھنے کا حکم دیا گیا۔اس لئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کے ثابت ہونے کے باوجود کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھے ۔

آپ احادیث کی تمام کتا بوں کا مطالعہ کر لیجیے ۔ ایک حدیث بھی ایسی نہیں ملتی جس سے یہ ثابت ہو کہ رفع یدین نہ کرنے کی حدیث منسوخ ہے یہاں تک کہ کوئی ضعیف سے ضعیف حدیث بھی ایسی نہیں ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ کسی موضوع حدیث سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا ۔ جب کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ رفع یدین کی حدیث منسوخ ہے اور خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بعد میں اس سے منع فر مادیا ۔ چنانچہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہماری طرف تشریف لائے اور فر مایا کہ : کیا وجہ ہے کہ میں تم کو سر کش گھوڑے کی دم کی طرح ’رفع یدین‘ کر تے ہوئے دیکھتا ہوں ؟ نماز سکون کے ساتھ پڑھا کرو ۔ (صحیح مسلم ،کتاب الصلاۃ باب الامر بالسکون فی الصلٰوۃ حدیث :۴۳۰)

کچھ لوگ اس حدیث سے یہ سمجھتے ہیں کہ : نماز سے فارغ ہونے کے بعد صحابہ کرام جو دائیں اور بائیں طرف ہاتھ اٹھاتے تھے اس سے حضور نے منع فر مایا ۔ یہ کسی بھی طرح درست نہیں ہے کیو نکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جب ان کو رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا تو فر مایا:اسکنوا فی الصلوۃ۔نما زمیں سکون سے رہو ۔ ’’نماز میں‘‘ کا لفظ خود بتا رہاہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے نماز میں رفع یدین سے منع فر مایا ۔ اگر ’’ نماز میں ‘‘ کے لفظ سے’’ نماز سے باہر ‘‘ مراد لینا درست ہو جائے تب تو زمین بول کر آسمان مراد لینا بھی صحیح ہو جائے گا جب کہ یہ کوئی نہیں مانتا ۔ لہٰذا اس سے نماز سے باہر رفع یدین بھی مراد لینا درست نہیں ہو سکتا ۔ نیز فقیہ امت سیدنا عبد اللہ بن مسعو د رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے رفع یدین کیا تو ہم نے رفع یدین کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے رفع یدین چھوڑ دیا تو ہم نے بھی چھوڑ دیا ۔ (فتح القدیر  جلد :۱،صفحہ،۲۷۰،۲۷۱)

ان دونوں روایتوں سے معلوم ہو گیا کہ رفع یدین کرنے سے خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے منع فر مادیا ۔ لہٰذا اب وہ سنت نہیں رہا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وصالِ مبارک کے بعد اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کس پر عمل کیا ۔ پھر اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جس پر عمل کیا اسی پر عمل کیا جائے گا کیو نکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے آخری عمل کے مطابق ہی عمل کیا کرتے تھے ۔ (صحیح مسلم،کتاب الصیام ، باب جواز الصوم والفطر فی شھر رمضان للمسافر الخ ،حدیث: ۱۱۱۳)

کتب احادیث کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ اکابر صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم نے رفع یدین نہ کرنے والی حدیث پر عمل کیا ۔اس لئے اب جائز نہیں کہ کوئی رفع یدین کرنے والی حدیث پر عمل کرے ۔ رہی بات وہ روایتیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم نے رفع یدین نہ کیا ۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کر تے ہیں کہ : میں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ نماز پڑھی ، یہ سب حضرات صرف نماز کے شروع ہی میں ہاتھ اٹھاتے تھے ۔ (سنن دار قطنی،باب ماجاء فی رفع الیدین عند التکبیر ، جلد:۲؍ص:۵۲،حدیث:۱۱۳۳،چشتی)(مسندِابو یعلی ، ۸ / ۴۵۳ ، حدیث : ۵۰۳۹)(سنن الکبریٰ للبیہقی،۲/۷۹)

جلیل القدر تابعی حضرت اسود کہتے ہیں کہ : میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز ادا کیا تو آپ نے صرف نماز کے شروع میں ہاتھ اٹھایا اور پھر دوبارہ نہ اٹھا یا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ،باب من کان یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لایعود ، حدیث : ۲۴۶۹)

حضرت عاصم بن کلیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ : بے شک حضرت علی رضی اللہ عنہ نماز میں اپنے دونوں ہاتھوں کو پہلی تکبیر کے وقت اٹھاتے تھے ۔پھر اس کے بعد نہیں اٹھاتے تھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلاۃ،باب من کان یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لایعود،حدیث : ۲۴۵۷،شرح معانی الاثار،حدیث:۱۳۵۳،موطا امام محمد،حدیث:۱۰۵،۱۰۹)

حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے پھر کبھی نہیں اٹھاتے تھے ۔ اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طر ح مروی ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلاۃ،باب من کان یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لایعود،حدیث:۲۴۵۸)(شرح معانی الاثار،حدیث: ۱۳۶۳،چشتی)(مصنف عبد الرزاق،حدیث:۲۵۳۳)

حضرت ابو اسحاق بیان کرتے ہیں کہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت علی رضی اللہ عنھما کے ساتھ رہنے والے تمام حضرات اپنے ہاتھوں کو نہیں اٹھا تے تھے مگر صرف نماز کے شروع میں،اورمشہور زمانہ محدث وکیع ابن الجراح کے الفاظ یہ ہیں کہ:وہ  حضرات پھر دوبارہ ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلاۃ،باب من کان یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لایعود،حدیث:۲۴۶۱)

ان تمام روایتوں سے ثابت ہوگیا کہ حضرت ابو بکر ژدیق ، حضرت عمر فاروق ، حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنھم نماز میں رفع یدین نہیں کیا کرتے تھے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امت میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنتوں کو سب سے زیادہ جاننے والے یہی حضرات ہیں ۔ تو رفع یدین کی حدیث ہوتے ہوئے جب ان لوگوں نے اس پر عمل نہ کیا تو پھر دوسرا کیسے کر سکتا ہے ۔

اس کے علاوہ مزے کی بات یہ ہے کہ جس صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے رفع یدین کرنے کی حدیث مشہور اور مروی ہے انہوں نے خود اس پر عمل نہ کیا ۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے رفع یدین کیا ۔ مگر وہ خود اس پر عمل نہ کرتے تھے چنانچہ حضرت مجاہد کہتے ہیں کہ : میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے اپنے ہاتھوں کونہ اٹھایا مگر صرف نماز کی پہلی تکبیر ہی کے وقت ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلاۃ، باب من کان یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لایعود،حدیث:۲۴۶۷،چشتی)۔(شرح معانی الاثار ، حدیث : ۱۳۵۷)

اب آپ خود سوچیں ! کہ جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بارے میں بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے رفع یدین کیا ، وہ خود کیوں نہیں کرتے تھے ؟ کیا اس لئے کہ وہ جان بوجھ کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مخالفت کرتے تھے ؟ ایک صحابی کے بارے میں کوئی مسلمان ایسا گمان کیسے کر سکتا ہے ؟ تو ظاہر ہے کہ یہی وجہ ہوگی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کیا مگر بعد میں منع فرما دیا ۔ یا پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کبھی رفع یدین بھی کیا مگر زیادہ تر آپ نے نہ کیا ۔ اس لئے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اسی عمل کے مطابق عمل کیا۔جو آپ کے نزدیک زیادہ صحیح تھا ۔

آج ایک طبقہ غیرمقلدین کا ہے جو رفع یدین نہ کرنے والوں پر طعن و تشنیع کرتا ہے کہ یہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے طر یقے کے مطابق نماز نہیں پڑ ھتے ہیں یہاں تک کہ انہیں گالیاں بھی دیتے ہیں ۔ جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور اکابر صحابہ کا بھی یہی طر یقہ تھا جیسا کہ اوپر گذرا ۔ نیز حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے خاص اسی چیز کو دکھانے کے لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کیسے نماز پڑ ھتے تھے ۔ جب نماز پڑ ھی تو آپ نے رفع یدین نہ کیا جیسا کہ یہ بھی اوپر مکمل حوالہ جات کے ساتھ ہم لکھ چکے ہیں ۔ اور اس حدیث کے صحیح ہونے پر تمام محدثین کا اتفاق بھی ہے ۔
اب آپ خود فیصلہ کریں کہ یہ حقیقت میں کن کو گا لیاں دیتے ہیں ؟ اور احادیثِ طیبہ سے مذکورہ حقائق سامنے آنے کے بعد کیا یہ لوگ اس لائق ہیں کہ ان کی باتوں پر کان دھرا جائے ؟

اس سلسلے کا مشہور منا ظرہ جو سید نا امام اعظم ابو حنیفہ اور مشہور فقیہ سیدنا امام اوزاعی علیہما الرحمہ کے درمیا ن مکہ شریف میں ’’دارالحناطین‘‘ کے اندرہو ا تھا ۔ اس کی روداد باذوق قارئینِ محترم کی ضیافت طبع کے لئے پیشِ خدمت ہے ۔

حضرت سفیان بن عیینہ بیان رحمة اللہ علیہ کرتے ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ اور امام اوزاعی علیہما الرّحمہ مکۃ المکر مہ میں دار الحناطین کے اندر ملے ، تو امام اوزاعی نے امام اعظم ابو حنیفہ سے کہا : کیا بات ہے کہ آپ لوگ رکوع کرتے وقت اور رکوع سے اٹھنے کے بعد رفع یدین نہیں کر تے ہیں ؟ امام اعظم  نے کہا : کیو نکہ اس بارے میں کو ئی صحیح حدیث نہیں ۔

امام اوزاعی : آپ نے یہ کیسے کہہ دیا کہ اس بارے میں کو ئی صحیح حدیث نہیں ۔ یہ لیجئے میں آپ کے سامنے صحیح حدیث پیش کر تا ہوں ’’مجھ سے بیا ن کیا زہری نے انہوں نے سالم سے اور سالم نے اپنے والد حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے وہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جب نماز شروع کرتے تو ہاتھ اٹھا تے اور رکوع کے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت ۔

امام اعظم : مجھ سے حدیث بیان کیا حماد نے انہوں نے ابراہیم نخعی سے انہوں

رفع (یعنی بلند کرنا) یدین (یعنی دونوں ہاتھ) ۔ یہ رفع یدین (یعنی دونوں ہاتھ بلند کرنا) ہر مسلمان نماز (کے شروع) میں کرتا ہے ، لہٰذا اختلاف یہ نہیں کہ رفع یدین نہیں کیا جاتا ، بلکہ اختلاف تو صرف نماز میں رفع یدین کتنی بار اور کن کن موقعوں پر کیا جانا چاہیے ، اسی بات کا ہے ۔ مثَلاً : جو لوگ نماز کے اندر رفع یدین کرتے ہیں ، وہ سجدوں میں جاتے اور اٹھتے ہوۓ کیوں نہیں کرتے ؟ جب کہ اس پر صحیح احادیث بھی موجود ہیں : ⬇

كَمَا حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ كَانَ " يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي كُلِّ خَفْضٍ ، وَرَفْعٍ ، وَرُكُوعٍ ، وَسُجُودٍ وَقِيَامٍ ، وَقُعُودٍ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ ، وَيَزْعُمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ " .
[مشكل الآثار للطحاوي » بَابُ بَيَانِ مُشْكِلِ مَا رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ... رقم الحديث: 5140] المحلى(ابن حزم ) : 4/93
المحدث: ابن القطان - المصدر: الوهم والإيهام - الصفحة أو الرقم: 5/611 - خلاصة حكم المحدث: صحيح
المحدث: الألباني - المصدر: أصل صفة الصلاة - الصفحة أو الرقم: 2/709 - خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَا : حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي الصَّلَاةِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ حِينَ يَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ ، وَحِينَ يَرْكَعُ ، وَحِينَ يَسْجُدُ " .[سنن ابن ماجه:850 - مسند أحمد بن حنبل:5995 - فوائد تمام الرازي: 1534 - جزء من حديث أبي عبد الله القطان :166 - شرح معاني الآثار للطحاوي:842]
المحدث: ابن كثير - المصدر: الأحكام الكبير - الصفحة أو الرقم: 3/312
خلاصة حكم المحدث: لا بأس بإسناده
المحدث: أحمد شاكر - المصدر: مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 9/22
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
المحدث: الألباني - المصدر: صحيح ابن ماجه - الصفحة أو الرقم: 707
خلاصة حكم المحدث: صحيح
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ " .[مسند أبي يعلى الموصلي » بَقِيَّةُ مُسْنَدِ أَنَسٍ ... رقم الحديث: 3701 - مصنف ابن أبي شيبة : رقم الحديث2365 - الأحاديث المختارة: رقم الحديث1834 - المحلى بالآثار لابن حزم: رقم الحديث613 (3 : 9) - فوائد ابن أخي ميمي الدقاق (سنة الوفاة: 390) : رقم الحديث172 - الجزء الأول من الفوائد المنتقاة لابن أبي الفوارس (سنة الوفاة: 412) : رقم الحديث110 - عروس الأجزاء للثقفي (سنة الوفاة:562،چشتی) : رقم الحديث61 - جزء من مشيخة تقى الدين الأشنهى (سنة الوفاة: 738): رقم الحديث9]
المحدث: الألباني - المصدر: أصل صفة الصلاة - الصفحة أو الرقم: 2/708
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح جدا
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ , عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ ، أَنَّهُ رَأَى نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي صَلَاتِهِ , إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ رُكُوعِهِ ، وَإِذَا سَجَدَ ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ سُجُودِهِ , حَتَّى يُحَاذِيَ بِهَا فُرُوعَ أُذُنَيْهِ " .[مسند أحمد بن حنبل » رقم الحديث: 15292 - سنن النسائى الصغرى » كِتَاب التَّطْبِيقِ » بَاب رَفْعِ الْيَدَيْنِ لِلسُّجُودِ ... رقم الحديث: 1074 - المحلى بالآثار لابن حزم » كِتَابُ الصَّلاةِ » الأَعْمَالُ الْمُسْتَحَبَّةُ فِي الصَّلاةِ وَلَيْسَتْ ... رقم الحديث: 612]
المحدث: ابن القطان - المصدر: الوهم والإيهام - الصفحة أو الرقم: 5/611 - خلاصة حكم المحدث: صحيح
المحدث: ابن حجر العسقلاني - المصدر: فتح الباري لابن حجر - الصفحة أو الرقم: 2/261 - خلاصة حكم المحدث: أصح ما وقفت عليه في هذا الباب
المحدث: العظيم آبادي - المصدر: عون المعبود - الصفحة أو الرقم: 2/256 - خلاصة حكم المحدث: صحيح الإسناد [و] لا يستلزم من صحة إسناده صحته
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْوَكِيلُ , ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ , ثنا هُشَيْمٌ , عَنْ حُصَيْنٍ , وَحَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، وَعُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، قَالا : نا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى , نا جَرِيرٌ , عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , قَالَ : دَخَلْنَا عَلَى إِبْرَاهِيمَ فَحَدَّثَهُ عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ , قَالَ : صَلَّيْنَا فِي مَسْجِدِ الْحَضْرَمِيِّينَ , فَحَدَّثَنِي عَلْقَمَةُ بْنُ وَائِلٍ , عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَرْفَعُ يَدَيْهِ حِينَ يَفْتَتِحُ الصَّلاةَ وَإِذَا رَكَعَ وَإِذَا سَجَدَ ".
[سنن الدارقطني » كِتَابُ الصَّلاةِ » بَابُ ذِكْرِ التَّكْبِيرِ وَرَفْعِ الْيَدَيْنِ عِنْدَ ... رقم الحديث: 974]
الراوي: وائل بن حجر الحضرمي والد علقمة المحدث: الألباني - المصدر: أصل صفة الصلاة - الصفحة أو الرقم: 2/707
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح على شرط مسلم
نا مُعَاذٌ , قَالَ : نا عَلِيُّ بْنُ عُثْمَانَ اللاحِقِيُّ , قَالَ : نا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ , عَنْ غَيْلانَ بْنِ جَرِيرٍ , عَنْ مُطَرِّفٍ , قَالَ : صَلَّيْتُ أَنَا , وَعِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ خَلْفَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ , فَكَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا رَكَعَ , وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ , وَإِذَا سَجَدَ , فَقَالَ عِمْرَانُ : أَرَى لَقَدْ أَذْكَرَنِي صَاحِبُكُمْ صَلاةً كُنَّا نُصَلِّيهَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , لَقَدْ أَذْكَرَنِي هَذَا صَلاةَ رَسُولِ اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .[الثالث عشر من الفوائد المنتقاة لأبي حفص البصري (سنة الوفاة:357) رقم الحديث: 104]

ہر اٹھتے اور جھکتے وقت (یعنی سجدوں میں بھی) رفع یدین : ⏬

حَدَّثَنَا يَحْيَى , ثنا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ , قَالَ : ثنا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي كُلِّ خَفْضٍ وَرَفْعٍ , وَيَقُولُ : " أَنَا أَشْبَهُكُمْ صَلاةً بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " .[السادس من الفوائد المنتقاة لابن أبي الفوارس (سنة الوفاة:412) رقم الحديث: 87]

ہر تکبیر (الله اکبر کہتے یعنی سجدے میں جاتے اٹھتے) وقت رفع یدین : ⏬

حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْهَاشِمِيُّ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ رِيَاحٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ " .[سنن ابن ماجه » رقم الحديث: 855 - حديث أبي بكر الأزدي: 50 - المعجم الكبير للطبراني:10781]
المحدث: الألباني - المصدر: صحيح ابن ماجه - الصفحة أو الرقم: 712
خلاصة حكم المحدث: صحيح
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا رِفْدَةُ بْنُ قُضَاعَةَ الْغَسَّانِيُّ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ عُمَيْرِ بْنِ حَبِيبٍ ، قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ مَعَ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ فِي الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ " .[سنن ابن ماجه » رقم الحديث: 851 - المعجم الكبير للطبراني:13590 - أنساب الأشراف للبلاذري:2678 - معجم الصحابة لابن قانع:1150 - معرفة الصحابة لأبي نعيم:4810 - حلية الأولياء لأبي نعيم:4554 - تاريخ بغداد للخطيب البغدادي:439(3 : 49) + 3919(13 : 335) - تاريخ دمشق لابن عساكر : 16405 (18 : 154) + 38353 (37 : 373) + 43005 (41 : 248) + 56200 (52 : 350) - تهذيب الكمال للمزي : 869]
المحدث: الألباني - المصدر: صحيح ابن ماجه - الصفحة أو الرقم: 1/260،چشتی)
خلاصة حكم المحدث: صحيح
عن ابنِ عمرَ رضي الله عنهما أنه كان يرفعُ يدَيْه مع كلِّ تكبيرةٍ.
[شرح بلوغ المرام لابن عثيمين - الصفحة أو الرقم: 2/408 - خلاصة حكم المحدث: ثابت]
عَنْ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ مِنَ الصَّلَاةِ .[مسند أحمد بن حنبل » رقم الحديث: 14042 - إتحاف المهرة » رقم الحديث: 2556]
بس، بعض روایات میں جو طریقہ ان الفاظِ حدیث کا (سجدے کے درمیان ہاتھ نہ اٹھانے) کا صراحت سے مذکور ہے، یہ بعد میں رفع یدین نہ کرنے (یا جاری نہ رہنے) کو، واضح کرنے کی دلیل ہے . (ورنہ کیوں کہے جاتے؟) بس اسی طرح نبوی طریقہ نماز کے متعلق یہ طریقہ الفاظِ حدیث کا کہ ( نہیں رفع یدین کیا مگر ایک دفعہ ہی ... یعنی نماز کے شروع میں ہی) واضح کرتا ہے نماز کی بقیہ رفع یدین کے انکار ونفی کو ۔ اور صحیح مسلم کی روایت کے مطابق ایک دفعہ بعض صحابہ کو رفع یدین کرتے دیکھتے اسے "شریر" گھوڑوں کی دموں (کی حرکت) کی طرح کی مثال دیتے یہ حکم فرمانا کہ (( سکون اختیار کرو نماز میں ))، واضح کرتا ہے نماز کے اندر کی (ساری) رفع یدین کی حرکات کا پہلا (منسوخ کردہ) طریقہ نبوی ہونا اور سکون کے منافی اور پسندیدہ طریقہ نہ رہنا ۔

سنی (حنفی) مسلمان شروع نماز کے علاوہ رفع یدین کیوں نہیں کرتے ؟ : ⏬

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا : حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ : خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : " مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ ، كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ ، اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ "... [صحيح مسلم » كِتَاب الصَّلَاةِ » بَاب الأَمْرِ بِالسُّكُونِ فِي الصَّلَاةِ وَالنَّهْيِ ... رقم الحديث: 656،چشتی)
تجمہ : حضرت جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا : کیا وجہ ہے کہ میں رافعی ایدیکم (یعنی تم کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے) دیکھتا ہوں جیسا کہ سرکش گھوڑوں کی دمیں ہیں ، سکون اختیار کرو نماز میں ۔ (صحيح مسلم  » كِتَاب الصَّلَاةِ  » بَاب الأَمْرِ بِالسُّكُونِ فِي الصَّلَاةِ وَالنَّهْيِ ...رقم الحديث: 656(432)
تنبیہ : یہاں عام گھوڑے کی بجاۓ سرکش (شرارتی) گھوڑے کی مثال دی گئی ہے، جس کی دم اوپر نیچے ہوتی ہے ۔
تخريج الحديث : أخرجه الطيالسى (ص 106، رقم 823) ، وأحمد (20876+20958+ 20964+21027) ، ومسلم (1/322، رقم 430) ، وأبو داود (1/262، رقم 1000) ، والنسائى (3/4، رقم 1184) ، وابن حبان (1878+1879،چشتی)۔وأخرجه أيضًا: مصنف عبد الرزاق (2/251، رقم: 3252) ، ابن أبى شيبة (2/231، رقم 8447) ، وأبو عوانة (1/419، رقم 1552) ، والطبرانى (1822+1824+ 1825+1826+1827+1828) ، والبيهقى (3520+3521) ، والبزار (10/202، رقم:4291) ، وأبي يعلى (7472+7480) ، شرح مشكل الآثار(5926)، شرح معاني الآثار(2632)
امام بخاریؒ (جزء رفع الیدین) میں فرماتے ہیں یہ انکار اس رفع یدین پر ہے جو التحیات میں سلام کے وقت ہوتی تھی اس کی وضاحت اس حدیث سے ہورہی ہے:حضرت جابر بن سمرہؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے ہم السَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ اور السَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ کہتے اور اپنے ہاتھوں سے دونوں طرف اشارہ کرتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا تم اپنے ہاتھوں سے اس طرح اشارہ کرتے ہو جیسا کہ سرکش گھوڑے کی دم تم میں سے ہر ایک کے لئے کافی ہے کہ وہ اپنی ران پر ہاتھ رکھے پھر اپنے بھائی پر اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف سلام کرے۔[صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 965، نماز کا بیان]

دوسری حدیث میں خاص "جماعت" کی نماز میں "سلام" کے خاص وقت میں "اشارہ" کے خاص عمل کے کرنے سے منع فرمایا گیا ہے ، جب کہ پہلی حدیث میں حکم عام سے ہر نماز کے اندر، حکم عام سے ہر رفع یدین سے روکنے کے لیے سکون کا حکم عام یعنی ہر ایک مرد وعورت کے لیے دیا گیا ہے ۔

فقہ الحدیث : لہٰذا ، اس حدیث کا موقع ومحل اور اس سے پہلی حدیث کا موقع ومحل میں فرق ہونے کے سبب اس حدیث کو اس پہلی حدیث سے جوڑتے یہ کہنا درست نہیں کہ یہ سکون اختیار کرنے کا حکم پوری نماز کے رفع یدین پر نہیں سلام کے وقت کرنے کے متعلق ہے ، کیونکہ : ⏬
1. پہلی حدیث میں اکیلے (نفل) نماز پڑھتے رفع یدیں کرتے دیکھا گیا تھا، لیکن یہاں دوسری حدیث میں خاص "جماعت" کی نماز کا موقعہ ہے ۔
2. پہلی حدیث میں سلام کے وقت کا اشارہ ہی نہیں جبکہ دوسری حدیث میں سلام کے وقت "اشارہ" کرنے کی ممانعت ہے ۔
3. پہلی حدیث میں حکم عام ہے "نماز میں سکون" کا یعنی نماز کے اندر سکون کا حکم ہے، جبکہ اس دوسری حدیث میں حکم_عام نہیں بلکہ خاص سلام کے وقت اور موقعہ پر کی جانے والے عمل کی ممانعت کا حکم ہے ۔
4.پہلی حدیث میں سکون اختیار کرنے کا حکم دے رہے ہیں اور دوسری حدیث میں یہ ارشاد فرمارہے ہیں کہ تم اپنے ہاتھوں کو اپنی ران پر رکھ کر دائیں بائیں اپنے بھائی ہر سلام کرو ۔ لہٰذا ، یہ دو الگ الگ حدیثیں ہیں ، ان کہ خلط ملط کرکے ایک کہنا بہت غلط ہے ۔

قال الْبُخَارِي ، أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ الْمَرْوَزِيُّ قال : حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قال : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ قَالَ : " أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً وَاحِدَةً " .[سنن النسائى الصغرى » كِتَاب التَّطْبِيقِ » الرُّخْصَةُ فِي تَرْكِ ذَلِكَ ... رقم الحديث: 1047،چشتی)
ترجمہ : حضرت عبدﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کیا میں تم لوگوں کورسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نماز پڑھ کہ نہ دکھاؤں پھر انہوں نے نماز پڑھی ،  پس  نہیں اٹھاۓ اپنے ہاتھ صرف (شروع نماز میں) ایک مرتبہ ۔ (نسائی ص161، قدىمی کتب خانہ  نسائی (مترجم) ج1 ص345 دارالاشاعت)
تخريج الحديث : وأخرجه مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي (18) ، ابن أبي شيبة (2441)، وأبو داود (748) ، والترمذي (257) حديث حسن ، والنسائي (2/195، رقم:1058) ، وأبو يعلى (5040+5302) ، وأبي يعلى (5302) والطحاوي في "شرح معاني الآثار" 1/224(1357)، والبيهقي في "السنن" 2/112(2531)، وفی معرفة السنن والآثار(3280)، من طريق وكيع -شيخ أحمد-، بهذا الإسناد ۔
کیا آپ جاتنے ہیں کہ ترک رفع الیدین والی حدیث کو کن کن محدثین نے صحیح قرار دیا ہے ۔
تنبیہ ! اصول فقہ و حدیث کا ضابطہ ہے کہ جس حدیث سے کوئی فقیہ و مجتہد ومحدث استدلال کرے وہ اس کے نزدیک صحیح ہے ۔ [تدریب الراوی ج 1ص 48، تلخىص الحبیر ج2ص143، قواعد فی علوم الحدیث 57]
1۔ حضرت ابر اہیم النخعیؒ 96ھ
[مسند ابی حنیفہ بروایت حسن ص 13، مسند ابی حنیفہ بروایت ابی یوسف ص21،موطا امام محمد ص93، کتاب الحجہ لامام محمد ج1ص96،مسند ابن الجعد ص292، سنن الطحاوی ج1ص162,163، مشکل الآثار للطحاوی ج2ص11، جامع المسدنید ج1ص352، معجم الکبیر للطبرانی ج 22ص22، سنن دار قطنی ج1ص394، سنن الکبری للبیہقی ج2ص81،چشتی]
2۔ امام اعظم ابو حنیفہ التابعی ؒ 150ھ
[مسند ابی حنیفہ بروایت حسن ص13، مسند ابی حنیفہ بروایت ابی یوسف ص 21، موطا امام محمد ص93، کتاب الحجہ ج 1ص96، سنن الطحاوی ج1ص162، جامع المسانید ج1ص353، الاوسط لا بن المنذر ج3ص148، التجريد للقدروی ج5ص272، حلیة العماءللشاشی ج1ص189، المحلی ابن حزم ج4ص119 ۔ج1ص301، التمیہد ج9ص213، الاتذکار لا بن البر ج4ص 99، مناقب المکی ج1ص130، مغنی لابن قدامہ ج2ص172، دلائل الاحکام ج1ص263، شرح سنن ابن ماجہ المغلطائی ج5ص1466,1467، عمدة القاری ج5ص272]
3۔ امام سفیان ثوری ؒ161ھ
[جزء رفع الیدین ص46، ترمذی ج 1ص59، الاوسط لابن منذر ج3ص148، حلیة العماء للشاشی ج1ص189، التجرید للقدوری ج1ص272، شرح البخاری لابن بطال ج 2ص423، التمہید ج 9ص213،الاستذکار ج4ص99، شرح السنة للبغوی ج2 ص24،مغنی لابن قدامہ ج2ص172، دلائل الاحکام لابن شداد ج1ص263، شر ح سنن ابن ماجہ للمغلطائی ج5ص1466، عمدة القاری ج5ص272]
4۔ امام ابن القاسم المصریؒ 191ھ [المدونة الکبری لامام مالک ج1ص71]
5۔ امام وکیع بن الجراح الکوفی ؒ 197ھ [جزءرفع الیدىن للبخاری ص46، عمدة القاری ج5ص272،چشتی)
6۔ امام اسحاق بن ابی اسرائیل المروزی ؒ 246ھ [سنن دار قطنی ج1 ص399,400 سند صحیح]
7۔ امام محمد بن اسماعیل البخاری256ھ [جزء رفع الیدین للبخاری ص25، للزئی ص 112]
8۔ امام ابو داؤد السجستانی275ھ [تاریخ بغداد الخطیب ج 9ص59، تذکرة الحفاظ ج2ص127، النکت لابن حجرص141]
9۔ امام ابو عیسی ترمذی ؒ 279ھ [ترمذی ج1ص59، شرح الھدایہ للعینی ج2ص294]
المحدث: الترمذي - المصدر: سنن الترمذي - الصفحة أو الرقم:257، خلاصة حكم المحدث: حسن
10۔ امام احمد بن شعیب نسائی 303ھ [النکت لابن حجر ص165، زہر الربی للسیوطی ص3]
11۔ امام ابو علی الطوسی 312ھ [مختصر الاحکام مستخرج الطوسی علی جامع الترمذی ج 2ص103، شرح ابن ماجہ للحافظ للمغلطائی ج 5ص1467]
12۔ امام ابو جعفر الطحاوی ؒ 321 ھ [الطحاوی ج1ص162، الرد علی الکرانی بحوالہ جوہر النقی ص77,78]
13۔ امام ابو محمد الحارثی البخاری ؒ 340ھ [جامع المسانید ج 1ص353 مکة المکرمة]
14۔ امام ابو علی النسابوری ؒ349ھ [النکت لابن حجر ؒ ص165، زہر الربی علی النسائی للسیوطی ص3]
15۔ امام ابو علی ابن السکن المصری ؒ353ھ [النکت لا بن حجر 164 زہر الربی للسیوطی ص3]
16۔ امام محمد بن معاویہ االاحمر ؒ 358ھ [النکت لابن حجر ص164، زہر الربی للسیوطی 3]
17۔ امام ابو بکر ابن السنی ؒ 364ھ [الارشاد لامام الخلىلی ص زہر الربی للسیوطی ص 3]
18۔ امام ابن عدی ؒ365ھ [النکت لا بن حجر ص164 زہر الربی ص3]
19۔ امام ابو الحسن الدار قطنی ؒ 385ھ [کتاب العلل ج 5ص172، النکت ص164 زہر الربی ص3]
20۔ امام ابن مندة 390ھ [النکت لا بن حجر 164، زہر الربی للسیوطی ص3]
21۔ امام ابو عبد ﷲ الحاکم ؒ 405ھ [النکت لابن حجر ص164 زہر الربی للسیوطی ص3]
22۔ امام عبد الغنی بن سعید ؒ 409ھ [النکت لابن حجر ص164 زہر الربی للسیوطی ص3]
23۔ امام ابو الحسین القدوری ؒ 428ھ [التجرید للقدوری ؒ ج2ص518]
24۔ امام ابو یعلی الخلیلی ؒ446ھ [الارشاد للخلیلی ص النکت ص164 زہر الربی للسیوطی ص3]
25۔ امام ابو محمد ابن حزم 456ھ [المحلی لا بن حزم ج 4ص121 مصر]
26۔ امام ابوبکر الخطیب للبغدادی ؒ 463ھ [النکت الابن حجر ص163 زہر الربی للسیوطی ص3]
27۔امام ابوبکر السرخسی ؒ 490ھ [المبسوط للسرخسی ج 1ص14]
28۔ امام موفق المکی ؒ568 ھ [مناقب موفق المکی ج1ص130,131]
29۔ امام ابو طاہر السلفی ؒ 576ھ [النکت الابن حجر ص163 زہر الربی للسیوطی ص3]
30۔ امام ابوبکر کاسانی ؒ587ھ [بدائع الصنائع للکاسانی ؒ ج1ص40]
31۔ امام ابن القطان الفاسیؒ 628ھ [بیان الوھم والا ےھام لابن القطان الفاسی ج3ص367]
32۔ امام محمد الخوارزمی 655ھ [جامع المسانید]
33۔ امام ابو محمد علی بن زکریا المنجی ؒ686ھ [اللباب فیا الجمع بین السنة والکتاب ج1 ص256]
34۔ امام ابن الترکمانی ؒ745ھ [الجوہر النقی علی البیہقی لا بن الترکمانی ج2ص77,78]
35۔ امام حافظ مغلطائی 762ھ [شرح ابن ماجہ الحفاظ المغلطائی ج 5 ص1467]
36۔ امام حافظ زیلعی ؒ 672ھ [نصب الرایہ للزیلعی ج1ص396وفی نسخة ج1ص474]
المحدث: الزيلعي - المصدر: نصب الراية - الصفحة أو الرقم: 1/394، خلاصة حكم المحدث: صحيح
37۔ امام حافظ عبد القادر القرشی ؒ 775ھ [الحاوی علی الطحاوی ج 1ص530]
38۔ امام فقیہ محمد البابرقی 786ھ [العنایہ شرح الھدایہ ج1ص269]
39۔ امام فقیہ محمد الکردری 826 ھ [مناقب کردری ج1ص174]
40۔ محدث احمد بن ابی بکر البوصیری ؒ 840ھ [اتحاف الخیرة المھرہ للبوصیری ج10ص355,356،چشتی)
41۔ محدث محمود العینی ؒ 855ھ [شرح سنن ابی داؤد للحافظ العینی ؒ ج 3ص341,342 ، شرح الھدایہ عینی ج2 ص294]
42۔ امام ابن الھمام ؒ 861ھ [فتح القدیر شرح الھدایہ لابن الھمام ج1ص269,270]
43۔ ملا علی قاری ؒ1014ھ [مرقات ج2ص269، شرح الفقایہ ج1ص257,58، شرح مسند ابی حنیفہ للعلی قاری ص38]
44۔ امام محمد ھاشم السندھی ؒ1154ھ [کشف الدین مترجم لمصمدہاشم السندھی ص15,16]
45۔ امام حافظ محدث محمد الزبیدی ؒ 1205ھ [عقود الجواھر المنفىہ للزبیدی]
46۔ امام محمد بن علی النیموی ؒ 1344ھ [آثار السنن مع التعلیق للنمیوی ؒ ص132]
47۔ خليل احمد السہارنفوری 1346ھ [بذل المجھود ج2ص21]
48۔ انور شاہ کاشمیری 1350ھ [نیل الفرقدین لکشمیری ص56,57,58,64,66,61]
49۔ ظفر احمد عثمانی [اعلاءالسنن للعثمانی ج 3ص45,46]
50۔ شیخ الحدیث زکریا الدیوبندی [اوجز المسالک علی موطا مالک]
51۔ علامہ محمد زہیر الشاویش [تعلیق علی شرح السنة للبغوی ج3ص24 بیروت]
52۔ علامہ احمد محمد الشاکر المصری غیر مقلد [الشرح علی الترمذی لاحمد شاکر المصری ج2ص41 دارالعمران بیروت]
المحدث: أحمد شاكر - المصدر: مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 5/251، خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
المحدث: أحمد شاكر - المصدر: شرح سنن الترمذي - الصفحة أو الرقم: 2/40، خلاصة حكم المحدث: صحيح
53۔ علامہ شعیب الارناؤط [تعلیق علی شرح السنہ للبغوی ج3ص24 بیروت]
54۔ الشیخ حسین سلیم اسد [تعلیق علی مسند ابی یعلی شیخ حسین سلیم اسد ج8ص454۔ ج9ص209 دمشق بیروت]
55۔ ناصر الدین البانی غیر مقلد [مشکوة بتحقیق الالبانی ج1ص254بیروت]
المحدث: الألباني - المصدر: أصل صفة الصلاة - الصفحة أو الرقم: 2/610، خلاصة حكم المحدث: صحيح
المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترمذي - الصفحة أو الرقم: 257، خلاصة حكم المحدث: صحيح
المحدث: الألباني - المصدر: صحيح النسائي - الصفحة أو الرقم: 1057، خلاصة حكم المحدث: صحيح
المحدث: الألباني - المصدر: صحيح أبي داود - الصفحة أو الرقم:748، خلاصة حكم المحدث: صحيح ۔

سجدوں میں جاتے وقت رفع یدین کرنا : ⏬

غیر مقلدین سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ غیر مقلدین سجدوں کی رفع یدین کیوں نہیں کرتے ؟ جبکہ سجدوں میں جاتے وقت کا رفع یدین 10 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے ۔

غیر مقلدین کے مانے ہوئے اور مستند شدہ محقق اور محدث علامہ ناصر الدین البانی لکھتے ہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کبھی سجدہ میں جاتے وقت بھی رفع یدین کرتے تھے۔یہ رفع یدین 10 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے اور ابن عمر، ابن عباس رضی اللہ عنہم اور حسن بصری، طاؤس، ابن عمر رضی اللہ عنہ کے غلام نافع، سالم بن نافع، قاسم بن محمد، عبداللہ بن دینار، اور عطاء اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ عبدالرحمٰن بن مھدی نے اس کو سنت کہا ہے اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس پہ عمل کیا ہے، امام مالک رح اور امام شافعی رح کا بھی ایک قول یہی ہے۔( نماز نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم، علامہ ناصر الدین البانی، صفحہ 131،چشتی)

جب سجدوں کا رفع یدین حضرت عبداللہ ابن عمر عضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھ ساتھ دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سےصحیح سند کے ساتھ غیر مقلدین کے تصدیق شدہ محقق کی تصریح کے ساتھ ثابت ہے تو غیر مقلد ان صحیح احادیث پہ عمل کیوں نہیں کرتے؟ یہ وہی عبداللہ ابن عمرؓ ہیں جن سے غیر مقلدین اپنی رفع یدین کی حدیث روایت کرتے ہیں۔
سجدوں سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرنا: ناصر الدین البانی سجدوں سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کو صحیح کہتے ہیں:''امام احمدؒ اس مقام پر رفع یدین کے قائل ہیں بلکہ وہ ہر تکبیر کے وقت رفع یدین کے قائل ہیں، چنانچہ علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ ابن الاثیرؒ، امام احمدؒ سے نقل کرتے ہیں کہ ان سے رفع یدین کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب بھی نمازی اوپر یا نیچے ہو دونوں صورتوں میں رفع یدین ہے نیز اثرمؒ بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام احمدؒ کو دیکھا وہ نماز میں اٹھتے بیٹھتے وقت رفع یدین کرتے تھے ۔
یہ رفع یدین انس ، ابن عمر ، نافع ، طاؤس ، حسن بصری ، ابن سیرین اور ایوب سختیانیؒ سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے''۔( نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، علامہ ناصر الدین البانی، صفحہ 142)
یہاں ناصر البانی نے حضرت عبداللہ ابن عمر سے سجدوں سے سر اٹھاتے وقت کا رفع یدین صحیح سند سے ثابت کیا۔
غیر مقلدین سجدوں میں جاتے وقت اور سر اٹھاتے وقت رفع یدین کیوں نہیں کرتے؟
حدیث : حَدَّثَنَا هَنَّادٌ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ : " أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ " . قَالَ : وَفِي الْبَاب عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ أَبُو عِيسَى : حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ ۔ [جامع الترمذي » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ الْأَذَانِ » بَاب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ ...,رقم الحديث: 238،چشتی)
ترجمہ : حضرت علقمہؒ فرماتے ہیں کہ حضر ت عبد الله بن مسعودؓ نے فرمایا : کیا میں تمہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جیسی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں؟ چنانچہ آپ نے نماز پڑھی اور پہلی مرتبہ (تکبیر تحریمہ کے وقت) رفع یدین کرنے کے علاوہ کسی اور جگہ رفع یدین نہیں کیا ۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے ، غیرمقلدوں کے امام ابن حزم ظاہری نے اسے صحیح قرار دیا ہے؛ حافظ زیلعی نے نصب الرایہ(1/39) میں حافظ ابن دقیق العید سے نقل کیا ہے کہ ابن ا لقطان نے کتاب" الوہم والایہام"  میں اسے صحیح قرار دیا ہے،  علامہ عینی نے نخب الافکار میں اس کو صحیح کہا ہے، اور علامہ احمد شاکر نے بھی مسند احمد کی تعلیق(2/40) میں اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے اور دیگر اور بہت سے حضرات نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے، اور البانی نے(صحيح الترمذي - الصفحة أو الرقم: 257) ۔ اور  تخریج مشکاة میں کہا ہے: والحق أنہ حدیث صحیح وإسنادہ صحیح علی شرط مسلم، ولم نجد لمن أعلّہ حجة یصلح التعلق بہا ورد الحدیث من أجلہا (۱/۲۵۴، مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت ودمشق)

سند پر اعتراض کا جواب : ⏬

اس حدیث کے راوی سفیان الثوری جیسے ثقه تابعی امام پر بعض لوگ مدلس ہونے کی بےوزن جرح کرتے اس حدیث کا انکار کرتے ہیں، تو انھیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ صحاح ستہ میں اور صحیح بخاری و مسلم میں ان کی روایات کا ہونا ان کے ثقہ (قابلِ اعتماد) ہونا ثابت کرتا ہے ، ورنہ صحاح-ستہ احادیث کے امام ان کی روایت کو اپنی کتاب میں نہ لاتے. اس کی احادیث کے صحیح ہونے پر تو اہل_حدیث کا اجماع ہے: ابو الولید سلیمان بن خلف الباجی ( متوفی ۴۷۴ھ) نے لکھا ہے؛ ’’ والذی أجمع علیہ أھل الحدیث من حدیث أبی إسحاق السبیعی ما رواہ شعبة وسفیان الثوری [عنہ] فإذا اختلفا فالقول قول الثوری۔( التعدیل والتجر یح ۱؍۳۰۷)
ترجمہ : اور اس پر اہل حدیث کا اجماع ہے کہ ابو اسحاق السبیعی کی حدیثوں میں سے جو شعبہ اور سفیان ثوری نے بیان کی ہیں ( وہ صحیح ہیں) پھر اگر ان دونوں میں اختلاف ہو تو سفیان ثوری کی روایت راجح ہے۔
ایک دو محدثین کے اقوال سے جو لوگ صحاح-ستہ کی اس حدیث (ترمذی کی حسن روایت) میں موجود راوی "عاصم بن کلیب" پر کلام کرتے ہیں ، انھیں جان لینا چاہیے کہ یہ راوی صحیح مسلم کا ثقه (قابل اعتماد) راوی ہے، اکثر محدثین نے انھیں "ثقه"  مانا ہے ،  اگر ان کی روایت مردود ہے تو صحیح مسلم کے علاوہ اس کی جہاں جو جو روایت آتی ہے کیا اس کا بھی رد کرو گے ؟
اور یہ روی اس روایت میں منفرد بھی نہیں، حدیث_ابن_مسعود کو "عاصم بن کلب" کے علاوہ دوسرے راویوں سے اس حدیث کا مروی ہونا (یعنی اس کے شواہد دوسرے ترق سے بھی) ثابت ہے، لہذا اس راوی کے منفرد ہونے کے سبب اس روایت کے رد کرناصحیح نہیں ۔

عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَبَّرَ لافْتِتَاحِ الصَّلاةِ ، رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يَكُونَ إِبْهَامَاهُ قَرِيبًا مِنْ شَحْمَتَيْ أُذُنَيْهِ ، ثُمَّ لا يَعُودُ ۔ (شرح معانی الآثار للطحاوی ج1 ص154، سنن ابی داود ج1 ص109 ، مصنف عبد الرزاق ج2 ص70 ، مسند ابی یعلٰی ج 3 ص249،248، سنن دار قطنی ج1 ص294،293، مسنداحمد ج4ص303، المدونة الکبری ج1ص69، مصنف ابن ابی شیبة ج1 ص236 )
ترجمہ : حضرت براء بن عازبؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جب نماز شروع کر نے کے لئے تکبیر کہتے تو رفع یدین کرتے یہاں تک کہ آپ کے انگوٹھے کانوں کی لو کے قریب ہوجاتے۔ پھر (رفع یدین) نہیں کرتے تھے۔(سنن طحاوی)
تخريج الحديث : وأخرجه أبو داود (749) ، والطحاوي في شرح معاني الآثار(1347)، والبغوی فی شرح السنة (3/24) ، وأخرجه أبو يعلى (1690) من طريق شريك، بهذا الإسناد.
وأخرجه الدارقطني (1129) من طريق إسماعيل بن زكريا، عن يزيد بن أبي زياد, به.
وأخرجه ابن أبي شيبة 1/ 233، وأحمد (18487)، ويعقوب بن سفيان في "المعرفة والتاريخ" 3/ 80، وأبو يعلى (1658) و (1691) من طريق هشيم بن بشير،
وأحمد (18674) و (18682)، والبيهقي 2/ 26 من طريق أسباط بن محمد، وأحمد (18692)، ويعقوب بن سفيان 3/ 80، والدارقطني (1127) من طريق شعبة، وأحمد (18702)، وعبد الرزاق (2530)، والبخاري في "رفع اليدين" (35)، ويعقوب بن سفيان 3/ 79 - 80، والدارقطني (1126،چشتی) من طريق سفيان الثوري، وأحمد في "العلل" (715) من طريق الجراح بن مليح الرؤاسي، ويعقوب بن سفيان 3/ 80، والدارقطنى (1131) من طريق خالد بن عبد الله، وأبو يعلى (1692) من طريق ابن إدريس، والدارقطني (1132) من طريق علي بن عاصم، عن محمد بن أبي ليلى، والخطيب في "تاريخ بغداد" 5/ 41 من طريق حمزة بن حبيب الزيات، و 7/ 254 من طريق جرير بن عبد الحميد، العشرة عن يزيد بن أبي زياد، به. ولم يذكروا فيه: "ثم لا يعود"، وقال الدارقطني: قال علي بن عاصم: فلما قدمت الكوفة قيل لي: إن يزيد حي، فأتيته فحدثني بهذا الحديث ... فقلت له: أخبرني ابن أبي ليلى أنك قلت: ثم لم يعد، قال: لا أحفظ هذا، فعاودته فقال: ما أحفظه.وانظر رواية سفيان بن عيينة عن يزيد الآتية بعده، وانظر (752).
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ الْبَرَاءِ ، " أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَى قَرِيبٍ مِنْ أُذُنَيْهِ ثُمَّ لَا يَعُودُ ".[سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ ... رقم الحديث: 639]خلاصة حكم المحدث: سكت عنه [وقد قال في رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح]
حضرت براء بن عازبؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جب نماز شروع فرماتے (یعنی تکبیر تحریمہ کہتے) تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے اپنے کانوں کے قریب تک۔ پھر اسے (رفع یدین کو) دوبارہ نہ کرتے.(سنن ابی داود ج1 ص336)
امام ابو داود نے کہا : جس حدیث پر کہ میں اپنی کتاب میں سکوت (خاموشی اختیار) کروں (یعنی حدیث کے ضعیف ہونے کا حکم نہ لگاؤں) تو وہ احتجاج (حجت و دلیل ہونے) کی صلاحیت رکھتی ہے.[فتاویٰ علماۓ حدیث : ٧/٧٢]
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ ، وَبَعْدَ مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ ، فَلا يَرْفَعُ وَلَا بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ ۔ [مسند الحميدي » أَحَادِيثُ رِجَالِ الأَنْصَارِ » أَحَادِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ... رقم الحديث: 594،چشتی)
ترجمہ: (امام حمیدی روایت فرماتے ہیں کہ) ہم سے حدیث بیان کی سفیان نے ، ان سے زہری نے ، ان سے سالم بن عبد اللہ (ابن عمر) نے ، ان سے ان کے والد (عبدللہ ابن عمرؓ سے) راویت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھا کہ جب نماز شروع کرتے تو دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے اور جب رکوع کا ارادہ کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین نہیں کرتے تھے اور نہ دونوں سجدوں کے درمیان۔ (مسند الحمیدی:۲/۲۷۷۔ حدیث:۶۱۴)
تخريج الحديث م  طرف الحديث الصحابي اسم الكتاب أفق العزو المصنف سنة الوفاة
1 إذا افتتح الصلاة رفع يديه حتى يحاذي منكبيه وإذا أراد أن يركع وبعدما يرفع من الركوع فلا يرفع بين السجدتين عبد الله بن عمر الثالث من الخلعيات 10 --- علي بن الحسن الخلعي 492)

نماز میں رفع یدین نہ کرنے کی دلیلِ حدیث مسند حمیدی پر بودے اعتراض کا  کامل جواب : ⏬

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَيُّوبَ الْمُخَرِّمِيُّ ، وَسَعْدَانُ بْنُ نَصْرٍ ، وَشُعَيْبُ بْنُ عَمْرٍو فِي آخَرِينَ ، قَالُوا : ثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا " ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ وَبَعْدَ مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ ، لا يَرْفَعُهُمَا ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : وَلا يَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ ، وَالْمَعْنَى وَاحِدٌ ۔ [مستخرج أبي عوانة » كِتَابُ الصَّلَاةِ » بَيَانُ رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ ...  رقم الحديث: 1240(1572)،چشتی]
ترجمہ : حضرت امام زہریؒ حضرت سالمؒ سے اور وہ اپنے والد حضرت عبد الله بن عمرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا میں نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے مونڈھوں تک۔ اور جب آپ ارارہ فرماتے کہ رکوع کریں اور رکوع سے سر اٹھالےنے کے بعد آپ رفع یدین نہ کرتے۔ اور بعض (راویوں) نے کہا ہے کہ آپ دونوں سجدوں کے درمیان بھی رفع یدین نہ کرتے۔ مطلب سب راویوں کی روایت کا ایک ہی ہیں۔(صحیح  ابی عوانہ ج2 ص90؛ ١/٥١٥ ، حدیث # ٦٢٦)
اعتراض: امام سفیان بن عیینہؒ کی یہی روایت صحیح مسلم میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والے رفع یدین کے اثبات کےساتھ موجود ہے، جبکہ مسند ابی عوانہ والے مطبوعہ نسخہ میں "واو" رہ گئی ہے اور صحیح مسلم میں واو موجود ہے۔
جواب : اگر محدث ابو عوانہؒ، صحیح مسلم والا طریق (یحیٰی وغیرہ عن سفیان) ذکر کرتے تب "واو" رہ جانے والا اعتراض درست تھا، حالانکہ انہوں نے اپنی مسند میں صحیح مسلم والا طریق ذکر نہیں کیا، جس میں "واو" ہے بلکہ (حمیدی وعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَيُّوبَ الْمُخَرِّمِيُّ ، وَسَعْدَانُ بْنُ نَصْرٍ ، وَشُعَيْبُ بْنُ عَمْرٍو فِي آخَرِينَ ، عن سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ) والے طرق ذکر کیے ہیں جن میں "واو" موجود نہیں ہیں۔
نماز میں خشوع اور رفع یدین:: قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾ الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾ [سورہ المومنون]
ترجمہ : پکی بات ہے کہ وہ ایمان لانے والے کامیاب ہوگۓ، جو نماز میں خشوع اختیارکرنے والے ہیں ۔
حضرت ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں : خشوع کرنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو نماز میں تواضع و عاجزی اختیار کرتے ہیں اور دائیں بائیں توجہ نہیں کرتے اور"نہ ہی نماز میں رفع یدین کرتے ہیں.[تفسیر_ابن_عباس]
حضرت حسن بصری رح سے اس کی تفسیر مروی ہے کہ : (نماز میں) خشوع کرنے والے وہ ہیں جو نہیں کرتے رفع یدین(ہاتھ اٹھانا) نماز میں مگر (صرف) تکبیر_اولیٰ (پہلی تکبیر) میں. [تفسیر سمرقندی:٢/٤٠٨]

متعصب غیر مقلد زبیر علی زئی کی جرح کی حقیقت نماز میں رفع یدین نہ کرنے کی دلیل تفسیر ابن عباس پر بودے اعتراضات کے کامل جوابات

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " تُرْفَعُ الأَيْدِي فِي سَبْعِ مَوَاطِنَ ، فِي افْتِتَاحِ الصَّلاةِ ، وَعِنْدَ الْبَيْتِ ، وَعَلَى الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ، وَبِعَرَفَاتٍ ، وَبِالْمُزْدَلِفَةِ ، وَعِنْدَ الْجَمْرَتَيْنِ " . [شرح معاني الآثار للطحاوي » كِتَابُ مَنَاسِكِ الْحَجِّ » بَابُ رَفْعِ الْيَدَيْنِ عِنْدَ رُؤْيَةِ الْبَيْتِ ...رقم الحديث: 2438]
ترجمہ : حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : سات (٧) جگہوں پر رفع یدین (دونوں ہاتھوں کو اٹھانا) کیا جاتا ہے : (١) شروع نماز میں، (٢) بیت الله کے پاس، (٣) صفا پر، (٤) مروہ پر، (٥) عرفات میں، (٦) مزدلفہ میں، (٧) جمرات کے پاس.[سنن طحاوی : ١/٤١٦]
المحدث : الطحاوي | المصدر : شرح معاني الآثار الصفحة أو الرقم: 2/176 | خلاصة حكم المحدث : صحيح ۔
فائدہ : یہاں پہلی جگہ میں شروع نماز فرمانا دلیل ہے احناف کی نماز میں (اندر) مزید رفع یدین نہ کرنے پر.
اعتراض : یہ حدیث ضعیف ہے ۔
جواب : گو ضعیف ہے مگر اس پر عمل ہے ۔ (فتاویٰ علماۓ حدیث :٢/١٥٦)
ضعیف روایت موضوع (من گھڑت) نہیں ہوتی، اور یہ روایت تو شدید الضعیف بھی نہیں، جبکہ اس کی تائید ایک صحیح سند سے بھی ہوجاتی ہے اور حضرت ابن عمر کی روایت سے بھی تائیدی شواہد ملتے ہیں، جس سے اصول حدیث کے مطابق اس روایت کو قوت حاصل ہوجاتی ہے اور حسن کا حکم رکھتی ہے ۔

صحیح سند : وَقَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ : حَدَّثَنَا هِشَامٌ هُوَ ابْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ حُدِّثْتُ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " تُرْفَعُ الأَيْدِي فِي سَبْعِ مَوَاطِنٍ : فِي بَدْءِ الصَّلاةِ ، وَإِذَا رَأَيْتَ الْبَيْتَ ، وَعَلَى الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ، وَعَشِيَّةَ عَرَفَةَ ، وَبِجَمْعٍ ، وَعِنْدَ الْجَمْرَتَيْنِ ، وَعَلَى الْبَيْتِ " .
[المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية لابن حجر ... » كتاب الحج » بَابُ دُخُولِ مَكَّةَ وَفَضْلِهَا؛ رقم الحديث: 1243،چشتی)
عن عاصم بن كليب عن أبيه أنَّ عليًّا كانَ يرفعُ يديهِ في أوَّلِ تكبيرةٍ منَ الصَّلاةِ ثمَّ لا يرفعُ بعدُ۔ (شرح معانی الآثار للطحاوی جلد۱ صفحہ 154 ،مصنف ابن ابی شیبة جلد اول صفحہ 236، موطا امام محمد جلد۱ صفحہ90)
ترجمہ : حضرت عاصم بن کلیبؒ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ نماز کی پہلی تکبیر میں رفع یدین کرتے تھے پھر اسکے بعد رفع یدین نہیں کرتے تھے ۔
المحدث: العيني - المصدر: عمدة القاري - الصفحة أو الرقم:5/400 - خلاصة حكم المحدث: صحيح على شرط مسلم
المحدث: ابن حجر العسقلاني - المصدر: الدراية - الصفحة أو الرقم: 1/152 - خلاصة حكم المحدث: رجاله ثقات
المحدث: الزيلعي - المصدر: نصب الراية - الصفحة أو الرقم:1/406 - خلاصة حكم المحدث: صحيح
عَنْ عَلِيٍّ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ الصَّلَاةِ ثُمَّ لَا يَعُودُ " .[العلل الواردة في الأحاديث النبوية للدارقطني  » مُسْنَدُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ ...  » الثَّانِي مِنْ حَدِيثِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ...,رقم الحديث: 602(457)]
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نماز کے شروع میں رفع یدین کرتے تھے، پھر دوبارہ نہیں کرتے تھے ۔ (العلل الواردة فی الا حادیث النبویة، دارقطنی ج4 ص106)
تخريج الحديث : [السنن الكبرى للبيهقي  » جُمَّاعُ أَبْوَابِ الاسْتِطَابَةِ, رقم الحديث: 2315(2:79)]
الراوي : كليب بن شهاب الجرمي المحدث : ابن حجر العسقلاني
المصدر : الدراية الصفحة أو الرقم: 1/152 خلاصة حكم المحدث : رجاله ثقات، وهو موقوف
المحدث : الزيلعي
المصدر : نصب الراية الصفحة أو الرقم: 1/406 خلاصة حكم المحدث : صحيح ۔

عَنْ عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ ، " أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى إِلَى فُرُوعِ أُذُنَيْهِ ، ثُمَّ لَا يَرْفَعُهَا حَتَّى يَقْضِيَ صَلَاتَهُ " .[مسند زيد » كِتَابُ الصَّلَاةِ » بَابُ التَّكْبِيرِ فِي الصَّلَاةِ ... رقم الحديث: 55]
ترجمہ : حضرت علی پہلی تکبیر (تحریمہ) میں اپنے دونوں ہاتھ کانوں کے کانوں تک اٹھاتے، پھر ہاتھ نہ اٹھاتے حتیٰ کہ نماز پوری کرلیتے ۔
صليتُ مع النبي ومع أبي بكرٍ ومع عمرَ رضي الله عنهما فلم يرفعوا أيديهِم إلا عندَ التكبيرَةِ الأولى في افتتاحِ الصلاةِ قال إسحاقُ به نَأْخُذ في الصلاةِ كلها۔(دار قطنی : 2/52 (ج1ص295 ) ،بیہقی ج2 ص79 )
[سنن الدارقطني » كِتَابُ الصَّلاةِ » بَابُ ذِكْرِ التَّكْبِيرِ وَرَفْعِ الْيَدَيْنِ عِنْدَ ...,رقم الحديث: 1133]
ترجمہ : حضرت عبدﷲ بن مسعود فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے ساتھ نماز پڑھی، ان سب نے رفع یدین نہیں کیا مگر پہلی تکبیر کے وقت نماز کی ابتدا میں ۔
محدث اسحق (بن ابی اسرائیل ؒ) کہتے ہیں کہ ہم بھی اسی کو اپناتے ہیں پوری نماز میں۔
حضرت عبدﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما  کا عمل اور رفع یدین : عن مجاہد قال صلیت خلف ابن عمر فلم یکن یرفع یدیہ الا فی التکبیرة الاولی من الصلوة ۔ (شرح معانی الآثار للطحاوی جلد اول صفحہ 155 ،مصنف ابن ابی شیبة جلداول صفحہ237، موطا امام محمد صفحہ 90، معرفة السنن و الآثار جلد دوم صفحہ 428)
ترجمہ : حضرت مجاہد فرماتے ہیں : میں نے حضرت عبدﷲ بن عمر کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے نہیں کیا رفع یدین مگر نماز کی پہلی تکبیر میں ۔
تو یہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ہیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو (نماز میں) ہاتھ اٹھاتے ہوۓ دیکھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد ہاتھ اٹھانا چھوڑ دیا تو یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب آپ رضی اللہ عنہ کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا عمل منسوخ ہو چکا ہو جو آپؓ نے دیکھا تھا اور اس کے خلاف دلیل قائم ہوگئی ۔
اگر کوئی کہے کہ یہ حدیث منکر ہے ؟ تو اسے جواب میں کہا جاۓ گا کہ اس (دعویٰ) پر کیا دلیل ہے ؟ تو ہرگز تم نہیں پاؤ گے اس (دعویٰ) تک کوئی راہ ؟

اعتراض اور اس کا جواب : غیر مقلدین کہتے ہیں کہ امام مجاہد رفع کے قائل تھے اور میں نے ابھی تک کوئی "صحیح سند" کے ساتھ روایت نہیں دیکھی نہ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے اور نہ امام مجاہد سے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر بالفرض مان لیا جاۓ کہ غیر مقلدین اس روایت کا صرف اس وجہ سے انکار کر رہے ہیں کہ امام مجاہد رفع "نہیں" کرتے تو حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ سے رفع کی تمام روایات کا انکار کر دیں کیونکہ "انکا" ترکِ رفع ثابت ہو چکا۔ چوتھی بات یہ ہے کہ اس روایت پر جتنی بھی جرح ہے وہ سب قائلینِ رفع کی ہے اور اس جرح کا حال یہ ہے کہ امام بخاری کی طرف منسوب ہے کہ انہوں نے کہا کہ ابو بکر بن عیاش مختلط ہو گئے تھے تو یہ کیا عجیب بات ہوئی کہ خود تو امام بخاریؒ اپنی کتاب "صحیح بخاری" میں ابو بکر بن عیاش سے احتجاج کرتے اس کی روایات لیتے ہیں اور جب ہم احتجاج (حجت و دلیل پکڑتے ثابت) کریں تو مخالفین کے لئے ابو بکر بن عیاش مختلط ہو جاتا ہے۔ اور ایک بات یہ ہے کہ امام بخاریؒ نے تو اپنے "جز رفع یدین" میں رفع عند السجود کی روایت کو بھی نقل کیا ہے انکو تو امام بخاری نے صحیح مان کر نقل کیا ہے اور غیر مقلدین انکو ضعیف قرار دیتے نہیں تھکتے تو پوچھا جاۓ گا کہ جب تمہارے مطلب کی روایت آتی ہے تو امام بخاریؒ امیر المومنین فی الحدیث بن جاتے ہیں اور جب تمہارے خلاف کوئی ان سے روایت آجاۓ تو امام بخاریؒ کو کوئی پوچھتا بھی نہیں ہے، یہ کیا دوغلہ پن ہے ؟ بہرحال یہ روایت بلکل ٹھیک ہے میں نے جو سکین دیا ہے اس میں ساتھ پین سے لکھا بھی ہوا ہے کہ یہ روایت بخاری و مسلم کی شرطوں کے مطابق صحیح ہیں ۔ اور غیر مقلدین کا شور مچانہ ان کے ضدی ، متعصب ، اندھے مقلد ، اور دوغلے ہونے کی دلیل ہے جو میں اکثر ثابت کرتا رہتا ہوں ۔

نماز میں رفع یدین نہ کرنے کی حدیث ابن عمر پر بودے اعتراض کا  کامل جواب : ⏬

اعتراض : زبیر علی زئی غیرمقلد نے لکھا : ”یہ روایت قاری ابوبکر بن عیاشؒ کے وہم وخطا کی وجہ سے ضعیف ہے……کسی ایک قابل اعتماد محدث نے اس کی تصحیح نہیں کی“ ۔ (مضروب حق: شماره 06 ص 30)
جواب : اولاً ۔۔۔ امام ابوبکر بن عیاش صحیح بخاری ،صحیح مسلم (مقدمہ) اور سنن اربعہ کے راوی ہیں، عند الجمہور "ثقہ" ہیں۔ امام عبداللہ بن مبارک، امام احمد بن حنبل ، امام عثمان دارمی، امام ابوحاتم الرازی، امام ابن حبان، امام ابن عدی، امام عجلی، امام ابن سعد، امام سفیان ثوری، امام یعقوب بن شیبہ، امام ساجی رحمہم اللہ وغیرہ نے ان کی تعدیل و توثیق اور مدح وثناء کی ہے۔ (تہذیب التہذیب ج 7ص 320 تا 366 )
ثانیاً ۔۔ امام محمد بن حسن الشیبانی م 600 ھ ثقہ وصدوق نے ان کی متابعت معنوی کررکھی ہے۔ )موطاامام محمد ص 93 ،  کتاب الحجۃ ج 6ص (71 ۔
ثالثاً ۔۔۔ اس روایت کی سند علی شرط الشیخین ہے۔ پس علی زئی کا اسے ضعیف بتلانا باطل ہے۔ رہا بعض محدثین کا اس روایت کو ابوبکر بن عیاش کی وجہ سے وہم وغیرہ کهنا، تو عرض ہے کہ امام نووی نے مختلط روات کے متعلق قاعدہ بیان کرتے ہوے فرمایا ہے کہ صحیحین میں مختلط روات کی جو روایات لی گئی ہیں وہ قبل الاختلاط اخذ پر محمول ہیں ۔ (تہذیب الاسماء للنووی جلد 6 صفحہ 040،چشتی)
اور ہماری پیش کردہ روایت عن ابن ابی شیبہ ابی بکر بن عیاش کے طریق سے مروی ہے اور یہی طریق صحیح بخاری ج 6ص 074 میں موجود ہے ۔ معلوم ہو کہ یہ روایت قبل الاختلاط مروی ہے۔ پس وہم والا اعتراض بھی باطل ہے ۔
تنبیہ : زبیر علی زئی نے لکھا ” : بہت سے ثقہ راویوں اور صحیح وحسن لذاتہ سندوں سے ثابت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نماز میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے“ (مضروب حق: شماره 06 ؛ ص 3) ، اللہ تعالیٰ جناب کو فہم نصیب فرماے آمین ۔ مذکورہ مواضع میں رفع یدین کے اثبات میں اختلاف نہیں،آپ کے ذمہ یہ ثابت کرنا ہے کہ مذکورہ رفع یدین پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا دوام تھا اور یہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زندگی کا آخری عمل تھا۔ نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً سجدوں کی رفع یدین بھی ثابت ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج 6ص 011 ،مشکل الآثار للطحاوی ج 0ص 02 ،جزء رفع یدین للبخاری ص 40 ،المعجم الاوسط للطبرانی ج 6ص 03 ،سنن ابن ماجہ ج 6 ص 16 وغیرہ)

لہٰذا اگر صرف ثبوت ہی کی بات کرتے ہیں وف پھر تمام غیرمقلدین اب سجدوں میں بھی رفع یدین کرنا شروع کردیں ۔

نوٹ : اگر غیرمقلدین کہیں کہ سجدوں کی رفع یدین کا ترک ثابت ہے تو عرض ہے کہ رکوع والے رفع یدین کا بھی ترک ثابت ہے ۔ ایک اقرار اور دوسرے کا انکار ؟

عن الا سود قال صلیت مع عمر فلم یرفع یدیہ فی شی ء من صلوة الا حین افتتح الصلوة الحدیث ۔ (مصنف ابن ابی شیبة ج۱ ص237، شرح معانی الآثار للطحاوی ج۱ ص156)
ترجمہ : حضرت اسودؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرؓ کے ساتھ نماز پڑھی تو انہوں نے نماز میں کسی جگہ بھی رفع یدین نہیں کیا سوائے ابتداء نماز کے ۔
عن ابراہیم عن عبدﷲ انہ کا ن یرفع یدیہ فی اول ما یستفتح ثم لا یرفعھما۔( مصنف ابن ابی شیبة ج۱ صفحہ236، شرح معانی الآثار للطحاوی جلد اول صفحہ 156 ،مصنف عبدالرزاق جلد دوم صفحہ71)
ترجمہ : حضرت ابراہیم نخعیؒ سے مروی ہے کہ حضرت عبد ﷲ بن مسعودؓ نماز کے شروع میں رفع یدین کرتے تھے پھر نہیں کرتے تھے۔
عن اشعث عن الشعبی انہ کان یرفع یدیہ فی اول التکبیر ثم لا یرفعھما۔( مصنف ابن ابی شیبة ج1 ص 236)
ترجمہ : امام شعبیؒ سے مروی ہے کہ وہ تکبیر تحریمہ کے وقت ہی رفع یدین کرتے تھے پھر نہیں کرتے تھے ۔
عن جابر عن الاسود و علقمة انھما کان یرفعان ایدیھما اذا افتتحا ثم لا یعودان ۔ ( مصنف ابن ابی شیبة جلد اول ص 236)
ترجمہ : حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت اسود یزید اور حضرت علقمہ علیہما الرّحمہ علیہ نماز کے شروع میں رفع یدین کرتے تھے پھر نہیں کرتے تھے ۔


مسئلہ رفع یدین اور مذاھب اربعہ کا مؤقف : رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین کرنے اور نہ کرنے سے متعلق سلف صالحین وائمہ ہدیٰ علیہم الرّحمہ کے مابین اختلاف ہے اور دوراول یعنی صحابہ و تابعین وتبع تابعین رضی اللہ عنہم سےاس میں اختلاف چلا آرہا ہے اوراس اختلاف کی اصل وجہ یہ ہے کہ رفع یدین کے بارے مختلف روایات وارد ہوئی ہیں لہٰذا جس مجتهد نے اپنے دلائل کی روشنی میں جس صورت کو زیاده بہتر و راجح سمجها اس کو اختیار کیا اورکسی بهی مجتهد نے دوسرے مجتهد کے عمل واجتہاد کو باطل وغلط نہیں کہا ۔ اور یہی حال ان مجتہدین کرام علیہم الرّحمہ کا دیگر اختلافی مسائل میں بهی ہے کہ باوجود اختلاف کے ایک دوسرے کے ساتهہ محبت وعقیدت واحترام کا رشتہ رکهتے تهے جیسا کہ امام شافعی رحمۃ الله علیہ امام مالک رحمۃ الله علیہ کے شاگرد ہیں لیکن بہت سارے اجتہادی مسائل میں ان سے اختلاف رکهتے ہیں حتی کہ رفع یدین کے مسئلہ میں بهی دونوں استاذ و شاگرد کا اجتہاد مختلف ہے امام شافعی رحمۃ الله علیہ رفع یدین کے قائل ہیں اور امام مالک رحمۃ الله علیہ رفع یدین کے قائل نہیں ۔

رفع یدین کے بارے مذاهب اربعہ کی تصریحات : ⏬

احناف کے نزدیک رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین خلاف اولیٰ ہے یعنی بہترنہیں ہے ۔ فتاوی شامی میں ہے : قوله إلا في سبع أشار إلى أنه لا يرفع عند تكبيرات الانتقالات ، خلافا للشافعي وأحمد ، فيكره عندنا ولا يفسد الصلاة الخرد المحتار على الدر المختار ، كتاب الصلاة ، فصل في بيان تأليف الصلاة إلى انتهائها ۔

مالکیہ کے نزدیک بهی رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین مکروه و خلاف اولی ہے ، مذهب مالکیہ کی مستند کتاب المدونة الكبرى میں ہے ، ففي المدونة الكبرى قال الإمام مالك: (لا أعرف رفع اليدين في شيء من تكبير الصلاة، لا في خفض ولا في رفع إلا في افتتاح الصلاة، يرفع يديه شيئا خفيفا، والمرأة في ذلك بمنزلة الرجل)، قال ابن القاسم : (كان رفع اليدين ضعيفا إلا في تكبيرة الإحرام ۔ (المدونة الكبرى للإمام مالک جلد 1 صفحہ 107 دار الفكر بيروت،چشتی)

امام مالك رحمة الله علیہ فرماتے ہیں کہ میں نمازکی تکبیرات میں کسی جگہ رفع اليدين نہیں جانتا نہ رکوع میں جاتے وقت اور نہ رکوع سے اٹهتے وقت مگر صرف نمازکے شروع میں تکبیر تحریمہ کے وقت ، امام مالک کے صاحب وشاگرد ابن القاسم فرماتے ہیں کہ رفع اليدين کرنا ضعیف ہے مگرصرف تکبیرتحریمہ میں ۔

امام مالك رحمة الله علیہ کے الفاظ پر ذرا غور کریں لا أعرف یعنی میں نہیں جانتا تکبیر تحریمہ کے علاوه رفع یدین کرنا ۔ خیال رہے کہ کتاب المُدَونة الكبرى فقہ مالكي کی اصل و بنیاد ہے دیگرتمام کتابوں پرمقدم ہے اور مُوطأ الإمام مالك کے بعد اس کا دوسرا نمبر ہے اوراکثر علماء المالكية کی جانب سے اس کتاب المدونة کو تلقی بالقبول حاصل ہے اور فتاوی کے باب میں بهی علماء المالكية کا اسی پراعتماد ہے اور روایت و درجہ کے اعتبارسے سب سے أصدق وأعلى کتاب ہے علامہ ابن رشد المالکی نے بهی یہی تصریح کی ہے اور فرمایا کہ رفع یدین میں اختلاف کا سبب دراصل اس باب میں وارد شده مختلف روایات کی وجہ سے ہے یعنی چونکہ روایات مختلف ہیں لہذا ائمہ مجتہدین کا عمل بهی ہوگا .اهــ لہذا جولوگ یہ کہتے ہیں کہ رفع یدین نہ کرنے والوں کی نماز غلط ہے توایسے لوگ جاہل وکاذب ہیں ۔

وأما اختلافهم في المواضع التي ترفع فيها فذهب أهل الكوفة أبو حنيفة وسفيان الثوري وسائر فقهائهم إلى أنه لا يرفع المصلي يديه إلا عند تكبيرة الإحرام فقط، وهي رواية ابن القاسم عن مالك " الی ان قال " والسبب في هذا الاختلاف كله اختلاف الآثار الواردة في ذلك الخبداية المجتهد ، كتاب الصلاة ، للعلامه ابن رُشد المالکی ۔

علامہ عبد الرحمن الجزيري رحمة الله علیہ نے بهی یہی تصریح کی ہے کہ مالکیہ کے نزدیک رفع یدین دونوں کندہوں تک تکبیرتحریمہ کے وقت مستحب ہے اس کے علاوه مکروه ہے ۔ المالكية قالوا : رفع اليدين حذو المنكبين عند تكبيرة الاحرام مندوب، وفيما عدا ذلك مكروه الخ الفقه على المذاهب الاربعة ' لعبد الرحمن الجزيري ' الجزء الاولكتاب الصلاة باب رفع اليدين ۔

شافعيه کے نزدیک رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین سنت ہے ، امام شافعي رحمة الله علیہ كى كتاب الأم میں یہی تصریح موجود ہے اوردیگرعلماء شافعیه کا بهی یہی مذهب ہے ۔ قال سألت الشافعي : أين ترفع الأيدي في الصلاة؟ قال : يرفع المصلي يديه في أول ركعة ثلاث مرات ، وفيما سواها من الصلاة مرتين مرتين يرفع يديه حين يفتتح الصلاة مع تكبيرة الافتتاح حذو منكبيه ويفعل ذلك عند تكبيرة الركوع وعند قوله " سمع الله لمن حمده " حين يرفع رأسه من الركوع ولا تكبيرة للافتتاح إلا في الأول وفي كل ركعة تكبير ركوع، وقول سمع الله لمن حمده عند رفع رأسه من الركوع فيرفع يديه في هذين الموضعين في كل صلاة الخكتاب الأم ، باب رفع اليدين في الصلاةقال الشافعي ) وبهذا نقول فنأمر كل مصل إماما ، أو مأموما ، أو منفردا ؛ رجلا ، أو امرأة ؛ أن يرفع يديه إذا افتتح الصلاة ؛ وإذا كبر للركوع ؛ وإذا رفع رأسه من الركوع ويكون رفعه في كل واحدة من هذه الثلاث حذو منكبيه ؛ ويثبت يديه مرفوعتين حتى يفرغ من التكبير كله ويكون مع افتتاح التكبير ، ورد يديه عن الرفع مع انقضائه .كتاب الأم ، باب رفع اليدين في التكبير في الصلاة ۔

حنابلہ کے نزدیک بهی رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین سنت ہے : ⬇

مسألة : قال : ( ويرفع يديه كرفعه الأول ) يعني يرفعهما إلى حذو منكبيه ، أو إلى فروع أذنيه ، كفعله عند تكبيرة الإحرام ، ويكون ابتداء رفعه عند ابتداء تكبيره ، وانتهاؤه عند انتهائه .كتاب المُغني لإبن قدامة الحنبلي ، كتاب الصلاة ، باب صفة الصلاة ۔

احناف کے نزدیک رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین خلافِ اولیٰ ہے یعنی بہتر نہیں ہے : ⬇

فتاوی شامی میں ہے : قوله إلا في سبع أشار إلى أنه لا يرفع عند تكبيرات الانتقالات ، خلافا للشافعي وأحمد ، فيكره عندنا ولا يفسد الصلاة الخرد المحتار على الدر المختار ، كتاب الصلاة ، فصل في بيان تأليف الصلاة إلى انتهائها ۔

مالکیہ کے نزدیک بهی رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین مکروه وخلاف اولی ہے ، مذهب مالکیہ کی مستند کتاب المدونة الكبرى میں ہے : ففي المدونة الكبرى قال الإمام مالك: (لا أعرف رفع اليدين في شيء من تكبير الصلاة، لا في خفض ولا في رفع إلا في افتتاح الصلاة، يرفع يديه شيئا خفيفا، والمرأة في ذلك بمنزلة الرجل)، قال ابن القاسم : (كان رفع اليدين ضعيفا إلا في تكبيرة الإحرام ) (المدونة الكبرى للإمام مالك جلد 1 صفحہ 107 دار الفكر بيروت)

امام مالك رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں کہ میں نمازکی تکبیرات میں کسی جگہ رفع اليدين نہیں جانتا نہ رکوع میں جاتے وقت اور نہ رکوع سے اٹهتے وقت مگر صرف نمازکے شروع میں تکبیر تحریمہ کے وقت ، امام مالک کے صاحب وشاگرد ابن القاسم فرماتے ہیں کہ رفع اليدين کرنا ضعیف ہے مگر صرف تکبیرتحریمہ میں ۔

امام مالك رحمۃ الله علیہ کے الفاظ پر ذرا غور کریں لا أعرف یعنی میں نہیں جانتا تکبیر تحریمہ کے علاوه رفع یدین کرنا الخیاد رہے کہ کتاب المُدَونة الكبرى فقہ مالكي کی اصل وبنیاد ہے دیگرتمام کتابوں پرمقدم ہے اور مُوطأ الإمام مالك کے بعد اس کا دوسرا نمبرہے اوراکثر علماء المالكية کی جانب سے اس کتاب المدونة کو تلقی بالقبول حاصل ہے اور فتاوی کے باب میں بهی علماء المالكية کا اسی پراعتماد ہے اور روایت و درجہ کے اعتبارسے سب سے أصدق وأعلى کتاب ہےعلامہ ابن رشد المالکی نے بهی یہی تصریح کی ہے اور فرمایا کہ رفع یدین میں اختلاف کا سبب دراصل اس باب میں وارد شده مختلف روایات کی وجہ سے ہے یعنی چونکہ روایات مختلف ہیں لہذا ائمہ مجتہدین کا عمل بهی ہوگا .اهــ لہذا جولوگ یہ کہتے ہیں کہ رفع یدین نہ کرنے والوں کی نماز غلط ہے توایسے لوگ جاہل وکاذب ہیں ۔

وأما اختلافهم في المواضع التي ترفع فيها فذهب أهل الكوفة أبو حنيفة وسفيان الثوري وسائر فقهائهم إلى أنه لا يرفع المصلي يديه إلا عند تكبيرة الإحرام فقط، وهي رواية ابن القاسم عن مالك " الی ان قال " والسبب في هذا الاختلاف كله اختلاف الآثار الواردة في ذلك الخبداية المجتهد ، كتاب الصلاة ، للعلامه ابن رُشد المالکی ۔

علامہ عبد الرحمن الجزيري رحمۃ الله علیہ نے بهی یہی تصریح کی ہے کہ مالکیہ کے نزدیک رفع یدین دونوں کندہوں تک تکبیرتحریمہ کے وقت مستحب ہے اس کے علاوه مکروه ہے ۔ المالكية قالوا : رفع اليدين حذو المنكبين عند تكبيرة الاحرام مندوب، وفيما عدا ذلك مكروه الخ ۔ (الفقه على المذاهب الاربعة ' لعبد الرحمن الجزيري ' الجزء الاولكتاب الصلاة باب رفع اليدين،چشتی)

شافعيه کے نزدیک رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین سنت ہے ، امام شافعي رحمۃ الله علیہ كى كتاب الأم میں یہی تصریح موجود ہے اوردیگرعلماء شافعیه کا بهی یہی مذهب ہے ۔

قال سألت الشافعي : أين ترفع الأيدي في الصلاة ؟ قال : يرفع المصلي يديه في أول ركعة ثلاث مرات، وفيما سواها من الصلاة مرتين مرتين يرفع يديه حين يفتتح الصلاة مع تكبيرة الافتتاح حذو منكبيه ويفعل ذلك عند تكبيرة الركوع وعند قوله " سمع الله لمن حمده " حين يرفع رأسه من الركوع ولا تكبيرة للافتتاح إلا في الأول وفي كل ركعة تكبير ركوع، وقول سمع الله لمن حمده عند رفع رأسه من الركوع فيرفع يديه في هذين الموضعين في كل صلاة الخكتاب الأم ، باب رفع اليدين في الصلاةقال الشافعي ) وبهذا نقول فنأمر كل مصل إماما ، أو مأموما ، أو منفردا ؛ رجلا ، أو امرأة ؛ أن يرفع يديه إذا افتتح الصلاة ؛ وإذا كبر للركوع ؛ وإذا رفع رأسه من الركوع ويكون رفعه في كل واحدة من هذه الثلاث حذو منكبيه ؛ ويثبت يديه مرفوعتين حتى يفرغ من التكبير كله ويكون مع افتتاح التكبير ، ورد يديه عن الرفع مع انقضائه .كتاب الأم ، باب رفع اليدين في التكبير في الصلاة ۔

حنابلہ کے نزدیک بهی رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین سنت ہے ۔ مسألة : قال : ( ويرفع يديه كرفعه الأول ) يعني يرفعهما إلى حذو منكبيه ، أو إلى فروع أذنيه ، كفعله عند تكبيرة الإحرام ، ويكون ابتداء رفعه عند ابتداء تكبيره ، وانتهاؤه عند انتهائه ۔ (كتاب المُغني لإبن قدامة الحنبلي كتاب الصلاة باب صفة الصلاة)

مسئلہ رفع یدین اور غیر مقلدوں کے آپس میں اختلافات : ⬇

شیخ الکل غیر مقلدین مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلوی اپنے فتاویٰ نذیریہ لکھتے ہیں کہ : رفع یدین میں جھگڑاکرنا تعصب اور جہالت کی بات ہے ، کیونکہ آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے دونوں ثابت ہیں ، دلائل دونوں طرف ہیں۔اسی کتاب میں کہتے ہیں کہ رفع یدین کا ثبوت اور عدم ثبوت دونو مروی ہے . اور امام ابن حزم نے اس حدیث کو صحیح کہا اور امام ترمذی نے حسن کہا ۔ (فتاویٰ نذیریہ جلد 1 صفحہ 444)

غیر مقلدین کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں کہ : ہمارا مذہب ہے کہ رفع یدین کرنا مستحب امر ہے جس کے کرنے سے ثواب ملتا ہے اور نہ کرنے سے نماز میں کوئی خلل نہیں ہوتا . (فتاوی ثنائیہ جلد 1 صفحہ 579)

اسی کتاب میں کہتے ہیں کہ ترک رفع ترک ثواب ہے ترک فعل سنت نہیں . (فتاوی ثنائیہ جلد 1 صفحہ 608)

غیر مقلد وہابی علماء اپنے فتوے میں لکھتے ہیں : رفع یدین نہ کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی آخری عمر مبارک کا عمل ہے اور رفع یدین نہ کرنے والے کے پیچھے نماز ناجائز کہنے والا جاہل اور اسرارِ شریعت سے محروم ہے ۔ (فتاوے علمائے حدیث جلد 3 صفحہ نمبر 306)

غیر مقلدین کے مجدد و مجتہد جناب نواب صدیق حسن خاں شاہ ولی اللہ صاحب سے نقل کرتے ہوے فرماتے ہیں ۔ رفع یدین و عدم رفع یدین نماز کے ان افعال میں سے ہے جن کو آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے کبھی کیا ہے اور کبھی نہیں کیا ہے ، اور سب سنت ہے ، دونوں بات کی دلیل ہے ، حق میرے نزدیک یہ ہے کہ دونوں سنت ہیں ۔ (روضہ الندیہ صفحہ 148) ۔ اور اسی کتاب میں اسماعیل دہلوی کا یہ قول بھی نقل کرتے ہیں ولا یلام تارکہ و ان ترکہ مد عمرہ (صفحہ 150) ۔ یعنی رفع یدین کے چھوڑنے والے کو ملامت نہیں کی جاے گی اگرچہ پوری زندگی وہ رفع یدین نہ کرے ۔

غیر مقلدین کے امام علامہ ابن تیمیہ فتاوی ابن تیمیہ جلد 22 صفحہ 253 پرلکھتے ہیں : سوائ رفع او لم یرفع یدیہ لا یقدح ذلک فی صلاتہم ولا یبطلہا ، لا عند ابی حنیفۃ ولا الشافئی ، ولا مالک ولا احمد ، ولو رفع الامام دون الماموم او الماموم دون الامام لم یقدح ذلک فی صلاۃ واحد منہما ۔
ترجمہ : اگر کسی رفع یدین کیا یا نہ کیا تو اس کی نماز میں کوئی نقص نہیں ، امام ابو حنیفہ ، امام شافعی امام احمد اور امام مالک کسی کے یہاں بھی نہیں ۔اسی طرح امام اور مقتدی مین سے کسی ایک نے کیا تب بھی کوئی نقص نہیں ۔

وہابیوں کے امام شیخ عبدالعزیز ابن باز سابق مفتی اعظم سعودی عرب لکھتے ہیں : السنة رفع اليدين عند الإحرام وعند الركوع وعند الرفع منه وعند القيام إلى الثالثة بعد التشهد الأول لثبوت ذلك عن النبي صلى الله عليه وسلم , وليس ذلك واجبا بل سنة فعله المصطفى صلى الله عليه وسلم وفعله خلفاؤه الراشدون وهو المنقول عن أصحابه صلى الله عليه وسلم , فالسنة للمؤمن أن يفعل ذلك في جميع الصلوات وهكذا المؤمنة ۔ ۔ ۔ كله مستحب وسنة وليس بواجب , ولو صلى ولم يرفع صحت صلاته ۔
ترجمہ : تکبیر تحریمہ کہتے وقت ، رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھنے کے بعد، اور پہلے تشھد کے بعد تیسری رکعت کے لیے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا سنت ہے کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے اس کا کرنا ثابت ہے۔ لیکن یہ واجب نہیں سنت ہے۔ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ، خلفائے راشدین اور صحابہ کا اس پر عمل رہا ہے ، پس ہر مومن مرد و عورت کو اپنی تمام نمازوں میں اسے اپنانا چاہیے ۔۔۔۔ لیکن یہ سب مستحب اور سنت ہے ، واجب نہیں ہے ۔ اگر کوئی شخص رفع الیدین کے بغیر نماز پڑھے تو اس کی نماز درست ہے ۔ (مجموع فتاوٰی بن باز جلد 11 ص 156)

نائب مفتی اعظم سعودی عرب شیخ محمد بن صالح العثیمین کا کہنا ہے : وهذا الرفع سنة، إذا فعله الإنسان كان أكمل لصلاته، وإن لم يفعله لا تبطل صلاته، لكن يفوته أجر هذه السنة ۔
ترجمہ : رفع الیدین کرنا سنت ہے ، اسے کرنے والا انسان اپنی نماز مکمل ترین صورت میں ادا کرتا ہے ۔ اگر کوئی اسے چھوڑ دے تو اس کی نماز باطل نہیں ہوتی لیکن وہ اس سنت کے اجر سے محروم رہ جاتا ہے ۔ (مجموع فتاویٰ و رسائل العثمین جلد 13 صفحہ 169)

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اور سجدوں میں جاتے وقت رفع یدین کرنا : ⏬

غیر مقلدین سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ غیر مقلدین سجدوں کی رفع یدین کیوں نہیں کرتے ؟ جبکہ سجدوں میں جاتے وقت کا رفع یدین 10 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے ۔ غیر مقلدین کے مانے ہوئے اور مستند شدہ محقق اور محدث ناصر الدین البانی لکھتے ہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی سجدہ میں جاتے وقت بھی رفع یدین کرتے تھے ۔ یہ رفع یدین 10 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے اور ابن عمر، ابن عباس رضی اللہ عنہم اور حسن بصری، طاؤس، ابن عمر رضی اللہ عنہ کے غلام نافع ، سالم بن نافع، قاسم بن محمد، عبداللہ بن دینار، اور عطاء اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ عبدالرحمٰن بن مھدی نے اس کو سنت کہا ہے اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس پہ عمل کیا ہے، امام مالک رح اور امام شافعی رح کا بھی ایک قول یہی ہے ۔ ( نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ناصر الدین البانی صفحہ 131،چشتی)

جب سجدوں کا رفع یدین حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ ساتھ دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سےصحیح سند کے ساتھ غیر مقلدین کے تصدیق شدہ محقق کی تصریح کے ساتھ ثابت ہے تو غیر مقلد ان صحیح احادیث پہ عمل کیوں نہیں کرتے ؟

یہ وہی عبداللہ ابن عمر رضی اللہ ہیں جن سے غیر مقلدین اپنی رفع یدین کی حدیث روایت کرتے ہیں ۔

یہاں غیرمقلد وہابیوں کے امام و ممدوح شیخ ناصر الدین البانی نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سجدوں سے سر اٹھاتے وقت کا رفع یدین صحیح سند سے ثابت کیا ۔ غیر مقلدین سجدوں میں جاتے وقت اور سر اٹھاتے وقت رفع یدین کیوں نہیں کرتے ؟


اکثر اوقات رفع الیدین کے قائل غیرمقلدین کہتے ہیں کہ ترکِ رفع الیدین پر کوئی صحیح روایت نہیں ہے ۔ اگرچہ یہ فروعی مسئلہ ہے جیسا کہ ہم پہلے حصوں میں عرض کر چکے ہیں ہیں ہیں ، اس سے عقیدے پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ کسی کی نماز کا قبول ہونا رفع الیدین کرنے یا نہ کرنے پر مشروط نہیں ہے ۔ لیکن اس فروعی مسئلے کی بنیاد پر کسی دوسرے پر فتوی بازی کرنا غلط ضرور ہے ۔ ہمارا مقصد فقط اتنا ہے کہ احباب کو معلوم ہو جائے کہ ترکِ رفع الیدین پر صحیح روایات بھی موجود ہیں ۔ لہٰذا اگر کوئی رفع الیدین نہيں کر رہا تو وہ بھی صحیح حدیث پر ہی عمل کر رہا ہے : (أبو حنيفة) (عن) حماد (عن) إبراهيم (عن) الأسود أن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه كان يرفع يديه في أول التكبير ثم لا يعود إلى شيء من ذلك ويأثر ذلك عن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ۔

ترجمہ : حضرت سیدنا امام ابو حنیفہ حماد سے ، وہ ابراہیم سے وہ اسود سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم صرف پہلی تکبیر میں رفع یدین کرتے تھے پھر اس کو لوٹاتے نہیں تھے اور وہ (حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) اس عمل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل سے ثابت کرتے تھے ۔


اس روایت کی سند امام بخاری و مسلم علیہما الرّحمہ کے اصول پر صحیح ہے ۔ سند میں موجود تمام راوی بخاری و مسلم سمیت دیگر محدثین کے رواۃ میں شامل ہيں ، اگر ان کو ضعیف تسلیم کر لیا جائے تو پھر اس ضعف کا حکم اس راوی کی تمام روایات پر لاگو ہو گا ، نتیجہ نکلے گا کہ ان راویوں کی تمام احادیث ضعیف ہیں ۔ ایک اور اصول ، اور یہ متفقہ اصول ہے کہ جس راوی کی تعدیل بیان کی جائے تو اس پر بحث نہیں ہو گی کہ تعدیل کیوں ہے ، اگر جرح ہو ، راوی کو ضعیف کہا جائے تو پھر بحث ہو گی کہ ضعف کیا ہے اور جرح کی وجہ کیا ہے ۔ راوی کے صحیح ہونے کے لئےفقط اتنا کافی ہے کہ آئمہ اس کی تعدیل بیان کر دیں ۔ یہ متفقہ اصول ہے، کسی کے ہاں اختلاف نہیں ۔


امام ابو حنیفہ نے حماد رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ، حماد کون ہیں ، ملاحظہ فرمائيں : حَمَّادُ بنُ أَبِي سُلَيْمَانَ مُسْلِمٍ الكُوْفِيُّ العَلاَّمَةُ ، الإِمَامُ، فَقِيْهُ العِرَاقِ، أَبُو إِسْمَاعِيْلَ بنُ مُسْلِمٍ الكُوْفِيُّ، أَصْلُهُ مِنْ أَصْبَهَانَ ۔


رَوَى عَنْ : أَنَسِ بنِ مَالِكٍ ۔


وَحَدَّثَ أَيْضاً عَنْ : أَبِي وَائِلٍ، وَزَيْدِ بنِ وَهْبٍ، وَسَعِيْدِ بنِ المُسَيِّبِ، وَعَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، وَجَمَاعَةٍ.


وَأَكْبَرُ شَيْخٍ لَهُ: أَنَسُ بنُ مَالِكٍ


حماد بن ابو سلیمان مسلم الکوفی ۔


العلامہ، الامام، فقیہ العراق، ابو اسماعیل بن مسلم الکوفی، یہ اصل میں اصبہان سے تھے ۔


حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کرتے ہیں ۔ (یعنی تابعین میں سے ہیں اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں) ۔ اسی طرح ابو وائل ، زید بن وھب ، سعید بن المسیب، عامر الشعبی اور ایک بڑی جماعت (کبائر تابعین ) سے حدیث روایت کرتے ہیں ۔ ان کے سب سے بڑے شیخ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (الكتاب : سير أعلام النبلاء ، المؤلف : شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى : 748هـ)۔(المحقق : مجموعة من المحققين بإشراف الشيخ شعيب الأرناؤوط، الناشر : مؤسسة الرسالة، الطبعة : الثالثة ، 1405 هـ / 1985 م جلد: 5، صفحہ: 231)


یہ وہ امام ہیں جن سے امام سفیان ثوری جیسے محدثین نے حدیث روایت کی ہے ۔


سعودی عرب کے تیار کردہ اسماء الرجال کے انسائیکلوپیڈیا (رواۃ التھذبین) کے مطابق :


(البخاري في الأدب المفرد – مسلم – أبو داود – الترمذي – النسائي – ابن ماجه)


رتبته عند ابن حجر : فقيه صدوق


رتبته عند الذهبي : ثقة إمام مجتهد


ان سے امام بخاری نے ادب المفرد میں ، امام مسلم نے، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ علیہمالرّحمہ نے روایات لی ہیں ۔ (باقی آئمہ کی لسٹ آگے درج ہے)


امام ابن حجر عسقلانی نے ان کو فقیہ ، صدوق (سچا ترین) لکھا ۔ امام ذہبی نے ان کو ثقہ اور امام مجتھد لکھا ۔


خود امام بخاری نے اسماء الرجال لکھتے وقت اپنی کتاب التاریخ الکبیر میں تابعین میں 75 نمبر پر ان کو رکھا، اور ان کی تعدیل فرمائي۔ ملاحظہ فرمائيں : حَماد بن أَبي سُليمان، وهو حَماد بْن مُسْلِم.سَمِعَ أَنسًا، وإبراهيم، سَمِعَ منه الثَّوريّ، وشُعبة.قَالَ أَبو نُعَيم: مات سنة عشرين ومئة.هو مَولَى آل أَبِي مُوسَى.أَبُو إِسْمَاعِيل، كَنّاهُ مُوسَى بْن إِسْمَاعِيل.وقَالَ سُليمان بْن حَرب: حدَّثنا حَماد بْن زَيْد، عَنْ شُعَيب بْن الحبحاب، قال: سَمِعتُ إِبْرَاهِيم يَقُولُ: لقد سألني هذا، يَعني حَمادًا، مثل ما سألني جميعُ الناس.وقال عَمرو بْن مُحَمد: سَمعت عَمرو بْن عثمان يَقُولُ: سَمعت عُبَيد اللهِ بْن عَمرو: مات حَماد بن أَبي سُليمان سنة تسع عشرة ومئة.(التاریخ الکبیر، مصنف: امام بخاری، جلد 3، صفحہ 18)


امام ابن سعد نے الطبقات الکبری جلد 3، صفحہ 324 پر ان کی تعدیل فرمائي اور ان کو فقیہ، محدث لکھا، حلال و حرام کے علم کا ماہر لکھا ۔


امام ابن حبان جو بخاری و مسلم کے شیوخ میں سے ہیں، انہوں نے حماد بن ابی سلیمان کو مشاهير علماء الأمصار وأعلام فقهاء الأقطار میں تعدیل کے ساتھ لکھا ۔


امام ذہبی نے لکھا کہ : حماد بن أبى سليمان الكوفي، أحد أئمة الفقهاء.سمع أنس بن مالك، وتفقه بإبراهيم النخعي.روى عنه سفيان، وشعبة، وأبو حنيفة، وخلق.


حماد بن ابی سلیمان الکوفی آئمہ فقہاء میں سے ہیں، انس بن مالک سے سماع کیا یعنی حدیث پڑھی اور ابراہیم نخعی سے فقہ پڑھی، سفیان ثوری، شعبہ اور ابو حنیفہ کے علاوہ بڑے طبقے نے ان سے روایت کیا۔ اور یہ شعبہ وہ ہیں جو امام بخاری و مسلم کے مشترکہ استاد ہیں، اور دونوں شعبہ سے روایت کرتے ہیں ۔ (ميزان الاعتدال في نقد الرجال، المؤلف: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي المتوفى: 748هـ)(تحقيق : علي محمد البجاوي، الناشر: دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت – لبنان الطبعة: الأولى، 1382 هـ – 1963 م، جلد: 1، صفحہ: 595،چشتی)


آج کل غیرمقلدین کے نزدیک سب سے اہم حوالہ شیخ ناصر الدین البانی کا ہے ۔ امام بخاری کی الادب المفرد کی تخریج کرتے ہوئے شیخ البانی نے بھی حماد کی اسناد والی حدیث کو صحیح قرار دیا ۔ اگر ان میں کوئی ضعف ہوتا تو سند کو صحیح قرار نہيں دیا جا سکتا تھا ۔ (الادب المفردحدیث نمبر 1206، 1104)


لہٰذا یہ تو ثابت ہوا کہ حماد بن ابی سلیمان ثقہ، صادق، عادل، حافظ راوی ہیں، محدث ہیں، امام ہیں، فقیہ ہیں۔ دنیا کے کسی محدث نے ان پر جرح نہيں کی بلکہ آئمہ نے ان کے نام کے ساتھ لا یحتج لکھا یعنی ان پر کبھی احتجاج (یعنی جرح) نہیں ہوئی، سب آئمہ ان کی ثقاہت پر گواہ ہیں۔


رہی اس حدیث میں باقی سند (عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ) کی بات تو وہ سند بعینہ بخاری ومسلم میں موجود ہے۔ اگر باقی سند میں سے ایک پر بھی ضعیف تو دور ہلکا سا بھی شبہ ہوتا تو حسن درجے کی سند ہوتی۔ اور بخاری ومسلم کی اسناد پر علماء کا اجماع ہے۔ بخاری ومسلم کے رجال پر بھی پر اتفاق ہے۔ باقی سند بعینہ بخاری ومسلم میں 82 جگہ پر موجود ہے۔ 42 روایات امام بخاری کی ہیں اور 40 روایات امام مسلم کی ہیں۔


نتیجہ یہ نکلا کہ حماد عن ابراہیم عن الاسود یہ ایسی سند ہے جو بخاری و مسلم کی شرائط اور تمام آئمہ کرام کے اتفاق کے ساتھ صحیح ہے۔ اس سے اوپر عبد اللہ بن مسعود ہیں۔ اور وہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں۔ ان پر جرح ممکن نہیں۔


لہٰذا ابو حنیفہ عن حماد عن ابراہیم عن الاسود (ان) عبد اللہ بن مسعود کی سند صحیح ترین سند ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عبد اللہ بن مسعود کی روایت امام ابوداؤد تک پہنچتے پہنچتے کسی اور راوی کی وجہ سے حسن درجے میں آگئی ۔


اب محدثین کے ہاں اصول ہے کہ جب کوئی حدیث کسی صحابی سے صحیح ثابت ہو جائے اور اسی صحابی سے آگے روایت کرنے والے کسی دوسرے محدث تک اس کی سند صحیح نہ ہو، حسن یا ضعیف ہو تو اس حسن یا ضعیف سند کی وجہ سے ترک نہیں کریں گے بلکہ پہلی ثابت شدہ صحیح حدیث کی بنیاد پر اسی کو صحیح تسلیم کیا جائے گا۔ اور اس پر بھی اصول حدیث کا اتفاق ہے۔ جہاں تک ایک سند صحیح ثابت ہو جائے تو اس کی بنیاد پر اسی متن کی دوسری اسناد کو صحیح تسلیم کیا جائے گا اگرچہ باقی راویوں کا ضعف موجود ہو۔ تو ممکن ہے کہ ایک روایت کسی کتاب میں ضعیف ہو، حسن ہو، لیکن وہ ہی روایت کسی دوسری سند سے صحیح ہو، یا کسی دوسرے محدث کے ہاں سند کے تھوڑے سے اختلاف سے اوپر جا کر صحیح ہو جائے۔


لہٰذا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی تمام روایات محدثین کے اس اصول پر صحیح ثابت ہوں گی۔ اور خاص طور پر امام اعظم کے پاس تو جو سند ہے وہ تو مکمل طور پر صحیح ہے ۔ اسی طرح امام مالک کی اسناد صحیح ہیں ۔ رفع یدین کی باقی بحث : (شرح صحیح مسلم شریف۔ جلد : اول۔ صفحہ: 1104،چشتی)(فتاوی رضویہ شریف۔ جلد: دوم۔ صفحہ: 153) میں دیکھیں ۔


دیگر روایات : قال البخاري، اخبرنا محمود بن غيلان المروزي قال: حدثنا وكيع قال: حدثنا سفيان، عن عاصم بن كليب، عن عبد الرحمن بن الاسود، عن علقمة، عن عبد الله انه قال:” الا اصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى فلم يرفع يديه إلا مرة واحدة”.


عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ پڑھاؤں؟ چنانچہ انہوں نے ہمیں نماز پڑھائی، تو انہوں نے صرف ایک بار رفع یدین کیا۔قال الشيخ الألباني : صحيح (سنن نسائی، كتاب التطبيق، باب: الرُّخْصَةِ فِي تَرْكِ ذَلِكَ)


حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن عاصم يعني ابن كليب، عن عبد الرحمن بن الاسود، عن علقمة، قال عبد الله بن مسعود:” الا اصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: فصلى، فلم يرفع يديه إلا مرة”، قال ابو داود: هذا حديث مختصر من حديث طويل وليس هو بصحيح على هذا اللفظ.


علقمہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ پڑھاؤں؟ علقمہ کہتے ہیں: پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی، تو رفع یدین صرف ایک بار (نماز شروع کرتے وقت) کیا ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ ایک طویل حدیث سے ماخوذ ایک مختصر ٹکڑا ہے، اور یہ حدیث اس لفظ کے ساتھ صحیح نہیں۔(سنن الترمذی/الصلاة 79 (257)، سنن النسائی/الافتتاح 87 (1027)، التطبیق 20 (1059)، (تحفة الأشراف: 9468)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/388، 441)، وقد أخرجہ البخاري في رفع الیدین،چشتی).(قال الشيخ الألباني: صحيح.سنن ابی داؤد، أبواب تفريع استفتاح الصلاة، باب مَنْ لَمْ يَذْكُرِ الرَّفْعَ عِنْدَ الرُّكُوعِ)


اخبرنا سويد بن نصر، قال: انبانا عبد الله بن المبارك، عن سفيان، عن عاصم بن كليب، عن عبد الرحمن بن الاسود، عن علقمة، عن عبد الله، قال:” الا اخبركم بصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فقام فرفع يديه اول مرة، ثم لم يعد”.


عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ بتاؤں؟ چنانچہ وہ کھڑے ہوئے اور پہلی بار اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا، پھر انہوں نے دوبارہ ایسا نہیں کیا۔(سنن ابی داود/الصلاة 119 (748، 751)، سنن الترمذی/الصلاة 76 (257)، (تحفة الأشراف: 9468)، مسند احمد 1/388، 441، 442، ویأتی عند المؤلف برقم: 1059 (صحیح) . (قال الشيخ الألباني: صحيح سنن نسائی، باب سجود القرآن، بَابُ : تَرْكِ ذَلِكَ)


حدثنا عبد الله بن محمد الزهري، حدثنا سفيان، عن يزيد، نحو حديث شريك، لم يقل: ثم لا يعود، قال سفيان، قال لنا بالكوفة بعد: ثم لا يعود، قال ابو داود، وروى هذا الحديث هشيم، وخالد، وابن إدريس، عن يزيد لم يذكروا: ثم لا يعود.


اس طریق سے بھی سفیان سے یہی حدیث گذشتہ سند سے مروی ہے، اس میں ہے کہ ”آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو پہلی دفعہ اٹھایا“، اور بعض لوگوں کی روایت میں ہے کہ ”ایک بار اٹھایا“۔(انظر حدیث رقم: (748)، (تحفة الأشراف: 9468) (صحیح)(قال الشيخ الألباني: صحيح سنن ابی داؤد، أبواب تفريع استفتاح الصلاة، باب: باب مَنْ لَمْ يَذْكُرِ الرَّفْعَ عِنْدَ الرُّكُوعِ)


حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَكٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، «أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ التَّكْبِيرِ، ثُمَّ لَا يَرْفَعُهُمَا . (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الصلوۃ، باب: من کان یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لا یعود، حدیث نمبر: 2444)


امام ابن ابی شیبہ نے پورا باب باندھا ہے جس کا عنوان ہے: مَنْ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ ثُمَّ لَا يَعُودُ، اور یہ وہ امام ابن ابی شیبہ ہیں جو امام بخاری کے استاد ہیں، امام بخاری نے صحیح بخاری ميں ان سے اخذ روایت کیا ہے۔


امام ابن ابی شیبہ رحمة اللہ علیہ نے اس باب میں 16 روایات لکھی ہیں ۔ مذکورہ بالا روایت میں تین راوی ہیں ، تینوں بخاری کے رجال میں سے ہیں ۔


کوفہ کے جمہور فقھاء و محدثین علیہم الرحمہ کا رفع الیدین نہ کرنا   امام ابو نعیم اپنی کتاب الحلیہ میں یک روایت بیان کرتےہیں : حدثنا أبو بكر بن مالك، ثنا عبد الله بن أحمد، حدثني الأشج قال : سمعت أبا بكر بن عياش، يقول: «رأيت منصور بن المعتمر إذا قام في الصلاة وقد عقد لحيته في صدره»


امام ابو بکر ابن عیاش فرماتے ہیں : امام منصور بن معتمر نماز میں جب قیام کرتے تو سر جھکا کر داڑھی کو سینے پر جما لیتے ۔ [حلیہ الاولیاء جلد 5 صفحہ 40 سند صحیح]


اس کے بعد ایک روایت امام سفیان الثوری سے بیان کرتے ہیں : حدثنا أحمد بن جعفر بن حمدان ، ثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل، حدثني أبي، ثنا أبو معاوية الغلابي، ثنا يحيى بن سعيد، عن الثوري قال: لو رأيت منصورا يصلي لقلت: يموت الساعة “


امام سفیان الثوریؒ امام یحییٰ بن سعید سے فرماتے ہیں : اگر امام منصور بن معتمر کو نماز پڑھتا دیکھ لیتے تو کہتے بس یہ ابھی انتقال کر جائیں گے ۔ [حلیہ الاولیاء جلد5 ، ص 40و سند صحیح]


امام منصور بن معتبر کوفہ کے جید محدثین اور فقھاء میں سے ایک تھے


جیسا کہ امام ذھبی سیر اعلام میں فرماتے ہیں : منصور بن المعتمر أبو عتاب السلمي


الحافظ، الثبت، القدوة، أبو عتاب السلمي، الكوفي، أحد الأعلام.


ان کے شیوخ کے بارے ذکر کرتے ہوئے امام ذھبی فرماتے ہیں : قلت: يروي عن: أبي وائل، وربعي بن حراش، وإبراهيم النخعي، وخيثمة بن عبد الرحمن، وهلال بن يساف، وزيد بن وهب، وذر بن عبد الله، وكريب، وأبي الضحى، وأبي صالح باذام، وأبي حازم الأشجعي، وسعيد بن جبير، وعامر الشعبي، ومجاهد، وعبد الله بن مرة، وطبقتهم.


میں کہتا ہوں انہوں نے


حضرت ابی وائل ، ربیع بن خراش


حضرت ابراہیم النعی


حضرت امام خثیمہ


حضرت ابی حازم


حضرت سعید بن جبیر


امام شعبی


امام مجاہد وغیرہم سے بیان کیا ہے


یعنی کبیر تابعین ان کے شیوخ تھے اور حضرت امام معتمر کی نماز کے بارے میں ذکر کرنے والے امام ابو بکر بن عیاش فرماتے ہیں :


حدثني ابن أبي داود قال: ثنا أحمد بن يونس , قال: ثنا أبو بكر بن عياش قال: ما رأيت فقيها قط يفعله , يرفع يديه في غير التكبيرة الأولى


امام ابو بکر بن عیاش فرماتے ہیں : میں نے کسی عالم فقیہ کو کبھی بھی تکبیر افتتاح کے علاوہ رفع الیدین کرتے نہیں پایا ۔ [شرح معانی الاثار برقم : 1367 وسند صحیح،چشتی]


اور یہی امام حضرت ابن عمر کی روایت بیان کرتے تھے : حدثنا ابن أبي داود، قال: ثنا أحمد بن يونس، قال: ثنا أبو بكر بن عياش، عن حصين، عن مجاهد، قال: «صليت خلف ابن عمر رضي الله عنهما فلم يكن يرفع يديه إلا في التكبيرة الأولى من الصلاة»


امام ابو بکر بن عیاش فرماتے ہیں حصین کے طریق سے امام مجاہد سے : وہ کہتے ہیں میں نے حضرت ابن عمر کے پیچھے نماز پڑھی وہ رفع الیدین نہیں کرتے تھے سوائے تکبیر افتتاح کے نماز میں ۔ [شرح معانی الاثار ، برقم : 1357]


ان دلائل سے ان محدثین کا رد ہوتا ہے جنہوں نے ابو بکر بن عیاش پر جرح کی ہے کہ ابن عمر سے بیان کرنے میں ابو بکر بن عیاش کو خطاء ہوئی ہے انکو اختلاط ہو گیا تھا ۔ جبکہ دلائل سے ثابت ہے کہ ابو بکر بن عیاش کا مذہب اور تدبر تھا اس مسلے پر کہ انہوں نے کسی کو رفع الیدین کرتے نہیں پایا اور وہ ابن عمر سے ترک رفع الیدین کی روایت میں کیسے وھم کھا سکتے ہیں جبکہ انکا عمل اپنی بیان کردہ روایت پر تھا اور خود امام بخاری نے اپنی صحیح میں ابن ابی داود سے ابو بکر بن عیاش کی روایات کو بطور احتجاج نقل کیا ہے روزہ کے باب میں ۔ نہ کہ متابعت میں ۔ اور حضرت ابن عمر سے ترک رفع الیدین بیان کرنے میں امام ابو بکر بن عیاش منفرد بھی نہیں ہیں


جیسا کہ ابن عمر سے ایک روایت امام محمد نے بیان کی ہے اپنی سند سے موطا میں :


قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ حَكِيمٍ، قَالَ: «رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حِذَاءَ أُذُنَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةِ افْتِتَاحِ الصَّلاةِ، وَلَمْ يَرْفَعْهُمَا فِيمَا سِوَى ذَلِكَ ۔


امام محمد فرماتے ہیں : مجھے خبر دی محمد بن ابان بن صالح انہوں نے عبدالعزیز بن حکیم سے کہ میں نے ابن عمر کو دیکھا وہ نماز میں سوائے شروع کے رفع الیدین کرنے کے بعد اسکی طرف نہ لوٹتے ۔ [موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني برقم : 108]


اب اس روایت میں مجاہد کا متابع عبدالعزیز بن حکیم ہے


اور ان سے بیان کرنے والا محمد بن ابان صالح ہے


جو ضعیف راوی ہے لیکن متابعت و شواہد میں اسکی روایت قبول ہوتی ہے


جیسا کہ متشدد امام ابی حاتم فرماتے ہیں : نا عبد الرحمن قال سألت ابى عن محمد بن أبان بن صالح فقال ليس هو بقوى الحديث يكتب حديثه على المجاز ولا يحتج به بابة حماد بن شعيب الحمانى ۔


امام ابن ابی حاتم فرماتے ہیں میں نے اپنے والد سے محمد بن ابان بن صالح کے بارے پوچھا تو فرمایا کہ یہ قوی ضبط والا نہ تھا لیکن اسکی روایت لکھی جائے (متابعت و شواہد میں ) لیکن اس سے (منفرد ہونے میں ) احتجاج نہیں کیا جائے گا ۔ [الجرح والتعدیل ]


امام بخاری کہتے ہیں کہ یہ قوی نہیں تھا


محمد بن أبان بن صالح بن عمير الجعفي: عن أبي إسحاق، وحماد بن أبي سليمان، وليس بالقوي.[الضعفاء، بخاری برقم : 326]


امام ابن عدی الکامل میں اسکے بارے فرماتے ہیں کہ : محمد بن أبان بن صالح كوفي قال الشيخ : ومحمد بن أبان له غير ما ذكرت من الحديث وفي بعض ما يرويه نكره، لا يتابع عليه ومع ضعفه يكتب حديثه.


محمد بن صالح کی میں نے روایت ذکر کی ہے اور بعض روایات میں اسکی نکارت ہے اسکے علاوہ کوئی اسکی متابعت نہیں کرتا لیکن یہ ضعیف ہے اس کی روایت لکھی جائے گی (شواہد و متابعت میں) ۔ [الکامل فی الضعفاء1631]


تو اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ امام محمد بن الحسن کا شیخ محمد بن صالح کی روایت شواہد و متابعت میں قبول ہوتی ہے


حضرت بن عمر ؓ سے ترک رفع الیدین کا عمل بیان کرنے میں نہ ہی


امام مجاہد منفرد ہیں


اور نہ ہی ہی ابو بکر بن عیا ش منفرد ہے بلکہ ایک معمولی ضعیف روایت سے ابو بکر بن عیاش کی روایت کو تقویت حاصل ہے جس سے ابو بکر بن عیاش کا تفرد ختم ہو گیا اثر ابن عمر کو بیان کرنے میں اور یہ بات اصولا اب ثابت ہو گئی کہ ابو بکر بن عیاش کو نہ وہم ہو ا اور نہ ہی خطاء ہوئی ہے اس روایت کو بیان کرنے میں


اور موطا امام محمد امام محمد کی مشہور و معرروف کتاب ہے اس پر وہابیہ کا اعتراض باطل ہے


اور امام محمد بن الشیبانی ثقہ ہیں جیسا کہ امام شافعی نے ان سے مسلسل احتجاج کیا ہے


اور وہابیہ یہ بات کبھی تسلیم نہیں کرنے والے لیکن


متشدد ناقد دارقطنی کہتا ہے کہ میرے نزدیک محمد بن الحسن الشیبانی لائق ترک نہیں یعنی اس کی روایت سے احتجاج کیا جائے گا


اب وہابی اس قول کو احتجاج پر محمول کریں یا شواہد و متابعت میں دونوں صورتوں میں ان کے ہاتھ کچھ نہں لگے گا


حضرت ابن عمر سے صرف شروع میں رفع الیدین کا تیسرا اثر سند حسن و صحیح سے : حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِيُّ، ثنا ابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مُقِيمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : تُرْفَعُ الأَيْدِي فِي سَبْعِ مَوَاطِنَ : افْتِتَاحِ الصَّلاةِ، وَاسْتِقْبَالِ الْبَيْتِ، وَالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، وَالْمَوْقِفَيْنِ، وَعِنْدَ الْحَجَرِ ۔ [كشف الأستار عن زوائد البزار برقم: 519، امام ہیثمی]


وَقَالَ الْبَزَّارُ فِي مُسْنَدِهِ: حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٌ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِيُّ ثَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى عَنْ الْحَكَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: “تُرْفَعُ الْأَيْدِي فِي سَبْعَةِ مَوَاطِنَ: افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ. وَاسْتِقْبَالِ الْبَيْتِ. وَالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ. وَالْمَوْقِفَيْنِ. وَعِنْدَ الْحَجَرِ” ۔ [مسند البزار بحوالہ نصب الرائیہ] ۔ (سند حسن )


حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے : کہ نبی کریم نے فرمایا ۔ رفع الیدین سات مقامات پر کیا جائے گا نماز کے شروع میں بیت اللہ کی زیارت کے وقت صفاءو مروہ پر ، عرفات اور مزدلفہ میں وقوف کے وقت اور رمی جمار کے وقت بھی


حَدَّثَنَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تُرْفَعُ الْأَيْدِي فِي سَبْعَةِ مَوَاطِنٍ، وَفِي الْخَبَرِ وَعِنْدَ اسْتِقْبَالِ الْبَيْتِ ۔


ابن خزیمہ متن میں اضافہ بھی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر و ابن عباس سے مروی ہے رفع الیدین سات مقامات پر ہے اورایک روایت میں یہ بھی ہے کہ بیت اللہ کے وقت بھی ۔ [صحيح ابن خزيمة برقم : 2703وسند حسن کل رجال ثقات،چشتی]


اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بخاری میں جو حضرت ابن عمر سے ترک رفع الیدین کی روایت ہے ایک تو وہ موقوف ہے اور دوسری بات کہ ابن عمر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ترک رفع الیدین کی روایات پر مطلع ہوئے تو وہ بھی رفع الیدین ترک فرماگئے تھے ۔ جیسا کہ امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فَهَذَا ابْنُ عُمَرَ قَدْ رَأَى النَّبِيَّ يَرْفَعُ، ثُمَّ قَدْ تَرَكَ هُوَ الرَّفْعَ بَعْدَ النَّبِيِّ فَلاَ يَكُونُ ذَلِكَ إلَّا وَقَدْ ثَبَتَ عِنْدَهُ نَسْخُ مَا قَدْ رَأَى النَّبِيُّ فِعْلَهُ وَقَامَتْ الْحُجَّةُ عَلَيْهِ بِذَلِكَ۔ فَإِنْ قَالَ: قَائِلٌ هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ” قِيلَ لَهُ “وَمَا دَلَّك عَلَى ذَلِكَ؟ فَلَنْ تَجِدَ إلَى ذَلِكَ سَبِيلًا”۔ فَإِنْ قَالَ: فَإِنْ طَاوُسًا قَدْ ذَكَرَ أَنَّهُ رَأَى ابْنَ عُمَرَ يَفْعَلُ مَا يُوَافِقُ مَا رُوِيَ عَنْهُ، عَنْ النَّبِيِّ، مِنْ ذَلِكَ۔ قِيلَ لَهُمْ: فَقَدْ ذَكَرَ ذَلِكَ طَاوُسٌ، وَقَدْ خَالَفَهُ مُجَاهِدٌ۔ فَقَدْ يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ ابْنُ عُمَرَ فَعَلَ مَا رَآهُ طَاوُسٌ مَا يَفْعَلُهُ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ عِنْدَهُ الْحُجَّةُ بِنَسْخِهِ، ثُمَّ قَامَتْ عِنْدَهُ الْحُجَّةُ بِنَسْخِهِ فَتَرَكَهُ وَفَعَلَ مَا ذَكَرَهُ عَنْهُ مُجَاهِدٌ۔ هَكَذَا يَنْبَغِي أَنْ يُحْمَلَ مَا رُوِيَ عَنْهُمْ، وَيُنْفَى عَنْهُ الْوَهْم، حَتَّى يَتَحَقَّقَ ذَلِكَ، وَإِلَّا سَقَطَ أَكْثَرُ الرِّوَايَاتِ ۔

حضرت ابن عمر رضی ﷲ عنہما جنہوں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رفع الیدین کرتے دیکھا پھر انہوں نے ہاتھوں کااٹھانا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد چھوڑ دیا ۔ اور اس کے خلاف عمل کیایہ اس صورت میں درست ہے جبکہ ان کے ہاں اس کا نسخ ثابت ہوچکاہو، جس کو انہوں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے دیکھا تھا ۔ اور ان کے ہاں اس کےنسخ کی دلیل ثابت نہ ہوگئی ہے۔ اگرکوئی یہ اعتراض کرے کہ یہ روایت سرے سے منکرہے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا ، آپ کوکس نے بتلایا؟ آپ کے لئے اس کے منکرقرار دینے کی کوئی صورت نہیں ۔ اگر کوئی یہ کہےکہ طاؤس نےابن عمر رضی ﷲ عنہ کووہ فعل کرتے دیکھا جو اس روایت کے موافق ہے جو انہوں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کی ، تو جواب میں یہ کہا جائے گا کہ طاؤس نے یہ بات ذکر کی ہے مگر مجاہد نے ان کی مخالفت کی ہے ۔ تو اب یہ کہنا درست ہوا کہ طاؤس نے ابن عمر رضی ﷲ عنہما کے اس وقت کے عمل کو دیکھا جب ان کے سامنے نسخ کے دلائل نہ آئےتھے ، پھر جب ان کے ہاں نسخ کے دلائل قائم ہو گئے تو انہوں نے رفع الیدین کو ترک کر دیا اور وہی کیا جو ان سے مجاہد نے دیکھا ۔ اسی طرح مناسب یہ ہے کہ جو اُن سے مروی ہے وہ اس پر محمول کیا جائے اور وہم کی نفی کی جائے تاکہ یہ بات ثابت ہو جائے ورنہ اکثر روایات کو ساقط الاعتبار قرار دینا پڑے گا ۔ (معانی الاثار برقم : 1323،چشتی)


رفع یدین نہ کرنے والی حدیث جابر رضی اللہ عنہ پر اعتراضات کا جواب

رفع یدین نہ کرنے والی حدیث جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ پر اعتراضات کا جواب : قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ ابْنُ حِبَّا نٍ اَخْبَرَ نَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ یُوْسُفَ قَالَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدِ الْعَسْکَرِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ شُعْبَۃَ عَنْ سُلَیْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ الْمُسَیِّبَ بْنَ رَافِعٍ عَنْ تَمِیْمِ بْنِ طُرْفَۃَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَرضی اللہ عنہما عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ و سلم اَنَّہٗ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَاَبْصَرَقَوْمًا قَدْرَفَعُوْا اَیْدِیَھُمْ فَقَا لَ قَدْ رَفَعُوْھَا کَاَنَّھَااَذْنَابُ خَیْلٍ شُمُسٍ اُسْکُنُوْا فِی الصَّلَاۃِ ۔
ترجمہ : حضرت جابربن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے لوگوں کو رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : انہوں نے اپنے ہاتھوں کو شریر گھوڑوں کی دموں کی طرح اٹھایا ہےتم نماز میں سکون اختیار کرو ۔ (نماز میں رفع یدین نہ کرو) ۔ (صحیح ابن حبان جلد 3 صفحہ 178)(صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 181)

مذکورہ حدیث اپنے اندازِ استدلال اور وضاحتِ الفاظ کے ساتھ بالکل صریح ہے اور احناف کے دعویٰ عدم رفع فی الصلوۃ کو مکمل ہے ۔ ذیل میں اس روایت سے ترکِ رفع کے استدلال پر کیے گئے اعتراضات کا جائزہ لیا جاتا ہے : ⬇

اعتراض : اس حدیث میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والے رفع یدین کا ذکر نہیں ۔

جواب : ہمار ا دعویٰ ہے کہ نماز میں رفع یدین نہ کیا جائے،چاہے وہ رکوع والا ہو یا سجود والا۔حدیث کے الفاظ پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو نماز میں رفع یدین کرتے دیکھا تو فرمایا: اسکنوا فی الصلوۃ(نماز میں سکون اختیار کرو)اس سے مذکورہ رفع یدین کی نفی ہوجاتی ہے۔جیسا کہ مشہور محدثین مثلاً علامہ زیلعی اور علامہ بدرالدین عینی نے تصریح کی ہے۔یہ حضرات فرماتے ہیں:

انما یقال ذلک لمن یرفع یدیہ فی اثناء الصلوۃ وہو حالۃ الرکوع او السجود ونحو ذالک ۔ (نصب الرایہ للزیلعی ج1ص472،چشتی)(شرح سنن ابی داود للعینی ج3ص29)

کہ یہ الفاظ (نماز میں سکون اختیار کرو)اس شخص کو کہے جاتے ہیں جو دوران نماز رفع یدین کر رہا ہو اور یہ حالت رکوع یا سجود وغیرہ کی ہوتی ہے۔لہذا یہ اعتراض باطل ہے۔

اعتراض : اس حدیث پر محدثین کا اجماع ہے کہ اس حدیث کا تعلق تشہد کے ساتھ ہے کیونکہ سب محدثین نے اس حدیث پر سلام کے وقت اشارہ سے منع کرنے کے ابواب باندھے ہیں۔ اور کسی محدث نے اس حدیث سے ترکِ رفع پر استدلال نہیں کیا۔

جواب : یہ حدیث اور بوقت سلام اشارہ سے منع کی حدیث دو الگ الگ احادیث ہیں، تفصیل آگے آ رہی ہے۔اس حدیث پر امام ابو داوَد نے یوں باب باندھا ہے: باب النظر فی الصلوٰۃ ۔ {ابو داوَد ص 138 ج 1}،چشتی)

امام عبدالرزاق علیہ رحمہ نے یوں باب باندھا ہے : باب رفع الیدین فی الدعاء ۔ {مصنف عبدالرزاق ص 252 ج 2}

امام بخاری کے استاد ابوبکر بن شیبہ نے یوں باب باندھا ہے: باب من کرہ رفع الیدین فی الدعاء ۔ {مصنف ابن ابی شیبہ ص 486 ج 2}

نیز قاضی عیاض مالکی علیہ رحمہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں : وقد ذکر ابن القصار ھٰذا الحدیث حجۃ فی النھی عن رفع الایدی علی روایۃ المنع من ذالک جملۃ ۔ {لا کمال العلم بفوائد مسلم ص 344 ج 2}

امام نووی علیہ رحمہ نے اپنی کتاب شرح المہذب میں فرمایا جسکا خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث سے امام ابوحنیفہ، امام سفیان ثوری ، امام ابن ابی لیلیٰ اور امام مالک علیہ رحمہم اللہ علیہم اجمعین نے ترک رفع یدین پر استدلال کیا ہے ۔ {المجموع شرح المہذب جلد 3، ص 400}

آئیے امام مسلم جن سے یہ حدیث پیش کی گئی ہے ان کے ابواب کو ذرا تفصیلاً دیکھتے ہیں:امام مسلم نے باب یوں قائم فرمایا ہے: باب الامر بالسکون فی الصلوٰۃ والنھی عن الاشارۃ بالید ورفعھا عندالسلام واتمام الصفوف الاول والیراص فیھما والامر بالاجتماع ۔

پہلا حصہ الامر بالسکون فی الصلوٰۃ، نماز میں سکون اختیار کرنے کا باب: باب کے اس حصے کے ثبوت میں یہی حدیث اسکنو فی الصلوٰۃ والی لائے ہیں ۔

دوسرا حصہ النھی عن الاشارۃ بالید ورفعھا عند السلام، سلام کے وقت ہاتھ سے اشارہ کی ممانعت: اس حصہ مکے ثبوت کے لیے دوسری حدیث لائے ہیں وانما یکفی احدکم ان یضع یدہ علی فخذہ ثم یسلم علی اخیہ من علی یمینہ وشمالہ ۔ بس تمہارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اپنا ہاتھ اپنی ران پر رکھے ، پھر اپنے دائیں بائیں والے پر سلام کرے ۔

تیسرا حصہ ہے ، واتمام الصفوف الاول والیراص فیھما والامر بالاجتماع، پہلی صفوں کو مکمل کرنا اور ان میں جڑنا اور اجتماع کے حکم کے بارے میں: اس حصے کو ثابت کرنے کے لیے تیسری حدیث لائے ہیں استووا ولا تختلفوا ۔

پس ثابت ہوا کہ سلام کا لفظ دوسری حدیث کے متعلق ہے۔ پہلی حدیث پر باب الامر بالسکون فی الصلوٰۃ ہے یعنی نماز میں سکون اختیار کرنے کاباب۔ اس کے نیچے حدیث وہی لائی گئی ہے جس مین رفع یدین کو سکون کے خلاف قرار دے کر منع فرمایا دیا گیا۔ لہٰذا جو حدیث ہم پیش کر رہے ہیں، اس پر باب الامر بالسکون فی الصلوٰۃ ہے، اس میں سلام اور تشہد کا لفظ نہیں ۔

اعتراض : یہ حدیث سلام کے وقت رفع یدین سے منع کی ہے نہ کہ رکوع جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت کی رفع یدین کے بارے میں ۔

جواب : جیسا کہ اس اعتراض سے پہلے اعتراض کے جواب میں بیان کر دیا گیا ہے کہ امام مسلم علیہ رحمہ نے اس حدیث پر نماز میں سکون اختیار کرنے کا باب باندھا ہے اور سلام کے وقت اشارے سے منع کرنے کے لیے حضرت جابر بن سمرۃ سے دوسری حدیث لائے ہیں، جس سے اس اعتراض کا سارا دم خم ختم ہو جاتا ہے۔ مگر غیر مقلدین کے اعتراضات کا مکمل مدلل جواب دیا جاتا ہے تاکہ مزید گنجائش باقی نہ رہے ان شاءاللہ تعالیٰ : پہلی روایت مین جابر بن سمرۃ رضی الہ عنہ کا شاگرد تمیم بن طرفہ ہے۔ دوسری میں جابر رضی اللہ عنہ کا شاگرد عبد اللہ بن القبطیہ ہے ۔

پہلی روایت میں ہے خرج علینا یعنی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم پر نکلے ۔ دوسری روایت میں ہے صلینا مع رسول اللہ ، یعنی ہم نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ۔

پہلی روایت میں ہے رافعی ایدیکم یعنی رفع یدین کا ذکر ہے۔ دوسری روایت میں ہے تشیرون بایدیکم تومنون بایدیکم تم اشارہ کرتے ہو۔

پہلی روایت میں سلام کا ذکر نہیں ، دوسری میں سلام کا ذکر ہے۔

پہلی روایت میں ہے اسکنو ا فی الصلوٰۃ ، یعنی نماز میں سکون اختیار کرو، دوسری روایت میں ہے انما یکفی احدکم ان یضع یدہ علی فخذہ

ان دونوں روایتوں کو غور سے دیکھا جائے تو دونوں روایتوں میں پانچ فرق نظر آتے ہیں۔ پہلی روایت میں ہے کہ ہم اکیلے نماز پڑھ رہے تھے، آپ تشریف لائے تو یہ واقعہ الگ ہوا۔ دوسری روایت میں ہے حضور صلی اللہ علپہ والہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے ، یہ واقعہ الگ ہوا۔ پہلی حدیث میں حضور صلی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رافعی ایدیکم فرما کر رفع یدین کا نام لیتے ہیں اور دوسری میں رفع یدین کا نام تک نہیں بلکہ اشارے کا لفظ ہے۔ بہرحال دونوں روایتوں کو ایک بنانا فریب اور دھوکا ہو گا نہ کہ دونوں کو دو بتانا۔ چونکہ دو واقعے الگ الگ ہیں، ہم دونوں کو الگ الگ رکھتے ہیں، ملاتے نہیں لہٰذا الگ الگ رکھنا حقیقت حال سے اگاہ کرنا ہو گا۔ حقیقت حال سے آگاہ کرنے کو اہل انصاف میں سے تو کوئی بھی دھوکہ نہیں کہتا، ہاں بے انصاف جو چاہیں کہیں۔

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

پہلی حدیث میں رفع یدین سے منع کیا گیا ہے اور دوسری میں سلام والے اشارے سے۔ ہمارا احناف کا دونوں روایتوں پر عمل ہے۔ نہ ہم رفع یدین کرتے ہیں اور نہ ہی سلام کے وقت اشارہ کرتے ہیں۔

ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب اکیلے نماز پڑھتے تھے تو بوقتِ سلام ہاتھوں کا اشارہ نہیں کرتے تھے، ہاتھوں کااشارہ اس وقت ہوتا تھا جب باجماعت نماز پڑھتے اور پہلی حدیث میں ہے خرج علینا رسول ا للہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علہ والہ وسلم ہماری طرف آئے، ہم نماز پڑھ رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ یہ نماز فرض تھی ہرگز نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم گھر ہوتے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسجد میں نماز کے لیے اتنا لمبا بیٹھے رہتے کہ کبھی نیند آنے لگتی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وقت تشریف لائے۔ وہ صحابہ رضی اللہ عنہم فرضوں کی جماعت آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس وقت تشریف لائے۔ وہ صحابہ رضی اللہ عنہ فرضوں کی جماعت آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بغیر کس طرح کرا سکتے تھے ؟ ثابت ہوا کہ نماز فرض نہیں تھی بلکہ صحابہ کرام کی انفرادی نماز تھی جو نفل یا سنن ہو سکتی ہیں۔ جب نماز جماعت والی نہیں تھی بلکہ انفرادی فعل یا سنن نفل وغیرہ نماز تھی تو اس میں سلام کے وقت اشارہ ہوتا ہی نہیں تھا تو آقا نے منع کس چیز سے کیا؟ یقیناً وہ رکوع سجدے والا رفع یدیں ہی تھا جس کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کرتے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ناراض ہوئے اور فرمایا اسکنوا فی الصلوٰۃ نماز میں سکون اختیار کرو ۔ مسلم شریف کا باب الامر فی الصلوٰۃ ج 1 ص 80 دیکھیں ، اس میں اشارے کا ذکر جس حدیث میں ہے، اس میں صلینا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہ ہم آپ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے ۔ سنن ابوداوَد باب السلام ج 1 ص 143 پر دیکھیں اور غور کریں کہ نماز باجماعت ہے اور اشارہ بھی ہے۔ جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کنا اذا صلینا خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فسلم احدانا اشار بیدہ من یمینہ ومن عن یسارہ یہاں بھی سلام کے اشارے کا جہاں ذکر ہے، وہاں جماعت کا ذکر بھی ہے۔ نسائی باب السلام بالیدین ج 1 ص 156 مع التعلیقات میں ہے صلیت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فکنا اذا سلمنا قلنا بایدینا السلام علیکم یہاں بھی جماعت کا ذکر ہے، ساتھ سلام کے اشارے کا ذکر ہے۔ یہ طحاوی شریف ج 1 ص 190 باب السلام فی الصلوٰۃ کیف ہو میں یہی جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کنا اذا صلینا خلف النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلمنا بایدینا جب ہم نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تو ہاتھوں سے سلام کرتے تھے۔ اس کے علاوہ کتاب الام للشافعی علیہ رحمہ ، مسند احمد ، بیہقی دیکھیں۔ جہاں سلام کے وقت اشارے کا لفظ ہو گا وہاں جماعت کی نماز کاذکر بھی ہو گا۔کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے اکیلے نماز ادا کی ہو اور ہاتھوں سے اشارہ بھی کیا ہو یعنی سلام کے وقت اشارہ بھی کیا ہو، موجود نہیں ہے لہٰذا اس سلام کے اشارے کا تعلق جماعت کی نماز سے ہے نہ کہ انفرادی نماز سے۔ انفرادی نماز میں صرف رکوع سجدے والا رفع یدین تھا ، ہاتھوں کا اشارہ نہیں تھا لہٰذا نفرادی نماز میں جو عمل تھا ہی نہیں ، اسے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیسے منع کر سکتے تھے۔ ہاں جو عمل تھا ، وہ رفع یدین رکوع و سجود کا تھا ، اسی سے ہی منع فرمایا ہے۔

ضمنی اعتراض : اگر اس حدیث سے ” فی الصلوٰۃ “یعنی نماز کے اندر کا رفع یدین منع ثابت ہوتا ہے تو پھر اس سے تو تکبیرِ تحریمہ والا رفع یدین بھی ختم ہو جاتا ہے۔

جواب : نماز تکبیرِ تحریمہ سے شروع ہوتی ہے اور سلام پر ختم ہوتی ہے۔ وکان یختم الصلوٰۃ بالتسلیم حدیث شریف میں آتا ہے تحریمھا التکبیر وتحلیلھا التسلمیم {ترمذی شریف ص 32} نما تکبیرِ تحریمہ سے شروع ہوتی ہے اور سلام پر ختم ہو جاتی ہے لہٰذا جس فعل سے نماز شروع ہو رہی ہے، اسے فی الصلوٰۃ نہیں کہا جاسکتا۔ ثناء فی الصلوٰۃ، تعوذ فی الصلوٰۃ، قومہ فی الصلوٰۃ، جلسہ و سجدہ فی الصلوٰۃ، سجدے والا رفع یدین فی الصلوٰۃ، تشہد فی الصلوٰۃ۔ تکبیرِ تحریمہ آغاز کا نام ہے اور نماز شروع کرنے کا طریقہ ہے۔ سلام نماز کے اختتام کا نام ہے یعنی ختم کرنے کا طریقہ ہے۔ وکان تکتم بالتسلیم ۔ (صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 195،چشتی)

جس طرح حدیث پاک سے ثا بت ہو چکا ہے۔ اب قابلِ غور بات یہ ہے کہ جب رکوع و سجدہ فی الصلوّۃ ہیں تو ان کا رفع یدین بھی فی الصلوٰۃ ہو گا لہٰذا اسکنو فی الصلوٰۃ میں نماز کے اندر والے رفع یدین سے ہی منع ثابت ہو گی نہ کہ تحریمہ والے سے کیونکہ رفع یدین بوقتِ تحریمہ فی الصلوٰۃ نہیں بلکہ فی افتتاح الصلوٰۃ ہے جس طرح ابو داوَد ج 1 ص 105 ، پر موجود ہے کہ تحریمہ والے رفع یدین کو رفع افتتاح الصلوٰۃ سے تعبیر کیا گیا ہے یا عند الدخول فی الصلوٰۃ جس طرح بخاری ج 1 ص 102 ، پر موجود ہے۔ جسطرح امام بخاری علیہ رحمہ باب باندھتے ہیں باب رفع الیدین فی التکبیرۃ الاولی مع الافتتاح یہاں لفظ مع الافتتاح تحریمہ کے رفع یدین کے لیے استعمال کیا ہے۔ اسی صفحہ 102 پر دیکھیں ، امام بخاری علیہ رحمہ کا باب الخشوع فی الصلوٰۃ۔ نماز میں خشوع کا باب اور آگے جو حدیث لاتےہیں، وہ یہ ہے اقیمو االرکوع والسجود فواللہ انی لا اراکم من بعدی اچھی طرح رکوع اور سجدہ کیا کرو میں تمہیں پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔ خشوع فی الصلوٰۃ کا باب باندھ کے پھر رکوع اور سجدہ کا بیان فرما کر بتلانا چاہتے ہیں کہ رکوع اور سجدے کا جوڑ فی الصلوٰۃ کے ساتھ ہے اور فی الصلوٰۃ کا سب سے زیادہ تعلق رکوع اور سجدے کے ساتھ ہے۔ فی الصلوٰۃ کا لفظ اکثر و بیشتر انہیں افعال و اعمال پر بولا جاتا ہے جو نماز میں تکبیرِ تحریمہ اور سلام کے درمیان ہیں، اس کی چند مثالیں دیکھئے:امام بخاری ج 1 ص 99 پر باب باندھتے ہیں اذا بکی الامام فی الصلوٰۃ، جب امام نماز میں روئے۔ امام تکبیرِ تحریمہ کے ساتھ ہی رونا شروع نہیں کر دیتا بلکہ بوقتِ تلاوت روتا ہے جس طرح ترجمہ الباب کی حدیث سے ثابت ہو رہا ہے۔ گویا رونا تحریمہ کے بعد ہوتا ہے، اسی لیے تو فی الصلوٰۃ کہا گیا ہے ۔

بخاری ج1 ص 102 پر باب ہے باب وضع الیسی الیمنی علی الیسرہ فی الصلوٰۃ ، بائیں ہاتھ پر دایاں ہاتھ رکھنا نماز میں۔ غور فرمائیں کہ ہاتھ پر ہاتھ تحریمہ کے بعد ہی رکھا جاتا ہے جس کو فی الصلوٰۃ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔

بخاری شریف ج 1 ص 103 باب البصر الی الامام فی الصلوٰۃ ، نماز میں امام کی طرف دیکھنا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ظہر اور عصر کی نماز میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ڈاڑھی مبارک کی حرکت کو دیکھ کر پہچان جاتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ظہر اور عصر کی نماز میں قراءۃ فرماتے ہیں۔ تو بوقت قراءۃ نماز میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ریش مبارک کو دیکھنا اور قراءۃ کو پہچاننا تحریمہ کے بعد ہی ہوتا تھا لہٰذا امام بخاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں رفع البصر امام کی طرف نظر اٹھانا فی الصلوٰۃ نماز کے اندر یعنی تکبیرِ تحریمہ کے بعد ۔ یہاں بھی تحریمہ کے بعد ہونے والے عمل کو فی الصلوٰۃ کہا گیا ۔

بخاری ج 1 ص 104 پر امام بخاری علیہ الرحمہ باب باندھتے ہیں باب وجوب القراءۃ للامام والماموم فی الصلوٰۃ ۔ یہاں قراءۃ فی الصلوٰۃ فرمایا یعنی قراءۃ تحریمہ کا نام نہیں بلکہ قراءۃ تحریمہ کے بعد اور سلام سے پہلے ہوتی ہے۔ اسی طرح اسکنوا افی الصلوٰۃ میں بھی منع تحریمہ والے رفع یدین سے نہیں بلکہ اس رفع یدین سے ہے جو تحریمہ کے بعد نماز میں کیا جاتا ہے ۔

مسلم شریف ج 1 ص 169 پر امام نووی علیہ رحمہ باب باندھتے ہیں۔ اثبات التکبیر فی کل خفض ورفع فی الصلوٰۃ ، نماز میں ہر اونچ نیچ پر تکبیر کا اثبات۔ اب اونچ نیچ رکوع اور سجدے میں ہوتی ہے اور یہاں رکوع و سجدہ میں اونچ نیچ کو فی الصلوٰۃ کہا گیا۔لا محالہ رکوع اور سجدے سے قبل اور بعد کی اونچ نیچ تحریمہ کے بعد اور سلام سے قبل ہے اسی لیے فی الصلوٰۃ کہا گیا یعنی نمازمیں۔ بعینٰہ اسی طرح مسلم کی ج 1 ص 181 والی اسکنو فی الصلوٰۃ والی روایت میں فی الصلوٰۃ سے مراد رفع یدین ہے جو تحریمہ کے بعد ہوتا ہے یعنی رکوع اور سجدے کے وقت ۔

مسلم شریف ج 1 ص 173 باب التشھد فی الصلوٰۃ ۔

مسلم ج 1 ص 183 باب التوسط فی القراءۃ فی الصلوٰۃ ۔

مسلم ج 1 ص 210 باب السھو فی الصلوٰۃ۔ نماز میں بھولنے کا بیان اور آگے ص 211 پر حدیث پاک لائے ہیں کہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قام فی الصلوٰۃ الظھر وعلیہ جلوس، بے شک نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بیٹھنا تھا بجائے بیٹھنے کے نماز میں کھڑے ہو گئے ۔ بعد میں سجدہ سہو کیا ۔

مسلم ج 1 ص 202 باب کراھۃ مسح الحصی وتسویۃ التراب فی الصلوٰۃ۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ بوقت سجدہ مسجد میں پڑی مٹی ہاتھ سے برابر کرتے تھے، اسی کی کراہت کا بیان کیا گیا۔ اور سجدہ نماز کے اندر تحریمہ کے بعد کا ہے اسی لیے اسے فی الصلوٰۃ کہا گیا ۔

مسلم ج 1 ص 206 باب جواز الخطوۃ والخطوتین فی الصلوٰۃ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں جب منبر بنوا کر رکھ دیا گیا تو رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم منبر پر چڑھ گئے اور وہاں تکبیرِ تحریمہ کہی اور بعد میں بحالتِ نماز منبر سے اتر آئے۔ نماز کی حالت کا یہ عمل بعد تحریمہ تھا اسی لیے فی الصلوٰۃ کہا گیا ۔

تلک عشرۃ کاملہ

ضمنی اعتراض : دونوں حدیثوں میں تشبیہ ایک چیز سے دی گئی ہے، کانھا اذناب خیل شمس لہٰذا دونوں حدیثیں ایک ہیں ۔

جواب : ان احادیث کے الگ الگ ہونے کے دلائل سے یہ روزِ روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ یہ احادیث الگ الگ ہیں ۔

باقی تشبیہ ایک چیز کے ساتھ دینے سے چیز ایک نہیں بن جاتی۔ دیکھیں کوئی کہتا ہے کپڑا دودھ کی طرح سفید ہے۔ بطخ دودھ کی طرح سفید ہے۔ دانت دودھ کی طرح سفید ہیں۔ گائے دودھ کی طرح سفید ہے۔ بال دودھ کی طرح سفید ہیں۔ اب کپڑا ، بطخ، دانت، گائے، بال پانچ چیزیں مشبہ ہیں ، دودھ مشبہ بہٰ ہے یعنی پانچ چیزوں کو صرف دودھ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ اب کون عقل مند یہ کہہ سکتا ہے کہ بطخ اور گائے یا بال اور دانت ایک شے ہیں کیونکہ تشبیہ صرف ایک چیز سے دی گئی ہے۔ اب اگر عندالسلام والے اشارے اور رکوع کے رفع یدین کو مست گھوڑوں کی دموں سے تشبیہ دی گئی ہے تو دونوں حدیثیں ایک کیسے ہو گئیں اور دونوں عمل ایک کیسے ہو گئے۔

اعتراض : یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک عمل خود نبی پاک نے پہلے کیا اور بعد میں اسی اپنے کیے ہوئے عمل کو مست گھوڑوں کی دمیں فرمایا۔ یہ ممکن نہیں۔ اس سے تو نبی علیہ صلوٰۃ والسلام کی تنقیص اور توہین ہوتی ہے۔ نعوذ باللہ

جواب : اشارہ عند السلام کو تو غیر مقلدین بھی مانتے ہیں کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کیا تھا۔ آخر نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ایسا کیا یا کرتے دیکھا نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیم سے کیا یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی موجودگی میں ہوا اور پہلے اپ دیکھتے رہے بعد میں فرمایا کانھا اذناب خیل ۔ گزارش یہ ہے کہ سلام کے وقت ہاتھوں کا اٹھانا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کس کو دیکھ کر شروع کیا تھا؟ سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عمل یا حکم کے بغیر ایسا کیونکر کر رہے تھے ؟ یقیناً اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا عمل تھا یا حکم یا تقریر ۔ ان تینوں صورتوں میں وہی اعتراض جو یہ غیر مقلدین کرتے ہیں وہ ان ان پر بھی ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہ فعل جو کیا ہے یا حکم دیا ہے یا کرنے پر خاموش رہ چکے ہیں ، بعد میں اسے گھوڑوں کی دمیں کس طرح فرما سکتے ہیں ؟ کیا جب یہ فعل دموں والا بوقت سلام ہوتا رہا ، اس وقت آپ اس پر خوش تھے، اس لیے خاموش رہے ؟

نیز حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے دیگر ایسی مثالیں موجود ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود ایک کام کیا اور پھر بعد میں اس کے منسوخ ہونے پر اس کے لیے سخت الفاظ استعمال کیے ۔

نماز میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اقعاء کرنا ثابت ہے ۔ [ترمذی ج 1، ص 38 ۔ ابوداوْد ج 1، ص 123] لیکن پھر خود اسے عقبۃ الشیطان کہا [مسلم ج 1، ص 195] ۔ [اقعاء کا معنی دونوں پیروں کو کھڑا کر کے ان کے اوپر بیٹھ جانا ہے۔ دیکھیں اپنے کیے ہوئے فعل کو عقبۃ الشیطان کہا جا رہا ہے]

اعتراض : امام بخاری علیہ رحمہ نے فرمایا کہ جو بھی اس حدیث سے ترکِ رفع یدین پر استدلال کرتا ہے اس کا علم میں کوئی حصہ نہیں ۔

جواب : اولاً تو اعتراض نمبر 3 کے تحت امام نووی علیہ رحمہ کا ارشاد نقل کیا جا چکا ہے کہ : امام نووی علیہ رحمہ نے اپنی کتاب شرح المہذب میں فرمایا جسکا خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث سے امام ابوحنیفہ، امام سفیان ثوری ، امام ابن ابی لیلیٰ اور امام مالک علیہ رحمہ نے ترک رفع یدین پر استدلال کیا ہے ۔ (المجموع شرح المہذب جلد 3، ص 400،چشتی)

اور یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ حدیث کے معنی کے اعتبار سے فقہاء کو ترجیح حاصل ہے نہ کہ محدثین کو جیسا کہامام ترمذی فرماتے ہیں کہ ” الفقھاء ھم اْعلم بمعانی الحدیث ” یعنی فقہاء معنی حدیث محدثین سے زیادہ جانتے ہیں ۔ [سنن الترمذی: ج 1، ص 193، کتاب الجنائز، باب ماجاء فی غسل المیت] ۔۔۔۔۔ اب آپ ہی بتائیں کہ کیا امام اعظم ابوحنیفہ و سفیان ثوری و مالک و ابن ابی لیلیٰ علیہم الرحمہ جیسے امام اور فقہاء کو اس جملے کے تحت جاہل اور بے علم مان لیا جائے؟ یقیناً اس کا جواب نفی میں ہے ۔

اگر اس قسم کی باتیں ہی ماننی ہیں تو امام مسلم علیہ الرحمہ جو کہ امام بخاری علیہ الرحمہ کے شاگرد ہیں انہوں نے اپنے استاد امام بخاری علیہ الرحمہ کو منتحل الحدیث یعنی صرف حدیث کا دعوے دار فرما رہے ہیں ۔ یعنی حدیث میں ان کا دعویٰ تو ہے مگر وہ بات نہیں جو درحقیقت مشہور ہے۔ ادھر امام بخاری علیہ رحمہ لوگوں کو بے علم کہتے ہیں ادھر ان کے اپنے ہی شاگرد ان کو صرف حدیث کا دعوے دار فرما رہے ہیں اور حدیچ سے گویا بے علم کہتے ہیں۔ اب اس سے بڑھ کر امام مسلم کی اپنے استاد سے اور کیا ناراضگی ہو گی؟ باوجود شاگرد ہونے کے پوری مسلم شریف میں اپنے استاد سے ایک بھی حدیث نہیں لائے ۔ بات کا مقصد یہ ہے کہ ایسی غیر عالمانہ باتیں بڑے بڑے علماء سے ہو جایا کرتی ہیں ۔ جیسے امام بخاری علیہ الرحمہ کو ایسی کسی بات سے فرق نہیں پڑتا بالکل اسی طرح ترک رفع یدین پر اس حدیث کو پیش کرنے والوں پر امام بخاری کی بات کا کوئی فرق نہیں پڑتا ۔

اعتراض : اگر اس حدیث کو ترک رفع پر مان بھی لیا جائے تو حنفی پھر وتر اور عیدین کی رفع یدین کیوں کرتے ہیں، انہیں وہ بھی چھوڑ دینی چاہئیں، کیونکہ وہ بھی فی الصلوٰۃ یعنی نماز کے اندر کی رفع یدین ہیں ۔

جواب : اس حدیث سے ہمارا استدلال کس کس طرح سے ہے یہ اوپر واضح کر دیا گیا ہے ۔ ہمارا استدلال سے واضح ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نفل نماز پڑھ رہے تھے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وہاں باہر سے تشریف لائے [خرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم] ۔ اگر یہ عیدین کی نماز ہوتی تو نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جماعت کروا رہے ہوتے۔ یہ تو غیر مقلدین بھی مانتے ہیں کہ نمازِ عیدین جماعت سے ہوتی ہیں اس کے تو وہ بھی قائل نہیں کہ نمازِ عیدین انفرادی پڑھی جائے۔ تو یہ محال ہے کہ عیدین ہو رہی ہو اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز میں شریک نہ ہوں اور یہ بھی محال ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بغیر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جماعت کروانی شروع کر دی ہو ۔ پس یہ مان لیا جائے کہ یہ عیدین کی نماز تھی تو یہ ماننا لازم آئے گا کہ نمازِ عید قضاء ہو گئی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بتایا بھی نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بعد میں تشریف لائے ۔ اسی طرح اگر وتر کی نماز مانا جائے تو بھی عشاء کی نماز کی جماعت کا مسئلہ اور سوال اٹھتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز کی جماعت سے رہ گئے اور بعد میں تشریف لائے اور صحابہ کرام نے انتظار بھی نہیں کیا اور خود جماعت کروا لی اور وتر بھی پڑھنے لگے تب جا کے نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لائے ۔ یہ محال ہے کیونکہ صحابہ کرام تو نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا عشاء میں اتنا انتظار فرماتے تھے کہ انہیں نیند آنے لگتی ۔

دوسری بات یہ ہے کہ عام نمازوں اور عیدین و وتر میں فرق ہے ۔ جب بھی احکامِ عیدین و وتر آتے ہیں ساتھ واضح لفظ عید یا وتر موجود ہوتا ہے ۔ جب کہ اس حدیث میں عام نماز کا عمومی لفظ ہے ، پس اصول کے لحاظ سے خصوص کو عموم پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، پس یہ قیاس مع الفارق ہونے کی وجہ سے مردود ہے ۔

تیسری بات یہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جس رفع یدین کو شریر گھوڑوں کی دم فرمایا ہے وہ بغیر ذکر کے رفع یدین ہے ، اور عیدین و وتر کا رفع یدین اسی طرح تحریمہ کا رفع یدین ذکر کے ساتھ ہے ۔ یعنی رفع یدین کا الگ سے ذکر موجود ہے ۔ جب کہ غیر مقلدین عام نمازوں میں جو رفع یدین کرتے ہیں وہ بغیر ذکر کے ہے، یعنی رکوع کو جاتے ہیں تو اللہ اکبر کہتے ہیں ، پس وہ اللہ اکبر انتقالِ رکوع کا ذکر ہے نہ کہ رفع یدین کا ۔ اگر غیر مقلدین کہیں کہ وہ رفع یدین کا ذکر ہے تو پھر رکوع کی طرف انتقال کے وقت کا ذکر کہاں گیا ؟ ہمارے وتر و عیدین کے رفع یدین چونکہ مع الذکر ہے تو اس کی تشبیہ گھوڑوں کی دمیں بنتی ہی نہیں ، جبکہ غیر مقلدین کا رفع یدین بغیر ذکر کے ہے اس لیے وہ اس تشبیہ پر پورا پورا اترتے ہیں ۔ چناچہ احناف کی رفع یدین اذناب خیل نہیں بلکہ عبادت ہے کیونکہ اللہ پاک کا بھی فرمان ہے کہ اقم الصلوٰۃ لذکری ۔ پس یہ رفع یدین جو عیدین و وتر اور تحریمہ کا ہے یہ بھی فرق کی وجہ سے الگ ہے اور قیاس مع الفارق ہونے کی وجہ سے یہ اعتراض بھی باطل ثابت ہوا ۔


ترک رفع یدین والی حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ صحیح ہے

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ أَلاَ أُصَلِّي بِكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ ؟ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ ۔‏ قَالَ وَفِي الْبَابِ عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ۔‏ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ ۔ وَبِهِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ۔‏ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ ۔
ترجمہ : حضرت علقمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نےفرمایا : کیا میں تمہیں اس بات کی خبر نہ دوں کہ رسول صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ کیسے نماز پڑھتے تھے ؟ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی اور تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین نہیں کیا ۔ اس باب میں براء بن عازب رضی ﷲ عنہ سے بھی روایت ہے ۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ حسن صحیح ہے اور یہی قول ہے صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم میں اہل علم کا سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور اہل کوفہ کا بھی یہی قول ہے ۔ (جامع ترمذی جلد ۱ صفحہ ۱۸۵)(سنن النسائی جلد ۱ صفحہ ۱۵۸)(سنن ابی داؤد جلد ۱ صفحہ ۱۱۶)(مشکاۃالمصابیح ناصرالدین البانی جل ۱ باب صفة الصلاة الأصل رقم الحدیث : ۸۰۹)

حدیث ابن مسعود رضی ﷲ عنہ کو صحیح قرار دىنے والے حضرات مجتہدین ومحدثىن​

تنبیہ : اصول فقہ و حدیث کا ضابطہ ہے کہ ’’اذا استدل المجتہد بحدیث الخ‘‘​۔ ’’جس حدیث سے کوئی فقىہ و مجتہد ومحدث استدلال کرے وہ اس کے نزدىک صحیح ہے‘‘۔ (تدریب الراوی :ج ۱، ص ۴۸؛  تلخىص الحبیر : ج۲، ص۱۴۳؛ قواعد فی علوم الحدیث:ص۵۷)

حضرت ابر اہیم النخعی رحمۃ ﷲ علیہ ۹۶ھ ۔  (مسند ابی حنیفہ بروایت حسن: ص ۱۳؛مسند ابی حنیفہ بروایت ابی یوسف: ص۲۱؛ موطا امام محمد: ص۹۳؛ کتاب الحجہ لامام محمد: ج۱،ص۹۶؛ مسند ابن الجعد: ص۲۹۲؛ سنن الطحاوی : ج۱،ص۱۶۱ ،۱۶۳؛ مشکل الآثار للطحاوی: ج۲،ص۱۱؛ جامع المسدنید: ج۱،ص۳۵۲؛  معجم الکبیر للطبرانی: ج۲۲،ص۲۲؛ سنن دار قطنی : ج۱،ص۳۹۴؛ سنن الکبری للبیہقی:  ج۲، ص۸۱،چشتی)

امام اعظم ابو حنیفہ التابعی رحمۃ ﷲ علیہ ۱۵۰ھ ۔ (مسند ابی حنیفہ بروایت حسن : ص۱۳؛  مسند ابی حنیفہ بروایت ابی یوسف: ص ۲۱؛ موطا امام محمد: ص۹۳؛  کتاب الحجہ: ج ۱،ص۹۶؛ سنن الطحاوی: ج۱،ص۱۶۲؛ جامع المسانید:ج۱،ص۳۵۳؛ الاوسط لا بن المنذر : ج۳،ص۱۴۸؛  التجريد للقدروی؛ ج۵،ص۲۷۲؛ حلیة العماءللشاشی: ج۱،ص۱۸۹؛ المحلی ابن حزم: ج۴،ص۱۱۹ ،ج۱ص۳۰۱؛ التمیہد: ج۹،ص۲۱۳؛  الاتذکار لا بن البر : ج۴،ص ۹۹؛ مناقب المکی :ج۱،ص۱۳۰؛ مغنی لابن قدامہ: ج۲،ص۱۷۲؛ دلائل الاحکام: ج۱،ص۲۶۳؛ شرح سنن ابن ماجہ المغلطائی: ج۵،ص۱۴۶۶۔۱۴۶۷؛ عمدة القاری:ج۵،ص۲۷۲،چشتی)

امام سفیان ثوری رحمۃ ﷲ علیہ ۱۶۱ھ ۔ (جز رفع الیدین :ص۴۶؛ ترمذی :ج ۱ص۵۹؛ الاوسط لابن منذر :ج۳،ص۱۴۸؛ حلیة العماء للشاشی : ج۱،ص۱۸۹؛ التجرید للقدوری :ج۱،ص۲۷۲؛ شرح البخاری لابن بطال :ج۲،ص۴۲۳؛ التمہید :ج ۹،ص۲۱۳؛الاستذکار :ج۴،ص۹۹؛ شرح النہ للبغوی :ج۲، ص۲۴؛مغنی لابن قدامہ :ج۲،ص۱۷۲؛ دلائل الاحکام لابن شداد :ج۱،ص۲۶۳؛ شر ح سنن ابن ماجہ للمغلطائی :ج۵،ص۱۴۶۶؛عمدة القاری :ج۵،ص۲۷۲،چشتی)

امام ابن القاسم المصری رحمۃ ﷲ علیہ ۱۹۱ھ ۔  (المدونة الکبریٰ ا لامام مالک: ج۱، ص۷۱)

امام وکیع بن الجراح الکوفی رحمۃ ﷲ علیہ ۱۹۷ھ ۔ (جزءرفع الیدىن للبخاری :ص۴۶؛ عمدة القاری ج۵،ص۲۷۲)

امام اسحاق بن ابی اسرائیل المروزی رحمۃ ﷲ علیہ ۲۴۶ھ (سنن دار قطنی: ج۱، ص۳۹۹،۴۰۰؛ سندصحیح)

امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمۃ ﷲ علیہ ۲۵۶ھ ۔ (جزءرفع الیدین للبخاری: ص۲۵، للزئی: ص۱۱۲)

امام ابو داؤد السجستانی رحمۃ ﷲ علیہ ۲۷۵ھ ۔ (تاریخ بغداد الخطیب: ج۹،ص۵۹؛ تذکرة الحفاظ: ج۲ص۱۲۷؛ النکت لابن حجرص:ص۱۴۱)

۹۔امام ابو عیسی ترمذی رحمۃ ﷲ علیہ ۲۷۹ھ (سنن ترمذی: ج۱،ص۵۹؛ شرح الھدایہ للعینی: ج۲،ص۲۹۴)

۱امام احمد بن شعیب نسائی رحمۃ ﷲ علیہ ۳۰۳ھ ۔ (النکت لابن حجر: ص۱۶۵؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)

امام ابو علی الطوسی رحمۃ ﷲ علیہ ۳۱۲ھ ۔  (مختصر الاحکام مستخرج الطوسی علی جامع الترمذی: ج۲، ص۱۰۳؛ شرح ابن ماجہ للحافظ للمغلطائی: ج ۵، ص۱۴۶۷)

امام ابو جعفر الطحاوی رحمۃ ﷲ علیہ ۳۲۱ ھ ۔ (الطحاوی: ج۱،ص۱۶۲؛ الرد علی الکرانی بحوالہ جوہر النقی: ص۷۷،۷۸)

امام ابو محمد الحارثی البخاری رحمۃ ﷲ علیہ ۳۴۰ھ ۔ (جامع المسانید: ج ۱، ص۳۵۳، مکة المکرمة،چشتی)

امام ابو علی النسابوری رحمۃ ﷲ علیہ ۳۴۹ھ ۔  (النکت لابن حجر ؒ: ص۱۶۵؛ زہر الربی علی النسائی للسیوطی: ص۳)

امام ابو علی ابن السکن المصری رحمۃ ﷲ علیہ ۳۵۳ھ ۔ (النکت لا بن حجرؒ: ص۱۶۴؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)

امام محمد بن معاویہ االاحمر رحمۃ ﷲ علیہ ۳۵۸ھ ۔ (النکت لا بن حجرؒ: ص۱۶۴؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)

امام ابو بکر ابن السنی رحمۃ ﷲ علیہ ۳۶۴ھ ۔  (الارشاد لامام الخلىلی: ص ۱۳۱؛ زہر الربی للسیوطی: ص ۳)

امام ابن عدی رحمۃ ﷲ علیہ ۳۶۵ھ ۔ (النکت لا بن حجرؒ: ص۱۶۴؛ زہر الربی ص۳)

امام ابو الحسن الدار قطنی رحمۃ ﷲ علیہ ۳۸۵ھ ۔ (کتاب العلل: ج ۵، ص۱۷۲؛ النکت: ص۱۶۴؛ زہر الربی: ص۳)

امام ابن مندة رحمۃ ﷲ علیہ ۳۹۰ھ ۔ (النکت لا بن حجرؒ:  ص ۱۶۴؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)

امام ابو عبد ﷲ الحاکم رحمۃ ﷲ علیہ ۴۰۵ھ ۔ (النکت لا بن حجرؒ:  ص ۱۶۴؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)

امام عبد الغنی بن سعید رحمۃ ﷲ علیہ ۴۰۹ھ ۔ (النکت لا بن حجرؒ:  ص ۱۶۴؛ زہر الربی للسیوطی : ص۳)

امام ابو الحسین القدوری رحمۃ ﷲ علیہ ۴۲۸ھ ۔ (التجرید للقدوری ؒ: ج۲، ص۵۱۸)

امام ابو یعلی الخلیلی رحمۃ ﷲ علیہ ۴۴۶ھ ۔ (الارشاد للخلیلی: ص ۱۱۲؛ النکت: ص۱۶۴؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)

۲۵۔ امام ابو محمد ابن حزم رحمۃ ﷲ علیہ ۴۵۶ھ ۔ (المحلی لا بن حزم: ج ۴، ص۱۲۱، مصر)

امام ابوبکر الخطیب للبغدادی رحمۃ ﷲ علیہ ۴۶۳ھ ۔ (النکت لا بن حجرؒ:  ص ۱۶۳؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)

امام ابوبکر السرخسی رحمۃ ﷲ علیہ ۴۹۰ھ ۔ (المبسوط للسرخسی: ج ۱، ص۱۴)

امام موفق المکی رحمۃ ﷲ علیہ ۵۶۸ ھ ۔ (مناقب موفق المکی: ج۱، ص۱۳۰، ۱۳۱،چشتی)

ابو طاہر السلفی ۵۷۶ھ ۔ (النکت لا بن حجر:  ص ۱۶۳؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)

امام ابوبکر کاسانی رحمۃ ﷲ علیہ ۵۸۷ھ ۔ (بدائع الصنائع للکاسانیؒ: ج۱، ص۴۰)

امام ابن القطان الفاسی رحمہ ﷲ ۶۲۸ھ ۔ (بیان الوھم والا ےھام لابن القطان الفاسی: ج۳، ص۳۶۷)

امام محمد الخوارزمی رحمۃ ﷲ علیہ ۶۵۵ ھ ۔ (جامع المسانید)

امام ابو محمد علی بن زکریا المنجی رحمۃ ﷲ علیہ ۶۸۶ھ ۔ (اللباب فیا الجمع بین السنة والکتاب: ج۱، ص۲۵۶)

امام ابن الترکمانی رحمۃ ﷲ علیہ ۷۴۵ ھ ۔ (الجوہر النقی علی البیہقی لا بن الترکمانی: ج۲، ص۷۷، ۷۸)

امام حافظ مغلطائی رحمۃ ﷲ علیہ ۷۶۲ ھ ۔ (شرح ابن ماجہ الحفاظ المغلطائی: ج ۵، ص۱۴۶۷)

امام حافظ زیلعی رحمۃ ﷲ علیہ ۶۷۲ھ ۔ (نصب الرایہ للزیلعی: ج۱، ص۳۹۶؛ وفی نسخة: ج۱، ص۴۷۴)

امام حافظ عبد القادر القرشی رحمۃ ﷲ علیہ ۷۷۵ ھ ۔ (الحاوی علی الطحاوی: ج ۱، ص۵۳۰)

امام فقیہ محمد البابرقی رحمۃ ﷲ علیہ ۷۸۶ ھ ۔ (العنایہ شرح الھدایہ: ج۱، ص۲۶۹)

امام فقیہ محمد الکردری رحمۃ ﷲ علیہ ۸۲۶ ھ ۔ (مناقب کردری: ج۱، ص۱۷۴)

محدث احمد بن ابی بکر البوصیری رحمۃ ﷲ علیہ ۸۴۰ ھ ۔ (اتحاف الخیرة المھرہ للبوصیری: ج۱۰، ص۳۵۵، ۳۵۶)

محدث محمود العینی رحمۃ ﷲ علیہ ۸۵۵ھ ۔ (شرح سنن ابی داؤد للحافظ العینی ؒ : ج ۳، ص۳۴۱، ۳۴۲؛)(شرح الھدایہ عینی: ج۲، ص۲۹۴)

امام ابن الھمام رحمۃ ﷲ علیہ ۸۶۱ھ ۔ (فتح القدیر شرح الھدایہ لابن الھمام: ج۱، ص۲۶۹، ۲۷۰)

ملا علی قاری رحمۃ ﷲ علیہ ۱۰۱۴ھ ۔ (مرقات: ج۲،ص۲۶۹،چشتی)(شرح الفقایہ: ج۱، ص۲۵۷، ۲۵۸؛ شرح مسند ابی حنیفہ للعلی قاری: ص۳۸)

امام محمد ھاشم السندھی رحمۃ ﷲ علیہ ۱۱۵۴ھ ۔ (کشف الدین مترجم لمصمدہاشم السندھی: ص۱۵، ۱۶)

امام حافظ محدث محمد الزبیدی رحمۃ ﷲ علیہ ۱۲۰۵ھ ۔ (عقود الجواھر المنفىہ للزبیدی)

امام محمد بن علی النیموی رحمۃ ﷲ علیہ ۱۳۴۴ھ ۔ (آثار السنن مع التعلیق للنمیوی : ص۱۳۲)

غیرمقلد عالم  محمد زہیر الشاویش ۔ (تعلیق علی شرح السنة للبغوی: ج۳، ص۲۴، بیروت)

غیر مقلد عالم احمد محمد الشاکر المصری ۔ (الشرح علی الترمذی لا حمد شاکر المصری: ج۲، ص۴۱، دارالعمران بیروت)

غیرمقلد عالم شعیب الارناؤط ۔ (تعلیق علی شرح السنہ للبغوی: ج۳، ص۲۴، بیروت)

غیرمقلدعالم  عطاء ﷲ حنیف ۔ (تعلقات سلفیہ علی سنن النسائی: ص۱۲۳)

غیرمقلد حسین سلیم اسد ۔ (تعلیق علی مسند ابی یعلی شیخ حسین سلیم اسد: ج۸،ص۴۵۴۔ ج۹، ص۲۰۹، دمشق بیروت،چشتی)

غیر مقلد عالم ابراہیم سیالکوٹی ۔ (واضح البیان، ص۳۹۹)

غیرمقلدوں کا امام و محدث شیخ ناصر الدین البانی  ۔ (مشکوة بتحقیق الالبانی :ج۱، ص۲۵۴، بیروت؛ سنن الترمذی: ج ۱، ص۷۱)

حدیث حضرت عبد ﷲ بن مسعود رضی ﷲ عنہ کے تمام راوی ثقہ ہیں اور سند بالکل صحیح ہے جیسا کہ محدثین علیہم الرّحمہ اور غیرمقلدین کے علما کی تصحیح اوپر پیش کی جاچکی ہے ۔

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ترک رفع یدین کی حدیثِ مبارکہ کا تحقیقی جائزہ

نبی کریم صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ کی ترکِ رفع یدین کی سنت ادا کرتے ہوئے جلیل القدر صحابی امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین نہ کرتے تھے ۔ اس پر حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے بعدہ اس کے رجال کی توثیق اور ائمہ محدثین علیہم الرّحمہ کا حدیث مذکور پر لگایا گیا حکم پیش کیا جائے گا ۔

حدثنا یحی بن آدم ، عن حسن بن عیاش ، عن عبد الملک بن ابجر ، عن الزبیر بن عدی ، عن ابراہیم ، عن الاسود قال صلیت مع عمر فلم یرفع یدیہ فی شیئ من صلاتہ الا حین افتتح الصلاۃ ۔

ترجمہ : خضرت سیدنا اسود تابعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز ادا کی آپ نے نماز میں کسی جگہ رفع یدین نہ کیا مگر نماز کو شروع کرتے وقت (رفع یدین کیا) ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ الرقم 2469)(شرح معانی الآثار الرقم 1262،چشتی)(الاوسط ابن المنذر الرقم 1345)(شرح مشکل الآثار الرقم 5104)(مسند الفاروق 1/164)(جامع الاحادیث الرقم 30051)(الصواب ابن المبرد 3/982)

مذکورہ بالا حدیث مبارکہ کے راویوں کی توثیق ملاحظہ کیجیے :

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلا راوی : یحی بن آدم

امام عجلی نے ثقہ کہا ہے ۔ (معرفۃ الثقات الرقم 1960)

ابو حاتم نے ثقہ کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 545)

یعقوب بن شیبہ نے ثقہ کہا ہے ۔ (تذکرۃ الحفاظ 1/263)

نووی نے ثقہ کہا ہے ۔ (تہذیب الاسماء الرقم 677)

یحیی بن معین نے ثقہ کہا ہے ۔ (تہذیب التہذیب الرقم 330)

ابن حجر نے ثقہ حافظ کہا ہے ۔ (تقریب التہذیب الرقم 7696،چشتی)

ابن شاہین نے ثقہ صدوق کہا ہے ۔ (تاریخ اسماء الثقات الرقم 1617)

ابن حبان نے متقنا کہا ہے ۔ (الثقات الرقم 16275)

ذہبی نے احد اعلام کہا ہے ۔ (الکاشف الرقم 6142)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسرا راوی : حسن بن عیاش

ابن شاہین نے ثقہ کہا ہے ۔ (تاریخ اسماء الثقات الرقم 198)

امام عجلی نے ثقہ کہا ہے ۔ (معرفۃ الثقات الرقم 299)

یحیی بن معین نے ثقہ کہا ہے ۔ (تاریخ یحی بن معین الرقم 1255)

ذہبی نے ثقہ کہا ہے ۔ (الکاشف الرقم 1057)

ابن حبان نے الثقات میں لکھا ہے ۔ (الثقات الرقم 7197)

ابن حجر نے صدوق کہا ہے ۔ (تقریب التہذیب الرقم 1274،چشتی)

ابن منجویہ نے رجال مسلم میں شمار کیا ہے ۔ (رجال مسلم الرقم 246)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیسرا راوی : عبد الملک بن سعید بن حیان بن ابجر

امام احمد نے ثقہ کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 1661)

یحیی بن معین نے ثقہ کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 1661)

ابن حجر نے ثقہ کہا ہے ۔ (تقریب التہذیب الرقم 4181)

ابن حبان نے الثقات میں درج کیا ہے ۔ (الثقات الرقم 9166)

امام عجلی نے کوفی ثقہ کہا ہے ۔ (معرفۃ الثقات الرقم 1131)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چوتھا راوی : الزبیر بن عدی

امام احمد نے ثقہ کہا ہے۔ (الجرح و التعدیل الرقم 2632)

یحی بن معین نے ثقہ کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 2632)

ابو حاتم نے ثقہ کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 2632)

ذہبی نے ثقہ کہا ہے ۔ (الکاشف الرقم 1624)

ابن حجر نے ثقہ کہا ہے ۔ (تقریب التہذیب الرقم 2001)

امام عجلی نے ثقہ ثبت کہا ہے ۔ (معرفۃ الثقات الرقم 494،چشتی)

ابن شاہین نے ثقہ رواۃ میں شمار کیا ہے ۔ (تاریخ اسماء الثقات الرقم 419)

ابن حبان نے المتقننین لکھا ہے ۔ (مشاہیر علماء الامصار الرقم 992)

کلابازی نے رجال البخاری میں شمار کیا ہے ۔ (رجال البخاری الرقم 368)

ابن منجویہ نے رجال مسلم میں شمار کیا ہے ۔ (رجال مسلم الرقم 453)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پانچواں راوی : ابراہیم النخعی

امام عجلی نے ثقہ کہا ہے ۔ (معرفۃ الثقات الرقم 45)

ابن حجر نے ثقہ کہا ہے ۔ (تقریب التہذیب الرقم 270)

ابن حبان نے ثقات میں شمار کیا ہے ۔ (الثقات)

المدینی نے اعلم الناس کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 473)

ابوزرعہ نے اعلام اھل الاسلام کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 473))

ذہبی نے راسا فی العلم قرار دیا ہے ۔ (الکاشف الرقم 221)

امام نووی نے اجمعوا علی توثیقہ کہا ہے ۔ (تہذیب الاسماء الرقم 36)

علامہ عینی نے صیر فی الحدیث قرار دیا ہے ۔ (مغانی الاخیار الرقم 32)

کلابازی نے رجال بخاری میں شمار کیا ہے ۔ (رجال بخاری الرقم 51)

ابن منجویہ نے رجال مسلم میں شمار کیا ہے ۔  (رجال مسلم الرقم 49)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چھٹا راوی : الاسود بن یزید

ابوحاتم نے ثقہ کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 1067)

امام احمد نے ثقہ کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 1067)

یحیی بن معین نے ثقہ کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 1067)

ابن حجر نے ثقہ کہا ہے ۔ (تقریب التہذیب الرقم 509)

امام عجلی نے تابعی ثقہ کہا ہے ۔ (معرفۃ الثقات الرقم 104)

نووی نے واتفقوا علی کہا ہے ۔ (تہذیب الاسماء الرقم 36)

کلابازی نے رجال بخاری میں شمار کیا ہے ۔ (رجال بخاری الرقم 89)

ابن منجویہ نے رجال مسلم میں شمار کیا ہے ۔ (رجال مسلم الرقم 121)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساتواں راوی : سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ

امیر المؤمنین ، خلیفہ ثانی ،  جلیل القدر صحابی ، زینت اسلام ،  فخر اسلام ، مراد رسول، فاروق اعظم ، الصحابی کلھم عدول و الصحابی کالنجوم کے مصداق سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ ۔

مذکورہ بالا تحقیق سے معلوم ہوا کہ حضرت سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے ترک رفع یدین بسند صحیح ثابت ہے اور اس پر کسی قسم کا بھی اعتراض باطل و مردود ہے ۔

حدیث مذکورہ بالا پر محدثین سے مہر تصحیح بھی پیش خدمت ہے

امام طحاوی نے کہا ہے حدیث صحیح ۔ (شرح معانی الآثار الرقم 1364)

علامہ ترکمانی نے لکھا ہے صحیح علی شرط مسلم ۔ (الجواہر النقی علی سنن البیہقی الرقم 1752)

حافظ مغلطائی نے کہا ہے صحیح علی شرط مسلم ۔ (شرح ابن ماجہ 1/1472)

محقق احناف زیلعی اور محدث حنفیہ علامہ عینی بھی مائل بہ تصحیح ہیں ۔ (نصب الرایہ 1/405 اور شرح ابی داؤد للعینی 3/298)

محدث شافعیہ ابن حجر نے لکھا ہے رجالہ ثقات ۔ (الدرایہ 1/152)

امام ابن الھمام نے کہا ہے صحیح ۔ (فتح القدیر 1/311)

حافظ احناف محدث قطلوبغا نے لکھا ہے رجالہ ثقات ۔ (التعریف و الاخبار 310)

مفتی حرم و عظیم محدث ملا علی قاری نے لکھا ھے سندہ صحیح ۔ (مرقاۃ المفاتیح 3/298)(رضی اللہ عنہم و رحمہم اللہ علیہم اجمعین)

امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ مبارکہ ترک رفع یدین کا تحقیقی جائزہ : ⬇

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے حضرت سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی نماز میں ابتداءً رفع یدین کرتے پھر پوری نماز میں کسی مقام پر رفع یدین نہ فرماتے ۔ محدث ابن ابی شیبہ رحمة اللہ علیہ روایت نقل فرماتے ہیں : حدثنا وکیع ، عن ابی بکر بن عبد اللہ بن قطاف النہشلی ، عن عاصم بن کلیب ، عن ابیہ ان علیاً کان یرفع یدیہ اذا افتتح الصلاۃ ثم لا یعود ۔

ترجمہ : سیدنا عاصم بن کلیب اپنے والد کلیب بن شہاب سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نماز میں پہلی تکبیر کے ساتھ رفع یدین کیا کرتے تھے پھر اس کے بعد رفع یدین نہیں کرتے تھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ حدیث 2457 )(الاوسط لابن المنذر حدیث 1343 ، سند الگ ہے)(شرح معانی الآثار حدیث 1252 ، دو سندوں سے نقل کی ہے)(مؤطا امام محمد حدیث 105)(النفع الشذی شرح الترمذی 4/398،چشتی)(البدر المنیر 3/484)(تخریج احادیث الاحیاء للعراقی 1/349)(فتح الباری لابن رجب 6/331)(اتحاف المہرہ 11/599)

اس حدیثِ مبارکہ کے راوی

امام ابن ابی شیبہ رحمة اللہ علیہ نے جس سند سے اس روایت کو نقل کیا ہے اس کی سند میں موجود راویوں کا حال ملاحظہ کیجیے :

پہلا راوی :  وکیع بن الجراح

امام عجلی نے کہا ثقہ عابد ہے ۔ (معرفۃ الثقات رقم 1938)

امام احمد نے کہا مطبوع الحفظ ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 168)

یحیی بن معین نے ثقہ کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 168)

علامہ ذھبی نے حافظ الثبت محدث کہا ہے ۔  (تذکرۃ الحفاظ 1/223)

ابن حجر نے ثقہ حافظ کہا ہے ۔ (تقریب التہذیب الرقم 7414)

الخزرمی نے الحافظ کہا ہے ۔ (خلاصہ تذھیب تہذیب الکمال 1/415)

الکلاباذی نے فی رجال البخاری میں شمار کیا ہے ۔ (رجال البخاری الرقم 1288،چشتی)

ابن منجویہ نے رجال مسلم میں شمار کیا ہے ۔ (رجال مسلم الرقم 1767)

ابن حبان نے من الحفاظ المتقین کہا ہے ۔ (مشاھیر علماء الامصار 1/272)

ابراہیم بن شماس نے احفظ الناس کہا ہے ۔ (شرح علل الترمذی 1/170)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسرا راوی : ابی بکر بن عبد اللہ بن قطاف النہشلی

یحیی بن معین نے ثقہ کہا ہے ۔ (تاریخ ابن معین 1/47)

امام احمد نے ثقہ کہا ہے ۔ (العلل و المعرفۃ الرقم 4371)

امام ذہبی نے ثقہ کہا ہے ۔ (الکاشف الرقم 6548)

امام ابوداؤد نے ثقہ کہا ہے ۔ (تہذیب التہذیب الرقم 8329)

امام عجلی نے ثقہ کہا ہے ۔ (معرفۃ الثقات الرقم 2102)

ابن حجر نے صدوق کہا ہے ۔ (تقریب التہذیب الرقم 8001)

ابن العماد نے صدوق کہا ہے ۔ (شذرات الذھب 1/252)

ابن منجویہ نے رجال مسلم میں شمار کیا ہے ۔ (رجال مسلم الرقم 1961)

ابن مھدی نے ثقات مشیخۃ الکوفۃ کہا ہے ۔ (تہذیب التہذیب الرقم 8329)

امام ابوحاتم نے شیخ صالح کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 1536،چشتی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیسرا راوی : عاصم بن کلیب

امام عجلی نے ثقہ کہا ہے ۔ (معرفۃ الثقات الرقم 815)

ابن شاہین نے ثقہ کہا ہے ۔ (تاریخ اسماء الثقات الرقم 833)

حافظ ذہبی نے ثقہ کہا ہے ۔ (ذکر من تکلم الرقم 170)

ابن معین نے ثقہ کہا ہے ۔ (من کلام ابی زکریا الرقم 63)

ابوحاتم نے صالح کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 1929)

احمد بن حجر نے صدوق کہا ہے ۔ (تقریب التہذیب الرقم 3705)

احمد بن صالح نے من الثقات لکھا ہے ۔ (تاریخ اسماء الثقات الرقم 833)

ابن منجویہ نے رجال مسلم میں شمار کیا ہے ۔ (رجال مسلم الرقم 170)

ابن حبان نے متقنی الکوفیین کہا ہے ۔ (مشاہیر علماء الامصار الرقم 1305)

امام احمد نے لا باس بہ کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 1929)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چوتھا راوی : کلیب بن شہاب

امام ابوزرعہ نے ثقہ کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 946)

ابن سعد نے ثقہ کہا ہے ۔ (الطبقات الکبری 6/123)

امام عجلی نے تابعی ثقہ کہا ہے ۔ (معرفۃ الثقات الرقم 1555،چشتی)

ابن حجر نے صدوق لکھا ہے ۔ ( تقریب التہذیب الرقم 5660)

ابن حبان نے کتاب الثقات میں رکھا ہے ۔ (الثقات الرقم 5111)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پانچویں راوی : خلیفۃ الراشد حضرت سیدنا و مولانا علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ جلیل القدر صحابی رسول امیر المؤمنین ہیں ۔

درج بالا تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس سند کے تمام راوی ثقہ ہیں لہٰذا اس کی سند بالکل صحیح اور بے غبار ہے اور اس پر کسی قسم کا اعتراض باطل و مردود ہے اس حدیث کی دیگر اسناد بھی کتب احادیث میں موجود ہیں جن کے حوالہ جات ابتداء پیش کیے جا چکے ہیں ۔

ائمہ محدثین علیہم الرّحمہ سے بھی حدیث مذکورہ کی تصحیح پیش خدمت ہے:

امام ابوجعفر الطحاوی فرماتے ہیں فحدیث علی اذا صح ۔ (شرح معانی الآثار 1/155)

امام ابن ترکمانی نے کہا رجالہ ثقات ۔ (الجواہر الننقی علی سنن البیہقی 2/78،چشتی)

امام ابن دقیق العید الشافعی مائل بہ تصحیح ہیں ۔ (نصب الرایہ 1/413)

حافظ الحدیث علامہ عینی نے کہا صحیح علی شرط مسلم ۔ (عمدۃ القاری فی شرح البخاری 5/273،چشتی)

دوسری کتاب میں فرمایا ھو اثر صحیح و صحیح علی شرط مسلم ۔ (شرح سنن ابی داؤد 3/301)

محدث مغلطائی مائل بہ تصحیح ہیں ۔ (شرح ابن ماجہ 1/1473)

محقق الحدیث علامہ زیلعی نے کہا وھو اثر صحیح ۔ (نصب الرایہ 1/406)

محدث شافعیہ حافظ الحدیث ابن حجر عسقلانی نے بھی کہا ھے رجالہ ثقات ۔ (الدرایہ 1/152،چشتی)

حافظ الحدیث امام دارقطنی محدث شافعیہ نے بھی کہا ہے موقوفا صواب ۔ (العلل الدارقطنی 4/106)

مفتی حرم محدث حنفیہ ملا علی قاری مائل بہ تصحیح ۔ (الاسرار المرفوعہ 1/494)

محدث قاسم بن قطلوبغا نے کہا سندہ ثقات ۔ (التعریف و الاخبار 309)

محدث نیموی نے کہا اسنادہ صحیح ۔ (آثار السنن)

ترکِ رفع پر غیر مقلدین کے گھر کی گواہیاں مدعی لاکھ پہ بھاری گواہی تیری

غیرمقلدین جو ہر وقت یہ شور مچاتے ہیں کہ جو رفع یدین نہ کرے اس کی نماز نہیں ہوتی آیے دیکھتے ہیں کہ ان کے بڑے اس بارے میں کیا کہتے ہیں ۔

شیخ الکل غیرمقلدین جناب نذیر حسین صاحب دہلوی اپنے فتاویٰ نذیریہ میں لکھتے ہیں : رفع یدین میں جھگڑاکرنا تعصب اور جہالت کی بات ہے ، کیونکہ آنحضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے دونوں ثابت ہیں ، دلایل دونوں طرف ہیں ۔ (فتاویٰ نذیریہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 441)​

شیخ الاسلام غیرمقلدین جناب ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں : ہمارا مذہب ہے کہ رفع یدین کرنا مستحب امر ہے جس کے کرنے سے ثواب ملتا ہے اور نہ کرنے سے نماز میں کوئی خلل نہیں ہوتا ۔ (فتاوی ثنائیہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 579) ۔ اسی کتاب میں نزید لکھتے ہیں کہ ترک رفع ترک ثواب ہے ترک فعل سنت نہیں ۔ (فتاوی ثنائیہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 608​)

مجدد غیرمقلدین جناب نواب صدیق حسن خان صاحب بھوپالی ، ان کی کتاب روضۃ الندیۃ غیرمقلدین کے یہاں بڑی معتبر کتاب ہے ، نواب صاحب اس کتاب میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہوے لکھتے ہیں : رفع یدین و عدم رفع یدین نماز کے ان افعال میں سے ہے جن کو آنحضور صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کبھی کیا ہے اور کبھی نہیں کیا ہے ، اور سب سنت ہے ، دونوں بات کی دلیل ہے ، حق میرے نزدیک یہ ہے کہ دونوں سنت ہیں ۔ (روضۃ الندیۃ  صفحہ  نمبر148،چشتی)

اور اسی کتاب میں اسماعیل دہلوی کا یہ قول بھی نقل کرتے ہیں : ولا یلام تارکہ و ان ترکہ مد عمرہ ۔ (صفحہ نمبر 150) ۔ یعنی رفع یدین کے چھوڑنے والے کو ملامت نہیں کی جاے گی اگرچہ پوری زندگی وہ رفع یدین نہ کرے ۔

غیر مقلدین کے بڑے اکابر بزرگوں کی ان باتوں سے پتا چلا کہ ان لوگوں کے نزدیک رفع یدین کرنا وار نہ کرنا دونوں نبی کریم کریم صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ثابت ہیں اور دونوں سنت ہیں ، اب سچے اہلحدیث ہونے کا تقاضا یہ تھا کہ یہ حضرات دونوں سنتوں پر عامل ہوتے مگر ان کا عمل یہ ہے کہ ایک سنت پر تو اصرار ہے اور دوسری سنت سے انکار ہے ، بلکہ دوسری سنت پر جو عمل کرتا ہے اس کو برا بھلا کہا جاتا ہے ، سنت پر عمل کرنے والوں کو برا بھلا کہنا کتنی بڑی گمراہی ہے ، آپ نے کبھی نہیں سنا ہو گا کسی حنفی نے رفع یدین کرنے والوں کو اس کے رفع یدین کرنے پر برا بھلا کہا ہو ۔

دعاء قنوت میں رفع یدین کرنا

دعاء قنوت میں رفع یدین کرنا صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے چنانچہ اسود سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ دعائے قنوت میں سینہ تک اپنے دونوں ہاتھ اُٹھاتے تھے اور ابوعثمان نہدی سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ صبح کی نماز میں ہمارے ساتھ دعاء قنوت پڑھتے اور اپنے دونوں ہاتھ اُٹھاتے یہاں تک کہ آپ کے دونوں بازو ظاہر ہو جاتے اور خلاص سے روایت ہے کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ نماز فجر کی دعاء قنوت میں اپنے بازو آسمان کی طرف لمبے کرتے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ماہِ رمضان میںدعاء قنوت کے وقت اپنے دونوں ہاتھ اُٹھاتے اور ابو قلابہ اور مکحول بھی رمضان شریف کے قنوت میں اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے اورابراہیم سے قنوت وتر سے مروی ہے کہ وہ قرأۃ سے فارغ ہو کر تکبیر کہتے اور ہاتھ اٹھاتے پھر دعائے قنوت پڑھتے پھر تکبیر کہہ کر رکوع کرتے اور روایت ہے وکیع سے وہ روایت کرتا ہے محل سے وہ ابراہیم سے کہ ابراہیم نے محل کو کہا کہ قنوت وتر میں یوں کہا کرو اور وکیع نے اپنے دونوں ہاتھ کانوں کے قریب تک اٹھا کربتلایا اور کہا کہ پھر چھوڑ دیوے ہاتھ اپنے عمر بن عبدالعزیز نے نماز صبح میں دعاء قنوت کے لیے اپنے دونوں ہاتھ اتھائے اور سفیان سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس بات کو دوست رکھتے تھے کہ وتر کی تیسری رکعت میں قل ھو اللہ احد پڑھ کر پھر تکبیر کہے اور دونوں ہاتھ اٹھائے پھر دعائے قنوت پڑھے امام احمد رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ قنوت میں اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے کہا ہاں مجھے یہ پسند آتا ہے ۔ ابوداؤد نے کہا کہ میں نے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا اسی طرح شیخ احمد بن علی المقریزی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب مختصر قیام اللیل میں ہے اور حضرت ابو مسعود ، ابوہریرہ اور انس رضی اللہ عنہم  سے بھی ان قاریوں کے بارے میں جو معونہ کے کنوئیں میں شہید ہوئے قنوتِ وتر میں دونوں ہاتھوں کا اٹھانا مروی ہے ۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تحقیق میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو ان لوگوں پر جنہوں نے قاریوں کو شہید کیا تھا ہاتھ اٹھا کر بد دعاء کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ ایسے ہی بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب مسمیٰ معرفت میں ہے ۔ حررہ عبدالجبار العزنوی عفی عنہ ۔ (فتاویٰ غزنویہ صفحہ 51،چشتی)(فتاویٰ علمائے حدیث : جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 283)


ترک رفع یدین احادیث مبارکہ کی روشنی میں


عہد نبوت میں وحی الہٰی سے دوسرے احکام کی طرح نماز کے احکامات کی تکمیل بھی تدریجاً ہوئی ہے۔ اوائل اسلام میں رفع یدین رائج تھا، مگر بعدازاں شارع علیہ السلام نے اسے منسوخ کر دیا۔ احناف کے ہاں اس پر قوی دلائل موجود ہیں۔ جیساکہ امام مسلم کی روایت ہے:عن جابر بن سمرة قال خرج علينا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فقال مالی اراکم رفعی يديکم کانها اذناب خيل شمس، اسکنوا فی الصلوٰة... الخ


جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام ہماری طرف تشریف لائے۔ (ہم نماز پڑھ رہے تھے) فرمایا کیا وجہ سے کہ میں تمہیں شمس قبیلے کے سرکش گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ نماز میں سکون سے رہا کرو۔ (صحيح مسلم، 1: 201، طبع ملک سراج الدين لاهور)


اس حدیث پاک میں شارع علیہ السلام نے اسکنوا فی الصلوة (نماز میں سکون اختیار کرو) فرماکر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو واضح طور پر رفع یدین بعدالافتتاح سے منع فرمایا ہے۔ امام مسلم نے اپنی کتاب ’الصحیح‘ میں ترک رفع یدین کا باب یوں قائم فرمایا ہے:


باب الامر بالسکون فی الصلوٰة والنهی عن الاشارة باليد ورفعها عندالسلام واتمام الصفوف الاول واليراص فيهما والامر بالاجتماع.


نماز میں سکون اختیار کرنے، سلام کے وقت ہاتھ سے اشارہ نہ کرنے، پہلی صفوں کو مکمل کرنے اور ان میں جڑنے اور اجتماع کے حکم کے کا باب ۔ امام ترمذی اور امام ابو داؤد حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں: قال ابن مسعود الا اصلی بکم صلوٰة رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم؟ فصلیٰ فلم يرفع يديه الاّ فی اول مرة.


عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے فرمایا! کیا میں تمہیں وہ نماز پڑھاؤں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز ہے؟ تو آپ نے نماز پڑھائی اور رفع یدین نہیں کیا سوائے پہلی مرتبہ کے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)


عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رضي الله عنه قَالَ : صَلَّي مَعَ عَلِيٍّ رضي الله عنه بِالْبَصْرَةِ، فَقَالَ : ذَکَّرَنَا هَذَا الرَّجُلُ صَلَاَةً، کُنَّا نُصَلِّيهَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، فَذَکَرَ أَنَّهُ کَانَ يُکَبِّرُ کُلَّمَا رَفَعَ وَکُلَّمَا وَضَعَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.


أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : صفة الصلاة، باب : إتمام التکبير في الرکوع، 1 / 271، الرقم : 751، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 78، الرقم : 2326، والبزار في المسند، 9 / 26، الرقم : 3532.


’’حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے فرمایا : انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بصرہ میں نماز پڑھی تو انہوں نے ہمیں وہ نماز یاد کروا دی جو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ) جب بھی اٹھتے اور جھکتے تو تکبیر کہا کرتے تھے۔‘‘


عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّهُ کَانَ يُصَلِّي لَهُمْ، فَيُکَبِّرُ کُلَّمَا خَفَضَ وَرَفَعَ، فَإِذَا انْصَرَفَ قَالَ : إِنِّي لَأَشْبَهُکُمْ صَلَاةً بِرَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.


أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : صفة الصلاة، باب : إتمام التکبير في الرکوع، 1 / 272، الرقم : 752، ومسلم في الصحيح، کتاب : الصلاة، باب : اثبات التکبير في کل خفض ورفع في الصلاة، 1 / 293، الرقم : 392، والنسائي في السنن، کتاب : التطبيق، باب : التکبير للنهوض، 2 / 235، الرقم : 1155، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 236، الرقم : 7219، ومالک في الموطأ، 1 / 76، الرقم : 166، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 1 / 221.


’’حضرت ابو سلمہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ انہیں نماز پڑھایا کرتے تھے، وہ جب بھی جھکتے اور اٹھتے تو تکبیر کہتے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : تم میں سے میری نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز سے زیادہ مشابہت رکھتی ہے۔‘‘(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)


عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي الله عنه قَالَ : صَلَّيْتُ خَلْفَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه، أَنَا وَعِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ، فَکَانَ إِذَا سَجَدَ کَبَّرَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأسَهُ کَبَّرَ، وَإِذَا نَهَضَ مِنَ الرَّکْعَتَيْنِ کَبَّرَ، فَلَمَّا قَضَي الصَّلَاةَ، أَخَذَ بِيَدِي عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ فَقَالَ : قَدْ ذَکَّرَنِي هَذَا صَلَاةَ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وآله وسلم، أَوْ قَالَ : لَقَدْ صَلَّي بِنَا صَلَاةَ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وآله وسلم. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.


أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : صفة الصلاة، باب : إتمام التکبير في السجود، 1 / 272، الرقم : 753، ومسلم في الصحيح، کتاب : الصلاة، باب : إثبات التکبير في کل خفض ورفع في الصلاة، 1 / 295، الرقم : 393، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 444.


’’حضرت مطرف بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے اور حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی جب انہوں نے سجدہ کیا تو تکبیر کہی جب سر اٹھایا تو تکبیر کہی اور جب دو رکعتوں سے اٹھے تو تکبیر کہی۔ جب نماز مکمل ہو گئی تو حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : انہوں نے مجھے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز یاد کرا دی ہے (یا فرمایا : ) انہوں نے مجھے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز جیسی نماز پڑھائی ہے۔‘‘(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)


عَنْ أَبِي بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رضي الله عنه يَقُولُ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِذَا قَامَ إِلَي الصَّلَاةِ، يُکَبِّرُ حِينَ يَقُوْمُ، ثُمَّ يُکَبِّرُ حِينَ يَرْکَعُ، ثُمَّ يَقُوْلُ : (سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَهُ). حِينَ يَرْفَعُ صُلْبَهُ مِنَ الرَّکْعَةِ. ثُمَّ يَقُوْلُ وَهُوَ قَائِمٌ : (رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ). قَالَ عَبْدُ اﷲِ : (وَلَکَ الْحَمْدُ). ثُمَّ يُکَبِّرُ حِينَ يَهْوِي، ثُمَّ يُکَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأسَهُ، ثُمَّ يُکَبِّرُ حِينَ يَسْجُدُ، ثُمَّ يُکَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأسَهُ، ثُمَّ يَفْعَلُ ذَلِکَ فِي الصَّلَاةِ کُلِّهَا حَتَّي يَقْضِيَهَا، وَ يُکَبِّرُ حِينَ يَقُوْمُ مِنَ الثِّنْتَيْنِ بَعْدَ الْجُلُوْسِ.مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.


أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : صفة الصلاة، باب : التکبير إذا قام من السجود، 1 / 272، الرقم : 756، ومسلم في الصحيح، کتاب : الصلاة، باب : إثبات التکبير في کل خفض ورفع في الصلاة، 1 / 293، الرقم : 392.


’’حضرت ابوبکر بن عبدالرحمن نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو کھڑے ہوتے وقت تکبیر کہتے پھر رکوع کرتے وقت تکبیر کہتے پھر (سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَهُ) کہتے جب کہ رکوع سے اپنی پشت مبارک کو سیدھا کرتے پھر سیدھے کھڑے ہوکر (رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ) کہتے۔ پھر جھکتے وقت تکبیر کہتے۔ پھر سر اٹھاتے وقت تکبیر کہتے۔ پھر سجدہ کرتے وقت تکبیر کہتے پھر سجدے سے سر اٹھاتے وقت تکبیر کہتے۔ پھر ساری نماز میں اسی طرح کرتے یہاں تک کہ پوری ہوجاتی اور جب دو رکعتوں کے آخر میں بیٹھنے کے بعد کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے۔‘‘(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)


عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رضي الله عنه کَانَ يُکَبِّرُ فِي کُلِّ صًلَاةٍ مِنَ الْمَکْتُوبَةِ وَغَيْرِهَا، فِي رَمَضَانَ وَغَيْرِهِ، فَيُکَبِّرُ حِينَ يَقُوْمُ، ثُمَّ يُکَبِّرُ حِينَ يَرْکَعُ، ثُمَّ يَقُوْلُ : (سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَهُ)، ثُمَّ يَقُوْلُ : (رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ)، قَبْلَ أَنْ يَسْجُدَ، ثُمَّ يَقُوْلُ : (اﷲُ أَکْبَرُ)، حِينَ يَهْوِي سَاجِدًا، ثُمَّ يُکَبِّرُ حِيْنَ يَرْفَعُ رَأسَهُ مِنَ السُّجُوْدِ، ثُمَّ يُکَبِّرُ حِيْنَ يَسْجُدُ، ثُمَّ يُکَبِّرُ حِيْنَ يَرْفَعُ رأسَهُ مِنَ السُّجُوْدِ، ثُمَّ يُکَبِّرُ حِينَ يَقُوْمُ مِنَ الْجُلُوْسِ فِي الاِثْنَتَيْنِ، وَيَفْعَلُ ذَلِکَ فِي کُلِّ رَکْعَةٍ، حَتَّي يَفْرُغَ مِنَ الصَّلَاةِ، ثُمَّ يَقُوْلُ حِينَ يَنْصَرِفُ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنِّي لَأَقْرَبُکُمْ شَبَهًا بِصَلَاةِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، إِنْ کَانَتْ هَذِهِ لَصَلَاتَهُ حَتَّي فَارَقَ الدُّنْيَا.


رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُوْدَاوُدَ.


أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : صفة الصلاة، باب : يهوي بالتکبير حين يسجد، 1 / 276، الرقم : 770، وأبوداود في السنن، کتاب : الصلاة، باب : تمام التکبير، 1 / 221، الرقم : 836.


’’ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہر نماز میں تکبیر کہتے خواہ وہ فرض ہوتی یا دوسری، ماہِ رمضان میں ہوتی یا اس کے علاوہ جب کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے اور جب رکوع کرتے تو تکبیر کہتے۔ پھر (سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَهُ) کہتے۔ پھر سجدہ کرنے سے پہلے (رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ) کہتے۔ پھر جب سجدے کے لئے جھکتے تو (اَﷲُ اَکْبَرُ) کہتے۔ پھر جب سجدے سے سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے، پھر جب (دوسرا) سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے، پھر جب سجدے سے سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے، پھر جب دوسری رکعت کے قعدہ سے اٹھتے تو تکبیر کہتے، اور ہر رکعت میں ایسا ہی کرتے یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہو جاتے۔ پھر فارغ ہونے پر فرماتے : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! تم سب میں سے میری نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے ساتھ زیادہ مشابہت رکھتی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تادمِ وِصال اسی طریقہ پر نماز ادا کی۔‘‘(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)


عَنْ أَبِي قِلَابَةَ أَنَّ مالِکَ ابْنَ الْحُوَيْرِثِ رضي الله عنه قَالَ لِأَصْحَابِهِ : أَلَا أنَبِّئُکُمْ صَلَاةَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم؟ قَالَ : وَذَاکَ فِي غَيْرِ حِينِ صَلَاةٍ، فَقَامَ، ثُمَّ رَکَعَ فَکَبَّرَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأسَهُ، فَقَامَ هُنَيَةً، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأسَهُ هُنَيَةً، فَصَلَّي صَلَاةَ عَمْرِو بْنِ سَلَمَةَ شَيْخِنَا هَذَا. قَالَ أَيُّوْبُ : کَانَ يَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ أَرَهُمْ يَفْعَلُونَهُ، کَانَ يَقْعُدُ فِي الثَّالِثَةِ وَالرَّابِعَةِ. قَالَ : فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ، فَقَالَ : لَوْ رَجَعْتُمْ إِلَي أَهْلِيکُمْ، صَلُّوْا صَلَاةَ کَذَا فِي حِينٍ کَذَا، صَلُّوْا صَلَاةَ کَذَا فِي حِينٍ کَذَا، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ، فَلْيُؤَذِّنْ أَحَدُکُمْ، وَلْيَؤُمَّکُمْ أَکْبَرُکُمْ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.


أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : صفة الصلاة، باب : المکث بين السجدتين إتمام التکبير في الرکوع، 1 / 282، الرقم : 785.


’’حضرت ابوقلابہ سے روایت ہے کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا : کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز نہ بتاؤں؟ اور یہ نماز کے معینہ اوقات کے علاوہ کی بات ہے۔ سو انہوں نے قیام کیا، پھر رکوع کیا تو تکبیر کہی پھر سر اٹھایا تو تھوڑی دیر کھڑے رہے۔ پھر سجدہ کیا، پھر تھوڑی دیر سر اٹھائے رکھا پھر سجدہ کیا۔ پھر تھوڑی دیر سر اٹھائے رکھا۔ انہوں نے ہمارے ان بزرگ حضرت عمرو بن سلمہ کی طرح نماز پڑھی۔ ایوب کا بیان ہے وہ ایک کام ایسا کرتے جو میں نے کسی کو کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ دوسری اور چوتھی رکعت میں بیٹھا کرتے تھے۔ فرمایا : ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ٹھہرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم اپنے گھر والوں کے پاس واپس جاؤ تو فلاں نماز فلاں وقت میں پڑھنا۔ جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے ایک اذان کہے اور جو بڑا ہو وہ تمہاری امامت کرے۔‘‘


عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ : قَالَ عَبْدُ اﷲِ بْنُ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه : أَلاَ أصَلِّي بِکُمْ صَلَاةَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَ : فَصَلَّي فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً.رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ، وَالنَّسَائِيُّ وَزَادَ : ثُمَّ لَمْ يُعِدْ.وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)


أخرجه أبوداود في السنن، کتاب : التطبيق، باب : من لم يذکر الرفع عند الرکوع، 1 / 286، الرقم : 748، والترمذي في السنن، کتاب : الصلاة عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : رفع اليدين عند الرکوع، 1 / 297، الرقم : 257، والنسائي في السنن، کتاب : الافتتاح، باب : ترک ذلک، 2 / 131، الرقم : 1026، وفي السنن الکبري، 1 / 221، 351، الرقم : 645، 1099، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 388، 441، وابن أبي شيبة في المصنف، 1 / 213، الرقم : 2441.


’’حضرت علقمہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کیا میں تمہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز نہ پڑھاؤں؟ راوی کہتے ہیں : پھر اُنہوں نے نماز پڑھائی اور ایک مرتبہ کے سوا اپنے ہاتھ نہ اٹھائے۔‘‘ امام نسائی کی بیان کردہ روایت میں ہے : ’’پھر انہوں نے ہاتھ نہ اٹھائے۔‘‘


حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ وَخَالِدُ بْنُ عَمْرٍو وَ أَبُوْحُذَيْفَةَ رضي الله عنهم، قَالُوْا : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بِإِسْنَادِهِ بِهَذَا، قَالَ : فَرَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ، وَ قَالَ بَعْضُهُمْ : مَرَّةً وَاحِدَةً. رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ.


أخرجه أبوداود في السنن، کتاب : التطبيق، باب : من لم يذکر الرفع عند الرکوع، 1 / 286، الرقم : 749.


’’حضرت حسن بن علی، معاویہ، خالد بن عمرو اور ابو حذیفہ رضی اللہ عنھم روایت کرتے ہیں کہ سفیان نے اپنی سند کے ساتھ ہم سے حدیث بیان کی (کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے) پہلی دفعہ ہی ہاتھ اٹھائے، اور بعض نے کہا : ایک ہی مرتبہ ہاتھ اٹھائے۔‘‘


عَنِ الْبَرَاءِ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم کَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَي قَرِيْبٍ مِنْ أذُنَيْهِ ثُمَّ لَا يَعُوْدُ. رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ.


أخرجه أبوداود في السنن، کتاب : الصلاة، باب : من لم يذکر الرفع عند الرکوع، 1 / 287، الرقم : 750، وعبد الرزاق في المصنف، 2 / 70، الرقم : 2530، وابن أبي شيبة في المصنف، 1 / 213، الرقم : 2440، والدارقطني في السنن، 1 / 293، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 1 / 253، الرقم : 1131.


’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاتے، اور پھر ایسا نہ کرتے۔‘‘(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)


عَنِ الْأَسْوَدِ أَنَّ عَبْدَ اﷲِ بْنَ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه کَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ التَّکْبِيْرِ، ثُمَّ لَا يَعُوْدُ إِلَي شَيءٍ مِنْ ذَلِکَ. وَيَأثِرُ ذَلِکَ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم. رَوَاهُ أَبُوْحَنِيْفَةَ.

أخرجه الخوارزمي في جامع المسانيد، 1 / 355.


’’حضرت اسود روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اُٹھاتے تھے، پھر نماز میں کسی اور جگہ ہاتھ نہ اٹھاتے اور یہ عمل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا کرتے۔‘‘


عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضي الله عنه قَالَ : صَلَّيْتُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَأَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ رضي اﷲ عنهما، فَلَمْ يَرْفَعُوْا أَيْدِيَهِم إِلَّا عِنْدَ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ.رَوَاهُ الدَّارُقُطْنِيُّ.


أخرجه الدارقطني في السنن، 1 / 295، وأبويعلي في المسند، 8 / 453، الرقم : 5039، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 79، والهيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 101.


’’حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنہما کے ساتھ نماز پڑھی، یہ سب حضرات صرف نماز کے شروع میں ہی اپنے ہاتھ بلند کرتے تھے۔‘‘


عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيْهِ، قَالَ : رَأَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّي يُحَاذِيَ بِهِمَا، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : حَذْوَ مَنْکَبَيْهِ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْکَعَ، وَبَعْدَ مَا يَرْفَعُ رَأسَهُ مِنَ الرُّکُوْعِ، لَا يَرْفَعُهُمَا، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : وَلَا يَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ. رَوَاهُ أَبُوْعَوَانَةَ.

أخرجه أبو عوانة في المسند، 1 / 423، الرقم : 1572.


’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز شروع کرتے وقت اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھایا، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکوع کرنا چاہتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے، اور بعض نے کہا دونوں سجدوں کے درمیان (ہاتھ) نہیں اٹھاتے تھے۔‘‘(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)


عَنِ الْأَسْوَدِ، قَالَ : رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضي الله عنه يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَکْبِيْرَةٍ، ثُمَّ لَا يَعُوْدُ. رَوَاهُ الطَّحَاوِيُّ.أخرجه الطحاوي في شرح معاني الآثار، 1 / 294، الرقم : 1329.


’’حضرت اسود بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو نماز ادا کرتے دیکھا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ تکبیر تحریمہ کہتے وقت دونوں ہاتھ اٹھاتے، پھر (بقیہ نماز میں ہاتھ) نہیں اٹھاتے تھے۔‘‘


عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَيْبٍ عَنْ أَبِيْهِ أَنَّ عَلِيًا رضي الله عنه کَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، ثُمَّ لَا يَعُوْدُ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.


الحديث رقم 27 : أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 1 / 213، الرقم : 2444.


’’عاصم بن کلیب اپنے والد کلیب سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ صرف تکبیر تحریمہ میں ہی ہاتھوں کو اٹھاتے تھے پھر دورانِ نماز میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔


نماز میں پہلی تکبیر کے علاوہ رفع یدین نہ کرنے کے دلائل


علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں “سنّت” سے ثابت ہیں، ان میں عمل خواہ ایک صورت پر ہو مگر تمام صورتوں کو شرعآ درست سمجھنا ضروری ہے. اگر کوئی فرد یا جماعت ان مسائل میں اپنے مسلک_مختار (اختیار شدہ راستہ) کا اتنا اصرار کرے، کہ دوسرے مسلک پر طنز و تعریض، دشنام طرازی اور دست درازی سے بھی باز نہ آۓ تو اس (فتنہ و فساد) کو ناجائز اور حرام قرار دیا گیا ہے. باہم ٹکراتی اختلافی سنّتوں کے حکم میں فرق اصول حدیث و فقہ میں صرف ناسخ و منسوخ، راجح و مرجوح یا اولیٰ اور غیر اولیٰ (افضل و غیرافضل) کا ہوتا ہے.


رفع (یعنی بلند کرنا) یدین (یعنی دونوں ہاتھ)


یہ رفع یدین (یعنی دونوں ہاتھ بلند کرنا) ہر مسلمان نماز (کے شروع) میں کرتا ہے، لہذا اختلاف یہ نہیں کہ رفع یدین نہیں کیا جاتا ، بلکہ اختلاف تو صرف نماز میں رفع یدین کتنی بار اور کن کن موقعوں پر کیا جانا چاہیے، اسی بات کا ہے. مثَلاً: جو لوگ نماز کے اندر رفع یدین کرتے ہیں، وہ سجدوں میں جاتے اور اٹھتے ہوۓ کیوں نہیں کرتے، جب کہ اس پر صحیح احادیث بھی موجود ہیں؟ جیسے:


سجدوں میں رفع یدین کی احادیث :


كَمَا حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ كَانَ ” يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي كُلِّ خَفْضٍ ، وَرَفْعٍ ، وَرُكُوعٍ ، وَسُجُودٍ وَقِيَامٍ ، وَقُعُودٍ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ ، وَيَزْعُمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ ” .


[مشكل الآثار للطحاوي » بَابُ بَيَانِ مُشْكِلِ مَا رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ … رقم الحديث: 5140] المحلى(ابن حزم ) : 4/93


المحدث: ابن القطان – المصدر: الوهم والإيهام – الصفحة أو الرقم: 5/611 – خلاصة حكم المحدث: صحيح


المحدث: الألباني – المصدر: أصل صفة الصلاة – الصفحة أو الرقم: 2/709 – خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح


حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَا : حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : ” رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ” يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي الصَّلَاةِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ حِينَ يَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ ، وَحِينَ يَرْكَعُ ، وَحِينَ يَسْجُدُ ” .[سنن ابن ماجه:850 – مسند أحمد بن حنبل:5995 – فوائد تمام الرازي: 1534 – جزء من حديث أبي عبد الله القطان :166 – شرح معاني الآثار للطحاوي:842]


المحدث: ابن كثير – المصدر: الأحكام الكبير – الصفحة أو الرقم: 3/312


خلاصة حكم المحدث: لا بأس بإسناده


المحدث: أحمد شاكر – المصدر: مسند أحمد – الصفحة أو الرقم: 9/22


خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح


المحدث: الألباني – المصدر: صحيح ابن ماجه – الصفحة أو الرقم: 707


خلاصة حكم المحدث: صحيح


حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، ” أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ ” .[مسند أبي يعلى الموصلي » بَقِيَّةُ مُسْنَدِ أَنَسٍ … رقم الحديث: 3701 – مصنف ابن أبي شيبة : رقم الحديث2365 – الأحاديث المختارة: رقم الحديث1834 – المحلى بالآثار لابن حزم: رقم الحديث613 (3 : 9) – فوائد ابن أخي ميمي الدقاق (سنة الوفاة: 390) : رقم الحديث172 – الجزء الأول من الفوائد المنتقاة لابن أبي الفوارس (سنة الوفاة: 412) : رقم الحديث110 – عروس الأجزاء للثقفي (سنة الوفاة:562) : رقم الحديث61 – جزء من مشيخة تقى الدين الأشنهى (سنة الوفاة: 738): رقم الحديث9]


المحدث: الألباني – المصدر: أصل صفة الصلاة – الصفحة أو الرقم: 2/708


خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح جدا


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ , عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ ، أَنَّهُ رَأَى نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي صَلَاتِهِ , إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ رُكُوعِهِ ، وَإِذَا سَجَدَ ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ سُجُودِهِ , حَتَّى يُحَاذِيَ بِهَا فُرُوعَ أُذُنَيْهِ ” .[مسند أحمد بن حنبل » رقم الحديث: 15292 – سنن النسائى الصغرى » كِتَاب التَّطْبِيقِ » بَاب رَفْعِ الْيَدَيْنِ لِلسُّجُودِ … رقم الحديث: 1074 – المحلى بالآثار لابن حزم » كِتَابُ الصَّلاةِ » الأَعْمَالُ الْمُسْتَحَبَّةُ فِي الصَّلاةِ وَلَيْسَتْ … رقم الحديث: 612]


المحدث: ابن القطان – المصدر: الوهم والإيهام – الصفحة أو الرقم: 5/611 – خلاصة حكم المحدث: صحيح


المحدث: ابن حجر العسقلاني – المصدر: فتح الباري لابن حجر – الصفحة أو الرقم: 2/261 – خلاصة حكم المحدث: أصح ما وقفت عليه في هذا الباب


المحدث: العظيم آبادي – المصدر: عون المعبود – الصفحة أو الرقم: 2/256 – خلاصة حكم المحدث: صحيح الإسناد [و] لا يستلزم من صحة إسناده صحته


حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْوَكِيلُ , ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ , ثنا هُشَيْمٌ , عَنْ حُصَيْنٍ , وَحَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، وَعُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، قَالا : نا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى , نا جَرِيرٌ , عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , قَالَ : دَخَلْنَا عَلَى إِبْرَاهِيمَ فَحَدَّثَهُ عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ , قَالَ : صَلَّيْنَا فِي مَسْجِدِ الْحَضْرَمِيِّينَ , فَحَدَّثَنِي عَلْقَمَةُ بْنُ وَائِلٍ , عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ” يَرْفَعُ يَدَيْهِ حِينَ يَفْتَتِحُ الصَّلاةَ وَإِذَا رَكَعَ وَإِذَا سَجَدَ “.


[سنن الدارقطني » كِتَابُ الصَّلاةِ » بَابُ ذِكْرِ التَّكْبِيرِ وَرَفْعِ الْيَدَيْنِ عِنْدَ … رقم الحديث: 974]


الراوي: وائل بن حجر الحضرمي والد علقمة المحدث: الألباني – المصدر: أصل صفة الصلاة – الصفحة أو الرقم: 2/707


خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح على شرط مسلم


نا مُعَاذٌ , قَالَ : نا عَلِيُّ بْنُ عُثْمَانَ اللاحِقِيُّ , قَالَ : نا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ , عَنْ غَيْلانَ بْنِ جَرِيرٍ , عَنْ مُطَرِّفٍ , قَالَ : صَلَّيْتُ أَنَا , وَعِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ خَلْفَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ , فَكَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا رَكَعَ , وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ , وَإِذَا سَجَدَ , فَقَالَ عِمْرَانُ : أَرَى لَقَدْ أَذْكَرَنِي صَاحِبُكُمْ صَلاةً كُنَّا نُصَلِّيهَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , لَقَدْ أَذْكَرَنِي هَذَا صَلاةَ رَسُولِ اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .[الثالث عشر من الفوائد المنتقاة لأبي حفص البصري (سنة الوفاة:357) رقم الحديث: 104]


ہر اٹھتے اور جھکتے وقت (یعنی سجدوں میں بھی) رفع یدین:


حَدَّثَنَا يَحْيَى , ثنا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ , قَالَ : ثنا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي كُلِّ خَفْضٍ وَرَفْعٍ , وَيَقُولُ : ” أَنَا أَشْبَهُكُمْ صَلاةً بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ” .[السادس من الفوائد المنتقاة لابن أبي الفوارس (سنة الوفاة:412) رقم الحديث: 87]


ہر تکبیر (الله اکبر کہتے یعنی سجدے میں جاتے اٹھتے) وقت رفع یدین:


حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْهَاشِمِيُّ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ رِيَاحٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ ” .[سنن ابن ماجه » رقم الحديث: 855 – حديث أبي بكر الأزدي: 50 – المعجم الكبير للطبراني:10781]


المحدث: الألباني – المصدر: صحيح ابن ماجه – الصفحة أو الرقم: 712


خلاصة حكم المحدث: صحيح


حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا رِفْدَةُ بْنُ قُضَاعَةَ الْغَسَّانِيُّ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ عُمَيْرِ بْنِ حَبِيبٍ ، قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ مَعَ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ فِي الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ ” .[سنن ابن ماجه » رقم الحديث: 851 – المعجم الكبير للطبراني:13590 – أنساب الأشراف للبلاذري:2678 – معجم الصحابة لابن قانع:1150 – معرفة الصحابة لأبي نعيم:4810 – حلية الأولياء لأبي نعيم:4554 – تاريخ بغداد للخطيب البغدادي:439(3 : 49) + 3919(13 : 335) – تاريخ دمشق لابن عساكر : 16405 (18 : 154) + 38353 (37 : 373) + 43005 (41 : 248) + 56200 (52 : 350) – تهذيب الكمال للمزي : 869]


المحدث: الألباني – المصدر: صحيح ابن ماجه – الصفحة أو الرقم: 1/260،چشتی)


خلاصة حكم المحدث: صحيح


عن ابنِ عمرَ رضي الله عنهما أنه كان يرفعُ يدَيْه مع كلِّ تكبيرةٍ.


[شرح بلوغ المرام لابن عثيمين – الصفحة أو الرقم: 2/408 – خلاصة حكم المحدث: ثابت]


عَنْ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ مِنَ الصَّلَاةِ .[مسند أحمد بن حنبل » رقم الحديث: 14042 – إتحاف المهرة » رقم الحديث: 2556]


بس، بعض روایات میں جو طریقہ ان الفاظِ حدیث کا ((سجدے کے درمیان ہاتھ نہ اٹھانے))کا صراحت سے مذکور ہے، یہ بعد میں رفع یدین نہ کرنے (یا جاری نہ رہنے) کو، واضح کرنے کی دلیل ہے. (ورنہ کیوں کہے جاتے؟) بس اسی طرح نبوی طریقہ نماز کے متعلق یہ طریقہ الفاظِ حدیث کا کہ (( نہیں رفع یدین کیا مگر ایک دفعہ ہی … یعنی نماز کے شروع میں ہی)) واضح کرتا ہے نماز کی بقیہ رفع یدین کے انکار ونفی کو.


اور صحیح مسلم کی روایت کے مطابق ایک دفعہ بعض صحابہ کو رفع یدین کرتے دیکھتے اسے “شریر” گھوڑوں کی دموں (کی حرکت) کی طرح کی مثال دیتے یہ حکم فرمانا کہ (( سکون اختیار کرو نماز میں ))، واضح کرتا ہے نماز کے اندر کی (ساری) رفع یدین کی حرکات کا پہلا (منسوخ کردہ) طریقہ نبوی ہونا اور سکون کے منافی اور پسندیدہ طریقہ نہ رہنا.


ہم سنی (حنفی) مسلمان شروع نماز کے علاوہ رفع یدین کیوں نہیں کرتے؟


صحیح مسلم اور رفع یدین:حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا : حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ : خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : ” مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ ، كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ ، اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ “… [صحيح مسلم » كِتَاب الصَّلَاةِ » بَاب الأَمْرِ بِالسُّكُونِ فِي الصَّلَاةِ وَالنَّهْيِ … رقم الحديث: 656،چشتی)


حضرت جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: کیا وجہ ہے کہ میں رافعی ایدیکم (یعنی تم کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے) دیکھتا ہوں جیسا کہ سرکش گھوڑوں کی دمیں ہیں، سکون اختیار کرو نماز میں …


[صحيح مسلم » كِتَاب الصَّلَاةِ » بَاب الأَمْرِ بِالسُّكُونِ فِي الصَّلَاةِ وَالنَّهْيِ …رقم الحديث: 656(432)


تنبیہ : یہاں عام گھوڑے کی بجاۓ سرکش (شرارتی) گھوڑے کی مثال دی گئی ہے، جس کی دم اوپر نیچے ہوتی ہے.


تخريج الحديثأخرجه الطيالسى (ص 106، رقم 823) ، وأحمد (20876+20958+20964+21027) ، ومسلم (1/322، رقم 430) ، وأبو داود (1/262، رقم 1000) ، والنسائى (3/4، رقم 1184) ، وابن حبان (1878+1879) . وأخرجه أيضًا: مصنف عبد الرزاق (2/251، رقم: 3252) ، ابن أبى شيبة (2/231، رقم 8447) ، وأبو عوانة (1/419، رقم 1552) ، والطبرانى (1822+1824+1825+1826+1827+1828) ، والبيهقى (3520+3521) ، والبزار (10/202، رقم:4291) ، وأبي يعلى (7472+7480) ، شرح مشكل الآثار(5926)، شرح معاني الآثار(2632)۔


امام بخاریؒ (جزء رفع الیدین) میں فرماتے ہیں یہ انکار اس رفع یدین پر ہے جو التحیات میں سلام کے وقت ہوتی تھی اس کی وضاحت اس حدیث سے ہورہی ہے:


حضرت جابر بن سمرہؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے ہم السَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ اور السَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ کہتے اور اپنے ہاتھوں سے دونوں طرف اشارہ کرتے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم اپنے ہاتھوں سے اس طرح اشارہ کرتے ہو جیسا کہ سرکش گھوڑے کی دم تم میں سے ہر ایک کے لئے کافی ہے کہ وہ اپنی ران پر ہاتھ رکھے پھر اپنے بھائی پر اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف سلام کرے۔[صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 965، نماز کا بیان]


دوسری حدیث میں خاص “جماعت” کی نماز میں “سلام” کے خاص وقت میں “اشارہ” کے خاص عمل کے کرنے سے منع فرمایا گیا ہے، جب کہ پہلی حدیث میں حکم عام سے ہر نماز کے اندر، حکم عام سے ہر رفع یدین سے روکنے کے لیے سکون کا حکم عام یعنی ہر ایک مرد وعورت کے لیے دیا گیا ہے.


فقہ الحدیث :لہذا، اس حدیث کا موقع ومحل اور اس سے پہلی حدیث کا موقع ومحل میں فرق ہونے کے سبب اس حدیث کو اس پہلی حدیث سے جوڑتے یہ کہنا درست نہیں کہ یہ سکون اختیار کرنے کا حکم پوری نماز کے رفع یدین پر نہیں سلام کے وقت کرنے کے متعلق ہے، کیونکہ:


پہلی حدیث میں اکیلے (نفل) نماز پڑھتے رفع یدیں کرتے دیکھا گیا تھا، لیکن یہاں دوسری حدیث میں خاص “جماعت” کی نماز کا موقعہ ہے.

پہلی حدیث میں سلام کے وقت کا اشارہ ہی نہیں جبکہ دوسری حدیث میں سلام کے وقت “اشارہ” کرنے کی ممانعت ہے.

پہلی حدیث میں حکم عام ہے “نماز میں سکون” کا یعنی نماز کے اندر سکون کا حکم ہے، جبکہ اس دوسری حدیث میں حکمعام نہیں بلکہ خاص سلام کے وقت اور موقعہ پر کی جانے والے عمل کی ممانعت کا حکم ہے. 4.پہلی حدیث میں سکون اختیار کرنے کا حکم دے رہے ہیں اور دوسری حدیث میں یہ ارشاد فرمارہے ہیں کہ تم اپنے ہاتھوں کو اپنی ران پر رکھ کر دائیں بائیں اپنے بھائی ہر سلام کرو۔ لہذا، یہ دو الگ الگ حدیثیں ہیں، ان کہ خلط ملط کرکے ایک کہنا بہت غلط ہے۔ قال الْبُخَارِي ، أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ الْمَرْوَزِيُّ قال : حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قال : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ قَالَ : ” أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً وَاحِدَةً ” .[سنن النسائى الصغرى » كِتَاب التَّطْبِيقِ » الرُّخْصَةُ فِي تَرْكِ ذَلِكَ … رقم الحديث: 1047،چشتی) ترجمہ : حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کیا میں تم لوگوں کورسول اﷲﷺ کی نماز پڑھ کہ نہ دکھاؤں پھر انہوں نے نماز پڑھی ، پس نہیں اٹھاۓ اپنے ہاتھ صرف (شروع نماز میں) ایک مرتبہ۔ (نسائی ص161، قدىمی کتب خانہ نسائی (مترجم) ج1 ص345 دارالاشاعت) تخريج الحديث وأخرجه مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي (18) ، ابن أبي شيبة (2441)، وأبو داود (748) ، والترمذي (257) حديث حسن ، والنسائي (2/195، رقم:1058) ، وأبو يعلى (5040+5302) ، وأبي يعلى (5302) والطحاوي في “شرح معاني الآثار” 1/224(1357)، والبيهقي في “السنن” 2/112(2531)، وفی معرفة السنن والآثار(3280)، من طريق وكيع -شيخ أحمد-، بهذا الإسناد. کیا آپ جاتنے ہیں کہ ترک رفع الیدین والی حدیث کو کن کن محدثین نے صحیح قرار دیا ہے: تنبیہ! اصول فقہ و حدیث کا ضابطہ ہے کہ جس حدیث سے کوئی فقیہ و مجتہد ومحدث استدلال کرے وہ اس کے نزدیک صحیح ہے [تدریب الراوی ج 1ص 48، تلخىص الحبیر ج2ص143، قواعد فی علوم الحدیث 57] 1۔ حضرت ابر اہیم النخعیؒ 96ھ [مسند ابی حنیفہ بروایت حسن ص 13، مسند ابی حنیفہ بروایت ابی یوسف ص21،موطا امام محمد ص93، کتاب الحجہ لامام محمد ج1ص96،مسند ابن الجعد ص292، سنن الطحاوی ج1ص162,163، مشکل الآثار للطحاوی ج2ص11، جامع المسدنید ج1ص352، معجم الکبیر للطبرانی ج 22ص22، سنن دار قطنی ج1ص394، سنن الکبری للبیہقی ج2ص81] 2۔ امام اعظم ابو حنیفہ التابعی ؒ 150ھ [مسند ابی حنیفہ بروایت حسن ص13، مسند ابی حنیفہ بروایت ابی یوسف ص 21، موطا امام محمد ص93، کتاب الحجہ ج 1ص96، سنن الطحاوی ج1ص162، جامع المسانید ج1ص353، الاوسط لا بن المنذر ج3ص148، التجريد للقدروی ج5ص272، حلیة العماءللشاشی ج1ص189، المحلی ابن حزم ج4ص119 ۔ج1ص301، التمیہد ج9ص213، الاتذکار لا بن البر ج4ص 99، مناقب المکی ج1ص130، مغنی لابن قدامہ ج2ص172، دلائل الاحکام ج1ص263، شرح سنن ابن ماجہ المغلطائی ج5ص1466,1467، عمدة القاری ج5ص272] 3۔ امام سفیان ثوری ؒ161ھ [جزء رفع الیدین ص46، ترمذی ج 1ص59، الاوسط لابن منذر ج3ص148، حلیة العماء للشاشی ج1ص189، التجرید للقدوری ج1ص272، شرح البخاری لابن بطال ج 2ص423، التمہید ج 9ص213،الاستذکار ج4ص99، شرح السنة للبغوی ج2 ص24،مغنی لابن قدامہ ج2ص172، دلائل الاحکام لابن شداد ج1ص263، شر ح سنن ابن ماجہ للمغلطائی ج5ص1466، عمدة القاری ج5ص272] 4۔ امام ابن القاسم المصریؒ 191ھ [المدونة الکبری لامام مالک ج1ص71] 5۔ امام وکیع بن الجراح الکوفی ؒ 197ھ [جزءرفع الیدىن للبخاری ص46، عمدة القاری ج5ص272،چشتی) 6۔ امام اسحاق بن ابی اسرائیل المروزی ؒ 246ھ [سنن دار قطنی ج1 ص399,400 سند صحیح] 7۔ امام محمد بن اسماعیل البخاری256ھ [جزء رفع الیدین للبخاری ص25، للزئی ص 112] 8۔ امام ابو داؤد السجستانی275ھ [تاریخ بغداد الخطیب ج 9ص59، تذکرة الحفاظ ج2ص127، النکت لابن حجرص141] 9۔ امام ابو عیسی ترمذی ؒ 279ھ [ترمذی ج1ص59، شرح الھدایہ للعینی ج2ص294] المحدث: الترمذي – المصدر: سنن الترمذي – الصفحة أو الرقم:257، خلاصة حكم المحدث: حسن 10۔ امام احمد بن شعیب نسائی 303ھ [النکت لابن حجر ص165، زہر الربی للسیوطی ص3] 11۔ امام ابو علی الطوسی 312ھ [مختصر الاحکام مستخرج الطوسی علی جامع الترمذی ج 2ص103، شرح ابن ماجہ للحافظ للمغلطائی ج 5ص1467] 12۔ امام ابو جعفر الطحاوی ؒ 321 ھ [الطحاوی ج1ص162، الرد علی الکرانی بحوالہ جوہر النقی ص77,78] 13۔ امام ابو محمد الحارثی البخاری ؒ 340ھ [جامع المسانید ج 1ص353 مکة المکرمة] 14۔ امام ابو علی النسابوری ؒ349ھ [النکت لابن حجر ؒ ص165، زہر الربی علی النسائی للسیوطی ص3] 15۔ امام ابو علی ابن السکن المصری ؒ353ھ [النکت لا بن حجر 164 زہر الربی للسیوطی ص3] 16۔ امام محمد بن معاویہ االاحمر ؒ 358ھ [النکت لابن حجر ص164، زہر الربی للسیوطی 3] 17۔ امام ابو بکر ابن السنی ؒ 364ھ [الارشاد لامام الخلىلی ص زہر الربی للسیوطی ص 3] 18۔ امام ابن عدی ؒ365ھ [النکت لا بن حجر ص164 زہر الربی ص3] 19۔ امام ابو الحسن الدار قطنی ؒ 385ھ [کتاب العلل ج 5ص172، النکت ص164 زہر الربی ص3] 20۔ امام ابن مندة 390ھ [النکت لا بن حجر 164، زہر الربی للسیوطی ص3] 21۔ امام ابو عبد اﷲ الحاکم ؒ 405ھ [النکت لابن حجر ص164 زہر الربی للسیوطی ص3] 22۔ امام عبد الغنی بن سعید ؒ 409ھ [النکت لابن حجر ص164 زہر الربی للسیوطی ص3] 23۔ امام ابو الحسین القدوری ؒ 428ھ [التجرید للقدوری ؒ ج2ص518] 24۔ امام ابو یعلی الخلیلی ؒ446ھ [الارشاد للخلیلی ص النکت ص164 زہر الربی للسیوطی ص3] 25۔ امام ابو محمد ابن حزم 456ھ [المحلی لا بن حزم ج 4ص121 مصر] 26۔ امام ابوبکر الخطیب للبغدادی ؒ 463ھ [النکت الابن حجر ص163 زہر الربی للسیوطی ص3] 27۔امام ابوبکر السرخسی ؒ 490ھ [المبسوط للسرخسی ج 1ص14] 28۔ امام موفق المکی ؒ568 ھ [مناقب موفق المکی ج1ص130,131] 29۔ امام ابو طاہر السلفی ؒ 576ھ [النکت الابن حجر ص163 زہر الربی للسیوطی ص3] 30۔ امام ابوبکر کاسانی ؒ587ھ [بدائع الصنائع للکاسانی ؒ ج1ص40] 31۔ امام ابن القطان الفاسیؒ 628ھ [بیان الوھم والا ےھام لابن القطان الفاسی ج3ص367] 32۔ امام محمد الخوارزمی 655ھ [جامع المسانید] 33۔ امام ابو محمد علی بن زکریا المنجی ؒ686ھ [اللباب فیا الجمع بین السنة والکتاب ج1 ص256] 34۔ امام ابن الترکمانی ؒ745ھ [الجوہر النقی علی البیہقی لا بن الترکمانی ج2ص77,78] 35۔ امام حافظ مغلطائی 762ھ [شرح ابن ماجہ الحفاظ المغلطائی ج 5 ص1467] 36۔ امام حافظ زیلعی ؒ 672ھ [نصب الرایہ للزیلعی ج1ص396وفی نسخة ج1ص474] المحدث: الزيلعي – المصدر: نصب الراية – الصفحة أو الرقم: 1/394، خلاصة حكم المحدث: صحيح 37۔ امام حافظ عبد القادر القرشی ؒ 775ھ [الحاوی علی الطحاوی ج 1ص530] 38۔ امام فقیہ محمد البابرقی 786ھ [العنایہ شرح الھدایہ ج1ص269] 39۔ امام فقیہ محمد الکردری 826 ھ [مناقب کردری ج1ص174] 40۔ محدث احمد بن ابی بکر البوصیری ؒ 840ھ [اتحاف الخیرة المھرہ للبوصیری ج10ص355,356،چشتی) 41۔ محدث محمود العینی ؒ 855ھ [شرح سنن ابی داؤد للحافظ العینی ؒ ج 3ص341,342 ، شرح الھدایہ عینی ج2 ص294] 42۔ امام ابن الھمام ؒ 861ھ [فتح القدیر شرح الھدایہ لابن الھمام ج1ص269,270] 43۔ ملا علی قاری ؒ1014ھ [مرقات ج2ص269، شرح الفقایہ ج1ص257,58، شرح مسند ابی حنیفہ للعلی قاری ص38] 44۔ امام محمد ھاشم السندھی ؒ1154ھ [کشف الدین مترجم لمصمدہاشم السندھی ص15,16] 45۔ امام حافظ محدث محمد الزبیدی ؒ 1205ھ [عقود الجواھر المنفىہ للزبیدی] 46۔ امام محمد بن علی النیموی ؒ 1344ھ [آثار السنن مع التعلیق للنمیوی ؒ ص132] 47۔ حافظ خليل احمد السہارنفوری 1346ھ [بذل المجھود ج2ص21] 48۔ مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ1350ھ [نیل الفرقدین لکشمیری ص56,57,58,64,66,61] 49۔ علامہ ظفر احمد عثمانی ؒ [اعلاءالسنن للعثمانی ؒ ج 3ص45,46] 50۔ شیخ الحدیث زکریا المدنی ؒ [اوجز المسالک علی موطا مالک] 51۔ علامہ محمد زہیر الشاویش ؒ [تعلیق علی شرح السنة للبغوی ج3ص24 بیروت] 52۔ علامہ احمد محمد الشاکر المصری غیر مقلد [الشرح علی الترمذی لاحمد شاکر المصری ج2ص41 دارالعمران بیروت] المحدث: أحمد شاكر – المصدر: مسند أحمد – الصفحة أو الرقم: 5/251، خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح المحدث: أحمد شاكر – المصدر: شرح سنن الترمذي – الصفحة أو الرقم: 2/40، خلاصة حكم المحدث: صحيح 53۔ علامہ شعیب الارناؤط [تعلیق علی شرح السنہ للبغوی ج3ص24 بیروت] 54۔ الشیخ حسین سلیم اسد [تعلیق علی مسند ابی یعلی شیخ حسین سلیم اسد ج8ص454۔ ج9ص209 دمشق بیروت] 55۔ ناصر الدین البانی غیر مقلد [مشکوة بتحقیق الالبانی ج1ص254بیروت] المحدث: الألباني – المصدر: أصل صفة الصلاة – الصفحة أو الرقم: 2/610، خلاصة حكم المحدث: صحيح المحدث: الألباني – المصدر: صحيح الترمذي – الصفحة أو الرقم: 257، خلاصة حكم المحدث: صحيح المحدث: الألباني – المصدر: صحيح النسائي – الصفحة أو الرقم: 1057، خلاصة حكم المحدث: صحيح المحدث: الألباني – المصدر: صحيح أبي داود – الصفحة أو الرقم:748، خلاصة حكم المحدث: صحيح سجدوں میں جاتے وقت رفع یدین کرنا: غیر مقلدین سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ غیر مقلدین سجدوں کی رفع یدین کیوں نہیں کرتے ؟جبکہ سجدوں میں جاتے وقت کا رفع یدین 10 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے۔ غیر مقلدین کے مانے ہوئے اور مستند شدہ محقق اور محدث علامہ ناصر الدین البانی لکھتے ہیں کہ : ‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی سجدہ میں جاتے وقت بھی رفع یدین کرتے تھے۔یہ رفع یدین 10 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے اور ابن عمر، ابن عباس رضی اللہ عنہم اور حسن بصری، طاؤس، ابن عمر رضی اللہ عنہ کے غلام نافع، سالم بن نافع، قاسم بن محمد، عبداللہ بن دینار، اور عطاء اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ عبدالرحمٰن بن مھدی نے اس کو سنت کہا ہے اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس پہ عمل کیا ہے، امام مالک رح اور امام شافعی رح کا بھی ایک قول یہی ہے۔( نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، علامہ ناصر الدین البانی، صفحہ 131) جب سجدوں کا رفع یدین حضرت عبداللہ ابن عمرؓ اور ان کے ساتھ ساتھ دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سےصحیح سند کے ساتھ غیر مقلدین کے تصدیق شدہ محقق کی تصریح کے ساتھ ثابت ہے تو غیر مقلد ان صحیح احادیث پہ عمل کیوں نہیں کرتے؟ یہ وہی عبداللہ ابن عمرؓ ہیں جن سے غیر مقلدین اپنی رفع یدین کی حدیث روایت کرتے ہیں۔ سجدوں سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرنا: ناصر الدین البانی سجدوں سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کو صحیح کہتے ہیں:”امام احمدؒ اس مقام پر رفع یدین کے قائل ہیں بلکہ وہ ہر تکبیر کے وقت رفع یدین کے قائل ہیں، چنانچہ علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ ابن الاثیرؒ، امام احمدؒ سے نقل کرتے ہیں کہ ان سے رفع یدین کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب بھی نمازی اوپر یا نیچے ہو دونوں صورتوں میں رفع یدین ہے نیز اثرمؒ بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام احمدؒ کو دیکھا وہ نماز میں اٹھتے بیٹھتے وقت رفع یدین کرتے تھے۔ یہ رفع یدین انسؓ، ابن عمرؓ، نافعؒ، طاؤسؒ، حسن بصریؒ، ابن سیرینؒ اور ایوب سختیانیؒ سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے”۔( نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، علامہ ناصر الدین البانی، صفحہ 142) یہاں علامہ البانیؒ نے حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے سجدوں سے سر اٹھاتے وقت کا رفع یدین صحیح سند سے ثابت کیا۔ غیر مقلدین سجدوں میں جاتے وقت اور سر اٹھاتے وقت رفع یدین کیوں نہیں کرتے؟ حدیث : حَدَّثَنَا هَنَّادٌ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ : ” أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ ” . قَالَ : وَفِي الْبَاب عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ أَبُو عِيسَى : حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ [جامع الترمذي » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ الْأَذَانِ » بَاب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ …,رقم الحديث: 238،چشتی) ترجمہ : حضرت علقمہؒ فرماتے ہیں کہ حضر ت عبد الله بن مسعودؓ نے فرمایا: کیا میں تمہیں حضور ﷺ جیسی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں؟ چنانچہ آپ نے نماز پڑھی اور پہلی مرتبہ (تکبیر تحریمہ کے وقت) رفع یدین کرنے کے علاوہ کسی اور جگہ رفع یدین نہیں کیا. امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے، غیرمقلدوں کے امام ابن حزم ظاہری نے اسے صحیح قرار دیا ہے؛ حافظ زیلعی نے نصب الرایہ(1/39) میں حافظ ابن دقیق العید سے نقل کیا ہے کہ ابن ا لقطان نے کتاب” الوہم والایہام” میں اسے صحیح قرار دیا ہے، علامہ عینی نے نخب الافکار میں اس کو صحیح کہا ہے، اور علامہ احمد شاکر نے بھی مسند احمد کی تعلیق(2/40) میں اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے اور دیگر اور بہت سے حضرات نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے، اور البانی نے(صحيح الترمذي – الصفحة أو الرقم: 257)اور تخریج مشکاة میں کہا ہے: والحق أنہ حدیث صحیح وإسنادہ صحیح علی شرط مسلم، ولم نجد لمن أعلّہ حجة یصلح التعلق بہا ورد الحدیث من أجلہا (۱/۲۵۴، مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت ودمشق) سند پر اعتراض کا جواب:اس حدیث کے راوی سفیان الثوری جیسے ثقه تابعی امام پر بعض لوگ مدلس ہونے کی بےوزن جرح کرتے اس حدیث کا انکار کرتے ہیں، تو انھیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ صحاح ستہ میں اور صحیح بخاری و مسلم میں ان کی روایات کا ہونا ان کے ثقہ (قابلاعتماد) ہونا ثابت کرتا ہے ، ورنہ صحاح-ستہ احادیث کے امام ان کی روایت کو اپنی کتاب میں نہ لاتے. اس کی احادیث کے صحیح ہونے پر تو اہلحدیث کا اجماع ہے: ابو الولید سلیمان بن خلف الباجی ( متوفی ۴۷۴ھ) نے لکھا ہے؛ ’’ والذی أجمع علیہ أھل الحدیث من حدیث أبی إسحاق السبیعی ما رواہ شعبة وسفیان الثوری [عنہ] فإذا اختلفا فالقول قول الثوری ‘‘( التعدیل والتجر یح ۱؍۳۰۷) ترجمہ : اور اس پر اہل حدیث کا اجماع ہے کہ ابو اسحاق السبیعی کی حدیثوں میں سے جو شعبہ اور سفیان ثوری نے بیان کی ہیں ( وہ صحیح ہیں) پھر اگر ان دونوں میں اختلاف ہو تو سفیان ثوری کی روایت راجح ہے۔ ایک دو محدثین کے اقوال سے جو لوگ صحاح-ستہ کی اس حدیث (ترمذی کی حسن روایت) میں موجود راوی “عاصم بن کلیب” پر کلام کرتے ہیں ، انھیں جان لینا چاہیے کہ یہ راوی صحیح مسلم کا ثقه (قابل اعتماد) راوی ہے، اکثر محدثین نے انھیں “ثقه” مانا ہے ، اگر ان کی روایت مردود ہے تو صحیح مسلم کے علاوہ اس کی جہاں جو جو روایت آتی ہے کیا اس کا بھی رد کروگے؟؟؟ اور یہ روی اس روایت میں منفرد بھی نہیں، حدیثابن_مسعود کو “عاصم بن کلب” کے علاوہ دوسرے راویوں سے اس حدیث کا مروی ہونا (یعنی اس کے شواہد دوسرے ترق سے بھی) ثابت ہے، لہذا اس راوی کے منفرد ہونے کے سبب اس روایت کے رد کرناصحیح نہیں.

عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : ” كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَبَّرَ لافْتِتَاحِ الصَّلاةِ ، رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يَكُونَ إِبْهَامَاهُ قَرِيبًا مِنْ شَحْمَتَيْ أُذُنَيْهِ ، ثُمَّ لا يَعُودُ ” 

(شرح معانی الآثار للطحاوی ج1 ص154، سنن ابی داود ج1 ص109 ، مصنف عبد الرزاق ج2 ص70 ، مسند ابی یعلٰی ج 3 ص249،248، سنن دار قطنی ج1 ص294،293، مسنداحمد ج4ص303، المدونة الکبری ج1ص69، مصنف ابن ابی شیبة ج1 ص236 )

ترجمہ : حضرت براء بن عازبؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ جب نماز شروع کر نے کے لئے تکبیر کہتے تو رفع یدین کرتے یہاں تک کہ آپ کے انگوٹھے کانوں کی لو کے قریب ہوجاتے۔ پھر (رفع یدین) نہیں کرتے تھے۔(سنن طحاوی)

تخريج الحديث : وأخرجه أبو داود (749) ، والطحاوي في شرح معاني الآثار(1347)، والبغوی فی شرح السنة (3/24) ، وأخرجه أبو يعلى (1690) من طريق شريك، بهذا الإسناد.

وأخرجه الدارقطني (1129) من طريق إسماعيل بن زكريا، عن يزيد بن أبي زياد, به.

وأخرجه ابن أبي شيبة 1/ 233، وأحمد (18487)، ويعقوب بن سفيان في “المعرفة والتاريخ” 3/ 80، وأبو يعلى (1658) و (1691) من طريق هشيم بن بشير،

وأحمد (18674) و (18682)، والبيهقي 2/ 26 من طريق أسباط بن محمد، وأحمد (18692)، ويعقوب بن سفيان 3/ 80، والدارقطني (1127) من طريق شعبة، وأحمد (18702)، وعبد الرزاق (2530)، والبخاري في “رفع اليدين” (35)، ويعقوب بن سفيان 3/ 79 – 80، والدارقطني (1126) من طريق سفيان الثوري، وأحمد في “العلل” (715) من طريق الجراح بن مليح الرؤاسي، ويعقوب بن سفيان 3/ 80، والدارقطنى (1131) من طريق خالد بن عبد الله، وأبو يعلى (1692) من طريق ابن إدريس، والدارقطني (1132) من طريق علي بن عاصم، عن محمد بن أبي ليلى، والخطيب في “تاريخ بغداد” 5/ 41 من طريق حمزة بن حبيب الزيات، و 7/ 254 من طريق جرير بن عبد الحميد، العشرة عن يزيد بن أبي زياد، به. ولم يذكروا فيه: “ثم لا يعود”، وقال الدارقطني: قال علي بن عاصم: فلما قدمت الكوفة قيل لي: إن يزيد حي، فأتيته فحدثني بهذا الحديث … فقلت له: أخبرني ابن أبي ليلى أنك قلت: ثم لم يعد، قال: لا أحفظ هذا، فعاودته فقال: ما أحفظه.

وانظر رواية سفيان بن عيينة عن يزيد الآتية بعده، وانظر (752).

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ الْبَرَاءِ ، ” أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَى قَرِيبٍ مِنْ أُذُنَيْهِ ثُمَّ لَا يَعُودُ “.[سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ … رقم الحديث: 639]خلاصة حكم المحدث: سكت عنه [وقد قال في رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح]

حضرت براء بن عازبؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ جب نماز شروع فرماتے (یعنی تکبیر تحریمہ کہتے) تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے اپنے کانوں کے قریب تک۔ پھر اسے (رفع یدین کو) دوبارہ نہ کرتے.(سنن ابی داود ج1 ص336)

امام ابو داود نے کہا : جس حدیث پر کہ میں اپنی کتاب میں سکوت (خاموشی اختیار) کروں (یعنی حدیث کے ضعیف ہونے کا حکم نہ لگاؤں) تو وہ احتجاج (حجت و دلیل ہونے) کی صلاحیت رکھتی ہے.[فتاویٰ علماۓ حدیث : ٧/٧٢]

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : ” رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ ، وَبَعْدَ مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ ، فَلا يَرْفَعُ وَلَا بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ ” .

[مسند الحميدي » أَحَادِيثُ رِجَالِ الأَنْصَارِ » أَحَادِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ … رقم الحديث: 594،چشتی)

ترجمہ: (امام حمیدیؒ روایت فرماتے ہیں کہ) ہم سے حدیث بیان کی سفیانؒ نے ، ان سے زہریؒ نے ، ان سے سالم بن عبد اللہ (ابن عمرؓ) نے ، ان سے ان کے والد (عبدللہ ابن عمرؓ سے) راویت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ جب نماز شروع کرتے تو دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے اور جب رکوع کا ارادہ کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین نہیں کرتے تھے اور نہ دونوں سجدوں کے درمیان۔ (مسند الحمیدی:۲/۲۷۷۔ حدیث:۶۱۴)

تخريج الحديث

م طرف الحديث الصحابي اسم الكتاب أفق العزو المصنف سنة الوفاة

1 إذا افتتح الصلاة رفع يديه حتى يحاذي منكبيه وإذا أراد أن يركع وبعدما يرفع من الركوع فلا يرفع بين السجدتين عبد الله بن عمر الثالث من الخلعيات 10 — علي بن الحسن الخلعي 492

نماز میں رفع یدین نہ کرنے کی دلیلِ حدیث مسند حمیدی پر بودے اعتراض کا کامل جواب


حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَيُّوبَ الْمُخَرِّمِيُّ ، وَسَعْدَانُ بْنُ نَصْرٍ ، وَشُعَيْبُ بْنُ عَمْرٍو فِي آخَرِينَ ، قَالُوا : ثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ” إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا ” ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ وَبَعْدَ مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ ، لا يَرْفَعُهُمَا ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : وَلا يَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ ، وَالْمَعْنَى وَاحِدٌ.


[مستخرج أبي عوانة » كِتَابُ الصَّلَاةِ » بَيَانُ رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ … رقم الحديث: 1240(1572)]


ترجمہ : حضرت امام زہریؒ حضرت سالمؒ سے اور وہ اپنے والد حضرت عبد الله بن عمرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا میں نے رسول اﷲ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے مونڈھوں تک۔ اور جب آپ ارارہ فرماتے کہ رکوع کریں اور رکوع سے سر اٹھالےنے کے بعد آپ رفع یدین نہ کرتے۔ اور بعض (راویوں) نے کہا ہے کہ آپ دونوں سجدوں کے درمیان بھی رفع یدین نہ کرتے۔ مطلب سب راویوں کی روایت کا ایک ہی ہیں۔(صحیح ابی عوانہ ج2 ص90؛ ١/٥١٥ ، حدیث # ٦٢٦)


اعتراض: امام سفیان بن عیینہؒ کی یہی روایت صحیح مسلم میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والے رفع یدین کے اثبات کےساتھ موجود ہے، جبکہ مسند ابی عوانہ والے مطبوعہ نسخہ میں “واو” رہ گئی ہے اور صحیح مسلم میں واو موجود ہے۔


جواب: اگر محدث ابو عوانہؒ، صحیح مسلم والا طریق (یحیٰی وغیرہ عن سفیان) ذکر کرتے تب “واو” رہ جانے والا اعتراض درست تھا، حالانکہ انہوں نے اپنی مسند میں صحیح مسلم والا طریق ذکر نہیں کیا، جس میں “واو” ہے بلکہ (حمیدی وعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَيُّوبَ الْمُخَرِّمِيُّ ، وَسَعْدَانُ بْنُ نَصْرٍ ، وَشُعَيْبُ بْنُ عَمْرٍو فِي آخَرِينَ ، عن سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ) والے طرق ذکر کیے ہیں جن میں “واو” موجود نہیں ہیں۔


نماز میں خشوع اور رفع یدین::


قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾ الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾ [سورہ المومنون]


ترجمہ: پکی بات ہے کہ وہ ایمان لانے والے کامیاب ہوگۓ، جو نماز میں خشوع اختیارکرنے والے ہیں.


ضرت ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں: خشوع کرنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو نماز میں تواضع و عاجزی اختیار کرتے ہیں اور دائیں بائیں توجہ نہیں کرتے اور”نہ ہی نماز میں رفع یدین کرتے ہیں.[تفسیرابنعباس]


حضرت حسن بصری رح سے اس کی تفسیر مروی ہے کہ: (نماز میں) خشوع کرنے والے وہ ہیں جو نہیں کرتے رفع یدین(ہاتھ اٹھانا) نماز میں مگر (صرف) تکبیراولیٰ (پہلی تکبیر) میں. [تفسیر سمرقندی:٢/٤٠٨] متعصب غیر مقلد زبیر علی زئی کی جرح کی حقیقت نماز میں رفع یدین نہ کرنے کی دلیلتفسیر ابن عباس پر بودے اعتراضات کے کامل جوابات


عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : ” تُرْفَعُ الأَيْدِي فِي سَبْعِ مَوَاطِنَ ، فِي افْتِتَاحِ الصَّلاةِ ، وَعِنْدَ الْبَيْتِ ، وَعَلَى الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ، وَبِعَرَفَاتٍ ، وَبِالْمُزْدَلِفَةِ ، وَعِنْدَ الْجَمْرَتَيْنِ ” .


[شرح معاني الآثار للطحاوي » كِتَابُ مَنَاسِكِ الْحَجِّ » بَابُ رَفْعِ الْيَدَيْنِ عِنْدَ رُؤْيَةِ الْبَيْتِ …رقم الحديث: 2438]


ترجمہ : حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا : سات (٧) جگہوں پر رفع یدین (دونوں ہاتھوں کو اٹھانا) کیا جاتا ہے : (١) شروع نماز میں، (٢) بیت الله کے پاس، (٣) صفا پر، (٤) مروہ پر، (٥) عرفات میں، (٦) مزدلفہ میں، (٧) جمرات کے پاس.[سنن طحاوی : ١/٤١٦]


المحدث : الطحاوي | المصدر : شرح معاني الآثار


الصفحة أو الرقم: 2/176 | خلاصة حكم المحدث : صحيح


فائدہ: یھاں پہلی جگہ میں شروع نماز فرمانا دلیل ہے احناف کی نماز میں (اندر) مزید رفع یدین نہ کرنے پر.


اعتراض : یہ حدیث ضعیف ہے.جواب : گو ضعیف ہے مگر اس پر عمل ہے (فتاویٰ علماۓ حدیث :٢/١٥٦)؛ ضعیف روایت موضوع (من گھڑت) نہیں ہوتی، اور یہ روایت تو شدید الضعیف بھی نہیں، جبکہ اس کی تائید ایک صحیح سند سے بھی ہوجاتی ہے اور حضرت ابن عمر کی روایت سے بھی تائیدی شواہد ملتے ہیں، جس سے اصول حدیث کے مطابق اس روایت کو قوت حاصل ہوجاتی ہے اور حسن کا حکم رکھتی ہے.


صحیح سند :وَقَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ : حَدَّثَنَا هِشَامٌ هُوَ ابْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ حُدِّثْتُ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : ” تُرْفَعُ الأَيْدِي فِي سَبْعِ مَوَاطِنٍ : فِي بَدْءِ الصَّلاةِ ، وَإِذَا رَأَيْتَ الْبَيْتَ ، وَعَلَى الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ، وَعَشِيَّةَ عَرَفَةَ ، وَبِجَمْعٍ ، وَعِنْدَ الْجَمْرَتَيْنِ ، وَعَلَى الْبَيْتِ ” .


[المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية لابن حجر … » كتاب الحج » بَابُ دُخُولِ مَكَّةَ وَفَضْلِهَا؛ رقم الحديث: 1243،چشتی)


عن عاصم بن كليب عن أبيه أنَّ عليًّا كانَ يرفعُ يديهِ في أوَّلِ تكبيرةٍ منَ الصَّلاةِ ثمَّ لا يرفعُ بعدُ۔ (شرح معانی الآثار للطحاوی جلد۱ صفحہ 154 ،مصنف ابن ابی شیبة جلد اول صفحہ 236، موطا امام محمد جلد۱ صفحہ90)


ترجمہ: حضرت عاصم بن کلیبؒ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ نماز کی پہلی تکبیر میں رفع یدین کرتے تھے پھر اسکے بعد رفع یدین نہیں کرتے تھے۔


المحدث: العيني – المصدر: عمدة القاري – الصفحة أو الرقم:5/400 – خلاصة حكم المحدث: صحيح على شرط مسلم


المحدث: ابن حجر العسقلاني – المصدر: الدراية – الصفحة أو الرقم: 1/152 – خلاصة حكم المحدث: رجاله ثقات


المحدث: الزيلعي – المصدر: نصب الراية – الصفحة أو الرقم:1/406 – خلاصة حكم المحدث: صحيح


عَنْ عَلِيٍّ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ الصَّلَاةِ ثُمَّ لَا يَعُودُ ” .[العلل الواردة في الأحاديث النبوية للدارقطني » مُسْنَدُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ … » الثَّانِي مِنْ حَدِيثِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ …,رقم الحديث: 602(457)]


ترجمہ: حضرت علیؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نماز کے شروع میں رفع یدین کرتے تھے، پھر دوبارہ نہیں کرتے تھے۔


( العلل الواردة فی الا حادیث النبویة، دارقطنی ج4 ص106)


تخريج الحديث


[السنن الكبرى للبيهقي » جُمَّاعُ أَبْوَابِ الاسْتِطَابَةِ, رقم الحديث: 2315(2:79)]


الراوي : كليب بن شهاب الجرمي المحدث : ابن حجر العسقلاني


المصدر : الدراية الصفحة أو الرقم: 1/152 خلاصة حكم المحدث : رجاله ثقات، وهو موقوف


المحدث : الزيلعي


المصدر : نصب الراية الصفحة أو الرقم: 1/406 خلاصة حكم المحدث : صحيح


عَنْ عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ ، ” أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى إِلَى فُرُوعِ أُذُنَيْهِ ، ثُمَّ لَا يَرْفَعُهَا حَتَّى يَقْضِيَ صَلَاتَهُ ” .[مسند زيد » كِتَابُ الصَّلَاةِ » بَابُ التَّكْبِيرِ فِي الصَّلَاةِ … رقم الحديث: 55]


ترجمہ : حضرت علیؓ پہلی تکبیر (تحریمہ) میں اپنے دونوں ہاتھ کانوں کے کانوں تک اٹھاتے، پھر ہاتھ نہ اٹھاتے حتیٰ کہ نماز پوری کرلیتے.


صليتُ مع النبي ومع أبي بكرٍ ومع عمرَ رضي الله عنهما فلم يرفعوا أيديهِم إلا عندَ التكبيرَةِ الأولى في افتتاحِ الصلاةِ قال إسحاقُ به نَأْخُذ في الصلاةِ كلها۔


(دار قطنی : 2/52 (ج1ص295 ) ،بیہقی ج2 ص79 )


[سنن الدارقطني » كِتَابُ الصَّلاةِ » بَابُ ذِكْرِ التَّكْبِيرِ وَرَفْعِ الْيَدَيْنِ عِنْدَ …,رقم الحديث: 1133]


ترجمہ: حضرت عبدﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے ساتھ نماز پڑھی، ان سب نے رفع یدین نہیں کیا مگر پہلی تکبیر کے وقت نماز کی ابتدا میں.


محدث اسحق (بن ابی اسرائیل ؒ) کہتے ہیں کہ ہم بھی اسی کو اپناتے ہیں پوری نماز میں۔


حضرت عبدﷲ بن عمر ؓ کا عمل اور رفع یدین : عن مجاہد قال صلیت خلف ابن عمر فلم یکن یرفع یدیہ الا فی التکبیرة الاولی من الصلوة ۔(شرح معانی الآثار للطحاوی جلد اول صفحہ 155 ،مصنف ابن ابی شیبة جلداول صفحہ237، موطا امام محمد صفحہ 90، معرفة السنن و الآثار جلد دوم صفحہ 428)


ترجمہ : حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں : میں نے حضرت عبدﷲ بن عمرؓ کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے نہیں کیا رفع یدین مگر نماز کی پہلی تکبیر میں۔


تو یہ حضرت ابن عمرؓ ہیں جنہوں نے نبی ﷺ کو (نماز میں) ہاتھ اٹھاتے ہوۓ دیکھا لیکن نبی ﷺ کے بعد ہاتھ اٹھانا چھوڑدیا تو یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب آپؓ کے نزدیک نبیؐ کا عمل منسوخ ہو چکا ہو جو آپؓ نے دیکھا تھا اور اس کے خلاف دلیل قائم ہوگئی.


اگر کوئی کہے کہ یہ حدیث منکر ہے ؟ تو اسے جواب میں کہا جاۓ گا کہ اس (دعوا) پر کیا دلیل ہے ؟ تو ہرگز تم نہیں پاؤگے اس (دعوا) تک کوئی راہ ؟


اعتراض اور اس کا جواب:غیر مقلدین کہتے ہیں کہ امام مجاہدؒ رفع کے قائل تھے اور میں نے ابھی تک کوئی “صحیح سند” کے ساتھ روایت نہیں دیکھی نہ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے اور نہ امام مجاہد سے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر بالفرض مان لیا جاۓ کہ غیر مقلدین اس روایت کا صرف اس وجہ سے انکار کر رہے ہیں کہ امام مجاہد رفع “نہیں” کرتے تو حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ سے رفع کی تمام روایات کا انکار کر دیں کیونکہ “انکا” ترکِ رفع ثابت ہو چکا۔ چوتھی بات یہ ہے کہ اس روایت پر جتنی بھی جرح ہے وہ سب قائلینِ رفع کی ہے اور اس جرح کا حال یہ ہے کہ امام بخاری کی طرف منسوب ہے کہ انہوں نے کہا کہ ابو بکر بن عیاش مختلط ہو گئے تھے تو یہ کیا عجیب بات ہوئی کہ خود تو امام بخاریؒ اپنی کتاب “صحیح بخاری” میں ابو بکر بن عیاش سے احتجاج کرتے اس کی روایات لیتے ہیں اور جب ہم احتجاج (حجت و دلیل پکڑتے ثابت) کریں تو مخالفین کے لئے ابو بکر بن عیاش مختلط ہو جاتا ہے۔ اور ایک بات یہ ہے کہ امام بخاریؒ نے تو اپنے “جز رفع یدین” میں رفع عند السجود کی روایت کو بھی نقل کیا ہے انکو تو امام بخاری نے صحیح مان کر نقل کیا ہے اور غیر مقلدین انکو ضعیف قرار دیتے نہیں تھکتے تو پوچھا جاۓ گا کہ جب تمہارے مطلب کی روایت آتی ہے تو امام بخاریؒ امیر المومنین فی الحدیث بن جاتے ہیں اور جب تمہارے خلاف کوئی ان سے روایت آجاۓ تو امام بخاریؒ کو کوئی پوچھتا بھی نہیں ہے، یہ کیا دوغلہ پن ہے؟؟؟ بہرحال یہ روایت بلکل ٹھیک ہے میں نے جو سکین دیا ہے اس میں ساتھ پین سے لکھا بھی ہوا ہے کہ یہ روایت (بخاری و مسلم کی شرطوں کے مطابق صحیح ہیں۔ اور غیر مقلدین کا شور مچانہ انکے ضدی ، متعصب، اندھے مقلد ، اور دوغلے ہونے کی دلیل ہے جو میں اکثر ثابت کرتا رہتا ہوں۔


نماز میں رفع یدین نہ کرنے کی حدیث_ابن عمر پر بودے اعتراض کا کامل جواب


اعتراض: زئی صاحب نے لکھا: ”یہ روایت قاری ابوبکر بن عیاشؒ کے وہم وخطا کی وجہ سے ضعیف ہے……کسی ایک قابل اعتماد محدث نے اس کی تصحیح نہیں کی“(مضروب حق: شماره 06 ص 30)


جواب: اولاً ۔۔۔ امام ابوبکر بن عیاش صحیح بخاری ،صحیح مسلم (مقدمہ) اور سنن اربعہ کے راوی ہیں، عند الجمہور “ثقہ” ہیں۔ امام عبداللہ بن مبارک، امام احمد بن حنبل ، امام عثمان دارمی، امام ابوحاتم الرازی، امام ابن حبان، امام ابن عدی، امام عجلی، امام ابن سعد، امام سفیان ثوری، امام یعقوب بن شیبہ، امام ساجی رحمہم اللہ وغیرہ نے ان کی تعدیل و توثیق اور مدح وثناء کی ہے۔ (تہذیب التہذیب ج 7ص 320 تا 366 )


ثانیاً ۔۔ امام محمد بن حسن الشیبانی م 600 ھ ثقہ وصدوق نے ان کی متابعت معنوی کررکھی ہے۔ )موطاامام محمد ص 93 ، کتاب الحجۃ ج 6ص (71 ۔


ثالثاً ۔۔۔ اس روایت کی سند علی شرط الشیخین ہے۔ پس علی زئی کا اسے ضعیف بتلانا باطل ہے۔ رہا بعض محدثین کا اس روایت کو ابوبکر بن عیاش کی وجہ سے وہم وغیرہ کهنا، تو عرض ہے کہ امام نووی نے مختلط روات کے متعلق قاعدہ بیان کرتے ہوے فرمایا ہے کہ صحیحین میں مختلط روات کی جو روایات لی گئی ہیں وہ قبل الاختلاط اخذ پر محمول ہیں۔ (تہذیب الاسماء للنووی ج 6ص 040)


اور ہماری پیش کردہ روایت عن ابن ابی شیبہ ابی بکر بن عیاش کے طریق سے مروی ہے اور یہی طریق صحیح بخاری (ج 6ص 074) میں موجود ہے۔ معلوم ہو کہ یہ روایت قبل الاختلاط مروی ہے۔ پس وہم والا اعتراض بھی باطل ہے۔


تنبیہ: علی زئی نے لکھا ” :بہت سے ثقہ راویوں اور صحیح وحسن لذاتہ سندوں سے ثابت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نماز میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے“ )مضروب حق: شماره 06 ؛ ص 3)


اللہ تعالیٰ جناب کو فہم نصیب فرماے۔۔ مذکورہ مواضع میں رفع یدین کے اثبات میں اختلاف نہیں،آپ کے ذمہ یہ ثابت کرنا ہے کہ مذکورہ رفع یدین پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دوام تھا اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا آخری عمل تھا۔ نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً سجدوں کی رفع یدین بھی ثابت ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ ج 6ص 011 ،مشکل الآثار للطحاوی ج 0ص 02 ،جزء رفع یدین للبخاری ص 40 ،المعجم الاوسط للطبرانی ج 6ص 03 ،سنن ابن ماجہ ج 6 ص 16 وغیرہ)


لہٰذا اگر صرف ثبوت ہی کی بات کرتے ہیں وف پھر تمام غیرمقلدین اب سجدوں میں بھی رفع یدین کرنا شروع کردیں۔


نوٹ: اگر غیرمقلدین کہیں کہ سجدوں کی رفع یدین کا ترک ثابت ہے تو عرض ہے کہ رکوع والے رفع یدین کا بھی ترک ثابت ہے۔ایک اقرار اور دوسرے کا انکار ؟


عن الا سود قال صلیت مع عمر فلم یرفع یدیہ فی شی ء من صلوة الا حین افتتح الصلوة الحدیث۔ (مصنف ابن ابی شیبة ج۱ ص237، شرح معانی الآثار للطحاوی ج۱ ص156)


ترجمہ : حضرت اسودؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرؓ کے ساتھ نماز پڑھی تو انہوں نے نماز میں کسی جگہ بھی رفع یدین نہیں کیا سوائے ابتداء نماز کے ۔


عن ابراہیم عن عبدﷲ انہ کا ن یرفع یدیہ فی اول ما یستفتح ثم لا یرفعھما۔( مصنف ابن ابی شیبة ج۱ صفحہ236، شرح معانی الآثار للطحاوی جلد اول صفحہ 156 ،مصنف عبدالرزاق جلد دوم صفحہ71)


ترجمہ: حضرت ابراہیم نخعیؒ سے مروی ہے کہ حضرت عبد ﷲ بن مسعودؓ نماز کے شروع میں رفع یدین کرتے تھے پھر نہیں کرتے تھے۔


عن اشعث عن الشعبی انہ کان یرفع یدیہ فی اول التکبیر ثم لا یرفعھما۔( مصنف ابن ابی شیبة ج1 ص 236)


ترجمہ: امام شعبیؒ سے مروی ہے کہ وہ تکبیر تحریمہ کے وقت ہی رفع یدین کرتے تھے پھر نہیں کرتے تھے۔


عن جابر عن الاسود و علقمة انھما کان یرفعان ایدیھما اذا افتتحا ثم لا یعودان۔( مصنف ابن ابی شیبة جلد اول ص 236) ۔ ترجمہ: حضرت جابرؒ سے مروی ہے کہ حضرت اسود یزیدؒ اور حضرت علقمہؒ علیہ نماز کے شروع میں رفع یدین کرتے تھے پھر نہیں کرتے تھے ۔


مسلہ رفع یدین اور غیر مقلدوں کے آپس میں اختلافات


شیخ الکل غیر مقلدین مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلوی اپنے فتاویٰ نذیریہ لکھتے ہیں کہ : رفع یدین میں جھگڑاکرنا تعصب اور جہالت کی بات ہے ، کیونکہ آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے دونوں ثابت ہیں ، دلائل دونوں طرف ہیں۔اسی کتاب میں کہتے ہیں کہ رفع یدین کا ثبوت اور عدم ثبوت دونو مروی ہے . اور امام ابن حزم نے اس حدیث کو صحیح کہا اور امام ترمذی نے حسن کہا ۔ (فتاویٰ نذیریہ جلد اول صفحہ444)

غیر مقلدین کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں کہ : ہمارا مذہب ہے کہ رفع یدین کرنا مستحب امر ہے جس کے کرنے سے ثواب ملتا ہے اور نہ کرنے سے نماز میں کوئی خلل نہیں ہوتا . (فتاوی ثنائیہ جلد 1 صفحہ 579)

اسی کتاب میں کہتے ہیں کہ ترک رفع ترک ثواب ہے ترک فعل سنت نہیں . (فتاوی ثنائیہ جلد 1 صفحہ 608)

غیر مقلد وہابی علماء اپنے فتوے میں لکھتے ہیں : رفع یدین نہ کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آخری عمر مبارک کا عمل ہے اور رفع یدین نہ کرنے والے کے پیچھے نماز ناجائز کہنے والا جاہل اور اسرارِ شریعت سے محروم ہے ۔ (فتاوے علمائے حدیث جلد سوم صفحہ نمبر 306)

غیر مقلدین کے مجدد و مجتہد جناب نواب صدیق حسن خاں شاہ ولی اللہ صاحب سے نقل کرتے ہوے فرماتے ہیں۔۔"رفع یدین و عدم رفع یدین نماز کے ان افعال میں سے ہے جن کو آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کبھی کیا ہے اور کبھی نہیں کیا ہے ، اور سب سنت ہے ، دونوں بات کی دلیل ہے ، حق میرے نزدیک یہ ہے کہ دونوں سنت ہیں ۔ (روضہ الندیہ, صفحہ 148،چشتی)

اور اسی کتاب میں اسماعیل دہلوی کا یہ قول بھی نقل کرتے ہیں ولا یلام تارکہ و ان ترکہ مد عمرہ (صفحہ 150)۔ یعنی رفع یدین کے چھوڑنے والے کو ملامت نہیں کی جاے گی اگرچہ پوری زندگی وہ رفع یدین نہ کرے ۔

غیر مقلدین کے امام علامہ ابن تیمیہ فتاوی ابن تیمیہ جلد 22ص 253 پرلکھتے ہیں : سوائ رفع او لم یرفع یدیہ لا یقدح ذلک فی صلاتہم ولا یبطلہا ، لا عند ابی حنیفۃ ولا الشافئی ، ولا مالک ولا احمد ، ولو رفع الامام دون الماموم او الماموم دون الامام لم یقدح ذلک فی صلاۃ واحد منہما ۔

ترجمہ :  اگر کسی رفع یدین کیا یا نہ کیا تو اس کی نماز میں کوئی نقص نہیں ، امام ابو حنیفہ ، امام شافعی امام احمد اور امام مالک کسی کے یہاں بھی نہیں ۔اسی طرح امام اور مقتدی مین سے کسی ایک نے کیا تب بھی کوئی نقص نہیں ۔

وہابیوں کے نابینا امام شیخ عبدالعزیز ابن باز سابق مفتی اعظم سعودی عرب لکھتے ہیں : السنة رفع اليدين عند الإحرام وعند الركوع وعند الرفع منه وعند القيام إلى الثالثة بعد التشهد الأول لثبوت ذلك عن النبي صلى الله عليه وسلم , وليس ذلك واجبا بل سنة فعله المصطفى صلى الله عليه وسلم وفعله خلفاؤه الراشدون وهو المنقول عن أصحابه صلى الله عليه وسلم , فالسنة للمؤمن أن يفعل ذلك في جميع الصلوات وهكذا المؤمنة۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔ كله مستحب وسنة وليس بواجب , ولو صلى ولم يرفع صحت صلاته ۔

ترجمہ : تکبیر تحریمہ کہتے وقت، رکوع میں جاتے ہوئیے اور رکوع سے اٹھنے کے بعد، اور پہلے تشھد کے بعد تیسری رکعت کے لیے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا سنت ہے کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے اس کا کرنا ثابت ہے۔ لیکن یہ واجب نہیں سنت ہے۔ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم، خلفائے راشدین اور صحابہ کا اس پر عمل رہا ہے، پس ہر مومن مرد و عورت کو اپنی تمام نمازوں میں اسے اپنانا چاہیے،۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ لیکن یہ سب مستحب اور سنت ہے، واجب نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص رفع الیدین کے بغیر نماز پڑھے تو اس کی نماز درست ہے ۔ (مجموع فتاوٰی بن باز جلد 11 ص 156)

نائب مفتی اعظم سعودی عرب شیخ محمد بن صالح العثیمین  کا کہنا ہے : وهذا الرفع سنة، إذا فعله الإنسان كان أكمل لصلاته، وإن لم يفعله لا تبطل صلاته، لكن يفوته أجر هذه السنة ۔

ترجمہ : رفع الیدین کرنا سنت ہے ، اسے کرنے والا انسان اپنی نماز مکمل ترین صورت میں ادا کرتا ہے ۔ اگر کوئی اسے چھوڑ دے تو اس کی نماز باطل نہیں ہوتی لیکن وہ اس سنت کے اجر سے محروم رہ جاتا ہے ۔ (مجموع فتاویٰ و رسائل العثمین جلد 13 ص 169،چشتی)

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اور سجدوں میں جاتے وقت رفع یدین کرنا

غیر مقلدین سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ غیر مقلدین سجدوں کی رفع یدین کیوں نہیں کرتے ؟ جبکہ سجدوں میں جاتے وقت کا رفع یدین 10 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے ۔ غیر مقلدین کے مانے ہوئے اور مستند شدہ محقق اور محدث ناصر الدین البانی لکھتے ہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی سجدہ میں جاتے وقت بھی رفع یدین کرتے تھے ۔ یہ رفع یدین 10 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے اور ابن عمر، ابن عباس رضی اللہ عنہم اور حسن بصری، طاؤس، ابن عمر رضی اللہ عنہ کے غلام نافع، سالم بن نافع، قاسم بن محمد، عبداللہ بن دینار، اور عطاء اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ عبدالرحمٰن بن مھدی نے اس کو سنت کہا ہے اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس پہ عمل کیا ہے، امام مالک رح اور امام شافعی رح کا بھی ایک قول یہی ہے ۔ ( نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، علامہ ناصر الدین البانی ، صفحہ 131)

جب سجدوں کا رفع یدین حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ ساتھ دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سےصحیح سند کے ساتھ غیر مقلدین کے تصدیق شدہ محقق کی تصریح کے ساتھ ثابت ہے تو غیر مقلد ان صحیح احادیث پہ عمل کیوں نہیں کرتے ؟ 

یہ وہی عبداللہ ابن عمر رضی اللہ ہیں جن سے غیر مقلدین اپنی رفع یدین کی حدیث روایت کرتے ہیں ۔

سجدوں سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرنا

شیخ ناصر الدین البانی سجدوں سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کو صحیح کہتے ہیں : امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اس مقام پر رفع یدین کے قائل ہیں بلکہ وہ ہر تکبیر کے وقت رفع یدین کے قائل ہیں ، چنانچہ علامہ ابن قیم فرماتے ہیں کہ ابن الاثیر رحمۃ اللہ علیہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں کہ ان سے رفع یدین کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب بھی نمازی اوپر یا نیچے ہو دونوں صورتوں میں رفع یدین ہے نیز اثرم بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا وہ نماز میں اٹھتے بیٹھتے وقت رفع یدین کرتے تھے ۔ یہ رفع یدین انس ، ابن عمر ، نافع ، طاؤس ، حسن بصری ، ابن سیرین اور ایوب سختیانی رضی اللہ عنہم سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے ۔ ( نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، علامہ ناصر الدین البانی، صفحہ 142) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...