Friday, 15 November 2024

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر نہیں کر سکتا ۔ امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان قادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : واعظ (مقرر) کےلیے (چار شرائط ہیں) ۔

پہلی شرط : یہ ہے کہ مسلمان ہو ، کفریہ عقیدے والے مسلمان ہی نہیں ان کا وعظ (تقریر) سننا حرام اور دانستہ (جان بوجھ کر) انہیں واعظ بنانا کفر ہے ۔ علماء حرمین شریفین نے فرمایا ہے کہ : من شک فی کفرہ و عذابہ فقد کفر ۔

ترجمہ : جس نے ان کے کفر اور عذاب میں شک کیا اس نے کفر کیا ۔ (در المختار کتاب الجہاد باب المرتد مطبع مجتبائی دہلی جلد اول صفحہ ٣٥٦)


دوسری شرط : سنی (صحیحُ القیدہ) ہونا ، غیر سنی کو واعظ بنانا حرام ہے ، اگر چہ بالفرض وہ بات ٹھیک ہی کہے ۔ حدیث میں ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں " من وقر صاحب بدعۃ فقد اعان علی ھدم الاسلام ۔

ترجمہ : جس نے بد مذہب کی توقیر کی اس نے دین اسلام کے ڈھانے پر مدد دی ۔ (کنز العمال حدیث نمبر ١١٠٢ مو سسۃ الرسالہ بیروت جلد 1 صفحہ ٢١٩)


تیسری شرط : عالم ہونا ، جاہل کو واعظ کہنا نا جائز ہے ۔ جیسا کہ ارشاد (یعنی حدیث شریف میں) ہے : اتخذ الناس روسا جھال فسئلوا فافتوا بغیر علم فضلوا و اضلوا ۔

ترجمہ : لوگوں نے جاہلوں کو سردار بنا لیا پس جب ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے بے علم احکام شرعی بیان کرنے شروع کیے تو اپنے آپ بھی گمراہ ہوئے اور آوروں کو بھی گمراہ کیا ۔ (صحیح البخاری کتاب العلم باب کیف یقبض العلم قدیمی کتب خانہ کراچی جلد 1 صفحہ 20)


چوتھی شرط : فاسق نہ ہونا ، تبین الحقائق وغیرہ میں ہے : لان فی تقدیمہ للامامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم اھانتہ شرعا ۔

ترجمہ : کیونکہ اسے امامت کےلیے مقدم کرنے میں اس کے تعظیم ہے حالانکہ شرعاً مسلمانوں پر اس کی توہین واجب ہے ۔ (تبین الحقائق باب الامامت والحدث فی الصلاۃ المطبعۃ الکبری بولاق مصر جلد 1 صفحہ 134)

اور جب یہ سب شرائط مجتمع ہوں سنی صحیح العقیدہ عالم دین متقی وعظ فرمائے تو عوام کو اس کے وعظ میں دخل دینے کی اجازت نہیں ، وہ ضرور مصالح شرعیہ کا لحاظ رکھے گا ، ہاں اگر کسی جگہ کوئی خاص مصلحت ہو جس پر اسے اطلاع نہیں تو پیش از وعظ مطلع کر دیا جائے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔ ( فتاویٰ رضویہ جلد 29 صفحہ 70 ، 71 مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)


وعن أنس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال رأيت ليلة أسري بي رجالا تقرض شفاههم بمقاريض من نار قلت من هؤلاء يا جبريل؟ قال هؤلاء خطباء أمتك يأمرون الناس بالبر وينسون أنفسهم . رواه في شرح السنة والبيهقي في شعب الإيمان وفي روايته قال خطباء من أمتك الذين يقولون ما لا يفعلون ويقرؤون كتاب الله ولا يعملون ۔

ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے معراج کی رات میں کچھ لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کترے جارہے ہیں ۔ میں نے پوچھا کہ جبرائیل یہ کون لوگ ہیں ، انہوں نے کہا کہ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے وہ علماء و واعظ اور مشائخ ہیں جو لوگوں کو تو نیکی کی تلقین کرتے تھے مگر خود اپنی ذات کو فراموش کر دیتے تھے ، یعنی خود تو عمل نہیں کرتے تھے لیکن اوروں کو عمل کی تلقین ونصیحت کرتے تھے ۔ اس روایت کو بغوی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح السنۃ میں اور بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے اور بیہقی کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا " یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے وہ واعظ و خطیب ہیں جو اس چیز کو کہتے تھے جس کو خود نہیں کرتے تھے جو کتاب اللہ کو پڑھتے تھے لیکن اس پر عمل نہیں کرتے تھے ۔


یہ سزا بے عمل علماء و واعظین اور مشائخ کو ان کی بے عملی کی وجہ سے ملے گی ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ویل للجاہل مرۃ و ویل للعالم سبع مرات ۔

ترجمہ : جاہل کےلیے ایک بار خرابی اور بے عمل عالم کےلیے سات بار خرابی ہے اور ایک حدیث مشہور میں یوں فرمایا گیا ہے ۔ اشدا الناس عذابا یوم القیامۃ عالم لم ینفعہ اللہ بعلم ۔

ترجمہ : قیامت کے دن لوگوں میں سب سے سخت عذاب کا مستوجب وہ عالم ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ نے علم سے فائدہ نہیں پہنچایا ہوگا ۔ (مشکوۃ شریف جلد چہارم توکل اور صبر کا بیان حدیث نمبر 1074)


امام عبدالرحمٰن ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ جہلاء اور قصہ گو واعظین کے متعلق لکھتے ہیں : بھلے وقتوں میں وعظ کرنے والے لوگ علماء اور فقہاء ہوتے تھے ۔ پھر منبرِ وعظ کو گرہن لگ گیا ، یہ فن جہلاء کے ہتھے چڑھ گیا ، سمجھدار لوگ اس سے کنارہ کشی اختیار کرنے لگے ، اور واعظوں کا پہیہ عام عوام اور عورتوں کے سہارے چلنے لگا۔علم کو ایک طرف کر دیا گیا،قصے کہانیاں اور جہلاء کو اچھی لگنے والی باتیں بیان ہونے لگیں ، اور اس فن میں خرافات کا دور دورہ ہو گیا ۔ (تلبيسِ ابليس صفحہ 139)


صدرالشریعہ حضرت مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ نوآموز واعظین مولویوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ان نوآموز مولویوں کو ہم خیر خواہانہ نصیحت کرتے ہیں کہ تکمیل درس نظامی کے بعد فقہ و اصول و کلام و حدیث و تفسیر کا بکثرت مطالعہ کریں اور دین کے مسائل میں جسارت نہ کریں جو کچھ دین کی باتیں ان پر منکشف و واضح ہو جائیں ان کو بیان کریں اور جہاں اشکال پیدا ہو اس میں  کامل غور و فکر کریں  خود واضح نہ ہو تو دوسروں کی طرف رجوع کریں کہ علم کی بات پوچھنے میں کبھی عار نہ کرنا چاہیے ۔ (بہارشریعت حصہ 15 صفحہ 202)


امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ جہلاء اور قصہ گو واعظین کا رد کرتے ہوئے کیمائے سعادت میں  ارشاد فرماتے ہیں : (اگر)علماء بھی وعظ و نصیحت کی بجائے بازاری مقررین کا انداز اختیار کر لیں،لغویات وواہیات،بیہودہ گوئی اور بیکار باتوں سے دل بہلانا شروع کر دیں جو عموماً دیکھا گیا ہے تو لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہو جائیں گے کہ کوئی بات نہیں ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں رحمت ِخداوندی ہمارے شامل حال رہے گی تو قوم کا حال غافلین سے بد تر ہو جائے گا ۔ ظاہر ہے جب عام آدمی مجلسِ وعظ میں ایسی خرافات سنے گالازماً ویسی ہی صفات اس میں پید ا ہوں گی،آخرت کے خطرات سے ڈرنا تو در کنار ، اس کے دل سے آخرت کا خیال بھی نکل جائے گا، پھر اسے جو کچھ بھی کہا جائے وہ یہی کہتا رہے گا : اللہ عزوجل بڑا رحیم و کریم ہے ، میرے گناہوں سے اس کا کیا بگڑتا ہے ؟ اورا س کی جنت کوئی تنگ و تاریک معمولی سی کوٹھڑی تھوڑی ہے بلکہ وہ تو زمین و آسمان سے بھی زیادہ وسیع وکشادہ ہے وہاں تو کروڑوں انسان بآسانی سما جائیں گے تو مجھ جیسے گناہ گار سے اللہ تعالیٰ کا تنگ آ جانا خدا کی رحمت سے بعید ہے ۔ ایسی ایسی لغویات اس کے دل و دماغ پر مسلط ہو جاتی ہیں ۔ (کیمیائے سعادت رکن سوم مہلکات اصل دہم علاج غفلت ونادانی جلد ۲ صفحہ ۷۳۲)     


حضرت ابوقلابہ تابعی رضی اللہ عنہ قصہ گو واعظین کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں : قُصَّاص(کہانیاں سنانے والے جاہل مقررین وغیرہ)نے علم برباد کر کے رکھ دیا ہے ، بندہ ایک سال تک قصہ گو شخص کے پاس بیٹھا رہے پھر بھی(سوائے کانوں کی لذت کے) کچھ حاصل نہیں کر سکتا۔جب کہ کسی عالم کے پاس کچھ دیر بیٹھ جائے تو کچھ نہ کچھ لےکر ہی اُٹھتا ہے ۔(تحذیر الخواص من اکاذیب القصاص للسیوطی الفصل العاشر فی زیادات فاتت  الحافظ زین الدین العراقی صفحہ 186 مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت،چشتی)


امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان قادی رحمۃ اللہ علیہ جہلاء اور قصہ گو واعظین کا رد کرتے ہوئے فرماتے  ہیں : (وعظ جو خلاف شرع نہ ہو اس وعظ سے بھی) اگر مال یا شہرت مقصود ہے تو اگرچہ مسلمانوں کےلیے اس کا وعظ مفید ہو خود اس کے حق میں سخت مضر ہے علما فرماتے ہیں : ایسی اغراض کےلیے وعظ ضلالت اور یہود و نصاری کی سنت ہے ۔ در مختار میں ہے : التذکیر علی المنابر والاتعاذ سنۃ الانبیاء ولریاسۃ ومال وقبول عامۃ من ضلالۃ الیھود والنصاری ، (منبروں پر وعظ کہنا نصیحت کرنا انبیائے کرام علیہم السلام کی سنت ہے بڑائی یا مال یا لوگوں میں مقبولیت حاصل کرنے کےلیے وعظ کہنا یہود و نصاری گمراہیوں میں سے ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد 13 صفحہ 200۔ 199،چشتی)


بغیرعلم کے فتویٰ دینا اور بلا تحقیق فتویٰ لینا


محترم قارئینِ کرام : بعض جہلاء یہ فتنہ پھیلا رہے ہیں کہ ہر شخص براہ راست بغیر علم حاصل کیے اردو کے ترجمے و کتابیں پڑھ کر فتویٰ دے سکتا ہے ان جہلاء کی جہالت کا جواب پڑھیے : ⏬


حضرت عبد اللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہما راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ علم کو (آخری زمانہ میں) اس طرح نہیں اٹھالے گا کہ لوگوں (کے دل و دماغ) سے اسے نکال لے بلکہ علم کو اس طرح اٹھاے گا کہ علماء کو (اس دنیا سے) اٹھالے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے لہٰذا وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم،چشتی)(صحیح بخاری جلد 1 حدیث نمبر 101 علم کا بیان : علم کس طرح اٹھا لیا جائے گا)


اس حديث میں واضح طور پر فتویٰ دينا علماء كا كام قرار ديا گیا ہے ، جس کا حاصل یہ ہے کہ لوگ ان سے مسائل شرعیہ پوچھیں وہ ان کا حکم بتائیں ، اور لوگ اس پر عمل کریں ، یہی حاصل ہے تقلید (ائمہ و علماء) کا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (بعد کے) ایک ایسے زمانہ کی خبر دی ، جس میں علماء مفقود ہو جائیں گے ، اور جاہل قسم کے لوگ فتویٰ دینے شروع کر دیں گے ، یھاں سوال یہ ہے کہ اس دور میں احکامِ شریعت پر عمل کرنے کی سوائے اس کے اور کیا صورت ہو سکتی ہے کہ وہ لوگ گذرے ہوٸے (علم و عمل میں معتبر) علماء کی تقلید کریں ، کیونکہ جب زندہ لوگوں میں کوئی عالم نہیں بچا تو کوئی شخص براہِ راست قرآن و سنّت سے احکام مستنبط کرنے کا اہل رہا ، اور نہ ہی کسی (معتبر) زندہ عالم کی طرف رجوع کرنا اس کی قدرت میں ہے ، کیونکہ کوئی عالم موجود ہی نہیں ، لہذا احکامِ شریعت پر عمل کرنے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں رہتی کہ جو علماء وفات پاچکے ہیں اس کی تصانیف وغیرہ کے ذریعہ ان کی تقلید کی جائے ۔

لہٰذا یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب تک علماءِ اہلِ اجتہاد موجود ہوں اس وقت ان سے مسائل معلوم کے جائیں ، اور ان کے فتووں پر عمل کیا جائے ، اور جب کوئی علم باقی نہ رہے تو نااہل لوگوں کو مجتہد سمجھہ کر ان کے فتوؤں پر عمل کرنے کی بجائے گذشتہ علماء میں سے کسی کی تقلید کی جائے ۔


وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من افتى بغير علم كان إثمه على من افتاه ومن اشار على اخيه بامر يعلم ان الرشد في غيره فقد خانه ۔

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی کریم صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : جس شخص نے علم کے بغیر فتویٰ دیا تو اس کا گناہ اسے فتویٰ دینے والے پر ہے ، اور جس شخص نے اپنے (مسلمان) بھائی کو کسی معاملے میں مشورہ دیا حالانکہ وہ جانتا ہے کہ بھلائی و بہتری اس کے علاوہ کسی دوسری صورت میں ہے ، تو اس نے اس سے خیانت کی ۔ (مشكوة المصابيح حدیث نمبر 242،چشتی)(سنن ابو داود حدیث نمبر 3657)(صححه الحاکم علٰي شرط الشيخين جلد 1 صفحہ 126)


اگر تقلید جائز نہ ہوتی اور کسی کے فتوے پر بلا تحقیقِ دلیل عمل جائز نہ ہوتا ، جو حاصل ہے تقلید کا ، تو گناہ گار ہونے میں مفتی کی کیا تخصیص تھی ؟ بلکہ جس طرح مفتی کو غلط فتویٰ بتانے کا گناہ ہوتا ہے ، اسی طرح سائل کو دلیل کی تحقیق نہ کرنے کا گناہ ہوتا ۔ پس جب شارع صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے باوجود تحقیقِ دلیل نہ کرنے کے عاصی (گناہ گار) نہیں ٹھہرایا تو جوازِ تقلید يقينا ثابت ہو گیا ۔


حدیث کے دوسرے جزء کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی آدمی نے اپنے کسی بھائی کی بد خواہی اس طرح چاہی کہ اسے اس چیز کا مشورہ دیا جس کے بارے میں اسے معلوم ہے کہ اس کی بھلائی اس میں نہیں ہے بلکہ دوسرے امر میں ہے تو یہ اس کی خیانت ہے وہ اپنے غیر اخلاقی وغیر شرعی عمل کی بنا پر خائن کہلاے گا ۔ بغیر علم کے عقائد و مسائل پر بحث کرنے والے غور فرمائیں کہیں وہ اس گناہ میں مبتلا تو نہیں ہیں ؟


حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : من أفتي بفتيا يعمي فيها فإنما إثمها عليه ۔

ترجمہ : جس نے ایسا فتویٰ دیا جس میں دھوکا دیا جاتا ہے تو اس کا گناہ اس فتویٰ دینے والے پر ہے ۔ (جامع بيان العلم وفضله جلد 2 صفحہ 132 حدیث نمبر 859)(سنن الدارمی حدیث نمب 162)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...