Tuesday, 19 November 2024

فاسق فاجر اور ظالم حکمرانوں کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا

فاسق فاجر اور ظالم حکمرانوں کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا

محترم قارئین کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو آگاہ فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کی ایک عظیم ترین اور نفع بخش ترین قسم کسی ظالم و جابر حکمراں کے سامنے انصاف اور حق کی بات کرنا ہے ۔ کیوں کہ یہ اچھے کام کا حکم دینے اور برے کام سے روکنے میں داخل ہے ۔ اسے قول ، تحریر ، فعل یا کسی اور طریقے سے کیا جا سکتا ہے ، جس سے مصلحت حاصل ہو جائے اور برائی سے بچا جا سکے ۔ ⏬


حدثنا القاسم بن دينار الكوفي، حدثنا عبد الرحمن بن مصعب ابو يزيد، حدثنا إسرائيل، عن محمد بن جحادة، عن عطية، عن ابي سعيد الخدري، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال : إن من اعظم الجهاد كلمة عدل عند سلطان جائر ۔
ترجمہ : ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ظالم بادشاہ کے سامنے حق کہنا سب سے بہتر جہاد ہے ۔ (سنن ترمذی حدیث نمبر 2174)(سنن ابی داود الملاحم 17 حدیث : 4344)(سنن ابن ماجہ الفتن 20 حدیث : 4011)(مسند احمد 30/19، 61)(تحفة الأشراف: 4234)

أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ وَضَعَ رِجْلَهُ فِي الْغَرْزِ، أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: «كَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ»
ترجمہ : حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا ، جبکہ آپ ﷺ اپنا پاؤں مبارک رکاب میں رکھ چکے تھے : کون سا جہاد افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا :’’ ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا ۔ (سنن النسائی حدیث نمبر 4214)

عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَا مِنْ نَبِيٍّ بَعَثَهُ اللہُ فِي أُمَّةٍ قَبْلِي إِلاَّ کَانَ لَهُ مِنْ أُمَّتِهِ حَوَارِيّوْنَ وَأَصْحَابٌ. يَأْخُذُوْنَ بِسُنَّتِهِ وَيَقْتَدُوْنَ بِأَمْرِهِ. ثُمَّ إِنَّهَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِهِمْ خُلُوْفٌ يَقُوْلُوْنَ مَا لَا يَفْعَلُوْنَ وَيَفْعَلُوْنَ مَا لَا يُؤْمَرُوْنَ. فَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِيَدِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِلِسَانِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِقَلْبِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ. وَلَيْسَ وَرَاءَ ذٰلِکَ مِنَ الإِْيْمَانِ حَبَّةُ خَرْدَلٍ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے جس اُمت میں جو بھی نبی بھیجا اس نبی کےلیے اس کی اُمت میں سے کچھ مددگار اور رفقاء ہوتے تھے جو اپنے نبی کے طریق پر کار بند ہوتے اور اس کے اُمراء کی اقتدا کرتے تھے۔ پھر ان صحابہ کے بعد کچھ ناخلف اور نافرمان لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے فعل کے خلاف قول اور قول کے خلاف فعل کیا (یعنی دوسروں پر ظلم و ستم کیا)۔ لہٰذا جس شخص نے اپنے ہاتھ کے ساتھ (ظلم کے خلاف) ان سے جہاد کیا وہ بھی مومن ہے، جس نے اپنی زبان سے اُن کے ظلم کے خلاف جہاد کیا وہ بھی مومن ہے اور جس نے اپنے دل سے ان کے ظلم کے خلاف جہاد کیا وہ بھی مومن ہے ۔ اس کے بعد رائی کے دانے برابر بھی ایمان کا کوئی درجہ نہیں ہے ۔ (مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان کون النهي عن المنکر من الإيمان، 1 /69، الرقم /50، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 /458، الرقم /4379، وابن حبان في الصحيح، 14 /71، الرقم /6193، وأبو عوانة في المسند، 1 /36، والطبراني في المعجم الکبير، 10 /13، الرقم /9784، والبيهقي في السنن الکبری، 10 /90، الرقم /19965، وأيضًا في شعب الإيمان، 6 /86، الرقم /7560)

عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم: أَفْضَلُ الْجِهَادِ کَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ أَوْ أَمِيرٍ جَائِرٍ ۔
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ظالم بادشاہ یا ظالم حکمران کے سامنے انصاف کی بات کہنا اَفضل ترین جہاد ہے ۔
(أحمد بن حنبل في المسند، 4 /315، الرقم /18850، وأبو داود في السنن، کتاب الملاحم، باب الأمر والنهي، 4 /123، الرقم /4344، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء أفضل الجهاد کلمة عدل عند سلطان جائر، 4 /471، الرقم /2174، والنسائي في السنن، کتاب البيعة، باب فضل من تکلم بالحق عند إمام جائر، 7 /161، الرقم /4209، وابن ماجة في السنن، کتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، 2 /1329، الرقم /4011)

وَفِي رِوَايَةِ طَارِقٍ رضی الله عنه: قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ: أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: أَفْضَلُ الْجِهَادِ کَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ إِمَامٍ جَائِرٍ ۔
ترجمہ : اور حضرت طارق (بن شہاب) رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا: کون سا جہاد افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ظالم حاکم کے سامنے کلمہ حق کہنا اَفضل ترین جہاد ہے ۔ (أحمد بن حنبل في المسند، 4 /314، الرقم /18848، النسائي في السنن، کتاب البيعة، باب فضل من تکلم بالحق عند إمام جائر، 7 /161، الرقم /4209، وأيضا في السنن الکبری، 4 /435، الرقم /7834، وابن الجعد في المسند /480، الرقم /3326)

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی الله عنه، قَالَ: عَرَضَ لِرَسُولِ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم رَجُلٌ عِنْدَ الْجَمْرَةِ الْأُولٰی، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللہِ، أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ؟ فَسَکَتَ عَنْهُ، فَلَمَّا رَأَی الْجَمْرَةَ الثَّانِيَةَ سَأَلَهُ، فَسَکَتَ عَنْهُ. فَلَمَّا رَمَی جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ وَضَعَ رِجْلَهُ فِي الْغَرْزِ لِيَرْکَبَ. قَالَ: أَيْنَ السَّائِلُ؟ قَالَ: أَنَا، يَا رَسُولَ اللہِ. قَالَ: کَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ ذِي سُلْطَانٍ جَائِرٍ ۔
ترجمہ : حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمرہِ اُولیٰ کے قریب کھڑے تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کون سا جہاد افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے۔ جب اُس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوسرے جمرہ کے پاس دیکھا تو دوبارہ وہی سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر خاموش رہے۔ جب تیسرے جمرہ کے قریب پہنچے اور اس کی رمی فرما چکے تو اپنی سواری کی رکاب میں پاؤں رکھتے ہوئے دریافت فرمایا: سوال کرنے والا کہاں ہے؟ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں حاضر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا (اَفضل ترین جہاد) ہے ۔ (ابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، 2 /1330، الرقم /4012، والروياني في المسند، 2 /271، الرقم /1179، والقضاعي في مسند الشهاب، 2 /248، الرقم /1288)

وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ رضی الله عنه: أَنَّ رَجُلًا قَالَ عِنْدَ الْجَمْرَةِ: يَا رَسُولُ اللہِ، أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: أَفْضَلُ الْجِهَادِ کَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ ۔
ترجمہ : اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہما سے ہی مروی ہے کہ جمرات کے نزدیک ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کون سا جہاد افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا اَفضل ترین جہاد ہے ۔ (طبراني في المعجم الکبير، 8 /282، الرقم /8081، وأيضا في المعجم الأوسط، 7 /52، الرقم /6824)

عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم: أَفْضَلُ الْجِهَادِ مَنْ أَصْبَحَ لَا يَهُمُّ بِظُلْمِ أَحَدٍ ۔
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بہترین جہاد اُس شخص کا ہے جس نے اِس حال میں صبح کی کہ وہ کسی پر ناروا ظلم کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو ۔ (ديلمي في مسند الفردوس، 1 /357، الرقم /1438، والخطيب البغدادي في المتفق والمفترق، 3 /1653، الرقم /1139، وذکره السيوطي في جامع الأحاديث، 2 /14، الرقم /3504)

قَالَ الْحَکَمُ بْنُ عُتَيْبَةَ: أَفْضَلُ الْجِهَادِ وَالْهِجْرَةِ کَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ إِمَامٍ جَائِرٍ ۔
ترجمہ : حکم بن عتیبہ کا قول ہے : بہترین جہاد اور ہجرت ظالم حکمران کے سامنے اِنصاف کی بات کہنا ہے ۔ (التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد، 8 /390)

محدِّثین کرام علیہم الرحمہ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا اس وقت ہی جہاد کہلاتا ہے جب کلمہ حق کہنے کی پاداش میں سر قلم ہو جانے کا خدشہ بلکہ یقین ہو ۔ مذکوری احادیث میں بیان ہوا ہے کہ یہ اس لیے افضل جہاد ہے کیونکہ ظالم بادشاہ کلمۂ حق کہنے والے کو برداشت نہیں کرتا ۔ اس میں جان کا جانا یقینی ہوتا ہے ، پھر میدان جنگ میں تو آدمی اپنا دفاع بھی کر سکتا ہے جبکہ یہاں وہ بھی ممکن نہیں ۔ ہر لحاظ سے ہاتھ بندھے ہوتے ہیں ۔ اور پھر برے طریقے سے مارا جاتا ہے ۔ ایسے شخص کی حوصلہ افزائی کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا ۔ ملامت کرنے والے زیادہ ہوتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ حدیث بھی قتال ہی کا مصداق بن گئی کیو نکہ قتال میں دو ہی چیزیں ہوتی ہیں قتل کرنا اور قتل ہونا ۔ زبان سے ادا ہونے والی ایسی تقریر جو قتال ہی کی معاون ہو وہ قتال ہی کا حصہ شمار ہوتی ہے اور اس حدیث شریف میں بھی بالکل یہی صورت ہے ۔

حدثنا قتيبة بن سعيد : حدثنا ليث عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر عن النبي و أنه قال : «على المرء المسلم السمع والطاعة، فيما أحب وكره، إلا أن يؤمر بمعصية، فإن أمر بمغصبة، فلا سمع ولا طاعة ۔
ترجمہ  لیث نے عبیداللہ سے ، انہوں نے نافع سے ، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر بچن سے ، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’مسلمان شخص پر حاکم کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہے ، وہ بات اس کو پسند ہو یا ناپسند ، سوائے اس کے کہ اسے گناہ کا حکم دیا جاۓ ، اگر اسے گناہ کا حکم دیا جائے تو اس میں سننا ( روا) ہے نہ ماننا ۔ (صحیح مسلم جلد نمبر 3 حدیث نمبر4763)

اس روایت سے یہ بات واضح ثابت ہوتی ہے کہ اگر حاکم وقت کسی گناہ کا کام کرنے کا حکم دے تو اس کی مخالفت کرنی ہے اس کی اطاعت نہیں کرنی یہ حکم واضع ہے ۔

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ ، يُحَدِّثُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : سِباب الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ ، تَابَعَهُ غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے اور اس کو قتل کرنا کفر ہے ۔ غندر نے شعبہ سے روایت کرنے میں سلیمان کی متابعت کی ہے ۔ (صحیح البخاری جلد 3حدیث نمبر6044)

عَنْ جَابِر رَضِي اللّه عَنْه، عَنِ النَّبِيِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌قَالَ : سَيِّد الشُّهَدَاء حَمْزة بْن عَبْد الْمُطَّلِب ، وَرَجُل قَامَ إِلَى إِمَام جَائِر فَأَمَرَه وَنَهَاه فَقَتَلَه ۔
ترجمہ : جابر‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سید الشہداء حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ ہیں ، اور وہ شخص بھی ہے جو ظالم حکمران کے سامنے کھڑا ہوا اس نے اسے (اچھائی کا) حکم دیا اور (برائی سے) منع کیا ۔ تو اس حکمران نے اسے قتل کر دیا ۔ (السلسلہ الصحیحہ حدیث نمبر 3506،چشتی)

ائمہ مجتہدین علیہم الرحمہ نے ہمیشہ ظالم حکمرانوں کے باطل نظریات کا رد کیا اطاعت نہیں کی سب سے پہلے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا عمل اور ان کی تعلیم آپ کے سامنے پیش ہے : نقله أبو جعفر المنصور من الكوفة إلى بغداد، فأقام بها حتى مات، ودفن بالجانب الشرقي منها في مقبرة الخيزران، وقبره هناك ظاهر معروف ۔ وقد كلم ابن هبيرة أبا حنيفة أن يلي له قضاء الكوفة، فأبى عليه، فضربه مائة سوط وعشرة أسواط ، في كل يوم عشرة أسواط ، وهو على الامتناع فلما رأى ذلك خلى سبيله، وكان ابن هبيرة عاملا على العراق في زمن بني أمية ۔
ترجمہ : حاکم وقت عباسی خلیفہ ابوجعفر المنصور نے امام ابو حنیفہ کو کوفہ سے بغداد قید کر کے منتقل کیا ، جہاں وہ مرتے دم تک رہے ، اور اس کے مشرقی جانب الخیزران قبرستان میں دفن کیا گیا ، اور وہاں ان کی قبر معروف ہے ۔ عہد عباسی کے وزیر ابن ہبیرہ ، نے امام ابوحنیفہ سے ضلع کوفہ پر قبضہ کرنے کےلیے بات کی ، لیکن امام ابو حنیفہ نے انکار کر دیا ، تو انہی کوڑے مارے اور دس کوڑے مارے گئے ، ہر روز دس کوڑے مارے جاتے لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے حق بات پر قائم رہے ۔ (الحاوى الكبیرا فی فقہ مذهب الامام الشافعي رضي الله عنه وهو شرح مختصر المزني صفحہ 110،چشتی)(تاریخ بغداد جلد 13 صفحہ 328)

امام ابن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے حکومت کے باطل عقائد و نظریات رد کیا : وأما أحمد بن حنبل، فكلامه في مثل هذا مشهور متواتر، وهو الذي اشتهر بمحنة هؤلاء الجهمية؛ فإنهم أظهروا القول بإنكار صفات الله - تعالى - وحقائق أسمائه، وأن القرآن مخلوق،حتى صار حقيقة قولهم تعطيل الخالق - سبحانه وتعالى - ودعوا الناس إلى ذلك، وعاقبوا من لم يجبهم، إما بالقتل، وإما بقطع الرزق، وإما بالعزل عن الولاية، وإما بالحبس أو بالضرب، وكفروا من خالفهم، فثبت الله - تعالى - الإمام أحمد حتى أخمد الله به باطلهم، ونصر أهل الإيمان والسنة عليهم، وأذلهم بعد العز، وأخملهم بعد الشهرة، واشتهر عند خواص الأمة وعوامها أن القرآن كلام / الله غير مخلوق، وإطلاق القول أن من قال: إنه مخلوق، فقد كفر ۔
ترجمہ : امام احمد بن حنبل کے دور میں خلقِ قرآن کا فتنہ تھا۔ یہ فتنہ برپا کرنے والا شخص قاضی احمد بن ابودائود تھا۔ یہ بڑا عالم فاضل تھا۔ معتزلی عقیدہ کا مالک تھا۔ خلیفہ مامون کے بہت قریب تھا۔ اس نے خلیفہ مامون کو پٹی پڑھائی کہ قرآن مخلوق ہے ۔ تو اس دور میں امام ابن حنبل نے اس طرح کے باطل عقائد اور لوگوں کے حوالہ سے حوالے سے فتوی جاری کیا کے قرآن کو مخلوق کہنے والا کافر ہے کیوں کہ قرآن اللہ رب العزت کا کلام ہے اسے تخلیق نہیں کیا گیا ۔ (الفتاویٰ الکبری جلد5 صفحہ 32)

مذکورہ دلاٸل سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ فاسق فاجر اور ظالم حکمرانوں کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا آواز اٹھانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی حکم ہے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی عمل ہے اور علماء و محدثین علیہم الرحمہ بھی اس طرح کے ظالم حکمرانوں کو للکارتے ہوئے آئے ہیں اور ان کا رد کرتے ہوئے ہیں ۔ جملہ اہلِ ایمان کو بھی یہ چاہیے کہ اس طرح کے ملعون اور ظالم حکمرانوں کے خلاف سراپا احتجاج ہو ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...