مروجہ نعت خوانی کے آداب و شرعی احکام
رہی بات نعت پاک کے ساتھ ذکر کی تو نعت کے ساتھ جس طرح ذکر کرنا رائج ہے کہ اس میں ڈھول سے مشابہ آواز پیدا ہوتی ہے اور اس ذکر کو بطور بیک گراؤنڈ (Back Ground) کے نعت میں دلکشی پیدا کرنے کےلیے استعمال کیا جاتا ہے ، اس سے اکابر علماءِ کرام نے منع کیا ہے ، اور بعض جگہ تو ذاکرین کو دیکھا گیا ہے کہ اللّٰہ تعالٰی کا ذکر ہی نہیں کرتے یا کرتے ہیں تو بگاڑ کر تاکہ اچّھی طرح دھمک پیدا ہو یہ سخت بے ادبی اور ناجائز ہے، اس ذکر کا سننا بھی منع ہے ۔
خوشی کے موقع پر دف بجانا چار شرائط کے ساتھ جائز ہے اور وہ شرائط یہ ہیں : ⏬
(1) دف بغیر جھانج کے ہو ۔
(2) دف کو قانون موسیقی پر نہ بجایا جائے ۔
(3 ) دف بجانے والے مرد یا عزت دار عورتیں نہ ہوں ، بلکہ بچیاں یا کنیزیں ہوں ۔
(4) دف کو جہاں بجایا جارہا ہے وہ محل فتنہ نہ ہو ۔
مذکورہ شرائط فی زمانہ ناپید ہیں ، بڑی عورتیں اور مرد دف بجاتے ہیں اور کئی جگہ جھانج والی دف یونہی موسیقی کے قواعدپر بجائی جاتی ہے ۔ اس لیے دف کے ساتھ نعت خوانی شرعا ممنوع اور سوءِادب (بے ادبی ہے) اور ایسی نعت سننا بھی منع ہے ۔ پھر اگر یہ دف جھانج والی ہو تو پڑھنا سننا ناجائز ہے ۔ نیز دف کو سنت کا نام دے کر جواز ثابت کرنا بھی سراسر جہالت و بے باکی ہے کیونکہ احادیثِ طیبہ میں بھی چھوٹی بچیوں اور کنیزوں کا ذکر ہے ۔ نیز یوں موسیقی کے قواعد پر مرد و عورت کا دف بجانے کو جائز بلکہ معاذ اللہ سنت سمجھنا میوزک کو حلال سمجھنے کے مترادف ہے جس کی سخت مذمت کی گئی ہے اور اس بارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے : قالت الربیع بنت معوذ بن عفراء جاء النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وستر فدخل حين بنى على فجلس على فراشي كمجلسك منى فجلعلت جويرات لنا يضربن بالدف ۔
ترجمہ : حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس اس وقت تشریف لائے جب مجھے دلہن بنایا گیا تھا ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے بستر پر بیٹھے جس طرح کہ تمہارا میرے پاس بیٹھنا، پھر چھوٹی بچیاں دف بجانے لگیں ۔ (صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 773 قدیمی کتب خانه کراچی)
قال الفقهاء المراد بالدف ما لاجلاجل له ۔
ترجمہ : فقہاء فرماتے ہیں کہ جائز دف سے مراد وہ ہے جس میں جھانجھ نہ ہو ۔ (رد المحتار جلد 4 صفحہ 68 دار الکتب العلمیة بیروت)
امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ شادی میں دف بجانا درست ہے یا نہیں ؟ تو جواباً ارشاد فرمایا : دف کہ بے جلاجل یعنی بغیر جھانجھ کا ہو اور تال سم کی رعایت سے نہ بجایا جائے اور بجانے والے نہ مرد ہوں نہ ذی عزت عورتیں ، بلکہ کنیزیں یا ایسی کم حیثیت عورتیں اور وہ غیر محل فتنہ میں بجائیں تو نہ صرف جائز بلکہ مستحب و مندوب ہے ”للامر به في الحديث والقيود مذكورة في رد المحتار وغيره و شرحناها في فتاوانا “ ترجمہ : کیونکہ حدیث پاک میں اس کا امر ہے اور مذکورہ قیود رد الحتار وغیرہ میں مسطور ہیں اور ہم نے اپنے فتاوی میں ان کی وضاحت کر دی ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد 21 صفحہ 643 رضا فاؤنڈیشن لاہور،چشتی)
فتاوی رضویہ میں مزید ایک اور جگہ فرماتے ہیں : ہاں شرع مطہر نے شادی میں بغرض اعلان نکاح صرف دف کی اجازت دی ہے جبکہ مقصود شرع سے تجاوز کر کے لہو مکروہ تحصیل لذت شیطانی کی حد تک نہ پہنچے ، لہٰذا علماء شرط لگاتے ہیں کہ قواعدِ موسیقی پر نہ بجایا جائے ، تال سم کی رعایت نہ ہو ، نہ اس میں جھانج ہوں کہ وہ خواہی نخواہی مطرب و ناجائز ہیں ، پھر اس کا بجانا بھی مردوں کو ہر طرح مکروہ ہے ، نہ شرف والی بیبیوں کے مناسب بلکہ نابالغہ چھوٹی چھوٹی بچیاں یا لونڈیاں باندیاں بجائیں ، اور اگر اس کے ساتھ سیدھے سادھے اشعار یا سہرے سہاگ ہوں جن میں اصلا نہ فحش ہو نہ کسی بے حیائی کا ذکر ، نہ فسق و فجور کی باتیں ، نہ مجمع زنان یا فاسقان میں عشقیات کے چرچے ، نہ نامحرم مردوں کو نغمہ عورات کی آواز پہنچے ۔ غرض ہر طرح منکرات شرعیہ ومظان فتنہ سے پاک ہوں ، تو اس میں بھی مضائقہ نہیں ۔ اصل حکم میں تو اسی قدر کی رخصت ہے مگر حال زمانہ کے مناسب یہ ہے کہ مطلق بندش کی جائے کہ جہال حال خصوصاً زنانِ زماں سے کسی طرح کی امید نہیں کہ انہیں جو حد باندھ کر اجازت دی جائے اس کی پابند رہیں اور حد مکروہ و ممنوع تک تجاوز نہ کریں، لہذا سرے سے فتنہ کا دروازہ ہی بند کر دیا جائے ، نہ انگلی ٹیکنے کی جگہ پائیں گی نہ آگے پاؤں پھیلائیں گی ۔ (فتاوی رضویه جلد 23 صفحہ 281 رضا فاؤنڈیشن، لاہور،چشتی)
بہار شریعت میں ہے : عید کے دن اور شادیوں میں دف بجانا جائز ہے جبکہ سادے دف ہوں ، اس میں جھانج نہ ہوں اور قواعد موسیقی پر نہ بجائے جائیں یعنی محض ڈھپ ڈھپ کی بے سری آواز سے نکاح کا اعلان مقصود ہو ۔ (بہار شریعت جلد 3 حصہ 16 صفحہ 510 مكتبة المدينه کراچی)
نعت شریف پڑھنے کے دوران دف بجانا ممنوع اور بے ادبی ہے جیسا کہ فتاوی مصطفویہ میں ہے : دف بجا کر قصائد ، نعت اور حالت قیام میلاد شریف میں صلاۃ وسلام پڑھنا جائز ہے یا ناجائز ، دف مع جھانج ہو تو کیا حکم ہے اور بلا جھانج ہو تو کیا حکم ہے تو جواباً ارشاد فرمایا : ہرگز نہ چاہیے کہ سخت سوءِ ادب ہے اور اگر جھانج بھی ہوں یا اس طرح بجایا جائے کہ گت پیدا ہو فن کے قواعد پر جب تو حرام اشد حرام ہے ، حرام در حرام ہے ۔ (فتاوی مصطفویہ صفحہ 448 شبیر برادرز لاہور)
بخاری شریف میں ہے : ليكونن من امتى اقوام يستحلون الحر والحرير والخمر والمعازف ۔
ترجمہ : ضرور میری امت میں وہ لوگ ہونے والے ہیں جو حلال ٹھہرائیں گے عورتوں کی شرمگاہ (یعنی زنا) اور ریشمی کپڑوں اور شراب اور باجوں کو۔ (صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 837 قدیمی کتب خانه کراچی،چشتی)
بلاشبہ نعت خوانی ایک مبارک اور محبوب عمل ہے جو زمانۂ سالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر اب تک چلا آرہا ہے اولیاے کرام نے بھی نعت خوانی کو عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حصول کےلیے بہتر ذریعہ قرار دیا ہے ۔ نعت در اصل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت تعریف و توصیف اور شمائل و خصائص کے نظمی انداز کو کہتے ہیں ۔ نعت لکھنے والے کو شاعر اور نعت پڑھنے والے کو نعت خواں کہتے ہیں ، تاہم آج سے قبل کی نعت خوانی اور آج کی نعت خوانی میں بہت فرق آچکا ہے ایک زمانہ تھا جب نعت پڑھنے والا شعر کہتا تھا تو سننے والے کی جبینِ نیاز عقیدت سے جھک جاتی تھی سامعین عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مستغرق ہو جاتے تھے مگر آج کے نعت خوانوں کا حال ، نعت سنتے ہی موسیقی کی دُھنیں یاد آنے لگتی ہیں ۔ عالم یہ ہے دینی کلام کو گانوں کی طرز میں پڑھ کے حضور اکرم کی مدح سرائی ، صحابۂ کرام اہلِ بیت اطہار رضی اللہ عنہم ، اور اولیاے کرام علیہم الرحمہ کی شان میں منقبت پڑھتے ہیں جس کی جتنی بھی مذمت کی جاے کم ہے ۔
بنیادی طور پر یاد رہے گفتگو یہاں مروجہ ماڈرن نعت خوانی سے ہے نفسِ نعت خوانی سے نہیں ۔ نعت خوانی عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جہاں بہتر ذریعہ ہے وہی حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت کا اظہار بھی ۔ نیز نعت خوانی جتنی بڑی سعادت ہے اتنی ہی بڑے اس کے آداب ہیں ، اگر آداب کی رعایت کیے بغیر نعت پڑھی جاے تو ثواب کے بجاے گناہ کا خدشہ ہے ۔ نعت خوانی کا اصل حسن اچھے کلام اور طرز میں پنہاں ہے مگر نعت خوانی کے مروجہ طریقے نے نعت خوانی کے مفہوم ہی کو یکسر بدل کر رکھ دیا ۔
مروجہ نعت خوانی وجہ عشق رسول یا رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف نہیں بلکہ ایک ایسا مذہبی بزنس ہے جس میں ” نعت خواں ” نعت خوانی کے ساری حدیں پار کرنے کےلیے ہر دم تیار بیٹھا ہوتا ہے ۔ مروجہ نعت خوانی کا کلچر جب تک آپ لوگ نعرہ نہیں لگائیں گے میں اسی مصرع کو پڑھتا رہوں گا ، میں چاہتا ہوں کہ پیچھے کی صفوں سے دو جوان کھڑے ہوں اور نعرہ لگاٸیں ، میں اب دیکھنا چاہتا ہوں آگے کے صفوں میں ان دونوں کے ٹکر کا کون ہے ۔ خود نعت پڑھنے والا بھی جانتا ہے نعت خوانی ساؤنڈ سسٹم روپیے پیسے واہ واہی اور نعروں جیسی چیزوں کا نام نہیں بلکہ نعت خوانی کا حسن ایک اچھے کلام اور خوب صورت طرز میں پنہاں ہے ۔ تو سب سے پہلا سوال یہ ابھر بن سامنے آتا ہے مروجہ نعت خوانی کے قصور وار کون ہیں ! اور اس کی شروعات کیسے ہوئی ؟
مروجہ نعت خوانی کے قصور وار صرف نعت خواں ہی نہیں ہم سب برابر کے شریک ہیں ۔ ہم نے محفلیں سجائی ، ہزاروں روپے دے کر بلایا ، واہ واہی کی ، نوٹوں کی بارشیں کیں نتیجہ نعت خواں پیسوں کی لالچ میں آکر نُوٹ خواں بن گئے اور نعت خوانی ایک بزنس بن گئی ۔ مروجہ نعت خواں کی بیشتر مجالس اور محافل میں آنے والے نعت خوانوں کی یہی صورتِ حال ہے ۔ بس اب نوٹوں سے غرض ۔
موجودہ دور میں ہر چیز کی مارکیٹ میں قیمت ہے ۔ ہر نظریہ کی ہر موقف کی قیمت ہے ۔ افسوس کہ نُوٹ جیسے نعت خواں حضرات نے اس نعت خوانی جیسی فیلڈ کو ذریعۂ معاش بنا لیا جن کا پہلا سوال ہی یہ ہوتا ہے کہ لفافہ کتنا دوگے ! فلائٹ کی ٹکٹ کے پیسے پہلے اکاؤنٹ میں آجانی چاہیے جب محفل میں آگئے تو جب تک سبحان اللہ نہیں بولیں گے ، اپنے ہاتھوں کو فزا میں لہرا کر یا رسول اللہ نہیں بولیں گے میں اسی مصرع کو پڑھتا رہوں گا ۔ مطلب صاف ہے نگاہیں جو لوگوں کی جیبوں پر ہیں کون پیسے دے رہا ہے کون پیسے اڑا رہا ہے کون واہ واہی کر رہا ہے جب تک آگے پیچھے 7 ہزار 8 ہزار روپے نہیں جمع ہو جاتا ۔ ایسے نعت خواں سے یہی سوال ہے کہ یہ کون سا عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے جس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت سنانے کےلیے ایک ایک گھنٹہ کے بدولت ہزاروں روپے لیتے ہیں باقاعدہ طے کر کے بڑے بڑے معاوضہ لیتے ہیں- اس کو اگر یہ سمجھا جاے کہ یہ دین کی خدمت ہے تو یہ بالکل غلط ہے یہ دین کے نام پر کاروبار ہے کیوں کہ جہاں اظہارِ محبت کے بجاے بناوٹ ہو جہاں محبت میں ڈوب کر پڑھنے کے بجاے کسی اور فکر میں ڈوب کر پڑھنے کی فکر ہو تو جان لیجیے یہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اظہارِ محبت ہرگز نہیں محض نفس کے لذت شامل ہیں ۔
نعت خوانی ایک پیشہ نہیں ایک عبادت ہے جس سے دلوں میں عشقِ مصطفی شدت سے رچ بس جاے جو دل میں دبے حبِ رسول کی چنگاری میں آگ لگا دے مگر مروجہ نعت خوانی میں ایسی غلط تشریحات جو عقیدتا اور محبتا سامعین پر تھوپ دیا جاتا ہے جس کا حقیقت سے کچھ بھی تعلق نہیں- سیرتِ نبوی کے نام پر کوڑھا والی بڑھیا کا واقعہ ہو یا محبت رسول کے نام حضرتِ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے دانتوں کو توڑنے والا من گھڑت واقعہ - اشعاروں کے ذریعے خود ساختہ انجام اور خود ساختہ واقعات کی ایسی بھرمار ، سامعین کا ذہن اب بن رہا ہے کہ اب نماز روزوں کی کوئی ضرورت نہیں ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شفاعت فرمادیں گے- یہ بھی خبر نہیں کہ اشعاروں کے ذریعے جو میسج لوگوں تک پہنچ رہا ہے صحیح ہے یا نہیں بس دیکھا دیکھی سنا سنی میں کام چل رہا ہے ذرا ھاتھ اٹھا کر ذرا ھاتھ لہرا کر ذرا مل کر زور سے بولیں ذرا جھوم کر بولیں یہی تربیت دی جارہی ہے سامعین کو ۔ صرف داد حاصل کرنے کی کوششیں ۔ اسی درمیان نظر پیسوں پر زیادہ ہوتی ہے اور پڑھے جانے والے کلام پر بہت ہی کم دھیان ہوتا ہے دائیں بائیں روپیے ایٹھ کر پھر بھی کہتے ہیں ان کا منگتا ہوں جو منگتا نہیں ہونے دیتے ۔
اس کام میں بانیانِ محافل اپنا کردار اچھی طرح سے کر سکتے ہیں کہ وہ محافل کو اشاعتِ دین کا پلیٹ فارم بنائیں ذریعۂ معاش بننے نہ دیں اور نعت خواں حضرات نعت خوانی میں محض شفاعت شفاعت کا ذکر زیادہ نہ کریں سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز کی پابندی کا بھی پیغام لوگوں تک پہنچائیں ، سبحان اللہ کے ساتھ عملی طور پر دین کی جانب رغبت والے میسجز بھی پہنچائیں- نعت خواں حضرات اگر اپنی ذمہ داری ایمان داری سے نہیں ادا کریں گے اور محض نُوٹ کے چکر میں رہیں گے تو ایسا ہی ہوگا ۔
نعت خوانی کے آداب : ⏬
نعت خوان کا با وضو ، با ادب ، با عمل اور اہل علم میں سے ہونا ضروری ہے ، نعت خوانی کےلیے پیسے طے کرنا یا پیسے لینے کی نیت کرنا شرعاً جائز نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و رفعت کا بیان ، اوصافِ حمیدہ کی تعریف ، اخلاق حسنہ کا ذکر ، معجزات و کمالات کا بیان ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمائل کا تذکرہ ابتدائے آفرینش سے جاری ہے ۔ نعت گوئی کی تاریخ کو کسی زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جا سکتا البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ نعت گوئی کا سلسلہ ازل سے شروع ہوا اور ابد تک جاری رہے گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے قبل بھی آسمانی صحیفوں اور کتب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی بشارتیں اور اوصاف حمیدہ درج ہیں ۔ خود اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں مختلف انداز میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان (نعت) بیان فرمائی ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا مقصد زندگی سمجھتے تھے ۔ دربار رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقبول شاعر حضرت حسان رضی اللہ عنہ جب نعت پڑھتے ، تو ان کا کلام سن کر سامعین کے قلب و جگر پر طاری ہونے والی کیفیت اور وارفتگی کا اظہار و بیان نا ممکن ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ نثر میں ہو یا نظم میں ، مدح و نعت کی صورت میں ہو یا رہبری و راہنمائی کے حوالہ سے ہو ، ہر طرح باعث برکت ہے ۔
محافلِ نعت میں حمد باری تعالیٰ کے ساتھ خوش الحانی سے نعتیہ اشعار کا پڑھنا اور حاضرین کا نیت نیک سے سننا جائز و مستحسن ہے ۔ بخاری شریف میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کےلی منبر بچھواتے اور وہ اس پر کھڑے ہو کر نعت اقدس سناتے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سنتے تھے ۔ ان کے علاوہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کھڑے ہو کر نعت خوانی کا شرف حاصل کیا ہے ۔ تا ہم نعت خوانی کےلیے چند آداب کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔ (1) نعت سادہ ، خوش الحانی کے ساتھ ہو ، گانوں کی طرز پر نہ پڑھی جائے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 23 صفحہ 363) ۔ (2) نعت خوانی آلاتِ لہو و لعب اور افعالِ لغو مثلاً مزامیر وغیرہ کے ساتھ نہ کی جائے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 24 صفحہ 79)
نعت خواں کا با وضو، با ادب ، با عمل اور اہل علم میں سے ہونا ضروری ہے ۔امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ سے ایک سوال کیا گیا کہ جو شخص شریعت مطہرہ کا مخالف مثلاً تارک الصلوٰۃ ، شارب خمر ، داڑھی منڈانے یا کترانے والا ، بے وضوسے موضوع روایات کے ساتھ (نعت خوانی) کرتا ہو ۔ ایسے شخص کا اسٹیج پر بیٹھ کرنعت خوانی کرنا یا بانی محفل و مجلس و حاضرین و سامعین کا ایسے شخص کو خوش آواز ی کی وجہ سے چوکی پر بٹھانا کیسا ہے ؟ اس سوال کے جواب میں امام احمد رضا علیہ الرحمہ نے فرمایا : مذکورہ بالا افعال سخت کبائر ہیں ۔ ان کا مرتکب فاسق و گناہگار غضب الہٰی کا سزا وار ہے۔خوش آواز ی کی وجہ سے اسے منبر و مسند پر تعظیماً بٹھا کرنعت پڑھوانا حرام ہے ۔ ان حاضرین و میلاد (نعت) خوان سبھی کا گناہ بانی محفل پر ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 23 صفحہ 733،چشتی)
نعت خوانی کےلیے پیسے طے کرنا یا پیسے لینے کی نیت کرنا شرعاً جائز نہیں ۔ امام احمد رضا خان قادری حنفی علیہ الرحمہ نے ارشاد فرمایا ’’ نعت خوانی کی اُجرت مقرّر کرنا ناجائز وحرام ہے ۔ اس پر واجِب ہے کہ جن جن سے فیس لی ہے یاد کر کے سب کو واپس کر دے ، وہ نہ رہے ہوں تو ان کے وارِثوں کو پھیرے ، پتا نہ چلے تو اتنا مال فقیروں پر تصدّْق کرے اور آئندہ اس حرام خوری سے توبہ کرے ، تو گناہ سے پاک ہو گا ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد 23 صفحہ 724 - 725)
نعت خوانی کی محافل کو نمود و نمائش کا ذریعہ نہ بنایا جائے ، نمازوں کی ادائیگی کا خاص خیال رکھا جائے ، محافلِ نعت کے شرکاء باوضو ہو کر اور سروں کو ڈھانپ کر محافلِ نعت میں شریک ہوں اور دورانِ محفل مودّب ہو کر بیٹھیں ۔
محافلِ نعت میں مستند اور استاد شعراء کا معیاری نعتیہ کلام پڑھا جائے ، گانے کی طرز پر نعت پڑھنا حرام ہے ، محافلِ نعت کے دوران نعتوں کے ساتھ حمد بھی پڑھی جائے ۔
محافلِ نعت میں شرکاء سے نماز کی پابندی کرنے اور جھوٹ ، بددیانتی ، کینہ پروری ، حسد، غیبت اور دوسری باقی برائیوں کو چھوڑنے کا حلف لیا جائے ، غیر ضروری اخراجات نہ کیے جائیں ، محفل کے دوران نعت خواں پر نوٹ نچھاور کرنے سے گریز کیا جائے ۔
ہر محفلِ نعت میں کوئی دینی کتاب یا پمفلٹ شرکاء میں مفت تقسیم کیا جائے ۔
نعت پڑھنے اور سننے سے خوف خدا اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوتا ہے نعت خوانی کو کاروبار اور فیشن نہ بنایا جائے ، نعت کو گانے کی طرز پر پڑھنا حب رسول کی کھلی نفی ہے ۔
محافلِ نعت کو اشاعتِ دین کا پلیٹ فارم بنانے کےلیے علماء ، بانیانِ محافل اور نعت خواں حضرات اپنا اپنا کردار ادا کریں اور محافلِ نعت کو مساجد و مدارس اور روحانی خانقاہوں پر منعقد کرنے کو ترجیح دی جائے ۔
نقیب حضرات اللہ تعالیٰ اوراس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کو ترجیح دیں ۔ خوشامدانہ طرزِعمل ترک کریں ۔
سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اوراسوہ حسنہ کے نمایاں اوصاف جن سے آج پاکستانی معاشرے کی اکثریت محروم اور عاری ہے اپنائے جائیں ۔ (دعا گو و دعاجو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment