Thursday, 15 March 2018

خلافت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر اہل تشیع کے اعتراضات کے جوابات حصّہ اوّل

خلافت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر اہل تشیع کے اعتراضات کے جوابات حصّہ اوّل

اہل تشیع کا اعتراض نمبر 1 : کہا جاتا ہے کہ حضرت ابوبکر کی خلافت پر تمام مسلمانوں کا اجماع تھا.تو کیا یہ درست ہے کہ حضرت علی اور ان کے ہمراہ صحابہ کرام نے بیعت نہیں کی تھی جبکہ ایسا اجماع جس میں وہ شریک نہ ہوں اس پر خدا وند متعال نے لعنت فرمائی ہے جیسا کہ امام ابن حزم فرماتے ہیں : (لعنة اللہ علی کلّ اجماع یخرج منہ علی بن أبی طالب ومن بحضرتہ من الصحابة ).( المحلّٰی ٩:٣٤٥)

اس اعتراض کا جواب : پہلی بات یہ کہ ابن حزم کی اس عبارت کا ترجمہ اس طرح ہے لعنت ہو ایسے اجماع پر جس میں علی رضی اللہ عنہ نہ ہوں یا جس میں صحابہ رضی اللہ عنہم میں کسی کی موجودگی نہ ہو ۔

اجماع کے واسطے ضروری نہیں ہے کہ ہر آدمی اس بات سے متفق ہو بلکہ جس کو غالب اکثریت اپنائے اسے اجماع ہی کہیں گے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر بھی اجماع منعقد ہو چکا ۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا نہج بلاغہ میں قول ہے : فَإِنِ اجْتَمَعُوا عَلَى رَجُلٍ وَ سَمَّوْهُ إِمَاماً كَانَ ذَلِكَ لِلَّهِ رِضًا ۔
ترجمہ : اگر مہاجرين و انصار رضی اللہ عنہم کسی کی امامت پر اجماع کرلیں اور اسے پیشوا قرار دے تو اللہ تعالی کی رضا بھی اس میں شامل ہے ۔

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر تمام مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم نے اتفاق کر لیا تھا جس سے یہ ثابت ہوا کہ ان کی خلافت متفق علیہ تھی ۔

قول ابن حزم : وَلَعْنَةُ اللَّهِ على كل إجْمَاعٍ يَخْرُجُ عنه عَلِيُّ بن أبي طَالِبٍ وَمَنْ بِحَضْرَتِهِ من الصَّحَابَةِ ۔
ترجمہ : اللہ کی لعنت ہو ایسے اجماع پر جس میں علی رضی اللہ عنہ نہ ہوں یا جس میں صحابہ رضی اللہ عنہم میں کسی کی موجودگی نہ ہو ۔

اول : علامہ ابن حزم کے یہ الفاظ کسی حدیث یا روایت سے نہیں ہیں بلکہ یہ ان کے اپنے الفاظ ہیں جس کی حیثیت ایک عالم کے قول کی ہے جس اختلاف کیا جا سکتا ہے ۔ ان الفاظ سے استدلال لینا کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اجماع نہیں تھا یقنن جہالت ہی ہے ۔

دوم : ابن حزم نے یہ الفاظ فقہ پر بحث کرتے ہوئے کہے ہیں جس میں ان کا مطلب تھا کہ کسی بھی فقہی مسئلہ میں اگر علی رضی اللہ عنہ کے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے موقف کو سائیڈ کردیا جائے تو ایسا فقہی اجماع کسی کام کا نہیں ہے ۔ ان کا مقصد یقننا فقہاء پر لعنت بھیجنا نہیں تھا ۔ اتنی سی بات ہے اس میں کہیں پر بھی سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا ذکر تک نہیں ہے ۔ پھر ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر علی رضی اللہ عنہ راضی تھے ۔ پھر بھی رافضیوں کا شک دور کرنے کے لئے بیعت صدیق کا احوال لکھ دیتے ہیں :

حضرت علی کا صدیق کی بیعت کرنے کا احوال

ابن كثير في البداية والنهاية (6\693. في أحداث سنة 11 : وقد اتفق الصحابة –رضي الله عنهم– على بيعة الصديق في ذلك الوقت حتى علي بن أبي طالب والزبير بن العوام –رضي الله عنهما ۔
ترجمہ : ابن کثیر الدایہ میں نقل کرتے ہیں کہ تمام صحابہ حضرت ابی بکر صدیق کی بیعت پر متفق ہوگئے اور تو اور اس وقت علی ابن ابی طالب اور زبیر بن العوام نے بھی بیعت کرلی ۔(رضی اللہ عنہم اجمعین)

امام عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سنن ص 554 میں نقل کرتے ہیں : حدثني عبيد الله بن عمر القواريري حدثنا عبد الأعلى بن عبد الأعلى حدثنا داود بن أبي هند عن أبي نضرة قال لما اجتمع الناس على أبي بكر رضي الله عنه فقال ما لي لا أرى عليا قال فذهب رجال من الأنصار فجاءوا به فقال له يا علي قلت ابن عم رسول الله وختن رسول الله فقال علي رضي الله عنه لا تثريب يا خليفة رسول الله ابسط يدك فبسط يده فبايعه ثم قال أبو بكر ما لي لا أرى الزبير قال فذهب رجال من الأنصار فجاءوا به فقال يا زبير قلت ابن عمة رسول الله وحواري رسول الله قال الزبير لا تثريب يا خليفة رسول الله ابسط يدك فبسط يده فبايعه ۔
ترجمہ : ابی ندرہ سے روایت ہے کہ جب لوگ ابی بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کر رہے تھے تو اس وقت انہوں نے کہا کہ مجھے کیا ہوا ہے کہ میں علی رضی اللہ عنہ کو نہیں دیکہ رہا پھر انصار کا ایک آدمی گیا اور علی رضی اللہ عنہ اس کے ساتھ آگئے صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا اے علی رضی اللہ عنہ آپ کہ سکہتے ہیں کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے ہیں اور آپ ان کے عمزاد ہیں تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا اے رسول اللہ کے خلیفہ آپ مجھ سے ناراض نہ ہوں اپنا ہاتھ بڑھائیں آپ نے ہاتھ بڑھایا اور علی رضی اللہ عنہ نے بیعت کرلی ۔ پھر صدیق نے کہا کہ مجھے کیا ہوا ہے کہ میں زبیر کو نہیں دیکہ رہا انصار کا ایک آدمی گیا اور انہیں بلا کہ لایا صدیق نے کہا اے زبیر تم کہہ سکتے ہو کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی کے بیٹے ہو زبیر نے کہا اے خلیفہ رسول اللہ مجھ سے ناراض نہ ہوں اپنا ہاتھ بڑہائے آپ نے ہاتھ بڑہا یا اور زبیر نے بیعت کرلی ۔(رضی اللہ عنہم)

یہ حدیث صحیح ہے اور اس کے اسناد قوی ہیں پھر اس حدیث کو تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب مستدرک (حدیث نمبر 4457 ، چشتی) مین نقل کیا ہے ان کہنا ہے کہ یہ حدیث شیخین کے طریقہ پر صحیح ہے ۔ پھر بیہقی نے اپنی کتاب اعتقادات جلد 1 ص 349-350 میں اسے ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے اس کا مضمون بھی ایسا ہی ہے اور بیہقی کی یہ حدیث صحیح ہے ۔

عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سنن (2-563) میں قیس بن العبدی سے نقل کرتے ہیں کہ قیس کہتے ہیں کہ میں علی رضی اللہ عنہ کو بصرہ میں خطبہ دیتے ہوئے دیکھا انہوں نے اللہ کی تعریف کی اس کا شکریہ ادا کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی لوگوں کے لئے قربانیوں کا زکر کیا پھر اللہ نے انہیں موت دی تو مسلمانوں نے دیکھا کہ ان کو ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنی چاہئے تو انہوں ان کی بیعت کی میں نے بھی ان کی بیعت کی اور ان سے وفاداری کی وہ (مسلمان) ان سے خوش تھے ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اچھے کام کئے اور جہاد کیا یہاں تک اللہ نے ان کو موت دے دی ان پر اللہ کی رحمت ہو ۔

شیعہ کتب سے حوالے

شیعہ مجتہد محمد بن حسن نوبختی فرق الشیعہ ص 30 پر لکہتے ہیں : ان علیا علیہ اسلام لھما الامر ورضی بذلک و بایعھما طائعا غیر مکرہ و ترک حقھ لھما فنحن راضون کما رضی لھ، لا یحل لنا غیر ذلک ولایسع منا احد الا ذالک و ان ولایۃ ابی بکر صارت رشدا وھدی ، لتسلیم علی ورضاہ ۔
ترجمہ : کہ علی (رضی اللہ عنہ) نے اُن (یعنی ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما) کی خلافت کو تسلیم کر لیا تھا اور اُس پر راضی ھو گئے تھے ، اور بغیر کسی جبر کے اُن کی بیعت کر کے فرماں برداری کی ، اور اُن کے حق میں دستبردار ھو گئے تھے ۔ پس ہم بھی اس پر راضی ہیں جیسے وہ راضی تھے ۔ اب ہمارے لئے یہ حلال نہیں کہ ہم اس کے علاوہ کچھ اور کہیں ، اور ھم میں سے کوئی اس کے سوا کچھ اور کہے۔ اور یہ کہ علی (رضی اللہ عنہ) کی تسلیم (تسلیم کرنے) اور راضی ہونے کی وجہ سے ابو بکر (رضی اللہ عنہ) کی ولایت ، راشدہ اور ھادیہ بن گئی ۔

شیعہ عالم شیخ علی البحرانی منار الہدی ص 685 پر لکہتے ہیں : وكما ينقشع السحاب، فمشيت عند ذلك إلى أبي بكر فبايعته ونهضت في تلك الأحداث حتى زاغ الباطل وزهق وكانت كلمة الله هي العليا ولو كره الكافرون (2) فتولى أبو بكر تلك الأمور وسدد وقارب واقتصد، وصحبته مناصحا وأطعته فيما أطاع الله فيه جاهدا ۔
ترجمہ : یہ دیکھ کر کہ کہیں فتنے یا شر پیدا نہ ھو جائے ، میں ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کے پاس چل کر گیا اور اور اُن کی بیعت کرلی ۔ اور اُن حوادث کے خلاف (ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کے ساتھ) کھڑا ھوگیا ، حتیٰ کہ باطل چلا گیا اور اللہ کا کلمہ بلند ہو گیا چاہے وہ کافروں کو برا لگے ۔ پس جب ابوبکر (رضی اللہ عنہ ، چشتی) نے نظام امارت سنبھالا اور حالات کو درست کیا اور آسانیاں پیدا کیں ، تو میں اُن کا مُصاحب شریک کار (ہم نشین) بن گیا اور اُن کی اطاعت (فرماںبرداری) کی ، جیسے اُنہوں نے اللہ کی اطاعت کی ۔

شیعہ مجتہد امالی ص 507 میں شیخ طوسی نقل کرتے ہیں : فبايعت أبا بكر كما بايعتموه، وكرهت أن أشق عصا المسلمين، وأن أفرق بين جماعتهم، ثم أن أبا بكر جعلها لعمر من بعده، وأنتم تعلمون أني أولى الناس برسول الله (صلى الله عليه وآله) وبالناس من بعده، فبايعت عمر كما بايعتموه ۔
ترجمہ : پس میں نے ابو بکر (رضی اللہ عنہ) کی اُسی طرح بیعت کی ، جس طرح تم لوگوں نے کی ۔ اور میں نے یہ ناپسند کیا کہ مسلمانوں کی جماعت کے مابین کوئی پھوٹ یا تفرقہ پیدا ہو ۔ پھر ابو بکر (رضی اللہ عنہ) نے (خلافت) عمر (رضی اللہ عنہ) کو سونپی ، اور (حالانکہ) تم جانتے ہو کہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلّم) کے بعد اُن کے قریب ہم تھے ۔ پس پھر میں نے بھی عمر (رضی اللہ عنہ ، چشتی) کی اُسی طرح بیعت کی جس طرح تم لوگوں نے کی ۔

مشہور شیعہ عالم مجتہد شیخ طبرسی الاحتجاج جلد ۱ ص 114 پر لکہتے ہیں : وروي عن الباقر عليه السلام قال: فلما وردت الكتب على أسامة انصرف بمن معه حتى دخل المدينة، فلما رأى اجتماع الخلق على أبي بكر انطلق إلى علي بن أبي طالب عليه السلام فقال له: ما هذا؟ قال له علي: هذا ما ترى. قال له أسامة: فهل بايعته؟ فقال: نعم يا أسامة .
ترجمہ : امام باقر رضی اللہ عنہ سے روایت ھے : جب اسامہ (رضی اللہ عنہ) کو (نبی (صلی اللہ علیہ وسلّم) کے وصال کا) خط پہنچا تو وہ ساتھیوں سمیت مدینہ آگئے ، اور دیکھا کہ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کے پاس (بیعت کے لئے) لوگ جمع ہیں ۔ تو وہ علی (رضی اللہ عنہ) کے پاس گئے اور اُن سے پوچھا : یہ کیا ھے؟ علی (رضی اللہ عنہ) نے اُن سے کہا : یہ وہی ہے جو تم دیکھ رہے ہو ۔ اسامہ (رضی اللہ عنہ) نے اُن سے پوچھا : کیا آپ نے بھی بیعت کر لی ہے ؟ علی (رضی اللہ عنہ) نے کہا : ہاں اسامہ (میں نے بھی بیعت کر لی ہے ۔

مشہور شیعہ مجتہد محمد بن حسن طوسی تلخیص شافی جلد 3 ص 42 پر لکہتے ہیں : لا اشکال فیہ : انھ علی علیہ السلام بایع مستدفعا للشر و فارا من الفتنہ ۔
ترجمہ : اس میں کوئی اشکال نہیں ہے کہ علی (رضی اللہ عنہ ، چشتی) نے (ابوبکر کی) بیعت کرلی تاکہ شر دفع ہو اور فتنہ پیدا نہ ہو ۔

اس کے علاوہ دوسری کتب اور نہج البلاغہ وغیرہ میں علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کا ذکر موجود ہے ۔

چناچہ یہ بات ثابت ہوئی کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور جو ان کے سا تھ تھے انہوں نے بنا کسی جبر کے بیعت کرلی تھی اور انصار و مہاجرین نے تو پہلے ہی بیعت کر لی تھی ۔ اس بات سے ثابت ہوا کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہو گیا تھا تو ابن حزم کی اس بات کا اطلاق خلافت صدیق رضی اللہ عنہ پر نہیں ہوتا اور ابن حزم صحیح ہیں جس اجماع میں علی رضی اللہ عنہشامل نہ ہوں وہ اجماع کیسے ہو سکتا ہے ۔ شیعوں کو چاہئے کہ وہ اپنے امام کی بات مان لیں اور جس طرح نوبختی نے لکہا ہے کہ وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ سے راضی ہوگئے تھے وہ ان کے حق میں دستبردار ہوگئے تھے ۔ اسی طرح موجودہ متعصب شیعہ بھی ہٹ دہرمی چھوڑ کر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل کو ھادیہ خلافت مان لیں ۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
--------------------------------------------------------------------------------
اہل تشیع کا اعتراض نمبر 2 : کیا یہ بات درست ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت نہ تو شورٰی کے ذریعے تھی اور نہ اس پرمسلمانوں کا اجماع قائم ہوا بلکہ وہ تو فقط ایک شخص حضرت عمررضی اللہ عنہ کے اشارے پر قائم ہوئی ۔ اور اگر یہ بات درست ہو تو کیا تمام مسلمانوں پر ایسے شخص کی اطاعت کرنا واجب ہے جو اس وقت خلیفہ مسلمین بھی نہ تھا بلکہ اسلامی ملک کا ایک عام باشندہ اور دوسرے مسلمانوں کے مانند ایک مسلمان تھا ؟ اور اگر کوئی شخص ایسے آدمی کی اطاعت نہ کرے تو کیسے اس کا خون مباح ہوسکتا ہے ؟ کیا یہ ایک فرد قیامت تک آنے والے مسلمانوں پر حجت ہے ؟ جبکہ ہمارے بہت سے علماء جیسے ابویعلیٰ حنبلی متوفٰی ٤٥٨ھ کہتے ہیں : لاتنعقد الاّ بجمھور أھل العقد والحلّ من کلّ بلد لیکون الرّضا بہ عاما، والتّسلیم لامامتہ اجماعا .وھذا مذھب مدفوع ببیعة أبی بکر علی الخلافة باختیارمن حضرھا ولم ینتظر ببیعة قدوم غائب عنھا.( الأحکام السلطانیة : ٣٣.)
قرطبی کہتے ہیں : ((فانّ عقدھا واحد من أھل الحلّ والعقد..)). جامع احکام القرآن ١: ٢٧٢)

اس اعتراض کا جواب

اول : سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم منعقد ہو چکا تھا جس کا ثبوت ہم نے اس سے پہلے کی گئی پوسٹ دے دیا ہے ۔

دوم : ابو یعلی ، قرطبی وغیرہ کا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ بیعت وقت ضروری نہیں کہ پررے ملک کے لوگ ہیں بیعت کریں بس ہر جگہ سے اہل حال و عقد اگر بیعت میں شریک ہوں تو یہ امامت اجماع پر ہی ہے اور پھر عقلن بھی یہ محال ہے کہ پورے ملک سے سب کے سب بیعت کریں ۔ اور اجماع کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ امت کی غالب اکثریت جس چیز کو اپنائے وہ لازم ہوتی ہے اجماع کے لئے ضروری نہیں کہ ہر مسئلہ پر تمام امت متفق ہو کیوں کہ ایسا نا ممکن ہے ۔ چناچہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت تمام مہاجرین و انصار اور امت کی غالب اکثریت نے تسلیم کر لی تھی ۔ اس لئے ان کی خلافت کو ماننا نہ صرف ضروری ہے بلکہ اسے نہ ماننے والا شخص اس امت سے خارج ہو جاتا ہے ۔

سوم : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو امام مقرر کیا تھا و نماز پڑھاتے تھے وہ کوئی عام باشندے کیسے ہوسکتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ کی حیات ظاہری میں امام بنتے ہیں اور امام حج بھی ۔ چناچہ وہ کوئی عام باشندے نہیں تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی بھی خلیفہ نہیں تھا تو ابی بکر رضی اللہ عنہ کیسے ہوسکتے ہیں ہاں وہ وقتی امام ضرور تھے جب انصار اور مہاجرین رضی اللہ عنہم نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور آپ کو مستقل طور پر اپنا امام بنا لیا تو وہ خلیفہ بلا فصل بن گئے ۔ ان کی خلافت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کہنے پر نہیں قائم ہوئی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صرف ان کی حمایت کی بلکہ انصار کے و مہاجرین رضی اللہ عنہم کے ساتھ مکمل مشورہ کیا گیا تھا ۔ ظاہر ہے مسجد نبوی میں مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم سب نے آپ رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تو وہ اس پر راضی تھے ۔ اکیلے سیدنا عمر آپ کو خلیفہ کسیے بنا سکتے ہیں ۔

سیدنا فاروق اعظم و سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح نے مہاجرین میں سے سیدنا صدیق اکبر کا نام خلافت کے لئے تجویز کیا جیسے انصار نے سیدنا سعد بن عبادہ کا نام تجویز کیا تھا ۔ جب انصار بھی سیدنا صدیق کی بیعت ہر راضی ہوگئے اور ان کے امیدوار نے ہاتھ اٹھا لیا پھر اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اگر امید وار تھے انہوں نے بھی ہاتھ اٹھا لیا جیسے نو بختی لکہتے ہیں انہوں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو تسلیم کرلیا وہ ان کے لئے دستبردار ہوگئے اور ابو بکر سے راضی تھی ۔ تو مہاجرین نے بھی بیعت کرلی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ وہ بنی ہاشم نے بھی بیعت کرلی ۔ اس طرح سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر سب مسلمانوں نے اجماع کرلیا اس کی تفصیل ہم پہلے مضمون میں لکھ چکے ہیں جو لوگ غائب تھے یعنی اس وقت مدینہ میں نہ تھے یا دوسرے علاقون کے تھے تو انہوں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیعت ان کے عمال یعنی گورنروں کے ذریعے کی ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...