شیعہ حضرات کا اعتراض : ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی حدیث کو اپنی کتاب میں چار مختلف مقامات پر نقل کیا ہے لیکن لفظ گناہگار ، خائن ، پیمان شکن کی جگہ کذا وکذا یا (کلمتکما واحدة) لکھ دیا ۔ کا جواب پیش خدمت ہے
شیعہ حضرات کا اعتراض : ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی حدیث کو اپنی کتاب میں چار مختلف مقامات پر نقل کیا ہے لیکن لفظ گناہگار ، خائن ، پیمان شکن کی جگہ کذا وکذا یا (کلمتکما واحدة) لکھ دیا تاکہ یوں خلافت شیخین رضی اللہ عنہما کے بارے میں اہل بیت پیغمبر علیہم السّلام کی منفی نظر سے لوگ آگاہ نہ ہو پائیں ؟
کہا جاتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب خمس ، نفقات ،اعتصام اور باب فرائض میں اس روایت کو نقل توکیا لیکن اس میں تبدیلی کردی .کتاب نفقات میں لکھا ہے ( تزعمان أنّ أبابکرکذا وکذا) اور باب فرائض میں یوں لکھا ہے : ( ثم ّ جئتمانی وکلمتکما واحدة )
اس اعتراض کا جواب : امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ، ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر محدیثین علیہم الرّحمہ نے یہ الفاظ مختلف سندوں کے ساتھ نقل کئے ہیں ضروری نہیں کہ انہوں یہ الفاط حذف کر دئے ہوں ہر راوی کا کلام اپنا ہوتا ہے حدیث کا مفہوم و مقصد تو وہی رہتا ہے لیکن راوی کے بیان مختلف ہوتا ہے ۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی سندیں یہ ہیں : صحیح بخاری ٣: ٢٨٧، کتاب النفقات : حدثنا سعيد بن عفير قال حدثني الليث قال حدثني عقيل عن ابن شهاب قال أخبرني مالك بن أوس بن الحدثان وكان محمد بن جبير بن مطعم ۔
کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة : حدثنا عبد الله بن يوسف حدثنا الليث حدثني عقيل عن ابن شهاب قال أخبرني مالك بن أوس النصري وكان محمد بن جبير بن مطعم ذكر لي ۔
کتاب الفرائض : حدثنا يحيى بن بكير حدثنا الليث عن عقيل عن ابن شهاب قال أخبرني مالك بن أوس بن الحدثان وكان محمد بن جبير بن مطعم ذكر لي ۔
کتاب الخمس : حدثنا إسحاق بن محمد الفروي حدثنا مالك بن أنس عن ابن شهاب عن مالك بن أوس بن الحدثان وكان محمد بن جبير ذكر لي ذكرا من ۔
كتاب المغازي » باب حديث بني النضير : حدثنا أبو اليمان أخبرنا شعيب عن الزهري قال أخبرني مالك بن أوس بن الحدثان النصري أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ۔
یہاں تقریبا ہر سند ہی الگ ہے اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ ان احادیث کو بیان کرنے میں جو فرق ہے وہ راویوں کی وجہ سے ہو ۔ اب اگر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اگر یہ الفاط حدیث میں سے ختم کردئے ہیں تو انہوں نے اس کو راوی کا کلام ہی سمجہا ہوگا مثلا۔ ایک روایت راوی کے الفاظ کچھ اور ہونگے دوسری روایت میں دوسرے راوی کے الفاظ کچہ اور ہونگے اور پھر تیسری روایت میں راوی نے کذا کذا وغیرہ کہ کر الفاظ بیان کردئے ہونگے کیوں کہ بعض اوقات ہم ایسے کہ دیتے ہیں کہ اس نے ایسا ایسا کہا (اب اس ایسا ایسا کو پھر راویون نے اپنے اندازوں پر بیان کیا ہوگا کسی نےکہا ہوگا کہ چور ، خائن تو کسی نے کہا ہوگا غاصب وغیرہ)۔ تو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سمجھہا ہوگا کہ یہ راویوں کی ہی بیان کردہ باتیں ہیں کہ انہوں نے کیا کہا تھا کسی کو صحیح معلوم نہیں اس لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے حسن ظن رکہتے ہوئے یہ الفاط بیان نہیں کئے ہوں ۔ کیوں کہ انہیں راویوں کے مختلف اندازوں کو بیان کرنے کے بجائے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے حسن ظن رکہنا ہی آسان لگا ہوگا ۔ کیوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت متفق علیہ ہے ۔ یہی بات الماورزی رحمۃ اللہ علیہ نے کہی ہے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح صحیح مسلم جلد اول ص 90 پر ان سے نقل کرتے ہیں کہ انہون نے کہا اسی وجہ بعض اہل علم نے اپنے نسخہ میں ان الفاظ کو بیان نہیں کیا بلکہ اس کو راوی کا وہم قرار دیا ۔ جبکہ صحیح مسلم کی دو سندوں کے راوی الگ ہیں اس لئے ممکن ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے بیان کرنے والے نے یہ الفاظ نہیں کہے ہوں اور صرف کذا و کذا کہا ہو ۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment