Tuesday, 21 March 2017

مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی شان علم غیب

وما ھو علی الغیب بضنین ،اور وہ(یعنی محمد ﷺ)غیب کی باتیںبتانے میں بخیل نہیں۔(سورہ تکویر،آیت: ۲۴)مگر آپ ﷺکی اس خوبی سے انکار شروع سے منافقین اور گستاخان مصطفی ﷺ کا شیوہ رہا چنانچہ آیت کریمہ:وما کان اللہ لیذر المومنین۔(سورہ آل عمران،آیت:۱۷۹)کی شان نزول بیان کرتے ہوئے قاضی بیضاوی اورعلامہ سدی جو کبار مفسرین میں سے ہیں تحریر فر ماتے ہیں کہ:رسول اکرم ﷺنے ارشاد فر مایا:میری امت مجھ پر اپنی اصلی صورت جو ان کی مٹی میں تھی پیش کی گئی جیسے کہ حضرت آدم علیہ السلام پر پیش کی گئی تھی تو میں نے ہر اس شخص کو جان لیا جو مجھ پر ایمان لائے گا اور جو ایمان نہ لاکر کفر کرے گا ،جب یہ بات منافقوں تک پہونچی تو وہ آپ ﷺ کا مذاق اڑانے لگے اور کہنے لگے کہ محمد(ﷺ) دعوی کرتے ہیں کہ میں جانتا ہوں اس شخص کو جو مجھ پر ایمان لائے گا اور جو میرے ساتھ کفر کرے گا اگر چہ ابھی وہ پیدا بھی نہیں ہوا، حالانکہ ہم ان کے ساتھ رہتے ہیں ،وہ ہم کوبھی نہیں پہچان سکتے اور نہ ابھی تک انہوں نے ہمیں جانا ہے۔
منافقین کی اس گفتگو کی خبر جب آقائے کریم ﷺکی خدمت اقدس میں پہونچی تو آپ منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد ارشاد فر مایاکہ:وہ کون لوگ ہیں جو میرے علم پر طعن کرتے ہیں ؟مجھ سے جو پوچھنا چاہتے ہیں مجھ سے پوچھے میں انہیں سب بتا دوں گا ۔پس حضرت عبد اللہ بن حذافہ کھڑے ہوئے (جن کے والد کے بارے میں بعض لوگ شک کرتے تھے)انہوں نے عرض کیا : یارسول اللہ !میراباپ کون ہے؟ آپ ﷺنے فر مایا:تیرے باپ حذافہ ہیں ۔(بخاری اور مسلم کی روایت میں ہے کہ:ان کے بعد ایک اور شخص کھڑا ہو ااور پوچھا کہ:یارسول اللہ میرا ٹھکانہ کہاں ہے جنت میں یا جہنم میں؟ تو حضور سید عالم ﷺنے فر مایا :جہنم میں)پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا :یا رسول اللہ ﷺ!ہم راضی ہیں اللہ تعالی سے جو ہمارا رب ہے اور اسلام سے جو ہمارا دین ہے اور قرآن سے جو ہمارا امام ہے اور حضور سے کہ وہ ہمارے نبی اور رسول ہیں ۔تب آپ ﷺنے فر مایا:کیا تم اور کچھ نہیں پوچھتے ، بس کردیا پوچھنے سے ،پھر حضور سید عالم ﷺمنبر سے اتر آئے تو اسی وقت یہ آیت کریمہ:وما کان اللہ لیذر المومنین ،نازل ہوئی۔(تفسیر بیضاوی ،جلد اول ،صفحہ:۱۶۴، تفسیر معالم التنزیل ،جلد دوم،صفحہ:۱۴۰) آج بھی کچھ لوگ اس فکر کے پائے جاتے ہیں جو علم غیب مصطفی ﷺ پر اعتراض کرتے ہیں ۔ دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔

اے محبوب ہم نے آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہیں جانتے تھے اور یہ آپ پر اللہ تعالی کا عظیم فضل ہے۔(سورہ نسائ،آیت:۱۱۳)

اور یہ نبی غیب کی باتیںبتا نے میں بخیل نہیں ۔(سورہ تکویر،آیت:۲۴)

یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم نے تیری طرف وحی کی ہے ۔(سورہ آل عمران،آیت:۴۹)

وہ اللہ عالم الغیب ہے ،ظاہر نہیں کرتا اپنے علم غیب کو کسی پر لیکن اپنے پسندیدہ رسولوں پر۔(سورہ جن،آیت:۲۶ )

اللہ کی یہ شان نہیں کہ وہ تم میں سے کسی عام شخص کو غیب پر مطلع کردے ،لیکن اللہ تعالیٰ چن لیتا ہے اپنے رسولوں میں سے جسے چا ہتا ہے۔(سورہ آل عمران،آیت:۱۷۹)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺہمارے درمیان ایک مقام پر کھڑے ہوئے اور آپ ﷺنے مخلوقات کی ابتدا سے لے کر جنتیوں کے جنت میں داخل ہونے اور جہنمیوں کے جہنم میں داخل ہونے تک کی خبر دی۔اب جو اسے یاد رکھا ، یاد رکھا اور جو بھول گیا وہ بھول گیا۔(بخاری ،کتاب بد ء الخلق، باب ماجاء فی قول اللہ تعالی:ھوالذی یبدؤا الخلق ثم یعید و ھو اھون علیہ،حدیث:۳۱۹۲)

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺ ہمارے در میان ایک مقام پر کھڑ ے ہوئے ۔آپ ﷺ نے اپنے اس دن کھڑے ہونے سے لے کر قیامت تک کی کوئی ایسی چیز نہ چھوڑی،جس کو آپ نے بیان نہ فر مایا ہو۔جس نے اسے یاد رکھا اس نے یاد رکھا اور جو بھول گیا سو بھول گیا۔(مسلم،کتاب الفتن و اشراط الساعۃ،باب اخبار النبی ﷺفیما یکون الی قیام الساعۃ،حدیث:۲۸۹۱)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت عمرو بن اخطب رضی اللہ عنہ بیان فر ماتے ہیں کہ:حضور نبی اکرم ﷺ نے ہم لوگوں کو فجر کی نماز پڑھائی اور منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور ہمیں خطاب فر مایا یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہوگیا ،پھر آپ ﷺنیچے تشریف لائے ،نماز پڑھائی،اس کے بعد پھر منبر پر تشریف لے گئے اور ہمیں خطاب فر مایا ،یہاں تک کہ عصر کا وقت ہوگیا،پھر منبر سے نیچے تشریف لائے اور نماز پڑھائی ،پھر منبر پر تشریف لے گئے اور ہمیں خطاب فر مایا یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا۔تو آپ ﷺ نے ہم لوگوں کو ان تمام باتوں کی خبر دی جو ہو چکا تھا اور جو کچھ ہونے والا تھا(مسلم،کتاب الفتن و اشراط الساعۃ،باب اخبار النبی ﷺفیما یکون الی قیام الساعۃ،حدیث:۲۸۹۲)

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہمیں ابو سفیان کے (قافلہ کی شام سے )آنے کی خبر پہونچی تو حضور نبی اکرم ﷺنے صحابہ کرام سے مشورہ فر مایا ۔حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر عرض کیا :(یا رسول اللہ!)اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔اگر آپ ہمیں سمندر میں گھوڑے ڈالنے کا حکم دیں تو ہم سمندر میں گھوڑے ڈال دیں گے،اگر آپ ہمیں برک الغماد پہاڑ سے گھوڑوں کے سینے کو ٹکرانے کا حکم دیں تو ہم ایسا بھی کریں گے ۔تب حضور نبی اکرم ﷺنے لوگوں کو بلایا اور چلے یہاں تک کہ بدر کی وادی میں اُترے۔تو حضور نبی اکرم ﷺنے فر مایا:یہ فلاں شخص کے مر نے کی جگہ ہے(یہ کہتے جاتے تھے)اور اپنے ہاتھ کو زمین پر اِدھر اُدھر رکھتے جاتے تھے۔راوی کہتے ہیں :کوئی کافر حضور ﷺکی بتائی ہوئی جگہ سے ذرّہ برابر بھی ادھر اُدھر نہیں مرا۔(مسلم ،کتاب الجھاد والسیر،باب غزوۃ بدر،حدیث:۱۷۷۹)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا:قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے۔لوگوں پر ضرور ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ قتل کرنے والے کو یہ معلوم نہ ہوگا کہ وہ کیوں قتل کر رہا ہے ؟اور نہ قتل کئے جانے والے کو یہ معلوم ہوگا کہ وہ کیوں قتل کیا گیا؟۔(مسلم،کتاب الفتن و اشراط الساعۃ،باب لاتقوم الساعۃ حتی یمر الرجل بقبر الرجل فیتمنی ان یکون مکان ا لمیت من البلائ،حدیث:۲۹۰۸)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...