اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم ﷺکی ذات اقدس کو بے شمار خوبیوں سے مزین فر مایا مگرآپ ﷺ نہ کبھی ان خوبیوں پر اتراتے اور نہ اپنا بندہ ہونا بھولتے بلکہ ہر وقت اپنے رب کریم کی بارگاہ میں سراپا عجز ونیاز بنے رہتے،چنانچہ آپ ﷺکو اپنے رب العلیٰ کی بارگا ہ عظمت میںہاتھ باندھے کھڑا رہنا اور اپنی جبین نیاز کو جھکا نا بڑاپسند تھا ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور پر نور ﷺنماز میں اتنی اتنی دیر قیام فر ماتے کہ آپ ﷺکے قدم مبارک میں ورم پڑجاتا۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے حضور علیہ السلام سے عرض کیا کہ :یارسول اللہ !ﷺ،آپ تو معصوم ہیں پھر اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں ؟تو آپ ﷺنے ارشاد فر مایا:افلا اکون عبدا شکورا،کیامیں اپنے رب کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟(صحیح بخاری ،کتاب التہجد ،باب قیام النبی ﷺحتی ترم قدماہ،صحیح مسلم،کتاب صفات المنافقین و احکامھم ،باب اکثار الاعمال والاجتھاد فی العبادۃ)
باوجود اس کے کہ اللہ رب العزت نے آپ ﷺکو سب سے بہتر عاقبت کی بشارت سے نوازا آپ ﷺہمیشہ اپنے بے نیاز رب کی رضا کے طالب رہتے اور اس کے خوف سے گریہ وزاری فر ماتے،آپ کی چشمان مبارک میں رب العزت کی رضا کا شوق اور عذابِ الہی کا سخت خوف واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا ۔چنانچہ جب کبھی آندھی چلتی اور بارش کے آثار نمایاں ہوتے تو آپ ﷺکے چہرے میں خوف کے آثار نمایاں ہوجاتے ،اور حالت اضطراب میں کبھی آپ کاشانہ نبوت میں داخل ہوتے اور پھر باہر نکلتے کبھی آگے بڑھتے اور کبھی پیچھے ہٹتے اور بے چین ہوکر صدق دل سے اپنے رب کریم کی بارگاہ میں دست سوال اٹھا کر عرض کناں ہوتے ۔اے رب کریم ! ہمیں اپنے قہر وغضب سے اپنی پناہ میں رکھ۔پھر جب بارش ہونے لگتی تو آپ ﷺپر سکون ہوجاتے ۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ عرض کرتی ہیں کہ :میں نے کہا:یارسول اللہ! آندھی کا چلنا تو بارش کی نوید مسرت لاتا ہے اس پر تو آپ کو خوش ہونا چاہئے جیسے دوسرے لوگ خوش ہوجاتے ہیں مگرمیں دیکھتی ہوں کہ آپ کے چہرے پہ بجائے خوشی کے خوف کے آثار چھا جاتے ہیں ،آپ ﷺنے فر مایا:اے عائشہ!میں اس لئے خوف زدہ ہوجاتا ہوں کہ کہیں اس میں عذاب ہو،اور ایک قوم آندھیوں سے ہلاک ہو چکی ہے ،اور ایک قوم نے بادلوں کوآتا دیکھ کر خوشی میں کہا تھا کہ یہ ہم پر برسنے والا بادل ہے۔مگر اس میں عذاب تھا جس سے وہ لوگ ہلاک کردئے گئے۔(صحیح مسلم،کتاب الاستسقائ،باب التعوذ عند رویۃ الریح و الغیم والفرح بالمطر ،حدیث:۸۹۹)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اسی طرح سے حضرت مطرف اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ :وہ ایک دفعہ رسول اکرم ﷺکی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نماز ادا فر مارہے تھے اور آپ ﷺکے سینہ اقدس سے ہانڈی کے ابلنے جیسی آواز آرہی تھی ۔یعنی آپ ﷺ زار وقطار اپنے رب کریم کی بارگاہ عظمت میں اشکوں کے موتی بکھیر رہے تھے۔(نسائی،کتاب السھو،باب البکاء فی الصلوۃ،حدیث:۱۲۱۴) کتنی دفعہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ آپ ﷺکو اپنے بستر سے غائب پاتیںتو گمان کرتی کہ شاید آپ اپنی کسی زوجہ کے پاس تشریف لے گئے ہوں مگر جب جستجو کرتی تو دیکھتیں کہ آپ ﷺ اپنے رب کریم کی بارگاہ ناز میں اپنی جبین سعادت کو رکھے ہوئے اپنے رب کی تسبیح کررہے ہیں۔(نسائی،کتاب عشرۃ النسائ،باب الغیرۃ،حدیث:۳۹۶۱)
ایک عبد کامل کی سب سے بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ اسے اس کی زندگی میں خوشیوں کا کوئی بڑا سے بڑا طوفان اور غم و اندوہ کی مضبو ط سے مضبوط تر پہاڑ بھی اس بندے کو اپنے رب کی یاد سے غافل اور اس کے احکام کی بجا آوری سے دور نہ کر سکے۔
چنانچہ آپ ﷺ کو جب بھی کوئی خوشی حاصل ہوتی تو آپ اپنے رب کریم کی بارگاہ میں جھک کر سجدہ شکر بجا لاتے اور اس کی تسبیح و تحمید کرتے اور جب کوئی بڑے سے بڑا غم پہنچتا تو آپ صبر کرتے اور شکا یت کا کوئی جملہ اپنی زبان اقدس پر نہ لاتے۔آپ ﷺ کی سیرت طیبہ میں کثرت سے اس کے نمونے موجود ہیں ۔ان میں سے چند قارئین کی خدمت میں اس امید کے ساتھ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں کہ آپ بھی اپنی زندگی میں حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی اس سیرت طیبہ کو اپنایئے جسے رب العزت نے پوری دنیا کے لئے ’اچھا نمونہ‘ قرار دیا۔
(۱)فتح مکہ آپ ﷺ اور آپ کے پاکباز اصحاب کے لئے ایک بڑاہی فرحت و مسرت انگیز موقع تھا جس کی خوشیوں کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ،مگر آپ ﷺاس عظیم خوشی کے موقع پر بھی فخر و غرور میں مبتلا نہ ہوئے ،آپ کی اس دن کیفیت کیا تھی ،اس کا اندازہ اس روایت سے لگایا جا سکتا ہے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:فتح مکہ کے دن جب رسول اکرم ﷺمکہ شریف میں داخل ہوئے تو آپ ﷺ اپنی گردن مبارک جھکائے ہوئے تھے،پیکر عجز ونیاز بنے اپنے رب کریم کی حمد وثناء میں مصروف تھے اور آپ کی پیشانی مبارک کجاوے کی سامنے والی لکڑی کو چھو رہی تھی۔(المستدرک علی الصحیحین للحاکم،کتاب المغازی والسیر،حدیث:۴۳۶۵)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اور صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ:رسول اکرم ﷺاپنی سواری پر فتح مکہ کے دن مکہ شریف کے با لائی علاقہ کی طرف سے شہر میں داخل ہوئے ۔حضرت اسا مہ بن زید رضی اللہ عنہما آپ کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے ۔آپ کے ساتھ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور کعبہ مشرفہ کے کلید بردار حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔آپ ﷺنے اپنی اونٹنی کو مسجد کے قریب باہر بٹھایا اور کعبہ شریف کی کنجی لانے کا حکم دیا ،پھر آپ کعبہ شریف کے اندر تشریف لے گئے ،آپ کے ساتھ اسامہ بن زید ،بلال اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہم بھی تھے ۔آپ اندر کافی دیر تک ٹھہرے ،جب باہر تشریف لائے تو لوگ جلدی سے آگے بڑھے ،حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سب سے پہلے اندر جانے والوں میں تھے ،انہوں نے کعبہ شریف کے دروازے کے پیچھے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو کھڑے دیکھا اور ان سے پوچھا کہ:حضور ﷺنے کس جگہ (شکرانے کی)نماز ادا فر مائی ۔انہوں نے ان کو وہ جگہ بتائی جہاں آپ ﷺنے نماز پڑھی تھی۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ:میں یہ پوچھنا بھول گیا کہ آپ ﷺنے کتنی رکعات نماز ادا فر مائی۔(صحیح بخاری،کتاب المغازی،باب فتح مکہ،حدیث:۴۲۸۹)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اس کے علاوہ اسلام کی روز افزوں ترقی اور اپنے جانثاروں کے بڑھتے ہوئے قافلے اور نہایت کم مدت میں ایک ایسی عظیم کامیابی جو دنیا میں آپ ﷺکے علاوہ کسی کو نصیب نہ ہوئی ۔مگرخوشیوں کا کوئی طوفان آپ ﷺکو آپ کے رب سے لمحہ بھر کے لئے بھی غافل نہ کر سکا بلکہ جتنی زیادہ خوشی نصیب ہوتی آپ ﷺاتناہی زیادہ اپنے رب کریم کا شکر ادا فرماتے۔اور مصیبتوں پر صبر فر ماتے چنانچہ
آپ ﷺکے لخت جگر حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کا موقع آپ ﷺ کے لئے بڑا اندوہناک تھا ۔اس سے پہلے آپ ﷺکے دو صاحبزادے حضرت قاسم اور حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہما آپ کو داغِ مفارقت دے چکے تھے ،جب حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ آپ ﷺکے آخری صاحبزادے کے طور پر دنیا میں تشریف لائے تو آپ ﷺ ان سے بے حد پیار فر ماتے اور اپنی گونا گوں مصروفیات سے وقت نکال کر اپنے لخت جگر کودودھ پلانے والی مقدس خاتون کے گھر تشریف لے جاتے ،اپنے لخت جگر کو اپنی گود میں اٹھاتے ،انہیں بوسہ دیتے،ان کے ساتھ کھیلتے ،انہیں سونگھتے اور ان سے اپنی بے پناہ محبت کا اظہار فرماتے۔(مسلم،حدیث:۲۳۱۵)
جب ان کا انتقال ہوا،آپ ﷺنے ان کو اپنی گود میں اٹھایاتوآپ ﷺکی آنکھیں آنسو ں سے بھر آئیں اور دل از حد غمگین تھا ۔حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے تعجب سے کہا:یارسول اللہ ﷺ!آپ آنسو بہارہے ہیں!آقائے کریم ﷺنے ارشاد فر مایا :اے ابن عوف!یہ بے صبری نہیں بلکہ یہ رحمت ہے۔پھر آپ ﷺکے چشمان مبارک سے آنسو کے قطرات ٹپکے تو آپ ﷺ نے فر مایا:آنکھیں اشکبار ہیں اور دل غمگین ،لیکن زبان سے ہم وہی بات کہیں گے جس سے ہمارا پرور دگار راضی ہے،ائے ابراہیم !بے شک ہم تیری جدائی پر غمگین ہیں۔دوسری روایت میں ہے کہ :آپ ﷺنے فر مایا:اللہ تعالی آنکھ کے آنسوئوں پر عذاب دیتا ہے اور نہ ہی دل کے غم پر ،اور پھر اپنی زبان اقدس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:لیکن اس کی وجہ سے عذاب دیتا ہے۔(صحیح بخاری،کتاب الجنائز، باب قول النبی ﷺانا بک ا لمحزون،حدیث:۱۳۰۳،۱۳۰۴)
اس کے علاوہ آپ ﷺکی حیات مبارکہ میں غم واندوہ کے ایسے ایسے حوصلہ شکن پہاڑ آئے جن پر صبر کی طاقت اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکے علاوہ کسی کو عطا ہی نہ فر مائی ۔چنانچہ آپ ﷺ کے والد گرامی کا سایہ آپ کے دنیا میں تشریف لانے سے پہلے آپ کے سر سے اٹھ جانا،بچپنے میں بحالت سفر آپ کی والدہ مشفقہ کا داغ مفارقت دینا ،پھر آپ کے شفیق دادا کا رخصت ہوجانا،تین سال تک شعب ابی طالب میں مشقتوں سے لبریز زندگی گزارنا ،پھر ایک ہی سال کے اندر آپ کے حامی چچا اور آپ کی غمگسار رفیقئہ حیات کا داعی اجل کو لبیک کہنا،نیز طائف کے میدان میں شدید غم واندوہ سے دوچار ہونا ،احد کے میدان میں تکالیف کا بار گراں اٹھانا ،آپ کے سامنے آپ کے جانثارچچا حضرت حمزہ کا شہید ہونا اور ان کی نعش مبارک کے ساتھ کفارکا ظالمانہ سلوک کرنا،ان کے علاوہ آپ کے سیکڑوںمحبوب صحابہ پر کفاروں کا ظلم وستم ہونا ان سب کے علاوہ پوری زندگی فقر وفاقہ کے ساتھ گزارنا۔یہ سب وہ غم کے پہاڑ ہیں جنہیں آقائے کریم ﷺ نے نہایت اولوالعزمی اور صبر کے ساتھ برداشت کیا اور کبھی اپنے زبان اقدس پر کوئی حرف شکایت نہ لایا۔
دل تو چاہتا ہے کہ آقائے کریم ﷺ کی پاکیزہ سیرت کے مذکورہ تمام پہلوئو ںکو تفصیل کے ساتھ صفحہ قرطاس پر ثبت کروں تاکہ قارئین کو آقائے کریم ﷺ کے قلب مبارک کو پہنچنے والی دردو غم کی ٹیسوں کا صحیح اندازہ ہوسکے اور پھر آپ ﷺکے صبر کی حقیقت کا اندازہ ہو مگر اس خوف سے کہ قارئین اکتا ہٹ کے شکار نہ ہوں میں نے صرف ان کی طرف اشارہ کر دیا ہے ،۔المختصر! ایک عبد کامل کی جتنی بھی خوبیاں ہوسکتی ہیں وہ سب آپ ﷺکی ذات اقدس میں سب سے زیادہ کامل طور سے موجود تھیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment