کان میں اذان دینا۔چنانچہ جب حضرت سیدنا امام حسن ر ضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو حضور اکرم ﷺنے ان کے کان میں اذان دیا۔(ترمذی،حدیث:۱۵۱۴ )
کسی عالم یابزرگ شخص سے بچوں کو گھٹی دلوانا،یعنی کھجور یا کوئی میٹھی چیز چبوا کر بچے کو چٹا دینا۔عروہ اور فاطمہ بنت منذر بیان کرتے ہیں کہ:جس وقت حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہا نے ہجرت کی تو وہ حمل سے تھیں۔اور حضرت عبد اللہ بن زبیر ان کے پیٹ میں تھے۔جب وہ قبا شریف پہونچیں تو حضرت عبد اللہ پیدا ہوئے وہ اس بچے کو گھٹی دلانے کی غرض سے رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اس بچہ کورسول اللہ ﷺ کی گود میں دے دیا تو آپ ﷺ نے کھجوریں منگائیں اور آپ ﷺنے اس کو چبایا اور بچے کے منھ میں لعاب دہن ڈال دیا ۔جو چیز سب سے پہلے اس بچے کے پیٹ میں پہونچی وہ آپ ﷺکا لعاب دہن تھا ۔حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ:پھر حضور ﷺنے اس بچے پر ہاتھ پھیرا اور اس کے حق میں دعا فر مائی اور ان کانام عبد اللہ رکھا۔(صحیح مسلم،کتاب الا ٰداب ،حدیث:۲۱۴۶)
اچھانام رکھنا۔حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:حضور اکرم ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:قیامت کے دن تم کو تمہارے نام اور تمہارے باپوں کے نام سے بلایا جائے گا اس لئے اچھے نام ر کھو۔(سنن ابو داود ،حدیث:۴۹۴۸)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حضرت ابی وہب الجشمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:حضور ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:انبیائے کرام کے نام پر اپنے بچوں کے نام رکھو۔اور بے شک تمہارے ناموں میں اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ نام ’ عبد اللہ اور عبد الر حمن ‘ ہیں اور سچے نام ’ حارث اور ھمام‘ ہیں اور برے نام ’حرب اور مرہ‘ ہیں۔(سنن ابی داود،حدیث:۴۹۵۰،صحیح مسلم،حدیث:۲۱۳۲)
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:ہم میں سے ایک شخص کے یہاں لڑ کا پیدا ہوا ،اس شخص نے اس کانام ’ محمد‘ رکھا ۔اس کی قوم کے لوگوں نے کہا کہ تم نے اپنے بیٹے کانام رسول اللہ ﷺکے نام پر رکھا ہے۔ہم تم کو یہ نام نہیں رکھنے دیں گے۔وہ اپنے بچے کو اٹھائے ہوئے حضور ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور پورا واقعہ بیان کیا۔حضور ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:میرے نام پر نام رکھو،مگر میری کنیت (یعنی بلانے والے نام )پر اپنی کنیت نہ رکھو۔(صحیح مسلم،حدیث:۲۱۳۳)
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:جس کے یہاں لڑ کا پیدا ہوا پھر وہ میری محبت اور میرے نام سے بر کت حاصل کرنے کے لئے اس کانام ’ محمد ‘ رکھا تو وہ اور اس کا لڑکا جنت میں جائے گا۔(ابن عسا کر)
بہتر یہی ہے کہ کسی عالم سے نام رکھوایا جائے کیو نکہ وہ مسائل سے زیادہ آگاہ اور نام کے اچھے برے معانی سے زیادہ باخبر ہوتے ہیں ۔اور اگر کسی سبب سے برا نام رکھا جا چکا ہو تو اس کو بدلوالینا چا ہئے کہ حضور ﷺبرے ناموں کو بد ل دیا کرتے تھے۔(صحیح مسلم ، حدیث:۲۱۳۹)
اگر بچہ مرا ہوا پیدا ہو تو نام رکھنے کی ضرورت نہیں اور اگر پیدا ہونے کے بعد مرا ہو تودفن کرنے سے پہلے نام رکھ دینا چا ہئے۔(عالمگیری ، رد المحتار،بحوالہ اسلامی اخلاق وآداب ،ص:۱۵۳)
عقیقہ کرنا۔مستحب یہ ہے کہ پیدائش کے ساتویں دن لڑکے کی طرف سے دو جانورنر ہو یا مادہ اور لڑ کی کی طرف سے ایک جانور ذبح کرے ،سر کے بال مونڈوائے اور اس پر زعفران ملے اور بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرے۔چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺنے حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی طرف سے عقیقہ میں بکری ذبح فر مایا اور فر مایا کہ:اے فاطمہ! اس کا سر منڈائو اور بال کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرو۔(ترمذی،حدیث:۱۵۱۹)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:نبی کریم ﷺنے سیدنا امام حسن اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہما کے عقیقے میں دو ،دو مینڈھے ذبح فر مایا۔(سنن نسائی،حدیث:۴۲۱۹)
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: حضور ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:ہر لڑکا اپنے عقیقے میں گروی ہے ،ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے اور اس کا نام رکھا جائے اور اس کا سر منڈایا جائے۔(گروی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے پورا نفع حاصل نہ ہوگا جب تک عقیقہ نہ کیا جائے۔اور بعض علماء کہتے ہیں کہ بچہ کی سلامتی اور اس کی نشو ونما اور اس میں اچھے اوصاف ہو نا عقیقہ کے ساتھ وابستہ ہے۔)۔(سنن نسائی ،حدیث:۴۲۲۰)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ساتویں دن مستحب ہے اگر اس دن نہ کر سکے تو بعد میں بھی کر سکتا ہے۔(بہار شر یعت،حصہ:۱۵،ص:۷۰۰)
عام طور سے ہندوستان میں لوگ چھٹی کرتے ہیں اور طر ح طرح کے خلاف شرع رسم ورواج انجام دیتے ہیں ۔حالانکہ اگر وہ ساتویں دن عقیقہ کرے تو اتنا ہی خرچ میں سنت بھی ادا ہو جائے گی اور مہمانوں کے لئے گوشت کا بھی انتظام ہو جائے گا۔اللہ تعالی ہم سب مسلمانوں کو حضور اکرم ﷺکی سنت مبارکہ کے مطابق ہر کام کرنے کی تو فیق عطا فر مائے۔آمین۔
ختنہ کرنا۔ختنہ کرنا سنت ہے۔چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:پانچ چیزیں فطرت سے ہے یعنی پہلے کے انبیاء کرام علیھم السلام کی سنت سے ہیں۔۱:ختنہ کرنا۔۲:ناف کے نیچے کے بال مونڈنا۔ ۳: مونچھیں پست کرنا۔۴:ناخن ترشوانا۔۵:بغل کے بال اکھیڑنا۔(بخاری،حدیث:۵۸۹۱۔مسلم،حدیث:۲۵۷)
ختنہ کی مدت سات سال سے لیکر بارہ سال تک ہے۔اور بعض علماء نے یہ فر مایا کہ:ولادت کے ساتویں دن بھی ختنہ کرنا درست ہے۔(عالمگیری،بحوالہ اسلامی اخلاق وآداب،ص:۲۳۹)
اگر کوئی جوان شخص اسلام لے آیا تو اگر وہ خود سے کر سکتا ہے تو کرلے نہیں تو ضرورت نہیں۔(عالمگیری،بحوالہ اسلامی اخلاق وآداب،ص:۲۳۹)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment