قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے فرماتا ہے کہ’’ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَک ترجمہ:اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کر دیا ‘‘
آقائے کائنات سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذکر کی یہ بلندی دنیا میں زمین و آسمان پر یوں ظاہر ہوئی کہ اللہ اور اس کے فرشتے اور تمام مومنین ان پر دن رات درودو سلام بھیجتے ہیں۔ دنیا میں ہر جگہ چوبیس گھنٹے گونجنے والی اذانوں میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔ ذکر کو یوں بھی بلند کیا کہ کلمہ طیبہ میں اپنے باعظمت نام کے ساتھ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نام جوڑا اور قرآن پاک میں بھی کئی مقامات پر ’’اللہ اور اس کا رسول‘‘ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذکر کو اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر بلندی عطا کی۔ صرف اپنی ذات پر ایمان کو ادھورا قرار دیا اور کسی کو بھی اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لائے بغیر اپنی بارگاہ میں قبول نہ کیا۔
اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذکر کو آخرت میں اور بلند تر کرنے کے لیے بخشش کا تمام تر دارومدار ان کی شفاعت پر رکھا تاکہ وہ لوگ جو دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان کے منکر تھے آج ان کی شان کی بلندی دیکھ لیں کہ اللہ جس کو بخش رہا ہے اُن کے وسیلے اور شفاعت سے بخش رہا ہے۔ حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’میری رحمت میرے غضب پر حاوی ہے۔‘‘ اپنے اس قول کا عملی ثبوت اللہ تعالیٰ روزِ قیامت یوں دے گا کہ اللہ کی رحمت یعنی رحمت اللعالمین حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے اُمتیوں کے گناہوں کی بخشش اللہ سے طلب فرما کر انہیں اللہ کے غیظ و غضب سے بچالیں گے اور یوں جو ذکر دنیا میں ہر دم بلندی کی طرف مائل رہا وہ روزِ آخرت اپنے عروج کی انتہاؤں کو چھولے گا یہاں تک کہ دنیا میں جو لوگ اس شان کو دیکھنے اور سمجھنے سے قاصر تھے وہ بھی اپنی آنکھوں سے اس شان کو دیکھ لیں گے۔ اپنے محبوب علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذکر اور شان کو یہ بلندی اور عروج عطا فرمانے کا وعدہ اللہ تعالیٰ قرآن میں ان الفاظ میں فرماتا ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی )
* وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّک فَتَرْضٰی : ترجمہ: اے حبیب مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) آپ کا رب عنقریب آپ کو اتنا عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہوجائیں گے۔ (والضحیٰ: 5)
* عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا : ترجمہ: یقیناًاللہ آپصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا۔ (الاسراء: 79)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نفسِ مطمئنہ کےُ اس مقام پر ہیں جہاں اپنے لیے بندے کی کوئی بھی طلب نہیں رہتی پھر اللہ انہیں ایسا کیاعطا کرنے کا وعدہ کر رہا ہے جس سے وہ راضی ہوجائیں۔ انہیں نہ دنیا کے خزانوں کی طلب ہے نہ جنت کے۔ نہ وہ اللہ کے ہاں بڑے مقامات کے طالب ہیں کہ اللہ پہلے ہی انہیں اپنی ذات تک مکمل معراج عطا کر کے بلند ترین مقام پر فائز کر چکا۔ اب اگر ان کی کوئی طلب ہے تو صرف اپنی گنہگار اُمت کی بخشش کی طلب اور فکر ہے اور یقیناًاس آیت میں اللہ انہیں یہی عطا کرنے کا وعدہ فرما رہا ہے کہ آپ کے وسیلے سے بخشش کا سلسلہ اس وقت تک جاری رکھوں گا جب تک آپ راضی نہ ہوجائیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی )
اذًا واللّٰہ لا ارضیٰ و واحد من امتی فی النارترجمہ: خدا کی قسم میں اس وقت تک راضی نہ ہوں گا جب تک میرا ایک بھی اُمتی دوزخ میں ہو۔ (تفسیر قرطبی)
امام رازی رحمتہ اللہ علیہ آیت مبار کہ ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ کے تحت حضر ت ا بو بکر صدیق اورحضرت علی رضی اللہ عنہم کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ اِنَ ھَذاھواشفاعۃفی الامۃ ’’بے شک یہ اُمت کے بارے میں شفاعت کا حق ہے۔‘‘
صحیح مسلم میں روایت بیان کی گئی ہے کہ ایک بار حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی اُمت کے حق میں دعا کرتے ہوئے گریہ وزاری کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے جبرائیل امین علیہ السلام کو بارگاہِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں بھیجا کہ جا کر میرے محبوب سے پوچھو کہ ان کو کون سی چیز مائل بہ گریہ کر رہی ہے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حاضر خدمت ہو کر پوچھا تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں بتایا کہ وہ اپنی اُمت کے لیے آنسو بہا رہے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اے جبرائیل ؑ میرے محبوب سے کہہ دو کہ انا سنرضیک فی امتک ولانسوک ترجمہ:ہم آپ کو آپ کی اُمت کے حق میں عنقریب راضی کر دیں گے اور آپ کو اس بارے میں رسوا نہ کریں گے۔(صحیح مسلم ۔ کتاب الایمان‘ باب دعا النبی)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی )
امام خازن رحمتہ اللہ علیہ اس آیت کریمہ ولسوف یعطیک ربک فتر ضیٰ کی تفسیر فرماتے ہیں کہ ’’حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ اس سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اُمت کے حق میں شفاعت کرنا ہے حتیٰ کہ آپ راضی ہو جائیں۔‘‘
مقامِ محمود سے مراد وہ مقام ہے جہاں صرف اور صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی لائقِ تعریف مقام پر فائز ہوں گے‘ آپ محمود ہوں گے اور تمام عالم زمین و آسمان چرند پرند‘ انسان‘ فرشتے سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعریف کریں گے۔ یہ مقام یقیناًمقامِ شفاعت ہے کیونکہ جب تک اللہ روزِ آخرت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس مقام پر فائز نہ فرمائے گا‘ تمام مخلوق پر آپ کی شان ظاہر نہ ہوپائے گی اور وہ کفار و منافقین جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہِ الٰہی میں انتہائی قربت و عظمت کے انکاری تھے‘ کس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عظمت کا اقرار کریں گے۔ اس دن جب شفاعت کا حق صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس ہوگا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تمام مخلوق پر فضیلت ظاہر ہوجائے گی۔ چنانچہ مقامِ محمود مقامِ شفاعت ہی ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی احادیث مبارکہ اور مفسرین کرام کے بہت سے اقوال اس پر شاہد ہیں۔
* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس قول مبارک’’ عسیٰ ان یبعثک ربک مقاماً محموداً کے بارے میں فرمایا (یا اس کے بارے میں سوال کے جواب میں فرمایا) کہ ’’وہ شفاعت ہے‘‘ (جامع ترمذی)
* حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں ’’بے شک لوگ روزِ قیامت چلیں گے‘ ہر اُمت اپنے نبی کو تلاش کرے گی‘ وہ کہہ رہے ہوں گے ’’اے فلاں تو ہماری شفاعت کر‘‘ یہاں تک کہ شفاعت کی انتہا نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ہوگی۔ پس یہ وہ دن ہوگا جب اللہ تعالیٰ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مقامِ محمود عطا کرے گا۔‘‘ (صحیح بخاری)
* حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا (روزِ قیامت) میں شفاعت کروں گا اور عرض کروں گا کہ اے میرے رب تیرے بندے زمین کی ہر جگہ تیری عبادت کرتے تھے اور وہ مقام (جہاں میں ان کی شفاعت کروں گا) مقامِ محمود ہوگا۔‘‘ (کنز العمال)
* حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے رب کا آپ کو مقامِ محمود پر کھڑا کرنا مقام شفاعت ہے جس جگہ اولین و آخرین آپ کے لیے محوِ ثنا ہوں گے۔‘‘ (تفسیرا بن عباسؓ )
* امام خازن ؒ فرماتے ہیں ’’اور مقامِ محمود ہی مقامِ شفاعت ہے کیونکہ اس مقام پر اوّلین و آخرین آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعریف کریں گے۔‘‘ (تفسیر حازن)
* امام جلال الدین سیوطی ؒ فرماتے ہیں: ’’مقامِ محمود وہ مقام ہے جس جگہ اولین و آخرین آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حمد کریں گے اور وہ مقامِ شفاعت ہوگا۔ (جلالین)
روزِ آخرت اللہ کی بارگاہ میں اللہ کی اجازت کے بغیر کسی کو بھی کسی کی شفاعت کی جرأت نہ ہوگی جیسا کہ اللہ نے خود فرمایا:
* ترجمہ: کون ایسا شخص ہے جو اس کے حضور اس کے اذن کے بغیر شفاعت کر سکے۔ (البقرہ: 255)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی )
* ترجمہ: (اس کے حضور) اس کی اجازت کے بعد ہی کوئی شفاعت کرے گا۔ (یونس: 3)
* ترجمہ: (اس دن) لوگ شفاعت کے مالک نہ ہوں گے سوائے ان کے جنہوں نے اللہ رحمن سے وعدہ لے لیا ہے۔ (مریم: 87)
* ترجمہ: اس دن سفارش سود مند نہ ہوگی۔ سوائے اُس شخص (کی شفاعت) کے جسے رحمن نے اجازت دے دی۔ (طہٰ: 109)
* ترجمہ: اور اُس کے پاس (کسی کی) شفاعت کام نہیں آتی بجز اس کے کہ جس کو وہ خود اجازت دے دے۔ (سباء: 23)
ان آیات سے ثابت ہے کہ روز قیامت اللہ ضرور چند چنے ہوئے لوگوں کو شفاعت کی اجازت دے گا جن کے سوا کوئی کسی کی سفارش نہ کر سکے گا اور ان چنے ہوئے چند لوگوں میں جنہیں اللہ نے شفاعت کا حق دے رکھا ہے‘ یقیناًمحبوبِ الٰہی‘ سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بڑھ کر اور کوئی نہیں ہو سکتا جو تمام انبیاء کے بھی امام ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے نہ صرف شفاعت کی اجازت دی ہے بلکہ خود کئی آیات میں حکم بھی دیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خود بھی رحمن و رحیم ہے۔ وہ خود بھی اپنے گنہگار بندوں کو بخش کر اپنی صفاتِ غفور و رحیم کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔ لیکن جس طرح اس نے اپنے محبوب کو اپنی تمام صفات کا مظہر بنایا اور ان کے بغیر کسی صفت کو ظاہر نہ فرمایا اسی طرح وہ اپنے محبوب کے بغیر اپنی غفور رّحیمی کا بھی اظہار نہیں کرنا چاہتا۔ حالانکہ اگر وہ چاہتا تو اپنے گنہگار بندوں کو بخشش مانگنے پر خود ہی معاف کر دیتا لیکن اپنے محبوب کی تمام مخلوق پر عظمت کے اظہار کے لیے اُن سے فرماتا ہے کہ وہ اس کے بندوں کے لیے بخشش طلب کریں تاکہ اللہ اپنے محبوب سے اپنی محبت کے اظہار کے طور پر ان کے کہنے پر اپنے بندوں کو بخش دے۔ اللہ فرماتا ہے: ترجمہ:(اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) اگر وہ لوگ جو اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے، آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔ (النساء: 64)
یعنی اگر ان کے معافی طلب کرنے کے ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شفاعت بھی شامل ہوجاتی تو اللہ لازماً ان کی توبہ قبول فرما لیتا۔ اللہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرماتا ہے:
* ترجمہ: اور (اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) اپنے خاص اور عام مسلمان مردوں اور عورتوں کے گناہوں ( کے لیے) بخشش مانگیء۔ (محمد: 19)
* ترجمہ: سو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) ان سے درگزر فرمایا کریں اور ان کے لیے بخشش مانگیں۔(النور: 62)
* ترجمہ: اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کے حق میں دعا فرمائیں بیشک آپ کی دعا ان کے لیے (باعث) تسکین ہے۔ (التوبہ: 103)
* ترجمہ: اور ان (مسلمان عورتوں) کے لیے اللہ سے بخشش طلب فرمائیے۔(المتحنہ۔12)
ان تمام آیات سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو شفاعت کا حق اور اجازت دے رکھی ہے ۔ اللہ تعالیٰ واضح طور پر فرماتا ہے کہ ’’وہ جس کو بھی بخشے گا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خاطر ہی بخشے گا۔‘‘
لِّیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ : ترجمہ: تاکہ بخش دے اللہ آپ (کی اُمت) کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ اور اپنی نعمت کو آپ پر مکمل فرما دے۔ (سورۃ الفتح: 20)
اس آیت میں لفظ ’’اُمت‘‘ حذف ہے کیونکہ جب یہ بات ثابت اور قبول عام ہے کہ تمام انبیاء معصوم اور خطا سے پاک ہوتے ہیں تو یہاں جن کے گناہوں کی معافی کی بات ہورہی ہے وہ اس آیت کے مخاطب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نہیں بلکہ ان کی اُمت ہے۔ ’’ذنب‘‘ کے معانی گناہ ہیں اور ذَنبِکَ سے مراد ’’آپ کے گناہ‘‘ نہیں بلکہ ’’آپ کی اُمت کے گناہ‘‘ ہی ہیں۔
امام فخر الدین رازی رحمتہ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ اطہر گناہ سے پاک ہے تو بخشش کس بات کی؟‘‘ (تفسیر الکبیر)
امام موصوف خود ہی جواب دیتے ہیں کہ اس سے مراد اہلِ ایمان یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمت کے گناہ ہیں۔
اسی طرح صاحبِ مجمع البیان فرماتے ہیں ’’اس آیت کریمہ سے مراد یہ ہے کہ ’’اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ تعالیٰ آپ کی اُمت کے اگلے پچھلے تمام گناہ آپ کی شفاعت کے ذریعے معاف فرما دے گا۔‘‘ اس کے بعد فرماتے ہیں ’’ذنوبِ اُمت‘‘ کی اضافت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف کرنا کتنا حسین ہے۔ اس کی وجہ اُمت اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے درمیان گہرا تعلق اور واسطہ ہے۔ (مجمع البیان)
قرآن پاک میں اللہ علی الاعلان فرماتا ہے کہ جہاں اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم موجود ہوں گے وہاں وہ کبھی عذاب نہیں فرمائے گا ۔
وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ : ترجمہ: اور اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر عذاب فرمائے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان میں (موجود) ہوں (الانفال: 33)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کافروں کو عذاب دینے کے متعلق فرما رہا ہے کہ جب تک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس روئے زمین پر موجود ہیں تب تک وہ ان کافروں کو بھی عذاب نہ دے گا کہ جس زمین کو اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قدموں نے چھو لیا خواہ اب اس پر کافر ہی کیوں نہ موجود ہوں اور چاہے وہ خود ہی عذاب کی خواہش کیوں نہ کریں:
وَاِذْ قَالُوا اللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِاءْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ
ترجمہ: اور جب انہوں نے (طعناً ) کہا کہ اے اللہ اگر یہ (قرآن) تیری طرف سے حق ہے تو (اس کی نافرمانی کے باعث) ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہم پر کوئی درد ناک عذاب بھیج۔ (الانفال:32)
جب اللہ تعالیٰ کفار پر ان کی اس قدر زبانِ طعن دراز کرنے کے باوجود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی موجودگی کی برکت کے باعث ان پر عذاب نہ فرما رہا تھا تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اپنے اُمتی‘ جواُن پر ایمان لائے اور ان سے اپنے گناہوں کی شفاعت کی امید بھی رکھتے ہیں‘ ان کے حق میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شفاعت کو کیونکر قبول نہ فرمائے گا۔ جب ان کی موجودگی ہی عذاب سے نجات کا باعث ہے تو اس بات پر یقین کرنے میں کیا چیز مانع ہو سکتی ہے کہ انہیں شفاعت کا مکمل اختیار بھی حاصل ہے۔
کئی روایات سے بھی یہ ثابت ہے کہ جب صحابہ کرامؓ سے کوئی خطا سرزد ہو جاتی تو وہ توبہ کرتے وقت توبہ کی نسبت اللہ کی طرف بھی کرتے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف بھی کرتے۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک بار انہوں نے ایک تصویر دار قالین خریدا۔ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسے دیکھا تو اپنے قدم مبارک اس پر نہ رکھے بلکہ دروازے پر ہی کھڑے رہے۔ اُم المومنینؓ نے چہرۂ انور پر ناراضگی کے آثار پائے تو عرض کرنے لگیں’’یا رسول اللہ اتوب الی اللّٰہ ماذا اذنبت‘‘ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہِ عالیہ میں توبہ کرتی ہوں مجھ سے کیا خطا ہوئی۔ (بخاری)
متعدد احادیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہے کہ مختلف موقعوں پر جب کبھی صحابہ کرامؓ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے شفاعت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کبھی بھی کسی کو یہ نہیں فرمایا کہ تمہارا مجھ سے شفاعت طلب کرنا شرک ہے یا یہ کہ اپنے اللہ سے طلب کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ اس سلسلے میں چند روایات نقل کی جاتی ہیں۔
* حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عرض کیا۔ یا نبی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ! آپ میرے لیے قیامت کے دن شفاعت فرمایئے گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا :انا فاعل ’’میں شفاعت کروں گا۔ ‘‘(جامع ترمذی)
* حضرت سواد بن قارب رضی اللہ عنہٗ نے اشعار کی صورت میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عرض کی:
وانک ادنی المرسلین شفاعۃ
الی اللّٰہ یا ابن الاکر میں الاطایب
ترجمہ: اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مرسلین میں سے بحیثیت شفیع عنداللہ ہونے کے سب سے زیادہ قریب ہیں‘ اے پاک بزرگ لوگوں کی اولاد۔
فکن لی شفیعاً یوم لاذوشفاعہ
سواک بمغن عن سواد بن قارب
ترجمہ: سو آپ میرے سفارشی ہوجائیں اس دن جب کوئی سفارشی نہ ہوگا۔ آپ کے سوا کون سواد بن قارب (رضی اللہ عنہٗ )کے کام آنے والا ہے۔ (دلائل النبوۃ البیہقی)
No comments:
Post a Comment