Sunday, 26 March 2017

افضلیت سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئمہ محدثین اولیاء کرام اکابرین اہلسنت کے ارشادات کی روشنی میں

افضلیت سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئمہ محدثین اولیاء کرام اکابرین اہلسنت کے ارشادات کی روشنی میں ۔ ترتیب و پیشکش ڈاکٹر فیض احمد چشتی
امام شرف الدین نووی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :’’اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سب صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق پھر حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ہیں ۔‘‘(شرح صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ، ج۸،الجزء:۱۵، ص۱۴۸)

امام محمد بن حسین بغوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :’’حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ، عمر فاروق، عثمان غنی، علی شیر خدا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم انبیاء ومرسلین کے بعد تمام لوگوں میں سب سے افضل ہیں ، اور پھر ان چاروں میں افضلیت کی ترتیب خلافت کی ترتیب سے ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہپہلے خلیفہ ہیں لہٰذا وہ سب سے افضل ان کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق ، ان کے بعد حضرت سیدنا عثمان غنی ، ان کے بعد حضرت سیدنا علی شیر خدا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم افضل ہیں ۔‘‘(شرح السنۃ للبغوی، کتاب الایمان، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، ج۱، ص۱۸۲)

علامہ ابن حجر عسقلانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’اِنَّ الْإِجْمَاعَ اِنْعَقَدَ بَيْنَ أَهْلِ السُّنُّةِ اَنَّ تَرْتِيْبَهُمْ فِيْ الْفَضْلِ كَتَرْتِيْبِهِمْ فِي الْخِلَافَةِ رَضِيَ اللہُ عَنْهُمْ أَجْمَعِيْنیعنی اہل سنت وجماعت کے درمیان اس بات پر اجماع ہے کہ خلفاء راشدین میں فضیلت اسی ترتیب سے ہے جس ترتیب سے خلافت ہے(یعنی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسب سے افضل ہیں کہ وہ سب سے پہلے خلیفہ ہیں اس کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق ، اس کے بعد حضرت سیدنا عثمان غنی ، اس کے بعد حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم)۔‘‘ (فتح الباری ،کتاب فضائل اصحاب النبی، باب لوکنت متخذا خلیلا،تحت الحدیث:۳۶۷۸، ج۷، ص۲۹)

امام جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :’’اہل سنت وجماعت کا اس بات پر اجماع ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے بعد تمام لوگوں میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہہیں پھر حضرت سیدنا عمر فاروق، پھر حضرت سیدنا عثمان غنی، پھر حضرت سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمہیں ۔(تاریخ الخلفاء، ص۳۴)(دعاگو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

امام عبد الوہاب شعرانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی اُمت کے اولیاء کرام میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ،پھر حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ، پھر حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ،پھر حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہیں ۔ ‘‘(الیواقیت والجواھر،المبحث الثالت والاربعون، الجزء الثانی، ص۳۲۸)

امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’یہ آیت مبارکہ ﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ۝۵ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ﴾حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی امامت پر دلالت کرتی ہیں ، کیونکہ ان دونوں آیتوں کا معنی ہے کہ ’’اے اللہ ہمیں ان لوگوں کے راستے پر چلا کہ جن پر تیرا انعام ہوا۔‘‘اور دوسری آیت مبارکہ میں فرمایا:﴿اَنْعَمَ اللهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ﴾(پ۵، النساء:۶۹) ’’یعنی اللہنے انبیاء اور صدیق پر انعام فرمایا۔اور اس بات میں کسی قسم کا کوئی شک وشبہ نہیں کہ صدیقین کے امام اور ان کے سردار حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہہی ہیں ۔تو اب آیت کا مطلب یہ ہوا کہ ’’ اللہ1نے ہمیں حکم دیا کہ ہم وہ ہدایت طلب کریں جس پر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاور تمام صدیقین تھے،کیونکہ اگر وہ ظالم ہوتے توان کی اقتداء جائز ہی نہ ہوتی، لہٰذا ثابت ہوا کہ سورۃ الفاتحہ کی یہ آیت مبارکہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی امامت پر دلالت کرتی ہے۔‘‘ (التفسیر الکبیر، الفاتحۃ:۵،۶، ج۱،ص۲۲۱)(دعاگو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

علامہ ابن حجر ہیتمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :’’علماء اُمت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس اُمت میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہہیں ، اور اُن کے بعد حضرت سیدنا عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہہیں ۔‘‘(الصواعق المحرقۃ، الباب الثالث ، ص۵۷)

مجدد الف ثانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’خلفاء اربعہ کی افضلیت ان کی ترتیب خلافت کے مطابق ہے (یعنی امام برحق اور خلیفہ مطلق حضور خاتم النبیین صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہہیں اور اُن کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاُن کے بعد حضرت سیدنا عثمان ذو النورین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاور اُن کے بعد حضرت سیدنا علی ابن ابی طالب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہہیں ) تمام اہل حق کا اجماع ہے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق اور اُن کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ہیں ۔‘‘(مکتوبات امام ربانی، دفتر سوم، مکتوب۱۷، عقیدہ چھاردھم، ص۳۷)

علامہ ملا علی قاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’ وہ قول جس پر میرا اعتقاد ہے اللہ کے دین پر میرا مکمل اعتماد ہے کہ افضلیت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ قطعی ہے اس لیے کہ نبیٔ اکرم ،نور مجسم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کوبطریق نیابت امامت کا حکم دیا اور یہ بات دین سے معلوم ہے کہ جو اِمامت میں اولی ہے وہ افضل ہے حالانکہ وہاں حضرت سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہبھی موجود تھے اور اکابر صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانبھی۔ اس کے باوجود نبیٔ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکو امامت کے لیے معین کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ افضلیت صدیق اکبر نبیٔ کریم رؤفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے علم میں تھی یہاں تک کہ ایک مرتبہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ مصلی مبارک سے پیچھے ہٹے اور حضرت سیدنا عمرفاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکو آگے کیا تو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: ’’ابوبکر کے سوا کوئی اور امامت کرے اللہ اور سب مومن انکار کرتے ہیں ۔‘‘(شرح الفقہ الاکبر، ص۶۴)(دعاگو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

علامہ قسطلانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ حضرت علامہ احمد بن محمد بن ابو بكر بن عبد الملك قسطلاني رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے بعد ساری مخلوق میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہہیں اور اُن کے بعد حضرت سیدنا عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہہیں ۔‘‘(ارشاد الساری ، کتاب فضائل اصحاب النبی،باب مناقب عثمان بن عفان، تحت الحدیث: ۳۶۹۸، ج۸، ص۲۱۵)

میرسید عبد الواحد بلگرامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’اس پر بھی اہل سنت کا اجماع ہے کہ نبیوں کے بعد دوسری تمام مخلوق سےبہتر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہہیں اُن کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاُن کے بعد سیدنا عثمان ذوالنورین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اور اُن کے بعد سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہیں ۔‘‘(سبع سنابل، ص۷)

شیخ عبد الحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’خلفاء اَربعہ کی افضلیت اُن کی ترتیب خلافت کے مطابق ہے یعنی تمام صحابہ سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر فاروق پھر سیدناعثمان غنی پھرسیدنا علی المرتضی رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن ہیں ۔‘‘(تکمیل الایمان، ص۱۰۴)

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’اور رسول اللہصَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے بعد امام برحق حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہہیں پھر حضرت عمر فاروق پھر حضرت عثمان غنی پھر حضرت علی المرتضی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمہیں ۔‘‘(تفھیمات الٰھیہ، ج۱، ص۱۲۸)

علامہ عبدالعزیزپرہاروی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’صوفیاء کرام کا بھی اس بات پر اجماع ہے کہ امت میں سیدنا ابوبکر صدیق پھرسیدنا عمر فاروق پھر سیدنا عثمان غنی پھر سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سب سے افضل ہیں ۔‘‘ (النبراس شرح شرح العقائد، ص۴۹۲)

پیر مہر علی شاہ گولڑوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’آیت ’’﴿مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ١ؕ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ﴾ الآیۃ (پ۲۶، الفتح: ۲۹) ترجمۂ کنزالایمان: ’’مُحَمَّد اللہکے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ہیں ۔‘‘میں اللہ تعالٰی کی طرف سے خلفائے اربعہ عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی ترتیب خلافت کی طرف واضح اشارہ ہے۔ چنانچہ وَالَّذِیْنَ مَعَہُسے خلیفۂ اول (حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ مراد ہیں ) اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارسے خلیفۂ ثانی (حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ)رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْسے خلیفۂ ثالث(حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ) اور تَرَاھُمْ رُکَّعاً سُجَّداً۔۔۔اِلَخسے خلیفہ رابع(حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم )کے صفات مخصوصہ کی طرف اشارہ ہے کیونکہ معیت اور صحبت میں حضرت سیدنا صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ، کفار پر شدت میں حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ، حلم وکرم میں حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اور عبادت واخلاص میں حضرت سیدنا مولائے علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُخصوصی شان رکھتے تھے۔ (مِھر منیر، ص۴۲۴، اللباب فی علوم الکتاب، الفتح:۲۹، ج۱۷، ص۵۱۷)

اعلی حضرت ، عظیم البرکت، مجدددین وملت ، پروانۂ شمع رسالت، حضرت علامہ مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن ارشاد فرماتے ہیں :’’حضرات خلفاء اربعہ رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن تمام مخلوق الٰہی سے افضل ہیں ، پھر ان کی باہم ترتیب یوں ہے کہ سب سے افضل صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ پھر فاروق اعظم پھر عثمان غنی پھر مولی علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ۔‘‘(فتاوی رضویہ، ج۲۸، ص۴۷۸)

صدرالافاضل حضرت مولانا مفتی نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْہَادِی فرماتے ہیں : ’’اہل سنت وجماعت کا اجماع ہے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد تمام عالم سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ہیں اُن کے بعد حضرت عمر اُن کے بعد حضرت عثمان اور اُن کے بعد حضرت علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ۔‘‘(سوانح کربلا، ص۳۸)

صدر الشریعہ حضرت مولانا مفتی امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : ’’بعد انبیاء ومرسلین، تمام مخلوقات الٰہی انس وجن وملک (فرشتوں )سے افضل صدیق اکبر ہیں ، پھرعمر فاروق اعظم، پھر عثمان غنی، پھر مولی علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ۔‘‘(بہار شریعت، ج۱، ص۲۴۱)

سیدنا صدیق اکبر وعمر فاروق کی افضلیت قطعی ہے : اعلیٰ حضرت، عظیم البرکت، مجدد دین وملت،پروانۂ شمع رسالت، حضرت علامہ مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن ارشاد فرماتے ہیں :’’(حضرت سیدنا صدیق وعمرکی افضلیت پر)جب اجماع قطعی ہوا تو اس کے مفاد یعنی تفضیل شیخین کی قطعیت میں کیا کلام رہا ؟ ہمارا اور ہمارے مشائخ طریقت وشریعت کا یہی مذہب ہے۔‘‘(مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین، ص۸۱)(دعاگو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

جہاں نہایتیں و غایتیں ختم وہاں مقام صدیق شروع

اعلیٰ حضرت ، عظیم البرکت، مجدد دین وملت ، پروانۂ شمع رسالت، حضرت علامہ مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن ارشاد فرماتے ہیں :’’ میں کہتا ہوں اور تحقیق یہ ہے کہ تمام اجلہ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان مراتب ولایت میں اور خلق سے فنا اور حق میں بقا ء کے مرتبہ میں اپنے ماسوا تمام اکابر اولیاء عظام سے وہ جو بھی ہوں افضل ہیں اور ان کی شان ارفع واعلی ہے ا س سے کہ وہ اپنے اعمال سے غیر اللہ کا قصد کریں ، لیکن مدارج متفاوت ہیں اور مراتب ترتیب کے ساتھ ہیں اور کوئی شے کسی شے سے کم ہے اور کوئی فضل کسی فضل کے اوپر ہے اور صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکا مقام وہاں ہے جہاں نہایتیں ختم اور غایتیں منقطع ہوگئیں ، اس لیے کہ صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ امام القوم سیدی محی الدین ابن عربی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی کی تصریح کے مطابق پیشواؤں کے پیشوا اور تمام کے لگام تھامنے والے اور ان کا مقام صدیقیت سے بلند اور تشریع نبوت سے کمتر ہے اور ان کے درمیان اور ان کے مولائے اکرم مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے درمیان کوئی نہیں ۔‘‘ (فتاوی رضویہ، ج۲۸، ص۶۸۳) یہ ہے جمیع اہلسنت کا مؤقف یہ سلسلہ جاری رہے گا ان شاء اللہ الحمد للہ ہم نے مستند حوالہ جات کی روشنی میں جمیع اہلسنت کا مؤقف پیش کر دیا ہے اللہ تعالیٰ سنیت کے لبادے میں چھپے تفضیلی رافضیوں کے شر سے بچائے جو جمیع اہلسنت کا مؤقف چھوڑ کر شیعوں والے موقف کو اپنائے ھوئے ہیں آمین بجاہ نبی الکریم الامین صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ۔ دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاہور پاکستان ۔

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...