Monday, 27 March 2017

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی عظمت احادیث مبارکہ کی روشنی میں

 عن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ ﷺ:لما اقترف آدم الخطیئۃقال: یارب أسألک بحق محمد لما غفرت لی فقال اللہ :یا ٓدم وکیف عرفت محمد ولم اخلقہ ؟قال: یارب لأنک خلقتنی بیدک ونفخت فی من روحک ورفعت رأسی فرأیت علی قوائم العرش مکتوبا لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ فعلمت انک لم تضف الی اسمک الی أحب الخلق فقال اللہ :صدقت یا آدم انہ لأحب الخلق الی، ادعنی بحقہ فغفرت لک و لو لا محمد ما خلقتک ۔ھذا حدیث صحیح الاسناد ۔( المستدرک علی الصحیحین للحاکم،حدیث:۴۲۲۸)
تر جمہ: حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ ﷺنے کہا :جب حضرت آدم سے خطائے اجتہادی سرزد ہوئی تو انہوں نے دعا کیا : ائے میرے رب !میں تجھ سے محمد ﷺکے وسیلے سے سوال کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما،اس پر اللہ رب العزت نے فر مایا:ائے آدم !تونے محمد ﷺ کو کس طرح پہچان لیا حالانکہ ابھی میں نے انہیں پیدا بھی نہیں کیا،؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا :مولا! جب تونے اپنے دست قدرت سے مجھے پیدا کیا اور اپنی روح میرے اند ر پھونکی میں نے اپنا سر اوپر اٹھایاتو عرش کے پایوں پر لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا دیکھا ہوا ،میں نے جان لیا کہ تیرے نام کے ساتھ اسی کا نام ہو سکتا ہے جو تمام مخلوق میں سے تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے ،اس پر اللہ تعالی نے فر مایا:ائے آدم !تو نے سچ کہا:مجھے ساری مخلوق میں سب سے زیادہ وہی محبوب ہیں ،اب جبکہ تم نے اس کے وسیلے سے مجھ سے دعا کی ہے تو میں نے تجھے معاف کردیا اور اگر محمد(ﷺ)نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہیں کرتا۔یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

عن ابن عباس رضی اللہ عنہما: قال: اوحی اللہ الی عیسی علیہ السلام :یا عیسی آمن بمحمد وامر من ادرکہ من امتک ان یومنوبہ فلولا محمد ماخلقت آدم ولولا محمد ما خلقت الجنۃ ولا النار ولقد خلقت العرش علی الماء فا ضطرب فکتبت علیہ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ فسکن۔ھذا حدیث صحیح الاسناد ولم یخرجاہ۔(المستدرک علی الصحیحین ،باب ومن کتاب آیات رسول اللہ ﷺ التی ھی دلائل النبوۃ۔جلد:۲؍ص:۶۷۱،حدیث:۴۲۲۷)
تر جمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ:انہوں نے کہاکہ:اللہ تعالی نے حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی : ائے عیسی!محمد ﷺپر ایمان رکھ،اور اپنی امت کو حکم دے کہ جو لوگ ان کے زمانے کو پائے ان پر ایمان لائے،کیونکہ اگر محمد(ﷺ)نہ ہوتے تو میں آدم (علیہ السلام)کو پیدا نہ کرتا اور اگر محمد(ﷺ)نہ ہوتے تو میں نہ جنت کو پیدا کرتا اور نہ ہی جہنم کو،اور بے شک میں نے عرش کو پانی پر پیدا کیا تو وہ لرزنے لگا تو میں نے اس پر ’ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘لکھا تو وہ پُر سکون ہوگیا۔یہ حدیث صحیح ہے۔

عن عائشۃ رضی اللہ عنہا ،عن رسول اللہ ﷺ،عن جبرئیل علیہ السلام قال: قلبت مشارق الارض و مغاربھا فلم اجد رجلا افضل من محمد ﷺ ولم اربیتا افضل من بیت بنی ہاشم۔(المعجم الاوسط،جلد:۶؍ص:۲۳۷،حدیث: ۲۶۸۵)
تر جمہ: ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :رسول اللہ ﷺنے فر مایا کہ:جبر ئیل علیہ السلام نے کہا: میں نے تمام زمین کے اطراف و اکناف اور گوشہ گوشہ کو چھان مارا مگر نہ تو میں نے محمد مصطفی ﷺ سے بہتر کسی کو پایا اور نہ ہی میں نے بنو ہاشم کے گھر سے بڑھ کر بہتر کوئی گھر دیکھا۔

عن المطلب بن ابی وداعۃ رضی اللہ عنہ قال: جاء العباس الی رسول اللہ ﷺ فکانہ سمع شیئا ،فقام النبی ﷺ علی المنبر فقال:من انا؟ قالوا:انت رسول اللہ ﷺ علیک السلام،قال: انا محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ،ان اللہ خلق الخلق فجعلنی فی خیرھم فرقۃ ،ثم جعلھم فر قتین فجعلنی فی خیرھم فرقۃ،ثم جعلھم قبائل فجعلنی فی خیرھم قبیلۃ ،ثم جعلھم بیوتا فجعلنی فی خیرھم بیتا و خیرھم نسبا ۔وفی روایۃ آخری:فانا خیرھم بیتا وخیرھم نفسا۔(تر مذی،کتاب الدعوات عن رسول اللہ ﷺ،حدیث: ۳۵۳۲)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
تر جمہ: حضرت مطلب بن ابی وداعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ: حضرت عباس رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضور ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے وہ اس وقت(کافروں سے کچھ نا شائشتہ کلمات )سن کر (غصہ کی حالت میں تھے،اس واقعہ پر مطلع ہوکر)حضور نبی اکرم ﷺ منبر پر تشریف فر ما ہوئے اور فر مایا: میں کون ہوں؟ صحابہ نے عرض کیا :آپ پر سلامتی ہو،آپ اللہ کے رسول ﷺہیں۔فرمایا: میں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ہوں۔اللہ تعالی نے جب مخلوق کو پیدا کیا تو مجھے بہترین خلق (یعنی انسانو ں)میں پیدا کیا ،پھر مخلوق کو دو حصوں میں تقسیم کیا (یعنی عرب و عجم)تو مجھے بہترین طبقہ میں رکھا ،پھر ان کے مختلف قبیلے بنائے تو مجھے بہترین قبیلہ میں رکھا پھر ان کے گھرانے بنائے تو مجھے بہترین گھرانہ میں رکھا اور بہترین نسب والا بنا یا ۔تو میں گھرانے کے اعتبار سے اور ذات کے اعتبار سے بھی سب سے افضل ہوں۔

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ :قال: قالوا:یارسول اللہ !متی وجبت لک النبوۃ،قال:و آدم بین الروح ولجسد۔(تر مذی،کتاب المناقب عن رسول اللہ ﷺ،باب فضل النبی ﷺ،حدیث: ۳۶۰۹)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
تر جمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: صحابہ کرام نے عرض کیا :یارسول اللہ !آپ کو نبوت کب عطا کی گئی؟آپ ﷺ نے فرمایا: (میں اس وقت بھی نبی تھا )جبکہ آدم کی تخلیق روح اور جسم کے مرحلہ میں تھی(یعنی یعنی روح اور جسم کا با ہمی تعلق ابھی نہ ہوا تھا)

عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال:جلس ناس من اصحاب رسول اللہ ﷺ ینتظرونہ قال: فخرج،حتی اذا دنا منھم سمعھم یتذاکرون فسمع حدیثھم ،فقال بعضھم:عجبا ان اللہ اتخذ من خلقہ خلیلا ،اتخذ ابراہیم خلیلا ،وقال آخر:ماذا باعجب من کلام موسی کلمہ تکلیما ،وقال آخر: فعیسی کلمۃ اللہ وروحہ ،وقال آخر :آدم اصطفاہ اللہ ،فخرج علیھم فسلم وقال:قد سمعت کلامکم و عجبکم ان ابراھیم خلیل اللہ وھو کذالک و موسی نجی اللہ وھو کذالک و عیسی روح اللہ وکلمتہ وھو کذالک ،وآدم اصطفاہ اللہ وھو کذالک ،الا وانا حبیب اللہ ولا فخر ،وانا حامل لواء الحمد یوم القیامۃ ولا فخر وانا اول شافع واول مشفع یو م القیامۃولا فخروانا اول من یحرک حلق الجنۃ فیفتح اللہ لی فید خلنیھا و معی فقراء المومنین ولا فخر و انا اکرم الاولین والاخرین ولا فخر۔(تر مذی،کتاب المناقب عن رسول اللہ ﷺ،باب فضل النبی ﷺ،حدیث:۳۶۱۶)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
تر جمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:چند صحابہ کرام حضور ﷺ کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے ،اتنے میں حضور نبی کریم ﷺتشریف لے آئے جب ان کے قریب پہونچے تو انہیں کچھ گفتگو کرتے ہوئے سنا ۔ان میں سے بعض نے کہا :تعجب کی بات ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے مخلوق میں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا،دوسر ے نے کہا:یہ حضرت موسی علیہ السلام کے کلیم اللہ ہونے زیادہ تعجب خیز تو نہیں ہے،ایک نے کہا: حضرت عیسی علیہ السلام اللہ تعالی کا کلمہ اور روح ہیں ،کسی نے کہا :اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو چن لیا،حضور نبی کریم ﷺ ان کے پاس تشریف لائے ،سلام کیا اور فرمایا:میں نے تمہاری گفتگو اور تمہارا اظہار تعجب سنا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ہیں ،بے شک وہ ایسے ہی ہیں حضرت موسی علیہ السلام نجی اللہ ہیں،بے شک وہ ایسے ہی ہیں ،حضرت عیسی علیہ السلام روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں ،واقعی وہ اسی طرح ہیں ،حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے چن لیا ،وہ بھی یقینا ایسے ہی ہیں ۔ سن لو!میں اللہ کا حبیب ہوں اور مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں ہے،میں قیامت کے دن حمد کا جھنڈا اٹھانے والا ہوں اور مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں ہے ،قیامت کے دن سب سے پہلا شفاعت کرنے والا میں ہی ہوں اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول کی جائے گی اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں ہے ،اور سب سے پہلے جنت کی کنڈی کھٹکھٹانے والا بھی میں ہی ہوں اللہ تعالی میرے لئے اسے کھولے گا اور مجھے اس میں داخل کرے گا اور میر ے ساتھ غریب و فقیر مومنین ہوں گے اور مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں ہے،میں اولین وآخرین میں سب سے زیادہ عزت والا و شرف والا ہوں اور مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں ہے۔

عن ابی بن کعب عن النبی ﷺ قال: اذا کان یوم القیامۃ کنت امام النبین ،و خطیبھم ،وصاحب شفاعتھم غیر فخر۔(تر مذی،حدیث: ۳۶۱۳)
تر جمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :حضور نبی اکرم ﷺنے فر مایا:قیامت کے دن میں انبیائے کرام علیھم السلام کا امام ،خطیب اور شفیع ہوں گا اور اس پر مجھے فخر نہیں۔

عن انس ان النبی ﷺ اتی بالبراق لیلۃ اسری بہ ملجما مسرجا ،فاستصعب علیہ ،فقال لہ جبرئیل ،أ بمحمد تفعل ھذا ؟قال:فما رکبک احد اکرم علی اللہ منہ ۔قال:فارفض عرقا۔(ترمذی،باب ومن سورۃ بنی اسرائیل ،حدیث:۱۳۳۱)
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ: شب معراج حضور نبی اکرم ﷺکی خدمت میں براق لا یا گیا جس پر زین کسی ہوئی اور لگا م ڈالی ہوئی تھی،اس براق کی خرمستیوں کی وجہ سے آپ ﷺ کا اس پر چڑھنا دشوار ہوگیا ،تو حضرت جبرئیل نے اسے کہا: کیا تو حضور نبی اکرم ﷺکے ساتھ ایسا کر رہاہے؟حالانکہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں آپ ﷺ سے زیادہ معزز و محترم آج تک تجھ پر کوئی سوار نہ ہوا ،یہ سن کر وہ براق پسینہ پسینہ ہوگیا۔

عن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ قال: کنت مع النبی ﷺبمکۃ فخرجنا فی بعض نواحیھا ،فما استقبلہ جبل ولا شجر الا وھویقول: السلام علیک یارسول اللہ۔(ترمذی ،کتاب المناقب عن رسول اللہ ﷺ،حدیث:۳۶۲۶)
تر جمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :میں مکہ مکر مہ میں حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھا ،ہم مکہ کے ایک طرف چلے تو جو بھی پہاڑ اور درخت آپ ﷺ کے سامنے آتا وہ ’ السلام علیک یارسول اللہ ‘کہتا۔

عن ابی ہریرۃ عن النبی ﷺ قال:قال رسول اللہ ﷺ:انا اول من تنشق عنہ الارض فأکسی حلۃ من حلل الجنۃ ثم اقوم عن یمین العرش لیس احد من الخلائق یقوم ذالک المقام غیری۔(ترمذی ،کتاب المناقب عن رسول اللہ ﷺ،حدیث:۳۶۱۱)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ :نبی اکرم ﷺنے فر مایا:سب سے پہلا شخص میں ہوں جو زمین سے نکلے گا ، پھر مجھے جنت کے جوڑوں میں سے ایک جوڑا پہنایا جائے گا ،پھر میں عرش کے دائیں جانب کھڑا ہوں گا ،اس مقام پر مخلوقات میں سے میرے سوا کوئی نہیں کھڑا ہوگا۔

عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال:نھی رسول اللہ ﷺ عن الوصال فی الصوم ۔فقال لہ رجل من المسلمین :انک تواصل یا رسول اللہ! قال:وایکم مثلی ،انی ابیت یطعمنی ربی ویسقینِ۔(بخاری،کتاب الصوم،باب التنکیل لمن اکثر الوصال،حدیث :۱۸۶۴،مسلم، حدیث:۱۱۰۳ )وفی روایۃ اخری:انی لست کھیئتکم۔(بخاری،حدیث:۱۸۶۳،مسلم ،حدیث:۱۱۰۵)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ ﷺنے وصال کے روزے (یعنی بغیر افطار کئے ہوئے مسلسل روزے رکھنے)سے منع فر مایا:تو صحابہ میں سے ایک نے عرض کیا :یا رسول اللہ ! آپ تو وصال کے روزے رکھتے ہیں ۔آپ ﷺ نے فر مایا:تم میں سے میری طرح کون ہے؟اور دوسری روایت میں ہے کہ: فرمایا:میں تم جیسا نہیں ہوں ،بے شک میں رات اس حال میں گزارتا ہوں کہ مجھے میرا رب کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی ہے۔

عن عبادہ بن الصامت قال:قال رسول اللہ ﷺ:انا سید الناس یوم القیامۃ ولا فخر مامن احد الا وھو تحت لوائی یو م القیامۃ ینتظر الفرج وان معی لواء الحمد انا امشی و یمشی الناس معی حتی آتی باب الجنۃ فاستفتح فیقال:من ھذا؟فاقول :محمد فیقال: مرحبا بمحمد فاذا رأیت ربی خررت لہ ساجدا انظر الیہ.(المستدرک علی الصحیحین للحاکم،کتاب الایمان، حدیث:۸۲)
تر جمہ: حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایاکہ:قیامت کے دن میں تمام لوگوں کا سردار ہوں گااور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں ،ہر شخص قیامت کے دن میر ے جھنڈے کے نیچے ہوگا ،کشادگی کا انتظار کرتے ہوئے۔اور بے شک میر ے پاس حمد کا جھنڈا ہوگا ،میں چلوں گا اور لوگ بھی میرے ساتھ چلیں گے یہاں تک کہ میں جنت کے دروازے پر آئوں گا ،تو میں اسے کھولوائوں گا ،کہا جائے گا کون؟ میں کہوں گا :محمد(ﷺ)تو کہا جائے گا خوش آمدیدمحمد(ﷺ)پھر جب میں اپنے رب کو دیکھوں گا تو دیکھتے ہی میں سجدہ میں گِر جائوں گا۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...