تن سے سر کا تعلق ختم ہوجانے اور روح کے جسم عنصری سے پرواز کر جانے کے بعد جب راہ خدا میں شہید ہونے والے مقدس نفوس قدسیہ کو مدینہ کے کچھ لوگوں نے ’ مردہ ‘ کہا تو اللہ تعالی نے اُن شہدائے کرام کو مردہ کہنے بلکہ سوچنے سے بھی سختی کے ساتھ منع فر مادیا۔اور ارشاد فر مایا کہ ’ وہ زندہ ہیں‘۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انبیائے کرام ان سے بدرجہا افضل ہیں ۔اس لئے جب شہداء کو مردہ کہنا منع ہے تو انبیاء کو بدرجہ اولیٰ کہنا منع ہوگا۔یہ ایک کھلی حقیقت ہے جس کا بیان خود احادیث صحیحہ میں بھی وارد ہے۔مگر کچھ لوگ نہ جانے کیوں انبیا ئے کرام کو مردہ،مر کر مٹی میں مل جانے والاوغیرہ(العیاذ باللہ) کہنے ،لکھنے پر بضد ہیں ۔
وعدہ الہیہ کے مطابق ہر انسا ن کو موت کا مزہ چکھنا ہے چنانچہ انبیاء کرام علھیم الصلوۃوالسلام پر بھی ایک لمحہ کے لئے موت طاری ہوئی مگر پھر اللہ تعالیٰ نے انہیںایسی زندگی عطا فرما دی جو اس دنیاوی زندگی سے لاکھوں درجہ افضل ہے۔ لہذا اللہ کے نبی اپنی قبروں میں زندہ ہیں ،روزی دئے جاتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، زائر ین کے سلام کا جواب دیتے ہیں۔اور مختلف مقامات پر جاتے آتے ہیں وغیرہ۔
یہ تمام باتیں صحیح احادیث طیبہ سے ثابت ہیں جس پر ایمان رکھنا ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے بنظر اختصا ریہاں پر کچھ حدیثیں تحریر کی جاتی ھیں۔
حدیث نمبر ۱: سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں حضرت موسیٰ علیہ اسلام کی قبر کے پاس گذرا(تو میں نے دیکھا کہ)وہ اپنی قبر میںکھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے(صحیح مسلم ،کتاب الفضا ئل،باب من فضائل موسیٰ علیہ السلام ، حدیث :۲۳۷۵۔ سنن نسائی، باب ذکر صلاۃنبی اللہ موسیٰ علیہ السلام ،حدیث :۱۶۳۳)اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نبی اپنی قبروں میں زندہ ھیں اور نماز پڑھتے ھیں ۔
حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے۔ اسی دن حضرت آدم علیہ اسلام کی تخلیق ہوئی ـ۔اسی میں ان کی روح قبض کی گئی اور اسی میں صور پھونکا جائیگااور اسی میںسب بے ہوش ہوںنگے۔پس اس دن مجھ پر کثرت سے درودبھیجا کرو کیو نکہ تمہارا درود پڑھنا مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!اس وقت ہمارا درود پڑھنا آپ پر کس طرح پیش ہوگاجبکہ آ پ مٹی ہو گئے ہوں گے؟سر کار ﷺ نے ارشاد فرمایا :اللہ تعالی نے انبیائے کرام کے جسموں کو زمین پر حرام فر ما دیا ہے ۔(ابو داود،کتاب الصلاۃ،باب فضل یوم الجمعۃ و لیلۃ الجمعۃ، حدیث : ۱۰۴۷۔ابن ماجہ،باب فی فضل الجمعۃ، حدیث : ۱۰۸۵)اور دوسری روایت میں اتنا اضا فہ ہیـ۔تو اللہ کے نبی زندہ ہیں اور ر وزی دئے جاتے ہیں۔(ابن ماجہ،کتاب الجنائز،باب ذکر وفاتہ ودفنہ ﷺ، حدیث :۱۶۳۷)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اس حد یث کے مفہوم پر غور کریں! صحابہ کرام نے یہ خیال کیا کہ بعد وصال آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی عام مرحومین کی طرح مٹی ہو جائیںگے۔تو سرکار علیہ اسلام نے اس خیال کا رد فرما دیا اور ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام کے جسموں کو زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ ان کے جسموں کوکھائے۔ تو اللہ کے نبی (بعد وصال)بھی زندہ ہیںاور انہیںان کی رب کی طرف سے روزی دی جاتی ہے ۔اب جس خیا ل کو خود حضور ﷺنے رد فر مادیا اگر کوئی اسی مردود خیال کو اپنا عقیدہ بنا لے تو اور کافری کیا ہے۔ حدیث نمبر ۳: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اکرم ﷺنے فر مایا:میں حطیم کعبہ میں کھڑا تھا اور قریش مجھ سے میرے سفر معراج کے بارے میں سوالات کر رہے تھے ۔انہوں نے مجھ سے بیت المقدس کی کچھ چیزیں پوچھیں جن کو میں نے محفوظ نہیں رکھا تھا جس کی وجہ سے میں اتنا پریشان ہواکہ اس سے پہلے اتنا کبھی پریشان نہیں ہواتھا ۔تب اللہ تعالی نے بیت المقدس کو اٹھا کر میر ے سامنے رکھ دیا ،وہ مجھ سے بیت المقدس کی چیزوں کے بارے میں پوچھتے رہے اور میں دیکھ دیکھ کر بیان کرتا رہا۔اور میں نے اپنے آپ کو انبیائے کرام کی جماعت میں پایا۔میں نے دیکھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے اور وہ قبیلئہ شنوء ہ کے لوگوں کی طرح گھنگھریالے بالوں والے تھے ،اور پھر عیسیٰ ابن مریم علیھما السلام کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے اور عروہ بن مسعود ثقفی ان سے بہت مشابہ ہیں ۔اور پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے اور تمہارے پیغمبر ان کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہ ہیں ۔پھر نماز کا وقت آیا تو میں نے ان سب انبیائے کرام علیھم السلام کی امامت کی ۔جب میں نماز سے فارغ ہوا تو مجھے ایک کہنے والے نے کہا:یہ مالک،جہنم کے داروغہ ہیں ،انہیں سلام کیجئے،میں ان کی طرف متوجہ ہوا تو انہوں نے پہلے مجھے سلام کیا۔یہ حدیث صحیح ہے۔
(صحیح مسلم،کتاب الایمان ،باب ذکر المسیح ابن مریم والمسیح الدجال،حدیث:۱۷۲)
اس کے علاوہ کتب احادیث میں متعدد احادیث سفر معراج کے بارے میں منقول ہیں جس میں یہ بیان ہے کہ آپ ﷺنے اپنے سفر معراج میں مختلف انبیائے کرام سے ملاقاتیںکیں۔ انہوں نے آپ ﷺکو سلام کیا ،مبارک بادی پیش کی اور دیگر عرض و معروض بھی ہو ا ، آپ ﷺ نے ان کی امامت فر ما ئی ۔کیا یہ سب ان لوگوں سے کیا جاتا ہے جو مر کر مٹی میں مل گئے یا زندوں سے؟ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائے کیا۔اسے تو موٹی عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے۔
حضرت سلمی بیان کرتی ہیں کہ میںحضور ﷺکی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی،وہ رو رہی تھیں۔میں نے پو چھا آپ کیوں رو رہی ہیں؟انہوں نے فر مایا کہ نبی اکرم ﷺ کو خواب میں دیکھا ۔آپ ﷺ کی داڑھی مبارک اور سر انور گرد آلود تھے ۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا بات ہے؟آپ ﷺ نے فر مایا میں ابھی حسین (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)کی شہادت میں شریک ہوا ہوں۔
(تر مذی،کتاب المناقب عن رسول اللہ ﷺ،باب مناقب الحسن والحسین علیھما السلام، حدیث : ۳۷۷۱)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
تمام مسلمانوں کا یہ اجماعی عقیدہ ہے کہ سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام سے متعلق خواب واقعی اور حقیقی ہوتا ہے جس میں شیطانی وساوس کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔اب مذکورہ حدیث پر غور کریں تو کئی باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔پہلی بات یہ کہ نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کاشہادت حسین رضی اللہ عنہ میں شریک ہونا ،اور کسی بھی مجلس یا معاملے میں شرکت بغیر زندگی کے نہیں ہو سکتی۔ لہذا ثابت ہوا کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم بعد وصال بھی زندہ ہیں ۔دوسری بات سرکار علیہ السلام کا شہادت حسین رضی اللہ عنہ میں شرکت کے لئے قبر انور سے کربلا جانااورپھر وہا ں سے آنا،ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا آنا بغیرزندگی کے ممکن نہیں۔اس سے بھی معلوم ہوا کہ ٓاپ صلی اللہ علیہ وسلم بعد وصال ظاہری آج بھی زندہ ہیں۔تیسری بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کربلا کے معاملات کا معلوم ہونا یہ بھی بغیرزندگی کے متصور نہیں۔گویا یہ حدیث ہر اعتبار سے بعد وصال ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر دلالت کرتی ہے۔مگر حق اسی کو نظر آتا ہے جسے اللہ توفیق دے۔
ان احادیث مبا رکہ کے علاوہ شبِ معراج میں آپ صلی اللہ ولیہ وسلم کا تمام انبیائے کرام کی مسجدے اقصیٰ میں امامت فرمانامختلف آسمانوں پر حضرت آدم حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم سے ملا قات کرنا ان سے گفتگو فرمانا بالخصوص حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نمازمیں کم کرانے کاآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دینایہ سارے واقعات جو صحیح احادیث میںوارد ہیں انبیائے کرام علیہ الصلوۃ والتسلیم کی بعد وصالِ ظاہری ،زندہ ہونے پر بڑی واضح اور روشن دلیل ہے۔ جسے موٹی عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے ۔
امام بیہقی نے حیات النبی ﷺ کے موضوع پر ایک مکمل رسالہ تصنیف فر مایا ہے جس میں مختلف احادیث مبارکہ سے اس حقیقت کو ثابت فر مایا ہے۔مزید تفصیل کے لئے اس رسالہ کا مطالعہ کریں ہم یہاں پر اس میں سے صرف ایک حدیث نقل کر کے بات کو ختم کرتے ہیں۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:الانبیاء أحیاء فی قبورھم یصلون۔انبیائے کرام اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں اور نماز پڑ ھتے ہیں۔(حیاۃ الانبیاء للبیہقی،ص:۷۰؍حدیث:۱)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حضور اکرم ﷺ کے ان صاف اور صریح ارشادات پر بھی جو ایمان نہ رکھے اور طرح طرح کے شوشے گوشے نکال کر اسی بات پر اڑے رہنے کی قسم کھا لے جو انہوں نے کسی نام نہاد محقق سے سن ر کھا ہے تواُنہیں حضور کے مقابلے میں کسی دوسرے کی بات کو ماننے کے انجام سے واقف رہنا چا ہئے۔
قرآن میں اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے کہ :موت اللہ عزوجل کے سوا ہر نفس کو ضرور آئے گی ،اس لفظ کا استعمال کیا گیا ہے ۔مگر اس سے یہ ثابت نہیں ہو تا کہ ہمارے لئے یہ کہنا کہ ’’ نعوذ بااللہ ،حضور مر کر مٹی میں مل گئے،یا مردہ ہیں جائز ہے‘‘۔بلکہ یہ وہ نظریہ ہے جسے آپ ﷺ نے خود رد فرمایا جیساکہ اوپر حدیث نمبر ۲ ،کے تحت گذرا۔اور ہم انہیں صرف زندہ ہی کہیں گے اس لئے کہ حضور نے ہمیں یہی تعلیم دیا جیسا کہ ابھیامام بیہقی کے حوالے سے گذرا۔
آخری بات:اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں شہدائے کرام کے بارے میں ارشاد فرمایا :جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں (سورہ بقرہ، آیت :۱۵۴ ) اور دوسری جگہ فرمایا : راہ مولیٰ میں شہید ہونے والوں کو مردہ گمان بھی نہ کرو ۔ (سورہ نسائ، آیت :۱۶۹)
حالانکہ ان شہداء کرام کی گردنوں کو ان کے جسموں سے جدا کر دیا گیا۔ان کی روح ان کے جسم خاکی سے پرواز کر گئی۔ اس کے باوجود اللہ تعالی نے ہمیں ان کو ان کی فضیلت و برتری اور انہیں ابدی زندگی عطا کرنے کی وجہ سے مردہ کہنے سے روک دیا ۔اور خود ہی فر مادیا کہ ’تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں‘ یعنی تم اپنی ظاہری نگاہوں سے ان کی حقیقت کو دیکھ نہیں سکتے ۔اس لئے بس یہ یقین رکھو کہ وہ زندہ ہیں کیونکہ یہ تمہارے رب کا حکم ہے جس کا غلط ہونا محال بالذات ہے۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کوئی امتی چاہے وہ جس مرتبہ کا بھی ہو کسی بھی اعتبار سے انبیائے کرام سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے شہدا کو بحکم قرآنی مردہ کہنا تو دور مردہ گمان کرنا بھی جائز نہیں تو سیدالمرسلین جان عالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو مردہ کہنا اور لکھناکیو نکر جائز ہوگاـ؟(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
سبحان اللہ
ReplyDelete