Tuesday, 19 September 2023

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے میلاد منایا

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے میلاد منایا اور میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر لکھی جانے والی کتابیں

محترم قارئینِ کرام : صحابہ کرام علیہم الرضوان نے بھی حضور پرنور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا میلاد منایا اور سرور کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے منعقد کیا ۔ میرے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے منع کرنے کے بجائے خوشی کا اظہار فرمایا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا میلاد بیان کرنے پر حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں : غزوہ تبوک سے جب سب لوگ واپس آئے تو حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کی کہ میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کی تعریف کروں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : بیان کرو اللہ تمہارے منہ کو ہر آفت سے بچائے ۔ اس پر انہوں نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی پیدائش کا حال بیان کیا ۔ (دلائل النبوہ جلد 5 صفحہ 47 ، 48)

آپ غور نہیں فرماتے کیا کہ یہاں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا بیان کرو۔ حکم ہوا ۔۔۔ اور دعا فرمائی کہ منہ کو ہر آفت سے بچائے ۔ اور اللہ عزوجل نے دعا قبول فرما کر حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کی زبان پر ذکرِ خیر جاری فرمایا میلاد یعنی پیدائش/ولادت کے بیان کو جاری فرما دیا ۔ تو مقصد بیان کرنے والے کون ہیں ؟ صحابی ہوئے یا تابعی ؟ اور جیسا کہ فقیر سابقہ مضامین میں عرض کر چُکا کہ ہمارے میلاد منانے میں وہی طریقہ رائج ہے بس فرق آپ نہیں دیکھ پا رہے کیوں کہ اس دور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہر وقت ہے جھرمٹ کی طرح جمع رہا کرتے جیسے ہم آج صرف 12 ربیع الاول اور جمعہ و نماز کے وقت جمع ہوتے ہیں اور ہر وقت درود و سلام و تعریف کیا کرتے تھے ۔ ولادت کے دن پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوموار شریف کا روزہ رکھ کر اضافی عمل پیش کیا وگرنہ روزانہ کی طرح حمد و ثناء، تعریف ، درود و سلام 12 ربیع الاول کو بھی جاری رہا کرتیں ۔

اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے میلاد کا ذکر میرے پاس ہوا ۔ (المعجم الکبیر مترجم اردو جلد اوّل صفحہ 96 ، چشتی) ۔ معلوم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میلاد کی محافل سجایا کرتے تھے اور ذکرِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کرتے تھے ۔

جلیل القدر صحابی حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں قصیدہ پڑھ کر جشن ولادت منایا کرتے تھے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود حضرت حسان رضی اللہ عنہ کےلیے منبر رکھا کرتے تھے تاکہ وہ اس پر کھڑے ہوکر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعریف میں فخریہ اشعارپڑھیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے فرماتے اللہ تعالیٰ روح القدس (حضرت جبرائیل علیہ السلام) کے ذریعہ حسان کی مدد فرمائے (صحیح بخاری جلد اول صفحہ نمبر 65،چشتی)

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ حضرت عامر انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر گیا ۔ وہ اپنی اولاد کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت کے واقعات سکھلا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ آج کا دن ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس وقت فرمایا اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کے واسطے رحمت کا دروازہ کھول دیا اور سب فرشتے تم لوگوں کےلیے دعائے مغفرت کررہے ہیں جو شخص تمہاری طرح واقعہ میلاد بیان کرے اس کو نجات ملے گی ۔ (التنویر فی مولد سراج المنیر)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا میلاد بیان کرنے پر حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں : ⬇

غزوہ تبوک سے جب سب لوگ واپس آئے تو حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کی کہ میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کی تعریف کروں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : بیان کرو اللہ تمہارے منہ کو ہر آفت سے بچائے ۔ اس پر انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش کا حال بیان کیا ۔ (دلائل النبوہ جلد 5 صفحہ 47 ، 48،چشتی)

محترم قارٸینِ کرام : کسی کام کے ناجائز ہونے کا دارومدار اس بات پر نہیں کہ یہ کام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہیں کیا ، بلکہ مدار اس بات پر ہے کہ اس کام سے اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے منع فرمایا ہے یا نہیں ؟ اگر منع فرمایا ہے ، تو وہ کام ناجائز ہے اور منع نہیں فرمایا ، تو جائز ہے ، کیونکہ فقہ کا یہ قاعدہ بھی ہے کہ ’’الاصل فی الاشیاء الاباحۃ‘‘ ترجمہ : تمام چیزوں میں اصل یہ ہے کہ وہ مباح ہیں ۔ یعنی ہر چیز مباح اورحلال ہے ہاں اگر کسی چیز کو شریعت منع کردے ، تو وہ منع ہے ، یعنی ممانعت سے حرمت ثابت ہوگی نہ کہ نئے ہونے سے ۔ یہ قاعدہ قرآنِ پاک اور احادیثِ صحیحہ و اقوالِ فقہاء سے ثابت ہے ۔ چنانچہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَسْـَٔلُوۡا عَنْ اَشْیَآءَ اِنۡ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ ۚ وَ اِنۡ تَسْـََٔلُوۡا عَنْہَا حِیۡنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَلَکُمْ ؕ عَفَا اللہُ عَنْہَا ۔
ترجمہ : اے ایمان والو! ایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بُری لگیں اور اگر انہیں اس وقت پوچھوگے کہ قرآن اُتر رہا ہے تو تم پر ظاہر کر دی جائیں گی اللہ انہیں معاف فرما چکا ہے ۔ (سورۃ المائدہ آیت نمبر 101)

صدر الافاضل حضرت سیّد مفتی محمد نعیمُ الدّین مُرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس آیت سے ثابت ہوا کہ جس اَمر کی شَرع میں ممانعت نہ آئی ہو وہ مباح ہے ۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ حلال وہ ہے جو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال فرمایا ، حرام وہ ہے جس کو اپنی کتاب میں حرام فرمایا اور جس سے سکوت کیا وہ معاف ہے تو کلفت میں نہ پڑو ۔ (تفسیر خزائن العرفان صفحہ 224)

حدیثِ پاک میں ہے : الحلال ما احل اللہ فی کتابہ والحرام ما حرم اللہ فی کتابہ و ما سکت عنہ فھو مما عفیٰ عنہ ۔
ترجمہ : حلال وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال فرمادیا اور حرام وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حرام فرمادیا اور جس پر خاموشی فرمائی وہ معاف ہے ۔ (سنن ترمذی جلد 3 صفحہ 280 حدیث 1732)

چونکہ محافلِ دینیہ منعقد کر کے عیدِ میلاد منانے کی ممانعت قرآن و حدیث ، اقوالِ فقہاء نیز شریعت میں کہیں بھی وارد نہیں ، لہٰذا جشنِ ولادت منانا بھی جائز ہے اور صدیوں سے علماء نے اسے جائز اور مستحسن قرار دیا ہے ۔

شارح بخاری امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ربیعُ الاوّل چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کا مہینہ ہے لہٰذا اس میں تمام اہلِ اسلام ہمیشہ سے میلاد کی خوشی میں محافل کا انعقاد کرتے چلے آرہے ہیں ۔ اس کی راتوں میں صدقات اور اچّھے اعمال میں کثرت کرتے ہیں۔ خصوصاً ان محافل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی میلاد کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رحمتیں حاصل کرتے ہیں ۔ محفلِ میلاد کی یہ برکت مجرّب ہے کہ اس کی وجہ سے یہ سال امن کے ساتھ گزرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس آدمی پر اپنا فضل و احسان کرے جس نے آپ کے میلاد مبارَک کو عید بناکر ایسے شخص پر شدّت کی جس کے دل میں مرض ہے ۔ (المواھب اللدنیہ، 1/27)

حضرت شیخ عبدالحق محدّث دِہلوی علیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے مہینے میں محفل میلاد کا انعقاد تمام عالَمِ اسلام کا ہمیشہ سے معمول رہا ہے ۔ اس کی راتوں میں صدقہ خوشی کا اظہار اور اس موقع پر خُصوصاً نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت پر ظاہر ہونے والے واقعات کا تذکرہ مسلمانوں کا خُصوصی معمول ہے ۔ (ماثبت بالسنہ صفحہ 102)

امام جمالُ الدّین الکتانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت کا دن نہایت ہی معظّم، مقدّس اور محترم و مبارَک ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وجود پاک اتّباع کرنے والے کےلیے ذریعۂ نجات ہے جس نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا اس نے اپنے آپ کو جہنّم سے محفوظ کر لیا ۔ لہٰذا ایسے موقع پر خوشی کا اظہار کرنا اور حسبِ توفیق خرچ کرنا نہایت مناسب ہے ۔ (سبل الھدیٰ والرشاد جلد 1 صفحہ 364،چشتی)

اور یہ کہنا کہ’’ہرنیا کام گمراہی ہے‘‘ دُرست نہیں ، کیونکہ بدعت کی ابتدائی طور پر دو قسمیں ہیں : بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیّئہ ۔ بدعتِ حسنہ وہ نیا کام ہے ، جو کسی سنّت کے خلاف نہ ہو جیسے مَوْلِد شریف کے موقع پر محافلِ میلاد ، جلوس ، سالانہ قراءَت کی محافل کے پروگرام ، ختم بخاری کی محافل وغیرہ ۔ بدعتِ سیّئہ وہ ہے جو کسی سنّت کے خلاف یا سنّت کو مٹانے والی ہوجیسے غیرِ عربی میں خُطبۂ جُمعہ و عیدین ۔

حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں : معلوم ہونا چاہیے کہ جو کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد نکلا اور ظاہر ہوا بدعت کہلاتا ہے پھر اس میں سے جو کچھ اصول کے موافق اور قواعد سنّت کے مطابق ہو اور کتاب و سنّت پر قیاس کیا گیا ہو بدعتِ حسنہ کہلاتا ہے اور جو ان اصول و قواعد کے خلاف ہو اسے بدعتِ ضلالت کہتے ہیں ۔ اورکل بدعۃ ضلالۃ کا کلیہ اس دوسری قسم کے ساتھ خاص ہے ۔ (اشعۃ اللمعات مترجم جلد 1 صفحہ 422)

بلکہ حدیث پاک میں نئی اور اچّھی چیز ایجاد کرنے والے کو تو ثواب کی بشارت ہے ۔ چنانچہ مسلم شریف میں ہے : مَنْ سَنَّ في الإسلامِ سنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أجْرُهَا، وَأجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ ، مِنْ غَيرِ أنْ يَّنْقُصَ مِنْ أُجُورهمْ شَيءٌ، وَمَنْ سَنَّ في الإسْلامِ سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيهِ وِزْرُهَا، وَ وِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْم بَعْدِهِ، مِنْ غَيرِ أنْ يَّنْقُصَ مِنْ أوْزَارِهمْ شَيءٌ ۔
ترجمہ : جو کوئی اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے تو اس پر اسے ثواب ملے گا اور اس کے بعد جتنے لوگ اس پر عمل کریں گے تمام کے برابر اس جاری کرنے والے کو بھی ثواب ملے گا اور ا ن کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہوگی۔ اور جو شخص اسلام میں بُرا طریقہ جاری کرے تو اس پر اسے گناہ ملے گا اور اس کے بعد جتنے لوگ اس پر عمل کریں گے ان سب کے برابر اس جاری کرنے والے کو بھی گناہ ملے گا اور ان کے گناہ میں بھی کچھ کمی نہ ہوگی ۔ (صحیح مسلم صفحہ 394 حدیث نمبر 1017)

جشنِ ولادت منانا بھی ایک اچّھا کام ہے ، جو کسی سنّت کے خلاف نہیں ، بلکہ عین قرآن و سنّت کے ضابطوں کے مطابِق ہے۔ رب تعالیٰ کی نعمت پر خوشی کا حکم خود قرآنِ پاک نے دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوۡا ۔
ترجمہ : تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں ۔ (سورہ یونس آیت نمبر 58)

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا : وَ اَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ ۔
ترجمہ : اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو ۔ (سورہ والضحیٰ : 11)

خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا یومِ میلا د روزہ رکھ کر مناتے ۔ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الِاثْنَيْنِ ؟ قَالَ : ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ، وَيَوْمٌ بُعِثْتُ أَوْ أُنْزِلَ عَلَيَّ فِيهِ ۔
ترجمہ : حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے پیر کے دن کے روزے کے بارے میں پو چھا گیا تو آ پ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فر مایا میں اسی دن پیدا ہوا تھا اور اسی دن قرآن کا نزول ہوا ۔ (صحیح مسلم عربی حدیث نمبر ۱۱۶۲صفحہ نمبر ۳۹۲ مکتبہ دار الغد الجدید قاہرہ مصر،چشتی)،(صحیح مسلم شریف مترجم اردو جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 517 مطبوعہ دارالعلم ممبئی انڈیا) (مسلم صفحہ 455 حدیث نمبر 2750)

اس حدیث شریف سے چند باتیں معلوم ہوئیں : ⬇

(1) پیر کے دن کا روزہ اس لیے سنت ہے کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت باسعادت کا دن ہے ۔

(2) حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پیر کے دن کے روزہ کا اہتمام فر ما کر خود اپنی ولادت کی یاد منائی اور اللہ کا شکر بجا لایا ۔

(3) امت کےلیے یوم ولادت کی اہمیت و فضیلت ظاہر فر مائی ۔

(4) دن مقرر کر کے یاد منا نا سنت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے ۔

(5) ولادت کی خوشی اور شکرانے میں عبادت کرنا سنت ہے ۔ مگر افسوس اس صاف اور صریح حدیث کے باوجود کچھ لوگ اس کے منکر ہیں ۔ اور طر ح طرح کی بے جا حیلے اور بہانے بنا کر اس سے خود بھی باز رہتے ہیں اور لوگوں کو بھی منع کرتے ہیں اور اتنا ہی پر بس نہیں بلکہ اس کو ناجائز وحرام اور بدعت سیئہ کہتے ہیں ۔ (نعوذباللہ من ذالک)

قال الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم : قال حضرت ابو ھریرہ یارسول اللہ متی وجبت لک النبوۃ ؟ قا ل الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بین خلق آدم و نفخ الروح فیہ ۔ (دلائل النبوۃ ، جواہر البحار،مواہب الدنیہ)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ کو شرف نبوت سے کب نوازا گیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ۔ (میں اس وقت بھی نبی تھا)جب آدم علیہ السلام ابھی تخلیق اور روح کے مرحلے میں تھے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا معمول مبارک تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم صحا بہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ مختلف موضوعات پر خطبات اِرشاد فرماتے ۔ اور کبھی کبھی اپنے نسب مبارک اور ولادت مبارک کے بارے میں بھی اِرشاد فرماتے ۔ میں اس زمرے میں چند احادیث مبارکہ پیشِ خدمت ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجتماع میں اپنی ولادت باسعادت کا تذکرہ فرمایا ہے ۔

حضرت مطلب بن ابی وداعہ سے مروی ہے : جاء العباس الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فکانہ سمع شیئاًََ، فقام النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم علی المنبر، فقال: من انا ؟ فقالوا : انت رسول اللہ، علیک السلام، قال : انا محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ان اللہ خلق الخلق فجعلنی فی خیرھم فرقۃ، شم جعلھم فرقتین، فجعلنی فی خیرھم فرقۃ، شم جعلھم قبائل،فجعلنی فی خیرھم قبیلۃ،شم جعلھم بیوتا، فجعلنی فی خیرھم بیتا و خیرھم نسباً۔ (ترمذی،الجامع الصحیح، کتاب الدعوات جلد ۵ صفحہ ۵۴۳ رقم : ۳۵۳۲،چشتی)
ترجمہ : حضرت عباس رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ، (اس وقت ان کی کیفیت ایسی تھی) گویا انہوں نے (نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے متعلق کفار سے) کچھ (نازیبا الفاظ) سن رکھے تھے ( اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بتانا چاہتے تھے) ۔ (حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بتائے یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم علم نبوت سے جان گئے) تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا : میں کون ہوں ؟ سب نے عرض کیا : آپ پر سلام ہو ، آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : میں عبد اللہ کا بیٹا محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور اس مخلوق میں سے بہترین گروہ (انسان) کے اندر مجھے پیدا فرمایا اور پھر اس گروہوں (عرب و عجم) میں تقسیم کیا اور ان میں سے بہترین گروہ (عرب ) میں مجھے پیدا کیا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس حصے قبائل بنائے اور ان میں سے بہترین قبیلہ (قریش ) کے اندر مجھے پیدا کیا اور پھر اس بہترین قبیلہ کے گھر بنائے تو مجھے بہترین گھر اور نسب (بنو ہاشم) میں پیدا کیا ۔

حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ۔ قلت : یارسول اللہ ! ان قریشاً جلسوا فتذاکروا أحسابھم بینھم،فجعلوا مثلک کمثل نخلۃ فی کبوۃ من الأرض،فقال النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان اللہ خلق الخلق فجعلنی من خیرھم من خیر فرقھم و خیر الفریقین، ثم تخیر القبائل فجعلنی من خیر قبیلۃ، ثم تخیر البیوت فجعلنی من خیر بیوتھم فأنا خیر نفساً و خیرہم بیتا ۔ (ترمذی،الجامع الصحیح، ابواب المناقب، باب فی فضل النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ۵:۵۸۴، رقم:۳۶۰۷،چشتی)
ترجمہ : میں نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم قریش نے ایک مجلس میں اپنے حسب و نسب کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی مثال کھجور کے اس درخت سے دی جو کسی ٹیلہ پر ہو۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو مجھے ان کی بہترین جماعت میں رکھا اور ان کے بہترین گروہ میں رکھا اور دونوں گروہوں میں سے بہترین گروہ میں بنایا ، پھر قبائل کو منتخب فرمایا اور مجھے بہترین قبیلے میں رکھا ، پھر اُس نے گھرانے منتخب فرمائے تو مجھے اُن میں سے بہتر گھرانے میں رکھا، میں اُن میں سے بہترین فرد اور بہترین خاندان والا ہوں ۔

حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ان اللہ اصطفی من ولد ابراھیم اسماعیل، واصطفی من ولد اسماعیل بنی کنانۃ، واصطفی من بنی کنانۃ قریشاً، واصطفی من قریش بنی ھاشم،واصطفانی من بنی ھاشم ۔ (ترمذی،الجامع الصحیح، ابواب المناقب، باب فی فضل النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ۵:۵۸۳، رقم:۳۶۰۵)
ترجمہ : بے شک رب کائنات نے ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے اسماعیل علیہ السلام کو منتخب فرمایا ، اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے کنانہ کو ، اور اولاد کنانہ میں سے قریش کو ، اور قریش میں سے بنی ہاشم کو، اور بنی ہاشم میں سے مجھے شرف انتخاب سے نوازا اور پسند فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اصطفی کا لفظ اس لیے بیان کیا کہ صاحب نسب ، مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم (چنے ہوئے) ہیں ۔ اسی طرح کی بیشمار احادیث مبارکہ اور بھی موجود ہیں ۔جن میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی ولاد ت مبارکہ کا تذکرہ فرمایا ہے ۔

خلاصۂ کلام یہ کہ شریعت کے دائرہ میں رہ کر خوشی منانا ، مختلف جائز طریقوں سے اِظہارِ مَسرّت کرنا اور محافلِ میلاد کا انعقاد کر کے ذکرِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کرتے ہوئے ان پر مسرت و مبارک لمحات کو یاد کرنا ، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دنیا میں تشریف لانے کا وقت ہے ، بہت بڑی سعادت مندی کی بات ہے ۔

اب مندرجہ ذیل ایک سو سولہ (116) اَئمہ و شیوخ کی ایک سو پچیس (125) سے زائد تالیفات و شروحات کا ذکر ہے جن سے معترضین کا جھوٹ اور عقل کی مکاری ثابت ہوتی ہے کیونکہ ان 116 کتابوں میں صحاستہ کا بھی ذکر ہے ۔

یہ کتب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے میلاد ناموں اور واقعاتِ ولادت کے قصص پر مشتمل ہیں ۔ جب کہ اَمرِ واقعہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے میلاد کے واقعات اور جشنِ میلاد کی کیفیت کی حامل تالیفات و مولود ناموں کی تعداد اِس سے کہیں زیادہ ہے ، اور ایسی کتب اُردو ، پنجابی ، سندھی ، بلوچی ، پشتو ، سرائیکی ، ہندی ، فارسی ، انگریزی الغرض دنیا کی ہر اُس زبان میں پائی جاتی ہیں جو مومنین بولتے ہیں ۔

میلادُالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر لکھی جانے والی گراں قدر تصانیف : ⬇

قرونِ اُولیٰ سے لے کر آج تک اَئمہ و محدّثین اور علماء و شیوخ نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق میلادُالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے موضوع پر قلم اٹھایا اور نظم و نثر میں ہزاروں کی تعداد میں گراں قدر کتب تصنیف کیں۔ ان میں سے بعض مختصر اور بعض ضخیم ہیں ۔ اکثر اَئمہ و محدّثین اور اَکابر علماء نے اَحادیث ، سیرت و فضائل اور تاریخ کی کتب میں میلاد شریف کے موضوع پر باقاعدہ اَبواب باندھے ہیں ۔ مثلاً اِمام ترمذی (210۔ 279ھ) نے الجامع الصحیح میں کتاب المناقب کا دوسرا باب ہی ’’ما جاء فی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ قائم کیا ہے۔

ابن اِسحاق (85۔ 151ھ) نے السیرۃ النبویۃ میں،

ابن ہشام (م 213ھ) نے السیرۃ النبویۃ میں،

ابن سعد (168۔ 230ھ) نے الطبقات الکبری میں،

ابو نعیم (336۔ 430ھ) نے دلائل النبوۃ میں،

بیہقی (384۔ 458ھ) نے دلائل النبوۃ ومعرفۃ احوال صاحب الشریعۃ میں،

ابو سعد خرکوشی نیشاپوری (م 406ھ) نے کتاب شرف المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں،

ابن اثیر (555۔ 630ھ) نے الکامل فی التاریخ میں،

طبری (224۔ 310ھ) نے تاریخ الامم والملوک میں،

ابن کثیر (701۔ 774ھ) نے البدایۃ والنھایۃ میں،

ابن عساکر (499۔ 571ھ) نے تاریخ دمشق الکبیر میں،

الغرض تمام اَجل اَئمہ و علماء نے اپنی اپنی کتب میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔
نیز

اِمام محمد بن یوسف صالحی شامی (م 942ھ) نے ’’سبل الہدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ میں بہت تفصیل سے لکھا اور جواز میں علمی دلائل کے اَنبار لگا دیئے ہیں۔

اِمام ابو عبد ﷲ بن الحاج مالکی (م 737ھ) نے ’’المدخل الی تنمیۃ الاعمال بتحسین النیات والتنبیہ علی کثیر من البدع المحدثۃ والعوائد المنتحلۃ‘‘ میں مفصل بحث کی ہے۔

اِمام زرقانی (1055۔ 1122ء) نے ’’المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ‘‘ میں،

شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958۔ 1052ھ،چشتی) نے ’’ما ثَبَت مِن السُّنّۃ فی ایّام السَّنَۃ‘‘ میں ۔

اِمام یوسف بن اسماعیل نبہانی (1265۔ 1350ھ) نے ’’حجۃ ﷲ علی العالمین فی معجزات سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ اور ’’جواھر البحار فی فضائل النبی المختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ میں میلاد شریف کے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔

ابو العباس احمد بن معد بن عیسی اقلیشی اندلسی (م 550ھ) نے الدر المنظم فی مولد النبی الاعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے کتاب تالیف کی ہے۔ اِس میں اُنہوں نے دس فصول قائم کی ہیں۔ باشا بغدادي، ايضاح المکنون : 451

عبدالرحمان بن علی بن محمود بن علی بن عبد اللہ بن حمادی قرشی حنبلی جن کا لقب جمال الدین ہے ۔ 510ھ میں بغداد میں پیدا ہوئے اور 597 ہجری میں اسی شہر میں انتقال فرمایا۔ ابتدائی علوم پر صغر سنی میں ہی دسترس حاصل کر کے وعظ و تبلیغ میں لگ گئے۔ پھر حدیث میں مہارت اور پختگی حاصل کی تو حافظ اور محدّث کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ نے 159 سے زائد کتب تصنیف کیں جن میں سے اکثر حدیث، تاریخ اور مواعظ پر مشتمل ہیں۔ انہوں نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دو مستقل کتب لکھیں :
1. بيان الميلاد النبوي صلي الله عليه وآله وسلم
2. مولد العروس

اِبن دحیہ کلبی (544۔ 633ھ)
ابو خطاب عمر بن حسن بن علی بن محمد بن دحیہ کلبی اندلس میں پیدا ہوئے ۔ آپ نے حصولِ علم کےلیے شام، عراق، خراسان وغیرہ کے سفر کیے اور مصر میں قیام فرما رہے۔ آپ مشہور محدّث، معتمد مؤرّخ اور مایہ ناز ادیب تھے۔ بہت سی کتب لکھیں اور شاندار علمی ورثہ چھوڑا۔ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر آپ کی تصنیف ’’التنویر فی مولد البشیر النذیر‘‘ بھی ہے۔

ابو الخیر شمس الدین محمد بن عبد اللہ جزری شافعی (م 1262ء) اپنے وقت کے امام القراء اور محدّث تھے۔ مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آپ کی ایک کتاب ’’عرف التعریف بالمولد الشریف‘‘ ہے۔

شیخ ابو بکر جزائری (م 707ھ) ۔ شیخ ابو بکر محمد بن عبد ﷲ بن محمد بن محمد بن احمد عطار جزائری نے ’’المورد العذب المعین فی مولد سید الخلق اجمعین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کے نام سے کتاب لکھی۔

اِمام کمال الدین الادفوی (85۔ 6۔ 748ھ) ۔ اِمام کمال الدین ابو الفضل جعفر بن ثعلب بن جعفر اَدفوی نے اپنے ملک مراکش میں جشنِ میلاد کی تقریبات کے حوالے سے بہت سی تفصیلات اپنی کتاب ’’الطالع السعید الجامع لاسماء نجباء الصعید‘‘ میں جمع کی ہیں۔

سعید الدین الکازرونی (م 758ھ) ۔ محمد بن مسعود بن محمد سعید الدین الکازرونی نے ’’مناسک الحجز المنتقی من سیر مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کے نام سے کتاب لکھی۔

ابو سعید خلیل بن کیکلدی (694۔ 761ھ) ۔ ابو سعید خلیل بن کیکلدی بن عبد ﷲ لاعلائی دمشقی شافعی نے الدرۃ السنیۃ فی مولد خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے کتاب تالیف کی۔

امام عماد الدین بن کثیر (701۔ 774ھ) ۔ میلاد نگاروں میں صاحبِ ’’تفسیر القرآن العظیم‘‘۔ اِمام حافظ عماد الدین ابو الفداء اسماعیل بن کثیر۔ کا نام بھی شامل ہے۔ اِمام ابن کثیر نے ’’ذکر مولد رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ورضاعہ‘‘ کے نام سے میلاد شریف کے موضوع پر کتاب لکھی ہے۔

سلیمان برسوی حنفی ۔ سلیمان بن عوض باشا بن محمود برسوی حنفی 780ھ کے قریب فوت ہوئے ۔ آپ سلطان بایزید عثمانی کے دور میں بہت بڑے امام تھے۔ اُنہوں نے ’’وسیلۃ النجاۃ‘‘ کے نام سے ترکی زبان میں منظوم میلاد نامہ لکھا۔

اِمام عبد الرحیم برعی (م 803ھ) ۔ اِمام عبد الرحیم بن اَحمد برعی یمانی (م 1400ء) نے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر رسالہ تالیف کیا ہے جو کہ ’’مولد البرعي‘‘ کے نام سے معروف ہے۔

حافظ زین الدین عراقی (725۔ 808ھ،چشتی) ۔ حافظ ابو الفضل زین الدین عبد الرحیم بن حسین بن عبد الرحمٰن مصری عراقی یکتائے زمانہ، نابغہ روزگار، محافظ اسلام، مرجع خلائق اور دانش وَر محقق تھے۔ انہوں نے حدیث، اسناد اور ضبط روایات میں کمال رسوخ حاصل کیا۔ علم حدیث سے تھوڑا بہت شغف رکھنے والا ہر شخص ان کے علم و فضل سے بخوبی آگاہ ہے۔ اس جلیل القدر امام نے جشنِ میلاد کے متعلق ایک مستقل رسالہ لکھا جس کا نام ’’المورد الھنی فی المولد السنی‘‘ رکھا۔

سلیمان برسونی ۔ حاجی خلیفہ نے ’’کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون (2 : 1910)‘‘ میں لکھا ہے کہ سلیمان برسونی 808ھ کے بعد فوت ہوئے۔ اُنہوں نے ترکی زبان میں منظوم میلاد نامہ لکھا جو کہ روم کی مجالسِ میلاد میں پڑھا جاتا ہے۔

اِمام محمد بن یعقوب فیروزآبادی (729۔ 817ھ،چشتی) ۔ اِمام ابو طاہر محمد بن یعقوب بن محمد بن ابراہیم فیروزآبادی ایک بہت بڑے اِمام ہو گزرے ہیں۔ آپ نے بے شمار کتب لکھیں، جن میں تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس، الصلات والبشر فی الصلاۃ علیٰ خیر البشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور لغت کی معروف کتاب القاموس المحیط شامل ہیں۔ آپ نے میلاد شریف پر النفحۃ العنبریۃ فی مولد خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھی۔

امام شمس الدین بن ناصر الدین دمشقی (777۔ 842ھ) ۔ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لکھنے والے جلیل القدر آئمہ میں سے ایک حافظ شمس الدین محمد بن ابی بکر بن عبد اللہ قیسی شافعی المعروف حافظ ابن ناصر الدین دمشقی ہیں۔ آپ اعلیٰ پائے کے مؤرّخ تھے۔ لاتعداد کتب ان کی نوک قلم سے نکلیں، بے شمار حواشی تحریر کیے اور مختلف علوم و فنون میں طبع آزمائی کی۔ آپ دمشق کے الشرفیہ دار الحدیث کے شیخ الحدیث بنے۔ آپ نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں کئی کتب تحریر کیں۔ حاجی خلیفہ نے ’’کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون (2 : 1910)‘‘ میں ان کی درج ذیل تین کتب کا تذکرہ کیا ہے جو صرف اِسی موضوع پر ہیں : ⬇

1 ۔ جامع الآثار في مولد النبي المختار صلي الله عليه وآله وسلم (تين جلدوں پر مشتمل ہے)

2 ۔ اللفظ الرائق في مولد خير الخلائق صلي الله عليه وآله وسلم ۔

3 ۔ مورد الصادي في مولد الهادي صلي الله عليه وآله وسلم ۔

شیخ عفیف الدین التبریزی (م 855ھ) ۔ شیخ عفیف الدین محمد بن سید محمد بن عبد ﷲ حسینی تبریزی شافعی نے مدینہ منورہ میں 855ھ میں وفات پائی۔ آپ نے اِمام نووی (631۔ 677ھ) کی الاربعین اور اِمام ترمذی (210۔ 279ھ) کی الشمائل المحمدیۃ کا حاشیہ لکھا۔ آپ نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے کتاب لکھی۔

شیخ محمد بن فخر الدین (م 867ھ) ۔ شیخ شمس الدین ابو القاسم محمد بن فخر الدین عثمان لؤلؤی دمشقی حنبلی ’’اللؤلؤ ابن الفخر‘‘ کے نام سے معروف تھے۔ اُنہوں نے میلاد شریف کے موضوع پر الدر المنظم فی مولد النبی المعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھی۔ بعد ازاں اُنہوں نے اللفظ الجمیل بمولد النبی الجلیل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے اس کی تلخیص کی۔

سید اصیل الدین ہروی (م 883ھ) ۔ سید اصیل الدین عبد اللہ بن عبد الرحمٰن ہروی نے درج الدرر فی میلاد سید البشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے کتاب تالیف کی۔

اِمام عبد اللہ حسینی شیرازی (م 884ھ) ۔ اِمام اصیل الدین عبد اللہ بن عبد الرحمٰن حسینی شیرازی نے میلاد کے موضوع پر ایک کتاب بہ عنوان ’’درج الدرر فی میلاد سید البشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ لکھی۔ اِس کا ذکر حاجی خلیفہ نے ’’کشف الظنون (1 : 745)‘‘ میں کیا ہے۔

شیخ علاء الدین المرداوی (م 885ھ،چشتی) ۔ ابو الحسن علاء الدین علی بن سلیمان بن احمد بن محمد مرداوی دمشق میں حنبلی فقہ کے بہت بڑے شیخ ہو گزرے ہیں۔ آپ نے میلاد شریف پر المنھل العذب القریر فی مولد الھادی البشیر النذیر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نامی کتاب تالیف کی۔

برہان الدین ابو الصفاء (م 887ھ) ۔ برہان الدین ابو الصفاء ابن ابی الوفاء نے فتح ﷲ حسبی وکفی فی مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے کتاب تالیف کی۔

شیخ عمر بن عبد الرحمان باعلوی (م 889ھ) ۔ شیخ عمر بن عبد الرحمان بن محمد بن علی بن محمد بن احمد باعلوی حضرمی نے ’’کتاب مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ لکھی۔

امام شمس الدین السخاوی (831۔ 902ھ) ۔ امام شمس الدین محمد بن عبد الرحمان بن محمد قاہری سخاوی کا شمار اکابر اَئمہ میں ہوتا ہے۔ ایک عالم نے کہا کہ ’’حافظ ذہبی کے بعد ان جیسے ماہر علوم و فنونِ حدیث شخص کا وجود نہیں ملتا اور انہی پر فنِ حدیث ختم ہو گیا۔‘‘ امام شوکانی کا کہنا ہے کہ اگر حافظ سخاوی کی ’’الضوء اللامع‘‘ کے علاوہ کوئی اور تصنیف نہ بھی ہوتی تو یہی ایک کتاب ان کی امامت پر بڑی دلیل تھی۔

آپ نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ایک کتاب ’’الفخر العلوی فی المولد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ تصنیف کی، اور اس کا ذکراپنی کتاب ’’الضوء اللامع (8 : 18)‘‘ میں بھی کیا ہے۔ اِس کے علاوہ آپ نے الضوء اللامع میں اُن اَئمہ کرام کی فہرست بھی دی ہے جنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد شریف کے بارے میں کتب و رسائل تالیف کیے ہیں ۔ (حاجي خليفه، کشف الظنون عن أسامي الکتب والفنون، 2 : 1910،چشتی)

اِمام نور الدین سمہودی (844۔ 911ھ) ۔ میلاد کے موضوع پر لکھی جانے والی ایک اور کتاب ’’المورد الھنیۃ فی مولد خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ ہے۔ اِس کے مصنف اِمام نور الدین ابو الحسن علی بن عبد ﷲ بن احمد حسینی شافعی سمہودی ہیں جنہیں تاریخِ مدینہ کے لکھنے والوں میں مستند درجہ حاصل ہے۔

امام جلال الدین سیوطی (849۔ 911ھ) ۔ امام جلال الدین عبد الرحمٰن بن ابی بکر سیوطی کا علمی مقام آفتاب کی طرح ہر خاص و عام پر واضح ہے۔ آپ کے تذکروں میں لکھا ہے کہ آپ کی تصانیف کی تعداد سات سو (700) کے قریب پہنچتی ہے۔ آپ نے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جواز میں ’’حسن المقصد فی عمل المولد‘‘ کے نام سے رسالہ لکھاجو پوری دنیا میں مقبول ہوا۔ یہ رسالہ آپ کی تصنیف ’’الحاوی للفتاوي‘‘ میں بھی شامل ہے۔

عائشہ بنت یوسف باعونیہ (م 922ھ) ۔ عائشہ بنت یوسف باعونیہ دمشقیہ شافعیہ مشہور عالمہ و صوفیہ اور کثیر التصانیف محققہ تھیں۔ اُنہوں نے منظوم ’’مولود النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ تصنیف کیا۔

ابو بکر بن محمد حلبی (م 930ھ) ۔ ابو بکر بن محمد بن ابی بکر حبیشی حلبی نے الکواکب الدریۃ فی مولد خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے کتاب رقم کی۔

ملا عرب الواعظ (م 938ھ) ۔ ملا عرب الواعظ نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے ایک کتاب تالیف کی۔

ابن دیبع الشیبانی (866۔ 944ھ) ۔ حافظ وجیہ الدین عبد الرحمٰن بن علی بن محمد شیبانی شافعی، ابن دیبع کے لقب سے مشہور ہیں۔ آپ نے ایک سو (100) سے زیادہ مرتبہ بخاری شریف کا درس دیا اور ایک مرتبہ چھ روز میں بخاری شریف کو ختم کیا۔ آپ نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں بھی کتاب لکھی ہے۔

شیخ عبد الکریم الادرنتوی (م 965ھ) ۔ شیخ عبد الکریم ادرنتوی خلوتی نے ترکی زبان میں منظوم میلاد نامہ لکھا تھا۔

اِمام ابن حجر ہیتمی مکی (909۔ 973ھ) ۔ امام الحرمین، ابو العباس احمد بن محمد بن علی بن حجر ہیتمی مکی شافعی کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ ’’الفتاویٰ الحدیثیۃ،‘‘ ’’الخیرات الحسان فی مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ النعمان،‘‘ ’’الصواعق المحرقۃ فی الرد علی اھل البدع والزندقۃ‘‘ اور ’’الجوہر المنظم فی زیارۃ القبر الشریف النبوی المکرم المعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ جیسی مشہورِ زمانہ کتب آپ کے علمی شاہکار ہیں۔ آپ علومِ حدیث میں شیخ الاسلام زکریا مصری کے شاگردِ خاص تھے۔ شیخ الاسلام ابن حجر عسقلانی آپ کے دادا استاد تھے۔ علامہ ملا علی قاری اور بر صغیر پاک و ہند کے مایہ ناز فرزند علاؤ الدین علی متقی ہندی (صاحبِ کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال) آپ ہی کی مسند اِرشاد و تدریس کے فیض یافتہ تھے۔ آپ نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر مندرجہ ذیل کتب تصنیف کیں : ⬇

1 ۔ تحرير الکلام في القيام عند ذکر مولد سيد الأنام صلي الله عليه وآله وسلم ۔

2 ۔ تحفة الأخيار في مولد المختار صلي الله عليه وآله وسلم ۔

3 ۔ اتمام النعمة علي العالم بمولد سيد ولد آدم صلي الله عليه وآله وسلم ۔

4 ۔ مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم ۔ علاوہ ازیں انہوں نے اپنی مشہور کتاب ’’الفتاویٰ الحدیثیۃ‘‘ میں بھی اس موضوع کا تفصیلی تذکرہ کیاہے۔

اِمام خطیب شربینی (م 977ھ) ۔ اِمام شمس الدین محمد بن احمد خطیب شربینی نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پچاس (50) صفحات کا محظوطہ تحریر کیا ہے۔

ابو الثناء احمد الحنفی (م 1006ء) ۔ ابو الثناء احمد بن محمد بن عارف زیلی رومی حنفی نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے کتاب تالیف کی۔

امام ملا علی القاری (م 1014ھ،چشتی) ۔ جشن میلادُ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لکھنے والوں میں حافظِ حدیث، مجتہد الزمان امام ملا علی قاری بن سلطان بن محمد ہروی بھی ہیں۔ امام شوکانی نے ’’البدر الطالع‘‘ میں ان کے حالات نقل کرتے ہوئے لکھاہے کہ وہ علوم نقلیہ کے جامع، سنت نبوی میں دسترس رکھنے والے، عالم اسلام کے بطلِ جلیل اور قوتِ حفط و فہم میں نام وَر تھے۔ اُنہوں نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ایک کتاب تالیف کی ہے جس کا نام ’’المورد الروی فی مولد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ونسبہ الطاھر‘‘ ہے۔ اِس کتاب میں اُنہوں نے میلاد شریف کے بارے میں مختلف علماء کے اَقوال اور مختلف اِسلامی ممالک میں جشنِ میلاد کی تقریبات کا حال بیان کیا ہے۔

اِمام عبد الرؤف المناوی (952۔ 1031ھ) ۔ فیض القدیر شرح الجامع الصغیر‘‘ اور ’’شرح الشمائل علی جمع الوسائل‘‘ کے مصنف و نام وَر اِمام عبد الرؤف بن تاج العارفین بن علی بن زین العابدین مناوی (1545۔ 1621ء) نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر ایک رِسالہ تالیف کیا ہے، جو کہ ’’مولد المناوي‘‘ کے نام سے معروف ہے۔

محی الدین عبد القادر عیدروسی (987۔ 1038ھ) ۔ محی الدین عبد القادر بن شیخ بن عبد ﷲ عید روسی نے المنتخب المصفی فی اخبار مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تالیف کی۔

اِمام علی بن اِبراہیم الحلبی (975۔ 1044ھ) ۔ سیرتِ طیبہ کی مشہور کتاب۔ ’’انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون‘‘ جو کہ ’’السیرۃ الحلبیۃ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ کے مصنف اِمام نور الدین علی بن ابراہیم بن احمد بن علی حلبی قاہری شافعی نے میلاد شریف کے موضوع پر کتاب ’’الکواکب المنیر فی مولد البشیر النذیر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ لکھی ہے۔ اُنہوں نے ’’السیرۃ الحلبیۃ‘‘ میں بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد شریف منانے پر دلائل دیتے ہوئے اِس کا جائز اور مستحب ہونا ثابت کیا ہے۔

اِمام محمد بن علان صدیقی (996۔ 1057ھ) ۔ اِمام محمد علی بن محمد بن علان بکری صدیقی علوی (1588۔ 1647ء) نام وَر مفسر و محدّث تھے۔ اُنہوں نے ’’مورد الصفا فی مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ نامی مولود نامہ تالیف کیا۔

شیخ زین العابدین خلیفتی (م 1130ھ) ۔ شیخ زین العابدین محمد بن عبد ﷲ عباسی مدینہ منورہ کے نام وَر خطیب تھے۔ آپ خلیفتی کے لقب سے معروف تھے۔ آپ نے میلاد شریف پر الجمع الزاھر المنیر فی ذکر مولد البشیر النذیر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نامی کتاب لکھی۔

اِمام عبد الغنی نابلسی (م 1143ھ) ۔ شیخ عبد الغنی نابلسی بڑے جلیل القدر اِمام تھے۔ آپ نے ’’المولد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کے عنوان سے مختصر اور جامع مولود نامہ لکھا ہے۔

شیخ جمال الدین بن عقیلہ المکی الظاہر (م 1130ھ) ۔ شیخ جمال الدین ابو عبد ﷲ محمد بن احمد بن سعید بن مسعود المکی الظاہر نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے کتاب لکھی۔

سلیمان نحیفی رومی (م 1151ھ) ۔ سلیمان بن عبد الرحمان بن صالح نحیفی رومی۔ جنہوں نے مولانا روم (604۔ 672ھ) کی ’’مثنوی مولوی معنوی‘‘ کا ترکی زبان میں منظوم ترجمہ کیا تھا۔ نے ترکی زبان میں منظوم میلاد نامہ بھی لکھا۔

یوسف زادہ رومی (1085۔ 1167ھ) ۔ عبد ﷲ حلمی بن محمد بن یوسف بن عبد المنان رو می حنفی مقری ایک نام وَر محدث تھے۔ آپ ’’یوسف زادہ شیخ القرائ‘‘ کے لقب سے معروف تھے۔ اُنہوں نے اِختلافِ قرات پر الائتلاف فی وجود الاختلاف فی القراء ۃ کے نام سے کتاب لکھی۔ میلاد شریف کے موضوع پر ان کی کتاب کا نام الکلام السنی المصفی فی مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

حسن بن علی مدابغی (م 1170ھ) ۔ علامہ حسن بن علی بن احمد بن عبد اللہ منطاوی جوکہ مدابغی کے نام سے معروف تھے، اُنہوں نے 1170 ہجری میں مصر میں وفات پائی۔ اُنہوں نے رسالۃ فی المولد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے ایک رِسالہ تالیف کیا۔

عبد ﷲ کاشغری (م 1174ھ) ۔ عبد ﷲ بن محمد کاشغری بندائی نقشبندی زاہدی قسطنطنیہ میں درس و تدریس کرتے تھے۔ آپ وہاں سلسلہ نقشبندیہ کی تعلیم بھی دیتے تھے۔ آپ نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے کتاب لکھی ہے۔

احمد بن عثمان حنفی (1100۔ 1174ھ) ۔ احمد بن عثمان دیاربکری آمدی حنفی نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تالیف کی۔

عبد الکریم برزنجی (م 1177ھ) ۔ سید جعفر بن حسن بن عبد الکریم برزنجی شافعی مدینہ منورہ کے مفتی اعظم اور مشہور محدث تھے۔ عربی لغت کی مشہور کتاب۔ تاج العروس من جواھر القاموس۔ کے مصنف سید مرتضیٰ زبیدی (1145۔ 1205ھ) نے آپ سے ملاقات کی اور مسجد نبوی میں ہونے والے آپ کے دروس میں حاضر ہوئے۔ آپ کی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مشہور و معروف کتاب ’’عقد الجوھر فی مولد النبی الازھر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ہے، جوکہ ’’مولود البرزنجی‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ اِس کی شہرت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ عرب و عجم میں اکثر لوگ اس رسالہ کو حفظ کرتے ہیں اور دینی اجتماعات کی مناسبت کے اعتبار سے اسے پڑھتے ہیں۔ یہ میلاد نامہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مختصر سیرت، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت و ہجرت، اَخلاق و غزوات اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات تک کے ذکر پر مشتمل ہے۔ آپ نے اس میلاد نامہ کے ابتداء میں یہ تحریر کیا ہے : أبتدئ الإملاء باسم الذات العلية، مستدرّا فيض البرکات علي ما أناله وأولاه ’ میں (ﷲ تعالیٰ کی) بزرگ و برتر ذات کے نام سے لکھنا شروع کرتا ہوں، اُس سے برکتوں کے فیض کے نزول کا طلب گار ہوں ان نعمتوں پر جو اس نے مجھے عطا فرمائی ہیں۔‘‘
اس کتاب کی شرح شیخ ابو عبد اللہ محمد بن احمد علیش (م 1299ھ) نے کی ہے اور یہ شرح بہت ہی جامع اور مفید ہے اس کا نام ’’القول المنجی علی مولد البرزنجی‘‘ ہے۔ یہ مصر سے کئی مرتبہ طبع ہو چکی ہے۔ اس شرح کو ان کے پوتے علامہ فقیہ و مورخ سید جعفر بن اسماعیل بن زین العابدین برزنجی (م 1317ھ)۔ جوکہ مدینہ منورہ میں مفتی تھے۔ نے منظوماً تحریر کر کے 198 ابیات میں بیان کیا ہے۔ اِس کے شروع میں وہ فرماتے ہیں : ⬇

بدأت باسم الذات عالية الشأن
بها مستدراً فيض جود وإحسان

اس منظوم میلاد نامہ کا نام ’’الکوکب الانوار علی عقد الجوھر فی مولد النبی الازھر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ ہے۔

سید محمد بن حسین حنفی جعفری (1149۔ 1186ھ) ۔ سید محمد بن حسین مدنی علوی حنفی جعفری نے خلفاء راشدین اور اہلِ بیتِ اَطہار کے مناقب پر کافی کتب لکھیں، جن میں الفتح والبشری فی مناقب سیدۃ فاطمۃ الزھراء، قرۃ العین فی بعض مناقب سیدنا الحسین، مناقب الخلفاء الاربعۃ، المواھب العزار فی مناقب سیدنا علی الکرار شامل ہیں۔ آپ نے میلاد شریف کے موضوع پر مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تالیف کی۔

شیخ محمد بن احمد عدوی (م 1201ھ) ۔ شیخ احمد بن محمد بن احمد عدوی مالکی مصری ’’دردیر‘‘ کے لقب سے معروف ہیں۔ آپ کا مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مختصر رسالہ مصر سے شائع ہوا جو ’’مولد الدردیر‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ آپ کے علمی مرتبہ کے پیش نظر جامعہ اَزہر کے علماء و مدرسین یہ مولود نامہ درساً پڑھایا کرتے تھے۔ شیخ الجامعۃ الازہر ابراہیم بن محمد بن احمد بیجوری (م 1198۔ 1277ھ) نے اِس کے اوپر بہت مفید حاشیہ بھی لکھا ہے۔

اشرف زادہ برسوی (م 1202ھ) ۔ عبد القادر نجیب الدین بن شیخ عز الدین احمد ’’اشرف زادہ برسوی حنفی‘‘ کے نام سے معروف تھے۔ ان کا ترکی زبان میں شعری دیوان ہے۔ ان کی تصوف پر لکھی گئی کتاب کا نام ’’سر الدوران فی التصوف‘‘ ہے۔ آپ نے ترکی زبان میں منظوم میلاد نامہ لکھا۔

محمد شاکر عقاد السالمی (م 1202ھ) ۔ محمد شاکر بن علی بن حسن عقاد السالمی نے تذکرۃ اہل الخیر فی المولد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا۔

عبد الرحمان بن محمد مقری (م 1210ھ) ۔ عبد الرحمان بن محمد نحراوی مصری مقری نے حسن بن علی مدابغی (م 1170ھ) کے رسالۃ فی المولد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرح لکھی، جس کا عنوان حاشیۃ علی مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم للمدابغی ہے۔

سلامی الازمیری (م 1228ھ) ۔ مصطفیٰ بن اِسماعیل شرحی اَزمیری سلامی نے ترکی زبان میں منظوم میلاد نامہ لکھا۔

محمد بن علی شنوانی (م 1233ھ) ۔ محمد بن علی مصری اَزہری شافعی شنوانی نے میلاد شریف کے موضوع پر الجواھر السنیۃ فی مولد خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے ایک رسالہ تالیف کیا۔

عبد ﷲ سویدان (م 1234ھ) ۔ عبد ﷲ بن علی بن عبد الرحمان دملیجی ضریر مصری شاذلی جو کہ سویدان کے لقب سے معروف تھے، اُنہوں نے مطالع الانوار فی مولد النبی المختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھی۔

ابن صلاح الامیر ۔ سید علی بن ابراہیم بن محمد بن اسماعیل بن صلاح الامیر صنعانی 1171ھ میں پیدا ہوئے اور 1236ھ کے لگ بھگ فوت ہوئے۔ اُنہوں نے تانیس ارباب الصفا فی مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے میلاد نامہ لکھا۔

اِمام محمد مغربی (م 1240ھ) ۔ اِمام محمد مغربی نام وَر محقق و صوفی اور اکابر اَولیاء میں سے تھے۔ اُنہوں نے ’’المولد النبوي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کے عنوان سے مولود نامہ تصنیف کیا ہے جو محدثین کی روایات اور صوفیاء کے اَقوال سے مزین ہے۔

شیخ ابراہیم بن محمد باجوری (م 1276ھ) ۔ شیخ ابراہیم بن محمد باجوری شافعی مصری نے تحفۃ البشر علی مولد ابن حجر تالیف کیا۔

شاہ احمد سعید مجددی دہلوی (م 1277ھ) ۔ ہندوستان کی معروف علمی و روحانی شخصیت شاہ احمد سعید مجددی دہلوی (م 1860ء) نے جشنِ میلاد شریف کے جواز پر ’’اثبات المولد والقیام‘‘ نامی ایک رسالہ تالیف کیا ہے۔

سید احمد مرزوقی ۔ سید ابو الفوز احمد بن محمد بن رمضان مکی مالکی مرزوقی حرمِ مکہ کے مدرّس تھے۔ آپ نے 1281ھ میں ’’بلوغ المرام لبیان الفاظ مولد سید الانام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی شرح مولد احمد البخاری‘‘ تالیف کیا۔ علاوہ ازیں ’’عقیدۃ العوام‘‘ کے نام سے ایک مولود نامہ بھی تحریر کیا، جس کی شرح بھی آپ نے خود ’’تحصیل نیل المرام‘‘ کے نام سے کی۔

شیخ محمد مظہر بن احمد سعید (م 1301ھ) ۔ شیخ محمد مظہر بن احمد سعید (م 1884ء) نے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر ایک رسالہ تالیف کیا ہے، جو کہ ’’الرسالۃ السعیدیۃ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔

عبد الہادی اَبیاری (م 1305ھ) ۔ شیخ عبد الہادی اَبیاری مصری نے ’’مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ پر ایک مختصر رسالہ تحریر کیا ہے۔

عبد الفتاح بن عبد القادر دمشقی (1250۔ 1305ھ) ۔ عبد الفتاح بن عبد القادر بن صالح دمشقی شافعی نے میلاد شریف کے موضوع پر سرور الابرار فی مولد النبی المختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تالیف کیا۔

نواب صدیق حسن خان بھوپالی (م 1307ھ) ۔ غیر مقلدین کے نام وَر عالم دین نواب صدیق حسن خان بھوپالی نے میلاد شریف کے موضوع پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے، جس کا عنوان ہے : ’’الشمامۃ العنبریۃ من مولد خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔‘‘

ابراہیم طرابلسی حنفی (م 1308ھ) ۔ ابراہیم بن سید علی طرابلسی حنفی منظوم میلاد نامہ لکھا جس کا عنوان ہے : منظومۃ فی مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

ہبۃ ﷲ محمد بن عبد القادر دمشقی (م 1311ھ) ۔ ہبۃ ﷲ ابو الفرح محمد بن عبد القادر بن محمد صالح دمشقی شافعی نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے رسالہ تالیف کیا۔

ابو عبد المعطی محمد نویر جاوی (م 1315ھ) ۔ ابو عبد المعطی محمد نویر بن عمر بن عربی بن علی نووی جاوی نے بغیۃ العوام فی شرح مولد سید الانام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تالیف کی۔

مفتی اَدرنہ محمد فوزی رومی (م 1318ھ) ۔ مفتی اَدرنہ محمد فوزی بن عبد ﷲ رومی نے اثبات المحسنات فی تلاوۃ مولد سید السادات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے میلاد نامہ لکھا۔

سید اَحمد بن عبد الغنی دمشقی (م 1320ھ) ۔ سید اَحمد بن عبد الغنی بن عمر عابدین دمشقی فقہ حنفی کے نام وَر عالم و محقق اور ’’رد المحتار علی در المختار علی تنویر الابصار‘‘ کے مؤلّف اِمام محمد بن محمد امین بن عابدین شامی دمشقی (1198۔ 1252ھ) کے بھانجے تھے۔ اُنہوں نے اِمام ابن حجر ہیتمی مکی (909۔ 973ھ) کی میلاد شریف کے موضوع پر لکھی کتاب کی ضخیم شرح ’’نثر الدرر علی مولد ابن حجر‘‘ کے عنوان سے لکھی۔

اِمام احمد رضا خان قادری (1272۔ 1340ھ) ۔ اِمام احمد رضا بن نقی علی خاں قادری بریلوی (1886۔ 1921ء) میلاد شریف کے موضوع پر درج ذیل دو کتب تالیف کی ہیں : ⬇

1 ۔ نطق الهلال بارخ ولادة الحبيب والوصال ۔

2 ۔ إقامة القيامة علي طاعن القيام لنبي تهامة صلي الله عليه وآله وسلم ۔

محمد بن جعفر کتانی (م 1345ھ) ۔ عارف باللہ سید شریف محمد بن جعفر کتانی بہت بڑے محدث اور معتمد تھے۔ آپ کا مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک رسالہ ’’الیمن والاسعاد بمولد خیر العباد‘‘ ہے۔ یہ ساٹھ (60) صفحات پر مشتمل اور جدید و تاریخی تحقیقات سے بھرپور رسالہ ہے۔

اِمام یوسف بن اسماعیل نبہانی (1265۔ 1350ھ) ۔ عالم عرب کے معروف محدّث و سیرت نگار اِمام یوسف بن اسماعیل نبہانی نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ’’جواہر النظم البدیع فی مولد الشفیع صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کے عنوان سے منظوم کتاب لکھی ہے۔

علامہ اشرف علی تھانوی (1280۔ 1362ھ) ۔ حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی (1863۔ 1943ء) نام وَر دیوبندی عالم تھے۔ سیرتِ طیبہ پر آپ کی کتاب۔ نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ کے آغاز میں ہی تخلیقِ نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور واقعاتِ ولادت بالتفصیل ذکر کیے گئے ہیں۔ آپ نے ’’طریقۂ مولود‘‘ بھی ترتیب دیا ہے۔

شیخ محمود عطار دمشقی (1284۔ 1362ھ) ۔ شیخ محمود بن محمد رشید عطار حنفی دمشق کے نام وَر عالم و محدّث تھے۔ آپ نے اپنے وقت کے کبار اساتذہ وشیوخ سے علم حاصل کیا اور دمشق کے علماء کا شمار آپ کے شاگردوں یا آپ کے شاگردوں کے شاگردوں میں ہوتا ہے۔ آپ نے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر ایک رسالہ ’’استحاب القیام عند ذکر ولادتہ علیہ الصلاۃ والسلام‘‘ تالیف کیا ہے۔

اِمام محمد زاہد کوثری (1296۔ 1371ھ) ۔ عالم عرب کی معروف علمی شخصیت علامہ مجدد اِمام محمد زاہد کوثری نے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جواز پر مختلف مقالہ جات لکھے ہیں۔

عبد ﷲ بن محمد ہرری (م 1389ھ) ۔ عبد ﷲ بن محمد شیبی عبدری ہرری حبشی (م 1969ء) نے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بابت دو رسائل تالیف کیے ہیں : ⬇

1 ۔ کتاب المولد النبوي صلي الله عليه وآله وسلم ۔

2 ۔ الروائح الزکية في مولد خير البرية صلي الله عليه وآله وسلم ۔

شیخ محمد رشید رضا مصری
مصر کے معروف مؤرّخ، مشہور محقق، محدث، مفسر اور تاریخ دان شیخ محمد رشید رضا نے میلاد پر ایک کتاب تحریر کی جس کا نام ہے : ’’ذکر المولد وخلاصۃ السیرۃ النبویۃ وحقیقۃ الدعوۃ الاسلامیۃ۔‘‘

شیخ محمد بن علوی مالکی مکی (م 1425ھ) ۔ مکہ مکرمہ کے نام وَر محدث اور عالم شیخ محمد بن علوی مالکی مکی (م 2004ء) نے میلاد شریف کی بابت اجل اَئمہ کرام کے درج ذیل تین رسائل کامجموعہ تالیف کر کے طبع کرایا ہے : ⬇

1 ۔ ابن کثیر، ذکر مولد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و رضاعہ ۔

2 ۔ ملا علی قاری، المورد الروی فی المولد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اِس رسالہ پر اِمام علوی مالکی کی تعلیقات و تحقیق بھی شامل ہے)

3 ۔ ابن حجر ہیتمی مکی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اُنہوں نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق ایک رسالہ بہ عنوان ’’حول الاحتفال بذکری المولد النبوی الشریف صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ بھی تالیف کیا ہے۔ علاوہ ازیں جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جواز پر مختلف ائمہ و علماء کے فتاوی جات کا مجموعہ بھی ترتیب دیا ہے، جس کا عنوان ہے : ’’الاعلام بفتاوی ائمۃ الاسلام حول مولدہ علیہ الصلاۃ والسلام۔‘‘

شیخ عبد العزیز بن محمد ایک عظیم محقق اور وزارت ’’الامر بالمعروف والنہی عن المنکر‘‘ کے رئیس العام تھے۔ انہوں نے جشنِ میلاد پر ایک کتاب بہ عنوان’’بعثۃ المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ لکھی۔

سید ماضی ابو العزائم ۔ آپ نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر ’’بشائر الاخیار فی مولد المختار‘‘ لکھی ہے۔ اِس میں اُنہوں نے نورِ نبوت کی تخلیق اور ظہور کا ذکر کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضاعت، نبوت اور دیگر انبیائے کرام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت کے بیان کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد شریف منانے پر بھی دلائل دیے ہیں۔

سید محمد عثمان میرغنی ۔ آپ نے میلاد کے موضوع پر ایک رسالہ بہ عنوان ’’الاسرار الربانیۃ المعروف ب : مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ لکھا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد شریف کے بیان پر مشتمل اِس رسالہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب و ولادت اور حیاتِ طیبہ کے دیگر پہلؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔

محمد بن محمد منصوری شافعی خیاط نے ابن حجر ہیتمی کی میلاد شریف کے موضوع پر تالیف کردہ کتاب کی شرح اقتناص الشوارد من موارد الموارد کے نام سے لکھی۔
احمد بن قاسم مالکی بخاری حریری، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابو حسن بکری، الانوار فی مولد النبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابراہیم اَبیاری، مولد رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
صلاح الدین ہواری، المولد النبوی الشریف صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابو محمد ویلتوری، ابتغاء الوصول لحب اﷲ بمدح الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
زین الدین مخدوم فنانی، البنیان المرصوص فی شرح المولد المنقوص
عبد ﷲ عفیفی، المولد النبوی المختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
عبد ﷲ حمصی شاذلی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
شیخ خالد بن والدی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
شیخ محمد وفا صیادی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
شیخ محمود محفوظ دمشقی شافعی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
شیخ عبد ﷲ بن محمد مناوی شاذلی، مولد الجلیل حسن الشکل الجمیل
حافظ عبد الرحمٰن بن علی شیبانی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سید عبد القادر اسکندرانی، الحقائق فی قراء ۃ مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
محمد بن محمد دمیاطی، مولد العزب
شیخ محمد ہاشم رفاعی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
شیخ محمد ہشام قبانی، المولد فی الاسلام بین البدعۃ والایمان
سعید بن مسعود بن محمد کازرونی، تعریب المتقی فی سیر مولد النبی المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
شیخ محمد نوری بن عمر بن عربی بن علی نووی شافعی، الابریز الدانی فی مولد سیدنا محمد العدنانی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
شیخ محمد نوری بن عمر بن عربی بن علی نووی شافعی، بغیۃ العوام فی شرح مولد سید الانام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
زین العابدین محمد عباسی، الجمع الزاہر المنیر فی ذکر مولد البشیر النذیر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابو شاکر عبد اﷲ شلبی، الدر المنظم شرح الکنز المطلسم فی مولد النبی المعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،(چشتی)۔
سیف الدین ابو جعفر عمر بن ایوب بن عمر حمیری ترکمانی دمشقی حنفی، الدر النظیم فی مولد النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابو ہاشم محمد شریف النوری، احراز المزیۃ فی مولد النبی خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
بدر الدین یوسف المغربی، فتح القدیر فی شرح مولد الدردیر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابو الفتوح الحلبی، الفوائد البہیۃ فی مولد خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سویدان عبد اللہ بن علی الدملیجی المصری، مطالع الانوار فی مولد النبی المختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابن علان محمد علی الصدیقی المکی، مورد الصفا فی مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سید محمد بن خلیل الطرابلسی المعروف بالقاوقجی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن محمد العطار الجزائری، الورد العذب المبین فی مولد سید الخلق اجمعین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابو الحسن احمد بن عبد ﷲ البکری، کتاب الانوار ومفتاح السرور والافکار فی مولد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
احمد بن علی بن سعید، طل الغمامۃ فی مولد سید تہامۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابن الشیخ آق شمس دین حمد اللہ، المولد الجسمانی والمورد الروحانی
محمد بن حسن بن محمد بن احمد بن جمال الدین خلوتی سمنودی، الدر الثمین فی مولد سید الاولین والآخرین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔

میلاد کے لغوی اور اصطلاحی معنیٰ : محافل منعقد کر کے میلاد کا تذکرہ کرنا ہے جو فقیر چشتی نے مذکورہ احادیث مبارکہ سے ثابت کیا ہے ۔ منکرین حضرات میلاد کی نفی میں ایک حدیث لاکر دکھا دیں ، جس میں واضح طور پر یہ لکھا ہو کہ میلاد نہ منایا جائے ۔ حالانکہ کئی ایسے کام ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے نہیں کیے مگر ہم اسے کرتے ہیں کیونکہ اس کام کے کرنے سے منع نہیں کیا گیا ہے ۔ فافہم ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...