تلاوت ، نعت اور وعظ و نصیحت کےلیے اجرت لینا ، دینا ، طے کرنا
محترم قارئینِ کرام : تلاوت ، نعت اور وعظ و نصیحت کےلیے سودے بازی کرنا قطعی طور پر ممنوع ہے ۔ یہ خدمتِ دین نہیں، بلکہ دین کی خرید و فروخت اور کاروبار ہے۔ قراء، نعت خواں اور مقررین حضرات کو آمد و رفت کے اخراجات مہیا کرنا اور صرف کردہ وقت کا معاوضہ دینا محافل کے منتظمین کی ذمہ داری ہے ۔ لیکن تلاوت و نعت اور وعظ و نصیحت کےلیے ہزاروں لاکھوں روپوں کا مطالبہ کرنا ، پیشگی رقم وصول کرنا صریحاً ناجائز ہے ۔ دعوت و ارشاد اور تقریر و تبلیغ پیغمبرانہ ذمہ داری ہے ۔ اللہ عزوجل کے انبیاۓ کرام علیہم السلام اپنی قوم کو وعظ و تبلیغ کرتے تو فرماتے : فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَمَا سَأَلْتُكُمْ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۔
ترجمہ : پھر اگر تم منہ پھیرو تو میں تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو نہیں مگر اللہ پر اور مجھے حکم ہے کہ میں مسلمانوں سے ہوں ۔ (سورہ يُوْنـُس آیت نمبر 72)
یعنی اگر تم میرے وعظ و نصیحت سے اِعراض کرو تو میں نے تم سے وعظ و نصیحت پر کوئی مُعاوضہ نہیں مانگا کہ تمہارے منہ پھیرنے کی وجہ سے مجھے اس کے نہ ملنے کا افسوس ہو، میرا اجر تو اللہ عزوجل کے ذمۂ کرم پر ہے وہی مجھے جزا دے گا ۔ مدعا یہ ہے کہ میرا وعظ و نصیحت خاص اللہ عزوجل کےلیے ہے ، کسی دنیوی غرض سے نہیں ہے ۔ (تفسیر مدارک التنزیل صفحہ ۴۸۰)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تبلیغِ دین پر اُجرت نہ لی جائے، ہاں امامت وخطابت ، تدریس اور تعلیمِ قرآن وغیرہ میں جہاں شریعت کی طرف سے اجازت ہے وہ جدا بات ہے لیکن اس میں بھی ممکن ہو تو بغیر پیسے ہی کے کام کرے ۔
سورہ يٰس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندے کی گفتگو کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ : وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَى قَالَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ. اتَّبِعُوا مَن لاَّ يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُم مُّهْتَدُونَ ۔
ترجمہ : اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک مرد دوڑتا آیا بولا اے میری قوم بھیجے ہوؤں کی پیروی کرو ۔ ایسوں کی پیروی کرو جو تم سے کچھ نیگ نہیں مانگتے اور وہ راہ پر ہیں ۔ (سورہ يٰس آیت نمبر 20-21)
گویا پیغمبرانہ طرزِ عمل یہ ہے کہ دعوت الی اللہ کی ذمہ داری کی ادائیگی کے عوض لوگوں سے کسی قسم کا معاوضہ اور بدلہ نہ مانگا جائے اور تقریری و تبلیغ کے لیے لوگوں سے کسی قسم کے بدلے یا فائدے کا سوال نہ کیا جائے۔ بلکہ یہ ذمہ داری خدا کے پیغمبروں کی طرح محض خدا کی رضا، جذبہ اصلاح اور خدمتِ دین سمجھ کر ادا کی جائے اور اس کا اجر خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے ۔
علماء ، خطباء ، مقررین ، مدرسین ، آئمہ اور مؤذن جو عوض ، اجرت یا معاوضہ لیتے ہیں وہ (معاذاللہ) دین کی خرید و فروخت نہیں ہے ، بلکہ پابندئ وقت کا ’حق الخدمت‘ ہے ۔ یہ تمام خدمات بلاشبہ اللہ کی رضا کے لیے ہونی چاہئیں ، لیکن سلسلہ خدمات کو جاری رکھنے کےلیے بوقتِ ضرورت مناسب وظیفہ لینے میں کوئی حرج نہیں ۔ دورِ حاضر میں یہ ایک ضرورت بھی ہے ، اگر درمیان سے اسے اٹھا دیا جائے تو دینی فرائض کی ترویج اور نشر و اشاعت کا سلسلہ رک جائے گا، کیونکہ ہر شخص تقویٰ اور خشیت الٰہی کے پیغمبرانہ معیار پر نہیں ہوتا ۔ اگر کوئی شخص صاحبِ مال و صاحب استطاعت ہے تو اسے یہ خدمات فی سبیل اللہ ادا کرنی چاہئیں ۔ علامہ شامی فرماتے ہیں : إنَّ الْمُتَقَدِّمِينَ مَنَعُوا أَخْذَ الْأُجْرَةِ عَلَى الطَّاعَاتِ، وَأَفْتَى الْمُتَأَخِّرُونَ بِجَوَازِهِ عَلَى التَّعْلِيمِ وَالْأَذَانِ وَالْإِمَامَةِ... كَانَ مَذْهَبُ الْمُتَأَخِّرِينَ هُوَ الْمُفْتَى بِهِ ۔
ترجمہ : علماء متقدمین نے عبادات پر اجرت لینے سے منع کیا ہے، اور علماء متاخرین نے تعلیم اور اذان و امامت پر اجرت جائز ہونے کا فتوی دیا ہے ۔۔۔ اور فتوی متاخرین کے مذہب پر دیا جاتا ہے ۔ (رد المحتار جلد 4 صفحہ 417 دار الفكر بیروت،چشتی)
حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : اصل حکم یہ ہے کہ وعظ پر اجرت لینی حرام ہے ۔ درّمختار میں اسے یہود و نصاریٰ کی ضلالتوں میں سے گِنا مگر ’’کم مّن احکام یختلف باختلاف الزّمان، کما فی العٰلمگیریۃ‘‘ (بہت سے احکام زمانہ کے اختلاف سے مختلف ہو جاتے ہیں جیسا کہ عالمگیریہ میں ہے) کلیہ غیرِِ مخصوصہ کہ طاعات پر اُجرت لینا ناجائز ہے ائمہ نے حالاتِ زمانہ دیکھ کر اس میں سے چند چیزیں بضرورت مستثنٰی کیں : امامت ، اذان ، تعلیمِ قرآنِ مجید ، تعلیمِ فقہ ، کہ اب مسلمانوں میں یہ اعمال بلانکیر معاوضہ کے ساتھ جاری ہیں ، مجمع البحرین وغیرہ میں ان کا پانچواں وعظ گنا و بس ۔ فقیہ ابواللیث سمرقندی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : میں چند چیزوں پر فتوٰی دیتا تھا ، اب ان سے رجوع کیا ، ازانجملہ میں فتوٰی دیتا تھا کہ عالم کو جائز نہیں کہ دیہات میں دورہ کرے اور وعظ کے عوض تحصیل کرے مگر اب اجازت دیتا ہوں ، لہٰذا یہ ایسی بات نہیں جس پر نکیر لازم ہو ۔ واللہ تعالٰی اعلم ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 19 صفحہ 538)
نعت خوانی کی اجرت لینا ، دینا ، طے کرنا ، یا اس نیت سے نعت خوانی کےلیے جانا کہ نعت پڑھوں گا تو پیسے ملیں گے سب ناجائز و حرام ہے ۔ اور اس رقم کا کھانا بھی ناجائز و حرام ہے ۔ حضرت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : اصل یہ ہے کہ طاعت و عبادات پر اجرت لینا دینا (سوائے تعلیم قرآن عظیم و علوم دین و اذان وامامت وغیرہا معدودے چند اشیاء کو جن پر اجارہ کرنا متاخرین نے بنا چاری و مجبوری بنظر حال زمانہ جائز رکھا) مطلقاً حرام ہے ، اور تلاوت قرآن عظیم بغرض ایصال ثواب و ذکر شریف میلاد پاک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ضرورت منجملہ عبادات وطاعت ہیں تو ان پر اجارہ بھی ضرور حرام و محذور ، اور اجارہ جس طرح صریح عقد زبان سے ہوتا ہے ، عرفاً شرط معروف و معہود سے بھی ہو جاتا ہے ، مثلاً پڑھنے پڑھوانے والوں نے زبان سےکچھ نہ کہا مگر جانتے ہیں کہ دینا ہوگا وہ سمجھ رہے ہیں کہ کچھ ملےگا ۔ انہوں نے اس طور پر پڑھا ، انہوں نے اس نیت سے پڑھوایا ، اجارہ ہو گیا ، اور اب دو وجہ سے حرام ہوا ، ایک تو طاعت پر اجارہ یہ خود حرام ، دوسرے اجرت اگر عرفاً معین نہیں تو اس کی جہالت سے اجارہ فاسد ، یہ دوسرا حرام ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ١٩ صفحہ ٤٨٦ ، ٤٨٧،چشتی)
حضرت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں : بعض عُلَماء نے وعظ کو بھی ان امورِ مستثنیٰ میں داخل کیا جن پر اس زمانہ میں اخذِ اجرت (اجرت لینا) مشائخِ متاخرین نے بحکمِ ضرورت جائز رکھا ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 19 صفحہ 435)
حضرت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : سیدعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ذکرِ پاک خود عمدہ طاعات و اجل عبادات سے ہے اور طاعت و عبادت پر فیس لینی حرام ، مبسوط پھر خلاصہ پھر عالمگیری میں ہے’’لایجوز الاستیجار علی الطاعات کالتذکیر ولایجب الاجر‘‘ ۱ھ ۔ (فتاوٰی ہندیہ کتاب الاجارہ الباب السادس عشر نورانی کتب خانہ پشاور ۴؍ ۴۴۸) ۔ نیک کاموں میں اجرت لینا جائز نہیں ، جیسے وعظ کرنا اور اجرت واجب نہیں ہو گی ۔ ۱ھ ۔ (فتاوی رضویہ جلد ۲۳ صفحہ ۷۲۵)
فتاویٰ رضویہ میں ہے : زید نے جو اپنی مجلس خوانی خُصوصاً راگ سے پڑھنے کی اُجرت مقرّر کر رکھی ہے ناجائز و حرام ہے اس کا لینا اسے ہر گز جائز نہیں ، اس کا کھاناصَراحۃً حرام کھانا ہے ۔ اس پر واجِب ہے کہ جن جن سے فیس لی ہے یاد کرکے سب کو واپَس دے ، وہ نہ رہے ہوں تو ان کے وارِثوں کو پھیرے ، پتا نہ چلے تو اتنا مال فقیروں پر تصدُّق کرے اور آیَندہ اس حرام خوری سے توبہ کرے تو گناہ سے پاک ہو ۔ اول تو سیِّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذکرِ پاک خود عمدہ طاعات واَجَلّ عبادات سے ہے اور طاعت وعبادت پر فیس لینی حرام ۔۔۔۔۔۔ ثانِیاً بیانِ سائل سے ظاہر کہ وہ اپنی شعِر خوانی و زَمْزَمہ سَنْجی (یعنی راگ اور تَرَنُّم سے پڑھنے) کی فیس لیتا ہے یہ بھی محض حرام ۔ فتاوٰی عالمگیری میں ہے : گانا اور اشعار پڑھنا ایسے اعمال ہیں کہ ان میں کسی پر اُجرت لینا جائز نہیں ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد ۲۳ صفحہ ۷۲۴ ۔ ۷۲۵ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
تلاوت قرآن عظیم پر اجرت لینا دینا حرام ہے اور حرام پر استحقاق عذاب ہے نہ کہ ثواب پہنچے ۔ (احکام شریعت جلد 1 صفحہ 63)
ریا کی طرح اجرت لے کر قرآن مجید کی تلاوت بھی ہے کہ کسی میت کے لئے بغرض ایصال ثواب کچھ لے کر تلاوت کرتا ہے کہ یہاں اخلاص کہاں ؟ بلکہ تلاوت سے مقصود وہ پیسے ہیں کہ وہ نہیں ملتے تو پڑھتا بھی نہیں ۔ اس پڑھنے میں کوئی ثواب نہیں ، پھر میت کےلیے ایصال ثواب کا نام غلط ہے کہ جب ثواب ہی نہ ملا تو پہنچائے گا کیا ؟ اس صورت میں نہ پڑھنے والے کو ثواب اور نہ میت کو بلکہ اجرت دینے والا اور لینے والا دونوں گنہگار ہیں ۔ بعض مرتبہ پڑھنے والے کو پیسے نہیں دیے جاتے مگر ختم کے بعد مٹھائی تقسیم ہوتی ہے اگر اس مٹھائی کی خاطر تلاوت کی ہے تو یہ بھی ایک طرح کی اجرت ہے کہ جب ایک چیز مشہور ہو جاتی ہے تو اسے بھی مشروط کاحکم دیا جاتا ہے ، اس کا بھی وہی حکم ہے جو مذکور ہو چکا ۔ (بہار شریعت جلد 16 صفحہ 240،چشتی)
بعض علماء نے مجلسِ میلاد کی اجرت کو جائز قرار دیا ہے جیسا کہ حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرما تے ہیں کہ : بعض علمانے وعظ پر اجارہ کو بھی جائز کہا ہے اس زمانہ میں اکثر مقامات ایسے ہیں جہاں اہلِ علم نہیں ہیں اِدھر اُدھر سے کبھی کوئی عالم پہنچ جاتا ہے جو وعظ و تقریر کے ذریعہ انہیں دین کی تعلیم دے دیتا ہے اگر اس اجارہ کو ناجائز کر دیا جائے تو عوام کو جو اس ذریعہ سے کچھ علم کی باتیں معلوم ہو جاتی ہیں اس کا انسداد ہو جائے گا ۔ (بہار شریعت حصّہ ۱۴ اِجارہ کا بیان)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو نعت پڑھنے کے دوران اپنی چادر مبارک بطور تحفہ دی تھی ۔ لہٰذا شرعاً نعت خوانوں کو روپے پیسے کے طور پر انعامات دینا جائز ہے ۔ اسی طرح قراء اور خطباء حضرات کو بھی انعام و اکرام سے نوازنا شرعاً جائز ہے ۔ کیونکہ یہ روپے اور پیسے ان کو اس وقت کے معاوضے کے طور پر دیے جاتے ہیں جو وقت وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدحت سرائی میں صرف کرتے ہیں ۔ اگر وہ اتنا وقت دوسرے معاملات میں لگائیں تو وہاں سے بھی پیسہ کما سکتے ہیں ۔ لہٰذا ان کی ضرورت کے مطابق پیسہ دینا جائز ہے ۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان حضرات میں سے اکثریت نے اس نیک کام کو بھی پیشہ بنا لیا ہے اور اس کے ذریعے لوگوں کو لوٹ رہے ہیں ۔ دوسری طرف عوام بھی برابر کی شریک ہے ۔ بعض حضرات جو روپے پیسے کا مطالبہ نہیں کرتے عوام ان کے ساتھ ناروا سلوک کرتی ہے ۔ یہاں تک کہ ان کی بنیادی ضرورتوں کو بھی پورا نہیں کیا جاتا اور عوام نے ہی ان کے مطالبات کو بڑھایا ہے ۔ اس معاملے کا بہترین حل یہی ہے کہ دونوں طرف سے افراط و تفریط ختم کی جائے ۔ ان حضرات کے جائز مطالبات اور ضروریات کو بھی پورا کیا جائے اور ان کو چاہیے کے عوام الناس سے ناجائز مطالبات بھی نہیں کرنے چاہیے ۔ چونکہ مسلمانوں کی رفاہ کےلیے کام کرنے اور زکوٰۃ اور ٹیکس وصول کرنے والے شخص کو مالدار ہونے کے باوجود ان اموال سے استفادہ کرنا جائز ہے ، اس لیے مقررین ، مبلغین اور داعی کے حضرات بقدرِ ضرورت تنخواہ لینے میں کوئی حرج نہیں ۔ لیکن دینی خدمت سر انجام دینے والوں کے ہاں اصل استغناء ، لوگوں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے سے گریز کرنا اور ان سے کسی بھی قسم کی امید وابستہ کرنے سے احتراز کرنا بہتر ہے ۔
فقیر چشتی کی طرف سے گذارش و رائے یہ ہے کہ : علما ، خطبا ، نعت خوان اور قاری حضرات کو چاہیے کہ وہ جائز صورت اختیار کریں اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے ہہ مقرر کرلیں کہ ہم ایک رات یا ایک گھٹنہ کا اتنا روپیہ لینگے اس ایک گھنٹہ میں آپ مجھ سے نعت پڑھائیں یا کوئی کام کروائیں یا بٹھا کر رکھے آپ کو اختیار ہے یا مجلس کرانے والے یوں کہیں کہ ہم آپ کو ایک گھنٹہ کےلیے نوکری پر رکھتے ہیں اس کے بدلے میں آپ اتنا روپیہ لے لیں جب دونوں حضرات راضی ہو جائیں تو لینا دینا جائز ہے جیسا کہ حضرت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : پڑھوانے والے پڑھنے والوں سے بہ تعیین وقت و اجرت ان سے مطلق کارِ خدمت پر پڑھنے والوں کو اجارے میں لے لیں مثلاً یہ ان سے کہیں ہم نے کل صبح سات بجے سے بارہ بجے تک (جو وقت محفل کروانی ہو) بعوض ایک روپیہ کے (جو بھی روپیہ مقرر کرنا چاہیں) اپنے کام کاج کےلیے اجارہ میں لیا وہ کہیں ہم نے قبول کیا اب یہ پڑھنے والے اتنے گھنٹوں کےلیے ان کے نوکر ہو گئے وہ جو کام چاہیں لیں اس اجارہ کے بعد وہ ان سے کہیں اتنے پارے کلام اللہ شریف کے پڑھ کر ثواب فلاں کو بخش دو یا مجلسِ میلاد مبارک پڑھ دو یہ جائز ہوگا اور لینا دینا حلال ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ١٩ صفحہ ٤٨٨) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment