Wednesday 13 September 2023

ماہِ صفر المظفر اور صفر المظفر کا آخری بدھ منانا

0 comments
ماہِ صفر المظفر اور صفر المظفر کا آخری بدھ منانا
محترم قارئینِ کرام : اسلامی سال کے دوسرے مہینے کا نام ’’صفر المظفر‘‘ ہے ۔ یہ صفر بالکسر سے ماخوذ ہے ، جس کا معنی خالی ہے ۔ حرمت والے چار مہینوں میں جنگ کرنا اہلِ عرب کے نزدیک حرام تھا ، اس لیے ذوالقعدہ ، ذوالحجہ اور محرم الحرام میں باشندگانِ عرب گھروں میں بیٹھتے یا سفر حج اختیار کرتے ، اور جب ماہِ صفر شروع ہوتا تو رُکے ہوئے تنازعات ’’از سرِنو جدال و قتال ‘‘ میں مصروف عمل ہوجاتے ، پھر گھروں کو خالی چھوڑتے اور میدانِ جنگ کا رخ کرتے اس لیے اس ماہ کو صفر کہتے ہیں ۔

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم لَا عَدْوٰی وَلَا ھَامَۃَ وَلَا نَوْءَ وَلَا صَفَرَ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ نہ متعدی بیماری ہے اور نہ ہامہ اور نہ منزل قمر اور نہ صفر ۔ (مسلم شریف جلد دوم صفحہ ۲۳۱،چشتی)(جامع صغیر جلد دوم صفحہ ۸۸۵)

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم لَا عَدْوٰی وَلَا طِیَرۃَ وَ اُحِبُّ الْفَالَ الصَّالِحَ ۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ، بیماری کا لگنا اور بدشگونی کوئی چیز نہیں فالِ بد کچھ نہیں البتہ نیک فال مجھے پسند ہے ۔ (مسلم شریف جلد دوم صفحہ ۲۳۱)

حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ، وَیُعْجِبْنِیُ الْفَأْلُ الْکَلِّمَۃُ الْحَسَنَۃَ و الْکَلِمَۃُ الطَّیِّبَۃُ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ’’فال‘‘ سے متعلق فرمایا ، اور مجھے اچھا شگون (فال) پسند ہے یعنی نیک کلمہ ، اچھا کلمہ ۔ (صحیح مسلم مطبوعہ اصح المطابع، جلد دوم، صفحہ ۲۳۱)

کوئی مہینہ منحوس نہیں ہوتا

عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم قَالَ الشُّوْمُ فِیْ الدَّارِ وَالْمَرْ أَۃِ وَالْفَرَسِ ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ، نحوست تین چیزوں میں ہوتی ہے ، گھر ، عورت اور گھوڑے میں ۔ ( مسلم جلد دوم صفحہ ۲۳۲)

عَنْ اِبْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِنْ یَّکُنْ مِّنَ الشُّوْمِ شَیْءٌ حَقٌّ فَفِی الْفَرَسِ وَالْمَرْأَۃِ وَ الدَّارِ ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ، اگر بدشگونی کسی چیز میں ہو تو گھوڑے ، عورت اور گھر میں ہوگی ۔ (مسلم جلد دوم صفحہ ۲۳۲،چشتی)

عَنْ جَابِرِ عَنْ رَّسُوْلِ اللہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم قَالَ اِنْ کَانَ فِیْ شَیْئٍ فَفِیْ الرُّبْعِ وَالْخَادِمِ وَ الفَرَوسِ ۔
ترجمہ : حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ، اگر کچھ نحوست ہو تو زمین اور غلام اور گھوڑے میں ہوگی ۔ (مسلم جلد دوم صفحہ ۲۳۲)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے فرماتے ہیں کہ : ان احادیثِ مبارکہ کی شرح میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ کبھی گھر کو اللہ تعالیٰ ہلاکت کا سبب بنا دیتا ہے یا اسی طرح کسی عورت یا گھوڑے یا غلام کو اور مطلب یہ ہے کہ کبھی نحوست ان چیزوں سے ہو جاتی ہے ۔ اور امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ و دیگر بہت سے علما نے کہا کہ یہ بطور استثناء کے ہے یعنی شگون لینا منع ہے مگر جب کوئی گھر میں رہنا پسند نہ کرے یا عورت سے صحبت کو مکروہ جانے یا گھوڑے یا خادم کو بُرا سمجھے تو ان کو نکال ڈالے بیع اور طلاق سے ۔ (شرح صحیح مسلم النووی)

گھوڑے سے مراد ’’سواری‘‘ (کار /بس وغیرہ) ہے اور غلام سے مراد نوکر چاکر ہیں ۔

نُحوست کے وہمی تصورات کے شکار لوگ ماہِ صفر کو مصیبتوں اور آفتوں کے اُترنے کا مہینہ سمجھتے ہیں خصوصاً اس کی ابتدائی تیرہ تاریخیں جنہیں ’’تیرہ تیزی‘‘ کہا جاتا ہے بہت منحوس تصوُّر کی جاتی ہیں ۔ وہمی لوگوں کا یہ ذہن بنا ہوتا ہے کہ صفر کے مہینے میں نیا کاروبار شروع نہیں کرنا چاہیے نقصان کا خطرہ ہے ، سفر کرنے سے بچنا چاہیے ایکسیڈنٹ کا اندیشہ ہے ، شادیاں نہ کریں ، بچیوں کی رخصتی نہ کریں گھر برباد ہونے کا امکان ہے ، ایسے لوگ بڑا کاروباری لین دین نہیں کرتے ، گھر سے باہر آمد و رفت میں کمی کر دیتے ہیں ، اس گمان کے ساتھ کہ آفات نازل ہو رہی ہیں اپنے گھر کے ایک ایک برتن کو اور سامان کو خوب جھاڑتے ہیں ، اسی طرح اگر کسی کے گھر میں اس ماہ میں میت ہو جائے تو اسے منحوس سمجھتے ہیں اور اگر اس گھرانے میں اپنے لڑکے یا لڑکی کی نسبت طے ہوئی ہو تو اس کو توڑ دیتے ہیں ۔ تیرہ تیزی کے عنوان سے سفید چنے (کابلی چنے) کی نیاز بھی دی جاتی ہے ۔ نیاز فاتحہ کرنا مُسْتَحَب و باعثِ ثواب ہے اور ہر طرح کے رزقِ حلال پر ہر ماہ کی ہر تاریخ کو دی جا سکتی ہے لیکن یہ سمجھنا کہ اگر تیرہ تیزی کی فاتحہ نہ دی اور سفید چنے پکا کر تقسیم نہ کیے تو گھر کے کمانے والے افراد کا روزگار متاثر ہو گا ، یہ بے بنیاد خیالات ہیں ۔

عربوں میں ماہِ صفر کو منحوس سمجھا جاتا تھا

دورِ جاہلیت (یعنی اسلام سے پہلے) میں بھی ماہِ صفر کے بارے میں لوگ اسی قسم کے وہمی خیالات رکھا کرتے تھے کہ اس مہینے میں مصیبتیں اور آفتیں بہت ہوتی ہیں ، چنانچہ وہ لوگ ماہِ صفر کے آنے کو منحوس خیال کیا کرتے تھے ۔ (عمدۃ القاری ،۷/۱۱۰)

عرب لوگ حُرمت کی وجہ سے چار ماہ رجب ، ذُوالقعدۃ ، ذُوالحجہ اور مُحرَّم میں جنگ و جَدَل اور لُوٹ مار سے باز رہتے اور انتظار کرتے کہ یہ پابندیاں خَتْم ہوں تو وہ نکلیں اور لوٹ مار کریں لہٰذا صفر شروع ہوتے ہی وہ لوٹ مار، رہزنی اورجنگ و جدل کے ارادے سے جب گھروں سے نکلتے تو ان کے گھر خالی رہ جاتے ، اسی وجہ سے کہا جاتا ہے : صَفَر الْمَکَان (مکان خالی ہو گیا) ۔ جب عربوں نے دیکھا کہ اس مہینے میں لوگ قتل ہوتے ہیں اور گھر برباد یا خالی ہو جاتے ہیں تو انہوں نے اس سے یہ شگون لیا کہ یہ مہینہ ہمارے لیے منحوس ہے اور گھروں کی بربادی اور ویرانی کی اصل وجہ پر غور نہیں کیا ، نہ اپنے عمل کی خرابی کا احساس کیا اور نہ ہی لڑائی جھگڑے اور جنگ و جدال سے خود کو باز رکھا بلکہ اس مہینے کو ہی منحوس ٹھہرا د یا ۔

صفر کچھ نہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جاہلیت کے عقائد باطلہ کی تردید فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا : لَا عَدْوَی وَلَا طِيَرَۃَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ ۔
ترجمہ : کوئی بیماری متعدّی نہیں ہوتی‘بدشگونی جائز نہیں‘ الّو اور صفر کے مہینہ میں کوئی نحوست نہیں ۔ (صحیح البخاری ،کتاب الطب، باب الجذام ، حدیث نمبر:5707)(زجاجۃ المصابیح ،باب الفال والطیرۃ جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 446،چشتی)

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم لَا عَدْوٰی وَلَا ھَامَۃَ وَلَا نَوْءَ وَلَا صَفَرَ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ نہ متعدی بیماری ہے اور نہ ہامہ اور نہ منزل قمر اور نہ صفر ۔ (مسلم شریف جلد دوم صفحہ ۲۳۱، جامع صغیر جلد دوم صفحہ)

حضرت شیخ عبد الحق محدث ِدہلوی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : عوام اسے (یعنی صفر کے مہینے کو) بلاؤں ، حادثوں اور آفتوں کے نازل ہونے کا وَقْت قرار دیتے ہیں ، یہ عقیدہ باطِل ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ (اشعۃ اللمعات فارسی جلد ۳ صفحہ ۶۶۴)

صَدرُ الشَّریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ماہِ صفر کو لوگ منحوس جانتے ہیں اس میں شادی بیاہ نہیں کرتے لڑکیوں کو رخصت نہیں کرتے اور بھی اس قسم کے کام کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں ، خصوصاً ماہِ صفر کی ابتدائی تیرہ تاریخیں بہت زیادہ نحس (یعنی نُحوست والی) مانی جاتی ہیں اور ان کو تیرہ تیزی کہتے ہیں یہ سب جہالت کی باتیں ہیں ۔ حدیث میں فرمایا کہ ’’صفر کوئی چیز نہیں‘‘ یعنی لوگوں کا اسے منحوس سمجھنا غَلَط ہے ۔ اسی طرح ذیقعدہ کے مہینہ کو بھی بہت لوگ بُرا جانتے ہیں اور اس کو خالی کا مہینہ کہتے ہیں یہ بھی غَلَط ہے اور ہر ماہ میں 3 ، 13، 23 ، 8 ، 18 ، 28 (تاریخیوں) کو منحوس جانتے ہیں یہ بھی لَغْو (یعنی بے کار) بات ہے ۔ (بہارِ شریعت جلد ۳ صفحہ ۶۵۹)

کوئی دن منحوس نہیں ہوتا

علامہ سید محمد امین بن عمر بن عبد العزیز شامی رحمۃ اللہ علیہ السّامی لکھتے ہیں : علامہ حامد آفندی رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کیا بعض دن منحوس یا مبارک ہوتے ہیں جو سفر اور دیگر کام کی صلاحیت نہیں رکھتے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ جو شخص یہ سوال کرے کہ کیا بعض دن منحوس ہوتے ہیں اس کے جواب سے اِعراض کیا جائے اور اس کے فعل کو جہالت کہا جائے اور اس کی مذمت بیان کی جائے ، ایسا سمجھنا یہود کا طریقہ ہے ، مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہے جو اللہ تعالی پر توکُّل کرتے ہیں ۔ (تنقیح الفتاوی الحامدیہ جلد ۲ صفحہ ۳۶۷،چشتی)

محترم قارئینِ کرام : کوئی وَقْت بَرَکت والا اور عظمت و فضیلت والا تو ہو سکتا ہے جیسے ماہِ رمضان ، ربیع الاول ، جمعۃ المبارک وغیرہ مگر کوئی مہینہ یا دن منحوس نہیں ہو سکتا ۔ مراٰۃُ المناجیح میں ہے : اسلام میں کوئی دن یا کوئی ساعت منحوس نہیں ہاں بعض دن بابرکت ہیں ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد ۵ صفحہ ۴۸۴)

تفسیر رُوح البیان میں ہے : صفر وغیرہ کسی مہینے یا مخصوص وَقْت کو منحوس سمجھنا دُرُست نہیں ، تمام اوقات اللہ عزوجل کے بنائے ہوئے ہیں اور ان میں انسانوں کے اعمال واقع ہوتے ہیں ۔ جس وَقْت میں بندۂ مومن اللہ عزوجل کی اطاعت و بندگی میں مشغول ہو وہ وَقْت مبارک ہے اور جس وَقْت میں اللہ عزوجل کی نافرمانی کرے وہ وَقْت اس کےلیے منحوس ہے ۔ درحقیقت اصل نُحوست تو گناہوں میں ہے ۔ (تفسیر روح البیان جلد ۳ صفحہ ۴۲۸)

ماہِ صفر بھی دیگر مہینوں کی طرح ایک مہینہ ہے جس طرح دوسرے مہینوں میں رب عزوجل کے فضل و کرم کی بارشیں ہوتی ہیں اس میں بھی ہو سکتی ہیں ، اسے تو صَفَرُ الْمُظَفَّر کہا جاتا ہے یعنی کامیابی کا مہینہ ، یہ کیونکر منحوس ہو سکتا ہے ؟ اب اگر کوئی شخص اس مہینہ میں احکامِ شرع کا پابند رہا ، نیکیاں کرتا اور گناہوں سے بچتا رہا تو یہ مہینہ یقیناً اس کےلیے مبارک ہے اور اگر کسی بَدکردار نے یہ مہینہ بھی گناہوں میں گزارا ، جائز نا جائز اور حرام حلال کا خیال نہ رکھا تو اس کی بربادی کےلیے گناہوں کی نُحوست ہی کافی ہے ۔ اب ماہِ صفر ہو یا کسی بھی مہینے کا سیکنڈ ، منٹ یا گھنٹہ ! اگر اُسے کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ اس کی شامتِ اعمال کا نتیجہ ہے ۔

صفر المظفر کا آخری بدھ منانا

صفر کے آخری بدھ کی کوئی اصل نہیں اور نہ ہی اس دن سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحت یابی کا کوئی ثبوت ہے ، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مرض اقدس جس میں وفات ہوئی ، اس کی ابتداء اسی دن سے بتائی جاتی ہے ، لہٰذا لوگوں کا یہ اعتقاد اور اس کی بناء پر عمدہ کھانے و چُوری بنانا اور خوشیاں منانا بے اصل ہے ۔

حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ صفر کے اخیر چہار شنبہ کے متعلق عوام میں مشہور ہے کہ اس روز حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مرض سے صحت پائی تھی ۔ بنابر اس کے اس روز کھانا اور شیرینی وغیرہ تقسیم کرتے ہیں اور جنگل کی سیر کو جاتے ہیں ۔ یہ جملہ امور بربنائے صحت یا بی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عمل میں لائے جاتے ہیں ، لہٰذا اصل اس کی شرع میں ثابت ہے کہ نہیں ؟ اور فاعل عامل اس کا بربنائے ثبوت یاعدم ثبوت گرفتار معصیت ہوگا یا قابل ملامت و تادیب ؟
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواباً ارشاد فرمایا : آخری چہار شنبہ کی کوئی اصل نہیں، نہ اس دن صحت یابی حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کوئی ثبوت بلکہ مرضِ اقدس جس میں وفات مبارک ہوئی اس کی ابتداء اسی دن سے بتائی جاتی ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد 23 صفحہ 271 رضا فاؤنڈیشن لاھور)

صَدرُ الشَّریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ماہ صفر کا آخر چہار شنبہ ہندوستان میں بہت منایا جاتا ہے، لوگ اپنے کاروبار بند کردیتے ہیں ، سیر و تفریح و شکار کو جاتے ہیں ، پوریاں پکتی ہیں اور نہاتے دھوتے ، خوشیاں مناتے ہیں اور کہتے یہ ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس روز غسل صحت فرمایا تھا اور بیرون مدینہ طیبہ سیر کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ یہ سب باتیں بے اصل ہیں ، بلکہ ان دنوں میں حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا مرض شدت کے ساتھ تھا، وہ باتیں خلاف واقع ہیں ۔ (بہار شریعت جلد 3 حصہ 16 صفحہ 659 مکتبۃ المدینہ کراچی،چشتی)

چہار شنبہ منحوس نہیں بلکہ نور کی پیدائش کا دن : یہ حقیقت ہے کہ ایک دن دوسرے دن پر فضیلت و برتری رکھتا ہے ، ایک وقت دوسرے وقت کی بہ نسبت زیادہ برکت و رحمت والا ہوتا ہے ، لیکن فی نفسہ کسی وقت یا دن میں نحوست کا تصور غیر اسلامی نظریہ ہے ، جہاں تک چہارشنبہ کی بات ہے توصحیح حدیث پاک میں اس کی فضیلت آئی ہے ، صحیح مسلم اور مسند امام احمد وغیرہ میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے تفصیلی روایت مذکور ہے : عَنْ أَبِی هُرَيْرَةَ قَالَ أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله عليه وسلم بِيَدِی فَقَالَ : خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ التُّرْبَةَ يَوْمَ السَّبْتِ ۔ وَخَلَقَ النُّورَ يَوْمَ الأَرْبِعَاءِ ۔
ترجمہ : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ہفتہ کے دن مٹی کو پیدا فرمایا ۔ اور نور کو چہارشنبہ کے دن پیدا فرمایا ۔ (صحیح مسلم کتاب صفۃ المنافقین واحکامہم، باب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار جلد 2 صفحہ 371حدیث نمبر:7231)(مسند امام احمد، مسند أبی ہریرۃ ، حدیث نمبر:8563)(السنن الکبری للبیھقی جلد 9 صفحہ 3 )(السنن الکبری للنسائی حدیث نمبر :11010،چشتی)(المعجم الاوسط للطبرانی باب الباء من اسمہ بکر حدیث نمبر : 3360)

مذکورہ حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ چہارشنبہ وہ مبارک و مقدس دن ہے جس میں نور کی پیدائش ہوئی لہٰذا یہ تصور غیر درست ہے کہ اس میں کوئی بڑا اور اہم کام نہیں کرنا چاہیے ۔ بلکہ اس دن کوئی بھی خوشی والا جائز کام انجام دینا ان شاء اللہ تعالی بابرکت ہی ہوگا ۔

امام سخاوی علیہ الرحمہ نے مقاصد حسنہ میں لکھا ہے : ذکر برهان الإسلام فی کتابه ( تعليم المتعلم ) عن شيخه المرغينانی صاحب الهداية فی فقه الحنفية انه کان يوقف بداية السبق علي يوم الاربعاء وکان يروی فی ذلک بحفظه ويقول قال رسول الله صلی الله عليه وسلم : ( ما من شیء بدء به يوم الاربعاء إلا وقد تم) ۔
ترجمہ : برہان الاسلام نے اپنی کتاب " تعلیم المتعلم " میں ذکر کیا ، وہ اپنے استاذ گرامی صاحب ہدایہ علامہ مرغیناٸی رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ بیان کرتے ہیں کہ آپ چہارشنبہ کے دن سبق کے آغاز کا اہتمام کیا کرتے اور اس سلسلہ میں یہ حدیث پاک روایت فرمایا کرتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشادفرمایا : چہار شنبہ کے دن جس چیز کابھی آغاز کیا جائے وہ پایۂ تکمیل کو پہنچتی ہے ۔ (المقاصد الحسنۃ حرف المیم)

حضرت علامہ سید عبداللہ شاہ صاحب نقشبندی مجددی قادری محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ زجاجۃ المصابیح کے حاشیہ میں فرماتے ہیں : قوله ولا صفر قال ابوداؤد في سننه قال بقية : سألت محمد بن راشد عنه قال کانوا يتشاء مون بدخول صفر . فقال النبی صلي الله عليه وسلم : لا صفر . وقال القاضى هو ان يکون نفيا لما يتوهم ان شهر صفر تکثر فيه الدواهی والفتن ۔
ترجمہ : امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سنن میں بیان کیا کہ محدث بقیہ نے اس حدیث شریف کے بارے میں اپنے استاذ محمد بن راشد سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا : جاہلیت میں لوگ ماہِ صفر کی آمد کو منحوس سمجھتے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس حقیقت کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ماہ صفر منحوس نہیں ہے ۔ علامہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : اس حدیث شریف سے اس وہم کی نفی ہو جاتی ہے جو ماہِ صفر سے متعلق کیا جاتا ہے کہ اس میں آفات و بلیات بکثرت نازل ہوا کرتی ہیں ۔ (حاشیۃ زجاجۃ المصابیح جلد 3 کتاب الطب والرقی باب الفال والطیرۃ صفحہ 447)

مذکورۂ بالا احادیثِ مبارکہ اور دلائل کی روشنی میں واضح ہو جاتا ہے کہ صفر کے مہینہ کو منحوس سمجھنا غیر اسلامی ہے ، اس مہینہ میں شادی بیاہ سے گریز کرنا اور خوشی و مسرت کی تقاریب کے انعقاد کو نا مناسب سمجھنا یہ سب بے جا امور ہیں اور جاہلیت کے باطل توہمات کی پیداوار ہیں ؛ جن کی دینِ اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ، ماہِ صفر کی تاریخی حیثیت بھی اگر دیکھی جائے تو ایک روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت خاتون جنت رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے اسی ماہ مبارک میں کروایا تھا ‘ گو کہ معروف روایت ماہِ شوال کی ہے ، ماہ صفر میں نکاح کے متعلق روایت ہے : قال جعفر بن محمد تزوج علی فاطمة رضی الله عنهما فی شهر صفر فی السنة الثانية وبنی بها فی شهر ذی القعدة علی رأس اثنين وعشرين شهرا من الهجرة ۔
ترجمہ : حضرت جعفر بن محمد رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم نے حضرت فاطمۃ الزہرا ء رضی اللہ عنہا سے دو ہجری صفر کے مہینہ میں عقد فرمایا اور آپ کی رخصتی ہجرت کے بعد بائیس مہینے کے اوائل ذوالقعدہ کے مہینہ میں ہوئی ۔ (سبل الہدی والرشاد جلد 12 صفحہ 469)

بعض لوگ ماہِ صفر میں کسی اہم کام کےلیے سفر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتے ‘ جبکہ نبی کریم کرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہجرت کے موقع پر مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کی جانب سفر کا آغاز ایک روایت کے مطابق ماہِ صفر کے آخر میں فرمایا تھا ۔ (شرح الزرقانی علی المواھب جلد 2 صفحہ 102)

ماہِ صفر کامیابی والا مہینہ

ہجرت کا یہ سفر مقدس دینِ اسلام کی غیر معمولی ترقی اور مسلمانوں کی خوشحالی ‘ فتح و نصرت کاباعث ثابت ہوا ۔ رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہی وہ سفر تھا جو اپنے اندر فتح مکہ کی عظمتوں کو لیے ہوئے تھا ‘ گویا ماہِ صفر میں ہجرت کرنا اتمامِ شریعت کا ذریعہ اور فروغِ اسلام کا وسیلہ قرار پایا ، یہ مہینہ بلاؤں کے نازل ہونے کا نہیں بلکہ مصائب و مشکلات کے دفع ہونے کا سبب بنا ۔ اسی وجہ سے ہمارے عرف میں ماہِ صفر کو "صفرالمظفر" کہتے ہیں ‘ جس کے معنٰی " ظفریابی ‘ فتح و نصرت والے" کے ہیں ۔

مسلمانو ں کو ایسی بد شگونی سے قطعی طور پر پرہیز کرنا چاہیے ، اور اسی طرح تیرہ تیزی کے نام سے انڈے اور تیل وغیرہ سرہانے رکھنا بھی لغو کام ہے ، ان امور سے بھی احتیاط ضروری ہے ۔ قطع نظر اس کے رضائے الٰہی کی خاطر فقراء و مساکین پر صدقہ و خیرات کرنا دیگر مہینوں کی طرح اس ماہ میں بھی جائز و مُستحسن ہے ۔

معاشرہ میں یہ تصور بھی عام ہے کہ ماہِ صفر کے آخری چہار شنبہ کو سیر و سیاحت کا اہتمام کیا جائے ، اس دن تفریح کےلیے روانہ ہوں اور گھانس ‘ سبزہ وغیرہ پر چہل قدمی ہو ۔ اگر یہ چہل قدمی اس تصور کی ساتھ کی جائے کہ بلا اور وبا سے حفاظت ہو جاتی ہے اور مصائب دفع ہو جاتے ہیں تو اس کا اسلامی کتب سے کوئی ثبوت نہیں ملتا ، اگر کوئی اسی پر اصرار کرے تو عرض کیا جائے گا : اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ آخری چہار شنبہ کو بلائیں زیادہ نازل ہوتی ہیں ‘ تو ایسی صورت میں سیر و تفریح نہیں بلکہ عبادت و ریاضت کی جانی چاہیے ، نیکی و بھلائی کی فکر کرنی چاہیے اور صدقہ و خیرات کرنا چاہیے ، کیونکہ اس سے غضبِ الٰہی دور ہو جاتا ہے اور رضاۓ الہی کے آثار نمودار ہوتے ہیں ، جیسا کہ جامع ترمذی شریف میں حدیث پاک ہے : عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِئیُ غَضَبَ الرَّبِّ وَتَدْفَعُ مِيتَةَ السُّوءِ ۔
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ‘ انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یقیناً صدقہ اور نیکی پروردگار کے غضب کی آگ کو ٹھنڈا کرتی ہے اور بری موت کو دفع کرتی ہے ۔ (جامع الترمذی باب فضل الصدقۃ حدیث نمبر :666،چشتی)(شعب الایمان للبیہقی الصدقۃ تطفیٔ غضب الرب حدیث نمبر : 3202)

صفر کے مہینہ میں یہ دعاء پڑھیں

جب بھی کوئی شخص مصیبت سے دوچار ہو تو اسے اپنے عمل کا جائزہ لینا چاہیے ، اپنے اعمال میں جہاں کوتاہی واقع ہوئی ہے اس کی اصلاح کرنی چاہیے ، جہاں لغزش ہوئی ہے اسے سدھارنا چاہیے ، توبہ کرکے اللہ تعالیٰ سے رجوع ہونا چاہیے کیونکہ اپنے برے اعمال ہی تمام تر نحوستوں کا باعث ہوتے ہیں ۔ نیک و صالح بندہ کو بھی زندگی میں مختلف قسم کے مصائب و آلام سے گزرنا پڑتا ہے اور یہ اللہ تعالی کی طرف سے اس کےلیے امتحان ہوتا ہے ، جو لوگ مصائب و آلام کا صبر و استقامت کے ذریعہ مقابلہ کرتے ہیں وہ اس امتحان میں کامیاب ہیں ، جن کے قدم آفات و بلیات کی وجہ سے نہیں لڑکھڑا تے اللہ کی نصرت و حمایت ان کے ساتھ ہے ۔ زجاجۃ المصابیح میں سنن ابوداؤد شریف کے حوالہ سے حدیث پاک منقول ہے : عَنْ عُرْوَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ ذُکِرَتِ الطِّيَرَةُ عِنْدَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فَقَالَ أَحْسَنُهَا الْفَأْلُ وَلاَ تَرُدُّ مُسْلِمًا فَإِذَا رَأَی أَحَدُکُمْ مَا يَکْرَهُ فَلْيَقُلِ اللَّهُمَّ لاَ يَأْتِی بِالْحَسَنَاتِ إِلاَّ أَنْتَ وَلاَ يَدْفَعُ السَّيِّئَاتِ إِلاَّ أَنْتَ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاًّبِاللّٰه ۔
ترجمہ : سیدنا عروه بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں بدشگونی کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اچھا شگون ، فالِ نیک ہے اور بد شگونی کسی مسلمان کے کام میں رکاوٹ نہیں بنتی ، پس جب تم میں سے کوئی ایسی چیز دیکھے جسے وہ ناپسند کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ یہ دعاء پڑھے : اللَّهُمَّ لاَ يَأْتِی بِالْحَسَنَاتِ إِلاَّ أَنْتَ وَلاَ يَدْفَعُ السَّيِّئَاتِ إِلاَّ أَنْتَ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاًّبِاللّٰه ۔
ترجمہ : اے اللہ ہر قسم کی بھلائیوں کو لانے والا تو ہی ہے اور تمام قسم کی برائیوں کو دفع کرنے والا بھی توہی ہے ، نہ برائی سے بچنے کی کوئی طاقت ہے اورنہ نیکی کرنے کی کوئی قوت ہے ، مگر اللہ ہی کی مدد سے ۔ (زجاجۃ المصابیح جلد 3 صفحہ 445)(سنن ابی داود باب فی الطیرۃ حدیث نمبر : 3921)

استغفار ‘ تمام پریشانیوں کا حل

اگر ہم مسلمان اپنے دل میں خدا کا خوف بٹھائے رکھیں ، اس کے فضل و کرم کے امیدوار بنے رہیں اور اپنے حال زار پر ندامت کے آنسو بہائیں تو ضرور ہماری زندگی میں برکت رکھ دی جائے گی اور ہمارے درمیان سے رنج و غم ، درد و الم دور کر دیا جائے گا اور حزن و ملال ختم کر دیا جائے گا ۔ اس سلسلہ میں امام رازی علیہ الرحمہ کی تفسیر کبیر کے حوالہ سے ایک نصیحت آموز واقعہ بیان کیا جاتا ہے جو ہمارے لیے نہایت ہی قیمتی اور نفع بخش ہے : وعن الحسن : ان رجلا شکا اليه الجدب ، فقال ، استغفرالله ، وشکااليه آخرالفقر، وآخرقلة النسل،وآخر قلة ريع ارضه ، فامرهم کلهم بالاستغفار ، فقال له بعض القوم : اتاک رجال يشکون اليک انواعا من الحاجة ، فامرتهم کلهم بالاستغفار؟ فتلا له الاية : فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ إِنَّهُ کَانَ غَفَّارًا يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْکُمْ مِدْرَارًا وَيُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَکُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَکُمْ أَنْهَارًا ۔
ترجمہ : حضرت امام حسن بصری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہو کر قحط سالی سے متعلق فریاد کی تو آپ نے اسے استغفار کرنے کا حکم دیا ، کسی دوسرے شخص نے اپنا فقر و فاقہ اور تنگدستی کا حال بیان کیا ، اسی طرح کسی اور شخص نے اولاد نہ ہونے پر اپنی پریشانی ظاہر کی اور کسی نے اپنے باغ و بہار میں پھل و پھول اور تازگی سے متعلق آپ کی خدمت میں معروضہ کیا اور سبہوں کو امام حسن بصری رضی اللہ عنہ نے استغفار کی تلقین کی ، خدائے تعالی سے معافی طلب کرنے اور بخشش کی دعا مانگنے کا حکم دیا ، لوگوں کو اس پر تعجب ہوا ، عرض کرنے لگے : آپ کی خدمت میں لوگ الگ الگ معروضے لے کر حاضر ہوئے اور تمام افراد کو آپ نے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنے کی تلقین فرمائی ، تو آپ نے جواب ارشاد فرماتے ہوئے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی : ترجمہ : تو میں نے کہا : تم اپنے پروردگار سے بخشش طلب کرو ! بیشک وہ خوب مغفرت فرمانے والا ہے ، وہ تم پر موسلادھار بارش کا نزول فرمائے گا اور مال و دولت اور اولاد کے ذریعہ تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہارے لیے باغات بنادے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری فرمادے گا ۔ (تفسیر کبیر سورۃ النوح ۔10/11/12)

ذکر الہی سے معمور ہر لمحہ سعادت مند

حضرت امام حسن بصری رضی اللہ عنہ نے تمام لوگوں کی پریشانیوں کا حل استغفار الٰہی قرار دیا اور امت کو بارگاہ الہی کی طرف رجوع ہونے کی تعلیم فرمائی ۔ آج ہمیں اسی فکر کو اپنانے کی ضرورت ہے کہ ہمارے لیل و نہار ذکر الہی میں گذرتے رہیں ، ہم شریعت کی پابندی کریں اور قرآن کریم و حدیث شریف پر عمل پیرا رہیں ، اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہیں ، وقت کی قدر کریں ، اپنے لمحات کو غفلت میں نہ گذاریں ، کیونکہ نحوست ہماری زندگی میں اسی وقت آ سکتی ہے جب ہم اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یاد اور ان کی اطاعت و پیروی سے غافل رہیں ۔ سورۂ توبہ کی آیت نمبر 37 کے تحت تفسیر روح البیان میں مذکور ہے : فکل زمان اشتغل فيه المؤمن بطاعة الله فهو زمان مبارک وکل زمان اشتغل فيه بمعصية الله فهو مشؤم عليه فالشؤم فی الحقيقة هو المعصية ۔
ترجمہ : ہر وہ لمحہ جس میں بندۂ مومن اطاعت الٰہی میں مصروف رہا ہے ، وہ اس کے حق میں برکت والا اور سعادت مندی کا باعث ہے اور ہر وہ لمحہ جس میں وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مشغول رہا ہے ؛ وہ اس کے حق میں بے برکت ہے ، دراصل نحوست وبے برکتی گناہ کے ارتکاب میں ہے ۔ یقیناً جس وقت کو ہم نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں گزارا وہ وقت ہمارے لیے برکت والا ہے ، جس لمحہ کو ہم نے سنتوں پر عمل کرنے میں بسر کیا وہ لمحہ ہمارے لیے سعادت والا ہے ، جس گھڑی کو ہم نے اسلامی احکام پر عمل کرتے ہوئے بیتایا وہ گھڑی ہمارے لیے باعث رحمت ہے ۔ اللہ تعالی ہمارے قلوب میں حسنِ عقیدہ کو جاگزیں فرمائے ، عملِ صالح کی دولت نصیب فرمائے ‘ اور تعلیماتِ کتاب و سنت پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔