Saturday 2 September 2023

شطحياتِ صوفياء کرام علیہم الرّحمہ کا شرعی حکم

0 comments
شطحياتِ صوفياء کرام علیہم الرّحمہ کا شرعی حکم
محترم قارئینِ کرام : اس مضمون کے لکھنے کا سبب یہ بنا کہ فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے سوشل میڈیا پر جاہل سے جاہل آدمی کو دیکھا کہ وہ بعض صوفیاء کرام علیہم الرّحمہ کی شطحیات کی آڑ لے کر اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کی توہین کرتا ہے اور گھٹیا بازاری زبان ان نفوس قدسیہ کے متعلق استعمال کرتا ہے اللہ ایسے جہلاء کو ہدایت عطاء فرمائے آمین ، سر دست اس موضوع پر یہ مختصر مضمون حاضر ہے ۔ اسے پڑھیں اور اولیائے کرام علیہم الرّحمہ کی بے ادبی اور بے ادبوں سے بچیں ۔

صوفياء كرام علیہم الرّحمہ جو ہميشہ شريعت كی اتباع كا حكم فرماتے رہے ہیں ان كي زندگی ميں كبھی ايسے مواقع بهی آئے کہ ان سے چند ايسے جملے صادر ہوتے ہیں جن ميں بظاہر خدائي يا ظاہراً شريعت كي مخالفت كا دعویٰ نظر آتا ہے : صوفیاء کرام علیہم الرّحمہ کے یہاں ایک باب ہے جس کو شطحیات کہتے ہیں ۔ شطحیات شطحی یا شطح کی جمع ہے ۔ اصطلاح صوفیاء علیہم الرّحمہ میں شطح کی تعریف یہ ہے کہ جو بات غلبہ حال اور غلبہ وارد کی وجہ سے بے اختیار زبان سے نکل جائے اور بظاہر قواعد شریعت کے خلاف معلوم ہوتی ہو اس کو شطح کہتے ہیں ۔ ایسے شخص پر نہ کوئی گناہ ہے اور نہ دوسروں کو اس کی تقلید جائز ہے ۔

شطحیات بزرگان دین علیہم الرّحمہ کے ایسے اقوال وافعال کو کہتے ہیں جوان سے بے خودی میں صادر ہوجائیں اورجو شریعت کے خلاف ہوں ۔ اس بارے میں علما کا موقف یہ رہاہے کہ جن کی پوری زندگی شریعت مطہرہ پر عمل میں گذری ہو اورجن کا علم وفضل امت کے درمیان مشہور ومعروف ہواگران سے کچھ ایسے کلمات کا صدور ہوتا ہے جو کہ خلاف شریعت ہیں یا بظاہر خلاف شریعت معلوم ہوتے ہیں توان کی تاویل کی جائے گی اگرممکن ہو ، اوراگریہ ممکن نہ ہوتو پھراس کے معنی ومفہوم کو اللہ کے سپرد کر دیا جائے گا اوراس بارے مین ان کو معذور سمجھا جائے گا اوراس غلطی میں نہ ان کی پیروی کی جائے گی اورنہ ان کی تضلیل وتفسیق کی جائے گی ۔

خود حضرات صوفیاء نے اس کی تصریح فرما دی ہے کہ ان شطحیات پر کسی کو عمل پیرا ہونا جائز نہیں بلکہ جس شخص پر یہ احوال نہ گزرے ہوں وہ ہماری کتابوں کا مطالعہ بھی نہ کرے تاکہ فتنہ میں مبتلا نہ ہو۔

(1) ياد ركھيں كہ ایسے جملے ان برگزيده صوفياء كرام علیہم الرّحمہ نے فرمائے بهي تهے یا صرف ان كي طرف منسوب ہيں ؟ اس ميں علماء ومؤرخين كا شديد اختلاف ہے اور اكثر كا فرمانا يهي ہے کہ ايسے برگزيده اولياء علیہم الرّحمہ سے پہلی بات تو يہ ہے ايسے جملے صحيح و درست طريقے سے ثابت ہي نہيں بلكہ اس ميں يه گمان غالب ہے کہ يه اقوال انكے نہیں تهے ۔

اب عقلمند انسان كسي غير ثابت شده چيز پر كس طرح اعتماد كرسكتا ہے ۔

(2) علماء کرام فرماتے ہیں کہ : اگر مان بهي ليا جائے کہ یہ جملے ان سے صادر ہوئے تهے تو اصل بات يہ ہے کہ ان جملوں كو سننے ميں ناقلين كو غلطي ہوئي مثلا حضرت منصور حلاج علیہم الرّحمہ نے أنا الحق ( مين اللہ ہوں) نہیں فرمايا تها بلكہ ( أنا الأحق) (ميں رب كے قرب كا زياده حقدار ہوں ) فرمايا تها اب ناقلين نے غلطي سے ان كي بات نہیں سمجهي ۔

(3) اگر ايسے جملے ثابت بهي ہوجائين تو يہ كيسي عقلمندي ہے کہ ايک مسلم كو الله تعالى نے شريعت كي پيروي كا حكم فرمايا ہے اور وه ان كاموں اور باتوں ميں پڑ جائے جس كا اسے حكم ہي نہیں بلكہ اسے ان اشياء سے دوري كا حكم ديا گيا ہے ۔

(4) جيد علماء كرام نے فرمايا ہے کہ : ايسے اقوال ان بزرگون نے اگر فرمائے بهي ہیں تو ان اقوال كي ( پيروي) نہیں كي جائے گی بلكہ انسانی نجات ظایری شرع کی پيروي ميں ہے . وه اقوال ان سے جس حالت يا مقام ميں صادر ہوئے وه نہ تو احوال كسي كو حاصل ہیں اور نہ ہی کسی كو وه مقام حاصل تو وه كيسے ان جيسي باتيں كرنے کا مجاز ہوگا ۔

لہٰذا جس كو ان كے اقوال كي پيروي كرني ہے تو پہلے خود ايسا ولي ، يا صاحب مقام بن كر دكھائے تو ہميں بهي اعتراض نہیں كہ وه حضرت خواجہ معين الدين چشتي رحمۃ اللہ علیہ كي طرح اشعار بولے يا حضرت منصور حلاج رحمۃ اللہ علیہ كي طرح قصيدے پڑھے ۔

شطحیات یا غلبہ حال میں صوفیاء کرام علیہم الرّحمہ کی زبان سے جو ایسے کلمات نکل جاتے ہیں جو بظاہر خلافِ شریعت ہوتے ہیں اس بارے میں اہل علم و انصاف کا کیا طریقہ کار ہونا چاہیے اس کے متعلق علامہ ابن خلدون رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : و أما الكلام في الكشف و إعطاء حقائق العلويات و ترتيب صدور الكائنات فأكثر كلامهم فيه نوع من المتشابه لما أنه وجداني عندهم و فاقد الوجدان عندهم بمعزل عن أذواقهم فيه. و اللغات لا تعطى له دلالة على مرادهم منه لأنها لم توضع إلا للتعارف و أكثره من المحسوسات. فينبغي أن لا نتعرض لكلامهم في ذلك و نتركه فيما تركناه من المتشابه و من رزقه الله فهم شيء من هذه الكلمات على الوجه الموافق لظاهر الشريعة فأكرم بها سعادة. و أما الألفاظ الموهمة التي يعبرون عنها بالشطحات و يوآخذهم بها أهل الشرع فاعلم أن الإنصاف في شأن القوم أنهم أهل غيبة عن الحس و الواردات تملكهم حتى ينطقوا عنها بما لا يقصدونه و صاحب الغيبة غير مخاطب و المجبور معذور. فمن علم منهم فضله و اقتداؤه حمل على القصد الجميل من هذا و أمثاله و أن العبارة عن المواجد صعبة لفقدان الوضع لها كما وقع لأبي يزيد البسطامي و أمثاله. و من لم يعلم فضله و لا اشتهر فموآخذ بما صدر عنه من ذلك إذا لم يتبين لنا ما يحملنا على تأويل كلامه. و أما من تكلم بمثلها و هو حاضر في حسه و لم يملكه الحال فموآخذ أيضا. و لهذا أفتى الفقهاء و أكابر المتصوفة بقتل الحلاج لأنه تكلم في حضور و هو مالك لحاله. و الله أعلم ۔ (مقدمہ ابن خلدون صفحہ 230) ۔ اس عربی کا کلام کا خلاصہ وہی ہے جو اوپر بیان ہو چکا ہے ۔

علامہ اشرف علی تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں : بعض اہلِ حال سے غلبہ حال میں ایسے کلمات صادر ہوجاتے ہیں جو شریعت پر منطبق نہیں ہوتے ۔ (التکشف صفحہ 519)
بے اختیاری کی حالت میں جو غلبہ وارد کی کی وجہ سے قواعد کے خلاف کوئی بات منہ سے نکل جائے وہ شطح ہے ۔ اس شخص پر نہ گناہ ہے اور نہ اس کی تقلید جائز ہے ۔ (تعلیم الدین)

علامہ محمد زکریا کاندہلوی دیوبندی لکھتے ہیں : اکابر کے کلام میں بہت سے الفاظ ایسے ہوتے ہیں جن پر ظاہر بیں کفر تک کا فتوی لگا دیتے ہیں اس قسم کے الفاظ غلبہ شوق یا سُکر کی حالت میں نکل جاتے ہیں وہ نہ موجب کفر ہیں اورنہ موجب تقلید ۔ حدیث میں آیا ہے حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بندہ کی توبہ سے ا س سے زیادہ خوش ہوتا ہے جیسا کہ ایک آدمی سفر میں جارہا ہوا ور اس کی اونٹی پر اس کا سارا سامان کھانے پینے کا ہے اور ایسے جنگل میں جو بڑا خطرناک و ہلاکت کا محل ہے تھوڑی دیر کو لیٹا ۔ ذرا آنکھ لگی اورجب آنکھ کھلی تواس کی اونٹنی کہیں بھاگ گئی ۔ وہ ڈھونڈتا رہا اور گرمی اور پیاس کی شدت بڑھ گئی تو وہ اس نیت سے اسی جگہ آکر لیٹ گیا کہ مرجاؤں گا اور ہاتھ پر سررکھ کر لیٹ گیا ۔ آنکھ لگ گئی تھوڑی دیر میں آنکھ کھلی تو اس کی اونٹنی پاس کھڑی تھی اس پر سارا سازوسامان کھانے پینے کا موجود تھا ۔ اس وقت میں اس کی خوشی کاکوئی اندازہ نہیں کرسکتا اورخوشی میں کہنے لگا اے اللہ تومیرا بندہ میں تیرا رب ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ شدت فرح سے چوک کیا ۔ یہ روایت بخاری ومسلم مین حضرت عبداللہ بن مسعود اورحضرت انس سے مختلف الفاظ سے نقل کی گئی ہے ۔ (بحوالہ شریعت و طریقت کا تلازم صفحہ 202)

معتبر محققین اور بالغ نظر ناقدین کی تحقیقا ت کے بعد یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ تصوف اسلام کے اندر کوئی جدید یا گمراہ مسلک نہیں بلکہ عین اسلام وایما ن ہے ۔ اس کے نظریات و افکار ، مبادیات و مسائل کا سر چشمہ کتاب وسنت ہیں ، جس کی تائید اکابر صوفیہ کے مستند اقوال سےبھی ہو تی ہے ،اجلہ مشائخ نے اس با ت کی صراحت فرمادی ہے کہ صوفی کی کا میا بی کے لیے اول شر ط یہ ہے کہ وہ کتاب وسنت کے ارشادات پر عمل پیرا ہو ، چنانچہ سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : ایں راہ کس یابد کہ کتاب بردست راست گرفتہ باشدوسنت مصطفی بر دست چپ-درروشنائی ایں دوشمع می رود تانہ درمغاک شبہت افتدنہ درظلمت بدعت ۔ (تذکرۃالاولیا فارسی شیخ عطار رحمۃ اللہ علیہ صفحہ ۸)
ترجمہ : یہ راہ وہی شخص حاصل کر سکتا ہے جس کے دائیں ہاتھ میں قرآن مقدس اور بائیں ہاتھ میں سنتِ مصطفیٰ ہو اور ان دونوں چراغوں کی روشنی میں قدم بڑھاتا رہے تاکہ ورطۂِ شبہات میں نہ گرے اور بدعت کی تاریکی میں نہ پھنسے ۔

صوفیہ و مشائخ رحمہم اللہ علیہم اجمعین کے عقائد و افکار میں ایسا کوئی فساد نظر نہیں آتا جو شرک و بدعت کو پنپنے کا موقع دے ۔ ان کا کوئی بھی طریقہ کتا ب و سنت سے ہٹ کر نہیں ، ان کی کو ئی بھی فکر دین کے بنیادی اصولوں سے منحرف نہیں ۔ شیخ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے : بناء طریقتنا و اساسہا علی الکتاب والسنۃ وکل ما ہو مخالف للکتاب والسنۃ فہو مردود باطل ۔
ترجمہ : ہمارے طریقے کی بنیا د و اساس کتاب وسنت پر ہے اور جو کتاب و سنت کے مخالف ہو وہ مردود و باطل ہے ۔ (الرسالۃ القشیریہ جلد ۱ صفحہ ۲)

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ صوفیہ کے تعلق سے اپنے اعتقاد کا اظہار یوں کرتے ہیں : ونعتقد ان طریق الجنید وصحبہ طریق مقوم ۔
ترجمہ : ہمارا اعتقاد ہے کہ جنید اور ان کے اصحاب کا طریقہ مستحکم طریقہ ہے ۔ (مرج البحرین فارسی شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ صفحہ ۳۳ ایجوکیشنل پریس پاکستان،چشتی)

بعض مشائخ فرماتے ہیں کہ : کل حقیقۃ ردتھا الشریعۃ فھی زندقۃ ۔
ترجمہ : جو حقیقت خلاف شریعت ہو وہ بے دینی ہے ۔ (مرج البحرین فارسی شیخ عبدالحق محدث دہلوی صفحہ ٣٤ ایجوکیشنل پریس پاکستان)

غرض کہ اس طرح کے اور بھی بہت سے اقوال ہیں جن سے اس بات کی مکمل تائید و توثیق ہو جاتی ہے کہ تصوف کا اصل مآخذ کتاب و سنت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ، البتہ ارباب تصوف ہی میں سے بعض حضرات ایسے ہیں جن سے غلبۂ حال او روجد ومستی میں کچھ ایسے کلمات وحرکا ت صادرہوجاتے ہیں ،جو بظاہر مخالف شرع معلوم ہوتے ہیں،عام لوگ ان اقوال سے گمراہ وفاسد عقیدہ بنالیتے ہیں ایسے اقوال و افعال کو اصطلاح صوفیہ میں شطحات، ہفوات اورمبہمات وموہمات بھی کہتے ہیں-ان اقوال وافعال کو لے کر بعض حضرات تصوف اور صوفیہ کے تعلق سے سخت بد گمان ہوگئے اور یہ نتیجہ اخذکر لیا کہ تصوف غیراسلامی نظریات وافکار کی پیدوارہے مگر یہ نتیجہ مبنی بر حقیقت نہیں ۔

واضح رہے کہ تصوف وہی ہے جسے حدیث میں ’’احسان‘‘ کہا گیا ہے -غیر شرعی رسوم او ر کسی فسق و فجور کا نام تصوف نہیں ہے خلاف سنت وشریعت رسم ورواج کو طریقت نہیں کہا جاتا بلکہ ہمارے مشائخ کا طریقہ رہا ہے کہ وہ خلافِ سنت عمل کوقابلِ ترک ہی نہیں بلکہ مردود سمجھتے تھے ۔ صوفیہ وہی حضرات ہیں جو کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھامے ہو ئے ہیں ، کیونکہ شریعت کے خلاف کو ئی بھی عمل تصوف نہیں ہو سکتا ۔ بعض دنیادار ومکار،فسق وفجور میں گرفتار،نام نہاد مستصوفین کو دیکھ کر ، ان کے کردار وعمل کو دلیل بناکر صوفیہ جیسی مقدس ومخلص جماعت پر لعن طعن کرنا دانش مندی نہیں بلکہ سخت محرومی اور بے ادبی ہے ۔

شطحیات کی حقیقت : ⬇

سب سے پہلے ہم شطحٕات کی حقیقت و نوعیت کا ذکر کرتے ہیں پھر اس کا علمی وتحقیقی تجزیہ کریں گے تاکہ لوگوں کے اذہان و قلوب میں جو اضطراب ہے ایک جانب اس کا ازالہ ہو جائے اور ساتھ ہی شطحیات کی حقیقت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ بے نقاب ہو جائے ۔

لغوی معنی : لغت کی مشہو ر کتاب المعجم الوسیط میں ہے ’’شطح فی السیر اوالقول : تباعدواسترسل ۔
الشطحۃ : یقال لفلان الصوفی لہ احوال وشطحات ۔ کہا جاتا ہے کہ فلاں صوفی کے احوال و شطحات ہیں ۔
ہفوات ، ہفوۃ کی جمع ہے ’’المعجم الوسیط‘‘ میں ہے الھفوۃ : السقطۃ والزلۃ ۔ اردو میں ٹھوکر اور لغزش کے معنی میں مستعمل ہے ۔ (المعجم الوسیط صفحہ ۴۸۲ ، ۹۸۹ زکریا بک ڈپو دیوبند)

اصطلاحی مفہوم : ⬇

شیخ ابو نصر سراج رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۳۷۸ھ) فرماتے ہیں : شطحات وہ عجیب و غریب عبارات جو صوفیائے کرام سے وجد و مستی کی انتہائی کیفیت میں صادرہوتی ہیں ۔ (کتاب اللمع صفحہ ۳۷۴ مطبوعہ لندن)

حضر ت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : الشطح ھو افاضۃ ماء العرفان عن ظرف استعداد العارفین حین الامتیان ۔ (لطائف اشرفی ملفوظات مخدوم اشرف سمنانی صفحہ ۶۴۴ مترجم شمس بریلوی سہیل پریس پاکستان)
ترجمہ : خدا شناسوں کے ظرف استعداد پر ہو جانے پر عرفان کا پانی چھلک جانا ۔

صوفیہ کے نزدیک شطحات ، کلماتِ مشائخ کی ایک قسم ہےجس کا ظاہر نہایت قبیح مگر باطن حسین ہو ۔ واضح رہے کہ کلماتِ مشائخ ان قسموں پر مشتمل ہوتے ہیں : ارشادات مشائخ ، مبہمات مشاٸخ ، موہمات مشائخ ، شطحات مشائخ ۔ ان میں صرف ارشادات ہی لائیں تقلید ہوتے ہیں ۔

علما ومشائخ کے موقف و نظریات : ⬇

شیخ ابونصر سراج رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالی نے اپنے اولیا کے قلوب کھول دیے ہیں ، انہیں بلندی کی طرف جانے والے درجات کی طرف جانے کی اجازت دے دی ہے اور اللہ تعالی نے اپنے منتخب بندوں کو اپنی طرف آنے ، متوجہ ہونے اور مراتب خواص پر مطلع ہونے کی صلاحیت بخشی ہے ، لہٰذا ان منتخب اولیا میں سے سبھی اس حقیقت کو بیان کرتے ہیں جسے وہ پالیتے ہیں ، وہ اپنے حال اور قلب پر وارد ہونے والے انوار وحقائق ہی سے متعلق گفتگو کو زبان پرلاتے ہیں ، کیوں کہ وہ اپنے ارادوں سے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہو جاتے ہیں اور وہ اس مقام پر ہوتے ہیں جہاں تمام احوال و مقامات اور راستے آکر ختم ہوجاتے ہیں ۔ ارشاد باری ہے : و فوق کل ذی علم علیم ۔ (سورہ یوسف آیت نمبر ۷۶) ، ہر علم والے کے اوپر ایک علم والا ہے ۔ اور فرمایا : و رفعنا بعضھم فوق بعض درجٰت ۔ (سورہ زخرف آیت نمبر ۳۲) ، اور ہم نے بعض کو بعض کے اوپر درجوں بلند کیا ہے ۔ دوسری جگہ ارشاد ہے : انظرکیف فضلنابعضھم علی بعض ۔ (سورہ بنی اسرائیل :۲۱) ۔ دیکھو ! کیسے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی ہے ۔ کسی کےلیے مناسب نہیں کہ وہ اولیاء اللہ کے بارے میں زبانِ غیبت کھولے اور پھر اپنے قیاس کے ذریعے ان کے کلام کے مطالب اخذ کرے ، کیوں کہ اولیا اپنے اوقات میں مختلف اور احوال میں ایک دوسرے کے مقابلے فضیلت رکھتے ہیں ۔ اسی طرح وہ احوال میں باہم ایک جیسے بھی ہوتے ہیں ، اب اگران میں سے کوئی اپنے ساتھیوں سے زیادہ صاحبِ فضیلت ہو اور اعلیٰ معرفت کا حامل ہو تو وہ اس بات کا اہل ہے کہ وہ شطحات صوفیہ کے متعلق گفتگو کرے یا اس کے درست و نادرست ہونے کے بارے میں کچھ کہے ۔ اگر کوئی شخص ایسے صاحبِ مقام صوفیہ کے راستہ پر چلا ہی نہ ہو تو اس کےلیے بہتر یہ ہے کہ اس طرح کے کلمات سے انکار ختم کر دے اور انہیں اللہ پر چھوڑ دے ۔ اس کے علاوہ اگر اس نے صوفیہ کے تعلق سے کوئی غلط نظریہ قائم کیا ہو تو اس کے غلط ہونے کا اعتراف کرے ۔ (کتاب اللمع عربی صفحہ  ۳۷۵مطبوعہ بریل لندن)
دوسری جگہ شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی اصولی بات تحریر کی ہے وہ لکھتے ہیں : علومِ شریعت چار قسم کے ہیں : اول : علم روایت و آثار ۔ دوم : علمِ فقہ و احکام ۔ سوم : علمِ قیاس و نظر ۔ چہارم : علمِ حقایق و مجاہدات ۔ تو جو علم روایت میں خطا کر جائے وہ اس کا حل علمِ درایت والوں سے نہ پوچھے اور نہ علمِ درایت کے مسئلہ کو علمِ روایت والوں سے پو چھے ، ایسے ہی علمِ حقائق کی بات اگر سمجھ میں نہ آئے تو اسی سے پو چھے جو اس کا کامل عالم ہے ۔ (کتاب اللمع عربی صفحہ  ٣٧٦ بریل لندن)

تصوف کی مستند کتاب کشف المحجوب میں حضرت شیخ علی ہجویری عرف داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : اہلِ بصیرت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اہل سنت و جماعت سے تعلق رکھنے والا شخص ساحر و خاسر نہیں ہو سکتا اور کافر قابلِ تعظیم نہیں ہو سکتا ، کیوںکہ اس سے اجتماعِ ضدین لازم آتا ہے اور حضرت حسین ابن منصور حلاج رحمۃ اللہ علیہ کا یہ حال تھا کہ پابندی صلوٰۃ ، کثرت ذکر و مناجات اور مسلسل روزوں کا اہتمام کرتے تھے ، اس لیے وہ بہت ہی نیک تھے مگر ان کے کلام (اناالحق) کی اقتدا نہیں کرنی چاہیے ، کیوں کہ وہ مغلوب الحال تھے متمکن نہیں اور قابلِ تقلید کلام صرف صاحبِ تمکین مشائخ کا ہی ہوتا ہے ۔ (کشف المحجوب مترجم اردو صفحہ ۴۶۲ ، ۴۶۴ ترجمہ و تحقیق کپتان واحد بخش سیال چشتی مکتبہ رضویہ دہلی،چشتی)

متنِ تصوف کا قدیم اور نہایت معتبر و مقبول رسالہ ’’الرسالۃ المکیہ‘‘ کے اندر نہایت جامعیت و اختصار کے ساتھ اس مسئلہ کا حل پیش کر دیا گیا ہے ۔ علامہ قطب الدین دمشقی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : صوفی جب نفس و ہوا کی وادی کو پار کر کے عالمِ حقیقت میں پہنچ جاتا ہے جو مقام فنا ہے ۔ (صوفیہ کے نزدیک فنا کا معنی یہ ہے کہ وہ ذات حق کے سوا کسی کو نہ دیکھتا ہے نہ جانتا ہے) تو اس مقام پر وہ اپنے وجود سے بھی غافل ہوتا ہے ، اس وقت یہ گمان گذرتا ہے صرف رب تعالی ہے اور کچھ بھی نہیں چونکہ ذات حق کے سوا کچھ بھی نہیں ہو تا ، جلوۂ حق کے مشاہدہ کی کیفیت میں ’’انا الحق‘‘ ، ’’لیس فی الدار الا اللہ‘‘ ، ’’لیس فی الوجود سوی اللہ‘‘ ، جیسے کلمات صادر ہو جاتے ہیں ، اور سننے والا اسے حلول سمجھ بیٹھتا ہے ۔ اس مقام پر نجات کا راستہ یہ ہے کہ جب کوئی اس طرح کی بات سنے تو سننے والا یہ سمجھے کہ کسی سے ایسا اس خیال کی بنا پر صادر ہوا ہے کہ وہ دنیا و آخرت کی ہر چیز سے بے خبر ہے یہاں تک کہ اسےخود کا بھی ہو ش نہیں ہے ، سر توحید میں گم ہے ، تجلیاتِ حق میں مستغرق ہے ، مگر حقیقت میں فی نفسہ ہر شی کا وجود رہتا ہے ، صوفی کا مشاہدہ مقامِ فنا میں بہتر ہے اور یہ ایک بلند مقام ہے مگر دوسری جہت سے یہ مقام خطر ہے ۔ (الرسالۃ المکیۃ صفحہ ۱۶۱ ، ۱۶۲ شاہ صفی اکیڈمی الہ آباد)

حضرت مخدوم سید اشرف جہاںگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : قاعدۂ مستمرہ یہ ہے کہ شطحات مشائخ کو نہ رد کرنا چاہیے نہ قبول کیوں کہ یہ مقام وصول کاایک مشرب ہے جو عقل و خرد کی دسترس سے بالاتر ہے ۔ (لطائف اشرفی صفحہ ۶۴۴)
نیز آپ رحمۃ اللہ علیہ ہی کا ارشاد ہے کہ : اکثر اصحابِ عرفان اہلِ صحو ہوئے ہیں اور بہت سے صوفیہ اہلِ سُکر بھی ہیں ۔ (لطائف اشرفی صفحہ ۶۴۴،چشتی)
دوسرے مقام پہ آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : اگر چہ بعض صوفیہ نے کلماتِ شطحیات کا محمل پیدا کیا ہے اور لطیف عبارتوں میں ان کی تشریح فرمائی ہیں جس سے اس کی گہرائی تک پہنچنا آسان ہو گیا ہے ۔ (لطائف اشرفی صفحہ ۶۴۴)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ’’رسالہ مرج البحرین‘‘ میں رقم طراز ہیں : و بالجملہ مردم درغلبۂ احوال مشائخ و شطحیات ایشاں سہ فرقہ اند ۔ (مرج البحرین فارسی صفحہ ۳۳ ایجوکیشنل پریس کراچی)
ترجمہ : اس باب میں مجموعی طور سے تین فرقے ہیں : فرقۂ اول : فقہائے محض اور علمائے ظاہر ہیں جن کا موقف تردید و انکار ہے جوایسے مشائخ کے تعلق سے کوئی بھی نرم گوشہ نہیں رکھتے نہ ہی انہیں معذور جانتے ہیں، اس فرقہ میں بھی دوقسم کے لوگ ہیں : ایک وہ جوحقیقی طور سے منکر و تردید پسند ہیںکہ وہ ایسے اقوال وافعال کو جہل و جنون سے تعبیر کرتے ہیں ، انکار و تردید کی وجہ ، ان کی طبیعت کا جمود اور باطن کی خرابی ہے جوان کےلیے رحمت و برکات سے محرومی اور سوءِ خاتمہ کا سبب بن سکتی ہے ۔ دوسرے وہ حضرات ہیں جو بظاہر سدِّ ذرائع کےلیے تردید و انکار کی روش اختیار کرتے ہیں مگر نفس الامر کے اعتبار سے موافق و حامی ہوتے ہیں ۔
فرقۂ دوم : یہ جماعت نہایت غلو پسند ہے ان کااعتقاد شطحات مشائخ کے تعلق سے نہایت گمراہ کن ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ مشائخ کرام جو بھی کہتے ہیں یا کرتے ہیں وہ حق بجانب ہوتے ہیں اگر چہ صریحاً مخالفِ شرع ہی کیوں نہ ہوں ، بلکہ وہ یہاں تک عقیدہ رکھتے ہیں ۔ کہ شریعت وہی ہے جو یہ کرتے ہیں علما و فقہا کے اقوال و فتاویٰ کاکوئی اعتبار نہیں ایسی جماعت کو جاہل مستصوفین کہا جاتا ہے جو خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والے ہیں ۔ مذکورہ دونوں فرقوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ ایک حقیقت کا ادراک نہ کرنے اور شدت و جمود کی وجہ سے بے عرفان ہے اور دوسرا ظاہر شریعت کے منکر ہونے کی وجہ سے بے ایمان ہے ۔
 فرقۂ سوم : وہ حضرات جو افراط و تفریط سے الگ راہ اعتدال پر گامزن ہیں ، ان کاموقف یہ ہے کہ ایسے اقوال وافعال در حقیقت درست ہیں مگر شرعاً قبیح ہیں ۔ اس شرعی قباحت کی وجہ ضبط و اختیار کا فقدان اور غلبۂ حال ہے ، اس کی مثال عالم ظاہر میں ایسے ہی ہے جیسے جب کسی ذی ہوش اور عقل مند آدمی کے اوپر فرحت و غضب کی حالت طاری ہوتی ہے تو اختیار کھو بیٹھتا ہے اور بے خودی میں عجیب و غریب حرکتیں کرنے لگتا ہے ، لہٰذا ایسے اقوال وافعال کو فقط تسلیم کیاجائے جیسا کہ کہا گیا ہے ،،اسلم تسلم،، ۔ (مرج البحرین فارسی صفحہ ۳۵ ، ۳۶ ، ۳۷ ایجوکیشنل پریس کراچی)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے دوسرے رسالہ ’’تحصیل التعرف فی معرفۃ الفقہ والتصوف‘‘ میں ایسے صاحبانِ وجد و حال کو مجنوں کے حکم میں قرار دیتے ہیں ، جو مرفوع القلم ہوتے ہیں ، چنانچہ وہ قاعدہ نمبر ۲۴ کے تحت لکھتے ہیں کہ : صاحبِ وجد اپنے حال میں خود پر اختیار نہیں رکھتا وہ مجنوں کے حکم میں ہوتا ہے اس حال میں صادرہونے والے امور ناقابلِ اتباع ہیں ۔ جیسے حضرت ابوالحسین نوری رحمۃ اللہ علیہ کا حالتِ وجد میں اپنے آپ کو جلاد کے سامنے پیش کر دینا ، شیخ ابوحمزہ رحمۃ اللہ علیہ کا کنویں میں گر کر کسی کو مدد کےلیے آواز نہ دینا ، شیخ شبلی رحمۃ اللہ علیہ کا حلق ریش اور درہم و دینار کا دریا میں پھینک دینا وغیرہ ، ایسے بہت سے واقعات ہیں جو غلبۂِ وجد و حال میں صوفیہ سے صادر ہوئے ۔ ابن جوزی اور ان کے ہم خیال علما نے ایسے افعال پر اعتراض کیا ہے ۔ شیخ زروق نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ جس مغلوب الحال کا اپنے افعال پر قابو نہیں ، ضبط کی قدرت نہیں وہ معذور ہے ۔ بطور استدلال یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ ایک عورت بے ہوش ہو جایا کرتی تھی ، ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اپنا حال بیان کیا کہ میں بے ہوش ہو جایا کرتی ہوں اور اسی حالت میں کبھی کبھی عریانیت سے دوچار ہو جایا کرتی ہوں ، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میرے لیے دعا فرمائیں تاکہ اس سے شفا حاصل ہو جائے (یااسی طرح کچھ الفاظ کہے) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر تو صبر کرے تو تیرے لیے جنت ہے ، یا نہیں تو میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی تجھے شفا بخشے وہ عورت راضی ہو گئی کہ اسے جنت منظور ہے ۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اس عورت کو صبر کرنے اور اس حالت کے برداشت کرنے کی تلقین کرنا جس میں وہ برہنہ ہو جایاکرتی تھی اس بات کی دلیل ہے کہ بے اختیارشخص کا عذر مقبول ہے ۔ (تحصیل التعرف فی معرفۃ الفقہ والتصوف صفحہ ۱۷۱ ، ۱۷۳مترجم لامہ عبدالحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ،چشتی)

ابن تیمیہ کا موقف : شیخ ابن تیمیہ جو گروہِ معترضین کے نزدیک بڑے معتبر اور معقول شخص مانے جاتے ہیں اور عمومی طور سے ان کو مخالف صوفیہ سمجھا جاتا ہے ، ایک طبقہ ابن تیمیہ کے افکار سے متاثر ہو کر ہمیشہ صوفیہ اور تصوف کو ہدف ملامت بنا تا رہتا ہے ۔ ذیل میں ان کے مختلف فتاوی نقل کر رہے ہیں جن سے ابن تیمیہ کا موقف واضح صورت میں سب کے سامنے عیاں ہو جائے گا اور اس سے ہو سکتا ہے کہ تصوف پر جارح تنقید کرنے والے اعتدال کا رویہ اختیار کریں ۔ ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہ : صوفیہ کے کلام میں کچھ عبارات ظاہری طور پر سمجھ میں نہیں آتیں بلکہ بعض مرتبہ تو بہت غلط عبارت نظر آتی ہیں لیکن اس کو صحیح معنی پر حمل کیا جا سکتا ہے ، لہٰذا انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ ان عبا رات سے صحیح معنی مراد لیا جائے جیسے فنا ، شہود اور کشف وغیرہ ۔ (مجموع الفتاوی جلد ۲ صفحہ ۳۳۷،چشتی)
جماعتِ صوفیہ میں سے کسی ایک کا بھی یہ عقیدہ نہیں ہے کہ الله تعالی اس میں یا اس کے علاوہ دیگر مخلوقات میں حلول و اتحاد کر گیا ہے ، اور اگر بالفرض اس طرح کی بات ان اکابر شیوخ کے بارے میں نقل کی جائے تو اکثر اس میں جھوٹ ہوتا ہے ، جس کو اتحاد و حلول کے قائل گمراہ لوگوں نے ان صو فیائے کرام کی طرف منسوب کیاہے ، صوفیائے کرام اس قسم کے باطل عقائد سے بری ہیں ۔ (نفس مصدر جلد ۱۱ صفحہ ۷۴۔۷۵)
صوفیہ جو امت کے نزدیک مشہور هہیں وہ اس امت  کےسچے لوگ ہیں وہ حلول و اتحاد وغیرہ کا عقیدہ نہیں رکھتے بلکہ لوگوں کو اس سے منع کرتے هہیں اور اہل حلول کے رد میں صوفیہ کا کلام موجودہے ، اور حلول کے عقیدہ کو ان نا فرمان یا فاسق یا کافر لوگوں نے اختیار کیا جنہوں نے صوفیائے کرام کے ساتھ مشابہت اختیارکی اور ظاہری طور پر ولایت کے دعوے کیے ۔ (نفس مصدر جلد ١٥ صفحہ ٤٢،چشتی)
اگر ان لوگوں کی تکفیر کی جائے تو بہت سارے شافعی، مالکی، حنفی، حنبلی ،اشعری، اہل حدیث، اہل تفسیر اور صوفیہ کی تکفیر لازم آئے گی، حالاں کہ باتفاق مسلمین یہ سب لوگ کافر نہیں تھے ۔ (نفس مصدر جلد ٣٥ صفحہ ١٠١)

ابن تیمیہ کے مذکورہ اقوال سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ وہ اس تصوف کے برخلاف قطعی نہیں تھے جو شیخ جنید بغدادی اور شیخ عبد القادر جیلانی علیہم الرحمہ کا تصوف تھا بلکہ حقیقی صوفیہ کے بارے میں طعن و تشنیع کو ابن تیمیہ نے گمرہی قرار دیا ہے ، لہٰذا ابن تیمیہ کا نام لے کر تصوف کو یکسر غیر اسلامی اور بے دینی بتانے والے اپنے نظریات کا جا ئزہ لیں اور شدت و تعصب کی عینک اتار کر ان نفوس قدسیہ کی تعلیمات کو پھر سے پڑھیں ۔ مذکورہ اقوال کی روشنی میں جو معتدل راہ نکلتی ہے ، وہ یہ کہ شطحات نہ قابلِ تردید ہیں ، نہ قابلِ اتباع بلکہ انہیں تسلیم کیا جائے اور اسی میں سلامتی ہے ۔
 
فقیر نے سوچا اس مقام پر شطحیات میں سے بعض کی حکیمانہ تاویلات و توجیہات اور حقائق و مضمرات بھی پیش کر دی جائیں ، تاکہ اہلِ بصیرت کو ایک اشارہ مل جائے ، جس سے وہ ایسے مقامات پر اپنے آپ کو صحیح فکر کا حامل بنا سکیں ۔ شطحیات کے باب میں سب سے زیادہ حضرت منصور حلاج کے نعرۂ ’’انا الحق‘‘ کو لے کر قلق و بے چینی ہے اس لیے اس کی تفصیلی وضاحت ضروری ہے ۔

حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : حضرت ابوالمغیث حسین بن منصور حلاج رحمۃ اللہ علیہ کا شمار مشتاقان الٰہی اور مستان طریقت میں ہوتا ہے، آپ کا حال نہایت قوی اورہمت بلند تھی ، آپ کے مقام کے متعلق مشائخ طریقت کا اختلاف ہے، ایک گروہ کے نزدیک آپ مقبول بارگاہ ہیںاور ایک کے نزدیک مطعون- وہ طبقہ جوآپ کو مطعون سمجھتاہے، ان میں حضرت عمرو بن عثمان مکی ،ابویعقوب نہرجوری ،ابو یعقوب اقطع، اورعلی بن سہل اصفہانی وغیرہم ہیں-جنہوںنے آپ کو مقبول بارگاہ قرار دیاان میں حضرت ابن عطا،محمد بن خفیف ، ابوالقاسم نصرآبادی اورجملہ مشائخ متأخرین ہیں -ایک طبقہ ایسابھی ہے جس نے آپ کے بارے میں سکوت اختیار کیاان میں حضرت جنید ،حضرت شبلی اور حصری وغیرہم ہیں -ہمارے زمانے کے مشائخ مثلاًحضرت شیخ ابوسعید ابوالخیر، شیخ ابوالقاسم گرگانی ، شیخ ابوالعباس شفانی رحمہم اللہ علیہم اجمعین جیسے عظیم المرتبت حضرات اپنے آپ کو حضرت ابن منصور رحمۃ اللہ علیہ کا ہمراز سمجھتے ہیں اور ان کا احترام کرتے ہیں ۔ استاد ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ ان کے تعلق سے فرماتے ہیں کہ اگر وہ اہلِ حقیقت میں سے تھے تو خلق کی طعن و تشنیع کی وجہ سے بارگاہِ حق سے محروم و مسترد نہیں ہو سکتے ، اگر وہ مہجور طریقت تھے تو قبولِ خلق کی وجہ سے مقبولِ بارگاہ نہیں ہو سکتے ، ہم ان کو ان کے حال پر چھوڑ تے ہیں ، لیکن ہم نے ان کے اندر جو نشانِ حق پایا اس کی وجہ سے ان کا احترام کرتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ ان کے مخالفین کی تعداد بہت کم اور موافقین کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ (کشف المحجوب مترجم اردو صفحہ ۴۶۵ ترجمہ و تحقیق کپتان واحد بخش سیال چشتی مکتبہ رضویہ دہلی،چشتی)

حضرت مخدوم اشرف جہاںگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ : حسین ابن منصورحلاج رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلے میں اختلاف ہے ، اکثر ان کی تائید کرتے ہیں ، بعض تردید ۔ ان کے حامیوں میں شیخ ابوالعباس عطا ، حضرت عطا ، شیخ شبلی ، شیخ ابو عبداللہ خفیف ، شیخ ابوالقاسم رحمہم اللہ علیہم ، مذکورہ حضرات ان کے قتل پر راضی نہیں تھے ۔ سلطان طریقت شیخ ابوسعید ابوالخیر رحمۃ اللہ علیہ (۳۵۷ھ-۴۴۰) فرماتے ہیں کہ : مشرق و مغرب میں احوال کی بلندی کے اعتبار سے وہ لاثانی ہیں ۔ (لطائف اشرفی ملفوظات مخدوم اشرف سمنانی صفحہ ۶۵۳ تا ۶۵۸ مترجم شمس بریلوی سہیل پریس کراچی)

امام المتکلمین حضرت فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے ،،انا الحق،، کی چند توجیہات ذکر کی ہیں ، جو مندرجہ ذیل ہیں : ⬇
۱- اللہ حق ہے اور اس کی معرفت، معرفت حق اور معرفت حق کی مثال ایسی ہے ،جیسے اکسیر کہ جب وہ تانبے پر پڑتی ہے تو اسے سونا بنادیتی ہے- اسی کے مانند جب معرفت الٰہی کی اکسیر روح کے تانبہ پرپڑتی ہے تو اسے باطلیت سے حقیت کی طرف لے آتی ہے-حضرت منصور کے اناالحق کہنے کا مطلب بھی یہی ہے کہ موجود حقیقی بس حق تعالی شانہ کی ذات ہے اس کے سواسب فانی وباطل ہے، اس لیے کہ منصورحلاج وہ شخص تھے جن پریہ حقیقت منکشف ہوگئی تھی کہ ماسوائے ذات حق کچھ بھی نہیں، حتی کہ خود ان کی ذات بھی فنا ہوچکی تھی، ان کے مشاہدہ ویقین میںیہ بات راسخ ہو چکی تھی کہ حق تعالی کے سواموجود بالذات کوئی نہیں- اس کیفیت میں اگر انہوں نے اناالحق کہاتو درحقیقت قائل وہ نہیںہیں بلکہ اللہ نے یہ کلمہ ان کی زبان پرجاری فرمایاتھا-خود ان کی ذات تجلیات ربانی میں مستغرق ومحوتھی ،اسی لیے جب ان سے کہاجاتاکہ انابالحق کہو توان کی زبان سے اناالحق ہی نکلتااس لیے کہ اگروہ انابالحق کہتے تولفظ اناسے اشارہ ان کی ذات کی طرف ہوتاحالانکہ وہ مقام محویت میں تھے-
۲-ومنھاماقال الامام ایضاًان من غلب علیہ شیٔ یقال انہ ھوذٰلک الشیٔ علی سبیل المجاز کمایقال فلان کرم فلماکان الرجل مستغرقاًبالحق لاجرم قال اناالحق ۔
نیزامام رازی نے فرمایا کہ’’ جب کوئی چیز کسی پرغالب ہوجاتی ہے توبطور مجاز کہاجاتاہے کہ یہ وہی چیز ہے جیسے کہ فلاں سراپاسخاوت ہے،اسی لیے جب کسی کے اوپر حق کی تجلیات کا غلبہ ہوجائے اور وہ مستغرق وفنا ہوجائے تویقینی طورسے اناالحق کہے گا، مثل مشہورہے’’ہرکہ درکان نمک رفت نمک شد ۔
۳- اس قول[انا الحق] کامحمل یہ ہے کہ یہاں مضاف محذوف ہے، اصل میں اناعابد الحق یاذاکرالحق ہے ، مگر خود کہتے ہیں کہ یہ ضعیف تاویل ہے، اس لیے کہ حذف مضاف اس جگہ جائز ہے، جہاں التباس نہ ہو، مثلاً واسئل القریۃ اصل میں اھل القریۃ ہے، مگر جہاں التباس سے محفوظ نہ ہووہاں حذف جائز نہیں، جیسے کہاجائے رأیت زیداًا ور مراد لیاجائے غلام زیدٍ ۔ (مشاہدۂ حق کپتان واحد بخش سیال چشتی صفحہ ۱۴۶ الفیصل غزنی اسٹریٹ لاہور)

غیرمسلم محققین وناقدین کی رائے : ⬇

فرانس کے معروف ادیب لوئی مسینونے حضرت حسین ابن منصورحلاج کی شخصیت پربڑی جانفشانی سے ریسرچ کیا، بغداد جاکر قدیم صوفیہ کی کتابوں کامطالعہ کیا،خود ابن منصورکی کتابیں بھی پڑھیں،پھر اس کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کیا،نیز آپ کی سوانح حیات بھی لکھی -حضرت ابن منصورحلاج کے اوپر جوکتاب انہوں نے تحریر فرمائی ہے، اس کا نام ’’لاپیشن ڈی الحلاج‘‘(La passion De Alhallaj)ہے ۔ (مشاہدۂ حق کپتان واحد بخش سیال چشتی صفحہ ۱۵۷؍۱۵۸ الفیصل غزنی اسٹریٹ لاہور)

ڈاکٹرنکلسن جوابتدائی ایام میں تصوف اور صوفیہ کے تعلق سے متعصبانہ رویہ رکھتے تھے، مگراخیرزمانے میں و ہ حامی ہوگئے تھے -اپنی اخیر دور کی تصنیف ’’تصوف میں نظریۂ شخصیت‘‘(Idea of personalty in sufism)میں حسین ابن منصور حلاج کے ’’نعرۂ اناالحق ‘‘کاذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : حلاج کے’ اناالحق‘ کامطلب یہ نہیںتھاکہ میںخداہوںبلکہ اس کا مقصد یہ تھاکہ میں حق یعنی سچ ہوں ۔ یہ نظریہ ہمہ اوست کے سراسر خلاف ہے کیونکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسان خدا کا مظہر ہے ۔ یہ نظریہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ان کلمات کے تقریباً مطابق ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ جس نے مجھے دیکھا خدا کو دیکھا لیکن وہ نظریہ جسے حلول کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اسلام میں جڑنہ پکڑ سکا اسے حلاج اور ان کے مریدین ہی نے ختم کر دیا تھا ۔ صوفیہ کا بیان ہے کہ حلاج کو اس لیے نہیں شہید کیا گیا کہ وہ حلولی تھے بلکہ اس لیے کہ انہوں نے حق تعالیٰ کا راز فاش کر دیا ۔ (مشاہدۂ حق کپتان واحد بخش سیال چشتی صفحہ ۱۵۷؍۱۵۸ الفیصل غزنی اسٹریٹ لاہور،چشتی)

ڈاکٹر نکلسن کتاب مذکور میں حضرت حلاج کی پابندی شریعت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : جب حسین بن منصور حلاج کو پھا نسی دینے کے لیے لایا گیاتوانہوںنے دار ورسن کو دیکھ کر قہقہہ لگایااور اس قدرہنسے کہ آنکھوں سے پانی بہنے لگااس کے بعد انہوں نے لوگوں کی طرف نگاہ کی اور اپنے پیربھائی دوست حضرت ابوبکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھ کر دریافت کیا کہ کیا آپ کے پاس مصلیٰ ہے ؟ انہوں نے جوا ب دیا جی ہاں یاشیخ ! انہوں نے کہا اسے بچھادو ، اس کے بعد حلاج نے آگے بڑھ کر دو رکعت نماز ادا کی ۔ شبلی فرماتے ہیں کہ میں ان کے پاس کھڑا تھا پہلی رکعت میں انہوں نے سورۂ فاتحہ کے بعد یہ آیات پڑھیں کل نفس ذئقۃالموت ۔۔۔ الخ ۔ دوسری رکعت میں ولنبلونکم بشیٔ من الخوف والجوع ونقص من الاموال الخ ۔ (مشاہدۂ حق کپتان واحد بخش سیال چشتی صفحہ ۱۵۸؍۱۵۹ الفیصل غزنی اسٹریٹ لاہور)

شیوۂ منصور تھا اہلِ نظر پر بھی گراں
 پھر بھی کس حسرت سے سب دارورسن دیکھا کیے

سبحانی مااعظم شانی پر مشائخ کا تبصرہ : ⬇

لطائف اشرفی میں مذکور ہے : حضرت مخدوم اشرف سمنانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سلطان العارفین کا یہ قول حالت تلون سے ہے، مقام تمکین سے نہیں ، حضرت سلطان العارفین رحمۃ اللہ علیہ نے جوکہا اس کی حقیقت اس راہ کے اہل تجربہ ہی جانتے ہیں کیونکہ یہ قول حضرت بایزید کی زبان پر بِلا قصد جاری ہوا جیسا کہ قلب میں ذکر بِِلا ارادہ پیدا ہوتا ہے ۔ نیز خـود حضرت بایزید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ الٰہی اگر میں نے کسی دن سبحانی ما اعظم شانی کہا ہو تو میں کا فر و مجوسی ہوں ، میں اپنی زنّار توڑتا ہوں اور کہتا ہوں اشہد ان لاالہ الا اللہ واشہد ان محمداً عبدہ و رسولہ ۔ (لطائف اشرفی ملفوظات مخدوم اشرف سمنانی صفحہ۶۷۰؍مترجم شمس بریلوی مطبع سہیل پریس پاکستان چوک کراچی)

بعض لوگوں نے کہا کہ حضرت با یزید رحمۃ اللہ علیہ سے جب اس بارے میں سوال کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فر مایا کہ اس وقت میں بعض اوراد میں مشغو ل تھا اور فقرہ سبحانی ما اعظم شانی ربّ العالمین کے قول کی حکایت تھی جیسا کہ کو ئی سورہ طہٰ میں پڑھے  انّی انا ربّک  اس طرح آپ رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں منقول ہے کہ غلبۂِ حال میں اگر چہ ان کی زبان پہ کلمات جاری ہوئے مگر جب ہوش و حواس درست ہوئے تو آپ کے رفقا و مریدین نے اس تعلق سے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو بتا یا کہ آپ ایسا ایسا لفظ کہہ رہے تھے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ : ٹھیک ہے اگر تم لوگ مجھ سے ایسے الفاظ دوبارہ سننا تو میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینا اور سب کو ایک ایک چھری تھما دی  چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ پر پھر غلبۂِ حال طاری ہوا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اسی لفظ کو دہرایا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے حسبِِ ارشاد رفقا و مریدین نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو کاٹنے کا ارادہ کیا ، پہلے دیکھا کہ پورا کمرہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے وجود سے بھرا ہوا ہے مگر جیسے ہی چھری ان کے جسم کے قریب لے گئے تو وہ صورت چھوٹی ہو گئی اور حضرت بایزید رحمۃ اللہ علیہ نمودار ہو گئے ۔ لوگوں نے ماجرا دریافت کیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ بایزید یہ ہے اس سے پہلے بایزید نہیں تھا ۔ (لطائف اشرفی ملفوظات مخدوم اشرف سمنانی صفحہ۶۷۰؍مترجم شمس بریلوی مطبع سہیل پریس پاکستان چوک کراچی)

شطحیات کے صدور کا سبب بھی چوں کہ ایک خاص حالت و کیفیت کا غلبہ ہے ، جس میں ضبط و اختیار ختم ہو جاتا ہے ، بے خودی طاری ہوجاتی ہے اورجوبھی عجیب و غریب حرکات ان سے صادر ہوتے ہیں وہ ان کے مقتضائے حال کے مطابق ہوتے ہیں ۔ وہ ایسا کرنے میں معذور ہیں ۔ مگر ساتھ ہی ان افعال کے پیچھے ایسی لطیف اور بلیغ حکمت کار فرما ہوتی ہے جس کے آگے ظاہری قباحت بے حیثیت نظر آتی ہے اس کا باطن جمالِ معنوی کا ایسا حسین پیکر ہوتا ہے جسے ظاہر کی خراب شباہت معیوب نہیں کر سکتی ، بطور تمثیل ایک واقعہ کی تفصیل بیان کی جاتی ہے شاید حق واضح ہو جائے اور مقصود تک پہنچنے میں کفایت کرے : ⬇

حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ کا لڑکا فوت ہو گیا تو اس صدمہ میں آپ کی اہلیہ نے اپنے سر کے بال کٹوا لیے اور خود حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی داڑھی حلق کروالی اور گھر میں بیٹھ گئے ، اہلِ بغداد کو جب شبلی کی اس حالت کا علم ہوا تو وہ آپ سے بدظن ہو گئے اور تعزیت کا ارادہ ترک کر دیا ۔ شیخ کے احباب میںسے کسی نے دریافت کیا کہ اے شبلی !آپ نے ایسی حرکت کیوں کی ؟ آپ نے جواباََ فر مایا : اپنی اہلیہ کی موافقت میں ۔ لیکن انہوں نے کہا کہ یہ جواب تسلی بخش نہیں آپ حقیقت حال سے آگاہ کریں کیوںکہ آپ اپنے اہل و عیال کےلیے ایسی حرکت نہیں کر سکتے ۔ اصرار و استفسار کے بعد آپ نے اس کی صحیح حکمت و علت بیان کرتے ہوئے فرمایا : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک حدیث مجھ تک پہنچی ہے کہ جو لوگ تذکیرِ حق کرتے ہیں اور خود ان کے قلوب اس سے غافل ہوتے ہیں تو ایسے لوگ مستحقِ لعنت اور رحمتِ حق سے دور ہو جاتے ہیں ۔ یہ بات ظاہر ہے کہ لوگ میرے پاس تعزیت کےلیے آتے اور حسبِ عادت رسمی طور سے إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ کہہ کر تذکیر حق کرتے ، حا لانکہ خود ان کے قلوب اس سے غافل ہوتے اس طرح وہ مستحقِ لعنت ہو جا تے ، اسی وجہ سے میں نے اپنی ڈاڑھی حلق کر والی تا کہ لوگ میری اس حرکت سے بے زار ہو کر میرے قریب نہ آئیں ۔ میرے اس فعل نے خلقِ خدا کو ورطۂِ ہلاکت میں گرنے سے بچا لیا ۔ ملاحظہ کیجیے کہ اس حرکت میں کیسی دور اندیشی اور دقت نظری ہے ، ان کی نیت میں کس قدر صدق و خلوص مضمر ہے ،  آیت ربانی اور حدیث رسالت پناہی  کی کیسی قدر و تعظیم ہے ۔ (مرج البحرین فارسی شیخ عبدالحق محدث دہلوی صفحہ ۴۸ ، ۴۹ ایجوکیشنل پریس کراچی)

بہر کیف ایسے احوال کا طاری ہونا نوادرات میں سے ہے ، یہ ایک مخصوص کیفیت کے تحت صادر ہوتے ہیں ، اس سلسلے میں فقہا علیہم الرّحمہ نے سدِ ذرائع کے طور پر جو فتوی دیا ہے ، وہ اپنی جگہ بر حق ہے ، نہیں تو رخصت کے نام پر فساق و فجار کےلیے ایک دروازہ کھل سکتا ہے ، صوفیہ علیہم الرّحمہ اپنے احوال میں معذور ہیں ، حتیٰ الامکان تاویل و تو جیہ  کی راہ نکالی جائے ۔
  
بعض صوفیہ علیہم الرّحمہ نے فرمایا کہ شطحات کی مثال اس حدیث پاک میں ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ حِينَ يَتُوبُ إِلَيْهِ مِنْ أَحَدِكُمْ كَانَ عَلَى رَاحِلَتِهِ بِأَرْضِ فَلَاةٍ فَانْفَلَتَتْ مِنْهُ وَعَلَيْهَا طَعَامُهُ وَشَرَابُهُ ، فَأَيِسَ مِنْهَا ، فَأَتَى شَجَرَةً فَاضْطَجَعَ فِي ظِلِّهَا قَدْ أَيِسَ مِنْ رَاحِلَتِه فَبَيْنَا هُوَ كَذَلِكَ ، إِذَا هُوَ بِهَا قَائِمَةً عِنْدَهُ فَأَخَذَ بِخِطَامِهَا  ، ثُمَّ قَالَ : مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ، اللَّهُمَّ أَنْتَ عَبْدِي وَأَنَا رَبُّكَ أَخْطَأَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ ۔ (صحیح مسلم شریف کتاب التوبہ)
ترجمہ : جب بندہ خدا کی طرف توبہ (استغفار) کے ذریعے رجوع ہوتا ہے تو خدا بہت خوش ہوتا ہے (جس کی مثال حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یوں فرمائی) کہ ایک شخص بے آب و گیاہ جنگل میں سواری پر سفر کر رہا تھا ، کسی منزل پر اس کی سواری اس سے چھوٹ گئی ، جس پر اس کا توشہ پانی تھا ، اس کو اپنی ہلاکت یقینی نظر آنے لگی ہو ، عالمِ حسرت و یاس میں کسی درخت کے نیچے لیٹ گیا ، بے خودی سی کیفیت طاری ہوئی ، پھر اچانک کیا دیکھتا ہے کہ اس کی سواری اس کے پاس موجود ہے اور ساز و سامان جوں کا توں موجود ہے ، اس وقت فرطِ مسرت میں بے ساختہ یہ کہہ بیٹھا ’’اللہم انت عبدی وانا ربک‘‘ اے اللہ ! تو میرا بندہ اور میں تیرا رب ۔ خوشی کی انتہا میں اس کی زبان لڑکھڑا گئی ۔ (کہنا تو یہ چاہتا تھا کہ تومیرا رب میں تیرا بندہ ہوں ، مگر سبقت لسانی ہو گئی ، جس میں اس کے قصد وارادہ کا کو ئی دخل نہیں تھا ، لہٰذا اس پر کو ئی مواخذہ نہیں ہوگا ) ۔ ایسے اقوال و افعال بنفسہا شرعاََ قبیح ہیں مگر یہ قباحت قائل و فاعل کی طرف راجع نہ ہو گی یہ سب اصلاََ خطا و معصیت ہیں ، مگر فاعل عاصی و خاطی نہیں جیسے گاۓ پاک جانور ہے مگر  اس کی لید نجس ہے ، اس نجس لید کے گھوڑے سے خروج ہونے کے سبب اس پر نجاست کا حکم نہیں لگایا جاتا ، لہٰذا صاحبِ قول و فعل پر معصیت کا حکم صادر کرنا دانش مندی نہیں ہے ۔ ایک توجیہ یہ بھی کہ ممکن ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنا کلمہ منصور و بایزید عیہما الرحمہ کی زبان سے ظاہر کیا ایسے کلمات کی نسبت ان کی طرف نہیں ہو گی کیونکہ ایسی حالت میں ان حضرات کی حیثیت محض آلہ کی ہے اور حقیقت میں قائل ذاتِ حق ہے ۔ اس سے کوئی اعتراض لازم نہیں آتا ، کیوں کہ جب درخت سے صدائے انی انا اللہ جاری ہو سکتی ہے تو کسی انسان کی زبان سے اناالحق یا سبحانی مااعظم شانی کا جاری ہو جانا ، بدرجۂ اولیٰ درست ہے : ⬇

روا باشد انا اللہ از درختے
چرا نبود روا از نیک بختے

کھلے لفظوں میں یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا کہ ایسے کلمات کا صارد ہو نا بِلا قصد و ارادہ ایک مخصوص کیفیت کے زیرِ اثر ہو تا ہے جس میں اختیار و ضبط کا فقدان ہو تا ہے ۔ ان شطحیات کو اصل دین سمجھنا بھی بے دینی ہے ، نیز ان کلمات کی وجہ سے ان پر طعن و تشنیع بھی مذموم ہے ۔ محفوظ و مستقیم راہ یہی ہے کہ اسے اللہ کے حوالے کیا جائے یا حُسنِ ظن رکھتے ہوئے اس کے تعلق سے صحیح تاویل کی راہ نکا لی ۔ اسے یوں بھی سمجھیں کہ یہ متشابہ آیتوں کی طرح ہے ، جیسے قرآن میں بعض آیتیں محکم ہیں ، جو بآسانی سمجھ میں آجاتی ہیں او کچھ آیتیں متشابہ ہیں جن کا ظاہر ی مفہوم مراد نہیں ہوتا بلکہ وہاں تاویل کر کے صحیح معنیٰ کا محمل پیدا کیا جاتا ہے یا اس میں بحث و کرید سے بچتے ہیں ، اسی طرح اولیائے ربانی علیہم الرّحمہ کی بھی دو قسمیں ہیں : بعض آیاتِ محکم کی طرح ہیں ، بعض متشابہ کی طرح ۔ جو محکمات ہیں وہ اربابِ صحو و تمکین ہیں ، دعوت و ارشاد ، تزکیہ و تربیت کا کام انہیں سے انجام پاتا ہے ، ایسے صوفیہ مسند ارشاد پر فائز ہو تے ہیں اور جو متشابہات کی طرح ہیں وہ ارباب سکر و تلوین کہلاتے ہیں ، یہ مغلوب الحال ہو تے ہیں ، ان سے تزکیہ و ارشاد کا کا م نہیں ہو پاتا ، یہ حضرات مقتدا و مرشد نہیں ہوتے ، اگر چہ اپنے احوال میں غایت درجہ بلند ہو تے ہیں ، ان کے اقوال و افعال کی پیروی منع ہے ، جیسے آیاتِ متشابہات کااتباع منع ہے ۔

شطحیات کے تعلق سے جو بھی توجیہات ہیں وہ بہت ہی دقیق اور لطیف ہوتی ہیں ، جو عام فہم نہیں اور کوئی بھی تاویل و تشریح ان کلمات کا یقینی و مستند محمل نہیں ، اس لیے اس کی صراحت و وضاحت میں زیادہ سَر کھپانا اور اس کی حقیقت کو کریدنا خلجان و اضطراب سے خالی نہیں ، جیسا کہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : شطحیات کی جزئیات کی تفصیل کرنا مناسب نہیں کیونکہ یہ رموز و اشارات ، فنا و توحید کے قبیل سے ہیں ۔ قیل وقال درآں جا مناسب حال نہ باشد ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔ (مرج البحرین صفحہ ۴۹)

خاکم بدہن  : چند مغلوب و مجذوب صوفیہ کی بعض شطحیات کی آڑ میں صوفیہ علیہم الرحمہ کی پوری جماعت کے خلاف الزام تراشی کرنا اور اسے غیر شرعی و غیر اسلامی افکار قرار دینا ، بِلا شبہہ فقدانِ بصیرت و فسادِ باطن کی دلیل ہے ، کیوں کہ تاریخی حقائق و مشاہدات سے یہ بات پایۂِ ثبوت تک پہنچ چکی ہے کہ اسلام کے حقیقی علم بردار کی حیثیت اگر کسی کو حاصل ہے تووہ یہی پاک گروہ ہے جن کی زندگی کا ہر صفحہ شریعتِ مطہرہ کے ظاہری احکام و باطنی آداب کی پابندی سے عملاً و حالاً عبارت ہے ۔ اسلام کے شرعی و اخلاقی اصولوں کی پاسداری و احترام جو ان کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے وہ کہیں اور نہیں ، معرفتِ الٰہی جیسی بے بہا نعمت سے جو وافر حصّہ انہوں نے حاصل کیا وہ دوسرے لوگ نہ پا سکے ۔ در حقیقت یہی وہ نفوسِ قدسیہ ہیں جنہوں نے مادیت گزیدہ ماحول میں روحانی قوت کا ایسا سکہ رائج کیا کہ لوگ طاغوتی و نفسانی شکنجوں سے آزاد ہو کر معبودِ برحق کے مخلص و صادق بندے ہو گئے ، انہوں نے ہی اخلاق و کردار کی عظمت سے تسخیرِ کائنات کا حسین فلسفہ پیش کیا ، ان کی زندگی کا واحد مقصد دین خداوندی کی نشر و اشاعت اور دعوت و تبلیغ تھا ۔ دنیا کو منافرت و فرقہ پسندی کے گرداب سے نجات دینے والے ،  امن و آشتی کی فضا قائم کرنے والے یہی اربابِ تصوف تھے ۔ صفحۂِ ہستی پر ان کے انقلابی کارناموں کی دھوم رہی ہے اور ہے ، تاقیامت رہے گی  ان شاء اللہ ۔ خلافت ارضی کی مسندِ عظیم کا حقیقی وارث یہی طبقہ ہے جیسا کہ قرآنِ کریم میں مذکور ہے : اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ ۔ (سورہ انبیا آیت نمبر ۱۰۵) 
ترجمہ : اس زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں شریعت مطہرہ پر عمل کرنے اور اولیائے کرام علیہم الرّحمہ کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔