تذکرہ اَصحابِ کہف رضی اللہ عنہم حصّہ دوم
اصحاب کہف کے واقعہ کا شانِ نزول : کفار مکہ کو اَصحابِ کہف رضی اللہ عنہم کے قصہ پر بہت حیرت ہوئی تھی اور انہوں نے اس پر بہت تعجب کا اظہار کیا تھا اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بطور امتحان اَصحابِ کہف رضی اللہ عنہم کے متعلق سوال کیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کیا تم ہماری نشانیوں میں سے صرف اصحاب کہف کے واقعہ ہی کو بہت بڑی اور تعجب خیز نشانی سمجھتے ہوڈ سو ایسا نہیں ہے، یہ زمین و آسمان، یہ وسیع و عریض سمندر، یہ بلند وبالا پہاڑ کیا یہ سب ہماری بڑی نشانیاں نہیں ہیں ۔ صنادید قریش میں سے ایک شخص نضر بن حارث تھا ۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت ایذا پہنچاتا تھا ، وہ حیرہ جاتا اور رستم اور سہراب کے قصے سن کر آتا اور جس مجلس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن مجید سے پچھلی امتوں کے واقعات سناتے تو وہ بھی آپ کے قریب بیٹھ جاتا اور کہتا اے جماعت قریش ! بخدا میں تم کو اس سے بہتر اور زیادہ مزے دار قصے سناتا ہوں پھر وہ ان کو روم اور فارس کے بادشاہوں کے قصے سناتا ، پھر قریش نے اس کو اور عقبہ بن ابن معیط کو مدینہ میں علماء یہود کے پاس بھیجا اور بتایا کہ تم لوگ اہل علم ہو ! اور ہم ان پڑھ لوگ ہیں ۔ ہمارے ہاں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ، اب تم بتاؤ کہ ہم کس طرح ان کے دعویٰ کی سچائی کو معلوم کریں ۔ یہود نے کہا : ان سے تین نوجوانوں کے متعلق سوال کرو جو پہلے زمانہ میں ایک غار میں چلے گئے تھے ، اور ان سے اس شخص کے متعلق سوال کرو جس نے روئے زمین کے تمام مشارق و مغارب میں سفر کیا تھا، اور ان سے روح کے متعلق سوال کرو اگر انہوں نے ان تینوں سوالات کے جواب دے دیئے تو وہ برحق رسول ہیں ورنہ نہیں ہے۔ جب نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط مکہ واپس آئے تو انہوں نے آپ سے یہ سوال کئے ۔ آپ نے اس اعتماد پر کہ کل وحی آجائے گی فرمایا : میں تم کو کل اس کے متعلق بتائوں گا۔ آپ انشاء اللہ کہنا بھول گئے تھے (اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت تھی) پھر پندرہ دن تک وحی نہیں آئی اور کفار مکہ چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے کل کا وعدہ کیا تھا اور اب پندرہ دن ہوگئے اور انہوں نے ہمارے سوالوں کے جواب نہیں دیئے ۔ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت رنج ہوا ، تب حضرت جبرئیل اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سورت کو لے کر نازل ہوئے اور اس سورت میں اَصحاب ِ کہف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی خبر ہے اور ذوالقرننین کی بھی خبر ہے جس نے مشرق سے لے کر مغرب تک کا سفر کیا تھا، اور روح کے متعلق سوال کا جواب اس سے پہلی سورت بنی اسرائیل میں ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سورة بنی اسرائیل اور سورة الکھف ایک ساتھ نازل ہوئی ہیں اور ان تنیوں سوالوں کے جوابات بھی ایک ساتھ نازل ہوئے اور روح کے متعلق جو ان کے سوال کا جواب تھا، اس کے مناسب آیات سورة بنی اسرائیل میں تھیں۔ اس لئے آپ نے ان آیتوں کو بنی اسرائیل میں رکھوا دیا اور اصحاب کہف اور ذوالقرننین کے متعلق جو آیتیں تھیں، ان کے مناسب آیتیں سورة الکھف میں تھیں ، اس لئے ان کو آپ نے سورة الکھف میں رکھوا دیا ۔
اَصحاب ِ کہف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ اور اصحاب الرقیم کی سوانح
الکھف کے معنی ہیں پہاڑ میں ایک غار۔ (المفردات ج ٢ ص 570، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ 1418 ھ)
الرقیم : ایک جگہ کا نام ہے ۔ ایک قول یہ ہے کہ الرقیم اس پتھر کا نام ہے جس پر اصحاب کہف کے نام لکھے ہوئے تھے ۔
علامہ محمد بن یوسف ابو الحیان اندلسی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 754 ھ لکھتے ہیں :
اَصحاب ِ کہف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے اسماء عجمی زبان میں ہیں ، ان کو شکل اور نقطوں میں منضبط کرنا مشکل ہے، اور ان کا قصہ بیان کرنے میں راویوں کے بیان مختلف ہیں وہ کس طرح غار میں داخل ہوئے اور کس طرح غار سے نکلے ، کسی صحیح حدیث میں اس واقعہ کا بیان نہیں ہے اور نہ قرآن مجید میں اس کا ذکر ہے سوا ان آیتوں کے جن کا اس سورت میں ذکر فرمایا ہے ۔
روایت ہے کہ جس کافر بادشاہ کے زمانہ میں وہ اس کے ملک سے نکل گئے تھے ، اس کا نام دقیانسو تھا اور یہ لوگ روم کے رہنے والے تھے اور ایک قول یہ یہ کہ یہ لوگ شام کے رہنے والے تھے اور شام میں ایک غار ہے جس میں چند مردے پڑے ہوئے ہیں اور اس غار کے مجاور کا زعم یہ ہے کہ یہی اصحاب کہف ہیں۔ اس غار پر ایک مسجد بھی بنی ہوئی ہے جس کا نام الرقیم ہے ۔ ان کیساتھ ایک بوسیدہ کتا بھی ہے اور اندلس میں غرناطہ کی جانب ایک بستی ہے جس کا نام لوشہ ہے۔ وہاں ایک غار ہے جس میں چند مردے ہیں اور ایک پرانا اور بوسیدہ کتا ہے، ان کا گوشت پوست گل چکا ہے اور صرف ہڈیوں کے ڈھانچے ہیں۔ کئی صدیاں گزر چکی ہیں اور ہم کو کوئی ایسا شخص نہیں ملا جس کو ان کے متعلق صحیح علم ہو، اور لوگوں کا گمان یہ ہے کہ یہی اصحاب کہف ہیں۔ علامہ ابن عطیہ نے کہا میں ان کے غار میں داخل ہوا اور میں نے ان کو دیکھا تقریباً ساڑھے پانچ سو سال سے وہ اسی سال میں ہیں، اس غار کے اوپر ایک مسجد بھی بنی ہوئی ہے اور اس کے قریب ایک رومی عمارت بنی ہوئی ہے جس کا نام الرقمیم ہے ۔ (الحررالوچیز ج 10 ص 392 مطبوعہ المکتبۃ التجاریہ 1407 ھ مکہ مکرمہ)
جس وقت ہم اندلس میں تھے تو لوگ اس غار کی زیارت کرنے کے لئے آتے تھے، اور وہ یہ بتاتے تھے کہ جب بھی ہم ان مردوں کو گنتے تھے تو ان کے گننے میں ہمارا اختلاف ہوجاتا تھا اور ان کے ساتھ ایک کتا بھی تھا۔ غرناطہ کے قریب و قیوس نام کا قرار پاتی ہے کہ اصحاب کہف اندلس کے رہنے والے تھے، وہ یہ ہے کہ اندلس میں عیسائی بہت کثرت کے ساتھ آباد تھے حتی کہ عیسائیوں کی بڑی مملکت اندلس ہی تھی ۔ (الجز الحیط ج ٧ ص 142-143 مطبوعہ دارالفکر بیروت 1412 ھ)
الکھف پہاڑ میں غار کو کہتے ہیں ۔ ان کے غار کا نام حیزم تھا اور الرقیم کے متعلق حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا مجھے معلوم نہیں اس سے کیا مراد ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ الرقیم وہ مرقوم ہے جس میں اصحاب کہف کے اسماء اور ان کو پیش آیا ہوا واقعہ لکھا ہوا ہے جو ان کے بعد والوں نے لکھا۔ امام ابن جریر وغیرہ کی یہی رائے ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ الرقیم اس پہاڑ کا نام ہے جس میں ان کا غار ہے، ایک قول یہ ہے کہ یہ اس جگہ کی بستی کا نام ہے ۔
شعیب جبائی نے کہا ان کے کتنے کا نام حمران تھا اور یہود کو ان کے واقعہ کے ساتھ جو اس قدر دلچسپی تھی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا زمانہ بہت پہلے کا تھا، اور بعض مفسرین نے یہ ذکر کیا ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد تھے اور مذہباً نصاریٰ تھے اور سیاق وسباق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی قوم برت پرست تھی ۔
اکثر مفسرین اور مئورخین نے یہ کہا ہے کہ ان کے زمانہ کے بادشاہ کا نام دقیانوس تھا اور اَصحاب ِ کہف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ بڑے لوگوں کے بیٹھے تھے ۔ ان کی قوم کی عید کے دن ایک اجتماع میں انہوں نے دیکھا کہ ان کی قوم بتوں کی تعظیم اور ان کو سجدے کر رہی ہے ، انہوں نے نظر بصیرت سے دیکھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں سے غفلت کے حجاب دور کردیئے اور ان کے دلوں میں ہدایت انہوں نے نظر بصیرت سے دیکھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں سے غفلت کے حجاب دور کردیئے اور ان کے دلوں میں ہدایت ڈال دی ، اور ان کو یہ یقین ہوگیا کہ ان کی قوم کے عقائد باطل ہیں، سو انہوں نے اپنی قوم کے دین کو ترک کردیا اور اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک کی عبادت پر کمربستہ ہوگئے اور ان میں سے ہر ایک جب سے توحید کا معتقد ہوا تھا، وہ باقی لوگوں سے الگ ہوگیا اور یہ تمام نوجوان ایک جگہ پر مجتمع ہوگئے جیسا کہ حدیث میں ہے :
ام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ نہا بیان کرتی ہیں کہ روحیں ایک مجتمع لشکر ہیں جو روحیں اس لشکر میں باہم معتارف تھیں اور وہ دنیا میں بھی ایک دوسرے سے الفت رکھتی ہیں اور جو روحیں وہاں ایک دوسرے سے اجنبی تھیں وہ دنیا میں بھی ایک دوسرے سے اجنتبی ہیں ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :3336 صحیح مسلم رقم الحدیث 2638، سنن ابودائود رقم الحدیث :3843، مسند احمد رقم الحدیث 7922)
پھر ہر نوجوان نے دور سے نوجوان سے اس کے حالات اور کوائف کے متعلق سوال کیا اور اپنے عقادء سے اس کو خبر دی، پھر ان سب کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ وہ اپنے دین کو بچانے کے لئے اس قوم کے درمیان سے نکل جائیں ، اور شر کے ظہور اور فتنہ کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ کا بھی یہی حکم ہے۔ ان میں سے بعض نے بعض سے کہا جب تم اپنے دلوں کے ساتھ اپنی قوم کے دین سے الگ ہوچکے ہو تو اپنے جسموں اور بدنوں کو بھی اپنی قوم کے جسموں اور بدنوں سے الگ کرلو۔ قرآن مجید میں ہے انہوں نے کہا ۔ واذا عصرلتموھم وما یعبدون الا اللہ فآئو الی الکھف ینشرلکم ربکم من رحمتہ وبھیمی لکم من امرکم مرفقاً ۔
ترجمہ : جب تم ان سے اور اللہ کے سوا ان کے معبودوں سے کنارہ کش ہوچکے ہو تو اب تم کسی غار میں پناہ لوچ تمہارا رب تم پر اپنی رحمت کو کھول دے گا اور تمہارے مشن میں آسانی مہیا کر دے گا ۔ (الکھف :16)
یعنی وہ تم کو تمہاری قوم سے چھپائے رکھے گا اور تم اس کی حفاظت اور رحمت میں رہو گے اور تمہارا انجام بہ خیر کرے گا۔ اسی طرح حدیث میں یہ دعا ہے :
حضرت بسر بن ابی ارطاۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے : اے اللہ ! ہمارے تمام کاموں کا انجام بہ خیر کر اور ہمیں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے (اپنی) پناہ میں رکھ ۔ (المستدرک ج ٣ ص 591 قدیم، المستدرک رقم الحدیث :6567، جدید، صحیح ابن حبان رقم الحدیث 949، مسند احمد ج ٤ ص 181 المعجم الکبیر رقم (المستدرک ج ٣ ص 591، قدیم، المستدرک رقم الحدیث :6567، جدید، صحیح ابن حبان رقم الحدیث :949، مسند احمد ج ٤ ص 181، المعجم الکبیر رقم الحدیث :1198، 1197، حافظ الہیثمی نے کہا ہے کہ امام احمد اور امام طبرانی کے راوی ثقہ ہیں مجمع الزوائد ج 10 ص 178،چشتی)
اللہ تعالیٰ نے اس غار کے متعلق بیان فرمایا ہے اور اس کا دروازہ شمال کی طرف تھا اور اس کا عرض قبلہ کی طرف تھا اور گویا گرمیوں کے زمانہ میں سورج کے طلوع کی پہلی شعاعیں غار کی مغربی جانب سے پڑتی تھیں پھر آہستہ آہستہ وہ شعاعیں غار پر باہر نکلتی تھیں اور جب سورج غروب کی جانب مائل ہوتا تو سورج کی شعاعیں آہستہ آہستہ غار کی مشرقی جانب داخل ہوتیں اور سورج کی شعاعوں کو غار میں داخل کرنے کی حکمت یہ تھی کہ غار کی ہوا خراب نہ ہے ۔
اور وہ ایک طویل زمانہ تک اسی کیفیت پر رہے، وہ کھاتے تھے نہ پیتے تھے نہ ان کا جسم غذا حاصل کرتا تھا اور اتنی مدت تک ان کا کھائے پیئے بغیر رہنا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نشانی تھی، دیکھنے والے ان کو بیدار سمجھتے تھے حالانکہ وہ سوئے ہوئے تھے اور ہر سال وہ ایک جانب سے دوسری جانب کروٹ بدلتے تھے۔ ان کا کتا بھی ان کی چوکھٹ پر ہاتھ پھیلائے ہوئے تھا، اس سے مراد یہ ہے کہ ان کا کتا جو قوم سے الگ ہوتے وقت ان کے ساتھ رہا تھا، وہ ان کے ساتھ لگا رہا اور غار کے اندر داخل نہیں ہوا بلکہ ان کی حفاظت کے لئے غار کے منہ پر بیٹھا رہا۔
علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ غار کس جگہ پر ہے، اکثر علماء نے یہ کہا کہ یہ سر زمین ایلہ (بحر شام کے ساحل پر یہود کا ایک شہر) میں ہے اور ایک قول یہ ہے کہ وہ ارض نینویٰ (عراق کے مضافات میں کربلا وغیرہ پر مشتمل علاقہ) میں ہے اور ایک قول یہ ہے کہ وہ بلقاء (اردن کا وہ علاقہ جو دریائے اردن کے مشرق میں ہے) میں ہے، اور ایک قول یہ ہے کہ وہ روم کے شہروں میں ہے اور یہی قول حق کے مشابہ ہے۔
ان کے شہر لوگ اس غار کی جگہ تک نہیں پہنچ سکے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں کو اس غار سے اندھا کردیا تھا، ان کے معاملہ میں ان کا اختلاف تھا۔ بعض نے کہا اس کے اوپر ایک دیوار بنادو تاکہ اس سے نہ نکل سکیں اور یا اس غار میں کوئی ایسی چیز داخل نہ ہو سکے جو ان کو ایذا پہنچائے، اور دوسرے لوگ جو ان پر حاوی تھے انہوں نے کہا کہ ہم ضرور ان کے اوپر ایک مسجد بنائیں گے یعنی ایک عبادت گاہ۔ ان نیک لوگوں کے جوار اور پڑوس کی وجہ سے برکت نازل ہوگی اور ہم سے پہلی شریعت میں یہ امر متعارف تھا لیکن ہماری شریعت میں قبر کے اوپر مسجد بنانا منوع ہے کیونکہ حدیث میں ہے :
حضرت عائشہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مرض الموت طاری ہوا تو آپ کے چہرے پر چادر ڈال دی گئی جب آپ کو کچھ افاقہ ہوا تو آپ نے چہرے سے چادر اٹھا کر فرمایا :
یہود اور نصاریٰ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو، انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجدیں بنا لای، آپ ان کے کاموں سے مسلمانوں کو ڈراتے تھے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث، 3354، 3453 صحیح مسلم رقم الحدیث :451، سنن النسائی رقم الحدیث 703 سنن ابودائو درقم الحدیث :3227، مسند احمد رقم الحدیث :26413 دارالفکر)
اکثر مفسرین نے کہا اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کو اس چیز کی نشانی بنایا ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا برحق ہے کیونکہ جب لوگوں کو یہ یقین ہوگیا کہ اصحاب کہف تین سو سال سے زیادہ تک سوتے رہے پھر بغیر کسی تغیر اور تبدل کے وہ اٹھ کھڑے ہوئے سو جو ذات اس پر قادر ہے کہ اصحاب کہف کو تین سو سال سلا کر پھر انکو اسی طرح اٹھا دے، وہ اس پر بھی قادر ہے کہ وہ مردوں کو زندہ کر دے خواہ ان کے جسموں کو کیڑے کھاچکے ہوں ۔ (البدایہ والنہایہ ج ٢ ص 8-21 ملحضاً مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1418 ھ)
قاضی عبد اللہ بن عمر بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 685 ھ لکھتے ہیں : حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رومیوں کے خلاف جہاد کیا تو وہ ایک غار کے پاس سے گزرے۔ انہوں نے کہا ہم اس غار کا منہ کھول کر ان لوگوں کو دیکھیں ۔ حضرت ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے کہا آپ کے لئے یہ جائز نہیں ہے آپ سے بہتر شخص کو اللہ تعالیٰ نے انہیں دیکھنے سے منع فرمایا تھا : اگر آپ انہیں جھانک کر دیکھنا چاہتے تو آپ ضرور الٹے پائوں بھاگ کھڑے ہوتے اور ان کے رعب سے آپ پر دہشت چھا جاتی ۔ (الکھف :18) حضرت معاویہ نے حضرت ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی بات نہیں سنی اور کچھ لوگوں کو غار میں بھیجا جیسے ہی وہ لوگ غار میں داخل ہوئے ، ایک سخت ہوا آئی اور اس نے ان کو جلا ڈالا ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جس طرح ہم نے ان کو سلا دیا تھا، اسی طرح ہم نے ان کو اٹھایا تاکہ ان کی بصیرت زیادہ ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت کا جو وعدہ فرمایا ہے وہ برحق ہے، کیونکہ جس نے ان پر تین سو سال تک نیند طاری کی پھر ان کو اٹھا دیا وہ اس پر قادر ہے کہ وہ لوگوں کی روح قبض کرنے کے بعد ان کو دوبارہ زندہ کر دے۔ بعض لوگوں نے کہا ہم اس غار کے اوپر رہائشی مکان بنادیں اور اس جگہ ایک شہر بسا دیں اور بعض لوگ جو زیادہ غالب تھے انہوں نے کہا ہم اس غار کے اوپر ایک مسجد بنائیں گے ۔ (تفسیر البیضاوی علی ہامش الخفا جی جز ٦ ص 146-152 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 1417 ھ،چشتی)
علامہ شہاب الدین خفا جی حنفی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 1067 ھ لکھتے ہیں : غار کے اوپر مسجد بنانا اس پر دلالت کرتا ہے کہ صالحین کی قبروں کے اوپر مسجد بنانا جائز ہے جیسا کہ اس کی طرف کشاف میں ارشاہ ہے اور اس عمارت میں نماز پڑھنا جائز ہے ۔ (عنایۃ القاضی ج ٦ ص 152، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1417 ھ)
لغت میں اصحاب کہف کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے : ملک روم میں جزیرہ افسوس کے شہر افسوس کے رہنے والے چھ یا سات باایمان نوجوان جو مذہباً نصرانی تھے، 248، تا 261 ء میں اپنیح زمانہ کے کافر و ظالم ” دقیانوس “ نام کے بادشاہ کے خوف سے ایک غار میں جا چھپے تھے۔ کہا گیا ہے کہ ان کا کتا بھی ساتھ تھا، وہ سب قدرت الٰہی سے اسی غار میں زمانہ دراز تک سوتے رہے اور سو رہے ہیں ۔ (اردو لغت ج ١ ص 537، مطبوعہ کراچی 10977 ء)
الرقیم کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے : اصحاب کہف (جن کے ناموں کا اس غار پر جس میں وہ سو گئے تھے، بادشاہ وقت نے کتبہ لکھ کر لگا دیا تھا) ان ہی لوگوں کا لقب اصحاب الرقیم بھی ہوگیا ہے۔ (اردو لغت ج ١ ص 537، مطبوعہ کراچی، 1977 ء)
اصحاب کہف کے متعلق ہمارے قدیم اور جدید مفسرین اور مئورخین نے بہت تفصیل سے لکھا ہے ، ان کے علاوہ غیر مسلم محققین اور مستشرقین نے بھی اس موضوع پر خاصی طبع آزمائی کی ہے ۔ انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا میں بھی اسی پر کافی مواد ہے ۔ ابوالاعلیٰ مودودی نے اس مواد سے کافی استفادہ کیا ہے لیکن حضرت پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ المتوفی 1419 ھ نے اس مواد کو بہت جامعیت کے ساتھ اور مربوط انداز میں پیش کیا ہے ، وہ لکھتے ہیں : حضرت مسیح علیہ السلام کے مواعظ کے باعث یہودی علماء و امراء ان کے خون کے پیاسے ہوگئے اور انہیں ہر طرح کی اذیتیں دینے لگے یہاں تک کہ آپ پر دین کی تحریف کا سنگین الزام لگا کر علاقہ کے رومی گورنر پیلاطس کے پاس دعویٰ دائر کیا اور اسے دھمکی دی کہ اگر اس نے انہیں تختہ دار پر نہ چڑھایا تو وہ بغاوت کردیں گے۔ چند حواریوں کے علاوہ ملک کی پوری آبادی یہود کی ہمنوا تھی اور وہ اس لمحہ کا بڑی بےتابی سے انتظار کر رہی تھی جب آپ کو صلیب پر لٹکا دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مقبول بندے کی خود حفاظت فرمائی اور آسمان کی طرف اٹھا کر ان نابکاروں کے ہتھکنڈوں سے آپ کو بچا لیا ۔ ان حالات میں دین مسیحی کے پھیلنے کا کوئی امکان نہ تھا لیکن اپنے ان چند حواریوں کے دل میں حق کا جو چراغ حضرت مسیح روشن کر گئے تھے، وہ مصائب کی ان تند آندھیوں میں بھی نہ بجھ سکا۔ ان کی پرجوش تبلیغ سے لوگ آہستہ آہستہ عیسائیت قبول کرنے لگے اور علاقہ بھر میں ان کے حلقے قائم ہوگئے جو اللہ تعالیٰ کی توحید، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت اور قیامت پر یقین رکھتے تھے اگرچہ ملک کی اکثریت اپنے رومی حکمرانوں کی طرح بت پرست تھی ۔ لیکن 248 ء کے اواخر میں جب دقیانوس (جسے رومی زبان میں ڈیسیس ” Decius “ کہتے ہیں) روما کے تخت پر متمکن ہوا تو ہوا کا رخ پھر بدل گیا۔ اس نے ایک قانون کے ذریعہ مسیحی دین پر پھر پابندی لگا دی۔ انسائیکلوپیڈیا برٹیانیکا کے مقالہ نگار کے خیال کے مطابق یہ پہلا رومی فرمانروا تھا جس نے مسیحیت کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کا جامع منصوبہ بنایا اور اپنی ساری قلمرو میں عیسائیوں کیق تل و غارت کا بازار گرم کردیا ۔ (انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا جلد ٧ ص ١٢٠ )
ایشیاء کو چک اس وقت رومن ایمپائر کے زیر نگین تھا، وہاں کے مختلف شہروں میں بھی عیاسئی آبادیاں تھیں۔ دقیانوس کی اس دار و گیر کی زدان پر بھی پڑی۔ انہیں واضح طور پر بتادیا گیا کہ اگر زندگی کی ضرورت ہے تو عیسائیت چھوڑ دو اور جن بتوں اور دیوی دیوتائوں کی ہم پر جا کرتے ہیں، ان کی پوجا کرو۔ ڈیسیس جب ملکی دورہ پر روانہ ہوتا تو وہ اس مقصد کو تمام دوسرے امور مملکت پر ترجیح دیتا۔ ایک دفعہ اس کا گزر ایشیاء کو چک کی بستی افیسس (Ephesus) پر ہوا۔ یہ جگہ ہے آرٹیمس یا ڈائنا دیوی کا مندر تھا جس کی بڑی دھوم دھام سے پوجا ہوتی تھی اور اس مندر کی وجہ سے اس شہر کو ملک بھر میں خاص اہمیت حاصل تھی۔ یہاں جب دقیانوس نے عیسائیوں کی پکڑ دھکڑ شروع کی تو چند نوجوان اپنی دولت ایمان بچانے کے لئے وہاں سے چل نکلے ۔ قریب ہی ایک پہاڑ تھا جس میں ایک وسیع غار تھا۔ اس میں جا چھپے اور بار گاہ الٰہی میں گڑگڑا کر التجائیں کرنے لگے کہ وہ انہیں اس ظالم اور سنگدل بادشاہ کے شر سے بچائے اور ان کو نعمت ایمان سے محروم نہ کرے۔ ایسا نہ ہو کہ کسی آزمائش میں ان کا قدم لڑکھڑا جائے اور دامن حق ان کے ہاتھ سے چھوٹ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی فریاد سنی اور ان پر نیند مسلط کردی گئی ۔ اس غار کا منہ شمال کی جانب تھا اس لئے اس میں دھوپ تو داخل نہ ہوتی لیکن ہوا اور روشنی کا گزرا اچھی طرح سے تھا۔ اس لئے یہاں ان کے جسم اس طویل نیند کے باوجود محفوظ تھے۔ قدرت مناسب وقفہ کے بعد ان کے پہلو بھی بدل دیتی جیسے نیند کی حالت میں ہم سوئے سوئے پہلو بدل لیا کرتے ہیں، اسی طرح کا احساس ان میں میں بھی یقیناً ہوگا۔ دور سے دیکھنے والے انہیں بیدار خیال کرتے حالانکہ وہ محو خواب تھے۔ ان کے ساتھ ایک کتا بھی ہو لیا تھا۔ انہوں نے اسے بھاگنے کے لئے بڑے جتن کئے لیکن اس نے ساتھ نہ چھوڑا۔ جب وہ غار میں جا کر آسودہ خواب ہوگئے تو وہ بھی پاسبانی کی خاطر غار کے دہانے پر پائوں پھیلا کر بیٹھ رہا ۔ اسی طرح ایک سو ستاسی برس کا عرصہ گزر گیا۔ ڈیسس کیفر کردار کو پہنچا مختلف بادشاہ آئے اور اپنی چند روزہ شاہی کا ڈنکا بجا کر چل دیئے۔ پرانے شہر اجڑے، نئی بستیاں آباد ہوئیں۔ افیسس کے شہر میں بھی اس دو سو سال کے زمانہ میں کیا شکست ریخت نہ ہوئی ہوگی ۔ جب حکمت الٰہی نے چاہا تو ان سونے والوں کو بیدار کردیا، وہ آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھے۔ خیال انہیں بھی گزرا کہ وہ آج معمول سے کچھ زیادہ ہی سوئے ہیں لیکن یہ بات ان کے سان و گمان میں بھی نہ تھی کہ ان کو یہاں بےسدھ پڑے دو صدیاں بیت گئی ہیں اس لئے وہ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ ہو کتنی دیر سو سوئے ہیں ۔
ان کی آنکھیں کیا کھلیں کہ بشری تقاضے بھی بیدار ہوگئے ۔ انہیں بھوک نے ستانا شروع کردیا۔ انہوں نے اپنے ایک ساتھی کو جس کا نام یملخاہ بتایا جاتا ہے بستی کی طرف بھیجا کہ ان کے لئے کھانا خرید لائے۔ جب وہ غار سے نکل کر شہر کی طرف روانہ ہوا تو وادی و کوہسار وہی تھے لیکن ماحول میں اجنبیت کے آثار قدم قدم پر حیران کر رہے تھے۔ شہر میں گئے تو در و دیوار، گلی کو چے زبان حال سے کچھ اور ہی داستان سنا رہے تھے۔ یملخاہ سوچ رہے تھے کہ بار خدا ! ایک آٹھ پہر میں یہ کیا انقلاب گیا، کل جب چھوڑ کر گئے تو اس شہر کا کیا حال تھا اور آج کیا ہے۔ ایک نانبائی کی دکان پر گئے اور اسے کھانا دینے کے لئے کہا اس نے کھانا دیا۔ انہوں نے وہی پرانا سکہ جو یہاں سے جاتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے تھے، اس کی طرف بڑھا دیا۔ دکاندار اس سکہ کو دیکھن کر ہکا بکا ہوگیا۔ معاملہ نے طول پکڑا اردگرد کے دکاندار بھی اکٹھے ہوگئے۔ یملیخاہ پر الزام لگایا گیا کہ اسے کوئی پرانا شاہی خزانہ ہاتھ آیا، معاملہ حاکم شہر تک پہنچا۔ یہاں آ کر حقیقت حال سے پردہ اٹھا۔ انہیں پتا چلا کہ یہ ان نوجوانوں میں سے ایک ہے جو ڈیسیس کے مظالم سے بھاگ کر ایک غار میں پناہ گزیں ہوگئے تھے۔ لوگوں کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ سب ان کی جھلک دیکھنے کے لئے غار تک گئے، وہاں دوسرے ساتھی یملیخاہ کا انتظار کرتے کرتے اکتا گئے اور ان کے دل میں طرح طرح کی جھلک دیکھنے کے لئے غار تک گئے، ہواں دوسرے ساتھی یملیخاہ کا انتظار کرتے کرتے اکتا گئے اور ان کے دل میں طرح طرح کے وسوسے پیدا ہونے لگے تھے جب انہوں نے ایک جم غفیر غار کی طرف آتے دیکھا تو انہیں یقین ہوگیا کہ ان کا ساتھی پکڑا گیا ہے اور اس کے بتلانے پر یہ ہجوم انہیں گرفتار کرنے کے لئے دوڑا چلا آ رہا ہے۔ جب لوگ حاکم شہر کی قیادت میں وہاں گیا ہے اور اس کے بتلانے پر یہ ہجوم انہیں گرفتار کرنے کے لئے دوڑا چلا آ رہا ہے۔ جب لوگ حاکم شہر کی قیادت میں وہاں پہنچے تب اصحاب کہف کو معلوم ہوا کہ انہیں یہاں ٹھہرے صدیاں گزر چکی ہیں اور اب حالات کا رخ بدل گیا ہے اور عیسائیت کا ہر طرف چرچا ہے۔ صرف رعایا ہی نہیں بلکہ حکومت بھی اس دین کو قبول کرچکی ہے۔ مئورخین کے بیان کے مطابق یہ واقعہ 437 ء میں پیش آیا جبکہ روما کے تخت پر تھیوڈ و سیس (Dheosius) متمکن تھا۔
مفسرین کرام اور مئورخین نے اصحاب کہف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی جگہ ، زمانہ اور ان کے مخصوص حالات کے متعلق متعدد اقوال نقل کئے ۔ بعض اسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ سے پہلے کا زمانہ بتاتے ہیں ، بعض نے کہا ہے کہ یہ کہف خلیج عقبہ کے نواحی پہاڑوں میں واقع ہے۔ بعض نے شام کے کسی مقام کا تعین کیا ہے، اور علامہ ابن حیان اندلسی صاحب البحر المحیط نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ یہ سارا واقعہ اندلس کے ملک میں ہوا۔ وہ لکھتے ہیں کہ غرناطہ کے قریب ایک قصبہ ہے جسے ’ دلوشہ “ کہتے ہیں۔ اس میں ایک غار ہے جہاں کئی مردوں کے ڈھانچے ہیں اور باہر ایک کتے کا ڈذانچہ بھی ہے۔ ابن عطیہ کہتے ہیں کہ وہ 504 سے انہیں اسی حالت میں دیکھ رہے ہیں۔ وہاں ایک مسجد بھی ہے اور ایک رومی طرز کی پرانی عمارت بھی ہے جسے ” الرقیم “ کہا جاتا ہے۔ ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے یہ کسی قدیم قصر کے کھنڈرات ہیں اور غرناطہ سے قبلہ کی جانب ایک پرانے شہر کے آثار بھی پائے جاتے ہیں جس کا نام مدینہ دقیوس بتایا جاتا ہے۔ ابن عطیہ کا یہ قول نقل کرنے کے بعد ابن حیان لکھتے ہیں کہ جب ہم اندلس میں تھے تو لوگ اس غار کی زیارت کے لئے جایا کرتے تھے۔ (البحر المحیط)
کئی دیگر مقامات میں غاروں میں اس قسم کے ڈھانچے دکھائی دیتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اہل حق پر جب بھی جبر و تشدد کا بازار گرم ہوا ہو تو ان میں سے چند لوگوں نے قریبی پہاڑوں کی غاروں میں پناہ لی ہو اور ان کے ڈھانچے اسی طرح محفوظ ہوں اور اسپین کے جس غار کا ذکر علامہ ابن حیان نے کیا ہے، وہ بھی اسی طرح کا ایک غار ہو۔
لیکن میں نے جو تفصیل لکھی ہے مجھے وہی حقیقت سے زیداہ قریب معلوم ہوئی ہے کیونکہ ہمارے مفسرین نے اسے یوں ہی بیان کیا ہے۔ ان کے علاوہ ایک مشہور انگریز مئورخ ایڈورڈگبن (Edward Gibbon) نے بھی اپنی معروف تاریخ کی کتاب ” The Decline and fall Of Roman Empire “ کی تیسری جلد صفحہ 340 تا 343 میں ” سات سونے والوں “ کے احوال لکھے ہیں جو بالکل اس واقعہ سے مطابقت رکھتے ہیں حتی کہ عربی مصادر میں جو نام ہیں، تقریباً وہی نام اس نے بھی درج کئے ہیں۔ مئورخ مذکور نے اس کے حاشیہ میں اس واقعہ کا ماخذ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میں نے یہ واقعہ شام کے مشہور بشپ جیمس سروج (James Of Saruj) کے مجموعہ مواعظ جو 230 مواعظ پر مشتمل ہے، کے ایک وعظ سے لیا ہے۔ یہ بشپ 452 ء میں پیدا ہوا اور 474 ء میں اس نے یہ مواعظ لکھے۔ اسے 510 ء میں بشپ مقرر کیا گیا اور 521 ء میں اس نے وفات پائی اور چھٹی صدی کے اختتام سے پہلے شامی زبان سے اس کا ترجمہ لاطینی زبان میں ہوگیا تھا۔ تاریخی لحاظ سے یہ کتاب اس واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کے اقرب ترین زمانہ کی تحریر ہے، اس لئے اس میں حقیقت کی زیادہ سے زیادہ جھلک دکھائی دے سکتی ہے، یہ مواعظ کیونکہ تقریباً پچاس برس بعد لکھے گئے اس لئے ان کی ساری تفصیلات کو جوں کا توں تسلیم کرلینا قطعاً قرین دانش نہیں۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس مجموعہ کے بیان کردہ حالات دوسری روایات سے کہیں زیادہ صحیح صورتحال کے ترجمان ہوسکتے ہیں۔
قرآن کریم نے اصحاب کہف کے واقعہ کا وہ پہلو ذکر کیا جو ہمارے لئے ہدایت کا درس رکھتا ہے، باقی اس کے زمان و مکان وغیرہ تفصیلات کو بالکل نظر انداز کردیا گیا۔ ہر واقعہ کے بیان میں قرآن کریم کا اسلوب یہی ہے اور یہی ایک ایسی خصوصیت ہے جو قرآن حکیم کو تاریخ کی کتب سے ممتاز کرتی ہے۔ قرآن میں جو واقعات بیان ہوئے ہیں ان سے مقصود داستان سرائی نہیں بلکہ عبرت آموزی اور بصیرت افروزی ہے۔ صحیح احادیث میں بھی اس واقعہ کی تفصیلات مذکور نہیں۔ غالباً ہمارے مئورخین نے علماء اہل کتاب سے جو کچھ سنا وہ لکھ دیا۔ کیونکہ گزشتہ واقعات کے متعلق انہیں علماء کے بیانات سند تصور کئے جاسکتے تھے اور اہل کتاب کے ان علماء کے پاس واقعہ کے متعلق پہلی تحریری دستاویز بشپ جیمس کے یہی مواعظ ہیں، اس لئے یہ خیال کرنے میں کوئی قباحت نہیں کہ واقعہ کی یہ تفصیلات حقیقت سے زیادہ قریب ہیں۔
یہاں ایک چیز ضرور قابل غور ہے ۔ گبنن نے بڑی گستاخی سے کام لیتے ہوئے لکھا ہے کہ حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ واقعہ اپنے شام کے تجارتی سفروں کے اثناء میں علماء اہل کتاب سے سنا اور اسے وحی الٰہی کہہ کر قرآن میں درج کردیا۔ کیونکہ قرآن کریم کی بیان کردہ تفصیلات جیمس کے مواعظ میں لکھی ہوئی تفصیلات سے کلی مطابقت نہیں رکھتیں۔ اس لئے اس گستاخ اور منہ پھٹ مئورخ نے سہ پہر علم و حکمت کے نیر اعظم پر بےعلمی اور جہالت کا الزام لگایا۔ اس طرح اس نے نہ صرف حقیقت کا منہ چڑایا ہے بلکہ مئورخ کے بلند مقام کو بھی تعصب کی غلاظت سے آلودہ کردیا ہے۔ جب وہ خود مانتا ہے کہ یہ مجموعہ 474 ء میں لکھا گیا اور اسی کے قول کے مطابق یہ واقعہ 427 ء میں پیش آیا۔ ذرا انصاف فرمایئے، ان پچاس سالوں میں اس میں کیا کچھ رد و بدل نہ ہوگیا ہوگا، کتنی ایسی چیزیں نظر انداز کردی گئی ہوں گی جو انسان کے جذبہ عجوبہ پرستی کی تسکین کا باعث نہیں بنتیں اور کئی باتیں بڑھا دی گئی ہوں گی تاکہ اس واقعہ کو نمک مرچ لگا کر پیش کیا جاسکے۔ اس لئے جیمس کی تفصیلات کا سو فیصدی صحیح ہونا قطعاً یقینا ہیں۔ جب اس کی صحت قطعی نہیں تو قرآن کی صداقت کا انحصار ان مواعظ سے مطابقت پر نہیں ہوسکتا اور نہ ہی قرآن کو کسی گبن کے قول کی سند کی ضرورت ہے ۔ (ضیاء القرآن ج ٣ ص 12-15، مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور 1399 ھ،چشتی)
اصحاب کہف سے متعلق آیات الکھف : ٩ سے شروع ہوئیں ہیں۔ آیت ٩ کی تفسیر ہم اصحاب کہف کی سوانح سے پہلے ذکر کرچکے ہیں۔ آیت ١٠ میں فرمایا ہے اور جب ان نوجوانوں نے غار میں پناہ لی تو انہوں نے دعا کی : اے ہمارے رب ! ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما اور ہمارے مشن میں کامیابی کے اسباب مہیا فرما دے۔ (الکھف :10)
اصحاف کہف کی دعا کی تشریح
اس دعا کا معنی یہ ہے کہ تو اپنی رحمت کے خزانوں میں سے اور اپنے فضل اور احسان کی نعمتوں میں سے ہمیں حظ و افر عطا فرما۔ یعنی ہمیں اپنی طرف ہدایت پر مستقیم رکھ، ہمیں دشمنوں سے مامون اور محفوظ رکھ، اور راہ حق کی صعبوتوں میں ہم کو صبر سے عطا فرما اور ہم کو رزق وافر عطا فرما اور ہم کو ایسے اسباب عطا فرما جن کی وجہ سے ہمارا ہدایت پر قائم رہنا آسان ہوجائے۔
لوگوں کے شر اور فساد سے بچنے کے لئے جنگلوں اور غاروں میں رہنے کا جواز
اس آیت میں یہ تصریح ہے کہ جب آبادی میں رہتے ہوئے دین کے احکام پر عمل کرنا دشوار ہوجائے تو اپنے دین کو بچانے کے لئے اپنے اہل و عیال، اپنے رشتہ داروں اپنے دوستوں اور اپنے مال و دولت اور اپنے وطن کو چھوڑ کر کسی محفوظ علاقے یا جنگلوں اور غاروں کی طرف نکل جانا جائز ہے، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دین کو بچانے کے لئے ہجرت کی اور غار میں بیٹھے۔ سورة التوبہ میں اللہ تعالیٰ نے اس کی تصریح کی ہے۔ اسی طرح آپ کے اصحاب نے اپنے ملک اور اپنے وطن، اپنے اہل و عیال، اپنے بھائیوں، اپنے رشتہ داروں اور اپنے دوستوں کو دین کی سلامتی اور دشمنان اسلام سے نجات کی خاطر چھوڑ دیا اور ظالموں سے نجات حاصل کرنے کے لئے محفوظ علاقے کی طرف نکل جانا انبیاء (علیہم السلام) کی سنت ہے اور اولیاء کرام کا طریقہ ہے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عزت نشینی کی فضیلت بیان کی ہے اور جب فتنہ اور فساد کا غلبہ ہو تو علماء کرام نے بھی عزلت نشینی کی ترغیب دی ہے اور اس آیت میں اس کی تصریح ہے کیونکہ جب اصحاب کہف کو بت پرستوں اور بےدینوں کے شر اور فساد سے خطرہ ہوا تو انہوں نے غار کی طرف پناہ لی۔ فاوا الی الکھف
علماء نے کہا ہے کہ لوگوں سے علیحدگی اختیار کرنا، کبھی پہاڑوں اور گھاٹیوں میں ہوتا ہے، کبھی ساحلوں میں ہوتا ہے اور کبھی گھروں میں ہوتا ہے۔ بعض احادیث میں ہے جب فتنہ ہو تو اپنی جگہ کو مخفی رکھو اور اپنی زبان کو بند رکھو، اور فتنہ سے نکلنے کے لئے کسی خاص جگہ کی تعین نہیں کی اور حدیث میں ہے :
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عنقریب مسلمان کا سب سے بہترین مال اس کی بکریاں ہوں گی، وہ اپنے دین کی حفاظت کے لئے ان بکریوں کو لے کر پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش کی جگہوں پر چلا جائے گا ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث 19)(سنن ابودائود رقم الحدیث :4227،چشتی)(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :3980)(مؤطا امام مالک رقم الحدیث 601)(صحیح ابن حبان رقم الحدیث 5955)(مسند احمد رقم الحدیث :11046 عالم الکتب)
حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے تمہارے رب عز و جل اس بکریوں کے چرانے والے سے خوش ہوتا ہے جو پہاڑ کے کسی حصہ میں اذان دیتا ہے اور نماز پڑھتا ہے۔ پس اللہ عزوجل فرماتا ہے : میرے اس بندے کی طرف دیکھو یہ اذان دیتا ہے اور نماز پڑھتا ہے اور مجھ سے ڈرتا ہے۔ میں نے اپنے اس بندے جکو بخش دیا اور اس کو جنت میں داخل کردیا۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث :1203، سنن النسائی رقم الحدیث :665)
علامہ بدر الدین محمد بن احمد عینی حفنی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 855 ھ لکھتے ہیں : متقدمین اور سلف صالحین کی ایک جماعت فتنہ کے زمانہ میں اپنے وطنوں کو چھوڑ کر چلی گئی، مبادا ان کو بھی فتنہ کا اثر پہنچ جائے جب حضرت عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فتنہ میں مبتلا ہوئے تو حضرت سلمہ بن الاکوع رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ربذہ (فید اور مکہ کی راہ پر ایک گائوں جہاں حضرت ابوذر غفاری مدفون ہیں) چلے گئے ۔ فتنہ کے ایام میں عزلت نشینی کی فضیلت ہے سوا اس شخص کے جو فتنہ کے ازالہ پر قادر ہو، اگر اس کے علاوہ اور کوئی شخص فتنہ کے ازالہ پر قادر نہ ہو تو اس پر آبادی میں رہ کر فتنہ کو زائلک رنا فرض عین ہے ورنہ فرض کفایہ ہے اور جب فتنہ نہ ہو تو پھر اس میں علماء کا اختلاف ہے آیا شہر میں لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنا افضل ہے یا آبادی کو چھوڑ کر کسی جنگل میں چلے جانا افضل ہے ۔ امام شافعی اور دیگر ائمہ علیہم الرّحمہ کا مذہب یہ ہے کہ آبادی میں لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنا افضل ہے کیونکہ اس صورت میں انسان جمعہ، عید اور دیگر شعاء اسلام میں شامل ہوتا ہے، اور مسلمانوں کی جمعیت میں اضافہ کا سبب ہوتا ہے اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر نیک کاموں میں حصہ لیتا ہے، بیماروں کی تیمار داری اور عیادت کرتا ہے، نماز جنازہ میں شریک ہوتا ہے، مسلمانوں کو سلام کرتا ہے، ان کے سلام کا جواب دیتا ہے، نیکی کا حکم دیتا ہے، برائی سے روتکا ہے، تقویٰ اور ثواب کے انفرادی اور اجتماعی کاموں میں مسلمانوں کے ساتھ تعاون کرتا ہے، ضرورت مندوں کی مدد کرتا ہے، جماعت کے ساتھ نماز پڑھتا ہے، اگر وہ عالم دین ہے تو وہ اپنے علم سے مسلمانوں کو نفع پہنچاتا ہے، ان تمام وجوہات سے جب فتنہ کا زمانہ نہ ہو تو اس کے لئے افضل یہ ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہے ۔ اور بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ جب فتنہ کا زمانہ نہ ہو پھر بھی گوشہ تنہائی میں رہنا اور عزلت نشینی افضل ہے کیونکہ اس میں سلامت روی یقینی ہے، بشرطیکہ اس کو عبادات کا اور ان احکام کا علم ہو جو شرعاً اس پر لاگو ہوتے ہیں، لیکن مختار قول یہ ہے کہ اگر آبادی میں رہنے سے اس کو یہ خطرہ نہ ہو کہ وہ کسی گناہ میں مل وث ہوجائے گا تو پھر اس کے لئے آبادی میں لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنا افضل ہے۔ علامہ کرمانی نے کہا ہمارے زمانہ میں میر امختار یہ ہے کہ عزلت نشینی افضل ہے کیونکہ اب لوگوں کی مجلسوں اور محفلوں کا معاصی سے خالی ہونا بہت نادر ہے۔ علامہ عینی فرماتے ہیں کہ میں بھی علامہ کرمانی کے موافق ہوں کیونکہ اس زمانہ میں لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے میں انواع و اقسام کے معاصی سے بچنا بہت مشکل ہے ۔ (عمدۃ القاری ج ١ ص 163، مطبوعہ مصر، 1348 ھ)
عزلت نشینی کے بجائے لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کی فضیلت
بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ عزلت نشینی شر اور اصحاب شر سے واجب ہے نہ کہ پوری آبادی سے۔ انسان آبادی میں لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہے اور جو لوگ بدکار ہیں ان سے اپنے دل اور اپنے عمل کے ساتھ الگ رہے ۔ عبداللہ بن المبارک نے عزلت کی تفسیر میں کہا تم لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہو اور جب وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی عبادت میں مشغول ہوں تو تم بھی ان کا ساتھ دو اور جب وہ کسی برائی میں مشغول ہوں تو ان کا ساتھ چھوڑ دو ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک شیخ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مسلمان جب لوگوں سے مل جل کر رہے اور ان کی ایذائوں پر صبر کرے تو وہ اس مسلمان سے بہتر ہے جو لوگوں سے مل جل کر نہیں رہتا اور ان کی ایذائوں پر صبر نہیں کرتا ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : 2507، شعب الایمان رقم الحدیث 8102،چشتی)(شرح السنتہ رقم الحدیث 3585 المعجم الاوسط رقم الحدیث 370)
اس حدیث میں اس شخص کی فضیلت ہے جو لوگوں کی آبادی میں ان کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے، ان کو نیکی کا حکم دیتا ہے اور ان کو برائی سے روکتا ہے اور ان کے ساتھ خوش اسلوبی کے ساتھ تعلقات رکھتا ہے، یہ اس شخص سے افضل ہے جو لوگوں کے ساتھ آبادی میں نہیں رہتا اور مل جل کر رہنے کی وجہ سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں اور جو مصائب آتے ہیں، اس کو ان پر صبر کرنے کا موقع نہیں ملتا۔
عزلت نشینی اور تمدنی زندگی میں درمیانی کیفیت
فقیر عرض کرتا ہے کہ اس باب میں لوگوں کے احوال مختلف ہوتے ہیں ، بعض لوگوں کو اس پر قوت ہوتی ہے کہ وہ جنگلوں پہاڑوں اور غاروں میں رہ سکیں، اور یہ سب سے افضل ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے آپ کی نبوت کی ابتدا میں پسند کیا تھا اور اس آیت میں بھی اصحاب کہف کے لئے غار میں پناہ لینے کا ذکر فرمایا ہے اور بعض اوقات انسان کے لئے اپنے گھر میں گوشہ نشین ہوجانا زیادہ سہل اور آسان ہوتا ہے۔ حضرت عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی شہادت کے بعد بہت سے اصحاب بدر اپنے گھروں سے نہیں نکلے اور ان کے گھروں سے ان کا جنازہ ہی اٹھا ۔ اور بعض لوگوں کی متوسط حالت ہوتی ہے۔ وہ بہ ظاہر لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں اور دل سے ان کے مخالف ہوتے ہیں، ابن المبارک نے بیان کیا کہ وہیب بن ورد کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا میرے دل میں یہ خیال آیا ہے کہ میں لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دوں۔ انہوں نے کہا ایسا نہ کرو، کیونکہ تمہیں لوگوں کی ضروتر ہے اور لوگوں کو تمہاری ضرورت ہے لیکن تم ان کے درمیان اس طرح رہو جیسے تم سننے والے بہرے ہو اور دیکھنے والے ادنھے اور بولنے والے گونگے ہوں اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ہر وہ جگہ جہاں لوگ زیادہ آتے جاتے نہ ہوں، وہ بھی غاروں اور پہاڑوں کی گھاٹیوں کے حکم میں ہے ۔ مثلا انسان مساجد میں اعتکاف کے لئے بیٹھے، یا کسی ویران ساحل سمندر پر چلا جائے اور وہاں ذکر کرے یا اپنے گھر میں گوشہ تنہائی میں بیٹھ جائے اور لوگوں کے شر اور فساد سے مجتنب رہے ۔ اور احادیث میں جو پہاڑوں، گھاٹیوں اور بکریوں کے چرانے کی جگہوں کا ذکر آیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ عام اور اغلب طور پر لوگوں کے شور و شغب اور شر اور فساد سے بچنے کی یہی جگہیں ہوتی ہیں۔ سو ہر وہ جگہ جہاں لوگوں کا زیادہ آنا جانا نہ ہو، وہ پہاڑوں اور غاروں ہی کے حکم میں ہے اور اللہ ہی نیکی کی توفیق دینے والا ہے اور برائی سے بچانے والا ہے ۔ (الجامع لاحکام القرآن جز 10 ص 325، مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1415 ھ)
نیند کا کانوں کے ساتھ تعلق
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرایا : پھر ہم نے اس غار میں ان کے کانوں پر گنتی کے سالوں تک نیند مسلط کردی۔ (الکھف : ١١)
اس آیت کا حاصل یہ ہے کہ ہم نے ان کو سلا دیا، یعنی ہم نے ان کے کانوں پر ایسے حجاب طاری کردیئے جس کی وجہ سے ان کے کانوں تک کوئی آواز پہنچ نہیں سکتی تھی۔ جب انسان سوتا ہے تو سب سے پہلے اس کے اعصاب ڈھیلے ہوجاتے ہیں پھر وہ آنکھیں بند کرلیتا ہے اور جب اس کے کانوں میں کسی قسم کی آواز نہیں آتی تو یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اس پر نیند مسلط ہوتی ہے اور انسان کی جب نیند منقطع ہوتی ہے تو اس کے کانوں میں کسی آواز کے پہنچنے سے منقطع ہوتی ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی نیند کے ساتھ کانوں کا تعلق ظاہر فرمایا ہے۔ حدیث میں ہے :
حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ایک شخص کا ذکر کیا گیا اور آپ کو بتایا گیا کہ وہ شخص صبح تک سوتا رہتا ہے اور نماز (فجر) کے لئے نہیں اٹھتا۔ آپ نے فرمایا کہ شیطان نے اس کے کان میں پیشاب کردیا ہے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :1144) (صحیح مسلم رقم الحدیث 774،چشتی)(سنن النسائی رقم الحدیث 1607 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث 1320)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے ان کے کانوں پر گنتی کے کئی سالوں تک نیند مسلط کردی اور جمع کا صیغہ وارد کیا ہے، اس کا معنی یہ ہے کہ بہت سالوں تک ان پر نیند مسلط فرمائی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس عدد کو مبہم رکھا ہے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : پھر ہم نے ان کو اٹھایا تاکہ ہم یہ ظاہر کریں کہ ان کے غار میں ٹھہرنے کی مدد کو دو جماعتوں میں سے کس نے زیادہ یاد رکھا ہے ۔ (الکھف :12)
لنعلم کے چند تراجم اور ان پر اشکال
اس آیت کے الفاظ یہ ہیں : ثم بعثنھم لنعلم ای الحزبین احصی لما لبسئوامداد۔ اس آیت کا لفظی ترجمہ اس طرح ہے : پھر ہم نے ان کو اٹھایا تاکہ ہم جان لیں کہ ان کے غار میں ٹھہرنے کی مدت کو وہ جماعتوں میں سے کس نے زیادہ یاد رکھا ہے۔ لیکن اس ترجمہ پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ ان کو اٹھانے سے پہلے اللہ کو علم نہیں تھا کہ دو جماعتوں میں سے کس کو ان کے ٹھہرنے کی مدت زیادہ یاد تھی اور یہ اللہ تعالیٰ کے علام الغیوب ہونے کے خلاف ہے۔ اس لئے یہاں پر علم بہ معنی علم ظہور ہے، یعنی اللہ تو ازل سے اس چیز کا عالم تھا لیکن اللہ تعالیٰ اپنے اس علم کو لوگوں پر ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ دو جماعتوں میں سے کون سی جماعت کو ان کے ٹھہرنے کی مدت کا زیادہ علم ہے ۔
اب ہم چند مترجمین سے اس آیت کا ترجمہ نقل کر رہے ہیں :
محمود حسن دیو بندی متوفی 1339 ھ اس آیت کے ترجمہ میں لکھتے ہیں : پھر ہم نے ان کو اٹھایا کہ معلوم کریں دو فریقوں میں کس نے یاد رکھی ہے جتنی مدت وہ رہے ۔
اشرف علی تھانوی متوفی 1364 ھ لکھتے ہیں : پھر ہم نے ان کو اٹھایا تاکہ ہم معلوم کرلیں کہ ان دونوں گروہ میں کون سا گروہ ان کے رہنے کی مدت سے زیادہ واقف تھا ۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 1340 ھ لکھتے ہیں : پھر ہم نے انہیں جگایا کہ دیکھیں کہ دونوں گروہوں میں کون ان کے ٹھہرنے کی مدت زیادہ ٹھیک بتاتا ہے ۔
ابوالاعلیٰ مودودی متوفی 1399 ھ لکھتے ہیں : پھر ہم نے انہیں اٹھایا تاکہ دیکھیں ان کے دو گروہوں میں سے کون اپنی مدت قیام کا ٹھیک شمار کرتا ہے۔
حضرت پیر میں حمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ متوفی 14919 ھ لکھتے ہیں : پھر ہم نے انہیں بیدار کردیا تاکہ ہم دیکھیں کہ ان دو گروہوں میں سے کون صحیح شمار کرسکتا ہے ۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری لکھتے ہیں : پھر ہم نے انہیں اٹھا دیا کہ دیکھیں دونوں گروہوں میں سے کون اس (مدت) کو صحیح شمار کرنے والا ہے ۔
اللہ کے علم کے حادث ہونے کا اشکال اور اس کے جوابات
ان تمام حضرت مترجمین نے لنعلم کا تقریباً لفظی ترجمہ کیا ہے ” تاکہ معلوم کریں یا تاکہ دیکھیں ‘ جس سے بہرحال یہ اشکال ہوتا ہے کہ ان کو اٹھانے سے پہلے اللہ تعالیٰ کو علم نہیں تھا کہ دو جماعتوں میں سے کس کو ان کے ٹھہرنے کی مدت زیادہ یاد تھی ۔ ہماری تحقیق یہ ہے کہ علم بہ معنی انکشاف بھی ہے اور علم بہ معنی اظہار بھی ہے اور یہاں پر علم بہ معنی اظہار ہے ، اللہ تعالیٰ کو خود تو علم تھا ہی لیکن وہ دوسروں پر یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ ان میں سے کس کو ان کے غار میں ٹھہرنے کی مدت زیادہ یاد تھی، اس لئے ہم نے اس آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے : پھر ہم نے ان کو اٹھایا تاکہ ہم یہ ظاہر کریں کہ ان کے غار میں ٹھہرنے کی مدت کو دو جماعتوں میں سے کس نے زیادہ یاد رکھا ہے ۔
امام فخر الدین محمد بن عمر رازی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی 606 ھ لکھتے ہیں : بہ ظاہر لنعلم کے لفظ کا یہ تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کو اس لئے اٹھایا کہ اللہ تعالیٰ کو یہ علم حاصل ہوجائے اور اس وقت یہ مسئلہ اٹھ کھڑا ہوگا کہ آیا حوادث کے وقوع سے پہلے اللہ تعالیٰ کو ان کا علم ہوتا ہے یا نہیں ؟ ہشام نے کہا اللہ تعالیٰ کو حوادث کا اسی وقت علم ہوتا ہے جب وہ حادث ہوتے ہیں اور اس نے آیت سے استدلال کیا ہے۔ قرآن مجید میں اس آیت کی نظائر بہت ہیں : الا لنعلم من یتبع الرسول ممن ینقلب علی عقبہ (البقرہ 143) ، ولما یعلم اللہ الذین جاھدوا منکم ویعلم الصربن۔ (آل عمران 142) ، انا جعلنا ما علی الارض زینۃ لھا لنبلوھم ایھم احسن عملاً ۔ (الکھف : ٧) ، تاکہ ہم ظاہر کردیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور اس کو اس سے ممتاز کردیں جو اپنی ایڑیوں پر پلٹ جاتا ہے ۔ حالانکہ ابھی اللہ نے تم میں سے مجاہدوں اور صبر کرنے والوں کو (دوسروں سے) ممتاز نہیں کیا ۔ روئے زمین پر جو کچھ ہے ہم نے اس کو اس زمین کی زینت بنادیا ہے تاکہ ہم یہ ظاہر کریں کہ ان میں کون سب سے اچھے کام کرنے والا ہے ۔ (تفسیر کبیرج ٧ ص 430، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، 1415 ھ)
علامہ ابو عبد اللہ قرطبی مالکی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 668 ھ اس اشکال کو دور کرنے کے لئے لکھتے ہیں : لنعلم کا معنی یہ ہے کہ وہ چیز وجود اور مشاہدہ میں آجائے، یعنی ہم اس چیز کو بحیثیت موجود بالفعل جان لیں ورنہ اللہ تعالیٰ کو پہلے سے یہ علم تھا کہ دو جماعتوں میں سے کون سی جماعت کو ان کے غار میں ٹھہرنے کی مدت زیادہ یاد ہے ۔ (الجامع الاحکام القرآن جز 10 ص 326،مطبوعہ دارالفکر بیروت،1415 ھ)
قاضی عبد اللہ بن عمر بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 685 ھ لکھتے ہیں : تاکہ ہمارے علم کا تعلق اس کے حال کے مطابق ہوجائے جیسا کہ پہلے ہمارے علم کا تعلق اس کے استقبال کے مطابق تھا ۔ (تفسیر البیعادی علی ھامش الخفاجی ج 6 ص 138 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1417 ھ)
علامہ محمد بن مصلح الدین القوجوی الحنفی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی 951 ھ اس کی تشریح میں لکھتے ہیں : بہ ظاہر یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم حادث ہے اور ان کے بیدار ہونے پر مترتب ہے ۔ قاضی بیضاوی نے اس اشکال کو اس طرح دور کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم سرمدی ہے، اس پر تغیر اور زوال جائز نہیں ہے۔ تغیر صرف معلومات میں ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ کو ازل میں اس کا علم تھا کہ کس وقت یہ چیز حادث ہوگی اور باقی رہے گی اور جب بھی اس چیز کا ایک حال دور سے حال کی طرف منتقل ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے حدوث کے وقت اس کے حال کا علم ہوتا ہے، پس تجدد اور تغیر علم کے تعلقات میں ہے نہ کہ نفس علم میں۔ ہشام نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو حوادث کے وقوع سے پہلے ان کا علم نہیں ہوتا اس کو صرف ان حوادث کے وقت ان کا علم ہوتا ہے ۔ (حاشیہ شیخ زادہ علی البیضاوی ج ٥ ص ٤٥٢، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1419 ھ)
اور قاضی شہاب الدین احمد بن محمد حنفی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 1069 ھ قاضی بیضاوی کی عبارت کی شرح میں لکھتے ہیں : خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم حادث نہیں ہے بلکہ جب وہ چیز حادث ہوتی ہے تو اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے علم کا تعلق حادث ہوتا ہے اور وہ ہے اس چیز کا بالفعل علم ، کہ کس جماعت کو ان کی مدت زیادہ یاد ہے اور اس کے علم کا دوسرا تعلق قدیم ہے اور وہ یہ ہے کہ عنقریب ایک جماعت کو یہ زیادہ یاد ہوگا، اس طرح اس کے علم کے دو تعلق دائمی ہیں ایک کا تعلق مستقبل کے ساتھ ہے اور دوسرے کا تعلق حال کے ساتھ ہے ۔ (عنایۃ القاضی علی تفسیر البیضاوی ج ٦ ص 138، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 1418 ھ)
دو جماعتوں کا مصداق
اس میں بھی اختلاف ہے کہ یہ دو جماعتیں کون سی تھیں ۔ علماء نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ ایک جماعت وہ بادشاہ ہیں جو یکے بعد دیگرے مسند اقتدار پر آتے رہے ، اور دوسری جماعت سے مراد اصحاب کہف رضی اللہ عٓنہم ہیں ، اور مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کہا ہے کہ جب اصحاب کہف بیدار ہوئے تو غار کی مدت قیام کے متعلق ان میں اختلاف ہوگیا اور اس سے مراد ان کی دو جماعتیں ہیں ۔ فرا رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کہا ہے کہ مسلمانوں کی دو جماعتوں میں ان کی مدت قیام کے متعلق اختلاف ہوگیا ، اس سے مراد ان کی دو جماعتیں ہیں۔ مجاہد کا دوسرا قول یہ ہے کہ دو جماعتوں میں ان کی مدت قیام کے متعلق اختلاف ہوگیا ، اس سے مراد ان کی دو جماعتیں ہیں ۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کا دوسرا قول یہ ہے کہ دو جماعتوں سے مراد ایک مسلمانوں کی جماعت ہے اور دوسری کافروں کی ۔ (جامع البیان جز ١٥ ص 257-258، مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1415 ھ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment