میلادُالنَّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جھنڈے اور جلوس
درج ذیل احادیثِ مبارکہ سے جلوس و جھنڈوں کا ثبوت فراہم ہوتا ہے : ⬇
حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:میں نے دیکھا کہ تین جھنڈے نصب کیے گئے ، ایک مشرق میں ، دوسرا مغرب میں ، تیسرا کعبے کی چھت پر ۔ (الخصائص الکبریٰ جلد اوّل صفحہ 96 امام جلال الدین سیوطی)
حضرت سیدتنا آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : وَرَأَيْتُ ثَلَاثَ أَعْلَامٍ مَضْرُوبَاتٍ: عَلَمٌ فِي الْمَشْرِقِ , وَعَلَمٌ فِي الْمَغْرِبِ , وَعَلَمٌ عَلَى ظَهْرِ الْكَعْبَةِ ۔
ترجمہ : میں نے دیکھا کہ تین جھنڈے نصب کیے گئے ، ایک مشرق میں ، دوسرا مغرب میں ، تیسرا کعبے کی چھت پر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت ہوگئی ۔ (دلائل النبوة لأبي نعيم الأصبهاني جلد ۱ صفحہ ۶۱۰ رقم ۵۵۵)
حضرت سیدتنا آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں نے تین جھندے بھی دیکھے ، ایک مشرق میں گاڑا گیا تھا ۔ دوسرا مغرب میں اور تیسرا جھنڈا خا نہ کعبہ کی چھت پر لہرارہا تھا ) ۔ (سیرت حلبیہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 109) ۔ یہ روایت الو فابا حوال مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں محدث ابن جوزی نے بھی روایت کی ہے ۔ اس سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے موقع پر جھنڈے لگانے کی اصل بھی ثابت ہوئی ۔ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے موقع پر جلوس بھی نکالا جاتا ہے اور نعرہ رسالت بلند کیے جاتے ہیں ۔ اس کی اصل یہ حدیث پاک ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اہلیان مدینہ نے جلوس کی صورت میں استقبال کیا ۔ حدیث شریف میں ہے کہ مرد اور عورتیں گھروں کی چھتوں پر چرھ گئے اور بچے اور خدام گلیوں میں پھیل گئے ، یہ سب با آواز بلند کہہ رہے تھے ، یا محمد یا رسول اللہ ، یا محمد یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ (صحیح مسلم جلد دوم باب الھجرہ)
کتب سیر و اَحادیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہجرت کے بعد مدینہ منورہ آمد کا حال اس طرح بیان کیا گیا ہے : ’’اُن دنوں جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کسی روز بھی متوقع تھی مدینہ منورہ کے مرد و زن، بچے اور بوڑھے ہر روز جلوس کی شکل میں دیدہ و دل فرشِ راہ کیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِستقبال کے لیے مدینہ سے چند میل کے فاصلے پر قباء کے مقام پر جمع ہو جاتے۔ جب ایک روز سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت کی مسافتیں طے کرتے ہوئے نزولِ اِجلال فرمایا تو اس دن اہلِ مدینہ کی خوشی دیدنی تھی ۔ اس دن ہر فرد فرطِ مسرت میں گھر سے باہر نکل آیا اور شہرِ مدینہ کے گلی کوچوں میں ایک جلوس کا سا سماں نظر آنے لگا ۔ حدیثِ مبارکہ کے الفاظ ہیں : ⬇
فصعد الرجال والنساء فوق البيوت، وتفرق الغلمان والخدم في الطرق، ينادون : يا محمد ! يا رسول اللہ ! يا محمد ! يا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ ’’ مرد و زن گھروں پر چڑھ گئے اور بچے اور خدام راستوں میں پھیل گئے، سب بہ آواز بلند کہہ رہے تھے : یا محمد ! یا رسول اللہ ! یا محمد ! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الزهد والرقائق، باب في حديث الهجرة، 4 : 2311، رقم : 2009 2)(ابن حبان، الصحيح، 15 : 289، رقم : 68970 3،چشتی)(أبويعلي، المسند، 1 : 107، رقم : 116 4. مروزي، مسند أبي بکر : 129، رقم : 65)
اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری دیکھ کر جاں نثاروں پر کیف و مستی کا ایک عجیب سماں طاری ہو گیا ۔ اِمام رویانی کے مطابق اہالیانِ مدینہ جلوس کی شکل میں یہ نعرہ لگا رہے تھے : جاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ ’’ اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ہیں ۔ (مسند الصحابة، 1 : 138، رقم : 329)
معصوم بچیاں اور اَوس و خزرج کی عفت شِعار دوشیزائیں دف بجا کر دل و جان سے محبوب ترین اور عزیز ترین مہمان کو اِن اَشعار سے خوش آمدید کہہ رہی تھیں : طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا مِنْ ثَنِياتِ الْودَاعِ وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَيْنَا مَا دَعَاِﷲِ دَاعٍ أيُّهَا الْمَبْعُوْثُ فِيْنَا جِئْتَ بِالْأمْرِ الْمَطَاعِ ۔ ہم پر وداع کی چوٹیوں سے چودھویں رات کا چاند طلوع ہوا، جب تک لوگ اللہ کو پکارتے رہیں گے ہم پر اس کا شکر واجب ہے ۔ اے ہم میں مبعوث ہونے والے نبی! آپ ایسے اَمر کے ساتھ تشریف لائے ہیں جس کی اِطاعت کی جائے گی ۔ (ابن ابي حاتم رازي، الثقات، 1 : 131 2)(ابن عبد البر، التمهيد لما في الموطا من المعاني والأسانيد، 14 : 82 3)(أبو عبيد اندلسي، معجم ما استعجم من أسماء البلاد والمواضع، 4 : 1373 4،چشتی)(محب طبري، الرياض النضرة في مناقب العشرة، 1 : 480 5)(بيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، 2 : 507 6)(ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 583 7. ابن کثير، البداية والنهاية، 3 : 620 8)(ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 7 : 261 9)(ابن حجر عسقلانی فتح الباري، 8 : 129 10)(قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 634 11)(زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 4 : 100، 101 12)(أحمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 323)
واضح ہو گیا کہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کے یہی طریقے جائز اور مسلمہ ہیں ۔ دنیا بھر میں اِسلامی معاشرے اِنہی طریقوں سے میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مناتے چلے آرہے ہیں ۔ ان میں سے ایک عمل بھی ایسا نہیں جس کی اَصل عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دورِ صحابہ میں موجود نہ ہو یا قرآن و سنت سے متصادم ہو ۔ جس طرح یہ اَجزاء الگ الگ طور پر جائز بلکہ مسلمہ ہیں اُسی طرح مجموعی طور بھی محفلِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں اِن کو شرعی جواز حاصل ہے ۔ میلاد کی تقریبات کے سلسلے میں انتظام و انصرام اور ہر وہ کام انجام دینا جو خوشی و مسرت کے اظہار کےلیے ہو شرعی طور پر مطلقاً جائز ہے ۔ اس طرح محفلِ میلاد روحانی طور پر ایک قابلِ تحسین، قابلِ قبول اور پسندیدہ عمل ہے۔ ایسی مستحسن اور مبارک محافل کے بارے میں جواز و عدمِ جواز کا سوال اٹھانا یقیناً حقائق سے لا علمی ، ضد اور ہٹ دھرمی ہے ۔
پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت با سعادت دو شنبہ کے روز ہوئی ۔ دو شنبہ ہی کو آپ کی بعثت و ہجرت ہوئی اور وصال مبارک بھی دو شنبہ ہی کو ہوا۔ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔ دو شنبہ کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا ۔ آپ نے ارشاد فرمایا ! اسی دن میری ولادت ہوئی اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی ۔ (صحیح مسلم)
بارہ ربیع الاول کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس خاکدان عالم میں جلوہ گر ہوئے ۔ سیرت نبوی کے سب سے قدیم و مستند تاریخ نگاہ محمد بن اسحٰق یسار علیہ الرحمہ (ولادت 85ھ۔ وصال 150ھ) نے یہی دن اور یہی تاریخ لکھی ہے ۔ طبری و ابن خلدون جیسے مؤرخین نے بھی یہی لکھا ہے ۔ سیرت کی مقبول کتاب الموھب اللدنیہ کے مؤلف علامہ احمد بن محمد قسطلانی علیہ الرحمہ (ولادت 851ھ۔ وصال 923ھ) یہی دن اور تاریخ لکھنے کے بعد مسلمانوں کے درمیان رائج ایک مستحسن طریقہ کا ذکر اس طرح کرتے ہیں ۔
ترجمہ : رسول کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ولادت طیبہ کے مہینہ میں اہل اسلام محافل و تقریبات منعقد کرتے رہتے ہیں ۔ دعوتوں کا اہتمام اور شب ولادت میں صدقات و خیرات ان کا معمول ہے ۔ اظہار فرح و سرور کرتے ہیں ۔ خوب نیکیاں کرتے ہیں ۔ ولادت طیبہ کے احوال و واقعات پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ جس سے ان پر بڑی برکتیں نازل ہوتی ہیں ۔ (المواہب الدنیہ)
حجازِ مقدس ، یمن ، عراق ، شام ، مصر ، لیبیا ، ترکی ، افغانستان ، سمر قند و بخار اور دیگر بلادِ اسلامیہ میں قدیم روایات کے طرز پر آج بھی محافلِ ذکر ولادت کا انعقاد ہوتا ہے ۔ جن میں ولادت رسول ، فضائل رسول ، سیرت رسول ، دعوت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان ہوتا ہے ۔ اور مسلمان ذوق و شوق کے ساتھ انہیں سنتے سناتے ہیں ۔ اظہارِ مسرت اور اداءِ شکر نعمت کےلیے صدقات و خیرات کرتے ہیں ۔ اور یہ ساری چیزیں کتاب و سنت کی روشنی میں نہ صرف جائز بلہ محمود و مستحسن ہیں ۔ دین میں ان کی اصل اور حکم ہے ۔ اور ہر دور کے لحاظ سے اہل اسلام یہ امور خیر انجام دیتے رہتے ہیں ۔ جائز حدود کے اندر رہتے ہوئے شکل و ہئیت کی تبدیلی سے اصل حکم پر کوئی اثر اور فرق واقع نہیں ہوتا ۔ جس حادث و جدید چیز کا سنت و شریعت کے کسی حکم اور کسی اصل سے تصادم ہو اسے اصطلاح شریعت میں بدعت کہا جاتا ہے ۔ یہ بدعت کبھی اعتقادی ہوتی ہے اور کبھی عملی ہوتی ہے ۔ جیسے خاتمیت نبوتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مسلمہ عقیدہ میں تاویل ، افضلیت و خلافت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کا انکار ، خلق قرآن ، اور قدم عالم کا نظریہ ، تجسیم و تشبیہ و امکان کذبِ باری تعالٰی کا اعتقاد ، علوم و صفاتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تنقیص ، طریقت کے نام پر احکام شریعت کا استخفاف ، غیراللہ کےلیے سجدہ تعظیمی کا جواز ، تقریبات میں اسراف و تبذیر ، فرائض و واجبات سے غفلت اور مباحات و مندوبات میں انہماک وغیرہ وغیرہ ۔
مبادی و معتقداتِ اسلام نہایت جامع و کامل و مکمل ہیں ۔ ان میں کسی ترمیم و تغیر اور حذف و اضافہ کی گنجائش نہیں ۔ کتاب و سنت و کتب دینیہ میں اعتقادی و عملی احکامِ اسلام اجمالاً و تفصیلاً مسطور و مذکور ہیں ۔ فقہ اسلامی کے اصول و ضوابط اور مسائل و جزئیات صدیوں پہلے مدون و مرتب ہو چکے ہیں ۔ اور سارا عالمِ اسلام ان سے واقف اور ان پر عامل ہے ۔ سنت و شریعت سے انحراف اور ان میں کسی قسم کی آمیزش بدعت ضلالت ہے ۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس میں اہلِ حق کا ذرا بھی اختلاف اور ان کے درمیان کہیں بھی دو رائے نہیں ۔ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و سنت خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی اتباع کا یہی مطلب ہے اور سنت و شریعت کا یہی مطلوب و مقصود ہے ۔ جسے ہر لمحہ پیش نظر رکھنا ہر مسلمان کے اوپر لازم ہے ۔
ظاہری عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جو بھی نئی چیز عالمِ ظہور میں آئے اس کے صحیح یا غلط ہونے کا معیار یہ ہے کہ سنت و شریعت کی اصل اور ان کے دائرہ میں ہو اور کسی اصل و حکم کے معارض و متصادم نہ ہو تو جائز ہے ورنہ ناجائز ہے ۔ بدعات و محدثات امور کے قبول و انکار کا یہی ضابطہ اور معیار علماءِ اسلام و محدثین کرام سے بتصریح ثابت ہے ۔ اسی کے مطابق مسلمانانِ عالم کا عمل بھی ہے ۔ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔ جس چیز کو مسلمان بہتر سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی بہتر ہے ۔ بدعت یعنی نئی چیز ناجائز وہی ہے جو سنت و شریعت کے حکم اور کسی اصل کے خلاف ہے ۔ قدیم و مستند محدثین و فقہاء و علماء اسلام مثلاً علامہ ابن حجر عسقلانی ، علامہ بدرالدین عینی ، علامہ قسطلانی ، امام نووی شافعی ، شیخ عبدالحق محدث دہلوی ، علامہ زرقانی ، علامہ ابن عابدین شامی علیہم الرحمہ نے یہی تحریر فرمایا ہے ۔
علامہ جلال الدین سیوطی شافعی علیہ الرحمہ حدیث کل بدعۃ ضلالۃ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اس سے ایسی نئی باتیں مراد ہیں جن کی صحت کی شہادت شریعت سے نہ مل سکے ۔ (صفحہ 234 جلد 2 حاشیہ سیوطی سنن نسائی)
وہابیہ کے امام مؤلف نیل الاوطار محمد بن علی شوکانی حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں : نئی چیزیں دو طرح کی ہوتی ہیں ۔ ایک وہ جو کتاب یا سنت یا اثر یا اجماع کے خلاف ہو ۔ اور یہی بدعت ضلالت ہے ۔ اور دوسری وہ جس کی ایجاد میں کوئی خیر ہو ۔ اس کے بارے میں امت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ اور یہ بدعت مذمومہ نہیں ہے ۔ (القول المفید صفحہ نمبر 33،چشتی)
بہت نئی چیزیں ایجاد مستحسن کے حکم میں ہیں ۔ عہد رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و عہد صدیقی رضی اللہ عنہ میں باجماعت نمازِ تراویح کا معمول نہیں تھا ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوا جسے دیکھ کر آپ نے فرمایا نعمت البدعۃ ھذہ یہ کتنی اچھی بدعت (نئی چیز) ہے ۔ حضرت علی مرتضٰی رضی اللہ عنہ کے حکم سے ابوالاسود دئلی نے عربی گرامر یعنی نحو کے قواعد وضع کیے ۔ جس کا جاننا آج عربی و عجمی ہر ایک کےلیے ضروری ہے ۔ حجاج بن یوسف ثقفی کے حکم سے قرآن حکیم پر اعراب (زیر ، زبر ، پیش) لگایا گیا ۔ آج اس اعراب کے بغیر قرآن حکیم چھپنے چھپانے کا تصور بھی نہیں ہے ۔ ایمان مجمل ، ایمان مفصل ، چھ کلمے اور ان کی ترتیب ، قرآن میں رکوع کی نشاندہی ، تیس پاروں میں اس کی طباعت ، رحل پر رکھ کر اسے پڑھنا ان چیزوں کا عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں کوئی ذکر بھی نہ تھا ۔
احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سند ، ان پر جرح و تعدیل ، صحیح و حسن و ضعیف وغیرہ کی تقسیم ، سب نئی چیزیں ہیں ۔ اصول حدیث کے قواعد و ضوابط نئے ہیں ۔ فقہ اسلامی کے اصول ، اس کی تدوین سب نئی چیزیں ہیں ۔ اسی طرح قرآن فہمی کےلیے وضع کردہ تفسیر بھی نیا فن ہے ۔ یہ وہ چیزیں ہیں جس کا مذہب اور علومِ اسلامیہ سے تعلق ہے ۔ ان نئے علوم و فنون اور امور دنیاوی کا شمار مشکل ہے جن کے جائز ہونے پر ساری دنیا متفق ہے ۔ محفلِ ولادت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انعقاد ۔ جس کی اصل ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔ اور یہ اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے ۔ قدیم و جدید علماء عرب کے علاوہ علماء ہند میں دہلی کے شاہ عبدالحق محدث دہلوی ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ، شاہ ابو سعید مجددی دہلوی ، شاہ ابوالخیر مجددی دہلوی علیہم الرحمہ اور سہار نپور کے حاجی امداد اللہ مہاجرمکی ، فیض الحسن سہارنپوری ، رحمت اللہ کیرانوی ، مولانا عبدالسمیع بیدل سہارنپوری ، حاجی عابد حسین قادری بانی مدرسہ اسلامی عربی دیوبند ، (موجودہ دارلعلوم دیوبند) وغیرہم جس کے جواز و اتحسان کے قائل ہی نہیں بلکہ اس کے عامل بھی رہے ہیں ۔ ان حضرات کی تحریرات و تصدیقات اس پر شاہدِ عدل ہیں ۔ لیکن آج محافلِ میلاد کو بدعت کہا جا رہا ہے ۔
عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں عصرِ حاضر جیسی عظیم الشان و مزین مساجد نہیں تھیں ، عمارت اور نصابِ تعلیم کے ساتھ دارالعلوم نہیں تھے ۔ آج جیسے جلسہ و جلوس کا کوئی رواج نہیں تھا ۔ سمینار اور کانفرنسیں نہیں ہوتی تھیں ۔ مدارس سے تکمیلِ علوم کے بعد سند نہیں دی جاتی اور دستار بندی بھی نہیں ہوتی تھی ۔ مگر ان میں سے کوئی چیز مسلمانوں کی نظر میں معیوب و مذموم نہیں ، بدعت کہہ کر انہیں کوئی چھوڑنے کو تیار نہیں ۔ 1950ء کی دہائی میں جماعتِ اسلامی پاکستان نے تزک و احتشام کے ساتھ غلافِ کعبہ تیار کرا کے جلوس کی شکل میں شہر شہر گھمایا اور مکہ مکرمہ بھیجا ۔ اخبارات میں خوب چرچا ہوا ۔ کچھ لوگوں نے اعتراض کیا کہ یہ تو بدعت ہے ۔ ابوالاعلٰی مودودی نے اس کا تحریری جواب دیا کہ بدعت نہیں ہے اس میں کوئی چیز مزاجِ شریعت کے خلاف نہیں ہے ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جماعتِ غیرمقلدین وہابیہ کے علماء اپنی مذہبی شناخت کےلیے سلفی اور اثری لکھتے ہیں ۔ موجودہ ائمہ حرمین شریفین کے دورہء ہند و پاک کے وقت سلفی علماء پروپیگنڈہ کر کے دور دور سے نمازیوں کو شدرِ حال کرا کے ان کے پیچھے نمازیں پڑھواتے ہیں ۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے ۔ دہلی سے سہارنپور کے مشہور مدارس ختمِ بخاری کے جلسے کراتے ہیں ۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے ۔ تبلیغی جماعت کے سہ روزہ و چالیس روزہ چلے اور گشت ہوتے ہیں ۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے ۔ نماز عصر کے بعد بالالتزام تبلیغی نصاب و فضائل اعمال کا درس ہوتا ہے یہ بھی بدعت نہیں ہے ۔ دیوبند کا صد سالہ جشن منایا جاتا ہے ۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے ۔ ندوہ کا پچاسی سالہ جشن منایا جاتا ہے ۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے ۔ علماءِ دیوبند و غیرمقلد وہابیہ سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلسے اور کانفرنسیں کرتے ہیں ۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے ۔ اپنے علماء پر سمینار کراتے ہیں یہ بھی بدعت نہیں ہے ۔ جمعیت علماءِ دیوبند کے جلسے اور کانفرنسیں ہوتی ہیں ۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے ۔ بھوپال (انڈیا) رائے ونڈ (پاکستان) ڈھاکہ (بنگلہ دیش) میں سالانہ تبلیغی اجماعات ہوتے ہیں یہ بھی بدعت نہیں ہے ۔ جمعیۃ العلماء کی قیادت میں کانپور انڈیا میں ہر سال جلوسِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نکلتا ہے ۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے ۔ علماء دیوبند جلوس مدح صحابہ رضی اللہ عنہم عر سال نکالتے ہیں ۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے ۔ اہلحدیث کانفرنسیں اور اسامہ بن لادن کی یاد میں جلوس نکلتے ہیں یہ بھی بدعت نہیں ؟ ۔ اگر بدعت ہے تو بارہ ربیع الاول شریف کا جلوس و میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جھنڈے و مَحافل کیونکہ اس سے ایک کچھ لوگوں و جماعتوں کی بالادستی اور انا مجروح ہوتی ہے اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محفلیں بھی بدعت ہیں تو صرف اس لیے کہ اُن کے مفادات کو ضرب پہنچتی ہے ۔ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا ؟ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment