Saturday 16 September 2023

حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی تاریخِ شہادت اور الزامات کا جواب

0 comments
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی تاریخِ شہادت اور الزامات کا جواب
محترم قارئینِ کرام : حضرت سیدنا امام حسن مجتبی رضی اللہ تعالی عنہ کے سن وصال میں مؤرخین کا کافی اختلاف ہے ، اشہر یہ ہے کہ سن ۴۹ میں انتقال ہوا اور راجح یہ ہے کہ سن ۵۰ میں ہوا ۔ رہا یہ کہ مہینہ کون سا تھا تو  معتمد روایات میں ہے کہ وہ ربیع الاول کا مبارک مہینہ تھا اور بعض روایات میں ۵ ربیع الاول بھی بتائی گئی ہے ۔ امام عالی مقام سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی شہادت عظمی پانچ (5) ربیع الاول ، 50 ہجری اور ایک روایت کے مطابق 49 ہجری ، مدینہ منورہ میں ہوئی ، آپ کو زہر دیکر شہید کیا گيا ، آپ کا مزار مقدس جنت البقیع شریف میں ہے ۔ توفي رضي الله عنه بالمدينة مسموماً۔۔۔۔ وكانت وفاته سنة تسع وأربعين وقيل في خامس ربيع الأول سنة خمسين ۔ (تاریخ الخلفاء،جلد 1 صفحہ 78)

حضرت امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : كانت وفاته سنة ،49 وقيل في خامس ربيع الأول سنة ۵۰ ، قيل سنة ۵۱ ۔ (تاریخ الخلفاء: ۱۴۷)

حضرت امام ابن حجر ہیثی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : كانت وفاته سنة 49 أو 50 أو 51 أقوال، والأكثرون على الثاني كما قاله جماعة وغلط الواقدي ما عدا الأول ۔ (الصواعق المحرقة صفحہ ۱۹۸)

حضرت امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اختلف في وقت وفاته، فقيل مات سنة 49، وقيل بل مات في ربيع الأول من سنة حمسين". (الاصابة جلد ١ صفحہ ۳۸۹)

البدايہ والنہايہ میں ہے : توفي الحسن وهو ابن ۴۷، وكذا قال غير واحد، هو أصح، والمشهور أنه مات سنة ۴۹ كما ذكرنا، وقال أخرون: مات سنة ۵۰ ۔ (البداية والنهاية جلد ۱۱ صفحہ ۲۱۲)

تاریخِ دمشق میں ہے : مات الحسن في ربيع الأول سنة ۴۹، وهو يومئذ ابن ۴۷ سنة - (تاریخِ دمشق جلد 13 صفحہ ۳۰۰) 
اس میں ہے : مات الحسن بن علي لخمس ليال خلون من شهر ربيع الأول سنة ۵۰ ۔ (تاریخِ دمشق جلد ١٣ صفحہ ۳۰۲،چشتی)

الوافی بالوفیات میں ہے : توفي الحسن في شهر ربيع الأول سنة ۴۹ في قول الواقدي، وفي سنة ۵۰ في قول جماعة ۔ (الوافى بالوفیات جلد ١٢ صفحہ ۶۷)

وفیات الاعیان میں ہے : مات في شهر ربيع الأول سنة ۴۹ وله ۴۷ سنة، وقيل : مات سنة ۵۰ ، وهو أشبه بالصواب ۔ (وفيات الاعیان جلد ٢ صفحہ ۲۵)

حضرت سیدنا امام ابو محمد حسن رضی اللہ عنہ نے 5 ربیع الاول 50ھ کو مدینۃُ المنوّرہ میں اس دارِ ناپائیدار سے رحلت فرمائی (یعنی وفات پائی) ۔ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ ۔ (صفۃ الصفوۃ جلد ۱ صفحہ ۳۸۶)

یہ بھی کہا گیا ہے کہ 49ھ میں وفات ہوئی ۔ بوقتِ شہادت حضرت سیّدنا امامِ حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کی عمر شریف 47سال تھی ۔ (تقریب الھذیب لابن حجر عسقلانی صفحہ ۲۴۰ )

مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہما کی تاریخ شہادت ۵ ربیع الاول تحریر فرمائی ہے ، وقت وفات حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے برادر عزیز (امام حسین رضی اللہ عنہ) میں ایسے امر میں داخل ہونے والا ہوں کہ جس کی مثل میں اب تک نہیں داخل ہوا تھا اور میں اللہ کی مخلوق میں سے ایسی مخلوق دیکھ رہا ہوں جس کی مثل کبھی نہیں دیکھا ۴۵ سال چھ ماہ چند روز کی عمر میں بمقام مدینہ طیبہ ۵ ربیع الاول ۴۹ہجری میں آپ رضی اللہ عنہ نے وفات پائی اور جنت البقیع میں حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے پہلو میں دفن ہوئے ۔ (خطبات محرم صفحہ ۲۸۷)

علامہ خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں حضرت سیدنا امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ کا وصال انچاس ہجری ماہ ربیع الاول کو ہوا ۔ وتوفي الْحَسَن بْن عَلِيّ بْن أَبِي طالب في ربيع الأول من سنة تسع وأربعين ۔ (تاریخ بغداد : 1/140)

أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي رحمۃ اللہ علیہ (المتوفى: 463هـ) نے بھی سال انچاس اور پچاس لکھا مگر مہینہ ربیع الاول تھا ۔ ومات الحسن بن علي رضي الله عنهما بالمدينة واختلف في وقت وفاته فقيل مات سنة تسع وأربعين وقيل بل مات في ربيع الأول من سنة خمسين ۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الصحاب : 1/115،چشتی)

محمد بن حبان الدارمي البُستي رحمۃ اللہ علیہ (المتوفى: 354هـ) اکاون ہجری اور ماہ ربیع الاول لکھتے ہیں : فمات في شهر ربيع الأول سنة إحدى وخمسين ۔ (الثقات لابن حبان :3/68)

ابن عساکر اور ابن جوزی علیہما الرحمہ پچاس ہجری پانچ ربیع الاول لکھتے ہیں : مات الحسن بن علي لخمس ليال خلون من شهر ربيع الأول سنة خمسين ۔ (تاریخ دمشق : 13/302)(صفوۃ الصفوۃ :1/762)

امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے پچاس ہجری ربیع الاول میں آپ کا وصال لکھا : تُوُفِّيَ الْحَسَنُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي رَبِيعٍ الْأَوَّلَ سَنَةَ خَمْسِينَ ۔ (تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام:2/397،چشتی)

امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے سن (سال) انچاس ، پچاس اور اکاون لکھے اور کہا کہ ربیع الاول کی پانچ تاریخ تھی ۔ وكانت وفاته سنة تسع وأربعين، وقيل: في خامس ربيع الأول سنة خمسين، وقيل: سنة إحدى وخمسين ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 147])

محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب الآملی أبو جعفر الطبری رحمۃ اللہ علیہ (المتوفى: 310هـ) ۔ حضرت امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ پچاس ہجری پانچ ربیع الاول کو رخصت ہوئے ۔ مات الحسن بن على عليه السلام سنة 50 في ربيع الاول لخمس خلون منه ۔ (المنتخب من ذيل المذيل صفحہ نمبر 19،چشتی)

مات الحسن بن علي لخمس ليال خلون من شهر ربيع الأول سنة خمسين ۔ حضرت امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ پچاس ہجری پانچ ربیع الاول کو رخصت ہوئے ۔ (الجزء المتمم لطبقات ابن سعد :1/354)

بعض لوگوں میں یہ غلط فہمی در آئی ہے کہ ۲۸ صفر کو حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کا یوم شہادت سمجھے ہیں اور اسی مناسبت سے اس دن نیاز کا اہتمام کرتے ہیں ۔ نعت و منقبت اور تقاریر کی محفلیں سجاتے ہیں ، حالانکہ در حقیقت یہ شیعہ مذہب کی روایت ہے جسے طوسی اور قمی کے استاد مشہور و معروف شیعی مصنف محمد بن محمد بن نعمان معروف به شیخ مفید نے "مسار الشیعة فی مختصر تواریخ الشریعۃ صفحہ ۲۲ پر لکھا ہے اور اس پر ایران کے شیعوں کا عمل ہے ۔ تعجب تو یہ ہے کہ خود شیعی علما اس روایت کو تسلیم نہیں کرتے ہیں اور ان کے نزدیک حضرت امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی مستند روایت ۷ / صفر ہے جیسا کہ مشہور شیعی عالم قاسم بن ابراہیم رسی نے " تنثبیت الامامة " صفحہ ۲۹ پر اور محمد بن مکی عاملی نے "الدروس الشرعية في فقه الامامية " جلد ۲ صفحہ ۷ پر اور ابراہیم بن علی عاملی کفعمی نے " المصباح صفحہ ۵۹۶ پر اور حسین بن عبد الصمد عاملی نے " وصول الاختيار الى اصول الاخبار صفحہ ۵۳ پر لکھا ہے اور نجف و عراق کے شیعوں کا اس تاریخ پر عمل ہے ۔ مگر ہمارے بعض سنیوں کی زبوں حالی اس حد تک ہو گئی ہے کہ جو شیعی روایت خود شیعوں کے نزدیک قوی نہیں ہے ، اس پر کار بند ہیں اور اس کو صحیح سمجھتے ہیں ۔ خلاصہ یہ کہ ۲۸ صفر کو ہر گز حضرت سیدنا امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ کی شہادت نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ شیعوں کے مخترعات میں سے ہے ۔ اہل سنت و جماعت کو چاہیے کہ ہر ربیع الاول کو آپ کا یومِ شہادت قرار دیں تا کہ صحیح تاریخ بھی ہو اور ساتھ ہی شیعوں کارد بھی ہو جاۓ ۔

حضرت سیّدنا امام حسن بن علی رضی الله عنہ کے جنازے میں مہاجرین و انصار نے شرکت کی ۔ (عمدہ القاری شرح صحیح بخاری الجز الثامن صفحہ ١٨٠ مطبوعہ دارالکتب علمیہ بیروت)

حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کا جنازہ حضرت سیدنا سعید بن العاص الاموی رضی اللہ عنہ نے پڑھایا تھا ۔ (شیعہ کتاب شرح نہج البلاغہ جلد 16 کا صفحہ 220)

حضرت سیدنا امامِ حسن بن مولا علی رضی اللہ عنہما کا جنازہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گورنر حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نے پڑھایا ، حضرت سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ کےلیے انہیں خود آگے کیا تھا ، وہ جنازہ پڑھاتے وقت رو رہے تھے ۔ (مستدرک الحاکم جلد ۳ صفحہ ۱۹۰)

واضح رہے کہ حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ بڑے جلیل القدر صحابی ہیں اور وہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مدینہ طیبہ کے گورنر تھے ، انہیں فتنوں سے بے انتہاء نفرت تھی ، انہوں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہتے ہوئے کسی جنگ میں شرکت نہیں کی ۔

آ پ رحمۃ اللہ علیہ کی نمازِ جنازہ حضرت سیّدنا سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نے پڑھائی جو اس وقت مدینۃُ المنوّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے گورنر تھے ۔ حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو جنازہ پڑھانے کےلیے آگے بڑھایا ۔ (الاستیعاب جلد ۱ صفحہ ۴۴۲)

حضرت سیّدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کے جنازے میں اس قدر جمِّ غفیر تھا کہ حضرت سیّدنا ثَعْلَبَہ بن ابی مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں امامِ حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کے جنازے میں شریک ہوا ، آپ رضی اللہ عنہ کو جنت البقیع میں (اپنی والدۂ ماجدہ کے پہلو میں) دفنایا گیا ، میں نے جنت البقیع میں لوگوں کا اس قدر اِزدِحام دیکھا کہ اگر سوئی بھی پھینکی جاتی تو (بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے) وہ بھی زمین پر نہ گرتی بلکہ کسی نہ کسی انسان کے سر پر گرتی ۔ (الاصابۃ جلد ۲ صفحہ ۶۵)

بعض لوگ بُغضِ معاویہ رضی اللہ عنہ میں مبتلا ہیں اور اس بات کو مختلف اوقات میں اچھالتے ہیں اور سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مگر یہ لوگ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ رضی اللہ عنہا پر بدکاری کا الزام لگا دیا کہ اس کے یزید لعین سے ناجائز تعلقات تھے استغفر اللہ ۔ ان لوگوں کو اتنا بھی سوچ نہ آئی کہ خانوادہ رسول علیہم السّلام کی بہو پر بیہودہ الزام لگا دیا ۔ یہ الزام انتہائی بے بنیاد اور لغو ہے ۔ حتٰی کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کو بھی معلوم نہ ہو سکا کہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو کس نے قتل کیا ہے ، تو کس طرح دوسروں کو معلوم ہو گیا کہ امام حسن رضی اللہ عنہ کو  نعوذ باللہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قتل کیا ہے ؟

قال بن سعد أخبرنا إسماعيل بن إبراهيم أخبرنا بن عون عن عمير بن إسحاق دخلت أنا وصاحب لي على الحسن بن علي فقال لقد لفظت طائفة من كبدي وإني قد سقيت السم مرارا فلم أسق مثل هذا فأتاه الحسين بن علي فسأله من سقاك فأبى أن يخبره رحمه الله تعالى ۔
ترجمہ : عمیر بن اسحق کہتے تھے کہ میں اور میرے ایک ساتھی حسن رضی اللہ عنہ کے پاس گئے انہوں نے کہا کہ میرے جگر کے کچھ ٹکڑے گرچکے ہیں اورمجھے کئی مرتبہ زہر پلایا گیا ؛ لیکن اس مرتبہ کہ ایسا قاتل کبھی نہ تھا اس کے بعد حسین رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور پوچھا کس نے پلایا، لیکن انہوں نے بتانے سے انکار کیا ۔ (الإصابة في تمييز الصحابة جلد ۲ صفحہ ۷۳،چشتی)

عمیر بن اسحاق کہتے ہیں : دخلت أنا ورجل علی الحسن بن علی نعودہ ، فجعل یقول لذلک الرجل: سلنی قبل أن لا تسألنی ، قال: ما أرید أن أسألک شیئا ، یعافیک اللّٰہ ، قال: فقام فدخل الکنیف ، ثمّ خرج إلینا ، ثمّ قال: ما خرجت إلیکم حتی لفظت طائفۃ من کبدی أقلبہا بہذا العود ، ولقد سقیت السمّ مرارا ، ما شیء أشدّ من ہذہ المرّۃ ، قال: فغدونا علیہ من الغد ، فإذا ہو فی السوق ، قـال : وجاء الحسین فجلس عند رأسہ ، فقال: یا أخی ، من صاحبک ؟ قال : ترید قتلہ ؟ قال: نعم ، قال: لئن کان الذی أظنّ ، للّٰہ أشدّ نقمۃ ، وإن کان بریئا فما أحبّ أن یقتل برئی ۔
ترجمہ : میں اور ایک آدمی سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما پرعیادت کے لیے داخل ہوئے ۔ آپ رضی اللہ عنہمااس آدمی سے کہنے لگے : مجھ سے سوال نہ کرسکنے سے پہلے سوال کرلیں۔ اس آدمی نے عرض کیا: میں آپ سے کوئی سوال نہیں کرنا چاہتا۔ اللہ تعالیٰ آپ کوعافیت دے۔ آپ رضی اللہ عنہماکھڑے ہوئے اور بیت الخلاء گئے ۔ پھر نکل کر ہمارے پاس آئے ، پھرفرمایا: میں نے تمہارے پاس آنے سے پہلے اپنے جگر کا ایک ٹکڑا (پاخانے کے ذریعہ)پھینک دیاہے۔ میں اس کو اس لکڑی کے ساتھ الٹ پلٹ کررہاتھا۔ میں نے کئی بار زہر پیا ہے ، لیکن اس دفعہ سے سخت کبھی نہیں تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم ان کے پاس اگلے دن آئے تو آپ رضی اللہ عنہماحالتِ نزع میں تھے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے اور آپ کے سر مبارک کے پاس بیٹھ گئے اور کہا : اے بھائی!آپ کو زہر دینے والا کون ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہمانے فرمایا : کیا آپ اسے قتل کرنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ! فرمایا : اگر وہ شخص وہی ہے جو میں سمجھتا ہوں تو اللہ تعالیٰ انتقام لینے میں زیادہ سخت ہے۔ اور اگر وہ بری ہے تو میں ایک بری آدمی کو قتل نہیں کرنا چاہتا ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ : ۱۵/۹۳،۹۴، کتاب المحتضرین لابن ابی الدنیا : ۱۳۲، المستدرک للحاکم : ۳/۱۷۶، الاستیعاب لابن عبد البر : ۳/۱۱۵، تاریخ ابن عساکر : ۱۳/۲۸۲، وسندہٗ حسنٌ،چشتی)

اسی طرح اہل تشیع کی مشہور کتاب بحار الانوار میں علامہ مجلسی نے مروج الذہب للمسعودی الشیعی سے مندرجہ زیل روایت نقل کی ہے : عن جعفر بن محمد، عن أبيه، عن جده علي بن الحسين عليهم السلام قال: دخل الحسين على عمي الحسن حدثان ما سقي السم فقام لحاجة الانسان ثم رجع فقال: سقيت السم عدة مرات، وما سقيت مثل هذه، لقد لفظت طائفة من كبدي ورأيتني أقلبه بعود في يدي، فقال له الحسين عليه السلام: يا أخي ومن سقاك؟ قال: وما تريد بذلك؟ فإن كان الذي أظنه فالله حسيبه، وإن كان غيره فما أحب أن يؤخذ بي برئ، فلم يلبث بعد ذلك إلا ثلاثا حتى توفي صلوات الله عليه ۔
ترجمہ : علی بن حسین بن علی بن ابی طالب (زین العابدین) رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ حسین میرے چچا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے پاس ان کے زہر پلانے کے وقت گئے تو حسن رضی اللہ عنہ قضائے حاجت کے لئے گئے وہاں سے لوٹ کر کہا کہ مجھے کئی مرتبہ زہر پلایا گیا ، لیکن اس مرتبہ کے ایسا کبھی نہ تھا اس میں میرے جگر کے ٹکڑے باہر آگئے تم مجھے دیکھتے کہ میں ان کو اپنے ہاتھ کی لکڑی سے الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا ، حسین رضی اللہ عنہ نے پوچھا بھائی صاحب کس نے پلایا ؟ حسن رضی اللہ عنہ نے کہا، اس سوال سے تمہارا کیا مقصد ہے ، اگر زہر دینے والا وہی شخص ہے جس کے متعلق میرا گمان ہے تو خدا اس کے لئے کافی ہے اور اگر دوسرا ہے تو میں یہ نہیں پسند کرتا کہ میری وجہ  سے کوئی ناکردہ گناہ پکڑا جائے ، اس کے بعد حسن رضی اللہ عنہ زیادہ نہ ٹھہرے اور تین دن کے بعد انتقال کرگئے ۔ (بحار الأنوار - العلامة المجلسي - ج ٤٤ - الصفحة ١٤٨،چشتی)

پس معلوم ہوا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر لگایا جانے والا یہ الزام کوئی بنیاد نہیں رکھتا ، یہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دشمنوں کا اپنا ایجادکردہ الزام ہے ۔

علامہ ابن خلدون رحمۃ اللہ علیہ اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں : وما ينقل من ان معاوية دس إليه السم مع زوجه جعدة بنت الاشعث فهو من أحاديث الشيعة وحاشا لمعاوية من ذلك ۔
ترجمہ : اوریہ روایت کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان (امام حسن رضی اللہ عنہ) کی بیوی سے مل کر زہر دلایا شیعوں کی بنائی ہوئی ہے حاشا معاویہ رضی اللہ عنہ کی ذات سے اس  کاکوئی تعلق نہیں ۔ (ابن خلدون ج ۲ ص ١۸۷،چشتی)

علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : وأما قوله : إن معاوية سم الحسن ، فهذا  مما ذكره بعض الناس ، ولم يثبت ذلك ببينة شرعية ، أو إقرار معتبر ، ولا نقل يجزم به ، وهذا مما لا يمكن العلم به ، فالقول به قول بلا علم ۔ ترجمہ : بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ حسن کو معاویہ رضی اللہ عنہ نے زہر دیا تھا کہ کسی شرعی دلیل اورمعتبر اقرار سے ثابت نہیں ہے اورنہ کوئی قابل وثوق روایت سے اس کی شہادت ملتی ہے اوریہ واقعہ ان واقعوں میں ہے جس کی تہ تک نہیں پہنچا جاسکتا اس لیے اس کے متعلق کچھ کہنا بے علم کی بات کہنا ہے ۔ (منہاج السنہ ج ۴ ص ۴٦۹،چشتی)

علامہ حافظ ابن کثیر اس کے متعلق لکھتے ہیں : وعندي أن هذا ليس بصحيح ، وعدم صحته عن أبيه معاوية بطريق الأولى ۔
ترجمہ : میرے نزدیک تو یہ بات بھی صحیح نہیں کہ یزید نے سیدنا امام حسن کو زہر دے کر شہید کر دیا ہے ۔ اور  اس کے والد ماجد سیدنا امیر معاویہ کے متعلق یہ گمان کرنا بطریق اولٰی غلط ہے ۔ (البدایہ والنہایہ ج ۸ ص ۴۳)

امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تاریخ میں فرماتے ہیں : قلت : هذا شيء لا يصح فمن الذي اطلع عليه ۔ ترجمہ : میں کہتا ہوں کہ یہ بات صحیح نہیں ہے ، اور اس پر کون مطلع ہو سکا ہے ۔ (تاریخ اسلام ص ۴۰،چشتی)

حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی تایخ وصال میں مور خین کا اختلاف ہے،ایک قول یہ ہے کہ سن 49/ہجری میں آپ کا وصال ہوا ۔اور ایک قول یہ ہے کہ سن ۵۰/ہجری میں ہوا،اور سن ۵۱/ہجری کا بھی قول کیا گیا ہے۔لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔آپ کی وفات کاسبب یہ ہوا کہ دشمنوں کی سازش سے آپ کو زہر پلا دیا گیا ،جس کی وجہ سے آپ چالیس دن تک بیمار رہے پھر آپ کا وصال ہو گیا۔ جب بیماری زیادہ بڑھی  تو آپ نے اپنے چھوٹے بھائی سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے فر مایا کہ:مجھے تین بار زہر دیا گیا لیکن اس بار سب سے زیادہ شدید زہر تھا جس سے میرا جگر کٹ رہا ہے ۔سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے پو چھا کہ آپ کو کس نے زہر دیا ہے؟تو آپ نے فر مایا:یہ سوال کیوں پوچھتے ہو؟کیا تم ان سے جنگ کروگے۔میں ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں ۔

کچھ لوگوں سے یہاں پر سخت غلطی واقع ہو ئی ،وہ کہتے ہیں کہ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ  کی بیوی “جعدہ بنت الاشعث” کو دشمنوں نے بہلا پھسلا کر اپنی سازش کا حصہ بنا لیا اور وہ دشمنوں کے جھانسے میں آکر حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو دھوکے میں زہر پلادی۔یہ بات بالکل جھوٹ اور افترائے محض ہے۔کیو نکہ تمام مور خین نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ جب حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ سے زہر پلانے والے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے کسی کا نام نہ بتایا اور صرف اتنا کہا کہ:میں ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں۔تو جب انہوں نےنام نہیں بتایا یہاں تک کہ کسی کے بارے میں اپنی شک کا اظہار بھی نہ فر مایا۔جس کی وجہ سے اس وقت کسی سے قصاص نہ لیا جا سکا تو پھر دوسروں کو کیسے اس کا علم ہوا؟اس لئے  ایک ایسے مقدس امام  جن سے اپنا رشتہ جوڑنے پر اس زمانے کی عورتیں ہر دکھ گوارا کرنے کو تیار رہتی تھی ،پھر جنہیں نوجوانا ن جنت کی سردار کی بیوی بننے کا شرف حاصل ہوا ۔ان  کے بارے میں ایسا خیال ر کھنا اپنی تباہی اور بر بادی کو دعوت دینا ہے۔اللہ تعالی ہم سب کو صراط مستقیم پر قائم رکھے اور اپنے ان نیک بندوں کے صدقے دارین کی سر خروئی نصیب فر مائے ۔

خلیفہ اعلیٰحضرت صدر الافاضل حضرت علامہ سیّد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ سوانح کربلا میں فرماتے ہیں : مؤرخین نے زہر خورانی کی نسبت جعدہ بنت اشعث ابن قیس کی طرف کی ہے اور اس کو حضرت امام کی زوجہ بتایا ہے اوریہ بھی کہا ہے کہ یہ زہر خورانی باغوائے یزید ہوئی ہے اور یزید نے اس سے نکاح کا وعدہ کیا تھا۔ اس طمع میں آکر اس نے حضرت امام کو زہردیا ۔ (تاریخ الخلفاء، باب الحسن بن علی بن ابی طالب،ص۱۵۲) لیکن اس روایت کی کوئی سندِ صحیح دستیاب نہیں ہوئی اور بغیر کسی سندِ صحیح کے کسی مسلمان پر قتل کا الزام اور ایسے عظیم الشان قتل کا الزام کس طرح جائز ہوسکتا ہے ۔

قطع نظر اس بات کے کہ روایت کےلیے کوئی سند نہیں ہے اور مؤرخین نے بغیر کسی معتبرذریعہ یا معتمدحوالہ کے لکھ دیاہے ۔ یہ خبر واقعات کے لحاظ سے بھی ناقابل اطمینان معلوم ہوتی ہے ۔ واقعات کی تحقیق خود واقعات کے زمانہ میں جیسی ہوسکتی ہے مشکل ہے کہ بعد کو ویسی تحقیق ہو خاص کر جب کہ واقعہ اتنا اہم ہو مگر حیرت ہے کہ اَہل بیتِ اَطہار کے اس امامِ جلیل کا قتل اس قاتل کی خبر غیر کو تو کیا ہوتی خود حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پتہ نہیں ہے یہی تاریخیں بتاتی ہیں کہ وہ اپنے برادر ِمعظم سے زہردہندہ کا نام دریافت فرماتے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زہر دینے والے کا علم نہ تھا ۔ اب رہی یہ بات کہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی کانام لیتے ۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا تو اب حضرت جعدہ رضی اللہ عنہا کو قاتل ہونے کیلئے معین کرنے والا کون ہے۔حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کویاامامین کے صاحبزادوں میں سے کسی صاحب کواپنی آخر حیات تک جعدہ کی زہر خورانی کاکوئی ثبوت نہ پہنچانہ ان میں سے کسی نے اس پر شرعی مواخذہ کیا ۔ ایک اور پہلو اس واقعہ کاخاص طور پر قابل لحاظ ہے وہ یہ کہ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی کو غیر کے ساتھ سازباز کرنے کی شنیع تہمت کے ساتھ متہم کیا جاتا ہے یہ ایک بدترین تبرا ہے۔ عجب نہیں کہ ا س حکایت کی بنیاد خارجیوں کی افتراءات ہوں جب کہ صحیح اور معتبر ذرائع سے یہ معلوم ہے کہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کثیر التزوج تھے اور آپ نے سو (۱۰۰) کے قریب نکاح کیئے اور طلاقیں دیں ۔ اکثرایک دو شب ہی کے بعد طلاق دے دیتے تھے اور حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم باربار اعلان فرماتے تھے کہ امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عادت ہے ، یہ طلاق دے دیا کرتے ہیں ، کوئی اپنی لڑکی ان کے ساتھ نہ بیاہے ۔ مگر مسلمان بیبیاں اور ان کے والدین یہ تمنا کرتے تھے کہ کنیز ہونے کا شرف حاصل ہو جائے اسی کا اثر تھا کہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن عورتوں کو طلاق دیدیتے تھے ۔ وہ اپنی باقی زندگی حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت میں شیدایانہ گزاردیتی تھیں اور ان کی حیات کا لمحہ لمحہ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یاد اور محبت میں گزرتا تھا ۔ (تاریخ الخلفاء باب الحسن بن علی بن ابی طالب صفحہ ۱۵۱) ۔ ایسی حالت میں یہ بات بہت بعید ہے کہ امام کی بیوی حضرت امام کے فیض صحبت کی قدر نہ کرے اور یزید پلید کی طرف ایک طمعِ فاسد سے اما م جلیل رضی اللہ تعالیٰ 
عنہ کے قتل جیسے سخت جرم کا ارتکاب کرے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

















0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔