معراج شریف کا محال ہونا اس کے وقوع کی دلیل ہے
معراج شریف کا محال ہونا اس کے وقوع کی دلیل ہے : میں تو یہ عرض کروں گا کہ اگر فلاسفہ سفر معراج شریف کے استحالہ پر دلائل قائم نہ کرتے تو ہمارا مدعا ثابت نہ ہوتا۔ اس لئے کہ ہم معراج کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا معجزہ کہتے ہیں اور معجزہ وہی ہے جس کا وقوع عادتاً محال ہو اور منکرین کو عاجز کرنے کے لئے ضروری تھا کہ پہلے اس کے استحالہ عادیہ کو ثابت کیا جائے تاکہ قدرت ایزدی سے اس کا ظہور وقوع معجزہ قرار پا سکے۔
اب ظاہر ہے کہ یہ کام کسی مسلمان سے تو ممکن نہ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر ایمان رکھنے کے باوجود معراج کے محال ہونے پر دلیلیں قائم کرے۔ لہٰذا جس اللہ نے اپنی قدرت سے معراج جیسے محال کو ممکن نہیں بلکہ واقع کر دیا۔ اسی قادرِ مطلق نے اپنی قدرتِ کاملہ سے فلاسفہ جیسے ملحدین اور بے دین لوگوں سے اس کے استحالہ پر دلیلیں قائم کرا دیں تاکہ ادعاء استحالہ کے بعد اس کا وقوع اس کے معجزہ ہونے کی دلیل قرار پا سکے۔ وللّٰہ الحجۃ السامیۃ۔
تعجب ہے کہ مادی ترقی کے اس دور میں بھی لوگوں کو مسئلہ معراج میں تردد ہے۔ جب کہ محض مادی اور برقی طاقت کے بل بوتے پر انسان مشرق و مغرب اور جنوب اور شمال کے قلابے ملا رہا ہے۔ زمین سے آسمانوں کی طرف ہوائی جہازوں کی پرواز اور راکٹوں کا ستاروں تک پہنچنے کا ادعاء چند منٹ میں ہزاروں میل مسافت طے کرنے کا زعم اور محض برقی طاقت سے۔ لیکن معراج کے معاملے میں اس حقیقت کو قطعاً نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قادرِ قیوم اپنی قدرت کاملہ سے اپنے ایسے روحانی، نورانی محبوب کو راتوں رات لے گیا جس کی روحانیت کا مادہ پرست انکار بھی نہیں کر سکے پھر براق پر لے گیا جو برق سے مشتق ہے۔ برق بجلی کو کہتے ہیں جس بجلی کے بل بوتے پر انسان ضعیف البنیان آج منٹوں میں ہزاروں میل مسافت طے کر سکتا ہے۔ فضائے عالم کو چیر کر آسمانوں اور ستاروں کی طرف بلند پروازی کا دعویٰ کر سکتا ہے اگر باقی تمام امور سے قطع نظر کر کے صرف اسی برقی طاقت کو مد نظر رکھ لیا جائے تب بھی مسئلہ معراج میں کسی قسم کا خلجان باقی نہیں رہتا۔
باقی رہا آسمانوں کا خرق و التیام تو اس زمانہ میں لوگوں نے سرے سے آسمانوں ہی کا انکار کر دیا تو خرق والتیام کی کہاں گنجائش رہی۔
ہمارے نزدیک تو آسمان ایسے اجسام لطیفہ ہیں جن میں خرق والتیام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تفصیل کے لئے ہمارا رسالہ ’’قرآن اور آسمان‘‘ ملاحظہ کیجئے جس میں اجسام سماویہ کی لطافت پر سیر حاصل تبصرہ کیا گیا ہے۔
تصدیق صدیق
جب حضور ﷺ نے قریش مکہ کے سامنے واقعہ معراج بیان فرمایا تو انہوں نے (معاذ اللہ) تمسخر کیا اور ابو جہل نے قریش مکہ کو جمع کر کے مذاق اڑایا۔ ہر طرف آدمی دوڑائے اور زیادہ سے زیادہ آدمی جمع کر کے تکذیب و تمسخر کے لئے واقعہ معراج سنایا۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بلانے کے لئے آدمی بھیجے اور ان سے کہا کہ تمہارے رسول (ﷺ) فرماتے ہیں کہ میں راتوں رات مکہ سے بیت المقدس اور وہاں سے آسمانوں پر پہنچا اور تمام آسمانوں کی سیر کر کے واپس آ گیا۔ کیا ان کی ایسی بات کی بھی آپ تصدیق کریں گے۔ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں تو اس سے بھی زیادہ بعید چیزوں میں ان کی تصدیق کرتا ہوں۔ اگر انہوں نے فرمایا ہے تو اس کے حق ہونے میں کوئی شک نہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور سید عالم ﷺ سے عرض کیا کہ ’’حضور (ﷺ)‘‘ میں نے بیت المقدس دیکھا ہوا ہے۔ حضور میرے سامنے اس کی صفت بیان فرمائیں۔ بیت المقدس منکشف ہو گیا اور حضور ﷺ نے مسجد اقصیٰ کے در و دیوار، اس کی ہیئت اور کیفیت وغیرہ امور بیان فرمائے۔ (مواہب اللدنیہ جلد ثانی)
کفارِ قریش جو تکذیب و تمسخر کے در پئے تھے کہنے لگے کہ ہم نے آسمان تو دیکھے نہیں لیکن مسجد اقصیٰ دیکھی ہے۔ آپ ہمارے سامنے اس کی پوری ہیئت، نوعیت و کیفت بیان فرمائیں۔ حضور ﷺ بیان فرمانے لگے تو اثنائے بیان میں ایک انقباض کی سی حالت طاری ہو گئی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے حضرت عقیل ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے گھر کے قریب رکھ دیا۔ حضور ﷺ اسے دیکھتے جاتے تھے اور بیان فرماتے جاتے تھے۔ اس مقام پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم کا انکار کرنا غلط ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ اگر علم نہ ہوتا تو حضور ﷺ فرما دیتے تھے کہ مجھے ہر بات کا علم نہیں۔ علاوہ ازیں صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے سب کچھ بیان فرما چکے تھے۔ پھر علم نہ ہونے کے کیا معنی؟ باوجود علم کے بعض چیزوں کی طرف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا التفات نہ تھا جس کی وجہ سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ کیفیت لاحق ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کی اس حالت اور کیفیت کو دور فرمانے کے لئے مسجد اقصیٰ حضور ﷺ کے سامنے رکھ دی۔ اس میں حضور ﷺ کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کمال اعزاز و اکرام ثابت ہوتا ہے کہ معمولی سی عدم توجہ کے باعث جو اضطرابی کیفیت لاحق ہوئی تھی اللہ تعالیٰ نے اس کے ازالہ کے لئے خرق عادت کے طور پر اپنی قدرتِ کاملہ کو ظاہر فرمایا اور جس طرح واقعہ معراج معجزہ تھا بالکل اسی طرح اس کی دلیل میں بھی معجزہ ظاہر فرمایا تاکہ اعجازی شان میںدعویٰ اور دلیل آپس میں مطابق ہو جائیں اور اہل ایمان پر یہ حقیقت واضح ہو جائے کہ جو قادر و قیوم حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے پل جھپکنے سے پہلے بلقیس کا عظیم تخت لا سکتا ہے وہ اپنی قدرتِ کاملہ سے اپنے حبیب ﷺ کے سامنے مسجد اقصیٰ کو بھی حاضر کر سکتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ اس صورت میں فلسطین کے رہنے والوں نے مسجد اقصیٰ کو گم کیوں نہیں پایا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا کی عظیم قدرت سے یہ بعید نہیں کہ ملک شام میں مسجد اقصیٰ دیکھنے والوں کے سامنے اس کی ایسی مثال قائم فرمائے جس کا دیکھنا مسجد اقصیٰ کے حکم میں ہو۔ وما ذٰلک علی اللّٰہ بعزیز۔
جب حضور ﷺ مسجد اقصیٰ کے متعلق ہر سوال کا مسکت جواب دے چکے تو کفارِ قریش حیران ہوئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کبھی مسجد اقصیٰ نہیں دیکھی۔ مجبوراً انہیں کہنا پڑا کہ مسجد اقصیٰ کے متعلق جو کچھ حضور ﷺ نے فرمایا سب درست ہے لیکن اس خیال سے کہ شاید کسی سے سن کر بیان کر دیاہو کفارِ قریش کہنے لگے کہ مسجد اقصیٰ کا نقشہ تو آپ نے ٹھیک ٹھیک بیان فرما دیا لیکن یہ بتائیے کہ مسجد اقصیٰ جاتے یا آتے ہوئے ہمارا قافلہ بھی آپ کو ملا ہے یا نہیں؟ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا، ہاں (ایک شخص کا نام لے کر ارشاد فرمایا کہ) بنی فلاں کے قافلہ پر مقام روحاء پر میں گزرا۔ ان کا ایک اونٹ گم ہو گیا تھا وہ اسے تلاش کر رہے تھے اور ان کے پالان میں پانی کا بھرا ہوا ایک پیالہ رکھا تھا۔ مجھے پیاس لگی تو میں نے پیالہ اٹھا کر اس کا پانی پی لیا۔ پھر اس کی جگہ اس کو ویسے ہی رکھ دیا جیسے وہ پہلے رکھا ہوا تھا۔ جب وہ لوگ آئیں تو ان سے دریافت کرنا کہ جب وہ اپنا گم شدہ اونٹ تلاش کر کے اپنے پالان کی طرف آئے تھے تو کیا انہوں نے اس پیالہ میں پانی ڈالا تھا یا نہیں؟ انہوں نے کہا، ہاں ٹھیک ہے۔ یہ ایک بہت بڑی نشانی ہے۔ پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک شخص کا نام لے کر فرمایا کہ میں بنی فلاں کے قافلہ پر بھی گزرا اور فلاں اور فلاں (جن کا نام حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذکر فرمایا لیکن راوی کو یاد نہیں رہا) دو آدمی مقام ذی طویٰ میں ایک اونٹ پر سوار تھے ان کا اونٹ میری وجہ سے بدک کر بھاگااور وہ دونوں سوار گر پڑے۔ ان میں فلاں شخص کا ہاتھ ٹوٹ گیا۔ جب وہ آئیں تو دونوں سے یہ بات دریافت کر لینا۔ انہوں نے کہا، اچھا یہ دوسری نشانی ہوئی۔ پھر انہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ایک قافلہ کی بابت معلوم کیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ میں اس قافلہ پر مقام تنعیم میں گزرا ہوں۔ انہوں نے کہا اس کی گنتی بتائیے اور وہ قافلہ کیا چیز لاد کر لا رہا ہے۔ اس کی ہیئت کیا ہے اور اس میں کون کون لوگ ہیں؟ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا، ہاں اس کی ہیئت ایسی اور ایسی ہے اور اس قافلے کے آگے بھورے رنگ کا اونٹ ہے۔ اس پر دھاری دار دو بوریاں لدی ہوئی ہیں اور سورج نکلتے ہی مکہ میں پہنچ جائے گا۔ انہوں نے کہا، یہ تیسری نشانی ہوئی۔ پھر وہ پہاڑ کی گھاٹی کی طرف دوڑے کہتے تھے کہ محمد نے ایک چیز بیان کی ہے۔ پھر وہ کدیٰ پہاڑی پر آ بیٹھے اور انتظار کرنے لگے کہ سورج کب نکلے تاکہ ہم حضور ﷺ کی تکذیب کریں۔ (معاذ اللہ) ناگہاں ان میں سے ایک آدمی بولا خدا کی قسم! یہ سورج نکل آیا۔ دوسری طرف انہی کے ایک آدمی نے اسی وقت کہا۔ خدا کی قسم! یہ قافلہ بھی آ گیا۔ اس کے آگے بھورے رنگ کا اونٹ ہے۔ اس قافلہ میں فلاں فلاں آدمی ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا تھا لیکن اس کے باوجود وہ ایمان نہ لائے اور یہ کہا کہ (معاذ اللہ) یہ کھلا جادو ہے۔
بیت المقدس میں باب محمد ﷺ
ابن ابی حاتم نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ معراج کی رات جب حضور ﷺ کو جبریل علیہ السلام براق پر سوار کر کے بیت المقدس پہنچے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس مقام پر تشریف فرما ہوئے جسے بابِ محمد ﷺ کہا جاتا ہے تو جبریل علیہ السلام ایک پتھر کے پاس آئے جو اس جگہ تھا۔ جبریل علیہ السلام نے اس پتھر میں اپنی انگلی مار کر سوراخ کر دیا اور براق اس میں باندھ دیا۔(تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص ۶)
معراج شریف پر ایلیاء کے بطریق کی شہادت
حافظ ابو نعیم اصبہانی نے دلائل النبوۃ میں حضرت محمد بن کعب قرظی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت دحیہ بن خلیفہ رضی اللہ عنہ کو قیصر روم کی طرف بھیجا۔ راوی نے حضرت دحیہ کے جانے اور پہنچنے کا پورا واقعہ بیان کیا اور یہ بھی کہا کہ قیصر روم نے (حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیغام مبارک سن کر) ملک شام سے عرب کے تاجروں کو طلب کیا۔ حضرت ابو سفیان اور ان کے ہمراہی قیصر روم کے سامنے پیش کئے گئے۔ قیصر روم نے ان سے وہ مشہور سوالات کئے جنہیں بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ (اس وقت) ابو سفیان نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح قیصر روم کے سامنے حضور ﷺ کے امر کو (معاذ اللہ) حقیر و ذلیل کیا جائے۔ اس روایت میں ابو سفیان کا قول ہے میں چاہتا تھا کہ ہرقل قیصر روم کے سامنے کوئی ایسی بات کروں جس سے حضور ﷺ قیصر روم کی نظروں میں گر جائیں۔ مگر مجھے خوف تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ میرے جھوٹ کی گرفت کرے اور میری تمام باتوں کو جھٹلا دے۔ اس طرح میں لوگوں میں بدنام ہو جاؤں اور میری سرداری پر دھبہ آئے۔ ابو سفیان نے کہا میں اسی فکر میں تھا کہ مجھے شب معراج کے بارے میں ان کا قول یاد آ گیا۔ میں نے فوراً کہا کہ اے بادشاہ (قیصر روم) کیامیں تجھے ایسی بات نہ بتاؤں جسے سن کر (معاذ اللہ) تو ان کے جھوٹا ہونے کو پہچان لے۔ بادشاہ نے کہا، وہ کیا بات ہے۔ ابو سفیان نے جواب دیا کہ ان کا کہنا ہے کہ میں ایک رات میں ارضِ حرم (مسجد بیت الحرام) سے چلا اور ایلیاء (بیت المقدس) کی مسجد اقصیٰ میں آیا اور اسی رات صبح سے پہلے مکہ واپس پہنچ گیا۔ ابو سفیان نے کہا کہ جس وقت میں یہ بات کر رہا تھا اس وقت عیسائیوں کا پیشوا جو مسجد اقصیٰ کا بڑا پادری تھا قیصر روم کے پاس کھڑا تھا۔ بیت المقدس کے اس بطریق نے کہا مجھے اس رات کا علم ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ تجھے کیا علم ہے؟ اس نے کہا کہ میری عادت ہے کہ میں ہر روز رات کو سونے سے پہلے مسجد کے تمام دروازے بند کر دیا کرتا ہوں۔ اس رات میں نے تمام دروازے بند کر دئیے۔ باوجود انتہائی کوشش کے ایک دروازہ مجھ سے بند نہ ہو سکا۔ میں نے اپنے کارندوں اور تمام حاضرین سے مدد لی۔ سب نے پورا زور لگایا اور ساری قوت صرف کر دی مگر وہ دروازہ نہ ہلا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ہم کسی پہاڑ کو اس کی جگہ سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ بالآخر میں نے ترکھانوں کو بلایا انہوں نے اسے دیکھ کر کہا (ایسا معلوم ہوتا ہے) کہ اوپر کی عمارت نیچے آ گئی ہے اور دروازہ کی چھاؤں (اوپر کی چوکھٹ) کا اس پر دباؤ پڑ گیا ہے۔ اب رات میں کچھ نہیں ہو سکتا۔ صبح دیکھیں گے کہ کس طرف سے یہ خرابی واقع ہوئی ہے۔ بطریق نے کہا دروازہ کے دونوں کواڑ کھلے چھوڑ کر ہم لوگ واپس چلے گئے۔ صبح ہوتے ہی میں وہاں آیا۔ یکایک دیکھتا ہوں کہ مسجد کا دروازہ بالکل ٹھیک ہے گوشۂ مسجد کے پتھر میں سوراخ ہے اور سواری کے جانور باندھنے کا نشان اس میں نظر آ رہا ہے۔ (یہ منظر دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ آج رات باوجود انتہائی کوشش کے دروازہ کا بند نہ ہونا اور پتھر میں سوراخ کا پایا جانا پھر اس سوراخ میں جانور باندھنے کا نشان موجود ہونا حکمت سے خالی نہیں) میں نے اپنے ہمراہیوں سے کہا آج رات اس دروازہ کا کھلا رہنا صرف نبی معظم ﷺ کے لئے تھا۔ یقینا اس نبی معظم ﷺ نے ہماری اس مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھی۔ پھر پوری حدیث بیان کی۔ (تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص ۶۴)
حدیث معراج کے راوی
حدیث اسراء اور معراج کو مندرجہ ذیل صحابہ کرام و اسلاف عظام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے روایت فرمایا۔ جیسا کہ حافظ ابن کثیر نے حافظ ابو الخطاب سے تفسیر ابن کثیر میں نقل فرمایا
حضرت عمر فاروق، حضرت علی مرتضیٰ، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت ابوذر، حضرت انس بن مالک، حضرت مالک بن صعصعہ، حضرت ابو ہریرہ، حضرت ابو سعید خدری، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت شداد بن اوس، حضرت ابی بن کعب، حضرت عبد الرحمن بن قرظ، حضرت ابو حبہ، حضرت ابو لیلیٰ، حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت جابر انصاری، حضرت حذیفہ بن یمان، حضرت بریدہ اسلمی، حضرت ابو ایوب انصاری، حضرت ابو امامہ، حضرت سمرہ بن جندب، حضرت ابو الحمراء، حضرت صہیب رومی، حضرت ام ہانی، حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت اسماء بنت ابی بکر الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین (تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص ۶۴)
بعض علماء نے ان حضرات کے علاوہ مندرجہ ذیل صحابہ کرام کا اضافہ بھی فرمایا
حضرت صدیق اکبر، حضرت عثمان غنی، حضرت ابو درداء، حضرت بلال بن سعد، حضرت عبد اللہ بن زبیر، حضرت ابو سفیان، حضرت سیدہ ام کلثوم بنت رسول اللہ ﷺ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین
شب معراج شق صدر مبارک
مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ فرشتوں نے حضور ﷺ کا سینۂ اقدس اوپر سے نیچے تک چاک کیا اور قلب مبارک باہر نکالا پھر اسے شگاف دیا اور اس سے خون کا ایک لوتھڑا نکال کر پھینکا اور کہا کہ آپ کے اندر یہ شیطان کا ایک حصہ تھا۔
خون کا لوتھڑا یا شیطان کا حصہ
علامہ تقی الدین سبکی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے دل میں خون کا لوتھڑا پیدا فرمایا ہے اس کا کام یہ ہے کہ انسان کے دل میں شیطان جو کچھ ڈالتا ہے یہ لوتھڑا اس کو قبول کرتا ہے جس طرح قوت سامعہ آواز کو اور قوت باصرہ مبصرات کی صورتوں کو اور قوت شامہ خوشبو، بدبو کو اور قوت ذائقہ ترشی، تلخی وغیرہ کو اور قوت لامسہ گرمی، سردی وغیرہ کیفیات کو قبول کرتی ہے اسی طرح دل کے اندر یہ منجمد خون کا لوتھڑا شیطانی وسوسوں کو قبول کرتا ہے۔ یہ لوتھڑا جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قلب مبارک سے دور کر دیا گیا تو حضور ﷺ کی ذاتِ مقدسہ میں ایسی کوئی چیز باقی نہ رہی جو القائے شیطانی کو قبول کرنے والی ہو۔ علامہ تقی الدین فرماتے ہیں اس حدیث پاک سے یہی مراد ہے کہ حضور ﷺ کی ذاتِ گرامی میں شیطان کا کوئی حصہ کبھی نہیں تھا۔
اگر کوئی اعتراض کرے کہ جب یہ بات تھی تو اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذاتِ مقدسہ میں اس خون کے لوتھڑے کو کیوں پیدا فرمایا کیونکہ یہ ممکن تھا کہ پہلے ہی ذاتِ مقدسہ میں اسے پیدا نہ فرمایا جاتا؟ تو جواب دیا جائے گا کہ اس کے پیدا فرمانے میں یہ حکمت ہے کہ وہ اجزائے انسانیہ میں سے ہے۔ لہٰذا اس کا پیدا کرنا خلقت انسانی کی تکمیل کے لئے ضروری ہے اور اس کا نکال دینا یہ ایک امر آخر ہے جو تخلیق کے بعد طاری ہوا۔ (انتہیٰ)
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس کی نظیر بدن انسانی میں اشیائے زائدہ کی تخلیق ہے جیسے قلفہ کا ہونا، ناخنوں اور مونچھوں کی درازی اور اسی طرح بعض دیگر زائد چیزیں (جن کا پیدا ہونا بدن انسانی کی تکمیل کا موجب ہے اور ان کا ازالہ طہارت و لطافت کے لئے ضروری ہے) مختصر یہ کہ ان اشیاء زائدہ کی تخلیق اجزائے بدن انسانی کا تکملہ ہے اور ان کا زائل کرنا کمال تطہیر و تنظیف کا مقتضٰی ہے۔ (شرح شفاء لملا علی قاری ج اول ص ۲۷۴) اقول وباللّٰہ التوفیق چونکہ ذات مقدسہ میں حظ شیطانی باقی ہی نہ تھا اس لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہمزاد مسلمان ہو گیا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ’’ولٰکن اسلم فلا یاْمرنی الا بخیر‘‘ میرا ہمزاد مسلمان ہو گیا لہٰذا سوائے خیر کے وہ مجھے کچھ نہیں کہتا۔ علامہ شہاب الدین خفا جی نسیم الریاض میں فرماتے ہیں کہ قلب بمنزلہ میوہ کے ہے جس کا دانہ اپنے اندر کے تخم اور گٹھلی پر قائم ہوتا ہے اور اس سے پختگی اور رنگینی حاصل کرتا ہے اسی طرح وہ منجمد خون قلب انسانی کے لئے ایسا ہے جیسے چھوہارے کے لئے گٹھلی۔ اگر ابتدائً اس میں گٹھلی نہ ہو تو وہ پختہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن پختہ ہو جانے کے بعد اس گٹھلی کو باقی نہیں رکھا جاتا بلکہ نکال کر پھینک دیا جاتا ہے۔ چھوہارے کی گٹھلی یا دانہ انگور سے بیج نکال کر پھینکتے وقت کسی کے دل میں یہ خیال نہیں آتا کہ جو چیز پھینکنے کے قابل تھی وہ پہلے ہی کیوں پیدا کی گئی؟ اس طرح اگر یہ بات ذہن نشین ہو جائے کہ قلب اطہر میں خون کا وہ لوتھڑا اسی طرح تھا جیسے انگور کے دانہ میں بیج یا کھجور کے دانہ میں گٹھلی ہوتی ہے اور قلب اطہر سے اس کو بالکل اسی طرح نکال کر پھینک دیا گیا جیسے کھجور اور انگور سے گٹھلی اور بیج کو نکال کر باہر پھینک دیا جاتا ہے تو یہ سوال ہی پیدا نہ ہو گا کہ اس لوتھڑے کو قلب اطہر میں ابتدائً کیوں پیدا کیا گیا؟ (نسیم الریاض شرح شفاء قاضی عیاض ج ثانی ص ۲۳۹)
رہا یہ امر کہ فرشتوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ کیوں کہا کہ ’’ہٰذہ حظک من الشیطان‘‘ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث کے یہ معنی نہیں کہ (معاذ اللہ) آپ کی ذات پاک میں واقعی شیطان کا کوئی حصہ ہے۔ نہیں اور یقینا نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ذات پاک ہر شیطانی اثر سے پاک اور طیب و طاہر ہے بلکہ حدیث شریف کے معنی یہ ہیں اگر آپ کی ذات پاک میں شیطان کے تعلق کی کوئی جگہ ہو سکتی تو وہ یہی خون کا لوتھڑا تھا جب اس کو آپ کے قلب مبارک سے نکال کر باہر پھینک دیا گیا تو اس کے بعد آپ کی ذاتِ مقدسہ میں کوئی ایسی چیز باقی نہ رہی جس سے شیطان کا کوئی تعلق ممکن ہو۔ خلاصہ یہ کہ الفاظ حدیث کا واضح اور روشن مفہوم یہ ہے کہ اگر آپ کی ذاتِ مقدسہ میں شیطان کا کوئی حصہ ہوتا تو یہی خون کا لوتھڑا ہو سکتا تھا مگر جب یہ بھی نہ رہا تو اب ممکن ہی نہیں کہ ذاتِ اقدس سے شیطان کا کوئی تعلق کسی طرح سے ہو سکے۔ لہٰذا حضور ﷺ کی ذاتِ مقدسہ ان تمام عیوب سے پاک ہے جو اس لوتھڑے کے ساتھ شیطان کے متعلق ہونے سے پیدا ہو سکتے ہیں۔
شق صدر مبارک کے بعد ایک نورانی طشت جو ایمان و حکمت سے لبریز تھا حضور ﷺ کے سینۂ اقدس میں بھر دیا گیا۔ ایمان و حکمت اگرچہ جسم و صورت سے متعلق نہیں لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ اس پر قادر ہے کہ غیر جسمانی چیزوں کو جسمانی صورت عطا فرمائے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایمان و حکمت کو جسمانی صورت میں متمثل فرما دیا اور یہ تمثل رسول اللہ ﷺ کے حق میں انتہائی عظمت و رفعت شان کا موجب ہے۔
شق صدر مبارک کی حکمت
شب معراج حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سینۂ اقدس کے شق کئے جانے میں بے شمار حکمتیں مضمر ہیں جن میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ قلب اطہر میں ایسی قوت قدسیہ بالفعل ہو جائے جس سے آسمانوں پر تشریف لے جانے اور عالم سماوات کا مشاہدہ کرنے بالخصوص دیدارِ الٰہی سے مشرف ہونے میں کوئی دقت اور دشواری پیش نہ آئے۔
حیات النبی کی دلیل
علاوہ ازیں شق صدر مبارک میں ایک حکمت بلیغہ یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام کے لئے حضور ﷺ کی حیات بعد الموت پر دلیل قائم ہو گئی۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ عادتاً بغیر روح کے جسم میں حیات نہیں ہوتی لیکن انبیاء علیہم السلام کے اجسام مقدسہ قبض روح کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں چونکہ روح حیات کا مستقر قلب انسانی ہے۔ لہٰذا جب کسی انسان کا دل اس کے سینہ سے باہر نکال لیا جائے تو وہ زندہ نہیں رہتا۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کا قلب مبارک سینۂ اقدس سے باہر نکالا گیا پھر اسے شگاف دیا گیا اور وہ منجمد خون جو جسمانی اعتبار سے دل کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے صاف کر دیا گیا۔ اس کے باوجود بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بدستور زندہ رہے جو اس امر کی روشن دلیل ہے کہ قبض روح مبارک کے بعد بھی حضور ﷺ زندہ ہیں۔ کیونکہ جس کا دل بدن سے باہر ہو اور وہ پھر بھی زندہ ہے اگر اس کی روح قبض ہو کر باہر ہو جائے تو وہ کب مردہ ہو سکتا ہے۔
قلب مبارک میں آنکھیں اور کان
جبریل علیہ السلام نے شق صدر مبارک کے بعد قلب اطہر کو جب زمزم کے پانی سے دھویا تو فرمانے لگے ’’قلب سدید فیہ عینان تبصران واذنان تسمعان‘‘ ’’قلب مبارک ہر قسم کی کجی سے پاک ہے اور بے عیب ہے اس میں دو آنکھیں ہیں جو دیکھتی ہیں اور دو کان ہیں جو سنتے ہیں۔‘‘ (فتح الباری جلد ۱۳ ص ۴۱۰)
قلب مبارک کے یہ کان اور آنکھیں عالم محسوسات سے وراء الوراء حقائق کو دیکھنے اور سننے کے لئے ہیں جیسا کہ خود حضور ﷺ نے فرمایا ’’انی ارٰی مالا ترون واسمع ما لا تسمعون‘‘ ’’میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے اور وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سن سکتے۔‘‘
دائمی ادراک
جب اللہ تعالیٰ نے بطور خرق عادات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قلب اطہر میں آنکھیں اور کان پیدا فرما دئیے ہیں تو اب یہ کہنا کہ وراء عالم محسوسات کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دیکھنا اور سننا احیاناً ہے دائمی نہیں قطعاً باطل ہو گیا۔ جب ظاہری آنکھوں اور کانوں کا ادراک دائمی ہے تو قلب مبارک کے کانوں اور آنکھوں کا ادراک کیونکر عارضی اور احیاناً ہو سکتا ہے؟ البتہ حکمت الٰہیہ کی بنا پر کسی امر خاص کی طرف حضور ﷺ کا دھیان نہ رہنا اور عدم توجہ اور عدم التفات کا حال طاری ہو جانا امر آخر ہے جس کا کوئی منکر نہیں اور وہ علم کے منافی نہیں ہے۔ لہٰذا اس حدیث کی روشنی میں یہ حقیقت بالکل واضح ہو گئی کہ حضور ﷺ کی باطنی سماع اور بصارت عارضی نہیں بلکہ دائمی ہے۔
شق صدر مبارک اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نوری ہونا : علامہ شہاب الدین خفا جی فرماتے ہیں کہ بعض لوگ یہ وہم کرتے ہیں کہ شق صدر مبارک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نور سے مخلوق ہونے کے منافی ہے لیکن یہ وہم غلط اور باطل ہے ان کی عبارت یہ ہے کہ ’’وکونہ مخلوقا من النور لا ینافیہ کما توہم‘‘ ۔ (نسیم الریاض شرح شفاء قاضی عیاض ج ۲ ص ۲۳۸)،(مقالات کاظمی)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment