فضائل و مناقب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 1
محترم قارئینِ کرام قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا ۔ (سورۃ الدھر آیت نمبر ۸)
ترجمہ : اور کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبّت پر مسکین اور یتیم اور اسیر کو ۔
صدرُ الاَفاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مُراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : یہ آیت حضرت علیِ مرتضٰی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ان کی کنیز فضّہ کے حق میں نازل ہوئی ۔ (خزائن العرفان ، پ۲۹ سورہ الدھر الآیۃ : ۸، صفحہ ۱۰۷۳)
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت ابو ثابت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ام المومنین حضرت سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : علی مع القرآن والقرآن مع علی، لن یتفرقا حتی یردا علی الحوض ۔
ترجمہ : علی رضی اللہ عنہ قرآن کے ساتھ اور قرآن علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہے ، دونوں جدا نہ ہوں گے حتی کہ اکٹھے حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گے ۔ (مشکوٰۃ ، بخاری و مسلم)۔(المستدرک جلد 3 صفحہ 123، رقم : 4685)
یہ کہہ کر بات ختم کر دی علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ ، قرآن اللہ رب العزت کی آخری الہامی کتاب ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چلتا پھرتا قرآن کہا جاتا ہے اوپر ہم نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ذات سے علی رضی اللہ عنہ کی ذات کو جدا نہیں کرتے ۔ یہاں قرآن سے علی کے تعلق کی بھی وضاحت فرمائی کہ قرآن و علی اس طرح جڑے ہوتے ہیں کہ روز جزا بھی یہ تعلق ٹوٹنے نہ پائے گا اور علی اور قرآن اسی حالت میں میرے پاس حوض کوثر پر آئیں گے ۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اِنَّ عَلِیًا بْنَ ابی طَالِبٍ عِنْدَهٗ عِلْمُ الظَاهِرِ والبَاطِنِ ۔
ترجمہ : بے شک علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس قرآن کا علمِ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ۔ (حلیة الاولیاء جلد نمبر1 صفحہ نمبر 105)
صحيح مسلم شريف ميں حضرت سعد بن ابي وقاص رضي اللہ عنہ سے روايت ہے : ولما نزلت هذه الاية ندع ابناء نا و ابناء کم دعا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عليا و فاطمة و حسناً و حسيناً فقال اللهم هؤلاء اهلي ۔
ترجمہ : جب یہ آیت (مباھلہ) کہ ’’ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو بلالیتے ہیں ، نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کو جمع کیا اور فرمایا اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔(الصحيح لمسلم جلد 2 صفحہ 278،چشتی)
جب آیت مباہلہ نازل ہوئی توحضور علیہ الصلوۃ والسلام نے عیسائیوں کو چیلنج کرتے ہوئے فرمایا کہ : ہم اپنے بیٹوں کو لاتے ہیں تم اپنے بیٹوں کو لاؤ۔ 2۔ ہم اپنی ازواج کو لاتے ہیں تم اپنی عورتوں کو لاؤ۔ بیٹوں کو لانے کا وقت آیا تو حضورعلیہ الصلوۃ والسلام نے ۔ 1۔ حسن اور حسین رضی اللہ عنہ کو پیش کر دیا ۔ 2۔ عورتوں کا معاملہ آیا تو حضرت فاطمہ کو پیش کردیا اور اپنی جانوں کو لانے کی بات ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھ علی رضی اللہ عنہ کو لے آئے یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی جان کے درجے پر رکھا ۔ آیت اور حدیث مبارکہ کے الفاظ پر غور فرمائیں آیت کریمہ میں فرمایا جا رہا ہے کہ : تعالوا ندع أبناء ناو أبناء کم و نساء نا و نسائکم و أنفسنا و انفسکم ۔ آجاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں ۔ (آل عمران 3 : 61)
حدیث پاک میں فرمایا جا رہا ہے دعا علیا و فاطمۃ و حسنا ًو حسینا ًیعنی علیاً (انفسنا) اور فاطمۃ (نساء نا) اور حسناً و حسیناً (ابناء نا) ہوئے ۔ یہ عقیدہ کسی شیعہ کا نہیں اہلنست و جماعت کا ہے اور جو لوگ اس مغالطے میں مبتلا ہیں کہ اہلسنت حب علی یا حب اہل بیت اطہار سے عاری ہیں وہ دراصل خود فریبی میں مبتلا ہیں، اہلسنت سواد اعظم بنتا ہی تب ہے جب ان نقوش قدسیہ سے محبت ان کے عقائد کا مرکز و محور بن جائے۔ سیدنا علی ہوں یا سیدہ کائنات اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہم یہ شجر نبوت کی شاخیں ہیں جن کے برگ و بار سے دراصل گلستان محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایمان و عمل کی بہاریں جلوہ فگن ہیں ان سے صرف نظر کر کے یا ان سے بغض و حسد کی بیماری میں مبتلا کوئی شخص حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتی کہلانے کا حقدار نہیں کجا کہ وہ ایمان اور تقویٰ کے دعوے کرتا پھرے ۔
عَنْ اِبْنِ عَبَّاس قَالَ : نَزَلَتْ فِیْ عَلِیٍّ ثَلاٰثُ مِائَةِ آیَةٍ ۔
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں تین سو آیات نازل ہوئی ہیں ۔ (خطیب ِ بغدادی ،ترجمہٴ اسماعیل بن محمد بن عبدالرحمٰن شمارہ 3275، تاریخ بغداد جلد6، ص:221)(شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے ینابیع المودة، باب42، ص148۔)(حافظ بن عساکر،حدیث 941 ، ترجمہ امیر الموٴمنین از تاریخ دمشق، جلد2، ص431،طبع دوم،چشتی)(گنجی شافعی ،کتاب کفایة الطالب باب62، ص231)(سیوطی ،کتاب تاریخ الخلفاء ،ص172 اور اللّٰئالی المصنوعہ ، ج1،ص192، ط1)(ابن حجر ، کتاب صواعق، ص76)
عَنْ یَزِیدِ ابنِ رُومٰان قَالَ: مَا نَزَلَ فِی اَحَدٍ مِنَ القُرآنِ مَانَزَلَ فِی عَلِیِّ ابْنِ اَبِیْ طَالِبٍ ۔
ترجمہ : یزید ابن رومان روایت کرتے ہیں کہ جتنی تعداد میں آیاتِ قرآنی علی رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ، کسی اور کی شان میں نازل نہیں ہوئیں ۔ (ابن عساکر، حدیث 940 تاریخ دمشق، ج2، ص430، ط2)0ابن حجر، کتاب صواعق المحرقہ ، ص76)(سیوطی ،تاریخ الخلفاء، ص 171)(حافظ الحسکانی، حدیث 50، باب اوّل 5 ، از مقدمہ کتاب شواہد التنزیل، ج1، ص39طبع اوّل اور حدیث 55 ، ص 41 ۔ اسی کتاب میں)(گنجی شافعی، باب 62، کتاب کفایة الطالب ، ص 253)(شبلنجی ، کتاب نورالابصار، ص73)
مولائے کائنات سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالی نے بے پناہ خصائص وامتیازات سے ممتاز فرمایا،آپ کو فضائل وکمالات کا جامع،علوم ومعارف کا منبع،رشد وہدایت کا مصدر،زہد و ورع ،شجاعت وسخاوت کا پیکر اور مرکز ولایت بنایا،آپ کی شان و عظمت کے بیان میں متعدد آیات قرآنیہ ناطق اور بے شمار احادیث کریمہ وارد ہیں ۔
سیدنا مولائے کائنات رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت باکرامت کعبۃ اللہ شریف کے اندر ہوئی ،جیساکہ روایت ہے : ولد رضي الله عنه بمکة داخل البيت الحرام ۔۔۔ولم يولد فی البيت الحرام قبله احد سواه ۔ قاله ابن الصباغ ۔
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت مکہ مکرمہ میں بیت اللہ شریف کے اندر ہوئی ۔ علامہ ابن صباغ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے بیان فرمایا کہ آپ سے قبل خانۂ کعبہ میں کسی کی ولادت نہیں ہوئی ۔ (نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،ص 84)
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ امتیازی خصوصیت حاصل ہے کہ آپ کی ولادت خانۂ کعبہ کے اندر ہوئی ، اسی وجہ سے آپ کو مولود کعبہ کہا جاتا ہے ، آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ولادت باکرامت کے بعد سب سے پہلے آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے رخ زیبا کا دیدار کیا ہے،چونکہ آپ نے ولادت کے بعد سب سے پہلے حضور کا چہرۂ مبارک دیکھا اس کی برکت یہ ہوئی کہ آپ کا چہرہ دیکھنا بھی عبادت قرار پایا،جیسا کہ مستدرک علی الصحیحین میں حدیث مبارک ہے : عَنْ عَبْدِ اللہ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :النَّظْرُ إِلٰی وَجْهِ عَلِیٍّ عِبَادَةٌ ۔
ترجمہ : سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرما یا : علی رضی اللہ تعالی عنہ کے چہرہ کو دیکھنا عبادت ہے ۔ (المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ عنہم، حدیث نمبر:4665،چشتی)
حضرت مولائے کائنات رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ : بچوں میں سب سے پہلے آپ ہی نے اسلام قبول کیا ،جیساکہ جامع ترمذی شریف میں حدیث مبارک ہے : عَنْ ابِي حَمْزَةَ رَجُلٍ مِنَ الْانْصَارِ، قَالَ : سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ ارْقَمَ يَقُوْل:اوَّلُ مَنْ اَسْلَمَ عَلِیٌّ ۔
ترجمہ : انصاری صحابی حضرت ابو حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : میں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ (بچوں میں) سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا ۔ (جامع الترمذی ،ابواب المناقب، باب مناقب علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ. حدیث نمبر:4100)
جامع ترمذی شریف میں روایت ہے : عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ بُعِثَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْإِثْنَيْنِ وَصَلَّی عَلِیٌّ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ ۔
ترجمہ : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایاکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوشنبہ کو اعلان نبوت فرمایا اور سہ شنبہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز ادا فرمائی ۔ (جامع الترمذی ،ابواب المناقب، باب مناقب علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ. حدیث نمبر: 4094،چشتی)
حضراتِ اہل بیت کرام وصحابۂ عظام رضی اللہ عنہم سے عقیدت ومحبت ، سعادت دنیوی کا ذریعہ اور نجات اخروی کا باعث ہے ، چونکہ حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ اہل بیت ہونے کے شرف سے بھی مشرف ہیں اور صحابیت کے اعزاز سے بھی معزز ہیں اسی لیے آپ سے دو جہتوں سے محبت کی جائے ۔
آپ کی شان وعظمت اور حضور سے کمال قربت کا اندازہ صحیح بخاری شریف میں وارد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارک سے ہوتا ہے آپ نے فرمای ا : اَنْتَ مِنِّی وَاَنَا مِنْکَ ۔ ترجمہ : اے علی !تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں ۔ (صحیح البخاری،کتاب فضائل الصحابۃ، باب مناقب علی بن أبی طالب القرشی الہاشمی أبی الحسن رضی اللہ عنہ،حدیث نمبر:2699 )
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا عقد نکاح ،خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہا سے ہوا ۔ معجم کبیر طبرانی میں حدیث مبارک ہے : عَنْ عَبْدِ اللہ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِنَّ اﷲَ أَمَرَنِیْ أَنْ أُزَوِّجَ فَاطِمَۃَ مِنْ عَلِیٍّ ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں فاطمہ (رضی اللہ تعالی عنہا) کا نکاح علی (رضی اللہ تعالی عنہ) سے کراؤں ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی جلد 8 صفحہ 497،حدیث نمبر:،10152،چشتی)
حضرات اہل بیت کرام و صحابۂ عظام اور بزرگان دین کا نام ذکر کرتے وقت بطور اکرام رضی اللہ تعالی عنہ اور رحمۃ اللہ تعالی علیہ کہا جاتا ہے ، حضرت مولائے کائنات رضی اللہ تعالی عنہ کے نام مبارک کے ساتھ ان عمومی کلمات کے علاوہ بطور خاص"کرم اللہ وجہہ"کہا جاتا ہے،اس کی وجہ نور الابصار میں اس طرح بیان کی گئی ہے : (وامہ) فاطمۃ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف۔۔۔۔ انہا کانت اذا ارادت ان تسجد لصنم وعلی رضی اللہ تعالی عنہ فی بطنہا لم یمکنہا یضع رجلہ علی بطنہا ویلصق ظہرہ بظہرہا ویمنعہا من ذلک؛ولذلک یقال عند ذکرہ"کرم اللہ وجہہ ۔
ترجمہ : سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی والدۂ محترمہ کا نام مبارک حضرت"فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف"رضی اللہ عنہم ہے۔ جب کبھی وہ کسی بت کے آگے سجدہ کرنے کا ارادہ کرتیں ؛جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کے شکم میں تھے وہ سجدہ نہیں کرپاتی تھیں،کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے قدم ان کے شکم مبارک سے چمٹادیتے اور اپنی پیٹھ ان کی پیٹھ سے لگادیتے اور انہیں سجدہ کرنے سے روک دیتے ، یہی وجہ ہے کہ جب بھی آپ کا مبارک تذکرہ کیا جاتا ہے تو "کرم اللہ وجہہ" (اللہ تعالی آپ کے چہرۂ انور کو باکرامت رکھے) کہا جاتاہے ۔ (نورالابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار صفحہ 85)
حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کی ہستی اللہ تعالی اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ایسی مقبول ہے کہ آپ سے محبت کرنے والے کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا محبوب قرار دیا اور آپ سے بغض رکھنے کواپنی ناراضگی قرار دیا ‘ جیساکہ معجم کبیر طبرانی میں حدیث مبارک ہے : عَنْ سَلْمَانَ، أَنّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِعَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالَی عَنْہُ:"مُحِبُّکَ مُحِبِّی، ومُبْغِضُکَ مُبْغِضِی ۔
ترجمہ : سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا : (ائے علی) تم سے محبت کرنے والا مجھ سے محبت کرنے والا ہے اور تم سے بغض رکھنے والا مجھ سے بغض رکھنے والا ہے ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی جلد 6 صفحہ 47 ، حدیث نمبر 5973)
حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی چونکہ اللہ تعالی کو بھی محبوب ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بھی محبوب ہے ،اسی لئے کائنات کا ذرہ ذرہ آپ سے محبت کرتا ہے،اور اللہ تعالی اس محبت کرنے والے کو دنیا میں بھی نوازتا ہے اور آخرت میں بھی سرفراز فرماتا ہے،علامہ امام طبری رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنی کتاب الریاض النضرۃ میں روایت نقل کی ہے : وعن أنس رضی اللہ عنہ قال: دفع علی بن أبی طالب إلی بلال درہما یشتری بہ بطیخا؛ قال: فاشتریت بہ فأخذ بطیخۃ فقورہا فوجدہا مرۃ فقال یا بلال رد ہذا إلی صاحبہ، وائتنی بالدرہم فإن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لی : إن اللہ أخذ حبک علی البشر والشجر والثمر والبذر فما أجاب إلی حبک عذب وطاب وما لم یجب خبث ومر " . وأنی أظن ہذا مما لم یجب ۔
ترجمہ : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ سیدناعلی مرتضی رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو خربوز ہ خریدنے کے لئے ایک درہم عطا فرمایا،حضرت بلال نے فرمایا کہ میں ایک خربوزہ آپ کی خدمت میں پیش کیا،جب آپ نے اسے کاٹا تو اسے کڑوا پایا،آپ نے ارشاد فرمایا :ائے بلال!جس شخص کے پاس سے یہ لائے ہو ؛ اسی کو واپس کردو!اوردرہم میرے پاس واپس لاؤ! کیونکہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا:بیشک اللہ تعالی نے تمہاری محبت کا عہد ہر انسان،درخت،پھل اور ہر بیج سے لیا ہے ،تو جس نے تمہاری محبت کو اپنے دل میں سمالیا وہ شیریں و پاکیزہ ہوگیا اورجس نے تمہاری محبت کو قبول نہ کیا وہ پلید اور کڑوا ہوگیا ،اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ خربوزہ بھی اس درخت کا ہے؛ جس نے میری محبت کے عہد کو قبول نہیں کیا ہے۔(الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ،چشتی)
غزوۂ خیبر کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خصوصی فضیلت کو آشکار فرمایا اور آپ کے اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں مقبول ومحبوب ہونے کی بشارت عطا فرمائی ، جیساکہ صحیح بخاری شریف میں حدیث مبارک ہے : عَنْ أَبِی حَازِمٍ قَالَ أَخْبَرَنِی سَہْلُ بْنُ سَعْدٍ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ یَوْمَ خَیْبَرَ : لأُعْطِیَنَّ ہَذِہِ الرَّایَۃَ غَدًا رَجُلاً ، یَفْتَحُ اللَّہُ عَلَی یَدَیْہِ ، یُحِبُّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ ، وَیُحِبُّہُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ . قَالَ فَبَاتَ النَّاسُ یَدُوکُونَ لَیْلَتَہُمْ أَیُّہُمْ یُعْطَاہَا فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلَی رَسُولِ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم ، کُلُّہُمْ یَرْجُو أَنْ یُعْطَاہَا فَقَالَ : أَیْنَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ . فَقِیلَ ہُوَ یَا رَسُولَ اللَّہِ یَشْتَکِی عَیْنَیْہِ . قَالَ : فَأَرْسِلُوا إِلَیْہِ ۔
ترجمہ : حضرت ابو حازم رضی اللہ عنہ سے ورایت ہے،انہوں نے فرمایا،مجھے حضرت سہل بن سعدرضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ غزوۂ خیبر کے موقع پر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کل میں ایسے شخص کو جھنڈاعطا کروںگا؛ جن کے ہاتھ پراللہ تعالیٰ (قلعۂ خیبر) فتح کرے گا،وہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں اور اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان سے محبت کرتے ہیں، صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم ساری رات اس انتظار میں تھے کہ یہ سعادت کس کو ملے گی ؟ جب صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے صبح کی توان میں سے ہر ایک بارگاہ نبوی میں اس امید کے ساتھ حاضر ہوئے کہ جھنڈا انہیں عطا ہو، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی (رضی اللہ عنہ ) کہاں ہیں ، تو عرض کیا کہ آپ کو آشوب چشم لاحق ہے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو بلانے کا حکم فرمایا : فَأُتِیَ بِہِ فَبَصَقَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی عَیْنَیْہِ ، وَدَعَا لَہُ ، فَبَرَأَ حَتَّی کَأَنْ لَمْ یَکُنْ بِہِ وَجَعٌ ، فَأَعْطَاہُ الرَّایَۃَ ۔ جب آپ کو لایا گیاتوحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی چشمان مبارک میں اپنا مبارک لعاب دہن ڈالا اور دعا فرمائی توآپ ایسے صحت یاب ہوگئے جیسا کہ آپ کو درد ہی نہ تھا ، اورآقانے آپ کو پرچم اسلا م عطا فرمایا ۔ (صحیح البخاری ،کتاب المناقب،باب مناقب علی بن ابی طالب،حدیث نمبر 3701)
فاتح خیبر، حیدر کرار،صاحب ذو الفقار،شیریزداں،شان مرداں ابو الحسن سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کو اللہ تعالی نے شجاعت وبہادری کے عظیم جوہر سے مزین فرمایا،میدان کارزار میں آپ کی سبقت وپیش قدمی بہادر مرد وجوان افراد کے لئے ایک نمونہ تھی،غزوۂ خیبر کے موقع پرآپ کی شجاعت وبہادری سے متعلق امام ابن عساکر کے حوالہ سے روایت مذکور ہے : وقال جابر بن عبد اللہ حمل علی الباب علی ظہرہ یوم خیبر حتی صعد المسلمون علیہ فتحوہا وإنہم جروہ بعد ذلک فلم یحملہ إلا أربعون رجلا۔ أخرجہ ابن عساکر ۔
ترجمہ : سیدناجابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا : حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ نے خیبر کے دن (قلعہ کے) دروازہ کو اپنی پشت پر اٹھالیا ، یہاں تک کہ اہل اسلام نے اس پر چڑھائی کی اور اسے فتح کرلیا،اور اس کے بعدلوگوں نے اس دروازہ کو کھینچا تو وہ(اپنی جگہ سے)نہ ہٹا ، یہاں تک کہ چالیس( 40) افراد نے اسے اٹھایا ۔ (تاریخ الخلفاء علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ)
حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کی بلند و بالا ہستی اور آپ کے فضائل و مناقب کے کیا کہنے!جبکہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے کمالات کو بڑی جامعیت کے سا تھ ارشاد فرمایا،چنانچہ اس سلسلہ میں امام ابو نعیم اصبہانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے روایت نقل کی ہے : عن أبی الحمراء مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : کنا حول النبی صلی اللہ علیہ وسلم فطلع علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ ، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : من سرہ أن ینظر إلی آدم فی علمہ ، وإلی نوح فی فہمہ ، وإلی إبراہیم فی خلقہ ، فلینظر إلی علی بن أبی طالب ۔
ترجمہ : حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے غلام سیدنا ابو حمراء رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ، آپ نے فرمایا کہ ہم حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھے کہ حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ رونق افروز ہوئے،تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس شخص کو یہ بات خوش کرے کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو ان کی علمی شان کے ساتھ دیکھے، حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی فہم ودانشمندی کی شان کے ساتھ دیکھے ، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کے پاکیزہ اخلاق کی شان کے ساتھ دیکھے تو وہ علی بن ابو طالب (رضی اللہ تعالی عنہ ) کو دیکھ لے ۔ (فضائل الخلفاء الراشدین لأبی نعیم الأصبہانی جلد 1 صفحہ 75،چشتی)
سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کو جن خصائص وکمالات سے اللہ تعالی نے ممتاز فرمایا ہے ان میں یہ بھی ہے کہ آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چوتھے خلیفہ ہیں،آپ کوعشرۂ مبشرہ میں ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی زبان حق ترجمان سے یہ ضمانت عطا فرمائی : وَعَلِیٌّ فِی الْجَنَّۃِ ۔ ترجمہ:اور علی(رضی اللہ تعالی عنہ)جنت میں ہیں ۔ (سنن ابن ماجہ، المقدمۃ،باب فضائل العشرۃ رضی اللہ عنہم. حدیث نمبر:138)
صحابۂ کرام میں سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی یہ ایک امتیازی شان ہے کہ آپ کی شان میں سینکڑوں آیات مبارکہ نازل ہوئیں ‘ جیساکہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے امام ابن عساکر نے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ، آپ نے فرمایا کہ حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی شان میں بے شمار آیات مبارکہ نازل ہوئی ہیں ۔ (تاریخ الخلفاء ، علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ،ج 1،ص 70،چشتی)
سیدنا مولائے کائنات رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں نہ صرف قرآنی آیات نازل ہوئی ہیں بلکہ آپ کے حق میں صاحب قرآن سید الانس والجان صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ مژدۂ جاں فزا سنایا کہ علی(رضی اللہ عنہ)قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی (رضی اللہ تعالی عنہ)کے ساتھ ہے ،جیساکہ مستدرک علی الصحیحین ،معجم اوسط طبرانی اورمعجم صغیر طبرانی وغیرہ میں روایت ہے : عن أم سلمۃ ، قالت : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول : علی مع القرآن والقرآن مع علی لن یتفرقا حتی یردا علی الحوض ۔
ترجمہ : ام المؤمنین سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سناکہ علی(رضی اللہ عنہ)قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی (رضی اللہ تعالی عنہ)کے ساتھ ہے،وہ دونوں ہرگز جدا نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ حوض کوثر پر وہ دونوں میرے پاس ساتھ ساتھ آئیں گے ۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم ، کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ عنہم حدیث نمبر : 4604۔ المعجم الأوسط للطبرانی، باب العین، من اسمہ : عباد، حدیث نمبر :5037۔ المعجم الصغیر للطبرانی، باب العین، من اسمہ : عباد،حدیث : 721)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اسی فرمان عالی شان کی برکت تھی کہ سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کا شمار ان صحابۂ کرام میں ہوتا ہے ؛جنہوں نے قرآن کریم کو جمع کیا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سنایا،جیساکہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے تاریخ الخلفاء میں لکھا ہے : وعلی رضی اللہ عنہ۔۔۔۔ أحد من جمع القرآن وعرضہ علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ (تاریخ الخلفاء علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ جلد 1 صفحہ 68،چشتی)
حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کی سخاوت بارگاہ الہی میں مقبول اللہ تعالی کا ارشاد ہے : الَّذِینَ یُنْفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَعَلَانِیَۃً فَلَہُمْ أَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ۔
ترجمہ : جو لوگ اپنا مال (اللہ کی راہ میں) رات اور دن،پوشیدہ اور ظاہری طور پر خرچ کرتے ہیں تو ان کا ثواب ان کے رب کے پاس ہے اور ان کو (قیامت کے دن)نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔(سورۃ البقرۃ ۔274)
اس آیت کریمہ میں عمومی طور پر اللہ کے ان پاکباز بندوں کا تذکرہ ہے جو رضاء الہی کی خاطر دن ورات اپنا مال خرچ کرتے ہیں،لیکن مفسرین کرام نے یہ صراحت کی ہے کہ یہ آیت کریمہ بطور خاص سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں وارد ہوئی ہے،جیساکہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے تفسیر در منثور میں روایت نقل کی ہے : عن ابن عباس فی قولہ ( الذین ینفقون أموالہم باللیل والنہار سراً وعلانیۃ)قال : نزلت فی علی بن أبی طالب ، کانت لہ أربعۃ دراہم فأنفق باللیل درہماً ، وبالنہار درہماً ، وسراً درہماً ، وعلانیۃ درہماً ۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے آیت کریمہ" الَّذِینَ یُنْفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا ۔ سے متعلق روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ یہ آیت کریمہ حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں نازل ہوئی،آپ کے پاس چار درہم تھے،آپ نے ایک درہم رات میں خرچ کیا اور ایک دن میں،ایک پوشیدہ طور پر خرچ کیا اور ایک علانیہ طور پر ۔ (الدر المنثور فی التفسیرالمأثور، سورۃ البقرۃ۔ ،274،چشتی)
آپ کے اس طرح خرچ کرنے کی ادا اللہ تعالی کو اتنی پسند آئی کہ اللہ تعالی نے آپ کی عظمت کے اظہار اور اپنے دربار میں آپ کی مقبولیت کو آشکار کرنے کےلیے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔
حضرت سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ نے رضاء الہی کی خاطر نہ صرف اپنا مال قربان کیا بلکہ اپنے گھر اور وطن کو قربان کیا،شریعت کے تحفظ کی خاطر اپنے آپ کو قربان کیا اور دین کی سربلندی کے لئے اپنے شہزادوں کو قربان کیا ۔
اللہ تعالیٰ نے جن و انس کو اپنی اطاعت و بندگی او ر معرفت و عبادت کےلیے پیدا کیا ہے اورجو بندگان خدا دنیا میں اخلاص و للہیت کے ساتھ اس کی عبادت کرتے ہیں ان کےلیے یہ بشارت عنایت فرمائی : وَتِلْکَ الْجَنَّۃُ الَّتِیْ اُورِثْتُمُوْہَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۔
ترجمہ : یہ وہ جنت ہے جس کے تم وارث بنائے گئے ہو اُس عمل کے صلہ میں جو تم کیا کرتے تھے ۔ (سورۃ الزخرف۔72)
چونکہ جنت کو مومنین کےلیے عبادت کا صلہ قرار دیا گیا ؛ جہاں ابدی چین و قرار ہے ، اسی لیے ہر کوئی جنت کا مشتاق اور اس کا طالب ہوتاہے، لیکن کچھ مقربان بارگاہ ‘خدا ترس بندے ایسے ہوتے ہیں؛ جن کےلیے جنت مشتاق رہتی ہے، انہی نفوس قدسیہ میں مولائے کائنات، فاتح خیبر، ابو تراب، باب العلم، ابوالحسن سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سر فہرست ہیں؛ جن کی بابت حضور اکرم رحمت عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا : عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْجَنَّۃَ لَتَشْتَاقُ إِلَی ثَلاَثَۃٍ عَلِیٍّ وَعَمَّارٍ وَسَلْمَانَ ۔
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا:حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یقیناً جنت تین افراد کی مشتاق ہے (1) (حضرت)علی(رضی اللہ عنہ) (2) (حضرت) عمار (رضی اللہ عنہ)(3) (حضرت) سلمان (رضی اللہ عنہ) ۔ (جامع الترمذی،ابواب المناقب، باب مناقب سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ.حدیث نمبر4166،چشتی)
دورِ خلافت : جب بلوائیوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا تو اسی وقت آپ نے اسلامی خلافت کی باگ ڈورسنبھال لی،جیسا کہ روایت ہے : استخلف یوم قتل عثمان وہو یوم الجمعۃ لثمانی عشرۃ خلت من ذی الحجۃ سنۃ خمس وثلاثین ۔
ترجمہ : حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سنہ پینتیس (35) ہجری ، 18 ذوالحجہ ، بروز جمعہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن مسندخلافت پر جلوہ افروز ہوئے ۔ (الاکمال فی اسماء الرجال،حرف العین ،فصل فی الصحابۃ)
آپ کے عہد زریں کی مدت سے متعلق ’’الاکمال‘‘ میں ہے : وکانت خلافتہ اربع سنین وتسعۃ اشہر وایاما ۔ آپ کی خلافت جملہ چار (4)سال ،نو(9) مہینے اورچند دن رہی ۔ (الاکمال فی اسماء الرجال،حرف العین ،فصل فی الصحابۃ،چشتی)
مدینہ منورہ کی عظمت وتقدس کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوفہ کو حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ نے دار الخلافہ بنالیا،اور آپ نے دینی لبادہ اوڑھے ہوئے دشمنان اسلام بے ادب وگستاخ فرقہ خوارج کا مقابلہ کیا اور مقام نہاوند میں انہیں تہ تیغ کیا ،اور آپ نے اس موقع پر مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر صادق بیان فرمائی کہ آپ نے ارشاد فرمایا تھا :دس(10) اہل اسلام شہید ہوں گے اور دشمن سارے مارے جائیں گے، صرف دس(10) لوگ بچیں گے ۔
شہادت کی بشارت : حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کو پہلے ہی سے خلافت وشہادت کی بشارت عطا فرمائی تھی،چنانچہ امام ابو نعیم اصبہانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے روایت نقل کی ہے : عن جابر بن سمرۃ ، قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لعلی : إنک مؤمر مستخلف وإنک مقتول ۔
ترجمہ : سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ،انہوںنے فرمایا ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے ارشاد فرمایا : بیشک تم والی اور خلیفہ مقرر کئے جانے والے ہو اور بیشک تم شہید کیے جانے والے ہو ۔ (فضائل الخلفاء الراشدین لأبی نعیم الأصبھانی ،ج 1 ص 347)
شہادتِ عظمیٰ : حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت سے متعلق تفصیلات بیان کر تے ہوئے صاحب اِکمال رقم طراز ہیں : ضربہ عبد الرحمن بن ملجم المرادی بالکوفۃ صبیحۃ الجمعۃ لثمانی عشرۃ لیلۃ خلت من شہر رمضان سنۃ اربعین ومات بعد ثلاث لیال من ضربۃ ۔
ترجمہ : ابن ملجم شقی نے سنہ چالیس(40)ہجری ،سترہ (17)رمضان المبارک،جمعہ کی صبح آپ پرحملہ کیا اور حملہ کے تین (3) دن بعد (بیس (20) رمضان المبارک کو) آپ کی شہادت عظمی ہوئی ۔ (الاکمال فی اسماء الرجال،حرف العین ،فصل فی الصحابۃ)
غسل مبارک : حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے غسل مبارک اور نماز جنازہ سے متعلق تاریخ میں اس طرح تفصیلات ملتی ہیں : وغسلہ ابناہ الحسن والحسین وعبد اللہ بن جعفر وصلی علیہ الحسن ۔
ترجمہ : حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے غسل مبارک دیا اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی ۔ (الاکمال فی اسماء الرجال،حرف العین ،فصل فی الصحابۃ) ۔
فضائل و مناقب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 2
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مولائے کائنات سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالی نے بے پناہ خصائص و امتیازات سے ممتاز فرمایا ، آپ کو فضائل و کمالات کا جامع علوم و معارف کا منبعِ رشد و ہدایت کا مصدر ، زہد و ورع ، شجاعت وسخاوت کا پیکر اور مرکز ولایت بنایا ، آپ کی شان و عظمت کے بیان میں متعدد آیات قرآنیہ ناطق اور بے شمار احادیث کریمہ وارد ہیں ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ولادت باکرامت کے بعد سب سے پہلے آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے رخ زیبا کا دیدار کیا ہے ، چونکہ آپ نے ولادت کے بعد سب سے پہلے حضور کا چہرۂ مبارک دیکھا اس کی برکت یہ ہوئی کہ آپ کا چہرہ دیکھنا بھی عبادت قرار پایا ، جیسا کہ مستدرک علی الصحیحین میں حدیث مبارک ہے : عَنْ عَبْدِﷲِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : النَّظْرُ إِلٰی وَجْهِ عَلِیٍّ عِبَادَةٌ ۔
ترجمہ : سیدنا عبد ﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرما یا : علی (رضی اللہ تعالی عنہ ) کے چہرہ کو دیکھنا عبادت ہے ۔ (المستدرک علی الصحیحین کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ عنہم حدیث نمبر 4665)
حضرت مولائے کائنات رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ صاحبزادوں میں سب سے پہلے آپ ہی نے اسلام قبول کیا ،جیساکہ جامع ترمذی شریف میں حدیث مبارک ہے : عَنْ ابِي حَمْزَةَ رَجُلٍ مِنَ الْانْصَارِ، قَالَ : سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ ارْقَمَ يَقُوْل:اوَّلُ مَنْ اَسْلَمَ عَلِیٌّ . ترجمہ : ایک انصاری صحابی حضرت ابو حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : میں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ (صاحبزادوں میں)سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا ۔ (جامع الترمذی ،ابواب المناقب، باب مناقب علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ. حدیث نمبر:4100)
اسی جامع ترمذی شریف میں روایت ہے : عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ بُعِثَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْإِثْنَيْنِ وَصَلَّی عَلِیٌّ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ ۔
ترجمہ : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایاکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوشنبہ کو اعلان نبوت فرمایا اور سہ شنبہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز ادا فرمائی ۔ (جامع الترمذی ،ابواب المناقب، باب مناقب علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ. حدیث نمبر: 4094)
حضراتِ اہل بیت کرام وصحابۂ عظام رضی اللہ عنہم سے عقیدت ومحبت ، سعادت دنیوی کا ذریعہ اور نجات اخروی کا باعث ہے،چونکہ حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ اہل بیت ہونے کے شرف سے بھی مشرف ہیں اور صحابیت کے اعزاز سے بھی معزز ہیں اسی لیے آپ سے دو جہتوں سے محبت کی جائے ۔
آپ کی شان وعظمت اور حضور سے کمال قربت کا اندازہ صحیح بخاری شریف میں وارد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارک سے ہوتا ہے آپ نے فرمایا : اَنْتَ مِنِّی وَاَنَا مِنْکَ ۔ ترجمہ : اے علی !تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں ۔ (صحیح البخاری،کتاب فضائل الصحابۃ، باب مناقب علی بن أبی طالب القرشی الہاشمی أبی الحسن رضی اللہ عنہ،حدیث نمبر:2699 ،چشتی)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا عقد نکاح ، خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہا سے ہوا۔معجم کبیر طبرانی میں حدیث مبارک ہے : عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ ﷲُ عَنْہُ، عَنْ رَسُوْلِ ﷲِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِنَّ ﷲَ أَمَرَنِیْ أَنْ أُزَوِّجَ فَاطِمَۃَ مِنْ عَلِیٍّ ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی ﷲ عنہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں فاطمہ (رضی اللہ تعالی عنہا) کا نکاح علی (رضی اللہ تعالی عنہ) سے کراؤں ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی جلد 8 صفحہ 497 حدیث نمبر:10152)
حضرات اہل بیت کرام وصحابۂ عظام اور بزرگان دین کا نام ذکر کرتے وقت بطور اکرام رضی اللہ تعالی عنہ اور رحمۃ اللہ تعالی علیہ کہا جاتا ہے،حضرت مولائے کائنات رضی اللہ تعالی عنہ کے نام مبارک کے ساتھ ان عمومی کلمات کے علاوہ بطور خاص"کرم اللہ وجہہ" کہا جاتا ہے ، اس کی وجہ نور الابصار میں اس طرح بیان کی گئی ہے : (وامہ) فاطمۃ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف۔۔۔۔ انہا کانت اذا ارادت ان تسجد لصنم وعلی رضی اللہ تعالی عنہ فی بطنہا لم یمکنہا یضع رجلہ علی بطنہا ویلصق ظہرہ بظہرہا ویمنعہا من ذلک؛ولذلک یقال عند ذکرہ"کرم اللہ وجہہ"۔
ترجمہ : سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی والدۂ محترمہ کا نام مبارک حضرت"فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف"رضی اللہ عنہم ہے۔ جب کبھی وہ کسی بت کے آگے سجدہ کرنے کا ارادہ کرتیں ؛ جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کے شکم میں تھے وہ سجدہ نہیں کرپاتی تھیں،کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے قدم ان کے شکم مبارک سے چمٹا دیتے اور اپنی پیٹھ ان کی پیٹھ سے لگادیتے اور انہیں سجدہ کرنے سے روک دیتے،یہی وجہ ہے کہ جب بھی آپ کا مبارک تذکرہ کیا جاتا ہے تو "کرم اللہ وجہہ" (اللہ تعالی آپ کے چہرۂ انور کو باکرامت رکھے) کہا جاتاہے ۔ (نورالابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار صلی اللہ علیہ والہ وسلم صفحہ 85،چشتی)
حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کی ہستی اللہ تعالی اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ایسی مقبول ہے کہ آپ سے محبت کرنے والے کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا محبوب قرار دیا اور آپ سے بغض رکھنے کواپنی ناراضگی قرار دیا ‘ جیساکہ معجم کبیر طبرانی میں حدیث مبارک ہے : عَنْ سَلْمَانَ، أَنّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِعَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالَی عَنْہُ:"مُحِبُّکَ مُحِبِّی، ومُبْغِضُکَ مُبْغِضِی" ۔ ترجمہ : سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا :(ائے علی) تم سے محبت کرنے والا مجھ سے محبت کرنے والا ہے اور تم سے بغض رکھنے والا مجھ سے بغض رکھنے والا ہے ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی،ج،6،ص،47، حدیث نمبر:5973،چشتی)
حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی چونکہ اللہ تعالی کو بھی محبوب ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بھی محبوب ہے ،اسی لئے کائنات کا ذرہ ذرہ آپ سے محبت کرتا ہے،اور اللہ تعالی اس محبت کرنے والے کو دنیا میں بھی نوازتا ہے اور آخرت میں بھی سرفراز فرماتا ہے،علامہ امام طبری رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنی کتاب الریاض النضرۃ میں روایت نقل کی ہے : وعن أنس رضی اللہ عنہ قال: دفع علی بن أبی طالب إلی بلال درہما یشتری بہ بطیخا؛ قال: فاشتریت بہ فأخذ بطیخۃ فقورہا فوجدہا مرۃ فقال یا بلال رد ہذا إلی صاحبہ، وائتنی بالدرہم فإن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لی : إن اللہ أخذ حبک علی البشر والشجر والثمر والبذر فما أجاب إلی حبک عذب وطاب وما لم یجب خبث ومر " . وأنی أظن ہذا مما لم یجب .
ترجمہ : سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ سیدناعلی مرتضی رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو خربوز ہ خریدنے کےلیے ایک درہم عطا فرمایا،حضرت بلال نے فرمایا کہ میں ایک خربوزہ آپ کی خدمت میں پیش کیا،جب آپ نے اسے کاٹا تو اسے کڑوا پایا،آپ نے ارشاد فرمایا :ائے بلال!جس شخص کے پاس سے یہ لائے ہو ؛ اسی کو واپس کردو!اوردرہم میرے پاس واپس لاؤ! کیونکہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا:بیشک اللہ تعالی نے تمہاری محبت کا عہد ہر انسان،درخت،پھل اور ہر بیج سے لیا ہے ،تو جس نے تمہاری محبت کو اپنے دل میں سمالیا وہ شیریں و پاکیزہ ہوگیا اورجس نے تمہاری محبت کو قبول نہ کیا وہ پلید اور کڑوا ہوگیا ،اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ خربوزہ بھی اس درخت کا ہے؛ جس نے میری محبت کے عہد کو قبول نہیں کیا ہے ۔ (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ)
غزوۂ خیبر کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خصوصی فضیلت کو آشکار فرمایا اور آپ کے اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں مقبول ومحبوب ہونے کی بشارت عطا فرمائی ، جیساکہ صحیح بخاری شریف میں حدیث مبارک ہے : عَنْ أَبِی حَازِمٍ قَالَ أَخْبَرَنِی سَہْلُ بْنُ سَعْدٍ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ یَوْمَ خَیْبَرَ : لأُعْطِیَنَّ ہَذِہِ الرَّایَۃَ غَدًا رَجُلاً ، یَفْتَحُ اللَّہُ عَلَی یَدَیْہِ ، یُحِبُّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ ، وَیُحِبُّہُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ . قَالَ فَبَاتَ النَّاسُ یَدُوکُونَ لَیْلَتَہُمْ أَیُّہُمْ یُعْطَاہَا فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلَی رَسُولِ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم ، کُلُّہُمْ یَرْجُو أَنْ یُعْطَاہَا فَقَالَ : أَیْنَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ . فَقِیلَ ہُوَ یَا رَسُولَ اللَّہِ یَشْتَکِی عَیْنَیْہِ . قَالَ : فَأَرْسِلُوا إِلَیْہِ . ترجمہ : حضرت ابو حازم رضی اللہ عنہ سے ورایت ہے،انہوں نے فرمایا،مجھے حضرت سہل بن سعدرضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ غزوۂ خیبر کے موقع پر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کل میں ایسے شخص کو جھنڈاعطا کروںگا؛ جن کے ہاتھ پراللہ تعالیٰ (قلعۂ خیبر) فتح کرے گا،وہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں اور اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان سے محبت کرتے ہیں، صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم ساری رات اس انتظار میں تھے کہ یہ سعادت کس کو ملے گی ؟ جب صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے صبح کی توان میں سے ہر ایک بارگاہ نبوی میں اس امید کے ساتھ حاضر ہوئے کہ جھنڈا انہیں عطا ہو، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:علی (رضی اللہ عنہ )کہاں ہیں، تو عرض کیا کہ آپ کو آشوب چشم لاحق ہے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو بلانے کا حکم فرمایا ! فَأُتِیَ بِہِ فَبَصَقَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی عَیْنَیْہِ ، وَدَعَا لَہُ ، فَبَرَأَ حَتَّی کَأَنْ لَمْ یَکُنْ بِہِ وَجَعٌ ، فَأَعْطَاہُ الرَّایَۃَ ۔ جب آپ کو لایا گیاتوحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی چشمان مبارک میں اپنا مبارک لعاب دہن ڈالا اور دعا فرمائی توآپ ایسے صحت یاب ہوگئے جیسا کہ آپ کو درد ہی نہ تھا،اورآقانے آپ کو پرچم اسلا م عطا فرمایا ۔ (صحیح البخاری ،کتاب المناقب،باب مناقب علی بن ابی طالب،حدیث :3701،چشتی)
فاتح خیبر، حیدر کرار،صاحب ذو الفقار،شیریزداں،شان مرداں ابو الحسن سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کو اللہ تعالی نے شجاعت وبہادری کے عظیم جوہر سے مزین فرمایا،میدان کارزار میں آپ کی سبقت وپیش قدمی بہادر مرد وجوان افراد کے لئے ایک نمونہ تھی،غزوۂ خیبر کے موقع پرآپ کی شجاعت وبہادری سے متعلق امام ابن عساکر کے حوالہ سے روایت مذکور ہے : وقال جابر بن عبد اللہ حمل علی الباب علی ظہرہ یوم خیبر حتی صعد المسلمون علیہ فتحوہا وإنہم جروہ بعد ذلک فلم یحملہ إلا أربعون رجلا۔ أخرجہ ابن عساکر . ترجمہ : سیدناجابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا : حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ نے خیبر کے دن (قلعہ کے)دروازہ کو اپنی پشت پر اٹھالیا،یہاں تک کہ اہل اسلام نے اس پر چڑھائی کی اور اسے فتح کرلیا،اور اس کے بعدلوگوں نے اس دروازہ کو کھینچا تو وہ(اپنی جگہ سے)نہ ہٹا، یہاں تک کہ چالیس( 40) افراد نے اسے اٹھایا ۔ (تاریخ الخلفاء ،علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ)
حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کی بلند و بالا ہستی اور آپ کے فضائل و مناقب کے کیا کہنے!جبکہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے کمالات کو بڑی جامعیت کے سا تھ ارشاد فرمایا،چنانچہ اس سلسلہ میں امام ابو نعیم اصبہانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے روایت نقل کی ہے : عن أبی الحمراء مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : کنا حول النبی صلی اللہ علیہ وسلم فطلع علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ ، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : من سرہ أن ینظر إلی آدم فی علمہ ، وإلی نوح فی فہمہ ، وإلی إبراہیم فی خلقہ ، فلینظر إلی علی بن أبی طالب ۔
ترجمہ : حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے غلام سیدنا ابو حمراء رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ، آپ نے فرمایا کہ ہم حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھے کہ حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ رونق افروز ہوئے،تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس شخص کو یہ بات خوش کرے کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو ان کی علمی شان کے ساتھ دیکھے،حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی فہم ودانشمندی کی شان کے ساتھ دیکھے،اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کے پاکیزہ اخلاق کی شان کے ساتھ دیکھے تو وہ علی بن ابو طالب (رضی اللہ تعالی عنہ )کو دیکھ لے ۔ (فضائل الخلفاء الراشدین لأبی نعیم الأصبہانی جلد 1 صفحہ 75،چشتی)
سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کو جن خصائص وکمالات سے اللہ تعالی نے ممتاز فرمایا ہے ان میں یہ بھی ہے کہ آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چوتھے خلیفہ ہیں،آپ کوعشرۂ مبشرہ میں ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی زبان حق ترجمان سے یہ ضمانت عطا فرمائی : وَعَلِیٌّ فِی الْجَنَّۃِ ۔
ترجمہ : اور علی (رضی اللہ تعالی عنہ) جنت میں ہیں ۔ (سنن ابن ماجہ، المقدمۃ،باب فضائل العشرۃ رضی اللہ عنہم. حدیث نمبر:138،چشتی)
آپ کے حق میں صاحب قرآن سید الانس والجان صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ مژدۂ جاں فزا سنایا کہ علی (رضی اللہ عنہ) قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی (رضی اللہ تعالی عنہ)کے ساتھ ہے ،جیساکہ مستدرک علی الصحیحین ،معجم اوسط طبرانی اورمعجم صغیر طبرانی وغیرہ میں روایت ہے : عن أم سلمۃ ، قالت : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول : علی مع القرآن والقرآن مع علی لن یتفرقا حتی یردا علی الحوض ۔
ترجمہ : ام المؤمنین سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سناکہ علی (رضی اللہ عنہ) قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی (رضی اللہ تعالی عنہ) کے ساتھ ہے،وہ دونوں ہرگز جدا نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ حوض کوثر پر وہ دونوں میرے پاس ساتھ ساتھ آئیں گے ۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم ، کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ عنہم حدیث نمبر : 4604۔ المعجم الأوسط للطبرانی، باب العین، من اسمہ : عباد، حدیث نمبر :5037۔ المعجم الصغیر للطبرانی، باب العین، من اسمہ : عباد،حدیث نمبر: 721)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اسی فرمان عالی شان کی برکت تھی کہ سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کا شمار ان صحابۂ کرام میں ہوتا ہے ؛جنہوں نے قرآن کریم کو جمع کیا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سنایا،جیساکہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے تاریخ الخلفاء میں لکھا ہے : وعلی رضی اللہ عنہ۔۔۔۔ أحد من جمع القرآن وعرضہ علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ (تاریخ الخلفاء ، علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ،ج 1،ص 68،چشتی)
حضرت مولائے کائنات کی فیاضی بارگاہ الہی میں مقبول ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : الَّذِینَ یُنْفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَعَلَانِیَۃً فَلَہُمْ أَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ۔ ترجمہ : جو لوگ اپنا مال (اللہ کی راہ میں) رات اور دن،پوشیدہ اور ظاہری طور پر خرچ کرتے ہیں تو ان کا ثواب ان کے رب کے پاس ہے اور ان کو (قیامت کے دن) نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔(سورۃ البقرۃ ۔274)
اس آیت کریمہ میں عمومی طور پر اللہ کے ان پاکباز بندوں کا تذکرہ ہے جو رضاء الہی کی خاطر دن ورات اپنا مال خرچ کرتے ہیں،لیکن مفسرین کرام نے یہ صراحت کی ہے کہ یہ آیت کریمہ بطور خاص سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں وارد ہوئی ہے،جیساکہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے تفسیر در منثور میں روایت نقل کی ہے : عن ابن عباس فی قولہ ( الذین ینفقون أموالہم باللیل والنہار سراً وعلانیۃ) قال : نزلت فی علی بن أبی طالب ، کانت لہ أربعۃ دراہم فأنفق باللیل درہماً ، وبالنہار درہماً ، وسراً درہماً ، وعلانیۃ درہماً . سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے آیت کریمہ" الَّذِینَ یُنْفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا ۔
سے متعلق روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ یہ آیت کریمہ حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں نازل ہوئی،آپ کے پاس چار درہم تھے،آپ نے ایک درہم رات میں خرچ کیا اور ایک دن میں،ایک پوشیدہ طور پر خرچ کیا اور ایک علانیہ طور پر ۔ (الدر المنثور فی التفسیرالمأثور، سورۃ البقرۃ۔ 274)
آپ کے اس طرح خرچ کرنے کی ادا اللہ تعالی کو اتنی پسند آئی کہ اللہ تعالی نے آپ کی عظمت کے اظہار اور اپنے دربار میں آپ کی مقبولیت کو آشکار کرنے کےلیے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی۔
حضرت سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ نے رضاء الہی کی خاطر نہ صرف اپنا مال قربان کیا بلکہ اپنے گھر اور وطن کو قربان کیا،شریعت کے تحفظ کی خاطر اپنے آپ کو قربان کیا اور دین کی سربلندی کے لئے اپنے شہزادوں کو قربان کیا ۔
اللہ تعالیٰ نے جن و انس کو اپنی اطاعت و بندگی او ر معرفت و عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اورجو بندگان خدا دنیا میں اخلاص وللہیت کے ساتھ اس کی عبادت کرتے ہیں ان کےلیے یہ بشارت عنایت فرمائی : وَتِلْکَ الْجَنَّۃُ الَّتِیْ اُورِثْتُمُوْہَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۔
ترجمہ : یہ وہ جنت ہے جس کے تم وارث بنائے گئے ہو اُس عمل کے صلہ میں جو تم کیا کرتے تھے ۔ (سورۃ الزخرف۔72)
چونکہ جنت کو مومنین کے لئے عبادت کا صلہ قرار دیا گیا؛ جہاں ابدی چین و قرار ہے ،اسی لئے ہر کوئی جنت کا مشتاق اور اس کا طالب ہوتاہے، لیکن کچھ مقربان بارگاہ ‘خدا ترس بندے ایسے ہوتے ہیں؛ جن کےلیے جنت مشتاق رہتی ہے، انہی نفوس قدسیہ میں مولائے کائنات، فاتح خیبر، ابو تراب، باب العلم، ابوالحسن سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سر فہرست ہیں؛ جن کی بابت حضور اکرم رحمت عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا : عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْجَنَّۃَ لَتَشْتَاقُ إِلَی ثَلاَثَۃٍ عَلِیٍّ وَعَمَّارٍ وَسَلْمَانَ ۔ ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا:حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یقینا جنت تین افراد کی مشتاق ہے (1) (حضرت) علی (رضی اللہ عنہ) (2) (حضرت) عمار (رضی اللہ عنہ)(3) (حضرت) سلمان (رضی اللہ عنہ) (جامع الترمذی،ابواب المناقب، باب مناقب سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ.حدیث نمبر4166،چشتی)
جب بلوائیوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا تو اسی وقت آپ نے اسلامی خلافت کی باگ ڈورسنبھال لی،جیسا کہ روایت ہے : استخلف یوم قتل عثمان وہو یوم الجمعۃ لثمانی عشرۃ خلت من ذی الحجۃ سنۃ خمس وثلاثین ۔
حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سنہ پینتیس (35) ہجری ، 18 ذوالحجہ، بروز جمعہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن مسندخلافت پر جلوہ افروز ہوئے۔(الاکمال فی اسماء الرجال،حرف العین ،فصل فی الصحابۃ)
آپ کے عہد زریں کی مدت سے متعلق ’’الاکمال‘‘میں ہے : وکانت خلافتہ اربع سنین وتسعۃ اشہر وایاما ۔ آپ کی خلافت جملہ چار (4)سال ،نو(9) مہینے اورچند دن رہی ۔ (الاکمال فی اسماء الرجال ، حرف العین فصل فی الصحابۃ)
مدینہ منورہ کی عظمت وتقدس کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوفہ کو حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ نے دار الخلافہ بنالیا،اور آپ نے دینی لبادہ اوڑھے ہوئے دشمنان اسلام بے ادب وگستاخ فرقہ خوارج کا مقابلہ کیا اور مقام نہاوند میں انہیں تہ تیغ کیا ،اور آپ نے اس موقع پر مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر صادق بیان فرمائی کہ آپ نے ارشاد فرمایا تھا : دس (10) اہل اسلام شہید ہوں گے اور دشمن سارے مارے جائیں گے، صرف دس (10) لوگ بچیں گے۔
شہادت کی بشارت : حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کو پہلے ہی سے خلافت وشہادت کی بشارت عطا فرمائی تھی ، چنانچہ امام ابو نعیم اصبہانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے روایت نقل کی ہے : عن جابر بن سمرۃ ، قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لعلی : إنک مؤمر مستخلف وإنک مقتول ۔
ترجمہ : سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ،انہوںنے فرمایا ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے ارشاد فرمایا:بیشک تم والی اور خلیفہ مقرر کئے جانے والے ہو اور بیشک تم شہید کیے جانے والے ہو ۔ (فضائل الخلفاء الراشدین لأبی نعیم الأصبھانی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 347،چشتی)
شہادت عظمیٰ : حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت سے متعلق تفصیلات بیان کر تے ہوئے صاحب اِکمال رقم طراز ہیں : ضربہ عبد الرحمن بن ملجم المرادی بالکوفۃ صبیحۃ الجمعۃ لثمانی عشرۃ لیلۃ خلت من شہر رمضان سنۃ اربعین ومات بعد ثلاث لیال من ضربۃ ۔ ابن ملجم شقی نے سنہ چالیس (40) ہجری ، سترہ (17) رمضان المبارک،جمعہ کی صبح آپ پرحملہ کیا اورحملہ کے تین (3) دن بعد (بیس 20) رمضان المبارک کو) آپ کی شہادت عظمی ہوئی ۔ (الاکمال فی اسماء الرجال،حرف العین ،فصل فی الصحابۃ)
غسل مبارک : حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے غسل مبارک اور نمازجنازہ سے متعلق تاریخ میں اس طرح تفصیلات ملتی ہیں : وغسلہ ابناہ الحسن والحسین وعبد اللہ بن جعفر وصلی علیہ الحسن ۔ ترجمہ : حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ،حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے غسل مبارک دیا اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی ۔ (الاکمال فی اسماء الرجال،حرف العین ،فصل فی الصحابۃ،چشتی)
حضرت مولائے کائنات کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو شہادت کا منصبِ رفیع عطا فرمایا، ابن ملجم شقی کے حملہ کرنے کے بعد صبح صادق کے وقت آپ نے فرمایا کہ میرا چہرہ مشرق کی سمت پھیر دو!جب چہرۂ مبارک مشرق کی جانب پھیر دیا گیا تو آپ نے فرمایا : اے صبح صادق؛تجھے اس ذات کی قسم جس کے حکم سے تو نمودار ہوتی ہے!بروز قیامت تو گواہی دینا کہ جس وقت سے میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی ہے ؛اس وقت سے آج تک کبھی تو نے مجھے سوتا ہوا نہ پائی ، تیرے نمودار ہونے سے قبل ہی میں بیدار ہو جاتا ۔ پھر سجدہ ریز ہوکر آپ نے دعا کی ؛ الہی ! قیامت کے دن جبکہ ہزارہا انبیاء و ملائکہ ، صدیقین وشہداء تیرے عرش عظیم کو دیکھ رہے ہوں گے ؛ اس وقت تو گواہی دینا کہ جب سے میں تیرے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ایمان لایا ؛ کبھی آپ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی ۔ (الریاض النضرہ ، فضائل خلفائے راشدین وغیرہ)
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صدقہ و طفیل حضرات اہل بیتِ کرام و صحابۂ عظام رضی اللہ عنہم سے بے پناہ محبت کرنے والا بنائے ، حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی سے بے انتہاء عقیدت والفت رکھنے والا بنائے اور آپ کے فیوض وبرکات سے ہمیں مستفیض فرمائے اور آپ کی تعلیمات پر عمل کرنے والا بنائے ۔
فضائل و مناقب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 3
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
القابات حضرت مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ : اگر آپ اللہ تعالیٰ کے دوستوں کا نمونہ دیکھنا چاہتے ہوں تو آؤ میں آپ کو اللہ تعالیٰ کے دوستوں کا سردار دکھاتا ہوں : جن کا اسم مبارک علی رضی اللہ عنہ ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام مبارک منہ کا مقصود اور زبان کی زینت ہے آپ کا نام مبارک دل کو آرام دینے والا اور جان کو راحت دینے والا ہے ۔ آپ کا لقب امیر النحل ، بیضۃ البلد ، یعسوب الدین ، حیدر کرار ، اسد اللہ الغالب اور آپ کی کنیت ابو الحسن ، ابو تراب ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کا حلیہ شریف دکھانا چاہتا ہوں تاکہ آپ تصور جمائیں تو کیا عجب ہے کہ حضرت سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی متبرک صورت نظر آجائے ۔ آپ لنبے قد کے نہ تھے ، آپ کی آنکھیں بڑی اور پتلیاں سیاہ تھیں ، آپ کا چہرۂ مبارک نہایت خوبصورت گویا چودھویں رات کا پورا چاند تھا ، آپ کے سر پر بال کم تھے مگر داڑھی کے بال کثرت سے تھے ، آپ کی نازک گردن دیکھنے والوں کو بالکل چاندی کی ڈھلی ہوئی صراحی معلوم ہوتی تھی ۔ حضرت مولیٰ علی مشکلکشا شیرِ خدا رضی اللہ عنہ مکّۃ المکرَّمہ میں پیدا ہوئے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی والِدۂ ماجدہ حضرت سیِّدَتُنا فاطِمہ بنتِ اَسَد رضی اللہ عنہا نے اپنے والد کے نام پر آپ کا نام ’’حیدر‘‘ رکھا ، والِد نے آپ رضی اللہ عنہ کا نام ’’علی‘‘ رکھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو ’’ اَسَدُ اللہ ‘‘ کے لقب سے نوازا ، اس کے علاوہ ’’مُرتَضٰی (یعنی چُنا ہوا) ، کَرّار (یعنی پلٹ پلٹ کر حملے کرنے والا) ، شیرِ خدا اور مولا مشکِل کُشا آپ رضی اللہ عنہ کے مشہور اَلقابات ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں ۔ (مراٰ ۃ المناجیح جلد ۸ صفحہ ۴۱۲)
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی کُنیت ابو تُراب
حضرت سَہْل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حضرت علی مولا رضی اللہ عنہ ایک روزشہزادیٔ کونین حضرتِ سیِّدَتُنا فاطِمَۃُ الزَّھرَاء رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور پھر مسجِد میں آکر لیٹ گئے ۔ (ان کے جانے کے بعد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (گھر تشریف لائے اور) بی بی فاطمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے اُن کے بارے میں پوچھا ۔ انہوں نے جواب دیا کہ مسجِد میں ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے گئے اورمُلاحَظہ فرمایا کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ پر سے چادرہٹ گئی ہے ، جس کی وجہ سے پیٹھ مِٹّی سے آلودہ ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی پیٹھ سے مِٹّی جھاڑ نے لگے اور دو مرتبہ فرمایا : قُمْ اَبَا تُرَابٍ یعنی اٹھو ! اے ابو تُراب ۔ (بُخاری جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۱۶۹ حدیث نمبر۴۴۱)
اُس نے لقبِ خاک شَہَنْشاہ سے پایا
جو حیدرِ کَرّار کہ مولی ہے ہمارا
عَنْ أَبِيْ حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ : مَا کَانَ لِعَلِيٍّ إِِسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَبِي التُّرَابِ وَ إِنْ کَانَ لَيَفْرَحُ إِذَا دُعِيَ بِهَا۔ فَقَالَ لَهُ : أَخْبِرْنَا عَنْ قِصَّتِهِ. لِمَ سُمِّيَ أَبَا تُرَابٍ؟ قَالَ : جَاءَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بَيْتَ فَاطِمَةَ، فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ. فَقَالَ أَيْنَ ابْنُ عَمِّکِ ؟ فَقَالَتْ : کَانَ بَيْنِيْ وَ بَيْنَهُ شَيْيئٌ. فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِيْ. فَقَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لِإِنْسَانٍ : انْظُرْ أَيْنَ هُوَ ؟ فَجَاءَ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ ﷲِ! هُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ. فَجَاءَهُ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَ هُوَ مُضْطَجِعٌ قَدْ سَقَطَ رِدَآؤُهُ عَنْ شِقِّهِ فَأَصَابَهُ تُرَابٌ. فَجَعَلَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَمْسَحُهُ عَنْهُ وَ يَقُوْلُ : قُمْ أَبَا التُّرَابِ. قُمْ أَبَاالتُّرَابِ! مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ ۔
ترجمہ : حضرت ابو حازم حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ابو تراب سے بڑھ کر کوئی نام محبوب نہ تھا ، جب ان کو ابو تراب کے نام سے بلایا جاتا تو وہ خوش ہوتے تھے۔ راوی نے ان سے کہا ہمیں وہ واقعہ سنائیے کہ آپ رضی اللہ عنہ کا نام ابو تراب کیسے رکھا گیا ؟ انہوں نے کہا ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ رضی ﷲ عنہا کے گھر تشریف لائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ گھر میں نہیں تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارا چچازاد کہاں ہے ؟ عرض کیا میرے اور ان کے درمیان کچھ بات ہوگئی جس پر وہ خفا ہو کر باہر چلے گئے اور گھر پر قیلولہ بھی نہیں کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی شخص سے فرمایا : جاؤ تلاش کرو وہ کہاں ہیں ؟ اس شخص نے آ کر خبر دی کہ وہ مسجد میں سو رہے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ وہ لیٹے ہوئے ہیں جبکہ ان کی چادر ان کے پہلو سے نیچے گر گئی تھی اور ان کے جسم پر مٹی لگ گئی تھی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ہاتھ مبارک سے وہ مٹی جھاڑتے جاتے اور فرماتے جاتے : اے ابو تراب (مٹی والے) ! اٹھو ، اے ابو تراب اٹھو۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے ۔ (البخاري في الصحيح، کتاب المساجد، باب نوم الرجال في المسجد، 1 / 169، الحديث رقم : 430، و البخاري في الصحيح، کتاب الاستئذان، باب القائلة في المسجد، 5 / 2316، الحديث رقم : 5924، و مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علي بن أبي طالب، 4 / 1874، الحديث رقم : 2409، و البيهقي في السنن الکبري، 2 / 446، الحديث رقم : 4137، و الحاکم في معرفة علوم الحديث، 1 / 211،چشتی)
عَنْ عَبْدِ الْعَزِيْزِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيْهِ : أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَي سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ فَقَالَ : هَذَا فُلانٌ، لِأَمِيْرِ المَدِيْنَةِ، يَدْعُوْ عَلِيًّا عِنْدَ المِنْبَرِ، قَالَ : فَيَقُوْلُ مَاذَا؟ قَالَ : يَقُوْلُ لَهُ : أَبُوْتُرَابٍ، فَضَحِکَ. قَالَ : وَﷲِ مَا سَمَّاهُ إِلَّا النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم، وَمَا کَانَ وَﷲِ لَهُ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْهُ، فَاسْتَطْعَمْتُ الْحَدِيْثَ سَهْلًا، وَ قُلْتُ : يَا أَبَا عَبَّاسٍ، کَيْفَ ذٰلِکَ؟ قَالَ : دَخَلَ عَلِيٌّ عَلَي فَاطِمَةَ ثُمَّ خَرَجَ، فَاضْطَجَعَ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : أَيْنَ ابْنُ عَمِّکِ؟ قَالَتْ : فِي الْمَسْجِدِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِ، فَوَجَدَ رِدَاءَهُ قَدْ سَقَطَ عَنْ ظَهْرِهِ، وَ خَلَصَ التُّرَابُ إِلَي ظَهْرِهِ، فَجَعَلَ يَمْسَحُ التُّرَابَ عَنْ ظَهْرِهِ فَيَقُوْلُ : اجْلِسْ أَبَاتُرَابٍ. مَرَّتَيْنِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت ابو حازم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے اس وقت کے حاکم مدینہ کی شکایت کی کہ وہ برسرِ منبر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہتا ہے ۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے پوچھا : وہ کیا کہتا ہے ؟ اس شخص نے جواب دیا کہ وہ ان کو ابو تراب کہتا ہے ۔ اس پر حضرت سہل رضی اللہ عنہ ہنس دیئے اور فرمایا، خدا کی قسم! ان کا یہ نام تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھا تھا اور خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی کوئی نام اس سے بڑھ کر محبوب نہ تھا ۔ میں نے حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے اس سلسلے کی پوری حدیث سننے کی خواہش کی، میں نے عرض کیا : اے ابو عباس! واقعہ کیا تھا ؟ انہوں نے فرمایا : ایک روز حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گھر تشریف لے گئے اور پھر مسجد میں آ کر لیٹ گئے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : تمہارا چچازاد کہاں ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : مسجد میں ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں ان کے پاس تشریف لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ چادر ان کے پہلو سے سرک گئی تھی اور ان کے جسم پر دھول لگ گئی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی پشت سے دھول جھاڑتے جاتے اور فرماتے جاتے اٹھو، اے ابو تراب ! اٹھو ، اے ابو تراب ۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے ۔ (البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب علي بن أبي طالب، 3 / 1358، الحديث رقم : 3500، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 368، الحديث رقم : 6925، و الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 167، الحديث رقم : 5879، و الروياني في المسند، 2 / 188، الحديث رقم : 1015، و الشيباني في الآحاد و المثاني، 1 / 150، الحديث رقم : 183، و البخاري في الأدب المفرد، 1 / 296، الحديث رقم : 852،تحفة الأحوذي، 10 / 144،چشتی)
عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ : جَاءَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم وَ عَلِيٌّ رضي الله عنه نَائِمٌ فِيْ التُّرَابِ، فَقَالَ : إِنَّ أَحَقَّ أَسْمَائِکَ أَبُوْ تُرَابٍ، أَنْتَ أَبُوْ تُرَابٍ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت ابو طفیل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ مٹی پر سو رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو سب ناموں میں سے ابو تراب کا زیادہ حق دار ہے تو ابو تراب ہے ۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے ۔ (الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 237، الحديث رقم : 775، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 101)
عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم کَنَّي عَلِيًّا رضي الله عنه بِأَبِي تُرَابٍ، فَکَانَتْ مِنْ أَحَبِّ کُنَاهُ إِلَيْهِ. رَوَاهُ الْبَزَّارُ ۔
ترجمہ : حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ابو تراب کی کنیت سے نوازا ۔ پس یہ کنیت انہیں سب کنییتوں سے زیادہ محبوب تھی ۔ اس حدیث کو بزار نے روایت کیا ہے ۔ (البزار في المسند، 4 / 248، الحديث رقم : 1417،چشتی)(والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 101)
حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا لقب اسد اللہ یعنی شیرِ خدا ہے اور یہ لقب آپ کی بہادری کی وجہ سے آپ کو دیا جاتا ہے ۔ جیسے ہمارے ہاں رستمِ زمان ، شیرِ پاکستان ، شیرِ بنگال وغیرہ کے القاب ہیں ۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان کی شجاعت و بہادری کی وجہ سے شیرخدا یعنی اللہ تعالیٰ کا شیر کہتے تھے ۔
اسد اللہ کے معنیٰ
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا لقب خدا کا شیر ، شیر خدا ، چوتھے خلیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا لقب ۔
اسد اللہ کے انگریزی معنی
Lion of God (as the appelation of the fourth orthodox Caliph, Hazrat Ali)
اسد اللہ سے متعلق اشعار
تھی ہربر اسد اللہ کو کہاں بات کی تاب
شیر جھپٹا تو گریزاں ہوا وہ خانہ خراب
کھینچیں گے جو تیغیں اسد اللہ کے پیارے
خوں کا ابھی مینھ برسے گا دریا کے کنارے
رستے میں ابھی تھا اسد اللہ کا جایا
جو چاند محرم کا فلک پر نظر آیا
شجاعت میں آپ رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی بے مثل تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ رضی اللہ عنہ کو باروئے خبیر شکن ، پنجہ شیر افگن عطا فرمایا ۔ بارگاہ نبوت سے آپ رضی اللہ عنہ کو اسداللہ کا لقب عطا ہوا ۔ غزوہ بدر ، غزوہ احد غزوہ خندق ، غزوہ خیبر سے شہادت تک قدم قدم پر آپ رضی اللہ عنہ نے فقیدالمثال شجاعت کا مظاہرہ کیا ۔ فاتح خیبر ، حیدر کرار ، صاحب ذو الفقار ، شیریزداں ، شاہ مرداں ابو الحسن سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالی نے شجاعت وبہادری کے عظیم جوہر سے مزین فرمایا ، میدان کارزار میں آپ کی سبقت وپیش قدمی بہادر مرد وجواں افراد کےلیے ایک نمونہ تھی،غزوۂ خیبر کے موقع پرآپ کی شجاعت وبہادری سے متعلق امام ابن عساکر کے حوالہ سے روایت مذکور ہے : وقال جابر بن عبد اللہ حمل علی الباب علی ظہرہ یوم خیبر حتی صعد المسلمون علیہ فتحوہا وإنہم جروہ بعد ذلک فلم یحملہ إلا أربعون رجلا ۔ أخرجہ ابن عساکر ۔
ترجمہ : سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا : حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ نے خیبر کے دن (قلعہ کے) دروازہ کو اپنی پشت پر اٹھالیا ، یہاں تک کہ اہل اسلام نے اس پر چڑھائی کی اور اسے فتح کرلیا ، اور اس کے بعد لوگوں نے اس دروازہ کو کھینچا تو وہ (اپنی جگہ سے) نہ ہٹا، یہاں تک کہ چالیس ( 40) افراد نے اسے اٹھایا ۔ (ابن عساکر نے اس روایت کی تصحیح کی ہے) ۔ (تاریخ الخلفاء ،علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ،چشتی)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بلند و بالا ہستی اور آپ کے فضائل و مناقب کے کیا کہنے ! جبکہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے کمالات کو بڑی جامعیت کے سا تھ ارشاد فرمایا ، چنانچہ اس سلسلہ میں امام ابو نعیم اصبہانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے روایت نقل کی ہے : عن أبی الحمراء مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : کنا حول النبی صلی اللہ علیہ وسلم فطلع علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ ، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : من سرہ أن ینظر إلی آدم فی علمہ ، وإلی نوح فی فہمہ ، وإلی إبراہیم فی خلقہ ، فلینظر إلی علی بن أبی طالب ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام سیدنا ابو حمراء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، آپ نے فرمایا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھے کہ حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ رونق افروز ہوئے ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص کو یہ بات خوش کرے کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو ان کی علمی شان کے ساتھ دیکھے ، حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی فہم و دانشمندی کی شان کے ساتھ دیکھے ، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کے پاکیزہ اخلاق کی شان کے ساتھ دیکھے تو وہ علی بن ابو طالب کو دیکھ لے ! (کہ ان میں سب کے جلوے ہیں ) . (فضائل الخلفاء الراشدین لأبی نعیم الأصبہانی جلد 1 صفحہ 75،چشتی)
قوَّتِ حیدری رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک جھلک
غزوۂ خیبر میں ایک یہودی نے حضرتِ حیدرِ کَرّار رضی اللہ عنہ پر وار کیا ، اِسی دَوران آپ رضی اللہ عنہ کی ڈھال گر گئی ، تو آپ رضی اللہ عنہ آگے بڑھ کر قَلعے کے دروازے تک پَہُنچ گئے اور اپنے ہاتھوں سے قَلعے کا پھاٹک اُکھاڑ دیا اور کواڑ کو ڈھال بنالیا ، وہ کِواڑ آپ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں برابر رہا اور آپ رضی اللہ عنہ لڑتے رہے یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھوں خیبر کو فتح فرمایا۔یہ کواڑ اتنا وزنی تھا کہ جنگ کے بعد 40 آدمیوں نے مل کر اُٹھانا چاہا تو وہ کامیاب نہ ہوئے ۔ (دَلَائِلُ النُّبُوَّۃِ لِلْبَیْہَقِی جلد ۴ صفحہ ۲۱۲،چشتی)
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ⬇
شیرِ شمشِیر زَن شاہِ خیبر شِکَن
پَر تَوِ دستِ قدرت پہ لاکھوں سلام (حدائقِ بخشش شریف)
کسی اورنے بھی کیا خوب کہا ہے : ⬇
علی حیدر تری شوکت تری صَولت کا کیا کہنا
کہ خطبہ پڑھ رہا ہے آج تک خیبر کا ہر ذرّہ
شیر خدا ( شیرِ خُدا ) ۔ { شے + رے + خُدا } ( فارسی )
تفصیلات : فارسی سے مرکبِ اضافی ہے۔ فارسی میں اسم ‘شیر’ بطور مضاف کے ساتھ کسرۂ اضافت لگا کر فارسی میں اسم خاص ‘خدا’ بطور مضاف الیہ ملنے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم علم استعمال ہوتا ہے۔ اور سب سے پہلے 1611ء کو “کلیاتِ قلی قطب شاہ” میں تحریراً مستعمل ملتا ہے ۔
معانی
مترادفات
اسم معرفہ ( مذکر – واحد)
حضرتِ علی رضی اللہ عنہ کا لقب ، اسد اللہ
شاہِ مرداں ، شیرِ یزداں قوتِ پروردگار
لَا فَتٰي اِلَّا عَلِي لَا سَيْفَ اِلَّا ذُوالْفِقَار
مرتضیٰ شیر حق اشجع الاشجعین
باب فضل ولایت پہ لاکھوں سلام
شیر شمشیر زن شاہِ خیبر شکن
پر تو دستِ قدرت پہ لاکھوں سلام
جنگ خیبر میں جب گھمسان کی جنگ ہونے لگی تو حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی ڈھال کٹ کر گرپڑی تو آپ نے جوش جہاد میں آگے بڑھ کر قلعہ خیبر کا پھاٹک اکھاڑ ڈالا اوراس کے ایک کواڑ کو ڈھال بنا کراس پر دشمنوں کی تلواروں کو روکتے تھے ۔ یہ کواڑ اتنا بھاری اور وزنی تھا کہ جنگ کے خاتمہ کے بعد چالیس آدمی ملکر بھی اس کو نہ اٹھا سکے ۔ (زرقانی جلد ۲ صفحہ ۲۳۰،چشتی)
کیا فاتح خیبرکے اس کارنامہ کو انسانی طاقت کی کار گزاری کہا جاسکتا ہے ؟ ہرگز ہرگز نہیں ۔ یہ انسانی طاقت کا کارنامہ نہیں ہے بلکہ یہ روحانی طاقت کا ایک شاہکار ہے جو فقط اللہ والوں ہی کا حصہ ہے جس کو عرف عام میں کرامت کہا جاتا ہے ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت اور بہادری شہرۂ آفاق ہے ، عرب و عجم میں آپ کی قوت بازو کے سکے بیٹھے ہوئے ہیں آپ کے رعب و دبدبہ سے آج بھی بڑے بڑے پہلوانوں کے دل کانپ جاتے ہیں ۔ جنگ تبوک کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے آپ کو مدینہ طیبہ پر اپنا نائب مقرر فرما دیا تھا اس لیے اس میں حاضر نہ ہو سکے باقی تمام غزوات و جہاد میں شریک ہوکر بڑی جانبازی کے ساتھ کفار کا مقابلہ کیا اور بڑے بڑے بہادروں کو اپنی تلوار سے موت کے گھاٹ اتاردیا ۔ جنگ بدر میں جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے اسود بن عبد الاسد مخزومی کو کاٹ کر جہنم میں پہنچا یا تو اس کے بعد کافروں کے لشکر کا سردار عتبہ بن ربیعہ اپنے بھائی شیبہ بن ربیعہ اور اپنے بیٹے ولید بن عتبہ کو ساتھ لے کر میدان میں نکلا اور چلاّ کر کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، اشراف قریش میں سے ہمار ے جوڑ کے آدمی بھیجیے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہ سن کر فرمایا ۔ اے بنی ہاشم ! اُٹھو اور حق کی حمایت میں لڑو جس کے ساتھ ﷲ تعالیٰ نے تمہارے نبی کو بھیجا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اس فرمان کو سن کر حضرت حمزہ ، حضرت علی اور حضرت ابوعبیدہ رضی ﷲ عنہم دشمن کی طرف بڑھے ۔ لشکر کے سردار عتبہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے مقابل ہوا اور ذلت کے ساتھ مارا گیا،ولید جسے اپنی بہادری پر بہت بڑا ناز تھا وہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے مقابلہ کے لئے مست ہاتھی کی طرح جھومتا ہوا آگے بڑھا اور ڈینگیں مارتا ہوا آپ پر حملہ کیا مگر شیر خدا علی مرتضیٰ کرم ﷲ وجہہ الکریم نے تھوڑی ہی دیر میں اسے مار گرایا اور ذوالفقار حیدری نے اس کے گھمنڈ کو خاک و خون میں ملا دیا۔اس کے بعد آپ نے دیکھا کہ عتبہ کے بھائی شیبہ نے حضرت ابو عبیدہ رضی ﷲ عنہ کو زخمی کر دیا ہے تو آپ نے جھوٹ کر اس پر حملہ کیا اور اسے بھی جہنم پہنچا دیا ۔
جنگ احد میں جب کہ مسلمان آگے اور پیچھے سے کفار کے بیچ میں آگئے جس کے سبب بہت سے لوگ شہید ہوئے تو اس وقت سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بھی کافروں کے گھیرے میں آگئے اور انہوں نے اعلان کر دیا کہ اے مسلمانو! تمہارے نبی قتل کر دئیے اس اعلان کو سن کر مسلمان بہت پریشان ہو گئے یہانتک کہ اِدھر اُدھر ہو گئے بلکہ ان میں سے بہت لوگ بھاگ بھی گئے ۔حضرت علی کرم ﷲ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ جب کافروں نے مسلمانوں کو آگے پیچھے سے گھیر لیا اور رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میری نگاہ سے اوجھل ہوگئے تو پہلے میں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو زندوں میں تلاش کیا مگر نہیں پایا پھر شہیدوں میں تلاش کیا وہاں بھی نہیں پایا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میدان جنگ سے بھاگ جائیں لہٰذا ﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو آسمان پر اُٹھالیا ۔اس لئے اب بہتر یہی ہے کہ میں بھی تلوار لیکر کافروں میں گھس جاؤں یہانتک کہ لڑتے لڑتے شہید ہو جاؤں ۔ فرماتے ہیں کہ میں نے تلوار لیکر ایسا سخت حملہ کیا کہ کفار بیچ میں سے ہٹتے گئے اور میں نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھ لیا تو مجھے بے انتہا خوشی ہوئی اور میں نے یقین کیا کہ ﷲ تبارک و تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حفاظت فرمائی ۔میں دوڑ کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس جا کر کھڑا ہوا کفار گروہ در گروہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر حملہ کرنے کیلئے آنے لگے۔آپ نے فرمایا علی ان کو روکو ،تو میں نے تنہا سب کا مقابلہ کیا اور ان کے منہ پھیر دئیے اور کئی ایک کو قتل بھی کیا ۔اس کے بعد پھر ایک گروہ اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر حملہ کرنے کی نیت سے بڑھا آپ نے پھر میری طرف اشارہ فرمایا تو میں نے پھر اس گروہ کا اکیلے مقابلہ کیا ۔اس کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آکر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے میری بہادری اور مدد کی تعریف کی تو آپ نے فرمایا انہ منی وانا منہ۔یعنی’’ بیشک علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں۔‘‘مطلب یہ ہے کہ علی کو مجھ سے کمال قرب حاصل ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اس فرمان کو سن کر حضرت جبرائیل نے عرض کیا وانا منکما ۔یعنی’’میں تم دونوں سے ہوں۔‘‘سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو نہ پاکر حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا شہید ہوجانے کی نیت سے کافروں کے جتھے میں تنہا گھس جانا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر حملہ کرنے والے گروہ درگروہ سے اکیلے مقابلہ کرنا آپ کی بے مثال بہادری اور انتہائی دلیری کی خبر دیتا ہے ساتھ ہی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے آپ کے عشق اور سچی محبت کا بھی پتہ دیتا ہے ۔
حضرت کعب بن مالک انصاری سے روایت ہے ۔وہ فرماتے ہیں کہ جنگ خندق کے روز عَمر و بن عبدِ وُد (جو ایک ہزار سوار کے برابر مانا جاتا تھا)ایک جھنڈا لئے ہوئے نکلا تاکہ وہ میدان جنگ کو دیکھے ۔جب وہ اور اس کے ساتھ سوار ایک مقام پر کھڑے ہوئے تو اس سے حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا کہ اے عَمرو !تو قریش سے ﷲ کی قسم دے کر کہا کرتا تھا کہ جب کبھی مجھ کو کوئی شخص دو اچھے کاموں کی طرف بلاتا ہے تو میں اس میں سے ایک کو ضرور اختیار کرتا ہوں۔اس نے کہاہاں میں نے ایسا کہا تھا اور اب بھی کہتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا کہ میں تجھے ﷲ و رسول (جل جلالہ ، صلی ﷲ علیہ واٰلہ واصحابہ وسلم )اور اسلام کی طرف بلاتا ہوں ۔عَمرو نے کہا مجھے ان میں سے کسی کی حاجت نہیں ۔حضرت علی نے فرمایا تو اب میں تجھ کو مقابلہ کی دعوت دیتا ہوں اور اسلام کی طرف بلاتا ہوں ۔عَمرو نے کہاا ے میرے بھائی کے بیٹے کس لئے مقابلہ کی دعوت دیتا ہے خدا کی قسم میں تجھ کو قتل کرنا پسند نہیں کرتا ۔حضرت علی نے فرمایا یہ میدان میں پتہ چلے گا دونوں میدان میں آگئے اور تھوڑی دیر مقابلہ ہونے کے بعد شیر خدا نے اسے موت کے گھاٹ اتار کر جہنم میں پہنچادیا ۔
محمد بن اسحاق علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ عمرو عبدِ وُد میدان میں اس طرح پر نکلا کہ لوہے کے زر ہیں پہنے ہوئے تھا اور اس نے بلند آواز سے کہا ۔ہے کوئی جو میرے مقابلہ میں آئے ۔اس آواز کو سن کر حضرت علی رضی ﷲ عنہ کھڑے ہوئے اور مقابلہ کے لئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے اجازت طلب کی ۔آپ نے فرمایا بیٹھ جاؤ۔ یہ عَمرو بن عبدِ وُد ہے ۔دوسری بار عَمرو نے پھر آواز دی کہ میرے مقابلہ کے لئے کون آتا ہے ؟ اور مسلمانوں کو ملامت کرنی شروع کی ۔کہنے لگا تمہاری وہ جنت کہاں ہے جس کے بارے میں تم دعویٰ کرتے ہوکہ جو بھی تم میں سے مارا جاتا ہے وہ سیدھے اس میں داخل ہو جاتا ہے ۔میرے مقابلہ کیلئے کسی کو کیوں نہیں کھڑا کرتے ہو ۔دوبارہ پھر حضرت علی نے کھڑے ہو کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے اجازت طلب کی مگر آپ نے پھر وہی فرمایا کہ بیٹھ جاؤ تیسری بارعَمرو نے پھر وہی آواز دی اور کچھ اشعار بھی پڑھے۔ راوی کا بیان ہے کہ تیسری بار حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے کھڑے ہو کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے عرض کیا کہ یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم !میں اس کے مقابلہ کے لئے نکلوں گا۔آپ نے فرمایا کہ یہ عَمرو ہے ۔حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے عرض کیا چاہے عَمرو ہی کیوں نہ ہو ۔تیسری بار حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے آپ کو اجازت دیدی ۔حضرت علی چل کر اس کے پاس پہنچے اور چند اشعار پڑھے ۔ عَمرو نے پوچھا کہ تو کون ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ میں علی ہوں۔اس نے کہا عبد مناف کے بیٹے ہو؟آپ نے فرمایا میں علی بن ابی طالب ہوں۔اس نے کہاں اے میرے بھائی کے بیٹے !تیرے چچاؤں میں سے ایسے بھی تو ہیں جو عمر میں تجھ سے زیادہ ہیں میں تیرا خون بہانے کو برا سمجھتا ہوں۔ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا مگر خدا کی قسم میں تیرا خون بہانے کو قطعاً برا نہیں سمجھتا ۔ یہ سن کر وہ غصہ سے تلملا اُٹھا ۔گھوڑے سے اتر کر آگ کے شعلہ جیسی سونت لی حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی طرف لپکااور ایسا زبر دست وار کیا کہ آپ نے ڈھال پر روکا تو تلوار اسے پھاڑ کر گھس گئی یہانتک کہ آپ کے سر پر لگی اور زخمی کر دیا ۔اب شیر خدا نے سنبھل کر اس کے کندھے کی رگ پر ایسی تلوار ماری کہ وہ گر پڑا اور غبار اڑا۔ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے نعرۂ تکبیر سناجس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی نے اسے جہنم میں پہنچادیا ۔شیر خدا کی اس بہادری اور شجاعت کو دیکھ کر میدان جنگ کا ایک ایک ذرہ زبان حال سے پکار اُٹھا :⬇
شاہ مرداں شیر یزداں قوتِ پروردگار
لا فتیٰ الا علی لا سیف الا ذوالفقار
یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ بہادروں کے باد شاہ، خدا کے شیر اور قوت پِروردگار ہیں ۔انکے سوا کوئی جوان نہیں اورذوالفقا ر کے علاوہ کوئی تلوار نہیں ۔
اسی طرح جنگ خیبر کے موقع پر بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے شجاعت اور بہادری کے وہ جو ہر دکھائے ہیں جس کاذکر ہمیشہ باقی رہے گا اور لوگوں کے دلوں میں جوش وولولہ پیدا کرتارہے گا ۔ خیبر کا وہ قلعہ جو ’مرَحَّب کاپایہ تخت تھااس کافتح کرنا آسان نہ تھا ۔ اس قلعہ کو سر کرنے کے لیے سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ایک دن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جھنڈا عنایت فرمایا اوردوسرے دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا لیکن فاتح خیبر ہو نا تو کسی اور کےلیے مقدر ہو چکا تھا اس لیے ان حضرات سے وہ فتح نہ ہوا جب اس مہم میں بہت زیادہ دیر ہوئی تو ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ میں یہ جھنڈا کل ایک ایسے شخص کو دوں گا کہ جس کے ہاتھ پر ﷲ تعالیٰ فتح عطا فرمائیگا وہ شخص ﷲ و رسول کو دوست رکھتا ہے اور ﷲ و رسول اس کو دوست رکھتے ہیں ۔ (جل جلالہ ، صلی ﷲ علیہ واٰلہ واصحابہ وسلم) ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اس خوشخبری کو سن کر صحابۂ کرام نے وہ رات بڑی بیقراری میں کاٹی اس لئے کہ ہر صحابی کی یہ تمنا تھی کہ اے کاش!رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کل صبح ہمیں جھنڈا عنایت فرمائیں تو اس بات کی سند ہو جائے کہ ہم ﷲ و رسول کو محبوب رکھتے ہیں اور ﷲ و رسول ہمیں چاہتے ہیں اور اس نعمت عظمیٰ و سعادت کبریٰ سے بھی سرفراز ہو جاتے کہ فاتح خیبر جاتے ۔اس لئے کہ وہ صحابی تھے ان کا یہ عقیدہ ہر گز نہیں تھا کہ کل کیا ہوے والا ہے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اس کی کیا خبر؟ بلکہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ ﷲ کے محبوب دانائے خفایا وغیوب جناب احمد مجتبےٰ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جو کچھ فرمایا ہے وہ کل ہو کر رہے گا۔ اس میں ذرہ برابر فرق نہیں ہو سکتا۔جب صبح ہوئی تو تمام صحابۂ کرام رضوا ن ﷲ علیہم اجمعین امیدیں لیے ہوئے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور ادب کے ساتھ دیکھنے لگے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آج کس کو سرفراز فرماتے ہیں ۔ سب کی ارمان بھری نگاہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لب مبارک کی جنبش پر قربان ہو رہی تھیں کہ سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : این علی بن ابی طالب۔یعنی علی بن ابی طالب کہاں ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم! وہ آشوب چشم میں مبتلا ہیں ان کی آنکھیں دکھتی ہیں آپ نے فرمایا کوئی جاکر ان کو بلالائے ۔جب حضرت علی رضی ﷲ عنہ لائے گئے تو رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کی آنکھوں پر لعاب دہن لگایا تو وہ بالکل ٹھیک ہو گئیں ۔حدیث شریف کے اصل الفاظ یہ ہیں ۔فبصق رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فی عینیہ فبرأ۔اور ان کی آنکھیں اس طرح اچھی ہو گئیں گویا دکھتی ہی نہ تھیں۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کو جھنڈا عنایت فرمایا ۔حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے عرض کیا یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! کیا میں ان لوگوں سے اس وقت تک لڑوں جب تک کہ وہ ہماری طرح مسلمان نہ ہو جائیں ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا تم اُن کو اسلام کی طرف بلاؤ اور پھر بتلاؤ کہ اسلام قبول کرنے کے بعد ان پر کیا حقوق ہیں ۔خدا قسم اگر تمہاری کوشش سے ایک شخص کو بھی ہدایت مل گئی تو وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہوگا۔(بخاری ،مسلم)
اسلام قبول کرنے یا صلح کرنے کی بجائے حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے مقابلہ کرنے کےلیے مُرَحُّبْ یہ رجز پڑھتا ہوا قلعہ سے باہر کلا ۔ مُرَحُّبْ بڑے گھمنڈ سے آیا تھا لیکن شیر خدا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عہ نے اس زور سے تلوار ماری کہ اس کے سر کو کاٹتی ہوئی دانتوں تک پہنچ گئی اور وہ زمین پر ڈھیر ہو گیا۔ اس کے بعد آپ نے فتح کا اعلان فرما دیا۔حضرت جابر بن عبد ﷲ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ اس روز آپ نے خیبر کا دروازہ اپنی پیٹھ پر اُٹھالیا تھا اور اس پر مسلمانوں نے چڑھ کر قلعہ کو فتح کر لیا ۔اس کے بعد آپ نے وہ دروزہ پھینک دیا ۔جب لوگوں نے اسے گھسیٹ کر دوسری جگہ ڈالنا چاہا تو چالیس آدمیوں سے کم اسے اُٹھا نہ سکے ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 114،چشتی)
ابن عساکر نے ابو رافع سے روایت کی ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے جنگ خیبر میں قلعہ کا پھاٹک ہاتھ میں لے کر اس کو ڈھال بنالیا وہ پھاٹک ان کے ہاتھ میں برابر رہا اور وہ لڑتے رہے یہاں تک کہ ﷲ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں خیبر کو فتح فرمایا ۔ اس کے بعد پھاٹک کو آپ نے پھینک دیا ۔ لڑائی سے فارغ ہونے کے بعد ہمارے ساتھ کئی آدمیوں نے مل کر اسے پلٹنا چاہا مگر وہ نہیں پلٹا ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 114)
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہُ الْکَرِیْم کہنے کا سبب
جب قُریش مبتَلائے قَحْط ہوئے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حضرت ابوطالِب پرتخفیفِ عِیال (یعنی بال بچّوں کا بوجھ ہلکا کرنے) کے لئے حضرت مولا علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو اپنی بارگاہِ ایمان پناہ میں لے آئے ، حضرت مولیٰ علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے کِنارِ اقدس (یعنی آغوش مبارَک) میں پَروَرِش پائی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گود میں ہوش سنبھالا ، آنکھ کُھلتے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جمالِ جہاں آرا دیکھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہی کی باتیں سنیں ، عادتیں سیکھیں ۔ تو جب سے اِس جنابِ عِرفان مآب رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو ہوش آیا قَطْعًا یقیناً ربّ عَزَّوَجَلَّ کو ایک ہی جانا ، ایک ہی مانا ۔ ہرگز ہرگز بُتوں کی نَجاست سے ان کا دامنِ پاک کبھی آلودہ نہ ہوا ۔ اسی لئے لَقَبِ کریم ’’کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ ‘‘ ملا ۔ (فتاوی رضویہ جلد ۲۸ صفحہ ۴۳۶)
علامہ رشید احمد گنگوہی دیوبندی لکھتا ہے کہ : مولا علی رضی اللہ عنہ کے نام کے ساتھ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کہنے کی وجہ علماء نے یہ تحریر فرمائی ہے کہ خوارج اپنی خباثت سے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو سود اللہ وجہہ سے یاد کرتے تھے اسی لیے اہل سنت و جماعت نے کرم اللہ وجہہ مقرر کیا ۔ (فتاوی رشیدیہ صفحہ ۱۰۹)
علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح المغیث میں ایک دوسری وجہ لکھی ہے کہ : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے کبھی بت کو سجدہ نہیں کیا اس لیئے ان کے نام کے ساتھ کرم اللہ وجہہ لکھتے ہیں : وفی ”تاریخ إربل“ لابن المستوفی عن بعضہم أنہ کان یسأل عن تخصیصہم علیا ب " کرم اللہ وجہہ " فرأی فی المنام من قال لہ: لأنہ لم یسجد لصنم قط․ (فتح المغیث : ۲/۱۶۴ بحوالہ الیواقیت الغالیہ: ۲/ ۲۴۴،چشتی)
دس سال کی عمر میں شجرِ اسلام کے سائے میں آ گئے ، نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سب سے لاڈلی شہزادی حضرتِ سیِّدَتُنا فاطِمَۃُ الزَّھرَاء رَضِیَ اللہُ عَنْہَا آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ ہی کی زَوجِیّت میں آئیں ۔ بڑے شہزادے حضرتِ سیِّدنا امام حَسَن مُجتَبیٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی نسبت سے آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی کُنْیَت ’’اَبُوالحَسَن‘‘ ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو ’’ابُو تُراب ‘‘ کُنیْت عطا فرمائی ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ ۱۳۲)
حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی ، شیرِخدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو یہ کُنْیَت اپنے اصلی نام سے بھی زیادہ پیاری تھی ۔ (بُخاری جلد ۲ صفحہ ۵۳۵ حدیث نمبر ۳۷۰۳)
حضرات اہل بیت کرام و صحابۂ عظام رضی اللہ عنہم کا نام ذکر کرتے وقت بطور اکرام رضی اللہ تعالی عنہ کہا جاتا ہے ، حضرت مولائے کائنات رضی اللہ تعالی عنہ کے نام مبارک کے ساتھ اس عمومی کلمات کے علاوہ بطور خاص کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کہا جاتا ہے ، اس کی وجہ نور الابصار میں اس طرح بیان کی گئی ہے : (وامہ) فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف (رضی اللہ عنہم) ۔ انہا کانت اذا ارادت ان تسجد لصنم وعلی رضی اللہ تعالی عنہ فی بطنہا لم یمکنہا یضع رجلہ علی بطنہا ویلصق ظہرہ بظہرہا ویمنعہا من ذلک؛ولذلک یقال عند ذکرہ’’کرم اللہ وجہہ ۔
ترجمہ : سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی والدۂ محترمہ کا نام مبارک حضرت فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف رضی اللہ عنہم ہے ۔ جب وہ کسی بت کے آگے سجدہ کرنے کا ارادہ کرتیں جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کے شکم میں تھے وہ سجدہ نہیں کرپاتی تھیں ، کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے قدم ان کے شکم مبارک سے چمٹا دیتے اور اپنی پیٹھ ان کی پیٹھ سے لگا دیتے اور انہیں سجدہ کرنے سے روک دیتے ، یہی وجہ ہے کہ جب بھی آپ کا مبارک تذکرہ کیا جاتا ہے تو کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم (اللہ تعالی آپ کے چہرۂ انور کو بزرگ و باکرامت بنایاہے) کہا جاتاہے ۔ (نورالابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم صفحہ 85) ۔
فضائل و مناقب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 4
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی محبت و بغض مومن و منافق کی پہچان : حضرت مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت و تکریم سے عاری دل ، سوائے منافقت خانے کے اور کچھ نہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ وعنھم تو منافقین کی پہچان ہی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا نام لے کر کرتے تھے ۔ جس کے چہرے پر مولا علی رضی اللہ عنہ کا نام سن کر خوشی آجاتی ، سمجھ جاتے وہ مومن ہے ۔ اور جس کے چہرے پر تنگی ، کڑواہٹ ، بغض و عداوت ، تکلیف و پریشانی کے آثار نمایاں ہو جاتے ہیں (جیسے آج بھی بعض حضرات کے چہروں پر ذکرِ و فضائلِ مولا علی رضی اللہ عنہ سے تکلیف کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اور ان کی توانائیاں اس موضوع سے توجہ ہٹانے کےلیے فوراً حرکت میں آجاتی ہیں) صحابہ کرام رضوان اللہ علھم اجمعین سمجھ جاتے تھے کہ یہ منافق ہے ۔
علی ہیں اہلِ بیتِ مصطفی میں یہ روایت ہے
وہی ہے مومن کامل جسے اُن سے محبت ہے
عَنْ زِرٍّ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : وَالَّذِيْ فَلَقَ الْحَبَّةَ وَ بَرَأَ النَّسْمَةَ إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَيَّ أَنْ لَا يُحِبَّنِيْ إِلاَّ مُؤْمِنٌ وَّ لَا يُبْغِضَنِيْ إِلَّا مُنَافِقٌ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ ۔
ترجمہ : حضرت زر بن حبیش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو پھاڑا (اور اس سے اناج اور نباتات اگائے) اور جس نے جانداروں کو پیدا کیا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مجھ سے عہد ہے کہ مجھ سے صرف مومن ہی محبت کرے گا اور صرف منافق ہی مجھ سے بغض رکھے گا ۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الدليل علي أن حب الأنصار و علي من الإيمان، 1 / 86، الحديث رقم : 78،چشتی، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 367، الحديث رقم : 6924، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 47، الحديث رقم : 8153، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 365، الحديث رقم : 32064،چشتی،وأبويعلي في المسند، 1 / 250، الحديث رقم : 291، و البزار في المسند، 2 / 182، الحديث رقم : 560، و ابن ابي عاصم في السنة، 2 / 598، الحديث رقم : 1325)
عَنْ عَلِيٍّ : قَالَ لَقَدْ عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ صلي الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ لَا يُحِبُّکَ إِلاَّ مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُکَ إِلاَّ مُنَافِقٌ . قَالَ عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ أَنَا مِنَ الْقَرْنِ الَّذِيْنَ دَعَالَهُمُ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ . وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ ۔
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے عہد فرمایا کہ مومن ہی تجھ سے محبت کرے گا اور کوئی منافق ہی تجھ سے بغض رکھے گا ۔ عدی بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس زمانے کے لوگوں میں سے ہوں جن کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی ہے ۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ (أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب 5 / 643، الحديث رقم : 3736، چشتی)
عَنْ بُرَيْدَةَ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إنَّ ﷲ أَمَرَنِيْ بِحُبِّ أَرْبَعَةٍ، وَأخْبَرَنِيْ أنَّهُ يُحِبُّهُمْ. قِيْلَ : يَا رَسُوْلَ ﷲِ سَمِّهُمْ لَنَا، قَالَ : عَلِيٌّ مِنْهُمْ، يَقُوْلُ ذَلِکَ ثَلَاثاً وَ أَبُوْذَرٍّ، وَالْمِقْدَادُ، وَ سَلْمَانُ وَ أَمًرَنِيْ بِحُبِّهِمْ، وَ أَخْبَرَنِيْ أَنَّّهُ يُحِبُّهُمْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ ابْنُ مَاجَةَ ۔ وَ قَالَ التِّرْمِذِيُّ. هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ ۔
ترجمہ : حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ﷲ تعالیٰ نے مجھے چار آدمیوں سے محبت کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ﷲ بھی ان سے محبت کرتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا یا رسول ﷲ ! ہمیں ان کے نام بتا دیجیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا کہ علی بھی انہی میں سے ہے ، اور باقی تین ابو ذر ، مقداد اور سلمان ہیں ۔ راوی کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ان سے محبت کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں بھی ان سے محبت کرتا ہوں ۔ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن ہے ۔ (أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، 5 / 636، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، الحديث رقم : 3718، وابن ماجة في السنن، مقدمه، فضل سلمان وأبي ذرومقداد، الحديث رقم : 149، وأبونعيم في حلية الاولياء، 1 / 172)
عَنْ أَبِيْ سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ إِنَّا کُنَّا لَنَعْرِفُ الْمُنَافِقِيْنَ نَحْنُ مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ بِبُغْضِهِمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِيْ طَالِبٍ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم انصار لوگ ، منافقین کو ان کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بغض کی وجہ سے پہچانتے تھے ۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 635، الحديث رقم : 3717، و أبو نعيم في حلية الاولياء، 6 / 295، چشتی)
عَنِ أُمِّ سَلَمَةَ تَقُوْلُ : کَانَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : لَا يُحِبُّ عَلِيًّا مُنَافِقٌ وَلَا يُبْغِضُهُ مُؤْمِنٌ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ ۔ وَقَالَ ۔ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ ۔
ترجمہ : حضرت ام سلمہ رضی ﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ کوئی منافق حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت نہیں کرسکتا اور کوئی مومن اس سے بغض نہیں رکھ سکتا ۔ اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے ۔ (أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 635، الحديث رقم : 3717، و أبويعلي في المسند، 12 / 362، الحديث رقم : 6931 و الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 375، الحديث رقم : 886، چشتی)
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ ﷲِ قَالَ : وَاللّٰهِ مَاکُنَّا نَعْرِفُ مُنَافِقِيْنَا عَلٰي عَهْدِ رَسُوْلِ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَّا بِبُغْضِهِمْ عَلِيًّا . رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ ۔
ترجمہ : حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اپنے اندر منافقین کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض کی وجہ سے ہی پہچانتے تھے ۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں بیان کیا ہے ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 264، الحديث رقم : 4151، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 132، چشتی)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : إِنَّمَا دَفَعَ ﷲُ الْقُطْرَ عَنْ بَنِيْ إِسْرَئِيْلَ بِسُوْءِ رَأْيِهِمْ فِي أَنْبِيَائِهِمْ وَ إِنَّ ﷲَ يَدْفَعُ الْقُطْرَ عَنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ بِبُغْضِهِمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِيْ طَالِبٍ. رَوَاهُ الدَّيْلِمِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ﷲ تعالی نے بنی اسرائیل سے ان کی بادشاہت انبیاء کرام علیھم السلام کے ساتھ ان کے برے سلوک کی وجہ سے چھین لی اور بے شک ﷲ تبارک و تعالیٰ اس امت سے اس کی بادشاہت کو علی کے ساتھ بغض کی وجہ سے چھین لے گا ۔ اس حدیث کو دیلمی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 1 / 344، الحديث رقم : 1384، والذهبي في ميزان الاعتدال في نقد الرجال، 2 / 251)
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا بغض منافقت کی نشانی ہے اور آپ کی محبت ایمان کی نشانی ہے یہ بات بالکل حق ہے مگر : ⬇
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا بغض منافقت کی نشانی ہے اور آپ کی محبت ایمان کی نشانی ہے یہ بات بالکل حق ہے مگر یہ آپ رضی اللہ عنہ کا خاصہ نہیں یہ بھی تو فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں : آيَةُ الإِيْمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ وَآيَةُ النِّفَاقِ بعْضُ الْأَنْصَارِ ۔ ترجمہ : انصار کی محبت ایمان کی نشانی ہے اور انصار کا بغض منافقت کی نشانی ہے ۔ (صحیح بخاری: ۱۷، ۷۸۴ ۳)(مسلم : ۲۳۵، ۲۳۶، ۲۳۷، ۲۳۸، ۲۳۹)(سنن نسائی : ۵۰۱۹) ۔ اسی طرح تمام کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں فرمایا کہ : مَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُى أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِى أَبْغَضَهُمْ ۔ ترجمہ : جس نے ان سے محبت رکھی اس کے دل میں میری محبت تھی اس لیے ان سے محبت رکھی اور جس نے ان سے بغض رکھا اسکے دل میں میرا بغض تھا اس لیے ان سے بغض رکھا ۔ (جامع ترمذی: ۳۸۶۲)(مسند احمد : ۱۶۸۰۸) ۔ اللہ عزوجل ہم سب کو اہلبیتِ اطہار و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی سچی محبت عطاء فرماۓ اور غالی فتنہ باز لوگوں سے ہم سب کو محفوظ فرماۓ آمین ۔
حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما میں ہونے والے اختلاف اور معافی ، کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دے دی تھی ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مولا علی رضی عنہ سے محبت کرتے تھے ۔ (تفسیر در منثور جلد 1 صفحہ 831 مترجم اردو)
سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی باہمی محبت و احترام : شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرّحمہ (1642) فرماتے ہیں کہ : حدیث میں آیا ہے کہ حوض کوثر کے ساقی سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم ہونگے جو شخص آج ان کی محبت کا پیاسا نہیں مشکل ہے کہ وہ اس حوض سے پانی پی سکے مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ جس کے دل میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی محبت نہیں ہے میں اسے کوثر سے ایک قطرہ تک نہ دوں گا ۔ (تکمیل الایمان صفحہ 42 مکتبہ اعلی حضرت لاہور)
شیر خدا حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی محبت اور حضرت سیدنا صدیق اکبر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے بغض کے بارے میں فرمایا :
لا یجتمع حبی و بغض ابی بکر و عمر فی قلب مومن ولایجتمع بغضی وحب ابی بکر و عمر فی قلب مومن ۔
ترجمہ : شیر خدا حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کسی مومن کے دل میں میری محبت اور حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بغض جمع نہیں ہو سکتا اور اس طرح کسی مومن کے دل میں میری دشمنی اور حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی محبت جمع نہیں ہو سکتی ۔ (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اجمعین) ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی من اسمہ علی، حدیث نمبر 3920 جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 79،چشتی)
شیر خدا حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ۔ جو بھی مجھے حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما پر فضیلت دے اس پر جھوٹ بولنے کی حد جاری کروں گا ۔ (الصارم المسلول صفحہ نمبر 405)
اصبغ بن نباتہ سے روایت ہے کہ شیر خدا حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ۔ جو مجھے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ پر فضیلت دے گا ، اسے بہتان کی سزا میں درے لگاؤں گا اور اس کی گواہی ساکت ہو جائے گی یعنی قبول نہیں ہوگی ۔ (کنزالعمال کتاب الفضائل حدیث نمبر 36097 جلد نمبر 7 صفحہ نمبر 17)
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : مجھے معلوم ہوا کہ کچھ لوگ مجھے حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما سے افضل بتاتے ہیں ۔ آئندہ جو مجھے ان سے افضل بتائے گا وہ بہتان باز ہے ۔ اسے وہی سزا ملے گی جو بہتان لگانے والوں کی ہے ۔
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہلاک ہونے والے لوگ
حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : فِيكَ مَثَلٌ مِنْ عِيسَى أَبْغَضَتْهُ الْيَهُودُ حَتَّى بَهَتُوا أُمَّهُ، وَأَحَبَّتْهُ النَّصَارَى حَتَّى أَنْزَلُوهُ بِالْمَنْزِلَةِ الَّتِي لَيْسَ بِهِ " ثُمَّ قَالَ : " يَهْلِكُ فِيَّ رَجُلانِ مُحِبٌّ مُفْرِطٌ يُقَرِّظُنِي بِمَا لَيْسَ فِيَّ، وَمُبْغِضٌ يَحْمِلُهُ شَنَآنِي عَلَى أَنْ يَبْهَتَنِي ۔
ترجمہ : تمہاری حضرت عیسی علیہ السلام سے ایک مشابت ہے یہودیوں نے ان سے دشمنی کی یہاں تک کہ ان کی والدہ حضرت مریم پر تہمت لگا دیں عیسائیوں نے ان سے محبت کی یہاں تک کے ان کا وہ مقام بیان کیا جو ان کا نہیں تھا پھر حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا میرے بارے میں دو بندے ہلاک ہو جائیں گے ایک میری محبت میں غلو کرنے والا جو میری اس وصف سے تعریف کرے گا جو مجھ میں نہیں دوسرا میرا دشمن کے اسے میری عداوت اس بات پر برانگیختہ کرے گی کہ وہ مجھ پر بہتان باندھے ۔ (مسند أحمد نویسنده : أحمد بن حنبل جلد : 2 صفحه : 468 مطبوعہ مؤسسة الرسالة)(مسند أبي يعلى الموصلي نویسنده : أبو يعلى الموصلي جلد : 1 صفحه : 406 مطبوعہ دار المأمون للتراث - دمشق)(مشكاة المصابيح نویسنده : التبريزي، أبو عبد الله جلد : 3 صفحه : 1722 مطبوعہ المكتب الإسلامي - بيروت)(إطراف المسند المعتلي بأطراف المسند الحنبلي نویسنده : العسقلاني ، ابن حجر جلد : 4 صفحه : 406 مطبوعہ دار ابن كثير - دمشق، دار الكلم الطيب - بيروت)(فضائل الصحابة نویسنده : أحمد بن حنبل جلد : 2 صفحه : 639 مطبوعہ مؤسسة الرسالة - بيروت،چشتی)(السنن الكبرى نویسنده : النسائي جلد : 7 صفحه : 446 مطبوعہ مؤسسة الرسالة بيروت)(شرح مذاهب أهل السنة نویسنده : ابن شاهين جلد : 1 صفحه : 166 مطبوعہ مؤسسة قرطبة للنشر والتوزيع)(تاريخ دمشق نویسنده : ابن عساكر، أبو القاسم جلد : 42 صفحه : 293 مطبوعہ دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع،چشتی)(المسند الموضوعي الجامع للكتب العشرة نویسنده : صهيب عبد الجبار جلد : 20 صفحه : 348)(مجلسان من أمالي الجوهري_2 نویسنده : الجوهري، أبو محمد جلد : 1 صفحه : 21 مطبوعہ مخطوط نُشر في برنامج جوامع الكلم المجاني التابع لموقع الشبكة الإسلامية)(الشريعة نویسنده : الآجري جلد : 5 صفحه 2531 مطبوعہ دار الوطن - الرياض / السعودية)(السنة نویسنده : ابن أبي عاصم جلد : 1 صفحه 477)(المقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي نویسنده : الهيثمي، نور الدين جلد : 3 صفحه : 178 مطبوعہ دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)(إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة نویسنده : البوصيري جلد : 7 صفحه : 205 مطبوعہ دار الوطن للنشر، الرياض)(التفسير المظهري نویسنده : المظهري، محمد ثناء الله جلد : 3 صفحه : 317 مطبوعہ مكتبة الرشدية الپاكستان)(الرياض النضرة في مناقب العشرة نویسنده : الطبري، محب الدين جلد : 3 صفحه : 194 مطبوعہ دار الكتب العلمية)(مختصر تلخيص الذهبي نویسنده : ابن الملقن جلد : 3 صفحه : 1351)
حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ نے اِرشاد فرمایا : میرے بارے میں دو قسْم کے لوگ ہلاک ہوں گے میری مَحَبّت میں اِفراط کرنے (یعنی حد سے بڑھنے) والے مجھے اُن صفات سے بڑھائیں گے جو مجھ میں نہیں ہیں اور بُغض رکھنے والوں کا بُغض اُنہیں اِس پر اُبھارے گا کہ مجھے بُہتان لگائیں گے ۔ (مُسندِ اِمام احمد بن حنبل جلد ۱ صفحہ ۳۳۶حدیث۱۳۷۶)
مولانا حسن رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ⬇
تَفْضِیل کا جَویا نہ ہو مولا کی وِلا میں
یوں چھوڑ کے گوہر کو نہ تُو بہرِ خَذَف جا
(ذوقِ نعت)
یعنی حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کی مَحَبَّت میں اِتنا نہ بڑھ کہ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کو شَیخَینِ کریمین رضی اللہ عنہما پر فضیلت دینے لگے ۔ ایسی بھول کر کے موتیوں جیسے صاف شَفّاف عقیدے کو چھوڑ کر ٹِھیکریوں جیسا رَدّی عقیدہ اِختیار نہ کر ۔
حکیم الامت حضرتِ مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ اِس حدیثِ مبارَکہ کے تحت فرماتے ہیں : مَحَبَّتِ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ اَصلِ اِیمان ہے ۔ ہاں مَحَبَّت میں ناجائز اِفراط (یعنی حد سے بڑھنا) بُرا ہے مگر عداوتِ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ اصْل ہی سے حرام بلکہ کبھی کُفر ہے ۔ (مراٰۃ المناجیح ج۸ص۴۲۴،چشتی)
حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : میرے بارے میں دو (قسم کے) شخص ہلاک ہو جائیں گے : (1) غالی (اور محبت میں ناجائز) افراط کرنے والا ، اور (2) بغض کرنے والا حجت باز ۔ (فضائل الصحابۃ للامام احمد 2/ 571 ح 964 واسنادہ حسن)
حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : ایک قوم (لوگوں کی جماعت) میرے ساتھ (اندھا دھند) محبت کرے گی حتیٰ کہ وہ میری (افراط والی) محبت کی وجہ سے (جہنم کی) آگ میں داخل ہوگی اور ایک قوم میرے ساتھ بغض رکھے گی حتیٰ کہ وہ میرے بغض کی وجہ سے (جہنم کی) آگ میں داخل ہوگی ۔ (فضائل الصحابۃ 2/ 565 ح 952 وإسنادہ صحیح، وکتاب السنۃ لابن ابی عاصم: 983 وسندہ صحیح)
معلوم ہوا کہ دو قسم کے گروہ ہلاک ہو جائیں گے : ⬇
1 ۔ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ سے اندھا دھند محبت کر کے آپ کو خدا سمجھنے اور انبیاۓ کرام علیہم السلام سے افضل سمجھنے والے یا دوسرے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو برا کہنے والے لوگ مثلاً غالی قسم کے روافض شیعہ و نیم رافضی تفضیلی وغیرہ ۔
2 ۔ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کو برا کہنے والے لوگ مثلاً خوارج و نواصب وغیرہ ۔
نہج البلاغۃ شیعہ کتاب جلد اول صفحہ 261 میں سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں : عنقریب میرے متعلق دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے ، ایک محبت کرنے والااور حد سے بڑھ جانے والا، جس کو محبت خلاف حق کی طرف لے جائے ۔ دوسرا بغض رکھنے والا حد سے کم کرنے والا جس کو بغض خلاف حق کی طرف لے جائےاور سب سے بہتر حال میرے متعلق درمیانی گروہ کا ہے جو نہ زیادہ محبت کرے ، نہ بغض رکھے ، پس اس درمیانی حالت کو اپنے لیے ضروری سمجھو اور سواد اعظم یعنی بڑی جماعت کے ساتھ رہو کیونکہ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور خبردار جماعت سے علیحدگی نہ اختیار کرنا کیونکہ جو انسان جماعت سے الگ ہو جاتا ہے وہ شیطان کے حصہ میں جاتا ہے ، جیسے کہ گلہ سے الگ ہونے والی بکری بھیڑیے کا حصہ بنتی ہے ۔ آگاہ ہو جاؤ جو شخص تم کو جماعت سے الگ ہونے کی تعلیم دے اس کو قتل کر دینا اگرچہ وہ میرے اس عمامہ کے نیچے ہو ۔
نہج البلاغۃ شیعہ کتاب جلددوم صفحہ 354 میں بھی ہے : میرے بارے میں دو شخص ہلاک ہوں گے ۔ ایک محبت کرنے والا حد سے بڑھ جانے والا اور دوسرا بہتان لگانے والا مفتری ۔
اسی نہج البلاغۃ میں یہ بھی ہے : میرے بارے میں دو شخص ہلاک ہو گئے ، ایک محبت کرنے والا جو محبت میں زیادتی کرے، دوسرا بغض رکھنے والا ، نفرت کرنے والا ۔
یا اللہ ہم مسلمانوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت سیدنا مولا علی کرم اللہ وجہہ کے فرمان کے مطابق ان دونوں گروہوں سے جو ہلاک ہونے والے ہیں بچا اور اُس گروہ میں سے ہونے کی توفیق عطا فرما جو تیرے نزدیک پسندیدہ ہے ۔ نیز اتباع و پیروی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توفیق اور نورِ ایمان عطا فرما آمین ۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی بر حق ہے ۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ امت کے دو گروہوں میں صلح کروائیں گے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر دی حق ہے ۔ اسی طرح دیگر صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کے متعلق خبریں بر حق ہیں ۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ہونے والی رنجش و اختلاف اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی کی خبر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی اس فرمان کے بعد اس پر کیچڑ اچھالنے والے ، توہین کرنے والے اور اعتراضات کرنے والے کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان اقدس کی توہین نہیں کر رہے ؟ اے اہل ایمان سوچیے اور فیصلہ کیجیے اللہ ہمیں اہلبیت اطہار اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ادب کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور بے ادبی سے بچائے آمین ۔
فضائل و مناقب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 5
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے یہ حدیث مبارکہ صحیح ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ پاک ہے : عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ کُهَيْلٍ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيْ سَرِيْحَةَ . . . أَوْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ، (شَکَّ شُعْبَةُ). . . عَنِ النَّبِيِّ، قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ . وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. (قَالَ : ) وَ قَدْ رَوَی شُعْبَةُ هَذَا الحديث عَنْ مَيْمُوْنٍ أبِيْ عَبْدِ اﷲِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ۔
ترجمہ : حضرت شعبہ رضی اللہ عنہ ، سلمہ بن کہیل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوطفیل سے سنا کہ ابوسریحہ ۔۔۔ یا زید بن ارقم رضی اللہ عنہما ۔۔۔ سے مروی ہے (شعبہ کو راوی کے متعلق شک ہے) کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں ، اُس کا علی مولا ہے ۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ شعبہ نے اس حدیث کو میمون ابو عبد اللہ سے ، اُنہوں نے زید بن ارقم سے اور اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب باب مناقب علي بن أبی طالب رضی الله عنه، 5 / 633، الحديث رقم : 3713، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 195، 204، الحديث رقم : 5071، 5096.وَ قَدْ رُوِيَ هَذَا الحديث عَنْ حُبْشِيّ بْنِ جُنَادَةْ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ. أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 134، الحديث رقم : 4652، والطبرانی فی المعجم الکبير، 12 / 78، الحديث رقم : 12593، ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1359، وحسام الدين الهندی فی کنزالعمال، 11 / 608، رقم : 32946، وابن عساکرفی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 77، 144، و خطيب البغدادی فی تاريخ بغداد، 12 / 343، و ابن کثير فی البدايه و النهايه، 5 / 451،،چشتی، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 108.وَ قَد رُوِيَ هَذَا الحديث أيضا عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ.أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1355، وابن ابی شيبه فی المصنف، 6 / 366، الحديث رقم : 32072 ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَ الحديث عَنْ ايُوْبٍ الْأَنْصَارِيِّ فِي الْکُتْبِ الآتِيَةِ.أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1354، والطبرانی فی المعجم الکبير، 4 / 173، الحديث رقم : 4052، والطبرانی فی المعجم الاوسط، 1 / 229، الحديث رقم : 348.وَقَدَرُوِيِّ هَذَالحديث عَنْ بُرَيْدَةَ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ.أخرجه عبدالرزاق فی المصنف، 11 / 225، الحديث رقم : 20388، و الطبرانی فی المعجم الصغير، 1 : 71، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 143، وابن ابی عاصم فی السنه : 601، الحديث رقم : 1353، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 146، وابن کثيرفی البدايه و النهايه، 5 / 457، وحسام الدين هندی فی کنز العمال، 11 / 602، رقم : 32904.وَقَدْ رُوِيَ هَذَالحديث عَنْ مَالِکِ بْنِ حُوَيْرَثٍ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ. أخرجه الطبرانی فی المعجم الکبير، 19 / 252، الحديث رقم : 646، و ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 177، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 106)(أحمد بن حنبل، المسند، 5: 347، رقم:22995، مصر: مؤسسة قرطبة)(نسائي، السنن الکبری، کتاب الخصائص، باب قول النبي من کنت ولیه فعلي ولیه، 5: 130، رقم: 8467، بیروت: دار الکتب العلمیة،چشتی)(حاکم، المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفة الصحابة، ومن مناقب أمیر المؤمنین علي بن أبی طالب رضی الله عنه، 3: 119، رقم: 4578، بیروت: دار الکتب العلمیة)
اس حدیث مبارکہ کو اٹھانوے (98) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے روایت کیا ہے اور اس کے ایک سو ترپن (153) طرق ہیں ۔
علامہ ابن کثیر اپنی تصنیف السیرۃ النبویۃ میں اس کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں : ذی الحجہ کا مہینہ تھا اس ماہ کی اٹھارہ تاریخ تھی ، اتوار کا دن تھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس موقع پر ایک عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا جس میں سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کے فضل و کمال ، امانت و دیانت ، عدل و انصاف کے بارے میں اپنی زبان حقیقت بیان سے شہادت دی اس شہادت کے بعد اگر کسی غلط فہمی کے باعث کسی کے دل میں سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں کوئی وسوسہ تھا تو وہ ہمیشہ کےلیے محو ہو گیا ـ حضرت بریدہ بن حصیب کہتے ہیں میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جن کے دلوں میں سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کی ذات والا صفات کے بارے میں طر ح طرح کی غلط فہمیاں پیدا ہو گئی تھیں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس ارشاد پاک کو سن کر میرے دل میں سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کی اتنی محبت پیدا ہو گئی کہ آپ میرے سب سے زیادہ محبوب بن گئے ـ (ابن کثیر السیرۃ النبویۃ جلد 4 صفحہ 333)
اس حدیث کو بیان کرنے والے مشہور صحابۂ کرام و تابعین عظام رضی اللہ عنہم اجمعین : ⏬
1 ابو اِسحاق
2 اَصبغ بن نباتہ رضی اللہ عنہ
3 ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ
4 ابو بردہ رضی اللہ عنہ
5 بریدہ رضی اللہ عنہ
6 ابو بریدہ رضی اللہ عنہ
7 انس بن مالک رضی اللہ عنہ
8 براء بن عازب رضی اللہ عنہ
9 ثابت بن ودیعہ انصاری رضی اللہ عنہ
10 جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما
11 جریر رضی اللہ عنہ
12 ابو جعفر رضی اللہ عنہ
13 ابو جنیدہ جندع بن عمرو بن مازن رضی اللہ عنہ
14 حُبشیٰ بن جنادہ رضی اللہ عنہ
15 حبیب بن بدیل رضی اللہ عنہ
16 حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ
17 حسن بن حارث رضی اللہ عنہ
18 حسن بن حسن رضی اللہ عنہ
19 خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ
20 رفاعہ بن ایاس ضبی رضی اللہ عنہ
21 ریاح بن حارث رضی اللہ عنہ
22 ریاح بن حرث رضی اللہ عنہ
23 زاذان ابو عمر رضی اللہ عنہ
24 زاذان بن عمر رضی اللہ عنہما
25 زر بن حبیش
26 زیاد بن ابی زیاد
27 زیاد بن حارث
28 زید بن ارقم رضی اللہ عنہ
29 زید بن شراحیل
30 زید بن یثیع رضی اللہ عنہ
31 ابو زینب رضی اللہ عنہ
32 سالم رضی اللہ عنہ
33 ابو سریحہ رضی اللہ عنہ
34 سعد رضی اللہ عنہ
35 سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
36 سعد بن عبیدہ رضی اللہ عنہ
37 سعید بن وہب رضی اللہ عنہ
38 ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ
39 سفیان بن عیینہ رضی اللہ عنہ
40 سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ
41 ابو طفیل رضی اللہ عنہ
42 طلحہ رضی اللہ عنہ
43 طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہما
44 عامر بن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنھم
45 عبد الاعلی بن عدی اللہ
46 عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ
47 عبد الرحمن بن سابط رضی اللہ عنہ
48 عبد الرحمن بن عبد الرب انصاری رضی اللہ عنہ
49 عبد اللہ بن بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ
50 عبد اللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ
51 عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما
52 عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما
53 عبد اللہ بن محمد بن عاقل
54 عبد اللہ بن یامیل رضی اللہ عنہ
55 عبید بن عازب انصاری رضی اللہ عنہ
56 عطیہ عوفی رضی اللہ عنہ
57 علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ
58 علی بن حسین رضی اللہ عنہما
59 عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ
60 عمران بن حصین رضی اللہ عنہ
61 عمر فاروق بن الخطاب رضی اللہ عنہ
62 عَمرو ذی مر رضی اللہ عنہ
63 عَمرو بن ذی مر رضی اللہ عنہ
64 عَمرو بن العاص رضی اللہ عنہ
65 عَمرو بن میمون رضی اللہ عنہ
66 ابو عَمرہ بن محصن رضی اللہ عنہ
67 عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ
68 عمیر بن سعید
69 عمیرہ بن سعد رضی اللہ عنہ
70 سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا
71 ابو فضالہ انصاری رضی اللہ عنہ
72 قیس بن ثابت
73 مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ
74 محمد بن حنفیہ
75 محمد بن علی
76 میمون ابو عبد اللہ رضی اللہ عنہ
77 ناجیہ بن عمرو
78 نعمان بن عجلان رضی اللہ عنہ
79 ابو نعیم
80 ابن واثلہ رضی اللہ عنہ
81 ہشام بن عتبہ
82 ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
83 ابو یزید اودی
84 یزید بن عمر بن مورق رضی اللہ عنہ
قرآن مجید کی آیات کے بعد احادیث کا درجہ ہے اور احادیث میں سب سے زیادہ مستند حدیث متواتر حدیث کہلاتی ہے اور متواتر نص قرآنی کی مانند ہے اس سے احکام ثابت ہوتے ہیں ـ مذکورہ حدیث پاک حدیثِ متواتر کے زمرے میں آتی ہے ـ
حدیث متواتر کی تعریف
حدیث متواتر کی تعریف میں علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : متواتر وہ حدیث ہوتی ہے جس کے روای اس کثرت کے ساتھ ہوں کہ ان کا جھوٹ پر متفق ہونا محال ہے اور یہ کثرت ابتداء سے لے کر انتہاء تک برابر رہے اور برابری کا مطلب یہ ہے کہ روایوں کی تعداد کم نہ ہو یہ مطلب نہیں کہ زیادہ نہ ہو جبکہ زیادتی اس باب میں اولی اور بہتر ہے ـ تو یہ حدیث بھی متواتر کے زمرے میں آتی ہے کیونکہ اس کے طرق بے تحاشا ہیں ـ (ابن عقدہ نے ’کتاب الموالاۃ‘ میں حدیث غدیر کے 101 رُواۃ کا ذکر کیا ہے)
عن شعبة، عن سلمة بن کهيل، قال : سمعتُ أبا الطفيل يحدّث عن أبي سريحة. . . أو زيد بن أرقم ، (شک شعبة). . . عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم، قال : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه ۔
(قال : ) و قد روي شعبة هذا الحديث عن ميمون أبي عبد اللہ عن زيد بن أرقم عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم ۔
شعبہ ، سلمہ بن کہیل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوطفیل سے سنا کہ ابوسریحہ۔ ۔ ۔ یا زید بن ارقم رضی اللہ عنہما۔ ۔ ۔ سے مروی ہے (شعبہ کو راوی کے متعلق شک ہے) کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے ۔ شعبہ نے اس حدیث کو میمون ابو عبد اللہ سے ، اُنہوں نے زید بن ارقم سے اور اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔ (ترمذی، الجامع الصحيح، 6 : 79، ابواب المناقب، رقم : 3713)(احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 569، رقم : 959)(محاملي، امالي : 85)(ابن ابي عاصم، السنه : 603، 604، رقم : 1361، 1363، 1364، 1367، 1370،چشتی)(طبراني، المعجم الکبير، 5 : 195، 204، رقم : 5071، 5096)(نووي، تهذيب الاسماء و اللغات، 1 : 347)(ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 163، 164)(ابن اثير، اسد الغابه، 6 : 132)(ابن اثير، النهايه في غريب الحديث والاثر، 5 : 228)(ابن کثير، البدايه و النهايه، 5 : 463)(ابن حجر عسقلاني، تعجيل المنفعه : 464، رقم : 1222) ۔ ترمذی نے اسے حسن صحیح غریب کہا ہے، اور شعبہ نے یہ حدیث میمون ابوعبد اللہ کے طریق سے زید بن ارقم سے بھی روایت کی ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ حدیث اِن کتب میں مروی ہے (حاکم، المستدرک، 3 : 134، رقم : 4652)(طبراني، المعجم الکبير، 12 : 78، رقم : 12593)(خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 12 : 343)(ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 77، 144)(ابن کثير، البدايه و النهايه، 5 : 451)(هيثمی، مجمع الزوائد، 9 : 108)
یہ حدیث حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مندرجہ ذیل کتب میں مروی ہے :ن (ابن ابي عاصم، السنه : 602، رقم : 1355)(ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 366، رقم : 32072)
یہ حدیث حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے بھی درج ذیل کتب میں منقول ہے : (ابن ابی عاصم، السنه : 602، رقم : 1354)(طبراني، المعجم الکبير، 4 : 173، رقم : 4052)(طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 229، رقم : 348)
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مندرجہ ذیل کتب میں روایت کی گئی ہے : (نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 88، رقم : 80) (ابن ابي عاصم، السنه : 602، 605، رقم : 1358، 1375)(ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، 3 : 139، رقم : 937)(ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 20 : 114)
یہ حدیث حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مندرجہ ذیل کتب میں روایت کی گئی ہے : (عبدالرزاق، المصنف، 11 : 225، رقم : 20388)(طبراني، المعجم الصغير، 1 : 71)(ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 143)(ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 143) میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث ذرا مختلف الفاظ کے ساتھ بھی روایت کی ہے ۔
یہ حدیث ابن بریدہ رضی اللہ عنہ سے مندرجہ ذیل کتب میں منقول ہے : (ابن ابي عاصم، السنه : 601، رقم : 1353)(ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 146)(ابن کثير، البدايه و النهايه، 5 : 457)(حسام الدين هندي، کنز العمال، 11 : 602، رقم : 32904)
یہ حدیث حُبشیٰ بن جنادہ رضی اللہ عنہ سے اِن کتب میں مروی ہے : (ابن ابی عاصم، السنه : 602، رقم : 1359)(حسام الدبن هندی، کنزالعمال، 11 : 608، رقم : 32946)
یہ حدیث حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے اِن کتب میں مروی ہے : (طبرانی، المعجم الکبير، 19 : 252، رقم : 646،چشتی)(ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 177)(هيثمی، مجمع الزوائد، 9 : 106)
طبرانی نے یہ حدیث ’المعجم الکبیر (3 : 179، رقم : 3049)‘ میں حذیفہ بن اُسید غفاری رضی اللہ عنہ سے بھی نقل کی ہے ۔
ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 176، 177، 178)‘ میں یہ حدیث حضرت ابوہریرہ ، حضرت عمر بن خطاب ، حضرت انس بن مالک اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھم سے بالترتیب روایت کی ہے ۔
ابن عساکر نے یہ حدیث حسن بن حسن رضی اللہ عنہما سے بھی ’تاریخ دمشق الکبیر (15 : 60، 61)‘ میں روایت کی ہے ۔
ابن اثیر نے ’اسد الغابہ (3 : 412)‘ میں عبداللہ بن یامیل سے یہ روایت نقل کی ہے ۔
ہیثمی نے ’موارد الظمآن (ص : 544، رقم : 2204)‘ میں ابوبردہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث بیان کی ہے ۔
ابن حجر عسقلانی نے ’فتح الباری (7 : 74)‘ میں کہا ہے : ’’ترمذی اور نسائی نے یہ حدیث روایت کی ہے اور اس کی اسانید کثیر ہیں۔‘‘
البانی نے ’سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ (4 : 331، رقم : 1750)‘ میں اس حدیث کوامام بخاری اور امام مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے ۔
عن عمران بن حصين رضي الله عنه، قال، قال رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلم : ما تريدون مِن علي؟ ما تريدون مِن علي؟ ما تريدون مِن علي؟ إنّ علياً مِني و أنا منه، و هو ولي کل مؤمن من بعدي ۔
ترجمہ : عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم لوگ علی کے متعلق کیا چاہتے ہو ؟ تم لوگ علی کے متعلق کیا چاہتے ہو ؟ تم لوگ علی کے متعلق کیا چاہتے ہو ؟ پھر فرمایا : بیشک علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مؤمن کا ولی ہے ۔ (ترمذي، الجامع الصحيح، 6 : 78، ابواب المناقب، رقم : 3712،چشتی)(نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 77، 92، رقم : 65، 86)(نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 132، رقم : 8484)
احمد بن حنبل کی ’المسند (4 : 437، 438)‘ میں بیان کردہ روایت کے آخری الفاظ یہ ہیں : و قد تغیر وجہہ، فقال : دعوا علیا، دعوا علیا، ان علی منی و انا منہ، وھو ولی کل مؤمن بعدی (اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ مبارک متغیر ہو گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی (کی مخالفت کرنا) چھوڑ دو ، علی (کی مخالفت کرنا) چھوڑ دو ، بیشک علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مومن کا ولی ہے)
ابن کثیر نے امام احمد کی روایت ’البدایہ والنہایہ (5 : 458)‘ میں نقل کی ہے ۔
احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 620، رقم : 1060 ۔
ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 80، رقم : 1217 ۔
حاکم نے ’المستدرک (3 : 110، 111، رقم : 4579 ۔ میں اس روایت کو مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے، جبکہ ذہبی نے اس پر خاموشی اختیار کی ہے ۔
ابن حبان نے ’الصحیح (15 : 373، 374، رقم : 6929)‘ میں یہ حدیث قوی سند سے روایت کی ہے ۔
ابو یعلی نے ’المسند (1 : 293، رقم : 355)‘ میں اسے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے رجال صحیح ہیں، جبکہ ابن حبان نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
طیالسی کی ’المسند (صفحہ 111، رقم : 829)‘ میں بیان کردہ روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ما لھم و لعلیّ اُنہیں علی کے بارے میں اِتنی تشویش کیوں ہے ؟ ۔ (ابو نعيم، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 6 : 29)(محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 129،چشتی)(هيثمي، موارد الظمآن، 543، رقم : 2203)(حسام الدين هندي، کنزالعمال، 13 : 142، رقم : 36444)(نسائی کی بیان کردہ دونوں روایات کی اسناد صحیح ہیں)
عن سعد بن أبي وقاص، قال : سمعتُ رسولَ اللہ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه، و سمعتُه يقول : أنت مني بمنزلة هارون من موسي، إلا أنه لا نبي بعدي، و سمعتُه يقول : لأعطينّ الرأية اليوم رجلا يحب اللہ و رسوله ۔
ترجمہ : حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جس کا میں ولی ہوں اُس کا علی ولی ہے ۔ اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (حضرت علی رضی اللہ عنہ کو) یہ فرماتے ہوئے سنا : تم میری جگہ پر اسی طرح ہو جیسے ہارون ، موسیٰ کی جگہ پر تھے ، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (غزوۂ خیبر کے موقع پر) یہ بھی فرماتے ہوئے سنا : میں آج اس شخص کو علم عطا کروں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے ۔ (ابن ماجہ نے يہ صحيح حديث ’السنن (1 : 90، المقدمہ، رقم : 121)‘ ميں روايت کي ہے ۔)(نسائي نے يہ حديث ’خصائص اميرالمؤمنين علي بن ابي طالب رضی اللہ عنہ (صفحہ : 32، 33، رقم : 91)‘ میں ذرا مختلف الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے)(ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 608، رقم : 1386،چشتی)(مزي، تحفة الاشراف بمعرفة الأطراف، 3 : 302، رقم : 3901)
حدیث مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ کا صحیح معنیٰ و مفہوم : ⏬
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ ۔ (سورہ تحريم 66 : 4)
ترجمہ : سو بے شک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے ، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مددگار ہیں ۔
مفسّرِین کے نزدیک ’’مولیٰ ‘‘ کے معنیٰ
وہ تفاسیر جن میں مولا کے معنیٰ مددگار لکھے ہیں : اِس آیتِ مبارکہ میں وارِد لفظ’’ مولیٰ ‘‘کے معنیٰ وَلی اور ناصِر ( یعنی مدد گار) لکھے ہیں ۔ (1) تفسیرطَبَری جلد 12صفحہ154 ۔ (2) تفسیرقُرطُبی جلد 18 صفحہ 143 ۔ (3) تفسیرِکبیرجلد 10صفحہ570 ۔ (4) تفسیرِبَغْوی جلد 4صفحہ337 ۔ (5) تفسیرِ خازِن جلد 4صفحہ286 (6) تفسیرِ نَسفی صفحہ1257 ۔
اُن چار کتابوں کے نام بھی حاضِر ہیں جن میں آیتِ مبارَکہ کے لفظ ’’مولیٰ‘‘ کے معنیٰ ’’ناصر‘‘(یعنی مددگار) کئے گئے ہیں : (1) تفسیرِجلالین صفحہ465 ۔ (2) تفسیرِ رُوحُ الْمَعانی جلد 28 صفحہ481 ۔ (3) تفسیرِبیضاوی جلد 5صفحہ 356 ۔ (4) تفسیرابی سُعُود جلد 5 صفحہ 738 ۔
النھایہ میں لفظ مولا کے مختلف معانی بیان کیے گئے ہیں ۔ (1) رب (پرورش کرنیوالا (2) مالک ۔ سردار(3) انعام کرنیوالا (4) آزاد کرنیوالا (5) مدد گار (6) محبت کرنیوالا (7)تابع (پیروی کرنے والا) (8)پڑوسی (9) ابن العم (چچا زاد) (10) حلیف (دوستی کا معاہدہ کرنیوالا ) (11) عقید (معاہدہ کرنے والا ) (12) صھر (داماد، سسر ) (13)غلام (14) آزاد شدہ غلام (15) جس پر انعام ہوا (16) جو کسی چیز کا مختار ہو ۔ کسی کام کا ذمہ دار ہو ۔ اسے مولا اور ولی کہا جاتا ہے ۔ (17) جس کے ہاتھ پر کوئی اسلام قبول کرے وہ اس کا مولا ہے یعنی اس کا وارث ہوگا وغیرہ ۔ (ابن اثير، النهايه، 5 : 228)
حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے الفاظ ’’جس کا میں مولیٰ ہوں علی بھی اُس کے مولیٰ ہیں ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں : مولیٰ کے بَہُت (سے) معنٰی ہیں : دوست ، مددگار ، آزاد شُدہ غلام ، (غلام کو) آزاد کرنے والا مولیٰ ۔ اِس (حدیثِ پاک میں مولیٰ) کے معنٰی خلیفہ یا بادشاہ نہیں یہاں (مولیٰ) بمعنی دوست (اور) محبوب ہے یا بمعنی مددگار اور واقِعی حضرتِ سیِّدُنا علیُّ الْمُرتَضٰی رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے دوست بھی ہیں ، مددگار بھی ، اِس لیے آپ رضی اللہ عنہ کو ’’مولیٰ علی‘‘ کہتے ہیں ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد ۸ صفحہ ۴۲۵)
مولىٰ کا صحیح مطلب
علم اللغة والنحو والأدب والانساب کے امام محمد بن زیاد ابن الاعرابی ابو عبدالله الہاشمی رح (١٥٠-٢٣١ ہجری) فرماتے ہیں : چچازاد ، آزاد کرنے والے ، آزاد ہونے والے ، کاروباری ساجھی ، معاہدہ کرنے والے ، محبت کرنے والے ، با اثر اور دوست سب کو (مولىٰ) کہتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : (من كنت مولاه فعلي مولاه) ۔ ترجمہ : جس کا میں دوست ہوں اس کا علی رضی اللہ عنہ بھی دوست ہے ۔ یعنی جو مجھ سے محبت رکھتا ہے، وہ حضرت علیؓ سے بھی محبت رکھے ، ثعلب کہتے ہیں : رافضیوں (شیعہ) کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ پوری مخلوق کے مولا یعنی مالک ہیں ، اس معاملہ میں رافضی لوگ کفر کے مرتکب ہوۓ ہیں، یہ بات تو عقلی اعتبار سے بھی غلط ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خرید و فروخت کرتے تھے ، جب تمام چیزیں ان کی ملکیت تھیں تو خرید و فروخت کیسی ؟ مذکورہ حدیث میں لفظ مولا ، محبت اور دوستی کے باب سے ہیں ۔ (تاریخ دمشق، لامام ابن عساکر جلد ٤٢ صفحہ ٢٣٨، وسندہ صحیح،چشتی)
یمن میں قیام کے دوران حضرت علی رضی اللہ عنہ کو متعدد واقعات پیش آئے تھے ۔ علماء سیرت نے اس میں متعدد روایات ذکر کی ہیں ان میں سے ایک بطور خلاصہ ذکر کی جاتی ہے ۔
سیرت کی روایات میں ہے کہ یمن کے علاقہ سے مال غنیمت میں کچھ لونڈیاں آئیں ۔ ان اموال غنائم سے بطور خمس حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک خادمہ حاصل کی اس پر دیگر ساتھیوں کو کچھ اعتراض ہوا ۔ گو موقعہ پر کوئی خاص کشیسگی نہیں ہوئی ۔ پھر جب یہ حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حج سے واپسی پر مدینہ منورہ کے راستہ میں حضرت بریدہ بن خصیب اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں یہ اعتراض پیش کیا ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غدیر خم میں پہنچے تو اس مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ دیر آرام فرمایا ۔ اس دوران بعض صحابہ کی طرف سے وہ شکایات پیش کی گئیں جو سفرِ یمن میں حضرت علی رضی اللہ عنہم کے متعلق پیش آئی تھیں ۔ غدیر خم کے مقام پر ١٨ ذوالحجہ ١٠ھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا ۔ اس خطبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن ضروری امور کو ذکر فرمایا تھا ان میں سے ایک چیز رفع شبہات کے درجہ میں تھی ۔
وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق تھی جو اعتراضات سفرِ یمن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہم سفر احباب کو ان کے خلاف پیدا ہوئے تھے ان کی مدافعت کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان فرمائی ۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امانت و دیانت کا واضح طور پر ذکر فرمایا ان کلمات میں ایک کلمہ سب سے زیادہ مشہور ہے ۔
من کنت مولاہ فعلی مولاہ
ان کلمات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اعتراضات کا ازالہ مقصؤد تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور ان کے حسن کردار کا بیان کرنا پیش نظر تھا ۔ یہ ایک وقتی مسئلہ تھا اس فرمانِ نبوت کے ذریعہ حسن اسلوبی کے ساتھ اختتام پزیر ہو گیا ۔ مقام غدیرِ خُم میں کوئی جنگ وغیرہ نہیں ہوئی ۔
رافضیوں کے عقیدے کا رد
غدیر خم کے واقعہ کو بعض لوگوں نے بڑی اہمیت دی ہے اور اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل ثابت کرنے کےلیے نا کام کوشش کی ہے یہ لوگ اس واقعہ کومسئلہ خلافت کےلیے انتہائی درجہ کی قوی دلیل قرار دیتے ہیں یہاں پر چند اشیاء غور طلب ہیں ۔ ان پر توجہ فرمانے سے یہ واضح ہو جائے گا کہ یہ دلیل مسئلہ خلافت ہر گز ثابت نہیں کرتی ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے متعلق شکایات کا ازالہ جن الفاظ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ان میں یہ جملہ مزکور ہے کہ : من کنت مولا ہ فعلی مولاہ ، یعنی جس شخص کےلیے میں محبوب اور دوست ہوں پس علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ اس کے محبوب اور دوست ہیں ۔ یہاں پر مسئلہ خلافت و نیابت کا ذکر تک نہیں ہے ۔ اور نہ کسی جماعت کی طرف سے آپ کے سامنے خلافت کے مضمون کو زیر بحث لایا گیا ۔ اور نہ ہی کسی شخص نے اس کے متعلق کوئی سوال کیا جس کے جواب میں آپ نے یہ آپ نے یہ کلام فرمایا ہو ۔ پھر اس روایت کے اگلے الفاظ بھی غور طلب ہیں ان میں موالات اور معادات کو ایک دوسرے کے بالمقابل ذکر کیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں مولٰی کے لفظ میں ولایت بمقابلہ عداوت ہے بمعنی خلافت نہیں ۔ روایت کے وہ الفاظ یہ ہیں : اللھم وال من ولاہ وعاد من عاداہ ۔ اللہ ! اسے دوست رکھ جو علی رضی اللہ تعالی عنہ سے دوستی رکھے اور اس سے عداوت رکھ جو علی رضی اللہ تعالی عنہ سے عداوت رکھے ۔
شیعہ اور تفضیلی حضرات کے نزدیک روایت ھٰذا (من کنت مولاہ فعلی مولاہ) حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا فصل کےلیے نہایت اہم حجت اورقوی تر دلیل ہے ۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ رویت ھٰذا میں مولا کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے ، (یعنی جس کا مولا میں ہوں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی اس کے مولا ہیں ) اور مولا کے معنی خلیفہ اور حاکم کے ہیں۔ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام امت کے مولا ہیں فلہزا اس فرمان کی بنا پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی تمام امت کے مولا ہیں اور یہ روایت مسلم بین الفریقین ہے ۔ اور متوارات میں اس کو شمار کیا جاتا ہے لہٰذا اس پر عقیدے کی بنیاد ہو سکتی ہے ۔ نیز اس نوع کی روایت کسی دوسرے صحابی کے حق میں وارد نہیں ہوئی ۔ فلہٰذا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا فصل کے لئے یہ نص صریح ہے اور آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد تمام امت کےلیے خلیفہ اور حاکم ہیں ۔
روایت ھٰذا کے متعلق فریق مقابل کا یہ دعوٰی کہ یہ روایت بین الفریقین متواتر روایات میں سے ہے قابلِ غور ہے ۔ یہ دعوٰی علی الالطلاق صحیح نہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ بعض اکابر محدثین نے اس روایت پر کلام کیا ہے ۔ اس وجہ سے اس روایت کو متواترات میں سے شمار کرنا صحیح نہیں ۔ یہ روایت اخبار آحاد میں سے ہے ۔ تاہم بعض علماء اس روایت کی صحت کے قائل ہیں اور روایت کو اپنے مفہوم کے اعتبار سے قبول کرتے ہیں ۔ بحر حال ہم بھی اس روایت کو تسلیم کرتے ہیں ۔ لیکن اس کے بعد روایت ھٰذا کے معنیٰ و مفہوم میں کلام جاری ہے اس پر توجہ فرمائیں ۔
یہ الفاظ کسی دوسرے صحابی کےلیے استعمال نہیں ہوئے یہ درست نہیں ہے ۔ اس لیے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد شدہ غلام صحابی رسول حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا : قال لزید انت اخونا و مولانا ۔ آپ ہمارے بھائی ہیں اور ہمارے مولٰے ہیں ۔ (مشکوۃ شریف صفحہ نمبر ۲۹۳ بحوالہ بخاری ومسلم باب بلوغ صغیرالفصل الاول)
روایت ھٰذا میں لفظ مولا وارد ہے
مولا کے معنیٰ کتاب وسنت اور لغتِ عرب میں متعدد پائے جاتے ہیں : ⏬
النہایہ لابن اثیرالجزری ۔ (جو لغت حدیث میں مشہور تصنیف ہے) میں مولا کہ سولہ عدد معانی ذکر کیے ہیں لیکن ان میں خلیفہ بلا فصل اور حاکم والا معنی کہیں نہیں ملتا یکسر مفقود ہے۔ یعنی لغت حدیث والوں نے مولا کا یہ معنی کہیں نہیں بیان کیا ۔ باقی معانی انہوں نے لکھے ہیں ۔ (النہایہ فی غریب الحدیث جلد ۴ صفحہ ۲۳۱،چشتی)
اسی طرح ؛ المنجد ؛ میں مولا کے اکیس معنی ذکر کیے گے ہیں وہاں بھی مولا کا معنی خلیفہ یا حاکم نہیں پایا گیا ۔ یہ تو کسی مسلمان کی تالیف نہیں ایک عسائی کی علمی کاوش ہے ۔ سو یہ بات پختہ ہے کہ اس روایت میں مولا کا لفظ خلیفہ اور حاکم کے معنی میں ہر گز وارد نہیں ۔ اس طرح کتاب اللہ اور دیگر احادیث صحیحہ میں مولا کا لفظ خلیفہ یا حاکم کے معنی میں کہیں مستعمل نہیں دیگر معانی میں وارد ہے ۔
اہلِ علم کےلیے یہ لمحہ فکریہ ہے خلافت بلا فصل ثابت کرنے کےلیے نصِ صریح درکار ہے ۔ لفظ ؛ مولا ؛ جیسے مجمل الفاظ جو متعدد معانی کے حامل ہوں اور مشترک طور پر مستعمل ہوتے ہیں سے یہ مدٰعی ہر گز ثابت نہیں ہو سکتا ۔
مختصر یہ کہ خلافت بلا فصل کا دعوٰی خاص ہے اور اس کے اثبات کےلیے جو دلیل پیش کی گئی ہے ۔ اس میں لفظ مولا اگر بمعنی حاکم ہو تو بھی یہ لفظ عام ہے دلیل عام مدعٰی خاص کو ثابت نہیں کرتی ۔ اگر بالفرض تسلیم کر بھی لیا جائے کہ خلافت بلا فصل کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے موقعہ پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں ارشاد فرمایا تھا اور جناب علی رضی اللہ تعالی عنہ بلا فصل خلیفہ نامزد تھے تو درج ذیل چیزوں پر غور فرمائیں اصل مسئلہ کی حقیقت واضح ہو جائے گی ۔
(1) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک سے کچھ قبل حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو ارشاد فرمایا کہ میں گمان کرتا ہوں کہ شاید نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو جائے اس بنا پر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر مسئلہ خلافت و امارت کے متعلق عرض کریں ۔ اگر یہ امارت ہم میں ہو گی تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے اور اگر امارت وخلافت ہمارے سوا دوسروں میں ہو گی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے متعلق لوگوں کو وصیت فرمادیں گے ۔ اس کے جواب میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اگر ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مسئلہ خلافت و امارت کے متعلق سوال کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اس سے منع فرما دیا تونبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگ کبھی ہمیں خلافت کا موقع نہیں دیں گے ، اللہ کی قسم ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میں اس بات کا ہرگز سوال نہیں کروں گا ۔ چناچہ حافظ ابن کثیر نے بحوالہ بخاری شریف ذکر کیا ہے : فقال علی انا واللہ لئن سئالنا ھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فمنعنا ھا لا یعطینا ھاالناس بعدہ وانی واللہ لا اسالہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ (البدائیہ لابن کثیر جلد ۵ صفحہ ۲۲ تحت حالات مرض نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بحوالہ بخاری شریف،چشتی)
اس واقعہ نے واضح کر دیا ہے کہ خم غدیر کے موقعہ پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں کوئی فیصلہ خلافت نہیں ہوا تھا ، ورنہ طے شدہ امر کے لئے اولا تو حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ گفتگو ہی نہ فرماتے۔ ثانیا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ارشاد فرماتے کہ اس مسئلہ کا میرے حق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غدیر خم میں فیصلہ فرما چکے ہیں ۔ لہٰذا اس سوال کی کوئی حاجت نہیں ہے ۔
(2) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے خلیفہ منتخب ہونے کے موقعہ پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے حق میں اس نص صریح کو کیوں پیش نہیں فرمایا ؟
(3) تمام مہاجرین وانصار صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم جو غدیرِ خم کے موقعہ پر اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو براہ راست سننے والے تھے انہوں نے اس نص صریح کو یکسر کیسے فراموش کر دیا ؟ اگر کوئی صاحب یہ کہنے کی جرائت کریں کہ ان حضرات کو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے نص صریح معلوم تھی مگر انہوں نے فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعض دیگر مصالح کی بنا پر پس پشت ڈال دیا اور اس سے اعراض کرتے ہوئے اس پر عمل درٓمد نہیں کیا ۔ تو یہ کہنا حقیقت کے بر خلاف ہے ۔ نہ شریعت کا مزاج اسے تسلیم کرتا ہے ۔ نہ عقل اسے ممکن مانتی ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ فرمان نبوت کی اطاعت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےلیے ایک اہم ترین مقصد حیات تھی ۔ لہٰذا یہ تمام حضرات نبوت کے خلاف کیسے مجتمع ہو سکتے تھے لا تجتمع امتی علی الضلال ۔
(4) اس طرح دور صدیقی کے اختمام پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اکابر صحابہ کی اور اکابر بنی ہاشم کی موجودگی میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ منتخب فرمایا ، اس وقت حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں خلافت کے متعلق کسی نے یہ نص صریح پیش نہیں کی۔ حالانکہ یہ اثبات خلافت علوی کےلیے ایک اہم موقعہ تھا ۔
(5) اسی طرح حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ اپنی شہادت کے موقعہ پر خلیفہ کے انتخاب کےلیے ایک کیٹی مقرر کی تھی ۔ جس طرح کہ اہل سیرت و تاریخ کو معلوم ہے پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے وصال کے بعد ان حضرات کا باہمی مشوہ ہوا اور انتخاب کا مکمل اختیار حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کو دیا تھا ، پھر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدنا حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ منتخب فرمایا۔ تو اس موقعہ پر کسی ہا شمی ! غیر ہاشمی غدیرِ خم والی نصِ صریح کو پیش نہیں کیا ۔
(6) حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد جب لوگ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کرنے کےلیے حاضر ہوئے تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے بیعت لینے سے نکار کر دیا ۔ اور بنی عمرو بن مبدول کے باغ میں جا کر الگ بیٹھ گئے اور دروازہ بند کر لیا۔ جیسا کہ حافظ ابن کثیر نے البدایہ میں ذکر کیا ہے کہ : وقد امتنع علی رضی اللہ عنہ من احابتہم الی قبول الامارۃ حتی تکرر قولہم لہ وفرمنہم الی حائط بنی عمر بن مبدول واغلق بابہ َ ۔ (البدایہ جلد ۷ صفحہ ۲۲۵ ۔ قبل ذکر بیعت علی بالخلافۃ)
اور شیعہ علماء نے اس سلسلہ میں خود حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا کلام نہج البلاغہ میں ذکر کیا ہے کہ جب لوگ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ : دعونی والتمسوا غیری ۔ ۔ ۔ وان ترکتمونی فانا کاحدکم ولعلی اسمعکم واطوعکم لمن ولیتموہامرکم وانالکم وزیرا خیرلکم منی امیرا ۔ ترجمہ : (بیعت کے معاملہ میں ) مجھے تم چھوڑ دو اور میرے سوا کسی اور کو تلاش کر لو ۔۔۔۔ اور اگر مجھے تم چھوڑ دو گئے تو میں تم میں سے ایک فرد ہونگا ۔ اور جس شخص کو تم اپنے امر کا والی بناو گئے امید ہے کہ میں اس کا تم سب سے زیادہ تابعدار اور زیدہ مطیع ہوں گا اور میرا تمہارے لیے وزیر رہنا امیر بننے سے زیادہ بہتر ہے ۔ (نہج الباغۃ للسیدالشریف ارضی ص۱۸۱۔ طبع مصر ۔ تحت ومن خطبۃ لہ علیہ السلام لما ارید علی البیت بعد قتل عثمان،چشتی)
مندرجات بالا کی روشنی میں واضح ہو کہ سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اولا انکار فرمایا ۔ اگرچہ بعد میں دیگر اکابر صحابہ کرام عیہم الرضوان کے اصرار پر بیعت لینا منظور فرما لیا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ غدیرِ خم یا کسی دیگر مقام میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا فصل کےلیے کوئی نص صریح موجود نہیں ورنہ آپ انالکم وزیرا خیرلکم منی امیرا جیسا کلام نہ فرماتے ۔
(7) امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے صاحبزادے حضرت حسن مثنٰی کے سامنے ان کے ایک عقیدت مند نے کہا کہ۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ : من کنت مولا ہ فعلی مولا ہ : جس کا میں مولا اس کے علی مولا ہیں ۔ اس کے جواب میں حضرت حسن مثنٰی فرماتے ہیں کہ : اما واللہ لویعنی بذالک الامرۃ والسلطٰن لا فصح لہم بذالک کما افصح لہم بالصلوۃوالزکوۃ وصیام رمضان وحج البیت ویقال لھم ایہاالناس ھذا ولیکم من بعدی فان افصح الناس کان للناس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔
ترجمہ : اگر اس جملہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد امارت اور سلطنت ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ، زکوۃ ، روزہ رمضان ، اورحج بیت اللہ کی طرح واضح طور پر اس کا حکم صادر فرماتے اور فرمادیتے کہ اے لوگو ! علی میرے بعد تمہارے حاکم ہیں۔ کیونہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ فصیح (اور افصح الناس) تھے ۔ (طبقات ابن سعد جلد ۵ تحت تذکرہ حسن بن حسن رضی اللہ عنہم)
اس سے واضح ہو گیا کہ ۔ من کنت مولاہ فعلی مولاہ ۔ کا جملہ اکابر ہاشمی حضرات کے نزدیک بھی خلافت بلا فصل کےلیے نصِ صریح نہیں ۔ مندرجہ عنوان کے تحت جن چیزوں کو ذکر کیا گیا ہے ان تمام پر غور کر لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ غدیر خم کے موقعہ پر جو فرمان نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صادر ہوا اس کا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا فصل کے ساتھ کچھ تعلق نہیں ہے اور نہ ہی مسئلہ خلافت وہاں مطلوب و مقصود تھا ۔ بلکہ وقتی تقاضوں کے مطابق اس میں دیگر مقاصد پیشِ نظر تھے جن کو وہاں پورا کر دیا گیا اللہ کریم ہمیں سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔
فضائل و مناقب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 6
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ولایت حضرت سیّدنا مولا علی رضی اللہ عنہ : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی وہ ذات گرامی ہیں جو بہت سے کمال و خوبیوں کے جامع ہے ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ شیر خدا ہیں ، داماد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں ، صاحب ذوالفقار ہیں ، حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ میں سخاوت ، شجاعت ، عبادت ، ریاضت ، فصاحت ، بلاغت ، اور میدان خطابت کے شہسوار ہیں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ میں جہاں یہ تمام خوبیاں ہیں وہیں آپ ہر ایک میں ممتاز و یگانۂ روزگا ہیں شیر خدا مشکل رضی اللہ عنہ ۔ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن کے غزوہ میں شرکت کی جس میں مجھے آپ سے کچھ شکوہ ہوا ۔ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں واپس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے ان کی تنقیص کی ۔ اسی لمحے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ مبارک (کا رنگ) متغیر ہوتے ہوئے دیکھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے بریدہ ! کیا میں مومنوں کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں ؟ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیوں نہیں ، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ ۔ ترجمہ : جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے ۔ (أحمد بن حنبل، المسند، 5: 347، رقم:22995، مصر: مؤسسة قرطبة)(نسائي، السنن الکبری، کتاب الخصائص، باب قول النبي من کنت ولیه فعلي ولیه، 5: 130، رقم: 8467، بیروت: دار الکتب العلمیة)(حاکم، المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفة الصحابة، ومن مناقب أمیر المؤمنین علي بن أبی طالب رضی الله عنه، 3: 119، رقم: 4578، بیروت: دار الکتب العلمیة)
مذکورہ بالا حدیث کو اٹھانوے (98) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے روایت کیا ہے اور اس کے ایک سو ترپن (153) طرق ہیں ۔
علماء و اولیاء اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے اظہار کےلیے مختلف الفاظ میں درود و سلام پیش کیا ہے ۔ ان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل کو بطورِ وسیلہ پیش کیا گیا ہے ۔ یہ الفاظ متعارف کروانے والے علماء و اولیاء نے ان کے فضائل بھی بیان کیے ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے یومِ پیدائش اور نزول وحی کی مناسبت سے سوموار کو روزہ رکھتے تھے ۔ اس کی وضاحت درج ذیل حدیث میں ہے : عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ أَنَّ رَسُولَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم سُئِلَ عَنْ صَوْمِ الِاثْنَیْنِ فَقَالَ فِیهِ وُلِدْتُ وَفِیهِ أُنْزِلَ عَلَیَّ ۔
ترجمہ : حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس دن میں پیدا ہوا ، اور اسی روز مجھ پر وحی نازل کی گئی ۔ (مسلم، الصحیح، کتاب الصیام، باب استحباب صیام ثلاثة أیام من کل شہر وصوم یوم عرفة وعاشوراء والإثنین والخمیس، 2: 820، رقم: 1162، بیروت، لبنان: داراحیاء التراث العربي)(أحمد بن حنبل، المسند، 5: 299، رقم: 22603)(أبي داود، السنن، کتاب الصیوم، باب فی صوم الدہر تطوعا، 2: 322، رقم: 2426، دار الفکر)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان خان قادری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : مقال (۳۸ تا ۴۵) : یہی قاضی صاحب سیف المسلول میں مرتبہ قطبیت ارشاد کو یوں بیان کرکے کہ : فیوض وبرکات کا رخانہ ولایت کہ از جناب الٰہی براولیاء اللہ نازل مے شود اول بریک شخص نازل مے شود وازاں شخص قسمت شہد بہریک ازاوالیائے عصر موافق مرتبہ وبحسب استعداد می رسد وبہ ہیچ کس از اولیاء اللہ بے توسط اوفیضی نمی رسد وکسے از مردانِ خدا بے وسیلہ اور درجہ ولایت نمی یابد اقطاب جزئی و اوتاد وابدال و نجیاء ونقباء وجمیع اقسام ازاولیائے خدا بوے محتاج می باشند صاحب این منصب عالی راامام و قطب الارشاد بالاصالۃ نیز خوانند وایں منصب عالی از وقت ظہور آدم علیہ السلام بروحِ پاک علی مرتضٰی کرم اللہ وجہہ مقرر بود ۔ (سیف المسلول مترجم اردو خاتمہ کتاب فاروقی کتب خانہ ملتان ص۵۲۷ تا ۵۲۹) ۔ کارخانہ ولایت کے فیوض وبرکات جو خدا کی بارگاہ سے اولیاء اللہ پر نازل ہوتے ہیں پہلے ایک شخص پر اترتے ہیں اور اس شخص سے تقسیم ہو کر اولیائے وقت میں سے ہر ایک کو اس کے مرتبہ واستعداد کے مطابق پہنچتے ہیں اور کسی ولی کو بھی اس کی وساطت کے بغیر کوئی فیض نہیں پہنچتا۔ْ اور اہل اللہ میں سے کوئی بھی اس کے وسیلہ کے بغیر درجہ ولایت نہیں پاتا ۔ جزئی اقطاب اوتادہ ابدال، نجبا، نقباا ور تمام اقسام کے اولیاء اللہ اس کے محتاج ہوتے ہیں، اس منصب بلند والے کو امام اور قطب الارشاد بالاصالۃ بھی کہتے ہیں __ اور یہ منصب عالی ظہور آدم علیہ السلام کے زمانے سے حضرت علی مرتضٰی کرم اللہ وجہہ کی روح پاک کے لیے مقرر تھا ۔ (ت)
پھر ائمہ اطہار رضوان اللہ تعالٰی علیہم کو بترتیب اس منصب عظیم کا عطا ہونا لکھ کر کہتے ہیں: بعد وفات عسکری علیہ السلام تاوقت ظہور سید الشرفا غوث الثقلین محی الدین عبدالقادرالجیلی ایں منصب بروح حسن عسکری علیہ السلام متعلق بود ۔ (سیف المسلول مترجم اردو خاتمہ کتاب فاروقی کتب خانہ ملتان ص۵۲۷ تا ۵۲۹) ۔ حضرت عسکری کی وفات کے بعد سید الشرفا غوث الثقلین محی الدین عبدالقادر جیلانی کے زمانہ ظہور تک یہ منصب حضرت حسن عسکری کی روح سے متعلق رہے گا ۔ (ت)
پھر کہا : چوں حضرت غوث الثقلین پیدا شد ایں منصب مبارک بوے متعلق شدوتا ظہور محمد مہدی این منصب بروح مبارک غوث الثقلین متعلق باشد ۔ (سیف المسلول مترجم اردو خاتمہ کتاب فاروقی کتب خانہ ملتان ص ۵۲۷ تا ۵۲۹،چشتی) ۔ جب حضرت غوث الثقلین پیدا ہوئے یہ منصب مبارک ان سے متعلق ہوا اور امام محمد مہدی کے ظہو رتک یہ منصب حضرت غوث الثقلین کی روح سے متعلق رہے گا ۔ (ت)
اصل ان سب اقوال ثلٰثہ کی جناب شیخ مجد الف ثانی سے ہے ، جیسا کہ جلد سوم مکتوب نمبر ۴۳ صفحہ۱۲۳ میں مفصلاً مذکور، ان کے کلام میں اس قدر امرا اور زائد ہے کہ: بعدا ز ایشان (یعنی حضرت مرتضٰی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الاسنی) بہریکے از ائمہ اثنا عشر علے الترتیب والتفصیل قرار گوفت ودراعصا رایں بزرگواران و ہمچنیں بعداز ارتحال ایشاں ہر کس را فیض وہدایت می رسد بتوسط این بزرگوار ان بودہ ملاذ ملجائے ہمہ ایشاں بودہی اند تا آنکہ نوبت بحضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رسید قدس سرہ ، ط الخ اھ ملخصاً ۔ (سیف المسلول مترجم اردو فاروقی کتب خانہ ملتان ص۵۶۹) ۔حضرت مرتضٰی کرم اللہ تعالٰی وجہہ کے بعد بارہ اماموں میں سے ہر ایک کے لیے ترتیب وتفصیل کے ساتھ قرارپذیر ہوا ۔ ان بزگوں کے زمانے میں اسی طرح ان کی رحلت کے بعد جسے بھی فیض وہدایت پہنچتی انہی بزرگوں کے توسط سے تھی اور سب کا ملجا یہی حضرات تھے یہاں تک کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ ، تک نوبت پہنچی الخ (ت) ۔ (فتاوی رضویہ جلد 9 صفحہ نمبر 810 تا 812،چشتی)
مرتضٰی شیرِ حق اشجع الاشجعین
بابِ فضل و ولایت پہ لاکھوں سلام
شیرِ شمشیر زن شاہِ خیبر شکن
پَر توِ دستِ قدرت پہ لاکھوں سلام
حضرت امامِ ربّانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ مکتوبات شریف فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والے راستوں میں سے ایک راستہ قربِ ولایت سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس کے پیشوا سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی جسمانی پیدائش سے پہلے اس مقام کے ملجاء و ماویٰ تھے ۔ جیسا کہ آپ جسمانی پیدائش کے بعد ہیں ۔ ۔ ۔ اور جس کو بھی فیض و ہدایت پہنچی اس راہ سے پہنچی اور ان ہی کے ذریعے سے پہنچی کیونکہ وہ اس راہ کے آخری نکتہ کے قریب ہیں ۔ (مکتوب 123، دفتر سوم ، حصہ دوم صفحہ 1425،چشتی)
ہو چشتی قادری یا نقشبندی سہروردی ہو
ملا سب کو ولایت کا انہی کے ہاتھ سے ٹکڑا
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ مکتوب دفتر اول میں فرماتے ہیں : حضرت امیر (سیدنا علی رضی اللہ عنہ ) فرماتے ہیں کہ ’’میں اس لئے آیا ہوں کہ تمہیں آسمانوں کا علم سکھاؤں‘‘۔ جب میں اچھی طرح متوجہ ہوا تو تمام خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان اس مقام کو حضرت امیر (سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ) کے ساتھ مخصوص پایا ۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ مکتوب 251 دفتر اول میں فرماتے ہیں : چونکہ امیر (سیدنا علی رضی اللہ عنہ ) ولایت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بوجھ اٹھانے والے ہیں اس لئے اقطاب ، ابدال، اوتاد جو اولیائے عزلت میں سے ہیں ۔ قطب مدار کا سر حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے قدم کے نیچے ہے ۔ قطب مدار ان ہی کی حمایت و رعایت (نگرانی) سے اپنے ضروری امور کو سرانجام دیتا ہے اور مداریت سے عہدہ برآ ہوتا ہے ۔ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہ اور امامین بھی اس مقام میں حضرت امیر (سیدنا علی رضی اللہ عنہ ) کے ساتھ شریک ہیں ۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ برصغیر کے ان اکابر جید علماء ربانیین اور صاحب کمال ہستیوں میں سے ہیں جن کی تمام مسالک (اہل سنت ، اہل حدیث اور دیوبندی) عزت و تکریم کرتے ہیں اور ان کے علم و فضل کے معترف ہیں ۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ایک روز مقام قرب میں غور کی نگاہ کی گئی تو ہر چند نظر دور دور تک گئی لیکن جہت خاص جو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ میں تھی اس سے زائد کسی میں نہ دیکھی گئی اور اس جہت میں کسی دوسرے کی ان پر فضیلت نہیں دکھائی دی۔ آپ اس جہت یعنی مقام قرب کے اعلیٰ مرکز کے اوپر ہیں اور اسی لئے آپ ہی مبداء عرفان ہوئے ہیں ۔ (القول الجلی فی ذکر آثار ولی صفحہ نمبر 522،چشتی)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب الفاس العارفین میں اپنے چچا حضرت ابو الرضا محمد کی روایت درج کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری بار بچشم حقیقت زیارت ہوئی، میں نے عرض کی : یاسیدی میری خواہش ہے کہ آپ کے طریقہ عالیہ کے فیض یافتہ کسی مردِ حق سے بیعت کروں تاکہ ان سے حقائق کی تفصیل پوچھ سکوں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل ہوئے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تیری بیعت امیرالمومنین علی کرم اللہ وجہہ سے ہوگی ۔ کچھ دنوں بعد دیکھا کہ گویا کسی راستے پر جارہا ہوں ۔ آس پاس کوئی شخص نظر نہیں آرہا۔ لیکن راستے پر گذرنے والوں کے نقوش موجود ہیں۔ تھوڑی دور راستے کے درمیان ایک شخص کو بیٹھا ہوا دیکھا۔ میں نے اس سے راستہ پوچھا، اس نے ہاتھ کے اشارہ سے کہا ادھر آؤ۔ اس سے مجھے انشراحِ قلب حاصل ہوا ۔
انہوں نے فرمایا : اے سست رفتار، میں علی ہوں اور مجھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھیجا ہے تاکہ میں تمہیں ان کی بارگاہ میں لے چلوں۔ میں ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا یہاں تک کہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں دے کر کہا : يا رسول الله هذا يدی الرضا محمد یہ سن کر حضور نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیعت لی ۔ اس موقع پر میرے دل میں ایک بات کھٹکی ، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس پر مطلع ہو کر فرمایا کہ میں اسی طرح اولیاء اللہ کے حق میں وسیلہ بیعت رہتا ہوں ورنہ اصل میں تمام سلاسل کی بیعتوں کا مرکز اور مرجع حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دست مبارک ہوتا ہے۔ اس کے بعد آپ نے مجھے اشغال اور اذکار کی تلقین فرمائی اور علوم و اسرار سے نوازا ۔ حقیقت یہ ہے کہ سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی ذات اقدس تمام علوم ظاہری و باطنی کا محزن ہے۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ آپ کی اس شان سے آگاہ اور معترف تھے اور شیخین کریمین مختلف مواقع پر سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے تبحر علمی اور اصابت رائے سے استفادہ بھی کرتے رہتے تھے۔ اس سلسلے میں کتب مناقب میں بڑے دلچسپ اور ایمان افروز واقعات منقول ہیں ۔
من کنت مولاہ فعلی مولاہ ۔ یہ مکمل حدیث نہیں بلکہ حدیث کا ایک ٹکڑا ہے، اس کی تفصیل بتانے سے قبل چند باتیں تمہیداً عرض ہے کہ : حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : فِيكَ مَثَلٌ مِنْ عِيسَى أَبْغَضَتْهُ الْيَهُودُ حَتَّى بَهَتُوا أُمَّهُ، وَأَحَبَّتْهُ النَّصَارَى حَتَّى أَنْزَلُوهُ بِالْمَنْزِلَةِ الَّتِي لَيْسَ بِهِ " ثُمَّ قَالَ: " يَهْلِكُ فِيَّ رَجُلانِ مُحِبٌّ مُفْرِطٌ يُقَرِّظُنِي بِمَا لَيْسَ فِيَّ، وَمُبْغِضٌ يَحْمِلُهُ شَنَآنِي عَلَى أَنْ يَبْهَتَنِي ۔
ترجمہ : تمہاری حضرت عیسی علیہ السلام سے ایک مشابت ہے یہودیوں نے ان سے دشمنی کی یہاں تک کہ ان کی والدہ حضرت مریم پر تہمت لگا دیں عیسائیوں نے ان سے محبت کی یہاں تک کے ان کا وہ مقام بیان کیا جو ان کا نہیں تھا پھر حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا میرے بارے میں دو بندے ہلاک ہو جائیں گے ایک میری محبت میں غلو کرنے والا جو میری اس وصف سے تعریف کرے گا جو مجھ میں نہیں دوسرا میرا دشمن کے اسے میری عداوت اس بات پر برانگیختہ کرے گی کہ وہ مجھ پر بہتان باندھے ۔ (مسند أحمد نویسنده : أحمد بن حنبل جلد : 2 صفحه : 468 مطبوعہ مؤسسة الرسالة)(مسند أبي يعلى الموصلي نویسنده : أبو يعلى الموصلي جلد : 1 صفحه : 406 مطبوعہ دار المأمون للتراث - دمشق)(مشكاة المصابيح نویسنده : التبريزي، أبو عبد الله جلد : 3 صفحه : 1722 مطبوعہ المكتب الإسلامي - بيروت)(إطراف المسند المعتلي بأطراف المسند الحنبلي نویسنده : العسقلاني ، ابن حجر جلد : 4 صفحه : 406 مطبوعہ دار ابن كثير - دمشق، دار الكلم الطيب - بيروت)(فضائل الصحابة نویسنده : أحمد بن حنبل جلد : 2 صفحه : 639 مطبوعہ مؤسسة الرسالة - بيروت،چشتی)(السنن الكبرى نویسنده : النسائي جلد : 7 صفحه : 446 مطبوعہ مؤسسة الرسالة بيروت)(شرح مذاهب أهل السنة نویسنده : ابن شاهين جلد : 1 صفحه : 166 مطبوعہ مؤسسة قرطبة للنشر والتوزيع)(تاريخ دمشق نویسنده : ابن عساكر، أبو القاسم جلد : 42 صفحه : 293 مطبوعہ دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع)(المسند الموضوعي الجامع للكتب العشرة نویسنده : صهيب عبد الجبار جلد : 20 صفحه : 348)(مجلسان من أمالي الجوهري_2 نویسنده : الجوهري، أبو محمد جلد : 1 صفحه : 21 مطبوعہ مخطوط نُشر في برنامج جوامع الكلم المجاني التابع لموقع الشبكة الإسلامية)(الشريعة نویسنده : الآجري جلد : 5 صفحه 2531 مطبوعہ دار الوطن - الرياض / السعودية)(السنة نویسنده : ابن أبي عاصم جلد : 1 صفحه 477)(المقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي نویسنده : الهيثمي، نور الدين جلد : 3 صفحه : 178 مطبوعہ دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)(إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة نویسنده : البوصيري جلد : 7 صفحه : 205 مطبوعہ دار الوطن للنشر، الرياض)(التفسير المظهري نویسنده : المظهري، محمد ثناء الله جلد : 3 صفحه : 317 مطبوعہ مكتبة الرشدية الپاكستان)(الرياض النضرة في مناقب العشرة نویسنده : الطبري، محب الدين جلد : 3 صفحه : 194 مطبوعہ دار الكتب العلمية)(مختصر تلخيص الذهبي نویسنده : ابن الملقن جلد : 3 صفحه : 1351)
حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ نے اِرشاد فرمایا : میرے بارے میں دو قسْم کے لوگ ہلاک ہوں گے میری مَحَبّت میں اِفراط کرنے (یعنی حد سے بڑھنے) والے مجھے اُن صفات سے بڑھائیں گے جو مجھ میں نہیں ہیں اور بُغض رکھنے والوں کا بُغض اُنہیں اِس پر اُبھارے گا کہ مجھے بُہتان لگائیں گے ۔ (مُسندِ اِمام احمد بن حنبل جلد ۱ صفحہ ۳۳۶حدیث۱۳۷۶)
مولانا حسن رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ⬇
تَفْضِیل کا جَویا نہ ہو مولا کی وِلا میں
یوں چھوڑ کے گوہر کو نہ تُو بہرِ خَذَف جا
(ذوقِ نعت)
یعنی حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کی مَحَبَّت میں اِتنا نہ بڑھ کہ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کو شَیخَینِ کریمین رضی اللہ عنہما پر فضیلت دینے لگے ۔ ایسی بھول کر کے موتیوں جیسے صاف شَفّاف عقیدے کو چھوڑ کر ٹِھیکریوں جیسا رَدّی عقیدہ اِختیار نہ کر ۔
حکیم الامت حضرتِ مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ اِس حدیثِ مبارَکہ کے تحت فرماتے ہیں : مَحَبَّتِ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ اَصلِ اِیمان ہے ۔ ہاں مَحَبَّت میں ناجائز اِفراط (یعنی حد سے بڑھنا) بُرا ہے مگر عداوتِ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ اصْل ہی سے حرام بلکہ کبھی کُفر ہے ۔ (مراٰۃ المناجیح ج۸ص۴۲۴،چشتی)
حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : میرے بارے میں دو (قسم کے) شخص ہلاک ہو جائیں گے : (1) غالی (اور محبت میں ناجائز) افراط کرنے والا ، اور (2) بغض کرنے والا حجت باز ۔ (فضائل الصحابۃ للامام احمد 2/ 571 ح 964 واسنادہ حسن)
حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : ایک قوم (لوگوں کی جماعت) میرے ساتھ (اندھا دھند) محبت کرے گی حتیٰ کہ وہ میری (افراط والی) محبت کی وجہ سے (جہنم کی) آگ میں داخل ہوگی اور ایک قوم میرے ساتھ بغض رکھے گی حتیٰ کہ وہ میرے بغض کی وجہ سے (جہنم کی) آگ میں داخل ہوگی ۔ (فضائل الصحابۃ 2/ 565 ح 952 وإسنادہ صحیح، وکتاب السنۃ لابن ابی عاصم: 983 وسندہ صحیح)
معلوم ہوا کہ دو قسم کے گروہ ہلاک ہو جائیں گے : ⬇
1 ۔ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ سے اندھا دھند محبت کر کے آپ کو خدا سمجھنے اور انبیاۓ کرام علیہم السلام سے افضل سمجھنے والے یا دوسرے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو برا کہنے والے لوگ مثلاً غالی قسم کے روافض شیعہ و نیم رافضی تفضیلی وغیرہ ۔
2 ۔ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کو برا کہنے والے لوگ مثلاً خوارج و نواصب وغیرہ ۔
نہج البلاغۃ شیعہ کتاب جلد اول صفحہ 261 میں سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں : عنقریب میرے متعلق دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے ، ایک محبت کرنے والااور حد سے بڑھ جانے والا، جس کو محبت خلاف حق کی طرف لے جائے ۔ دوسرا بغض رکھنے والا حد سے کم کرنے والا جس کو بغض خلاف حق کی طرف لے جائےاور سب سے بہتر حال میرے متعلق درمیانی گروہ کا ہے جو نہ زیادہ محبت کرے ، نہ بغض رکھے ، پس اس درمیانی حالت کو اپنے لیے ضروری سمجھو اور سواد اعظم یعنی بڑی جماعت کے ساتھ رہو کیونکہ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور خبردار جماعت سے علیحدگی نہ اختیار کرنا کیونکہ جو انسان جماعت سے الگ ہو جاتا ہے وہ شیطان کے حصہ میں جاتا ہے ، جیسے کہ گلہ سے الگ ہونے والی بکری بھیڑیے کا حصہ بنتی ہے ۔ آگاہ ہو جاؤ جو شخص تم کو جماعت سے الگ ہونے کی تعلیم دے اس کو قتل کر دینا اگرچہ وہ میرے اس عمامہ کے نیچے ہو ۔
نہج البلاغۃ شیعہ کتاب جلددوم صفحہ 354 میں بھی ہے : میرے بارے میں دو شخص ہلاک ہوں گے ۔ ایک محبت کرنے والا حد سے بڑھ جانے والا اور دوسرا بہتان لگانے والا مفتری ۔
اسی نہج البلاغۃ میں یہ بھی ہے : میرے بارے میں دو شخص ہلاک ہو گئے ، ایک محبت کرنے والا جو محبت میں زیادتی کرے ، دوسرا بغض رکھنے والا ، نفرت کرنے والا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس ارشادِ گرامی کے مطابق کچھ حضرات نے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی شان میں اس قدر غلو کیا کہ ان کو خدا کے ساتھ ملا دیا اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی توہین اور تنقیص کی طرف چلے گئے ، جبکہ کچھ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت میں اس قدر آگے نکل گئے کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو امامِ بر حق تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیا ، یہ دونوں طبقات افراط اور تفریط میں پڑ کر جادۂ اعتدال سے ہٹ گئے ، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت یا عداوت میں غلو کر کے طریق مستقیم پر قائم نہ رہے ۔ ان دونوں ہی طبقات کی جانب سے اپنے مزعومہ خیالات کو ثابت کرنے کےلیے دلائل کا جوڑ توڑ ، کلمات کا ہیر پھیر اور خلافِ مدعا دلائل سے اغماض یا انکار پیش آتا رہا مشق ستم بننے والی احادیث میں ایک حدیث یہ بھی ہے : من کنت مولاہ فعلی مولاہ الخ ‘‘ جس کا میں مولیٰ ، اس کا علی مولیٰ ۔ کچھ حضرات نے تو اس حدیث کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا ، حالانکہ یہ حدیث متعدد کتب حدیث میں صحیح طور پر منقول ہے اور 30 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے ۔ اس پر ہم تفصیل سے لکھ چکے ہیں الحَمْدُ ِلله ، اس کے برعکس کچھ لوگوں نے اس حدیث سے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی امامت و خلافت کے خود ساختہ نظریہ کو ثابت کرنے کی کوشش کی ، اور حدیث کے سیاق و سباق اور پس منظر کو ایک طرف ڈال کر مفید مقصد الفاظ سے دلپسند معانی اخذ کر کے اس حدیث کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلافصل پر اپنی بہت بڑی دلیل قرار دیا ۔ علماء کرام نے مسلک اعتدال کو واضح کرنے کےلیے اپنے اپنے انداز سے حدیث اور اس کے پس منظر کو واضح کر کے اس کے مفہوم کی ایسی تشریح کی جو نہ رفض کےلیے مؤید ہے اور نہ خروج کی جانب مائل ہے ، مندرجہ ذیل سطروں میں بھی آپ اس حدیث کی تشریح بالاختصار لیکن مدلل طور پر پڑھیں گے ، جس سے اس کے صحیح معنی سمجھنے میں آسانی پیدا ہوگی ۔ اس حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رمضان ۱۰ھ میں خُمس (مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ) وصول کرنے کےلیے یمن بھیجا ، اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر ۴ ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حرمِ مکہ پہنچ کر پہلے عمرہ ادا کیا، اور پھر چار یوم تک مکہ مکرمہ میں قیام فرمایا ، ان چار دنوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے واپس مکہ مکرمہ پہنچے اور خمس حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا ، اس سفر کے دوران بعض رفقائے سفر کے دل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے کچھ بدگمانی اور کدورت پیدا ہو گئی ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جو حجۃ الوداع کے اس عظیم اور اہم ترین سفر میں قدم بہ قدم امت کو گمراہی اور افتراق سے بچانے کےلیے نصائح اور خطبات ارشاد فرما رہے تھے ، یہ کیسے گوارا کر سکتے تھے کہ حضرت سیدنا مولا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں اجتماعی طور پر لوگوں کے دلوں میں بدگمانی پیدا ہو جائے ، جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا شمار کبار صحابہ اور ’’السابقون الاولون‘‘ میں ہے ، اور جبکہ انہوں نے آگے چل کر اپنے وقت میں امت کی قیادت و سیادت کے فرائض بھی انجام دینے ہیں ، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ’’غدیر خم‘‘ کے مقام پر خطبہ ارشاد فرمایا ، جس میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ محبت و عقیدت کا معاملہ رکھنے کی ترغیب دی اور بدگمانی سے بچنے کی تلقین کی ۔ (البدایۃ والنھایۃ ج : ۵، ص : ۱۰۶)
حضرت براء بن عازب اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب ’’غدیر خم‘‘ (کے مقام) پر تشریف لائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمانے لگے ، کیا تم نہیں جانتے کہ میں مؤمنین کی جانوں سے زیادہ ان کا محبوب (اولیٰ) ہوں ؟ حاضرین نے عرض کیا ، کیوں نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ میں ہر مومن کی جان سے زیادہ اس کو محبوب (اولیٰ) ہوں ؟ حاضرین نے عرض کیا کیوں نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اے اللہ ! جس کا میں محبوب (مولیٰ) ہوں تو علی بھی اس کے محبوب (مولیٰ) ہیں ، اے اللہ جو (علی رضی اللہ عنہ) سے محبت (موالات) کرے تو اس سے محبت (موالات) کر ، اور جو (علی رضی اللہ عنہ) سے نفرت (معادات) کرے تو اس سے نفرت (معادات) کر ۔ (مشکوٰۃ مع المرقاۃ ۱۰/۴۷۵)
مذکورہ حدیث اور اس کے پس منظر کی تفصیل سے یہ بات بخوبی معلوم ہو جاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقصد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت و خلافت کو بیان کرنا نہیں بلکہ ان شکوک و شبہات کا ازالہ کرنا مقصود ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بعض معاملات میں بعض رفقائے سفر کے ذہنوں میں پیدا ہوئے تھے ، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی برأت کے اظہار کے بعد ان سے محبت کا حکم ہے، اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقصد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت اور خلافت کو بیان کرنا ہوتا تو صاف طور پر واضح الفاظ میں اس بات کا اظہار فرما دیتے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ میرے بعد خلیفہ ہوں گے ، ایسے الفاظ اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی جن سے معاملہ مبہم اور مخفی رہے ۔
لغت کے مشہور امام ابن اثیر رحمة اللہ علیہ لفظ ’’مولی‘‘ کے تحت لکھتے ہیں اور یہ لفظ ’’مولی‘‘ ایک ایسا لفظ ہے جو متعدد معانی کےلیے استعمال ہوتا ہے پس مولیٰ کے معنی پروردگار ، مالک ، سردار ، محسن ، آزاد کرنے والا ، مددگار ، محبت کرنے والا ، فرمانبردار ، پڑوسی ، چچا زاد بھائی ، عہد و پیماں کرنے والا ، عقد کرنے والا ، داماد ، غلام ، آزاد کردہ غلام اور احسان مند کے آتے ہیں اور ہر حدیث کے مقتضیٰ کے مطابق معنی مراد لیا جاتا ہے ۔ (النھایۃ ۵/۲۲۸)
مذکورہ بالا حدیث کے آخر میں ’’ولایت‘‘ کے ساتھ ’’عداوت‘‘ کے تقابل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ’’مولیٰ‘‘ اور ’’اولیٰ‘‘ وغیرہ الفاظ سے محبت کا معنیٰ ہی مراد ہے جو عداوت کی ضد ہے ، اگر محبت کا معنی مراد نہ ہوتا تو ولایت کے تقابل میں عداوت کا لفظ ذکر نہ کیا جاتا ۔
نیز ’’مولیٰ‘‘ سے امامت و خلافت کا معنی مراد لینے کی صورت میں لازم آئے گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ ہی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی امام اور خلیفہ ہوں ، کیونکہ حدیث میں اس بات کا کوئی تذکرہ نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مولیٰ ہوں گے ، بلکہ حدیث میں صرف اس قدر ہے کہ جس کا میں مولیٰ اس کا علی (رضی اللہ عنہ) مولیٰ ، اگر یہاں محبت والا معنی مراد نہیں لیا جاتا تو یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد خلیفہ بلا فصل ہونے پر نہیں ، بلکہ امامت و خلافت کے سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مساوات اور اشتراک پر دال ہوگی جو کسی کو بھی تسلیم نہیں ، لہٰذا اس حدیث سے وہی معنی متعین ہیں جو اوپر مذکور ہوئے ۔
ایک دوسری حدیث میں یہی لفظ ’’مولیٰ‘‘ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کےلیے بھی استعمال ہوا ہے ، چنانچہ ایک موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : ’’انت مولای ومنی‘‘ (آپ میرے مولا ہیں اور مجھ سے ہیں) ۔ (طبقات ابن سعد ۳/۴۴) اور دوسری روایت میں ہے : ’’انت مولای واحب القوم الی‘‘ (آپ میرے مولا ہیں او رمجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب ہیں ۔ (مصنف عبدالرزاق ۱۱/۲۲۷) ایک اور روایت میں ہے : ’’انت اخونا و مولانا‘‘ (آپ ہمارے بھائی اور ہمارے مولا ہیں) ۔ (طبقات ابن سعد ۳/۴۳)
اگر مولیٰ سے امام اور خلیفہ کے معنی ہی متعین ہوں تو پھر چاہیے کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امام اور خلیفہ بلا فصل ہوں لیکن جب یہاں پر یہ معنی مراد نہیں تو حدیث من کنت مولاہ الخ میں بھی اس معنی کی تخصیص کی کوئی وجہ نہیں ۔
مذکورہ حدیث کے نظریہ امامت و خلافت سے غیر متعلق ہونے کی ایک بہت بڑی شہادت یہ بھی ہے کہ سیدنا حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے حضرت امام حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ کیا ’’من کنت مولاہ‘‘ کی حدیث میں سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کی امامت (خلافت) کی صراحت نہیں ؟ تو انہوں نے جواب میں فرمایا :خبردار ! اللہ کی قسم ، اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے امارت یا حکومت کا ارادہ فرماتے تو یہ بات صاف صاف بیان فرما دیتے ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر مسلمانوں کا خیر خواہ کوئی نہیں ہو سکتا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صاف فرما دیتے کہ اے لوگو ! میرے بعد تمہارے حاکم اور تمہارے نگران علی رضی اللہ عنہ ہوں گے ، ان کی بات سنو ، اور اطاعت کرو ، مگر ایسی کوئی بات نہیں ، اللہ کی قسم اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو ترک فرما دیتے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سب لوگوں سے بڑھ کر خطا کار ہوتے ۔ (الصواعق المحرقۃ ص : ۴۸،چشتی)(تحفۃ اثنا عشریۃ ص : ۲۰۹)(روح المعانی ۶/۱۹۵)(التاریخ الکبیر لابن عساکر ۴/۱۶۶)
ملاحظہ فرمائیں کہ خانوادہ نبوت نے کس وضاحت کے ساتھ ہر قسم کے شبہ کا جواب دے دیا ہے ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادِ مبارک کی تشریح کرتے ہوئے ہر طرح کے باطل احتمالات کی بیخ کنی کر کے مرادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو متعین فرما دیا ہے ، اس کے بعد کسی کو بھی مذکورہ بالا حدیث سے غلط مطلب اخذ کرنے کی لاحاصل سعی نہیں کرنی چاہیے ۔ یا اللہ ہم مسلمانوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت سیدنا مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے فرمان کے مطابق ان دونوں گروہوں سے جو ہلاک ہونے والے ہیں بچا اور اُس گروہ میں سے ہونے کی توفیق عطا فرما جو تیرے نزدیک پسندیدہ ہے ۔ نیز اتباع و پیروی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توفیق اور نورِ ایمان عطا فرما آمین ۔
فضائل و مناقب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 7
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جشنِ غدیرِ خُم رافضی اور نیم رافضی : اٹھارہ (18) ذوالحج کو شیعہ لوگ عید غدیر مناتے ہیں کہتے ہیں کہ اس روز حجۃ الوداع سے واپسی پر “غدیرِ خُم” مقام پہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا ” میں جس کا مولا علی اس کا مولی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اس فرمان سے شیعہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس فرمان کے ذریعے اپنا خلیفہ بلافصل بنایا ۔ اٹھارہ 18 ذی الحج جو کہ خلیفہ راشد دُہرے دامادِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا یومِ شہادت ہے عین اُس دن رافضی شیعہ اور اب اُن کے نقشِ قدم پر چلنے والے سنیوں کے لبادے میں چھپے نیم رافضی جشنِ غدیر منا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ؟
عجیب بات ہے کہ حجۃ الوداع جو اس وقت مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع تھا اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خلیفہ کسی کو نہ بنایا اور واپسی پر تھوڑی تعداد کے سامنے غدیرِ خُم پر خلیفے کا اعلان کر دیا ؟
اگر خلافت کا اعلان نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کرنا ہوتا تو اس کا صحیح و بہترین موقعہ حجۃ الوداع تھا ۔ غدیرِ خُم مقام پے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ایک تنازع کا حل فرمایا اور فرمایا کہ علی سے ناگواری مت رکھو ، اس سے محبت کرو ، جس کو میں محبوب ہوں وہ علی سے محبت رکھے ۔
دراصل ہوا یہ تھا کہ مال غنیمت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تقسیم کیا تھا ، تقسیم پر کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ناگوار گذرا انہوں نے غدیرخم مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شکایت کی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پوچھا اے بریدہ کیا تم علی سے (اس تقسیم کی وجہ سے) ناگواری محسوس کرتے ہو…؟ حضرت بریدہ نے فرمایا جی ہاں… نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا علی سے ناگواری مت رکھ ، جتنا حصہ علی نے لیا ہے حق تو اس سے زیادہ حصہ بنتا ہے ۔ بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کے بعد میری ناگواری ختم ہوگئ ۔ اس تقسیم وغیرہ کی وجہ سے دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وغیرہ کو بھی ناگواری گذری ہو تو ان کی بھی ناگواری ختم ہو اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اعلان فرمایا : فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے
عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ کُهَيْلٍ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيْ سَرِيْحَةَ . . . أَوْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ، (شَکَّ شُعْبَةُ). . . عَنِ النَّبِيِّ، قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ . وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. (قَالَ : ) وَ قَدْ رَوَی شُعْبَةُ هَذَا الحديث عَنْ مَيْمُوْنٍ أبِيْ عَبْدِ ﷲِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ۔
ترجمہ : حضرت شعبہ رضی اللہ عنہ، سلمہ بن کہیل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوطفیل سے سنا کہ ابوسریحہ . . . یا زید بن ارقم رضی اللہ عنہما۔ . . سے مروی ہے (شعبہ کو راوی کے متعلق شک ہے) کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے ۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہاکہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ شعبہ نے اس حدیث کو میمون ابو عبد اللہ سے ، اُنہوں نے زید بن ارقم سے اور اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب باب مناقب علي بن أبی طالب رضی الله عنه، 5 / 633، الحديث رقم : 3713، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 195، 204، الحديث رقم : 5071، 5096.وَ قَدْ رُوِيَ هَذَا الحديث عَنْ حُبْشِيّ بْنِ جُنَادَةْ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ. أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 134، الحديث رقم : 4652، والطبرانی فی المعجم الکبير، 12 / 78، الحديث رقم : 12593، ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1359، وحسام الدين الهندی فی کنزالعمال، 11 / 608، رقم : 32946،چشتی،وابن عساکرفی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 77، 144، و خطيب البغدادی فی تاريخ بغداد، 12 / 343، و ابن کثير فی البدايه و النهايه، 5 / 451،،چشتی، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 108.وَ قَد رُوِيَ هَذَا الحديث أيضا عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ.أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1355، وابن ابی شيبه فی المصنف، 6 / 366، الحديث رقم : 32072 ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَ الحديث عَنْ ايُوْبٍ الْأَنْصَارِيِّ فِي الْکُتْبِ الآتِيَةِ.أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1354، والطبرانی فی المعجم الکبير، 4 / 173، الحديث رقم : 4052، والطبرانی فی المعجم الاوسط، 1 / 229، الحديث رقم : 348.وَقَدَرُوِيِّ هَذَالحديث عَنْ بُرَيْدَةَ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ.أخرجه عبدالرزاق فی المصنف، 11 / 225، الحديث رقم : 20388، و الطبرانی فی المعجم الصغير، 1 : 71، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 143، وابن ابی عاصم فی السنه : 601، الحديث رقم : 1353، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 146، وابن کثيرفی البدايه و النهايه، 5 / 457، وحسام الدين هندی فی کنز العمال، 11 / 602، رقم : 32904.وَقَدْ رُوِيَ هَذَالحديث عَنْ مَالِکِ بْنِ حُوَيْرَثٍ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ.أخرجه الطبرانی فی المعجم الکبير، 19 / 252، الحديث رقم : 646، و ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 177، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 106)
شیعہ کتب سے
و خرج بريدة الأسلمي فبعثه علي عليه السلام في بعض السبي، فشكاه بريدة إلى رسول الله صلى الله عليه وآله فقال رسول الله صلى الله عليه وآله: من كنت مولاه فعلي مولاه ۔ یعنی بریدہ اسلمی نے رسول کریم سے حضرت علی کی مال غنیمت کی تقسم کی شکایت تو رسول کریم نے فرمایا میں جسکا مولا و محبوب ہوں علی بھی اس کے مولا و محبوب ہیں) لہٰذا ناگواری نہ رکھو، ختم کرو) ۔ (شیعہ کتاب بحار الانوار 37/190)
فأصبنا سبيا قال : فكتب إلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: أبعث لنا من يخمسه، قال: فبعث إلينا عليا رضي الله عنه وفي السبي وصيفه هي من أفضل السبي قال: وقسم فخرج ورأسه يقطر، فقلنا: يا أبا الحسن ما هذا ؟ قال: ألم تروا إلى الوصيفة التي كانت في السبي فإني قسمت وخمست فصارت في الخمس، ثم صارت في أهل بيت النبي صلى الله عليه وآله، ثم صارت في آل علي ووقعت بها، قال: فكتب الرجل إلى نبي الله صلى الله عليه وآله، فقلت: ابعثني مصدقا، قال: فجعلت أقرأ الكتاب وأقول صدق، قال: فأمسك يدي والكتاب، قال: أتبغض عليا؟ قال: قلت: نعم قال: فلا تبغضه وان كنت تحبه فازدد له حبا، فوالذي نفس محمد بيده لنصيب علي في الخمس أفضل من وصيفة، قال: فما كان من الناس أحد بعد قول رسول الله صلى الله عليه وآله أحب إلي من علي ۔ بریدہ اسلمی کہتےہیں ہمیں مال غنیمت حاصل ہوا…رسول کریم کی طرف خط لکھا کہ تقسیم کے لیے کسی کو بھیجیں،رسول کریم نے علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا حضرت علی نے تقسیم کیا اور اپنا حصہ بھی نکالا، ابو بریدہ تقسیم کی شکایت لے کر (غدیر خم مقام پے) رسول کریم کو پہنچے اور شکایت و ناگواری کا اظہار کیا رسول کریم نے فرمایا علی نے جتنا لیا اس سے بڑھ کرحصہ ہے اگر علی سے ناگواری ہے تو ختم کردو اگر محبت ہےتو زیادہ محبت کرو ۔ (شیعہ کتاب کشف الغمہ لاربیلی 1/293)
یہ تھا اصل پس منظر کہ تنازع پے ناگواری جگھڑا ختم کرایا گیا باقی نہ تو کوئی بیعت لی گئ اور نہ بیعت و خلافت کا اعلان کیا گیا ۔ یہ تھا پس منظر جسکو جھوٹے مکار شیعوں نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا ۔
عید غدیر چونکہ شیعہ لوگ غلط نظریہ خلیفہ بلافصل کے تناظر میں مناتے ہیں اس لیے یہ کوئی عید نہیں ، اس کی کوئی اصل نہیں بلکہ یہ جرم و گناہ ہے ۔ کیونکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خلیفہ بلافصل نہیں بلکہ چوتھے خلیفہ ہیں ۔
حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : بلغني أن أناسا يفضلوني على أبي بكر وعمر، لا يفضلني أحد على أبي بكر وعمر إلا جلدته حد المفتري ۔
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے خبر ملی ہے کہ کچھ لوگ ابوبکر اور عمر پر مجھے فضیلت دیتے ہیں ، مجھے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر کوئی فضیلت نہ دے ورنہ اسے وہ سزا دونگا جو ایک مفتری (جھوٹ و بہتان والے) کی سزا ہوتی ہے ۔ (یعنی 80 کوڑے مارونگا) ۔ (فضائل الصحابہ روایت نمبر387)
یوم غدیر کے متعلق بہت کچھ شیعہ کتب میں ہے اس کا اکثر جھوٹ ہے ، شیعوں نے اپنی طرف سے لکھا اور نام اہلبیت رضی اللہ عنہم یا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ڈال دیا ہے ۔ امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : الناس ﺃﻭﻟﻌﻮﺍ ﺑﺎﻟﻜﺬﺏ ﻋﻠﻴﻨﺎ، ﻭﻻ ﺗﻘﺒﻠﻮﺍ ﻋﻠﻴﻨﺎ ﻣﺎ ﺧﺎﻟﻒ ﻗﻮﻝ ﺭﺑﻨﺎ ﻭﺳﻨﺔ ﻧﺒﻴﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ۔
ترجمہ : امام جعفر صادق رضی اللہعنہ فرماتے ہیں کہ لوگ جو (بظاہر) ہم اہلبیت کے محب کہلاتے ہیں انہوں نے اپنی طرف سے باتیں ، حدیثیں گھڑ لی ہیں اور ہم اہلبیت کی طرف منسوب کر دی ہیں جوکہ جھوٹ ہیں ، تو ہم اہل بیت کی طرف نسبت کرکے جو کچھ کہا جائے تو اسے دیکھو کہ اگر وہ قرآن اور ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنت کے خلاف ہو تو اسے ہرگز قبول نہ کرو ۔ (شیعہ کتاب رجال کشی ﺹ135, 195)
وہ جو کہتے ہیں کہ اسلام کے نام پر بننے والے فرقوں میں سے سب سے زیادہ جھوٹے شیعہ ہیں ۔ بالکل سچ کہتے ہیں ، جس کی تائید امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے قول سے بھی ہوتی ہے ۔
امام جعفر صادق کے قول سے واضح ہوتا ہے کہ اہلبیت بالخصوص حضرت علی ، بی بی فاطمہ، امام جعفر صادق ، حسن ، حسین رضی اللہ عنہم کی باتیں اگر قرآن و سنت کے متصادم ہوں تو سمجھ لو کہ یہ ان کا قول ہی نہیں بلکہ کسی نے اپنی طرف سے جھوٹ بول کر ان کی طرف منسوب کر دیا ہے ۔
لہٰذا کسی بھی عالم مفتی صوفی پیر فقیر فرقہ کسی کی بھی بات قرآن و سنت کے خلاف ہو تو ہرگز معتبر نہیں ۔
امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی بات سے ثابت ہوتا ہے فقہ جعفریہ ، فقہ شیعہ ، عقائد شیعہ ، مذہب شیعہ جھوٹ و مکاری کا پلندہ ہے ۔ کیونکہ شیعوں کی کتابیں قرآن و سنت کے خلاف سے بھری پڑی ہیں ۔ ہاں شیعوں کی وہ بات جو قرآن و سنت کے مخالف نہ ہو وہ قابل قبول و دلیل بن سکتی ہے ۔
اکابرینِ اہلسنت علیہم الرّحمہ کا مٶقف
امام بزدوی علیہ الرحمہ المتوفی 493ء عقیدہ اہل سنت پر مشتمل اپنی مشہور کتاب "اصول الدین " میں من کنت مولاہ فعلی مولاہ کے تحت لکھتے ہیں : رہی بات حدیث ولایت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی تو اس سے بھی استدلال کرنا درست نہیں ، اس لیے اس میں لفظ مولیٰ کو ذکر کیا گیا ہے اور عربی کلام میں ایسا ہوتا ہے کہ لفظ مولی کوذکر کرکے اس سے مدد گار مراد لیا جاتا ہے، ۔۔۔۔۔۔۔۔اس حدیث میں لفظ مولیٰ سے آقا اور غلام آزاد کرنے والا تو مراد نہیں لیا جا سکتا ، ہاں البتہ مددگار اور مُحبّ مراد لیا جاسکتا ہے ، اور محب و محبوب کے الفاظ سے استحقاق خلافت کا ثبوت نہیں فراہم ہوتا ، اسی وجہ سے ہم بھی یہی کہتے ہیں : اس حدیث سے حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد خلافت کا استحقاق ثابت نہیں ہوتا ۔ (اصول الدین مترجم صفحہ 512 پروگریسو بکس لاہور)
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے بھی اپنی رفض توڑ کتاب " تحفہ اثناء عشریہ " میں اس روایت کا مطلب حضرت علی کی دوستی کو واجب ٹھہرانا اور دشمنی سے ڈرانا لکھا ہے ۔ (تحفہ اثناء عشریہ مترجم صفحہ نمبر 418،چشتی)
علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی علیہ الرحمہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں : حدیث مذکورہ میں مولا سے مراد محبوب ہے حدیث کے آخری دعائیہ الفاظ اس پر قرینہ ہیں ، حدیث میں کوئی لفظ ایسا موجود نہیں ، جو اس بات کا قرینہ بن سکے کہ مولا سے مراد امام ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ فرمانا : کہ "میں جس کا مولا ہوں" اس سے بعد والی بات کو سامعین کے ذہن میں پختہ کرنے کی غرض سے ہے ، اگر آپ اس موقع پر امامت علی ہی کا اعلان فرما رہے ہوتے ، تو اس سے صریح اور واضح تر لفظ میں امامت کا اعلان کر سکتے تھے ۔ (السیف المسلول مترجم صفحہ نمبر 244 فاروقی کتب خانہ ملتان)
امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : جس کا میں مولا اس کا یہ مولا ، دوست رکھ اسے جو اسے دوست رکھے ، اور دشمن رکھ اسے جو اس سے دشمنی کرے ۔ حدیث صحیح ہے ، اور اس میں بعض علمائے شان نے جو کلام کیا مقبول نہیں ، مگر تفضیلیہ یا رافضیہ کا مطلب اس سے کچھ نہیں نکلتا ۔ (مطلع القمرین ص70 کتب خانہ امام احمد رضا راولپنڈی)
تاجدار گولڑہ حضرت سیّدُنا پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : خُم غدیر کے واقعہ کے اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" بریدہ کی شکایت کی وجہ سے تھا اس کا مطلب یہ ہے ، کہ علی سے دوستی اور محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے دوستی ہے ۔
تاجدار گولڑہ حضرت سیّدُنا پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ آگے فرماتے ہیں : بریدہ اسلمی کے بیان واقعات و مبشرات اور اپنے مقام پر بیان شدہ نصوص قرآنیہ سے واضح ہوجاتا ہے ، کہ خُم غدیر والی حدیث کو سیدنا علی کی خلافت بلا فصل سے کوئی تعلق نہیں ۔
تاجدار گولڑہ حضرت سیّدُنا پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں : سیدنا علی حدیثِ خُم غدیر کو اپنی خلافت کے لئے سند نہیں سمجھے ہوئے تھے ۔ (تصفیہ مابین سُنّی و شیعہ ص 33-34 )
تاجدار گولڑہ حضرت سیّدُنا پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ مزد فرماتے ہیں : غدیر خم والی روایت کو مولیٰ علی رضی اللّٰه عنہ کی خلافت بلا فصل سے کوئی تعلق نہیں ۔ (تصفیہ مابین سنی و شیعہ صفحہ نمبر 3،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے آخری سفرحج سے مدینہ منورہ واپسی کے موقعہ پر غدیرخُم (جومکہ اورمدینہ کے درمیان ایک مقام ہے) پر خطبہ ارشاد فرمایا تھا جیسا کہ آپ نے اوپر پڑھا ، اوراس خطبہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت ارشاد فرمایا تھا '' من کنت مولاہ فعلی مولاہ '' جس کا میں دوست ہوں علی بھی اس کادوست ہے ، اس خطبہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مقصود یہ بتلانا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ کے محبوب اور مقرب بندے ہیں ، ان سے اور میرے اہل بیت سے تعلق رکھنا مقتضائے ایمان ہے ، اوران سے بغض و عداوت یا نفرت و کدورت ایمان کے منافی ہے ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا غدیرِ خُم میں '' من کنت مولاہ فعلی مولاہ '' ارشاد فرمانا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اعلان کےلیے نہیں بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قدر و منزلت بیان کرنے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کو ایک فریضہ لازمہ کے طور پر امت کی ذمہ داری قرار دینے کےلیے تھا ، اور الحمدللہ اہل سنت و جماعت اتباعِ سنت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی محبت کو اپنے ایمان کا جزء سمجھتے ہیں ۔
چونکہ یہ خطبہ ماہ ذوالحجہ میں ہی ارشاد فرمایا تھا ، اس لیے شیعہ فرقہ اورنیم رافضی اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کےلیے خلافت بلافصل ثابت کرتے ہیں ، اور ماہ ذوالحجہ کی اٹھارہ تاریخ کو اسی خطبہ کی مناسبت سے عید مناتے ہیں ، اور اسے عیدِ غدیر کا نام دیتے ہیں ۔ اس دن عید کی ابتداء کرنے والا ایک شیعہ رافضی حاکم معزالدولۃ تھا ، اس شخص نے 18ذوالحجہ 351 ہجری کو بغداد میں عیدِ غدیر منانے کا حکم دیا تھا اور اس کانام '' عید خُم غدیر '' رکھا ۔ جب کہ دوسری طرف ماہ ذوالحجہ کی اٹھارہ تاریخ کو خلیفہ سوم امیرالمومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت بھی ہے ۔ جس کاتقاضہ یہ ہے کہ اس دن اس طرح کی خرافات سے مسلمان دور رہیں ۔
حدیث مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ کا صحیح معنیٰ و مفہوم
محترم قارئینِ کرام : ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ۔ جمیع صحابہ عشرہ مبشرہ ، شہدا بدر احد رضی اللہ عنہم و تمام مومنین کے مولا ہیں ۔ مولا کا معنی دوست پیارا اور محبوب وغیرہ ہیں ۔ اس میں شک کرنے والا ناصبی اور خارجی ہی ہو سکتا ہے ۔ لیکن اس حدیث سے تفضیلیوں اور رافضیوں کا یہ کہنا کہ اس کا معنی آقا ہے اور اس سے پتا چلا کہ آپ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بھی آقا ہیں اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے افضل ہیں یہی رافضیوں کا عقیدہ ہے اور یہ کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ سارے نبیوں کے آقا ہیں باطل اور غلط ہے ۔
آئیے اس حدیثِ مبارکہ کا صحیح معنیٰ و مفہوم سمجھتے ہیں
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ ۔ (سورہ تحريم 66 : 4)
ترجمہ : سو بے شک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے ، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مددگار ہیں ۔
فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے
عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ کُهَيْلٍ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيْ سَرِيْحَةَ . . . أَوْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ، (شَکَّ شُعْبَةُ). . . عَنِ النَّبِيِّ، قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ . وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. (قَالَ :) وَ قَدْ رَوَی شُعْبَةُ هَذَا الحديث عَنْ مَيْمُوْنٍ أبِيْ عَبْدِ اﷲِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ۔
ترجمہ : حضرت شعبہ رضی اللہ عنہ، سلمہ بن کہیل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوطفیل سے سنا کہ ابوسریحہ . . . یا زید بن ارقم رضی اللہ عنہما ۔ . . سے مروی ہے (شعبہ کو راوی کے متعلق شک ہے) کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں ، اُس کا علی مولا ہے ۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہاکہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
شعبہ نے اس حدیث کو میمون ابو عبد اللہ سے ، اُنہوں نے زید بن ارقم سے اور اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب باب مناقب علي بن أبی طالب رضی الله عنه، 5 / 633، الحديث رقم : 3713، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 195، 204، الحديث رقم : 5071، 5096.وَ قَدْ رُوِيَ هَذَا الحديث عَنْ حُبْشِيّ بْنِ جُنَادَةْ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ. أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 134، الحديث رقم : 4652، والطبرانی فی المعجم الکبير، 12 / 78، الحديث رقم : 12593، ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1359، وحسام الدين الهندی فی کنزالعمال، 11 / 608، رقم : 32946، وابن عساکرفی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 77، 144، و خطيب البغدادی فی تاريخ بغداد، 12 / 343، و ابن کثير فی البدايه و النهايه، 5 / 451،،چشتی، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 108.وَ قَد رُوِيَ هَذَا الحديث أيضا عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ.أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1355، وابن ابی شيبه فی المصنف، 6 / 366، الحديث رقم : 32072 ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَ الحديث عَنْ ايُوْبٍ الْأَنْصَارِيِّ فِي الْکُتْبِ الآتِيَةِ.أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1354،چشتی،والطبرانی فی المعجم الکبير، 4 / 173، الحديث رقم : 4052، والطبرانی فی المعجم الاوسط، 1 / 229، الحديث رقم : 348.وَقَدَرُوِيِّ هَذَالحديث عَنْ بُرَيْدَةَ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ.أخرجه عبدالرزاق فی المصنف، 11 / 225، الحديث رقم : 20388، و الطبرانی فی المعجم الصغير، 1 : 71، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 143، وابن ابی عاصم فی السنه : 601، الحديث رقم : 1353، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 146، وابن کثيرفی البدايه و النهايه، 5 / 457، وحسام الدين هندی فی کنز العمال، 11 / 602، رقم : 32904.وَقَدْ رُوِيَ هَذَالحديث عَنْ مَالِکِ بْنِ حُوَيْرَثٍ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ.
أخرجه الطبرانی فی المعجم الکبير، 19 / 252، الحديث رقم : 646، و ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 177، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 106)
مفسّرِین کے نزدیک ’’مولیٰ ‘‘ کے معنیٰ
وہ تفاسیر جن میں مولا کے معنیٰ مددگار لکھے ہیں : اِس آیتِ مبارکہ میں وارِد لفظ’’ مولیٰ ‘‘کے معنیٰ وَلی اور ناصِر ( یعنی مدد گار) لکھے ہیں ۔ (1) تفسیرطَبَری جلد 12صفحہ154 ۔ (2) تفسیرقُرطُبی جلد 18 صفحہ 143 ۔ (3) تفسیرِکبیرجلد 10صفحہ570 ۔ (4) تفسیرِبَغْوی جلد 4صفحہ337 ۔ (5) تفسیرِ خازِن جلد 4صفحہ286 (6) تفسیرِ نَسفی صفحہ1257 ۔
اُن چار کتابوں کے نام بھی حاضِر ہیں جن میں آیتِ مبارَکہ کے لفظ ’’مولیٰ‘‘ کے معنیٰ ’’ناصر‘‘(یعنی مددگار) کئے گئے ہیں : (1) تفسیرِجلالینصفحہ465 ۔ (2) تفسیرِ رُوحُ الْمَعانی جلد 28 صفحہ481 ۔ (3) تفسیرِبیضاوی جلد 5صفحہ 356 ۔ (4) تفسیرابی سُعُود جلد 5 صفحہ 738 ۔
النھایہ میں لفظ مولا کے مختلف معانی بیان کیے گئے ہیں ۔ (1) رب (پرورش کرنیوالا (2) مالک ۔ سردار(3) انعام کرنیوالا (4) آزاد کرنیوالا (5) مدد گار (6) محبت کرنیوالا (7)تابع (پیروی کرنے والا) (8)پڑوسی (9) ابن العم (چچا زاد) (10) حلیف (دوستی کا معاہدہ کرنیوالا ) (11) عقید (معاہدہ کرنے والا ) (12) صھر (داماد، سسر ) (13)غلام (14) آزاد شدہ غلام (15) جس پر انعام ہوا (16) جو کسی چیز کا مختار ہو ۔ کسی کام کا ذمہ دار ہو ۔ اسے مولا اور ولی کہا جاتا ہے ۔ (17) جس کے ہاتھ پر کوئی اسلام قبول کرے وہ اس کا مولا ہے یعنی اس کا وارث ہوگا وغیرہ ۔ (ابن اثير، النهايه، 5 : 228،چشتی)
حکیم الامت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے الفاظ ’’جس کا میں مولیٰ ہوں علی بھی اُس کے مولیٰ ہیں ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں : مولیٰ کے بَہُت (سے)معنٰی ہیں : دوست، مددگار، آزاد شُدہ غلام،(غلام کو) آزاد کرنے والا مولیٰ۔اِس (حدیثِ پاک میں مولیٰ) کے معنٰی خلیفہ یا بادشاہ نہیں یہاں (مولیٰ) بمعنی دوست(اور) محبوب ہے یا بمعنی مددگار اورواقِعی حضرتِ سیِّدُناعلیُّ الْمُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم مسلمانوں کے دوست بھی ہیں ، مددگار بھی، اِس لئے آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو ’’مولیٰ علی‘‘ کہتے ہیں۔(مراٰۃ المناجیح ج۸ص۴۲۵)
مولىٰ کا صحیح مطلب
علم اللغة والنحو والأدب والانساب کے امام محمد بن زیاد ابن الاعرابی ابو عبدالله الہاشمی رح (١٥٠-٢٣١ ہجری) فرماتے ہیں : چچازاد ، آزاد کرنے والے، آزاد ہونے والے، کاروباری ساجھی، معاہدہ کرنے والے، محبت کرنے والے، با اثر اور دوست سب کو ((مولىٰ)) کہتے ہیں. نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا فرمان ہے : من كنت مولاه فعلي مولاه ۔
ترجمہ : جس کا میں دوست ہوں اس کا علی رضی اللہ عنہ بھی دوست ہے" . یعنی جو مجھ سے محبت رکھتا ہے، وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی محبت رکھے، ثعلب کہتے ہیں : رافضیوں (شیعہ) کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ پوری مخلوق کے مولا یعنی مالک ہیں ، اس معاملہ میں رافضی لوگ کفر کے مرتکب ہوۓ ہیں ، یہ بات تو عقلی اعتبار سے بھی غلط ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خرید و فروخت کرتے تھے ، جب تمام چیزیں ان کی ملکیت تھیں تو خرید و فروخت کیسی ؟ مذکورہ حدیث میں لفظ مولا، محبت اور دوستی کے باب سے ہیں ۔ (تاریخ دمشق، لامام ابن عساکر : ٤٢/٢٣٨، وسندہ صحیح،چشتی)
یمن میں قیام کے دوران حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو متعدد واقعات پیش آئے تھے۔ علماء سیرت نے اس میں متعدد روایات ذکر کی ہیں ان میں سے ایک بطور خلاصہ ذکر کی جاتی ہے ۔
سیرت کی روایات میں ہے کہ یمن کے علاقہ سے مال غنیمت میں کچھ لونڈیاں آئیں ۔ ان اموال غنائم سے بطور خمس حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک خادمہ حاصل کی اس پر دیگر ساتھیوں کو کچھ اعتراض ہوا۔ گو موقعہ پر کوئی خاص کشیسگی نہیں ہوئی ۔ پھر جب یہ حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حج سے واپسی پر مدینہ منورہ کے راستہ میں حضرت بریدہ بن خصیب اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی خدمت میں یہ اعتراض پیش کیا ۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم غدیر خم میں پہنچے تو اس مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے کچھ دیر آرام فرمایا ۔ اس دوران بعض صحابہ کی طرف سے وہ شکایات پیش کی گئیں جو سفرِ یمن میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق پیش آئی تھیں۔ غدیر خم کے مقام پر ١٨ ذوالحجہ ١٠ھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّمنے ایک خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس خطبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےجن ضروری امور کو ذکر فرمایا تھا ان میں سے ایک چیز رفع شبہات کے درجہ میں تھی ۔
وہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق تھی جو اعتراضات سفرِ یمن میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ہم سفر احباب کو ان کے خلاف پیدا ہوئے تھے ان کی مدافعت کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت بیان فرمائی۔ اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی امانت و دیانت کا واضح طور پر ذکر فرمایا ان کلمات میں ایک کلمہ سب سے زیادہ مشہور ہے ۔
من کنت مولاہ فعلی مولاہ
ان کلمات میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے اعتراضات کا ازالہ مقصؤد تھا اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت اور ان کے حسن کردار کا بیان کرنا پیش نظر تھا ۔ یہ ایک وقتی مسئلہ تھا اس فرمانِ نبوت کے ذریعہ حسن اسلوبی کے ساتھ اختتام پزیر ہو گیا ۔ مقام غدیرخم میں کوئی جنگ وغیرہ نہیں ہوئی ۔
رافضیوں کے عقیدے کا رد
غدیر خم کے واقعہ کو بعض لوگوں نے بڑی اہمیت دی ہے اور اس سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا فصل ثابت کرنے کےلیے نا کام کوشش کی ہے یہ لوگ اس واقعہ کومسئلہ خلافت کے لئے انتہائی درجہ کی قوی دلیل قرار دیتے ہیں یہاں پر چند اشیاء غور طلب ہیں ۔ ان پر توجہ فرمانے سے یہ واضح ہو جائے گا کہ یہ دلیل مسئلہ خلافت ہر گز ثابت نہیں کرتی ۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے متعلق شکایات کا ازالہ جن الفاظ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا ان میں یہ جملہ مزکور ہے کہ : من کنت مولا ہ فعلی مولاہ ، یعنی جس شخص کے لئے میں محبوب اور دوست ہوں پس علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ اس کے محبوب اور دوست ہیں ۔ یہاں پر مسئلہ خلافت و نیابت کا ذکر تک نہیں ہے ۔ اور نہ کسی جماعت کی طرف سے آپ کے سامنے خلافت کے مضمون کو زیر بحث لایا گیا ۔ اور نہ ہی کسی شخص نے اس کے متعلق کوئی سوال کیا جس کے جواب میں آپ نے یہ آپ نے یہ کلام فرمایا ہو ۔ پھر اس روایت کے اگلے الفاظ بھی غور طلب ہیں ان میں موالات اور معادات کو ایک دوسرے کے بالمقابل ذکر کیا ہے ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں مولٰی کے لفظ میں ولایت بمقابلہ عداوت ہے بمعنی خلافت نہیں ۔ روایت کے وہ الفاظ یہ ہیں : اللھم وال من ولاہ وعاد من عاداہ ۔ اللہ ! اسے دوست رکھ جو علی رضی اللہ تعالی عنہ سے دوستی رکھے اور اس سے عداوت رکھ جو علی رضی اللہ تعالی عنہ سے عداوت رکھے ۔
شیعہ اور تفضیلی نیم رافضی حضرات کے نزدیک روایت ھٰذا (من کنت مولاہ فعلی مولاہ) حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا فصل کےلیے نہایت اہم حجت اورقوی تر دلیل ہے ۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ رویت ھٰزا میں مولا کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے ، (یعنی جس کا مولا میں ہوں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی اس کے مولا ہیں) اور مولا کے معنی خلیفہ اور حاکم کے ہیں ۔ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم تمام امت کے مولا ہیں فلہٰذا اس فرمان کی بنا پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی تمام امت کے مولا ہیں اور یہ روایت مسلم بین الفریقین ہے ۔ اور متوارات میں اس کو شمار کیا جاتا ہے لہٰذا اس پر عقیدے کی بنیاد ہو سکتی ہے ۔ نیز اس نوع کی روایت کسی دوسرے صحابی کے حق میں وارد نہیں ہوئی ۔ فلہٰذا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا فصل کےلیے یہ نص صریح ہے اور آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے بعد تمام امت کےلیے خلیفہ اور حاکم ہیں ۔
روایت ھٰذا کے متعلق فریق مقابل کا یہ دعوٰی کہ یہ روایت بین الفریقین متواتر روایات میں سے ہے قابل غور ہے۔ یہ دعوٰی علی الالطلاق صحیح نہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ بعض اکابر محدثین نے اس روایت پر کلام کیا ہے ۔ اس وجہ سے اس روایت کو متواترات میں سے شمار کرنا صحیح نہیں ۔ یہ روایت اخبار آحاد میں سے ہے ۔ تاہم بعض علماء اس روایت کی صحت کے قائل ہیں اور روایت کو اپنے مفہوم کے اعتبار سے قبول کرتے ہیں ۔ بحر حال ہم بھی اس روایت کو تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد روایت ہٰزا کے معنی ومفہوم میں کلام جاری ہے اس پر توجہ فرمائیں ۔
یہ الفاظ کسی دوسرے صحابی کے لئے استعمال نہیں ہوئے یہ درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد شدہ غلام صحابی رسول حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا تھا : قال لزید انت اخونا ومولانا ، آپ ہمارے بھائی ہیں اور ہمارے مولٰے ہیں ۔ (مشکوۃ شریف صفحہ نمبر ۲۹۳ بحوالہ بخاری ومسلم باب بلوغ صغیرالفصل الاول)
روایت ھٰذا میں لفظ مولا وارد ہے
مولا کے معنی کتاب وسنت اورلغت عرب میں متعدد پائے جاتے ہیں
النہایہ لابن اثیرالجزری ۔ (جو لغت حدیث میں مشہور تصنیف ہے) میں مولا کہ سولہ عدد معانی ذکر کئے ہیں لیکن ان میں خلیفہ بلا فصل اور حاکم والا معنی کہیں نہیں ملتا یکسر مفقود ہے۔ یعنی لغت حدیث والوں نے مولا کا یہ معنی کہیں نہیں بیان کیا۔ باقی معانی انہوں نے لکھے ہیں ۔ (النہایہ فی غریب الحدیث ج۴ ص۲۳۱،چشتی)
اسی طرح ؛ المنجد ؛ میں مولا کے اکیس معنی ذکر کئے گے ہیں وہاں بھی مولا کا معنی خلیفہ یا حاکم نہیں پایا گیا۔ یہ تو کسی مسلمان کی تالیف نہیں ایک عسائی کی علمی کاوش ہے۔ سو یہ بات پختہ ہے کہ اس روایت میں مولا کا لفظ خلیفہ اور حاکم کے معنی میں ہر گز وارد نہیں۔ اس طرح کتاب اللہ اور دیگر احادیث صحیحہ میں مولا کا لفظ خلیفہ یا حاکم کے معنی میں کہیں مستعمل نہیں دیگر معانی میں وارد ہے ۔
اہل علم کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے خلافت بلا فصل ثابت کرنے کے لئے نص صریح درکار ہے ۔ لفظ ؛ مولا ؛ جیسے مجمل الفاظ جو متعدد معانی کے حامل ہوں اور مشترک طور پر مستعمل ہوتے ہیں سے یہ مدٰعی ہر گز ثابت نہیں ہو سکتا ۔
مختصر یہ کہ خلافت بلا فصل کا دعوٰی خاص ہے اور اس کے اثبات کے لئے جو دلیل پیش کی گئی ہے ۔ اس میں لفظ مولا اگر بمعنی حاکم ہو تو بھی یہ لفظ عام ہے دلیل عام مدعٰی خاص کو ثابت نہیں کرتی ۔ اگر بالفرض تسلیم کر بھی لیا جائے کہ خلافت بلا فصل کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے غدیر خم کے موقعہ پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں ارشاد فرمایا تھا اور جناب علی رضی اللہ تعالی عنہ بلا فصل خلیفہ نامزد تھے تو درج ذیل چیزوں پر غور فرمائیں اصل مسئلہ کی حقیقت واضح ہو جائے گی ۔
(1) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے وصآل مبارک سے کچھ قبل حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو ارشاد فرمایا کہ میں گمان کرتا ہوں کہ شاید نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا وصال ہو جائے اس بنا پر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر مسئلہ خلافت و امارت کے متعلق عرض کریں ۔ اگر یہ امارت ہم میں ہو گی تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے اور اگر امارت وخلافت ہمارے سوا دوسروں میں ہو گی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ہمارے متعلق لوگوں کو وصیت فرمادیں گے ۔ اس کے جواب میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اگر ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے مسئلہ خلافت و امارت کے متعلق سوال کیا اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ہمیں اس سے منع فرما دیا تونبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے بعد لوگ کبھی ہمیں خلافت کا موقع نہیں دیں گے ، اللہ کی قسم ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے میں اس بات کا ہر گز سوال نہیں کروں گا ۔ چناچہ حافظ ابن کثیر نے بحوالہ بخاری شریف ذکر کیا ہے : فقال علی انا واللہ لئن سئالنا ھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فمنعنا ھا لا یعطینا ھاالناس بعدہ وانی واللہ لا اسالہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ۔ (البدائیہ لابن کثیر ج۵ ص۲۲ تحت حالات مرض نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بحوالہ بخاری شریف،چشتی)
اس واقعہ نے واضح کر دیا ہے کہ خم غدیر کے موقعہ پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں کوئی فیصلہ خلافت نہیں ہوا تھا ، ورنہ طے شدہ امر کے لئے اولا تو حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ گفتگو ہی نہ فرماتے۔ ثانیا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ارشاد فرماتے کہ اس مسئلہ کا میرے حق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم غدیر خم میں فیصلہ فرما چکے ہیں ۔ لہٰذا اس سوال کی کوئی حاجت نہیں ہے ۔
(2) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے وصال کے بعد سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے خلیفہ منتخب ہونے کے موقعہ پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے حق میں اس نص صریح کو کیوں پیش نہیں فرمایا ؟
(3) تمام مہاجرین وانصار صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم جو غدیر خم کے موقعہ پر اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو براہ راست سننے والے تھے انہوں نے اس نص صریح کو یکسر کیسے فراموش کردیا ؟ اگر کوئی صاحب یہ کہنے کی جرائت کریں کہ ان حضرات کو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے نص صریح معلوم تھی مگر انہوں نے فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم بعض دیگر مصالح کی بنا پر پس پشت ڈال دیا اور اس سے اعراض کرتے ہوئے اس پر عمل درٓمد نہیں کیا۔ تو یہ کہنا حقیقت کے بر خلاف ہے۔ نہ شریعت کا مزاج اسے تسلیم کرتا ہے ۔ نہ عقل اسے ممکن مانتی ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ فرمان نبوت کی اطاعت صحابہ کرام کے لئے ایک اہم ترین مقصد حیات تھی۔ لہٰزا یہ تمام حضرات نبوت کیخلاف کیسے مجتمع ہو سکتے تھے لا تجتمع امتی علی الضلال ۔
(4) اس طرح دور صدیقی کے اختمام پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اکابر صحابہ کی اور اکابر بنی ہاشم کی موجودگی میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ منتخب فرمایا ، اس وقت حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں خلافت کے متعلق کسی نے یہ نص صریح پیش نہیں کی۔ حالانکہ یہ اثبات خلافت علوی کے لئے ایک اہم موقعہ تھا ۔
(5) اسی طرح حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ اپنی شہادت کے موقعہ پر خلیفہ کے انتخاب کے لئے ایک کیٹی مقرر کی تھی ۔ جس طرح کہ اہل سیرت و تاریخ کو معلوم ہے پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے وصال کے بعد ان حضرات کا باہمی مشوہ ہوا اور انتخاب کا مکمل اختیار حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کو دیا تھا ، پھر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدنا حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ منتخب فرمایا ۔ تو اس موقعہ پر کسی ہا شمی ! غیر ہاشمی غدیر خم والی نص صریح کو پیش نہیں کیا ۔
(6) حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد جب لوگ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوئے تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے بیعت لینے سے نکار کر دیا ۔ اور بنی عمرو بن مبدول کے باغ میں جا کر الگ بیٹھ گئے اور دروازہ بند کر لیا ۔ جیسا کہ حافظ ابن کثیر نے البدایہ میں ذکر کیا ہے کہ : وقد امتنع علی رضی اللہ عنہ من احابتہم الی قبول الامارۃ حتی تکرر قولہم لہ وفرمنہم الی حائط بنی عمر بن مبدول واغلق بابہ َ ۔ (البدایہ ج۷ ص ۲۲۵ ۔ قبل ذکر بیعت علی بالخلافۃ)
اور شیعہ علماء نے اس سلسلہ میں خود حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا کلام نہج البلاغہ میں ذکر کیا ہے کہ جب لوگ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ : دعونی والتمسوا غیری ۔ ۔ ۔ وان ترکتمونی فانا کاحدکم ولعلی اسمعکم واطوعکم لمن ولیتموہامرکم وانالکم وزیرا خیرلکم منی امیرا ۔ ترجمہ : (بیعت کے معاملہ میں ) مجھے تم چھوڑ دو اور میرے سوا کسی اور کو تلاش کر لو ۔۔۔۔ اور اگر مجھے تم چھوڑ دو گئے تو میں تم میں سے ایک فرد ہونگا ۔ اور جس شخص کو تم اپنے امر کا والی بناو گئے امید ہے کہ میں اس کا تم سب سے زیادہ تابعدار اور زیدہ مطیع ہوں گا اور میرا تمہارے لئے وزیر رہنا امیر بننے سے زیادہ بہتر ہے ۔ (نہج الباغۃ للسیدالشریف ارضی ص۱۸۱۔ طبع مصر ۔ تحت ومن خطبۃ لہ علیہ السلام لما ارید علی البیت بعد قتل عثمان،چشتی)
مندرجات بالا کی روشنی میں واضح ہو کہ سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اولا انکار فرمایا ۔ اگرچہ بعد میں دیگر اکابر صحابہ کرام عیہم الرضوان کے اصرار پر بیعت لینا منظور فرمالیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ غدیر خم یا کسی دیگر مقام میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا فصل کےلیے کوئی نص صریح موجود نہیں ورنہ آپ انالکم وزیرا خیرلکم منی امیرا جیسا کلام نہ فرماتے ۔
(7) امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے صاحبزادے حضرت حسن مثنٰی رضی اللہ عنہ کے سامنے ان کے ایک عقیدت مند نے کہا کہ ۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ : من کنت مولا ہ فعلی مولا ہ : جس کا میں مولا اس کے علی مولا ہیں ۔ اس کے جواب میں حضرت حسن مثنٰی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : اما واللہ لویعنی بذالک الامرۃ والسلطٰن لا فصح لہم بذالک کما افصح لہم بالصلوۃوالزکوۃ وصیام رمضان وحج البیت ویقال لھم ایہاالناس ھذا ولیکم من بعدی فان افصح الناس کان للناس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
ترجمہ : اگر اس جملہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی مراد امارت اور سلطنت ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ، زکوۃ، روزہ رمضان ، اورحج بیت اللہ کی طرح واضح طور پر اس کا حکم صادر فرماتے اور فرمادیتے کہ اے لوگو ! علی میرے بعد تمہارے حاکم ہیں ۔ کیونہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم تمام لوگوں سے زیادہ فصیح ( اور افصح الناس ) تھے ۔ (طبقات ابن سعد ج۵ تحت تذکرہ حسن بن حسن رضی اللہ عنہم)
اس حدیث پر تین طرح سے کلام کیا گیا ہے
(1) اس کی سند کے بارے میں : علماء میں کثیر اختلاف موجود ہے کہ یہ روایت صحیح ہے یا نہیں حتی کہ امام بخاری و مسلم نے اپنی صحیحین میں اس کو نقل نہیں کیا ۔ بلکہ اس کی بجائے حضرت زید کے بارے میں یہ الفا ظ بخاری میں موجود ہیں ۔ انت اخوناو مولانا ۔۔ زید توں ہمارا بھائی اور مولا ہے ۔۔ یہ تفضیلی بیان کرنے سے پہلے ہی مر جائے گے ۔ لیکن ہمیں اس کی سند پر کلام ضرر نہیں دیتا کہ فضائل میں ہمارے نزدیک ضعیف تو کیا شدید ضعیف بھی قبول ہے ۔ ہاں جب اس حدیث سے اجماعی عقیدے کو رد کیا جانے لگے تو پھر علماء اس کی سند اور معنی پر کلام کرتے ہیں ۔
(2) اس حدیث کے شان ورود کے بارے میں : نبی کریم کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں جب بھی کسی جلیل القدر صحابی پرکوئی دوسرے صحابی اعتراض یا طعن کرتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اپنے صحابی کا بڑے اہتمام سے دفاع کرتے تھے ۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی مخالفت ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے منبر پر تشریف لے جا کر خطبہ دیا اور فرمایا عباس مجھ سے ہے میں عباس سے ہوں ۔ (مسند احمد2734،چشتی)
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی امارت کی مخالفت ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کھڑے ہوگئے اور دفاع کیا اور فرمایا اس کا باپ اور یہ (زید) امارت کے حق دار ہیں اور مجھے سب لوگوں سے زیادہ پیارے ہیں ۔ (صحیح بخاری 4250)
حضرت عمر اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہما کا اختلاف ہو گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم جلال میں آگئے اور بار بار فرمایا کیا تم میرے لیے میرے ساتھی کو چھوڑتے ہو ؟ میں نے کہا تھا اےلوگوں ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں تم سب نے کہا تم جھوٹ بولتے ہو ۔ ابوبکر نے کہا آپ نے سچ کہا ۔ (صحیح بخاری4640)
اسی طرح جب یمن کے کچھ لوگوں نے بار بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی بارگاہ میں آکر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم جلال میں آگئے اور حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : من کنت ولیہ فعلی ولیہ ۔۔ جس کا میں ولی ہوں علی بھی اس کا ولی ہے ۔ (ترمذی3713)
چاروں واقعات کو دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ صرف مولا علی نہیں بلکہ کسی بھی جلیل القدر صحابی رضی اللہ عنہم کی ناموس کا مسئلہ ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اہتمام کے ساتھ دفاع کرتے تھے ۔ یہاں سے تفضیلیوں اور رافضیوں کی خیانت بھی پاش پاش ہوجاتی کہ خم غدیر میں یوں اہتمام حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خاصہ نہیں بلکہ کئی اصحاب کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے محبت کا اظہار فرمایا اور دفاع کیا ۔ لیکن کیا کیا جائے یہودیوں کے پیدا کردہ رافضیوں کی شاخ تفضیلیت میں افتومنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض کااثر تو موجود ہونا ہی تھا ۔ ایک کا ذکر کرتے اور دوسرا ؟
(3) اس حدیث کے معنی کے اعتبار سے ۔ رافضی اور تفضیلی کہتے ہیں مولا کا یہاں معنی آقا ہے جبکہ حدیث کا تقاضا ہے کہ یہاں معنی دوست پیارا اور محبوب ہونا چاہیے کہ دوسری روایت میں فرمایا ۔ اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ ، اے اللہ جو علی کو دوست رکھے تو ںبھی اسے دوست رکھ اور جو علی کو دشمن سمجھے توں بھی اسے دشمن رکھ ۔ اب تفضیلی اور رافضی حضرات ذرا اس حدیث میں آقا کا معنی کر کے دیکھائیں ؟ دشمن کے مقابلے میں دوست آتا ہے آقا نہیں ۔ اب چلیے اقوال علماء کی طرف ۔
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حدیث مولاہ اگر اس کو صحیح مان بھی لیا جائے (گویا کہ آپ کے نزدیک صحیح نہیں) تو بھی اس میں یہ دلیل نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولایت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے بعد ہے (پھر شان ورودبیان کیا جو اوپر ذکر ہوا اور فرمایا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نےارادہ فرمایا : کہ آپ کی خصوصیت اور آپ سے محبت بیان کی جائے اور ابھارہ جائے لوگوں کو کہ آپ سے محبت رکھی جائے اور دشمنی چھوڑ دی جائے ۔ اس حدیث میں ولا سے مراد اسلامی بھائی چارہ اور محبت ہے ۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ ایک دوسرے سے محبت کریں ۔ ایک دوسرے سے دشمنی نہ رکھیں ۔ (الاعتقاد صفحہ 497)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اس حدیث کا معنی معتمد علماء کی معتمد تحقیق کے مطابق ہے : جس کا میں مولا ، ناصر ، تعلق والا ،پیارااور دلی دوست ہوں تو علی رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی ہے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اس حدیث سے اسلامی محبت و بھائی چارہ مراد لیا ہے ۔ (فتاوی نوویہ 252،چشتی)
امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس کا معنی ہے جس کو میں ولی بناؤں علی رضی اللہ عنہ بھی اس کو ولی بنائے گا ۔ ولی دشمن کی ضد ہے (دشمن کی ضد دوست ہوتی ہے آقا نہیں) ۔ یعنی جس کو میں پیار کرتا ہوں علی بھی اس سے پیار کرتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے اس کا معنی ہے ۔ جو مجھے دوست رکھے گا علی رضی اللہ عنہ بھی اس کو دوست رکھے گا ۔ (مرقاہ جلد11 صفحہ 247)
شیخ محقق حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ولی کا معنی دوست ، محب اور مددگار ہے ۔ (اشعہ للمعات شرح مشکوہ ص 454 جلد7)
چند صفحات بعد حدیث مولاہ پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ابن حجر فرماتے ہیں کہ ہم تسلیم نہیں کرتے کہ مولا کا معنی حاکم اور والی ہے بلکہ اس کا معنی محبوب اور مددگار ہے کیونکہ لفظ مولیٰ کئی معنی میں مشترک ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعض معانی کو دلیل کے بغیر معین کرنا ناقابل اعتبار ہے (جیسا کہ تفضیلی کرتے ہیں) ۔ (اشعہ للمعات شرح مشکوہ جلد 7 صفحہ 462،چشتی)
حضرت خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ اس کا معنی بیان کرتے ہیں جس کا میں مولا اور محبوب ہوں علی بھی اس کا مولا اور دوست ہے (اور کے عطف سے مولی کا معنی بیان کر دیا) ۔ (مقابیس المجالس صفحہ 918)
خواجہ قمرالدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یعنی جس کا میں دوست ہوں علی بھی ان کا دوست ہے ظاہر ہے کہ قرآن میں مولی بمعنی دوست ہے دیکھوآیت کریمہ قال ان اللہ ھو مولاہ وجبریل و صالح المومنین ۔ اب مولا کا معنی حاکم یا امام یا امیر کرنا صراحتہً قرآن کریم کی مخالفت ہے اور تفسیر بالرائے ہے اور کون مسلمان یہ نہیں مانتا کہ حضرت سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے دوستوں کے دوست ہیں ۔ (مذہب شیعہ از خواجہ قمرالدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ)
علاّمہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب لکھتے ہیں : مولیٰ اسمائے مشترکہ میں سے ہے کبھی اس سے مراد ولی ہوتا ہے اور کبھی اس سے مراد مددگار ہوتا ہے یہی اس لفظ کے معانی میں سے سب سے زیادہ واضح ہے ۔ اور کبھی اس سے آزاد کرنے والا مراد لیا جاتا ہے ۔ حدیث کا معنی یہ ہے کہ جس کامیں ولی ہو ں علی اس کا ولی ہے اور جس کا میں حبیب ہوں علی اس کا حبیب ہے او ر جس کا میں مددگار ہوں علی اس کا مدد گار ہے ۔ (عظمت صحابیت اور حقیقت خلافت صفحہ نمبر 316)
کسی ایک نے بھی مولیٰ کا معنی آقا حاکم ، خلیفہ باطن بلا فصل نہیں کیا قرآن و حدیث سے من مانا عقیدہ تفضلیوں کا ثابت نہ ہو سکا ۔ اس سے واضح ہو گیا کہ ۔ من کنت مولاہ فعلی مولاہ ۔ کا جملہ اکابر ہاشمی حضرات کے نزدیک بھی خلافت بلا فصل کے لئے نص صریح نہیں ۔ مندرجہ عنوان کے تحت جن چیزوں کو ذکر کیا گیا ہے ان تمام پر غور کر لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ غدیر خم کے موقعہ پر جو فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم صادر ہوا اس کا حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا فصل کے ساتھ کچھ تعلق نہیں ہے اور نہ ہی مسئلہ خلافت وہاں مطلوب و مقصود تھا ۔ بلکہ وقتی تقاضوں کے مطابق اس میں دیگر مقاصد پیش نظر تھے جن کو وہاں پورا کردیا گیا اللہ کریم ہمیں سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔
فضائل و مناقب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 8
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ظاہری و باطنی خلافت کے فریب کا جواب : اکابرینِ اہلسنت نے آج تک کسی رافضی و تفضیلی کےلیے گنجائش نہیں رکھی ۔ وقت گزرتا رہا ، لوگ پینترے بدل بدل کر اہلسنت میں گھس کر بد عقیدگی پھیلانے کی کوشش کرتے رہے ۔ لیکن کامیاب نہ ہو سکے ۔ ایسی ہی کوشش آج کل کے تفضیلی رافضیوں نے شروع کی ہوٸی ہے ظاہری لبادہ اہلسنت کا اوڑھا اور باطن میں تفضیلیت و رافضیت لے بیٹھے ۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کو ظاہر کا لباس پہنایا اور باطن کا انکار کر دیا ۔ اور باطن میں مولا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بلا فصل اور افضل البشر کہنا شروع کر دیا ۔ جب کوئی سوال کرے کہ جناب آپ سنی ہیں ۔ ابو بکر صدیق کی افضلیت کو مانتے ہوں ۔ جواب جی ہاں کیوں نہیں ۔ نعرہ صدیقیہ یا صدیق اکبر ۔ لیکن باطنی خلافت اور افضلیت مولا علی کو حاصل ہے ۔ ساتھ میں لکھ دیا ۔ ظاہری کی کوئی فضیلت نہیں ۔ باطن کی ہی فضیلت ہے ۔ اہلسنت و جماعت کا سلفاً خلفاً عقیدہ رہا ہے کہ انبیاء اور رسل کے بعد سب سے افضل شخص حضرت ابوبکر پھر عمر پھر عثمان اور پھر مولا علی رضی اللہ عنہم ہیں ۔ افضیلت چاہے ظاہری ہو یا باطنی کیونکہ شیخین رضی اللہ عنہما مقامِ نبوت سے فیض یافتہ ہیں جو کہ مقامِ ولایت سے اعلیٰ ہے ۔ اسی کو حضرت صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمہ اللہ بہار شریعت میں بیان کرتے ہیں : بعد انبیا و مرسلین ، تمام مخلوقاتِ الٰہی انس و جن و مَلک سے افضل صدیق اکبر ہیں ، پھر عمر فاروقِ اعظم ، پھر عثمان غنی ، پھر مولیٰ علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہم ۔ (بہار شریعت خلافت راشدہ کا بیان)
مزید فرماتے ہیں : تمام اولیائے محمدیّین میں سب سے زیادہ معرفت وقربِ الٰہی میں خلفائے اَربعہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہم ہیں اور اُن میں ترتیب وہی ترتیب افضلیت ہے ، سب سے زیادہ معرفت و قرب صدیقِ اکبر کو ہے ، پھر فاروقِ اعظم ، پھر ذو النورَین ، پھر مولیٰ مرتضیٰ کو رضی ﷲ تعالیٰ عنم اجمعین ۔ ہاں مرتبہ تکمیل پر حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جانبِ کمالاتِ نبوت حضراتِ شیخین کو قائم فرمایا اور جانبِ کمالاتِ ولایت حضرت مولیٰ مشکل کشا کو ۔ تو جملہ اولیائے مابعد نے مولیٰ علی ہی کے گھر سے نعمت پائی اور انہیں کے دست نگر تھے ، اور ہیں ، اور رہیں گے ۔ (بہارِ شریعت ولایت کا بیان،چشتی)
عارف باللہ شیخ طریقت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ(المتوفی 638ھ) اپنی معروف کتاب فتوحات مکیہ میں مقام خلفاء راشدین کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ان اولیاء میں سے وہ لوگ بھی ہیں جنکے لیے ایک ظاہری حکم ہوتا ہے اور انکے لیے جیسے خلافت ظاہرہ ہوتی ہے اسی طرح خلافت باطنہ بھی ہوتی ہے جیسے ابوبکر،عمر،عثمان،علی، حسن، معاویہ بن یزید،عمر بن عبدالعزیز اور متوکل اور ان میں سے وہ لوگ بھی ہیں جنکے لیے صرف خلافت باطنہ ہوتی ہے جیسے احمد بن ہارون الرشید السبتی اور ابو یزید بسطامی ۔ (الفتوحات المکیہ باب 73 صفحہ 297)
شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کی اس عبارت سے معلوم ہوا کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سمیت بقیہ تینوں خلفاء جیسے ظاہری خلافت سے متصف تھے اسی طرح باطنی خلافت سے بھی متصف تھے اور جو عروج و کمال خلافت ظاہرہ میں حاصل تھا ایسا ہی کمال خلافت باطنہ میں حاصل تھا اس سے ان لوگوں سبق حاصل کرنا چاہیے جو دن رات ظاہری باطنی کا راگ الاپتے ہیں وہ خود تو باطنی فیوض سے کورے ہیں ہی صحابہ جیسے جلیل القدر ہستیوں کو بھی اپنی کور باطنی کے سبب خلافت باطنہ سے محروم رکھنے کی سعی لاحاصل کرتے ہیں ایسے لوگوں کو اللہ ہدایت عطا فرمائے آمین ۔
یہی عقیدہ جناب ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے بڑی طویل وضاحت کے ساتھ اپنی کتاب سلوک و تصوف کا علمی دستور میں اور اس کے ساتھ ساتھ شاہ ولی اللہ اور فلسفہ خودی کے صفحہ نمبر 30 پر نقل کیا ہے ۔ موصوف لکھتے ہیں : ⬇
طریق نبوت
طریق ولایت
ہر دو طریق میں واضح فرق کرتے ہوئے شاہ صاحب فرماتے ہیں طریق نبوت کلی فضیلت کا حامل ہے اور طریق ولایت جزوی فضیلت کا ۔ طریقِ نبوت کا منتہیٰ اور نقطہ عروج مفہمیت اور مجددیت کے مقامات ہیں مجددیت اور مفہمیت کا مقام ولایت کے ہر مقام سے اس لیے بلند ہےکہ مجدد نہ صرف ہمہ وقت خالق کی طرف متوجہ رہتا ہے بلکہ اس تعلق کو بکمال وبتمام قائم رکھتے ہوئے خالق کا فیضان سنت مصطفوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیروی میںخلق خدا تک پہنچاتا رہتا ہے۔اس لئے وہ مرد حق اپنے کمال کی منزل طریق نبوت سے پاتا ہے ۔ اس کامقام کہیں بلند ہےاس شخص سے جو کمال کو طریق ولایت سے حاصل کرتا ہے ۔ اس دوران شاہ صاحب نے فضیلتِ شیخین رضی اللہ عنہما کے عجیب علمی مسئلے کو بھی حل فرمادیا ۔ فرماتے ہیں تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر کیوں فضیلت حاصل ہے باوجودیکہ حضرت علی اس امت میں سب سے پہلے صوفی ، مجذوب اور عارف ہیں اور یہ کمالات دیگر صحابہ میں نہیں ہیں مگر صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے طفیل میں قلت اور کمی کے ساتھ موجود ہیں غرضیکہ یہ مسئلہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حضور میں عرض کیا تو یہ چیز مجھ پر ظاہر ہوئی کہ فضل کلی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نزدیک وہ ہے جو تمام امرِ نبوت کی طرف راجع ہو ، جیسا کہ اشاعت علم اور دین کے لیے لوگوں کی تسخیر اور جو چیزیں اس کے مناسب ہوں اور رہا وہ فضل جو ولایت کی طرف راجع ہو جیسا کہ جذب اور فناء تو یہ ایک فضل جزئی ہے اور اس میں ایک وجہ سے ضعف ہے ۔ اور شیخین رضی اللہ عنہما اول قسم کے ساتھ مخصوص تھے حتیٰ کہ میں انہیں فوارہ کے طریق پر دیکھتا ہوں کہ اس میں سے پانی پھوٹ رہا ہے تو جو عنایات نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر ہوئیں وہی بعینہ حضرت شیخین رضی اللہ عنہما پر ظاہر ہوئیں تو آپ دونوں حضرات کمالات کے اعتبار سے ایسے عرض کے مرتبہ میں ہیں جو جوہر کے ساتھ قائم ہے اور اس کے تحقق کو پورا کرنے والا ہے لہٰذا حضرت علی کرم اللہ وجہہ اگرچہ آپ کے بہت قریب ہیں نسب و حیات اور فطرت محبوبہ میں حضرات شیخین سے اور جذب میں بہت قوی اور معرفت میں بہت زائد ہیں مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم باعتبار کمال نبوت حضرات شیخین سے کی طرف زیادہ مائل ہیں اور اسی بنا پر جو علماء معارف نبوت سے باخبر ہیں شیخین کو فضیلت دیتے ہیں اور جو علماء معارف ولایت سے آگاہ ہیں وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو فضیلت دیتے ہیں اور اسی بنا پر حضرت شیخین کا مدفن بعینہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مدفن تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے باوجود انوار ولایت کے بھی حامل ہونے کے دین کی اشاعت کا کام زیادہ لیا گیا ہے اور سیدنا علی المرتضٰی کرم اللہ وجہہ سے باوجود انوار نبوت کے بھی حامل ہونے کے امت میں ولایت و روحانیت کے فروغ کا کام زیادہ لیا گیا ہے چنانچہ بیشتر سلاسل طریقت آپ ہی سے شروع ہوتے ہیں ۔ (سلوک و تصوف کا علمی دستور کے صفحہ نمبر 137 ، 138)
حاصل شدہ نکات : حضرت ابوبکر و عمر طریق نبوت سے فیض یافتہ ہے اور حضرت علی طریق ولایت سے ۔ طریق نبوت طریق ولایت سے افضل ، اعلیٰ اور اکمل ہے ۔ طریق نبوت کو ہر لحاظ سے فضیلت حاصل ہے اور طریق ولایت کو بعض لحاظ سے بلکہ اس میں ایک وجہ سے ضعف پایا جاتا ہے ۔ پکڑ لیتے ہیں ۔ یہی عقیدہِ اہل سنت ہے ۔
تفظیلیوں یہ بھی کہتے ہیں کہ : حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی فضیلت ، فرائضِ خلافت ، اقامتِ دین ، اسلام اور امت کی ذمہ داریوں سے متعلق ہے ۔ ائمہ نے افضلیت کی جو ترتیب بیان کی ہے وہ خلافت ظاہری کی ترتیب پر قائم ہے ۔ ولایت باطنی جو ’’من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘‘ کے ذریعے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عطا ہوئی اس میں وہی یکتا ہیں ۔ گویا کہ تفضیلیوں کے نزندیک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ساری فضیلتیں خلافت کے بعد ہیں پہلے کی نہیں ہیں ۔ کونسی خلافت کیسی خلافت اس کا وزن کیا ہے ؟
شیخین کریمین رضی اللہ عنہما کی جو بھی فضیلت ہے وہ مشاورتی ووٹنگ سے ہے افضلیت بھی اسی طرح ملی گویا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کی بارگاہ سے کوئی فضیلت نہیں ۔ افضل البشر کا عقیدہ بعدکا ہے ۔
کاش کہ تفضیلی حضرات عمدہ القاری ہی دیکھ لیتے ۔ علامه عینی رحمة اللہ علیہ لكھتے ہیں : باب فضل أبي بكر بعد النبي صلى الله عليه وسلم ، ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے بار ے میں باب ۔ أي : هذا باب في بيان فضل أبي بكر ، رضي الله تعالى عنه، بعد فضل النبي صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم . وليس المراد البعدية الزمانية، لأن فضل أبي بكر كان ثابتا في حياته صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم ۔
ترجمہ : یہ باب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کے بعد ابوبکر صدیق کے افضل ہونے کے بارے میں ہے ۔ بعد سے یہ مراد نہیں کہ آپ کے وصال کے بعد فضیلت ملی (جیسا کہ تفضیلیوں نے سمجھا) بلکہ ابوبکر صدیق کی فضیلت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کی حیات میں ہی ثابت شدہ ہے ۔ کہ : 5563 - حدثنا عبد العزيز بن عبد الله حدثنا سليمان عن يحيى بن سعيد عن نافع عن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما قال كنا نخير بين الناس في زمن النبي صلى الله عليه وسلم فنخير أبا بكر ثم عمر بن الخطاب ثم عثمان بن عفان رضي الله تعالى عنهم ۔ (الحديث 5563 طرفه في: 7963،چشتی)
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کے زمانے میں لوگوں کے درمیان بہتری کے درجے بنایا کرتے تھے ۔ ہم یہ کہا کرتے تھے کہ ابوبکر سب سے بہتر ہیں ۔ پھر ان کے بعد عمر پھر ان کے بعد عثمان ۔ یہ فضیلت صحابہ سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کے زمانے میں ہی دیتے تھے ۔
مطابقته للترجمة من حيث إن فضل أبي بكر ثبت في أيام النبي صلى الله عليه وسلم، بعد فضل النبي صلى الله عليه وسلم ۔
علامہ بدر الدین عینی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس حدیث اور باب کے عنوان میں مناسبت یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کے بعد ابوبکر صدیق کی فضیلت آپ کے زمانے میں ثابت شدہ ہے ۔ (عمدہ القاری صفحہ 246 جلد 16،چشتی)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : قوله باب فضل أبي بكر بعد النبي صلى الله عليه وسلم ۔ أي في رتبة الفضل وليس المراد البعدية الزمانية فإن فضل أبي بكر كان ثابتا في حياته صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم كما دل عليه حديث الباب ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کے بعد ابوبكر كی فضیلت كے بارے میں باب ۔ یعنی فضیلت کے رتبے کے بارے میں ۔ بعد سے زمانے کا بعد مراد نہیں ہے کیونکہ ابوبکر کی فضیلت توسرکار صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کے زمانے میں ثابت تھی جیسا کہ اس باب کی حدیث اس پر دلالت کرتی ہے ۔ (فتح الباری صفحہ 16 جلد 7)
اولا تو سائل کو اتنی سمجھ بھی نہیں کہ خلافت کی ترتیب میں افضلیت نہیں بلکہ اولیت کہنا درست ہے ۔ افضلیت کا تعلق باطنی درجات اور ولایت باطنی سے ہی ہوا کرتا ہے نہ کہ خلافت کی ترتیب سے ۔ یہی وجہ ہے کہ علماء و صوفیا ء نے مولا علی کو ولایت میں افضل کہنے والے کو رافضی قرار دیا ہے ۔ کماسیاتی بیانہ (جس کا بیان آئے گا) ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی خلافت ظاہری سے پہلے سیدنا صدیق اکبر کو مصلائے امامت پر کھڑا کیا (بخاری) ۔ خلافت ظاہری سے پہلے ہی فرما دیا میرے بعد ابو بکر اور عمر کی پیروی کرنا (ترمذی) خلافت ظاہری سے پہلے ہی فرما دیا تھا ابوبکر اور عمر جنتی بوڑھوں کے سردار ہیں (ترمذی) خلافت ظاہری سے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابو بکر کو اپنا خلیل بناتا ۔ (بخاری) خلافت ظاہری سے پہلے ہی فرما دیا تھاکہ مجھ پر تمام لوگوں سے زیادہ احسانات ابوبکر کے ہیں ۔ (ترمذی) ۔ خلافت ظاہری سے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ میری امت میں سے میری امت پر سب سے بڑا رحم دل ابوبکر ہے ۔ (ترمذی) خلافت ظاہری سے پہلے ہی خلفاء اربعہ کو تمام نبیوں اور رسولوں کے بعد سب سے افضل قرار دیا ۔ (شفاء) خلافت ظاہری سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کی موجودگی میں صحابہ کرام کا اس بات پر اجماع تھا کہ اس امت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کے بعد سب سے افضل ابوبکر پھر عمر پھر عثمان رضی اللہ عنہم ہیں ۔ (بخاری) خلافت ظاہری سے پہلے ہی فرمادیا تھا کہ ابوبکر سے بہتر شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ۔ (مجمع الزوائد)
خلافت ظاہری سے پہلے ہی آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے فرمایا دیا تھا اللہ اور مومنین ابوبکر کے سوا کسی اور کےلیے راضی ہی نا ہوں گے (مسلم) ۔ اس سے بڑی کیا دلیل ہو گی ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ حدیث من کنت مولاہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کی زبردست فضیلت بیان ہوئی ہے ۔ اللہم اجعلنا فی زمرته و فى من والاه ۔ مگر اس کے ذریعے ولایت باطنی کا عطا ہونا تفضیلیوں کا اپنا مفروضہ ہے اس حدیث کا شان ورود یہ ہے کے یمن کے غزوہ میں مولا علی کے کچھ ساتھیوں کو آپ رضی اللہ تعالی عنہ سے شکایت ہوئی حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم سے اس شکایت کا اظہار کیا اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے فرمایا کہ من کنت مولاہ فعلی مولاہ یہ صورتحال بتا رہی ہے کہ یہاں مولا سے مراد دوست اور محبوب ہے اور اس حدیث کا ولایت باطنی سے کوئی تعلق نہیں ۔
حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : حدیث موالات کی اگر سند صحیح بھی ہو تو اس میں ولایت علی پرنص ہم نے اپنی کتاب الفضائل میں واضح طور پر لکھ دیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کا مقصود کیا تھا ؟ ۔ بات یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے یمن میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیجا تو ساتھیوں نے ان کے خلاف کثرت سے شکایت کی اور بغض کا اظہار کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے اپنے ساتھ ان کے خصوصی تعلق اور ان سے محبت کو ظاہر کرنے کا ارادہ فرمایا اور اس کے ذریعے آپ سے محبت اور دوستی رکھنے کی رغبت دلائی اور عداوت ترک کرانا چاہی ، لہٰذا فرمایا من كنت وليه فعلي وليه اور بعض روایات میں ہے ۔ من کنت مولاہ فعلی مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاده ، اور اس سے مراد اسلامی دوستی اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی محبت ہے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ایک دوسرے سے محبت کریں اور ایک دوسرے سے عداوت نہ رکھے یہ حدیث اس معنی میں ہے جیسے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا قسم ہے اللہ کی مجھ سے نبی امی صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے وعدہ فرمایا ہے کہ مجھ سے مومن کے سوا محبت کوئی نہ کرے گا اور منافق کے سوا بغض کوئی نہ رکھے گا ۔ الْمُرَادُ بِهِ وَلَاءُ الْإِسْلَامِ وَمَودَّتُهُ، وَعَلَى الْمُسْلِمِينَ أَنْ يوَالِيَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا وَلَا يُعَادِي بَعْضُهُمْ بَعْضًا وَهُوَ فِي مَعْنَى مَا ثَبَتَ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ۔ (الاعتقاد نویسنده : البيهقي، أبو بكر جلد : 1 صفحه : 354 مطبوعہ دار الآفاق بيروت،چشتی)
یہ تھے امام شافعی رحمة اللہ علیہ جن کے ادھورے شعر پڑھ پڑھ کر ماڈرن تفضیلی رافضی عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں پوری حدیث دیکھیئے امام شافعی کی شخصیت دیکھئے اور پھر ان کی وضاحت دیکھیے ۔
حضرت خواجہ غلام فرید رحمة اللہ علیہ کوٹ مٹھن والے نے تین صفحات پر اس حدیث کی زبردست وضاحت فرمائی ہے فرماتے ہیں کہ یہاں مولا کے معنی سید سردار حاکم اور لائک امامت کے نہیں بلکہ اس کے معنی ناصر اور محبوب کے ہیں ۔ (مقابیس المجالس صفحہ نمبر 920)
شیخ الاسلام حضرت خواجہ محمد قمر الدین سیالوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں : اسی طرح یہ بھی ابلا فریبی ہے کہ حضرت علی کی خلافت بلا فصل کی دلیل میں خم غدیر کی روایت پیش کی جاتی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کے متعلق فرمایا کے من کنت مولا ہ فعلی مولاہ ، یعنی جن کا میں دوست ہوں علی بھی اس کے دوست ہیں ظاہر ہے کہ قرآن کریم میں مولا بمعنی دوست ہے دیکھیے آیت کریم : فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَ مَوۡلٰىہُ وَ جِبۡرِیۡلُ وَ صَالِحُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۚ ۔ یعنی اللہ کے محبوب کا دوست اللہ عزوجل ہے اور جبریل ہے اور نیک بندے ہیں ہیں ۔ (مذہب شیعہ صفحہ 90)
ادھر الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۔ کی نص قرآن میں موجود ہے یعنی تمام مومن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے مولا ہیں ۔
الَّذِينَ يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ ۔ کی تفسیر میں امام باقر رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان مولا علی کے بارے میں موجود ہے کہ : علی من الذین اٰمنو ۔ یعنی مولا علی بھی مومنین میں شامل ہیں ۔ (تفسیر ابن جر یر جلد 14 صفحہ 356،چشتی)(تفسیر بغوی جلد 2 صفحہ 47)۔(تفسیر ابن کثیر جلد 2 صفحہ 102)
حدیث پاک میں تمام صحابہ کرام کے بارے میں محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فمن أحبهم فبحبي أحبهم، ومن أبغضهم فببغضي أبغضهم ، یعنی جس نے ان سے محبت رکھیں پس اس نے میری محبت کی وجہ سے ان کو محبوب جانا اور جس نے ان سے بغض رکھا میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا ۔ خود اسی حدیث میں اللهم وال من والاه وعاداه سے ولایت کا مفہوم متعین ہو رہا ہے یعنی اے اللہ جو علی کو مولا بنائے تو اسے اپنا مولا بنا اور اس سے دشمنی رکھے تو اب سے اپنا دشمن بنا یہاں مولا کا لفظ دشمن کے مقابلے پر استعمال ہوا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں مولا با معنی محبوب اور دوست ہے نا کہ مولا بمعنی آقا ۔
امام طبری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : يكون المولى بمعنى الولى ضد العدو ۔ یعنی مولا کا معنی دوست ہوتا ہے جو دشمن کی ضد ہے ۔ (الریاض النظرہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 227)
بلکہ اس سے بڑھ کر متعدد روایات میں ہے کہ : اللهم احب من احبه و ابغض من ابغضه ۔ یعنی اے اللہ جو علی سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ اور جو اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ ۔ اور بعض روایات میں ہے و اخذل من خذله ۔ یعنی اے اللہ جو اسے رسوا کرنے کی کوشش کرے تو اسے رسوا کر اور بعض روایات میں ہے کہ وانصر من نصره یعنی جو اس کی مدد کرے تو اس کی مدد کر اسی طرح کے الفاظ میں تفسیر کی انتہا کر دی گئی ہے ۔ اور اگر مولا بمعنی آقا لیا جائے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو انبیاء علیہم السلام کے بھی آقا ہیں تو کیا حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم تمام انبیاء کے بھی آپ آقا ہوں گے ؟
بتائیے تفضیلیو آپ لوگوں کے عقائد و ظریات سے قدم قدم پر غالی رافضیت لازم آتی ہے کہ نہیں ؟
حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے فرمایا : اللهُمَّ حَبِّبْ عُبَيْدَكَ هَذَا - يَعْنِي أَبَا هُرَيْرَةَ - وَأُمَّهُ إِلَى عِبَادِكَ الْمُؤْمِنِينَ ، وَحَبِّبْ إِلَيْهِمِ الْمُؤْمِنِينَ ۔ یعنی اے اللہ اپنے اس بندے ابوہریرہ اور اس کی ماں کو تمام مومنوں کا محبوب بنا دے اور مومنوں کو ان کا محبوب بنا دے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : فَمَا خُلِقَ مُؤْمِنٌ يَسْمَعُ بِي وَلَا يَرَانِي إِلَّا أَحَبَّنِي ۔ یعنی کوئی ایسا مومن پیدا نہیں ہو گا جو میرے بارے میں سنے اور مجھ سے محبت نہ کرے خواہ اس نے مجھے دیکھا نہ ہو ۔ (صحيح مسلم نویسنده : مسلم جلد : 4 صفحه : 1938 مطبوعہ دار إحياء التراث العربي - بيروت،چشتی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا ۔ انت اخونا ومولانا یعنی تم ہمارے بھائی اور ہمارے مولا ہو گیا ۔ (بخاری حدیث نمبر 2699)
مولا علی مشکل کشا کرم اللہ وجہہ الکریم کی ولایت باطنی اور اس کی رفعتوں میں کوئی شک نہیں مگر خلفاۓ ثلاثہ میں ولایت باطنی مولا علی کی نسبت رفیع تر ہے اور اس میں ان کی یکتائی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے فرمایا لو کنت متخذا خلیلا الحدیث یعنی اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا ہے اس میں صدیق اکبر ہی یکتا ہیں اور صدیق کی یکتائی آپ کو نظر کیوں نہیں آئی ؟
صدیق اکبر کا لقب آسمانوں سے عطا کیے جانے میں صدیق ہی یکتا ہیں اور صدیقیت ولایت باطنی کا اعلی ترین رتبہ ہے صدیق کی یکتائی آپ کو نظر کیوں نہیں آئی ؟
قرآن فرماتا ہے : ثانی اثنین اذ ھما فی الغار اس میں صدیق اکبر ہی یکتا ہیں جب قرآن نے ہی صدیق کو نبی کا ثانی کہہ دیا تو صدیق کی یکتائی آپ کو نظر کیوں نہیں آئی ؟
اذ يقول لصاحبه میں بھی صدیق اکبر ہی یکتا ہیں اور یہ لقب قرآن نے کسی دوسرے صحابی کو نہیں دیا صدیق کی یہ یکتائی آپ کو نظر کیوں نہیں آئی ؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے فرمایا کے ابوبکر سے بہتر شخص سورج نے نہیں دیکھا اس میں صدیق اکبر ہی یکتا ہیں اور صدیق کی یہ یکتائی آپ کو نظر کیوں نہیں آئی ؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے انہیں خود مصلّی امامت پر کھڑا کیا اور اگر کسی دوسرے کی تجویز دی گئی تو آپ نے لا ، لا ، لا ، فرما کر انکار کر دیا ۔ (سنن ابی داود رقم الحدیث4661)
اور یابی اللہ والمومنون الا ابابكر کی تصریح فرما دی یعنی ابوبکر کے سوا کسی کو امام ماننے سے اللہ اور اس کے فرشتے انکار کر رہے ہیں ۔ (مسلم رقم الحدیث6181)
اس میں صدیق اکبر ہی یکتا ہیں صدیق کی یہ یکتائی آپ کو نظر کیوں نہیں آئی ؟
ارحم امتی بامتی ابوبکر یعنی میری امت میں میری امت پر سب سے زیادہ رحم کرنے والا ابوبکر ہے اس میں محبوب کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کی رحمۃ اللعالمینی کا عکس اپنے مکمل آب و تاب کے ساتھ جلوہ فگن ہے اس میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی یکتا ہیں صدیق کی یہ یکتائی آپ کو نظر کیوں نہیں آئی ؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے فرمایا کہ مجھ پر تمام لوگوں سے زیادہ احسانات ابوبکر کے ہیں وہی ہیں امن الناس بر مولائے ما اس میں وہی یکتا ہیں صدیق کی یہ یکتائی آپ کو نظر کیوں نہیں آئی ؟
رافضی اور تفضیلی لوگ صدیق اکبر اور مولا علی رضی اللہ تعالی عنہما میں قدم اسلام کا موازنہ لے کر بیٹھ گئے مگر علماء کا یہ لکھنا کے صدیق اکبر تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اعلان نبوت سے پہلے شام کے تجارتی سفر کے دوران ہی ایمان لے آئے تھے اس وقت مولا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت بھی نہیں ہوئی تھی ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 30)
اس میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی یکتا ہیں صدیق کی یہ یکتائی آپ کو نظر کیوں نہیں آئی ؟
اور یہ بھی فرمائیے کہ مستدرک میں امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث نقل فرمائی ہے کہ ابوبکر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وزیر تھے آپ ان سے ہر معاملے میں مشورہ لیتے تھے آپ اسلام میں ان کے ثانی تھے غار میں ان کے ثانی تھے بدر کے دن عرش میں ان کے ثانی تھے اور قبر میں ان کے ثانی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان سے آگے کسی کو نہیں سمجھتے تھے اصل الفاظ یہ ہیں : كَانَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَانَ الْوَزِيرِ، فَكَانَ يُشَاوِرُهُ فِي جَمِيعِ أُمُورِهِ، وَكَانَ ثَانِيَةً فِي الْإِسْلَامِ، وَكَانَ ثَانِيَةً فِي الْغَارِ، وَكَانَ ثَانِيَةً فِي الْعَرِيشِ يَوْمَ بَدْرٍ، وَكَانَ ثَانِيَةً فِي الْقَبْرِ ، وَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ يُقِدِّمُ عَلَيْهِ أَحَدًا ۔ (المستدرك على الصحيحين نویسنده : الحاكم، أبو عبد الله جلد : 3 صفحه : 66 مطبوعہ دار الكتب العلمية - بيروت،چشتی)
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی یہ تمام یکتائیاں آپ کو نظر کیوں نہ آئیں ؟
اس پر پوری امت کا اجماع ہے کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تمام اولین و آخرین میں سے ولایت میں سب سے افضل ہیں : فهو افضل اوليائ من الاولین و الاٰخرین وقد حكى الاجماع على ذالك ۔ (شرح فقہ اکبر صفحہ 61)
عین ممکن ہے کہ کسی کی رگ رافضیت پھڑک اٹھے اور ہم پر مولا علی رضی اللہ عنہ کے خصائص کے انکار کا الزام لگا دے بدگمانی اور جان بوجھ کر الزام تراشی ان لوگوں کی عادت ہے لہٰذا ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ مولا علی رضی اللہ عنہ کے خصائص میں آل رسول کا جد امجد ہونا اقضی الصحابہ ہونا مولائے جمیع مومنین ہونے کا خصوصی اعلان خیبر کے دن جھنڈا عطا ہونا مسجد شریف میں سے جنابت کی حالت میں گزرنے کی اجازت کا ہونا لايئودى عنى الا انا او على کا اعزاز انت منی بمنزلة ہارون من موسی وغیرہ شامل ہیں بلکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کے خلفاء کی تعداد تیرہ بتائی ہے : لَقَدْ كَانَتْ لَهُ ثَلَاثَةَ عَشَرَ مَنْقَبَةً، مَا كَانَتْ لِأَحَدٍ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ ۔ (المعجم الأوسط نویسنده : الطبراني جلد : 8 صفحه : 212 مطبوعہ دار الحرمين - القاهرة)
یہ باتیں آپ کی فضیلت کا ثبوت ہے لیکن افضلیت کا ثبوت نہیں ۔ لیکن آپ رضی اللہ عنہ کے بے شمار فضائل ایسے بھی ہیں جنہیں روافض نے آپ رضی اللہ عنہ کے خصائص بناکر مشہور کر دیا ہے اور ہمارے بھولے بھالے سنی بھی تحقیق کیے بغیر سر مارتے چلے جاتے ہیں مثلا مشہور کر دیا گیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی مولود کعبہ ہیں حالانکہ حضرت حکیم بن حزام ضی اللہ عنہ بھی کعبہ میں پیدا ہوئے تھے امام حاکم لکھتے ہیں : أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَالَوَيْهِ، ثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ الْحَرْبِيُّ، ثَنَا مُصْعَبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، فَذَكَرَ نَسَبَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ وَزَادَ فِيهِ، «§وَأُمُّهُ فَاخِتَةُ بِنْتُ زُهَيْرِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى، وَكَانَتْ وَلَدَتْ حَكِيمًا فِي الْكَعْبَةِ وَهِيَ حَامِلٌ، فَضَرَبَهَا الْمَخَاضُ، وَهِيَ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ، فَوَلَدَتْ فِيهَا فَحُمِلَتْ فِي نِطَعٍ، وَغُسِلَ مَا كَانَ تَحْتَهَا مِنَ الثِّيَابِ عِنْدَ حَوْضِ زَمْزَمَ، وَلَمْ يُولَدْ قَبْلَهُ، وَلَا بَعْدَهُ فِي الْكَعْبَةِ أَحَدٌ ۔
ترجمہ : حضرت مصعب بن عبداللہ نے حکیم بن حزام کا نسب بیان کیا اور فرمایا کہ ان کی والدہ ام فاختہ بنت زہیربن اسد بن عبدالعزی تھیں انہوں نے حکیم کو کعبہ میں جنم دیا جبکہ حاملہ تھیں ان کو کعبہ کے اندرونی حصہ میں پیدائش کا درد ہوا تو حکیم کو کعبہ کے اندر ہی جنم دیا انہوں نے اسے بغل میں لے لیا اور حوض زمزم کے پاس آکر کپڑوں کو دو یا حکیم سے پہلے بھی کسی نے کعبہ میں جنم نہ لیا تھا اور ان کے بعد بھی کوئی کعبہ میں پیدا نہ ہوا ۔ (المستدرك على الصحيحين نویسنده : الحاكم، أبو عبد الله جلد 3 صفحه 550 الرقم 6044 مطبوعہ دار الكتب العلمية بيروت)
یہ بات نقل کرنے کے بعد امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : قال الحاکم وَهَمُّ مُصْعَبٍ فِي الْحَرْفِ الْأَخِيرِ، فَقَدْ تَوَاتَرَتِ الْأَخْبَارِ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَسَدٍ وَلَدَتْ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ ۔
ترجمہ : حاکم کہتا ہے کہ آخری جملہ بولنے میں مصعب کع وہم ہوا ہے تواتر کے ساتھ اخبار موجود ہے کہ سیدہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا نے امید المومنین علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کو کعبہ کے اندر جنم دیا ہے ۔ (المستدرك على الصحيحين نویسنده : الحاكم، أبو عبد الله جلد 3 صفحه : 550 الرقم 6044 مطبوعہ دار الكتب العلمية بيروت)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ولد حكيم فى جوف الكعبة، ولا يُعرف أحد ولد فيها غيره، وأما ما روى أن على بن أبى طالب، رضى الله عنه، ولد فيها، فضعيف عند العلماء ۔
ترجمہ : حکیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے اور ان کے علاوہ کسی کا کعبہ میں پیدا ہونا نہیں جانا گیا اور وہ جو حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ کعبہ میں پیدا ہوئے وہ روایت علماء کے نزدیک ضعیف ہے ۔
وأما ما روى أن على بن أبى طالب، رضى الله عنه، ولد فيها، فضعيف عند العلماء ۔ (تهذيب الأسماء واللغات نویسنده : النووي، أبو زكريا جلد : 1 صفحه : 166 مطبوعہ دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان،چشتی)
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : قَالَ شَيْخُ الْإِسْلَامِ: وَلَا يُعْرَفُ ذَلِكَ لِغَيْرِهِ، وَمَا وَقَعَ فِي مُسْتَدْرَكِ الْحَاكِمِ مِنْ أَنَّ عَلِيًّا وُلِدَ فِيهَا ضَعِيفٌ ۔
ترجمہ : شیخ الاسلام نے کہا ہے کہ حضرت حکیم بن حزام کے سوا کسی کا کعبہ میں پیدا ہونا نہیں جانا گیا اور مستدرک حاکم میں جو لکھا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے وہ ضعیف ہے ۔ (تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي نویسنده : السيوطي، جلال الدين جلد : 2 صفحه : 880 مطبوعہ دار طيبة)
عبدالرحمٰن محمد سعید دمشقی لکھتے ہیں : مجھے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے کعبہ میں پیدا ہونے کے بارے میں حدیث کی کتابوں میں کوئی چیز نہیں ملی بلکہ حضرت حکیم بن حزام کا کعبہ میں پیدا ہونا ثابت ہے حاکم کے عجائبات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے حضرت حکیم بن حزام کے کعبہ میں پیدا ہونے والی روایت کے بعد یہ لکھا ہے کہ حضرت علی کا کعبہ میں پیدا ہونا تواتر سے ثابت ہے ، چاہیے تو یہ تھا کہ حاکم اس متواتر روایت کو پیش کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیرت ہے حاکم پر جو تساہل میں اور تشیع میں مشہور ہے کہ انہوں نے اس تواتر کا دعوی کیسے کر دیا ۔ كان اللائق به ان يأتى بتلك الرواية المتواترة الخ ۔ (احادیث یحتج بھا الشیعة صفحہ 122) ۔ اس کے علاوہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کا کعبہ شریف میں پیدا ہونا بے شمار کتب میں مذکور ہے مثلا : ⬇
صحیح مسلم رقم الحدیث3869
معرفت الصحابہ لابی نعیم جلد 2صفحہ 70
سیر اعلام النبلا جلد 3 صفحہ 46
الاعلام جلد 2 صفحہ 259
نصب الرایہ جلد 4 صفحہ 2
الاکمال فی اسماء الرجال لصاحب علم لصاحب المشکوة 591
کتاب المجر صفحہ 176
الاصابہ فی تمییز الصحابہ ابن حجر صفحہ 397
تہذیب التہذیب جلد 2 صفحہ 182
ازالۃ الخفاء جلد 2 صفحہ 291
فیض القدیر جلد 2 صفحہ 37
ہم نے صرف نقل کرنے پر اکتفا کیا ہے اور کوئی تبصرہ نہیں کیا جاؤ آسمان علم و فقر کے ان درخشندہ ستاروں پر جاکر فتوی بازی کرو جن کی مثال کبھی نہ لا سکو گے ۔
اسی طرح یہ بھی مشہور کر دیا گیا ہے کہ : صرف مولا علی رضی اللہ عنہ علم کا دروازہ ہیں حالانکہ فبايهم اقتديتم اهتديتم وغیرہ سے صاف ظاہر ہے کہ دیگر صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم بھی علم کا دروازہ ہے ان میں سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو علم و فضل کی بنا پر تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا امام بنایا گیا ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث 678)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا بچا ہوا سارا علم پی لیا ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث 2190)(صحیح بخاری رقم الحدیث 82،3681،7006، 7027،7032،چشتی)(ترمزی رقم الحدیث 2284)(مستدرک للحاکم رقم الحدیث 4552)
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سب سے بڑے قاری ہیں حضرت زید بن ثابت کا سب سے زیادہ علم میراث کے ماہر ہیں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ حلال اور حرام کا علم رکھتے ہیں مولا علی رضی اللہ عنہ سب سے بڑے قاضی ہیں یہ سب باتیں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بیان فرمائی ہیں اور ترمذی جلد 2 صفحہ 219 پر موجود ہے اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سب سے بڑے حافظ الحدیث ہے ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث119،چشتی)
حضرت عبداللہ بن عباس کو دین کی فقہ اور حکمت عطا ہوئی ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث 57)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے لوگوں کو حکم دیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے قرآن سیکھو ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث3760)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ہمراز ہیں جس سے ان کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث3761)
اسی لیے امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث باب العلم کی شرح میں لکھا ہے کہ ای باب من ابواب العلم یعنی مولا علی علم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے لہٰذا باب العلم ہونا مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا ثبوت ضرور ہے مگر یہ افضلیت کا ثبوت نہیں ۔
اسی طرح یہ بھی مشہور کردیا گیا ہے کہ : صرف حضرے علی رضی اللہ عنہ کا چہرہ دیکھنا عبادت ہے یہ بات اپنی جگہ پر حق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ اور تمام انبیاء و صحابہ تابعین رضی اللہ عنہم بلکہ تمام اولیاء کا چہرہ دیکھنا عبادت ہے ۔ اس شخص کو آگ نہیں چھو سکتی جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھا ہو یا جس نے صحابی کو دیکھا ہو (ترمذی رقم الحدیث3858)
پھر مولا علی رضی اللہ عنہ کا چہرہ دیکھنا عبادت کیوں نہ ہوگا لیکن یہ آپ کا خاصہ نہیں ثانیا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم صدیق اکبر اور فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہما کی طرف دیکھتے تھے اور مسکراتے تھے اور وہ دونوں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھ کر مسکراتے تھے ۔ (ترمذی رقم الحدیث3668)
کعبہ کی طرف دیکھنا بھی عبادت ہے قرآن شریف کے صحیفے میں دیکھ کر پڑھنا ہزار گناہ زیادہ صاحب رکھتا ہے ۔ (شعب الایمان للبیہقی رقم الحدیث 2218،چشتی)(مشکوۃ رقم الحدیث2167)
ماں باپ کی طرف محبت کی نظر سے صرف ایک مرتبہ دیکھنے سے مقبول حج کا ثواب ملتا ہے ۔ (مشکاۃ صفحہ 421)
اور اللہ کے ولی کی نشانی ہی یہ ہے کہ جب اسے دیکھا جائے تو اللہ یاد آجائے ۔ (ابن ماجہ رقم الحدیث4119)
لہٰذا اس میں مولا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت موجود ہے مگر یہ آپ کا خاصہ نہیں ان تمام احادیث میں وجہ اشتراک محض عبادت ہے ورنہ مقام اور مرتبے کا فرق اپنی جگہ مسلم ہے ۔
یہ بھی مشہور کر دیا گیا ہے کہ صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر عبادت ہے حالانکہ کے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جس طرح اپنی نعت سنانے کا حضرت حسان رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم فرمایا اسی طرح ایک دن پوچھا قلت فى ابى بكر شئيا کیا تم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی منقبت لکھی ہے انہوں نے عرض کیا جی ہاں فرمایا سناؤ میں سننا چاہتا ہوں انہوں نے وہ منقبت سنائی ۔ (مستدرک للحاکم رقم الحدیث4468،4518،چشتی)
یہ صدیق اکبر ضی اللہ عنہ کا خاصہ ہے ۔
مستدرک میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک زبردست قول موجود ہے کہ جب صالحین کا ذکر ہو تو عمر کی بات ضرور کرو ۔ (مستدرک للحاکم رقم الحدیث4578)
خود مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : اذا ذكر الصالحون فحيهلا بعمر ۔ (معجم الاوسط للطبرانی رقم الحدیث5549)(تاریخ الخلفاء صفحہ 94)
بلکہ تمام صالحین کے بارے میں فرمایا کہ ذکر الصالحین کفارۃ یعنی صالحین کا تذکرہ گناہوں کا کفارہ ہے ۔ (الجامع الصغیر رقم الحدیث 4331)
لہٰذا اس حدیث میں بھی مولا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت موجود ہے مگر یہاں پر رضی اللہ عنہ کا خاصہ نہیں ۔
داماد رسول ہونا بھی آپ رضی اللہ عنہ کی فضیلت ہے اور بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا خاصہ نہیں بلکہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اس پوری کائنات میں واحد ایسی شخصیت ہیں جنہیں کسی نبی کی دو شہزادیوں کا شوہر ہونے کا شرف حاصل ہے ہاں اس میں ایک پہلو سیدہ النساء علی ابیہا و علیہا الصلاۃ وسلام کی جہت سے خاصیت کا موجود ہے اس میں کوئی شک نہیں اور اسے ہم آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے خصائص میں بیان کرتے ہیں ۔
اسی طرح علی منی وانا من علی کو بھی مولا علی رضی اللہ عنہ کا خاصہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ یہی الفاظ سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں بھی موجود ہیں ۔ (ترمذی رقم الحدیث3775)
یہی الفاظ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی موجود ہیں اور کتاب وہی ہے ۔ (ترمذی رقم الحدیث3759)(مشکوۃ رقم الحدیث 6157)
یہی الفاظ پورے قبیلہ اشعری کے بارے میں بھی موجود ہیں : الاشعریون هم منی وانا منھم ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث2486)(صحیح مسلم رقم الحدیث6408)
یہی الفاظ حضرت جلیبیب رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں بھی موجود ہیں کہ : جلیبیب منی وانا من جلیبیب جلیبیب منی وانا من جلیبیب ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث6358)
بلکہ اہل علم کی توجہ کےلیے عرض ہے کہ : ھوالذی بعث فی الامیین رسولا منھم منھم کے لفظ پر غور فرمائیے اور اس کے برعکس إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ پر بھی غور فرمائیں بعض احادیث مثلا من غش فلیس منی جیسے الفاظ پر غور فرما لیجئے ان شاء اللہ العزیز سینہ کھل جائے گا اور آپ پر واضح ہو جائے گا کہ کس طرح بات کا بتنگڑ بنا دیا گیا ہے تاہم اس میں بھی مولا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت ضرور موجود ہے مگر یہ بھی آپ رضی اللہ عنہ کا خاصہ نہیں اور نہ ہی افضلیت کا ثبوت ہے ۔
اسی طرح کہا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنا بھائی قرار دیا تھا یہ آپ کا خاصہ ہے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے صدیق اکبر کو بھی اپنا بھائی قرار دیا ہے ولکن اخی و صاحبی ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث3656)(صحیح مسلم رقم الحدیث6172)
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو فرمایا : اشر کنا یا اخی دعائک یعنی اے میرے بھائی ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا ۔ (سنن ابی داود رقم الحدیث1498)(ترمزی رقم الحدیث1980،چشتی)(مشکواۃ المصابیح رقم الحدیث2248)
حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضرت عمر فاروق کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا بھائی قرار دیا ۔ (الریاض النضرۃ جلد 1 صفحہ 318)
لہٰذا یہ بھی مولا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق خاصہ نہیں ہاں مواخات مدینہ کی خصوصی جہت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی کو اخوا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہونے کا شرف و اعزاز حاصل ہے ۔
مواخات کا یہ مخصوص گوشہ چچازاد بھائی ہونے کے سبب اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے کاشانہ اقدس میں پرورش پانے کے سبب اور دیگر فضائل کی وجہ سے ہے نہ کہ افضلیت کی وجہ سے ان سب فضیلتوں کے پیش نظر مولا علی رضی اللہ عنہ ہی اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بھائی بنتے تو بات سجتی تھا ۔ لہٰذا اس میں بھی مولا علی رضی اللہ عنہ کی بڑی پیاری فضیلت موجود ہے مگر یہ آپ کی افضلیت کا ثبوت نہیں اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مولا علی رضی اللہ عنہ کا بغض منافقت کی نشانی ہے اور آپ کی محبت ایمان کی نشانی ہے یہ بات بلکل حق ہے مگر یہ آپ رضی اللہ عنہ کا خاصہ نہیں حدیث شریف میں ہے کہ : آية الإيمان حب الأنصار وآية النفاق بغض الأنصار ۔ انصار کی محبت ایمان کی نشانی ہے اور انصار کا بغض منافقت کی نشانی ہے ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث3784)(صحیح مسلم رقم الحدیث 235،236،237،238،239)(نسائی رقم الحدیث5019)
اسی طرح تمام کے تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کے بارے میں فرمایا کہ : فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ ۔
یعنی جس نے ان سے محبت رکھی پس اس نے میری محبت کی وجہ سے ان کو محبوب جانا اور جس نے ان سے بغض رکھا میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا ۔ (ترمذی رقم الحدیث 3862،چشتی)(مسند احمد رقم الحدیث 16808)(مشکوۃ رقم الحدیث 6014)
اسی طرح کی احادیث کو پس پشت ڈال کر خوارج والی منافقت کے سوا باقی ہر طرح کی منافقت کو روا کر دیا گیا ہے حالانکہ جس طرح خروج منافقت ہے اسی طرح رافضیت بھی منافقت ہے اور جمیع صاحب اہل بیت رضی اللہ عنہم کی محبت صحیح ایمان ہے ۔
فقیر نہایت افسوس کے ساتھ یہ بات لکھ رہا ہے کہ مولا علی رضی اللہ عنہ کے جو فضائل اہل سنت کی کتب میں درج ہیں انہیں روافض و تفضیلیوں نے متفق علیہ بنا ڈالا اور باقی صحابہ رضی اللہ عنہم کے فضائل خواہ کتنی کثرت اور کتنی ہی قوت سے کتب اہل سنت میں موجود ہوں اور صرف فضیلت پر ہی نہیں بلکہ افضلیت پر دلالت کر رہے ہوں انہیں پس پشت ڈال دیا گیا ہے یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کو افضلیت بنا ڈالتے ہیں اور جب ہم افضلیت کی نفی کرتے ہیں تو اسے فضیلت کی نفی پر محمول کرتے ہیں ان کا یہ فریب خود سمجھ لو ۔
دوسری طرف یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ جہاں بغض علی رضی اللہ عنہ منافقت ہے وہاں حد سے زیادہ حبِ علی رضی اللہ عنہ بھی سراپا بے ایمانی ہے اور تباہی ہے اور ان عاشقوں سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ خود بے زار ہیں اس موضوع پر مولا علی کرم اللہ وجہ الکریم کے ارشادات موجود ہیں ان نام نہاد عاشقوں کے ہاں محبت اور بغض کا معیار بھی عجیب ہے ایک عشق کہتا ہے کہ جو شخص علی رضی اللہ عنہ کے ذکر کے ساتھ دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کی بات چھیڑ دے اس کے دل میں علی رضی اللہ عنہ کا بغض ہے اگر آپ نے اس ظالم کی بات مان لی اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کا ذکر خیر کرنا چھوڑ دیا تو دوسرا عشق بولے گا کہ جو شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ولایت میں اور علم میں خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم سے افضل نہیں مانتا اس کے دل میں علی رضی اللہ عنہ کا بغض ہے اگر آپ نے اس ظالم کی بات بھی مان لی تو تیسرا عاشق بولے گا جو شخص کھل کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلافہ ثلاثہ سے افضل نہیں مانتا اس کے دل میں علی رضی اللہ عنہ کا بغض ہے ۔ اگر آپ نے اس ظالم کی بات بھی مان لی تو چوتھا عاشق بولے گا جو شخص خلفاۓ ثلاثہ رضی اللہ عنہم پر تبرا نہیں بولتا اس کے دل میں علی رضی اللہ عنہ کا بغض ہے ۔ اگر آپ نے اس ظالم کی بات بھی مان لی تو اب بھی آپ کچے پکے عاشق ہیں اصل عاشق وہ ہے جو علی رضی اللہ عنہ کو نفسِ خدا نفسِ رسول جبریل کا استاد وحی کا صحیح حقدار تمام انبیاء علیہم السلام سے افضل اور صحیح معنی میں حجت اللہ علی الخلق اصلی قرآن کا جامع اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مشکل کشا مانے اور تقیے کی باریکیوں کو سمجھے لے ۔ ہمارے مذکورہ الفاظ قابل غور اور معنی خیز ہیں ہر کس و ناکس ان کے پس منظر میں پوشیدہ شیعہ عقائد کو نہیں سمجھ سکتا اور جس شخص کا مطالعہ نہیں ہے وہ پاٹے خان نہ بنے اور اس پر قیاس آرائی اور طبع آزمائی نا فرمائے ہم دعوے کے ساتھ یہ بات عرض کر رہے ہیں کہ جو شخص شیعہ مذہب کے بارے میں نرم گوشہ رکھتا ہے وہ خود شیعہ ہے یا پھر اس نے اس مذہب کا مطالعہ ہی نہیں کیا ۔
فضائل و مناقب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 9
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
صدیقِ اکبر کون ؟ مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں صدیق اکبر ہوں تحقیق و فریب کا جواب : رافضی شیعہ اور تقیہ (یعنی جھوٹ) کی آڑ میں چھپے رافضی کہتے ہیں کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے خود فرمایا کہ میں صدیق اکبر ہوں ، تو گذارش ہے کہ یہ ان کا اپنا قول ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کا فرمان نہیں ہے ۔ انہوں نے اپنے بعد کا کہا ہے ، پہلے کی بات نہیں کی ۔ انہیں بھی پتہ تھا کہ مجھ سے پہلے بھی صدیق ہے ۔ اس لیے آپ کا یہ قول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد کا تھا ، نہ کہ ان کی صدیقیت کی نفی تھی ۔ اس سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صداقت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ کیونکہ انہیں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم نے خود صدیق کا لقب عطا فرمایا ہے ۔
رافضی شیعہ اور تقیہ (یعنی جھوٹ) کی آڑ میں چھپے رافضی بھی یہ قولِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ پیش کرتے ہیں ۔ رافضی شیعہ اور تقیہ (یعنی جھوٹ) کی آڑ میں چھپے رافضی حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو صدیق اکبر قرار دیتے ہیں اور دلیل میں ایک منکر اور باطل روایت پیش کرتے ہیں روایت یہ ہے : عباد بن عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ أنَا عَبْدُ اللَّهِ و أَخُو رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأنَا الصِّدِّيقُ الأَكْبَرُ لَا يَقُولُهَا بَعْدِي إلَّا کَذَّابٌ صَلَّيْتُ قَبْلَ النَّاسِ بِسَبْعِ سِنِينَ ۔
ترجمہ : عباد بن عبد اللہ سے روایت ہے جس نے کہا : علی علیہ السلام نے فرمایا : میں اللہ کا بندہ ہوں اور میں اللہ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کا بھائی ہوں اور میں صدیق اکبر ہوں ۔۔ تقیہ ۔۔ میں نے لوگوں سے سات سال پہلے نماز پڑھی ۔ (سنن ابن ماجة ، ج1 ، ص 44)(البداية والنهاية ، ج3 ، ص 26)(المستدرک ، حاکم نيشابوري ، ج3 ، ص 112،چشتی)(تلخيص المستدرک)(تاريخ طبري ، ج2 ، ص 56)(الکامل ، ابن الاثير ، ج2 ، ص 57)(فرائد السمطين ، حمويني ، ج 1 ص 248)(الخصائص ، نسائي ، ص 46)(تذكرة الخواص ، ابن جوزي ، ص 108)
اس روایت کے متعلق امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا یہ منکر ہے ، قال عليُّ بنُ أبي طالبٍ : ( ( أنا عبدُ اللهِ وأخو رسولِه ، وأنا الصِّدِّيقُ الأكبرُ ، لا يقولُها بعدي إلَّا كاذبٌ ، صلَّيت قبل النَّاسِ سبعَ سنين ۔ الراوي : عباد بن عبدالله الأسدي | المحدث : ابن الجوزي | المصدر : موضوعات ابن الجوزي ۔ (الصفحة أو الرقم: 2/98 | خلاصة حكم المحدث : موضوع)
قال عليُّ رضي اللهُ عنه : أنا عبدُ اللهِ ، وأخو رسولِ اللهِ ، وأنا الصِّدِّيقُ الأكبرُ, لا يقولها بعدي إلا كاذبٌ ، صليتُ قبل الناسِ سبعَ سنين . وفي روايةٍ له : ولقد أسلمتُ قبل الناسِ بسبعِ سنينَ ۔ الراوي : عباد بن عبد الله الأسدي المحدث : (منهاج السنة الصفحة أو الرقم : 7/443 | خلاصة حكم المحدث : موضوع)
عن عَلِيٍّ يقولُ أنا عَبدُ اللَّهِ وأَخو رَسولِهِ وأَنا الصِّدِّيقُ الأكْبَرُ لا يقولُها بعْدِي إلا كاذِبٌ مُفتِرٍ صَلَّيتُ قبلَ النَّاسِ بسبعِ سنينَ ۔ الراوي : عباد بن عبدالله الأسدي | المحدث : ابن كثير | المصدر : البداية والنهاية الصفحة أو الرقم: 3/25 | خلاصة حكم المحدث : منكر)
أنا عبدُ اللهِ وأخو رسولِ اللهِ, أنا الصديقُ الأكبرُ, لا يقولُها بعدي إلا كاذبٌ, صليتُ قبل الناسِ بسبعِ سنين . الراوي : - | المحدث : الشوكاني | المصدر : الفوائد المجموعة الصفحة أو الرقم: 343 | خلاصة حكم المحدث : في إسناده عباد بن عبد الله الأسدي, وهو المتهم بوضعه،چشتی)
قال عَلِيٌّ أنَا عبدُ اللهِ ، وأخو رسولِ اللهِ ، وأنا الصِّدِّيقُ الأكبرُ ، لا يقولُها بعدي إلا كاذبٌ ، آمنتُ قبل الناسِ سبعَ سِنِينَ ۔ الراوي : عباد بن عبدالله الأسدي | المحدث : الألباني | المصدر : السلسلة الضعيفة الصفحة أو الرقم: 4947 | خلاصة حكم المحدث : موضوع)
عن عليٍّ قال : أنا عبدُ اللهِ وأخو رسولِه صلى اللهُ عليه وسلم ، وأنا الصديقُ الأكبرُ ، لا يقولُها بعدي إلا كذابٌ ، صليتُ قبل الناسِ بسبعِ سنين ۔ الراوي : عباد بن عبدالله الأسدي | المحدث : الألباني | المصدر : ضعيف ابن ماجه الصفحة أو الرقم: 24 | خلاصة حكم المحدث : باطل)(الدرر السنية - الموسوعة الحديثية،چشتی)
اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ :
(1) یہ باطل قول ہے اس میں عباد بن عبد اللہ کذاب راوی ہے ۔
(2) یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے حدیث رسول نہیں ہے اور ان کا اپنا قول بھ باطل اور منکر ہے ۔
افسوس کہ رافضی شیعہ اور تقیہ (یعنی جھوٹ) کی آڑ میں چھپے رافضیوں نے حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کو صدیق اکبر ثابت کرنے کی کوشش ہے لیکن وہ بھی ان کے ایک باطل اور منکر غیر ثابت قول کے ساتھ ۔ اندازہ لگایا آپ نے کہ کس طرح غلط کو صحیح کہ رہے ہیں یہ رافضی شیعہ اور تقیہ (یعنی جھوٹ) کی آڑ میں چھپے رافضی حضرات ۔
بعض لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ مولائے کائنات سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم صدیق اکبر ہیں ، اور بزعم خویش یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں کہ آقائے کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم نے مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو *صدیق اکبر* اور *فاروق اعظم* کا لقب اپنی زبان رسالت سے عطا کیا ہے ۔ اور علمائے اہل سنت پہ یہ الزام بھی لگایا جارہا ہے کہ انہوں نے مولائے کائنات کی شان میں وارد اس فرمان کو - کہ صدیق اکبر مولا علی ہیں - چھپایا اور اپنی کتابوں میں جگہ نہ دی ۔
ان کا مذکورہ دعویٰ ہی کئی جہتوں سے قابل گرفت ہے لیکن ہم اس سے صرف نظر کرتے ہیں اور جس حدیث کے ذریعے یہ ثابت کیا گیا ہے اس کی اسنادی حیثیت کا جائزہ لیتے ہیں ۔
چوں کہ اس بات کی ضرورت اس لیے پڑی کہ اس کے ذریعے افضلیت عمرین کو ختم کرکے مولائے کائنات کو سب سے افضل قرار دینا ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم افضلیت پر ہونے والے حملے کا دفاع کریں ۔
وہ حدیث یہ ہے : "[عن أبي ذر الغفاري:] سمعتُ النَّبيَّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم يقولُ لعليِّ بنِ أبي طالبٍ: أنت أوَّلُ من آمن بي، وأنت أوَّلُ من يصافحُني يومَ القيامةِ، وأنت الصِّدِّيقُ الأكبرُ، وأنت الفاروقُ، وتُفرِّقُ بين الحقِّ والباطلِ، وأنت يعسوبُ المؤمنين، والمالُ يعسوبُ الكافرين"* ۔
مذکورہ بالا حدیث پر گفتگو کرتے ہوئے ایک تفضیلیت زدہ شخص نے اس کی کل ٦/ اسناد ذکر کی ہیں ۔ ١۔ حضرت ابوذر غفاری ٢۔ حضرت سلمان فارسی ٣۔ابو لیلیٰ غفاری ٤۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ٥۔ مولائے کائنات حضرت علی ( ان کے الفاظ یہ ہیں : بعض سندیں خاص اہل بیت علیہم السلام کی سندیں ہیں اور وہ مولائے کائنات سے خود اس فرمان کو روایت کرتے ہیں اور مولا علی ان روایات کو خود نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم سے بیان کرتے ہیں) ۔ ٦۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہم ۔
مذکورہ حدیث ان چھ راویوں سے مروی ہے، ہر ایک کی روایت پر محدثین و ائمۂ جرح و تعدیل نے کہا فرمایا ہے؛ ملاحظہ فرمائیں :
*١۔ عن ابی ذر الغفاری رضی اللہ عنہ*
ابن جوزی : "موضوع" (موضوعات ابن جوزی ١٠٢/٢)
امام ذہبی : "فیہ محمد بن عبید واہ، و علی بن ھاشم شیعی و عباد رافضی" (ترتیب الموضوعات ص١٠٠)
*١/٢۔ عن ابی ذر الغفاری و سلیمان الفارسی*
امام ابن کثیر : " منکرا جدا" ( جامع المسانید و السنن ٤٣٨٦)
امام ہیثمی : " فیہ عمرو بن سعید المصری و ھو ضعیف" (مجمع الزوائد ١٠٥/٩)
امام ابن حجر عسقلانی :" اسنادہ واھی ، و محمد متھم، و عباد من کبار الروافض، و ان کان صدوقا فی الحدیث" ( مختصر البزار ٣٠١/٣)
شوکانی : " فیہ عمر بن سعید المصری و فیہ ضعف" ( در السحابۃ ١٤٠)
یہ استنادی حیثیت تھی پہلے اور دوسرے طریق کی ۔ اب تیسرے طریق کو ملاحظہ کیجیے __
*٣۔ أبو لیلیٰ الغفاری رضی اللہ عنہ*
ابن عبد البر :" فیہ اسحاق بن بشر ممن لایحتج بنقلہ اذا انفرد لضعفہ و نکارۃ حدیثہ" ( الستیعاب ٣٠٧/٤)
*٤۔ عن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما*
عقیلی : " فیہ داھر بن یحییٰ الرازی کان ممن یغلو فی الروافض لایتابع علیہ حدیثہ" ( الضعفاء الکبیر ٢/ ٤٧)
ابن عدی : " فیہ عبد اللہ بن یحییٰ بن داھر عامۃ ما یرویہ فی فضائل علی و ھو متھم" ( ٥/ ٣٧٩)
ابن جوزی : " موضوع" (موضوعات ابن جوزی ٢/ ١٠٣)
امام ذہبی : " فیہ عبد اللہ بن داھر من غلاۃ القوم و ضعفائھم "( ترتیب الموضوعات ١٠٠)
ایضا قال : قد اغنی اللہ علیاََ أن تقرر مناقبہ بالأکاذیب و الاباطیل" ( میزان الإعتدال ٢/ ٤١٦)
" باطل" ( میزان الإعتدال ٢/ ٣،چشتی)
*٥۔ عن علی کرم اللہ وجہہ الکریم*
الجورقانی :" حبۃ لایساوی حبۃ کان غالباََ فی التشیع واھیا فی الحدیث" (الأباطیل و المناکیر ١/٢٩٤)
قال ایضاََ : " باطل " ( الأباطیل و المناکیر ٢٩٣)
ابن عساکر :" لا یتابع علیہ و لا یعرف سماع سلیمان بن معاذۃ" ( تاریخ دمشق ٤٢/ ٣٣)
ابن جوزی : " لا یصح" (العلل المتناھیۃ ٢/٩٤٤)
قال ایضاََ :" موضوع " (موضوعات ابن جوزی ٩٩/٢)
ابن تیمیۃ :" موضوع" (منہاج السنۃ ٣٦٨/٢)
امام ذہبی : " کذب علیٰ علیٍ"( میزان الإعتدال ٢/ ٣٦٨)
*٦۔ عن ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ*
مذکورہ حدیث آپ سے مروی تلاش بسیار کے بعد بھی نہ ملی ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔
اس پوری تفصیل کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ مذکورہ حدیث اس قابل نہیں کہ اس کو بیان کیا جائے اور یہی وجہ بنی کہ علمائے اہل سنت نے اس کو اپنی کتابوں میں جگہ نہیں دی بلکہ مولائے کائنات کی شان میں وارد صحیح اور قابل بیان احادیث خوب نقل کیں جن کو پڑھ کر مولائے کائنات کی فضیلت و عظمت اور رفعت شان کا اعتراف ہر صاحب فہم کرے گا ۔ اور کئی علما نے لکھا کہ اس حدیث کا ایک راوی غالی رافضی ہے اور یہ بات بھی علما نے لکھی ہے کہ رافضیوں نے مولائے کائنات اور اہل بیت نبوت کی شان میں تین لاکھ حدیثیں گڑھی ہیں (معاذ اللہ) ۔ کیا بعید کہ ان تین لاکھ میں سے یہ بھی ایک ہو ۔ اور اس کو ایسے ہی لوگ بیان کرتے ہیں جن کی نگاہ میں سیدنا صدیق اکبر اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہما کی افضلیت کھٹکتی ہے ۔ اور اس کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں کہ ہمارے علما نے مولائے کائنات کی شان بیان کرنے میں کوتاہی کی ہے (معاذ اللہ رب العالمین) اور پھر لوگ علمائے اہل سنت سے دور ہوں گے اور رافضیت کے قریب ہوں گے ۔ اللہ کی پناہ اللہ ایسے لوگوں سے سنی مسلمانوں کی حفاظت فرما ۔ آمین ۔
صدیق کسے کہتے ہیں ؟
(1) صدیق اسے کہتے ہیں جوزبان سے کہی ہوئی بات کو دل اور اپنے عمل سے مؤکد کر دے ۔ (التعریفات،ص۹۵)
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو صدیق اسی لیے کہتے ہیں کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فقط زبان کے نہیں بلکہ قلب وعمل کے بھی صدیق تھے۔
(2) صدیق اسے بھی کہتے ہیں جوتصدیق کرنے میں مبالغہ کرے،جب اس کے سامنے کوئی چیز بیان کی جائے تواوّلا ہی اس کی تصدیق کردے، حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بھی ایسے ہی تھے کہ اوّلا ہی سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کی ہربات کی تصدیق کردیاکرتے تھے ۔
(3) حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : صدیق وہ کہ جیسا وہ کہہ دے بات ویسی ہی ہوجائے۔ اسی لیے تو حضرت سیدنا یوسف عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ جودوقیدی تھے ان میں سے شاہی ساقی یعنی بادشاہ کو شراب پلانے والے نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو صدیق کہا کیونکہ اس نے دیکھا کہ جو آپ نے کہا تھا وہ ہی ہوا ، عرض کیا: یُوْسُفُ اَیُّھَا الصِّدِّیْقُ ۔حضرت سیدنا صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے سیدنا مالک بن سنان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے متعلق جو کہا تھا وہ ہی ہوا کہ وہ شہید ہونے کے بعد زندہ ہو کر آئے ۔ (مرآۃ المناجیح، ج۸،ص۱۶۲،چشتی)
صدیقیت کسے کہتے ہیں ؟
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : صدیقیت ایک مرتبہ تلو نبوت ہے کہ اس کے اور نبوت کے بیچ میں کوئی مرتبہ نہیں مگر ایک مقام ادق واخفی کہ نصیبہ حضرت صدیق اکبر اکرم واتقی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہہے تو اجناس وانواع واصناف فضائل وکمالات وبلندی درجات میں خصائص و ملزومات نبوت کے سوا صدیقین ہر عطیہ بہیہ کے لائق واہل ہیں اگرچہ باہم ان میں تفاوت و تفاضل کثیرو وافر ہو ۔ (فتاوی رضویہ، ج۱۵، ص۶۷۸،چشتی)
صدیق اکبر کسے کہتے ہیں ؟
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ہر معاملے میں صداقت کا عملی مظاہرہ فرمایا حتی کہ واقعہ معراج اور آسمانی خبروں وغیرہ جیسے معاملات کہ جن کو اس وقت کسی کی عقل نے تسلیم نہیں کیا ان میں بھی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فوراً تصدیق فرمائی ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کی تمام معاملات میں جیسی تصدیق آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے کی ویسی کسی نے نہ کی اس لیے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو’’ صدیق اکبر‘‘ کہا جاتا ہے ۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ، جلد۱۵، ص۶۸۰پرارشاد فرماتے ہیں : سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ صدیق اکبر ہیں اور سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ صدیق اصغر، صدیق اکبر کا مقام اعلی صدیقیت سے بلند و بالا ہے ۔ نسیم الریاض شرح شفاء امام قاضی عیاض میں ہے : سیدنا ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی تخصیص اس لئے کہ وہ صدیق اکبر ہیں جو تمام لوگوں میں آگے ہیں کیونکہ انہوں نے جو حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تصدیق کی وہ کسی کو حاصل نہیں اور یونہی سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا نام صدیق اصغر ہے جو ہرگز کفر سے ملتبس نہ ہوئے اور نہ ہی انہوں نے غیر ﷲ کو سجدہ کیا باوجود یکہ وہ نابالغ تھے ۔ (نسیم الریاض فی شرح الشفا، القسم الاول، فی ثناء اللہ۔۔۔الخ، الفصل الاول، ج۱، ص۲۳۴،چشتی)
سبھی علمائے اُمّت کے ، امام و پیشوا ہیں آپ
بِلا شک پیشوائے اَصفیا صدّیق اکبر ہیں
خدا ئے پاک کی رحمت سے انسانوں میں ہر اک سے
فُزوں تر بعد از کُل انبیا صدّیقِ اکبر ہیں
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُوْلَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ۔ (سورہ زمر آیت نمبر 33)
ترجمہ : اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے ان کی تصدیق کی یہی ڈر والے ہیں ۔
وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ : اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے ۔ اس آیت میں صِدق سے کیا مراد ہے اوراسے لانے والے اور ا س صِدق کی تصدیق کرنے والے سے کیا مراد ہے اس بارے میں مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ، ان میں سے 5 قول درج ذیل ہیں :
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : صدق سے مراد اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت ہے اور اسے لے کر تشریف لانے والے سے مراد رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں اور اس کی تصدیق کرنے والے بھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہی ہیں کہ اسے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مخلوق تک پہنچایا ۔
صدق سے مراد قرآنِ پاک ہے،اسے لانے والے جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام ہیں اور اس کی تصدیق کرنے والے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں ۔
حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم اور مفسرین کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ سچ لے کر تشریف لانے والے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں اور ا س کی تصدیق کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ۔ سچ لے کر تشریف لانے والے سے مراد حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں اور تصدیق کرنے والے سے تمام مومنین مراد ہیں ۔ سچ لے کر تشریف لانے والے اور تصدیق کرنے والے سے ایک پوری جماعت مراد ہے ، تشریف لانے والے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں اور تصدیق کرنے والے سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی ۔ ( خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۳، ۴/۵۵-۵۶، تفسیرکبیر، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۳، ۹/۴۵۲، مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۱۰۳۸،چشتی)
امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : أن المراد شخص واحد فالذی جاء بالصدق محمد ، والذی صدق بہ ہو أبو بکر ، وہذا القول مروی عن علی بن أبی طالب علیہ السلام وجماعۃ من المفسرین رضی اللہ عنہم ۔
ترجمہ : اس سے مراد ایک ہی ہستی ہیں ، تو جو سچی بات لے کر آئے وہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں اور جس نے آپ کی تصدیق کی وہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔ اور یہ روایت حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ اور مفسرین کرام رحمہم اللہ کی ایک بڑی جماعت سے منقول ہے ۔ (التفسیر الکبیر،چشتی)(الدر المنثور، روح البیان، سورۃالزمر۔ 33)
حضرت امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہاں ابو بکر رضی اللہ عنہ صدیق ہیں
عن عروة بن عبد الله قال سألت أبا جعفر محمد بن علي عليهما السلام عن حلية السيوف فقال لا بأس به قد حلى أبو بكر الصديق رضي الله عنه سيفه، قلت فتقول الصديق؟ قال: فوثب وثبة واستقبل القبلة وقال : نعم الصديق نعم الصديق نعم الصديق، فمن لم يقل له الصديق فلا صدق الله له قولا في الدنيا ولا في الآخرة ۔
ترجمہ : عروه بن عبدالله سے روایت ہے حضرت امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا گیا کہ تلواروں کو زیور لگانا جائز ہے یا نہیں ؟ آپ نے جواب دیا : اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی تلوار کو زیور لگایا ہوا تھا۔ عرض کیا : کیا آپ بھی ان کو صدیق کہتے ہیں۔ اس پر حضرت امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اچھل پڑے اور قبلہ رخ ہو کر فرمایا : ہاں وہ صدیق ہیں ، ہاں وہ صدیق ہیں ، ہاں وہ صدیق ہیں ۔ جو ان کو صدیق نہیں کہتا اللہ اس کے کسی قول کو نہ دنیا میں سچا کرے نہ آخرت میں ۔ (كشف الغمة - ابن أبي الفتح الإربلي - ج ۳ - ص ۳۶۰) ۔۔۔ (سوچ منکر رافضی سوچ تیرا انجام کیا ہوگا ؟؟؟؟؟)
آپ کے القاب مبارکہ میں صدیق بہت مشہور ہے ، کیونکہ یہ مبارک لقب آپ کو کسی مخلوق نے نہیں دیا ، بلکہ خالق کائنات نے عطا فرمایا ، جیسا کہ سنن دیلمی میں حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یَا أَبَابَکْرٍ اِنَّ اللّٰہَ سَمَّاکَ الصَّدِّیقَ ۔
ترجمہ : اے ابوبکر! اللہ تعالیٰ نے تمہارا نام صدیق رکھا ہے ۔ (کنز العمال ، حرف الفاء ، فضل ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ،حدیث نمبر:32615،چشتی)
ابھی آپ نے امام الانبیاء صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زبان حق ترجمان سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صداقت کا تذکرہ سنا ، اب آئیے امام الاولیاء کی زبان فیض ترجمان سے سماعت فرمائیے ! حضرت مولائے کائنات سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے ارشاد فرمایا : لَاَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اسْمَ اَبِی بَکْرٍ مِنَ السَّمَاءِ ’’ الصِّدِّیقَ‘‘۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نام ’’ صدیق‘‘ آسمان سے نازل فرمایا ہے ۔ (مختصر تاریخ دمشق ، ج ،13،ص52)
آپ کو صدیق کے مبارک لقب سے اس لئے بھی یاد کیا جاتا ہے کیونکہ آپ نے بلا کسی تامل سب سے پہلے معجزۂ معراج کی برملا تصدیق کی ، جیسا کہ مستدرک علی الصحیحین اور تاریخ الخلفاء میں روایت ہے : عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت جاء المشرکون إلی أبی بکر فقالوا ہل لک إلی صاحبک یزعم أنہ أسری بہ اللیلۃ إلی بیت المقدس قال أو قال ذلک؟ قالوا نعم فقال لقد صدق إنی لأصدقہ بأبعد من ذلک بخبر السماء غدوۃ وروحۃ فلذلک سمی الصدیق ۔
ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ شب معراج کے اگلے دن مشرکین مکہ حضرت ابوبکر کے پاس آئے اور کہا ، اپنے صاحب کی اب بھی تصدیق کروگے ؟ ، انہوں نے دعوٰی کیا ہے "راتوں رات بیت المقدس کی سیر کرآئے ہیں "ابوبکر صدیق نے کہا : "بیشک آپ نے سچ فرمایا ہے ، میں تو صبح وشام اس سے بھی اہم امور کی تصدیق کرتا ہوں "۔ اس واقعہ سے آپ کا لقب صدیق مشہور ہوگیا ۔ (تاریخ الخلفاء ص،11،چشتی)
اسی طرح مختلف مواقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کی فضیلت کا اظہار فرمایا ، اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اتھاہ وارفتگی اور اٹوٹ وابستگی کی بنیاد پر حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اپنے درمیان حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہر اعتبار سے افضل ومقدم اور اولی وبہترجانتے اور مانتے تھے ۔
صدیق اکبر صادق وحکیم ہیں شیخ اکبرحضرت سیدنا محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’ اگر حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس موطن میں تشریف نہ رکھتے ہوں اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاضر ہوں تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے مقام پر صدیق قیام کریں گے کہ وہاں صدیق سے اعلی کوئی نہیں جو انہیں اس سے روکے۔ وہ اس وقت کے صادق و حکیم ہیں ، اور جو ان کے سوا ہیں سب ان کے زیر حکم ۔ (الفتوحات المکیۃ،الباب الثالث والسبعون ،ج۳،ص۴۴،چشتی)(فتاوی رضویہ، ج۱۵، ص۶۸۰)
قرآن مجید میں بھی صدیق کا لفظ ، انبیاء علیہم السّلام ، اولیاء اور صالحین کے لیے استعمال ہوا ہے : يُوسُفُ أَيُّهَا الصِّدِّيقُ أَفْتِنَا فِي سَبْعِ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعِ سُنْبُلاَتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ لَّعَلِّي أَرْجِعُ إِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَعْلَمُونَ ۔ (سورہ يُوْسُف ، 12 : 46)
ترجمہ : (وہ قید خانہ میں پہنچ کر کہنے لگا) اے یوسف، اے صدقِ مجسّم! آپ ہمیں (اس خواب کی) تعبیر بتا دیں کہ سات فربہ گائیں ہیں جنہیں سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات سبز خوشے ہیں اور دوسرے سات خشک؛ تاکہ میں (یہ تعبیر لے کر) واپس لوگوں کے پاس جاؤں شاید انہیں (آپ کی قدر و منزلت) معلوم ہو جائے ۔
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ۔ (سورہ مَرْيَم ، 19 : 41)
ترجمہ : اور آپ کتاب (قرآن مجید) میں ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر کیجئے، بیشک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھے ۔
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِدْرِيسَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ۔ (سورہ مَرْيَم ، 19 : 56)
ترجمہ : اور (اس) کتاب میں ادریس (علیہ السلام) کا ذکر کیجئے، بیشک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھے ۔
مَّا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ كَانَا يَأْكُلاَنِ الطَّعَامَ انظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْآيَاتِ ثُمَّ انظُرْ أَنَّى يُؤْفَكُونَ ۔ (سورہ الْمَآئِدَة ، 5 : 75)
ترجمہ : مسیح ابنِ مریم (علیھما السلام) رسول کے سوا (کچھ) نہیں ہیں (یعنی خدا یا خدا کا بیٹا اور شریک نہیں ہیں)، یقیناً ان سے پہلے (بھی) بہت سے رسول گزر چکے ہیں ، اور ان کی والدہ بڑی صاحبِ صدق (ولیّہ) تھیں، وہ دونوں (مخلوق تھے کیونکہ) کھانا بھی کھایا کرتے تھے۔ (اے حبیب!) دیکھئے ہم ان (کی رہنمائی) کے لئے کس طرح آیتوں کو وضاحت سے بیان کرتے ہیں پھر ملاحظہ فرمائیے کہ (اس کے باوجود) وہ کس طرح (حق سے) پھرے جارہے ہیں ۔
وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُوْلَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ عِندَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُوْلَئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ ۔ (سورہ الْحَدِيْد ، 57 : 19)
ترجمہ : اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہی لوگ اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں ، اُن کے لئے اُن کا اجر (بھی) ہے اور ان کا نور (بھی) ہے، اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی لوگ دوزخی ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی متعدد مقامات پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت یوسف علیہ السلام اور دیگر بھی کئی صدیق ہیں ، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑے صدیق ہیں ۔ الصدیقون جمع کا صیغہ ہمیں بتا رہا ہے کہ بہت سارے صدیق ہیں تو پتہ چلا کہ صدیقین کی تعداد ایک دو نہیں بلکہ بہت زیادہ ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود فرمایا کہ میں صدیق اکبر ہوں اور اگر میرے بعد کسی نے اس کا دعویٰ کیا تو وہ کذاب ہے ۔ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اپنا قول ہے ۔ اس میں لڑائی جھگڑا والی بات بھی نہیں ہے ۔
صدیق اکبر کاگستاخ بندربن گیا
حضرت امام مستغفری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ علیہ نے ثقات سے نقل کیا ہے کہ ہم لوگ تین آدمی ایک ساتھ یمن جارہے تھے ہمارا ایک ساتھی جو کوفی تھا وہ حضرت سیدناابوبکر صدیق وحضرت سیدناعمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی شان میں بدزبانی کر رہا تھا ، ہم لوگ اس کو بار بار منع کرتے تھے مگر وہ اپنی اس حرکت سے باز نہیں آتا تھا ، جب ہم لوگ یمن کے قریب پہنچ گئے اور ہم نے اس کو نماز فجر کے لیے جگایا ،تو وہ کہنے لگا کہ میں نے ابھی ابھی یہ خواب دیکھا ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّممیرے سرہانے تشریف فرما ہوئے اورمجھے فرمایا کہ’’ اے فاسق!خداوند تعالیٰ نے تجھ کو ذلیل وخوار فرمادیا اورتو اسی منزل میں مسخ ہوجائے گا۔‘‘اس کے بعد فوراً ہی اس کے دونوں پاؤں بندر جیسے ہوگئے اورتھوڑی ہی دیر میں اس کی صورت بالکل ہی بند رجیسی ہوگئی ۔ ہم لوگوں نے نماز فجر کے بعد اس کو پکڑ کر اونٹ کے پالان کے اوپر رسیوں سے جکڑ کر باندھ دیا اوروہاں سے روانہ ہوئے ۔ غروب آفتاب کے وقت جب ہم ایک جنگل میں پہنچے تو چند بندروہاں جمع تھے۔ جب اس نے بندروں کے غول کو دیکھا تو رسی تڑوا کر یہ اونٹ کے پالان سے کود پڑا اوربندروں کے غول میں شامل ہوگیا۔ ہم لوگ حیران ہوکر تھوڑی دیروہاں ٹھہر گئے تاکہ ہم یہ دیکھ سکیں کہ بندروں کا غول اس کے ساتھ کس طرح پیش آتاہے تو ہم نے یہ دیکھا کہ یہ بندروں کے پاس بیٹھا ہوا ہم لوگوں کی طرف بڑی حسرت سے دیکھتا تھا اوراس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔ گھڑی بھر کے بعد جب سب بندروہاں سے دوسری طرف جانے لگے تویہ بھی ان بندروں کے ساتھ چلاگیا ۔ (شواھد النبوۃ، رکن سادس د ربیان شواھد ودلایلی...الخ، ص۲۰۳،چشتی)
صدیق اکبر کاگستاخ خنزیر بن گیا
اسی طرح حضرت امام مستغفری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ علیہ نے ایک مرد صالح سے نقل کیا ہے کہ کوفہ کا ایک شخص جو حضرات سیدناابوبکر وعمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو برا بھلا کہا کرتا تھا ہر چند ہم لوگوں نے اس کو منع کیا مگر وہ اپنی ضد پر اڑا رہا، تنگ آکر ہم لوگوں نے اس کو کہہ دیا کہ تم ہمارے قافلہ سے الگ ہوکر سفر کرو۔ چنانچہ وہ ہم لوگوں سے الگ ہوگیا جب ہم لوگ منزل مقصود پر پہنچ گئے اورکام پورا کر کے وطن کی واپسی کا قصد کیا تو اس شخص کا غلام ہم لوگوں سے ملا، جب ہم نے اس سے کہا کہ’’ کیا تم اورتمہارا مولیٰ ہمارے قافلے کے ساتھ وطن جانے کا ارادہ رکھتے ہو؟‘‘ یہ سن کر غلام نے کہا کہ ’’میرے مولیٰ کا حال تو بہت ہی برا ہے، ذراآپ لوگ میرے ساتھ چل کر اس کا حال دیکھ لیجئے ۔ ‘‘غلام ہم لوگوں کو ساتھ لے کر ایک مکان میں پہنچا وہ شخص اداس ہوکر ہم لوگوں سے کہنے لگا کہ مجھ پر تو بہت بڑی افتادپڑگئی ۔ پھر اس نے اپنی آستین سے دونوں ہاتھوں کو نکال کر دکھایا تو ہم لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس کے دونوں ہاتھ خنزیر کے ہاتھوں کی طرح ہوگئے تھے ۔ آخر ہم لوگوں نے اس پر ترس کھا کر اپنے قافلہ میں شامل کرلیا لیکن دوران سفر ایک جگہ چند خنزیروں کا ایک جھنڈ نظرآیا اور یہ شخص بالکل ہی ناگاہاں مسخ ہوکر آدمی سے خنزیربن گیا اورخنزیروں کے ساتھ مل کر دوڑنے بھاگنے لگا مجبوراً ہم لوگ اس کے غلام اورسامان کو اپنے ساتھ کوفہ تک لائے ۔ (شواھد النبوۃ، رکن سادس د ربیان شواھد ودلایلی...الخ، ص۲۰۴،چشتی)
صدیق اکبر کاگستاخ کتا بن گیا
ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے منقول ہے کہ میں نے ملک شام میں ایک ایسے امام کے پیچھے نماز ادا کی جس نے نماز کے بعد حضرت سیدنا ابوبکروعمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے حق میں بددعا کی۔ جب دوسرے سال میں نے اسی مسجد میں نماز پڑھی تو نماز کے بعد امام نے حضرت سیدنا ابوبکر و عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے حق میں بہترین دعا مانگی ، میں نے نمازیوں سے پوچھا کہ تمہارے پرانے امام کا کیا ہوا ؟ تولوگوں نے کہا کہ :’’ آپ ہمارے ساتھ چل کر اس کو دیکھ لیجیے ۔‘‘ میں جب ان لوگوں کے ساتھ ایک مکان میں پہنچا تو یہ دیکھ کر مجھے بڑی عبرت ہوئی کہ ایک کتا بیٹھا ہوا ہے اوراس کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری ہیں ۔ میں نے اس سے کہا کہ تم وہی امام ہو جوحضرات شیخین کریمین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کےلیے بددعا کیا کرتا تھا ؟ ‘‘تو اس نے سرہلا کر جواب دیا کہ’’ ہاں ۔ (شواھد النبوۃ رکن سادس در بیان شواھد ودلایلی...الخ، ۲۰۶) ۔
فضائل و مناقب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 10
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کےلیے ڈوبا سورج پلٹایا اس حدیث پاک سے پتہ چلا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا اختیار آسمانوں اور چاند پر بھی ہے آور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اللہ نے کل کائنات کا مالک و مختار بنا کر بھیجا ہے سبحان اللہ ۔ اس حدیث پاک کے رجال صحیح ہیں اور یہ صحیح حدیث ہے : رواه الطبرانی بأسانيد ، ورجال أحدهما رجال الصحيح غير إبراهيم بن حسن ، وهو ثقة ، وثّقه ابن حبان ، ورواه الطحاوی في مشکل الآثار (2 / 9، 4 / 388. 389) وللحديث طرق أخري عن أسمائ ، وعن أبي هريرة، وعليّ ابن أبي طالب، وأبي سعيد الخدريث ۔ وقد جمع طرقه أبو الحسن الفضلي، وعبيد ﷲ بن عبد ﷲ الحسکا المتوفی سنة (470) في (مسألة في تصحيح حديث ردّ الشمس)، والسيوطي في (کشف اللبس عن حديث الشمس). وقال السيوطي : فی الخصائص الکبری (2 / 137) : أخرجه ابن منده، وابن شاهين، والطبرانی بأسانيد بعضها علی شرط الصحيح. وقال الشيباني في حدائق الأنوار (1 / 193) : أخرجه الطحاوي في مشکل الحديث والآثار. بإِسنادين صحيحين ۔ وقال الإمام النووي فی شرحه علی صحيح مسلم (12 / 52) : ذکر القاضيص : أن نبينا صلی الله عليه وآله وسلم حبست له الشمس مرّتين … ذکر ذلک الطحاوي وقال : رواته ثقات) ۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث روایت کی گئی ہے جس کا ترجمہ آپ نیچے پڑھ سکیں گے ، یہ حدیث مختلف کتابوں میں مختلف طرق سے بیان ہوئی ہے سب سے پہلے عربی میں احادیث پیش خدمت ہیں ، ان کی صحت پر اقوالِ سلف بعد میں پیش کیا جائے گا ۔ پہلے عربی احادیث ملاحظہ فرمائیں : ⬇
حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّةَ، قَالَ : حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُوسَى الْعَبْسِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَسَنِ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَسْمَاءَ ابْنَةِ عُمَيْسٍ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوحَى إِلَيْهِ وَرَأْسُهُ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ فَلَمْ يُصَلِّ الْعَصْرَ حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ , فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” صَلَّيْتَ يَا عَلِيُّ؟ ” قَالَ: لَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” اللهُمَّ إِنَّهُ كَانَ فِي طَاعَتِكَ وَطَاعَةِ رَسُولِكَ فَارْدُدْ عَلَيْهِ الشَّمْسَ “، قَالَتْ أَسْمَاءُ: فَرَأَيْتُهَا غَرَبَتْ , ثُمَّ رَأَيْتُهَا طَلَعَتْ بَعْدَمَا غَرَبَتْ ۔(شرح مشكل الآثار (3/ 92،چشتی)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَوْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أُمِّهِ أُمِّ جَعْفَرٍ، عَنْ أَسْمَاءَ ابْنَةِ عُمَيْسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الظُّهْرَ بِالصَّهْبَاءِ ثُمَّ أَرْسَلَ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلَامُ فِي حَاجَةٍ فَرَجَعَ , وَقَدْ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ، فَوَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ فَلَمْ يُحَرِّكْهُ حَتَّى غَابَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” اللهُمَّ إِنَّ عَبْدَكَ عَلِيًّا احْتَبَسَ بِنَفْسِهِ عَلَى نَبِيِّكَ فَرُدَّ عَلَيْهِ شَرْقَهَا ” قَالَتْ أَسْمَاءُ فَطَلَعَتِ الشَّمْسُ حَتَّى وَقَعَتْ عَلَى الْجِبَالِ وَعَلَى الْأَرْضِ , ثُمَّ قَامَ عَلِيٌّ فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى الْعَصْرَ , ثُمَّ غَابَتْ وَذَلِكَ فِي الصَّهْبَاءِ فِي غَزْوَةِ خَيْبَرَ [ص:95] قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: فَاحْتَجْنَا أَنْ نَعْلَمَ مَنْ مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْمَذْكُورُ فِي إِسْنَادِ هَذَا الْحَدِيثِ، فَإِذَا هُوَ مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْمَدَنِيُّ الْمَعْرُوفُ بِالْفِطْرِيِّ وَهُوَ مَحْمُودٌ فِي رِوَايَتِهِ وَاحْتَجْنَا أَنْ نَعْلَمَ مَنْ عَوْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَذْكُورُ فِيهِ فَإِذَا هُوَ عَوْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَاحْتَجْنَا أَنْ نَعْلَمَ مَنْ أُمُّهُ الَّتِي رَوَى عَنْهَا هَذَا الْحَدِيثَ فَإِذَا هِيَ أُمُّ جَعْفَرٍ ابْنَةُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ. فَقَالَ قَائِلٌ: كَيْفَ تَقْبَلُونَ هَذَا وَأَنْتُمْ تَرْوُونَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَدْفَعُهُ فَذَكَرَ مَا ۔(شرح مشكل الآثار (3/ 94)،چشتی)
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ الْحَسَنِ الْخَفَّافُ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْفِطْرِيُّ، عَنْ عَوْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أُمِّ جَعْفَرٍ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الظُّهْرَ بِالصَّهْبَاءِ، ثُمَّ أَرْسَلَ عَلِيًّا فِي حَاجَةٍ، فَرَجَعَ وَقَدْ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ، فَوَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ فَنَامَ، فَلَمْ يُحَرِّكُهُ حَتَّى غَابَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللهُمَّ إِنَّ عَبْدَكَ عَلِيًّا احْتَبَسَ بِنَفْسِهِ عَلَى نَبِيِّهِ فَرُدَّ عَلَيْهِ الشَّمْسَ» قَالَتْ: فَطَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ حَتَّى رُفِعَتْ عَلَى الْجِبَالِ وَعَلَى الْأَرْضِ، وَقَامَ عَلِيٌّ فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى الْعَصْرَ، ثُمَّ غَابَتْ وَذَلِكَ بِالصَّهْبَاءِ ۔(المعجم الكبير للطبراني (24/ 144)
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْحَاقَ التُّسْتَرِيُّ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، صفحہ:148] وَحَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ غَنَّامٍ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَا: ثنا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ [صفحہ:149] مُوسَى، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَسَنِ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ حُسَيْنٍ [صفحہ:150]، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:151] يُوحَى إِلَيْهِ وَرَأْسُهُ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ، فَلَمْ يُصَلِّ الْعَصْرَ حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللهُمَّ إِنَّ عَلِيًّا كَانَ فِي طَاعَتِكَ وَطَاعَةِ رَسُولِكَ فَارْدُدْ عَلَيْهِ الشَّمْسَ» قَالَتْ أَسْمَاءُ: «فَرَأَيْتُهَا غَرَبَتْ وَرَأَيْتُهَا طَلَعَتْ بَعْدَمَا غَرَبَتْ» وَاللَّفْظُ لِحَدِيثِ عُثْمَانَ ۔(المعجم الكبير للطبراني (24/ 147)
الكتب » الثالث من فوائد أبي عثمان البحيري
(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مَحْبُوبٍ ، ثنا سَعِيدُ بْنُ مَسْعُودٍ ، ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، ثنا فَضْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَسَنِ ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْحُسَيْنِ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ ، قَالَتْ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يُوحَى إِلَيْهِ وَرَأْسُهُ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، فَلَمْ يُصَلِّ الْعَصْرَ حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” صَلَّيْتَ الْعَصْرَ ” . قَالَ : لا . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” اللَّهُمَّ إِنَّهُ كَانَ فِي طَاعَتِكَ وَطَاعَةِ نَبِيِّكَ , فَارْدُدْ عَلَيْهِ الشَّمْسَ ” . قَالَتْ أَسْمَاءُ : فَرَأَيْتُهَا غَرَبَتْ ، ثُمَّ رَأَيْتُهَا طَلَعَتْ بَعْدَ مَا غَرَبَتْ .
الكتب » تاريخ دمشق لابن عساكررقم الحديث: 44459 ،چشتی)
(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُظَفَّرِ بْنُ الْقُشَيْرِيِّ ، وَأَبو الْقَاسِمِ الْمُسْتَمْلِي ، قَالا : أنا أَبُو عُثْمَانَ الْبَحِيرِيُّ ، أنا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الدندانقاني بِهَا ، نا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مَحْبُوبٍ ـ وَفِي حَدِيثِ ابْنِ الْقُشَيْرِيِّ : نا أَبُو الْعَبَّاسِ الْمَحْبُوبِيُّ ـ نا سَعِيدُ بْنُ مَسْعُودٍ . ح وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْفَتْحِ الْمَاهَانِيُّ ، أنا شُجَاعُ بْنُ عَلِيٍّ ، أنا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ بْنُ مَنْدَهْ ، أنا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ الْبُسْتِيُّ ، نا أَبُو أُمَيَّةَ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، نا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، نا فُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَسَنِ ـ زَادَ أَبُو أُمَيَّةَ : ابْنُ الْحَسَنِ ـ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْحُسَيْنِ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ ، قَالَتْ : كَانَ رَسُولُ اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوحَى إِلَيْهِ وَرَأْسُهُ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ ، فَلَمْ يُصَلِّ الْعَصْرَ حَتَّى غَرُبَتِ الشَّمْسُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” صَلَّيْتُ الْعَصْرَ ؟ ” وَقَالَ أَبُو أُمَيَّةَ : ” صَلَّيْتُ يَا عَلِيُّ ؟ ” قَالَ : لا ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ـ وَقَالَ أَبُو أُمَيَّةَ : فَقَالَ : النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ـ ” اللَّهُمَّ إِنَّهُ كَانَ فِي طَاعَتِكَ ، وَطَاعَةِ نَبِيِّكَ ـ وَقَالَ أَبُو أُمَيَّةَ : رَسُولُكَ ـ فَارْدُدْ عَلَيْهِ الشَّمْسَ ” ، قَالَتْ أَسْمَاءُ : فَرَأَيْتَهَا غَرُبَتْ ، ثُمَّ رَأَيْتُهَا طَلَعَتْ بَعْدَمَا غَرُبَتْ ، تَابَعَهُ عَمَّارُ بْنُ مَطَرٍ الرَّهَاوِيُّ ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ ۔
الكتب » طرح التثريب للعراقي » كِتَابُ الْجِهَادِ » بَابُ الْغَنِيمَةِ وَالنَّفَلِ رقم الحديث: 1284)
(حديث مرفوع) وَرَوَى الطَّبَرَانِيُّ فِي مُعْجَمِهِ الْكَبِيرِ ، بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ أَيْضًا ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ” صَلَّى الظُّهْرَ بِالصَّهْبَاءِ ، ثُمَّ أَرْسَلَ عَلِيًّا فِي حَاجَةٍ فَرَجَعَ ، وَقَدْ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ ، فَوَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ فَنَامَ ، فَلَمْ يُحَرِّكْهُ حَتَّى غَابَتْ الشَّمْسُ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : اللَّهُمَّ إنَّ عَبْدَك عَلِيًّا احْتَبَسَ بِنَفْسِهِ عَلَى نَبِيِّهِ فَرُدَّ عَلَيْهِ الشَّمْسَ . قَالَتْ أَسْمَاءُ : فَطَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ حَتَّى وَقَفَتْ عَلَى الْجِبَالِ وَعَلَى الأَرْضِ ، وَقَامَ عَلِيٌّ فَتَوَضَّأَ ، وَصَلَّى الْعَصْرَ ثُمَّ غَابَتْ ، وَذَلِكَ بِالصَّهْبَاءِ ” . وَفِي لَفْظٍ آخَرَ : ” كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إذَا نَزَلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ يَكَادُ يُغْشَى عَلَيْهِ ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْهِ يَوْمًا ، وَهُوَ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : صَلَّيْت الْعَصْرَ ؟ فَقَالَ : لا يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَدَعَا اللَّهَ ، فَرَدَّ عَلَيْهِ الشَّمْسَ حَتَّى صَلَّى الْعَصْرَ . قَالَتْ : فَرَأَيْت الشَّمْسَ طَلَعَتْ بَعْدَ مَا غَابَتْ حِينَ رَدَّتْ ، حَتَّى صَلَّى الْعَصْرَ ۔
تفصیلات ، مفہوم و ترجمہ : اس حدیث کو حدیث رد شمس (سورج کا لوٹنا) بھی کہا جاتا ہے اور یہ معجزاتِ نبویہ مین شمار ہوتا ہے ۔ امام علامہ محمد بن یوسف بن اسمٰعیل النبھانی رحمتہ اللہ علیہ اپنی معرکۃ الاراء تصنیف حجتہ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلین میں تحریر فرماتے ہیں کہ : سورج کا معجزانہ طور پر پلٹنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیئے ثابت ہے، اسے ائمہ حدیث نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ۔
امام قسطلانی مواہب لدنیہ میں تحریر فرماتے ہیں : جہاں تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےلیئے سورج کے لوٹنے کا تعلق ہے، تو اس بارے میں حضرت اسماء بنت عمیس کی روایت ہے، کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتر رہی تھی اس وقت آپ کا سراقدس حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی گود میں تھا۔ انہوں نے اس وقت تک عصر کی نماز نہ پڑھی تھی یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا؛۔ علی! کیا تم نے عصر کی نماز پڑھی تھی؟ انہوں نے عرض کیا نہیں یارسول اللہ! تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے دعا مانگی! اے اللہ ! علی (رضی اللہ عنہ) تیری اور تیرے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طاعت وخدمت میں تھا، لہٰذا اس کے لیئے سورج کو واپس لوٹا (تاکہ وہ نمازِ عصر ادا کر سکے)۔ اسماء بیان فرماتی ہیں۔ میں نے دیکھا کہ ڈوبا ہوا سورج، پھر طلوع کرآیا اور اس کی روشنی پہاڑوں اور زمین پر پڑنے لگی۔ یہ واقعہ خیبر کے مقام صہباء پر پیش آیا۔ اس روایت کو امام طحطاوی نے نقل فرمایا؛۔ امام طحطاوی فرماتے ہیں کہ احمد بن صالح کہا کرتے تھے، کہ جس شخص کو علم دین سے تعلق ہے وہ حدیثِ اسماء کو یاد کرنے سے پیچھے نہ رہے، کیونکہ یہ نبوت کی علامت اور دلیل ہے ۔
اس حدیث کو امام طحطاوی اور قاضی عیاض علیہما الرّحمہ نے صحیح قرار دیا ہے ۔ ابن مندہ اور ابن شاھین نے حدیثِ اسماء سے اس کی تخریج کی اور ابن مردویہ نے اسے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ۔ طبرانی نے اسے سند حسن کے ساتھ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے نقل کیا۔ طبرانی کے الفاظ یہ ہیں:”حضرت اسماء سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مقام صہباء میں ظہر کی نماز پڑھی، بعد ازاں نمازِ عصر کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ) کو بلا بھیجا (انہوں نے ابھی عصر کی نماز نہیں پڑھی تھی) جب وہ تشریف لائے، تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کی گود میں اپنا سرمبارک رکھا، حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے آپ کو جنبش دینا مناسب نہیں سمجھا یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا، جب آپ کی آنکھ کھلی تو آپ نے دیکھا کہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کی نمازِ عصر کا وقت جاتا رہا ، تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے دعا فرمائی” اے اللہ! تیرا بندہ علی تیرے نبی کی خدمت میں تھا (اور اس کی نماز قضا ہوگئی ہے) تو سورج کو مشرق کی طرف لوٹا دے”۔ اسماء بیان کرتی ہیں کہ سورج لوٹ کر اتنا اٹھ آیاکہ اسکی دھوپ پہاڑوں پر اور زمین پر پڑنے لگی ۔ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ اٹھے اور وضو فرما کر عصر کی نماز ادا فرمائی ، پھر سورج غروب ہوگیا۔ یہ واقعہ مقام صہباء کا ہے ۔ امام طبرانی اوسط میں سند حسن کے ساتھ جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سورج کو حکم دیا تو وہ کچھ دیر کے لیے ٹھہر گیا ۔ (حجتہ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلین مترجم اردو تصنیف امام یوسف بن اسماعیل نبھانی نوریہ رضویہ پبلیکیشنز لاہور پاکستان صفحہ ۶۵۵ ، ۶۵۶،چشتی)
جمہور نے اس حدیث کی تصدیق کی ہے سوائے چند علماء کے انہوں نے بھی اسکی جزءیات پر بحث کی ہے نا کہ اسکی اصل کو غلط قرار دیا ہے، علم الحدیث کا عام قائدہ ہے کہ جو حدیث ضعیف بھی ہو وہ فضائل میں مقبول ہوتی ہے، اور دو اصول مزید بھی ہیں کہ ایک تو یہ کہ جب جمہور یعنی اکثریت اس کو مان لیتی ہے تو پھر کسی بحث کی گنجائش نہیں رہتی، دوسرے یہ کہ اس حدیث کو دیگر طرق سے اسنادِ حسن سے بھی بیان کیا گیا ہے۔ جیسا کہ آگے ذکر ہوگا۔ اور قائدہ مشہورہ ہے ہے کہ جب ایک حدیث ایک طرق سے ضعیف ہو لیکن اسکی حمایت میں صحیح طرق سے بیان کی گئی ہو یا اس پر اقوال موجود ہوں تو اس کو بھی قبولیت حاصل ہوجاتی ہے ۔
مخالفین اس روایت پر اس کی سند میں اعتراض کرتے ہیں؛ لیکن حافظ العراقی نے اس کو سند حسن کہا ہےاور امام ھیثمی (رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا رجال الصحیح یعنی اسکے رجال صحیح ہیں، یعنی ان دونوں کے نزدیک سند کے تمام راوی ثقہ صدوق اور حسن الاسانید ہیں،امام ہیثمی کا یہ بیان ہے ۔ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (6/ 140) رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ غَيْرَ مَرْزُوقِ بْنِ أَبِي الْهُذَيْلِ وَهُوَ ثِقَةٌ ۔
اور جو حافظ عراقی سے اوپر روایت عربی میں بیان کی گئی ہے اسکی سند کے متعلق حافظ کا یہ کہنا ہے؛۔ الكتب » طرح التثريب للعراقي » كِتَابُ الْجِهَادِ » بَابُ الْغَنِيمَةِ وَالنَّفَلِ ۔ رقم الحديث: 1284)(حديث مرفوع) وَرَوَى الطَّبَرَانِيُّ فِي مُعْجَمِهِ الْكَبِيرِ ، بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ أَيْضًا ۔
بعض محدثین نے کہا ہے کہ جس شخص کو علم سے کچھ لگاؤ اور واقفیت ہے وہ ہرگز اس حدیث سے بے خبر نہیں ہوسکتا اسلیئے کہ یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ یہ (حدیثِ متصل) ہے ۔ کتاب امتناع نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ حدیث حضرت اسماء سے پانچ سندوں کے ساتھ روایت ہے ۔
امام صفحه ۵۲۸ جلد ۱ نصف الآخر میں لکھتے ہیں : اب اس بات سے ابن کثیر کا وہ قول رد ہوجاتا ہے جو پیچھے بیان ہوا (نوٹ ضرب حق: جو ہم آگے تحریر کریں گے)۔ جو پیچھے بیان ہوا کہ اس حدیث کو صرف ایک عورت نے بیان کیا ہے جو کہ بالکل غیرمعروف ہے اور جس کا حال کچھ معلوم نہیں ہے۔ اسی طرح اس سے ابن جوزی کے اس قول کی بھی تردید ہوجاتی ہے کہ یہ حدیث بلاشبہ موضوع یعنی من گھڑت ہے۔
کتاب امتناع میں اس حدیث کو پانچوں سندوں کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے مگر پانچویں سند میں یہ لفظ ہیں کہ خیبر کے دن حضرت علی ، حضور کے ساتھ مال غنیمت تقسیم کرنے میں مصروف تھے کہ اسی میں سورج غروب ہوگیا تھا۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اے علی! کیا تم نے عصر کی نماز پڑھ لی؟۔ انہوں نے کہا نہیں۔ حضور نے یہ سن کر فوراً وضو فرمائی اور مسجد میں بیٹھ کر دو یا تین کلمے فرمائے جو ایسا لگتا تھا جیسے حبشی زبان کے کلمے ہوں۔ اسی وقت سورج پہلے کی طرح عصر کے وقت لوٹ آیا۔ حضرت علی اٹھے اور انہوں نے وضو کرکے عصر کی نماز پڑھی ۔ اب آنحضرت نے پھر اسی طرح کلمے فرمائے جیسے پہلے فرمائے تھے جس سے سورج پھر واپس مغرب میں جاکر چھپ گیا جس سے ایسی آواز سنائی دی جیسے آرہ چلنے کی آواز ہوئی ہے ۔
مگر یہ روایت تمام سندوں کے خلاف ہے البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سند میں کچھ خبریں رہ گئی ہیں۔ اصل میں پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کے مال غنیمت کی تقسیم میں مصروف تھے اس کے بعد آپ ان کی گود میں سررکھ کر سوگئے اور پھر آپ کی آنکھ اسوقت کھلی جب کہ سورج غروب ہوچکا تھا۔ اس طرح ان روایتوں میں کوئی اختلاف نہیں رہتا ۔
سیرت حلبیہ جلد اول کے صفحہ 516 پر لکھا ہے کہ : اس سلسلے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لیئے سورج یعنی دن کو روکا گیا ۔ جب وہ دن آیا تو قریش کے لوگ گھروں سے نکل کر اس قافلے کا انتظار کرنے لگے ۔ آخر دن ڈھلنے لگا مگر وہ قافلہ نہیں پہنچا یہاں تک کہ سورج چھپنے کے قریب ہوگیا۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی کہ سورج کو غروب ہونے سے اس وقت تک کےلیے روک دے جب تک وہ قافلہ نہ آجائے (تاکہ اس طرح کفار آپ کو جھوٹا نہ سمجھیں) چنانچہ حق تعالیٰ نے سورج کو اس کی جگہ روک دیا یہاں تک کہ وہ قافلہ دن چھپنے سے پہلے پہنچ گیا جس میں وہ ساری علامتیں موجود تھیں جو حضور نے بتلائی تھیں ۔
اقول؛ مولف کہتے ہیں : ممکن ہے یہ بات کسی دوسرے قافلے کے بارے میں آپ نے دن متعین کرکے فرمائی ہو جس کے پاس آپ کا گزر ہوا تھا۔ لہٰذا اس گزشتہ روایت میں کوئی شبہ نہیں پیدا ہوتا جس کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ وہ اب ثنیہ کے مقام پر پہنچنے والا ہے ۔
سورج کے روکے جانے کے متعلق ہمزیہ کے شاعر نے بھی اپنے اس شعر میں اشارہ کیا ہے ۔
وشمس الضحیٰ طاعتک وقت مفیبھا
فما غربت بل والفنک بوقفتہ
ترجمہ : اور چمکتے ہوئے سورج نے اپنے غروب ہونے کے وقت آپ کے حکم کی تعمیل کی چنانچہ وہ غروب نہیں ہوا بلکہ آپ کی خواہش کے مطابق کچھ دیر تک اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا ۔
اسی صفحہ پر مزید لکھتے ہیں : ایک روایت میں یہ ہے کہ آپ کے سورج کو طلوع ہونے سے روکا گیا تھا۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ ایک مشرک نے جب آپ سے یہ کہا کہ ہمیں ہمارے قافلے کے متعلق بتاؤ تو آپ نے فرمایا کہ میں تمہارے قافلے کے پاس سے تنعیم کے مقام پر گزرا تھا۔ لوگوں نے پوچھا کہ اس قافلے میں کتنے اونٹ تھے کیا سامان تھا اور قافلے میں کون کون لوگ تھے۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ میں اس پر غور نہیں کرسکا تھا۔ مگر اس کے بعد پھر آپ سے پوچھا گیا تو آپ نے قافلے میں اونٹوں کی تعداد سامان کی تفصیل اور قافلے والوں کے متعلق خبر دی اور فرمایا ؛ (یہ قافلہ آفتاب طلوع ہونے کے وقت تمہارے پاس پہنچ جائے گا)۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے (حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دعا پر) اس وقت تک سورج کو طلوع ہونے سے روکے رکھا جب تک کہ وہ قافلہ مکے نہیں پہنچ گیا۔ یہ لوگ جب قافلے کو دیکھنے کے لیئے نکلے تو اچانک کسی نے کہا لو یہ سورج تو نکل آیا ۔اسی وقت کسی دوسرے نے پکار کر کہا۔اور لو یہ قافلہ بھی آگیا۔ اس میں وہی فلاں فلاں آدمی ہیں”۔ قافلے میں وہ لوگ نکلے جن کے متعلق آپ علیہ السلام نے فرمایا تھا۔ اب اگر یہ روایت صحیح ہے تو اس کے متعلق بھی وہی بات کہی جاسکتی ہے جو پیچھے بیان ہوئی ۔ واللہ اعلم ۔
صفحہ ۵۱۷ پر مزید لکھتے ہیں کہ : جہاں تک سورج کے رکنے کا تعلق ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ سورج کی حرکت (یعنی زمین کی گردش) بالکل رک گئی تھی ۔ ایک قول یہ ہے کہ حرکت ہلکی ہوگئی تھی اور ایک قول یہ ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ وقت کے لحاظ سے اپنی جگہ سے پیچھے ہوجانا۔
علماء نے لکھا ہے اس موقعہ کے علاوہ اور کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیئے سورج کو نہیں روکا گیا۔ ایک روایت یہ ہے کہ غزوہ خندق کے دن بھی حضور علیہ السلام کے لیئے سورج کو غروب ہونے سے روکا گیا تھا۔ یہاں تک کہ آپ نے عصر کی نماز پڑھی اور اسکے بعد سورج غروب ہوا۔ مگر اس روایت کی تردید اس قول سے ہوجاتی ہے جس میں ہے کہ اس دن حضور علیہ السلام نے عصر کی نماز سورج غروب ہوجانے کے بعد پڑھی تھی اور فرمایا تھا کہ ان مشرکوں نے ہمیں نماز، وسطی درمیانی نماز یعنی عصر کی نماز سے روک دیا۔ اسکی تفصیل آگے آئے گی ۔
مگر بعض حضرات نے اس بارے میں دوسری بات لکھی ہے کہ غزوہ خندق کئی تک تک رہا تھا۔ ان میں سے ایک دن سورج کو شفق یا اسکےبعد کی زردی کی شکل میں روکا گیا تھا اور آپ نے اسی وقت میں نماز پڑھی اور بعض دنوں میں روکا نہیں گیا بلکہ آپ نے غروب کے بعد نماز پڑھی۔ ان ہی بعض حضرات نے کہا ہے کہ شفق کی سرخی یا زردی میں تاخیر کی روایت کرنے والا دوسرا ہے اور غروب میں تاخیر کی روایت کرنے والا دوسرا شخص ہے اور اس طرح یہ دونوں باتیں الگ الگ روایتوں میں کہی گئی ہیں ۔
امام حلبی نے مزید لکھا ہے کہ : دوسرے انبیاء جن کے لیئے سورج روکا گیا ۔ ایک ضعیف روایت ہے کہ داؤد علیہ السلام کے لیئے بھی ایک بار سورج کو غروب سے روکا گیا تھا۔ علامہ بغوی نے لکھا ہے کہ اسی طرح ایک مرتبہ سورج کو سلیمان علیہ السلام کےلیے بھی روکا گیا ہے چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان فرشتوں کو حکم دیا جو سورج پر متعین ہیں کہ وہ اس کو پیچھے پھیر دیں تاکہ سلیمان علیہ السلام عصر کی نماز وقت کے اندر پڑھ لیں ۔ سلیمان علیہ السلام کےلیے بھی سورج روکا گیا ۔ اس کا مطلب ہے کہ سلیمان علیہ السلام کے لیے سورج کو پیچھے پھیرا گیا تھا روکا نہیں گیا تھا بلکہ یہاں اس کو روکے جانے کے سلسلہ میں ہی بحث چل رہی ہے ادھر بعض حضرات نے کہا کہ سلیمان علیہ السلام نے اپنے گھوڑوں کی کوچیں کاٹ ڈالی تھیں اور انکی گردن ماردی تھی کیونکہ ان کی وجہ سے وہ وقتِ عصر کی نماز ادا نہیں کرسکے تھے یعنی حق تعالیٰ کا حکم اس وقت میں پورا نہیں کر سکے تھے انہوں نے صدقہ نہیں کیا۔ تو یہ بھی انہوں نے حق تعالیٰ کے حکم کی تعظیم میں کیا تھا کیونکہ صدقہ کرنے میں بھی وقت کا صرف ہونا ضروری تھا ۔
ص ۵۱۸ پر یہ بھی لکھتے ہیں کہ یوشع علیہ السلام کےلیے بھی سورج روکا گیا تھا۔۔۔۔۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھانجے حضرت یوشع علیہ السلام کے لیئے بھی سورج روکا گیا ہے یہی ابن نون ابن یوسف صدیق علیہ السلام ہیں ۔ موسیٰ علیہ السلام کے بعد یہی ان کے جانشین ہوئے اورانہوں نے تبلیغِ دین کا کام کیا۔
ص ۵۲۴ پر لکھتے ہیں : اس کے بعد اسی کتاب میں لکھا ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے کہا۔
اے پرودگار مجھے بیت المقدس کی سرزمین سے اک تیر کی مار کے برابر قریب کردے۔
اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : اگر میں وہاں ہوتا تو تم کو ان کی قبر دکھلاتا جو ریت کے سرخ ٹیلے کے پاس راستے پر ہے۔
علامہ ابن کثیر کہتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ فرمانا کہ سوائے یوشع علیہ السلام کے سورج کو کسی انسان کے لیئے نہیں روکا گیا۔ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ واقعہ حضرت یوشع کی خصوصیات میں سے تھا۔ لہٰذا اس کی روشنی میں وہ روایت کمزور ہوجاتی ہے جو ہم نے بیان کی ہے کہ غزوہ خیبر کے موقعہ پر سورج کو غروب ہونے کے بعد لوٹایا گیا تھا یہاں تک کہ حضرت علی نے عصر کی نماز پڑھی جو اسلیئے رہ گئی تھی کہ حضور اپنی سواری پر سوگئے تھے ۔ یہ واقعہ آگے بیان ہوگا۔ (پھر علامہ ابن کثیر خیبر والی روایت کے بارے میں کہتے ہیں کہ) یہ حدیث منکر ہے۔ اس میں صحیح یا حسن ہونے کا کوئی جز نہیں ہے پھر یہ اگر حدیث صحیح ہوتی تو مختلف وجہوں سے اس کی روایت ضروری تھی اور بہت سے معتبر راوی اس کو بیان کرتے مگر اس کو اہلبیت میں سے صرف ایک عورت نے روایت کی ہے اور وہ ایسی کہ اسکےمتعلق کوئی تفصیل نہیں (کہ عام زندگی میں وہ کیسی تھی اور اسکی باتیں قابلِ اعتبار ہوتی تھیں یا نہیں) “یہاں تک علامہ ابن کثیر کا کلام ہے ۔ مگر اس روایت پر جو شبہ ہوتا ہے وہ آگے بیان ہوگا ۔ کیونکہ ایک حدیث یہ ہے کہ سورج کو سوائے حضور کے کسی کے لیے نہیں روکا گیا ۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ مراد سورج کو روکنے سے ہے اس کو غروب ہوجانے کے بعد پھیرنے یعنی واپس لوٹانے سے نہیں ہے۔ جب کہ ان دونوں باتوں میں فرق ہے کیونکہ سورج کو روکنے کا مطلب ہے اسکو اپنی جگہ پر ٹھہرا دینا اور پھیرنے کا مطلب ہے اسکے غروب ہونے کے بعد اس کو پھر واپس لانا بہرحال یہ اختلاف قابلِ غور ہے۔
مزید لکھتے ہیں : علامہ سبط ابن جوزی نے لکھا ہے کہ یہاں یہ کہاجاسکتا ہے کہ سورج کو روکنا یا اس کو دوبارہ پھیردینا مشکل ہے جو سمجھ میں نہیں آسکتا کیونکہ اسکے رکنے کی وجہ سے یا لوٹائے جانے کی وجہ سے دن اور رات میں فرق پیدا ہوگا اور اسکے نتیجے میں آسمانوں کا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔
اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ یہ واقعہ معجزات میں سے ہے اور معجزات کے سلسلے میں کوئی عقلی قیاس بھی کام نہیں کرسکتا (بلکہ وہ حق تعالیٰ) کی طرف سے ظاہر ہونے والی ایک خلافِ عادت بات ہوتی ہے جو جزو اور کل کا مالک ہے۔
امام حلبی نے مزید صفحہ ۵۲۵ میں بغداد کے ایک شیخ کا واقعہ بھی لکھا ہے کہ : بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی قسم کا واقعہ بغداد میں ایک بزرگ کے لیئے بھی پیش آیا ہے۔ یہ بزرگ عصر کی نماز کے بعد وعظ کہنے کے لیئے بیٹھے اور اس میں انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اہل بیت یعنی خاندان والوں کے فضائل ومناقب بیان کرنے شروع کیے ۔ اسی دوران میں ایک بادل سورج کے سامنے آگیا جس سے روشنی کم ہوگئی ۔ اس پر ان بزرگ اور دوسرے تمام حاضرین نے یہ سمجھا کہ سورج چھپ گیا ہے اس لیے انہوں نے مغرب کی نماز کےلیے اٹھنے کا ارادہ کیا یہ دیکھ کہ ان بزرگ نے لوگوں کوہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ ابھی نہ جائیں اس کے بعد انہوں نے مغرب کی جانب اپنا رخ کرکے کہا : ⬇
لا تغربی یاشمس حتی ینتھی
مدجی لال المصطفی رلنجلہ
ان کان للمولی وقوفک فلیکن
ھذا الوقوف لولدہ ولنسلہ
ترجمہ : اے سورج! اس وقت تک غروب مت ہو جب تک کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کی تعریفیں و مدح ختم نہ کرلوں ۔ اگر تو اب سے پہلے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیے ٹھہرا تھا تو اس وقت تیرا ٹھہرنا آقائے نامدار کی اولاد اور نسل کےلیے ہوگا ۔ ان کی اس دعا پر سورج ایک دم پھر سامنے آکر چمکنے لگا ۔ اس واقعہ کو دیکھ کر ان بزرگ پر لوگوں نے ہدیوں اور پوشاکوں کی بارش کردی ۔ یہاں تک علامہ سبط ابن جوزی کا کلام ہے ۔ درج ذیل کتب میں یہ حدیث موجود ہے : ⬇
الشفا بتعريف حقوق المصطفے، القاضي ابي الفضل عياض مالکي، ص ۳۸۴ دارالکتب العلميه بيروت، طباعت اردو، مکتبه اعلي حضرت ، س ۲۶۰ و ۲۶۱ مجلد ۱،چشتی)
امام یوسف نبھانی نے علامہ ابن السبکی رحمة اللہ علیہ کا بھی قول تحریر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس روایت کو قاضی عیاض مالکی نے الشفاء شریف ، میں ، امام الطحاوی نے ، طبرانی کی معجم الکبیر سے ، امام ابن مندہ ، ابن شاھین نے ابن مردویہ سے جنہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی کیا ہے، جبکہ فرماتے ہیں : وروی الطبرانی فی معجمہ الاوسط باسناد ِ حسن۔ جس کو طبرانی نے اپنی معجم الاوسط میں اسنادِ حسن سے روایت کیا ہے۔ مزید لکھا ہے کہ۔ قاضی عیاض کے علاوہ امام نووی، حافظ ابن حجر اور حافظ مغلطائ نے بھی روایت کیا ہے۔
الانوار المحمديه من المواهب اللدنيۀ، القاضي شيخ يوسف بن اسماعيل النبهاني، ص۱۷۶، حديث رد الشمس، دارالکتب العلميه بيروت
حافظ عراقی نے طرح التثریب فی شرح القریب میں ص ۲۴۷ و ۲۴۸ پر۔
حجتہ اللہ علی العالمین، فی معجزات سید المرسلین، للنبھانی ص ۲۵۵ لاهور پاکستان
مجمع الزاوئد ومنبع الفوائد، الحافظ نورالدين علي بن ابي بکر بن سليمان الهيثمي المصري الشافعي، جز سادس ۷.کتاب المغازي والسير ص ۶۴۸
مناهل الصفا في تخريج احاديث الشفا، ابي الفضل جلال الدين عبدالرحمن السيوطي، ص ۱۱۹ موسسته الکتب الثقافيه، دار الجنان، طبراني کي شرط پر صحيح قرار ديا.
المقاصد الحسنه امام الحافظ المورخ شمس الدين ابي الخير محمد بن عبدالرحمن السخاوي، ص ۲۲۶ دارالکتب العلميه بيروت
المعجم الکبير للحافظ ابي القاسم سليمان بن احمد الطبراني، ۲۶۰ تا ۳۶۰ هجري جز ۱۴ ص ۱۴۴ و صفحات ۱۴۵ و ۱۴۷ و ص ۱۵۲ از.مکتبه ابن تيميه قاهره مصر
نسيم الرياض في شرح شفا القاضي عياض، شهاب الدين احمد بن محمد بن عمر الخفاجي المصري متوفي ۱۰۶۹ هجري جز ۳ القسم الاول ص ۴۸۵ ، دارالکتب العلميه بيروت
شرح الشفا، للامام ملا علي القاري الهروي المکي الحنفي متوفي ۱۰۱۴ هجري، جز ۱، ص ۵۸۸ و صفحات ۵۹۴ و ۵۹۶ و ۵۹۳ از.فصل في انشقاق القمر وحبس الشمس، دارالکتب العلميه بيروت
المواهب اللدنيه ، از علامه زرقاني صفحات ۲۰۹ تا ۲۱۰ دارالکتب العلميه بيروت
شرح مشکل الآثار، امام المحدث الفقيه المفسر ابي جعفر احمد بن محمد بن سلامه الطحاوي موسسته الرسالۀ بيروت صفحات ۹۲ تا ۹۴، باب ۱۶۵ بيان مشکل ماروي
تاريخ مدينۀ دمشق ، للامام ابن عساکر، باب علي بن ابي طالب، صفحات ۳۱۳ و ۳۱۴ ج ۴۲ ، دارالفکر بيروت ۔ ہم اہلسنت و جماعت اسلاف علیہم الرّحمہ کے اقوال پر پوری طرح پابند ہیں اس لیے ہم اکا دکا علماء کے اقوال کی جگہ جمہور کے اقوال کو اہمیت دیتے ہیں ، اسی لیے ہمارے نزدیک یہ حدیث بھی بالکل درست ہے اور اس کی تائید میں دیگر احادیث اس کو قوی بنا دیتی ہیں جیسا کہ اوپر تفصیل سے بیان کیا گیا ۔
فضائل و مناقب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 11
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے فیصلے : ایک قاضی اور جج کی زندگی میں بسا اوقات ایسے پیچیدہ مقدمے بھی آجاتے ہیں جن کا حل انتہائی مشکل اور دشوار نظر آتا ہے ۔ دَر اَصل اس طرح کے مقدمات اس بات کا فیصلہ بھی کر دیتے ہیں کہ قاضی کن صلاحیتوں کا حامل ہے اور عقل و دانش کے کس بلند رُتبے پر فائز ہے ، آئیے ! شیرِ خدا حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کے کچھ دل چسپ اور مشکل فیصلوں کو ملاحظہ کیجیے اور دیکھیے کہ آپ کے فیصلوں نے کس طرح پریشان حالوں کی پریشانی حل کی ، دُکھیاروں کا دکھ دور کیا اور آزمائش میں گِھر جانے والوں کو آزمائش سے نکالا ۔ قاضی جب تک دونوں فریق کی بات نہ سن لے فیصلہ نہ کرے ۔
حدثنا هناد ، حدثنا حسين الجعفي ، عن زائدة ، عن سماك بن حرب ، عن حنش، عن علي، قال : قال لي رسول الله صلى الله عليه و آلہ وسلم : إذا تقاضى إليك رجلان ، فلا تقض للاول ، حتى تسمع كلام الآخر ، فسوف تدري ، كيف تقضي ، قال علي : فما زلت قاضيا بعد. قال ابو عيسى : هذا حديث حسن ۔
ترجمہ : علی رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ : مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جب تمہارے پاس دو آدمی فیصلہ کےلیے آئیں تو تم پہلے کے حق میں فیصلہ نہ کرو جب تک کہ دوسرے کی بات نہ سن لو عنقریب تم جان لو گے کہ تم کیسے فیصلہ کرو ۔ علی رضی الله عنہ فرماتے ہیں : اس کے بعد میں برابر فیصلے کرتا رہا ۔ امام ترمذی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے ۔ (جامع الترمذي 1331 علي بن أبي طالب إذا تقاضى إليك رجلان فلا تقض للأول حتى تسمع كلام الآخر فسوف تدري كيف تقضي)(سنن ابی داود/ الأقضیة 6 (3582)(تحفة الأشراف: 10081) (حسن) (متابعات کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے راوی ”حنش“ ضعیف ہیں، دیکھیے : الإرواء رقم: 2600)
اور اگر دوسرا فریق خاموش رہے ، عدالت کے سامنے کچھ نہ کہے ، نہ اقرار کرے نہ انکار یا دوسرا فریق عدالت کی طلبی کے باوجود عدالت میں بیان دینے کےلیے حاضر نہ ہو تو کیا دوسرے فریق کے خلاف فیصلہ دیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ قرینِ صواب بات یہی ہے کہ اس صورت میں عدالت یک طرفہ فیصلہ دینے کی مجاز ہو گی ۔
باغِ فَدَک اور حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کا فیصلہ
محترم قارئینِ کرام : یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ تمام کتب تواریخ اس پر شاہد ہیں کہ فدک زمانہ علوی میں بھی اسی طرح رہا جیسے صدیق و فاروق و عثمان رضی ﷲ عنہما کے دور خلافت میں تھا اور حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے بھی فدک میں وہی طریقہ جاری رکھا جو صدیق اکبررضی ﷲ عنہ نے جاری رکھا تھا ۔
آیئے پہلے اس کے متعلق پڑھتے ہیں کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ بھی خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی طرح فدک کو استعمال میں لائے :
شیعہ عالم الدکتور سعید السَّامرّائی لکھتا ہے : جب امر خلافت علی بن ابی طالب علیہ السّلام کے سپرد ہوا تو علی علیہ السّلام سے فدک کو اہلبیت کی طرف لوٹانے کے بارے میں کہا گیا تو علی علیہ السّلام نے جواب میں فرمایا کہ خدا کی قسم مجھے اس کام کو کرنے میں اللہ سے حیا آتی ہے جس کام کو ابوبکر عمر (رضی اللہ اللہ عنہما) نے نہی کیا ۔ (شیعہ کتاب : حجج النّھج صفحہ نمبر 277)
شیعہ محقق مرتضی علی موسوی لکھتا ہے : جب امر خلافت علی علیہ السّلام کے سپرد ہوا تو علی علیہ السّلام شیرخدا سے فدک کو اہلبیت کی طرف لوٹانے کے بارے میں کہا گیا تو علی علیہ السّلام نے جواب میں فرمایا کہ خدا کی قسم مجھے اس کام کو کرنے میں اللہ سے حیا آتی ہے جس کام کو ابوبکر عمر (رضی اللہ عنہما) نے نہیں کیا ۔ (شیعہ کتاب : الشافی فی الامامت صفحہ نمبر 76،چشتی)
شیعہ عالم الدکتور سعید السَّامرّائی لکھتا ہے : یہ سن کر سیدہ فاطمہ علیہا السّلام نے کہا کہ فدک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے ھبہ کردیا تھا ۔ابو بکر (رضی اللہ عنہ) نے پوچھا کہ اس بات کا کوئی گواہ تو حضرت علی علیہ السّلام اور ام ایمن بطور گواہ پیش ہوئے ۔ اور اس امر کی گواہی دی ۔ اتنے میں حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) اور عبدالرحمن بن عوف (رضی اللہ عنہ) بھی آگئے ۔ ان دونوں نے یہ گواہی دی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فدک کو تقسیم فرماتے تھے ۔ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ اے بنت پیغمبر توں نے بھی سچ کہا اے علی علیہ السّلام تم بھی سچے ہو ۔ اس لیے کہ اے فاطمہ علیہا السّلام تیرے لیے وہی کچھ ہے ۔ جو آپ کے والد کا تھا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فدک کی آمدنی سے تمہاری خوراک کا اہتمام فرماتے تھے ۔ اور باقی ماندہ کو تقسیم فرمادیتے اور اس میں سے فی سبیل اللہ سواری بھی لے دیتے ۔ تمہارے بارے میں اللہ سے معاہدہ کرتا ہوں کہ میں اسی طرح تم سے سلوک کروں گا جس طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سلوک فرمایا کرتے تھے ۔ تو یہ سن کر سیدہ فاطمہ حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے راضی ہوگئیں ۔ اور اسی بات پر ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) سے عہد لیا ۔ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) فدک کا غلہ وصول کرتے اور اہلبیت کو ان کی ضرورت کے مطابق دے دیتے ۔ ان کے بعد حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) بھی فدک کواسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے ، اس کے بعد عثمان (رضی اللہ عنہ) بھی فدک اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے ، اس کے بعد علی علیہ السّلام بھی فدک کو اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے ۔ (شیعہ کتاب : حجج النھج صفحہ نمبر 266،چشتی)
شیعہ محقق لکھتا ہے : جب امر خلافت علی رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوا تو علی شیرخدا رضی اللہ عنہ سے فدک کو اہلبیت رضی اللہ عنہم کی طرف لوٹانے کے بارے میں کہا گیا تو علی شیرخدا رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا کہ خدا کی قسم مجھے اس کام کو کرنے میں اللہ سے حیا آتی ہے جس کام کو ابوبکر عمر رضی اللہ عنہما نے نہیں کیا ۔ (شیعہ کتاب : شرح نھج البلاغہ ابن حدید جلد ۱۶ صفحہ ۲۵۲)
اب سوال یہ ہے کہ اگر حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ نے اپنے دور حکومت میں فدک غصب کرلیا تھا تو جناب حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کا فرض تھا کہ وہ فدک کو تقسیم کرتے اور اس وقت جو اس کے وارث موجود تھے ، ان کو دے دیتے اور جو ناجائز بات چلی آرہی تھی اور جو ظلم روا رکھا گیا تھا ، اس کو اپنے دور خلافت میں ختم کردیتے کیونکہ خود حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے میں کہ امام کے لئے پانچ امر ضروری ہیں :
(1) خوب وعظ کہنا ۔
(2) لوگوں کی خیر خواہی میں خوب قوت صرف کرنا ۔
(3) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنت کو زندہ کرنا ۔
(4) سزاؤں کے حق داروں کو سزا دینا ۔
(5) حق داروں کو ان کے حقوق واپس لوٹا دینا ۔ (نہج البلاغہ مصری جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 202)
اسی طرح شیعہ مذھب کی مشہور کتاب رجال کشی میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا یہ ارشاد مذکور ہے : انی اذا بصرت شیئا منکراً او قدت نارا و دعوت قنبراً ۔ (رجال کشی صفحہ نمبر 199،چشتی)
ترجمہ : جب میں خلافِ شریعت کام دیکھتا ہوں تو آگ جلاتا ہوں اور قنبر کو بلاتا ہوں ۔
اسی بناء پر آپ نے ان لوگوں کو آگ میں جلا دیا تھا ۔ جو آپ کو خدا کہنے لگ گئے تھے پھر فرماتے ہیں : ولا المعطل للسنۃ فیہلک الامۃ ۔ (نہج البلاغہ صفحہ 398)
ترجمہ : امام ایسا نہیں ہونا چاہئے جو پیغمبرکے طریقے کو چھوڑ دے، ورنہ امت ہلاک ہوجائے گی ۔
لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جناب حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ نے فدک میں وہی طریقہ جاری رکھا جو حضرت سیدنا صدیق اکبر اور حضرت عمر رضی ﷲ عنہما کا تھا یہ اس امر کی بہت بڑی دلیل ہے کہ حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کے نزدیک باغِ فَدک میں صدیقی طرز عمل حق و صواب تھا اور حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ صدیقی طرز عمل کو بالکل شریعت اسلامیہ کے مطابق جانتے تھے ۔
حقیقت یہ ہے کہ شیعہ حضرات کا صدیقی خلافت میں غصبِ فَدک کا قول کرنا حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کی امامت و خلافت پر شرمناک حملہ ہے ۔ کیونکہ اگر یہ مان لیا جائے کہ صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ نے باغِ فَدک غصب کرلیا تھا تو حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ پر بھی یہ الزام قائم ہوگا ۔ کہ انہوں نے فدک کو صدیقی خلافت کے دستو رپر جاری رکھ کر امت و خلافت کا حق ادا نہیں کیا ۔ حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ اگر غاصب فدک ثابت ہونگے تو حضرت مولا علی مرتضیٰ رضی ﷲ عنہ غصب کے برقرار رکھنے والے ثابت ہونگے ۔ سوچئے کہ غصب کرنے والا زیادہ مجرم ہے یا غصب کو برقرار رکھنے والا ۔ اور غاصبوں کے طرز عمل کی حکومت و سلطنت کے با وجود حمایت کرنے والا ۔ (معاذ ﷲ) ۔ غرضیکہ قضیہ فدک میں جناب حضرت مولا علی الممرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کا طرز عمل دنیائے شیعیت پر بہت بھاری حجت ہے ۔ اگر حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ کی خلافت پر اعتراض ہوگا تو حضرت سیدنا مولا علی رضی ﷲ عنہ کی خلافت پر بھی حرف آئے گا ۔ پس جناب حضرت مولا علی المرتضیٰ کا اراضی فدک کو اسی دستور پر رکھنا جس پر کہ جناب صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ نے رکھا تھا ، حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی حقانیت اور ان کے طرز عمل کی صحت پر دلیل قاہر ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو باغِ فَدَک دینے سے انکار فرما دیا تھا : ⬇
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْمُغِيرَةِ ، قَالَ : جَمَعَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بَنِي مَرْوَانَ حِينَ اسْتُخْلِفَ ، فَقَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ لَهُ فَدَكُ فَكَانَ يُنْفِقُ مِنْهَا وَيَعُودُ مِنْهَا عَلَى صَغِيرِ بَنِي هَاشِمٍ وَيُزَوِّجُ مِنْهَا أَيِّمَهُمْ ، وَإِنَّ فَاطِمَةَ سَأَلَتْهُ أَنْ يَجْعَلَهَا لَهَا فَأَبَى فَكَانَتْ كَذَلِكَ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ ، فَلَمَّا أَنْ وُلِّيَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَيَاتِهِ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ ، فَلَمَّا أَنْ وُلِّيَ عُمَرُ عَمِلَ فِيهَا بِمِثْلِ مَا عَمِلَا حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ ، ثُمَّ أَقْطَعَهَا مَرْوَانُ ، ثُمَّ صَارَتْ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، قَالَ عُمَرُ : يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَرَأَيْتُ أَمْرًا مَنَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام لَيْسَ لِي بِحَقٍّ وَأَنَا أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ رَدَدْتُهَا عَلَى مَا كَانَتْ يَعْنِي عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ أَبُو دَاوُد : وَلِيَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْخِلَافَةَ وَغَلَّتُهُ أَرْبَعُونَ أَلْفَ دِينَارٍ ، وَتُوُفِّيَ وَغَلَّتُهُ أَرْبَعُ مِائَةِ دِينَارٍ وَلَوْ بَقِيَ لَكَانَ أَقَلَّ ۔ (سنن ابی داؤد الجزء الثالث حدیث نمبر 2972 صفحہ نمبر 253،چشتی)
ترجمہ اردو : مغیرہ کہتے ہیں` عمر بن عبدالعزیز جب خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مروان بن حکم کے بیٹوں کو اکٹھا کیا پھر ارشاد فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس فدک تھا، آپ اس کی آمدنی سے (اہل و عیال، فقراء و مساکین پر) خرچ کرتے تھے ، اس سے بنو ہاشم کے چھوٹے بچوں پر احسان فرماتے تھے، ان کی بیوہ عورتوں کے نکاح پر خرچ کرتے تھے، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فدک مانگا تو آپ نے انہیں دینے سے انکار کیا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی تک ایسا ہی رہا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انتقال فرما گئے، پھر جب ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے ویسے ہی عمل کیا جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی میں کیا تھا، یہاں تک کہ وہ بھی انتقال فرما گئے، پھر جب عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے بھی ویسے ہی کیا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ بھی انتقال فرما گئے ، پھر مروان نے اسے اپنی جاگیر بنا لیا، پھر وہ عمر بن عبدالعزیز کے قبضہ و تصرف میں آیا، عمر بن عبدالعزیز کہتے ہیں : تو میں نے اس معاملے پر غور و فکر کیا ، میں نے اسے ایک ایسا معاملہ جانا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے فاطمہ علیہا السلام کو دینے سے منع کر دیا تو پھر ہمیں کہاں سے یہ حق پہنچتا ہے کہ ہم اسے اپنی ملکیت میں رکھیں؟ تو سن لو، میں تم سب کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اسے میں نے پھر اس کی اپنی اسی حالت پر لوٹا دیا ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں تھا (یعنی میں نے پھر وقف کر دیا ہے)۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عمر بن عبدالعزیزخلیفہ مقرر ہوئے تو اس وقت ان کی آمدنی چالیس ہزار دینار تھی ، اور انتقال کیا تو (گھٹ کر) چار سو دینار ہو گئی تھی ، اور اگر وہ اور زندہ رہتے تو اور بھی کم ہو جاتی ۔
ترجمہ انگلش :
Narrated Umar ibn Abdul Aziz: Al-Mughirah (ibn Shubah) said: Umar ibn Abdul Aziz gathered the family of Marwan when he was made caliph, and he said: Fadak belonged to the Messenger of Allah ﷺ, and he made contributions from it, showing repeated kindness to the poor of the Banu Hashim from it, and supplying from it the cost of marriage for those who were unmarried. Fatimah asked him to give it to her, but he refused. That is how matters stood during the lifetime of the Messenger of Allah ﷺ till he passed on (i. e. died). When Abu Bakr was made ruler he administered it as the Prophet ﷺ had done in his lifetime till he passed on. Then when Umar ibn al-Khattab was made ruler he administered it as they had done till he passed on. Then it was given to Marwan as a fief, and it afterwards came to Umar ibn Abdul Aziz. Umar ibn Abdul Aziz said: I consider I have no right to something which the Messenger of Allah ﷺ refused to Fatimah, and I call you to witness that I have restored it to its former condition; meaning in the time of the Messenger of Allah ﷺ. Abu Dawud said: When Umar bin Abd al-Aziz was made caliph its revenue was forty thousand dinars, and when he died its revenue was four hundred dinars. Had he remained alive, it would have been less than it.(Chishti)
عَن المغيرةِ قَالَ: إِنَّ عمَرَ بنَ عبد العزيزِ جَمَعَ بَنِي مَرْوَانَ حِينَ اسْتُخْلِفَ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ لَهُ فَدَكُ فَكَانَ يُنْفِقُ مِنْهَا وَيَعُودُ مِنْهَا عَلَى صَغِيرِ بَنِي هَاشِمٍ وَيُزَوِّجُ مِنْهَا أَيِّمَهُمْ وَإِنَّ فَاطِمَةَ سَأَلَتْهُ أَنْ يَجْعَلَهَا لَهَا فَأَبَى فَكَانَتْ كَذَلِكَ فِي حَيَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَيَاتِهِ حَتَّى مَضَى لسبيلِه فَلَمَّا وُلّيَ أَبُو بكرٍ علم فِيهَا بِمَا عَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَيَاتِهِ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ فَلَمَّا أَنْ وُلِّيَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَمِلَ فِيهَا بِمِثْلِ مَا عَمِلَا حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ ثُمَّ اقْتَطَعَهَا مَرْوَانُ ثُمَّ صَارَتْ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَرَأَيْتُ أَمْرًا مَنَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ لَيْسَ لِي بِحَقٍّ وَإِنِّي أُشْهِدُكُمْ أَنِّي رَدَدْتُهَا عَلَى مَا كَانَتْ. يَعْنِي عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وعمَرَ . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد ۔ (حدیث مشکوٰۃ)
ترجمہ : روایت ہے حضرت مغیرہ سے ۱؎ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ابن عبدالعزیز نے مروان کی اولاد کو جمع فرمایا ۲؎ جب آپ خلیفہ ہوئے پھر فرمایا کہ فدک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا تھا جس سے آپ خرچ فرماتے تھے اور اس سے بنی ہاشم کے بچوں پر لوٹاتے تھے اسی میں سے اور اسی سے ان کی بیوگان کا نکاح کرتے تھے۳؎ اور حضرت فاطمہ نے آپ سے سوال کیا تھا کہ یہ انہیں دے دیں تو انکار فرمادیا تھا ۴؎ پھر وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی شریف میں اسی طرح رہا حتی کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی راہ تشریف لے گئے پھر جب ابوبکر صدیق خلیفہ بنائے گئے تو آپ نے اس میں وہ ہی عمل کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی زندگی شریف میں کرتے تھے حتی کہ آپ بھی اپنی راہ گئے پھر جب حضرت عمر ابن خطاب خلیفہ بنائے گئے تو انہوں نے اس میں وہ ہی کام کیے جو ان دونوں بزرگوں نے کیے تھے ۵؎ حتی کہ وہ بھی اپنی راہ گئے پھر اسے مروان نے بانٹ لیا ۶؎ پھر وہ عمر ابن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا تو میں سمجھتا ہوں کہ جس چیز کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جناب فاطمہ کو نہ دیا اس میں میرا حق نہیں کہ تم کو گواہ بناتا ہوں کہ میں اسے اسی حال کی طرف لوٹاتا ہوں جہاں پر وہ تھا یعنی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ابوبکروعمر کے زمانہ میں ۷؎ ۔ (سنن ابوداؤد،چشتی)۔(تاریخ الخلفاء مترجم اردو صفحہ نمبر 466 مطبوعہ پرودریسو بکس اردو بازار لاہور)
حکیم الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں : ۱؎ خیال رہے کہ مغیرہ تین ہیں : ایک صحابی،دو تابعی مغیرہ ابن شعبہ صحابی ہیں جن کے حالات بارہا بیان ہوچکے اور اکثر صرف مغیرہ کہنے سے یہ ہی مراد ہوتے ہیں۔دوسرے مغیرہ ابن زید موصلی یہ تابعی ہیں۔امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ منکرالحدیث ہیں۔تیسرے مغیرہ ابن مقسم کوفی نابینا تھے،فقہی ومتقی تھے،۱۳۳ھ میں ان کی وفات ہوئی۔یہاں یہ تیسرے مغیرہ مراد ہیں نہ کہ مغیرہ ابن شعبہ صحابی کیونکہ حضرت مغیرہ صحابی کا انتقال ۵۰ھ پچاس ہجری میں ہوا اور عمر ابن عبدالعزیز ۹۹ ننانوے ہجری میں والی بنے تو یہ واقعہ حضرت مغیرہ صحابی کیسے بیان کرسکتے ہیں۔(مرقات)مگر حضرت شیخ کو یہاں سخت دھوکا لگا کہ وہ مغیرہ ابن شعبہ فرماگئے،یہاں تیسرے مغیرہ یعنی ابن مقسم کوفی مراد ہیں۔
۲؎ آپ عمر ابن عبدالعزیز ابن مروان ابن حکم ہیں،قرشی ہیں،اموی ہیں،تابعی ہیں،آپ کی کنیت ابوحفص ہے،آپ کی والدہ لیلی بنت عاصم ابن عمرابن خطاب ہیں یعنی حضرت عمرفاروق کی پوتی،سلیمان ابن عبدالملک کے بعد خلیفہ ہوئے، ۹۹ھ میں اور ۱۰۱ ایک سو ایک میں وفات پائی،مدت خلافت کل دو سال پانچ مہینہ،عمر شریف چالیس سال ہوئی یا اس سے بھی چند ماہ کم،متقی زاہد شب بیدار،بہت ہی خوفِ خدا رکھنے والے بزرگ تھے،جب آپ کی بیوی فاطمہ بنت عبدالملک سے آپ کے زمانہ خلافت کے حالات پوچھے گئے تو فرمانے لگیں کہ خلیفہ بننے کے بعد کبھی غسل جنابت نہ کیا،رات کا اکثر حصہ آہ وزاری میں گزارتے تھے۔
۳؎ یعنی باغ فدک کی آمدنی سے حضور انور یہ کام کرتے تھے اولًا اپنے گھر بار پر خرچ،پھر فقراءواقارب پر خرچ فرماتے۔یعود کے معنی ہیں باربار ان پر خرچ فرمانا یہ فرق ہے عائدہ اور فائدہ کے درمیان،فائدہ ایک بارنفی اور عائدہ بار بارنفی۔
۴؎ یعنی حضرت فاطمہ زہرا نے حضور کی زندگی پاک میں باغ فدک حضور سے مانگا۔آپ نے تملیک سے انکار فرمادیا ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چاہتے تھے کہ باغ میرے بعد وقف رہے کیونکہ حضرات انبیاء کرام کا متروک مال وقف ہوتا ہے۔چنانچہ ایسا ہی ہوا حتی کہ حضرت علی نے بھی اسے اپنی خلافت میں تقسیم نہ فرمایا۔
۵؎ یعنی حضرت ابوبکرصدیق اور عمر فاروق نے صرف متولی ہونے کی حیثیت سے اس باغ کی آمدنی کا انتظام فرمایا،کسی نے اسے اپنی ملکیت قرار نہ دیا۔حضرات امہات المؤمنین نے عثمان غنی کو حضرت صدیق اکبر کے پاس طلب میراث کے لیے بھیجنا چاہا تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے منع فرمادیا وہ حدیث سنا کر کہ حضرات انبیاءکرام کی میراث تقسیم نہیں ہوتی۔(دیکھو اشعۃ اللمعات میں اس حدیث کی شرح)جناب فاطمہ زہرا نے صدیق اکبر سے میراث مانگی تو آپ نے وہ ہی حدیث سناکر تقسیم میراث سے انکار فرمادیا جسے حضرت زہرا نے قبول فرمایا اور اس کے متعلق کبھی ذکر تک نہ کیا ، کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ سرکار فرمان مصطفی سن کر ناراض ہوتیں۔فغضبت کے معنی ہیں کچھ اور ہیں جو ان شاء اللہ اپنے مقام پر بیان ہوں گے بہرحال یہ باغ وقف رہا ۔
۶؎ یعنی مروان ابن حکم نے اپنے دور حکومت میں باغ فدک پر اپنے آپ میں تقسیم کرلیا کہ کچھ حصہ اپنے پاس رکھا کچھ اپنے عزیزوں کو دیا یہ ہی صحیح ہے۔مرقات نے فرمایا کہ مروان کی یہ تقسیم خلافت عثمانی میں ہوئی محض غلط ہے۔یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حضرت عثمان و علی زندہ ہوں اور مروان کی یہ حرکت دیکھ کر خاموش رہیں اور حضرت علی اپنے دور حکومت میں اس کی یہ تقسیم قائم رکھیں مرقات نے یہ سخت غلطی کی ہے۔اشعۃ اللمعات نے یہ ہی فرمایا کہ مروان کی یہ حرکت اپنے دور حکومت میں تھی۔خیال رہے کہ مروان ابن حکم حضرت عمر ابن عبدالعزیز کا دادا ہے،یہ زمانہ نبوی میں پیدا تو ہوا مگر حضور کے دیدار سے محروم رہا کیونکہ حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کے باپ حکم کو مدینہ سے طائف نکال دیا تھا،یہ اس وقت بہت کم سن تھا خلافت عثمان میں یہ مدینہ منورہ آیا لہذا مروان صحابی نہیں۔
۷؎ یعنی اس باغ میں میرا کچھ حصہ نہیں یہ اسی طرح وقف رہے گا جیسے ان حضرات کے زمانہ میں وقف تھا۔چنانچہ آپ نے تمام بنی امیہ سے وہ باغ واپس لے کر ویسے ہی وقف قرار دے دیا۔یہ عدل و انصاف آپ کے انتہائی تقویٰ،طہارت خوفِ خدا کی دلیل ہے۔ خیال رہے کہ حضرت عمر نے اپنی خلافت میں باغ فدک حضرت علی و عباس کی تولیت میں دے دیا تھا ، یہ دونوں حضرات متولی تھے نہ کہ مالک ، پھر ان دونوں نے اس کی تقسیم چاہی تو جناب فاروق نے فرمایا کہ تقسیم کیسی یہ تمہاری ملکیت نہیں صرف تولیت ہے ، یہ قصہ بخاری شریف وغیرہ میں بہت تفصیل سے مذکور ہے ۔ خیال رہے کہ حضرت علی و عباس نے ملکیت کی تقسیم نہ چاہی تھی بلکہ تولیت کی تقسیم کی خواہش کی تھی حضرت عمر نے اس کو بھی قبول نہ فرمایا تاکہ آگے چل کر یہ تقسیم ملکیت کا ذریعہ نہ بن جائے ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا متروکہ مال سارے مسلمانوں کے نفع پر خرچ ہوگا مگر اس کا انتظام یا بادشاہ کرے گا یا جسے بادشاہ اسلام مقرر فرمادے ۔ (مراۃ شرح مشکوٰۃ جلد نمبر 5 حدیث نمبر 4063،چشتی)
یمن کے ایک آدمی نے اپنے لڑکے کو سفر پر بھیجا تو اس کے ساتھ ایک غلام بھی روانہ کیا ، راستے میں کسی بات پر دونوں میں جھگڑا ہوگیا ، کوفہ پہنچ کر غلام نے دعویٰ کردیاکہ یہ لڑکا میرا غلام ہے اور میں اس کا آقا ہوں ، یہ کہہ کر اس نے لڑکے کو بیچنا چاہا ، جب یہ مقدمہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ نے اپنے خادم سےفرمایا : کمرے کی دیوار میں دو بڑے سوراخ بناؤ اور ان دونوں سے کہو : اپنے اپنے سر ان سوراخوں سے باہر نکالیں ، جب دونوں نے اپنے سر سوراخوں سے باہر نکال لئے ، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خادم سے فرمایا : رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تلوار لے آؤ ، خادم تلوار لایا تو آپ نے خادم سے کہا : غلام کا سر کاٹ ڈالو ، یہ سنتے ہی غلام نے فوراً اپنا سر پیچھے کر لیا جبکہ لڑکا اسی طرح کھڑا رہا ، یوں آپ کی حکمتِ عملی سے معلوم ہو گیا کہ “ غلام کون ہے ؟ ۔ (خلفائے راشدین صفحہ 124،چشتی)
ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص کو چوری کے الزام میں لایا گیا ساتھ گواہی دینے کےلیے دو گواہ بھی موجود تھے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ دوسرے کام کی طرف متوجہ ہو گئے پھر آپ نے جھوٹے گواہوں کے بارے میں فرمایا : جب میرے پاس جھوٹا گواہ آیا ہے تو میں نے اسے سخت سزا دی ہے ، (کچھ دیر بعد )آپ نے ان دونوں گواہوں کو طلب کیا تو معلوم ہوا کہ وہ دونوں جھوٹے گواہ پہلے ہی فرار ہو چکے ہیں لہذا آپ نے ملزم کو بری کردیا ۔ (مصنف ابی شیبہ ، 14 / 548 ، رقم : 29426) 17)
ایک مرتبہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے پاس 3 آدمی آئے اور کہنے لگے : ہمارے پاس 17 اونٹ ہیں ، ایک کا حصہ کل اونٹوں کا آدھا (2 / 1) ہے دوسرے کا حصہ تہائی (3 / 1) ہے اور تیسرے آدمی کا حصہ سب اونٹوں میں نواں (9 / 1) ہے ، آپ ہمارے درمیان اونٹ تقسیم کیجیے مگر شرط یہ ہے کہ انہیں کاٹنا نہ پڑے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیتُ المال سے ایک اونٹ منگوایا ، اب 18 اونٹ ہو گئے پہلا شخص جس کا حصہ تمام اونٹوں میں آدھا تھا اسے 18 کے آدھے یعنی 9 اونٹ دے دیے ، دوسرا شخص جس کا حصہ تہائی تھا اسے 18 کا تہائی یعنی 6 اونٹ دے دیے ، پھر تیسرا شخص جس کا حصہ کل اونٹوں میں نواں تھا اسے کل اونٹوں کا نواں حصہ یعنی 18 میں سے 2 اونٹ دےدیے اس طرح آپ رضی اللہ عنہ نے حسن تدبیر سے ایک مشکل مسئلے کا فیصلہ کر دیا اور 9 ، 6 ، اور 2 اونٹ ملاکر کل 17 اونٹ ان تینوں میں تقسیم بھی کر دیے اور کسی اونٹ کو کاٹنا بھی نہ پڑا ، ایک اونٹ جو باقی بچا اسے بیتُ المال میں واپس پہنچا دیا گیا ۔ (خلفائے راشدین صفحہ 126)
دو شخص صبح کے وقت کھانا کھانے کےلیے بیٹھے تھے ، ایک کے پاس 5 روٹیاں جبکہ دوسرے کے پاس 3 روٹیاں تھیں ، اتنے میں ادھر سے ایک شخص گزرا ، ان دونوں نے اس کو بھی اپنے ساتھ بٹھالیا اور تینوں نے وہ آٹھ روٹیاں مل کر کھالیں ، تیسرے شخص نے جاتے ہوئے 8 درہم ان دونوں کو دیے اور کہا : میں نے تمہارے ساتھ جو کھانا کھایا ہے اس کی یہ قیمت ہے تم اسے آپس میں تقسیم کرلو ، اب ان دونوں میں تقسیم پر جھگڑا ہوا ۔ 5 روٹیوں والے شخص نے کہا : میں 5 درہم لوں گا کہ میری روٹیاں 5 تھیں اور تم 3 درہم لوکہ تمہاری روٹیاں 3 تھیں ، دوسرے نے کہا : نہیں ! رقم آدھی آدھی تقسیم ہوگی ، دونوں یہ معاملہ لے کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، آپ نے (مشورہ دیتے ہوئے) 3 روٹی والے شخص سے فرمایا : تمہارا ساتھی جو تمہیں دے رہا ہے اسے قبول کرلو کیونکہ اس کی روٹیاں زیادہ تھیں ، وہ کہنے لگا : میں صرف انصاف والی بات کو قبول کروں گا ، آپ نے فرمایا : انصاف یہی ہے کہ تم ایک درہم لو اور تمہارا ساتھی 7 درہم لے ، اس نے حیرت سے کہا : میرے ساتھی نے مجھے 3 درہم دینے چاہے لیکن میں راضی نہیں ہوا ، آپ نے یہی مشورہ دیا مگر میں نے قبول نہیں کیا اور اب آپ یہ فرمارہے ہیں کہ انصاف کے طریقے پر میرا حق ایک درہم بنتا ہے آپ مجھے سمجھائیے کہ میرا حق ایک درہم کیسے ہے ؟ پھر میں ایک درہم قبول کرلوں گا ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : 8 روٹیوں کے 24 حصے تم تین آدمیوں نے کھائے ، یہ پتہ نہیں کہ کس نے کم کھایا اور کس نے زیادہ کھایا ؟ اس لیے یہ سمجھ لو کہ سب نے برابر برابر کھایا ہے (یعنی ہر ایک نے آٹھ حصے کھائے) تم نے اپنی 3 روٹیوں کے 9 حصوں میں سے آٹھ حصے کھا لیے ، تمہارا ایک حصہ باقی رہا ، اور تمہارے ساتھی نے اپنی 5 روٹیوں کے 15 حصوں میں سے 8 حصے کھائے اس کے 7 حصے باقی رہے ، تیسرے شخص نے تمہارے روٹیوں میں سے ایک حصہ کھایا اور تمہارے ساتھی کے سات حصے کھائے ، اب انصاف کے مطابق تم کو ایک درہم اور تمہارے ساتھی کو 7 درہم ملیں گے ، تفصیل سننے کے بعد اس جھگڑنے والے شخص کو ایک درہم لینا پڑا ۔ (استیعاب جلد 3 صفحہ 207)
ایک شخص نے مرتے وقت اپنے دوست کو 10 ہزار دیے اور وصیت کی : جب تم میرے لڑکے سے ملاقات کرو تو اس میں سے جو تم چاہو وہ اس کو دے دینا ، اتفاق سے کچھ روز بعد اس کا لڑکا وطن واپس آگیا ، اس موقع پر حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے اس آدمی سے پوچھا : بتاؤ ! تم مرحوم کے لڑکے کو کتنا دوگے ؟ اس نے کہا : ایک ہزار ، آپ نے فرمایا : اب تم اس کو 9 ہزار دو ، اس لیے کہ جو تم نے چاہا وہ 9 ہزار ہیں اور مرحوم نے یہی وصیت کی تھی کہ جو تم چاہو وہ اس کو دے دینا ۔ (خلفائے راشدین صفحہ 125) ۔
فضائل و مناقب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 12
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو مشکل کشاء کہنا حصّہ اوّل : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے متلعق مشکل کشا کا لفظ نہ معلوم کس وجہ سے لوگوں کو گراں ہوتا ہے ، زمانہ سابق میں یہ لفظ مبزلہ لقب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کےلیے مستعمل ہوتا تھا ، یہ لفظ عربی حلال المعاقد کا ترجمہ ہے حسب معنی لغوی خصوصیت ذاتِ خداوندی کے ساتھ نہیں رکھتا معانی شرعیہ کے اعتبار سے مشکل قسیم مجمل و متشابہ ہوتا ہے جس کا مصداق ہر فقیہ صاحب الرائے ہو سکتے ہے ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق بوقت ارسال یمن جبکہ انہوں نے عرض کی کہ میں حدیث السن ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مجھ کو قاضی اور حاکم بنا کر بھیجتے ہیں ! تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سینہ مرتضویہ پر دست مبارک مارا ۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ مشکلات کے حل کرنے میں زمانہ صحابہ رضی اللہ عنم میں بھی مشہور ہوگئے تھے تاکہ سخت فیصلہ میں یہ مثل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مشہور ہے ۔ ہر مسلمان کو مصیبت زدہ انسانوں کا مشکل کشا اور حاجت روا ہونا چاہیے بھوکے کو کھانا کھلانا ، پیاسے کو پانی پلانا ، بیمار کو دوا دینا ، ننگے کو لباس دینا ، بے گھر کو گھر مہیا کرنا ، غریب کی ضرورت پوری کرنا ، غریب ، یتیم ، مسکین ، بچوں کی ضروریات پوری کرنا ، ان کی اچھی تعلیم و تربیت کرنا ، ان کی خوراک ، پوشاک ، تعلیم کا بندوبست کرنا ، زخمی کو ہسپتال پہنچانا ، حادثات ، سیلاب ، وباؤں ، زلزلوں اور طوفانوں کے متاثرین کی مدد کرنا حسب توفیق ہر ایک پر فرض ہے ۔ جب ہر مسلمان کو مشکل کشا اور حسب توفیق حاجت روا ہونا لازم ہے تو مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو مشکل کشا کہنا کیونکر غلط ہو گیا ؟ جب ہم کسی بھی دنیا دار سے کچھ طلب کرتے ہیں تو معترضین اسے غلط نہیں کہتے مگر جونہی کوئی شخص اللہ کے نیک اور صالح بندوں سے مجازی طور پر مدد طلب کرتا ہے استعانت کرتا ہے تو اسے شرک قرار دیا جاتا ہے ۔ یہ سوچ جہالت پر مبنی ہے ۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَمَا نَقَمُواْ إِلاَّ أَنْ أَغْنَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ ۔ (سورہ التوبة 9 : 74)
ترجمہ : اور کسی چیز کو ناپسند نہ کر سکے سوائے اس کے کہ انہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے فضل سے غنی کر دیا تھا ۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَا آتَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ سَيُؤْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ رَاغِبُونَ ۔ (سورہ التوبة 9 : 59)
ترجمہ : اور کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ لوگ اس پر راضی ہو جاتے جو ان کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عطا فرمایا تھا اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے ۔ عنقریب ہمیں اللہ اپنے فضل سے اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مزید) عطا فرمائے گا ۔ بے شک ہم اللہ ہی کی طرف راغب ہیں (اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی کا واسطہ اور وسیلہ ہے ، اس کا دینا بھی اللہ ہی کا دینا ہے ۔ اگر یہ عقیدہ رکھتے اور طعنہ زنی نہ کرتے تو یہ بہتر ہوتا)
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : تَعَاوَنُواْ عَلَى الْـبِـرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۔ (المائدة 5 : 2)
ترجمہ : نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو ۔
یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اچھے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور برے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : من قضی لأحد من أمتی حاجة يريد أن يسره بها فقد سرني ومن سرني فقد سر ﷲ ومن سر ﷲ أدخله ﷲ الجنة ۔ (ديلمی مسند الفردوس، 3 : 546، رقم : 5702،چشتی)
ترجمہ : جس کسی نے میرے کسی امتی کو خوش کرنے کے لیے اس کی حاجت پوری کی اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے مجھے خوش کیا اس نے اللہ کو خوش کیا اور جس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : من أغاث ملهوفا کتب ﷲ له ثلاثا وسبعين مغفرة واحدة فيها صلاح أمره کله وثنتان وسبعون له درجات يوم القيمه ۔ (بيهقی، شعب الايمان، 6 : 120، رقم : 7670)
ترجمہ : جس نے کسی مظلوم و بے بس بیچارے کی فریادرسی کی اللہ تعالیٰ اس کےلیے 73 مغفرتیں لکھ دیتا ہے جن میں سے ایک کے عوض اس کے سارے معاملات درست ہوجائیں اور بہتر درجات اسے قیامت کے دن ملیں گے ۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے : أنه إذا أتاه السائل أوصاحب الحاجة قال اشفعوا فلتؤجرو اوليقض ﷲ علی لسان رسوله ماشاء ۔ (بخاری، الصحيح 5 : 2243، رقم : 5681)
ترجمہ : جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں جب کوئی منگتا یا حاجت مند آتا آپ فرماتے اس کی سفارش کرو اور ثواب حاصل کرو اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی زبان پر جو چاہے فیصلہ کرے ۔
حضرت فراس بن غنم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : أسال يا رسول ﷲ ، فقال النبی لا وإن کنت لا بد فسئل الصالحين ۔ ( بيهقی، شعب الايمان، 3 : 270، رقم : 3512 )
ترجمہ : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی یا رسول اللہ میں کسی سے سوال کرو ں ؟ فرمایا نہیں۔ اگر مانگے بغیر چارہ نہ ہو تو نیک لوگوں سے مانگ ۔
پس اسلام دوسروں کی مدد کا حکم دیتا ہے دوسروں کی حاجت روائی کرنا ہر مسلمان کا مشن بتاتا ہے اور اس پر اجر عظیم اور ثواب دارین کا وعدہ بھی کرتا ہے، نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنے صحابہ کو نیک اور صالح افراد سے مانگنے کی ترغیب دیتے ۔
’الفتاح‘ اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفت ہے جیسے عالم، علیم، حلیم، روف، رحیم، سمیع، بصیر، شہید، حاکم، حکم، شکور، مالک، ملک، مولی، ولی، نور، ھادی، ذارع وغیرہ وغیرہ یہ تمام اسماء حسنی قرآن پاک میں ذات باری تعالیٰ کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ اس حقیقت میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے ۔ اب ذرا دیکھیے یہی اسماء حسنی بندوں کےلیے بھی قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں مثلاً ۔ الْعَالِمُوْنَ ۔(العنکبوت، 29 : 43)’’علم والے بندے‘‘ ۔ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا ۔ (يوسف 12 : 22)’’ہم نے اسے حکمِ (نبوت) اور علم (تعبیر)عطا فرمایا‘‘ ۔ قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّـکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی ۔ (طه 20 : 68) ’’ہم نے (موسیٰ علیہ السلام سے) فرمایا : خوف مت کرو بے شک تم ہی غالب رہوگے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام قرآن کریم میں متعدد نام جہاں اپنے لیے استعمال فرمائے ہیں بعینہ وہی اسمائے وصفی اپنے بندوں کے لیے بھی استعمال فرمائے ہیں اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر شرک کا دشمن اور توحید کا حامی کون ہو سکتا ہے ؟ ایسا کرنا ہرگز ہرگز شرک نہیں شرک برائی ہے اور اللہ تعالیٰ برائی کا نہ مرتکب ہو سکتا ہے نہ اپنے بندوں کو اس کی تعلیم دے سکتا ہے۔ إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَo(النحل، 16 : 90)
’’بے شک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھوo‘‘
اللہ تعالیٰ حاکم ہے حاکموں کا حاکم ہے مگر اس نے اپنے بندوں کو بھی حکومت دی ہے وہ بھی حاکم ہیں بس اتنا فرق ملحوظ رکھیں کہ اللہ اپنی شان کے مطابق حاکم ہے بالذات و بالاستقلال۔ بندے اس کی عطا سے اور اس کے بنانے سے حاکم ہیں بندوں کے تمام کمالات اس کی عطا اور خیرات ہے جبکہ اس کے تمام کمالات ذاتی ہیں کسی کی عطا سے نہیں ۔
مولا کا مطلب : اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا : فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ ۔ (سورہ التحريم 66 : 4)
’’سو بے شک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مددگار ہیں۔‘‘
یہاں پر مولا مدد گار کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدد گار (مولا) کون کون ہیں : اللہ تعالیٰ ، جبریل علیہ السلام ، نیک مسلمان ، تمام فرشتے ۔
یہ کہنا جہالت ہے کہ اللہ ہی مولا ہے جب صالح مومنین نبی پاک کے مدد گار ہیں جبریل علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدد گار ہیں تو یہ نیک مسلمان اور جبریل علیہ السلام اللہ تو نہیں اہل ایمان ہیں مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں : مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللّهِ. قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ ﷲِ ۔
اس نے کہا : اﷲ کی طرف کون لوگ میرے مددگار ہیں ؟ تو اس کے مخلص ساتھیوں نے عرض کیا: ہم اﷲ (کے دین) کے مددگار ہیں،(آل عمران، 3 : 52)
اسی طرح النھایہ میں لفظ مولا کے مختلف معانی بیان کیے گئے ہیں۔
رب (پرورش کرنیوالا) ، مالک۔ سردار ، انعام کرنیوالا ، آزاد کرنیوالا ، مدد گار ، محبت کرنیوالا ، تابع (پیروی کرنے والا ، پڑوسی ،ابن العم (چچا زاد ، حلیف (دوستی کا معاہدہ کرنیوالا ) ، عقید (معاہدہ کرنے والا ) ، صھر (داماد، سسر) ، غلام ، آزاد شدہ غلام ، جس پر انعام ہوا ۔
جو کسی چیز کا مختار ہو۔ کسی کام کا ذمہ دار ہو۔ اسے مولا اور ولی کہا جاتا ہے۔
جس کے ہاتھ پر کوئی اسلام قبول کرے وہ اس کا مولا ہے یعنی اس کا وارث ہوگا وغیرہ ۔ (ابن اثير، النهايه، 5 : 228)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی نہیں ہر مسلمان کو مشکل کشا ہونا فرض ہے تاکہ بوقت ضرورت وہ مظلوم، مجبور، مسکین، مسافر، بیوہ، یتیم، فقیر کی حسب توفیق مشکل حل کرسکے کیا بھوکے پیاسے کو کھانا پانی نہ دو گے اور اسے بھوک و پیاس سے یہ کہہ کے مار و گے کہ کھلانے پلانے والا وہی رزاق ہے اسی سے مانگو۔ هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ ۔ (سورہ الشعراء، 26 : 79)’’جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے‘‘
کیا مریض کی عیادت نہ کرو گے۔ ہسپتال نہ پہنچاؤ گے دوا لے کر نہ دو گے یہ کہہ کر کہ :وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ ۔ (الشعراء، 26 : 80)’’جب بیمار پڑتا ہوں وہی شفا دیتا ہے۔‘‘
مومن حاجت روا مشکل کشا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : من قضی لأحد من أمتي حاجة يريد أن يسره بها فقد سرني ومن سرني فقد سر ﷲ ومن سر ﷲ أدخله ﷲ الجنه ۔ (ديلمی، مسند الفردوس بمأثور الخطاب، 3 : 546، رقم : 5702)
’’ جو میرے کسی امتی کو خوش کرنے کےلیے اس کی حاجت پوری کرے اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے مجھے خوش کیا اس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا اور جس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا ‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : ’’من أغاث ملهوفا کتب ﷲ له ثلاثا و سبعين مغفرة واحدة فيها صلاح أمره کله وثنتان وسبعون له درجات يوم القيمة‘‘ ۔ (بيهقی، شعب الايمان، 6 : 120، رقم : 7670،چشتی)
’’جس نے کسی بیچارے مظلوم کی فریاد رسی کی اللہ پاک اس کے لیے تہتر بخششیں لکھتا ہے جن میں ایک کے سبب اس کے تمام معاملات سدھر جاتے ہیں اور بہتر درجے اس کو قیامت کے دن ملیں گے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : ’’من نفس عن مؤمن کربة من کرب الدنيا نفس ﷲ عنه کربة من کرب يوم القيمة ومن يسر علی معسر يسر ﷲ عليه فی الدنيا والآخرة ومن ستر مسلما ستره ﷲ فی الدنيا والآخرة وﷲ فی عون العبد ما کان العبد في عون أخيه و من سلک طريقا يلتمس فيه علما سهل ﷲ له به طريقا إلی الجنة وما اجتمع قوم في بيت من بيوت ﷲ يتلون کتاب ﷲ ويتدا رسونه بينهم إلا نزلت عليهم السکينة وغشيتهم الرحمة وحفتهم الملآئکة و ذکر هم ﷲ فيمن عنده ومن بطأ به عمله لم يسرع به نسبه ۔ (مسلم، الصحيح، 4 : 2074، رقم : 2699)
’’جس نے کسی مسلمان کی دنیاوی تکلیف دور کی اللہ تعالیٰ اس کی آخرت کی مشکل حل فرمائے گا اور جس نے تنگ دست پر آسانی کی اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس پر آسانی کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی ستر پوشی فرمائے گا اور اللہ پاک اس وقت تک بندے کی مدد میں رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرنے میں مصروف رہتا ہے اور جو علم حاصل کرنے کے رستے پر چل نکلتا ہے اللہ پاک اس کےلیے جنت کا راستہ آسان کردیتا ہے اور جب بھی کوئی قوم اللہ تعالیٰ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اللہ تعالیٰ کی کتاب پڑھنے پڑھانے کے لیے جمع ہوتی ہے ان پر سکینہ (سکون و راحت) نازل ہوتی ہے رحمت اس کو ڈھانپ لیتی ہے فرشتے اس پر چھا جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے حضور حاضر فرشتوں کی مجلس میں ان بندوں کا فخریہ انداز میں ذکر فرماتا ہے اور جس کو عمل نے بلند تر مقام و مرتبہ پر پہنچنے میں ڈھیلا و موخر رکھا اسے نام و نسب جلد نہیں پہنچا سکتا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : ’’من ولا ه ﷲ شيأ من أمر المسلمين فاحتجب دون حاجتهم وخلتهم وفقرهم احتجب ﷲ دون حاجته و خلته و فقره فجعل معاوية رجلا علی حوائج الناس ۔ (ابوداؤد، السنن، 3 : 135، رقم : 2948،چشتی)
’’اللہ تعالیٰ نے جس آدمی کو مسلمانوں کے کسی عمل کا ولی (ذمہ دار، عہدیدار) بنایا اور اس نے ان کی حاجت و ضرورت و محتاجی کے آگے پردے لٹکادیے (اور حاجت مندوں کو اپنے تک پہنچنے نہ دیا) اللہ پاک اس کی حاجت و ضرورت و محتاجی کے آگے پردے لٹکادے گا (اس کی مدد نہیں فرمائے گا) امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی حاجت روائی کے لیے ایک شخص مقر ر فرمایا تھا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : من ولي من امر الناس شيا ثم اغلق بابه دون المسکين اوالمظلوم أوذی الحاجة اغلق ﷲ دونه أبواب رحمته عند حاجته و فقره أفقر ما يکون إليها ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 3 : 441، رقم : 15689)
’’جو لوگوں کے کسی درجہ کے معاملات کا حاکم بنایا گیا پھر اپنا دروازہ مسلمانوں کے آگے یا مظلوم یا حاجت مند کے آگے بند رکھا اللہ تعالیٰ اس کے سامنے اس کی حاجت اور طویل محتاجی کے وقت (قیامت کو) اپنی رحمت کے دروازے بند کردے گا ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ عامل بناتے وقت عامل (حاکم) پر شرط رکھتے کہ
1 : عمدہ ترکی نسل کے گھوڑے پر سواری نہیں کرے گا۔
2 : چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائے گا۔
3 : باریک کپڑا نہیں پہنے گا۔
(ولا تغلقوا أبوابکم دون حوائج الناس فإن فعلتم شيئا من ذلک فقد حلت بکم العقوبة ثم يشيعهم ۔ (بيهقی، شعب الايمان، 6 : 24، رقم : 7394،چشتی)
’’لوگوں کی حاجت برداری کے آگے اپنے دروازے بند نہ کرنا اگر تم نے ان میں سے کوئی کام کیا تو سزا پاؤ گے پھر ان کے ہمراہ چل کر انہیں رخصت فرماتے۔‘‘
خلاصہ کلام : اللہ تعالیٰ کے اکثر صفاتی نام در حقیقت اس کی صفات ہیں جو اس کی ذاتی مستقل اور دائمی ہیں کسی کی عطا کردہ نہیں۔ حادث نہیں۔ عارضی نہیں وقتی نہیں مگر وہ ذات با برکات کریم ہے جواد ہے، سخی ہے، عطا کرنے والی ہے اسی نے اپنے بندوں کو سننے دیکھنے، کرم، سخاوت، عطا، علم، قدرت اور حسن وغیرہ صفات عالیہ کا صدقہ عطا فرمایا ہے لہٰذا بندے صاحبان قدرت، صاحبان سمع و بصر، صاحبان کرم و سخاوت، عالم، حلیم، حکیم، علیم، رؤف، (شفیق) ہیں مگر سب کچھ اس کی عطا سے ۔ اللہ تعالیٰ کی صفات مستقل اور ذاتی ہیں مخلوق کی صفات عارضی اور عطائی ہیں تمام صفات میں یہی اصول پیش رہے بادشاہی حکم (حاکم) گواہ وغیرہ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ اللہ ہے نبی ولی اور دیگر مخلوق اپنی حیثیت رکھتی ہیں ایک کی جگہ دوسرے کو بٹھانا ظلم ہے ۔ بندہ کو بندہ کی حیثیت میں مانو اللہ تعالیٰ کو اس کی حیثیت و شان کے مطابق ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے ان مولا صفات بندوں میں سے جس ہستی کو تاج سروری عطا کیا گیا وہ خاتون جنت کے شوہر نامدار، حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے والد گرامی حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی ہے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے بھرے مجمعے میں جن کا ہاتھ باعثِ تکوین کائنات فخر موجودات سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ میں لے کر بلند کیا اور فرمایا : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیُّ مَوْلَاهُ ۔
ترجمہ : جس کا میں مولا ہوں علی بھی اسکا مولا ہیں ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح لوگ مشکلات اور پریشانیوں میں سید دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں رجوع کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توجہ اور دعا سے انہیں مشکلات سے نجات مل جاتی تھی ، اسی طرح وہ بارگاہ مرتضوی رضی اللہ عنہ سے بھی رجوع کرتے چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ کی روحانی توجہ اور دعا سے مشکل کشائی ہو جاتی ۔
اللہ رب العزت نے اپنے خاص دوستوں کو ایسی شان و مرتبہ سے نواز رکھا ہے کہ وہ اپنی خداداد طاقت کے ذریعے لوگوں کے احوال سے نہ صرف آگاہی رکھتے ہیں بلکہ ان کی رہنمائی اور حاجت روائی بھی فرماتے ہیں ۔
کیا کسی انسان کو اللہ کے سوا حاجت روا کہا جا سکتا ہے ۔ کیا اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کو حاجت روا کہنے سے شرک تو لازم نہیں آتا ؟
یہ وہ سوال ہے جو ایک طبقہ ہر اس موقع پر داغ دیتا ہے جب ان کے سامنے کسی مقبول خدا کی کوئی کرامت پیش کی جاتی ہے اور اس پر وہ قرآن مجید سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی ولی اور مددگار نہیں ۔ مثلاً : وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ ﷲِ مِّنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ ۔
ترجمہ : اللہ کے سوا نہ تمہارا کوئی ولی ہے نہ مددگار ۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر 107)
وَمَا النَّصُر اِلاَّ مِنْ عِنْدِ اللّٰه ۔
ترجمہ : اللہ کی بارگاہ کے علاوہ کوئی اور مدد نہیں ۔ (سورہ اٰل عمران آیت نمبر ۱۲۶)
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اللہ کی مرضی اور حکم نہ ہو تو کوئی فرشتہ یا انسان کسی دوسرے کی مدد نہیں کر سکتا ۔ مدد کرنے کی قوت اور طاقت بارگاہ ربوبیت سے ملتی ہے اور اسی کے اذن اور حکم سے مشکل کشائی ہوتی ہے ۔ یہ ہستیاں خواہ فرشتے ہوں ، جن ہوں یا انسان ، حزب اللہ ’’یعنی اللہ کی ٹیم اور جماعت‘‘ کے کارکن ہیں اور ان کے کام، حقیقت میں اللہ کے کام ہیں۔ اس لئے نیابت کے طور پر وہ بھی ولی اور مددگار ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا : اِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اﷲُ وَ رَسُوْلُه وَالَّذِيْنَ اٰٰمَنُوا ۔ (سورہ المائدة آیت نمبر 55)
ترجمہ : بے شک تمہارا ولی (مددگار) تو اللہ ہے اور اس کا رسول ہے اور اہل ایمان تمہارے ولی (مددگار دوست) ہیں ۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا : فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ ۔ (سورہ التحريم آیت نمبر 4)
ترجمہ : بے شک اللہ اس (رسول کریم) کا مولا (مددگار) ہے۔ جبریل اور نیک صاحب ایمان لوگ بھی ان کے مددگار ہیں اور اس کے بعد فرشتے بھی کھلم کھلا مددگار ہیں ۔
یاد رہے کہ ’’مولا‘‘ کا لفظ کئی جگہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت کے لئے استعمال ہوا ہے ۔
اَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِيْن ۔ (سورہ البقرة)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : نِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِيْر ۔
بے شک حقیقی معنوں میں اللہ تعالیٰ ہی ’’مولا‘‘ ہے لیکن قرآن مجید میں جبریل علیہ السلام اور صالح مومنین کو بھی مولا قرار دیا گیا ۔ جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے سوا دوسرے کو مولا کہنے سے شرک نہیں ہوتا ورنہ قرآن مجید میں انہیں مولا نہ کہا جاتا ۔ لیکن یہ مولا خود بخود نہیں بنے اللہ کے بنائے سے بنے ہیں ۔
اب رہی یہ بات کہ اللہ کے سوا کیا کسی اور کو حاجت روا اور مشکل کشا کہا جا سکتا ہے یا ایسا کہنا شرک کے دائرے میں آتا ہے ؟
اس کا ایک جواب تو اوپر آگیا کہ فرشتوں اور صالح مومنین کا ’’مولا‘‘ ، مددگار ہونا خود قرآن سے ثابت ہے اور وہ خود مولا نہیں بنے بلکہ یہ منصب انہیں خود اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے ۔ اب سید دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث پڑھیے اور اس بارے میں خود ہی فیصلہ فرما لیجیے ۔
بخاری و مسلم کی روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ کَانَ فِیْ حَاجَةِ اَخِيْهِ کَانَ اللّٰهُ فِی حَاجته وَمَن فَرَّجَ عَنْ مُسْلمٍ کُرْبَةً فَرَّجَ اللّٰهُ عَنْهُ بِهَا کُرْبَةَ مِنْ کُرْب يوم الْقيامة ۔
ترجمہ : جو شخص اپنے کسی بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری فرماتا ہے ۔ اور جس نے کسی مسلمان کی ایک تکلیف دور کی (مشکل حل کر دی) اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے قیامت کی تکلیفوں میں سے اس کی ایک تکلیف دور فرما دے گا ۔
کیا یہ عجیب بات نہیں کہ اس حدیث میں رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی بھائی کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کو قابل تحسین قرار دیں ۔ لیکن ہمارے یہ نادان دوست اس کو شرک ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔
اس موضوع پر بے شمار روایات اور دلائل موجود ہیں جن میں حاجت روائی ، مشکل کشائی اور مدد و نصرت کو بندوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے ۔ لیکن کوئی ایسا مسلمان نہیں جو ان بندوں کو حقیقی مشکل کشا یا حاجت روا سمجھتا ہو ۔ سب مسلمان یقین رکھتے ہیں کہ یہ رب العزت کی ذات اقدس ہی ہے جو ان بندوں سے اس نوعیت کے کام کرواتی ہے ۔
ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایسے حاجت روا خاص بندے ہمیشہ اور ہر دور میں رہتے ہیں اور ان کی تخلیق ہی اس مقصد کےلیے ہوتی ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اِنَّ لِلّٰهِ خَلْقًا خَلَقَهُمْ لِحَوَائج النَّاسِ تَفْزع النَّاسُ اِلَيْهمِ فی حوائجهم اولٰئِکَ الاٰمِنُوْنَ مِنْ عَذاب اللّٰهِ ۔ (الترغيب والترهيب 3 : 390،چشتی)
ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی حاجت روائی کےلیے ایک مخلوق پیدا کر رکھی ہے تاکہ لوگ اپنی حاجات کی تکمیل کےلیے ان سے رجوع کریں ۔ یہ لوگ عذاب الہٰی سے محفوظ و مامون ہیں ۔
علامہ محمد اقبال نے انہیں نفوس قدسیہ کے متعلق فرمایا تھا :
خاکی و نوری نہاد ، بندۂ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی ، اس کا دلِ بے نیاز
اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دلفریب اس کی نگاہ دل نواز
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں ، کارکشا ، کارساز
حضرت امام یوسف النبھانی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے سیدنا حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی روحانی قوت کا یہ ایک دلچسپ واقعہ جامع کرامات اولیاء میں درج کیا ہے وہ لکھتے ہیں : ایک حبشی غلام حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے محبت رکھتا تھا ۔ ایک مرتبہ چوری کے جرم میں اسے حضرت امیرالمومنین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا گیا ۔ اس نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا تو آپ کے حکم سے حسب قانون اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا ۔ ہاتھ کٹوا کر حبشی غلام دربار مرتضوی سے واپس آرہا تھا کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن الکواء سے ملاقات ہوگئی جنہوں نے پوچھا کہ تیرا ہاتھ کس نے کاٹا ہے ؟ غلام کہنے لگا ’’یعسوب المسلمین‘‘ ختنِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور زوج بتول مولا علی رضی اللہ عنہ نے کاٹا ہے ۔ ابن الکواء رضی اللہ عنہ نے پوچھا : انہوں نے تیرا ہاتھ کاٹ دیا ہے اور تو ان کی مدح کرتا ہے ؟ حبشی کہنے لگا میں ان کی مدح کیوں نہ کروں ، انہوں نے مجھے آخرت کی سزا سے بچا لیا ہے ۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اس کی یہ بات سن کر بڑے حیران ہوئے اور جا کر حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کر دیا ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے فوراً غلام کو طلب فرمایا اور اس کا ہاتھ اس کی کلائی کے ساتھ رکھ کر رومال سے ڈھانپ دیا ، کچھ دعائیہ کلمات پڑھے ۔ اچانک ایک آواز آئی کہ کپڑا ہٹادو ، کپڑا ہٹایا گیا تو ہاتھ بالکل صحیح سالم تھا ۔ (جامع کرامات اولیا و جلد اول صفحہ 423،چشتی)
حضرت علامہ امام تاج الدین سبکی رحمۃ اللہ علیہ ’’طبقات‘‘ میں لکھتے ہیں کہ : ایک مرتبہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے دونوں شہزادوں نے رات کی تاریکی میں کسی کو درد بھری آواز میں شعر پڑھتے سنا :
يا من يجيب دعاء المضطر فی الظلم
يا کاشف الضر والبلوی مع السقم
ان کان عفوک لا يرجوه ذو خطاء
فمن يجود علی العاصين بالنعم
ترجمہ : اے وہ ذات اقدس جو تاریکیوں میں مضطرب و بے قرار انسان کی پکار سنتی ہے ۔ اگر خطا کار تیری بخشش کے امیدوار نہ ہوں تو پھر گناہ گاروں پر تیرے سوا نعمتوں کی بارش کون برسائے گا ۔
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے اشعار سنے تو حکم دیا اس شخص کو تلاش کیا جائے ۔ لوگ اسے ڈھونڈ کر لے آئے ، وہ پہلو گھسیٹتا ہوا آپ کے سامنے حاضر ہو گیا ، آپ نے فرمایا : تجھے کیا مصیبت پیش آئی ذرا بیان تو کرو ۔ وہ شخص کہنے لگا : میں عیش و نشاط اور گناہوں میں مبتلا تھا ، میرے والد مجھے نصیحت فرماتے ہوئے کہتے : بیٹا خدا سے ڈرو ، اس کی گرفت بڑی سخت ہے۔ ایک دفعہ جب انہوں نے بار بار نصیحتیں کیں تو مجھے غصہ آگیا اور میں آپے سے باہر ہو گیا اور طیش میں آکر انہیں پیٹ ڈالا ۔ میرے والد نے کہا میں تیری شکایت کعبۃ اللہ جا کر دربار خداوندی میں کروں گا ، چنانچہ وہ کعبہ گئے اور جب واپس آئے تو میرا دایاں پہلو مفلوج ہو چکا تھا ۔ اب مجھے اپنے کیے پر سخت ندامت ہوئی ۔ میں نے اپنے والد سے معافی مانگی اور انہیں راضی کرنے کی کوشش کرتا رہا ۔ آخر کار انہوں نے وعدہ فرما لیا کہ وہ اللہ کے گھر جا کر میرے حق میں دعا کریں گے ۔ میں نے انہیں سفر کےلیے اونٹنی پیش کی جس پر سوار ہوکر وہ مکہ کی طرف روانہ ہوگئے لیکن اونٹنی بھاگ کھڑی ہوئی اور وہ چٹان سے گر کر فوت ہوگئے ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر تمہارا باپ راضی ہوگیا تھا تو اللہ کریم بھی راضی ہے ۔ اس نے کہا قسم بخدا میرے والد راضی ہوگئے تھے ۔ یہ سن کر حضرت حیدر کرار اٹھے ، کئی رکعت نوافل ادا کیے اور دعا فرمائی ۔ پھر فرمایا : تجھے مبارک ہو کھڑا ہو جا ، وہ اٹھا اور بالکل صحیح سلامت چلنے لگا ۔ وہ شخص صحت یاب ہو چکا تھا ۔
تاجدار اقلیم ولایت حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی ظاہری حیات مبارکہ میں پیش آنے والے ایسے کئی واقعات تو کتابوں میں منقول ہیں مگر کتب صوفیاء میں بے شمار ایسے واقعات اور مکاشفات بھی موجود ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ کے روحانی فیوضات کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور حقیقت یہ ہے کہ آپ کے کمالات دراصل کمالاتِ نبوت کا ہی تسلسل ہیں کیونکہ ہر ولی کی کرامت دراصل نبی علیہ السلام کے معجزات کا تسلسل شمار ہوتی ہے ۔ ان کرامات کا منبع اور سرچشمہ بھی نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی ذاتِ اقدس ہوتی ہے ۔
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ہادی عالم اور مشکل کشاء ہیں اکابرین دیوبند
اکابرین کے پیر و مرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکّی رحمۃ اللہ علیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علاوہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی مشکل کشاء کہا ہے ۔
دور کر دل سے حجاب جہل و غفلت میرے رب
کھول دے دل میں در علم حقیقت میرے رب
ہادی عالم علی مشکل کشاء کے واسطے
(کلیاتِ امدادیہ صفحہ نمبر 103ط مطبوعہ دار الاشاعت کراچی،چشتی)
ظاہر ہے کہ جب خود "مشکل کشاء" کی اصطلاح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں تو ان کے خلفاء و مریدین کو اس میں کیا عذر لاحق ہوسکتا ہے ۔
مشکل کشاء اور پیر دستگیر
دیوبندیوں کے امام جناب محمد سرفراز خان صفدر کے چھوٹے بھائی جناب صوفی عبدالحمید خان سواتی صاحب نے تو ’’فوائد عثمانی‘‘ کا حوالہ صحیح سمجھ کر نقل کیا ہے جس سے ایک صوفی بزرگ مولانا عثمان کو "مشکل کشاء" اور "پیر دستگیر" کہا گیا ہے ۔ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ اس صوفی بزرگ کے لئے حسب ذیل القابات میں نہ صرف "مشکل کشاء" بلکہ "دستگیر" کی اصطلاح بھی استعمال کی گئی ہے ۔
ملاحظہ فرمائیں : الہی بحرمت حضرت خواجہ مشکل کشاء ، سید الاولیاء، سندالاتقیاء ، زبدۃالفقہاء، راس العلماء ، رئیس الفضلاء ، شیخ المحدثین ، قبلۃ السالکین ، امام العارفین ، برہان المعرفہ ، شمس الحقیۃ ، فرید العصر ، وحیدالزمان ، حاجی الحرمین الشریفین ، مظہر فیض الرحمن پیر دستگیر حضرت مولانا محمد عثمان رضی اللہ عنہ ۔ (فیوضات حسینی ص 68۔ مطبوعہ مدرسہ نصرۃ العلوم گجرانوالہ1387ھ)
شیخ الاسلام دیوبند جناب حسین احمد مدنی فرماتے ہیں کہ : کیونکہ دعوات میں توسل کرنا خواہ اعمال صالحہ سے ہو یا عابدین صالحین سے ، اولیاء اللہ سے ہو یا انبیاء اللہ سے ، ملائکہ مقربین سے ہو یا اسماء و صفات و افعال الٰہیہ سے ایجابت دعاء میں بہت زیادہ مفید اور موثر اور سلف صالحین کا محمول بہ امر ہے ۔ اس لئے ان شجروں کو اسی طریق توسل پر ترتیب دیا گیا ہے ، مناسب یہ ہے کہ احباب روزانہ کم از کم ایک مرتبہ جونسا بھی شجرہ پسند خاطر ہو پڑھ لیا کریں اپنے لئے اور اس ناکارہ ننگ خاندان کے لئے بھی دعاء کریں ۔ امید قوی ہے کہ اس طریقہ پر دعاء قبول ہوگی ۔ (سلاسل طیبہ صفحہ نمبر 6 مطبوعہ ادارہ اسلامیات انار کلی لاہور،چشتی)
آگے تمام شجروں میں مختلف الفاظ سے اور ایک شجرہ میں واضح طور پر یہ لکھا گیا ہے کہ : ’’ہادی عالم علی مشکل کشاء کے واسطے ۔ یا اللہ ہادی عالم علی مشکل کشاء کے واسطے ، اور صالحین علیہم الرّحمہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وسیلہ و واسطے سے کرم فرما ۔ (سلاسلِ طیّبہ صفحہ 14 شیخ الاسلام دیوبند)
ایصال ثواب جائز،دیوبندی پیروں کے وسیلہ سے دعا بحرمت کہہ کر کرنا جائز، دیوبندی پیر دستگیر بھی ہیں اور مشکل کشاء بھی ۔ ( فیوضات حسینی صفحہ نمبر 68 دیوبندی علماء)
قطب العالم دیوبند غوث اعظم ہے (سب سے بڑا فریاد رس) قطب العام دیوبند نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ثانی ہے ہے ۔ (مرثیہ گنگوہی صفحہ 4 از قلم شیخ الہند دیوبند محمود حسن)
دیوبندیوں کا حاجت روا مشکل کشاء:اب ہم اپنی دین و دنیا کی حاجتیں کہاں لے جائیں وہ ہمارا قبلہ حاجات روحانی و جسمانی گیا۔(مرثیہ گنگوہی صفحہ 7 شیخ الہند دیوبند محمود حسن)
دیوبندیوں کا قطب العالم ، غوث زماں گنج عرفاں دستگیر بیکساں مولوی رشید احمد گنگوہی ہے ۔ (تذکرۃُ الرشید جلد دوم صفحہ 136) کیوں جی یہ شرک نہیں ہے ؟؟
ہم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو غوث اعظم کہیں تو شرک کے فتوے اور دیوبندی اپنے گنگوہی کو غوث الاعظم لکھیں تو جائز۔ تذکرۃ الرشید جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 2) کیوں جی دیوبندیو یہاں شرک ہوا کہ نہیں ؟
اگر یہی الفاظ مسلمانان اہلسنت نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اور اولیاء کرام علیہم الرّحمہ کےلیئے استعمال کرتے ہیں تو شرک کے فتوے مگر اہنے مردہ مٹی میں مل جانے اور گل سڑ جانے والے مولوی کےلیئے یہ سب کچھ جائز ہے آواز دو انصاف کو انصاف کہاں ہے ؟ اور اب تک کسی دیوبندی عالم اور پر جوش موحد نے اس کتاب پر اور لکھنے والے پر نہ کوئی فتویٰ لگایا اور نہ ہی رد لکھا آخر یہ دہرا معیار کیوں جناب اور امت مسلمہ پر فتوے لگا کر وہی افعال خود اپنا کر منافقت دیکھا کر تفرقہ و انتشار کیوں پھیلایا جاتا ہے آخر کیوں ؟ فیصلہ اہل ایمان خود کریں مسلمانان اہلسنت یہ نظریات رکھیں اور کہیں تو شرک کے فتوے اور دیوبندی خود سب کچھ کریں تو جائز آخر یہ دہرا معیار و منافقت اپنا کر امت مسلمہ میں تفرقہ و انتشار کیوں پھیلایا جاتا ہے ؟ ۔
فضائل و مناقب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 13
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو مشکل کشاء کہنا حصّہ دوم : دیوبندیوں اور وہابیوں کی ڈیوٹی یہ ہے کہ جھوٹ بول بول کر مسلمانانِ اہلسنّت پر شرک کے فتوے لگاتے ہیں ۔ قرآن و حدیث پر مکمل ایمان نہیں رکھتے اور خود غیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں مگر فتوے دوسروں پر لگاتے اس مضمون میں ان کی اسی منافقت کو بے نقاب کیا گیا ہے ایک بار مکمل ضرور پڑھیں فضول کمنٹس سے پرھیز کریں :
قرآنی آیاتِ مبارکہ
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ
(القران 5:55) تمہارا ولی تو بس اللہ ہے، اور اس کا رسول اور وہ جو ایمان رکہتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور حالتِ رکوع میں زکوۃ ادا کرتے ہیں۔
وَمَن يَتَوَلَّ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ فَإِنَّ حِزْبَ اللّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ ۔ (القران 5:56)
ترجمہ : اور جو اللہ کو اور اس کے رسول کو اور مومنین کو اپنا ولی بناتے ہیں تو بیشک اللہ کی جماعت ہی غالب آنے والی ہے ۔
وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَا آتَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ سَيُؤْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ رَاغِبُونَ ۔ (القران 9:59)
ترجمہ : اور اگر وہ اس پر راضی ہو جاتے کی جو کچہ اللہ نے اور اس کے رسول نے انہیں دیا ہے، اور یہ کہتے کہ اللہ ہمارے لیے کافی ہے۔ اور اللہ جلد ہمیں مزید عطا کرے گا اپنے فضل سے اور اس کا رسول بھی ۔
يَحْلِفُونَ بِاللّهِ مَا قَالُواْ وَلَقَدْ قَالُواْ كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُواْ بَعْدَ إِسْلاَمِهِمْ وَهَمُّواْ بِمَا لَمْ يَنَالُواْ وَمَا نَقَمُواْ إِلاَّ أَنْ أَغْنَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ فَإِن يَتُوبُواْ يَكُ خَيْرًا ۔ (القران 9:74)
ترجمہ : یہ قسم کہاتے ہیں کہ انہوں نے ایسا نہیں کہا ہے حالانکہ انہوں نے کلمہِ کفر کہا ہے اور ایمان لانے کے بعد کافر ہو گثے ہیں اور وہ ارادہ کیا تھا جو حاصل نہیں کر سکے اور انہیں صرف اس بات کا غصہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے انہیں (مسلمانوں) کو غنی کر دیا ہے۔ بہرحال یہ اب بھی توبہ کر لیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ہے ۔
فضل سے غنی کرنا تو صرف اللہ کا کام ہے ، مگر اللہ اسی قران میں گواہی دے رہا ہے کہ اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بھی اپنے فضل سے مسلمانوں کو غنی کرتا ہے۔ تو اب مسئلہ یہ ہے کہ قران کے صرف ظاہر کو لینے اور مجاز کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے سب سے پہلے اللہ پر مشرک ہونے کا فتویٰ لگے گا ۔
إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ ۔ (القران 66:4)
ترجمہ : (اے نبی کی بیویو) اب تم توبہ کرو کہ تمہارے دل ٹیرھے ہو گئے ہیں ورنہ اگر تم اس (رسول) کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی تو یاد رکہو کہ اس (رسول) کا ولی اللہ ہے اور جبرئیل ہیں اور صالح مومنین اور فرشتے سب اس کے مددگار ہیں ۔
غیر مقلد وہابی غیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں
وہابی مولوی نواب وحید الزمان لکھتا ہے : غیرُ اللہ سے مدد مانگنا کہ اللہ کے اذن (یعنی عطاء) سے مدد کرتے ہیں یہ شرک نہیں ہے ۔(ہدیۃ المہدی صفحہ نمبر 20۔چشتی)
وہابی مولوی نواب صدیق حسن خان لکھتا ہے : قاضی شوکاں مدد ، قبلہ دیں مدد غیر اللہ سے مدد مانگی جا رہی ہے ۔ ( نفخ الطیب صفحہ نمبر 63 غیر مقلدین کے امام نواب صدیق حسن خان)
قاضی شوکاں مدد ، قبلہ دیں مدد غیر اللہ سے مدد مانگی جا رہی ہے ۔ ( ہدیۃ المہدی صفحہ نمبر 23 نواب وحید الزّمان غیر مقلد اہلحدیث)
نواب صدیق حسن خان کا امام شوکانی سے مدد مانگنا اور غیر مقلد عالم رئیس ندوی کی تاویل
غیر مقلدین کی یہ عادت ہےکہ وہ بات بات پہ دوسروں کے اوپر شرک کا فتوی لگائیں گے اور اگر ویسا ہی حوالہ ان کے علماء کا نکل آئے تو یا تو اپنے عالم کو جوتے کی نوک پہ رکھتے ہوئے اس کا انکار کر دیں گے یا پھر اس کی تاویل شروع کر دیں گے ۔
غیرمقلد ویابیوں کے مشہور عالم نواب صدیق حسن خان صاحب نے اپنی کتاب ''نفخ الطیب'' میں قاضی شوکانی سے مدد مانگی تو اس کی تاویل میں وہابی مولوی رئیس ندوی تاویل کرتے ہوۓ لکھتا ہے کہ '' اشعار میں بڑی نازک خیالی پیش کرنے کی شعراء کی عادت ہے ، یہاں نواب صاحب کی بات کا مطلب ہے کہ اہلحدیث فرقہ کے ساتھ اہل رائے فتنہ پردازی میں مصروف ہے ان کے مقابلہ کےلیے ہمیں امام شوکانی جیسے حامی سنت کی کتابوں سے مدد لینے کی ضرورت پیش ہے ۔ (مجموعہ مقالات پر سلفی تحقیقی جائزہ صفحہ نمبر 868/869،چشتی)
نواب صدیق حسن خان کے اس شعر کی ایک تاویل مولوی ثناء اللہ امرتسری نے بھی کی ہے ۔غیر مقلد شیخ الاسلام مولوی ثناء اللہ امرتسری کے رسالہ اہلحدیث امرتسر میں ایک قادیانی نے اعتراض کیا کہ نواب صدیق حسن خان فوت شدہ بزرگوں سے استمداد کے قائل تھے ان کا شعر ہے کہ ''ابن قیم مددے قاضی شوکانی مددے'' اس کے جواب میں لکھا ہے کہ ''نواب صاحب کا اس سے مقصود حقیقی استمداد نہیں بلکہ اظہارِ محبت ہے ۔ (رسالہ اہلحدیث امرتسر،3 جون 1938،صفحہ 7)
اس کے علاوہ نواب صدیق حسن خان صاحب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بھی مدد مانگتے تھے ۔ (مآثر صدیق،حصہ دوم صفحہ 30/31)
بات بات پر اہلسنت و جماعت پر شرک کے فتوے لاگانے والے غیر مقلد وہابی حضرات کیا ؟ اپنے غیر مقلد اہلحدیث عالم نواب صدیق حسن خان کےامام شوکانی ، ابن قیم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سے مدد مانگنے کے ان حوالوں کو مانیں گے یا اپنے نواب صاحب کو جوتے کی نوک پہ رکھتے ہوئے ان پر بھی شرک کا فتوئ لگائیں گے ؟
دیوبندیوں کے شرکیہ عقاٸد
دیوبندیوں کے نزدیک ایصال ثواب جائز ، دیوبندی پیروں کے وسیلہ سے دعا بحرمت کہہ کر کرنا جائز ، دیوبندی پیر دستگیر بھی ہیں اور مشکل کشاء بھی ۔ (فیوضات حسینی صفحہ نمبر 68 دیوبندی علماء)
دیوبندیوں کا اقرار ہم بزرگوں کی ارواح سے امداد کے منکر نہیں ہیں
سوانح قاسمی میں ایک واقعہ بیان ہوا کہ بانی دیوبند قبر سے آ کر ایک مولوی صاحب کی مدد کرتے ہیں اس طرح دیوبندی علماء اپنے خود ساختہ شرک کے فتوؤں میں جب پھنس گئے تو اپنے بڑوں کو شرک سے بچانے کےلیئے خود ہی اقرار کر لیا کہ ہم بزرگوں کی قبروں اور ان کی ارواح سے مدد کے منکر نہیں ہیں بلکہ یہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور ہم اسے مانتے ہیں ہم پر انکار کا الزام لگانے والے جاہل ہیں پہلے یہ پڑھیئے :
دیوبندی عالم جناب مناظر احسن گیلانی اپنے بڑوں کو شرک سے بچانے کےلیئے لکھتے ہیں : پس بزرگوں کی ارواح سے مدد لینے کے ہم منکر نہیں ہمارا بھی ارواح صالحین سے مدد کے متعلق وہی عقیدہ ہے جو اہلسنت و جماعت کا ہے اور یہ سب قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔ (حاشیہ سوانح قاسمی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 332 قدیم ایڈیشن و صفحہ نمبر 211 جدید ایڈیشن مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور)
وہابیت کی راہ پر چل کر مسلمانانِ اہلسنت پر یہی عقیدہ و نظریہ رکھنے کی وجہ سے شرک کے فتوے لگانے والے دیوبندی جواب دیں بانی دیوبند ، شیخ الہند دیوبند اور مناظر احسن گیلانی صاحبان مشرک ہوئے کہ نہیں ؟
اور وہ لکھ رہے ہیں ارواح صالحین سے مدد کے انکار کا ہم پر الزام لگانے والے جاہل ہیں اور بہتان لگانے والے ہیں اب بتایئے آپ لوگ بہتان تراش اور جاہل ہیں کہ نہیں جو ارواح صالحین علیہم الرّحمہ سے امداد کے منکر بن کر اسے دیوبند کی طرف منسوب کرتے ہیں ؟
قطب العالمِ دیوبند غوث اعظم ہے (سب سے بڑا فریاد رس) قطب العام دیوبند نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ثانی ہے ہے ۔ (مرثیہ گنگوہی صفحہ 4 از قلم شیخ الہند دیوبند محمود حسن)
دیوبندیوں کا سب سے بڑا مددگار غوث اعظم گنگوہی ہے ، بانی اسلام کا ثانی گنگوہی ہے، اللہ کا فیض تقسیم کرنے والا ، ابر رحمت ، اللہ کا سایہ ، قطب ہے گنگوہی ۔ (مرثیہ گنگوہی صفحہ نمبر 4،چشتی)
اے مسلمانو دیوبندیوں نے اپنے گنگوہی کو پیغمبرَ اسلام رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ثانی قرار دیا ھے سوال ھے آپ کی غیرتِ ایمانی سے کیا یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شانِ اقدس میں گستاخی نہیں ہے فرقہ واریت سے ھٹ کر ایک مسلمان کی حیثیت سے جواب دیجیئے ؟ اور یہ گنگوہی کو اللہ کا فیض تقسیم کرنے والا ، غوث اعظم ، اللہ کا سایہ اور اللہ کی رحمت کہیں تو کوئی شرک نہیں اور مسلمانانزِ اہلسنت پر شرک کے فتوے کیوں جناب عالی ؟
دیوبندیوں کا حاجت روا مشکل کشاء : اب ہم اپنی دین و دنیا کی حاجتیں کہاں لے جائیں وہ ہمارا قبلہ حاجات روحانی و جسمانی گیا ۔ (مرثیہ گنگوہی صفحہ 7 شیخ الہند دیوبند محمود حسن)
دیوبندیوں کا قطب العالم ، غوث زماں گنج عرفاں دستگیر بیکساں مولوی رشید احمد گنگوہی ہے ۔ (تذکرۃُ الرشید جلد دوم صفحہ 136۔چشتی)
ہم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو غوث اعظم کہیں تو شرک کے فتوے اور دیوبندی اپنے گنگوہی کو غوث الاعظم لکھیں تو جائز ۔ (تذکرۃ الرشید جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 2)
دیوبندیوں کا مشکل کشاء حاجت روا رشید احمد گنگوہی دیوبندی لکھتے ہیں گنگوہی صاحب کا ایسا مرتبہ تھا کہ گنگوہی کے نام کے وسیلے سے حاجتیں پوری ہوتی تھیں ۔ (تذکرۃُ الرشید جلد دوم صفحہ297۔چشتی)
دیوبندیوں کا غوث (یعنی فریاد سننے والا) رشید احمد گنگوہی ہے جس کے وسیلے سے ہزاروں لوگوں کی حاجتیں پوری ہوتی ہیں ۔ (تذکرۃُ الرّشید جلد دوم صفحہ نمبر 305)
دیوبندیوں کا سب سے بڑا فریاد رس غوثُ الاعظم رشید احمد گنگوہی ہے
عاشق الٰہی بلند شہری دیوبندی لکھتا ہے : رشید احمد گنگوہی قُطبُ العالم اور غوثُ الاعظم ہیں ۔ (تذ کرۃُ الرّشید جلد اوّل قدیم ایڈیشن صفحہ نمبر 2)
کوئی دیوبندی قطب العالم اور غوثُ الاعظم کے معنیٰ بتائے گا ؟
مسلمانانِ اہلسنّت حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو غوثُ الاعظم کہیں تو شرک کے فتوے اور تم اپنے مولوی کو غوثُ الاعظم کہو لکھو تو عین توحید اور ایمان ہو جائے کیوں جناب من یہاں شرک کے فتویٰ کہاں گیا ؟
یا مان لو کہ مسلمانانِ اہلسنت کے عقائد و نظریات حق ہیں یا اپنے مولویوں پر فتویٰ لگاؤ شرک کا ؟
اپنے لیے شریعت اور دوسروں کےلیئے اور یہ دہرا معیار چھوڑ کر فتنہ فساد اور تفرقہ پھیلانا چھوڑ دو ۔
دیوبندیوں کا مولوی مظہرِ نورِ ذاتِ خدا ، رنج و غم ٹالنے والا اور چارہ ساز بھی ہے جو اٹھ گیا اب کون رنج و غم مٹائے گا اور چارہ سازی کرے گا چارہ ساز جو اٹھ گیا ۔ (مرثیہ شیخ مدنی صفحہ 24 مطبوعہ راشد کمپنی دیوبند یوپی)
یہی الفاظ مسلمانانِ اہلسنّت کہیں تو شرک مگر یہاں جائز ؟
گنج بخش فیض عالم مظہرِ نورِ خدا پر شرک کے فتوے لگانے والے دیوبندی مفتیو اب لگاؤ نا یہاں شرک کے فتوے ؟
جس نے اللہ کا دیدار کرنا ہو وہ دیوبندیوں کے مولوی کی قبر کی زیارت کرے
دیوبندیوں کے مولوی کی قبر کو دیکھنا اللہ کو دیکھنا ہے ، انوار و برکات ہیں ، دیوبندی مولوی دیوبندیوں کا مولا ہے ، دیوبندی مردہ مولوی کی قبر کی زیارت سے اسرار عیاں ہوتے ہیں ۔ دیوبندی مولوی کی قبر کی زیارت سے دیدار رب العالمین ہوگا ، قبر کو اونچا کرنا چاہا تو قبر والے دیوبندی مولوی کو علم ہو گیا کہا نہ کرو خلافِ سنت ہے اور دیوبندی مولوی کا لوہاری عورت سے عشق ۔ (تاریخ مشائخ چشت صفحہ 235 ، 236 علامہ محمد زکریا کاندھلوی دیوبندی سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند)
دیوبندیوں کا مولوی جانتا ہے کون حلال خرید کر لایا ہے اور کون حرام حلال کے پیسوں کے سیب الگ کردیئے اور حرام کے پیسوں کے الگ کر دیئے ۔ (خوشبو والا عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم صفحہ نمبر 87 ، 88۔چشتی) ۔ یہاں شرک نہیں ہوا جناب ؟
حکیم الامت دیوبند نے پکارا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم میری مدد کیجیے
حکیم الامتِ دیوبند لکھتے ہیں : یارسول اللہ میری مدد کیجیے آپ کے سوا کہاں میری پناہ ، مشکل میں آپ ہی تو ہیں ، یارسول للہ مد کیجیے ۔ (نشر الطیب صفحہ نمبر 194 علامہ اشرف علی تھانوی مطبوعہ تاج کمپنی پاکستان)
حکیم الامت دیوبند نے پکارا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم آپ ہم سے دور نہیں
حکیم الامت دیوبند علامہ اشرف علی تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں : یا مصطفیٰ یا مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ ہمارے مددگار ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صدقے مشکلیں حل ہوتی ہیں اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دور ہوں تو ہم مر جائیں ۔ (حیٰوۃُ المسلمین صفحہ نمبر 51 علاّمہ اشرف علی تھانوی دیوبندی مطبوعہ المیزان اردو بازار لاہور۔چشتی)
پکارو یارسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مدد حکیمُ الاُمتِ دیوبند کی زبانی
ضروری نوٹ : دیے گئے اشعار مؤلف یعنی حکیمُ الاُمتِ دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب کے ہیں ۔
حکیمُ الاُمتِ دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب لکھتے ہیں :
یا شفیع العباد خذبیدی
دستگیری کیجئے میری نبی
انت فی الضطرار معتمدی
کشمکش میں تم ہی ہو میرے ولی
لیس لی ملجاء سواک اغث
جز تمہارے ہے کہاں میری پناہ
مسنی الضر سیدی سندی
فوج کلفت مجھ پہ آ غالب ہوئی
غشنی الدھر ابن عبداللہ
ابن عبداللہ زمانہ ہے خلاف
کن مغیثا فانت لی مدری
اے مرے مولٰی خبر لیجئے مری
نام احمد چوں حصینے شد حصین
پس چہ باشد ذات آں روح الامین
کچھ عمل ہی اور نہ اطاعت میرے پاس
ہے مگر دل میں محبت آپ کی
میں ہوں بس اور آپ کا دریا یارسول
ابر غم گھیرے نہ پھر مجھ کو کبھی
خواب میں چہرہ دکھا دیجئے مجھے
اور میرے عیبوں کو کر دیجئے خفی
درگزر کرنا خطاو عیب سے
سب سے بڑھ کر ہے یہ خصلت آپ کی
سب خلائق کیلئے رحمت ہیں آپ
خاص کر جو ہیں گناہگار و غوی
کاش ہو جاتا مدینہ کی میں خاک
نعل بوسی ہوتی کافی آپ کی
آپ پر ہوں رحمتیں بے انتہا
حضرت حق کی طرف سے دائمی
جس قدر دنیا میں ہے ریت اور سانس
اور بھی ہے جس قدر روئیگی
اور تمہاری آل پر اصحاب پر
تابقائے عمر دار اخروی
(نشر الطیب صفحہ نمبر 194 ، 195 ۔ حکیمُ الاُمتِ دیوبند جناب اشرف علی تھانوی مطبوعہ تاج کمپنی پاکستان،چشتی)
فیس بک کے مفتیانِ دیوبند سے سادہ سا سوال اس طرح پکار کر حکیم الامتِ دیوبند مشرک ہوئے کہ نہیں ؟
اگر نہیں تو کیوں ؟
اگر مشرک ہوئے تو آج تک کتنے دیوبندی علماء نے تھانوی صاحب اور ان کی اس کتاب پر شرک کے فتوے لگائے ہیں ؟
کوئی ایک فتویٰ بطور ثبوت دیجیے ؟
اِدھر اُدھر کی باتیں جواب تصور نہیں کی جائیں گی صرف اتنا جواب دیا جائے اس طرح پکارنا جائز ہے یا شرک ؟
الصّلوٰۃ والسّلام علیک یارسول اللہ پڑھنے کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ عالم امر مقید نہیں ہے دور و نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتا فرمان مرشد اکابرین دیوبند جناب حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ امداد المشتاق صفحہ نمبر 60 ۔
اور مسلک حق کا فیصلہ کیجیئے ساتھ ہی کھسیانی بلی کھمبا نوچے کی زندہ عملی مثال تھانوی صاحب کا حاشیہ پڑھیئے کہتے ہیں پڑھنے والے کو اگر کشفی کیفیت حاصل ہو تو پڑھ سکتا ہے ورنہ اجازت نہیں دی جائے گی مگر تھانوی صاحب اسے ناجائز نہیں لکھ سکے اگر وہ یا کوئی دیوبندی اسے ناجائز ، یا شرک کہتا ہے تو مرشد اکابرین دیوبند کو ناجائز کام کا مرتکب اور مشرک قرار دینا پڑے گا اس لیئے کہ ناجائز شرک ہر ایک کےلیئے ناجائز و شرک ہوگا ۔
کیا حاجی صاحب کے اس فرمان پر تھانوی صاحب سمیت کسی بھی دیوبندی عالم نے شرک و گمراہی کا فتویٰ لگایا اگر لگایا ہے تو ہمارے علم میں اضافہ کےلیئے بتایا جائے ؟
اگر نہیں لگا تو مسلمانان اہلسنت کیا کیا قصور ہے کہ وہ یہ درود پڑھیں تو دیوبند کی شرک و گمراہی کی توپیں کھل جاتی ہیں اور امت مسلمہ پر فتوے لگا کر انتشار و فساد پھیلایا جاتا ہے آخر یہ دوغلہ پن و دہرا معیار فتویٰ کیوں ؟
یاد رہے اس جملہ پر بھی غور کیا جائے کہ : عالمِ امر مقید نہیں ہے دور و نزدیک کوئی حیثیت نہیں ۔ جب دور و نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتا تو دور و نزدیک بحث عبث یعنی بے کار ہے ۔
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ہادی عالم اور مشکل کشاء ہیں اکابرین دیوبند
اکابرین کے پیر و مرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکّی رحمۃ اللہ علیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علاوہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی مشکل کشاء کہا ہے ۔
دور کر دل سے حجاب جہل و غفلت میرے رب
کھول دے دل میں در علم حقیقت میرے رب
ہادی عالم علی مشکل کشاء کے واسطے
(کلیاتِ امدادیہ صفحہ نمبر 103ط مطبوعہ دار الاشاعت کراچی)
ظاہر ہے کہ جب خود "مشکل کشاء" کی اصطلاح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں تو ان کے خلفاء و مریدین کو اس میں کیا عذر لاحق ہوسکتا ہے ۔
مشکل کشاء اور پیر دستگیر
دیوبندیوں کے امام جناب محمد سرفراز خان صفدر کے چھوٹے بھائی جناب صوفی عبدالحمید خان سواتی صاحب نے تو ’’فوائد عثمانی‘‘ کا حوالہ صحیح سمجھ کر نقل کیا ہے جس سے ایک صوفی بزرگ مولانا عثمان کو "مشکل کشاء" اور "پیر دستگیر" کہا گیا ہے ۔ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ اس صوفی بزرگ کے لئے حسب ذیل القابات میں نہ صرف "مشکل کشاء" بلکہ "دستگیر" کی اصطلاح بھی استعمال کی گئی ہے ۔
ملاحظہ فرمائیں : الہی بحرمت حضرت خواجہ مشکل کشاء ، سید الاولیاء، سندالاتقیاء ، زبدۃالفقہاء، راس العلماء ، رئیس الفضلاء ، شیخ المحدثین ، قبلۃ السالکین ، امام العارفین ، برہان المعرفہ ، شمس الحقیۃ ، فرید العصر ، وحیدالزمان ، حاجی الحرمین الشریفین ، مظہر فیض الرحمن پیر دستگیر حضرت مولانا محمد عثمان رضی اللہ عنہ ۔ (فیوضات حسینی ص 68۔ مطبوعہ مدرسہ نصرۃ العلوم گجرانوالہ1387ھ)
شیخ الاسلام دیوبند جناب حسین احمد مدنی فرماتے ہیں کہ : کیونکہ دعوات میں توسل کرنا خواہ اعمال صالحہ سے ہو یا عابدین صالحین سے ، اولیاء اللہ سے ہو یا انبیاء اللہ سے ، ملائکہ مقربین سے ہو یا اسماء و صفات و افعال الٰہیہ سے ایجابت دعاء میں بہت زیادہ مفید اور موثر اور سلف صالحین کا محمول بہ امر ہے ۔ اس لئے ان شجروں کو اسی طریق توسل پر ترتیب دیا گیا ہے ، مناسب یہ ہے کہ احباب روزانہ کم از کم ایک مرتبہ جونسا بھی شجرہ پسند خاطر ہو پڑھ لیا کریں اپنے لئے اور اس ناکارہ ننگ خاندان کے لئے بھی دعاء کریں ۔ امید قوی ہے کہ اس طریقہ پر دعاء قبول ہوگی ۔ (سلاسل طیبہ صفحہ نمبر 6 مطبوعہ ادارہ اسلامیات انار کلی لاہور،چشتی)
آگے تمام شجروں میں مختلف الفاظ سے اور ایک شجرہ میں واضح طور پر یہ لکھا گیا ہے کہ : ’’ہادی عالم علی مشکل کشاء کے واسطے ۔ یا اللہ ہادی عالم علی مشکل کشاء کے واسطے ، اور صالحین علیہم الرّحمہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وسیلہ و واسطے سے کرم فرما ۔ (سلاسلِ طیّبہ صفحہ 14 شیخ الاسلام دیوبند)
اگر یہی الفاظ مسلمانانِ اہلسنت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور اولیاء کرام علیہم الرّحمہ کےلیئے استعمال کرتے ہیں تو شرک کے فتوے مگر اہنے مردہ مٹی میں مل جانے اور گل سڑ جانے والے مولوی کےلیئے یہ سب کچھ جائز ہے آواز دو انصاف کو انصاف کہاں ہے ؟ اور اب تک کسی دیوبندی عالم اور پر جوش موحد نے اس کتاب پر اور لکھنے والے پر نہ کوئی فتویٰ لگایا اور نہ ہی رد لکھا آخر یہ دہرا معیار کیوں جناب اور امت مسلمہ پر فتوے لگا کر وہی افعال خود اپنا کر منافقت دیکھا کر تفرقہ و انتشار کیوں پھیلایا جاتا ہے آخر کیوں ؟ اصل اسکن پیش خدمت ہیں فیصلہ اہل ایمان خود کریں مسلمانان اہلسنت یہ نظریات رکھیں اور کہیں تو شرک کے فتوے اور دیوبندی خود سب کچھ کریں تو جائز آخر یہ دہرا معیار و منافقت اپنا کر امت مسلمہ میں تفرقہ و انتشار کیوں پھیلایاجاتا ہے ؟
ندائے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
قرآن و حدیث کی روشنی میں اہلسنّت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بغیر قید زمان و مکاں ہر وقت ہر جگہ لفظ یا سے پکارنا 'ندا کرنا ' یا رسول اللہ ' یا حبیب اللہ کہنا جائز و مستحب ہے ۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے : یا ایھا النبی 'یا ایھا الرسول یا ایھا المزمل'یا ایھا المدثر ۔ لا تجعلوادعاء الرسول بینکم کدعا ء بعضکم بعضا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے ۔ (پارہ ١٨، سورۃ النور ، آیت ٦٣)
حدیث شریف : ینا د و ن یا محمد یا ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ۔ (صحیح مسلم شریف ص ٤١٩، جلد ٢)
امیر المومنین سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے بعد فرمایا '' دو موتیں نہ آئیں گی ، یعنی آپ نے موت کا ذائقہ چکھا وہ ہو گیا اس کے بعد حیات ہے ۔ حیات کے بعد پھر موت نہیں آئے گی جیسا کہ خود سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا فنبی اللہ حی ۔ اللہ کے نبی زندہ ہیں ۔ (سنن ابن ماجہ ص ١١٩، جلاء الافہام ابن قیم)
ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قبر انورپر حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول اپنی اُمت کیلئے بارش طلب فرمائیں ۔ تحقیق وہ ہلاک ہو گئے ۔ اس کے بعد حضورنبی ئ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو خواب میں زیارت عطا فرمائی اور فرمایا کہ عمر کو میرا سلام کہنا اور خوشخبری دو بارش ہو گی ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ از امام محدث ابوبکر عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ' اُستاذ امام مسلم و بخاری جلد نمبر١٢، ص ٣٢ کتاب الفضائل)(فتح الباری شرح بخاری جلد ٢ ، ص ٤٩٥ نیز فرمایا اس کی سند صحیح ہے)
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وصیت کے مطابق آپ کا جنازہ روضہ مبارک پر لے جا کر رکھ دیا گیا اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کی ''السلام علیک یا رسول اللہ '' یہ ابوبکر صدیق ہیں اجازت چاہتے ہیں ۔ (آپ کے پاس دفن ہونے کی) پھر اس کے بعد دروازہ مبارک کھل گیا اور آواز آئی ا د خلو ا لحبیب ا لی حبیبہ ۔(خصائص الکبریٰ محدث جلال الدین سیوطی ، تفسیر کبیر ص ٤٧٨، جلد ٥)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ظاہری وصال کے بعد سیدنا عبد اللہ بن سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہما کا پاؤں سن ہوا تو انہوں نے پکارا یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ۔ حضرت سیدنا خالد بن ولید نے مسیلمہ کذاب سے جنگ کے وقت فرمایا : بشعار المسلمین یا محمداہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ۔ (فتوح الشام ص ١٦٠ ، ج ١)(ابن کثیر نے البدایہ ص ٣٢٤ جلد ٦ میں لکھا ہے : کا ن شعا ر ھم یو مئذ یا محمد اہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)
حضرت عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کی قیادت میں حلب میں لڑنے والے اسلامی لشکر نے کہا ''یا محمد یا محمد یا نصر ا للہ انزل '' (تاریخ فتوح الشام ، ج١)
حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ جب مسجد میں داخل ہوتے تو یہ پڑھتے : السلام علیک ا یھا ا لنبی و رحمۃ ا للہ و برکا تہ ۔(الشفاء شریف جلد دوم ، ص ٥٣)
حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس (رضی اللہ عنہما) کا قدم مبارک سن ہوا تو انہوں نے پکارا '' یا محمد'' صلی اللہ علیہ وسلم ۔ (تحفۃ الذاکرین ص ٢٠٢ ، شوکانی)(الداء والدواء ص ٤٧ ، صدیق حسن خان)
قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو لفظ یا سے ندا کرنا ' دور سے یا نزدیک سے پکارنا جائز ہے ' ان کی ظاہر ی زندگی میں بھی اوروصال کے بعد بھی' ہر طرح جائز اور باعث برکت ہے ۔ قرآن و حدیث عمل صحابہ اور ہر نمازی کا نماز میں سلام عرض کرنا یہ روشن دلیلیں موجود ہیں ۔ بدعقیدہ لوگ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کہنے والے کو مشرک کہتے ہیں ۔ لفظ یا سے پکارنے والے پر شرک کا فتویٰ لگتاہے ۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یا سے ندا فرماتا ہے' صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کی ظاہری زندگی میں بھی اور وصال کے بعد بھی یا سے پکارتے رہے ۔ ان کے بارے میں بدمذہبوں کا کیا عقیدہ ہے ۔ ان پر کیا فتویٰ لگے گا ۔
عقل ہوتی تو خدا سے نہ لڑائی لیتے
یہ گھٹائیں اُسے منظور بڑھانا تیرا
غیظ میں جل جائیں بے دینوں کے دل
یا رسول (ﷺ) کی کثرت کیجئے
حضرت عثمان بن حنیف کی حدیث میں آیا ہے '' یا محمد انی اتوجہ بک الی ربی ''یعنی یا محمد! میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں ۔ بیہقی اور جزری نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔ (ہدیۃ المہدی ص ٢٤ عربی،چشتی)(نشر الطیب ص ٢٧٦)
ایک روایت میں ہے یا رسول اللہ انی توجہت بک الی ربی یعنی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں ۔ (ہدیۃ المہدی عربی ص ٢٤، مولوی وحید الزمان وہابی)
حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ واللہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے وقت آسمان سے میں نے یہ آواز سنی ''یا محمداہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ۔ (الشمامۃ العنبریہ ص ١١٣ ، صدیق حسن بھوپالوی وہابی)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مناسک میں لکھا ہے کہ : ابن عمر رضی اللہ عنہما تو اتنا ہی کہتے تھے ''السلام علیک یا رسول اللہ السلام علیک یا ابابکر ، السلام علیک یا ابتاہ ''۔ (فضائل حج ص ٩١٧ ، ذکریا سہارنپوری' دیوبندی)
جو عوام الناس کہتے ہیں یعنی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا علی ، یا غوث تو اکیلی نداء سے ان پر شرک کا حکم نہیں دیا جائے گا اور کیسے دیا جا سکتا ہے ۔ جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدر کے مقتولوں کو فلاں بن فلاں کہتے ہوئے پکارا تھا ۔ اور حضرت عثمان بن حنیف کی حدیث میں یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لفظ بھی آئے ہیں اور ایک حدیث میں یا رسول اللہ کا لفظ بھی ہے ''۔ (ہدیۃ المہدی اُردو ص ٥١،٥٠)
صلوٰۃ و سلام کے الفاظ میں تنگی نہیں ہے ادب شرط ہے ۔ چنانچہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے قبر شریف پر سلام اس طرح پڑھا ہے ''السلام علیک یا رسول اللہ ، السلام علیک یا نبی اللہ ، السلام علیک یا حبیب اللہ ، السلام علیک یا احمد ، السلام علیک یا محمد ۔ (الصلوٰ ۃ والسلام ص ١٢٦ ، فردوس شاہ قصوری وہابی)
تفسیر ابن کثیر و مدارک میں ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دفن کے بعد ایک اعرابی آیا اور اپنے کو روتے اور سر پر خاک ڈالتے ہوئے قبر شریف پر گرا دیا اور کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے بے شک اپنی جان پر ظلم کیا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ میرے لئے استغفار فرمائیں ۔ قبر مبارک سے آواز آئی ''کہ تجھ کو بخش دیا گیا ہے ۔ (نشر الطیب ص ٢٧٩ ، فضائل حج ص ٢٥٣)
اشرف علی تھانوی دیوبندی نے کہا : اس بندہ نے آپ کو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مستغیث ہو کر اور اُمید کی چیزوں کا اُمید وار ہو کر پکارا ہے ۔ (نشر الطیب ص ٢٧٩)
جب روم کے بادشاہ نے مجاہدین اسلام کو عیسائیت کی ترغیب دی تو انہوں نے بوقت شہادت ''یا محمداہ'' صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نعرہ لگایا جیسا کہ ہمارے اصحاب میں سے ابن جوزی نے روایت کیا ۔ (ہدیۃ المہدی نواب وحید الزمان حیدر آبادی وہابی)
غوث پاک رضی اللہ عنہ نے فرمایا : دو رکعت نفل پڑھنے کے بعد ١٠٠ مرتبہ درود غوثیہ پڑھ کر ١١ بار یہ درود و سلام پڑھو اغثنی یا ر سو ل اللہ علیک ا لصلو ٰۃ و ا لسلام (کتاب غوث اعظم صفحہ نمبر ٣٢ احتشام الحسن کاندھلوی دیوبندی)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ان کا قول ''السلام علیک ایھا النبی '' بغیر کسی اعتراض کے ثابت ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ قول ''یا ابراہیم اپنے مردہ فرزند کو ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور حضرت حسان کا فرمان '' و جا ہک یا ر سو ل اللہ جاہ ۔ (یا حرف محبت صفحہ ٩٤ مصنف دیوبندی)
حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ ، حضرت عیسیٰ (علیہم السلام ) نے آپ کو بایں الفاظ سلام کیا ''ا لسلام علیک یا ا وّل ، ا لسلام علیک یا آخر ، السلام علیک یا حا شر '' ۔ (کتاب معراج مصطفےٰ صفحہ نمبر ١٢ ، مولوی محمد علی جانباز وہابی)
فضائل اعمال میں لکھا ہے
زمہجوری بر آمد جان عالم
تراحم یا نبی اللہ تراحم
ترجمہ : آپ کے فراق سے کائنات عالم کا ذرہ ذرہ جاں بلب ہے اور دم توڑ رہا ہے ۔ اے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نگاہ کرم فرمائیے اے ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحم فرمائیے ۔
فضائل و مناقب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 14
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا علمی مقام : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا علمی مقام و مرتبہ ، اُن کی قرآن فہمی ، حقیقت شناسی اور فقہی صلاحیت تمام اولین و آخرین میں ممتاز و منفرد تھی ۔ قدرت نے انہیں عقل و خرد کی اس قدر ارفع و اعلیٰ صلاحیتوں سے نوازا تھا کہ جو مسائل دوسرے حضرات کے نزدیک پیچیدہ اور لاینحل سمجھے جاتے تھے ، انہی مسائل کو وہ آسانی سے حل کر دیتے تھے ۔ اکابر صحابہ کرام رضوان للہ علیہم اجمعین ایسے اوقات سے پناہ مانگتے تھے کہ جب کوئی مشکل مسئلہ پیش آجائے اور اس کے حل کےلیے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ موجود نہ ہوں ۔
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ علمی اعتبار سے صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم میں ایک خاص مقام رکھتے تھے اور کیوں نہ رکھتے ہوں کہ خود نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کی علمی شان بیان کرتے ہوئے آپ کو علم و حکمت کا دروازہ فرمایا ہے : اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا ، یعنی میں علم کا شہر ہوں اور علی اُس کا دروازہ ہیں ۔ (مستدرک للحاکم ، 4 / 96 ، حدیث : 3744)
اَنَا دَارُ الْحِکْمَۃِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا ، یعنی میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں ۔ (ترمذی ، 5 / 402 ، حدیث : 3744)
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر یوں دعا کی : اَللّٰهُمَّ اِمْلَأْ قَلْبَهٗ عِلْماً وَفَهْماً وَحِكَماً وَنُوراً یعنی اے اللہ ! علی کے سینے کو علم ، عقل و دانائی ، حکمت اور نور سے بھر دے ۔ (تاریخ ابن عساکر ، 42 / 386،چشتی)
بابِ علم و حکمت ، حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبیِّ کریم ، رَءُوْفٌ رَّحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے علم کے ایک ہزار باب سکھائے اور میں نے ان میں سے ہر باب سے مزید ایک ہزار باب نکالے ۔ (تفسیرِ کبیر ، 3 / 200)
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی علمی لیاقت بیان کرتے ہوئے صحابیِ رسول حضرت ابوطُفیل عامر بن واثلہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : میں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ، آپ نے خطبے کے دوران ارشاد فرمایا : مجھ سے سوال کرو ، اللہ پاک کی قسم ! تم مجھ سے قیامت تک ہونے والے جس معاملے کے متعلق بھی پوچھو گے میں تمہیں اس کا جواب ضرور دوں گا ۔ (جامع بیان العلم و فضلہ ، ص157 ، رقم : 508،چشتی)
تابعی بُزرگ حضرت سعید بن مسیّب رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صحابہ میں سوائے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے کوئی یہ کہنے والا نہیں تھا کہ مجھ سے پوچھ لو ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ، 13 / 457 ، رقم : 26948)
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قراٰنِ کریم کی آیات کے بارے میں جانتے تھے کہ کون سی آیت کب اور کہاں نازِل ہوئی ہے۔ چنانچہ منبعِ علم و حکمت ، حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھ سے قراٰنِ کریم کے بارے میں پوچھو ، بے شک میں قراٰنِ پاک کی ہر آیت کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ رات میں نازِل ہوئی ہے یا دن میں ، ہموار زمین پر نازِل ہوئی یا پہاڑ پر۔ ایک مقام پر حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ پاک کی قسم! میں قراٰنِ کریم کی ہر آیت کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ کب اور کہاں نازِل ہوئی ہے اور کس کے بارے میں نازِل ہوئی ہے ۔ (طبقاتِ ابن سعد ، 2 / 257،چشتی)
فقیہِ اُمّت کا لقب پانے والے صحابی حضرت عبدُاللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ آپ رضی اللہُ عنہ کی قراٰن فہمی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : امیرُالمؤمنین حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ایسے عالِم ہیں کہ جن کے پاس قراٰنِ کریم کے ظاہر و باطن دونوں کا علم ہے ۔ (تاریخ ابن عساکر ، 42 / 400)
قراٰنِ کریم کی آیت کے ظاہر اور باطن کی وضاحت کرتے ہوئے حکیمُ الاُمّت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : ظاہری مراد اِس کا لفظی ترجمہ ہے باطِنی مراد اِس کا منشاء اور مقصد یا ظاہر شریعت ہے اور باطن طریقت یا ظاہر اَحکام ہیں اور باطن اَسرار یا ظاہر وہ ہے جس پر علماء مطَّلَع ہیں اور باطن وہ ہے جس سے صوفیائے کرام خبردار ہیں یا ظاہر وہ جو نقْل سے معلوم ہو باطن وہ جو کشْف سے معلوم ہو ۔ (مراٰۃ المناجیح ، 1 / 210)
صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان کو اگر کسی معاملے میں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے فتوے کا علم ہوجاتا تو صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان آپ کے فتوے پر عمل کیا کرتے تھے ، چنانچہ حضرت عبدُاللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں کہ جب کوئی معتبر شخص ہمیں حضرت علی رضی اللہُ عنہ کا فتویٰ بتاتا تو ہم اُس سے تجاوز نہ کرتے ۔ (طبقات ابن سعد ، 2 / 258)
صحابۂ کرام بلکہ اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا بھی مسائل کے حل کےلیے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا کرتی تھیں۔ جیساکہ تابعی بُزرگ حضرت شُریح بن ہانی رضی اللہُ عنہما نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا سے موزوں پر مسح کے بارے میں سوال کیا تو آپ رضی اللہُ عنہا نے فرمایا : حضرت علی رضی اللہُ عنہ کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو کیونکہ وہ اس مسئلے کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتے ہیں ۔ (مسلم ، ص130 ، 131 ، حدیث : 639 ، 641،چشتی)
حضرت عبدُاللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اہلِ مدینہ میں علمِ میراث سب سے زیادہ جانتے تھے ۔ (الاستیعاب ، 3 / 207)
حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : کَانَ عُمَرٌ یَتَعَوَّذُ بِاللّٰهِ مِنْ معضلة لَیْسَ فِیْهَا (وفی روایة: لَیْسَ لَهَا) اَبُوْحَسَن ۔
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُس پیچیدہ مسئلہ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے تھے جسے حل کرنے کےلیے ابوالحسن علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ نہ ہوں ۔ (فضائل الصحابة، ج:2، ص: 803، رقم: 1100)
بعض اکابر صحابہ کرام رضوان للہ علیہم اجمعین نے شہادت دی کہ مولیٰ علی رضی اللہ عنہ علمِ ظاہر و باطن دونوں کے امین تھے ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اِنَّ عَلِیًا بْنَ ابی طَالِبٍ عِنْدَهٗ عِلْمُ الظَاهِرِ والبَاطِنِ ۔
ترجمہ : بے شک علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس قرآن کا علمِ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ۔ (حلیة الاولیاء، ج:1، ص:105)
حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : جب ہمیں کسی چیز کا ثبوت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مل جائے تو پھر ہم کسی اور کی طرف رجوع نہیں کرتے ۔ (الاستیعاب، ج:3، ص: 207)
ام المومنین سیدہ طیبہ طاہرہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : عَلیٌ اَعْلَمُ النَّاسٍ بِالسُّنَّةِ ۔
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ تمام لوگوں سے بڑھ کر سنت کا علم رکھنے والے ہیں ۔ (تاریخ مدینه دمشق، ج: 42، ص: 408)
عبدالمالک بن ابی سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عطا رضی اللہ عنہ سے پوچھا : اَکَانَ فِی اَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صلی الله علیه وآله وسلم اَحْدٌ اَعْلَمْ مِنْ عَلِیٍ؟ قَالَ لَا وَاللّٰهِ مَا اَعْلَمُهٗ ۔
ترجمہ : کیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضوان للہ علیہم اجمعین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی عالم تھا ؟ انہوں نے کہا : نہیں ، خدا کی قسم میں ایسے شخص کو نہیں جانتا ۔ (المصنف لابن ابی شیبة، ج: 17، ص: 123، رقم: 32772،چشتی)
حضرت ابوالطفیل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : لوگو تم مجھ سے سوال کرو ! بخدا تم قیامت تک جس چیز کے متعلق بھی سوال کرو گے میں تمہیں بتاٶں گا اور تم مجھ سے قرآن مجید کی بابت سوال کرو ، بخدا قرآن مجید کی کوئی ایسی آیت نہیں مگر میں جانتا ہوں کہ وہ رات میں اتری یا دن میں، میدانوں میں نازل ہوئی یا پہاڑوں میں ؟ ۔ (تاریخ دمشق، ج: 42، ص: 397-398،چشتی)
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حکمت دس حصوں میں تقسیم کی گئی ، نو حصے علی رضی اللہ عنہ کو دیے گئے اور ایک حصہ باقی تمام لوگوں کو دیا گیا ۔ (حلیة الاولیاء، ج:1، ص: 104)
حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضوان للہ علیہم اجمعین میں سے کسی شخص نے یہ دعویٰ نہیں کیا ’’سَلُوْنِی‘‘ (مجھ سے سوال کرو) ماسوا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ۔ (فضائل الصحابة، ج: 2، ص: 802، رقم: 1098)
مولیٰ علی رضی اللہ عنہ کی علمیت کا مقام کیوں نہ ہوتا جبکہ ان کی شان میں آیا ہے کہ وہ علم کا باب (دروازہ) ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اَنَا مَدِیْنَةُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُها ’’ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں ۔
امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے متعدد ایسے کاموں کی ابتدا ہوئی جس کے آثار نہ صرف یہ کہ باقی و پائندہ ہیں بلکہ جب تک عربی زبان اور اس کے قواعدِ نحو و صرف باقی ہیں ، وہ کارنامہ زندۂ و جاوید رہے گا ۔ ابوالقاسم الزجاجی کی کتاب ’’امالی‘‘ میں مذکور ہے کہ (ابوالاسود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ) میں سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ کو دیکھا کہ سر جھکائے متفکر بیٹھے ہیں ، میں نے عرض کیا : امیرالمومنین ! کس معاملہ میں متفکر ہیں ؟ فرمایا : میں تمہارے شہر میں عربی غلط طریقہ پر بولتے ہوئے سنتا ہوں ، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ زبان کے اصول و قواعد میں ایک یاد داشت تیار کردوں ۔ میں نے عرض کیا : اِنْ فَعَلْتَ هٰذَا اَحْیَیْتَنَا وَبَقَیْتَ فِیْنَا هٰذِهٖ اللُّغَةُ ۔ اگر آپ ایسا کردیں تو ہمیں آپ کے ذریعہ زندگی مل جائے گی اور ہمارے یہاں عربی زبان باقی رہ جائے گی ۔ اس گفتگو کے تین روز کے بعد میں پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ایک کاغذ مرحمت فرمایا جس میں علم نحو کے ابتدائی مسائل درج تھے ۔ (تاریخ الاسلام للذهبی ج: 2، ص: 479)
حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ نو افراد پر مشتمل ایک وفد آیا تو انہوں نے کہا : اے ابن عباس ! یا تو آپ الگ ہوکر ہماری بات سنیں یا ان لوگوں کو باہر بھیج دیں ۔ اس وقت تک وہ صحیح تھے ، نابینا نہیں ہوئے تھے ۔ فرمایا : میں اٹھ کر تمہارے ساتھ باہر جاتا ہوں ۔ انہوں نے گفتگو کی لیکن ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے کیا کہا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فارغ ہوکر آئے تو وہ اپنا دامن جھاڑتے ہوئے فرمارہے تھے : اُفٍ وَتَفٍ یَقَعُونَ فِی رَجُلٍ لَهٗ عَشْرٌ ، افسوس! یہ لوگ اس ہستی کی برائی کرتے ہیں جس کو دس خصوصیات حاصل تھیں ۔ جو درج ذیل ہیں : ⬇
1 ۔ یہ اس شخص کی برائی میں پڑگئے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا : لَاَبْعَثَنَّ رَجُلاً یُحِبُّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ لَا یُخْذِیْهِ اللّٰهُ اَبَدًا ’’ (قلعہ خیبر کو فتح کرنے کے لیے) میں اس شخص کو (پرچم دے کر) بھیجوں گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ کبھی اس کو شرمندہ نہیں فرمائے گا ۔ اس پرچم کو حاصل کرنے کے لیے سب خواہش کرنے لگے ، لیکن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کہاں ہے ؟ بتایا گیا وہ چکی میں گندم پیس رہے ہیں ۔ فرمایا : تم میں کوئی ایسا شخص نہیں تھا جو چکی چلاتا ؟ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بلایا حالانکہ وہ آشوب چشم میں مبتلا تھے ، دیکھ نہیں سکتے تھے، تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں دم کیا، پھر تین دفعہ پرچم لہرا کر انہیں سپرد فرمایا (بالآخر انہوں نے خیبر فتح کرلیا) ۔
2 ۔ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سورۃ التوبہ کے ساتھ بھیجا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ان کے پیچھے روانہ کیا تو فرمایا : لَا یَذْهَبُ بِهَا اِلَّارَجُلٌ هُوَ مِنِّی وَاَنَا مِنْهٗ ’’ اس اعلان برأت کے ساتھ فقط وہ شخص جائے گا جو مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں ۔
3 ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن ، حسین ، فاطمہ اور علی رضی اللہ عنہم کو بلاکر ان پر چادر پھیلائی ، پھر دعا فرمائی : اَللّٰهُمَّ هٰوُلَاءِ اَهْلُ بَیْتِی، فَاذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِرْهُمْ تَطْهِیْرًا ’’ اے اللہ ! یہ ہیں میرے اہل بیت ، پس ان سے ہر طرح کی پلیدی دور فرمادے اور انہیں خوب پاک فرمادے ۔
4 ۔ وہ اول شخص ہیں جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد اسلام لائے ۔
5 ۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چادر اوڑھی تھی اور سو گئے تھے تو مشرکین ان کا یونہی قصد کرتے رہے جس طرح وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قصد کرتے تھے اور وہ گمان کرتے رہے کہ یہ اللہ کے نبی ہیں ۔ اتنے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو انہوں نے پکارا : یارسول اللہ ! حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بئر میمون کی طرف تشریف لے گئے ہیں ۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے پیچھے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غار میں داخل ہوئے اور مشرکین صبح تک سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی جاسوسی کرتے رہے ۔
6 ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لشکر کے ساتھ غزوہ تبوک کی طرف جانے لگے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : کیا میں آپ کے ساتھ چلوں ؟ فرمایا : نہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ رو پڑے ، اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اما ترضی ان تکون منی بمنزلة هارون من موسیٰ الا انک لست بنبی. انت خلیفتی یعنی فی کل مومن بعدی ’’ کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمہاری منزلت میرے نزدیک ایسی ہے جیسی موسیٰ کے نزدیک ہارون علیہما السلام کی مگر یہ کہ تم نبی نہیں ہو ۔ پھر فرمایا : تم میرے نائب ہو ، یعنی میرے بعد ہر مومن کے ۔
7 ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کردیے گئے ماسوا باب علی کے ۔ پس وہ مسجد میں داخل ہوتے تھے حالانکہ وہ جنبی ہوتے تھے اور مسجد ان کی راہ میں تھی ۔ اس کے علاوہ ان کا اور کوئی راستہ نہیں تھا ۔
8 ۔ اور فرمایا : من کنت ولیه فعلی ولیه ’’ میں جس کا ولی ہوں تو علی بھی اس کا ولی ہے ۔
9 ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : اللہ نے ہمیں قرآن میں خبر دی کہ وہ درخت تلے بیعت کرنے والوں سے راضی ہو گیا تو کیا اس کے بعد اس نے دوبارہ ہمیں بتایا کہ وہ ان پر ناراض ہو گیا ؟
10 ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کی گردن اڑادینے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ بدر کے احوال سے مطلع ہونے کے باوجود ارشاد فرمایا : تم جو چاہو کرو ، میں نے تمہاری مغفرت کردی ۔ (السنن الکبریٰ، النسائی، 7: 416، الرقم: 8355،چشتی)
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت ابو ثابت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : علی مع القرآن والقرآن مع علی، لن یتفرقا حتی یردا علی الحوض ۔
ترجمہ : علی رضی اللہ عنہ قرآن کے ساتھ اور قرآن علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہے، دونوں جدا نہ ہوں گے حتی کہ اکٹھے حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گے ۔ (المستدرک، ج: 3، ص: 123، رقم: 4685)
بچپن سے لے کر رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ظاہری وِصال فرمانے تک سفر و حَضر اور اہلِ بیت ہونے کی وجہ سے بسا اوقات گھر میں بھی حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ ہوتے اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّتوں کو دل و جان سے اپناتے ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ لوگوں میں سنّت کو زیادہ جاننے والے ہیں ۔ (تاریخ ابن عساکر ، 42 / 408)
عَہد ساز اور اِنقلاب آفریں شخصیات نے ہر دور میں انسانی سوچ کے دھارے بدلے ، مزاج و کردار کو نئی سمت پر گامزن اور گفتار و نگاہ کو نئے زاویوں سے روشناس کیا ۔ کئی انقلابی شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے کارنامے نہ صرف اپنے زمانے بلکہ آنے والی صدیوں کو بھی متاثر کرتے ہیں اور لوگ نسل در نسل اُن کی انمول اور انقلاب آفریں تعلیمات کی روشنی میں اپنے حال اور مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں ۔ ایسی ہی ایک انقلابی شخصیت جو اَخلاقِ کریمانہ و اقوالِ حکیمانہ ، جُہْدِ مسلسل ، ہمت و شجاعت ، علم و تقویٰ ، کردار و عمل ، تَدَبُّر و اسلامی سیاست ، ایثار و تَواضُع ، اِسْتِغْنَا و توکُّل اور قناعت و سادگی جیسے عمده اَوصاف سے مزیَّن ہے ۔ دنیا جنہیں حیدر و صفدر ، فاتحِ خیبر ، شیرِ خدا ، سیّدُالاَولیاِء ، امام الاَتْقِیاء ، مَخْزَنِ سخاوت ، تاجدار شجاعت ، اِمَامُ الْمَشَارِق و الْمَغَارِب ، خلیفۂ چہارم امیر المؤمنین حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے نام سے جانتی ہے ۔
بابُ مدینۃِ العلم آپ رضی اللہ عنہ کو بارگاہِ رسالت سے ”بابُ العلم (علم کا دروازہ)“ کالقب عطا ہوا ۔ آپ خود فرماتے ہیں : مجھے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلیہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے علم کے ہزار باب عطا کیے اور ہر باب سے آگے ہزار باب کھلتے ہیں ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد 42 صفحہ 385،چشتی)
ایک موقع پر یوں فرمایا : مجھ سے پوچھو ! اللہ تعالیٰ کی قسم !قیامت تک ہونے والی جو بات تم مجھ سے پوچھو گے، میں تمہیں ضرور بتاؤں گا ۔ (کنز العمال، جز 2 ج 1 ص 239، حدیث: 4737)
آپ رضی اللہ عنہ کی قراٰن فہمی کا یہ عالم تھا کہ ایک بار فرمایا: اگر میں چاہوں تو سورۂ فاتحہ کی تفسیر سے 70 اونٹ بھر دوں ۔ (الاتقان،ج2، ص1223)
شجاعت و بہادری ہجرت کی رات جبکہ چاروں طرف کفار تلواریں لیے کھڑے تھے آپ رضی اللہ عنہ نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلیہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے بستر پر سوئے ۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ 192،چشتی)
غزوۂ تبوک کے علاوہ ہر غزوہ میں شرکت فرمائی اور خیبرکے قلعہ کو فتح کر کے ”فاتحِ خیبر“ کے نام سے شہرت پائی ۔ (بخاری ج 3 ص 84 حدیث: 4209)
روشن فیصلے جب سینہ دستِ نبوی سے فیض یاب ہو اور فیصلوں کو تصدیقاتِ نبوی حاصل ہوں تو ایسے فیصلے زمانے میں انقلاب برپا کر دیتے ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے فیصلوں کو خود نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلیہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے پسند فرمایا ۔ (فضائل الصحابہ، ص812، حدیث:1113)
مقدمہ کتنا ہی پیچیدہ کیوں نہ ہوتا آپ رضی اللہ عنہ چند لمحوں میں اُس کا بہترین فیصلہ فرما دیا کرتے ، الغرض آپ رضی اللہ عنہ کے فیصلے اسلامی عدالت کےلیے انقلابی حیثیت رکھتے ہیں ۔
صائب الرائے (درست رائے والے) آپ رضی اللہ عنہ ایسی درست رائے کے حامل تھے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلیہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے آپ سے مشورہ فرمایا ۔ (بخاری ج 4 ص 528)
خلیفۂ اوَّل حضرت سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ اور خلیفۂ دُوُم حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جیسےدور اندیش اور تجربہ کار اپنے دورِ خلافت میں آپ رضی اللہ عنہ سے مشورہ فرماتے ۔ (الکامل فی التاریخ،ج3، ص205)
عربی زبان کے قواعد آپ رضی اللہ عنہ نے جب لوگوں کو عربی بول چال میں غلطیاں کرتے پایا تو اصلاح کےلیے بنیادی قواعد و ضوابط مرتب کیے اور حضرت ابو الاسود دُؤلی رضی اللہ عنہ کو کلمہ کی تینوں قسموں” اسم ، فعل ، حرف “ کی تعریفیں لکھ کر دیں اور اِس میں اضافہ کرنے کا فرمایا پھر اُن کے اضافہ جات کی اصلاح بھی فرمائی ۔ (تاریخ الخلفاء، ص143،چشتی)
فقہ و فتاویٰ بابُ مدینۃ العلم رضی اللہ عنہ نے اس میدان میں بھی تاریخ رقم فرمائی ، پیش آنے والے نئے مسائل کو پَل بھر میں حل فرما دیتے ، کثیرصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم فقہی مسائل میں آپ کی طرف رجوع کرتے ۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ حضرت عمر فاروقِ اعظم و حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے لوگوں نے مسئلے پوچھے تو فرمایا : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جاکر پوچھو ۔ (مسلم ص 130، حدیث: 639، مصنف ابن ابی شیبہ،ج 4، ص223، حدیث:5)
خارجیوں کا قلع قمع اسلام دُشمن خارجیوں کا سب سے پہلے آپ رضی اللہ عنہ ہی نے قلع قمع فرما کر مسلمانوں کو ان کے فتنے سے محفوظ و مامون کیا ۔ (الاستیعاب ج 3 ص 217)
ہجری سن کا آغاز عہدِ فاروقی میں آپ رضی اللہ عنہ ہی کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اسلامی سن کا آغاز ہجرتِ مدینہ سے کیا گیا ۔ (البدایۃ والنہایۃ جلد 5 صفحہ 146،چشتی)
اُمور رفاہِ عامہ (عوامی بھلائی کے کام) آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں مسلمانوں کی خیر خواہی کےلیے حقوقِ عامہ کی حفاظت کا بھی اہتمام فرمایا جیسا کہ شاہراہِ عام کو گندگی سے بچانے کےلیے بیت الخلاء اور نالیوں کو شارع عام سے دور بنانے کا حکم فرمایا ۔ (مصنف عبد الرزاق جلد 9 صفحہ 405 حدیث نمبر 18722،چشتی)
انسانی جانوں کے تحفظ کےلیے قانون بنایا کہ اگر کسی کے کنواں کھودنے یا بانس وغیرہ گاڑنے کی صورت میں انسانی جان تلف ہوئی تو ضمان ادا کرنا ہو گا ۔(مصنف عبدالرزاق،ج 9، ص405، حدیث: 18723)
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ علم و حکمت کا دروازہ : مولا علی مشکل کُشا ، شیرِ خدا رضی اللہ عنہ علمی اعتبار سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں ایک خاص مقام رکھتے تھے اور کیوں نہ رکھتے ہوں کہ خود نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ رضی اللہ عنہ کی علمی شان بیان کرتے ہوئے آپ کو علم و حکمت کا دروازہ فرمایا ہے : ⬇
اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا یعنی میں علم کا شہر ہوں اور علی اُس کا دروازہ ہیں ۔ (مستدرک للحاکم ، 4 / 96 ، حدیث : 3744،چشتی)
اَنَا دَارُ الْحِکْمَۃِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا یعنی میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں ۔ (ترمذی ، 5 / 402 ، حدیث : 3744)
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر یوں دعا کی : اَللّٰهُمَّ اِمْلَأْ قَلْبَهٗ عِلْماً وَفَهْماً وَحِكَماً وَنُوراً ۔ اے اللہ ! علی کے سینے کو علم ، عقل و دانائی ، حکمت اور نور سے بھر دے ۔ (تاریخ ابن عساکر ، 42 / 386)
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اور علم کے ہزار باب : بابِ علم و حکمت ، حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے علم کے ایک ہزار باب سکھائے اور میں نے ان میں سے ہر باب سے مزید ایک ہزار باب نکالے ۔ (تفسیرِ کبیر ، 3 / 200،چشتی)
جو پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لو : آپ رضی اللہ عنہ کی علمی لیاقت بیان کرتے ہوئے صحابیِ رسول حضرت ابوطُفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ، آپ نے خطبے کے دوران ارشاد فرمایا : مجھ سے سوال کرو ، اللہ پاک کی قسم ! تم مجھ سے قیامت تک ہونے والے جس معاملے کے متعلق بھی پوچھو گے میں تمہیں اس کا جواب ضرور دوں گا ۔ (جامع بیان العلم و فضلہ صفحہ نمبر 157 ، رقم : 508،چشتی)
نشہور تابعی حضرت سعید بن مسیّب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سوائے حضرت علی رضی اللہُ عنہ کے کوئی یہ کہنے والا نہیں تھا کہ مجھ سے پوچھ لو ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ، 13 / 457 ، رقم : 26948)
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور قرآنی آیات کی معلومات : آپ رضی اللہُ عنہ قرآنِ کریم کی آیات کے بارے میں جانتے تھے کہ کون سی آیت کب اور کہاں نازِل ہوئی ہے ۔ چنانچہ منبعِ علم و حکمت ، مولائے کائنات حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھ سے قراٰنِ کریم کے بارے میں پوچھو ، بے شک میں قرآنِ پاک کی ہر آیت کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ رات میں نازِل ہوئی ہے یا دن میں ، ہموار زمین پر نازِل ہوئی یا پہاڑ پر ۔ ایک مقام پر مولا علی مشکل کُشا رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ پاک کی قسم ! میں قرآنِ کریم کی ہر آیت کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ کب اور کہاں نازِل ہوئی ہے اور کس کے بارے میں نازِل ہوئی ہے ۔ (طبقاتِ ابن سعد ، 2 / 257،چشتی)
قرآنِ کریم کے ظاہر و باطن کے عالم : فقیہِ اُمّت کا لقب پانے والے صحابی حضرت عبدُاللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آپ رضی اللہ عنہ کی قرآن فہمی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : امیرُالمؤمنین حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ایسے عالِم ہیں کہ جن کے پاس قرآنِ کریم کے ظاہر و باطن دونوں کا علم ہے ۔ (تاریخ ابن عساکر ، 42 / 400)
قرآنِ کریم کی آیت کے ظاہر اور باطن کی وضاحت کرتے ہوئے حکیمُ الاُمّت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : ظاہری مراد اِس کا لفظی ترجمہ ہے باطِنی مراد اِس کا منشاء اور مقصد یا ظاہر شریعت ہے اور باطن طریقت یا ظاہر اَحکام ہیں اور باطن اَسرار یا ظاہر وہ ہے جس پر علماء مطَّلَع ہیں اور باطن وہ ہے جس سے صوفیائے کرام خبردار ہیں یا ظاہر وہ جو نقْل سے معلوم ہو باطن وہ جو کشْف سے معلوم ہو ۔ (مراۃ المناجیح جلد 1 صفحہ 210،چشتی)
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو اگر کسی معاملے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فتوے کا علم ہو جاتا تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے فتوے پر عمل کیا کرتے تھے ، چنانچہ حضرت عبدُاللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب کوئی معتبر شخص ہمیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فتویٰ بتاتا تو ہم اُس سے تجاوز نہ کرتے ۔ (طبقات ابن سعد جلد 2 صفحہ 258،چشتی)
صحابۂ کرام بلکہ اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم بھی مسائل کے حل کےلیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا کرتی تھیں ۔ جیسا کہ تابعی حضرت شُریح بن ہانی رضی اللہ عنہما نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے موزوں پر مسح کے بارے میں سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو کیونکہ وہ اس مسئلے کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتے ہیں ۔ (مسلم ، ص130 ، 131 ، حدیث : 639 ، 641،چشتی)
حضرت عبدُاللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اہلِ مدینہ میں علمِ میراث سب سے زیادہ جانتے تھے ۔ (الاستیعاب ، 3 / 207)
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے 586 احادیثِ مبارکہ مروی ہیں جو کتبِ احادیث میں اپنی خوشبوئیں بکھیر رہی ہیں ۔
شہادت : سِن 40 ہجری میں 17 یا 19 رَمَضانُ المبارَک کو فجر کی نماز کےلیے جاتے ہوئے راستے میں آپ رضی اللہُ عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں آپ شدید زخمی ہوگئے اور 21 رَمَضانُ المبارَک کی رات کو جامِ شہادت نوش فرمایا ۔ (طبقات ابن سعد ، 3 / 27)
امیر المومنین حضرت مولا علی مرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے اقوال و ارشادات بلاشبہہ دریاے علم و عرفان کے ایسے بے نظیر موتی ہیں جن سے آدمی اپنے اخلاق و کردار کو آراستہ و پیراستہ کر سکتا ہے ۔ اور ان کی زبانِ فیض ترجمان سے نکلے ہوئے کلمات آسمان رشد و ہدایت کے وہ تابندہ ستارے ہیں جن کی روشنی میں چلنے والا انسان کبھی اپنی منزل سے بھٹک نہیں سکتا ۔ دلیلِ مدعا کے طور پر بعض اقوال و ارشادات پیش خدمت ہیں : ⬇
بے وقوف کی دوستی سے بچو ؛کیوں کہ وہ تجھے نفع پہنچانا چاہے گا ، لیکن نادانی کی وجہ سے نقصان پہنچاے گا ، اور کذاب (جھوٹے) کی دوستی سے بچو ؛کیوں کہ وہ تجھ پر دور کو قریب ظاہر کرے گا اور قریب کو دور بتائے گا ، اور بخیل کی دوستی سے بچو ؛ کیوں کہ جب تجھے اس کی مدد کی ضرورت ہوگی تو وہ تجھ سے دور بھاگ جائے گا ، اور بدکار کی دوستی سے بچو ؛ کیوں کہ وہ معمولی چیز کے بدلے تجھے فروخت کردے گا ۔ (تاریخ الخلفاء علی بن ابی طالب اخبارہ و قضا یاہ و کلماتہ صفحہ ۱۴۵،چشتی)
یقینا جس قوم نے جنت کی لالچ میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت کی ، اس کی عبادت تاجروں کی طرح ہوئی ۔ اور جس قوم نے عذاب کے ڈر سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت کی ، اس کی عبادت غلاموں کی طرح ہوئی ۔ اور جس قوم نے شکریہ ادا کرنے کےلیے اللہ جلّ شانہ کی عبادت کی ، اس کی عبادت آزاد شریف لوگوں کی طرح ہے ۔ (نہج البلاغۃ ،مجموعہ کلام امیر المومنین سیدنا علی بن ابی طالب،ج۴، ص۵۳)
تم میں کا ہر شخص صرف اپنے گناہوں سے ڈرے اور اپنے پروردگار ہی سے امیدیں لگائے ، جو شخص نہیں جانتا ہے وہ علم حاصل کرنے میں شرم نہ کرے ، اور کم علم آدمی سے جب ایسا مسئلہ پوچھا جو اسے معلوم نہیں ہے تو یہ کہنے میں کہ اللہ جل شانہ بہتر جانتا ہے اپنی بے عزتی نہ سمجھے ۔ صبر ایمان کےلیے ایسا ہی ہے جیسا کہ سر جسم کےلیے ، جب صبر کا دامن چھوٹ جائے گا تو ایمان رخصت ہو جائے گا اور جب سر نہیں رہے گا تو جسم بے کار ہو جائے گا ۔ (تاریخ الخلفاء علی بن ابی طالب اخبارہ و قضا یاہ و کلماتہ صفحہ ۱۴۷،چشتی)
سب سے بڑا عاجز وہ ہے جو اچھے دوست نہ بناسکے ،اور اس سے بھی بڑا عاجز وہ ہے جو اچھا دوست پاکر اسے ضائع کردے ۔(نہج البلاغۃ جلد ۴ صفحہ ۴)
بے وقوف کادل اس کے منہ میں ہوتا ہے ، اور عقل مند کی زبان اس کے دل میں ہوتی ہے ۔ (نہج البلاغۃ جلد ۴ صفحہ ۱۲)
تیرے دوست تین طرح کے ہیں : تیرا اپنا دوست ،تیرے دوست کا دوست اور تیرے دشمن کا دشمن ۔اور تیرے دشمن بھی تین طرح کے ہیں : تیرا اپنا دشمن ، تیرے دوست کا دشمن اور تیرے دشمن کا دوست ۔ (نہج البلاغۃ جلد ۴ صفحہ ۷۱)
سب سے بڑی دولت عقل ہے ، سب سے بڑی محتاجی وتنگ دستی حماقت و بے عقلی ہے ،سب سے خطر ناک دیوانگی تکبر و غرور ہے اور سب سے بڑی بزرگی حسن اخلاق ہے ۔ (تاریخ الخلفاء علی بن ابی طالب اخبارہ و قضایاہ و کلماتہ صفحہ ۱۴۵)
سب سے بڑی دولت عقل ہے ، سب سے بڑی محتاجی و تنگ دستی حماقت وبے عقلی ہے ،سب سے خطر ناک دیوانگی تکبر و غرور ہے اور سب سے بڑی بزرگی حسن اخلاق ہے ۔ (تاریخ الخلفاء ،علی بن ابی طالب ،اخبارہ و قضایاہ و کلماتہ صفحہ ۱۴۵) ۔
فضائل و مناقب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 15
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت سیّدُنا مولا علی رضی اللہ عنہ کے ارشاداتِ مبارکہ : امیر المومنین حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے اقوال وارشادات بلاشبہہ دریائے علم وعرفان کے ایسے بے نظیر موتی ہیں جن سے آدمی اپنے اخلاق وکردار کوآراستہ و پیراستہ کر سکتا ہے ۔ اوران کی زبانِ فیض ترجمان سے نکلے ہوئے کلمات آسمان رشد وہدایت کے وہ تابندہ ستارے ہیں جن کی روشنی میں چلنے والا انسان کبھی اپنی منزل سے بھٹک نہیں سکتا ۔ دلیلِ مدعا کے طور پر ارشاداتِ مبارکہ پیشِ خدمت ہیں :
بے وقوف کی دوستی سے بچو؛کیوں کہ وہ تجھے نفع پہنچانا چاہے گا ، لیکن نادانی کی وجہ سے نقصان پہنچاے گا ، اور کذاب (جھوٹے)کی دوستی سے بچو ؛ کیوں کہ وہ تجھ پر دور کو قریب ظاہر کرے گا اور قریب کو دور بتائے گا ، اور بخیل کی دوستی سے بچو ؛ کیوں کہ جب تجھے اس کی مدد کی ضرورت ہوگی تو وہ تجھ سے دور بھاگ جائے گا ، اور بدکار کی دوستی سے بچو؛کیوں کہ وہ معمولی چیز کے بدلے تجھے فروخت کردے گا ۔ (تاریخ الخلفاء علی بن ابی طالب اخبارہ وقضا یاہ وکلماتہ صفحہ ۵۴۱)
یقیناً جس قوم نے جنت کی لالچ میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت کی ، اس کی عبادت تاجروں کی طرح ہوئی۔ اور جس قوم نے عذاب کے ڈر سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کی ، اس کی عبادت غلاموں کی طرح ہوئی۔اور جس قوم نے شکریہ ادا کرنے کے لیے اللہ جلّ شانہ کی عبادت کی،اس کی عبادت آزاد شریف لوگوں کی طرح ہے ۔ (نہج البلاغۃ،مجموعہ کلام امیر المومنین سیدنا علی بن ابی طالب جلد ۴ صفحہ ۳۵)
تم میں کا ہر شخص صرف اپنے گناہوں سے ڈرے اور اپنے پروردگار ہی سے امیدیں لگائے،جو شخص نہیں جانتا ہے وہ علم حاصل کرنے میں شرم نہ کرے، اورکم علم آدمی سے جب ایسامسئلہ پوچھاجو اسے معلوم نہیں ہے تو یہ کہنے میں کہ اللہ جل شانہ بہتر جانتا ہے اپنی بے عزتی نہ سمجھے۔صبر ایمان کے لیے ایسا ہی ہے جیسا کہ سر جسم کے لیے،جب صبر کا دامن چھوٹ جائے گا تو ایمان رخصت ہو جائے گا اور جب سر نہیں رہے گا تو جسم بے کار ہو جائے گا ۔ (تاریخ الخلفاء علی بن ابی طالب اخبارہ و قضا یاہ و کلماتہ صفحہ ۷۴۱،چشتی)
سب سے بڑا عاجز وہ ہے جو اچھے دوست نہ بنا سکے ، اور اس سے بھی بڑا عاجز وہ ہے جو اچھا دوست پاکر اسے ضائع کردے ۔ (نہج البلاغۃ جلد ۴ صفحہ ۴)
بے وقوف کادل اس کے منہ میں ہوتا ہے،اور عقل مند کی زبان اس کے دل میں ہوتی ہے ۔ (نہج البلاغۃ جلد ۴ صفحہ ۲۱)
تیرے دوست تین طرح کے ہیں : تیرا اپنا دوست،تیرے دوست کا دوست اور تیرے دشمن کا دشمن ۔ اور تیرے دشمن بھی تین طرح کے ہیں : تیرا اپنا دشمن، تیرے دوست کا دشمن اور تیرے دشمن کا دوست ۔ (نہج البلاغۃ جلد ۴ صفحہ ۱۷)
سب سے بڑی دولت عقل ہے ، سب سے بڑی محتاجی وتنگ دستی حماقت وبے عقلی ہے،سب سے خطر ناک دیوانگی تکبر وغرور ہے اور سب سے بڑی بزرگی حسن اخلاق ہے ۔ (تاریخ الخلفاء علی بن ابی طالب اخبارہ و قضایاہ و کلماتہ صفحہ ۵۴۱)
عمل سے بڑھ کر اُس کی قبولیت کا اہتمام کرو ، اِس لیے کہ پرہیزگاری کے ساتھ کیا گیا تھوڑا عمل بھی بہت ہوتا ہے اور جو عمل مقبول ہو جائے وہ کیسے تھوڑا ہو گا ؟ ۔ (کنزالعمال جز 1 جلد 2 صفحہ 278 حدیث : 8492)
عید کے دن فرمایا : ہر وہ دن جس میں اللہ پاک کی نافرمانی نہ کی جائے ہمارے لئے عید کا دن ہے ۔ (قوت القلوب جلد 2 صفحہ 38)
میں تم پر دو چیزوں سے بہت زیادہ خوف زدہ رہتا ہوں : (1)خواہش کی پیروی اور (2)لمبی امیدیں ۔ (الزہد لابن المبارك جلد 1 صفحہ 86 رقم : 255)
جو شخص یہ گمان رکھتا ہے کہ نیک اعمال اپنائے بغیر جنت میں داخل ہو گاتو وہ جُھوٹی اُمّید کا شکار ہے ۔ (ایہا الولد صفحہ 11)
خرچ کرو ، تشہیر (Show Off) نہ کرو اورخودکو اس لیے بلند نہ کرو کہ تمہیں پہچانا جائے اور تمہارا نام ہو بلکہ چھپے رہواور خاموشی اختیار کرو ، سلامت رہو گے ۔ (احیاء العلوم جلد 3 صفحہ 339،چشتی)
انسان کا قد 22 سال جبکہ عقل 28 سال کی عمر تک بڑھتی ہے ، اس کے بعد مرتے دم تک تجرِبات کا سلسلہ رہتا ہے ۔ (الکواکب الدریۃ جلد 1 صفحہ 102)
گناہوں کی نحوست سے عبادت میں سستی اور رزق میں تنگی آتی ہے ۔ (طبقات الصوفیاء جلد 1 صفحہ 106)
بندہ بے صبری کر کے اپنے آپ کو حلال روزی سے محروم کر دیتا ہے اور اس کے باوجود اپنے مُقَدَّر سے زیادہ حاصل نہیں کر پاتا ۔ (المستطرف جلد 1 صفحہ 124)
جس “ تکلیف “ کے بعد “ جنت “ ملنے والی ہو وہ “ تکلیف “ نہیں اور جس “ راحت “ کا انجام “ دوزخ “ پرہو وہ “ راحت “ نہیں ۔ (المستطرف جلد 1 صفحہ 140)
اپنی رائے کو کافی سمجھنے والا خطرے میں ہے ۔ (المستطرف جلد 1 صفحہ 131)
جب تم اپنے دشمن سے بدلہ لینے پر قادر ہوجاؤ تو اِس کے شکرانے میں اسے معاف کر دو ۔ (الکواکب الدریۃ جلد 1 صفحہ 102)
ان لوگوں میں سے مت ہونا جنہیں نصیحت اسی وقت فائدہ دیتی ہے جب ملامت میں مبالغہ (یعنی بہت زیادہ شرمندہ) کیا جائے ۔ (المستطرف جلد 1 صفحہ 139)
لالچ کی چمک دیکھ کر اَکثر عقل مار کھا جاتی ہے ۔ (المستطرف جلد 1 صفحہ 128)
جب کسی شخص کی عقل کامل ہو جاتی ہے تو اس کی گفتگو میں کمی آجاتی ہے ۔ (المستطرف جلد 1 صفحہ 146)
لوگوں میں جو زیادہ عِلْم والا ہوتا ہے وہ اللہ پاک سے زیادہ ڈرتا ، زیادہ عبادت کرتا اور اللہ پاک(کی رضا) کےلیے زیادہ نصیحت کرتا ہے ۔ (منہاج العابدین صفحہ 16،چشتی)
مال و اَولاد دنیا کی کھیتی ہے اور نیک اعمال آخِرت کی ، اللہ پاک اپنے بہت سے بندوں کو یہ سب عطا فرماتاہے ۔ (حسن التنبہ جلد 3 صفحہ 174)
اگر میں چاہوں تو سورۃ الفاتحہ کی تفسیر سے 70 اُونٹ بَھر دوں ۔ (یعنی اُس کی تفسیر لکھتے ہوئے اِتنے رِجسٹر تیار ہوجائیں کہ70 اونٹ اُسے اُٹھائیں ۔ (قوتُ القلوب جلد 1 صفحہ 92،چشتی)
اگر شراب کا ایک قطرہ کنویں میں گر جائے پھر اس جگہ مَنَارہ بنایا جائے تو میں اُس پر اذان نہ کہوں اور اگر دریا میں شراب کا قطرہ گرے پھر دریا خشک ہوا ور وہاں گھاس پیدا ہو تو میں اُس میں اپنے جانوروں کو نہ چراؤں ۔ (تفسیر مدارک سورہ البقرۃ آیت نمبر 219 صفحہ 113)
لمبی امیدیں آخرت کو بھُلاتی ہیں اور خواہشات کا اِتِباع (Follow) حق سے روکتا ہے ۔ (شعب الايمان جلد 7 صفحہ 369 حدیث : 10216)
اپنے گھروں سے مکڑیوں کے جالے (Spider’s Web) دور کرو ، یہ ناداری (تنگدستی) کا باعث ہوتے ہیں ۔ (تفسیرمدارک سورہ العنکبوت آیت نمبر 41 جلد 5 صفحہ 584 )
ہر نیکی کرنے والے کی نیکیوں کا وزن کیا جائے گا سوائے صبر کرنے والوں کے کہ اِنہیں بے اندازہ و بے حساب دیا جائے گا ۔ (تفسیر خازن سورہ الزمر آیت نمبر 10 جلد 4 صفحہ 51)
جنت کے دروازے کے قریب ایک درخت ہے اس کے نیچے سے دو چشمے (Springs) نکلتے ہیں مومن وہاں پہنچ کر ایک چشمے میں غسل کرے گا اس سے اس کا جسم پاک و صاف ہوجائے گا اور دوسرے چشمہ کا پانی پیئے گا اس سے اس کا باطن پاکیزہ ہو جائے گا پھر فرشتے جنت کے دروازے پر (اس کا) استقبال کریں گے ۔ (تفسیرکبیر سورہ الزّمر آیت نمبر 73 جلد 9 صفحہ 479- 480،چشتی)(تفسیر خازن جلد 4 صفحہ 64-63)
دو دوست مومن اور دو دوست کافر (تھے ) ، مومن دوستوں میں ایک مر جاتا ہے تو بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتا ہے یارب فلاں مجھے تیری اور تیرے رسول کی فرمانبرداری کا اور نیکی کرنے کا حکم کرتا تھا اور مجھے برائی سے روکتا تھا اور خبر دیتا تھا کہ مجھے تیرے حضور حاضر ہونا ہے ، یارب اس کو میرے بعد گمراہ نہ کر اور اس کو ہدایت دے جیسی میری ہدایت فرمائی اور اس کا اِکرام کر جیسا میرا اِکرام فرمایا ، جب اس کا مومن دوست مرجاتا ہے تو اللہ پاک دونوں کو جمع کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ تم میں ہر ایک دوسرے کی تعریف کرے تو ہر ایک کہتا ہے کہ یہ اچھا بھائی ہے ، اچھا دوست ہے ، اچھا رفیق ہے۔ اور دوکافر دوستوں میں سے جب ایک مرجاتا ہے تو دعا کرتا ہے ، یارب فلاں مجھے تیری اور تیرے رسول کی فرماں برداری سے منع کرتا تھا اور بدی (یعنی برائی ) کا حکم دیتا تھا ، نیکی سے روکتا تھااور خبر دیتا تھا کہ مجھے تیرے حضور (یعنی تیری بارگاہ میں) حاضرہونا نہیں ، تو اللہ پاک فرماتا ہے کہ تم میں سے ہر ایک دوسرے کی تعریف کرے تو ان میں سے ایک دوسرے کو کہتا ہے بُرا بھائی ، بُرا دوست ، بُرا رفیق ۔ (تفسیرخزائن العرفان سورہ الزخرف آیت نمبر 66،چشتی)
علم خزانہ ہے اور سُوال کرنا اس کی چابی ہے ، اللہ پاک تم پر رحم فرمائے سُوال کیا کروکیونکہ اس (سوال کرنے کی صورت ) میں چار افراد کو ثواب دیا جاتا ہے۔ سُوال کرنے والے کو ، جواب دینے والے کو ، سننے والے اوران سے مَحبّت کرنے والے کو ۔ (مسندالفردوس جلد 2 صفحہ 80 حدیث : 4011)
تین چیزیں حافظہ (Memory) تیز اور بلغم دور کرتی ہیں ۔ (1) مسواک ۔ (2) روزہ ۔ (3) قرآنِ پاک پڑھنا ۔ (احیاء العلوم جلد 1 صفحہ 364)
جو بغیر علم کے لوگوں کو فتویٰ دے آسمان و زمین کے فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں ۔ (المستطرف جلد 1 صفحہ 39)
مظلوم کے ظالم پر غلبہ کا دن (یعنی قیامت کا دِن) ظالم کے مظلوم پر غلبہ کے دن سے زیادہ سخت ہے ۔ (المستطرف جلد 1 صفحہ 186)
تھوڑی چیز دینے سے شرم نہ کرو کیونکہ دینے سے محروم رہنا اس سے بھی تھوڑا ہے ۔ (المستطرف جلد 1 صفحہ 283)
اللہ پاک کی قسم ! میں قرآنِ کریم کی ہر آیت کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ کب اور کہاں نازل ہوئی ، بے شک میرے ربِّ کریم کا شکر اداکرےاوراگر گناہ میں پڑ جائے تو اللہ پاک سے اس کی بخشش مانگے ۔ اور دُنیا میں بھلائی اس آدمی کو حاصل ہوتی ہے جو گناہ ہو جانے کی صورت میں توبہ کر کے اس کی اصلاح کر لیتا ہے یا وہ شخص جو نیکیاں کرنے میں جلدی کرتا ہے ۔ (الزہد للبیہقی صفحہ 276 حدیث : 708)
میری 5 باتیں یاد رکھو (اور یہ ایسی قیمتی باتیں ہیں کہ) اگر تم اُونٹوں پر سوار ہو کر انہیں تلاش کرنے نکلو گے تو اُونٹ تھک جائیں لیکن یہ باتیں نہ مل پائیں گی : (1) بندہ صرف اپنے ربِّ کریم سے امید رکھے ۔ (2) اپنے گناہوں کی وجہ سے ڈرتا رہے ۔ (3) جاہل “علم“ کے بارے میں سوال کرنے سے نہ شرمائے ۔ (4) اور اگر عالم کو کسی مسئلے کا علم نہ ہو تو (ہر گزنہ بتائے اور لاعلمی کا اظہار اور صاف انکار کرتے ہوئے) “وَاللہُ اَعْلَمْ یعنی اللہ پاک سب سے زیادہ علم والاہے‘‘ کہنے سے نہ گھبرائے اور (5) ایمان میں صبر کی وہ حیثیت ہے جیسی جسم میں سر کی ، اُس کا ایمان (کامل) نہیں جو بے صبری کا مظاہر ہ کرتا ہے ۔ (شعب الایمان جلد 7 صفحہ 124 حدیث نمبر 9718 بتغیرقلیل،چشتی)
اللہ پاک کے گمنام بندوں کے لیے خوشخبری ہے!وہ بندے جوخود تولوگوں کو جانتے ہیں لیکن لو گ انہیں نہیں پہچانتے ، اللہ کریم نے (جنت پر مقرر فرشتے) حضرت رِضوان علیہ السّلام کواُن کی پہچان کرادی ہے یہی لوگ ہدایت کے روشن چراغ ہیں اور اللہ پاک نے تمام تاریک فتنے اِن پر ظاہر فرما دئیے ہیں ۔ اللہ پاک اِنہیں اپنی رحمت (سے جنت) میں داخل فرمائے گا ۔ یہ شہرت چاہتے ہیں نہ ظلم کرتے ہیں اور نہ ہی ریا کاری میں پڑتے ہیں ۔ (الزہد لہناد جلد 2 صفحہ 437 حدیث : 861 )
سنو ! کامل فقیہ وہ ہے جو لوگوں کو رحمت ِ الٰہی سے مایوس نہ کرے ، اللہ پاک کے عذاب سے بے خوف نہ ہونے دے ، اُس کی نافرمانی کی رُخصت نہ دے اور قرآنِ کریم کو چھوڑ کر کسی اور چیز میں رغبت نہ رکھے ۔ (سنن دارمی جلد 1 صفحہ 101 حدیث نمبر 298 ، 297)
اے لوگو ! علم کے سرچشمے ، رات کے چراغ (یعنی راتوں کوجاگ کر عبادتِ الٰہی کرنے والے ) ، پُرانےلباس اور پاکیزہ دل والے بن جاؤ ، اِس کی وجہ سے آسمانوں میں تمہاری شہرت ہوگی اور زمین میں تمہارا ذکر بُلند ہو گا ۔ (سنن دارمی جلد 1 صفحہ 92 حدیث نمبر 256 بتغیر قلیل،چشتی)
علم مال سے بہتر ہے ۔ علم تیری حفا ظت کرتا ہے جبکہ مال کی تجھے حفاظت کرنی پڑتی ہے ۔ علم پھیلانے سے بڑھتا ہے جبکہ مال خرچ کرنے سے گھٹتا ہے ۔ عالم سے لوگ محبت کرتے ہیں ۔ عالم ، علم کی بدولت اپنی زندگی میں اللہ کریم کی فرمانبرداری کرتا ہے ۔ عالم کے مرنے کے بعد بھی اُس کا ذکرِ خیر باقی رہتاہے جب کہ مال کافائدہ اس کے ختم ہونے کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے اور یہی معاملہ مالداروں کا ہے کہ دنیا میں مال ختم ہوتے ہی ان کا نام تک مٹ جاتا ہے اس کے برعکس عُلما کا نام رہتی دنیا تک باقی رہتا ہے ۔ مالداروں کے نام لینے والے کہیں نظر نہیں آتے جبکہ عُلمائے دین کی عزت اور مقام ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں قائم رہتا ہے ۔ (حلیۃ الاولیاء جلد 1 صفحہ 121)
تین عمل مشکل ہیں : (1) اپنی جان کا حق ادا کرنا ۔ (2) ہر حال میں اللہ پاک کا ذکرکرتے رہنا اور ۔ (3) اپنے ضرورت مند مسلمان بھائیوں سے مالی تعاون کرنا ۔ (حلیۃ الاولیاء جلد 1 صفحہ 126)
جب تم کسی چیز کو حاصل کرنا چاہو تو پھر اُس میں ایسے لگ جاؤ کہ بس ہر وقت اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہو ۔ (تعلیم المتعلم صفحہ 109)
بیشک نعمت کا تعلق “ شکر “ کے ساتھ ہے اورشکر کا تعلق نعمتوں کی زیادتی کے ساتھ ہے ، یہ دونوں ایک دوسرے کو لازم ہیں ۔ پس اللہ پاک کی طرف سے نعمتوں کی زیادتی اس وقت تک نہیں رُکتی جب تک کہ بندے کی طرف سے “ شکر “ نہ رُک جائے ۔ (شکرکے فضائل صفحہ 11)
پارہ 28 سورۃُ التحریم کی آیت نمبر 6 (یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا) ۔ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حضرتِ علی شیرِ خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس آیت کا تقاضا ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے گھروالوں کو بھلائی کی تعلیم دو اور انہیں آدابِ زندگی سکھاؤ ۔ (تفسیر درمنثور جلد 8 صفحہ 225)
میرے نزدیک کوئی اس شخصیت سے بڑھ کر پسندیدہ نہیں جس نےاللہ کریم سے اپنے نیک اعمال نامے کے ساتھ ملاقات کی ہو ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 45)
جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے افضل کہے گا تو میں اس کو مُفْتَرِی کی (یعنی بہتان لگانے والے کو دی جانے والی) سزادوں گا ۔ (تاریخ ابن عساکِر جلد 30 صفحہ 383)
اِس اُمّت میں نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد سب سے بہتر (حضرت ) ابوبکر و عمر (رضی اللہ عنہما) ہیں ۔ (تاریخ ابن عساکِر جلد 30 صفحہ 346) ۔ امام ذَہبی رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایاکہ یہ قول حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بَتَواتُر منقول ہے ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 34)
(حضرت) ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ شکر کرنے والوں اور اللہ کے پسندیدہ بندوں کے امین ہیں ، آپ ان سب سے زیادہ شکر کرنے والے اور سب سے زیادہ اللہ کے پسندیدہ ہیں ۔ (تفسیر طبری سورہ اٰل عمران آیت نمبر 144 جلد 3 صفحہ 455 )
یاد رکھو! وہ (یعنی حضرت ِابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) انسانوں میں سب سے زیادہ رحم دل ، نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کےیارِ غار اور اپنے مال سے حضور کو سب سے زیادہ نفع پہنچانے والے ہیں ۔ (الریاض النضرۃ ، 1 / 130)
ہم سب صحابہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سےافضل ہیں ۔ (الریاض النضرۃ ، 1 / 138)
قسم کھا کر ارشاد فرمایا : اللہ پاک نےابوبکر کا نام ’’صدیق ‘‘ آسمان سے نازل فرمایا ہے ۔ (مستدرک علی الصحیحین ، 4 / 4 ، حدیث : 4461)
میں توحضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کی تمام نیکیوں میں سے صرف ایک نیکی ہوں۔ (فضائل ابی بکر الصدیق للعشاری ، ص 51 ، رقم : 29 ، تاریخ ابن عساکر ، 30 / 383)
حضور نبی ٔکریم ، رَ ؤفٌ و رحیم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخصیات (حضرت) ابوبکر و عمر (رضی اللہ عنہما) ہیں ، کسی مومن کے دل میں میری محبت اورحضرت ابوبکر و عمر (رضی اللہ عنہما) کا بُغض جمع نہیں ہو سکتے ، اور نہ ہی میری دشمنی اور حضرت ابو بکر و عمر (رضی اللہ عنہما) کی محبت جمع ہو سکتی ہے ۔ (معجم اوسط ، 3 / 79 ، رقم : 3920 ، تاریخ ابن عساکر ، 30 / 356،چشتی)
ایک بار حضرت ِابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت مولیٰ علی شیرِ خُدا رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوئی تو صدیق اکبر مولیٰ علی کو دیکھ کر مسکرانے لگے ۔ حضرتِ علیُّ المرتضیٰ نے پوچھا : آپ کیوں مسکرا رہے ہیں ؟ حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ پلِ صراط سے وہی گزرے گا جس کو علیُّ المرتضیٰ تحریری اجازت نامہ دیں گے ۔ ‘‘یہ سن کر حضرتِ علیُّ المرتضیٰ بھی مسکرادئیے اور کہنے لگے : “ کیا میں آپ کو رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف سے آپ کے لیے بیان کردہ خوشخبری نہ سناؤں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : پل صراط سے گزرنے کا تحریری اجازت نامہ صرف اُسی کوملے گا جو ابو بکر صدیق سے محبت کرنے والا ہوگا ۔ (الریا ض النضرۃ ، 1 / 207)
اپنی زبان کو قابو میں رکھو کیونکہ آدمی کی ہلاکت زیادہ گفتگو کرنے میں ہے ۔ (بحر الدموع ، ص175)
جب بندہ فوت ہوتا ہے تو زمین میں اس کی جائے نماز اور آسمان میں اس کے عمل کا ٹھکانا اُس پر روتے ہیں۔ ( الزہد لابن المبارک ، ص114 ، حدیث : 336)
جو نماز میں کھڑے ہو کر قرآنِ کریم کی تلاوت کرے ، اُس کےلیے ہر حرف کے بدلے100نیکیاں ہیں اور جو بیٹھ کر تلاوت کرے اُس کے لئے ہر حرف کے بدلے 50نیکیاں ہیں اور جو نماز کے علاوہ باوضو تلاوت کرے اُس کے لئے25 نیکیاں ہیں اور جو بغیر وُضو تلاوت کرے اُس کے لئے10 نیکیاں ہیں اور رات کا قیام (یعنی عبادت ) اَفضل ہے کیونکہ اُس وقت دِل زیادہ فارغ ہوتا ہے ۔ (احیاء العلوم ، 1 / 366،چشتی)
تعجب ہے اُس شخص پر جو سامانِ نجات رکھنے کے باوجود ہلاک ہو جاتا ہے ۔ پوچھا گیا : سامانِ نجات کیا ہے؟فرمایا : استغفار۔ (احیاء العلوم ، 1 / 414)
میں اس شخص کو کامل عقل والا نہیں سمجھتا جو سورۂ بقرہ کی آخری دو آیات پڑھے بغیر سو جائے ۔ (احیاء العلوم ، 1 / 454) وہ دوآیات یہ ہیں : ⬇
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَؕ-كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىٕكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ۫-لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ۫-وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا ﱪ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَ اِلَیْكَ الْمَصِیْرُ (۲۸۵) لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ-لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ عَلَیْهَا مَا اكْتَسَبَتْؕ-رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَاۤ اِنْ نَّسِیْنَاۤ اَوْ اَخْطَاْنَاۚ-رَبَّنَا وَ لَا تَحْمِلْ عَلَیْنَاۤ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَاۚ-رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖۚ-وَ اعْفُ عَنَّاٙ-وَ اغْفِرْ لَنَاٙ-وَ ارْحَمْنَاٙ-اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ۠ (۲۸۶))
ترجَمہ : رسول ایمان لایا اس پر جو اس کے رب کے پاس سے اس پر اُترا اور ایمان والے سب نے مانا اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کویہ کہتے ہوئے کہ ہم اس کے کسی رسول پر ایمان لانے میں فرق نہیں کرتے اور عرض کی کہ ہم نے سنا اور مانا تیری معافی ہو اے رب ہمارے اور تیری ہی طرف پھرنا ہے ۔
جو کھانا نمک (یا نمکین چیز) سے شروع کرتا ہےاللہ کریم اُس سے 70 بیماریاں دور فرما دیتا ہے۔ *جو روزانہ سات عجوہ کھجوریں کھا لیا کرے اس کے پیٹ کی بیماریاں ختم ہو جائیں گی ۔ *جو روزانہ 21دانے سرخ کشمش (Red currant)کے کھا لیا کرے اپنے جسم میں کوئی ناپسندیدہ چیز نہ دیکھے گا۔ *گوشت گوشت پیدا کرتا ہے۔ *ثَرید اہلِ عرب کا کھانا ہے۔ *نفاس والی عورت کے لئے تر کھجوروں سے بہتر کوئی چیز نہیں۔ *مچھلی جسم کو پگھلادیتی ہے(یعنی دُبلا کردیتی ہے)۔ * جو لمبی عمر چاہے وہ ناشتہ جلد(صبح سویرے) کرے ، شام کا کھانا کم اور تاخیر سےکھائے اور چادر ہلکی رکھے یعنی قرض نہ لے۔ (عيون الاخبار ، 3 / 293)
تین عادتیں مَردوں میں بُری مگر عورتوں میں اچھی ہیں : (1)بخل(2)خود پسندی اور(3)بُزدلی۔ وَضاحت : کیونکہ عورت بخیل (یعنی کنجوس ) ہو گی تو اپنے اور شوہر کے مال کی حفاظت کرے گی۔ خود پسند ہو گی تو ہر کسی سے نرم گفتگو ناپسند کرے گی اور بزدل ہو گی تو ہر شے سے گھبرائے گی ، لہٰذا گھر سے باہر نہیں نکلے گی اور اپنے شوہر کے ڈر سے تہمت کی جگہوں سے بچے گی ۔ (احیاء العلوم ، 2 / 50)
اے تاجرو! اپنا حق لو اور دوسروں کا حق دو ، سلامتی میں رہو گے اور تھوڑے نفع کو مت ٹھکراؤ ورنہ زیادہ نفع سے محروم ہو جاؤ گے ۔ (احیاء العلوم ، 2 / 103)
تمہارا سچا دوست وہ ہے جو تمہارا ساتھ دے اور تمہارے فائدے کےلیے خود کو نقصان پہنچائے۔ جب تمہیں گردشِ زمانہ پہنچے (یعنی تمہارے حالات تنگ ہوجائیں ) تو تمہارا سہارا بنے اور تمہاری حفاظت کےلیے اپنی چادر پھیلادے ۔ (احیاء العلوم ، 2 / 214)
جب تم میں سے کسی کے پیٹ میں درد ہو تو اپنی بیوی سے اُس کے مہر میں سے کچھ رقم مانگے اور اُس رقم کا شہد خریدے اور اس شہد کو بارش کے پانی کے ساتھ ملا کر پئے۔ یوں اس کےپینے میں ھَناء (ھناء سے اس آیت کی طرف اشارہ ہے: وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةًؕ-فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَیْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِیْٓــٴًـا مَّرِیْٓــٴًـا ۔ (پ4،النساء:4)ترجَمۂ کنز الایمان:اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دو پھر اگر وہ اپنے دل کی خوشی سےمہرمیں سےتمہیں کچھ دے دیں تو اسے کھاؤ رچتا پچتا(خوش گوار اور مزے سے)) ، شِفااور مبارک پانی کا اجتماع ہوجائے گا۔ (احیاء العلوم ، 2 / 262،چشتی)
لوگو! تم آپس میں شہد کی مکھیوں کی طرح ہو جاؤ ، اگرچہ دوسرے پرندے انہیں کمزور و حقیر(Inferior) جانتے ہیں لیکن اگر اُنہیں یہ معلوم ہو جائے کہ شہد کی مکھیوں کے پیٹ میں اللہ پاک نے بڑی برکت رکھی ہے تو کبھی اُنہیں حقیر نہ جانتے ۔ (تاریخ الخلفاء ، ص143)
اے قرآن سیکھنے والو! احکام ِقرآنی پر عمل کرو عالم وہی ہے جو علم حاصل کرنے کے بعد اس پر عمل کرے اور اپنے علم کو اپنے عمل کی موافقت میں پورا اُتارے (یعنی اس کا علم و عمل دونوں موافق ہو جائیں) ۔ (تاریخ الخلفاء ، ص143)
“ توفیقِ الٰہی “ بہترین رہبر ہے ، “ خوش اخلاقی “ بہترین دوست ہے ، “ عقل وشعور “ بہترین ساتھی ہے ، “ ادب “ بہترین میراث ہے ، اور “ غم “ تکبر سے بھی زیادہ بدتر ہے ۔ (تاریخ الخلفاء ، ص144)
مصیبت اور پریشانی بھی ایک مقام پر پہنچ کر ختم ہو جاتی ہیں ۔ اس لیے عقلمند کو چاہیئے کہ مصیبت کی حالت میں صبر کرے تاکہ مصیبت اپنی مدت پر چلی جائےورنہ مدت ختم ہونے سے پہلے مصیبت کو دور کرنے کی کوشش مصیبت کو اوربڑھاتی ہے ۔ (تاریخ الخلفاء ، ص144)
امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کو نصیحتیں
بدبخت ابنِ ملجم کے زخمی کرنے پر نواسہ ٔ رسول حضرتِ اما مِ حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ اپنے پیارے ابا جان حضرتِ مولیٰ علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں روتے ہوئے حاضر ہوئے تو حضرتِ علی رضی اللہ عنہ نے اپنے لختِ جگر سےاِرشاد فرمایا : بیٹا 8باتیں یاد رکھنا : (1) سب سے بڑی دولت ’’عقلمندی‘‘ہے(2) سب سےبڑی غربت “ بیوقوفی “ ہے (3) سب سے زیادہ وحشت و گھبراہٹ’’تکبر ‘‘ہے ، (4) سب سے زیادہ بزرگی وکرم ’’خوش اَخلاقی اور اچھا کردار ‘‘ہے۔ بیٹا! اِن چار چیزوں سے ہمیشہ بچنا : (1)بے وقوف کی دوستی سے ، اگرچہ وہ نفع پہنچانا چاہتا ہے لیکن آخر کار اس سے تکلیف ہی پہنچتی ہے (2) جُھوٹےساتھی سے ، کیونکہ وہ قریب کو دور اور دور کو قریب کر دیتا ہے (3)کنجوس کے ساتھ سے ، اِس لیے کہ وہ تم سے ان چیزوں کو چُھڑا دیتا ہے جن کی تمہیں سخت ضرورت ہو اور (4) فاجر (یعنی گناہ گار) کی دوستی سے اس لیے کہ وہ تمہیں تھوڑی چیز کے بدلے بیچ ڈالے گا ۔ (تاریخ الخلفاء ، ص145)
زیادہ ہوشیاری در اصل ’’بدگمانی‘‘ ہے ۔ (تاریخ الخلفاء ، ص146)
محبت دور کے خاندان والے کو قریب کر دیتی ہے اور دشمنی خاندان کے قریبی رشتےدار کو دور ہٹا دیتی ہے ۔ ہاتھ جسم سے بہت زیادہ قریب ہے مگر گل سڑ جانےپر کاٹ دیا جاتا اور آخر کار داغ دیا جاتا ہے ۔ (تاریخ الخلفاء ، ص146)
جب مجھ سے کوئی ایسی بات پوچھی جائے جس کے جواب میں کہتا ہوں کہ اللہ پاک بہتر جانتا ہے کہ میں اس مسئلہ سے ناواقف ہوں تو اس وقت مجھے خوب راحت پہنچتی ہے اور میرایہ جواب خود مجھے بہت پسند ومرغوب ہے ۔ (تاریخ الخلفاء ، ص147)
لوگوں میں عدل وانصاف کرنے والے پر لازم ہے کہ جو دوسرں کے لیے پسند کرے وہی اپنے لیے پسند کرے ۔ (تاریخ الخلفاء ، ص147)
تم آخرت کے بیٹے بنو! دنیا کے نہیں اس لیے کہ آج(یعنی دنیا میں) عمل ہے ، حساب نہیں اور کل(یعنی آخرت میں) حساب ہے عمل نہیں ۔ (حلیۃ الاولیاء ، 1 / 117)
ریا کار کی تین علامتیں ہیں جب اکیلا ہو تو عبادت میں سُستی کرے اور نوافل بیٹھ کر پڑھے اور جب لوگوں میں ہو تو سستی نہ کرے بلکہ عمل زیادہ کرے اور جب لوگ اس کی تعریف کریں تو عبادت زیادہ کرے ، اگرلوگ بُرائی کریں تو چھوڑ دے ۔ (تنبیہ المغترین ، ص26)
جو جنت کا اُمیدوار ہوا اس نے نیکیوں میں جلدی کی ، جو جہنم سے ڈرا اس نے خود کو ناجائز خواہشات سے روک دیا اور جسے موت کا یقین آگیا اس نے لذاتِ دنیا کو ختم کردیا ۔ (مکاشفۃ القلوب ، ص31،چشتی)
آنکھیں شیطان کا جال ہیں آنکھ سریعُ الاثر(جلد اثر قبول کرنے والا) عضو ہے اور بہت ہی جلد ہار جاتا ہے ، جس کسی نے اپنے جسمانی اعضاکو اللہ پاک کی عبادت میں استعمال کیا اس کی امید پوری ہوئی اور جس نے اپنے اعضائے بدن کو خواہشات کے پیچھے لگا دیا اُس کے اعمال باطل ہو گئے ۔ (مکاشفۃ القلوب ، ص92)
صحیح سند سے یزید بن الاصم سے منقول ہےکہ میں نے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے صفین کے مقتولین کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا : قَتْلَانَا وَقَتَلَاهُمْ فِي الْجَنَّةِ ۔
ترجمہ : ہمارے اور ان کے مقتولین جنتی ہیں ۔
(مصنف ابن أبي شيبة » كِتَابُ الْجَمَلِ » بَابُ مَا ذُكِرَ فِي صِفِّينَ ... رقم الحديث: 37177،چشتی)،(سنن سعید بن منصور:398/2)(مجمع الزوائد:357/9، وذكر نحوه الذهبي في السير 3/144)
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہےکہ وہ جنگ صفین کی رات نکلےتواہل شام کی طرف نظر اٹھا کر فرمایا : اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَلَهُمْ ۔
ترجمہ : اے اللہ مجھے اور انھیں معاف فرمادے ۔ (مصنف ابن أبي شيبة » كِتَابُ الْجَمَلِ » بَابُ مَا ذُكِرَ فِي صِفِّينَ ... رقم الحديث: 37162،چشتی)
قابل غور جنہیں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ جنّتیں کہیں اور مغفرت کی دعائیں کریں آج نام نہاد محبّان مولا علی رضی اللہ عنہ انہیں ظالم ، جہنّمی نہ جانے کیا کہیں فیصلہ اہلِ انصاف کریں ۔
ایمانِ ابو طالب کے متعلق حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان
محترم قارئینِ کرام : آج کل مسلہ ایمانِ ابو طالب پر بہت بحث ہو رہی ہے اس موضوع پر جلد ہم تفصیل سے لکھیں گے اور دونوں فریقین کے دلائل بھی پیش کرینگے اس وقت ہم صرف حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان مبارک پیش کر رہے ہیں اور یہ امید رکھتے ہیں کہ احباب اس پر غور فرمائیں گے کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی عالم یا حضرت ابو طالب کا ہمدرد نہیں ہو سکتا لہٰذا آیئے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان پڑھتے ہیں : حضرت سیّدنا علی بن طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : لَمَّا تُوُفِّيَ أَبِي أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ : إِنَّ عَمَّكَ قَدْ تُوُفِّيَ قَالَ : اذْهَبْ فَوَارِهِ ، قُلْتُ : إِنَّهُ مَاتَ مُشْرِكًا ، قَالَ : اذْهَبْ فَوَارِهِ وَلَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي ، فَفَعَلْتُ ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَأَمَرَنِي أَنْ أَغْتَسِلَ ۔
ترجمہ : حضرت سیّدنا علی بن طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جب میرے والد فوت ہوئے تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خد مت میں حا ضر ہوا اور عرض کی : آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچا فوت ہو گئے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جا کر انہیں دفنا دیں ۔ میں نے عرض کی : یقیناً وہ تو مشرک ہونے کی حالت میں فوت ہوئے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جائیں اور انہیں دفنا دیں ، لیکن جب تک میرے پاس واپس نہ آئیں کوئی نیا کام نہ کریں ۔ میں نے ایسا ہی کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھے غسل کرنے کا حکم فرمایا ۔ (مسند الطيالسي صفحہ نمبر 19 حدیث نمبر 120 ، وسنده ‘ حسن متصل،چشتی)
ایک روایت کے الفاظ ہیں : إِنَّ عَمَّكَ الشَّيْخَ الضَّالَّ قَدْ مَاتَ، قَالَ : اذْهَبْ فَوَارِ أَبَاكَ، ثُمَّ لَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي، فَذَهَبْتُ فَوَارَيْتُهُ، وَجِئْتُهُ، فَأَمَرَنِي، فَاغْتَسَلْتُ وَدَعَا لِي ۔
ترجمہ : حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گمراہ چچا فوت ہو گئے ہیں ان کو کون دفنائے گا ؟ ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جائیں اور اپنے والد کو دفنا دیں ۔ (مسند الامام احمد : 97/1،چشتی)(سنن ابي داؤد : 3214) (سنن النسائي : 190، 2008 ، واللفظ لهٗ ، وسندهٗ حسن)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے الاصابته في تميز الصحابته لابن حجر : 114/7) اور امام ابنِ جارود رحمۃ اللہ علیہ (550ھ) نے ”صحیح“ قرار دیا ہے ۔ یہ حدیث نصِ قطعی ہے کہ ابوطالب مسلمان نہیں ہوئے تھے ۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ تک نہیں پڑھی ۔
علامہ مومن بن حسن شبلنجی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی کتاب نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کے ارشادات وفرمودات نقل کئے جارہے ہیں :
شیریں کلامی
من عذب لسانہ کثر اخوانہ۔
ترجمہ : جس کی زبان شیریں ہو اس کے دوست واحباب زیادہ ہوتے ہیں۔
نیکی کی برکت
بالبر یستعبد الحر۔
ترجمہ : نیکی اور حسن سلوک کے ذریعہ آزاد شخص کو بھی تابع کیا جاسکتا ہے۔
تقلیل کلام
اذا تم العقل نقص الکلام۔
ترجمہ : جب عقل کا مل ہوتی ہے تو آدمی گفتگو کم کرتا ہے۔
من طلب مالا یعنیہ فاتہ مایعنیہ۔
ترجمہ : جو شخص بے فائدہ چیزوں کو طلب کرتا ہے اہم اور ضروری چیزیں اس سے چھوٹ جاتی ہیں ۔
غیبت سے پرہیز
السامع للغیبۃ احد المغتابین ۔
ترجمہ:غیبت سننے والا بھی غیبت کرنے والوں میں سے ایک ہے۔
تقدیر اور تدبیر
اذا حلت المقادیر بطلت التدابیر۔
ترجمہ:جب تقدیر کا فیصلہ آجاتا ہے تو تدبیر ناکام ہوجاتی ہے۔
نادان اور دانا کی پہچان
قلب الاحمق فی فیہ ،ولسان العاقل فی قبلہ۔
ترجمہ:بے وقوف کا دل اس کی زبان میں ہوتا ہے اور عقل مند کی زبان اس کے دل میں ہوتی ہے۔
عفوودرگزر
اذا قدرت علی عدوک فاجعل العفو شکر القدرۃ علیہ۔
ترجمہ:جب تم اپنے دشمن پر قابو پالو تو اس پر قابو پانے کے شکر میں عفو ودرگزر کو اختیار کرو!۔
بخالت کا نقصان
البخیل یستعجل الفقر ،یعیش فی الدنیا عیشۃ الفقراء ویحاسب فی الاخرۃ حساب الاغنیاء ۔
ترجمہ:بخیل شخص بہت جلد تنگدست ہوجاتا ہے ،وہ دنیا میں تو تنگدستوں کی طرح زندگی گزار تا ہے اور آخرت میں اس سے مالداروں کی طرح حساب لیا جائے گا۔
البخل جامع لمساوی الاخلاق۔
ترجمہ:بخالت تمام اخلاقی خرابیوں کا مجمع ہے۔
علم کا فائدہ اور جہالت کا نقصان
العلم یرفع الوضیع ،والجھل یضع الرفیع۔
ترجمہ:علم پستی میں رہنے والوں کو بلندی عطا کرتا ہے اور جہالت بلند آدمی کو بے وقار کردیتی ہے۔
تواضع وخاکساری
لاتکون غنیا حتی تکون عفیفا،ولاتکون زاھدا حتی تکون متواضعا،ولاتکون متواضعا حتی تکون حلیما،ولا یسلم قلبک حتی تحب للمسلمین ما تحب لنفسک۔
ترجمہ:تم اس وقت تک مالدار نہیں ہو سکتے جب تک کہ تم پاک دامن نہ ہوجاؤ،اور اس وقت تک زاہد (دنیا سے بے رغبتی کرنے والے ) نہیں ہو سکتے جب تک کہ تم منکسر المزاج نہ ہو جاؤ ، اور تم اس وقت تک متواضع نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم بردبار نہ ہو جاؤ ، اور تمہارا دل اس وقت تک قلب سلیم نہیں ہو سکتا جب تک کہ تم مسلمانوں کے لئے وہ چیز پسند نہ کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو۔
مصیبت کے وقت صبر کا دامن تھامنے کی تلقین
وطن نفسک علی الصبر علی ما اصابک۔
ترجمہ:جو کچھ تم پر مصیبت آئے اس پراپنے آپ کو صبر کا عادی بنالو۔
قل عند کل شدۃ:"لا حول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم"تکف۔وقل عند کل نعمۃ :"الحمد للہ"تزد منھا۔
ترجمہ:ہر مصیبت کے وقت"لا حول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم"کہا کرو ،اس کی برکت سے تم مصیبت کو روک دوگے،اور ہر نعمت وراحت کے وقت "الحمد للہ"کہا کروکہ تم نعمتوں میں اضافہ پاؤگے۔
گوشہ نشینی وتنہائی
الوحدۃ راحۃ،والعزلۃ عبادۃ،والقناعۃ غنی،والاقتصاد بلغۃ۔
ترجمہ:تنہائی راحت ہے،گوشہ نشینی عبادت ہے،قناعت(اپنے نصیب پر راضی رہنا)تونگری ہے اور میانہ روی (درمیانی راہ اختیار کرنا)بقدر ضرورت (چیزوں کو پورا کرتا)ہے۔
مردم شناسی کا طریقہ
ولا تعرف الناس الا بالاختبار،فاختبر اہلک وولدک فی غیبتک،وصدیقک فی مصیبتک،وذا القرابۃ عند فاقتک
ترجمہ:لوگ امتحان وآزمائش کے ذریعہ پہچانے جاتے ہیں،تو تم اپنے گھروالوں اور اپنی اولاد کو غائبانہ میں آزماؤ!اپنے دوست کو اپنی مصیبت کے وقت آزماؤ!اور اپنے رشتہ دار کو اپنی فاقہ کشی اور تنگدستی کے وقت آزماؤ!۔
دنیا کی بے ثباتی
آپ نے ارشاد فرمایا:الناس نیام فاذا ماتوا انتبھوا۔
ترجمہ:لوگ خواب غفلت میں ہیں،جب انہیں موت آئے گی تو بیدار ہوں گے۔
الدنیا والاخرۃ کالمشرق والمغرب،ان قربت من احدھما بعدت عن الاخر۔
ترجمہ:دنیا وآخرت مشرق ومغرب کی طرح ہے ،اگر تم ان میں سے کسی ایک کے قریب ہوجاؤگے تو دوسرے سے خود بخود دور ہوجاؤگے۔
آپ نے ارشاد فرمایا:
الناس من جہۃ التمثال أکفاء ٭ أبوہم آدم ، والأم حواء .
ترجمہ:تمام انسان جسم کے لحاظ سے برابر ہیں،ان کے والد حضرت آدم اور والدہ حضرت حوا ہیں علیہما السلام۔
فإن یکن لہم من أصلہم شرف ٭ یفاخرون بہ،فالطین والماء .
ترجمہ:اگر حقیقت میں ان کے حق میں کو عزت وبزرگی ہے ،جس پر وہ فخر کرسکتے ہیں تو وہ مٹی اور پانی ہے
ماالفضل إلا لأہل العلم إنہم ٭ علی الہدی لمن استہدی أدلاء.
ترجمہ:فضیلت وعظمت صرف اہل علم کے لئے ہے کیونکہ،وہ ہدایت پر ہیں اور طالبین ہدایت کے لئے رہنما ہیں
وقیمۃ المرء ما قد کان یحسنہ ٭ والجاہلون لأہل العلم أعداء .
ترجمہ:اور آدمی کی قدر وقیمت انہیں خوبیوں سے ہے جو اسے زینت بخشے ،
اور جاہل لوگ اہل علم کے دشمن ہوتے ہیں
فقم بعلم، ولاتطلب بہ بلا ٭ فالناس موتی،وأہل العلم أحیاء .
ترجمہ:تو تم طلب علم کےلیے کمربستہ ہوجاؤ اور اس علم کے ذریعہ کوئی دنیوی فائدہ کے طلبگار نہ بنو،کیونکہ عام انسان مردہ ہیں اور علم والے زندہ ہیں۔
حضرت مولائے کائنات کی سیرت مبارکہ ،آپ کے فرامین وارشادات، عادات واطوار اور آپ کی تابناک زندگی بہترین نمونۂ عمل ہے،جس میں آپ کے چاہنے والوں اور محبین کے لئے درس حق وصداقت ہیکہ وہ غفلت سے بچیں اور آخرت کی تیاری کریں،نمازوں کا اہتمام کریں اور کتاب وسنت کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں ۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں حبیب کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صدقہ و طفیل حضرات اہل بیت کرام وصحابۂ عظام رضی اللہ عنہم سے بے پناہ محبت کرنے والا بنائے،حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی سے بے انتہاء عقیدت والفت رکھنے والا بنائے اور آپ کے فیوض وبرکات سے ہمیں مستفیض فرمائے اور آپ کی تعلیمات پر عمل کرنے والا بنائے ۔
فضائل و مناقب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 16
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حُبِّ مولا علی کی آڑ میں امیر معاویہ (رضی اللہ عنہما) کی توہین کرنے والوں کے نام : حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کا دفاع کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم ان کو حضرت مولا علی مشکل کُشا شیر خُدا خیبر شکن رضی اللہ عنہ سے افضل یا برابر جانتے ہیں ہرگز نہیں ، اللہ عزوجل مولائے کائنات سیدنا علی المرتضی فداہ روحی کرم اللہ تعالی وجھہ کے صدقے ہمارے ایمان و سنیت کی حفاظت فرمائے فتنوں سے محفوظ فرمائے آمین ۔
کتب عقائد اہلسنت میں اس بات کی دو ٹوک صراحت ہے کہ مشاجرات صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سکوت کیا جائے گا ۔ اس معاملے میں ہمارا وہی عقیدہ ہے جو اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا کہ : امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ تو ان کا درجہ ان سب (عشرہ مبشرہ وغیرہ) کے بعد ہے ۔ اور حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے مقام رفیع (مراتب بلند وبالا) و شان منیع (عظمت ومنزلت) تک تو ان سے وہ دور دراز منزلیں ہیں جن ہزاروں ہزار رہوار برق کردار (ایسے کشادہ فراخ قدم گھوڑے جیسے بجلی کا کوندا) صبا رفتار ( ہوا سے بات کرنے والے ، تیز رو ، تیز گام ) تھک رہیں اور قطع (مسافت) نہ کرسکیں ۔ مگر فضل صحبت (و شرف صحابیت وفضل) و شرف سعادت خدائی دین ہے ۔ ( جس سے مسلمان آنکھ بند نہیں کرسکتے تو ان پر لعن طعن یا ان کی توہین تنقیص کیسے گوارا رکھیں ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 29 صفحہ 370 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاھور)
اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرما رہے ہیں کہ حضرت مولا علی مشکل کُشا شیر خُدا خیبر شکن رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ کے درمیان بجلی کی رفتار کا گھوڑا ہزروں سال دوڑتا رہے دوڑتا رہے تو بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتے ـ کیونکہ اس دور میں رافضی لوگ حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام لیکر تبرا و بکواسات کرتے ہیں تو ہم پر بھی لازم ہے کہ حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کا تخصیص کیساتھ دفاع کریں بلکہ جس صحابی کی بھی ناموس پر حملہ ہو اسی صحابی کی تخیصیص کیساتھ شان و عظمت بیان کی جائے ۔ ان کے مقام ومرتبہ میں فرق وہی جس کو اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے انداز میں بیان فرمایا کہ : ⬇
فرق مراتب بے شمار
اور حق بدست حیدر کرار
مگر معاویہ بھی ہمارے سردار
طعن ان پر بھی کار فجار
جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں عیاذ باﷲ حضرت علی اسد ﷲ رضی اللہ عنہ کے سبقت و اوّلیت و عظمت واکملیت سے آنکھ پھیر لے وہ ناصبی یزیدی اور جو حضرت علی اسد ﷲ رضی اللہ عنہ کی محبت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی صحابیت و نسبت بارگاہ حضرت رسالت بھلا دے وہ شیعی زیدی یہی روش آداب بحمد ﷲ تعالٰی ہم اہل توسط و اعتدال کو ہر جگہ ملحوظ رہتی ہے ـ (فتاویٰ رضویہ، جلد10، صفحہ199، مطبوعہ رضا فاؤبڈیشن لاھور،چشتی)
اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرما رہے ہیں کہ مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان مرتبہ کا فرق شمار سے باھر ہے ۔ اگر کوئی حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں حضرت امام المسلمین مولا علی مشکل کُشاء رضی اللہ عنہ کی شان و عظمت کو گرائے وہ ناصبی یزیدی ہے ۔ اور جو مولا علی شیرِ خُدا رضی اللہ عنہ کی محبت کی آڑ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں تنقیص کرے وہ زیدی شیعہ ہے ۔ الحمد لله ہمارا اھلسنت کا مسلک مسلکِ اعتدال ہے جو ہر صاحبِ فضل کو بغیر کسی دوسرے کی تنقیص و توھین کے مانتا ہے ۔ آج کے جاھلوں نے محبتِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کیلئے بُغضِ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ شرط بنا لیا ہے ۔ اللہ تعالٰی ہمیں آل و اصحاب کی محبت میں موت عطا فرمائے آمین ۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مجتہد تھے ۔ صحابہ کا آپسی اختلاف اجتہاد پر مبنی تھا ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کےدرمیان ہونے والے اختلاف میں زبان بند رکھی جائے ۔ اور ان کے فضائل بیان کیے جائیں ۔ ناکہ جیسا کہ بعض جاہلوں نے سمجھ لیا کہ فضائل کے بارے میں کف لسان کیا جائے ۔ اللہ ان سب سے راضی ہے اور ان کا معاملہ اللہ کے سپر د ہے آئمہ اہلسنّت علیہم الرّحمہ کیا فرماتے ہیں آیئے پڑھتے ہیں : ⬇
اما م اہلسنت ابو الحسن الاشعری رحمۃ اللہ علیہ (324ھجری) فرماتے ہیں : جو جنگ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت زبیرو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہما کے مابین ہوئی یہ تاویل اور اجتہاد کی بنیاد پر تھی ، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ہی امام تھے اور یہ تمام کے تمام مجتہدین تھے اور ان کے لیئے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم نے جنت کی گواہی دی ہے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم کی گواہی اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ تمام اپنے اجتہاد میں حق پر تھے ، اسی طرح جو جنگ حضرت سیدنا علی اور حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہما کے مابین ہوئی اس کا بھی یہی حال ہے ، یہ بھی تاویل واجتہاد کی بنیاد پر ہوئی ، اور تمام صحابہ پیشوا ہیں ، مامون ہیں ، دین میں ان پر کوئی تہمت نہیں ہے ، اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ان تمام کی تعریف کی ہے ، ہم پر لازم ہے کہ ہم ان تمام کی تعظیم و توقیر کریں ، ان سے محبت کریں اور جو ان کی شان میں کمی لائے اس سے براءت اختیار کریں ۔ (الابانہ عن اصول الدیانہ صفحہ نمبر 624 ۔ 625 ۔626،چشتی)
قاضی ابو بکر الباقلانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 304ھجری) فرماتے ہیں : واجب ہے کہ ہم جان لیں : جو امور حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مابین واقع ہوئے اس سے ہم کف لسان کرے ، اور ان تمام کے لیئے رحمت کی دعا کریں ، تمام کی تعریف کریں ، اور اللہ تعالی سے ان کے لیئے رضا ، امان، کامیابی اور جنتوں کی دعا کرتے ہیں ، اور اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ان امور میں اصابت پر تھے ، اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیئے ان معاملات میں دو اجر ہیں ، اور صحابہ کرام علیہم الرضوان سے جو صادر ہوا وہ ان کے اجتہاد کی بنیاد پر تھا ان کے لیئے ایک اجر ہے ، نہ ان کو فاسق قرار دیا جائے گا اور نہ ہی بدعتی ۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ ان کے لیئے اللہ تعالی نے فرمایا : اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ۔ اور یہ ارشاد فرمایا : بے شک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے تو اللہ نے جانا جو ان کے دلوں میں ہے تو ان پر اطمینان اتارا اور انھیں جلد آنیوالی فتح کا انعام دیا ‘ اور حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ہے جب حاکم اجتہاد کرے اور اس میں اصابت پر ہو تو اس کے لیئے دو اجر ہیں ، اور جو اجتہاد کرے اور اس میں خطا کرے ، تو اس کے لیئے اجر ہے ۔ جب ہمارے وقت میں حاکم کے لیئے اس کے اجتہاد پر دو اجر ہیں تو پھر ان کے اجتہاد پر تمہارا کیا گمان ہے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا : رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ ۔ (الانصاف فی ما یجب اعتقاده صفحہ نمبر 64،چشتی)
حضور سیدنا غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 561ھجری) فرماتے ہیں : اہل سنت صحابہ علیہم الرضوان کے آپس کے معاملات میں کف لسان ، ان کی خطاؤں کے بیان سے رکنے اور ان کے فضائل ومحاسن کا اظہار کرنے پر اور جو معاملہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرات طلحہ وعائشہ ومعاویہ رضی اللہ تعالی عنہم کے مابین اختلاف ہوا اس کو اللہ تعالی کے سپرد کرنے پر متفق ہیں جیسا کہ ہم ماقبل میں بیان کرچکے ہیں اور ان میں ہر فضل والے کو اس کا فضل دینے پر متفق ہیں ۔ (الغنية لطالبي طريق الحق عز وجل صفحہ نمبر 163)
مسلمانانِ اہلسنّت سے گزاراش ہے آپ کو پریشان ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ کی محبت آپ کی تعریف بیان کرنا ہی اہلسنت کا عقیدہ ہے ۔ یہی عقیدہ متکلمین ، فقہا اور صوفیہ کے اکابر آئمہ علیہم الرّحمہ کا رہا ہے ۔ اسی پر گامزن رہیں ۔
کفِ لسان کے فریب کا جواب : ⬇
کفِ لسان کا حکم صرف مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم میں ہے نہ کہ فضائل بیان کرنے میں نہیں ! اگر فضائل بیان کرنے میں کف لسان کا حکم ہوتا تو صحابہ کرام علیھم الرضوان سے لے کرآج تک کوئی بھی آپ کے فضائل بیان نہ کرتا ۔ جب کہ صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین ، فقہا و متکلمین ، مجددین ، صوفیہ و صالحین اور علمائے ربانیین علیہم الرّحمہ نے آپ کے فضائل بیان کیئے ۔ آپ کی شان میں مستقل کتابیں لکھیں گئیں ، اورکتب اسلامیہ میں ابواب باندھے گئے ۔
ادارہ منہاج القرآن کے مفتی عبد القیوم خان قادری صاحب لکھتے : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے جلیل القدر صحابی ، کاتب وحی اور اس امت کے ماموں ہیں ان کی شان میں کوئی مسلمان گستاخی نہیں کر سکتا ناصبی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں اور رافضی حضرت امیر معاویہ و دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کی شان میں گستاخی کرتے ہیں دونوں غلط ہیں ۔ (ماہنامہ منہاج القرآن جنوری 2013 ،چشتی)
وہ کون سا سُنی ہے جو حضرت سیدنا مولا علی کرّم اللہ وجھہ الکریم کے مقام رفیع سے آگاہ نہ ہو ، بات صرف اتنی ہے کہ بعض لوگ سنیوں کو مولا علی پاک علیہ السّلام کے نام پر بلیک میل کرنا چاہتے ہیں ، جیسے کہ بعض لوگ اپنے دھرنے میں امام حسین علیہ السّلام اور یزید ملعون کے نام پر لوگوں کو بلیک میل کرتے رہے ۔ ان کا مقصد صرف ذکر صحابہ رضی اللہ عنہم سے روکنا اور صحاح کی اس حدیث : لاتذکروا معاویۃ الا بخیر ” کی مخالفت کرنا ہے ؛ چاہے انہیں کرنا پڑے ۔ معترضین سے گزارش ہے کہ امام نبھانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب اسالیب البدیعہ پڑھیں ، تاکہ ان کا زاویہ نظر درست ہوسکے ، اور یہ جان سکیں کہ علمائے امت نے صرف تکفیر وتفسیق سے ہی منع نہیں کیا ، کچھ اور بھی کہا ہے ۔
جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب لکھتے ہیں : صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کے ذکر پر جس کی پیشانی پر بَل پڑ جائیں تو یہ بھٹکے ہو ئے لوگوں کی پہچان ہے جو راہ اعتدال چھوڑ چکے ہیں ۔ (فلسفہ شہادت صفحہ نمبر 263 ، ڈاکٹر محمد طاہر القادری شیخ الاسلام منہاج القرآن)
جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب مزید لکھتے ہیں کہ : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف کفر منسوب کرنے والا ان کو گالی دینے والا اشارہ یا کنایہ سےتو ایسا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔ (فلسفہ شہادت صفحہ نمبر 270)
جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب مزید لکھتے ہیں کہ : فرمان حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ہوشیار میرے حق میں دو گروہ ہلاک ہونگے ایک محبت میں میرا مرتبہ بڑھانے والے دوسرے بغض رکھنے والے ۔ (فلسفہ شہادت صفحہ نمبر 262 ، شیخ الاسلام منہاج القرآن ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب)
جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب مزید لکھتے ہیں کہ : ہمارا مطالبہ ہے گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم اور گستاخِ صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کو پھانسی دی جائے ایسے شیطان کو جینے کا حق نہیں ہے ۔ (فلسفہ شہادت صفحہ نمبر 271 ، شیخ الاسلام منہاج القرآن)
آج اہلسنّت و جماعت کا بھی یہی مطالبہ ہے کہ صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کی شان میں گستاخیاں کرنے والوں کو پھانسیاں دی جائیں ۔
امیرِ معاویہ ، مولا علی و اہلِ بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے : ہم اہلِ بیت کی محبت کو خود پر لازم کرلو ! جو اللہ پاک سے اس حال میں ملے کہ ہم سے محبت کرتا ہو تو وہ ہماری شفاعت كے صدقے جنّت میں چلا جائے گا ۔ (معجم اوسط ، 1 / 606 ، حدیث : 2230)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ک دورِ ظاہری سے لے کر آج تک اُمّتِ مسلمہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھرانے سے بے پناہ محبت کرتی آئی ہے ، ان عُشّاق میں ایک نمایاں نام کاتبِ وحی ، ہَادی و مَہدی (یعنی ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ) ، صاحبِ علم و حِلم (یعنی بُردبار) ، محبوبِ خدا و رسول ، رازدارِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، صحابی ابنِ صحابی ، خالُ المؤمنین ، ماہرِ اُمورِ سیاست ، پہلے سلطانِ اسلام ، عرب کے کِسریٰ حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کا بھی ہے ، کتبِ سیرت میں آپ کی اہلِ بیت سے محبت و تعظیم اور ان کی طرف رجوع لانےکے جابجا واقعات نظر آتے ہیں ۔ حیرت کی بات ہے بعض لوگ خود کو سنی ، اور محبِ مولا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں مگر فرامین حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نہیں مانتے یا جھٹلا دیتے ہیں آئیے ایک بار پھر فرامین حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے اپنے دلوں کو منور کرتے ہیں اور حضرات مولا علی المرتضیٰ و امیر معاویہ رضی ﷲ عنہما کا باہمی تعلق و محبت کے بارے میں جانتے ہیں ۔ دشمنان اسلام لوگوں کی پوری کوشش رہی ہے کہ حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کو معاذ اللہ ایک دوسرے کا دشمن ثابت کیا جائے ۔ کبھی وہ ان کی زبان سے ایک دوسرے پر لعنت کہلواتے ہیں ، کبھی ایک دوسرے کو برا بھلا کہلواتے ہیں اور ان کے اسلام میں شک کرواتے ہیں ۔ درحقیقت یہ ان کے اپنے جذبات ہیں جنہیں وہ زبردستی حضرت علی یا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کی زبان سے کہلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی تمام روایات کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان کی سند میں کوئی نہ کوئی جھوٹا راوی جیسے ابو مخنف ، ہشام کلبی ، سیف بن عمر یا واقدی ضرور موجود ہو گا ۔ یہاں ہم چند روایات اور کچھ نکات پیش کر رہے ہیں ، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان حضرات کی ایک دوسرے کے بارے میں کیا رائے تھی ؟ ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام اور اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کی محبت و ادب پر قائم رکھے آمین ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہُ عنہ سے فرمایا : اے معاویہ ! کیا تم علی سے محبت کرتے ہو ؟ حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہُ عنہ نے عرض کی : اس ذات کی قسم جس کے سِوا کوئی معبود نہیں ، میں حضرت علی رضی اللہُ عنہ سے بے پناہ محبت کرتا ہوں ۔ (تاریخ ابن عساکر ، 59 / 139،چشتی)(تفسیر در منثور جلد اول صفحہ 831 مترجم اردو مطبوعہ ضیا القرآن)
حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہُ عنہ خود بھی حضرت علی رضی اللہُ عنہ کے اوصاف و کمالات سناتے اور لوگوں کو بھی اس کا حکم دیتے ۔ حاضرینِ محفل سے مولا علی کے شایانِ شان اشعار سنانے کا کہتے اور اس کے بدلے خوب انعام و اکرام فرماتے ۔ ایک مرتبہ آپ رضی اللہُ عنہ کی بارگاہ میں حضرت مولا على رضی اللہ عنہ کا تذکرہ ہوا تو آپ نےفرماىا : خدا کى قسم ! جب حضرت على رضی اللہ عنہ کلام فرماتے تو آپ کی آواز میں شیر کی سی گرج ہوتی ، جب ظاہر ہوتے تو چاند کى طرح روشن ہوتے اور جب نوازتے تو بارش کى طرح بے انتہا عطا فرماتے ، بعض حاضرىن نے درىافت کىا کہ آپ افضل ہىں یا حضرت على ؟ فرماىا : حضرت على رضی اللہُ عنہ کے قدم بھى آلِ ابوسفىان سے بہتر ہىں ۔ (الناھیۃ صفحہ 59)
بعض اوقات کوئی پیچیدہ مقدمہ درپیش ہوتا تو حضرت علی رضی اللہُ عنہ کی بارگاہ میں رجوع کیا کرتے ۔ (مؤطا امام مالك جلد 2 صفحہ 259 حدیث نمبر 1481)
جب آپ رضی اللہُ عنہ کو امیرُالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر ملی تو نہایت افسردہ ہوئے ، رونے لگے اور فرمایا : لوگوں نے کس قدر فضل ، فِقْہ اور علم کھو دیا ہے ۔ (البدایۃ و النہایۃ جلد 5 صفحہ 634،چشتی)
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد آپ نے حضرت ضِرار رضی اللہُ عنہ سے حضرت علی کے اوصاف و کمالات بیان کرنے کا ارشاد فرمایا ، جب حضرت ضِرار نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اوصاف بیان کئے تو آپ کی آنکھیں بھر آئیں اور رِیش مبارک آنسوؤں سے تَر ہو گئی ، آپ آستین سے آنسو پونچھنے لگے ، حاضرین بھی اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکے اور رونے لگے ۔ (حلیۃ الاولیاء جلد 1 صفحہ 126)
سالہا سال تک مملکتِ اسلامیہ کے حاکم رہنے اور بحسن و خوبی اپنے فرائضِ منصبی ادا کرنے کے باوجود بھی یادِ الٰہی اور امورِ آخرت سے غافل نہ رہے ، اور اپنی شخصیت کو بہتر سے بہترین بنانے کے سفر میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھرانے کی طرف رجوع کیا چنانچہ ایک مرتبہ اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدتُنا عائشہ صِدّیقہ رضی اللہُ عنہا کو مکتوب روانہ کیا کہ مجھے وہ باتیں لکھ دیں جن میں میرے لیے نصیحت ہو ۔ (جامع ترمذی جلد 4 صفحہ 186 حدیث نمبر 2422،چشتی)
حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ جب بھی حسنینِ کریمین رضی اللہ عنہما میں سے کسی سے ملاقات کرتے تو مَرحَباً وَاَهلًا بِاِبْنِ رَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یعنی “ خوش آمدید اے رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے “ کہتے ہوئے ان کا استقبال کرتے اور ان حضرات کی بارگاہ میں نذرانے بھی پیش کرتے ۔ (الطبقات الکبیر لابن سعد جلد 6 صفحہ 409)(معجم الصحابۃللبغوی جلد 5 صفحہ 370)
جب امام حسن رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آتے تو آپ رضی اللہ عنہ انہیں اپنی جگہ بٹھاتے ، خود سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ، کسی نے پوچھا : آپ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ فرمایا کہ امام حسن ہم شکلِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں ، اس مشابہت کا احترام کرتا ہوں ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد 8 صفحہ 461)
آپ رضی اللہ عنہ لوگوں کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی علمی مجلس کی خوبیاں بیان کرتے چنانچہ ایک مرتبہ ایک قریشی شخص سے فرمایا : جب تم مسجدِ نبوی میں جاؤ گے تو وہاں ایک ایسی مجلس دیکھو گے جس میں لوگ ہمہ تَن گوش ہو کر یوں باادب بیٹھے ہوں گے کہ جیسے ان کے سَروں پر پرندے بیٹھے ہوں ، جان لینا یہی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی مجلس ہے ۔ نیز اس حلقے میں مذاق مسخری نام کی کوئی شے نہ ہو گی ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد 14 صفحہ 179)
حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ کو بیش قیمت نذرانے پیش کرنے کے باوجود آپ ان سے مَعْذِرَت کرتے اور کہتے : فی الحال آپ کی صحیح خدمت نہیں کر سکا آئندہ مزید نذرانہ پیش کروں گا ۔ (کشف المحجوب صفحہ 77)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہُ عنہ کی وفات 60 ہجری میں ایک قول کے مطابق 22رجبُ المرجب کو ملکِ شام کے مشہور شہر “ دِمشق “ میں ہوئی ۔ آپ کی نمازِ جنازہ حضرت ضَحّاک بن قَیس رضی اللہ عنہ نے پڑھائی جبکہ تدفین بابُ الصّغیر دِمشق شام میں ہوئی ۔ (الثقات لابن حبان جلد 1 صفحہ 232 ، 436)
حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا میرا حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے اختلاف صرف حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ کے قصاص کے مسئلہ میں ہے اور اگر وہ خون عثمان رضی ﷲ عنہ کا قصاص لے لیں تو اہل شام میں ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے والا سب سے پہلے میں ہوں گا ۔ (البدایہ و النہایہ ج 7‘ص 259)
حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ۔ میرے لشکر کے مقتول اور حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کے لشکر کے مقتول دونوں جنتی ہیں ۔ (مجمع الزوائد ‘ ج 9‘ ص 258،چشتی)
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ نے جنگ صفین سے واپسی پر فرمایا ۔ امارات معاویہ رضی ﷲعنہ کو بھی خزانہ سمجھو کیونکہ جس وقت وہ نہ ہوں گے تم سروں کو گردنوں سے اڑتا ہوا دیکھو گے ۔ ( شرح عقیدہ واسطیہ)
حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو جب شہادت حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کو خبر ملی تو سخت افسردہ ہوگئے اور رونے لگے ۔ (البدایہ ج 8 ص 130)
حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے حضرت المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کو صاحب فضل کہا ۔ (البدایہ‘ ج 8ص 131)
حضرت ابو امامہ رضی ﷲ عنہ سے سوال کیا گیا حضرت امیر معاویہ و عمر بن عبدالعزیز میں سے افضل کون ہے ؟ آپ نے فرمایا ہم اصحاب مسجد کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے ‘ افضل ہونا تو کجا ہے ۔ (الروضہ الندیہ‘ شرح العقیدہ الواسطیہ ص 406)
حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے ایک قتل کے مسئلہ پر حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ سے رجوع کیا ۔ ( موطا امام مالک)
حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے روم کے بادشاہ کو جوابی خط لکھا تو اس میں یہ لکھا حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ میرے ساتھی ہیں اگر تو ان کی طرف غلط نظر اٹھائے گا تو تیری حکومت کو گاجر مولی کی طرح اکھاڑ دوں گا ۔ (تاج العروس ص 221)
حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ’’اے نصرانی کتے اگر حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کا لشکر تیرے خلاف روانہ ہوا تو سب سے پہلے حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کے لشکر کا سپاہی بن کر تیری آنکھیں پھوڑ دینے والا معاویہ ہوگا ۔ (بحوالہ مکتوب امیر معاویہ البدایہ)
حضرت علی کے بھائی عقیل اس وقت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے قریبی ساتھی تھے اور دوسری طرف حضرت معاویہ کے بھائی زیاد بن ابی سفیان ، حضرت علی کے قریبی ساتھی تھے اور آپ نے انہیں ایران و خراسان کا گورنر مقرر کر رکھا تھا ۔ ایک بار عقیل ، معاویہ کے پاس بیٹھے تھے تو معاویہ نے جی کھول کر علی کی تعریف کی اور انہیں بہادری اور چستی میں شیر ، خوبصورتی میں موسم بہار ، جود و سخا میں دریائے فرات سے تشبیہ دی اور کہا : ’’اے ابو یزید (عقیل) ! میں علی بن ابی طالب کے بارے میں یہ کیسے نہ کہوں ۔ علی قریش کے سرداروں میں سے ایک ہیں اور وہ نیزہ ہیں جس پر قریش قائم ہیں ۔ علی میں بڑائی کی تمام علامات موجود ہیں ۔‘‘ عقیل نے یہ سن کر کہا : ’’امیر المومنین ! آپ نے فی الواقع صلہ رحمی کی ۔‘‘ ( ابن عساکر۔ 42/416،چشتی)
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگ صفین کے بعد جو خط شہروں میں بھیجا، اس میں فرمایا: ہمارے معاملہ کی ابتدا یوں ہوئی کہ ہم میں اور اہل شام میں مقابلہ ہوا۔ ظاہر ہے کہ ہمارا اور ان کا رب ایک ، ہمارا اور ان کا نبی ایک، ہماری اور ان کی اسلام کے متعلق دعوت ایک۔ اس معاملے میں نہ وہ ہم سے زیادہ تھے اور نہ ہم ان سے۔ صرف ایک معاملے میں ہم میں اختلاف ہوا اور وہ تھا خون عثمان کا جبکہ ہم اس سے بری تھے ۔ ( سید شریف رضی۔ نہج البلاغہ۔ خط نمبر 58)
ایک شخص نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے کوئی دینی سوال کیا ۔ آپ نے فرمایا : اس بارے میں علی بن ابی طالب سے پوچھ لیجیے ، وہ مجھ سے زیادہ بڑے عالم ہیں۔‘‘ اس نے کہا : ’’امیر المومنین! آپ کی رائے، میرے نزدیک علی کی رائے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’آپ نے تو بہت ہی بری بات کی اور آپ کی رائے بہت ہی قابل مذمت ہے۔ کیا آپ ان صاحب (علی) کی رائے کو ناپسند کر رہے ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم سے عزت بخشی ہے ؟ آپ نے انہیں فرمایا تھا : علی ! آپ میرے لیے وہی حیثیت رکھتے ہیں جو کہ موسیٰ کے نزدیک ہارون (علیہما الصلوۃ والسلام) کی تھی ۔ فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ (ابن عساکر۔ 42/170)
خوارج نے حضرت علی ، معاویہ اور عمرو رضی اللہ عنہم کو ایک ہی رات میں شہید کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے حملہ آور کو پکڑ لیا تو وہ کہنے لگا : “میرے پاس ایسی خبر ہے جسے سن کر آپ خوش ہو جائیں گے ۔ اگر میں آپ سے وہ بیان کر دوں تو آپ کو بہت نفع پہنچے گا ۔ ” آپ نے فرمایا : “بیان کرو ۔” کہنے لگا : “آج میرے بھائی نے علی کو قتل کر دیا ہو گا ۔” آپ نے فرمایا : “کاش ! تمہارا بھائی ان پر قابو نہ پا سکے ۔ ( طبری۔ 3/2-357)
جنگ صفین کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : “لوگو! آپ لوگ معاویہ رضی اللہ عنہ کی گورنری کو ناپسند مت کریں ۔ اگر آپ نے انہیں کھو دیا تو آپ دیکھو گے کہ سر اپنے شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گریں گے جیسے حنظل کا پھل اپنے درخت سے ٹوٹ ٹوٹ کر گرتا ہے ۔ ( ابن ابی شیبہ المصنف 14/38850)
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنِ الْحَارِثِ ، قَالَ : لَمَّا رَجَعَ عَلِيٌّ مِنْ صِفِّينَ عَلِمَ أَنَّهُ لَا يَمْلِكُ أَبَدًا , فَتَكَلَّمَ بِأَشْيَاءَ كَانَ لَا يَتَكَلَّمُ بِهَا , وَحَدَّثَ بِأَحَادِيثَ كَانَ لَا يَتَحَدَّثُ بِهَا , فَقَالَ : فِيمَا يَقُولُ : " أَيُّهَا النَّاسُ , لَا تَكْرَهُوا إِمَارَةَ مُعَاوِيَةَ , وَاللَّهِ لَوْ قَدْ فَقَدْتُمُوهُ ! لَقَدْ رَأَيْتُمُ الرُّءُوسَ تَنْزُو مِنْ كَوَاهِلِهَا كَالْحَنْظَلِ ! " ۔(مصنف ابن أبي شيبة » كِتَابُ الْجَمَلِ » بَابُ مَا ذُكِرَ فِي صِفِّينَ ... رقم الحديث: 37151،چشتی)
یزید بن اصم کہتے ہیں کہ جب علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان صلح ہو گئی تو علی اپنے مقتولین کی جانب نکلے اور فرمایا : ’’یہ لوگ جنت میں ہوں گے ۔‘‘ پھر معاویہ کے مقتولین کی طرف چلے اور فرمایا: ’’یہ لوگ بھی جنت میں ہوں گے۔ (روز قیامت) یہ معاملہ میرے اور معاویہ کے درمیان ہو گا۔ فیصلہ میرے حق میں دیا جائے گا اور معاویہ کو معاف کر دیا جائے گا ۔ مجھے میرے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح بتایا تھا ۔ ( ابن عساکر۔ 59/139)
ان واقعات کو پڑھنے کے بعد کوئی ذی شعور بے سند اور لا یعنی بات نہیں کر سکتا ایک اور بات امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما ہم سے زیادہ مولا علی رضی اللہ عنہ کے قریبی ہیں جب انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور ان سے سالانہ وظائف بهی قبول کرتے رہے تو ہمیں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر تنقید کا کوئی حق نہیں. کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے کسی کافر یا فاسق کے ہاتھ پر بیعت نہیں کر سکتے . اب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر تنقید درپردہ سرداران نوجوانان جنت رضی اللہ عنہما پر تنقید ہے ۔
حضرت امیر معاویہ حضرت علی رضی اللہ عنہما کے مقابلہ میں جنگ آزما ہونے کے بعد بھی ان کے تمام فضائل کے معترف تھے اورانہوں نے بارہا اوربرملا ان کا اعتراف کیا ، جنگ صفین کی تیاریوں کے وقت جب ابو مسلم خولانی ان کو سمجھانے کے لئے گئے اور کہا معاویہ میں نے سنا ہے کہ تم علی سے جنگ کا ارادہ رکھتے ہو، تم کو سبقت اسلام کا شرف حاصل نہیں ہے ، پھر کس برتے پر اٹھو گے تو انہوں نے صاف صاف اعتراف کیا کہ مجھے اس کا دعویٰ نہیں ہے کہ میں فضل میں ان کے مثل ہوں ، میں تو صرف قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو مانگتا ہوں ، اپنی وفات کے کچھ دنوں پہلے انہوں نے مجمع عام میں جو تقریر کی تھی، اس کے الفاظ یہ تھے کہ میرے بعد آنے والا مجھ سے بہتر نہیں ہوگا، جیسا کہ میں اپنے پیش رو سے بہتر نہیں ہوں ۔ (ابن الاثیر:۴/۲،مطبوعہ یورپ)
وہ نہ صرف حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ؛ بلکہ خاندانی بنی ہاشم کے شرف و فضیلت کے معترف تھے ، ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ بنی امیہ اشرف ہیں یا بنی ہاشم ، انہوں نے زمانہ جاہلیت کی پوری تاریخ دہرا کر دونوں کی فضیلت کا اعتراف کیا اورآخر میں کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کی بعثت کے بعد بنی ہاشم کی فضیلت کو کون پہنچ سکتا ہے ۔ (البدایہ والنہایہ:۸/۱۳۸)
حضرت مولاء علی مشکل کشاء رضی اللہ عنہ نے فرمایا : لوگو! معاویہ کی گورنری کو ناپسند نہ کرو۔ واللہ! اگر تم نے انہیں کھو دیا تو تم ضرور دیکھو گے کہ سر ، شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گر رہے ہوں گے جیسا کہ حنظل کا پھل اپنے پودے سے گرتا ہے ۔ (ابن ابی شیبہ۔ المصنف۔ کتاب الجمل، باب صفین۔ جلد 14)( 38850۔ ابن ابی الحدید۔ شرح نہج البلاغۃ۔ 12/40)
حضرت مولاء علی مشکل کشاء رضی اللہ عنہ نے فرمایا : زید بن اصم کہتے ہیں کہ جب علی اور معاویہ کے درمیان صلح ہو گئی تو علی (رضی اللہ عنہ) اپنے مقتولین کی جانب نکلے اور فرمایا : ’’یہ لوگ جنت میں ہوں گے ۔‘‘ پھر معاویہ (رضی اللہ عنہ) کے مقتولین کی طرف چلے اور فرمایا : ’’یہ لوگ بھی جنت میں ہوں گے۔ (روز قیامت) یہ معاملہ میرے اور معاویہ کے درمیان ہو گا۔ فیصلہ میرے حق میں دیا جائے گا اور معاویہ (رضی اللہ عنہ) کو معاف کر دیا جائے گا۔ مجھے میرے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح بتایا تھا ۔ ( ابن عساکر۔ 59/139،چشتی)
اہلِ تشیع کی مشہور کتاب نہج البلاغہ میں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا ایک مراسلہ (Circular) نقل کیا گیا ہے جو آپ نے جنگ صفین کے بارے میں شہروں میں بھیجا۔ اس میں لکھا ہے : حضرت علی علیہ السلام کا خط، جو آپ نے شہروں کی جانب لکھا، اس میں آپ نے اپنے اور اہل صفین کے درمیان ہونے والے واقعے کو بیان فرمایا : ہمارے معاملہ کی ابتدا یوں ہوئی کہ ہم اہل شام کے ساتھ ایک میدان میں اکٹھے ہوئے ۔ ظاہر ہے کہ ہمارا اور ان کا رب ایک ، ہمارا اور ان کا نبی ایک، ہماری اور ان کی اسلام کے متعلق دعوت ایک۔ اللہ پر ایمان اور اس کے رسول کی تصدیق کے معاملے میں نہ ہم ان سے بڑھ کر تھے اور نہ وہ ہم سے بڑھ کر ۔ صرف ایک معاملے میں ہم میں اختلاف ہوا اور وہ تھا خون عثمان کا جبکہ ہم اس سے بری تھے۔ ہم نے اس کا حل یہ پیش کیا کہ جو مقصد آج نہیں حاصل ہو سکتا ہے ، اس کا وقتی علاج یہ کیا جائے کہ آتش جنگ کو خاموش کر دیا جائے اور لوگوں کو جذبات کو پرسکون ہو لینے دیا جائے ۔ اس کے بعد جب حکومت کو استحکام حاصل ہو جائے گا اور حالات سازگار ہو جائیں گے تو ہم اتنے طاقتور ہو جائیں گے کہ حق (یعنی قصاص) کو اس کے مقام پر رکھ لیں ۔ لیکن انہوں نے کہا کہ اس کا علاج صرف جنگ ہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنگ نے اپنے پاؤں پھیلا دیے اور جم کر کھڑی ہو گئی۔ شعلے بھڑک اٹھے اور مستقل ہو گئے۔ سب نے دیکھا کہ جنگ نے دونوں فریقوں کو دانت سے کاٹنا شروع کر دیا ہے اور فریقین میں اپنے پنجے گاڑ دیے ہیں تو وہ میری بات ماننے پر آمادہ ہو گئے اور میں نے بھی ان کی بات کو مان لیا اور تیزی سے بڑھ کر ان کے مطالبہ صلح کو قبول کر لیا ۔ یہاں تک کہ ان پر حجت واضح ہو گئی اور ہر طرح کا عذر ختم ہو گیا ۔ اب اس کے بعد کوئی اس حق پر قائم رہ گیا تو گویا اپنے آپ کو ہلاکت سے نکال لے گا ورنہ اسی گمراہی میں پڑا رہ گیا تو ایسا عہد شکن ہو گا جس کے دل پر اللہ نے مہر لگا دی ہے۔ گردش ایام اسی کے سر پر منڈلا رہی ہو گی ۔ (سید شریف رضی نہج البلاغہ خط نمبر 58،چشتی)
یہ تحریر وہ خط ہے جو نہج البلاغہ کے مولف شریف رضی کے مطابق مختلف شہروں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حکم سے بھیجا گیا تاکہ اس جنگ سے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نقطہ نظر کو واضح کیا جا سکے ۔ انڈر لائن الفاظ سے واضح ہے کہ آپ ، اہل شام کو عین مسلمان سمجھتے تھے اور ہر حال میں صلح چاہتے تھے ۔ اس سے ابو مخنف کی ان روایات کی بھی تردید ہو جاتی ہے جن کے مطابق حضرت علی جنگ جاری رکھنا چاہتے تھے اور اپنے ساتھیوں کے مجبور کر دینے پر وہ بادل نخواستہ جنگ بندی کے لیئے تیار ہوئے تھے ۔
فرمان مولا علی رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ ہمارے بھائی ہیں
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہمارے بھائی ہیں ان سے خطاء اجتہادی ہوئی ہم سب ساتھ ہونگے ۔ (ازالۃُ الخفاء جلد 4 صفحہ 522)
اے خود کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا محب کہنے والو اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنے والو حضرت علی رضی اللہ عنہ انہیں اپنا بھائی فرما رہے ہیں کیسے بد بخت ہو تم جنہیں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اپنا بھائی کہیں تم انہیں کی شان میں گستاخیاں کرتے ہو ان سے بغض رکھتے ہو ارے نہیں نہیں بلکہ تم لوگ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو جھٹلاتے اور انہیں کی توہین کرتے ہو کچھ سوچو کیا تم لوگ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے بڑے عالم و محقق ہو ؟ اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت اور عقل سلیم عطاء فرمائے آمین ۔
فضائل و مناقب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 17
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ چار سال نو ماہ تک منصب خلافت پر فائز رہے ۔ 17 یا 19 رمضان المبارک 40 ہجری 660 عیسوی کو جب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ فجر کی نماز کوفہ کی مسجد میں پڑھا رہے تھے تو ایک خارجی عبدالرحمن ابن ملجم ملعون آپ پر زہر آلود خنجر سے حملہ آور ہوا ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو کئی زخم آئے جس کے نتیجے میں 19 یا 21 رمضان المبارک کو جامِ شہادت نوش فرمایا ۔ صحیح روایت کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ پر کوفہ کی جامع مسجد میں چالیس ہجری سترہ رمضان بروز جمعۃ المبارک نماز فجر کے وقت عبد الرحمن ابن ملجم نے قاتلانہ حملہ کیا ۔ جس کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ انیس رمضان المبارک کو شہید ہو گئے ۔ کفن دفن حضرت امامِ حسن ، حضرت امامِ حسین ، حنیفہ اور عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم نے کیا اور باقی لوگ بھی ساتھ تھے ۔ جنازہ حضرت امامِ حسن بن علی بن ابی طالب نے پڑھایا اور آپ رضی اللہ عنہ کو گورنر ہاؤس کے پاس کوفہ میں ہی دفن کیا گیا لیکن آپ رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک کو خفیہ رکھا گیا کیونکہ خارجیوں کے بے حرمتی کرنے کا ڈر تھا ۔ (البدایۃ والنھایۃ جلد 7 صفحہ 330 ، 331 مکتبۃ المعارف بیروت)
دوسری روایت کے مطابق : خوارج نے حضرت امیر معاویہ بن ابو سفیان صحضرت عبداللہ بن زبیر اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم کے قتل کا منصوبہ بنایا اور ایک ہی دن مقرر کیا ، منصوبہ سازوں نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے قتل کا ذمہ عبد الرحمن ابن ملجم پر ڈالا ، اس بد بخت نے رمضان المبارک کے مہینے میں 21 رمضان المبارک صبح فجر کے وقت امیر المؤمنین اسد الغالب ، حیدر کرار سلسلہ تصوف کے امام ، دامادِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو کوفہ کی مسجد میں نماز کےلیے جاتے ہوئے شہید کر دیا اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اپنے ان (حضرت عمر اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہما)دو پیش روؤں کی طرح اسلام کے خلیفہ چہارم بھی جام شہادت نوش کر کے سرفرازی کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو گئے ۔ (البدایہ والنہایہ :۷/۳۲۶)(مجمع الزوائد:۹/۱۳۹،چشتی)(طبقات ابن سعد :۳/۲۳)
خوارج میں سے ایک نامراد عبدالرحمن بن ملجم مرادی تھا ۔ اس نے برک بن عبد اللہ تمیمی خار جی اور عمر وبن بکیر تمیمی خارجی کو مکہ مکرمہ میں جمع کرکے حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ اور حضرت معاویہ بن ابی سفیان اور حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم کے قتل کا معاہدہ کیا اور حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے قتل کے لئے ابن ملجم آمادہ ہوا اور ایک تاریخ معین کرلی گئی ۔ مستدرک میں سُدی سے منقول ہے کہ عبدالرحمن بن ملجم ایک خارجی عورت قطام نامی پر عاشق تھا۔ اس ناشاد کی شادی کا مہرتین ہزار درہم اورحضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ کو قتل کرنا قرار پایا ۔ چنانچہ فرزدق شاعر نے کہا : ⬇
فَلَمْ اَرَ مَھْرًا سَاقَہٗ ذُوْ سَمَاحَۃٍ
کَمَھْرِ قِطَامِ بَیْنَا غَیْرِ مُعْجَمٖ
ثَلَاثَۃُ اٰلَافٍ وَّ عَبْدٌ وَّ قِیْنِۃٌ
وَ ضَرْبُ عَلِیٍّ بِالْحُسَامِ الْمُصَمَّمٖ
فَلَا مَھْرَ اَعْلٰی مِنْ عَلِیٍّ وَّاِنْ عَلَا
وَلَافِتْکَ اِلَّا دُوْنَ فِتْکِ ابْنِ مُلْجَمٖ
اب ابن ملجم کوفہ پہنچا اور وہاں کے خوارج سے ملا اور انہیں درپردہ اپنے ناپاک ارادہ کی اطلاع دی ، خوارج اس کے ساتھ متفق ہوئے ۔ شب جمعہ 17رمضان المبارک 40ھ کو امیر المومنین حضرت مولیٰ علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سحر کے وقت بیدار ہوئے، اس رمضان میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کایہ دستو ر تھا کہ ایک شب حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس، ایک شب حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس، ایک شب حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس افطار فرماتے اور تین لقموں سے زیادہ تناول نہ فرماتے تھے کہ مجھے یہ اچھا معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ سے ملنے کے وقت میرا پیٹ خالی ہو ۔ آج کی شب تو یہ حالت رہی کہ باربار مکان سے باہر تشریف لائے اور آسمان کی طرف نظر فرماتے اور فرماتے کہ بخدا !مجھے کوئی خبر جھوٹی نہیں دی گئی یہ وہی رات ہے جس کا وعدہ دیا گیا ہے ۔ صبح کو جب بیدار ہوئے تو اپنے فرزند ارجمند امیر المومنین امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:آج شب میں نے حبیب اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی اور عرض کیا :یارسول اللہ!عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت سے آرام نہ پایا۔فرمایا : انہیں بد دعا کرو ۔ میں نے دعا کی کہ یارب ! عزوجل مجھے ان کے عوض ان سے بہتر عطا فرما اور انہیں میری جگہ ان کے حق میں برا دے ۔ (تاریخ الخلفاء، علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنہ فصل فی مبایعۃ علی رضی اللہ عنہ الخ ، صفحہ ۱۳۸،چشتی)(الصواعق المحرقۃ الباب التاسع الفصل الخامس صفحہ ۱۳۳۔۱۳۵)
حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم 17رمضان المبارک سن 40 ہجری کو جب بیدار ہوتے ہیں تو اپنے شہزادہ گرامی سیدالاصفاء راکب دوش مصطفی جناب حضرت حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کو اپنا خواب سناتے ہیں ۔ آج رات سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میں نے عرض کیا ہے کہ لوگوں کے نامناسب رویے سے سخت نزع کی صورت پیدا ہو چکی ہے ۔ جناب رسالت ماب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ علی (رضی اللہ عنہ) تم اللہ عزوجل سے دعا کرو، لہٰذا میں نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا مانگی۔ اے اللہ! مجھے ان سے بہتر لوگوں میں پہنچا دے۔ اس طرح گفتگو ہو رہی تھی کہ کوفہ کی جامع مسجد کے موذن نے صدائے مدینہ لگاتے ہوئے صلوٰۃ صلوٰۃ کی آواز لگائی تو مولیٰ مشکل کشاء علی المرتضیٰ شیر خدا وجہہ الکریم جانب مسجد روانہ ہوئے‘ اتنے میں سامنے سے ابن منجم آ گیا‘ اس نے اچانک آپ پر تلوار سے بھرپور وار کیا۔ آپ کا سراقدس پیشانی سے کن پٹی تک کٹ گیا اور تلوار دماغ تک جا پہنچی۔ لوگ جمع ہوگئے اور قاتل کو پکڑ لیا گیا، زخم اگرچہ بہت گہرا تھا، مگر آپ مزید دو تین دن دنیا میں تشریف فرما رہے۔ اکیسویں شب آپ کی شہادت عمل میں آئی۔ ابن منجم کو لوگوں نے پکڑ لیا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اسے آگ میں جلا دیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کوفہ کی جامع مسجد کے اندر آپ پر حملہ ہوا تھا لیکن تاریخ الخلفاء میں طبقات ابن سعاد کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ حملہ نماز میں لوگوں کو جگاتے ہوئے ہوا تھا۔ ان دنوں حالات ناگفتہ بہ تھے، سخت نزع اور اختلافات اور خوارج نے جو بغاوت مچا رکھی تھی لیکن ان نامساعد حالات میں بھی مولی مشکل کشاء کرم اللہ وجہہ الکریم فجر کی نماز میں جگانے کےلیے تشریف لے گئے ۔
قربان جائیں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی غیب دانی پر، علامہ جلال الدین سیوطی شافعی رحمة اللہ علیہ مسند امام احمد اور حاکم سے اس صحیح سند کے ساتھ حضرت سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، علی (کرم اللہ وجہہ الکریم) دو قسم کے لوگ انتہائی بدبخت ہیں، ایک تو آل ثمود ہیں جنہوں نے اللہ کے پیغمبر حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں، دوسرے وہ جو تمہاری سر پر تلوار مار کو تمہاری داڑھی کو خون آلود کر دے گا۔ تو میرے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مولا مشکل کشاء کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ تمہارے سر پر تلوار ماری جائیگی اور تمہاری داڑھی خون سے رنگین ہو جائیگی اور وہی ہوا ۔ آپ کی شہادت کیوں عمل میں آئی، ابن منجم جو آپ کا قاتل تھا، وہ ایک عورت پر عاشق تھا، وہ عورت خوارج سے تعلق رکھتی تھی، اسکا نام حسطام تھا، اس نے اپنے عاشق سے کہا کہ میرا مہر سن لو، اگر وہ لا سکتے ہو تو میں شادی کروں گی۔ کہا تین ہزار درہم اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا سر۔ امام غزالی فرماتے ہیں کہ شہوت بادشاہوں کو غلام بنا دیتی ہے ، واقعی شہوت آدمی کو اندھا کر دیتی ہے، عورت کے عشق میں گرفتار ہو کر، اس نے اتنا گھناؤنا فعل کیا ۔ قتل کی واردات اور ایسے عظیم الشان انسان کو قتل کیا کہ اس وقت روئے زمین پر صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سے کوئی بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے افضل زندہ نہیں تھا ، ان کو اس ظالم نے ایک عورت کے عشق میں گرفتار ہو کر شہید کر دیا ، اپنے انجام کو بھی نہیں سوچا ۔ مٶرخین اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت خوارج کے ہاتھوں ہوئی ۔ یہ وہی گروہ ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں میں شامل تھا ۔ بعد میں اس پارٹی میں اختلافات پیدا ہو گئے اور خوارج نے اپنی جماعت الگ بنا لی۔ باغی پارٹی کے بقیہ ارکان بدستور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گرد و پیش میں موجود رہے تاہم ان کی طاقت اب کمزور پڑ چکی تھی ۔ تین خارجی ، ابن ملجم ، برک بن عبداللہ ، عمرو بن بکر تیمی ۔ یہ تینوں اکٹھے ہوئے اور انہوں نے منصوبہ بنایا حضرت علی ، معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم کو ایک ہی رات میں قتل کر دیا جائے ۔ انہوں نے اپنی طرف سے اپنی جانوں کو اللہ تعالی کے ہاتھ فروخت کیا، خود کش حملے کا ارادہ کیا اور تلواریں زہر میں بجھا لیں۔ ابن ملجم کوفہ آ کر دیگر خوارج سے ملا جو خاموشی سے مسلمانوں کے اندر رہ رہے تھے۔ اس کی ملاقات ایک حسین عورت قطامہ سے ہوئی ، جس کے باپ اور بھائی جنگ نہروان میں مارے گئے تھے ۔ ابن ملجم ا س کے حسن پر فریفتہ ہو گیا اور اسے نکاح کا پیغام بھیجا ۔ قطامہ نے نکاح کی شرط یہ رکھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا جائے۔ ایک خارجی شبیب نے ابن ملجم کو روکا بھی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اسلام کےلیے خدمات کا حوالہ بھی دیا لیکن ابن ملجم نے اسے قائل کر لیا ۔ اس نے نہایت ہی سادہ منصوبہ بنایا اور صبح تاریکی میں چھپ کر بیٹھ گیا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب فجر کی نماز کےلیے مسجد کی طرف آ رہے تھے تو اس نے آپ پر حملہ کر کے آپ کو شدید زخمی کر دیا ۔ اس کے بقیہ دو ساتھی جو حضرت معاویہ اور عمرو رضی اللہ عنہما کو شہید کرنے روانہ ہوئے تھے ، ناکام رہے ، برک بن عبداللہ ، جو حضرت معاویہ کو شہید کرنے گیا تھا ، انہیں زخمی کرنے میں کامیاب ہو گیا لیکن انہوں نے اسے پکڑ لیا ۔ حضرت عمرو اس دن بیمار تھے ، اس وجہ سے انہوں نے فجر کی نماز پڑھانے کےلیے خارجہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا تھا ۔ خارجی عمرو بن بکر نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے دھوکے میں خارجہ رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا ۔ اس کے بعد وہ گرفتار ہوا اور مارا گیا ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وفات سے پہلے کچھ وقت مل گیا جسے آپ نے اپنے بیٹوں کو وصیت کرنے میں صرف کیا ۔ جانکنی کے اس عالم میں بھی آپ نے جوباتیں ارشاد فرمائیں ، وہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہیں ۔ یہاں فقیر تارخ طبری سے چند اقتباسات پیش کر رہا ہے : ⬇
آپ نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو بلوایا اور ان سے فرمایا : میں تم دونوں کو اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ دنیا کے پیچھے ہرگز نہ لگنا خواہ دنیا تم سے بغاوت ہی کیوں نہ کر دے۔ جو چیز تمہیں نہ ملے، اس پر رونا نہیں۔ ہمیشہ حق بات کہنا، یتیموں سے شفقت کرنا، پریشان کی مدد کرنا، آخرت کی تیاری میں مصروف رہنا، ہمیشہ ظالم کے دشمن اور مظلوم کے حامی رہنا اور کتاب اللہ کے احکامات پر عمل کرتے رہنا۔ اللہ کے دین کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے مت گھبرانا۔
(تیسرے بیٹے) محمد بن حنفیہ سے فرمایا : میں نے تمہارے بھائیوں کو جو نصیحت کی، تم نے بھی سن کر محفوظ کر لی ؟
میں تمہیں بھی وہی نصیحت کرتا ہوں جو تمہارے بھائیوں کو کی ہے۔ اس کے علاوہ یہ وصیت کرتا ہوں کہ اپنے بھائیوں (حسن و حسین) کی عزت و توقیر کرنا اور ان دونوں کے اس اہم حق کو ملحوظ رکھنا جو تمہارے ذمہ ہے۔ ان کی بات ماننا اور ان کے حکم کے بغیر کوئی کام نہ کرنا ۔
پھر حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے فرمایا : میں تم دونوں کو بھی محمد کے ساتھ اچھے سلوک کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ تمہارا بھائی اور تمہارے باپ کا بیٹا ہے ۔ تم یہ بھی جانتے ہو کہ تمہارا باپ اس سے محبت کرتا ہے ۔ پھر خاص طور پر امام حسن رضی اللہ عنہ سے فرمایا : میرے بیٹے ! تمہارے لیے میری وصیت یہ ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہنا ، نماز وقت پر ادا کرنا، زکوۃ کو اس کے مصرف میں خرچ کرنا، وضو کو اچھی طرح کرنا کہ بغیر وضو کے نماز نہیں ہوتی او ر زکوۃ نہ دینے والے کی نماز بھی قبول نہیں ہوتی۔ ہر وقت گناہوں کی مغفرت طلب کرنا، غصہ پینا، صلہ رحمی کرنا، جاہلوں سے بردباری سے کام لینا، دین میں تفقہ حاصل کرنا، ہر کام میں ثابت قدمی دکھانا، قرآن پر لازمی عمل کرتے رہنا، پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرنا، نیکی کی تلقین اور برائیوں سے اجتناب کی دعوت دیتے رہنا اور خود بھی برائیوں سے بچتے رہنا ۔ جب وفات کا وقت آیا تو پھر یہ (قرآنی آیات پر مشتمل) وصیت فرمائی : ⬇
بسم اللہ الرحمن الرحیم : یہ وہ وصیت ہے جو علی بن ابی طالب نے کی ہے۔ وہ اس بات کی وصیت کرتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، جنہیں اللہ تعالی نے ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب فرما دیں، خواہ یہ بات مشرکین کو ناگوار گزرے۔ یقیناً میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں فرمانبردار لوگوں میں سے ہوں ۔ حسن بیٹا ! میں تمہیں اور اپنی تمام اولاد اور اپنے تمام گھر والوں کو اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں جو تمہارا رب ہے۔ اس بات کی وصیت کرتا ہوں کہ صرف اسلام ہی کی حالت میں جان دینا۔ تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ میں نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ایک دوسرے باہمی تعلق رکھنا اور اصلاح کرتے رہنا نفل نمازوں اور روزوں سے بہتر ہے۔ اپنے رشتے داروں سے اچھا سلوک کرنا، اس سے اللہ تم پر حساب نرم فرما دے گا۔ یتیموں کے معاملے میں اللہ سے ڈرنا، ان پر یہ نوبت نہ آنے دینا کہ وہ اپنی زبان سے تم سے مانگیں اور نہ ہی تمہاری موجودگی میں پریشانی میں مبتلا ہوں۔ اللہ سے ڈرتے رہنا اور اللہ سے پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں بھی ڈرنا کیونکہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت ہے ۔ (تاریخ طبری جلد 3/2 صفحہ 355)
اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اور بھی بہت سی نصیحتیں فرمائیں جن میں خاص کر نماز، زکوۃ، جہاد، امر بالمعروف کی نصیحت تھی۔ معاشرے کے کمزور طبقات یعنی غرباء و مساکین اور غلاموں کے بارے میں خاص وصیت فرمائی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں فرمایا : تمہارے موجود ہوتے ہوئے کسی پر ظلم نہ کیا جائے۔ اپنے نبی کے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ ۔۔۔پشت دکھانے، رشتوں کو توڑنے اور تفرقہ سے بچتے رہنا۔ نیکی اور تقوی کے معاملے میں ایک دوسرے کی مدد کرنا اور نافرمانی اور سرکشی میں کسی کی مدد نہ کرنا۔ اللہ سے ڈرتے رہنا کیونکہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔ اللہ تعالی تمہاری ، تمہارے اہل خاندان کی حفاظت کرے جیسے اس نے تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت فرمائی تھی۔ میں تمہیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں اور تم پر سلام اور اللہ کی رحمت بھیجتا ہوں ۔ (تاریخ طبری جلد 3/2 صفحہ 356)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وصیتیں ایسی ہیں کہ پڑھنے والے کا دل بھر آتا ہے ۔ ان وصیتوں پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں آپ کی رائے کیا تھی؟ آپ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو خاص کر اس بات کی تلقین فرمائی کہ صحابہ کرام کو ساتھ ملایا جائے، ان سے تفرقہ نہ پیدا کیا جائے اور انہی کے ساتھ رہا جائے خواہ اس کے لیے انہیں کسی بھی قسم کی قربانی دینا پڑے۔ چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ حضرت حسن نے یہی کیا اور قربانی کی ایک ایسی تاریخ رقم کی، جس پر ملت اسلامیہ قیامت تک فخر کرتی رہے گی ۔
اپنے قاتل کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کیا وصیت فرمائی، اسے بھی پڑھتے چلیے : بنو عبدالمطلب! کہیں تم میری وجہ سے مسلمانوں کے خون نہ بہا دینا، اور یہ کہتے نہ پھرنا کہ امیر المومنین قتل کیے گئے ہیں (تو ہم ان کا انتقام لے رہے ہیں۔) سوائے میرے قاتل کے کسی کو قتل نہ کرنا۔
حسن! اگر میں اس کے وار سے مر جاؤں تو قاتل کو بھی ایک ہی وار میں ختم کرنا کیونکہ ایک وار کے بدلے میں ایک وار ہی ہونا چاہیے۔ اس کی لاش کو بگاڑنا نہیں کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ تم لوگ مثلہ سے بچو خواہ وہ باؤلے کتے ہی کا کیوں نہ ہو ۔ (تاریخ طبری ۔ 3/2-356)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے ابن ملجم کو طلب کیا تو اس نے آپ کو ایک آفر کی : کیا آپ مجھے ایک اچھا کام کرنے دیں گے؟ وہ یہ ہے کہ میں نے اللہ سے عہد کیا تھا اور میں اسے ضرور پورا کرنا چاہتا ہوں۔ وہ عہد میں نے حطیم (خانہ کعبہ) کے قریب کیا تھا کہ میں علی اور معاویہ دونوں ہی کو ضرور قتل کروں گا یا خود اس کوشش میں مارا جاؤں گا۔ اگر آپ چاہیں تو مجھے چھوڑ دیں تاکہ میں معاویہ کو قتل کر دوں۔ میں آپ سے اللہ کے نام پر وعدہ کرتا ہوں کہ اگر میں انہیں قتل نہ کر سکا یا قتل کر کے زندہ بچ گیا تو آپ کے پاس آ کر آپ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دوں گا۔”حضرت حسن نے فرمایا: “میں اس کام کے لیے تمہیں ہرگز نہ چھوڑوں گا کہ تم آگ کو اور بھڑکاؤ ۔ (تاریخ طبری ۔ 3/2-356)
اس کے بعد آپ نے اسے قتل کر دیا۔ پھر لوگ اس کی لاش کو چمٹ گئے اور اس کی بوٹیاں کر کے آگ میں ڈال دیں۔افسوس کہ اس معاملے میں وہ اتنے جذباتی تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وصیت پر عمل نہ کر سکے ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور باغیوں کی حالت کیا تھی ؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہاد ت کے وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تین حصوں میں تقسیم تھے : ⬇
1 ۔ ایک مختصر گروہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، لیکن معاملات پر بڑی حد تک باغی چھائے ہوئے تھے ۔ مخلصین میں حضرت ابن عباس ، حسن ، حسین ، ابو ایوب انصاری ، زیاد بن ابی سفیان اور قیس بن سعد رضی اللہ عنہم نمایاں تھے ۔
2 ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بڑا گروہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا جن میں حضرت علی کے بڑے بھائی عقیل رضی اللہ عنہما بھی شامل تھے ۔
3 ۔ تیسرا گروہ غیر جانبدار تھا ۔ یہ مسلمانوں کے خلاف کسی کاروائی میں شریک نہ ہونا چاہتے تھے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گرد موجود باغیوں کو پسند نہ کرتے تھے ۔ ان میں حضرت سعد بن ابی وقاص اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم جیسے لوگ شامل تھے ۔
دوسری طرف باغیوں کی قوت اب بڑی حد تک کمزور پڑ چکی تھی کیونکہ خوارج کی صورت میں ان کا ایک حصہ الگ ہو چکا تھا اور بقیہ باغیوں کے بڑے بڑے لیڈر جنگ جمل ، صفین اور جنگ مصر میں مارے جا چکے تھے ۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ صحابہ کرام کے تینوں گروپوں کو اکٹھا کر کے ان باغیوں پر ایک فیصلہ کن ضرب لگائی جاتی ، جس سے ان کا زور ٹوٹ جاتا ۔
اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کچھ عرصہ مزید رہتے تو یہ کام کر گزرتے لیکن اللہ تعالی نے یہ سعادت آپ کے بیٹے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کےلیے لکھ رکھی تھی جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ پیش گوئی فرما چکے تھے : میرا یہ بیٹا سردار ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالی اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کروائے ۔ (صحیح بخاری کتاب الفتن حدیث نمبر 2704)
آپ رضی اللہ عنہ نے چھ ماہ کے اندر اندر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے اتحاد کر کے اپنے نانا اور والد کے مشن کو پورا کر دیا ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تاثرات کیا : ⬇
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت پر عالمِ اسلام میں کہرام مچ گیا اور سب ہی صحابہ رضی اللہ عنہم نے نہایت دکھ کا اظہار کیا ۔ یہاں فقیر چشتی خاص طور پر ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے تاثرات پیش کر رہا ہے ، جن پر دشمنانِ اسلام نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت کا الزام عائد کیا ہے : ⬇
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر خود ان پر حملہ آور ہونے والے خارجیوں نے دی ۔ ایک خوارجی کہنے لگا : میرے پاس ایسی خبر ہے جس کے سننے سے آپ خوش ہو جائیں گے اور اگر میں آپ سے وہ خبر بیان کروں گا تو آپ کو بہت فائدہ پہنچے گا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بیان کرو ۔ وہ بولا : آج میرے بھائی نے علی کو قتل کر دیا ہو گا ۔ آپ نے فرمایا : کاش ! تمہارے بھائی کو ان پر قدرت نہ نصیب ہو ۔ (تاریخ طبری۔40H/3/2-357،چشتی)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے جو مسائل پیش ہوتے تھے ، وہ ان کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خط لکھ کر ان کی رائے مانگا کرتے تھے ۔ جب ان کے پاس ان کی شہادت کی اطلاع پہنچی تو فرمایا : فقہ اور علم ، ابن ابی طالب کی شہادت کے ساتھ چلا گیا ۔ (ابن عبدالبر۔ الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب۔ 2/52)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو جب حضرت علی رضی اللہ عنہما کی شہادت کی خبر ملی تو رونے لگے ۔ ان کی اہلیہ نے ان سے کہا : آپ اب ان کے متعلق رو رہے ہیں جبکہ زندگی میں ان سے جنگ کر چکے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : افسوس! تمہیں علم نہیں کہ آج کتنے لوگ علم و فضل اور دین کی سمجھ سے محروم ہو گئے ہیں ۔ (ابن کثیر(701-774ھ/ع1302-1373)۔(البدایہ و النہایہ۔ 11ج/ص129)(تحقیق: الدکتور عبداللہ بن محسن الترکی) قاہرہ: دار ہجر)
ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بڑے اصرار کے ساتھ ضرار صدائی سے کہا : میرے سامنے علی کے اوصاف بیان کرو ۔ انہوں نے نہایت بلیغ الفاظ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی غیر معمولی تعریفیں کیں ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سنتے رہے اور آخر میں رو پڑے ۔ پھر فرمایا : اللہ ابو الحسن (علی) پر رحم فرمائے، واللہ وہ ایسے ہی تھے ۔ (ابن عبد البر 463/107 ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب۔ 2/53۔ باب علی)
حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر ایک لڑکے نے دی تو آپ نے ایک شعر پڑھا : وہ دور تھے ، ان کی شہادت کی خبر ایک لڑکا لے کر آیا ۔ افسوس ! کہ اس کے منہ میں کسی نے مٹی نہ بھر دی ۔ (تاریخ طبری۔ 3/2-258)
حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علم و فضل کی قائل تھیں اور متعدد موقعوں پر آپ سے کوئی مسئلہ پوچھا گیا تو انہوں نے اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف ریفر کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں علی بہتر جانتے ہیں ۔ (صحیح مسلم۔ کتاب الصلوۃ حدیث نمبر 276)
حضرت مولا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے مزار پرانور کے بارے میں مورخین کے مختلف اقوال ہیں ۔ ایک قول کے مطابق خارجیوں کی طرف سے قبر مبارک کی بے حرمتی کے خدشے کے پیش نظر آپ کی قبر کو ظاہر نہیں کیا گیا، چھپ کر آپ کو دفن کیا گیا تھا ۔ ایک قول یہ ہے کہ مولی مشکل کشاء علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے جسم مبارک کو آپ کے شہزادہ گرامی سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ نے کوفے سے مدینہ منورہ منتقل کر دیا تھا ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ مدینہ منورہ لے جانے کےلیے آپ کے جسم اقدس کو اونٹ پر سوار کیا گیا اور اس کو لے جانے لگے تو رات کے وقت وہ اونٹ مبارک لاش لے کر غیب ہو گیا ، پھر کچھ بھی معلوم نہ ہوا کہ وہ کہاں گیا ۔ اہل عراق کا عقیدہ ہے کہ آپ بادلوں میں پوشیدہ ہیں ۔ یہ بھی قول ملتا ہے کہ تلاشِ بسیار کے بعد اونٹ سرزمین بنو طے میں مل گیا ، آپ رضی اللہ عنہ کے جسمِ اطہر کو وہیں دفن کیا گیا ، یعنی وہی مزار ہے ، کوفے میں بھی عالیشان مزار ہے ۔ (تاریخ الخلفا و ازالة الخفا) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment