ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام : اسلامی سال کے بارہ مہینے اپنے اندر کوئی نہ کوئی تاریخی اہمیت ضرور رکھتے ہیں ۔ اسی طرح ان بارہ مہینوں پر مشتمل سال کی بھی ایک اہمیت ہے ۔ قرآن کریم نے بارہ ماہ کے سال کی اہمیت بتاتے ہوئے کہا ہے : یعنی یقینا (ایک سال کے) مہینوں کی تعداد بارہ‘ اللہ کی کتاب (لوح محفوظ) میں ہے (اور یہ اس وقت سے مقرر ہے) جب اللہ نے آسمان و زمین کو بنایا ۔ ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ۔ (القرآن‘ سورۃ التوبہ‘آیت 36)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سال کے بارہ مہینوں میں سے چار (ذوالقعدہ‘ ذوالحجہ‘ محرم اور رجب) کی حرمت و عظمت بیان کرتے ہوئے حجتہ الوداع کے موقع پر یوم نحر کو اپنے ایک تاریخی خطاب میں ارشاد فرمایا تھا کہ : زمانہ لوٹ کر اپنی جگہ واپس آگیا اور اب مہینوں کی ترتیب وہی ہوگئی ہے‘ جو اللہ نے تخلیق ارض و سماء کے وقت مقرر کی تھی ۔ (صحیح البخاری کتاب التفسیر باب705‘ حدیث،1773،چشتی)
رجب کی عظمت و رحمت کے سارے عرب قائل تھے۔ مگر اسلام نے اس ماہ مبارک کی فضیلت یعض تاریخی واقعات کی بناء پر اور بڑھا دی۔
لغت کی کتابوں میں رجب کے معنی ’’عظمت و بزرگی‘‘ کے بیان ہوئے ہیں اور ترجیب بمعنی تعظیم آیا ہے ۔ (ابن منظور افریقی‘ لسان العرب‘ زیر مادہ ’’رجب‘‘)
زمانہ جاہلیت میں اس ماہ کی تعظیم کے پیش نظر اس میں جدال و قتال منع تھا۔ قبیلہ مضر کے لوگ بطور خاص اس ماہ کی تعظیم کرتے اور قتل و غارت گری کو اس ماہ میں انتہائی معیوب جانتے تھے۔ اس لئے لغت کی بعض کتابوں میں رجب کو رجب مضر بھی کہا گیا ہے (ابن منظور افریقی‘ لسان العرب‘ زیر مادہ ’’رجب‘‘)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنے خطبہ یوم النحر حجتہ الوداع میں اسے رجب مضر ہی فرمایا ۔ (بخاری و مسلم)
رجب میں قربانی
رجب کے مہینے میں زمانہ جاہلیت میں قربانی کرنے کا رواج بھی تھا اور یہ قربانی عتیرہ اور رجبیہ کہلاتی تھی۔ اسلام میں اس قربانی کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا۔ چنانچہ سنن ترمذی میں ایک روایت اس طرح ملتی ہے کہ حضرت ابو ذر بن لقیط بن عامر عقیلی کہتے ہیں میں نے دریافت کیا یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ہم زمانہ جاہلیت میں رجب کے مہینے میں قربانی کیا کرتے تھے‘ جسے ہم خود بھی کھاتے اور جو کوئی ہمارے پاس آتا اسے بھی کھلاتے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا۔ اس میں کوئی حرج نہیں (سنن نسائی کتاب الاضحیتہ‘ حدیث 4556‘ نیز سنن ابی دائود‘ کتاب الاضحیہ، چشتی)
زمانہ جاہلیت میں لوگ رجب کی قربانی بتوں کے تقرب کے لئے کرتے تھے‘ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے ایک موقع پر منع بھی فرمایا مگر اس ممانعت کا مقصد دراصل بتوں کےلیے ذبح کرنے سے منع کرنا تھا‘ نہ کہ مطلقا رجب میں ذبیحہ سے منع کرنا ۔ (شرح صحیح مسلم‘ ج 3‘ ص 171‘ بحوالہ ملا علی قاری، چشتی)
اہل اسلام کےلیے ہر ماہ میں ﷲ کی رضا اور خوشنودی کی خاطر ذبح کرنے کی اجازت ہے ۔ بعض علماء نے اسے مباح کہا ہے بلکہ علامہ ابن سیرین تو رجب میں باقاعدگی سے ’’رجبی‘‘ کرتے تھے (علامہ بدر الدین عینی‘ عمدۃ القاری‘ ج 1ص 89‘ مطبوعہ مصر) جس کی صورت یہ ہوتی کہ جانور ذبح کیا جاتا اور دعوت عام ہوتی ۔
ملا علی قاری اور علامہ عینی نے رجب کی قربانی کو ممنوع قرار دیا ہے ۔ (ملا علی قاری‘ مرقات‘ ج 3‘ ص 315‘ مطبوعہ ملتان)
رجب میں قتال
قریش کے ہاں ماہ رجب میں قتال کو سخت ناپسند کیا جاتا تھا‘ اس لئے جب غزوہ بدر سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبدﷲ بن حجش اسدی رضی ﷲ عنہ کی قیادت میں ماہ رجب میں ایک سریہ کےلیے صحابہ کو روانہ فرمایا اور انہوں نے بطن نخلہ میں قریش کے ایک قافلہ کو پایا جو عراق کی طرف جارہا تھا تو اس پر حملہ کرنے میں انہیں تردد ہوا۔ مسئلہ یہ تھا کہ اگر حملہ کرتے تو رجب کی تعظیم و حرمت کے پیش نظر یہ مناسب نہ تھا اور حملہ نہ کرتے تو اگلے ہی روز قافلہ حدود حرم میں داخل ہوجاتا پھر تو حملہ کرنا اور بھی نامناسب ہوتا۔ چنانچہ صحابہ نے کثرت رائے سے فیصلہ کرکے حملہ کردیا۔ مگر نتیجہ یہ ہوا کہ اگرچہ قافلہ کا سامان تو مسلمانوں کے ہاتھ لگ گیا لیکن کفار کو یہ شور مچانے کا موقع مل گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حرمت والے مہینوں کی حرمت و وقار کا بھی خیال نہیں کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم ہوا تو آپ بھی صحابہ کے اس عمل سے ناخوش ہوئے ( ضیاء النبی ج 3‘ ص 376)
مگر ﷲ تبارک وتعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تسکین قلب اور صحابہ کی دلجوئی و عزت افزائی فرماتے ہوئے یہ آیات نازل فرمائیں ۔
ترجمہ: وہ پوچھتے ہیں آپ سے کہ ماہ حرام میں جنگ کرنے کا کیا حکم ہے‘ آپ فرمایئے کہ لڑائی کرنا اس میں بڑا گناہ ہے‘ لیکن روک دینا ﷲ کی راہ سے اور کفر کرنا اس کے ساتھ اور (روک دینا) مسجد حرام سے اور نکال دینا اس میں بسنے والوں کو اس سے بڑے گناہ ہیں ﷲ کے نزدیک اور فتنہ و فساد قتل سے بھی بڑا گناہ ہے ۔ (القرآن‘ البقرہ آیت 217) ۔ اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اشہر حرام اور رجب کی فضیلت کو اسلام نے خاص اہمیت دی ہے ۔
رجب میں عمرہ
ماہ رجب میں عمرہ کا رواج زمانہ جاہلیت میں پایا جاتا تھا اور پورا عرب ماہ رجب میں عمرہ کرنے کی کوشش کرتا۔ چنانچہ پورے جزیرہ عرب سے ماہ رجب میں وفود مکہ مکرمہ کا رخ کرتے تھے اور ان قافلوں کو راستے میں کسی قسم کی لوٹ مار یا قتل و غارت گرمی کا خوف نہ ہوتا جبکہ دیگر مہینوں (ماسوا اشہر حرام) میں یہ ضمانت نہیں ہوتی تھی۔ عربوںکے ہاں ایک رواج یہ بھی تھا کہ ذوالقعدہ ذوالحجہ اور محرم میں کاروباری منڈیاں قائم کی جاتیں اور حرم کے اردگرد بڑے بڑے تجارتی میلے لگا کرتے۔ ان مہینوں میں عمرہ نہیں کیا جاتا تھا بلکہ عمرہ کے لئے رجب ہی کا مہینہ مقرر تھا۔ اور اشہر حج میں عمرہ کرنا عربوں کے ہاں افجر الفجور سمجھا جاتا (السید رزق الطویل‘ مقال فی مجلہ الحج‘ شمارہ 1/51‘ ص 31 ‘ مکہ مکرمہ 1995ء)
بعض مسلمانوں میں رجب کے مہینے میں عمرہ کو بہت افضل سمجھا جاتا ہے‘ حالانکہ عمرہ ادا کرنا سنت ہے اور یہ کسی بھی مہینے میں کیا جاسکتا ہے اور جب بھی کیا جائے گا اس کی فضیلت ایک سی ہوگی ماسوا ماہ رمضان کہ اس کے بارے میں ارشاد مصطفوی بڑا واضح ہے ۔ ’’رمضان المبارک میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے‘ یا میرے ساتھ حج کے برابر ہے ۔ (صحیح مسلم‘ باب فضل العمرہ فی رمضان‘ باب 375‘ حدیث 2934، چشتی)
ماہ رجب اور معراج شریف
اگرچہ اس بات میں اختلاف ہے کہ واقعہ معراج کب اور کس ماہ میں پیش آیا۔ اور اس سلسلہ میں علماء سلف کے متعدد اقوال ہیں ۔ کسی نے ربیع الاول‘ کسی نے ربیع الثانی اور کسی نے رمضان المبارک کا مہینہ قرار دیا ہے ۔ تاہم اکابر علماء کی ایک جماعت کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ رجب ہی کے مہینے میں پیش آیا ۔
واقعہ معراج کے حوالے سے 27 شب رجب اہل اسلام کے ہاں عبادات کی راتوں میں ایک رات شمار کی جاتی ہے۔ اسی رات لوگ بکثرت نوافل ادا کرتے اور ذکرواذکار کرتے ہیں۔ مکہ مکرمہ میں علماء حرم کے منع کرنے کے باوجود حرم شریف عمرہ کرنے والوں سے کھچا کھچ بھر جاتا ہے۔ میرے قیام مکہ مکرمہ 1983-1980ء کے دوران ایک بار امام حرم نے ماہ رجب کے ایک جمعہ کے خطاب میں کہا کہ لوگ خواہ مخواہ 27 ویں شب رجب میں عمرہ کو افضل سمجھ کر حرم میں رش (بھیڑ بھاڑ) کردیتے ہیں حالانکہ اس رات میں عمرہ کی کوئی فضیلت نہیں۔ اگلے ہی روز صبح حرم میں بعد نماز عصر جناب علامہ محمد علوی مالکی نے درس دیتے ہوئے اس کی پرزور تردید کی اور کہا ’’لوگوں کو اس رات میں عمرہ کرنے سے یہ کہہ کر روکنا کہ اس رات کی کوئی فضیلت نہیں‘ بہت بڑی غلطی ہے‘ سوال یہ ہے کہ عبادات کی کثرت عندﷲ پسندیدہ ہے یا ناپسندیدہ ؟ اگر ناپسندیدہ ہو تو بے شک منع کیجئے لیکن اگر مطلوب ہو تو کرنے دیجئے کہ اس بہانے کچھ لوگ عبادت کے لئے وقت نکال لیں گے ۔ نیز یہ کہ ہر وہ دن افضل ہے جس دن کی نسبت محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے اور ہر وہ رات افضل ہے جس کو کسی بھی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت ہے ۔ لہذا یہ کہنا کہ اس رات کی نہ کوئی فضیلت ہے نہ افضلیت کسی طور بھی مناسب نہیں ۔
ماہ رجب میں پیش آنے والے چند اہم تاریخی واقعات : ⏬
تاریخ اسلام میں ماہ رجب میں متعدد تاریخی واقعات پیش آنے کا ذکر ہے ان میں سے ایک ہجرت حبشہ اولیٰ ہے‘ جب مسلمان اہل مکہ کی سختیاں برداشت کرنے سے عاجز آکر باذن رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عازم حبشہ ہوئے۔ اس قافلہ میں باختلاف روایات 12 مرد اور 4 عورتیں تھیں‘ سیدنا عثمان بن عفان رضی ﷲ عنہ قافلہ سالار مہاجرین تھے۔ یہ سن پانچ نبوی کا واقعہ ہے ۔
سریہ عبدﷲ بن حجش الاسدی اسی ماہ رجب میں ہجرت مدینہ سے کوئی 17 ماہ بعد پیش آیا جس کا ذکر ہم پہلے ہی کرچکے ہیں۔ یہ وہ سریہ ہے جس نے اسلامی تاریخ میں نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں‘ مثلا اسلامی تاریخ کا پہلا مال غنیمت‘ پہلا خمس‘ پہلا شہید اور پہلا قیدی اس سریہ نے پیش کیا ۔
9 ہجری میں پیش آنے والا عظیم غزوہ‘ غزوہ تبوک بھی ماہ رجب ہی میں پیش آیا تھا جسے غزوہ ذات العسرہ کا نام دیا گیا۔ یہی وہ غزوہ ہے جس میں سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ نے اپناگھر بار خالی کرکے تن من دھن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کرنے کا شرف ایک بار پھر حاصل کیا اور حضرت عثمان غنی رضی ﷲ عنہ نے تہائی لشکر کا سازوسامان اپنی گرہ سے پیش کرکے جنت کا پروانہ اور یہ سند حاصل کی : (آج کے بعد عثمان کچھ بھی کریں انہیں کوئی نقصان نہ ہوگا) (مستدرک حاکم‘ ج 3‘ص 102‘ نیز ترمذی ابواب المناقب‘فی مناقب عثمان،چشتی)
حبشہ کے مسلمان بادشاہ نجاشی کا انتقال 9 ہجری ماہ رجب میں ہوا اور جناب رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازخود اطلاع پاکر اپنے صحابہ کی معیت میں اس کی غائبانہ نماز جنازہ ادا فرمائی ۔
دمشق کی تاریخی فتح 14 ہجری سن 635ء عیسوی میں ماہ رجب ہی میں ہوئی۔ حضرت خالد بن الولید رضی ﷲ عنہ اور حضرت ابو عبیدہ رضی ﷲ عنہ جو ربیع الثانی 14 ہجرت سے دمشق کا محاصرہ کئے ہوئے تھے‘ فتح یاب ہوئے اور اہل دمشق نے صلح کی درخواست کی جو منظور کرلی گئی۔
سلطان صلاح الدین ایوبی نے 583ھ‘ 1187ء میں رجب ہی کے مہینے میں فتح بیت المقدس کے بعد مسلمانوں کے ہمراہ مسجد اقصیٰ میں فاتحانہ داخل ہوکر عاجزانہ سجدہ شکر ادا کرنے کا شرف حاصل کیا ۔
اس طرح ماہ رجب کو ایک تاریخی حیثیت حاصل ہے جو اس کی مذہبی فضیلت (شہر حرام) ہونے کے علاوہ ہے ۔
رجب اور رجال ﷲ : ⏬
اعلیٰ حضرت مجدد گولڑوی پیر سید مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات میں ابدال و اقطاب کی تعریف میں حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’رحبیون‘‘ کو بھی ابدال کہا جاتا ہے اور وہ تعداد میں چالیس ہوتے ہیں اور ان کے ’’رجبیون‘‘ کہلانے کی وجہ یہ ہے کہ وہ ماہ رجب میں اپنے اپنے مقام پر ہوتے ہیں اور سال کے باقی مہینوں میں گشت کرتے ہیں ۔ ان پر رجب کے پورے مہینے میں کشف وارد ہوتا ہے جس کا اثر بعض پر پورا سال رہتا ہے ۔ (ملفوظات مہریہ صفحہ 56)
حضرت شیخ بزرگ خواجہ معین الدین اجمیری چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا وصال 6 رجب 633 میں ہوا جن کے خلفاء و مریدین نے ہندوستان میں اسلام کی نشوونما کے سلسلہ میں تاریخ ساز کردار ادا کیا اور ظلمت کدہ ہند میں حضرت شیخ بزرگ رحمۃ اللہ علیہ کی روشن کردہ شمع اسلام کی بھرپور حفاظت کا فریضہ انجام دیا ۔ سلسلہ عالیہ چشتیہ کے تقریبا تمام مراکز میں رجب کے مہینے میں خواجہ بزرگ کی یاد منائی جاتی ہے۔ان کے علاوہ کئی بزرگان دین کے ایام وصال رجب المرجب کے مہینے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ (تاریخ مشائخ چشت ، ہند کے راجہ)
حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی (رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ) “مکاشفۃ القلوب“ میں فرماتے ہیں “رجب دراصل “ترجیب“ سے مشتق (یعنی نکلا) ہے۔ اس کے معنٰی ہیں، “تعظیم کرنا“۔ اس کو “الاحسب“ (یعنی سب سے تیز بہاؤ) بھی کہتے ہیں ۔ اس لیے کہ اس ماہِ مبارک میں توبہ کرنے والوں پر رحمت کا بہاؤ تیز ہو جاتا ہے۔ اور عبادت کرنے والوں پر قبولیت کے انوار کا فیضان ہوتا ہے ۔ اسے “الاصم“ (یعنی سب سے زیادہ بہرہ) بھی کہتے ہیں کیونکہ اس میں جنگ وجدل کی آواز بالکل سنائی نہیں دیتی ۔ اسے “رجب“ بھی کہا جاتا ہے کہ جنت کی ایک نہر کا نام “رجب“ ہے جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید ، شہد سے زیادہ میٹھا اور برف سے زیادہ ٹھنڈا ہے ۔ اس نہر سے وہی پانی پئے گا جو رجب کے مہینے میں روزے رکھے گا ۔ (مکاشفۃ القلوب صفحہ 1، 3 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت۔چشتی)
غنیۃ الطالبین میں ہے کہ اس ماہ کو “شھر رجم“ بھی کہتے ہیں کیونکہ اس میں شیطانوں کو رجم یعنی سنگ بار کیا جاتا ہے تاکہ وہ مسلمانوں کو ایذاء نہ دیں۔ اس ماہ کو اصم (یعنی خوب بہرا) بھی کہتے ہیں کیونکہ اس ماہ میں کسی قوم پر اللہ تعالٰی کے عذاب کے نازل ہونے کے بارے میں نہیں سنا گیا کہ اللہ تعالٰی نے گزشتہ اُمتوں کو ہر مہینے میں عذاب دیا اور اس ماہ میں قوم کو عذاب نہ دیا۔ (غنیۃ الطالبین ص 229 مطبوعہ دار احیاء الثراث العربی بیروت ، چشتی)
مکاشفۃ القلوب میں ہے ، بزرگان دین (رحمہم اللہ) فرماتے ہیں، “رجب“ میں تین حروف ہیں۔ ر۔ ج۔ ب “ر“ سے مراد رحمتِ الٰہی (عزوجل)، “ج“ سے مراد بندے کا جرم۔ “ب“ سے مراد بر یعنی احسان و بھلائی۔ اللہ (عزوجل) فرماتا ہے، میرے بندے کے جرم کو میری رحمت اور بھلائی کے درمیان کردو ۔
حضرت علامہ صفوری (رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ) فرماتے ہیں، رجب المرجب بیج بونے کا، شعبان المعظم آبپاشی کا اور رمضان المبارک فصل کاٹنے کا مہینہ ہے۔ لٰہذا جو رجب المرجب میں عبادت کا بیج نہیں بوتا اور شعبان المعظم میں آنسوؤں سے سیراب نہیں کرتا وہ رمضان المبارک میں فصل رحمت کیونکر کاٹ سکے گا ؟ مذید فرماتے ہیں، رجب المرجب جسم کو، شعبان المعظم دل کو اور رمضان المبارک روح کو پاک کرتا ہے۔ (نزھۃ المجالس ج1 ص155)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے،نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :“بے شک جنت میں ایک نہر ہے جس کا نام رجب ہے۔ اُس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے جو ماہ رجب میں ایک روزہ رکھے اللہ عزوجل اُسے اس نہر سے سیراب فرمائے گا۔ (شعب الایمان 368 رقم الحدیث 3800 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ، چشتی)
تابعی بزرگ سیدنا ابو قلابہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں، “رجب کے روزے ایمان داروں کیلئے جنت میں ایک عظیم الشان محل ہے۔“ (لطائف المعارف ابن رجب حنبلی ص 228 مطبوعہ دار ابن کثیر بیروت)
حضرت سیدنا ابو امامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہنبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : “پانچ راتیں ایسی ہیں جس میں دُعا رد نہیں کی جاتی۔ (1) رجب کی پہلی رات (2) پندرہ شعبان (3) جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات (4) عیدالفطر کی رات (5) عیدالاضحٰی کی رات۔“ (جامع صغیر ص 241، رقم الحدیث 3952 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت ، چشتی)
حضرت سیدنا خالد بن معذان رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں، “سال میں پانچ راتیں ایسی ہیں جو ان کی تصدیق کرتے ہوئے بہ نیت ثواب ان کو عبادت میں گزارے تو اللہ تعالٰی اُسے داخل جنت فرمائے گا۔ (1) رجب کی پہلی رات کہ اس رات میں عبادت کرے اور اس کے دن میں روزہ رکھے۔ (2،3) عیدین (یعنی عیدالفطر اور عیدالاضحٰی) کی راتیں کہ ان راتوں میں عبادت کرے اور دن میں روزہ نہ رکھے (عیدین کے دن روزہ رکھنا ناجائز ہے۔) (4) شعبان المعظم کی پندرھویں رات کہ اس رات میں عبادت کرے اور دن میں روزہ رکھے۔ (5) اور شب عاشوراء (یعنی محرم الحرام کی دسویں شب) کہ اس رات میں عبادت کرے اور دن میں روزہ رکھے۔ (غنیۃ الطالبین ص 236 مطبوعہ داراحیاء الثراث العربی بیروت)
حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : رجب کے پہلے دن کا روزہ تین سال کا کفارہ ہے، اور دوسرے دن کا روزہ دو سالوں کا اور تیسرے دن کا ایک سال کا کفارہ ہے، پھر ہر دن کا روزہ ایک ماہ کا کفارہ ہے۔(جامع صغیر رقم الحدیث 57، 5 صفحہ نمبر 311 مطبوعہ الکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت سیدنا عثمان بن مطر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : رجب بہت عظمت والا مہینہ ہے، اللہ تعالٰی اس ماہ میں نیکیاں دُگنی کر دیتا ہے، جس نے رجب کا ایک روزہ رکھا گویا اُس نے ایک سال کے روزے رکھے اور جس نے سات روزے رکھے دوزخ کے ساتوں دروازے اُس پر بند کر دئیے جائیں گے اور اگر کسی نے آٹھ روزے رکھے تو اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جائیں گے اور جو دس روزے رکھ لے تو اللہ عزوجل سے جس چیز کو مانگے وہ اُسے عطا کرے گا اور جو پندرہ روزے رکھے تو آسمان سے ایک مُنادی ندا کرتا ہے، “تمہارے پچھلے گناہ بخش دئیے گئے اب اپنے اعمال دوبارہ شروع کرو اور جو اس سے بھی زائد روزے رکھے تو اللہ تعالٰی اُس پر مذید کرم فرمائے گا اور ماہ رجب ہی میں اللہ تعالٰی نے نوح (علیہ السلام) کو کشتی میں سوار کروایا تو نوح (علیہ السلام) نے خود بھی روزہ رکھا اور اپنے ہم نشینوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔“ (طبرانی کبیر ج6 ص69 رقم الحدیث 5538 مطبوعہ داراحیاء الثراث العربی بیروت ، چشتی)
محقق علی الاطلاق حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ رحمۃ القوی نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ماہ رجب حرمت والے مہیوں میں سے اور چھٹے آسمان کے دروازے پر اس مہینے کے دن لکھے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی شخص رجب میں ایک روزہ رکھے اور اُسے پرہیزگاری سے پورا کرے تو وہ دروازہ اور وہ دن (روزہ والا) اس بندے کےلیے اللہ عزوجل سے مغفرت طلب کریں گے اور عرض کریں گے، یااللہ عزوجل ! اس بندے کو بخش دے اور اگر وہ شخص بغیر پرہیزگاری کے روزہ گزارتا ہے تو پھر وہ دروازہ اور دن اُس کی بخشش کی درخواست نہیں کریں گے اور اُس شخص سے کہتے ہیں، اے بندے ! تیرے نفس نے تجھے دھوکا دیا۔ (ماثبت بالسنۃ صفحہ نمبر 342،چشتی)
معلوم ہوا کہ روزہ سے مقصود صرف بھوک پیاس نہیں، تمام اعضاء کو گناہوں سے بچانا بھی بہت ضروری ہے، اگر روزہ رکھنے کے باوجود بھی گناہوں کا سلسلہ جاری رہا تو سخت محرومی ہے ۔
امام اہلسنت، مجدد دین و ملت، پروانہ شمع رسالت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں کہ فوائد نہار میں حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، “ستائیس رجب کو مجھے نبوت عطا ہوئی جو اس دن کا روزہ رکھے اور افطار کے وقت دُعا کرے دس برس کے گناہوں کا کفارہ ہو۔“ (فتاوٰی رضویہ ج4 ص285 مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی ، چشتی)
حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو رجب کی ستائیسویں کا روزہ رکھے اللہ تعالٰی اُس کے لئے ساٹھ مہینوں (پانچ سال) کے روزوں کا ثواب لکھے گا اور یہ وہ دن ہے جس میں جبرئیل علیہ الصلوٰۃ والسلام محمد عربی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے لئے پیغمبری لے کر نازل ہوئے۔ (تنزیہ الشریعہ ج2 ص 1061 مطبوعہ مکتبۃ القاہرہ مصر۔چشتی)
حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : رجب میں ایک دن اور ایک رات ہے جو اُس دن روزہ رکھے اور رات کو قیام (عبادت) کرے تو گویا اس نے سو سال کے روزے رکھے اور یہ رجب کی ستائیسویں تاریخ ہے اور اسی دن محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو اللہ عزوجل نے مبعوث فرمایا۔“ (شعب الایمان ج3 ص 374 رقم الحدیث 3811 )
حضرت سیدنا عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں، “جو ماہ رجب میں کسی مسلمان کی پریشانی دور کرے تو اللہ تعالٰی اُس کو جنت میں ایک ایسا محل عطا فرمائے گا جو حد نظر تک وسیع ہوگا۔ تم رجب کا اکرام کرو اللہ تعالٰی تمہارا ہزار کرامتوں کے ساتھ اکرام فرمائے گا۔“ (غنیۃ الطالبین ص 234 ، چشتی)
حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : رجب میں ایک رات ہے کہ اس میں نیک عمل کرنے والے کو سو برس کی نیکیوں کا ثواب ہے اور وہ رجب کی ستائیسویں شب ہے۔ جو اس ماہ میں بارہ رکعت پڑھے ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ اور ایک سورت اور ہر دو رکعت پر التحیات اور آخر میں سلام پھیرنے کے بعد سو بار سبحان اللہ والحمدللہ ولاالٰہ الااللہ واللہ اکبر، سو بار استغفار اور سو بار درود پاک پڑھے اور اپنی دنیا و آخرت سے جس چیز کی چاہے دعا مانگے اور صبح کو روزہ رکھے تو اللہ تعالٰی اس کی سب دعائیں قبول فرمائے گا سوائے اس دعا کے جو گناہ کیلئے ہو۔(شعب الایمان ج3 ص 374 رقم الحدیث 3812 )
اللہ عزوجل کے نزدیک چار مہینے خصوصیت کے ساتھ والے ہیں۔ چنانچہ سورۃ التوبہ میں ارشاد ہوتا ہے : ان عدۃ الشھور عنداللہ اثنا عشر شھرا فی کتب اللہ یوم خلق السموت والارض منھا اربعۃ حرم ط ذلک الذین القیم لا فلا تظلمو فیھن انفسکم وقاتلوا المشرکین کافۃ کما یقاتلونکم کافۃ ط واعلموا ان اللہ مع المتقین ہ (پ10 ع 11)
ترجمہ : بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں، جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے ان میں سے چار حرمت والے ہیں، یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے ہر وقت لڑو جیسا وہ تم سے ہر وقت لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ عزوجل پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔
آیت بالا میں قمری مہینوں کا ذکر ہے جن کا حساب چاند سے ہوتا ہے احکام شرع کی بنا بھی قمری مہینوں پر ہے۔ مثلاً رمضان المبارک کے روزے، زکوٰۃ مناسک حج شریف وغیرہ نیز اسلامی تہوار مثلاً عید میلادالنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم عید الفطر، عیدالاضحٰی، شب معراج، شب براءت، گیارہویں شریف،اعراس بزرگان دین رحمھم اللہ وغیرہ بھی قمری مہینوں کے حساب سے منائے جاتے ہیں۔ افسوس ! آج کل جہاں مسلمان بے شمار سنتوں سے دور جا پڑا ہے وہاں اسلامی تاریخوں سے بھی بالکل نا آشنا ہوتا جا رہا ہے۔ غالباً ایک لاکھ مسلمانوں کے اجتماع میں اگر یہ سُوال کیا جائے کہ “بتاؤ آج کس ہجری سن کے کون سے مہینے کی کتنی تاریخ ہے ؟“ تو شاید بمشکل سو مسلمان ایسے ہوں گے جو صحیح جواب دے سکیں گے۔ آیت گزشتہ کے تحت حضرت سیدنا صدر الافاضل مولیٰنا نعیم الدین مُراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ خزائن العرفان میں فرماتے ہیں، (چار حرمت والے مہینوں سے مراد) تین متصل (یعنی یک بعد دیگرے) ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور ایک جُدا رجب عرب لوگ زمانہ جاہلیت میں بھی ان میں قتال (یعنی جنگ) حرام جانتے تھے۔ اسلام میں مہینوں کی حرمت و عظمت اور زیادہ کی گئی ۔
سیدنا عیسٰی روح اللہ (علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام) کے دور کا واقعہ ہے کہ ایک شخص مدت سے کسی عورت پر عاشق تھا۔ ایک بار اس نے اپنی معثوقہ پر قابو پالیا۔ لوگوں کی ہلچل سے اس نے اندازہ لگایا کہ لوگ چاند دیکھ رہے ہیں اس نے اُس عورت سے پوچھا، لوگ کس ماہ کا چاند دیکھ رہے ہیں ؟ اس نے کہا، “رجب کا“۔ یہ شخص حالانکہ کافر تھا مگر رجب شریف کا نا، سنتے ہی تعظیماً فوراً الگ ہو گیا اور زِنا سے باز رہا۔ حضرت سیدنا عیسٰی روح اللہ (علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام) کو حکم ہوا کہ ہمارے فلاں بندے کی زیارت کو جاؤ۔ آپ (علیہ السلام) تشریف لے گئے اور اللہ (عزوجل) کا حکم اور اپنی تشریف آوری کا سبب ارشاد فرمایا۔ یہ سنتے ہی اس کا دل نورِ اسلام سے جگمگا اٹھا اور اُس نے فوراً اسلام قبول کر لیا۔ (انیس الواعظین ص 177 مطبوعہ مکتبہ عربیہ کوئٹہ ، چشتی)
رجب المرجب کی تعظیم کرکے ایک کافر کو ایمان کی دولت نصیب ہو گئی ۔ تو جو مسلمان ہوکر رجب المرجب کا احترام کرے گا اس کو نہ جانے کیا کیا انعام ملے گا۔ مسلمانوں کو چاہئیے کہ رجب شریف کا خوب احترام کیا کریں۔ قرآن پاک میں بھی حُرمت والے مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم کرنے سے روکا گیا ہے۔ “نور العرفان“ میں فلا تظلموا فیھن انفسکم : ترجمہ : تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو۔) کے ماتحت ہے، “یعنی خصوصیت سے ان چار مہینوں میں گناہ نہ کرو کہ ان میں گناہ کرنا اپنے اوپر ظلم ہے یا آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو ۔
حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ :نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جس نے ماہ حرام میں تین دن جمعرات ، جمعہ اور ہفتہ کا روزہ رکھا اس کےلیے دو سال کی عبادت کا ثواب لکھا جائے گا ۔ (مجمع الزوئد ج3 ص 438 رقم الحدیث 5151 مطبوعہ دارالفکر بیروت)
یہاں ماہ حرام سے مُراد یہی چار ماہ ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم الحرام اور رجب المرجب ہیں۔ ان چاروں مہینوں میں سے جس ماہ میں بھی ان تین دنوں کا روزہ رکھ لیں گے تو انشاءاللہ عزوجل دو سال کی عبادت کا ثواب پائیں گے ۔
ایک بار حضرت سیدنا عیسٰی روح اللہ (علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام) کا گزر ایک جگمگاتے نورانی پہاڑ پر ہوا ۔ آپ (علیہ السلام) نے بارگاہ خداوندی میں عرض کی یااللہ (عزوجل) اس پہاڑ کو قوت گویائی عطا فرما۔ وہ پہاڑ بول پڑا، یاروح اللہ ! آپ (علیہ السلام) کیا چاہتے ہیں ؟ فرمایا، اپنا حال بیان کر۔ پہاڑ بولا، میرے اندر ایک آدمی رہتا ہے۔ سیدنا عیسٰی روح اللہ (علٰی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام) نے بارگاہ الٰہی میں عرض کی، یااللہ (عزوجل) ! اس کو مجھ پر ظاہر فرما دے۔ یکایک پہاڑ شق ہو گیا اور اس میں سے چاند سا چہرہ چمکاتے ہوئے ایک بزرگ برآمد ہوئے ۔ انہوں نے عرض کیا“میں حضرت سیدنا موسٰی کلیم اللہ (علیہ السلام) کا اُمتی ہوں ، میں نے اللہ (عزوجل) سے یہ دُعا کی ہوئی ہے کہ وہ مجھے اپنے پیارے محبوب نبی آخرالزماں (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت مبارکہ تک زندہ رکھے تاکہ میں ان کی زیارت بھی کروں اور ان کا اُمتی بننے کا شرف بھی حاصل کروں ۔ الحمدللہ (عزوجل) میں اس پہاڑ میں چھ سو سال سے اللہ (عزوجل) کی عبادت میں مشغول ہوں ۔“ حضرت سیدنا عیسٰی روح اللہ (علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام) نے بارگاہ خداوندی میں عرض کیا، یااللہ (عزوجل) ! کیا روئے زمین پر کوئی بندہ اس شخص سے بڑھ کر بھی تیرے یہاں مکرم ہے ؟ ارشاد ہوا، اے عیسٰی (علیہ السلام) ! امت محمدی (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) میں سے جو ماہ رجب کا ایک روزہ رکھ لے وہ میرے نزدیک اس سے بھی زیادہ مکرم ہے ۔ (نزہتہ المجالس جلد 1 صفحہ 155) ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment