Monday, 15 January 2024

قوموں کی تباہی و بربادی قرآن و حدیث کی روشنی میں

قوموں کی تباہی و بربادی قرآن و حدیث کی روشنی میں

محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْاؕ ۔ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ۔ (سورہ الحجرات آیت نمبر 9)
ترجمہ : تو انصاف کے ساتھ ان میں صلح کروا دو اور عدل کرو ، بیشک اللہ عدل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم سے پہلی قومیں اس لیے برباد ہوئیں جب اُن کا کوئی بڑا جرم کرتا تو اُسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی معمولی آدمی جرم کرتا تو اُسے سزا دی جاتی ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 4304)

مخذوم قبیلہ کی فاطمہ بنت الاسود نے جب چوری کا ارتکاب کیا تو اس وقت چور کی سزا ہاتھ کاٹنا مقررتھی ۔ قریش کو یہ تشویش لاحق ہوئی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کون کہے کہ اس عورت سے نرمی برتی جائے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت کی بناء پر اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اس مقصد کےلیے تیار کر کے مخذومی عورت کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کر دیا گیا مگر اسامہ رضی اللہ عنہ نے جب اس کی سفارش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم اللہ کی مقرر کردہ سزا میں سفارش کر رہے ہو ؟ اسامہ نے معذرت کر لی ۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے ہو کر اللہ کی حمد و ثناء کے بعد لوگوں سے جو خطاب فرمایا اس کا مفہوم کچھ یوں ہے ۔ اے لوگو ! تم سے پہلی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ جب کوئی بڑا آدمی جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی معمولی شخص اسی جرم کا ارتکاب کرتا تو اسے سزا دے دی جاتی ۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا ۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ایک عام آدمی ان سے خطبے کے دوران ان کے کُرتے کے بارے میں سوال کرتا ہے اور وہ خندہ پیشانی سے جواب دیتے ہوئے اس کی وضاحت پیش کر نے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔ حضرت عمر فاروق رضی ﷲ عنہ جب کسی کو کسی صوبے یا شہر کا والی مقرر کرتے تھے تو پہلے اس کی جائیداد اور مال کا حساب لے لیتے تھے اور جب وہ اپنے منصب سے الگ ہوتے یا ان کے متعلق دوران تقرر اگر ان کو یہ علم ہوجاتا کہ ان کے پاس غیر معمولی دولت جمع ہوگئی ہے تو وہ اس کا محاسبہ کرتے اور زائد دولت بیت المال میں جمع کروا دیتے ۔ ان کے دور میں گورنر وں کو قانون کی خلاف ورزی کی پاداش میں سزا بھگتنا پڑی ۔
فاتح مصر عمرو بن العاص کے بیٹے عبدﷲ کو (جس نے کسی شخص کو بلاوجہ مارا تھا) آپ نے اس کے باپ کے سامنے کوڑے لگوائے مگر کسی کو حوصلہ نہ پڑا کہ کچھ مخالفت کر سکے ۔ فاتح شام حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو معزول کیا ۔ فاتح ایران سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے جواب طلبی کی ۔ (چشتی)

عدل کے بغیر کوئی ملک اور معاشرہ اپنا اخلاقی وجود برقرار نہیں رکھ سکتا ۔ ناانصافی اور ظلم سے انتشار، ہیجان ، بے یقینی ، مایوسی ، اشتعال ، فساد فی الارض ، انتہا پسندی ، تشدد اور پھر دہشت گردی جنم لیتی ہے ۔ دنیا کا کوئی بھی معاشرہ ہو وہاں پر قانون ہاتھ میں لینے والے ، قانون کو توڑنے والے ، کمزور کا استحصال کرنے والے اور اپنے مفادات کےلیے کمزور کی جان تک لے لینے والے افراد ، گروہ اور عناصر پائے جاتے ہیں ۔ ایسے درندہ صفت عناصر اور گروہوں کی حیوانی اور خون آشام خواہشات کے سامنے قانون اور ریاست ڈھال بنتی ہے ۔ آج کل ریاستِ مدینہ کے انتظامی ماڈل کا بہت تذکرہ ہے ۔ اگر میثاقِ مدینہ کی جملہ شقوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس میثاق کی روح لاء اینڈ آرڈر کو برقرار رکھنا اور انسانی جان کا تحفظ کرنا ہے ۔ میثاقِ مدینہ کی بنیاد انسانیت کے تحفظ اور بقاء کی فکر پر رکھی گئی ۔ اس معاہدے میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب بھی شامل تھے ، اس لیے یہ کائنات کا پہلا بین الاقوامی تحریری معاہدہ ہے جس میں انسانی جان کے تحفظ ، قانون کی بالادستی اور انصاف کی فراہمی کو ضبطِ تحریر میں لایا گیا ۔

اسلام وہ واحد ضابطۂ حیات ہے جس نے انسانی جان کے تحفظ کےلیے اخلاقی تعلیمات بھی دیں اور تعزیری احکامات بھی دیے ۔ جدید جمہوری نظام اور جمہوری اقدار میں بھی انصاف کی فراہمی اور انسانی جان کے تحفظ کو اولین ترجیح دی گئی ہے کیونکہ یہ دو ایسے انسانی ، سماجی اور اخلاقی امور ہیں جن سے انحراف کر کے ایک متوازن انسانی سوسائٹی کو پروان نہیں چڑھایا جا سکتا اور جب بھی کوئی گروہ اپنی افرادی قوت ، وسائل یا طاقت کے زعم میں کسی کا حق سلب کرتا ہے تو مظلوم کی مدد کےلیے سب سے پہلے قانون پہنچتا ہے ۔ جب مظلوم کو طاقتور کے مقابلے میں قانون کی مدد نہیں ملتی تو کمزور بے بسی اور اشتعال کا شکار ہوتا ہے اور سوسائٹی کا انتظامی انفراسٹرکچر اپنی اخلاقی اہمیت اور افادیت کھو دیتا ہے ۔ (چشتی)

اللہ رب العزت نے سورۃ الحجرات میں انصاف کی اہمیت اور ناگزیریت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : وَاِنْ طَآىٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَاۚ - فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰى تَفِیْٓءَ اِلٰۤى اَمْرِ اللّٰهِۚ - فَاِنْ فَآءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْاؕ - اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ۔(سورہ الحجرات آیت نمبر 9)
ترجمہ : اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں تو تم ان میں صلح کرادوپھر اگران میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے پھر اگر وہ پلٹ آئے تو انصاف کے ساتھ ان میں صلح کروا دو اور عدل کرو ، بیشک اللہ عدل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے ۔

سورۃ المائدہ میں فرمایا : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ٘ - وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤى اَلَّا تَعْدِلُوْاؕ - اِعْدِلُوْا - هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى٘ - وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ۔ (سورہ الماٸدہ آیت نمبر 8)
ترجمہ : اے ایمان والو! انصاف کے ساتھ گواہی دیتے ہوئے اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ اور تمہیں کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ تم انصاف نہ کرو (بلکہ) انصاف کرو، یہ پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ تمہارے تمام اعمال سے خبردار ہے ۔

معلوم ہوا کہ عدل کرنا حبِ الٰہی کے حصول کا ذریعہ اور تقویٰ کی علامت ہے ۔ نظامِ انصاف میں منصف کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ انصاف کا عمل منصف کے ذریعے پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سات طرح کے انسانوں کو (قیامت کے دن) اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا جب کہ اس دن عرشِ الہٰی کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا ، ان میں ایک امامِ عادل ہے (یعنی انصاف کرنے والا حکمران یا قاضی ہے) ۔ (صحیح بخاری)

پس کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جو ظالم تھیں ہم نے انہیں تباہ کر دیا تو وہ اپنی چھتوں سمیت گری پڑی ہیں اور کئی ایک بیکار کنویں اور کتنے ہی مضبوط محل ویران پڑے ہیں ۔ کیا انہوں نے کبھی زمین میں گھوم پھر کر نہیں دیکھا کہ ان کے دل ان باتوں کو سمجھنے والے ہوتے یا کانوں سے ہی ان کی باتیں سن لیتے بات یہ ہے کہ صرف آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوئیں بلکہ وہ دل اندھے ہو چکے ہیں جو سینوں میں پڑے ہیں ۔ (سورہ الحج 45 ، 46)

اور کتنی ایسی بستیاں تھیں ، جنہیں ہم نے ہلاک کر دیا ۔ تب آیا ان پر ہمارا عذاب رات کے دوران یا دوپہر کے وقت جب وہ آرام کر رہے تھے ۔ پھر جب ان پر ہمارا عذاب آ گیا تو ان کا کہنا یہی تھا کہ ہم خود ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے ۔ (سورہ الاعراف آیات 4,5 ) ۔

آگے فرمایا : کیا ان بستیوں کے لوگ اس بات سے مامون ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب رات کے دوران آ جائے اور وہ سوئے پڑے ہوں؟ کیا ان بستیوں کے لوگ اس بات سے مامون ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب چاشت کے وقت آ جائے اور وہ کھیل میں لگے ہوں ؟ ۔ (سورہ الاعراف آیات 97,97)

عذاب کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ دشمن بستیاں ویران کر دے ۔ عزت و آبرو برباد کر دے ۔ قوم کو اپنا غلام بنا لے ۔ عزت و آبرو تو ہم لوگوں کی تار تار ہو چکی ہے ، کبھی اس در کبھی اس در کبھی دربدر ، کبھی امریکہ کے ہر اول دستہ کے غلام ، کبھی چین کے ہر اول دستہ کے غلام ، علما و ذاکر حضرات کبھی سعودی عرب کی چوکھٹ پر اور باقی کبھی ایران کی چوکھٹ پر ، الغرض ندامت و پشیمانی ہی ہمارا مقدر ہے ، لیکن عبرت ہم نے حاصل نہیں کرنی ۔

یہ بات تو طے ہے کہ احتساب عام آدمی کا ہی ہوتا ہے ، اور ہوتا رہے گا ۔ عام آدمی اگر ایک مہینہ بجلی کا بل نا دے تو واپڈا کی ضلعی انتظامیہ اس کا میٹر کاٹ جاتی ہے ۔ جبکہ سرکاری دفاتر اور ملازم دل کرے تو بل دے دیں ، نہیں تو نادہندہ بن کر بھی بجلی استعمال کرتے رہیں ، کیونکہ ان کو کچھ نہیں کہا جاتا ۔ عام آدمی اگر کسی جرم میں پکڑا جائے تو پولیس اس سے وہ جرم بھی قبول کروا لیتی ہے ، جو اس نے کیے نہیں ہوتے ہیں ۔ جبکہ امرا جرم کر کے ثبوت نا ہونے اور نامکمل تفتیش کی بنیاد پر رہا ہو جاتے ہیں اور اگر اس سے بھی کام نا بنے تو ڈیل و ڈھیل ، پلی بارگین اور دیت کا قانون ہی کافی ہے ، نواز شریف ، شہباز شریف ، حمزہ شہباز ، شاہد خاقان عباسی ، علیم خان ، جہانگیر ترین ، سراج درانی ، آصف زرداری ، خرشید شاہ ، مجید اچکزئی اور مزید ناموں کےلیے فہرست چھاپنا پڑے گی ، اب تو اس فہرست میں ان کے نام بھی آ سکتے ہیں جو اس ملک کی نظریاتی و جغرافیائی حدود کے نگہبان و منصف ہیں ۔ عام آدمی ٹیکس نا دے تو حکومت جائیداد کی قرقی کا فرمان جاری کر دیتی ہے ۔

پاکستان بنا تو اسلام کے نام پر تھا ، مگر اسلامی اصولوں کے استعمال پر پابندی ہے ، کیونکہ مسلم ممالک میں جس دن اسلامی نظام نافذ ہو گیا ، اس دن ملک میں ججز اور جلادوں کی قلت پیدا ہو جائے گی ۔

ظلم ایک ایسا بدترین فعل ہے جس سے انسان اپنے بنیادی حق سے محروم ہو کر اَذِیَّت اور کَرب کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور یہ وہ عمل ہے جس سے جھگڑے اور فسادات جنم لیتے ، لوگ بغاوت اور سرکشی پر اتر آتے اور اصول و قوانین ماننے سے انکار کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں انسانی حقوق تَلف ہوتے اور معاشرے کا امن و سکون تباہ ہو کر رہ جاتا ہے ، دینِ اسلام چونکہ انسانی حقوق کا سب سے بڑا محافظ اور معاشرتی امن کو برقرار رکھنے کا سب سے زیادہ حامی ہے اسی لیے اس دین نے انسانی حقوق تَلف کرنے اور معاشرتی امن میں بگاڑ پیدا کرنے والے ہر فعل سے روکا ہے اوران چیزوں  میں ظلم کا کردار دوسرے افعال کے مقابلے میں کہیں  زیادہ ہے اس لیے اسلام نے ظلم کے خاتمے کےلیے بھی انتہائی احسن اِقدامات کیے ہیں تاکہ لوگوں کے حقوق محفوظ رہیں اور وہ امن و سکون کی زندگی بسر کریں ، ان میں سے ایک اِقدام لوگوں  کو یہ حکم دینا ہے کہ وہ ظالم کو روکیں اور دوسرا اِقدام ظالم کو وعیدیں سنانا ہے تاکہ وہ خوداپنے ظلم سے باز آجائے ۔

حضرت انس رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنے بھائی کی مدد کر وخواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ کسی نے عرض کی ، یا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر وہ مظلوم ہو تو مدد کروں  گا لیکن ظالم ہو تو کیسے مدد کروں ؟ ارشاد فرمایا ’’ اس کو ظلم کرنے سے روک دے یہی (اس کی)مدد کرنا ہے ۔ (صحیح بخاری، کتاب الاکراہ، باب یمین الرجل لصاحبہ... الخ، ۴ / ۳۸۹، الحدیث: ۶۹۵۲،چشتی)

حضرت علی رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ مظلوم کی بددعا سے بچو ، وہ اللہ تعالیٰ سے اپنا حق مانگتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی حق والے کا حق اس سے نہیں  روکتا ۔ (شعب الایمان،التاسع والاربعون من شعب الایمان ... الخ، فصل فی ذکر ماورد من التشدید... الخ، ۶ / ۴۹، الحدیث: ۷۴۶۴)

حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس کا اپنے مسلمان بھائی پر اس کی آبرو یا کسی اور چیز کا کوئی ظلم ہو تو وہ آج ہی اس سے معافی لے لے ، اس سے پہلے کہ (وہ دن آجائے جب) اس کے پاس نہ دینار ہو نہ درہم ، (اس دن) اگر اس ظالم کے پاس نیک عمل ہوں  گے تو ظلم کے مطابق اس سے چھین لیے جائیں  گے اور اگر اس کے پاس نیکیاں  نہ ہوں  گی تو اس مظلوم کے گناہ لے کر اس پر ڈال دیئے جائیں  گے ۔ (صحیح بخاری ، کتاب المظالم و الغصب ، باب من کانت لہ مظلمۃ عند الرجل... الخ، ۲ / ۱۲۸، الحدیث: ۲۴۴۹،چشتی)(مشکاۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب الظّلم، الفصل الاول، ۲ / ۲۳۵، الحدیث: ۵۱۲۶)

اس سے معلوم ہوا کہ معاشرتی امن کو قائم کرنے اور اس کی راہ میں  حائل ایک بڑی رکاوٹ ’’ظلم‘‘ کو ختم کرنے میں  اسلام کا کردار سب سے زیادہ ہے اور اس کی کوششیں دوسروں  کے مقابلے میں  کہیں  زیادہ کارگَر ہیں  کیونکہ جب لوگ ظالم کو ظلم کرنے سے روک دیں  گے تو وہ ظلم نہ کر سکے گا اور ظالم جب اتنی ہَولْناک وعیدیں  سنے گا تواس کے دل میں  خوف پیدا ہو گا اور یہی خوف ظلم سے باز آنے میں  اس کی مدد کرے گا ، یوں  معاشرے سے ظلم کا جڑ سے خاتمہ ہو گا اور معاشرہ امن و سکون کا پُرلُطف باغ بن جائے گا ۔

حضرت انس رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو کسی مظلوم کی فریاد رسی کرے، اللہ تعالیٰ اس کےلیے 73 مغفرتیں  لکھے گا ، ان میں  سے ایک سے اس کے تمام کاموں  کی درستی ہوجائے گی اور 72 سے قیامت کے دن اس کے درجے بلند ہوں  گے۔(شعب الایمان، الثالث والخمسون من شعب الایمان... الخ، ۶ / ۱۲۰، الحدیث: ۷۶۷۰،چشتی)

حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو کسی مظلوم کے ساتھ اس کی مدد کرنے چلے تو اللہ تعالیٰ اسے اس دن ثابت قدمی عطا فرمائے گا جس دن قدم پھسل رہے ہوں  گے ۔ (حلیۃ الاولیاء، مالک بن انس جلد ۶ صفحہ ۳۸۳ الحدیث : ۹۰۱۲،چشتی)

ملک غَسَّان کا بادشاہ جبلہ بن ایہم اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر مسلمان ہو گیا ، کچھ دنوں بعد امیرُ المومنین حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہُ عَنْہُ حج کے ارادے سے نکلے تو جبلہ بن ایہم بھی اس قافلے میں شریک ہو گیا۔ مکۂ مکرمہ پہنچنے کے بعد ایک دن دورانِ طواف کسی دیہاتی مسلمان کا پاؤں اس کی چادر پر پڑ گیا تو چادر کندھے سے اتر گئی۔ جبلہ بن ایہم نے اس سے پوچھا: تو نے میری چادر پر قدم کیوں رکھا ؟ اس نے کہا : میں نے جان بوجھ کر قدم نہیں رکھا غلطی سے پڑ گیا تھا۔ یہ سن کر جبلہ نے ایک زور دار تھپڑ ان کے چہرے پر رسید کر دیا، تھپڑ کی وجہ سے ان کے دو دانت ٹوٹ گئے اور ناک بھی زخمی ہو گئی۔ یہ دیہاتی مسلمان حضرت عمر فاروق رَضِیَ ا للہُ عَنْہُ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور جبلہ بن ایہم کے سلوک کی شکایت کی ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جبلہ بن ایہم کو طلب فرمایا اور پوچھا : کیا تو نے اس دیہاتی کو تھپڑ مارا ہے ؟ جبلہ نے کہا: ہاں میں نے تھپڑ مارا ہے، اگر اس حرم کے تقدس کا خیال نہ ہوتا تو میں اسے قتل کر دیتا ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فرمایا : اے جبلہ ! تو نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا ہے ، اب یا تو تو اس دیہاتی سے معافی مانگ یا میں تم سے اس کا قصاص لوں گا ۔ جبلہ نے حیران ہو کر کہا : کیا آپ رَضِیَ ا للہُ عَنْہُ اس غریب دیہاتی کی وجہ سے مجھ سے قصاص لیں گے حالانکہ میں تو بادشاہ ہوں ؟ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فرمایا : اسلام قبول کرنے کے بعد حقوق میں تم دونوں برابر ہو ۔ جبلہ نے عرض کی : مجھے ایک دن کی مہلت دیجئے پھر مجھ سے قصاص لے لیجیے گا ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے اس دیہاتی سے دریافت فرمایا : کیا تم اسے مہلت دیتے ہو ؟ دیہاتی نے عرض کی : جی ہاں ۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے اسے مہلت دے دی ، مہلت ملنے کے بعد راتوں رات جبلہ بن ایہم غسانی ملک شام کی طرف بھاگ گیا اور اس نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا ۔ (فتوح الشام ذکر فتح حمص صفحہ نمبر ۱۰۰ الجزء الاول،چشتی)

ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اور حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کا آپس میں کسی بات پر اختلاف ہوا ، دونوں نے یہ طے کیا کہ ہمارے معاملے کا فیصلہ حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کریں ۔ چنانچہ یہ فیصلے کےلیے حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے گھر پہنچے ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے ان سے فرمایا : ہم تمہارے پا س اس لیے آئے ہیں تاکہ تم ہمارے معاملے کا فیصلہ کر دو ۔ حضرت زید رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے بستر کے درمیان سے جگہ خالی کرتے ہوئے عرض کی : اے امیر المومنین ! یہاں تشریف رکھیے ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فرمایا : یہ تمہارا پہلا ظلم ہے جو تم نے فیصلے کے لئے مقرر ہونے کے بعد کیا ، میں تو اپنے فریق کے ساتھ ہی بیٹھوں گا ۔ یہ فرما کر حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ حضرت ابی بن کعب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے ساتھ حضرت زید رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے سامنے بیٹھ گئے ۔ مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی ، حضرت ابی بن کعب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے دعویٰ کیا اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے اس کا انکار کیا (حضرت ابی بن کعب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اپنے دعوے کے ثبوت کے لئے گواہ پیش نہ کر سکے تو اب شرعی اصول کے مطابق حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ پر قسم کھانا لازم آتا تھا) حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے (حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شخصیت اور رتبہ کا لحاظ کرتے ہوئے) حضرت ابی بن کعب رَضِیَ  اللہُ عَنْہُ سے کہا : آپ امیر المومنین رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے قسم لینے سے در گزر کیجیے ۔ حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فوراً حلف اٹھالیا اور قسم کھاتے ہوئے فرمایا: زید اس وقت تک منصبِ قضاء (یعنی جج بننے) کا اہل نہیں ہو سکتا جب تک کہ عمر (رَضِیَ اللہُ عَنْہُ) اور ایک عام شخص اس کے نزدیک (مقدمے کے معاملے میں ) برابر نہیں ہو جاتے ۔ (ابن عساکر ، ذکر من اسمہ زید، زید بن ثابت بن الضحاک۔۔۔ الخ، ۱۹ / ۳۱۹،چشتی)

نظامِ عالم اور عدل و انصاف ، قوموں اور ملکوں کی تباہی کے اسباب : ⏬

صحیح بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی حدیث میں ان سات اشخاص کا ذکر آیا ہے جو قیامت کے دن عرشِ الٰہی کے سائے میں ہوں گے، ان میں سر فہر ست امام عادل کا نام آتا ہے : عن أبي ھریرۃ رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال : ’’سبعۃ یظلھم اللّٰہ في ظلہٖ یوم لا ظل إلا ظلہ، إمام عادل ، وشاب نشأ في عبادۃ اللّٰہ ، ورجل معلق قلبہٗ في المساجد، ورجلان تحابا في اللّٰہ اجتمعا علیہ وتفرقاعلیہ، ورجل دعتہ امرأۃ ذات منصب وجمال فقال: إني أخاف اللّٰہ، ورجل تصد ق بصد قۃٍ فأخفاھا حتی لا تعلم شمالہٗ ما تنفق یمینہٗ، ورجل ذکر اللّٰہ خالیاً ففاضت عیناہ ۔ (صحیح البخاری،کتاب الاذان،باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلوۃ و فضل المساجد جلد ۱ صفحہ ۹۱ طبع قدیمی)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سات آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے (عرش) کے سائے میں جگہ دے گا جس دن کہ اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ عادل بادشاہ ۔ وہ جوان جو اللہ کی عبادت میں پلا بڑھا ہو ۔ وہ آدمی جس کا دل مسجد میں اَٹکا ہوا رہتا ہے ۔ ایسے دو آدمی جن کی محبت محض اللہ کی خاطر تھی ، اسی کےلیے جمع ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے ۔ وہ آدمی جس کو کسی صاحبِ حسب و جمال عورت نے دعوت دی تو اس نے کہا : مجھے خدا کا خوف ہے ۔ وہ آدمی جس نے اس قدر چھپا کر صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوئی۔ اور وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو آنکھیں اُبل پڑیں ۔

امت مسلمہ کوئی نسلی یا جغرافیائی قوم نہیں  جو کسی خاص نسل اور خاص ملک کی نمائندگی کرتی ہو ۔ بلکہ یہ ایک آفاقی اور نظریاتی ملت ہے جس کا ایک خاص مقصد وجود اور خاص نصب العین ہے اور پوری دنیا میں اس کی دعوت اور اشاعت کے لیے برپا کی گئی ہے ۔ اس کا ایک لائحہ عمل ہے جس کی تکمیل پر وہ مامور ہے ۔

عدل درحقیقت اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی عظیم الشان صفت ہے ، قرآن کریم میں ارشاد ہے : شَھِدَ اللّٰہُ أَنَّہٗ لَا إِلٰہَ إِلَّا ھُوَ وَالْمَلٰئِکَۃُ وَأُولُوْا الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلٰـہَ إِلاَّ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ۔ (آلِ عمران:۱۸)
ترجمہ :  اللہ نے گواہی دی کہ کسی کی بند گی نہیں اس کے سوااور فر شتوں نے اور علم والوں نے بھی، وہی حاکم انصاف کا ہے ۔ کسی کی بند گی نہیں سوا اس کے ، زبردست ہے حکمت والا ۔

اللہ عزوجل خود عادل ہے ، اس کا نازل کر دہ قانون ( شریعتِ محمدیہ) سراپا عدل ہے ، اس لیے بے شمار آیتوں میں بندوں کو عدل وانصاف کا حکم دیا گیا ہے اور اس میں ایسی باریکیوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ عقل حیران ہے۔ قرابت کے مو قع پر بڑے سے بڑے انصاف پرور کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں اور وہ جانب داری کی خاطر عدل وانصاف کا دامن چھوڑ دیتا ہے، مگر فرزندانِ اسلام سے ایسی نازک صورت حال میں بھی عدل وانصاف قائم رکھنے کا عہد لیا گیا ہے : یٰآ أَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَائَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰی أَنْفُسِکُمْ أَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِیْنَ إِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا أَوْفَقِیْرًا فَاللّٰہُ أَوْلٰی بِھِمَا فَلاَ تَتَّبِعُوْا الْھَوٰی أَنْ تَعْدِلُوْا ۔ (النساء:۱۳۵)
ترجمہ : اے ایمان والو! قائم رہو انصاف پر ، گواہی دو اللہ کی طرف کی ، اگر چہ نقصان ہو تمہارا ، یا ماں باپ کا ، یا قرابت والوں کا، اگر کوئی مالدار ہے یا محتاج ہے تو اللہ ان کا خیرخواہ تم سے زیادہ ہے ، سو تم پیروی نہ کرو دل کی خواہش کی انصاف کرنے میں ۔

اسی طرح جب کسی سے بغض و عداوت ہو تو عدل و انصاف کے تقاضے عمومًا بالائے طاق رکھ دیے جاتے ہیں اور اپنے حریف کو نیچا دکھا نے کےلیے آدمی ہر جائز و ناجائز حربہ تلاش کرتا ہے ، لیکن احکم الحاکمین کی جانب سے مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ ایسے موقع پر بھی عدل و انصاف کی ترازو ہاتھ سے نہ چھوڑیں ، بلکہ ہر حال میں عدل و انصاف کو قائم رکھیں : یٰآ أَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَائَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَأٰنُ قَوْمٍ عَلٰی أَنْ لَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَاتَّقُوْا اللّٰہَ إِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ۔ (المائدۃ:۸)
ترجمہ : اے ایمان والو! کھڑے ہوجایا کرو اللہ کے واسطے گواہی دینے کو اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو ، عدل کرو ، یہی بات زیادہ نزدیک ہے تقویٰ سے اور ڈرتے رہو اللہ سے ، اللہ کو خوب خبر ہے جو تم کر تے ہو ۔

نظامِ عالم اور عدل و انصاف : ⏬

دراصل کا ئنات کا نظام ہی عدل و انصاف سے وابستہ ہے ، نظامِ عالم کےلیے عدل و انصاف سے بڑھ کر اور کوئی چیز ضروری نہیں ۔ بلاشبہ حاکمِ عادل کا وجود اس عالم کےلیے سایۂ رحمتِ الٰہی اور کسی عدل کش حاکم کا تسلُّط عذابِ الٰہی ہے ، جو بندوں کی نا فرمانیوں کی پاداش میں ان پر نازل کیا جاتا ہے : ⬇

شامتِ اعمالِ ما صورتِ نادر گرفت

کسی زمانے میں مطلق العنان بادشاہ کوسِ ’’ لِمَنِ الْمُلْکُ‘‘ بجاتے تھے اور آئین وقانون ان کے اشاروں پر رقص کر تا تھا ، لیکن دورِ جد ید نے ملو کیت کو جمہور یت میں بدل ڈالا ، آئین و دستور وضع کیے گئے ، بادشاہت کی جگہ کہیں صدارتی نظام رائج ہوا اور کہیں وزراتی نظام نا فذ کیا گیا ، گویا دورِ قدیم کے شہنشاہ کا منصب دورِ جدید کے صدرِ مملکت یا وز یر اعظم کو تفویض ہوا ۔ فرق یہ پڑا کہ دورِ قدیم میں بادشاہ اوپر سے آتے تھے اور دورِ جدید میں نیچے سے جاتے ہیں ، لیکن عدل و انصاف محض ملوکیت یا آج کی جمہوریت کا نام نہیں ، بلکہ اس کا مدار خدا ترس اور عدل پرور اربابِ اقتدار پر ہے ۔ حاکم اعلیٰ عدل و انصاف کے جوہر سے مالامال ہو تو ملوکیت بھی رحمت ہے، یہ نہ ہو تو جمہوریت بھی چنگیزی کا روپ دھار لیتی ہے ، جس طرح مملکت کی آبادی و شادابی عدل و انصاف سے وابستہ ہے ، اسی طرح اشخاص کی بقاء و فلاح عدل و انصاف کی رہینِ منت ہے ۔

کسی مملکت کی تباہی وبربادی کے عوامل کا جائزہ لیجیے تو دو بنیادی چیزیں سامنے آئیں گی ، قوم کا فسق و فجور اور حکمرانوں کا ظلم و عدوان ، جب کوئی قوم خدا فراموشی کی روش اختیار کرتی ہے ، الٰہی قوانین سے سرکشی کرتی ہے اور فسق و معصیت کے نشہ میں بدمست ہو کر حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے حدود علانیہ توڑنے لگتی ہے تو ان پر جفا کیش اور جابر و ظالم حاکم مسلَّط کردیے جاتے ہیں ۔ قرآن کر یم میں کسی قوم کی تباہی و بربادی کے بارے میں ایک قانون عام بیان فرمایا ہے : وَإِذَا أَرَدْنَا أَنْ نُّھْلِکَ قَرْیَۃً أَمَرْنَا مُتْرَفِیْھَا فَفَسَقُوْا فِیْھَا فَحَقَّ عَلَیْھَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰھَا تَدْمِیْرًا ۔ (بنی اسرائیل:۱۶)
ترجمہ : اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کر نا چاہتے ہیں تو اس کے خوش عیش لوگوں کو حکم دیتے ہیں ، پھر جب وہ لوگ وہاں شرارت مچا تے ہیں ، تب ان پر حجت تمام ہوجاتی ہے ، پھر اس بستی کو تباہ اور غارت کر ڈالتے ہیں ۔

قوم کا فسق و فجور اور ملوک و سلاطین کا ظلم ہی سب سے پہلے اس عالم کی تباہی و بربادی کا ذریعہ بنتا ہے ۔ ظلم و استبداد کی چکی میں پہلے سر کش قوم پستی ہے ، بالآ خر یہی چکی ظالم و جا بر کو بھی پیس ڈالتی ہے ۔ اہلِ دانش کا قول ہے کہ : کفر کے ساتھ حکومت رہ سکتی ہے ، مگر ظلم و استبداد کے ساتھ نہیں رہ سکتی ۔

درحقیقت کا ئنات کا حقیقی تصرف و اقتدار اللہ رب العالمین اور احکم الحاکمین کے دستِ قُدرت میں ہے ۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالم کو چندے مہلت دیتا ہے ، لیکن جب اسے پکڑتا ہے تو پھر اسے نہیں چھوڑتا ۔ یہی وجہ ہے کہ ظالم حکمران زیادہ دیر تک مسندِ اقتدار پر نہیں رہ سکتا ، بلکہ دوسروں کےلیے درسِ عبرت بن کر بہت جلد رخصت ہو جاتا ہے ۔ تاریک دور کے فرعون و ہامان اور شداد و نمرود کو جانے دو ، ماضی قریب میں اسٹالن ، ہٹلر اور مسولینی وغیرہ کا عبرت ناک حشر کس نے نہیں دیکھا اور برطانیہ کا حشر بھی سب کے سامنے ہے ۔ وہ ظالم جس کی بادشاہی میں آفتاب غروب نہیں ہوتا تھا ، آج سمٹ سمٹا کر ایک چھوٹے سے جز یرے میں پناہ گز ین ہے ۔ خود ہماری مملکتِ خدا داد پاکستان کی چھوٹی سی عمر میں جابر حکمرانوں کی بے بسی کے عبرت ناک مظا ہر سامنے آتے رہے ہیں ، کیا سکندر مر زا ، غلام محمد ، ایوب خاں اور یحییٰ خاں کے قصوں کو دنیا بھول جائے گی ۔

بہر حال بقائے مملکت اور بقائے حکومت کےلیے بے حد ضروری ہے کہ اربابِ اقتدار عدل و انصاف کو قائم کریں اور قوم فسق و معصیت کا راستہ ترک کر کے انابت اور رجوع الی اللہ کا راستہ اختیار کرے ۔ دنیا کی تاریخ بالعموم اور اسلامی تاریخ بالخصوص اس حقیقت پر شاہد ہے کہ مسلمان قوم کو من حیث القوم ناؤ نوش ، فسق و فجور اور فحاشی و بدکاری کبھی راس نہیں آئی اور اس کا انجام ہمیشہ ہولناک ہوا ۔ پاکستان کی پاک سر زمین جوحق تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی اس کا تقاضا یہ تھا کہ یہاں عدل و انصاف کا دور دورہ ہوتا ، پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ، تقویٰ و طہارت کی فضا قائم ہوتی ، راعی اور رعایا اسلام کا سچا نمونہ پیش کرتے اور یہ مملکتِ خداداد دورِ جد ید میں اسلام کی نشأۃِ ثانیہ کی علمبر دار ہوتی ، لیکن افسوس صدا فسوس کہ : ⬇

خود غلط بود آنچہ ما پنداشتیم

یہاں نہ صرف یہ کہ دورِ غلامی کے تمام آثارِ کفر کو جوں کا توں باقی رہنے دیا گیا ، بلکہ آزادی کے بعد یہ فرض کر لیا گیا کہ ہم اللہ عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی آزاد ہیں ۔ سود ، قمار اور دیگر صریح محر مات کو حلال کر نے کی کوشش کی گئی ۔فواحش و منکرات کی ترویج کی گئی ۔ سینما ، ریڈیو ، ٹیلی ویژن کو بے حیائی کا مناد بنا دیا گیا ۔ رہی سہی کسر اخبارات نے پوری کردی ۔ شعائرِ دین کا مذاق اُڑایا گیا ، اسلامی قوانین کو مسخ کیا گیا ، دین کے قزاقوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع دیا گیا ۔ بے خدا قوموں کی تقلید میں آزادیِ نسواں کا پرچار کیا گیا ۔ اسلام کے مقابلہ میں نئے نئے اِزموں کے نعرے لگائے گئے اور اب تو خدا فر اموشی کی حالت ایسی نا گفتہ بہ صورت اختیار کر چکی کہ اس کے انجام کا تصور کر کے بھی رو نگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔

یہ ایک فطری اصول ہے کہ جرم انفرادی ہو تو اس کی سز ابھی افراد تک محدود رہتی ہے اور جب قوم کی قوم ہی جرم و بغاوت کا راستہ اختیار کر ے تو اس کی سزا بھی عام ہوتی ہے ۔ یہ سزا ہمیں ایک بار سقوطِ ڈھاکہ کی صورت میں مل چکی اور ابھی یہ زخم مندمل نہیں ہو پایا تھا کہ سزا کی دوسری قسط کے خطرات سر پر منڈلانے لگے ۔ (چشتی)

جس طرح روح نکل جانے کے بعد لاشۂ بے جان اپنے وجود کو محفوظ نہیں رکھ سکتا ، بلکہ اس کے اعضاء میں انحلال و انفصال کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور بالآخر سڑ گل کر منتشر ہو جاتا ہے ۔ ٹھیک اسی طرح مسلمان قوم سے اسلام کی روح نکل جائے تو نتیجہ انحلال و انتشار کے سوا کیا ہو سکتا ہے ۔ شدید خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ جس طرح امریکہ ، روس اور ہند وستان کی سازش سے ہم اپنے ملک کے ایک بڑے حصہ سے محروم ہو بیٹھے ہیں ، اسی طرح خاکم بد ہن مز ید تباہی و بربادی سے دو چار نہ ہو جائیں ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ عقلوں پر کیسے پردے آجاتے ہیں اور ان حقائق سے کیوں عبرت نہیں لی جاتی ؟ ایک طرف پورا ملک بے چینی و بے قراری کا شکار ہے ، بیم و یاس کی کیفیت طاری ہے ، ہو شربا مہنگاٸی و گِرانی سے کمر ٹوٹ رہی ہے ، خیر و برکت اُٹھ چکی ہے ۔ یہی خطۂ زمین جو دوسرے علاقوں کو غلہ فراہم کرتا تھا خود دانے دانے کےلیے دریوزہ گر ہے ۔ ہر چیز کا قحط ہے ، باہمی اُلفت و محبت اور اتحاد و اعتماد نصیبِ دشمناں ہے ۔ رشوت ، لالچ ، چور بازاری ، سٹہ بازی جیسے امراض دَق کی طرح چمٹے ہوئے ہیں ۔ چوری اور ڈاکے کی وار داتیں روز مرہ کا معمول بن چکی ہیں ۔ کیا یہ سب عذابِ الٰہی کی شکلیں نہیں؟ صد حیف کہ ان تنبیہات سے سبق نہیں لیا جاتا ، بلکہ فواحش ومنکرات میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے ۔ کلبوں اور ناچ گھروں میں عریانی بے حیائی کے دردناک مظاہر ہیں ۔ ظلم و بربریت کی آخری حدوں کو چھویا جا رہا ہے ۔ غفلت و خدا فراموشی کا نشہ دن بدن تیز سے تیز تر ہوتا جا رہا ہے ۔ آخر حق تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے والی زندگی کب تک برداشت کی جائے گی ؟ اور انتقامِ الٰہی کی بے آواز لاٹھی کب تک تھمی رہے گی ؟ گزشتہ بے خدا قوموں کے بارے میں فرمایا ہے : الَّذِیْنَ طَغَوْا فِيْ الْبِلَادِ فَأَکْثَرُوْا فِیْھَا الْفَسَادَ فَصَبَّ عَلَیْھِمْ رَبُّکَ سَوْطَ عَذَابٍ إِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ ۔ (الفجر: ۱۱ تا ۱۴)
ترجمہ : یہ سب وہ تھے جنہوں نے زمین میں سرکشی کی ، پس اس میں بہت اودھم مچا یا ، پھر بر سایا ان پر تیرے رب نے کوڑا عذاب کا ، بلاشبہ تیرا رب گھات میں ہے ۔

اِس سب دردناک صورت حال سے نجات حاصل کرنے کےلیے ازبس ضروری ہے کہ راعی اور رعایا بارگاہِ ربوبیت میں توبہ و انابت اختیار کریں ، اجتماعی معاصی سے یکسر پرہیز کریں اور گزشتہ گناہوں پر بارگاہِ رحمت میں توبہ و استغفار کریں ، اسلامی شعائر کو بلند کریں اور غیر اسلامی نشانات کو پامال کریں ۔ سورۂ نوح میں اس قسم کے معاصی کی کثرت سے قحط و تنگ سالی جیسے عذاب کا نازل ہونا اور اس کا علاج توبہ و استغفار بتایا گیا ہے : فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ إِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا یُرْسِلِ السَّمَائَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَّیُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ أَنْھٰرًا ۔ (نوح آیت نمبر ۱۰ تا ۱۲)
ترجمہ : (نوح  علیہ السلام  بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتے ہیں قوم سے خطاب کرتے ہوئے) میں نے کہا : گناہ بخشواؤ اپنے رب سے ، بے شک وہ ہے بخشنے والا ، چھوڑ دے گا تم پر آسمان کی دھاریں اور بڑھادے گا تم کو مال اور بیٹوں سے اور بنادے گا تمہارے واسطے باغ اور بنادے گا تمہارے لیے نہریں ۔

مقصد یہ کہ تو بہ و انابت کی برکت سے نہ صرف آخرت کی کامیابی و کامرانی نصیب ہوگی ، بلکہ دنیا کے عیش و آرام کی صورتیں بھی اللہ تعالیٰ اپنے فضل و احسان سے مہیا فرما دیں گے ۔ دلوں کو سکون و اطمینان نصیب ہوگا ، اموال میں خیروبرکت ہو گی ، اولاد صالح اور خدمت گار ہوگی ۔ آسمان سے ابرِ رحمت کا نزول ہوگا ، پھلوں اور غلوں کی کثرت اور بہتات ہوگی ۔ فرصت کے لمحات بہت مختصر ہیں اور فیصلے کی گھڑی سر پر آئی کھڑی ہے ، اس لیے ہمیں موجودہ حالات کا صحیح علاج فورًا کرلینا چاہیے ، ورنہ ہماری ظاہری اور سطحی تدبیریں سب ناکام ہوں گی ۔ اللہ تعالیٰ ہم پر رحمت فرمائے ، ہماری قوم کو فسق و فجور اور حکمرانوں کو ظلم و عدوان سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...