Friday, 26 January 2024

واقعہ معراج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حقائق و دلائل حصّہ اوّل

واقعہ معراج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حقائق و دلائل حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ ۔
 ترجمہ : پاکی ہے اسے جو راتوں رات اپنے بندے کو لے گیا مسجد ِحرام سے مسجد ِاقصا تک جس کے گردا گرد ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں بیشک وہ سنتا دیکھتا ہے ۔

سبحان کا معنی

سُبْحٰنَ کا معنی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی ذات ہر عیب و نقص سے پاک ہے ۔ حضرت طلحہ بن عبیداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ’’سُبْحَانَ اللّٰہ ‘‘ کی تفسیر کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ہر بری چیز سے اللّٰہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا ۔ (تفسیر مستدرک، کتاب الدعاء والتکبیر والتہلیل والتسبیح والذکر، تفسیر سبحان اللّٰہ، ۲/۱۷۷، الحدیث: ۱۸۹۱)

سبح کا معنی ہے پانی میں سرعت سے تیرنا، مجازا سیاروں کے اپنے مدار میں گردش کرنے کو بھی کہتے ہیں، قرآن مجید میں ہے : وکل فی فلک یسبحون : (سورہ یسین : 40) اور ہر ایک اپنے مدار میں تیر رہا ہے ۔ (یعنی گردش کر رہا ہے)

اور تسبیح کا معنی ہے ان اوصاف سے اللہ تعالیٰ کے پاک ہونے کو بیان کرنا جو اس کی شان کے لائق نہیں ہیں، اور اس کا اصل معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کو بہت تیزی اور سرعت کے ساتھ انجام دینا اور تسبیح کا لفظ تمام عبادات کے لیے عام ہے خواہ اس عبادت کا تعلق ول سے ہو فعل سے ہو یا نیت سے ہو ۔ (المفردات ج 1، ص 292، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ، 1418 ھ،چشتی)

سبحان کا لفظ ہر عیب اور نقص سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ اور تقدیس کے لیے ہے ، اور اللہ تعالیٰ کے غیر کو اس صفت سے موصوف کرنا ممتنع ہے، اس آیت میں بھی یہ لفظ تنزیہ کے لیے ہے یعنی اللہ تعالیٰ اس نقص سے پاک ہے کہ وہ رات کے ایک لمحہ میں اتنی عظیم سیر نہ کراسکے، تسبیح کا لفظ قرآن مجید میں تسبیح پڑھنے یعنی اللہ تعالیٰ کی تنزیہ اور تقدیس کرنے اور نماز پڑھنے کے معنی میں بھی ہے : فسبح و اطراف النھار لعلک ترضٰ ۔ (سورہ طہ : 130)

اور دن کے کناروں میں آپ نماز پڑھیے اور تسبیح کیجیے تاکہ آپ راضی ہو جائیں ۔

حدیث میں یہ لفظ نور کے معنی میں بھی آیا ہے : لا حرقت سبحات وجھہ ما ادرک بصرہ ۔ اللہ تعالیٰ کے چہرے کے انوار منتہاء بصر تک کو جلا ڈالتے ۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث : 179، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 195، 196، مسند احمد ج 4، ص 401، 405)

نیز احادیث میں سبحان کا معنی اللہ تعالیٰ کی تنزیہ ہے ۔ حضرت طلحۃ بن عبیداللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سبحان اللہ کی تفسیر پوچھی آپ نے فرمایا، ہر بری چیز سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ بیان کرنا۔ (المستدرک ج 1، ص 502، قدیم المستدرک، رقم الحدیث 189، کتاب الدعا للطبرانی رقم الحدیث : 1751، 1752، مجمع الزوائد ج 10، ص ،94،چشتی)

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے ایک دن میں سو مرتبہ ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ‘‘ پڑھا ،تو اس کے گناہ مٹا دئیے جائیں گے اگرچہ اس کے گناہ سمندر کی جھاگ کی مثل ہوں ۔ (بخاری، کتاب الدعوات، باب فضل التسبیح، ۴/۲۱۹، الحدیث: ۶۴۰۵)

حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جس نے ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ وَبِحَمْدِہٖ‘‘ کہا تو اس کے لئے جنت میں ایک درخت اُگا دیا جاتا ہے ۔ (ترمذی، کتاب الدعوات، ۵۹-باب، ۵/۲۸۶، الحدیث: ۳۴۷۵)

حضرت ابوذر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے عرض کی یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، کون سا کلام اللّٰہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’وہ کلام جسے اللّٰہ تعالیٰ نے فرشتوں کے لئے پسند فرما ہے (اور وہ یہ ہے) ’’سُبْحَانَ رَبِّیْ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ رَبِّیْ وَبِحَمْدِہٖ‘‘ ۔ (مستدرک، کتاب الدعاء والتکبیر والتہلیل ۔۔۔ الخ، احبّ الکلام الی اللّٰہ سبحان ربّی وبحمدہ،۲/۱۷۶، الحدیث:۱۸۸۹)

حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ جس شخص نے ایک دن میں سو مرتبہ پڑھا سبحان اللہ وبحمدہ تو اس کے گناہ مٹا دیئے جاتے ہیں خواہ اس کے گناہ سمندر کے جھاگ سے بھی زیادہ ہوں۔ ( صحیح البخاری، رقم الحدیث : 1405، صحیح مسلم، رقم الحدیث، 2691، سنن الترمذی، رقم الحدیث : 3468، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : 5091، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 3798)

حضرت ابوذر بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں ، اللہ تعالیٰ کو کونسا کلام سب سے زیادہ محبوب ہے ؟ فرمایا وہ کلام جس کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے لیے پسند فرما لیا ہے ۔ سبحان ربی وبحمدہ سبحان ربی وبحمدہ ۔ (المستدرک ج 1، ص 501، قدیم المستدرک رقم الحدیث : 1889، جدید صحیح مسلم رقم الحدیث : 2731، سنن الترمذی، رقم الحدیث : 3587، مسند احمد ج 5 ص 148، شرح السنہ، ج 5، ص 41)

حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا جس شخص نے سبحان اللہ العظیم کہا اس کے لیے جنت میں کھجور کا ایک درخت اگا دیا جاتا ہے ۔ (المستدرک ج 1 ص 501، قدیم المستدرک رقم الحدیث : 1890)

حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : دو کلمے زبان پر ہلکے ہیں میزان میں بھاری ہیں اللہ کے نزدیک محبوب ہیں ۔ سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم ۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث : 7563، صحیح مسلم رقم الحدیث : 1694، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 3806، سنن الترمذی، رقم الحدیث : 3467، مسند احمد رقم الحدیث : 7167 م عالم الکتب)

حضرت سمرہ بن جندب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : اللہ کے نزدیک سب سے محبوب کلام چار ہیں : سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ۔ تم ان میں سے جس کلام سے ابتدا کرو تمہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا ۔ (الحدیث) (صحیح مسلم، رقم الحدیث : 2137،چشتی)

علاّمہ حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : سبحان اللہ کہنے کا معنی ہے اللہ تعالیٰ ہر نقص سے اور ہر ایسی چیز سے پاک ہے جو اس کی شان کے لائق ہیں ہے اور اس کو یہ لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ شریک سے، بیوی سے، بچوں سے، اور تمام رذائل سے پاک ہے، تسبیح کا لفظ بولا ا جاتا ہے اور اس سے ذکر کے تمام الفاظ مراد ہوتے ہیں وار کھی اس سے نفلی نماز مراد ہوتی ہے، صلوۃ التسبیح اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں بکثرت تسبیحات ہیں، سبحان کا لفظ بالعموم اضافت کے ساتھ استعمال ہوتا ہے ۔ (فتح الباری ج 11، ص 207، مطبوعہ لاہور، 1401 ھ)

یاد رہے کہ ہر اسمِ الٰہی کی تجلی عامل پر پڑتی ہے یعنی جو جس اسمِ الٰہی کا وظیفہ کرتا ہے اُس میں اُسی کا اثر پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے چنانچہ جو ’’یَا سُبْحَانُ‘‘کا وظیفہ کرے تواللّٰہ تعالیٰ اسے گناہوں سے پاک فرمائے گا ۔ جو’’یَا غَنِیُّ ‘‘ کا وظیفہ پڑھے تو وہ خود غنی اور مالدار ہوجائے گا، اسی طرح جو یَاعَفُوُّ ، یَا حَلِیْمُ کا وظیفہ کرے تو اس میں یہی صفات پیدا ہونا شروع ہوجائیں گی۔ اسی مناسبت سے یہاں ایک حکایت ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت ابو بکر بن زیَّات رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے منقول ہے کہ ایک شخص حضرت معروف کرخی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی :حضور! آج صبح ہمارے ہاں بچے کی ولادت ہوئی ہے اور میں سب سے پہلے آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکے پاس یہ خبر لے کر آیا ہوں تاکہ آپ کی برکت سے ہمارے گھرمیں خیر نازل ہو ۔ حضرت معروف کرخی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا ’’اللّٰہ تعالیٰ تمہیں اپنے حفظ واَمان میں رکھے ۔یہاں بیٹھ جاؤ اورسو مرتبہ یہ الفاظ کہو ’’مَا شَاءَ اللّٰہُ کَانَ‘‘یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے جو چاہا وہی ہوا۔ اس نے سو مرتبہ یہ الفاظ دہرا لئے توآپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا’’ دوبارہ یہی الفاظ کہو ۔ اس نے سو مرتبہ پھر وہی الفاظ دہرائے۔ آپ نے فرمایا ’’پھر وہی الفاظ دہراؤ۔ اس طرح پانچ مرتبہ اسے (وہ الفاظ دہرانے کا ) حکم دیا ۔ اتنے میں ایک وزیر کی والدہ کا خادم ایک خط اور تھیلی لے کر حاضر ہوا اور کہا :’ ’اے معروف کرخی ! رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ،اُمِّ جعفر آپ کو سلام کہتی ہے ، اس نے یہ تھیلی آپ کی خدمت میں بھجوائی ہے اورکہا ہے کہ آپ غُرباء و مساکین میں یہ رقم تقسیم فرما دیں ۔ یہ سن کر آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے قاصد سے فرمایا ’’ رقم کی تھیلی اس شخص کو دے دو، اس کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی ہے۔ قاصد نے کہا: یہ 500 درہم ہیں، کیا سب اسے دے دوں ؟ آپ نے فرمایا ’’ہاں !ساری رقم اسے دے دو، اس نے پانچ سو مرتبہ ’’مَا شَاءَ اللّٰہُ کَانَ‘‘ کہا تھا۔ پھر اس شخص کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ’’ یہ پانچ سو درہم تمہیں مبارک ہوں، اگر اس سے زیادہ مرتبہ کہتے تو ہم بھی اتنی ہی مقدار مزید بڑھا دیتے ۔ ( جاؤ !یہ رقم اپنے اہل وعیال پر خرچ کرو) ۔ (عیون الحکایات، الحکایۃ التاسعۃ بعد الثلاث مائۃ، ص۲۷۷،چشتی)

سُبْحٰنَ الَّذِیۡۤ : پاک ہے وہ ذات ۔ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ہر کمزوری، عیب اور نقص سے خداوند ِ قدوس کی عظیم ذات پاک ہے جس نے اپنے خاص بندے یعنی مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو شبِ معراج رات کے کچھ حصے میں مسجد ِحرام سے مسجد ِاقصیٰ تک سیر کرائی حالانکہ مسجد ِ اقصیٰ مکۂ مکرمہ سے تیس دن سے زیادہ کی مسافت پر ہے ، وہ مسجد ِاقصیٰ جس کے اردگرد ہم نے دینی و دُنْیَوی برکتیں رکھی ہیں اور سیر کرانے کی حکمت یہ تھی کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو اپنی عظمت اور قدرت کی عظیم نشانیاں دکھانا چاہتا تھا ۔ روایت ہے کہ جب سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شب ِمعراج درجاتِ عالیہ اور مَراتبِ رفیعہ پر فائز ہوئے تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے خطاب فرمایا ، اے محمد! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) یہ فضیلت و شرف میں نے تمہیں کیوں عطا فرمایا ؟ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عرض کی :اس لئے کہ تو نے مجھے عَبْدِیَّت کے ساتھ اپنی طرف منسوب فرمایا۔ اس پر یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی ۔ (تفسیر خازن، الاسرائ، تحت الآیۃ: ۱، ۳/۱۵۳-۱۵۴)

اسریٰ کا معنی

اسری کا لفظی سری سے بنا ہے، اس کا معنی ہے رات کو جانا، اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط سے فرمایا : فاسر باھلک ۔ (سورہ ھود : 81)

آپ رات میں اپنے اہل کو لے جائیں ۔

نیز فرمایا : سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا ۔ (سورہ بنی اسرائیل : 1)

سبحان ہے وہ جو اپنے بندے کو رات کے ایک لمحۃ میں لے گیا ۔ (المفردات : ج 2، ص 305، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ، 1418 ھ)

اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ : اپنے بندے کو سیر کرائی ۔ آیت کے اس حصے میں نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معراج شریف کا تذکرہ ہے ۔ معراج شریف نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ایک جلیل معجزہ اور اللّٰہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے اور اس سے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا وہ کمالِ قرب ظاہر ہوتا ہے جو مخلوقِ الٰہی میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سوا کسی کو مُیَسَّر نہیں ۔

معراج شریف سے متعلق چند  باتیں قابلِ ذکر ہیں :

(1)  ۔نبوت کے بارہویں سال  نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ معراج سے نوازے گئے ، البتہ مہینے کے بارے میں اختلاف ہے مگر زیادہ مشہور یہ ہے کہ ستائیسویں رجب کو معراج ہوئی ۔

(2) ۔ مکۂ مکرمہ سے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا     بیتُ المقدس تک رات کے چھوٹے سے حصہ میں تشریف لے جانا نصِ قرآنی سے ثابت ہے، اس کا منکر کافر ہے اور آسمانوں کی سیر اور مَنازلِ قرب میں پہنچنا اَحادیث ِصحیحہ مُعتمدہ مشہورہ سے ثابت ہے جو حدِ تَواتُر کے قریب پہنچ گئی ہیں، اس کا منکر گمراہ ہے ۔

 (3) ۔ معراج شریف بحالت ِبیداری جسم و روح دونوں کے ساتھ واقع ہوئی، یہی جمہور اہلِ اسلام کا عقیدہ ہے اور اصحابِ رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی کثیر جماعتیں اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جلیل القدر صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ اسی کے معتقد ہیں، آیات و اَحادیث سے بھی یہی سمجھ آتا ہے اور جہاں تک بیچارے فلسفیوں کا تعلق ہے جو علّت و مَعلول کے چکر میں پھنس کر عجیب و غریب شکوک و شُبہات کا شکار ہیں تو ان کے فاسد اَوہام مَحض باطل ہیں، قدرتِ الٰہی کے معتقد کے سامنے وہ تمام شبہات محض بے حقیقت ہیں ۔ (تفسیرات احمدیہ، بنی اسرائیل، : ۱، ص۵۰۵، ) (روح البیان، الاسرائ، تحت الآیۃ: ۱، ۵/۱۰۴،چشتی)(خزائن العرفان، بنی اسرا ئیل، :۱،ص۵۲۵)

معراج شریف کے بارے میں سینکڑوں اَحادیث ہیں جن کا ایک مختصر خلاصہ یہاں پیش کیا جاتا ہے۔ چنانچہ معراج کی رات حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہوئے  ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو معراج کی خوشخبری سنائی اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا مقدس سینہ کھول کر اسے آبِ زمزم سے دھویا، پھر اسے حکمت و ایمان سے بھر دیا۔ اس کے بعدنبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں براق پیش کی اور انتہائی اِکرام اور احترام کے ساتھ اس پر سوار کرکے مسجد ِاقصیٰ کی طرف لے گئے ۔ بیتُ المقدس میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تمام اَنبیاء و مُرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی امامت فرمائی  ۔پھر وہاں سے آسمانوں کی سیر کی طرف 
متوجہ ہوئے ۔ حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام نے باری باری تمام آسمانوں کے دروازے کھلوائے، پہلے آسمان پر حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضور ِاقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت و ملاقات سے مشرف ہوئے ، انہوں نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی عزت و تکریم کی اور تشریف آوری کی مبارک بادیں دیں  ،حتّٰی کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی طرف سیر فرماتے اور وہاں کے عجائبات دیکھتے ہوئے تمام مُقَرَّبین کی آخری منزل سِدرۃُ المنتہیٰ تک پہنچے ۔ اس جگہ سے آگے بڑھنے کی چونکہ کسی مقرب فرشتے کو بھی مجال نہیں ہے ا س لئے حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام آگے ساتھ جانے سے معذرت کرکے وہیں رہ گئے ، پھر مقامِ قربِ خاص میں  نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ترقیاں فرمائیں اور اس قربِ اعلیٰ میں پہنچے کہ جس کے تَصَوُّر تک مخلوق کے اَفکار و خیالات بھی پرواز سے عاجز ہیں۔ وہاں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  پر خاص رحمت و کرم ہوا اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   انعاماتِ الٰہیہ اور مخصوص نعمتوں سے سرفراز فرمائے گئے، زمین و آسمان کی بادشاہت اور ان سے افضل و برتر علوم پائے ۔ اُمت کے لئے نمازیں فرض ہوئیں ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بعض گناہگاروں کی شفاعت فرمائی، جنت و دوزخ کی سیر کی اور پھر دنیا میں اپنی جگہ واپس تشریف لے آئے۔ جب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے اس واقعے کی خبریں دیں تو کفار نے اس پر بہت واویلا کیا اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  سے بیتُ المقدس کی عمارت کا حال اور ملک ِشام جانے والے قافلوں کی کَیفِیَّتیں دریافت کرنے لگ گئے  ۔نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے انہیں سب کچھ بتا دیا اور قافلوں کے جو اَحوال نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بتائے تھے ، قافلوں کے آنے پر اُن سب کی تصدیق ہوئی۔
 
اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جو معراج عطا فرمائی اور اپنے کلیم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جو معراج عطا فرمائی ، یہاںاِن میںفرق ملاحظہ ہو، چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : کلیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی معراج درخت ِدنیا پر ہوئی  (چنانچہ ارشاد فرمایا) 
’’نُوۡدِیَ مِنۡ شَاطِیَٔ  الْوَادِ الْاَیۡمَنِ فِی الْبُقْعَۃِ الْمُبٰرَکَۃِ مِنَ الشَّجَرَۃِ‘‘ ۔ (قصص:۳۰) 
برکت والی جگہ میں میدان کے دائیں کنارے سے ایک درخت سے انہیں ندا کی گئی۔(ت)
 حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی معراج سِدرۃُ المنتہیٰ وفردوسِ اعلیٰ تک بیان فرمائی(چنانچہ ارشاد فرمایا)
’’عِنۡدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی ﴿۱۴﴾ عِنۡدَہَا جَنَّۃُ الْمَاۡوٰی‘‘ ۔ (النجم:۱۴،۱۵)
سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔اس کے پاس جنت الماویٰ ہے ۔ (ت)۔(فتاوی رضویہ، ۳۰/۱۸۲)
مزید فرماتے ہیں:کلیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالتَّسْلِیْم پر حجاب ِنار سے تجلی ہوئی (چنانچہ ارشاد فرمایا)
’’فَلَمَّا جَآءَہَا نُوۡدِیَ اَنۡۢ بُوۡرِکَ مَنۡ فِی النَّارِ وَمَنْ حَوْلَہَا‘‘ ۔ (نمل:۸)
پھر موسیٰ آگ کے پاس آئے تو (انہیں) ندا کی گئی کہ اُس (موسیٰ) کو جو اس آگ کی جلوہ گاہ میں ہے اور جو اس (آگ) کے آس پاس(فرشتے)ہیں انہیں برکت دی گئی۔(ت)
حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ پر جلوۂ نور سے تجلی ہوئی اوروہ بھی غایت تفخیم وتعظیم کیلئے بَالفاظِ اِبہام بیان فرمائی گئی (کہ)
’’اِذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَا یَغْشٰی‘‘ ۔  (نجم:۱۶) ۔جب چھا گیا سدرہ پر جو کچھ چھایا۔(فتاوی رضویہ، ۳۰/۱۸۲-۱۸۳)
(اللّٰہ تعالیٰ نے) کلیمُ اللّٰہ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالتَّسْلِیْم سے طور پر کلام کیا اور اسے سب پر ظاہر فرما دیا  (چنانچہ ارشاد فرمایا) 
’’وَ اَنَا اخْتَرْتُکَ فَاسْتَمِعْ لِمَا یُوۡحٰی ﴿۱۳﴾ اِنَّنِیۡۤ اَنَا اللہُ لَا اِلٰہَ اِلَّااَنَا فَاعْبُدْنِیۡ ۙ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیۡ‘‘ ۔(طٰہٰ:۱۳،۱۴)  الٰی اٰخر الاٰیات۔(آیات کے آخر تک)
اور میں نے تجھے پسند کیا تواب اسے غور سے سن جو وحی کی جاتی ہے۔بیشک میں ہی اللّٰہ ہوں ،میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری عبادت کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ۔(ت)

حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے فوق السَّمٰوٰت مُکالَمہ فرمایا اور سب سے چھپایا (چنانچہ ارشاد فرمایا) 

’’فَاَوْحٰی اِلٰی عَبْدِہٖ مَااَوْحٰی‘‘  ۔ (النجم:۱۰)
پھر اس نے اپنے بندے کو وحی فرمائی جو اس نے وحی فرمائی۔(ت)۔(فتاوی رضویہ، ۳۰/۱۷۹-۱۸۰)

اِلَی الْمَسْجِدِ الۡاَقْصَا:مسجد ِاقصیٰ تک  ۔  نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کومسجد ِاقصیٰ تک سیر کرانے میں ایک حکمت یہ ہے کہ تمام اَنبیاء و مُرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا شرف اور فضیلت ظاہر ہو جائے کیونکہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان کی جگہ میں انہیں امام بن کر نماز پڑھائی اور جسے گھر والوں پر مُقَدّم کیا جائے اس کی شان یہ ہوتی ہے کہ و ہ سلطان ہوتا ہے کیونکہ سلطان کو اپنے علاوہ لوگوں پر مُطْلَقاً تَقَدُّم حاصل ہے۔ دوسری حکمت یہ ہے کہ حشر کے دن مخلوق اسی سرزمین میں جمع ہو گی اس لئے یہ جگہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قدموں کی برکات سے نہال ہو جائے تاکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت پر محشر میں وُقوف آسان ہو۔(تفسیر صاوی، الاسرائ، تحت الآیۃ: ۱، ۳/۱۱۰۶)

 اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ پہلی حکمت کے حوالے سے کیا خوب فرماتے ہیں :

نمازِ اقصیٰ میں تھا یہی سرعیاں ہوں معنی ٔاول آخر
کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے

اَلَّذِیۡ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ: جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں ۔ آیت کے اس حصے میں اللّٰہ تعالیٰ نے مسجد ِاقصیٰ کی شان بیان فرمائی کہ اس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں دینی بھی اور دنیوی بھی ۔ دینی برکتیں یہ کہ وہ سرزمینِ پاک وحی کے اترنے کی جگہ اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عبادت گاہ اور ان کی قیام گاہ بنی اور ان کی عبادت کا قبلہ تھی۔ دنیوی برکتیں یہ کہ وہاں قرب و جوار میں نہروں اور درختوں کی کثرت تھی جس سے وہ زمین سرسبز و شاداب ہے اور میووں اور پھلوں کی کثرت سے بہترین عیش و راحت کا مقام ہے ۔(تفسیر مدارک، الاسرائ، تحت الآیۃ: ۱، ص۶۱۵،)(تفسیر خازن، الاسرائ، تحت الآیۃ: ۱، ۳/۱۵۴)(تفسیر خزائن العرفان، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۱، ص۵۲۵)

لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا: تاکہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں ۔آیت کے اس حصے میں معراج شریف کی ایک حکمت بیان کی گئی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو رات کے کچھ حصے میں مسجد ِ حرام سے مسجد ِاقصیٰ تک سیر کرائی تاکہ ہم انہیں اپنی قدرت کے عجائبات دکھائیں۔علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی  عَلَیْہ فرماتے ہیں : بے شک اس رات نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیکھا، انہیں نماز پڑھائی اور بڑی عظیم نشانیاں دیکھیں  ۔ مزید فرماتے ہیں: اس آیت میں ’’مِنْ اٰیٰتِنَا‘‘ کے الفاظ ہیں ،جن کا مطلب یہ ہے کہ کچھ نشانیاں دکھائیں جبکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’ وَکَذٰلِکَ نُرِیۡۤ اِبْرٰہِیۡمَ مَلَکُوۡتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ‘‘اور اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی عظیم سلطنت دکھاتے ہیں ۔(انعام:۷۵)  اس آیت کے ظاہر سے ایسا لگتا ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر فضیلت حاصل ہے ، حالانکہ ایسا نہیں اور نہ ہی کوئی ان کی نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پراِس اعتبار سے فضیلت کا قائل ہے کیونکہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت بھی اللّٰہ تعالیٰ کی  (تمام نہیں بلکہ)بعض ہی نشانیاں ہیں جبکہ اللّٰہ تعالیٰ کی (دوسری) نشانیاں اِس(آسمان و زمین کی بادشاہت) سے کہیں زیادہ اور بڑھ کرہیں اور  (اسی اعتبار سے ہم کہتے ہیں کہ) اللّٰہ تعالیٰ نے معراج کی رات اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جو نشانیاں و عجائبات دکھائے وہ زمین و آسمان کی بادشاہت سے بڑھ کر ہیں ، اس بیان سے ظاہر ہو گیا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر فضیلت حاصل ہے ۔ (تفسیر خازن، الاسرائ، تحت الآیۃ: ۱، ۳/۱۵۴،چشتی)

بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ معراج خواب کا واقعہ ہے اور بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صرف آپ کی روح کو معراج ہوئی تھی آپ کے جسم کو معراج نہیں ہوئی تھی ، ہم ان روایات کو ذکر کر کے پھر ان کے جوابات عرض کریں گے ان شاء اللہ ۔

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوجی 310 ھ رحمۃ اللہ علیہ  اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں  : عتبہ بن مغیرہ بن الاخنس بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت معاویہ بن ابی سفیان سے رسول اللہ کی معراج کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا یہ اللہ کی طرف سے سچا خواب تھا۔ (جامع البیان، رقم الحدیث : 16628، الدر المنثور : ج 5، ص 227، مطبوعہ دار الفکر بیروت)
محمد بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے بعض آل ابی بکر نے کہا کہ حضرت عائشہ کہتی تھیں کہ رسول اللہ کا جسم گم نہیں ہوا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح کو سیر کرائی تھی۔ (جامع البیان، رقم الحدیث : 16630، الدر المنثور ج 5، ص 227، مطبوعہ دار الفکر بیروت)
سلمہ بیان کرتے ہیں کہ امام ابن اسحاق نے کہا حضرت عائشہ کے اس قول کا انکار نہیں کیا گیا اور اس کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے  : وما جعلنا الرویا التی ارینک الا فتنۃ للناس۔ (بنی اسرائیل : 60) اور وہ جلوہ جو ہم نے آپ کو (شب معراج) دکھایا تھا ہم نے اس کو لوگوں کے لیے محض آزمائش بنادیا۔
ان کا استدلال اس سے ہے کہ رویا کا معنی خواب ہے یعنی شب معراج آپ کو جو خواب دکھایا تھا اس کی وجہ سے لوگ فتنہ میں پڑگئے بعض اس کی تصدیق کرکے اپنے ایمان پر قائم رہے اور بعض اس کا انکار کر کے مرتد ہوگئے۔ (ہمیں مرتد ہونے والوں کے ناموں کی تصریح نہیں ملی) اور حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے سے کہا :یبنی انی اری فی المنام انی اذبحک فانظر ما ذا تری۔ (الصفات : 102) اے میرے بیٹے ! بیشک میں نے خواب میں یہ دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں تو اب غور کرو تمہاری کیا رائے ہے۔
پھر حضرت ابراہیم نے اپنے خواب پر عمل کیا، اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء  (علیہم السلام)  کے پاس خواب اور بیداری دونوں حالتوں میں وحی نازل ہوتی تھی اور خود رسول اللہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے فرمایا میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل جاگتا رہتا ہے اور اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ واقعہ معراج آپ کو نیند میں دکھایا گیا تھا یا بیداری میں، اور یہ واقعہ جس حالت میں بھی پیش آیا تھا وہ حق اور صادق ہے۔ (جامع البیان، رقم الحدیث : 16630، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1415 ھ)

خواب میں معراج کی روایات کے جوابات 

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی 310 ھ رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں  : ہمارے نزدیک صحیح اور برحق قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندہ سیدنا محمد  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو رات میں مسجد حرام سے مسجد اقسی تک کی سیر کرائی جیسا کہ احادیث میں ہے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو براق پر سوار کرایا اور آپ نے مسجدا قصی میں انبیاء اور رسول کو نماز پڑھائی، اور آپ کو بہت سی نشانیاں دکھائیں، اور جس شخص نے یہ کہا کہ صرف آپ کی روح کو معراج کرائی گئی تھی اور یہ جسمانی معراج نہیں تھی یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو یہ واقعہ آپ کی نبوت پر دلیل نہ ہوتا، اور نہ اس کی حقیقت کا منکرین انکار کرتے، اور اگر یہ صرف خواب کا واقعہ ہوتا تو مشرکین اس کا رد نہ کرتے، کیونکہ خواب میں کسی عجیب و غریب چیز کو دیکھنے پر کسی کو حیرت نہیں ہوتی اور نہ کوئی اس کا انکار کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اسری بعبدہ یہ نہیں فرمایا کہ اسری بروح عبدہ، اور نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا براق پر سوار ہونا بھی اس کا تقاضا کرتا ہے کہ یہ جسمانی معراج تھی کیونکہ کسی سواری پر سوار ہونا جسم کا تقاضا ہے نہ کہ روح کا۔ (جامع البیان، ج 15، ص 23، 24، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1415 ھ،چشتی)

علامہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی 668 ھ رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں  : اگر یہ خواب کا واقعہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ فرماتا بروح عبدہ اور بعبدہ نہ فرماتا، نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا  : مازاغ البصر وما طغی۔ (النجم : 17)  نہ نظر ایک طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی) 
 سورة النجم کی یہ آیت بھی اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ بیداری کا واقعہ تھا، نیز اگر یہ خواب کا واقعہ ہوتا تو اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی نشانی اور معجزہ نہ ہوتا، اور آپ سے حضرت ام ہانی یہ نہ کہتیں کہ آپ لوگوں سے یہ واقعہ بیان نہ کریں وہ آپ کی تکذیب کریں گے، اور نہ حضرت ابوبکر کی تصدیق کرنے میں کوئی فضیلت ہوتی، اور نہ قریش کے طعن وتشنیع اور تکذیب کی کوئی وجہ ہوتی، حالانکہ جب آپ نے معراج کی خبر دی تو قریش نے آپ کی تکذیب کی اور کئ مسلمان مرتد ہوگئے اور اگر یہ خواب ہوتا تو اس کا انکار نہ کیا جاتا، اور نیند میں جو واقعہ ہو اس کے لیے اسری نہیں کہا جاتا۔ (الجامع الاحکام القرآن، جز 10، ص 189، مطبوعہ دار الفکر، 1415 ھ)

علامہ سید محمد آلوسی متوفی 1270 ھ رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں  : حضرت عائشہ نے جو فرمایا ہے کہ آپ کا جسم شب معراج گم نہیں ہوا تھا اور آپ کی روح کو سیر کرائی گئی تھی، حضرت عائشہ سے یہ روایت صحیح نقل نہیں کی گئی کیونکہ جب یہ واقعہ ہوا اس وقت آپ بہت چھوٹی تھیں، (تقریربا ساڑھے چار سال کی) اس وقت تک آپ رسول اللہ کی زوجہ بھی نہیں تھیں، اور معاویہ بن ابی سفیا اس وقت کافر تھے، اور اس آیت سے جو استدلال کیا گیا ہے۔ وما جعلنا الرویا التی ارینک الا فتنۃ للناس۔ (بنی اسرائیل : 60) اور ہم نے آپ کو جو رویا دکھایا وہ صرف اس لیے تھا کہ لوگوں کو آزمائش میں مبتلا کریں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ رویا نیند اور بیداری دونوں میں دیکھنے کے لیے آتا ہے اور جمہور کے نزدیک یہ رویا بیداری میں بدن اور روح کے ساتھ واقع ہوا۔ (روح المعانی ج 15، ص 10، 11، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1417 ھ)
شریک کی ایک روایت جس سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ معراج کا واقعہ خواب کا تھا  : شریک بن عبداللہ بن ابی نمر بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک سے معراج کا واقعہ سنا انہوں نے کہا رسول اللہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  مسجد کعبہ میں سوئے ہوئے تھے، نزول وحی سے پہلے آپ کے پاس تین شخص آئے، پھر معراج کا پورا واقعہ بیان کیا۔ امام مسلم فرماتے ہیں شریک نے بعض چیزوں کو مقدم کردیا اور بعض کو موخر کردیا اور روایت میں بعض چیزوں کی زیادتی کی اور بعض کی کمی کی۔ ( صحیح مسلم، باب الاسراء : 262، رقم الحدیث : 261، رقم الحدیث المسلسل، 407، صحیح البخاری رقم الحدیث : 7517، 3570)

علامہ یحییٰ بن شرف نووی متوفی 676 ھ  رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں  : رسول اللہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی معراج کے متعلق علماء کا اختلاف ہے، ایک قول یہ ہے کہ پوری معراج خواب میں ہوئی تھی، لیکن اکثر متقدمین اور متاخرین علماء، فقہاء، محدثین اور متکلمین کا اس پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو جسمانی معراج ہوئی ہے، اور تمام احادیث صحیحہ اس پر دلالت کرتی ہیں اور بغیر کسی دلیل کے ان کے ظاہر معنی سے عدول کرنا جائز نہیں ہے، شریک کی جس روایت کا ابھی ذکر کیا گیا ہے وہ بظاہر اس کے خلاف ہے، لیکن شریک کے بہت اوہام ہیں جن کا علماء نے انکار کیا ہے اور خود امام مسلم نے اس پر تنبیہ کی ہے اور کہا ہے کہ اس نے اپنی روایت میں تقدیم، تاخیر اور زیادتی اور کمی کی ہے اور یہ کہا کہ معراج کا واقعہ نزول وحی سے پہلے کا ہے، اس کا یہ قول غلط ہے کسی نے اس کی موافقت نہیں کی، معراج کی تاریخ میں کافی اختلاف ہے زیادہ قوی یہ ہے کہ معراج ہجرت سے تین سال پہلے ہوئی ہے، کیونکہ اس میں اختلاف نہیں ہے کہ حضرت خدیجہ نے نماز کی فضیت کے بعد رسول اللہ کے ساتھ نماز پڑھی ہے اور اس میں بھی اختلاف نہیں ہے کہ حضرت خدیجہ کی وفات ہجرت سے پہلے ہوئی ہے، ایک قول یہ ہے کہ ہجرت سے تین سال پہلے اور ایک قول ہے ہجرت سے پانچ سال پہلے ۔ (صحیح مسلم بشرح النووی ج 1، ص 935، 939، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، 1417 ھ) ، علامہ نووی نے یہ تحقیق قاضی عیاض مالکی اندلسی متوفی 544 ھ سے اخذ کی ہے۔ (اکمال المعلم بفوائد مسلم ج 1، ص 491 م 497، مطبوعہ دار الوفاء، 1419 ھ) ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...