Sunday, 21 January 2024

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

محترم قارئینِ کرام : خاتون جنت حضرت سیّدہ طیّبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی ولادت کے سال میں اختلاف ہے تو تاریخِ ولادت کا پتہ چلنا مشکل ہے ۔ فقیہ ملت مفتی جلال الدین امجدی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ آپ کی پیداٸش کے سال میں اختلاف ہے بعض لوگوں نےکہا کہ جب نبی کریم علیہ افضل الصلوات واکمل التسلیم کی عمر شریف اکتالیس برس کی تھی آپ پیدا ہوٸیں اور کچھ لوگوں نے لکھا ہے کہ اعلانِ نبوت سے ایک سال قبل ان کی ولادت ہوٸی ۔ اور علامہ ابن جوزی نے تحریر فرمایا ہے کہ اعلان نبوت سے پانچ سال پہلے جبکہ خانہ کعبہ کی تعمیر ہورہی تھی تب آپ پیدا ہوٸیں ۔ (خطبات محرم صفحہ 263)

کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یوم پیدائش 20 جمادی الثانی کے حوالے سے دو کتابوں عقداللول اور انھا فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کو حوالے کے طور پر  پیش کر رہے ہیں ۔ ان پر فرض ہے کہ پہلے ان مصنفین کا تعارف مکمل پیش کریں کہ اہل سنت کے ہاں ان کی ویلیو کیا ہے ؟ اور انہوں نے 20 جمادی الثانی سیدہ فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی تاریخ ولادت کس قدیمی سنی معتبر ماخذ سے نقل کی ہے ؟ ۔ یا ذاکروں کی طرح انہیں آواز آئی ہے ؟

اگر ان وہ ان دو کتابوں کے مصنفین کو اہل سنت ثابت نہ کر سکیں ۔ اور نہ ہی 20 جمادی الثانی کو اہل سنت کے کسی معتبر مآخذ میں دیکھا سکیں تو شرم سے ڈوب کر مر جانا چاہیے کہ کس طرح بد دیانتی و بے شرمی سے اہل سنت قوم کو ذکر اہل بیت کے دھوکے میں روافض دشمن صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم کے پیچھے چلایا جا رہا ہے ۔ اور سنی ہونے کا دعویٰ بھی ہے ۔ نعوذباللہ من شرکم ۔

بعض لوگ 20 جمادی الآخرۃ کو حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا یومِ ولادت قرار دے رہے ہیں ۔ چوں کہ یہ 14 سو سال پہلے کی تاریخ ہے اس لیے ان لوگوں سے کسی قدیم اور معتبر سنی کتابِ سیرت یا تاریخ کا حوالہ طلب کیا گیا ۔ مگر کوئی حوالہ وہ نہیں پیش کر سکے ۔ اب کسی طرح تلاش کر بطور حوالہ دو معاصر اہلِ علم کی کتابیں پیش کر رہے ہیں ۔ پہلی ڈاکٹر محمد عبدہ یمانی کی "اِنھا فاطمۃ الزھراء" اور دوسری شیخ محمد بن حسن بن علوی الحداد کی "عقد اللول"۔ یہ دونوں حضرات (یعنی ڈاکٹر عبدہ یمانی اور شیخ محمد بن حسن بن علوی الحداد) آج کے ہیں ۔ ڈاکٹر عبدہ یمانی کا چند سال قبل وصال ہوا ہے اور شیخ محمد بن حسن بن علوی الحداد کے بارے میں مجھے یہ معلوم نہیں کہ ان کا وصال ہو چکا ہے یا ابھی باحیات ہیں ۔ بمشکل صرف اتنا معلوم ہو سکا ہے کہ ان کی ولادت تقریبا 75 سال قبل 1365ھ کے آس پاس ہوئی ، اور یمن سے ہجرت کرکے یہ مکہ مکرمہ میں رہنے لگے تھے ۔ غرض ، یہ دونوں ہمارے معاصر ہیں اور انہوں نے خود بلاحوالہ لکھا ہے ۔ اور معاصرین کے بلاحوالہ دعوے قابلِ توجہ نہیں ہوتے ۔

گزارش ہے کہ کسی قدیم سنی ماخذ (تاریخ و سیرت) کا کوئی حوالہ اگر ہو تو ہمارے علم میں اضافہ فرمائیں ۔ ورنہ غیر متعلق باتوں میں اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع نہ فرمائیں ۔

خاتون جنت  والدہ حسنین کریمین جگر گوشہ بتول سیدہ طیبہ طاھرہ عابدہ زاھدہ حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہم کی تاریخ پیدائش کے متعلق مدارج النبوۃ مترجم میں ہے : حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چوتھی صاحبزادی سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا ہیں سیدہ فاطمہ کی پیدائش ولادت نبوی کے اکتالیسویں سال میں ہوئی اہل سیر کہتے ہیں کہ یہ قول ابو بکر رازی علیہ الرحمہ کا ہے اور یہ قول اس کے مخالف ہے جسے ابن اسحاق علیہ الرحمہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد کے بارے میں بیان کیا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام اولاد اظہار نبوت سے قبل پیدا ہوئی ہیں بجز حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس لیے کہ اس قول کے بموجب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ولادت بعد از نبوت ایک سال بعد میں ہوئی ہے  ۔

ابن جوزی نے کہا ہے کہ سیدہ فاطمہ کی ولادت اظہار نبوت سے پانچ سال پہلے ہے مشہور تر روایت یہی ہے ۔ (مدارج النبوہ جلد 2 صفحہ 534 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)

جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا کہ حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی تاریخ پیدائش میں اختلاف ہے ۔ امام ابوجعفر باقر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر ۳۵ سال تھی اور کعبہ زیر تعمیر تھا ۔ جب حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا پیدا ہوئی اور عبید اللہ بن محمد بن سلیمان بن جعفر ہاشمی کا قول ہے : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر ٣١ سال تھی جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا  کی ولادت ہوئی ۔ بعثت سے ایک سال یا کچھ زیادہ عرصہ پہلے ولادت ہوئی ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے قریباً پانچ سال بڑی تھیں ۔ ۲ ھجری اوائل محرم میں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے ان کا نکاح ہوا ۔ اور تاریخ وفات بقول واقدی منگل کی رات ۳ رمضان المبارک ۱۱ ہجری ہے ۔  (الاصابة لابن حجر جلد نمبر ۴ صفحہ نمبر ۳۶۵،چشتی)

حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی ولادت باسعادت مشہور روایت کے مطابق ’’بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک سال بعد بروز جمعۃ المبارک بمقام مکہ مکرمہ ہوئی ۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر باب باب ذكر بنيه وبناته عليه الصلاة و السلام و أزواجه)

سیرت نگاروں کے نزدیک حضرت سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا بنت رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کے سن ولادت میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ بعض حضرات لکھتے ہیں کہ جس زمانہ میں قریشِ مکہ کعبہ شریف کی بنا کر رہے تھے اس زمانہ میں حضرت فاطمہ رضی ﷲ عنہا کی ولادت باسعادت حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی ﷲ عنہا کے بطن مبارک سے ہوئی اور اس وقت نبی کریم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کی عمر مبارک پینتیس سال کو پہنچ چکی تھی ۔ یہ واقعہ نبوت سے قریباً پانچ برس پہلے کا ہے ۔ (طبقات ابن سعد صفحہ ۱۱ جلد ۸ تحت ذکر فاطمہ رضی ﷲ عنہا طبع لیڈن،چشتی)(الاصابہ لابن حجر صفحہ ۳۶۵ جلد ۴ تحت ذکر فاطمہ رضی ﷲ عنہا)(تفسیر القرطبی ص:۲۴۱،ج:۱۴، تحت آیت قل لازواجک وبنا تک ۔ الخ سورۃ احزاب)

بعض علماء کے نزدیک ان کی ولادت بعثت نبوی صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کے قریب ہوئی اور نبی کریم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کی عمر مبارک اس وقت اکتالیس سال تھی ۔ اسی طرح مزید اقوال بھی اس مقام میں منقول ہیں ۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجر صفحہ ۳۶۵ جلد ۴ تحت تذکرہ فاطمۃ الزہرہ رضی ﷲ عنہا)

حضرت سیّدہ طیّبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کے وصال مبارک کے متعلق شیعہ رافضی انتہائی گھٹیا و بیہودہ باتیں کرتے ہیں اور جھوٹ پھیلاتے ہیں کہ حضرت سیّدہ طیّبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کو شہید کیا گیا اور سوائے سات لوگوں کے کوئی بھی جنازہ میں شریک نہ ہوا استغفر اللہ العظیم رافضی ایسی گھٹیا قوم ہے کہ جھوٹی من گھڑت کہانیاں بناتے وقت انہیں اتنی بھی شرم و حیاء نہیں آتی کہ اُن کے اِس گھناؤنے کردار و عمل سے کِن کِن مقدس ہستیوں کی توہین ہو رہی ہے اللہ تعالیٰ اِن بے شرم و بے حیاء لوگوں کے شر سے اُمتِ مسلمہ کو بچائے آمین : ⏬

نبی کریم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلّم کے وصال کے چھ ماہ بعد حضرت سیّدہ طیّبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا بیمار ہوئیں اور چند روز بیمار رہیں ۔ پھر تین رمضان المبارک 11ھجری میں منگل کی شب ان کا انتقال ہوا ۔ اس وقت ان کی عمر مبارک علماء نے اٹھائیس یا انتیس 28یا29برس ذکر کی ہے ۔ حضرت سیّدہ طیّبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کے سن وفات اور ان کی عمر کی تعیین میں سیرت نگاہوں نے متعدد اقوال لکھے ہيں ہم نے یہاں مشہور قول کے مطابق تاریخ انتقال اور مدت عمر درج کی ہے ۔ (البدایہ والنھایہ ج6ص334۔ تحت حالات 11ھ)،(وفاءالوفاءللسمھودی ج3ص905۔ تحت عنوان قبر فاطمہ بن رسول ﷲ)

عن عبد اللہ بن محمد بن عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان فاطمۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہا لما حضرتہا  الوفاۃ  امرت علیا کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم  فوضع لہا  غسلا  فاغتسلت  و تطہرت ودعت ثیاب اکفانہا فلبستہا  ومست من الحنوط  ثم امرت علیا ان لا تکشف اذا قضت وان تدرج کما  ہی  فی ثیا بہا ،  قال : فقلت لہ: ہل علمت احدا فعل  ذلک ؟ قال: نعم، کثیر بن عباس ، وکتب فی اطراف اکفانہ ، شہد کثیر بن عباس ، ان لا الہ الا اللہ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن محمد بن عقیل  بن طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سیّدہ طیّبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا نے انتقال کے قریب امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے اپنے غسل کے لئے پانی رکھوایا پھر نہائیں اور کفن منگا کر پہنا اور حنوط کی خوشبو لگائی ، پھر حضرت مولی علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم  کو وصیت فرمائی  کہ میرے انتقال کے بعد کوئی مجھے نہ کھولے اور اسی کفن میں دفنا  دی جائیں ۔ میں نے پوچھا  کسی اور نے بھی ایسا کیا ہے ؟ کہا : ہاں ، حضرت کثیر بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے ۔ اور انہوں نے اپنے کفن کے  کناروں پر لکھا تھا  کثیر بن عباس گواہی دیتا ہے ، لا الہ الا اللہ ۔ (المصنف لعبد الرزاق کتاب الجنائز۳/۴۱۱)

نبی کریم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت سیّدہ طیّبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کو بلایا اور ارشاد فرمایا کہ میں اس مرض میں وفات پاجاوٴں گا حضرت سیّدہ طیّبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا رونے لگیں، پھر آپ نے ان سے فرمایا کہ میرے اہل میں سب سے پہلے (عالم برزخ میں) آکر تم مجھ سے ملوگی تو وہ ہنسنے لگیں بعض ازواجِ مطہرات (اور غالباً حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا) نے رونے اور ہنسنے کا سبب معلوم فرمایا تو حضرت سیّدہ طیّبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا نے دونوں باتیں بتائیں ۔ (مشکاة ص: ۵۴۹، باب وفاة النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
اس حدیث شریف سے تو معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلّم نے جلد وفات ہونے کی پیشین گوئی فرمائی تھی اور اس سے خوش ہوکر حضرت سیّدہ طیّبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا ہنسنے لگی تھیں اگر کسی درجہ میں شیعہ صاحبان کو ذمہ داری کسی کے سر تھونپنی ہی تھی تو نبی کریم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلّم کو ذمہ دار ٹھیراتے بلکہ حضرت سیّدہ طیّبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا اس پیشین گوئی سے خوش ہوئیں تو وہ خود ہی اپنی وفات کی ذمہ دار ٹھہریں ورنہ بجائے خوش ہونے کے ان کو چأہیے تھا کہ اس پیشین گوئی سے ناخوش ہوکر اس کو رد فرمادیتیں ، اسی طرح حضراتِ شیخین (حضرت ابوبکر صدیق وحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما) سے متعلق یہ وصیت فرمانا کہ ان کو جنازہ میں شریک نہ کیا جائے ، حضرت سیّدہ طیّبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا پر تہمت ہے ، حقیقت یہ ہے کہ حضرت سیدہ کے مرض الوفات میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہٴ مطہرہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے تیمار داری کے خصوصی فرائض انجام دیئے ، حضرت سیّدہ طیّبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا نے یہ وصیت فرمائی تھی کہ میری وفات کے بعد مجھ کو غسل حضرت اسماء دیں گی ، چنانچہ وصیت کے مطابق انھوں نے غسل دیا ، ان جیسے امور سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بلکہ ان کا گھرانہ آلِ رسول رضی اللہ عنہم کے گھرانہ کے ساتھ دکھ درد میں شریک ایک دوسرے سے بہت قریب اور باہم شیر وشکر تھے اور یہی اوصافِ حمیدہ اور اخلاقِ فاضلہ تمام صحابہ وصحابیات رضی اللہ عنہم اجمعین کے تھے جو قرآنِ کریم احادیث مبارکہ اور صحیح تاریخ سے ثابت ہیں ، اس کے برخلاف چیزیں جھوٹے راویوں کی روایتیں اور اہل باطل کے گھڑے ہوئے قصے کہانیاں ، نرے افسانہ کے قبیل سے اور بالکل غیر معتبر ہیں یا پھر مأوّل ہیں ۔

الغرض جب حضرت سیّدہ طیّبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کا انتقال ہوگیا اور وصیت کے مطابق غسل و کفن دلاکر جنازہ تیار ہوگیا تو حضراتِ صحابہٴ کرام بشمول حضرت صدیق اکبر وفاروق اعظم رضی اللہ عنہما بھی جنازہ میں شریک ہوئے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ نے حضرت علی کرم اللہ وجہ سے نماز پڑھانے کی درخواست کی اور کہا کہ چلئے آگے بڑھ کر نماز جنازہ پڑھائیے حضرت شیر خدا مولا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا میں آگے نہیں بڑھ سکتا ، آپ ہی آگے بڑھ کر نماز پڑھائیں ما کنت لأتقدم وأنت خلیفة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتقدم أبوبکر و صلّی علیہا ۔ (کنز العمال جلد ۶ صفحہ ۳۶۶،چشتی)

حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کا جنازہ حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پڑھایا

محترم قارئینِ کرام : شیعہ روافض کے مذھب کی بنیاد تقیہ یعنی جھوٹ پر ہے اگر یہ جھوٹ بولنا چھوڑ دیں تو ان کا خود ساختہ مذھب خود بخود دفن ہو جائے گا انہیں جھوٹوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ناراض تھیں اور حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کا جنازہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نہیں پڑھایا لعنۃ اللہ علی الکاذبین آیئے اس جھوٹ کا جواب مستند دلائل کی روشنی میں پڑھتے ہیں : ⏬

عن حماد عن ابراھیم النخعی قال صلی ابوبکر الصدیق علی فاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فکبر اربعا ۔
ترجمہ : حضرت ابرھیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت سیّدہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز جنازہ پڑھائی اور چار تکبیریں کہیں ۔ (طبقات ابن سعد جلد ثامن صفحہ ١٩ تذکرہ فاطمہ مطبوعہ لیدن یورپ،چشتی)

عن مجاھد عن الشعبی قال صلی علیھا ابوبکر رضی اللہ عنہ وعنہا ۔
ترجمہ : حضرت امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیّدہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھایا ۔ (طبقات ابن سعد جلد ٨ صفحہ ١٩تذکر ہ فاطمہ طبع لیدن یورپ)

تیسری روایت امام بہیقی رحمۃ اللہ علیہ سے اپنی سند کے ساتھ منقول ہے لکھتے ہیں کہ : حدثنا محمد بن عثمان ابن ابی شیبۃ حدثنا عون بن سلام حدثنا سوار بن مصعب عن مجالدعن الشعبی ان فاطمۃ اماماتت دفنھا علی لیلا واخذ بضبعی ابی بکر الصدیق فقدمہ یعنی فی الصلوۃ علیھا ۔ (رضوان اللہ علیہم اجمعین)
ترجمہ : یعنی جب حضرت سیّدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا فوت ہوئیں تو حضرت علی رضی اللہ عنھما نے ان کو رات میں ہی دفن کردیا اور جنازے کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے دونوں بازو پکڑ کر جنازہ پڑھانے کیلئے مقدم کردیا ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی مو الجواھر النقی جلد٤ صفحہ ٢٩کتاب الجنائز،چشتی)

حضرت امام محمد باقر رضی اللہ عنہ سے مروی روایت صاحب کنز العمال نے علی المتقی الہندی نے بحوالہ خطیب ذکر کی ہے : عن جعفر ابن محمد عن ابیہ قال ماتت فاطمہ بنت رسول اللہ فجاء ابوبکر و عمر لیصلوافقال ابوبکر لعلی ابن ابی طالب تقدم قال ما کنت لاتقدم وانت خلیفۃ رسول اللہ فتقدم ابوبکر و صلی علیھا
ترجمہ : امام جعفر صادق امام محمد باقر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ دختر رسول اللہ رضی اللہ عنہا فوت ہوئیں تو ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما دونوں جنازہ پڑھنے کیلئے آئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ سے جنازہ پڑھانے کے لئے فرمایا کہ آگے تشریف لائیے تو علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ آپ خیفۃ رسول ہیں آپ کی موجودگی میں ٫٫میں ،، آگے بڑھ کر جنازہ نہیں پڑھا سکتا پس ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر جنازہ پڑھایا ۔ (کنزالعمال خط فی رواۃ مالک) جلد ٦ صفحہ ٣١٨ طبع قدیم روایت ٥٢٩٩ باب فضائل الصحابہ فصل الصدیق مسندات علی)

حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی روایت حاضر ہے اس مسئلہ کو اس روایت نے خاصی حد تک حل کر دیا ہے : عن مالک عن جعفر ابن محمد عن ابیہ عن جدہ علی ابن حسین قال ماتت فاطمہ بین المغرب والعشاء فحضرھا ابوبکر و عمر وعثمان والزبیر وعبدالرحمان ابن عوف فلما وضعت لیصلیٰ علیھا قال علی تقدم یا ابابکر قال وانت شاھد یا اباالحسن؟قال نعم !فواللہ لا یصلی علیھا غیرک فصلٰی علیھا ابوبکر(رضوان اللہ علیہم اجمعین) ودفنت لیلا ۔
ترجمہ : جعفر صادق اپنے والد محمد باقر سے اور وہ اپنے والد امام زین العابدین سے روایت کرتے ہیںکہ مغرب و عشاء کے درمیان حضرت فاطمۃالزہراء کی وفات ہوئی ان کی وفات پر ابوبکر و عمر وعثمان وزبیر وعبدالرحمان بن عوف حضرات رضی اللہ عنہم حاضر ہوئے جب نماز جنازہ پڑھنے کیلئے جنازہ سامنے رکھا گیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ جنازہ پڑھانے کیلئے آگے تشریف لائیے اللہ کی قسم آپ کے بغیر کوئی دوسرا شخص فاطمہ رضی اللہ عنہا کا جنازہ نہیں پڑھائے گا پس ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا پر نمازجنازہ پڑھائی اور رات کو دفن کی گئیں ۔ (ریاض النضرۃ فی مناقب العشرہ مبشرہلمحب الطبری جلد١صفحہ ١٥٦باب وفات فاطمہ،چشتی)

حضرت شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے تحفہ اثنا عشریہ کے باب مطاعن میں طعن نمبر 14 آخر میں فصل الخطاب سے نقل کرتے ہو ئے ریاض النضرۃ کی روایت کے قریب قریب روایت ذکر کی ہے : در فصل الخطاب آوردہ کہ ابوبکر صدیق و عثمان وعبدالرحمانابن عوف و زبیر بن عوام رضی اللہ عنہم وقت نماز عشاء حاضر شدندو رحلت حضرت فاطمہ درمیان مغرب و عشاء شب سہ شنبہ سوم ماہ رمضان ١١ھ؁بعد ازششماہ از واقعہ سرور جہاں بوقوع آمدہبودوستین عمرش بست و ہشت بود وابوبکر بموجب گفتہ علی المرتضٰی پیش امام شدونماز بروئے گزاشتو چہار تکبیر بر آورد ۔
ترجمہ : فصل الخطاب کے مصنف نے ذکر کیا ہے کہ ابو بکرصدیق و عثمان و عبدالرحمان بن عوف وزبیر بن عوام تمام حضرات رضی اللہ عنہم عشاء کی نماز کے وقت حاضر ہوئے اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی رحلت مغرب و عشاء کے درمیان ہوئی منگل کی رات تیسری رمضان شریف حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چھ ماہ بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کا انتقال مبارک ہوا اسوقت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی عمر 28 سال تھی علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ کے فرمان کے مطابق ابوبکرالصدیق رضی اللہ عنہ نماز جنازہ کے لیئے امام بنے اور چار تکبیروں کے ساتھ نماز جنازہ پڑھائی ۔(تحفہ اثنا عشریہ مطاعن صدیقی طعن نمبر ١٤ صفحہ نمبر ٤٤٥( طبع نول کشور لکھنوی)

امام حافظ ابو نعیم اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ نے حلیۃ الاولیاء میں اپنی مکمل سند کیساتھ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جنازہ کی روایت کی ہے : عن میمون بن مھران عن ابن عباس النبی اتی بجنازۃ فصلٰی علیھا اربعا وقال کیرت الملائکۃ علیٰ ادم اربع تکبیرات و کبرابوبکر علیٰ فاطمہ اربعا وکبر عمر علیٰ ابی بکر اربعا وکبر صہیب علیٰ عمر اربعا ۔
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ذکر کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس ایک جنازہ لایا گیا آپ نے اس پر نماز جنازہ پڑھی اور چار تکبیریں کہیں اور فرمایا کہ ملائکہ نے آدم علیہ السلام پر چار تکبیریں کہیں تھیں اور ابن عباس رضی اللہ عنہما مزید فرماتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے جنازہ کے موقع پر چار تکبیریں کہیں اور عمر نے ابوبکر اور صہیب نے عمر رضی اللہ عنہم پر چار تکبیریں کہیں تھیں ۔ (حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصفہانہ جلد نمبر٤ صفحہ ٩٦ تذکرہ میمون بن مھران،چشتی)

کتاب بزل القوۃ فی حوادث سنی النبوۃ (عربی) مؤلفہ علامہ مخدوم ہاشم سندھی رحمۃ اللہ علیہ کے اردو ترجمہ موسومہ سیدہ سید الانبیاء مترجم (مفتی علیم الدین ) کے صفحہ نمبر 606 پر حضرت فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہا کے وصال کے ضمن میں حاشیہ میں موجود ہے کہ آپ کا جنازہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے پڑھایا ۔ (سیرت سید الانبیاء اردو ترجمہ بذل القوۃ فی حوادث سنی النبوۃ عربی صفحہ نمبر 606 کا حاشیہ نمبر 1)

تاریخ ابن کثیر البدایہ و النھایہ از حضرت علامہ عماد الدین ابن کثیردمشقی اردوترجمہ حصہ ششم صفحہ نمبر 443 پر ایک روایت مذکور ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پڑھائی
حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے متعلق بھی روایات موجود ہیں ۔ (تاریخ ابن کثیر اردو ترجمہ البدیہ والنھایہ از امام ابن کثیر حصہ ششم صفحہ ٤٤٣)

مدارج النبوت اردو ترجمہ از حضرت شیخ عبد الحق محدث دھلوی ( مترجم الحاج مفتی غلام معین الدین علیہما الرحمہ) کے صفحہ نمبر 544 پر موجود ہے کہ روایتوں سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی جنازہ پڑھائی اور حضرت عثمان بن عفان و عبدالرحمان ابن عوف اور زبیر بن العوام (رضی اللہ عنہم) بھی آئے ۔ (مدارج النبوت از شیخ عبدالحق محدث دہلوی جلد دوم صفحہ ٥٤٤ مطبوعہ ضیاء القرآن لاہور،چشتی)

محترم قارئین : ان دس کتابوں کی ان روایات کے بعد یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ گئی ہے کہ حضرت فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنھا کا جنازہ خلیفہ وقت خلیفۃ المسلمین خلیفۃالرسول جانشین سرور عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم امام المسلمین والمومنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے خود پڑھائی اور خود جناب حیدر کرار شیر خدا حضرت مولا علی مشکل کشاء رضی اللہ عنہ نے آپ کو مصلٰی امامت پر کھڑا کیا اور خود ان کی اقتداء میں نماز جنازہ ادا کی ۔ اس نماز جنازہ سے فقہ کے اس مسئلہ کی طرف بھی راہنمائی ملتی ہے کہ امامت کا سب سے زیادہ حقدار حاکم وقت ہے اگر وہ حاضر نہ ہو تو قاضی اور وہ بھی حاضر نہ ہو تو محلے کا امام امامت کرانے کا زیادہ حقدار ہے یہاں جن روایات میں حضرت علی و عباس رضی اللہ عنہما کی روایات میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو بھی شامل کیا گیا ہے اس کی تطبیق یہ ہے کہ کہ حاکم وقت کی موجودگی میں باقی افراد امامت کے اہل نہیں اور اسوقت کیونکہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ موجود تھے اس لئیے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ والی روایات کو ترجیح دی جائے گی ۔ (رضوان اللہ علیہم اجمعین)

اور رہا یہ مسئلہ کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ناراض تھیں یا حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کی خلافت کے حق میں نہیں تھے یا آپ رضی اللہ عنہ مجبور تھے یہ ساری باتیں ان روایات سے باطل ہو جاتی ہیں کہ نماز جنازہ کے سلسلے میں تو آپ رضی اللہ عنہ مجبور نہیں تھے بلکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے اوپر ترجیح دی اسوقت ان کو اختیار تھا کہ آپ چاہتے تو خود امامت کرا سکتے تھے لیکن انہوں نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اپنے اوپر ترجیح دی اور یہ کہ ان کی اقتداء میں نماز جنازہ پڑھ کر ان تمام خدشات اور نظریات اور اقوال کو باطل کردیا کہ آپ رضی اللہ عنہ ان کو خلیفہ برحق نہیں مانتے تھے آپ مجبورا ان کی خلافت کو مانتے تھے یا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے معاذ اللہ ناراض تھیں اور انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اطلاع نہ کرنے کا کہا تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہا کو رات کو دفن کر دیا یہ ساری باتیں لوگوں کی خرافات ہیں اور یہ باتیں ان لوگوں کے درمیان اختلافات کو ظاہر کر کے اپنے گھٹیا مقاصد حاصل کرنے اور لوگوں کے جذبات بھڑکا کر اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان روایات کی روشنی میں خلفائے راشدین اور اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم سے محبت کرنے اور اپنا عقیدہ اہلسنت و جماعت کے مروجہ قواعد و ضوابط اور نظریات کے مطابق رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...