Friday 26 January 2024

صحابہ رضی اللہ عنہم ہدایت کے درخشاں ستارے ہیں

0 comments

صحابہ رضی اللہ عنہم ہدایت کے درخشاں ستارے ہیں

محترم قارئینِ کرام : حضرت صحاب کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی زندگی اور ان کا کردار ہمارے لیے مشعلِ راہ اور نمونہ ہے ، اللہ تعالی نے صحاب کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے ایمان کو معیار اور کسوٹی قرار دیا ، راہ ھدایت پر وہی شخص ہے جس کا ایمان وعقیدہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے ایمان وعقیدہ کے موافق رہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو ہدایت کے درخشاں ستارے قرار دیا ارشاد فرمایا : اصحابی کالنجوم فبأيهم اقتديتم اهتديتم ۔
ترجمہ : میر ے صحابہ (رضی اللہ تعالی عنہم) ہدایت کے درخشاں ستارے ہیں ، تم ان میں سے جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پا لو گے ۔ (مشکوۃ المصابیح صفحہ 554)(زجاجۃ المصابیح جلد 5 صفحہ 334)

ہم نے ایک حدیث پیش کی مکمل تحقیق و تخریج کے ساتھ وہ حدیثِ پاک یہ ہے : حَدَّثَنَا الْقَاضِي أَبُو عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ ، وَأَبُو الْفَضْلِ ، قَالا : حَدَّثَنَا أَبُو يَعْلَى ، حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ السِّنْجِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ ، حَدَّثَنَا التِّرْمِذِيُّ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ رَبْعيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” اقْتَدُوا بِاللَّذِينَ مِنْ بَعْدِي أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ ” ، وَقَال : أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ ۔
ترجمہ : ترجمہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کہا میرے بعد ابی بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی پیروی کرنا اور کہا کہ میرے صحابہ رضی اللہ عنہم ستاروں کے مانند ہیں جس کی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤ گے ۔ (مشکوۃ المصابیح صفحہ نمبر 554)(زجاجۃ المصابیح جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 334)(الشفا بأحوال المصطفى للقاضي عياض الْقَسَمَ الثاني : فِيمَا يجب عَلَى الأنام من حقوقه الْبَابِ الثالث : فِي تعظيم أمره ووجوب توقيره وبره رقم الحديث: 61, الحكم: إسناده حسن،چشتی)

جسے بعض منہاج القرآن کے پردے میں چھپے لوگوں نے ماننے سے انکار کیا اور نہ جانے کیا کیا کمنٹس میں جواباً لکھا اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت عطاء فرمائے اور منہاج القرآن سے تعلق رکھنے والوں کو اپنے اندر چھپے رافضیوں کو پہچاننے اور ان کے شر سے بچنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ آیئے اسی مفہوم کی احادیث مبارکہ پڑھتے ہیں جو بانی منہاج القرآن نے بھی لکھی ہیں ان کے متعلق وہ منہاج والے کیا کہیں گے جو مذکورہ حدیث مبارکہ پر اچھل کود کر رہے تھے اور رافضیوں کی بنائی ہوئی پوسٹیں انکار کرتے ہوۓ کمنٹس میں لگا رہے تھے ؟

ادارہ منہاج القرآن کے بانی جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب لکھتے ہیں : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کی مثال ستاروں کی طرح ہے جن سے راستے کی تلاش کی جاتی ہے ۔ پس تم میرے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے جس کے قول کو بھی پکڑو گے ہدایت پا جاﺅ گے ۔ (کنز الاِنابہ فی مناقب صحابہ صفحہ نمبر 35 ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲُ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللہ صلی الله عليه وآله وسلم : مَهْمَا أُوْتِيْتُمْ مِنْ کِتَابِ اللہ فَالْعَمَلُ بِهِ لَا عُذْرَ لِأَحَدٍ فِي تَرْکِهِ فَإِن لَمْ يَکُنْ فِيکِتَابِ اﷲِ فَسُنَّةٌ مِنِّي مَاضِيَةً فَإِنْ لَمْ يَکُنْ سُنَّتِي فَمَا قَالَ أَصْحَابِي إِنَّ أَصْحَابِي بِمَنْزِلَةِ النُّجُوْمِ فِي السَّمَاءِ ، فَأَيُمَا أَخَذْتُمْ بِهِ اهْتَدَيْتُمْ وَاخْتِلاَفُ أَصْحَابِي لَکُمْ رَحْمَةٌ ۔ رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالْقُضَاعِيُّ وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ وَالْخَطِيْبُ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب بھی تمہیں کتاب اللہ کا حکم دیا جائے تو اس پر عمل لازم ہے، اس پر عمل نہ کرنے پر کسی کا عذر قابل قبول نہیں ، اگر وہ (مسئلہ) کتاب اللہ میں نہ ہو تو میری سنت میں اسے تلاش کرو جو تم میں موجود ہو اور اگر میری سنت سے بھی نہ پاؤ تو (اس مسئلہ کا حل) میرے صحابہ کے اقوال کے مطابق (تلاش) کرو ۔ بے شک میرے صحابہ کی مثال آسمان پر ستاروں کی سی ہے ان میں سے جس کا بھی دامن پکڑ لو گے ہدایت پا جاؤ گے اور میرے صحابہ کا اختلاف (بھی) تمہارے لیے رحمت ہے ۔ اس حدیث کو امام بیہقی ، قضاعی ، ابن عبد البر اور خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه البيهقي في المدخل إلی السنن الکبری، 1 / 162، الرقم : 152، والقضاعي في مسند الشهاب، 2 / 275، الرقم : 1346، وابن عبد البر في التمهيد، 4 / 263، والخطيب بغدادي في الکفاية في علم الرواية، 1 / 48، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 160، الرقم : 6497،چشتی)

حدیث أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ کے تمام راوی ثقہ ہیں : ⏬

حَدَّثَنَا الْقَاضِي أَبُو عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ ، وَأَبُو الْفَضْلِ ، قَالا : حَدَّثَنَا أَبُو يَعْلَى ، حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ السِّنْجِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ ، حَدَّثَنَا التِّرْمِذِيُّ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ رَبْعيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” اقْتَدُوا بِاللَّذِينَ مِنْ بَعْدِي أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ ” ، وَقَال : "أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ ۔ (الشفا بأحوال المصطفى للقاضي عياض » الْقَسَمَ الثاني : فِيمَا يجب عَلَى الأنام من حقوقه … » الْبَابِ الثالث : فِي تعظيم أمره ووجوب توقيره وبره …، رقم الحديث: 61, الحكم: إسناده حسن،چشتی)
ترجمہ : حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا میرے بعد ابی بکر و عمر کی پیروی کرنا اور کہا کہ میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہیں جس کی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤ گے ۔

تخریج حدیث قاضی عیاض : اس حدیث کے رجال تمام کے تمام ثقہ ہیں ۔ الْقَاضِي أَبُو عَلِيٍّ الحسين بن محمد الصدفي ۔ ان کے بارے میں امام ذہبی کا کہنا ہے کہ لإمام العلامة الحافظ، برع في الحديث متنا وإسنادا مع حسن امام علامہ الحافظ جن کی حدیث متن و سند کے لحاظ سے حسن ہوتی ہے ۔ أَبُو الْحُسَيْنِ المبارك بن عبد الجبار الطيوري ۔ ان کے بارے میں ابن حجر اور امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ثبت ہیں ۔ وَأَبُو الْفَضْلِ أحمد بن الحسن البغدادي

ان کے بارے میں یحی بن معین السمعانی اور امام ذہبی کہتے ہیں کہ ثقہ حافظ تھے

أَبُو يَعْلَى أحمد بن عبد الواحد البغدادى

خطیب بغدادی کہتے ہیں کہ یہ حدیث میں حسن تھے ۔ أَبُو عَلِيٍّ السِّنْجِيُّ الحسن بن محمد السنجي ۔ خطیب بغدادی کہتے ہیں یہ بڑے شیخ تھے اور ثقہ تھے ۔ مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ محمد بن أحمد المحبوبی ۔ یہ امام ترمذی کے شاگرد ہیں ان کے بارے میں امام حاکم صاحب مستدرک اور امام ذہبی کا کہنا ہے کہ یہ ثقہ حافظ تھے ۔

لتِّرْمِذِيُّ محمد بن عيسى الترمذییہ امام ترمذی ہیں صاحب السنن الترمزی جن کے حفظ ع ثقات میں کوئی شک نہین ہے ۔ الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الواسطی ۔ ان کے بارے میں امام احمد کہتے ہیں کہ ثقہ ہیں سنت کے پیرو ہیں اور ابو حاتم و ابن حجر کہتے ہیں صدوق ہیں ۔

سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ

یہ ثقہ و امام ہیں

زائدة بن قدامة الثقفي

ابو حاتم ، امام نسائی ، ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ہیں

عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ

امام ذہبی ، ابو حاتم ، ابن حجر نے اس کی توثیق کی ہے

رَبْعيِّ بْنِ حِرَاشٍ

ابن سعد ، ذہبی ، ابن حجر نے اسے ثقہ کہا ہے

حُذَيْفَةَ رضی اللہ عنہ

یہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کی عدالت پر شک کرنا ہی نقص ایمان کی نشانی ہے ۔

امام ابنِ حبان علیہ الرحمہ (المتوفى: 354هـ) نے فرمایا : أَخْبَرَنَا أَبُو يَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى زَحْمَوَيْهِ قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ حَدَّثَنِي عُبَيْدَةُ بْنُ أَبِي رَائِطَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُغَفَّلِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي لَا تَتَّخِذُوا أَصْحَابِي غَرَضًا مَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ وَمَنْ آذاهم فقد آذاني ومن آذاني فقد آذ اللَّهَ وَمَنْ آذَى اللَّهَ يُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ" ۔ (صحيح ابن حبان حدیث نمبر 7256)
ترجمہ : عبداللہ بن مغفلؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو میرے صحابہؓ کے معاملہ میں اور میرے بعد انہیں ہدف ملامت نہ بنانا جو ان سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرنے کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا جس نے انہیں ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے مجھے ایذا پہنچائی اس نے اللہ کو ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ وہ اسے اپنی گرفت میں لے لے  ۔

ھذا حدیث صحیح لغیرہ

صحیح ابن حبان کی سند میں عبد الله بن عبد الرحمن الرومي پر جہالت کا الزام ہے جس وجہ سے اس سند کو ضعیف کہا جاتا ہے مگر تحقیق کرنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ الزام درست نہیں سب سے پہلے ہم اس راوی کے معروف ہونے پر دلیل دیں گے اور پھر اس کی توثیق پر چنانچہ سید المحدثین امام بخاریؒ فرماتے ہیں : مُحَمد بْن الحُسَين بْن إِبْرَاهِيم، حدَّثني أَبي، سَمِعتُ حَماد بْن زَيد، حدَّثنا عَبد اللهِ الرُّومِيّ، ولم يكن رُومِيًّا، كَانَ رجلا منا من أهل خُراسان ۔

حسین بن ابراہیم کے حوالے سے کہتے ہیں کہ انہوں نے حماد بن زید سے سنا کہ عبداللہ الرومی جو ہے یہ رومیوں میں سے نہیں بلکہ یہ اہل خراسان میں سے ایک ہے  ۔ یہ ہے اس راوی کے معروف ہونے کی دلیل ۔ جہاں تک بات رہی توثیق کی تو درج ذیل محدثین نے اس کی توثیق کی امام ابن حبؒان نے ان کو ثقہ کہا ۔ (ثقات ابن حبان 5/17 رقم :- 52)

امام زین الدین قاسمؒ بن قطلوبغا نے کتاب الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة یعنی وہ ثقہ راوی جو کتب ستہ میں موجود نہیں اس کتاب میں درج کرکے توثیق کی ۔ (الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة 5/378)

اور امام عجلیؒ نے بھی اس کو ثقہ کہا ۔ (تاريخ الثقات ص284 رقم :- 914)

مزید یہ کہ امام احمد بن صالح الجیلیؒ نے بھی ثقہ کہا ہے ۔

ان تمام تصریحات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ راوی کم از کم درجہ صدوق حسن الحدیث پر فائز ہے اور اس کو اس درجہ سے گرانا زیادتی ہوگی ہو سکتا ہے یہاں پر کچھ لوگوں کو اشکال ہو کہ امام الائمہ والمسلمین شیخ الاسلام امام ابن حجرعسقلانیؒ نے تقریب التہذیب میں اس کو مقبول کہا ہے اور وہ اس اصطلاح کا اطلاق لین الحدیث پر کرتے ہیں تو اس اشکال کا بھی جواب دیتے چلتے ہیں ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ امام ابن حجر عسقلانیؒ کا اس کو مقبول کہنا اس کو درجہ صدوق سے نہیں گراتا کیونکہ امام ابن حجر عسقلانیؒ نے تو اپنی اصطلاح مقبول کا اطلاق صحیح بخاری کے ثقہ راوی پر بھی کیا ہے مثلاً  :

يحيى بن قزعة

ان کو امام ابن حبان نے ثقہ کہا امام ذھبی نے ثقہ کہا مگر حافظ ابن حجر عسقلانی نے ان کو مقبول کہا جب کہ یہ امام بخاری کے شیخ ہیں اور امام بخاری ان سے صحیح بخاری میں متصل مرفوع روایات لائے ہیں مثال کے طور پر چند حدیثوں کے نمبر پیش کر دیتا ہوں جن میں امام بخاری ڈائریکٹ ان سے روایت کر رہے ہیں حدیث نمبر :- 4491 ٬ 2602 ٬ 6988 ٬ 4216 ۔

تو ثابت ہوا کہ صحیح ابن حبان کی سند حسن ہے اب چلتے ہیں سنن الترمذی کی سند کی طرف ۔ امام ترمذیؒ (المتوفى: 279هـ) نے فرمایا : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قال: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ قال: حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ أَبِي رَائِطَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ، وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ ۔ (سنن ترمذي حدیث نمبر 3862)

ترجمہ : عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملہ میں اور میرے بعد انہیں ہدف ملامت نہ بنانا جو ان سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرنے کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا جس نے انہیں ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے مجھے ایذا پہنچائی اس نے اللہ کو ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ وہ اسے اپنی گرفت میں لے لے ۔

اس کی سند میں موجود راوی عبد الرحمن بن زياد پر یہ اعتراض ہے کہ یہ مجہول راوی ہے یہ اعتراض بھی حقیقت کے بالکل مخالف ہے یہ راوی صدوق حسن الحدیث ہے ۔ اس کو امام یحؒییٰ بن معین نے ثقہ کہا ۔ اور یہ ایک متفقہ اصول ہے کہ اگر متشدد امام کسی راوی کی تعدیل و توثیق کرے تو وہ اعلی درجہ کی مقبولیت کی حامل ہوتی ہے جیسا کہ امام ذہبیؒ نے امام یحییؒ بن سعید القطان کے بارے میں فرمایا اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ امام یحییؒ بن معین جرح میں متشدد امام تھے لہذا آپ کی توثیق اعلی درجے کی مقبولیت کی حامل ہے ۔ (سـير أعـلام النبـلاء للإمام الذهبي 9/183)

اس کو امام ابن حبؒان نے ثقہ کہا ۔ اس کو امام عجلیؒ نے ثقہ کہا ۔ امام احمد بن صالح الجیلیؒ نے ثقہ ۔ (كتاب تهذيب التهذيب 6/177)

کتاب تحریر تقريب التهذيب میں اس راوی سے حتمی فیصلہ یہ بتایا گیا کہ یہ راوی صدوق حسن الحدیث ہے اور ہمارے نزدیک بھی یہی درست اور راجح ہے ۔(كتاب تحریر تقريب التهذيب 2/320)

تو ثابت ہوا کہ ابن حؒبان کی سند بھی حسن ہے اور ترمذی کی سند بھی حسن ہے اور جامع ترمذی کی سند کو تو خود امام ترمذیؒ نے بھی حسن غریب کہا ہے لہذا یہ حدیث صحیح لغیرہ کے درجے پر فائز ہے کیونکہ اصول حدیث کی کتب میں صحیح لغیرہ کی تعریف واضح ہے ۔

الصحيح لغيرہ هو الحسن لذاته إذا روي من طريق آخر مثله أو أقوى منه وسمي صحيحا لغيره؛ لأن الصحة لم تأت من ذات السند الأول، وإنما جاءت من انضمام غيره له ۔

ترجمہ : صحیح لغیرہ وہ ہے جب حسن لذاتہ کو کسی دوسرے طریق (سند) کے ساتھ روایت کیا جائے جو اس کی مثل یا اس سے زیادہ قوی ہو تو یہ صحیح لغیرہ ہے اس کو صحیح لغیرہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی صحت سند کی ذات سے نہیں آتی بلکہ اس کے غیر کو اس سے ملانے کی وجہ سے آتی ہے ۔ (نخبة الفكر مع شرحها نزهة النظر صفحہ 34،چشتی)۔(كتاب تيسير مصطلح الحديث صفحہ 64)

اصولی طور پر ہم نے ثابت کیا کہ صحیح ابن حبان کی سند بھی حسن ہے اور جامع ترمذی کی سند بھی حسن ہے لہذا جب دو حسن اسناد ایک دوسرے کی مثل موجود ہیں تو یہ حدیث صحیح لغیرہ کے درجہ پر فائز ہے ۔ اگر کوئی شخص صحیح ابن حبان کی سند کو ضعیف مانتا ہے اور جامع ترمذی کی سند کو حسن مانتا ہے تو تب بھی یہ حدیث حسن لذاتہ درجے پر فائز رہے گی اور ابن حبان کی سند اس کی شاہد بنے گی ۔ اور اگر کوئی شخص دونوں اسناد کو ضعیف کہتا ہے تب بھی یہ حدیث درجہ حسن لغیرہ پر فائز رہے گی یعنی قابل احتجاج و استدلال رہے گی ۔ لہٰذا کسی طرح بھی اس حدیث کی صحت کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور اگر کوئی شخص مطلقاً اس حدیث کو ضعیف کہتا ہے تو وہ علم و اصول حدیث سے ناواقف ہے ۔

صحابہ کی اذیت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اذیت کا باعث

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم- « اللَّهَ اللَّهَ فِى أَصْحَابِى اللَّهَ اللَّهَ فِى أَصْحَابِى لاَ تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِى فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّى أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِى أَبْغَضَهُمْ وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِى وَمَنْ آذَانِى فَقَدْ آذَى اللَّهَ وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ ۔

ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو ، اللہ سے ڈرتے رہو ، میرے بعد انہیں ہدف ملامت نہ بناؤ ، پس جس کسی نے ان سے محبت کی تو بالیقین اس نے میری محبت کی خاطر ان سے محبت کی ہے اور جس کسی نے ان سے بغض رکھا تواس نے مجھ سے بغض کی بناء پر ان سے بغض رکھاہے اور جس کسی نے ان کو اذیت پہنچائی یقینا اس نے مجھ کو اذیت دی ہے اور جس نے مجھ کو اذیت دی یقینا اس نے اللہ کو اذیت دی ہے اور جس نے اللہ کو اذیت دی قریب ہے کہ اللہ اس کی گرفت فرمائے ۔ (جامع ترمذی شریف ج 2 ص 225، ابواب المناقب، باب فيمن سب أصحاب النبى - صلى الله عليه وسلم حدیث نمبر:4236،چشتی)

عَنْ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ - رضى الله عنه - قَالَ قَالَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - « لاَ تَسُبُّوا أَصْحَابِى ، فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلاَ نَصِيفَهُ ۔

ترجمہ :حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ کو گالی نہ دو تم میں سے اگر کوئي احد پہاڑکے برار سونا خیرات کرے تب بھی وہ صحابہ کے پاؤ سیر جو خیرات کرنے کی برابری نہیں کرسکتا ہے - (صحیح بخاری،کتاب فضائل الصحابة حدیث نمبر:3673،چشتی)

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظيم وتوقیر کا اللہ تعالی نے حکم فرمایا ہے، صحابۂ کرام نے آپ کے ادب وتعظیم کی ایسی مثالیں پیش کیں کہ جنکی نظیر نہیں ملتی، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقۂ تکریم وتعظيم کو دیکھ کر اغیار بھی کہنے لگے : جو قوم اپنے نبی کا اتنا ادب اور تعظیم کرتی ہو اس قوم سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا -

حدیبیہ کے موقع پر عروہ بن مسعود ثقفی نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ادب وتعظيم کو دیکھا تو اپنی قوم سے کہنے لگے: میں نے دنیا کے بادشاہوں کے دربار دیکھے لیکن کسی بادشاہ کے درباریوں کو اپنے بادشاہ کی اسقدر تعظیم کرتے نہيں دیکھا جس طرح صحابۂ کرام اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرتے ہيں ، قسم بخدا آپ جب ناک شریف صاف فرماتے تو وہ مبارک پانی زمین پر پہونچنے سے پہلے صحابہ اپنے ہاتوں میں لے لیتے اور اپنے چہروں اور جسموں پر مل لیتے،جب آپ کلام فرماتے تو وہ اپنی آوازوں کو پست کرلیتے ۔

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقۂ تکریم کو دیکھ کر دشمن بھی صلح پر آمدہ ہوگئے ، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں ہر وقت پیکر ادب بنکر حاضرہوتے اور حددرجہ آپ کی تعظیم کرتے ۔

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِىِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ذَهَبَ إِلَى بَنِى عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ فَحَانَتِ الصَّلاَةُ فَجَاءَ الْمُؤَذِّنُ إِلَى أَبِى بَكْرٍ فَقَالَ أَتُصَلِّى لِلنَّاسِ فَأُقِيمَ قَالَ نَعَمْ . فَصَلَّى أَبُو بَكْرٍ ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلموَالنَّاسُ فِى الصَّلاَةِ ، فَتَخَلَّصَ حَتَّى وَقَفَ فِى الصَّفِّ ، فَصَفَّقَ النَّاسُ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ لاَ يَلْتَفِتُ فِى صَلاَتِهِ فَلَمَّا أَكْثَرَ النَّاسُ التَّصْفِيقَ الْتَفَتَ فَرَأَى رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنِ امْكُثْ مَكَانَكَ ، فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ رضى الله عنه يَدَيْهِ ، فَحَمِدَ اللَّهَ عَلَى مَا أَمَرَهُ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ ذَلِكَ ، ثُمَّ اسْتَأْخَرَ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى اسْتَوَى فِى الصَّفِّ ، وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَصَلَّى ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَثْبُتَ إِذْ أَمَرْتُكَ . فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ مَا كَانَ لاِبْنِ أَبِى قُحَافَةَ أَنْ يُصَلِّىَ بَيْنَ يَدَىْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ۔ (صحیح بخاری شریف،کتاب الأذان، باب من دخل ليؤم الناس فجاء الإمام الأول فتأخر الأول أو لم يتأخر جازت صلاته . حدیث نمبر:684) ۔ ایک مرتبہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ امامت فرما رہے تھے ، پتا چلا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لاچکے ہیں ،فوراً پیچھے آگئے ،نماز کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کی اتو عرض گزار ہوئے : ابو قحافہ کے بیٹے کی یہ مجال نہيں کہ آپ کے سامنے نماز بھی پڑھ سکے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔