Tuesday, 23 January 2024

حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر

حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر
محترم قارئین کرام : امیرُ المؤمنین حضرت سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کا اصل نام عبد اللہ ، کنیت ”ابو بکر“ جبکہ لقب” صدّیق“ و” عَتِیْق“ ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ عامُ الفیل کے دو سال اور چند ماہ بعد مکۂ مکرمہ میں  پیدا ہوئے ۔ (تاریخ ابنِ عساکر جلد 30 صفحہ 446)

سیرت حلبیہ میں ہے کہ : کُنِيَ بِاَبِی بَکْرٍ لِاِبْتِکَارِهِ الْخِصَالِ الْحَمِيْدَةِ ۔
ترجمہ : حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر اس لیے ہے کہ آپ شروع ہی سے خصائل حمیدہ رکھتے تھے ۔

چونکہ حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ اعلیٰ خصلتوں کے مالک تھے ، اس لیے حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ ابو بکر کے نام سے مشہور ہوئے ، جو بعد ازاں آپ کی کنیت ٹھہری ۔

ابو کے معنیٰ والا اور بکر کے معنیٰ اولیت ہے ۔ اسی سے بکرہ یا باکرہ ہے ۔ ابو بکر کے معنیٰ ہوئے اولیت والے ۔ چونکہ حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ ایمان ، ہجرت ، نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری صال مبارک کے بعد خلیفہ بلا فصل اور قیامت کے دن قبر کھلنے وغیرہ سب کاموں میں آپ ہی اول ہیں ، اس لیے آپ کو ابو بکر کہا گیا ۔ (مرآۃ المناجیح اردو ترجمہ و شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد 8 صفحہ 318)

عربی زبان میں ’’البکر‘‘ جوان اونٹ کو کہتے ہیں ۔ جس کے پاس اونٹوں کی کثرت ہوتی یا جو اونٹوں کی دیکھ بھال اور دیگر معاملات میں بہت ماہر ہوتا عرب لوگ اسے ’’ابوبکر‘‘ کہتے تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کا قبیلہ بھی بہت بڑا اور مالدار تھا نیز اونٹوں کے تمام معاملات میں بھی آپ مہارت رکھتے تھے اس لیے آپ بھی ’’ابوبکر‘‘ کے نام سے مشہور ہو گئے ۔ عربی زبان میں ابو کا معنیٰ ہے ’’والا‘‘ اور ’’بکر‘‘ کے معنیٰ ’’اولیت‘‘ کے ہیں ۔ پس ابوبکر کے معنیٰ ’’اولیت والا‘‘ ہے ۔ چونکہ آپ رضی اللہ عنہ اسلام لانے ، مال خرچ کرنے ، جان لٹانے ، الغرض امتِ محمدیہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہر معاملے میں اولیت رکھتے ہیں اس لیے آپ رضی اللہ عنہ کو ابوبکر (یعنی اولیت والا) کہا گیا ۔ (مراة المناجيح جلد 8 صفحہ 347،چشتی)

مورخین نے حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی کنیت کی مشہور ہونے کی ایک وجہ یہ بھی لکھی ، کہ عربی میں بکر جوان اونٹ کو کہتے ہیں ، اور آپ کو چونکہ اونٹوں کی غور و پرداخت میں بہت دلچسپی تھی ، اور ان کے علاج و معالجے میں بہت واقفیت رکھتے تھے ، اس لیے لوگوں نے آپ کو ابو بکر کہنا شروع کر دیا۔ جس کے معنی ہیں اونٹوں کا باپ ۔ (ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل صفحہ 27 اور 28)

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور قبولِ اسلام

امام الصادقین ، خلیفۃ المسلمین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ مردوں میں سب پہلے مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ عام الفیل کے ڈھائی سال بعد یا ایک قول کے مطابق تین سال بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی ، یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو سال یا پھر تین سال (علی اختلاف الاقوال) عمر میں چھوٹے ہیں ۔ چالیس سال کی عمر مبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اعلانِ نبوت کا حکم ہوا ۔ اعلانِ نبوت کے بعد ہی دعوت اسلام کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ البتہ بر بنائے حکمت و مصلحت تین سالوں تک دعوتِ اسلام کا طریقہ مخفی رہا (تبلیغ دین سرّاً اعلانِ نبوت کے بعد ہی شروع ہو چکی تھی) ، قریب تین سال بعد تبلیغ جہری کی اجازت ملی جبکہ مسلمانوں کی تعداد چالیس کے قریب ہو چکی تھی ۔ اسلام کے اولیں مخفی دعوت کے زمانے میں ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مشرف باسلام ہوئے : أَوَّلُ مَن أسلَمَ -وقال مَرَّةً : صَلَّى مع رَسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ ۔ عليُّ بنُ أبي طالِبٍ ، قال عَمرٌو : فذكَرتُ ذلك لِلنَّخَعيِّ ۔ يَعني إبراهيمَ بنَ يَزيدَ ۔ فأنكَرَه ، وقال : أبو بكرٍ أَوَّلُ مَن أسلَمَ مع رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ ۔ عن زيد بن أرقم ۔ (سنن الترمذی حدیث نمبر 3735)(النسائي في السنن الكبرى) حدیث نمبر 8137،چشتی)(مسند أحمد حدیث نمبر 19306)

اس لحاظ سے اسلام قبول کرتے وقت حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مبارک 37 , یا 38  سال ہوتی ہے ۔ 

 حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ایمان لانے کا واقعہ بہ زبان خود یوں بیان کرتے ہیں : میں صحن کعبہ میں بیٹھا ہوا تھا اور زید بن عمر و بن نفیل بھی پاس ہی بیٹھا تھا، امیہ بن ابی صلت کا وہاں سے گزر ہوا ، اس نے کہا اے طالبِ خیر ! کیا حال ہے ؟ زید نے کہا: خیریت ہے ۔ امیہ نے پوچھا :کیا تم نے پا لیا ؟ زید نے کہا : نہیں ۔ حا لاں کہ میں نے طلب میں کوتاہی نہیں کی ۔ تو امیہ نے یہ شعر پڑھا : ⬇

كل دين يوم القيامة الا
ما قضی الله و الحنيفة بور

ترجمہ : بروزِ قیامت تمام دین مٹ جائیں گے ، صرف حنیف "اسلام" باقی رہے گا ۔ جس کا اللہ نے فیصلہ فرمایا ہے ۔

امیہ نے کہا : وہ نبی جس کا انتظار ہے ، وہ ہم میں سے ہو گا یا تم میں سے ہو گا ، یا اہل فلسطین سے ۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس سے پہلے میں نے یہ نہیں سنا تھا کہ کسی نبی کا انتظار ہو رہا ہے ، یامبعوث ہوں گے ۔ یہ سن کرمیں ورقہ بن نوفل کے پاس گیا ، جو کتبِ آسمانی کے زبر دست عالم تھے ، میں نے ان کے سامنے پوری بات بیان کی ۔ ورقہ نے کہا کہ ہاں بھتیجے ! اس با ت پر اہلِ کتاب اور علما متفق ہیں کہ وہ نبی جس کا انتظار ہے ، وہ عرب کے بہترین نسب میں ہوگا ۔ میں نسب سے واقف ہوں ، تمہاری قوم عرب کے بہترین خاندان میں ہے ۔ میں نے کہا : چچا ! وہ کس بات کی تعلیم دیں گے ، کہا : جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوگا ، اسی کی تعلیم دیں گے اور ظلم کی بات نہیں کریں گے ۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے ، تو میں ان پر ایمان لایا اور ان کی تصدیق کی ۔ (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 312)

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کا یہ واقعہ بھی کتابوں میں مذکور ہے : آغاز وحی کے زمانہ میں بہ سلسلہ تجارت حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ یمن گئے ہوئے تھے ، جب واپس آ ئے ، تو عقبہ بن ابی معیط ، شیبہ ، ربیعہ ، ابوجہل ، ابوالبختری اور دیگر سرداران قریش ان سے ملنے آئے ۔ دوران گفتگو حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مکہ کے متعلق تازہ ترین خبر دریافت کی ۔ تو کہا : اے ابو بکر ! بہت بڑی بات ہو گئی ۔ ابو طالب کا یتیم بچہ مدعی نبوت ہے ۔ اس کے انسداد کےلیے ہم تمہاری آ مد کے منتظر تھے ۔ یہ سن کر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دل میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کرنے کا اشتیاق پیدا ہوا ۔ انہیں خوش اسلوبی کے ساتھ رخصت کیا اور بذات خود بارگاہ رسول میں حاضر ہوئے ۔ بعثت کے متعلق سوال کیا اور اسی مجلس میں داخل اسلام ہوۓ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ : جس کے سامنے میں نے اسلام پیش کیا ، اس نے اپنے اندر ایک طرح کا تردد محسوس کیا ، مگر جب ابوبکر کو اسلام کی دعوت دی ، تو انہوں نے بے جھجک قبول کر لیا ۔ (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 313)

عن عائشة عن عمر بن الخطّاب قال کان أبو بکر أحبّنا إلٰي رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلم و کان خيرنا و سيّدنا ذکر البيان بأنّ أبا بکر الصّدّيق رضي الله عنه أوّل من أسلم من الرّجال ۔
ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم سب سے زیادہ محبوب تھے ، اور ہم سے بہتر اور ہمارے سردار تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ فرمایا : مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے حضرت ابو بکر تھے ۔ (ابن حبان، الصحيح، 15 : 279. 278، رقم : 6862،چشتی)(هيثمي، موار دالظمآن، 1 : 532، رقم : 2199)(بزار، المسند، 1 : 373، رقم : 251)

عن ابن عمر قال أوّل من أسلم أبوبکر ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ جس شخص نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (طبرانی المعجم الاوسط، 8 : 190، رقم : 8365)(هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 43)(واسطي، تاريخ واسط، 1 : 254)

عن عمرو بن مرة عن إبراهيم قال أبو بکر أوّل من أسلم مع رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلم ۔
ترجمہ : عمرو بن مرہ نے ابراہیم سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پرسب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 224، رقم : 262، 263،چشتی)(احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 225، رقم : 265)(ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 336، رقم : 36583)(طبري، تاريخ الامم والملوک، 1 : 540)

عن يوسف بن يعقوب الماجشون قال سمعت أبي و ربيعة يقولان أوّل من أسلم من الرّجال أبو بکر ۔
ترجمہ : يوسف بن یعقوب ماجشون سے روایت ہے کہ میں نے اپنے والد اور ربیعہ سے سنا کہ مردوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (ابن حبان، الثقات، 8 : 130، رقم : 12577)

عن أبي أرويٰ الدّوسيّ قالوا أوّل من أسلم أبو بکر الصّدّيق ۔
ترجمہ : ابوارویٰ دوسی سے روایت ہے کہ سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 171)(محاملی، أمالی المحاملی، 1 : 356، رقم : 396)

عن الزّهريّ قال هو أوّل من أسلم من الرّجال الأحرار ۔
ترجمہ : امام زہری سے روایت ہے کہ آزاد مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے آپ (حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ) ہیں ۔ (بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 369، رقم : 12872،چشتی)

عن محمّد بن کعب أنّ أوّل من أسلم من هذه الأمّة برسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم خديجة و أوّل رجلين أسلما أبوبکر الصّدّيق و علي و انّ أبابکر أوّل من أظهر إسلامه ۔
ترجمہ : محمد بن کعب سے روایت ہے کہ اس اُمت میں سے سب سے پہلے (عورتوں میں) ایمان لانے والی سیدہ خدیجۃ الکبريٰ رضی اللہ عنھا ہیں اور مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔ لیکن اپنے اسلام کا اعلان سب سے پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کیا ۔ (احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 226، رقم : 268)

عن محمّد بن کعب قال أوّل من أسلم أبوبکر و عليّ رضي اللہ عنهما فأبوبکر رضي الله عنه أوّلهما أظهر إسلامه و کان عليّ رضي الله عنه يکتم إيمانه فرقا من أبيه فاطّلع عليه أبو طالب وهو مع النّبي صلي الله عليه وآله وسلم فقال أسلمت قال نعم قال آزر إبن عمّک يا بنيّ و انصره قال و کان عليّ رضي الله عنه أوّلهما إسلاما ۔
ترجمہ : محمد بن کعب سے روایت ہے کہ سب سے پہلے حضرت ابو بکر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما اسلام لائے ، ان دونوں میں سے اپنے اسلام کا اعلان پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ (کم سنی کے باعث) اپنے باپ کے ڈر سے اپنے اسلام کو چھپاتے تھے ، جنابِ ابو طالب کو آپ رضی اللہ عنہ کے اسلام کی خبر ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے ، جنابِ ابو طالب نے پوچھا کیا تم نے اسلام قبول کر لیا ہے ؟ جواب دیا ہاں ! انہوں نے کہا : اے میرے بیٹے ! اپنے چچا زاد کی خوب مدد کرو ۔ راوی فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان دونوں میں سے پہلے اسلام لانے والے ہیں ۔ (فاکهی اخبار مکة جلد 3 صفحہ 219)

قال أبوحاتم فکان أوّل من آمن برسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلم زوجته خديجة بنت خويلد ثمّ آمن عليّ بن أبي طالب وصدّقه بما جاء به وهو بن عشر سنين ثمّ أسلم أبوبکر الصّدّيق فکان عليّ بن أبي طالب يخفي إسلامه من أبي طالب وأبوبکر لمّا أسلم أظهر إسلامه فلذٰلک اشتبه علي النّاس أوّل من أسلم منهما ۔
ترجمہ : ابو حاتم نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لانے والی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا ہیں اس کے بعد حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ایمان لائے اور جو کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے اس کی تصدیق کی اور اس وقت وہ دس سال کے بچے تھے ، پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ایمان لائے ، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ابو طالب سے اپنا اسلام چھپاتے تھے ، اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب اسلام قبول کیا تو اس کا اعلان بھی کر دیا پس اسی لیے لوگوں پر مشتبہ ہوگیا کہ ان دونوں میں سے پہلے کس نے اسلام قبول کیا ؟ ۔ (ابن حبان الثقات جلد 1 صفحہ 52،چشتی)

قال الشّوکانيّ وقد صحّ أنّ من مبعث النّبي صلي الله عليه وآله وسلم إلٰي وفاته نحو ثلاث وّ عشرين سنة وأنّ عليّا رضي الله عنه عاش بعده نحو ثلاثين سنة فيکون قد عمر بعد إسلامه فوق الخمسين وقد مات ولم يبلغ السّتّين فعلم أنّه أسلم صغيرا ۔
ترجمہ : شوکانی نے کہا ، یہ بات صحیح ہے کہ بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال تک کل تئیس سال کا عرصہ بنتا ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد تیس سال تک حیات رہے اور آپ رضی اللہ عنہ کی عمر اسلام قبول کرنے کے بعد پچاس سال سے زائد بنتی ہے اور جب آپ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر ساٹھ سال سے کم تھی پس معلوم ہوا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے بچپن میں ہی اسلام قبول کیا ۔ (نيل الاوطار جلد 8 صفحہ 17)

عن أبي أمامة الباهليّ قال : أخبرني عمروبن عبسة رضي الله عنه قال : أتيت رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلم وهو نازل بعکاظ قلت : يا رسول اللہ من اتّبعک علٰي هذا الأمر؟ قال : إتّبعني عليه رجلان حرّ وّ عبد أبو بکروّبلال‘‘ قال : فأسلمت عند ذٰلک ۔
ترجمہ : حضرت ابوامامۃ باہلی سے روایت ہے کہ مجھے عمرو بن عبسہ نے خبر دی کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا ، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عکاظ کے مقام پر تشریف فرما تھے ۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ اِس دین پر آپ کی (اولین) اتباع کس نے کی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اِس پر میری اتباع دو مردوں نے کی ہے ایک آزاد اور ایک غلام ، وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ ہیں ۔ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، میں نے اس وقت اسلام قبول کیا تھا ۔ (حاکم، المستدرک، 3 : 69، کتاب معرفة الصحابة، رقم : 4419،چشتی)(طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 540)

عن عمرو بن عبسة قال : أتيت رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلم في أوّل ما بعث وهو بمکّة وهو حينئذ مستخف ۔ قلت نعم ما أرسلک به فمن تبعک علٰي هذا ؟ قال : عبد و حرّ يعني أبابکر و بلا لا ۔
ترجمہ : حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں آپ کی بعثتِ مبارکہ کے ابتدائی ایام میں حاضر ہوا ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ میں تھے اور اُس وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خفیہ طور پر تبلیغِ دین فرماتے تھے ۔ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات سن کر عرض کیا ، یہ دین کتنا ہی اچھا ہے جو اللہ نے آپ کو دے کر بھیجا ہے (پھر عرض کیا) اِس دین پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کس نے کی ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایک غلام اور ایک آزاد شخص نے وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (حاکم، المستدرک، 3 : 68، 69)(کتاب معرفة الصحابه، رقم : 4418)(حاکم، المستدرک، 1 : 269، رقم : 583،چشتی)(احمد بن حنبل، المسند، 4 : 111)(ابن خزيمه، الصحيح، 1 : 129، رقم : 260)(طبراني، مسند الشاميين، 2 : 315، رقم : 1410)(بيهقي، السنن الصغريٰ، 1 : 534، رقم : 959)

عن همّام قال : سمعت عمّارا يقول : رأيت رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلم و ما معه إلّا خمسة أعبد وّ امرأتان، و أبوبکر ۔
ترجمہ : حضرت ھمام بن حارث رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا : میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس دور میں دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ پانچ غلاموں، دو عورتوں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی نہ تھا ۔ (بخاري، الصحيح، 3 : 1338، کتاب المناقب، رقم : 3460)(بخاري، الصحيح، 3 : 1400، کتاب. . . رقم : 3644)(حاکم، المستدرک، 3 : 444، رقم : 5682)(احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 208، رقم : 232،چشتی)(بزار، المسند، 4 : 244، رقم : 1411)(بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 369، رقم : 12883)(خثيمه، من حديث خثيمه، 1 : 131)(ذهبي، سير اعلام النبلاء، 1 : 428)(مزي، تهذيب الکمال، 21 : 220)(عسقلاني، الاصابه، 4 : 575، رقم : 5708)(محب طبري، الرياض النضره، 1 : 420)

خمسة اعبد هم بلال و زيد بن حارثة و عامر بن فهيرة و ابو فکيهة و ياسر والد عمار والمرأتان خديجة و سمية والدة عمار ۔
ترجمہ : پانچ غلام حضرت بلال ، حضرت زید بن حارثہ ، حضرت عامر بن فہیرۃ ، حضرت ابو فکیہۃ اور حضرت عمار کے والد حضرت یاسر رضی اللہ عنہم ہیں اور دو عورتیں حضرت خدیجۃ اور حضرت عمار کی والدہ حضرت سمیۃ رضی اللہ عنہما ہیں ۔ (سهارنپوري، حاشيه صحيح البخاري، 1 : 516، رقم : 10)

عن الشّعبيّ قال سألت إبن عبّا س أو سئل : من أوّل من أسلم ؟ فقال : أما سمعت قول حسّان رضی الله عنه : ⬇

إذا تذکّرت شجوا من أخي ثقة
فاذکر أخاک أبابکر بما فعلا
خير البريّة أتقاها وأعدلها
بعد النّبيّ وأوفاها بما حملا
ألثّاني ألتّالي المحمود مشهده
و أوّل النّاس منهم صدّق الرّسلا

ترجمہ : امام شعبی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال کیا یا آپ سے سوال کیا گیا کہ اسلام قبول کرنے کے اعتبار سے پہلا شخص کون ہے ؟ تو آپ نے فرمایا، تم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا ارشاد نہیں سنا ۔ جب تم کسی قابل اعتماد بھائی کا تپاک سے ذکر کرو تو ضرور ابو بکر کے کارناموں کی وجہ سے انہیں یاد کرو ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد وہ تمام مخلوق سے بہتر، اللہ سے زیادہ ڈرنے والے ، عدل کرنے والے اور اپنے فرائض کو کماحقہ سر انجام دینے والے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ (دو ہجرت کرنے والوں میں سے) دوسرے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیرو ہیں ، محفل میں ان کی موجودگی پسندکی جاتی ہے ، وہ لوگوں میں سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے سب رسولوں کی تصدیق کی ۔ (حاکم، المستدرک، ، 3 : 67، کتاب معرفة الصحابه، رقم : 4414)(ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 14، رقم : 33885)(ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 336، رقم : 36584)(احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 133، رقم : 103)(احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 142، رقم : 119،چشتی)(طبراني، المعجم الکبير، 12 : 89، رقم : 12562)(شيباني، الآحاد والمثاني، 1 : 84، رقم : 44)(بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 369، رقم : 12875)(هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 43)(ابن جوزي، صفة الصفوه، 1 : 238)(ابن عبدالبر، الإستيعاب، 3 : 964، رقم : 1633)(محب طبري، الرياض النضره، 1 : 416)

عن عبداللہ بن الحصين التّميميّ أنّ رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلم قال مادعوت أحدا إلٰي الإسلام إلاّ کانت عنده کبوة و تردّد و نظر إلا أبابکر ما عکم عنه حين ذکرته ولا تردّد فيه ۔
ترجمہ : عبداللہ بن حصین تمیمی سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے جس کسی کو اسلام کی دعوت دی اس نے کچھ نہ کچھ تردد، ہچکچاہٹ اور تامل کا اظہار ضرور کیا سوائے ابوبکر کے کہ اس نے بغیر کسی تردد و تامل کے فوراً میری دعوت قبول کر لی ۔ (ابن کثير، البداية والنهاية، 3 : 27)(ابن هشام، السيرة النبوية، 2 : 91)(ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 444،چشتی)(حلبي، السيرة الحلبيه، 1 : 442)(ابن عساکر، تاريخ دمشق، 30 : 44)(محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 415)

ما کلّمت أحدا في الإسلام إلّا ابٰي عليّ و راجعني في الکلام إلّا ابن اٰبي قحافة فانّي لم أکلّمه في شيء إلاّ قبله و استقام عليه ۔
ترجمہ : میں نے اسلام کے بارے میں جس سے بھی گفتگو کی اس نے انکار کیا اور مجھ سے تکرار کی سوائے ابو قحافہ کے بیٹے ابو بکر کے ، کیونکہ میں نے اس سے جو بات بھی کہی اس نے قبول کر لی اور اس پر مضبوطی سے قائم رہا ۔ (السيرة الحلبيه، 1 : 442)

اَوَّلُ مَنْ اَسْلَمَ اَبُو بَكْرٍ ، سب سے پہلے (امیرالمؤمنین حضرتِ سیّدُنا) ابوبکر صدّیق رضی اللہ عنہ اسلام لائے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ،ج 20،ص253، حدیث: 37738،چشتی)

اَوَّلُ مَنْ اَسْلَمَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ ، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر سب سے پہلے حضرتِ سیّدُنا علیُّ المرتضٰی رضی اللہ عنہ ایمان لائے ۔ (مسنداحمد،ج7،ص78،حدیث:19301)

اِنَّ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ مِنْ هَذِهِ الْاُمَّةِ بِرَسُولِ اللَّهِ خَدِيجَةُ ۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر اس اُمّت میں سب سے پہلے ایمان لانے والی اُمُّ المؤمنین حضرت سَیِّدَتُنا خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں ۔ (فضائل الصحابۃللامام احمد،ج1،ص226، رقم:268)

اَوَّلُ مَنْ اَسْلَمَ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ ، حضرتِ سیّدُنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلےاسلام قبول فرمایا ۔ (معجم کبیر،ج5،ص84،حدیث:4653)

كَانَ بِلَالٌ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ ، حضرتِ سیّدُنا بلال رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے اسلام قبول فرمایا تھا ۔ (دليل الفالحين،جز6،ج3،ص581)

مذکورہ بالا روایات میں تطبیق : ⬇

شيخُ الاسلام حضرتِ ابنِ صلاح عثمان شافعی علیہ رحمۃ اللہ علیہ ان روایات میں تطبیق دیتے ہوئے فرماتے ہیں : آزاد مَردوں میں سب سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ، بچوں یا نو عمروں میں مولیٰ علی رضی اللہ عنہ نے ، عورتوں میں اُمُّ المؤمنین حضرت خدیجۃُ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے ، آزاد کردہ غلاموں میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے اور غلاموں میں حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا ۔(مقدمۃ ابن الصلاح صفحہ 300) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...