واقعہ معراج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حقائق و دلائل حصّہ پنجم ، ششم ، ہفتم
شب معراج نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کے دیدارِ پُرانوار کی نعمت لازوال سے مشرف ہوئے‘ اس کا ذکر قرآن کریم کی آیاتِ مبارکہ میں موجود ہے چنانچہ واقعہ معراج کے ضمن میں ارشاد خداوندی ہے : مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی ۔
ترجمہ : آپ نے جو مشاہدہ کیا دل نے اُسے نہیں جھٹلایا ۔ (سورۃ النجم۔11)
نیز ارشاد الہی ہے : أَفَتُمَارُونَہُ عَلَی مَا یَرَی ۔
ترجمہ :کیا تم ان سے بحث کرتے ہواُس پرجووہ مشاہدہ فرماتے ہیں ۔ (سورۃ النجم۔12)
وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً أُخْرَی ۔
ترجمہ : اور یقیناً آپ نے اُس جلوہ کا دومرتبہ دیدار کیا ۔ (سورۃ النجم۔13)
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَی ۔
ترجمہ : نہ نگاہ ادھر اُدھر متوجہ ہوئی اور نہ جلوۂ حق سے متجاوز ہوئی ۔ (سورۃ النجم۔17)
یعنی آپ کی نظر سوائے جمال محبوب کے کسی پرنہ پڑی ۔
لَقَدْ رَاٰی مِنْ آیَاتِ رَبِّہِ الْکُبْرَی ۔
ترجمہ : بیشک آپ نے اپنے رب کی نشانیوں میں سب سے بڑی نشانی (جلوۂ حق) کا مشاہدہ کیا ۔ (سورۃ النجم۔18)
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آسمانوں کی ، جنت و دوزخ کی ، سدرۃ المنتہیٰ کی ، عرش الٰہی کی سیر کروائی اور اللہ تعالیٰ نے جہاں تک چاہا آپ نے سیر فرمائی، اس کی قدرت کی نشانیوں کا مشاہدہ فرمایا اور دیدار پرانوار کی نعمت لازوال سے مشرف ہوئے ۔
جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے تفصیلی روایت منقول ہے روایت کا ایک حصہ ملاحظہ ہو : حتی جاء سدرۃ المنتھیٰ ودنا للجبار رب العزۃ فتدلی حتی کان منہ قاب قوسین او ادنی ۔ یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سدرۃ المنتہیٰ پر آئے اور جبار رب العزت آپ کے قریب ہوا پھر اور قریب ہو ا یہاں تک کہ دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا یا اس سے بھی زیادہ نزدیک ۔ (صحیح بخاری شریف جلد 2 کتاب التوحید صفحہ 1120 ، حدیث نمبر 6963)
صحیح مسلم شریف میں روایت ہے : عن عبداللہ بن شقیق قال قلت لابی ذر لو رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لسألتہ فقال عن ای شیء کنت تسألہ قال کنت اسالہ ھل رایت ربک قال ابو ذر قد سالت فقال رایت نورا ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے کہا اگر مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کی سعادت حاصل ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کرتا ، انہوں نے کہا تم کس چیز کے متعلق سوال کرتے ؟
حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سوال کرتا کہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں نے آپ سے اس متعلق دریافت کیا تھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے دیکھا ، وہ نور ہی نور تھا ۔ (صحیح مسلم جلد 2 کتاب الایمان صفحہ 99 حدیث نمبر 262،چشتی)
جامع ترمذی شریف میں حدیث پاک ہے : عن عکرمۃ عن ابن عباس قال رای محمد ربہ قلت الیس اللہ یقول لا تدرکہ الابصار و ھو یدرک الابصار قال و یحک اذا تجلی بنورہ الذی ھو نورہ و قد راٰی محمد ربہ مرتین ھٰذا حدیث حسن غریب ۔
ترجمہ : عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے ، میں نے عرض کیا : کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا : نگاہیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرتا ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : تم پر افسوس ہے ، یہ اس وقت ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے اس نور کے ساتھ تجلی فرمائے جو اس کا نور ہے ، یعنی غیر متناہی نور اور بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ہے ۔ یہ حدیث حسن غریب ہے ۔ (جامع ترمذی شریف جلد 2 ابواب التفسیر صفحہ 164 حدیث نمبر 3201،چشتی)
عن ابن عباس فی قول اللہ تعالیٰ و لقد راہ نزلۃ اخری عند سدرۃ المنتہیٰ فاوحی الی عندہ ما اوحیٰ فکان قاب قوسین او ادنی قال ابن عباس قد راہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ھٰذا حدیث حسن ۔
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان آیات کی تفسیر میں فرمایا : بے شک انہوں نے اس کو دوسری بار ضرور سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا تو اللہ نے اپنے خاص بندہ کی طرف وہ وحی نازل کی جو اس نے کی ، پھر وہ دو کمانوںکی مقدار نزدیک ہوا یا اس سے زیادہ ، حضرت ابن عباس نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے ۔ (جامع ترمذی شریف جلد 2 ابواب التفسیر صفحہ 164 حدیث نمبر 3202)
مسند امام احمد میں یہ الفاظ مذکور ہیں : عن عکرمۃ عن ابن عباس قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رایت ربی تبارک و تعالیٰ ۔ سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں نے اپنے رب تبارک و تعالیٰ کو دیکھا ۔ یہ حدیث پاک مسند امام احمد میں دو جگہ مذکور ہے ۔ (مسند امام احمد حدیث نمبر 2449 - 2502)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دادا استاذ حضرت امام عبدالرزاق صنعانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 211ھ) نے اپنی تفسیر میں رقم فرمایاہے : کان الحسن یحلف باللہ ثلاثۃ لقد رای محمد ربہ ۔
ترجمہ : حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ تین باراللہ تعالی کی قسم ذکر کر کے فرمایا کر تے تھے کہ یقیناً نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کا دیدار کیا ۔ (تفسیرالقران لعبد الرزاق، حدیث نمبر2940،چشتی) ، نیز اسی طرح کی تفسیر‘ ائمۂ تفسیر امام ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 327 ھ) ابومحمد الحسین بن مسعو د بغوی (متوفی 510ھ) علامہ جمال الدین ابن الجوزی (متوفی 597ھ) امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ (وصال 606 ھ) علامہ عبدالعزیز بن عبدالسلام دمشقی(متوفی660ھ) امام ابوعبداللہ محمدبن احمد قرطبی(متوفی 671ھ) امام علاء الدین خازن رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 741 ھ) ابوزید عبدالرحمن ثعلبی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 876ھ) حضرت سلیمان الجمل رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1204ھ) علامہ شیخ احمد بن محمد صاوی مالکی رحمۃ اللہ علیہ (وصال 1241ھ) امام سیوطی (وصال 911ھ) اپنی کتبِ تفاسیر میں لکھی ہیں ۔ سورۃ النجم کی آیت نمبر 13 کی تفسیر کے تحت روایتوں میں یہ بھی مذکور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سدرۃ المنتھی کے پاس جبرئیل علیہ السلام کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا ۔ لیکن آپ کا سفر وہیں منتہی نہیں ہوا ، آپ سدرہ سے آگے تشریف لے گئے ، ماورائے عرش پہنچے ، اللہ تعالی کے قرب سے مالامال ہوئے اور اپنے ماتھے کی آنکھوں سے اللہ تعالی کا دیدارفرمایا ۔
کتب صحاح و سنن ، معاجم ومسانید میں اس سے متعلق متعدد روایتیں موجود ہیں ، چنانچہ صحیح بخاری ، مستخرج أبی عوانۃ اور جامع الأصول من أحادیث الرسول لابن الاثیر حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت منقول ہے : وَدَنَا الْجَبَّارُ رَبُّ الْعِزَّۃِ فَتَدَلَّی حَتَّی کَانَ مِنْہُ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنَی ۔
ترجمہ : اور اللہ رب العزت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرب عطا کیا ، مزیداور قرب عطا کیا ، یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اور اُس جلوہ کے درمیان دو کمانوں کا فاصلہ رہا بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ہوئے ۔ (صحیح بخاری شریف کتاب التوحید باب قَوْلِ اللہِ وَکَلَّمَ اللَّہُ مُوسَی تَکْلِیمًا حدیث نمبر 7517،چشتی)(مستخرج أبی عوانۃ کتاب الإیمان مبتدأ أبواب فی الرد علی الجہمیۃ وبیان أن الجنۃ مخلوقۃ حدیث نمبر 270)(جامع الأصول من أحادیث الرسول لابن الاثیر،کتاب النبوۃ أحکام تخص ذاتہ صلی اللہ علیہ وسلم، اسمہ و نسبہ حدیث نمبر 8867)
صحیح مسلم ، صحیح ابن حبان ، مسندابویعلی ، جامع الاحادیث ، الجامع الکبیر ، مجمع الزوائد ، کنزل العمال ، مستخرج ابوعوانہ میں حدیث پاک ہے : عن عبد اللہ بن شقیق قال قلت لابی ذر لو رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لسالتہ فقال عن ای شیء کنت تسالہ قال کنت اسالہ ھل رایت ربک قال ابو ذر قد سالت فقال رایت نورا ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا ! اگر مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کی سعادت حاصل ہوتی تو ضرور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کرتا ، انہوں نے فرمایا تم کس چیز سے متعلق دریافت کرتے ؟ حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ دریافت کرتا کہ کیا آپ نے اپنے رب کا دیدارکیا ہے ؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس سلسلہ میں دریافت کیا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے نورِ حق کو دیکھا ہے ۔ (صحیح مسلم،کتاب الإیمان،باب فِی قَوْلِہِ عَلَیْہِ السَّلاَمُ نُورٌ أَنَّی أَرَاہ.وَفِی قَوْلِہِ رَأَیْتُ نُورًا.حدیث نمبر:462،چشتی)(مستخرج أبی عوانۃ،کتاب الإیمان، حدیث نمبر:287)(صحیح ابن حبان،کتاب الإسراء ،ذکر الخبر الدال علی صحۃ ما ذکرناہ ،حدیث نمبر:58)(جامع الأحادیث،حرف الراء ،حدیث نمبر:12640)(جمع الجوامع أو الجامع الکبیر للسیوطی، حرف الراء ، حدیث نمبر:12788)(مجمع الزوائد،حدیث نمبر:13840)(مسند أبی یعلی، حدیث نمبر:7163)(کنز العمال،حرف الفاء ،الفصل الثانی فی المعراج، حدیث نمبر:31864)
صحیح مسلم‘مسنداحمد‘صحیح ابن حبان ‘مسندابویعلی ‘معجم اوسط طبرانی ‘جامع الاحادیث ‘الجامع الکبیر ‘کنزل العمال‘مستخرج ابوعوانہ میں حدیث پاک ہے : عن ابی ذر سألت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہل رأیت ربک ؟ قال نور اِنِّی اَرَاہ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ‘ میں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا ! کیا آپ نے اپنے رب کا دیدار کیا ؟ فرمایا : وہ نور ہے ‘ بیشک میں اس کا جلوہ دیکھتا ہوں ۔ (صحیح مسلم ، کتاب الایمان ،باب نورانی اراہ ،حدیث نمبر:461،مسند احمد، مسند ابی بکر حدیث نمبر:21351!21429)
اس حدیث شریف میں بھی صراحت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حق تعالی کا دیدار کیا ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : کیا آپ نے رب کا دیدار کیا ؟ جواباً ارشاد فرمایا : نُورَانِیُُّ اَرَاہُ ۔
ترجمہ : وہ ذات نور ہے ‘ میں اس کا جلوہ دیکھتا ہوں ۔
فقال نورا اَنّٰی اَرَاہ ۔
ترجمہ : میں نے جس شان سے دیکھاوہ نورہی نورہے ۔ (مسنداحمد ،حدیث نمبر:22148،چشتی)(طبرانی معجم اوسط،حدیث نمبر:8300)(مسنداحمد ، حدیث نمبر:21537)(جامع الأحادیث للسیوطی،حرف الراء ،حدیث نمبر : 12640)(صحیح ابن حبان،کتاب الإسراء ، حدیث نمبر:255) ۔ أما قولہ صلی اللہ علیہ و سلم نور أنی أراہ فہو بتنوین نور وبفتح الہمزۃ فی أنی وتشدید النون وفتحہا وأراہ بفتح الہمزۃ ہکذا رواہ جمیع الرواۃ فی جمیع الاصول والروایات ۔ ۔ ۔ (رأیت نورا ) معناہ رأیت النور فحسب ولم أر غیرہ قال وروی نورانی أراہ بفتح الراء وکسر النون وتشدید الیاء ویحتمل أن یکون معناہ راجعا إلی ما قلناہ أی خالق النور المانع من رؤیتہ فیکون من صفات الافعال ۔ (شرح صحیح مسلم‘ کتاب الایمان)
روایت کا جواب : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ جو شخص یہ بیان کرے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رب کو دیکھا ہے وہ جھوٹاہے ۔
جواب : صحیح بخاری شریف میں روایت ہے : عن مسروق عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت من حدثک أن محمدا صلی اللہ علیہ و سلم رأی ربہ فقد کذب وہو یقول (لا تدرکہ الأبصار) ۔
ترجمہ : مسروق بیان کرتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : جو شخص تم کو یہ بتائے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کو احاطہ کے ساتھ دیکھا ہے تواس نے جھوٹ کہا اللہ تعالی کا ارشاد ہے لا تدرکہ الابصار ۔ آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں ۔ (سورہ انعام آیت نمبر 103) ۔ (صحیح بخاری شریف کتاب التوحید باب قول اللہ تعالی عالم الغیب فلا یظہر علی غیبہ أحدا،حدیث نمبر:7380،چشتی)
اس حدیث پاک میں مطلق دیدار الہی کی نفی نہیں ہے بلکہ احاطہ کے ساتھ دیدار کرنے کی نفی ہے اللہ تعالی کا دیدار احاطہ کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا ۔ کیونکہ اللہ تعالی کی ذات اور اُس کی صفات لامحدود ہیں ‘ اس لیے احاطہ کے ساتھ دیدارِخداوندی محال ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بغیراحاطہ کے اپنے رب کا دیدار کیا ہے ۔ جامع ترمذی‘مسند احمد‘مستدرک علی الصحیحین‘عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری‘ ،تفسیر ابن کثیر‘‘سبل الہدی والرشاد میں حدیث پاک ہے : عن عکرمۃ عن ابن عباس قال رای محمد ربہ قلت الیس اللہ یقول لا تدرکہ الابصار و ھو یدرک الابصار قال و یحک اذا تجلی بنورہ الذی ھو نورہ و قد راٰی محمد ربہ مرتین ۔ترجمہ : حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کا دیدار کیا ہے ۔ میں نے عرض کیا : کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا : نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک و احاطہ کرتا ہے ؟ تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : تم پر تعجب ہے ! جب اللہ تعالیٰ اپنے اُس نور کے ساتھ تجلی فرمائے جو اُس کا غیر متناہی نور ہے اور بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کا دو مرتبہ دیدار کیا ہے ۔ (جامع ترمذی ،ابواب التفسیر ‘باب ومن سورۃ النجم ‘حدیث نمبر:3590،چشتی)(عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، کتاب تفسیر القرآن، سورۃ والنجم)(تفسیر ابن کثیر، سورۃ النجم5،ج7،ص442)(سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، جماع أبواب معراجہ صلی اللہ علیہ وسلم ج3،ص61)(مستدرک علی الصحیحین ، کتاب التفسیر ، تفسیرسورۃ الانعام ، حدیث نمبر:3191)(مسند احمد،معجم کبیر،تفسیرابن ابی حاتم ، سورۃ الانعام ، قولہ لاتدرکہ الابصار،حدیث نمبر:7767)
قال ابن عباس قد راہ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمانے فرمایا : یقیناً نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کا دیدار کیا ہے ۔ (جامع ترمذی شریف ، ج 2، ابواب التفسیر ص 164 ، حدیث نمبر:3202)
مسند امام احمد میں یہ الفاظ مذکور ہیں : عن عکرمۃ عن ابن عباس قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رایت ربی تبارک و تعالیٰ ۔
ترجمہ : سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:میں نے اپنے رب تبارک و تعالیٰ کا دیدار کیا ۔ یہ حدیث پاک مسند امام احمد میں دو جگہ مذکور ہے ۔ (مسند امام احمد، حدیث نمبر:2449-2502،چشتی)
دنیا میں ظاہری آنکھوں سے رب تعالی کا دیدار کرنا ، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیت ہے ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے ظاہری طور پر اللہ تعالی کا دیدار نہیں کیا بلکہ اللہ تعالی کی تجلی خاص کا مشاہدہ کیا ، جیسا کہ سورۃ الاعراف میں ارشاد باری تعالی ہے : وَلَمَّا جَآءَ مُوۡسٰی لِمِيقَاتِنَا وَکَلَّمَهٗ رَبُّهٗ ۙ قَالَ رَبِّ اَرِنِیۡۤ اَنۡظُرْ اِلَيکَ قَالَ لَنۡ تَرٰينِیۡ وَلٰکِنِ انۡظُرْ اِلَی الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَکَانَهٗ فَسَوْفَ تَرٰينِیۡ ۚ فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّهٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَهٗ دَكًّا وَّ خَرَّ مُوۡسٰی صَعِقًا ۚ فَلَمَّاۤ اَفَاقَ قَالَ سُبْحٰنَکَ تُبْتُ اِلَيکَ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ ۔ ترجمہ : اور جب موسی علیہ السلام ہمارے مقرر کردہ وقت پر حاضر ہوئے اور ان کے رب نے ان سے کلام فرمایا ، انہوں نے عرض کیا : اے میرے رب ! مجھے اپنا جلوہ دکھا کہ میں تیرا دیدار کرلوں ، ارشاد فرمایا : تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے ، مگر پہاڑ کی طرف دیکھو اگر وہ اپنی جگہ ٹھہرا رہا تو تم عنقریب مجھے دیکھ لو گے ۔ پھر جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی ، اسے ریزہ ریزہ کردیا اور موسی علیہ السلام بے ہوش ہو کر گرپڑے ، پھر جب افاقہ ہوا تو عرض کیا تیری ذات پاک ہے میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں ۔ (سورۃ الاعراف آیت نمبر 143)
حضرت عبد ﷲ ابن عباس رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے رب کریم کو دیکھا ۔ (مسند احمد از کتاب‘ دیدار الٰہی) ۔ اس حدیث کے بارے میں امام اجل امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ خصائص کبریٰ اور علامہ عبدالرئوف شرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں‘ کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔
حضرت جابر رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرماتے ہیں کہ بے شک ﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دولت کلام بخشی اور مجھے اپنا دیدار عطا فرمایا۔ مجھ کو شفاعت کبریٰ و حوض کوثر سے فضیلت بخشی ۔ (ابن عساکر از کتاب: دیدار الٰہی)
طبرانی معجم اوسط میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی ﷲ عنہ فرمایا کرتے بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو مرتبہ اپنے رب جل جلالہ کو دیکھا ۔ ایک بار اس آنکھ سے اور ایک مرتبہ دل کی آنکھ سے ۔ (طبرانی‘ معجم اوسط)
حضرت عکرمہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس رضی ﷲ عنہما نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب جل جلالہ کو دیکھا ۔ عکرمہ رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کیا ﷲ تعالیٰ نے نہیں فرمایا ’’لاتدرکہ الابصار وہو یدرک الابصار‘‘ حضرت ابن عباس رضی ﷲ عنہما نے فرمایا ۔ تم پر افسوس ہے کہ یہ تو اس وقت ہے جب وہ اپنے ذاتی نور سے جلوہ گر ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے رب جل جلالہ کو دو مرتبہ دیکھا ۔ (ترمذی شریف جلد دوم‘ ابواب تفسیر القرآن‘ رقم الحدیث 1205 صفحہ 518‘ مطبوعہ فرید بک لاہور)
حضرت عکرمہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ آیت کریمہ ’’ماکذب الفوا دمارایٰ‘‘ کے بارے میں حضرت ابن عباس رضی ﷲ عنہما نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ﷲ تعالیٰ کو دل (کی آنکھوں) سے دیکھا ۔ (ترمذی شریف‘ جلد دوم‘ابواب تفسیر القرآن‘ رقم الحدیث 1207‘ صفحہ 519‘ مطبوعہ فرید بک لاہور)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب مبارک نے اس کی تصدیق کی جو چشمِ مبارک نے دیکھا ۔ مراد یہ ہے کہ آنکھ سے دیکھا ، دِل سے پہچانا اور اس دیکھنے اور پہچاننے میں شک اور تَرَدُّد نے راہ نہ پائی ۔ اب رہی یہ بات کہ کیا دیکھا ، اس بارے میں بعض مفسرین کا قول یہ ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام کو دیکھا ، لیکن صحیح مذہب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب تعالیٰ کو دیکھا ۔ اور یہ دیکھنا کیا سر کی آنکھوں سے تھا یا دل کی آنکھوں سے ، اس بارے میں مفسرین کے دونوں قول پائے جاتے ہیں ایک یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رب عزوجل کو اپنے قلب مبارک سے دیکھا ۔ اور مفسرین کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رب عزوجل کو حقیقتاً چشمِ مبارک سے دیکھا ۔ یہ قول حضرت انس بن مالک ، حضرت حسن اور حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہم کا ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خُلَّت اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے دیدار سے اِمتیاز بخشا ۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دوبار کلام فرمایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دو مرتبہ دیکھا ۔ (سنن ترمذی کتاب التفسیر باب ومن سورۃ والنجم جلد ۵ صفحہ ۱۸۴ الحدیث : ۳۲۸۹)
لیکن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدارِ الہٰی کا انکار کیا اور اس آیت کو حضرت جبریل علیہ السلام کے دیدار پر محمول کیا اور فرمایا کہ جو کوئی کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا اس نے جھوٹ کہا اور اس بات کی دلیل کے طور پر یہ آیت ’’ لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ‘‘ تلاوت فرمائی ۔
اس مسئلے کو سمجھنے کےلیے یہاں چند باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا قول نفی میں ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا اِثبات میں اور جب نفی اور اثبات میں ٹکراؤ ہو تو مُثْبَت ہی مُقَدّم ہوتا ہے کیونکہ نفی کرنے والا کسی چیز کی نفی اس لئے کرتا ہے کہ اُس نے نہیں سنا اور کسی چیز کو ثابت کرنے والا اِثبات اس لئے کرتا ہے کہ اس نے سنا اور جانا تو علم ثابت کرنے والے کے پاس ہے ۔ اور اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یہ کلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل نہیں کیا بلکہ آیت سے جو آپ نے مسئلہ اَخذ کیا اس پر اعتماد فرمایا اور یہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اپنی رائے ہے جبکہ درحقیقت آیت میں اِدراک یعنی اِحاطہ کی نفی ہے دیکھ سکنے کی نفی نہیں ہے ۔
صحیح مسئلہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیدارِ الہٰی سے مُشَرَّف فرمائے گئے ، مسلم شریف کی حدیثِ مرفوع سے بھی یہی ثابت ہے ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما جو کہ حِبْرُ الْاُمَّت ہیں وہ بھی اسی پر ہیں ۔ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ قسم کھاتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شبِ معراج اپنے رب عزوجل کو دیکھا ۔ امام احمد رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا اُس کو دیکھا اُس کو دیکھا ۔ امام صاحب یہ فرماتے ہی رہے یہاں تک کہ سانس ختم ہوگیا (پھر آپ نے دوسرا سانس لیا) ۔ (تفسیر خازن جلد ۴ صفحہ ۱۹۲ ، ۱۹۴،چشتی)(تفسیر روح البیان جلد ۹ صفحہ ۲۲۲ ، ۲۲۳) ۔ (روایت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا تفصیلی جواب ہم حصّہ اوّل میں دے چُکے ہیں تفصیل اس میں پڑھیں)
امام احمد علیہ الرحمہ اپنی مسند میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے راوی : قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رأیت ربی عزوجل ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں میں نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا ۔ (مسند احمد بن حنبل عن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۲۸۵) ۔ امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ خصائص کبرٰی اور علامہ عبدالرؤف مناوی علیہ الرحمہ تیسیر شرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں : یہ حدیث بسند صحیح ہے ۔ (التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت حدیث رأیت ربی مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۲ /۲۵،چشتی)(الخصائص الکبرٰی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۱ /۱۶۱)
ابن عساکر حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے راوی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : لان اللہ اعطی موسی الکلام واعطانی الرؤیۃ لوجہہ وفضلنی بالمقام المحمود والحوض المورود ۔
ترجمہ : بیشک اللہ تعالٰی نے موسٰی کو دولت کلام بخشی اورمجھے اپنا دیدار عطافرمایا مجھ کو شفاعت کبرٰی وحوض کوثر سے فضیلت بخشی ۔ (کنزالعمال بحوالہ ابن عساکر عن جابر حدیث ۳۹۲۰۶مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۴ /۴۴۷ )
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے راوی : قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال لی ربی نخلت ابرٰھیم خلتی وکلمت موسٰی تکلیما واعطیتک یا محمد کفاحا ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں مجھے میرے رب عزوجل نے فرمایا میں نے ابراہیم کو اپنی دوستی دی اورموسٰی سے کلام فرمایا اورتمہیں اے محمد!مواجہ بخشا کہ بے پردہ وحجاب تم نے میرا جمال پاک دیکھا ۔ (تاریخ دمشق الکبیر باب ذکر عروجہ الی السماء واجتماعہ بجماعۃ من الانبیاء داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۲۹۶ )
فی مجمع البحار کفاحا ای مواجھۃً لیس بینھما حجاب ولارسول ۔
ترجمہ : مجمع البحار میں ہے کہ کفاح کا معنٰی بالمشافہ دیدار ہے جبکہ درمیان میں کوئی پردہ اور قاصد نہ ہو ۔ (مجمع بحار الانوار باب کف ع تحت اللفظ کفح مکتبہ دارالایمان مدینہ منورہ ۴ /۴۲۴،چشتی)
ابن مردویہ حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما سے راوی : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وھو یصف سدرۃ المنتہٰی (وذکر الحدیث الی ان قالت ) قلت یارسول اللہ مارأیت عندھا ؟قال رأیتہ عندھا یعنی ربہ ۔
ترجمہ : میں نے سنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سدرُالمنتہٰی کا وصف بیان فرماتے تھے میں نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے پاس کیا دیکھا ؟ فرمایا : مجھے اس کے پاس دیدار ہوا یعنی رب کا ۔ (الدرالمنثور فی التفسیر بالماثور بحوالہ ابن مردویہ تحت آیۃ ۱۷/۱ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۱۹۴)
ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی : اما نحن بنوھا شام فنقول ان محمدا رای ربہ مرتین ۔
ترجمہ : ہم بنی ہاشم اہلبیت رضی اللہ عنہم تو فرماتے ہیں کہ بیشک محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب کو دوبار دیکھا ۔ (جامع الترمذی ابو اب التفسیر سورئہ نجم امین کمپنی اردو بازا ر دہلی ۲ /۱۶۱،چشتی)(الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی فصل وامارؤیۃ لربہ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ ۱/ ۱۵۹)
ابن اسحٰق عبداللہ بن ابی سلمہ سے راوی : ان ابن عمر ارسل الٰی ابن عباس یسألہ ھل راٰی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ربہ ، فقال نعم ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے دریافت کرابھیجا : کیا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ؟ا نہوں نے جواب دیا : ہاں ۔ (الدرالمنثور بحوالہ ابن اسحٰق تحت آیۃ ۵۳ /۱۸ داراحیاء التراث العربی بیروت ۷ /۵۷۰،چشتی)
جامع ترمذی ومعجم طبرانی میں عکرمہ سے مروی : واللفظ للطبرانی عن ابن عباس قال نظر محمد الی ربہ قال عکرمۃ فقلت لابن عباس نظر محمد الی ربہ قال نعم جعل الکلام لموسٰی والخلۃ لابرٰھیم والنظر لمحمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم (زاد الترمذی) فقد رای ربہ مرتین ۔
ترجمہ : طبرانی کے الفاظ ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ۔ عکرمہ ان کے شاگرد کہتے ہیں : میں نے عرض کی : کیا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ؟ فرمایا : ہاں اللہ تعالٰی نے موسٰی کےلیے کلام رکھا اور ابراہیم علیہما السلام کےلیے دوستی اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے دیدار ۔ (اورامام ترمذی نے یہ زیادہ کیا کہ) بیشک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالٰی کو دوبار دیکھا ۔ (المعجم الاوسط حدیث ۹۳۹۲مکتبۃ المعارف ریاض ۱۰ /۱۸۱،چشتی)(جامع الترمذی ابواب التفسیر سورۃ نجم امین کمپنی اردوبازار دہلی ۲/ ۱۶۰) ۔ امام ترمذی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے ۔
امام نسائی اور امام خزینہ و حاکم و بیہقی علیہم الرحمہ کی روایت میں ہے : واللفظ للبیہقی أتعجبون ان تکون الخلۃ لابراھیم والکلام لموسٰی والرؤیۃ لمحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔
ترجمہ : کیا ابراہیم کےلیے دوستی اور موسٰی علیہما السلام کےلیے کلام اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے دیدار ہونے میں تمہیں کچھ اچنبا ہے ۔ یہ الفاظ بیہقی کے ہیں ۔ حاکم نے کہا : یہ حدیث صحیح ہے ۔ امام قسطلانی و زرقانی نے فرمایا : اس کی سند جید ہے ۔ (المواہب اللدنیۃ بحوالہ النسائی والحاکم المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۴)(الدرالمنثور بحوالہ النسائی والحاکم تحت الآیۃ ۵۳ /۱۸ داراحیاء التراث العربی بیروت ۷ /۵۶۹)(المستدرک علی الصحیحین کتاب الایمان راٰی محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ربہ دارالفکر بیروت ۱ /۶۵)(السنن الکبری للنسائی حدیث ۱۱۵۳۹دارالکتب العلمیۃ بیروت ۶ /۴۷۲،چشتی)(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الخامس دارالمعرفۃ بیروت ۶ /۱۱۷)
طبرانی معجم اوسط میں راوی : عن عبداللہ بن عباس انہ کان یقول ان محمدا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم راٰی ربہ مرتین مرۃ ببصرہ ومرۃ بفوادہ ۔
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے بیشک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبار اپنے رب کو دیکھا ایک بار اس آنکھ سے اورایک بار دل کی آنکھ سے ۔(المواہب اللدنیۃ بحوالہ الطبرانی فی الاوسط المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵)(المعجم الاوسط حدیث ۵۷۵۷ مکتبۃ المعارف ریاض ۶ /۳۵۶،چشتی)۔امام سیوطی و امام قسطلانی وعلامہ شامی علامہ زرقانی علیہم الرحمہ فرماتے ہیں : اس حدیث کی سند صحیح ہے ۔ (المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵)(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الخامس دارالمعرفہ بیروت ۶ /۱۱۷)
امام الائمہ ابن خزیمہ و امام بزار حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے راوی : ان محمد ا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راٰی ربہ عزوجل ۔
ترجمہ : بیشک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا ۔ (المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن خزیمہ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵) ۔ امام احمد قسطلانی و عبدالباقی زرقانی علیہما الرحمہ فرماتے ہیں : اس کی سند قوی ہے ۔ (المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن خزیمہ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵)(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الخامس دارالمعرفہ بیروت ۶ /۱۱۸)
محمد بن اسحٰق علیہ الرحمہ کی حدیث میں ہے : ان مروان سأل ابا ھریرۃ رضی اللہ عنہ ھل راٰی محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ربہ فقال نعم ۔
ترجمہ : مروان نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا : کیا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ر ب کو دیکھا ؟ فرمایا : ہاں ۔ (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن اسحٰق دارالمعرفہ بیروت ۶ /۱۱۶)(الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی بحوالہ ابن اسحٰق فصل وما رؤیۃ لربہ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ ۱ /۱۵۹)
مصنف عبدالرزاق میں ہے : عن معمر عن الحسن البصری انہ کان یحلف باللہ لقد راٰ ی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔
ترجمہ : امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ قسم کھاکر فرمایا کرتے بیشک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ۔ (الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی بحوالہ عبدالرزاق عن معمر عن الحسن البصری فصل واما رویۃ لربہ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ ۱ /۱۵۹)
اسی طرح امام ابن خزیمہ علیہ الرحمہ حضرت عروہ بن زیبر رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی کے بیٹے اورصدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نواسے ہیں راوی کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شب معراج دیدار الہٰی ہونا مانتے :وانہ یشتد علیہ انکارھا ۔ اور ان پر اس کا انکار سخت گراں گزرتا ۔ (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن خزیمہ المقصد الخامس دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۱۱۶)
حضرات کعب احبار عالم کتب سابقہ و امام ابن شہاب زہری قرشی و امام مجاہد مخزومی مکی و امام عکرمہ بن عبداللہ مدنہ ہاشمی و امام عطا بن رباح قرشی مکی ۔ استاد امام ابو حنیفہ و امام مسلم بن صبیح ابوالضحی کو فی وغیرہم جمیع تلامذہ عالم قرآن حبر الامہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کا بھی یہی مذہب ہے ۔
امام قسطلانی علیہ الرحمہ مواہب لدنیہ میں فرماتے ہیں : اخرج ابن خزیمۃ عن عروہ بن الزبیر اثباتھا وبہ قال سائر اصحاب ابن عباس وجزم بہ کعب الاحبار والزھری ۔
ترجمہ : ابن خزیمہ علیہ الرحمہ نے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہا سے اس کا اثبات روایت کیاہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کے تمام شاگردوں کا یہی قول ہے ۔ کعب احبار اورزہری نے اس پر جزم فرمایا ہے ۔ (المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۴)
امام خلّال علیہ الرحمہ کتاب السن میں اسحٰق بن مروزی سے راوی ، حضرت امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ رؤیت کو ثابت مانتے اوراس کی دلیل فرماتے : قول النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رأیت ربی ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے میں نے اپنے رب کو دیکھا ۔ (المواہب اللدنیۃ بحوالہ الخلال فی کتاب السن المقصد الخامس المتکب الاسلامی بیرو ت۳ /۱۰۷)
نقاش اپنی تفسیر میں اس امام سند الانام علیہ الرحمہ سے راوی : انہ قال اقول بحدیث ابن عباس بعینہ راٰی ربہ راٰہ راٰہ راٰہ حتی انقطع نفسہ ۔
ترجمہ : انہوں نے فرمایا میں حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما کا معتقد ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو اسی آنکھ سے دیکھا دیکھا دکھا ، یہاں تک فرماتے رہے کہ سانس ٹوٹ گئی ۔ (الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی بحوالہ النقاش عن احمد وامام رؤیۃ لربہ المکتبۃ الشرکۃ الصحافیۃ ۱ /۱۵۹،چشتی)
امام ابن الخطیب مصری مواہب شریف میں فرماتے ہیں : جزم بہ معمر واٰخرون وھوقول الاشعری وغالب اتباعہ ۔
ترجمہ : امام معمر بن راشد بصری اوران کے سوا اورعلماء نے اس پر جزم کیا ، اوریہی مذہب ہے امام اہلسنت امام ابوالحسن اشعری اوران کے غالب پَیروؤں کا ۔ (المواہب اللدنیہ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۴)
علامہ شہاب خفاجی نسیم الریاض شرح شفائے امام قاضی عیاض میں فرماتے ہیں :الاصح الراجح انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رای ربہ بعین راسہ حین اسری بہ کما ذھب الیہ اکثر الصحابۃ ۔
ترجمہ : مذہب اصح و راجح یہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شب اسرا اپنے رب کو بچشم سردیکھا جیسا کہ جمہور صحابہئ کرام کا یہی مذہب ہے ۔ (نسیم الریاض شرح شفاء القاضی عیاض فصل واما رؤیۃ لربہ مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۲ /۳۰۳،چشتی)
امام نووی شرح صحیح مسلم میں پھر علامہ محمدبن عبدالباقی شرح مواہب میں فرماتے ہیں :الراجح عند اکثر العلماء انہ طرای ربہ بعین راسہ لیلۃ المعراج ۔
ترجمہ : جمہور علماء کے نزدیک راجح یہی ہے کہ نبی کریم صلی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شب معراج اپنے رب کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا ۔ (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس دارالمعرفۃ بیروت ۶ /۱۱۶)
قرآن کریم کی جس آیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدارِ الہٰی کا انکار کیا جاتا ہے وہ بعض لوگوں کی زبردستی ہے ۔ یہی حال حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا ہے ۔ دونوں پر مختصر غور کیا جاتا ہے۔ قرآن و سنت سے جو چیز ثابت ہے، وہ ہے دیدار خداوندی اور نفی میں پیش کی جانے والی آیت میں ہے ۔ ’’آنکھوں کے ادراک کی نفی‘‘ حالانکہ دیکھنے اور ادراک میں فرق ہے ۔ ارشادِ خداوندی ہے : لاَّ تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ ۔
ترجمہ : نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور وہ سب نگاہوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے ، اور وہ بڑا باریک بین بڑا باخبرہے ۔ (سورہ الانعام آیت نمبر 103)
امام رازی علیہ الرحمہ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں : معناه أنه لا تدرکه جميع الأبصار فوجب أن يفيد أنه تدرکه بعض الابصار ۔
ترجمہ : آیت کا مطلب ہے کہ تمام آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرتیں ۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ بعض آنکھیں دیکھ سکتی ہیں ۔ (التفسير الکبير، 13: 103 ، دار الکتب العلمية بيروت)
امام رازی علیہ الرحمہ مزید لکھتے ہیں : المرئي اِذا کان له حد ونهاية و أدرکه البصر بجميع حدوده و جوانبه ونهاياته صار کأن ذلک الابصار أحاط به فتسمی هذه الرؤية اِدراکاً أما اِذا لم يحط البصر بجوانب المرئي لم تسم تلک الرؤية اِدراکاً فالحاصل أن الرؤية جنس تحتها نوعان رؤية مع الاحاطة و رؤية لا مع الاحاطة و الرؤية مع الاحاطه هي المسماة بالادراک فنفي الادراک يفيد نوع واحد من نوعي الرؤية و نفی النوع لا يوجب نفی الجنس فلم يلزم من نفی الادراک عن اللہ تعالی نفی الرؤية عن اللہ تعالی ۔
ترجمہ : دیکھے جانے والی چیز کی جب حد اور انتہاء ہو اور دیکھنے والی نظر تمام حدود ، اطراف اور انتہاؤں کو گھیر لے تو گویا اس نظر نے اس چیز کو گھیر لیا ۔ اس دیکھنے کو ادراک کہا جاتا ہے ، لیکن جب نظر دیکھی جانے والی چیز کے اطراف کا احاطہ نہ کرے تو اس دیکھنے کا نام ادراک نہیں ہوتا ۔ خلاصہ یہ ہے کہ دیکھنا، ایک جنس، جس کے نیچے دو انواع ہیں ، ایک دیکھنا احاطے کے ساتھ اور دوسرا دیکھنا بلا احاطہ کیے صرف احاطے والے دیکھنے کو ادراک کہا جاتا ہے ۔ پس ادراک کی نفی سے دیکھنے کی ایک قسم کی نفی ثابت ہوئی اور ایک نوع کی نفی سے جنس کی نفی نہیں ہوتی ۔ پس اللہ عزوجل کے ادراک کی نفی سے اللہ عزوجل کے دیکھنے کی نفی لازم نہیں آتی ۔ (التفسير الکبير جلد 13 صفحہ 103)
امام قرطبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : الادراک بمعنی الاحاطة والتحديد کما تدرک سائر المخلوقات والرؤية ثابتة ۔
ترجمہ : ادراک کا مطلب ہے گھیر لینا اور حد کھینچنا جیسے مخلوق دیکھی جا سکتی ہے ۔ اللہ کا دیکھنا ثابت ہے ۔ (الجامع لأحکام القران، 7: 54 ، دار الشعيب القاهره،چشتی)
خلاصہ یہ کہ قرآن کی آیت سے اور اسے اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے قول سے ، دیدار الٰہی کی نفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت نہیں ہوتی ۔ آیت کا مطلب ہے کہ تمام آنکھیں اس کو نہیں دیکھ سکتیں یا یہ کہ آنکھیں اللہ عزوجل کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور ظاہر ہے کہ دیکھنا اور ہے ، احاطہ کرنا اور ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ بعض آنکھیں دنیا میں بھی اللہ عزوجل کو دیکھ سکتی ہیں اور یقینا وہ بعض آنکھیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی ہیں ۔
امام قرطبی علیہ الرحمہ مزید لکھتے ہیں : عبداللہ بن الحارث اجتمع ابن عباس و أبی ابن کعب فقال ابن عباس أما نحن بنو هاشم فنقول اِن محمدا رأی ربه مرتين ثم قال ابن عباس أتعجبون أن الخُلّة تکون لابراهيم والکلام لموسی والرؤية لمحمد صلی الله عليه وآله وسلم وعليهم أجمعين قال فکبر کعب حتی جاوبته الجبال ۔
ترجمہ : عبداللہ بن حارث کی حضرت ابن عباس اور ابن کعب رضی اللہ عنہم سے ملاقات ہوئی تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : ہم بنی ہاشم تو کہتے ہیں کہ بے شک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دوبار دیکھا ہے ، پھر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کیا تمہیں اس پر تعجب ہے کہ دوستی (خلت) ابراہیم علیہ السلام کےلیے کلام موسیٰ علیہ السلام کےلیے اور دیدارِ الٰہی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے ثابت ہے ۔ اس پر حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے اللہ اکبر کہا یہاں تک کہ پہاڑ گونج اٹھے ۔ (الجامع لأحکام القرآن جلد 7 صفحہ 56)
امام عبدالرزاق علیہ الرحمہ نے بیان کیا : أن الحسن کان يحلف باﷲ لقد رأی محمد ربه ۔
ترجمہ : حسن بصری علیہ الرحمہ اللہ عزوجل کی قسم اٹھا کر کہتے بے شک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے ۔
مروان نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا : هل رأی محمد ربه؟ فقال نعم ۔
ترجمہ : کیا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ؟ انہوں نے فرمایا ہاں ۔
حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ نے فرمایا : بعينه رآه رآه حتی انقطع نفسه ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آنکھوں سے اللہ عزوجل کو دیکھا ۔ دیکھا ، یہاں تک کہ ان کا سانس بند ہو گیا ۔
یہی امام ابو الحسن اشعری علیہ الرحمہ اور ان کے اصحاب کا مسلک ہے ۔ یہی حضرت انس رضی اللہ عنہ، ابن عباس رضی اللہ عنہ، عکرمہ، ربیع اور حسن کا مذہب ہے ۔ (الجامع لأحکام القرآن جلد 7 صفحہ 56)
نیز ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر ہجرت کے بعد آئیں جبکہ واقعہ معراج ، ہجرت سے پہلے کا ہے ۔ اس لیے انہوں نے صرف قرآن کی آیت سے استدلال فرمایا جس کی تفسیر فقیر نے باحوالہ بیان کر دی ۔
قرآن نے اللہ عزوجل کے دیدار کی نفی نہیں فرمائی ، یہ فرمایا ہے کہ آنکھیں اللہ عزوجل کا احاطہ نہیں کرتیں ۔ ظاہر ہے کہ مخلوق محدود ، اس کی نظر محدود ، اللہ عزوجل غیر محدود پھر اس کا احاطہ مخلوق کیونکر کر سکتی ہے ۔ رہا دیکھنا سو اس کی نفی قرآن میں نہیں ۔
صحیح بخاری شب معراج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوئے : دنی الجبار رب العزة فتدلی حتی کان منه قاب قوسين او ادنی ۔ اللہ رب العزت اتنا قریب ہوا کہ دو کمانوں کے درمیان جتنا یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا ۔ (صحيح البخاری، 2 : 1120، کتاب التوحيد، رقم : 7079)
حدیث مبارکہ سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ آیہ کریمہ میں وہ ذات جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہوئی اس سے مراد رب العزت ہے جو جبار ہے۔
اہل ایمان بھی اللہ کا دیدار کریں گے تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے انکار کیوں ؟
رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کے بے حجاب دیدار سے بڑھ کر اور کوئی نعمت اہل ایمان کے لئے نہ ہو گی ۔
دیدارِ الٰہی پر متفق علیہ حدیث
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : انکم سترون ربکم عيانا ۔
ترجمہ : بے شک تم اپنے رب کو اعلانیہ دیکھو گے ۔ (صحيح البخاری، 2 : 1105، کتاب التوحيد، رقم : 6998)(مسند احمد بن حنبل، 3 : 16، چشتی)
حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چودہویں کے چاند کی رات ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا : انکم سترون ربکم يوم القيامة کما ترون القمر هذا ۔
ترجمہ : تم اپنے رب کو دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھتے ہو ۔
(صحيح البخاری، 2 : 1106، کتاب التوحيد)( سنن ابی داؤد، 2 : 302، کتاب السنة، رقم : 4729،چشتی)(سنن ابن ماجه، 1 : 63، رقم : 177)(مسند احمد بن حنبل، 4 : 360)
اس سے یہ بات ظاہر و باہر ہے کہ مندرجہ بالا ارشادات مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رو سے ذات باری تعالیٰ کے مطلقاً دیدار کی نفی نہیں ہوئی۔ اب اگر بالفرض اس کے عدم امکان کو تسلیم کر لیا جائے تو منطق کے اصول کے مطابق جو چیز اس جہان میں ناممکن ہے وہ عالم اخروی میں بھی ناممکن ہے لیکن بفحوائے ارشاد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر مومن کےلیے آخرت میں سب سے بڑی نعمت دیدار خداوندی ہو گا ۔
میرے نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اللہ کا دیدار کیا ہے
یہ بات کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام اپنے ہر ایمان دار امتی سے بدرجۂ اَتم کہیں بڑھ کر ہے بلکہ حق تو یہ ہے کہ ہر مومن کو ایمان کی دولت ان کے صدقے سے عطا ہوئی ہے۔ اس لحاظ سے یہ منفرد امتیاز صرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو حاصل ہے کہ انہیں معراج کی شب مشاہدہ و دیدار حق نصیب ہوا جبکہ دوسرے اہل ایمان کو یہ سعادت آخرت میں نصیب ہو گی۔ احادیث میں ہے کہ معراج کے دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو احوال آخرت، جنت اور دوزخ کا مشاہدہ کرایا گیا جبکہ باقی سب کو ان کا چشم دید مشاہدہ موت کے بعد کرایا جائے گا۔ بلاشبہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمالات میں شامل ہے کہ انہیں قیامت تک پیش آنے والے واقعات کی پیشگی مشاہدے کے ذریعے خبر دے دی گئی اور آخرت کے سب احوال ان پر بے نقاب کر دیئے گئے۔ اس بنا پر تسلیم کر لینے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہئے کہ منجملہ کمالات میں سے یہ کمال صرف حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہوا کہ دیدار الٰہی کی وہ عظمت عظمیٰ جو مومنوں کو آخرت میں عطا ہو گی وہ آپ کو شب معراج ارزانی فرما دی گئی۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا تھا کہ چھوٹی نعمتوں کے باوصف سب سے بڑی نعمت جو دیدار الٰہی ہے اس سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محروم کر دیا جاتا ۔
امکان کی بات سے قطع نظر سورہ نجم کی آیات معراج میں چار مقامات ایسے ہیں جن میں ذات باری تعالیٰ کے حسن مطلق کے دیدار کا ذکر کیا گیا ہے : ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى ۔ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى ۔ (سورہ النجم آیت : 8 - 9)
ترجمہ : پھر وہ (ربّ العزّت اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہو گیا ۔ پھر (جلوۂ حق اور محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہو گیا) ۔
ارشادِ ربانی میں اس انتہائی درجے کے قرب کی نشاندہی کی گئی ہے جس کا حتمی نتیجہ اور نقطہ منتہی سوائے دیدار الٰہی کے اور کچھ قرین فہم نہیں ۔ اس کے بعد فرمایا : مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى ۔ (سورہ النجم آیت 11)
ترجمہ : (اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا ۔
قرآن حکیم نے یہ واضح فرما دیا کہ شب معراج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمال ذات باری تعالیٰ کا مشاہدہ دل کی آنکھ سے بھی کیا اور سر کی آنکھ سے بھی ۔
حدیث طبرانی میں ہے کہ : ان محمدا رای ربه مرتين مرة بعينه و مرة بفواده ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا۔ ایک مرتبہ آنکھ سے اور ایک مرتبہ دل سے ۔ ( المعجم الکبير، 12 : 71، رقم : 12564)( المعجم الاوسط، 6 : 356، رقم : 5757،چشتی)(المواهب اللدنيه، 2 : 37)( نشر الطيب تھانوی صاحب: 55)
اس حدیث پاک سے رؤیت باری تعالیٰ کے بارے میں اوپر درج کی گئی قرآنی آیات کے مضمون کی بخوبی تائید ہوتی ہے ۔
حضرت امام حسن بصری رضی اللہ عنہ جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسان رضی اللہ عنہ جیسے برگزیدہ اصحاب رسول کی صحبت سے فیض یافتہ نامور تابعی ہیں، ان سے ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں سوال کیا گیا کہ آیا انہوں نے معراج کی شب ذات باری تعالیٰ کا دیدار کیا؟ تو انہوں نے تین بار قسم کھا کر اس بات کا اقر ار کیا کہ ہاں انہوں نے اپنے رب کو دیکھا ہے ۔
اسی طرح جب امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رؤیت باری تعالیٰ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے تین بار یہ الفاظ دہرائے، قد رای ربہ یعنی انہوں نے اپنے رب کودیکھا، یہاں تک کہ ان کی سانس پھول گئی ۔
یہ خیالات و معتقدات سب ممتاز اور قابل ذکر صحابہ، صحابیات، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ کرام کے ہیں۔ قرآن حکیم نے رؤیت باری کی تائید فرماتے ہوئے شک کرنے والوں سے پوچھا ۔ أَفَتُمَارُونَهُ عَلَى مَا يَرَى ۔ (النجم، 53 : 12)
ترجمہ : کیا تم ان سے اس پر جھگڑتے ہو جو انہوں نے دیکھا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ظاہری آنکھ کے علاوہ ایک آنکھ باطنی دل کی بھی عطا فرمائی تھی ۔ جب ساعت دیدار آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ظاہری جلوہ اور باطنی جلوہ دونوں نصیب ہوئے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى ۔ (النجم، 53 : 13)
ترجمہ : اور بیشک انہوں نے تو اُس (جلوۂ حق) کو دوسری مرتبہ (پھر) دیکھا (اور تم ایک بار دیکھنے پر ہی جھگڑ رہے ہو) ۔
کیا معراج میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا ؟
بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین دیدار الٰہی کے قائل نہیں ہیں ۔ مثلاً حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ دیدار الہی کے قائل ہیں اور فرماتے ہیں : انه راه بعينه ۔ (مسلم شريف، 1 : 118)
ترجمہ : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو آنکھوں سے دیکھا ہے ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے تھے : ان الله اختص موسیٰ بالکلام و ابراهيم بالخلة و محمدا بالرؤية و حجته قوله تعالیٰ : مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى ۔ اَفَتُمٰرُوْنَهٗ عَلٰى مَا یَرٰى ۔ وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰىۙ ۔ (سورہ النجم : 11 تا 13)
ترجمہ : دل نے جھوٹ نہ کہا جو دیکھا ، تو کیا تم ان سے ان کے دیکھے ہوئے پر جھگڑتے ہو ، اور انہوں نے تو وہ جلوہ دو بار دیکھا ۔
یہ معنی ابن عباس ، ابوذر غفاری ، عکرمہ التابعی ، حسن البصری التابعی ، محمد بن کعب القرظی التابعی ، ابوالعالیہ الریاحی التابعی ، عطا بن ابی رباح التابعی ، کعب الاحبار التابعی ، امام احمد بن حنبل اور امام ابوالحسن اشعری رضی اللہ عنہم اور دیگر ائمہ کے اَقوال پر ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو کلام کے ساتھ خاص کیا، ابراہیم علیہ السلام کو خلت کے ساتھ خاص کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآ وسلم کو رؤیت یعنی دیدار کے ساتھ خاص کیا۔ اور دلیل قرآن مجید سے پیش کرتے ہیں ۔
امام عبدالرزاق بیان کرتے ہیں کہ حسن بصری رضی اللہ عنھما قسم کھا کر فرماتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے، اسی طرح دیدار الہی کے قائلین میں ابن مسعود اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کو بھی شمار کیا جاتا ہے ، حالانکہ غیر قائلین میں بھی ان دونوں کو شمار کیا گیا ہے ۔ امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حق میں یہ کہتا ہوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے، دیکھا ہے، اور سانسیں اتنی لمبی کرتے کہ سانس ختم ہو جاتی ۔
لیکن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے دیدار کا انکار کیا اور آیت کو حضرت جبریل کے دیدار پر محمول کیا اور فرمایا کہ جو کوئی کہے کہ محمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا اس نے جھوٹ کہا اور سند میں لَاتُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُتلاوت فرمائی ۔ یہاں چند باتیں قابلِ لحاظ ہیں ایک یہ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا قول نفی میں ہے اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کا اثبات میں اور مثبت ہی مقدم ہوتا ہے کیونکہ نافی کسی چیز کی نفی اس لئے کرتا ہے کہ اس نے سنا نہیں اور مثبت اثبات اس لئے کرتا ہے کہ اس نے سنا اور جانا تو علم مثبت کے پاس ہے علاوہ بریں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے یہ کلام حضور سے نقل نہیں کیا بلکہ آیت سے اپنے استنباط پر اعتماد فرمایا یہ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکی رائے ہے اور آیت میں ادراک یعنی احاطہ کی نفی ہے نہ رویت کی ۔
قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ چونکہ معراج کا واقعہ ہجرت سے پہلے ہوا اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی ہجرت کے بعد ہوئی ہے، لہذا اس معاملے میں ان کی خبر معتبر نہیں ہے، اور باقی حضرات مثلاً ام ہانی وغیرہ تو ان کا قبول معتبر ہے، یہ قوی دلیل ہے، اس بات پر کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جو فرماتی ہیں یہ کسی اور واقعہ کے بارے میں ہے جو ہجرت کے بعد ہوا ہے ۔ (الشفاء بتعر يف حقوق المصطفی، 1 : 195، چشتی)
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے اللہ کو دیکھا ہے فرمایا ہاں میں نے نور دیکھا ۔ ( کتاب الایمان صفحہ 768 امام محمد بن اسحاق علیہ الرحمہ 400 ہجری) ۔ سنہ 400 ہجری میں لکھی والی یہ کتاب امام محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کی جس سے الحمد للہ عقیدہ اہلسنت صاف طور پر ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کا دیدار کیا ہے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کو دیکھا ہے ۔ (کتاب السنہ صفحہ 179 487 ہجری اور ناصر البانی وہابی لکھتے ہیں اس کی اسناد صحیح ہیں، چشتی)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب اچھی صورت میں دیکھا ہے ۔( کتاب التوحید صفحہ 538 امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ، چشتی)
حضور اکرم نور مجسّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب عزّ وجل کو دیکھا ہے ۔۔۔۔۔ ( امام اہلسنت امام شیبانی رحمۃُاللہ علیہ متوفی 412 ہجری کتاب السنہ صفحہ نمبر 184 )(اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں ناصر البانی محقق وھابی مذھب نے اسے صحیح کہا ہے ، چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرا اللہ اچھی صورت میں جلوہ فرما ہوا اور اپنا دست قدرت میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا میں نے اس کی ٹھنڈک محسوس کی اور میں جان گیا جو زمین و آسمان کے درمیان ہے ۔مفہوم حدیث ۔ ( کتاب الرّویہ حدیث نمبر 245 عربی صٖحہ 331 از الحافظ الامام ابی الحسن علی بن عمر الدّار قطنی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 385 ہجری ، اس حدیث کی تمام اسناد صحیح ہیں اور تمام رجال ثقہ ہیں)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کا دیدار کیا اور رویۃ باری تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے تھی خلت ابراہیم علیہ السّلام کےلیے اور کلام موسیٰ علیہ السّلام کےلیے تھا ۔ ( کتاب السنہ صفحہ نمبر 192 امام شیبانی متوفی 487 ہجری ان احادیث کی اسناد صحیح ہیں محدث الوہابیہ البانی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : میں نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا ۔ (مسند احمد بن حنبل عن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۲۸۵)(امام جلال الدین سیوطی خصائص کبرٰی اور علامہ عبدالرؤف مناوی علیہماالرحمہ تیسیر شرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں : یہ حدیث بسند صحیح ہے ۔ (التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت حدیث رأیت ربی مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۲ /۲۵)(الخصائص الکبرٰی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۱ /۱۶۱)
ابن عساکر حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے راوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : بیشک اللہ تعالٰی نے موسٰی کو دولت کلام بخشی اورمجھے اپنا دیدار عطافرمایا مجھ کو شفاعت کبرٰی وحوض کوثر سے فضیلت بخشی ۔ (کنز العمال بحوالہ ابن عساکر عن جابر حدیث ۳۹۲۰۶ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۴ /۴۴۷)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : مجھے میرے رب عزوجل نے فرمایا میں نے ابراہیم کو اپنی دوستی دی اور موسٰی علیہماالسلام سے کلام فرمایا اور تمہیں اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مواجہ بخشا کہ بے پردہ و حجاب تم نے میرا جمال پاک دیکھا ۔ (تاریخ دمشق الکبیر باب ذکر عروجہ الی السماء و اجتماعہ بجماعۃ من الانبیاء داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۲۹۶،چشتی)
مجمع البحار میں ہے کہ کفاح کا معنٰی بالمشافہ دیدار ہے جبکہ درمیان میں کوئی پردہ اورقاصد نہ ہو ۔ (مجمع بحار الانوار باب کف ع تحت اللفظ کفح مکتبہ دارالایمان مدینہ منورہ ۴ /۴۲۴)
ابن مردویہ حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما سے راوی : میں نے سنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سدرالمنتہٰی کا وصف بیان فرماتے تھے میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضور نے اس کے پاس کیا دیکھا ؟ فرمایا : مجھے اس کے پاس دیدار ہوا یعنی رب کا ۔ (درالمنثور فی التفسیر بالماثور بحوالہ ابن مردویہ تحت آیۃ ۱۷/۱ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۱۹۴)
ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی : ہم بنی ہاشم اہلبیتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ بیشک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دوبار دیکھا ۔ (جامع الترمذی ابواب التفسیر سورہ نجم امین کمپنی اردو بازا ر دہلی ۲ /۱۶۱) )(الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی فصل وامارؤیۃ لربہ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ ۱/ ۱۵۹)
ابن اسحٰق عبداللہ بن ابی سلمہ سے راوی : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے دریافت کیا : کیا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کودیکھا ؟ ا نہوں نے جواب دیا: ہاں ۔ (درالمنثور بحوالہ ابن اسحٰق تحت آیۃ ۵۳ /۱ ۸ داراحیاء التراث العربی بیروت ۷ /۵۷۰)
طبرانی کے الفاظ ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ۔ عکرمہ ان کے شاگرد کہتے ہیں : میں نے عرض کی : کیا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ؟ فرمایا : ہاں اللہ تعالٰی نے موسٰی کےلیے کلام رکھا اور ابراہیم کےلیے دوستی اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے دیدار ۔ (اورامام ترمذی نے یہ زیادہ کیا کہ ) بیشک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالٰی کو دوبار دیکھا ۔ (معجم الاوسط حدیث ۹۳۹۲ مکتبۃ المعارف ریاض ۱۰ /۱۸۱) (جامع الترمذی ابواب التفسیر سورۃ نجم امین کمپنی اردو بازار دہلی ۲/ ۱۶۰) ۔ امام ترمذی فرماتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے ۔ امام نسائی اور امام خزینہ و حاکم و بیہقی علیہم الرحمہ کی روایت میں ہے : کیا ابراہیم کےلیے دوستی اورموسٰی کےلیے کلام اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے دیدار ہونے میں تمہیں کچھ اچنبا ہے۔ یہ الفاظ بیہقی کے ہیں ۔ حاکم نےکہا : یہ حدیث صحیح ہے ۔ امام قسطلانی و زرقانی نے فرمایا : اس کی سند جید ہے ۔ (مواہب اللدنیۃ بحوالہ النسائی والحاکم المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۴)(الدرالمنثور بحوالہ النسائی والحاکم تحت الآیۃ ۵۳ /۱۸ دار احیاء التراث العربی بیروت ۷ /۵۶۹) (المستدرک علی الصحیحین کتاب الایمان راٰی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ربہ دارالفکر بیروت ۱ /۶۵،چشتی)(السنن الکبری للنسائی حدیث ۱۱۵۳۹ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۶ /۴۷۲) (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الخامس دارالمعرفۃ بیروت ۶ /۱۱۷)
طبرانی معجم اوسط میں راوی : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمایا : بیشک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو بار اپنے رب کو دیکھا ایک بار اس آنکھ سے اور ایک بار دل کی آنکھ سے ۔ (مواہب اللدنیۃ بحوالہ الطبرانی فی الاوسط المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵)(المعجم الاوسط حدیث ۵۷۵۷ مکتبۃ المعارف ریاض ۶ /۳۵۶) ۔ امام سیوطی و امام قسطلانی و علامہ شامی علامہ زرقانی علیہم الرحمہ فرماتے ہیں : اس حدیث کی سند صحیح ہے ۔ (المواہب اللدنیۃ المقصد الخامسالمکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵) (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الخامسدارالمعرفہ بیروت ۶ /۱۱۷)
امام الائمہ ابن خزیمہ و امام بزار علیہما الرحمہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے راوی : بیشک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا ۔ (المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن خزیمہ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵) ۔ امام احمد قسطلانی و امام عبدالباقی زرقانی علیہما الرحمہ فرماتے ہیں : اس کی سند قوی ہے (مواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن خزیمہ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵)(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الخامسدارالمعرفہ بیروت ۶ /۱۱۸)
محمد بن اسحٰق علیہ الرحمہ کی حدیث میں ہے : مروان نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا : کیا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ر ب کو دیکھا ؟ فرمایا : ہاں ۔ (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن اسحٰق دارالمعرفہ بیروت ۶ /۱۱۶،چشتی)(الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی بحوالہ ابن اسحٰق فصل وما رؤیۃ لربہ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ ۱ /۱۵۹)
مصنف عبدالرزاق میں ہے : امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ قسم کھا کر فرمایا کرتے بیشک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ۔ (شفاء بتعریف حقوق المصطفٰی بحوالہ عبدالرزاق عن معمر عن الحسن البصری فصل واما رویۃ لربہ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ ۱ /۱۵۹)
امام ابن خزیمہ علیہ الرحمہ حضرت عروہ بن زیبر رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی کے بیٹے اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے نواسے ہیں راوی کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شب معراج دیدارِ الہٰی ہونا مانتے اور ان پر اس کا انکار سخت گراں گزرتا ۔ (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن خزیمہ المقصد الخامس دارالمعرفۃ بیروت ۱/۱۱۶،چشتی) ۔ حضرات کعب احبار عالم کتب سابقہ و امام ابن شہاب زہری قرشی وامام مجاہد مخزومی مکی و امام عکرمہ بن عبداللہ مدنہ ہاشمی وامام عطا بن رباح قرشی مکی۔ استاد امام ابو حنیفہ و امام مسلم بن صبیح ابوالضحی کو فی وغیرہم جمیع تلامذہ عالم قرآن حبر الامہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کا بھی یہی مذہب ہے ۔
امام قسطلانی علیہ الرحمہ مواہب الدنیہ میں فرماتے ہیں : ابن خزیمہ نے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہا سے اس کا اثبات روایت کیا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے تمام شاگردوں کا یہی قول ہے ۔ کعب احبار اورزہری نے اس پر جزم فرمایا ہے ۔ الخ۔ (المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۴)
امام خلّال کتاب السن میں اسحٰق بن مروزی سے راوی ، حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ علیہم رؤیت کو ثابت مانتے اوراس کی دلیل فرماتے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے میں نے اپنے رب کو دیکھا ۔ (مواہب اللدنیۃ بحوالہ الخلال فی کتاب السن المقصد الخامس المتکب الاسلامی بیرو ت۳ /۱۰۷)
نقاش اپنی تفسیر میں اس امام سند الانام رحمة اللہ علیہ سے راوی : انہوں نے فرمایا : میں حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما کا معتقد ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو اسی آنکھ سے دیکھا دیکھا دیکھا ، یہاں تک فرماتے رہے کہ سانس ٹوٹ گئی ۔ (لشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی بحوالہ النقاش عن احمد وامام رؤیۃ لربہ المکتبۃ الشرکۃ الصحافیۃ ۱ /۱۵۹)
امام ابن الخطیب مصری مواہب شریف میں فرماتے ہیں : امام معمر بن راشد بصری اور ان کے سوا اور علماء نے اس پر جزم کیا ، اور یہی مذہب ہے امام اہلسنت امام ابوالحسن اشعری اور ان کے غالب پَیروؤں کا ۔ (مواہب اللدنیہ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۴)
علامہ شہاب الدین خفاجی نسیم الریاض شرح شفائے امام قاضی عیاض علیہما الرحمہ میں فرماتے ہیں : مذہب اصح وراجح یہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شب اسرا اپنے رب کو بچشم سردیکھا جیسا کہ جمہور صحابہ کرام کا یہی مذہب ہے ۔ (نسیم الریاض شرح شفاء القاضی عیاض فصل واما رؤیۃ لربہ مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۲ /۳۰۳)
امام نووی شرح صحیح مسلم میں اور علامہ محمدبن عبدالباقی علیہما الرحمہ شرح مواہب میں فرماتے ہیں : جمہور علماء کے نزدیک راجح یہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شب معراج اپنے رب کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا ۔ (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس دارالمعرفۃ بیروت ۶ /۱۱۶)
علمائے کرام ائمہ دین عدول ثقات معتمدین نے اپنی تصنیف جلیلہ میں اس کی اور اس سے زائد کی تصریحات جلیلہ فرمائی ہیں ، اور یہ سب احادیث ہیں ، اگرچہ احادیث مرسل یا ایک اصطلاح پر معضل ہیں ، اورحدیث مرسل ومعضل باب فضائل میں بالاجماع مقبول ہے خصوصاً جبکہ ناقلین ثقات عدول ہیں اوریہ امر ایسا نہیں جس میں رائے کو دخل ہوتو ضرور ثبوت سند پر محمول ، اورمثبت نافی پر مقدم ، اورعدم اطلاع اطلاع عدم نہیں تو جھوٹ کہنے والا محض جھوٹا مجازف فی الدین ہے ۔
امام محمد بوصیری قدس سرہ، قصیدہ بردہ شریف میں فرماتے ہیں : ⏬
عسریت من حرم لیلا الی حرم
کما سری البدر فی داج من الظلم
وبت ترقی الی ان نلت منزلۃ
من قاب قوسین لم تدرک ولم ترم
خفضت کل مقام بالاضافۃ اذ
نودیت بالرفع مثل المفرد العلم
فخرت کل فخار غیر مشترک
وجزت کل مقام غیر مزدحم
ترجمہ : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے ایک تھوڑے سے حصے میں حرم مکہ معظمہ سے بیت الاقصٰی کی طرف تشریف فرما ہوئے جیسے اندھیری رات میں چودھویں کا چاند چلے ، اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس شب میں ترقی فرماتے رہے یہاں تک کہ قاب قوسین کی منزل پہنچے جو نہ کسی نے پائی نہ کسی کو اس کی ہمت ہوئی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی نسبت سے تمام مقامات کو پست فرما دیا ، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رفع کےلیے مفرد علم کی طرح ندافرمائے گئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر ایسا فخر جمع فرمالیا جو قابل شرکت نہ تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر اس مقام سے گزر گئے جس میں اوروں کا ہجوم نہ تھا یا یہ کہ حضور نے سب فخر بلا شرکت جمع فرمالیے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مقامات سے بے مزاحم گزرگئے ۔ (الکواکب الدریۃ فی مدح خیر البریۃ قصیدہ بردہ الفصل السابع مرکز اہلسنت گجرات ہند ص۴۴تا۴۶)
یعنی عالم امکان میں جتنے مقام ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے تنہا گزر گئے کہ دوسرے کو یہ امر نصیب نہ ہوا ۔
امام علی قاری علیہ الرحمہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں : ای انت دخلت الباب وقطعت الحجاب الی ان لم تترک غایۃ للساع الی السبق من کمال القرب المطلق الی جناب الحق ولا ترکت موضع رقی وصعود وقیام وقعود لطالب رفعۃ فی عالم الوجود بل تجاوزت ذٰلک الٰی مقام قاب قوسین اوادنٰی فاوحٰی الیک ربک ما اوحٰی ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دروازہ میں داخل ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہاں تک حجاب طے فرمائے کہ حضرت عزت کی جناب میں قربِ مطلق کامل کے سبب کسی ایسے کےلیے جو سبقت کی طرف دوڑے کوئی نہایت نہ چھوڑی اور تمام عالمِ وجود میں کسی طالب بندلی کےلیے کوئی جگہ عروج و ترقی یا اٹھنے بیٹھنے کی باقی نہ رکھی بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالم مکان سے تجاوز فرما کر مقام قاب وقوسین اوادنٰی تک پہنچے تو حضور کے رب نے حضور کو وحی فرمائی جو وحی فرمائی ۔ (الزبدۃ العمدۃ فی شرح القصیدۃ البردۃ الفصل السابع جمعیت علماء سکندریہ خیر پور سندھ صفحہ ۹۶،چشتی)
امام ہمام ابو عبداللہ شرف الدین محمد علیہ الرحمہ ام القرٰی میں فرماتے ہیں : ⏬
وترقی بہ الٰی قاب قوسین
وتلک السیادۃ القعسا
رتب تسقط الاما فی حسرٰی
دونھا ماوراھن وراء
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قاب قوسین تک ترقی ہوئی اور یہ سرداری لازوال ہے یہ وہ مقامات ہیں کہ آرزوئیں ان سے تھک کرگرجاتی ہیں ان کے اس طرف کوئی مقام ہی نہیں ۔ (ام القرٰی فی مدح خیر الورٰی الفصل الرابع حز ب القادریۃ لاہور صفحہ ۱۳)
امام ابن حجر مکی علیہ الرحمہ اس کی شرح افضل القرٰی میں فرماتے ہیں : قال بعض الائمۃ والماریج لیلۃ الاسراء عشرۃ ، سبعۃ فی السمٰوٰت والثامن الی سدرۃ المنتھٰی والتاسع الی المستوی والعاشر الی العرش ۔ الخ ۔
ترجمہ : بعض ائمہ نے فرمایا شب اسراء دس معراجیں تھیں ، سات ساتوں آسمانوں میں ، اورآٹھویں سدرۃ المنتہٰی ، نویں مستوٰی ، دسویں عرش تک ۔ (افضل القرٰی لقراء ام القری تھت شعر ۷۳ المجعم الثقافی ابو ظبی ۱/ ۴۰۴)
امام عارف باللہ عبدالغنی نابلسی علیہ الرحمہ نے حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ میں اسے نقل فرما کر مقرر رکھا : قال الشھاب المکی فی شرح ھمزیۃ لامام بوصیری عن بعض الائمۃ ان المعاریج عشرۃ الٰی قولہ والعاشر الی العرش والرؤیۃ ۔
ترجمہ : فرمایا ، امام شہاب مکی علیہ الرحمہ نے شرح ہمزیہ امام بوصیرہ میں کہا بعض آئمہ سے منقول ہے کہ معراجین دس ہیں ۔ (الحدیقۃ الندیہ شرح الطریقۃ المحمدیہ بحوالہ شرح قصیدہ ہمزیہ المکتبۃ النوریۃ الرضویہ لائلپور ۱ /۲۷۲)
نیز شرح ہمزیہ امام مکی میں ہے : لما اعطی سلیمٰن علیہ الصلٰوۃ والسلام الریح التی غدوھا شھر ورواحھا شھر اعطی نبینا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم البراق فحملہ من الفرش الی العرش فی لحظۃ واحدۃ واقل مسافۃ فی ذٰلک سبعۃ اٰلاف سنۃ ۔ وما فوق العرش الی المستوی والرفرف لایعلمہ الا اللہ تعالٰی ۔
ترجمہ :جب سلیمان علیہ الصلٰوۃ والسلام کو ہوادی گئی کہ صبح شام ایک ایک مہینے کی راہ پر لے جاتی ۔ ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو براق عطا ہوا کہ حضور کو فرش سے عرش تک ایک لمحہ میں لے گیا اوراس مین ادنٰی مسافت (یعنی آسمان ہفتم سے زمین تک ) سات ہزار برس کی راہ ہے ۔ اوروہ جو فوق العرش سے مستوٰی اورفرف تک رہی اسے توخدا ہی جانے ۔ (افضل القرٰی لقرء ام القرٰی)
اسی میں ہے : لما اعطی موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام الکلام اعطی نبینا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مثلہ لیلۃ الاسراء وزیادۃ الدنو والرویۃ بعین البصر وشتان مابین جبل الطور الذی نوجی بہ موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام موما فوق العرش الذی نوجی بہ نبینا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔
ترجمہ : جب موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کو دولت کلام عطا ہوئی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ویسی ہی شب اسراملی اور زیادت قرب اور چشم سر سے دیدارِ الٰہی اس کے علاوہ ۔ اور بھلاکہاں کو ہ طور جس پر موسٰی علیہ الصلوۃ والسلام سے مناجات ہوئی اورکہاں مافوق العرش جہاںہ مارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کلام ہوا ۔ (افضل القرٰی لقرء ام القرٰی)
اسی میں ہے : رقیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ببدنہ یقظۃ بمکۃ لیلۃ ولاسراء الی السماء ثم الی سدرۃ المنتھٰی ثم الی المستوی الی العرش والرفرف والرویۃ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے جسم پاک کے ساتھ بیداری میں شب اسراآسمانوں تک ترقی فرمائی ، پھر سدرۃ المنتہٰی ، پھر مقام مستوٰی ، پھر عرش ورفرف ودیدار تک ۔ (افضل القرٰی لقراء ام القرٰی تحت شعرا ۱المجمع الثقافی ابوظبی ۱/ ۱۱۶و۱۱۷،چشتی)
امام احمد بن محمد صاوی مالکی خلوتی رحمۃ اللہ علیہ تعلیقاتِ افضل القرٰی میں فرماتے ہیں :الاسراء بہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علی یقظۃ بالجسد والروح من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی ثم عرج بہ الی السمٰوٰت العلی ثم الی سدرۃ المنتہٰی ثم الی المستوی ثم الی العرش والرفرف ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج بیداری میں بدن و رُوح کے ساتھ مسجد حرامِ سے مسجدِ اقصٰی تک ہوئی ، پھر آسمانوں ، پھر سدرہ ، پھر مستوٰی ، پھرعرش ورفرف تک ۔ (تعلیقات علی ام القرٰی للعلامۃ احمد بن محمد الصاوی علی ھامش الفتوحات الاحمدیۃ المکتبۃ التجاریۃ الکبری مصر صفحہ ۳)
فتوحات احمدیہ شرح الہمزیہ للشیخ سلیمان الجمل میں ہے : رقیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لیلۃ الاسراء من بیت المقدس الی السمٰوٰت السبع الی حیث شاء اللہ تعالٰی لکنہ لم یجاوز العرش علی الراجح ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ترقی شب اسراء بیت المقدس سے ساتوں آسمانوں اوروہاں سے اس مقام تک ہے جہاں تک اللہ عزوجل نے چاہا مگر راجح یہ ہے کہ عرش سے آگے تجاوز نہ فرمایا ۔ (الفتوحات الاحمدیۃ بالمنح المحمدیۃ شرح الھمزیۃ المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی قاہرہ مصر صفحہ ۳،چشتی)
اسی میں ہے : المعاریج لیلۃ الاسراء عشرۃ سبعۃ فی السمٰوٰت والثامن الی سدرۃ المنتھٰی والتاسع الی المستوٰی والعاشر الی العرش لکن لم یجاوز العرش کما ھو التحقیق عند اھل المعاریج ۔
ترجمہ : معراجیں شب اسراء دس ہوئیں ، سات آسمانوں میں ، اور آٹھویں سدرہ ، نویں مستوٰی ، دسویں عرش تک ۔ مگر راویان معراج کے نزدیک تحقیق یہ ہے کہ عرش سے اوپر تجاوز نہ فرمایا ۔ (الفتوحات الاحمدیۃ بالمنح المحدیۃ شرح الھمزیۃ المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی قاہرہ مصر صفحہ ۳۰)
اسی میں ہے : بعد ان جاوز السماء السابعۃ رفعت لہ سدرۃ المنتھٰی ثم جاو زھا الی مستوٰی ثم زج بہ فی النور فخرق سبعین الف حجاب من نور مسیرۃ کل حجاب خمسائۃ عام ثم دلی لہ رفرف اخضر فارتقی بہ حتی وصل الی العرش ولم یجاوزہ فکان من ربہ قاب قوسین او ادنٰی ۔
ترجمہ : جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آسمان ہفتم سے گزرے سدرہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے بلند کی گئی اس سے گزر کر مقام مستوٰی پر پہنچے ، پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالم نور میں ڈالے گئے وہاں ستر ہزار پردے نور کے طے فرمائے ، ہر پردے کی مسافت پانسو برس کی راہ ۔ پھر ایک سبز بچھونا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے لٹکایا گیا ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر ترقی فرما کر عرش تک پہنچے ، اورعرش سے ادھر گزر نہ فرمایا وہاں اپنے رب سے قاب قوسین اوادنٰی پایا ۔ (الفتوحات الاحمدیۃ بالمنح المحدیۃ شرح الھمزیۃ المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی قاہرہ مصر صفحہ ۳۱)
حضرت شیخ سلیمٰن نے عرش سے اوپر تجاوز نہ فرمانے کو ترجیح دی ، اور امام ابن حجر مکی علیہما الرحمہ کی عبارت ماضیہ وآتیہ وغیرہا میں فوق العرش و لامکان کی تصریح ہے ، لامکان یقینا فوق العرش ہے اور حقیقۃً دونوں قولوں میں کچھ اختلاف نہیں ، عرش تک منتہائے مکان ہے ، اس سے آگے لامکان ہے ، اور جسم نہ ہوگا مگر مکان میں ، تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جسم مبارک سے منتہائے عرش تک تشریف لے گئے اورروح اقدس نے وراء الوراء تک ترقی فرمائی جسے ان کا رب جانے جو لے گیا ، پھر وہ جانیں جو تشریف لے گئے ، اسی طرف کلام امام شیخ اکبر رضی اللہ عنہ میں اشارہ عنقریب آتاہے کہ ان پاؤں سے سیر کا منتہٰی عرش ہے ، تو سیر قدم عرش پر ختم ہوئی ، نہ اس لیے کہ سیر اقدس میں معاذاللہ کوئی کمی رہی ، بلکہ اس لیے کہ تمام اماکن کا احاطہ فرما لیا ، اوپر کوئی مکان ہی نہیں جسے کہیے کہ قدم پاک وہاں نہ پہنچا اور سیر قلب انور کی انتہاء قاب قوسین ، اگر وسوسہ گزرے کہ عرش سے وراء کیا ہوگا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے تجاوز فرمایا تو امام سید علی وفا علیہ الرحمہ کا ارشاد سنیے جسے امام عبدالوہاب شعرانی علیہ الرحمہ نے کتاب الیواقیت والجواہر فی عقائد الاکابر میں نقل فرمایا کہ فرماتے ہیں : لیس الرجل من یقیدہ العرش وما حواہ من الافلاک والجنۃ والنار وانما الرجل من نفذ بصرہ الی خارج ھٰذا الوجود کلہ وھناک یعرف قدرعظمۃ موجدہ سبحٰنہ و تعالٰی ۔
ترجمہ : مَرد وہ نہیں جسے عرش اورجو کچھ اس کے احاطہ میں ہے افلاک و جنت و نار یہی چیزیں محدود و مقید کرلیں ، مرد وہ ہے جس کی نگاہ اس تمام عالم کے پار گزر جائے وہاں اسے موجد عالم جل جلالہ کی عظمت کی قدر کھلے گی ۔ (الیواقیت والجواہر المبحث الرابع والثلاثوں داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۳۷۰،چشتی)
امام احمد قسطلانی مواہب لدنیہ و منح محمدیہ میں اور امام محمد زرقانی علیہما الرحمہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں : (ومنہا انہ راٰی اللہ تعالٰی بعینیہ) یقظۃ علی الراجح (وکلمہ اللہ تعالٰی فی الرفیع الا علی) علی سائر الامکنۃ وقدروی ابن عساکر عن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ مرفوعا لما اسری لی قربنی ربی حتی کان بینی وبینہ قاب قوسین اوادنی ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص سے ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ عزوجل کو اپنی آنکھوں سے بیداری میں دیکھا ، یہی مذہب راجح ہے ، اور اللہ عزوجل نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس بلند و بالا تر مقام میں کلام فرمایا جو تمام امکنہ سے اعلٰی تھا اور بیشک ابن عساکر نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : شب اسراء مجھے میرے رب نے اتنا نزدیک کیا کہ مجھ میں اوراس میں دوکمانوں بلکہ اس سے کم کا فاصلہ رہ گیا ۔ (المواہب اللدنیۃ المقصد الرابع الفصل الثانی المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۶۳۴،چشتی)(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الرابع الفصل الثانی دارالمعرفۃ بیروت ۵ /۲۵۱و۲۵۲)
اسی میں ہے : قد اختلف العلماء فی الاسراء ھل ھوا اسراء واحد او اثنین مرۃ بروحہ وبدنہ یقظۃ ومرۃ مناما او یقظۃ بروحہ وجسدہ من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی ثم منا ما من المسجدالاقصٰی الی العرش ۔
ترجمہ : علماء کو اختلاف ہوا کہ معراج ایک ہے یا دو ، ایک بار روح و بدن اقدس کے ساتھ بیداری میں اور ایک بار خواب میں یا بیداری میں روح و بدن مبارک کے ساتھ مسجد الحرام سے مسجد اقصٰی تک ، پھر خواب میں وہاں سے عرش تک ۔ (المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۷)
فالحق انہ اسراء واحد بروحہ وجسدہ یقظۃ فی القصۃ کلھا والی ھذا ذھب الجمہور من علماء المحدثین والفقہاء والمتکلمین ۔
ترجمہ : اور حق یہ ہے کہ وہ ایک اسراء ہے اور سارے قصے میں یعنی مسجد الحرام سے عرش اعلٰی تک بیداری میں روح و بدن اطہر ہی کے ساتھ ہے ۔ جمہور علماء ومحدثین وفقہاء ومتکلمین سب کا یہی مذہب ہے ۔ (المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۷)(المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۲)
اسی میں ہے : المعاریج عشرۃ (الٰی قولہ )العاشر الی العرش ۔
ترجمہ : معراجیں دس ہوئیں ، دسویں عرش تک ۔ (المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس مراحل المعراج المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۷)
اسی میں ہے : قد ورد فی الصحیح عن انس رضی اللہ عنہ قال لما عرج بی جبریل الی سدرۃ المنتہٰی ودنا الجبار رب العزۃ فتدلی فکان قاب قوسین او ادنٰی ۔ وتدلیہ علی ما فی حدیث شریک کان فوق العرش ۔
ترجمہ :صحیح بخاری شریف میں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : میرے ساتھ جبریل نے سدرۃ المنتہٰی تک عروج کیا اور جبار رب العزۃ جل وعلانے دنو وتدلیّ فرمائی تو فاصلہ دو کمانوں بلکہ ان سے کم کا رہا، یہ تدلی بالائے عرش تھی ، جیسا کہ حدیث شریک ہے ۔ (المواہب اللدنیۃ المقصد الخاس ثم دنٰی فتدلٰی المتکب الاسلامی بیروت ۳ /۸۸،چشتی)(المواہب اللدنیۃ المقصد الخاس ثم دنٰی فتدلٰی المتکب الاسلامی بیروت ۳ /۹۰)
علامہ شہاب خفاجی نسیم الریاض شرح شفائے قاضی عیاض علیہما الرحمہ میں فرماتے ہیں : وردفی المعراج انہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لما بلغ سدرۃ المنتہٰی جاء ہ بالرفرف جبریل علیہ الصلٰوۃ والسلام فتناولہ فطاربہ الی العرش ۔
ترجمہ : حدیث معراج میں وارد ہوا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سدرۃ المنتہٰی پہنچے جبریل امین علیہ الصلٰوۃ والتسلیم رفرف حاضر لائے وہ حضو کر لے کر عرش تک اڑگیا ۔ (نسیم الریاض شرح شفاء القاضی عیاض فصل واماما ورد فی حدیث الاسراء مرکز اہلسنت گجرات ہند ۲ /۳۱۰)
اسی میں ہے :علیہ یدل صحیح الاحادیث الاحاد الدالۃ علی دخولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الجنۃ ووصولہ الی العرش اوطرف العالم کما سیأتی کل ذٰلک بجسدہ یقظہ ۔
ترجمہ : صحیح احادیثیں دلالت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شب اسراء جنت میں تشریف لے گئے اورعرش تک پہنچے یا علم کے اس کنارے تک کہ آگے لامکان ہے اوریہ سب بیداری میں مع جسم مبارک تھا ۔ (نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض فصل ثم اختلف السلف والعلماء مرکز اہلسنت گجرات ہند ۲ /۲۶۹،۲۷۰)
حضرت امام شیخ اکبر محی الدین ابن عربی علیہ الرحمہ فتوحاتِ مکیہ شریف باب ۳۱۶ میں فرماتے ہیں : اعلم ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لما کان خلقہ القراٰن وتخلق بالاسماء وکان اللہ سبحٰنہ وتعالٰی ذکر فی کتاب العزیز انہ تعلاٰی استوی علی العرش علی طریق التمدح والثناء علی نفسہ اذ کان العرش اعظم الاجسام فجعل لنبیہ علیہ الصلٰوۃ والسلام من ھذا الاستواء نسبۃ علی طریق التمدح والثناء علیہ بہ حیث کان اعلی مقام ینتہی الیہ من اسری بہ من الرسل علیھم الصلٰوۃ والسلام وذٰلک یدل علی انہ اسری بہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بجسمہ ولو کان الاسراء بہ رؤیا لما کان الاسراء ولا الوصلو الی ھذا المقام تمدحا ولا وقع من الاعرافی حقہ انکار علی ذٰلک ۔
ترجمہ : تو جان لے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلق عظیم قرآن تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسماء الٰہیہ کی خو و خصلت رکھتے تھے اور اللہ سبحانہ و تعالٰی قرآن کریم میں اپنی صفات مدح سے عرش پر استواء بیان فرمایا تو اس نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اس سفت استواعلی العرش کے پر تو سے مدح و منقبت بخشی کہ عرش وہ اعلٰی مقام ہے جس تک رسولوں کا اسراء منتہی ہو ، اوراس سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسراء مع جسم مبارک تھا کہ اگر خواب ہوتا تو اسرا اور اس مقام استواء علی العرش تک پہنچنا مدح نہ ہوتا نہ گنواراس پر انکار کرتے ۔ (الفتوحات المکیۃ الباب السادس داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۶۱)
امام عبدالوہاب شعرانی علیہ الرحمہ کتاب الیواقیت والجواہر میں حضرت موصوف سے ناقل : انما قال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علی سبیل التمدح حتی ظھرت لمستوی اشارۃ لما قلنا من ان متھی السیر بالقدم المحسوس للعرش ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بطور مدح ارشاد فرمانا کہ یہاں تکہ کہ میں مستوی پر بلند ہوا اسی امر کی طرف اشارہ ہے کہ قدم جسم سے سیر کا منتہٰی عرش ہے ۔ (الیواقیت والجواہر المبحث الرابع والثلاثون داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۳۷۰)
مدارج النبوۃ شریف میں ہے : فرمود صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پس گسترانیدہ شد برائے من رفرف سبز کہ غالب بود نور او پر نور نورآفتاب پس درخشید بآن نور بصر من ونہادہ شدم من برآں رفرف وبرداشتہ شدم تابرسید بعرش ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر میرے لیے سبز بچھونا بچھایا گیا جس کا نور آفتاب کے نور پر غالب تھا چنانچہ اس نور کے سبب میری آنکھوں کا نور چمک اٹھا ، پھر مجھے رفرف پر سوار کر کے بلندی کی طرف اٹھایا گیا یہاں تک کہ میں عرش پر پہنچا ۔ (مدارج النبوۃ باب پنجم وصل دررؤیت الٰہی مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر۱/۱۶۹)
اسی میں ہے : آوردہ اند کہ چوں رسید آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعرش دست زد بدامان اجلال وے ۔
ترجمہ : منقول ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرش پر پہنچے تو عرش آپ کا دامن اجلال تھام لیا ۔ (مدارج النبوۃ باب پنجم وصل دررؤیت الٰہی مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر۱ /۱۷۰)
اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ شریف میں ہے : جز حضرت پیغمبرما صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بالاترازاں ہیچ کس نہ رفتہ و آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بجائے رفت کہ آنجاجانیست ۔
ترجمہ : ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ عرش سے اوپر کوئی نہیں گیا ، آپ اس جگہ پہنچے جہاں جگہ نہیں ۔
برداشت از طبیعت امکاں قدم کہ آں
اسرٰی بعبدہٖ است من المسجد الحرام
تاعرصہ وجوب کہ اقتضائے عالم ست
کابخانہ جاست ونے جہت ونے نشاں نہ نام
ترجمہ : طبیعت امکان سے قدم مبارک اٹھالئے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے خاص بندے کو سیر کرائی مسجد حرام سے صحرائے وجوب تک جو عالم کا آخری کنارہ ہے کہ وہاں نہ مکان ہے نہ جہت، نہ نشان اورنہ نام ۔ (اشعۃ اللمعات باب المعراج مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر۴ /۵۳۸)
نیز اسی کے باب رؤیۃ اللہ تعالٰی فصل سوم زیر حدیث قد راٰی ربہ مرتین (تحقیق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دوبارہ یکھا)
ارشاد فرمایا : بتحقیق دید آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پروردگارخود را جل وعلا دوبار، یکے چوں نزدیک سدرۃ المنتہٰی بود،دوم چوں بالائے عرش برآمد ۔
ترجمہ : تحقیق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پروردگارجل وعلاکو دوباردیکھا ، ایک بار جب آپ سدرہ کے قریب تھے ، اوردوسری بار جب آپ عرش پرجلوہ گرہوئے ۔ (اشعۃ اللمعات کتاب الفتن باب رؤیۃ اللہ تعالٰی الفصل الثالث مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر۴ /۴۴۲تا۴۲۹،چشتی)
مکتوبات حضرت شیخ مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ جلد اول ، مکتوب ۲۸۳ میں ہے : آں سرور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دراں شب چوں از دائرہ مکان وزمان بریون جست وازتنگی امکان برآمد ازل وابدراں آں واحد یافت وبدایت ونہایت رادریک نطقہ متحد دید ۔
ترجمہ : اس رات سرکار دوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مکان وزمان کے دائرہ سے باہر ہوگئے ،اور تنگی امکان سے نکل کر آپ نے ازل وابد کو ایک پایا اورابتداء کو انتہا کو ایک نقطہ میں متحد دیکھا ۔ (مکتوبات امام ربانی مکتوب ۲۸۳نولکشورلکھنؤ ۱/ ۳۶۶)
نیز مکتوب ۲۷۲ میں ہے : محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ محبوب رب العالمین ست وبہترین موجودات اولین وآخرین باوجودآنکہ بدولت معراج بدنی مشرف شد واز عرش وکرسی درگزشت وازامکان وزمان بالارفت ۔
ترجمہ : محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کہ رب العالمین کے محبوب ہیں اور تمام موجودات اولین و آخرین سے افضل ہیں ، جسمانی معراج سے مشرف ہوئے اورعرش وکرسی سے آگے گزر گئے اور مکان و زمان سے اوپر چلے گئے ۔ (مکتوبات امام ربانی مکتوب ۲۷۲نولکشورلکھنؤ ۱ /۳۴۸)
امام ابن الصلاح علیہ الرحمہ کتاب معرفۃ انواع علم الحدیث میں فرماتے ہیں : قول المصنفین من الفقہاء وغیرہم ''قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کذا وکذا''ونحو ذٰلک کلہ من قبیل المعضل وسماہ الخطیب ابوبکر الحافظ فی بعض وکلامہ مرسلا وذٰلک علی مذھب من یسمی کل مالایتصل مرسلاً ۔
ترجمہ : فقہاء وغیرہ ومصنفین کا قول کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا ایسا فرمایا ہے یا اس کی مثل کوئی کلمہ یہ سب معضل کے قبیل سے ہے ۔ خطیب ابو بکر حافظ نے اس کا نام مرسل رکھا ہے اوریہ اس کے مذہب کے مطابق ہے جو ہر غیر متصل کا نام مرسل رکھتاہے ۔ (معرفۃ انواع علم الحدیث النوع الحادی عشر دارالکتب العلمیۃ بیروت صفحہ ۱۳۸)
تلویح وغیرہ میں ہے : ان لم یذکر الواسطۃ اصلا فمرسل ۔
ترجمہ : اگر واسطہ بالکل مذکور نہ ہوتو وہ مرسل ہے ۔ (التوضیح والتلویح الرکن الثانی فی السنۃ فصل فی الانقطاع نورانی کتب خانہ پشاور ص۴۷۴)
مسلم الثبوت میں ہے : المرسل قول العدل قال علیہ الصلٰوۃ والسلام کذا ۔
ترجمہ : مرسل یہ ہے عادل کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں فرمایا ۔ (مسلم الثبوت مسئلہ تعریف المرسل مطبع انصاری دہلی ص۲۰۱)
فواتح الرحموت میں ہے : الکل داخل فی المرسل عند اھل الاصول ۔
ترجمہ : اصولیوں کے نزدیک سب مرسل میں داخل ہیں ۔ (فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت بذیل المستصفی مسئلہ فی الکلام علی المرسل منشورات الشریف الرضی قم ۲ /۱۷۴)
انہیں میں ہے : المرسل ان کان من صحابی یقبل مطلقا اتفاقا وان کان من غیرہ فالاکثر ومنھم الامام ابوحنیفۃ والامام مالک والامام احمد رضی اللہ تعالٰی عنہم قالو یقبل مطلقا اذا کان الراوی ثقۃ ۔۔۔۔ الخ ۔
ترجمہ : مرسل اگر صحابی سے ہو مطلقاً مقبول ہے اور اگر غیر صحابی سے ہو تو اکثرائمہ بشمول امام اعظم ، امام مالک اورامام احمد رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ مطلقامقبول ہے بشرطیکہ راوی ثقہ ہو الخ ۔ (فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت بذیل المستصفی مسئلہ فی الکلام علی المرسل منشورات الشریف الرضی قم ۲ /۱۷۴)
مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں ہے : لایضرذٰلک فی الاستدلال بہ ھٰھنا لان المقطع یعمل بہ فی الفضائل اجماعا ۔
ترجمہ : اس سے استدلال کرنا یہاں مضر نہیں کیونکہ فضائل میں منقطع بالاجماع قابل عمل ہے ۔ (مرقاۃ المفاتیح باب الرکوع الفصل الثانی تحت الحدیث ۸۸۰المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۲ /۶۰۲)
شفائے امام قاضی عیاض علیہ الرحمہ میں ہے : اخبر صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لقتل علی وانہ قسیم النار ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قتل کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ بیشک وہ قسیم النار ہیں ۔ (الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی فصل ومن ذلک مااطلع علیہ من الغیوب المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ ۱ /۲۸۴)
نسیم الریاض میں فرمایا : ظاھر ھذان ھذا مما اخبربہ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الا انھم قالوا لم یروہ احدمن المحدثین الا ان ابن الاثیر قال فی النہایۃ الا ان علیا رضی اللہ تعالٰی عنہ قال انا قسیم النار قلت ابن الاثیر ثقۃ وما ذکرہ علی لایقال من قبل الرائ فھو فی حکم المرفوع ۔ اھ ملخصاً ۔
ترجمہ : ظاہر اس کا یہ ہےکہ بیشک یہ ان امور میں سے ہے جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر دی مگر انہوں نےکہا کہ اس کو محدثین میں سے کسی نے روایت نہیں کیا مگر ابن اثیر نے نہایہ میں کہا : بیشک حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں قسیم نار ہوں ۔ میں کہتاہوں کہ ابن اثیر ثقہ ہے اورجو کچھ سیدنا علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ نے ذکر فرمایا وہ قیاس سے نہیں کہا جاسکتا لہذ ا وہ مرفوع کے حکم میں ہے اھ تلخیص ۔ (نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض ومن ذلک ما اطلع علیہ من الغیوب مرکز اہلسنت گجرات الہند ۳ /۱۶۳،چشتی)
امام ابن الہمام علیہ الرحمہ فتح القدیر میں فرماتے ہیں : عدم النقل لاینفی الوجود ۔
ترجمہ : عدم نقل وجود کی نفی نہیں کرتا ۔ (فتح القدیر کتاب الطہارت مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۲۰) ۔ (مزید حصّہ ششم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment