Saturday, 27 January 2024

واقعہ معراج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حقائق و دلائل حصّہ چہارم

واقعہ معراج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حقائق و دلائل حصّہ چہارم
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بیداری کی حالت میں جسمانی معراج نصیب ہوئی ، اس پہ قرآنی آیت و صحیح احادیث دال ہیں ، نیز جمہور صحابۂ کرام ، تابعین ، تبعِ تابعین ، فقہاء ، محدثین اور متکلمین رضی اللہ عنہم وعلیہم الرحمہ کا مذہب اور اہلِ سنّت و جماعت کا یہی عقیدہ ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے : سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ ۔ (سورہ الاسرا)
ترجمہ : پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے خاص بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک سیر کروائی جس کے اِرد گِرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں ، بیشک وہی سننے والا، دیکھنے والا ہے ۔ (پ15، بنی اسرآءیل :1)

اس آیتِ کریمہ کے تحت تفسیرِ خازن ، جلالین اور حاشیہ صاوی میں ہے : والحق الذی علیہ اکثر الناس ومعظم السلف و عامۃ الخلف من المتأخرین من الفقھاء والمحدثین والمتکلمین انہ اسری بروحہ وجسدہ صلی اللہ علیہ وسلم، ویدل علیہ قولہ سبحانہ و تعالیٰ : سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا  ۔ و لفظ العبد عبارۃ عن مجموع الروح والجسد، والحدیث الصحیحۃ التی تقدمت تدل علی صحۃ ھذا القول ۔
ترجمہ : حق وہی ہے جس پر کثیر لوگ، اکابر علماء اور متأخرین میں سے عام فقہاء ، محدثین اور متکلمین ہیں کہ حضور علیہ السَّلام نے جسم اور روح مبارک کے ساتھ سیر فرمائی ، اور اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان دلالت کرتا ہے : پاکی ہے اسے جو راتوں رات اپنے بندے کو لے گیا ، کیونکہ لفظ عبد روح اور جسم دونوں کے مجموعے کا نام ہے ، یونہی (ماقبل) ذکر کردہ حدیث صحیح بھی اس قول کی صحت پر دلالت کرتی ہے ۔(تفسیر خازن پارہ نمبر 15 الآیۃ:1 ، جلد 3 صفحہ 158)

نسیم الریاض میں ہے : انہ اسراء بالجسد والروح فی القصۃ کلھا ۔ ای فی قصۃ الاسراء الی المسجد الاقصی والسموات ، (وعلیہ تدل الآیۃ) الدالۃ علی شطرھا صریحاً (وصحیح الاخبار) المشھورۃ المستفیضۃ الدالۃ علی عروجہ صلی اللہ علیہ وسلم الی السماء، والاحادیث الاحاد الدالۃ علی دخولہ الجنۃ ووصولہ الی العرش او طرف العالم کما سیاتی وکل ذلک بجسدہ یقظۃ ۔
ترجمہ : نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پورے واقعۂ معراج میں یعنی مسجدِ اقصی سے آسمانوں تک جسم و روح مبارک کے ساتھ سیر فرمائی ، جس کے ایک حصے پہ آیتِ کریمہ واضح طور پہ دلالت کرتی ہے اور آسمانوں تک کی سیر پر حدیثِ مشہور مستفیض دلالت کرتی ہے، نیز جنّت میں داخل ہونے ، عرش پہ جانے یا عالَم کے اس کنارے جانے پہ خبرِ واحد دلالت کرتی ہے ، جیسے کہ آگے آئے گا ، اور یہ سب بیداری میں جسمِ مبارک کے ساتھ تھا ۔ (نسیم الریاض جلد 3 صفحہ 103،چشتی)

مکتوباتِ امام ربّانی و فتاویٰ رضویہ میں ہے : معراج شریف یقیناً قطعاً اسی جسمِ مبارک کے ساتھ ہوئی نہ کہ فقط روحانی ، جو ان کی عطا سے ان کے غلاموں کو بھی ہوتی ہے ، اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے : سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا ۔ (یعنی ) پاکی ہے اسے جو رات میں لے گیا اپنے بندہ کو، یہ نہ فرمایا کہ لے گیا اپنے بندہ کی روح کو ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 15 صفحہ 74 )

مقالاتِ کاظمی میں ہے : جمہور علماء، صحابہ ، تابعین و تبعِ تابعین اور ان کے بعدمحدثین و فقہاء اور متکلمین سب کا مذہب یہ ہے کہ اسراء اور معراج دونوں بحالتِ بیداری اور جسمانی ہیں اور یہی حق ہے ۔ (مقالاتِ کاظمی جلد 1 صفحہ 114)

معراج شریف کا مطلقاً انکار کفر ہے ، کیونکہ مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کی معراج قطعی اور کتابُ اللہ سے ثابت ہے، البتہ جو معراج کو تسلیم کرے لیکن فقط روحانی کا قائل ہو تو وہ خطا پر ہے ، اور فی زمانہ اس کا انکار نہیں کرتے مگر بد مذہب و گمراہ لوگ ۔

معراج کا مطلقاً انکار کفر ہے، چنانچہ شرح عقائدِ نسفیہ پھر نِبْراس میں ہے : فالاسراء ھو من المسجد الحرام الی البیت المقدس قطعی ای یقینی ثبت بالکتاب ای القرآن و یکفر منکرہ۔۔ الخ ۔
ترجمہ : مسجدِ حرام سے بیت المقدس تک کی سیر قطعی یقینی اور کتاب اللہ سے ثابت ہے اور اس کا منکر کافر ہے ۔ (النبراس صفحہ نمبر 295)

نسیم الریاض میں ہے : ذھب معظم السلف و المسلمین ۔ عطف للعام علی الخاص، وفیہ اشارۃ الی ان خلافہ لا ینبغی لمسلم اعتقادہ (الی انہ اسراء بالجسد) مع الروح (وفی الیقظۃ) ۔
ترجمہ : (اکابر علماء و مسلمین اس طرف گئے ہیں) یہ عام کا خاص پر عطف ہے اور اکابر علماء و مسلمین کہنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس کے خلاف کا اعتقاد رکھنا کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا، (کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حالتِ بیداری میں جسم اور روح مبارک کے ساتھ سیر فرمائی ۔ (نسیم الریاض جلد 3 صفحہ 99)

فتاویٰ رضویہ میں ہے : ان عظیم وقائع نے معراج مبارک کا جسمانی ہونا بھی آفتاب سے زیادہ واضح کردیا ، اگر وہ کوئی روحانی سیر یا خواب تھا تو اس پر تعجب کیا ؟ زید و عمرو خواب میں حرمین شریفین تک ہو آتے ہیں ، اور پھر صبح اپنے بستر پر ہیں ۔ رؤیا کے لفظ سے استدلال کرنا اور (اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ) نہ دیکھنا صریح خطا ہے ۔ رؤیا بمعنی رویت آتا ہے ۔ اور فتنہ و آزمائش بیداری ہی میں ہے نہ کہ خواب میں ، ولہٰذا ارشاد ہوا : سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا ۔ پاکی ہے اسے جو اپنے بندے کو لے گیا ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 29 صفحہ 635)

حدیث معراج : (بنظر اختصار صرف ترجمہ پر اکتفا کیا گیا ہے)
حضرت انس بن مالک حضرت مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے صحابہ کرام سے اس رات کی کیفیت بیان فرمائی جس میں آپ کو معراج ہوئی تھی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ میں حطیم کعبہ میں تھا۔ یکایک میرے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے میرا سینہ یہاں سے لے کر یہاں تک چاک کیا۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے جارود سے پوچھا وہ میرے قریب بیٹھے ہوئے تھے کہ یہاں سے یہاں تک کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے بتایا کہ حلقوم شریف سے لے کر ناف مبارک تک۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ پھر اس آنے والے نے میرا سینہ چاک کرنے کے بعد میرا دل نکالا۔ پھر میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان و حکمت سے لبریز تھا اس کے بعد میرا دل دھویا گیا پھر وہ ایمان و حکمت سے لبریز ہو گیا۔ اس قلب کو سینۂ اقدس میں اس کی جگہ پر رکھا گیا۔ اس کے بعد میرے پاس ایک جانور سوار ہونے کے لئے لایا گیا جو خچر سے نیچا اور گدھے سے اونچا تھا۔ (جارود نے حضرت انس سے پوچھا کہ اے ابو حمزہ کیا وہ براق تھا؟ حضرت انس نے فرمایا، ہاں!) وہ اپنا قدم منتہائے نظرپر رکھتا تھا۔ میں اس پر سوار ہوا پھر جبریل مجھے لے کر چلے۔ یہاں تک کہ ہم آسمان دنیا پر پہنچے (۱) تو جبریل علیہ السلام نے اس کا دروازہ کھلوایا، پوچھا گیا، کون ہے؟ انہوںنے کہا، جبریل۔ پھر آسمان کے فرشتوں نے پوچھا تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ۔ پوچھا گیا وہ بلائے گئے ہیں؟ جبریل علیہ السلام نے جواب دیا کہ ہاں۔ کہا گیا انہیں خوش آمدید ہو۔ ان کا آنا بہت اچھا اور مبارک ہے۔ دروازہ کھول دیا گیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو آدم علیہ السلام ملے۔ جبریل علیہ السلام نے کہا کہ یہ آپ کے باپ آدم علیہ السلام ہیں۔ آپ انہیں سلام کیجئے۔ میں نے سلام کیا۔ انہوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا خوش آمدید ہو۔ صالح بیٹے اور صالح نبی کو۔ پھر (جبریل علیہ السلام میرے ہمراہ) اوپر چڑھے۔ یہاں تک کہ دوسرے آسمان پر پہنچے اور انہوں نے اس کا دروازہ کھلوایا۔ پوچھا گیا کون؟ انہوں نے کہا جبریل۔ دریافت کیا گیا تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم۔ پھر پوچھا گیا کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ جبریل علیہ السلام نے کہا، ہاں۔ اس (دوسرے آسمان کے دربان) نے کہا، خوش آمدید ہو۔ ان کا آنا بہت اچھا اور مبارک ہے۔ یہ کہہ کر دروازہ کھول دیا۔ پھر جب میں وہاں پہنچا تو وہاں یحییٰ اور عیسیٰ علیہما السلام ملے۔ وہ دونوں آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں۔ جبریل علیہ السلام نے کہا یہ یحییٰ اور عیسیٰ ہیں آپ انہیں سلام کیجئے۔ میں نے انہیں سلام کیا۔ ان دونوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا خوش آمدید ہو اخ صالح اور نبی صالح کو۔ پھر جبریل مجھے تیسرے آسمان پر لے گئے اور اس کا دروازہ کھلوایا پوچھا گیا کون؟ انہوں نے کہا جبریل۔ دریافت کیا گیا تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے بتایا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پھر دریافت کیا گیا، کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ جبریل علیہ السلام نے کہا، ہاں۔ اس کے جواب میںکہا گیا، انہیں خوش آمدید ہو۔ ان کا آنا بہت ہی اچھا اور نہایت مبارک ہے اور دروازہ کھول دیا گیا۔ پھر جب میں وہاں پہنچا تو یوسف علیہ السلام ملے۔ جبریل علیہ السلام نے کہا، یہ یوسف ہیں، انہیں سلام کیجئے۔ میں نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے سلام کا جواب دیا۔ پھر انہوں نے کہا کہ خوش آمدید ہو اخ صالح نبی صالح کو۔ اس کے بعد جبریل علیہ السلام چوتھے آسمان پر مجھے لے گئے اور اس کا دروازہ کھلوایا۔ پوچھا گیا کون؟ انہوں نے کہا، جبریل۔ پھر دریافت کیا گیا تمہارے ہمراہ کون ہے؟ جبریل علیہ السلام نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم۔ پھر پوچھا گیا کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا، ہاں۔ چوتھے آسمان کے دربان نے کہا کہ انہیں خوش آمدید ہو۔ ان کا آنا بہت ہی اچھا اور نہایت مبارک ہے اور دروازہ کھول دیا گیا۔ پھر جب میں وہاں پہنچا تو ادریس علیہ السلام ملے۔ جبریل علیہ السلام نے کہا یہ ادریس ہیں۔ انہیں سلام کیجئے۔ میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے سلام کا جواب دیا۔ اس کے بعد کہا خوش آمدید ہو اخ صالح اور نبی صالح کو۔ پھر جبریل علیہ السلام مجھے ساتھ لے کر اوپر چڑھے یہاں تک کہ پانچویں آسمان پر پہنچے اور انہوں نے اس کا دروازہ کھلوایا۔ پوچھا گیا کون؟ انہوں نے کہا جبریل۔ دریافت کیا گیا تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم۔ پوچھا گیا کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا، ہاں۔ پانچویں آسمان کے دربان نے کہا، انہیں خوش آمدید ہو۔ ان کا آنا بہت ہی اچھا اور مبارک ہے۔ پھر جب میں وہاں پہنچا تو ہارون علیہ السلام ملے۔ جبریل علیہ السلام نے کہا، یہ ہارون ہیں۔ انہیں سلام کیجئے۔ میں نے ان کو سلام کیا۔ انہوں نے سلام کا جواب دیا۔ پھر کہا، خوش آمدید ہو اخ صالح اور نبی صالح کو۔ پھر جبریل علیہ السلام مجھے اوپر چڑھا لے گئے۔ یہاں تک کہ ہم چھٹے آسمان پر پہنچے۔ جبریل علیہ السلام نے اس کا دروازہ کھلوایا۔ پوچھا گیا کون؟ انہوں نے کہا جبریل۔ دریافت کیا گیا تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم۔ پوچھا گیا کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا، ہاں۔ اس فرشتے نے کہا انہیں خوش آمدید ہو۔ ان کا آنا بہت ہی اچھا اور مبارک ہے۔ میں وہاں پہنچا تو موسیٰ علیہ السلام ملے۔ جبریل علیہ السلام نے کہا، یہ موسیٰ ہیں۔ انہیں سلام کیجئے۔ میں نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا خوش آمدید ہو اخ صالح اور نبی صالح کو۔ پھر جب میں آگے بڑھا تو وہ روئے۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ کیوں روتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا میں اس لئے روتا ہوں کہ میرے بعد ایک مقدس لڑکا مبعوث کیا گیا جس کی امت کے لوگ میری امت سے زیادہ جنت میں داخل ہوں گے۔ پھر جبریل علیہ السلام مجھے ساتویں آسمان پر چڑھا لے گئے اور اس کا دروازہ کھلوایا۔ پوچھا گیا کون ہے؟ انہوں نے کہا جبریل۔ پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم۔ پوچھا گیا کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا، ہاں۔ تو اس فرشتے نے کہا، انہیں خوش آمدید ہو۔ ان کا آنا بہت اچھا اور مبارک ہے۔ پھر جب میں وہاں پہنچا تو ابراہیم علیہ السلام ملے۔ جبریل علیہ السلام نے کہا، یہ آپ کے باپ ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ انہیں سلام کیجئے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ میں نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا کہ خوش آمدید ہو ابن صالح اور نبی صالح کو۔ پھر میں (۱) سدرۃ المنتہیٰ تک چڑھایا گیا تو اس درخت سدرہ کے پھل مقام ہجر کے مٹکوں کی طرح تھے اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں جیسے تھے۔ جبریل علیہ السلام نے کہا، یہ سدرۃ المنتہیٰ ہے اور وہاں چار نہریں تھیں۔ دو پوشیدہ اور دو ظاہر۔ میں نے پوچھا، اے جبریل! یہ نہریں کیسی ہیں؟ انہوں نے کہا، ان میں جو پوشیدہ ہیں، وہ تو جنت کی نہریں ہیں اور جو ظاہر ہیں وہ نیل و فرات ہیں۔ پھر بیت المعمور میرے سامنے ظاہر کیا گیا۔ اس کے بعد مجھے ایک برتن شراب کا اور ایک دودھ کا اور ایک برتن شہد کا دیا گیا۔ میں نے دودھ کو لے لیا۔ جبریل علیہ السلام نے کہا یہی فطرت (دین اسلام) ہے۔ آپ اور آپ کی امت اس پر قائم رہیں گے۔ اس کے بعد مجھ پر ہر روز پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔ جب میں واپس لوٹا تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا آپ کی امت پچاس نمازیں روزانہ نہ پڑھ سکے گی۔ خدا کی قسم! میں آپ سے پہلے لوگوں کا تجربہ کر چکا ہوں اور بنی اسرائیل کے ساتھ میں نے سخت برتاؤ کیا ہے۔ لہٰذا آپ اپنے رب کے پاس لوٹ جائیے اور اپنی امت کے لئے تخفیف کی درخواست کیجئے۔ چنانچہ میں لوٹا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے دس نمازیں معاف کر دیں۔ پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے پھر اسی طرح کہا۔ میں پھر خدا کے پاس واپس گیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے دس نمازیں پھر معاف کر دیں۔ پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا انہوں نے پھر اسی طرح کہا۔ میں پھر خدا کے پاس واپس گیا تو مجھے ہر روز پانچ نمازوں کا حکم دیا گیا۔ پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس لوٹ کر آیا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کو کیا حکم ملا؟ میں نے کہا روزانہ پانچ نمازوں کا حکم ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کی امت پانچ نمازیں بھی نہ پڑھ سکے گی۔ میں نے آپ سے پہلے لوگوں کا تجربہ کیا ہے اور بنی اسرائیل سے سخت برتاؤ کر چکا ہوں۔ لہٰذا آپ پھر اپنے رب کی بارگاہ میں جائیے اور اپنی امت کے لئے تخفیف کی درخواست کیجئے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب تعالیٰ سے کئی مرتبہ درخواست کی، مجھے شرم آتی ہے۔ لہٰذا اب میں راضی ہوں اور اپنے رب کے حکم کو تسلیم کرتا ہوں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ میں آگے بڑھا۔ ایک پکارنے والے نے آواز دی کہ میں نے اپنا حکم جاری کر دیا اور اپنے بندوں سے تخفیف فرما دی ۔ (صحیح بخاری جلد اول صفحہ نمبر ۵۴۸)

بخاری شریف کی ایک دوسری روایت میں سدرۃ المنتہیٰ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ایسا قرب مذکور ہے جسے قاب قوسین او ادنٰی سے تعبیر فرمایا گیا۔ حدیث شریف کے الفاظ حسب ذیل ہیں : ⬇

حتی جاء سدرۃ المنتہٰی ودنا الجبار رب العزۃ فتدلّٰی حتّٰی کان منہ قاب قوسین او ادنٰی ۔ (بخاری شریف جلد ثانی ص ۱۱۲۰)
یعنی اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے قریب ہوا پھر اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے یا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اللہ تعالیٰ سے اس سے بھی زیادہ قرب طلب فرمایا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے دو کمانوں کی مقدار یا اس سے بھی زیادہ قریب ہو گیا ۔ (عینی جلد ۲۵ ص ۱۷۰) اور اللہ تعالیٰ کا جمال مبارک سر اقدس کی آنکھوں سے دیکھا ۔ (فتح الباری جلد ۱۳ ص ۴۱۷، عینی نبراس، شرح عقائد)

آسمانی معراج کہاں تک ہوئی؟ اس میں علماء اہل سنت کے مختلف اقوال ہیں۔ بعض کا قول ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ اور جنت الماویٰ تک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لے گئے۔ بعض نے کہا، عرش تک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو معراج ہوئی اور ایک قول ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فوق العرش تشریف لے گئے۔ بعض علماء کا قول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم طرف عالم تک تشریف لے گئے یعنی عالم اجسام کی وہ انتہا جس کے پیچھے کچھ نہیں۔ نہ ہوا نہ زمان و مکان، بلکہ عدم محض ہے۔ (شرح عقائد نسفی، نبراس)

اسراء یعنی مسجد حرام سے بیت المقدس تک تشریف لے جانا قطعی اور یقینی ہے جس کا منکر مسلمان نہیں اور زمین سے آسمان کی طرف معراج ہونا احادیث مشہورہ سے ثابت ہے۔ اس کا منکر فاسق اور ضال و مضل ہے۔ پھر آسمانوں سے جنت کی طرف اور عرش یا عرش کے علاوہ فوق العرش تک یا لا مکاں تک اخبار احاد سے ثابت ہے۔ جس کا منکر سخت آثم اور گنہگار ہے۔ (شرح عقائد، نبراس صفحہ ۴۷۴،چشتی)

ولذا اختلف فی الانتہاء فقیل الی الجنۃ وقیل الی العرش وقیل الٰی مافوقہ وہو مقام دنٰی فتدلّٰی فکان قاب قوسین او ادنٰی (شرح فقہ اکبر ص ۱۳۶)
ترجمہ: اسی وجہ سے اختلاف ہوا کہ معراج کہاں تک ہوئی۔ ایک قول ہے جنت تک اور ایک قول ہے عرش تک اور ایک قول میں وارد ہے کہ فوق العرش حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تشریف لے گئے اور وہ مقام ہے۔

دنا فتدلّٰی فکان قاب قوسین او ادنٰی (وجاوز السبع الطباق) وہی السمٰوٰت (او جاوز سدرۃ المنتہٰی ووصل الٰی محل من القرب سبق بہ الاولین والاٰخرین) اذ لم یصل الیہ نبی مرسل ولا ملک مقرب ۔ (زرقانی جلد ۶، ص ۱۰۱،چشتی)
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم شب معراج ساتوں آسمانوں اور سدرۃ المنتہیٰ سے گزر گئے اور ایسے مقام قرب تک پہنچے کہ اولین و آخرین سب پر سبقت لے گئے کیونکہ جہاں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پہنچے وہاں نہ کوئی نبی پہنچا نہ رسول نہ کوئی مقرب فرشتہ۔

(ودنو الرب تبارک وتعالٰی وتدلیہ علٰی مافی حدیث شریک) عن انس (کان فوق العرش لا الی الارض) ۔(زرقانی جلد ۶ ص ۹۹)
اور اللہ تعالیٰ کا (اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے) قریب ہونا اور زیادتی قرب کا طلب فرمانا عرش کے اوپر تھا زمین پر نہیں تھا۔

قائلین معراج منامی کے شبہات اور ان کا جواب

جو لوگ معراج جسمانی کے منکر اور منامی کے قائل ہیں، ان کے شبہات مع جوابات حسب ذیل ہیں

پہلا شبہ : اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے ’’وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِیْ اَرَیْنَاکَ اِلاَّ فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ‘‘ (بنی اسرائیل: ۶۰) اور نہیں کیا ہم نے اس رؤیا کو جو آپ کو دکھائی (اے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) لیکن آزمائش لوگوں کے لئے۔ بعض مفسرین نے اس آیہ کریمہ کو معراج پر محمول کیا ہے لہٰذا معراج منامی ہو ئی کیونکہ ’’رؤیا‘‘ عربی زبان میں خواب کو کہتے ہیں۔

اس کا جواب یہ ہے کہ مفسرین کی ایک جماعت نے حدیبیہ یا بدر کی رؤیا پر حمل فرمایا ہے۔ اس لئے کہ اس کو واقعہ معراج پر محمول کرنا حتمی اور یقینی امر نہ رہا۔ علاوہ ازیں لفظ رؤیا رویت بصری کے معنی میں بھی آتا ہے۔ خصوصاً رات میں جسمانی آنکھ سے دیکھنے کے معنی میں یہ لفظ اکثر استعمال ہوا ہے۔ دیکھئے دیوان متنبی میں ہے

مضی اللیل والفضل الذی لک لایمضی
ورؤیاک احلٰی فی العیون من الغمض

(دیوان متنبی ص ۱۸۸ قافیۃ الضاد)

ترجمہ : رات ختم ہو گئی اور تیرا فضل ختم ہونے والا نہیں۔ اور تیرا دیدار جمال آنکھوں میں نیند سے زیادہ میٹھا ہے۔
اس شعر میں لفظ ’’رؤیا‘‘ رویت بصری کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ علاوہ ازیں اسی آیت کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے

ہی رؤیا عین اریہا رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم لیلۃ اسری بہ الٰی بیت المقدس ۔ (بخاری شریف جلد اول صفحہ ۵۵۰،چشتی)
کرمانی نے اس حدیث پر کہا ’’رؤیا عین‘‘ قید بہ للاشعار بان رؤیا بمعنی الرؤیۃ فی الیقظۃ لارؤیا النائم ۔ (کرمانی حاشیہ صفحہ ۵)
ترجمہ : رؤیا کو عین کے ساتھ یہ ظاہر کرنے کے لئے مقید فرمایا کہ لفظ ’’رؤیا‘‘ یہاں بحالت بیداری دیکھنے کے معنی میں ہے۔ سونے والے کی خواب کے معنی میں نہیں۔

دوسرا شبہ: بخاری شریف میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث وارد ہے۔ جس میں حضرت انس نے تمام واقعہ معراج بیان کرنے کے بعد فرمایا فاستیقظ وہو فی المسجد الحرام یعنی حضور بیدار ہوئے تو آپ مسجد حرام میں تھے۔ بعض روایات میں بینا انا نائم وارد ہے۔ بعض احادیث میں وہو نائم فی المسجد الحرام آیا ہے۔ ایک دوسری روایت میں بینا انا عند البیت بین النائم والیقظان ان تمام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بحالت خواب معراج ہوئی۔

اس کا جواب امام ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں اور امام بدر الدین عینی نے عمدۃ القاری میں دیا ہے۔ ہم اسے نقل کئے دیتے ہیں۔ امام ابن حجر عسقلانی فاستیقظ وہو بالمسجد الحرام کے تحت فرماتے ہیں

واقلہ قولہ فاستیقظ وہو عند المسجد الحرام فان حمل علٰی ظاہرہٖ جاز ان یکون نام بعد ان ہبط من السماء فاستیقظ وہو عند المسجد الحرام وجاز ان یؤول قولہ استیقظ ای افاق مما کان فیہ فانہ کان اذا اوحی الیہ یستغرق فیہ فاذا انتہٰی رجع الٰی حالتہ الاولٰی فکنٰی عنہ بالاستیقاظ انتہٰی ۔ (فتح الباری جلد نمبر ۱۳ صفحہ نمبر ۴۱۰،چشتی)
ترجمہ : اس کا اقل، راوی کا یہ قول ہے کہ پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بیدار ہوئے تو آپ مسجد حرام میں تھے۔ اس قول کو ظاہر پر بھی حمل کرنا جائز ہے اور اس کی تاویل بھی کی جا سکتی ہے۔ ظاہر پر عمل کریں تو یہ کہیں گے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آسمان سے واپس تشریف لا کر مسجد حرام میں سو گئے۔ پھر جب آپ بیدار ہوئے تو مسجد حرام ہی میں تھے اور اگر تاویل کریں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو جب معراج کے حال سے افاقہ ہوا تو آپ مسجد حرام میں تھے کیونکہ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو وحی ہوتی تھی تو آپ اس میں مستغرق ہو جاتے تھے۔ جب وحی ختم ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو حالت استغراق سے افاقہ ہو جاتا تھا۔ بالکل یہی کیفیت معراج کے وقت ہوئی کہ جب تک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم معراج میں رہے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر وہ استغراق کا حال طاری رہا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مسجد حرام میں واپس تشریف لائے تو وہ حالت زائل ہو گئی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پہلی حالت کی طرف لوٹ آئے ۔ راوی نے ’’استیقظ‘‘ کہہ کر اسی سے کنایہ کیا ہے ۔ (فتح الباری جلد ۱۳ صفحہ ۴۱۰،چشتہ)

امام ابن حجر نے آگے چل کر اسی بارے میں امام قرطبی کا قول نقل کیا ہے جس کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ بیدار ہونا اس نیند سے ہے جو معراج سے واپس تشریف لا کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمائی تھی۔ کیونکہ معراج تمام رات نہیں ہوئی وہ تو بہت ہی قلیل ترین وقت میں واقع ہوئی تھی اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام معراج سے واپس تشریف لا کر مسجد حرام میں سو گئے۔ صبح اٹھے تو مسجد حرام ہی میں جلوہ گر تھے۔

نیز احتمال ہے کہ استیقاظ بمعنی افاقہ ہو۔ کیونکہ ملاء اعلیٰ اور آیات کبریٰ کے مشاہدہ کا حال حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایسا غالب تھا کہ بشریت اور عالم اجسام کی طرف سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بالکل غیر متوجہ ہو گئے تھے۔ حتیٰ کہ مسجد حرام میں پہنچنے تک یہی حال رہا۔ جب مسجد حرام میں جلوہ گر ہوئے تو حال بشریت کی طرف رجوع فرمایا اور حالت سابقہ سے افاقہ ہوا۔ اس افاقہ کو راوی نے استیقظ سے تعبیر کیا اور کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ملاء اعلیٰ اور آیات کبریٰ کے حال سے افاقہ ہوا تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مسجد حرام میں تھے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا قول مبارک کہ میں سویا ہوا تھا تو اس سے شب معراج میں جبریل علیہ السلام کے آنے سے پہلے خواب استراحت فرمانا ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جبریل علیہ السلام کے آنے سے پہلے سو رہے تھے۔ جبریل علیہ السلام نے آ کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جگایا۔ ایک اور روایت میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا قول مبارک آیا ہے کہ انا بین النائم والیقظان اتانی الملک میں سونے جاگنے کے درمیان تھا کہ میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو معراج کرانے کے لئے جس وقت جبریل علیہ السلام حاضر ہوئے تو اس وقت حضور علیہ السلام کی نیند مبارک ایسی ہلکی اور خفیف تھی کہ جسے سونے اور جاگنے کی درمیانی حالت سے تعبیر کیا جا سکتا تھا۔ جب جبریل علیہ السلام آئے تو انہوں نے اس خفیف نیند سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بیدار کیا اور اس کے بعد بیداری میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم معراج پر تشریف لے گئے۔ (فتح الباری جلد ۱۳ ص ۴۱۷ مطبوعہ مصر،چشتی)(عمدۃ القاری جلد ۲۵ صفحہ ۱۷۳ مطبوعہ مصر طبع جدید)

لہٰذا ثابت ہوا کہ تینوں میں سے ایک روایت بھی معراج منامی کی دلیل نہیں اور منکرین کا شبہ بالکل بے بنیاد ہے ۔ وللّٰہ الحمد

تیسرا شبہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں
ما فقدت جسد رسول اللّٰہ ا لیلۃ المعراج ۔ معراج کی رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جسم مبارک گم نہیں پایا۔

اس کا جواب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو معراج بعثت کے ایک یا ڈیڑھ سال یا پانچ سال بعد اسلام کے ابتدائی زمانہ میں ہوئی ہے۔ ان اقوال کے بموجب معراج مبارک ہجرت سے آٹھ سال یا ساڑھے گیارہ سال یا بارہ سال پہلے ہوئی اور حضرت عائشہ صدیقہ کی شادی مبارک ہجرت کے بعد ہوئی۔ جب کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر شریف 9 برس تھی۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں بربنائے بعض اقوال معراج کے وقت حضرت عائشہ صدیقہ پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں اور اگر ان کی پیدائش مان بھی لی جائے تو بہر نوع حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس ان کا پایا جانا ہجرت کے بعد ہی ہے۔ پھر ان کا یہ فرمانا کہ میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جسم مبارک معراج کی رات گم نہیں پایا کیونکر متصور ہو سکتا ہے؟ رہا یہ شبہ کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ حدیث ان الفاظ سے بھی مروی ہے : ما فقد جسد رسول اللّٰہ الیلۃ المعراج ۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ محدثین کے نزدیک یہ روایت بلا شبہ غیر ثابت اور مبنی بر خطا ہے۔ خلاصہ یہ کہ مافقدت اور فقد دونوں روایتیں ازروئے درایت و روایت صحیح نہیں اس لئے اس سے معارضہ کرنا باطل ہے۔

اور اگر بر تقدیر تسلیم اس حدیث کے یہ معنی مراد لئے جائیں کہ ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا معراج مبارک کی سرعت اور اس کے قلیل ترین وقت میں ہونے کو بیان فرما رہی ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا آنا جانا اس قدر تیزی اور سرعت کے ساتھ واقع ہوا کہ گویا جسم مبارک گم ہونے ہی نہیں پایا تو یہ معنی دیگر روایات کے مطابق صحیح قرار پائیں گے۔

چوتھا شبہ: یہ ہے کہ آیت قرآنیہ ’’مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَارَاٰی‘‘ سے بھی سمجھا جاتا ہے کہ معراج خواب میں ہوئی۔

اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں کوئی لفظ ایسا نہیں کہ جس کا ترجمہ نیند اور خواب کیا جائے۔ آیت کے معنی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قلب مبارک نے اس چیز کی تکذیب نہیں کی جسے چشم مبارک نے دیکھا۔ یعنی معراج کی رات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی چشم اقدس سے جو کچھ دیکھا اس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کسی قسم کا وہم یا اشتباہ واقع نہیں ہوا اور اس کی دلیل یہ آیت ہے ’’مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی‘‘ (نہ کج ہوئی نگاہ نہ بہکی) لفظ بصر جسمانی نگاہ کے لئے آتا ہے۔ خواب میں دیکھنے کو بصر نہیں کہتے۔ الحمد للّٰہ! قائلین معراج منامی کے تمام شبہات کا ازالہ ہو گیا۔

نیچری اور مسئلہ معراج

معراج کا واقعہ درحقیقت ایمان کے لئے کسوٹی کا حکم رکھتا ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات، علم و قدرت، عظمت و حکمت پر کامل ایمان رکھتا ہے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نبوت و رسالت، صداقت و کمالات کی دل سے تصدیق کرتا ہے وہ واقعہ معراج یا اسی قسم کے خرق عادات امور کا کبھی انکار نہیں کر سکتا۔ جب کہ قرآن و حدیث میں اس کا صاف اور واضح بیان بھی موجود ہے اور عہد رسالت سے لے کر ہر دور کے جمہور مسلمان اس کو بلا تاویل تسلیم کرتے چلے آئے ہیں۔

رہے وہ شکوک و شبہات جنہیں فلاسفہ کی اتباع میں نیچری پیش کیا کرتے ہیں کہ جسم طبعی مادی مرکب من العناصر کا عناصر کی حدود سے تجاوز کرنا اور آسمانوں پر صعود کرنا محال ہے۔ نیز آسمانوں میں خرق والتیام بھی ناممکن ہے۔ پھر زمان و مکان کے بغیر کسی جسم کا پایا جانا بھی از قبیل محالات ہے۔ نیز رات کے قلیل ترین حصہ میں آسمانوں کی سیر کر کے واپس آنا کسی طرح ممکن نہیں۔اس قسم کے تمام شکوک و شبہات کا جواب یہ ہے کہ ان تمام امور کے محال ہونے سے ان کی مراد محال عقلی ہے یا عادی۔ برتقدیر اول آج تک استحالہ عقلیہ پر کوئی دلیل قائم نہیں ہو سکی۔ جس قدر دلائل فلاسفہ کی طرف سے پیش ہوئے ہیں ان سب کا مفاد استحالہ عادیہ ہے اور بس۔ معلوم ہوا کہ یہ جملہ امور متنازعہ فیہا از قبیل محالات عادیہ ہیں اور محال عادی ممکن بالذات ہوتا ہے اور ممکن بالذات حادث تحت قدرت ہے۔ لہٰذا یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے تحت ثابت ہوئیں اور معراج کرانا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ اس لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عالم عناصر سے آسمانوں پر لے جانا اور رات کے بہت تھوڑے حصے میں واپس لے آنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کی قدرت و تصرف کا کرشمہ قرار پایا جس پر فلاسفہ کا کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ’’سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰی‘‘ فرمایا اور لے جانے کی نسبت اپنی ذات کی طرف فرمائی تاکہ اعتراض کی کوئی گنجائش نہ رہے ۔ (مقالات کاظمی جلد اوّل) ۔ (مزید حصّہ پنجم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...