Wednesday, 17 January 2024

جو قوم حق کے خلاف فیصلے کرتی ہے اس میں خونریزی عام ہو جاتی ہے

جو قوم حق کے خلاف فیصلے کرتی ہے اس میں خونریزی عام ہو جاتی ہے
محترم قارئینِ کرام : کسی بھی معاشرے کی بقاء اور استحکام قانون کی حکمرانی اور بالادستی پر منحصر ہے ۔ قانون کی اہمیت و افادیت سے کوئی باشعور شخص انکار نہیں کرسکتا ، قوانین معاشرے اور ریاست کے درمیان تعلق کو مستحکم اور پائیدار بناتے ہیں بلکہ لاقانونیت کی وجہ سے معاشرہ برباد ہو جاتا ہے ۔ انسان کی اصلاح اور معاشرے کی بقاء قانون کے عملی نفاذ کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ قانون کی حکمرانی کسی معاشرے کی بقاء کی اکائی ہے ۔ انسانی تہذیب و تمدن میں قانون کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔ انسان نے حالات و واقعات سے عہدہ برآہ ہونے کےلیے عقل و شعور کی مدد سے نئے نئے قوانین بنائے جن کا بنیادی مقصد حیوانی جبلت پر کنٹرول تھا ۔ نیز قانون کی بالادستی اور عدل و انصاف کی فراہمی ہی معاشرے کی ضامن ہے ۔ جس قوم میں خیانت عام ہو جاتی ہے ، ا س کے دل میں رعب ڈال دیا جاتا ہے ۔ اور جس قوم میں زنا عام ہو جاتا ہے ، ان میں اموات کثرت سے واقع ہونے لگتی ہیں ۔ جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے ، ان کا رزق بند کر دیا جاتا ہے ۔ جو قوم حق کے خلاف فیصلے کرتی ہے ، اس میں خونریزی عام ہو جاتی ہے ۔ اور جو قوم عہد شکنی کرتی ہے ، ان پر دشمن کا تسلُّط ہو جاتا ہے ۔

ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہیے

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَاۙ-وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِؕ-اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا ۔ (سورہ النسا آیت نمبر 58)
ترجمہ  : بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں ان کے سپرد کرو اور یہ کہ جب تم لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو بیشک اللہ تمہیں کیا ہی خوب نصیحت فرماتا ہے، بیشک اللہ سننے والا ،دیکھنے والا ہے ۔

آیتِ مبارکہ میں دو حکم بیان کئے گئے ۔ پہلا حکم یہ کہ امانتیں ان کے حوالے کردو جن کی ہیں اور دوسرا حکم یہ ہے کہ جب فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو ۔ یہ دونوں حکم اسلامی تعلیمات کے شاہکار ہیں اور امن و امان کے قیام اور حقوق کی ادائیگی میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں ۔ مذکورہ آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جب کسی شخص کو حاکم بنایا جائے تو اس پر واجب ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان عدل سے فیصلہ کرے ‘ ہم اس جگہ قضاء کے متعلق چند احادیثِ مبارکہ پیشِ خدمت ہیں تاکہ معلوم ہو کہ اسلام میں قضاء کے متعلق کیا ہدایات ہیں : ⏬

امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ کو یمن کی طرف بھیجا ‘ آپ نے پوچھا تم کیسے فیصلہ کرو گے ‘ انہوں نے کہا میں کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا ‘ آپ نے فرمایا اگر کتاب اللہ میں (مطلوبہ حکم) نہ ہو ؟ انہوں نے کہا پھر میں رسول اللہ کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا ‘ آپ نے پوچھا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت میں مطلوبہ حکم نہ ہو ؟ انہوں نے کہا پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا ‘ آپ نے فرمایا اللہ کا شکر ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرستادہ کو توفیق دی ۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٣٣٢‘ سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٣٥٩٢)
 
امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے سجستان میں اپنے بیٹے کی طرف خط لکھا کہ تم دو آدمیوں کے درمیان غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ کرنا ‘ کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کوئی شخص غصہ کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے ۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ١٧٥٨‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ١٧١٧)(سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٣٣٩‘ سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٣٥٨٩)

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تمہارے پاس دو شخص مقدمہ پیش کریں تو جب تک تم دوسرے شخص کا موقف نہ سن لو پہلے کےلیے فیصلہ نہ کرو ۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٣٣٦‘ سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٣٥٨٢)(سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ٢٣١٠،چشتی)

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قاضیوں کی تین قسمیں ہیں ایک جنت میں ہوگا اور دو دوزخ میں ہوں گے ‘ جنت میں وہ قاضی ہوگا جو حق کو پہچان لے اور اس کے مطابق فیصلہ کرے ‘ اور جو حق کو پہچاننے باوجود اس کے خلاف فیصلہ کرے وہ دوزخ میں ہوگا ‘ اور جو شخص جہالت سے لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے وہ بھی دوزخ میں ہوں گا ۔ (سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٣٥٧٣)

حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب حاکم اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرے اور صحیح نتیجہ پر پہنچے تو اس کےلیے دو اجر ہیں اور جب وہ اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرے اور غلط نتیجہ پر پہنچے تو اس کے لیے ایک اجر ہے ۔ (سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٣٥٧٤،چشتی)

حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب اور اس کے نزدیک سب سے مقرب شخص امام عادل ہوگا اور سب سے زیادہ مبغوض اور سب سے دورامام ظالم ہوگا ۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٣٣٤)

حضرت ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تک قاضی ظلم نہ کرے اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے اور جب وہ ظلم کرے تو اللہ اس کے ساتھ نہیں ہوتا اور شیطان اس سے چمٹ جاتا ہے ۔ (سنن ترمذی : ١٣٣٥)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس امت کو پاک نہیں کرتا جس میں اس کے کمزور کا حق اس کے طاقت ور سے نہ لیا جائے ۔ (اس حدیث کو امام بزار نے روایت کیا ہے ‘ اس کی سند میں المثنی بن صباح ہے یہ ضعیف راوی ہے ‘ ایک روایت میں ابن معین نے اس کی توثیق کی ہے اور ایک روایت میں کہا ہے اس کی حدیث لکھی جائے گی اور اس کو ترک نہیں کیا جائے گا ‘ اور دوسرے کے نزدیک یہ متروک ہے) ۔ (کشف الاستار عن زوائد البزار ‘ رقم الحدیث : ١٣٥٢)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کسی فیصلہ میں رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لعنت کی ہے ۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدی ١٣٤١)

امام طبرانی متوفی ٣٦٠ ھ علیہ الرحمہ نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا فیصلہ میں رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر اللہ نے لعنت کی ہے ۔ (المعجم الکبیر ج ٢٣ ص ٣٩٨)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس دن کسی کا سایہ نہیں ہوگا اس دن سات آدمی اللہ کے سائے میں ہوں گے۔ عدل کرنے والا حاکم ‘ وہ شخص جو اللہ کی عبادت میں جوان ہوا ‘ جس کا دل مسجدوں میں معلق رہا ‘ وہ دو شخص جو اللہ کی محبت میں ملیں اور اللہ کی محبت میں جدا ہوں ‘ وہ شخص جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرے اور اس کی آنکھ سے آنسو بہیں ‘ وہ شخص جس کو خوب صورت اور بااختیار عورت گناہ کی دعوت دے اور وہ کہے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں ‘ وہ شخص جو چھپا کر صدقہ دے حتی کہ اس کے بائیں ہاتھ کو پتا نہ چلے کہ اس نے دائیں ہاتھ سے کیا دیا ہے ۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ٦٦٠،چشتی)(صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ١٠٣١)(سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ٢٣٩١)(صحیح ابن خزیمہ ‘ رقم الحدیث : ٣٥٨)(مسند الطیالسی ‘ رقم الحدیث : ٢٤٦٢)(مسند احمد ج ٢ ص ٤٣٩)(صحیح ابن حبان ‘ رقم الحدیث : ٤٤٦٩)(سنن کبری للبیہقی : ج ٣ ص ٦٥)(شعب الایمان ‘ رقم الحدیث : ٧٣٥٧)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : چار آدمیوں سے اللہ تعالیٰ بغض رکھتا ہے : جو بہت قسمیں کھا کر سودا بیچے ‘ متکبر فقیر ‘ بوڑھا زانی ‘ اور ظالم حاکم ۔ (صحیح ابن حبان ‘ رقم الحدیث : ٥٥٣٢‘ شعب الایمان ‘ رقم الحدیث : ٧٣٦٥)
 
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عدل کرنے والے حاکم کا ایک دن ساٹھ سال کی عبادت سے افضل ہے اور زمین میں حد کو قائم کرنا اس زمین پر چالیس روز کی بارش سے زیادہ نفع آور ہے ۔ (المعجم الکبیر ‘ رقم الحدیث : ١١٩٣٢)(سنن کبری للبیہقی جلد ٨ صفحہ ١٦٢،چشتی)(شعب الایمان ‘ رقم الحدیث : ٧٣٧٩)

امانت کی ادائیگی میں بنیادی چیز تو مالی معاملات میں حقدار کو اس کا حق دیدینا ہے ۔ البتہ اس کے ساتھ اور بھی بہت سی چیزیں امانت کی ادائیگی میں داخل ہیں ۔ جیسے حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو مسلمانوں کا حاکم بنا پھر اس نے ان پر کسی ایسے شخص کو حاکم مقرر کیاجس کے بارے میں یہ خود جانتا ہے کہ اس سے بہتر اور اس سے زیادہ کتاب و سنت کا عالم مسلمانوں میں موجود ہے تو اُس نے اللہ تعالیٰ، اُس کے رسول اور تمام مسلمانوں سے خیانت کی ۔ (معجم الکبیر عمرو بن دینار عن ابن عباس، ۱۱ / ۹۴، الحدیث: ۱۱۲۱۶)

نظامِ عدل و عدالت کی روح ہی یہ ہے کہ انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے ۔ فریقَین میں سے اصلاً کسی کی رعایت نہ کی جائے ۔ علماء نے فرمایا کہ حاکم کو چاہیے کہ پانچ باتوں میں فریقین کے ساتھ برابر سلوک کرے ۔ (1) اپنے پاس آنے میں جیسے ایک کو موقع دے ، دوسرے کو بھی دے ۔ (2) نشست دونوں کو ایک جیسی دے ۔ (3) دونوں کی طرف برابر مُتَوَجِّہ رہے ۔ (4) کلام سننے میں ہر ایک کے ساتھ ایک ہی طریقہ رکھے ۔ (5) فیصلہ دینے میں حق کی رعایت کرے جس کا دوسرے پر حق ہو پورا پورا دِلائے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ انصاف کرنے والوں کو قربِ الہٰی میں نورکے منبر عطا کیے جائیں گے ۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضیلۃ الامام العادل۔۔۔ الخ، ص۱۰۱۵، الحدیث: ۱۸(۱۸۲۷))

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ارشاد نقل کیا ہے : ما ظہر الغلول في قوم قط إلا ألقی في قلوبہم الرعب ولا فشیٰ الزنا في قوم إلا کثر فیہم الموت ولانقص قوم المکیال والمیزان إلا قطع عنہم الرزق ، ولاحکم قوم بغیر الحق إلا فشیٰ فیہم الدم ، ولاختر قوم بالعہد إلا سلط علیہم العدو ۔ (مؤطا امام مالک صفحہ ۴۷۶،چشتی)(مؤطا امام محمد صفحہ ۳۶۹)
ترجمہ : جس قوم میں خیانت عام ہو جاتی ہے ، ا س کے دل میں رعب ڈال دیا جاتا ہے ۔ اور جس قوم میں زنا عام ہو جاتا ہے ، ان میں اموات کثرت سے واقع ہونے لگتی ہیں ۔ جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے ، ان کا رزق بند کر دیا جاتا ہے ۔ جو قوم حق کے خلاف فیصلے کرتی ہے ، اس میں خونریزی عام ہو جاتی ہے ۔ اور جو قوم عہد شکنی کرتی ہے ، ان پر دشمن کا تسلُّط ہو جاتا ہے ۔

اس حدیث میں جن پانچ گناہوں کے پانچ ہولناک نتائج ذکر کیے گئے ہیں ، آج کا معاشرہ پوری طرح اُن کی لپیٹ میں ہے ۔ حق کے مطابق فیصلہ کرنے کا مطلب ہے : صحیح قانون کے مطابق صحیح فیصلہ کرنا ۔ گویا اس کے مفہوم میں دو چیزیں شامل ہیں :  ایک یہ کہ قانون کے مطابق بے لوث فیصلہ کیا جائے ، جس میں نہ کسی کی رو رعایت ہو ، نہ لالچ یا سفارش کار فرما ہو ۔ دوم یہ کہ جس قانون کے مطابق فیصلہ کیا گیا ، وہ قانون بھی بجائے خود صحیح اور برحق ہو ۔ پس اگر قانون ہی غلط ہو ، ظالمانہ ہو تو اس کے مطابق جو فیصلہ بھی کیا جائے گا ، وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عدل و انصاف کا فیصلہ نہیں ہوگا اور ایسے فیصلے کرنے والا ’’ناحق فیصلہ‘‘ کی وعید کا مستحق ہوگا ، وہ قیامت کے دن یہ عذر نہیں کر سکے گا کہ میں نے قانون کے مطابق فیصلہ کیا تھا ۔ اسی طرح اگر قانون تو صحیح اور برحق ہے ، مگر فیصلہ کرنے والے نے قانون کے مطابق بے لوَث اور بے لاگ فیصلہ نہیں کیا ، بلکہ رشوت و سفارش یا قرابت کی وجہ سے ایک فریق کی رعایت کی گئی تو یہ فیصلہ بھی ظالمانہ اور جابرانہ فیصلہ ہوگا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں، ایک جنت میں جائے گا اور دو جہنم میں(جائیں گے) ۔ جنت میں جانے والا وہ(جج) ہے ، جس نے حق پہچانا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا ، اور جس(جج) نے حق پہچانا اور پھر فیصلے میں ظلم کیا تو وہ آگ میں ہے اور جس نے جاہل ہوتے ہوئے لوگوں کے فیصلے کیے، وہ بھی آگ میں ہے ۔ (سنن ابو داود حدیث ننبر 3573)

عن ابن بريدة ، عن ابيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال : القضاة ثلاثة: واحد في الجنة، واثنان في النار، فاما الذي في الجنة فرجل عرف الحق فقضى به، ورجل عرف الحق فجار في الحكم فهو في النار، ورجل قضى للناس على جهل فهو في النار"، قال ابو داود: وهذا اصح شيء فيه، يعني حديث ابن بريدة القضاة ثلاثة ۔ (سنن ابو داٶد كِتَاب الْأَقْضِيَةِ باب فِي الْقَاضِي يُخْطِئُ حدیث نمبر 3573)
ترجمہ : حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں : ایک جنتی اور دو جہنمی، رہا جنتی تو وہ ایسا شخص ہو گا، جس نے حق کو جانا اور اسی کے موافق فیصلہ کیا اور وہ شخص جس نے حق کو جانا اور اپنے فیصلے میں ظلم کیا تو وہ جہنمی ہے اور وہ شخص جس نے نادانی سے لوگوں کا فیصلہ کیا وہ بھی جہنمی ہے ۔ امام ابوداؤد علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : یہ یعنی ابن بریدہ کی ”تین قاضیوں“ والی حدیث اس باب میں سب سے صحیح روایت ہے ۔

مسلمان قاضیوں نے اسلام کے عادلانہ نظام اور برحق فیصلوں کی ایسی عظیمُ الشان مثالیں قائم کی ہیں کہ دنیا ان کی نظیر پیش نہیں کر سکتی ، اس موقع پر ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیے : جنگِ صفین کے موقع پرحضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی ایک زِرَہ گم ہو گئی، بعد میں جب آپ رضی اللہ عنہ کوفہ تشریف لائے تو وہ زِرہ ایک یہودی کےپاس پائی، اسے فرمایا : یہ زِرَہ میری ہے ، میں نے تمہیں بیچی ہے نہ تحفے میں دی ہے۔ یہودی نے کہا : یہ زِرہ میری ہے کیونکہ میرے قبضے میں ہے ۔ فرمایا : ہم قاضی صاحب سے فیصلہ کرواتے ہیں ، چنانچہ یہ قاضی شُرَیح  رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پہنچے ، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ تشریف فرما ہوئے ۔ قاضی شریح  رضی اللہ عنہ نے کہا : اے امیرُ المؤمنین ! ارشاد فرمائیے ۔ فرمایا : اس یہودی کے قبضے میں جو زِرہ ہے وہ میری ہے، میں نے اسے نہ بیچی ہے نہ تحفے میں دی ہے ۔ قاضی شریح رضی اللہ عنہ نے یہودی سے فرمایا : اے یہودی ! تم کیا کہتے ہو ؟ یہودی بولا : یہ زِرَہ میری ہے کیونکہ میرے قبضے میں ہے ۔ قاضی صاحب رضی اللہ عنہ نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے کہا : اے امیر المؤمنین ! کیا آپ کے پاس کوئی دلیل ہے ؟ فرمایا : ہاں ، قنبر اور حسن دونوں اس بات کے گواہ ہیں ۔ قاضی صاحب رضی اللہ عنہ نے کہا : (کہ حسن آپ کے بیٹے ہیں اور شرعی اصول یہ ہے کہ) بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں جائز نہیں ۔ جب اس یہودی نے قاضی صاحب کا عادلانہ فیصلہ سنا تو حیرت زدہ ہو کر کہنے لگا : اے امیر المومنین ! آپ مجھے قاضی صاحب کے پاس لے کر آئے اور قاضی صاحب نے آپ ہی کے خلاف فیصلہ کر دیا ! میں گواہی دیتا ہوں کہ یہی مذہب حق ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عزوجل کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ، یہ زِرہ آپ ہی کی ہے ۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اس کے اسلام قبول کرنے سے بہت خوش ہوئے ، وہ زِرہ اور ایک گھوڑا اُسے تحفے میں دے دیا ۔ (تاریخ الخلفاء، ابو السبطین: علی بن ابی طالب، فصل فی نبذ من اخبار علی۔۔۔ الخ، ص۱۸۴-۱۸۵،چشتی)(الکامل فی التاریخ، سنۃ اربعین، ذکر بعض سیرتہ، ۳ / ۲۶۵)

جس معاشرے میں باہمی خیر کے قیام اور شر کے مٹانے کی سعی نہیں کی جاتی وہ بالآخر مٹ جاتا ہے ۔ کسی بھی ریاست میں حکومتی معاملات کی انجام دہی میں اہم اور بنیادی کردار ادا کرنے والے تین بڑے ادارے ہوتے ہیں ۔ ان میں سے ایک قانون سازی کرنے والا مقننہ ہے ، دوسرا مجلس قانون ساز (مقننہ) کے مرتب کردہ قوانین کو ان کی روح کے مطابق نافذ کرنے اور انتظامِ مملکت چلانے والا ادارہ انتظامیہ ہے ۔ حکومت کا تیسرا بڑا ادارہ عدلیہ ہے جس کا مقصد ریاست میں عدل و انصاف قائم کرنا ہے ۔ حکومت کی اعلیٰ کارکردگی کا دار و مدار اور انحصار نظام عدل پر ہوتا ہے ۔ ایک فرد اور دوسرے فرد کے درمیان ایک ریاست اور فرد کے حقوق و فرائض کا توازن قائم رکھنا اور ان کے درمیان عدل و انصاف قائم کرنا عدلیہ کی حقیقی ذمہ داری ہے ۔ انصاف قائم کرنے والی اقوام ہمیشہ سرخرو و بلند رہتی ہے ۔ برطانوی وزیراعظم چرچل نے انصاف کے حوالے سے ایک تاریخی جلسہ کیا تھا جس کا حوالہ ناگزیر ہے : اگر میرے ملک میں انصاف ہو رہا ہے تو ہم کبھی نہیں ہار سکتے ۔

دنیا بھر میں عدالتی کاروائی چلانے کےلیے دو طرح کے نظام موجود ہیں جنہیں adress arial and inquisitorial system کہا جاتا ہے ۔ پاکستانی عدالتی نظام میں یہ دونوں سسٹم ہی موجود ہیں ۔ پاکستانی عدالتی نظام کا ڈھانچہ دو اقسام پر مشتمل ہے : ⏬

1 ۔ Superior Jodiciary

2 ۔ Subordinate Jodiciary

superior jodiciary میں ایک سپریم کورٹ ، ایک فیڈرل شریعت کورٹ اور پانچ ہائی کورٹس شامل ہیں جبکہ Subordinate jodiciary میں سول کورٹس ، سیشن کورٹ اور دیگر سپیشل کورٹس شامل ہیں ۔ حکومت کا کردار عدلیہ کی کارکردگی پر منحصر ہے۔ پاکستانی عدالتی نظام دیگر ملکوں کی طرح بہت موثر ثابت نہیں ہوا ۔

WORLD JUSTICE PROJECT ORGANIZATION
ایک بین الاقوامی Organization ہے جس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان 128 ممالک میں سے 120 نمبر پر ہے انصاف کی فراہمی میں اور اگر ایشیاء کے خطے کی بات کی جائے تو پاکستان بھوٹان ، نیپال ، بھارت ، چین اور ایران سے بہت پیچھے ہے ۔ South Asia میں صرف افغانستان ہم سے کم درجے میں ہے ۔ چیچنیا خود حالت جنگ میں ہے ۔ یہ صورت حال پاکستانی عدالتی نظام کی ہے ۔ اس بات کا ثبوت ایسے Cases فراہم کرتے ہیں ۔ جسٹس دوست محمد نے 2015ء میں 14 سال بعد باپ اور بیٹے کی رہائی کا حکم صادر فرمایا جب جیلر ریکارڈ لے کر پہنچا تو پتہ چلا کہ ان کو پھانسی دی جا چکی ہے ۔ پاکستان کی عدلیہ میں 17 لاکھ کے قریب کیس Black lock میں ہیں ۔ اس حالتِ زار کے پیچھے بہت سے عوامل ہیں جن کو اصلاحات کے ذریعے سے ہی بہتر کیا جا سکتا ہے ۔ حکومت اور عدلیہ مل کر ہی نظام عدل کو موثر اور مثالی بناسکتی ہیں جس سے فوری اور سستا انصاف میسر ہو سکتا ہے ۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز کی تقرری کا طریقہ کار سیاسی ہے جس میں Review کی ضرورت ہے ۔ ججز کی Sporadic ٹریننگ کی اشد ضرورت ہے تاکہ بہترین صلاحیتوں کو اجاگر کرکے موثر فیصلے کیے جا سکیں ۔

جو قومیں وقت کے ساتھ خود کو تبدیل نہیں کرتیں وہ تاریخ کے اوراق سے مٹادی جاتی ہیں تو حکومتی اداروں کو اشد ضرورت ہے کہ وقت کے تقاضوں کے مطابق تمام قوانین میں ترامیم کیں اور Modren technology کو استعمال کرکے عدالتی نظام کو مزید فعال بنایا جائے ۔

وکلاء کی ٹریننگ اس زمرے میں اشد ضروری ہے تاکہ وہ کورٹس معیار فراہم کرسکیں ۔ تھانے اور پولیس کلچر تبدیل کرنا چاہیے Prosecution ڈیپارٹمنٹ میں Prosecutors کی ٹریننگ فوری اور سستے انصاف کےلیے ناگزیر ہے ۔ موثر ترامیم کرکے انصاف بروقت فراہم کیا جائے تاکہ اس رجحان کو مات دی جائے کہ ایک Generation مقدمہ دائر کرتی ہے جبکہ دو تین Generations اس کو بھگتتی ہیں ۔ گواہوں کے تحفظ کےلیے موثر اقدامات کیے جاسکیں تاکہ ہر کوئی قانون کے دروازے پر دستک دے سکے ۔ پاکستان میں انصاف کی فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی مداخلت ہے اس چیز کا سدباب کرنا چاہیے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...