Tuesday, 16 January 2024

تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو حصّہ دوم

تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو حصّہ دوم
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : : وَاتَّقُوا اللّٰهَؕ ۔ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ۔ (سورہ الماٸدہ آیت نمبر 8)
ترجمہ : اور اللہ سے ڈرو ، بیشک اللہ کو تمہارے کامو ں کی خبر ہے ۔

یعنی اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے اور وہ تمہارے کاموں سے باخبر ہے ‘ سو اگر تم نے کسی کے خلاف جھوٹی گواہی دی یا کسی کے حق میں جھوٹی گواہی دی اور بےانصافی کی ‘ تو وہ اللہ سے مخفی نہیں ہے۔ پھر صحیح اور سچی گواہی پر اجر وثواب کی بشارت دی اور جھوٹی گواہی پر عذاب کی وعید سنائی اور فرمایا : جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے ‘ ان سے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے ۔ (المائدہ : ٩) اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہ لوگ دوزخی ہیں ۔ (المائدہ : ١٠) 
نااہل کو سند یا لائسنس دینے کا عدم جواز اور بحث ونظر : مفتی محمد شفیع دیوبندی متوفی ١٣٩٦ ھ لکھتے ہیں : آخر میں ایک اور اہم بات بھی یہاں جاننا ضروری ہے ۔ وہ یہ کہ لفظ شہادت اور گواہی کا جو مفہوم آج کل عرف میں مشہور ہوگیا ہے وہ تو صرف مقدمات وخصومات میں کسی کے سامنے گواہی دینے کےلیے مخصوص سمجھا جاتا ہے ۔ مگر قرآن وسنت کی اصطلاح میں لفظ شہادت اس سے زیادہ وسیع مفہوم رکھتا ہے ۔ مثلا کسی بیمار کو ڈاکٹری سرٹیفکیٹ دینا کہ یہ ڈیوٹی ادا کرنے کے قابل نہیں یا نوکری کرنے کے قابل نہیں ‘ یہ بھی ایک شہادت ہے ۔ اگر اس میں واقعہ کے خلاف لکھا گیا تو وہ جھوٹی شہادت ہو کر گناہ کبیرہ ہو گیا ۔ اسی طرح امتحانات میں طلباء کے پرچوں پر نمبر لگانا بھی ایک شہادت ہے ۔ اگر جان بوجھ کر یا بےپروائی سے نمبروں میں کمی بیشی کردی تو وہ بھی جھوٹی شہادت ہے اور حرام اور سخت گناہ ہے ۔ (معارف القرآن ج ٢ ص ٧١۔ ٧٠‘ مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی ‘ ١٣٩٧ ھ)

ہمارے نزدیک اگر کوئی ڈاکٹر کسی صحت مند شخص کو کسی تعلق کی بنا پر یا رشوت لے کر بیماری کا سرٹیفکیٹ دے دیتا ہے تو اس کے سر پر ایک گناہ تو رشوت لینے کا ہے اور اپنے منصب سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا گناہ ہے ۔ اور دوسرا گناہ اس کا جھوٹ ہے ۔ اور جھوٹ گناہ کبیرہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے جھوٹوں پر لعنت فرمائی ہے : ⏬

(آیت) ” ان لعنت اللہ علیہ ان کان من الکذبین “۔ (النور : ٨) 
ترجمہ : اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو تو بیشک اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ 
اور جھوٹ پر عذاب کی وعید سنائی ہے : 
(آیت) ”’ ولھم عذاب الیم بما کانوا یکذبون “۔ (البقرہ : ١٠) 
اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے ‘ کیونکہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔ 
اگر کوئی ممتحن کسی طالب علم کے پر چہ میں رشوت لے کر یا سفارش یا تعلق کی بنا پر زیادہ نمبر لگاتا ہے یا دشمنی اور عدوات کی بنا پر اس کے نمبر کم لگاتا ہے تو یہ ظلم ہے ‘ کیونکہ ظلم کا معنی ہے کسی چیز کو اس کے غیر محل میں رکھنا۔ 
علامہ میر سید شریف علی بن محمد جرجانی متوفی ٨١٦ ھ لکھتے ہیں : 
ظلم کا معنی ہے کسی چیز کو اس کے غیر محل میں رکھنا۔ اور اس کا شرعی معنی ہے حق سے باطل کی طرف تجاوز کرنا اور اس کو جور کہتے ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ غیر کی ملک میں تصرف کرنا ظلم ہے اور حد سے تجاوز کرنا ظلم ہے ۔ (کتاب التعریفات ‘ ص ٦٢‘ مطبوعہ ایران ‘ النہایہ ‘ ج ٣‘ ص ٦١‘ المفردات ‘ ص ٣١٦۔ ٣١٥) 
اور ظلم بھی گناہ کبیرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ظالموں پر لعنت فرمائی ہے : 
(آیت) ” الا لعنۃ اللہ علی الظلمین “۔ (ھود : ١٨) 
ترجمہ : سنو : ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے ۔

اس لیے کسی ڈاکٹر کا صحت مند کو بیماری کا سرٹیفکیٹ دینا یا کسی افسر کا اناڑی کو ڈرائیونگ لائسنس دینا یا کسی ٹیکسی ڈرائیور کے غلط میٹر کی صحیح میٹر کا سند دینا یا رشوت لے کر کسی غیر ملکی کو قومی شناختی کارڈ بنادینا یا کسی یونیورسٹی یا ادارہ کی جعلی سند جاری کر دیناا اور اس نوع کی تمام جھوٹی اور جعلی دستاویزات ‘ جھوٹ اور ظلم پر مبنی ہیں ‘ اور گناہ کبیرہ ہیں۔ تاہم ان کو جھوٹی شہادت کے ذلیل میں لانا صحیح نہیں ہے۔ خصوصا ممتحن کے نمبر لگانے کا معاملہ کسی طور پر شہادت نہیں ہے۔ اس کے لگائے ہوئے نمبر شہادت نہیں ‘ بلکہ ایک قسم کا فیصلہ ہیں ‘ اگر وہ غلط نمبر لگائے گا تو یہ اس کی عدالت کے خلاف ہوگا اور قرآن مجید میں ہے ۔ 
(آیت) ” ولا یجرمنکم شنان قوم علی ان لا تعدلوا اعدلوا ھو اقرب للتقوی “۔ (المائدہ : ٨) 
ترجمہ : کسی قوم کی عداوت تمہیں بےانصافی پر نہ ابھارے۔ تم عدل کرتے رہو ‘ وہ خوف خدا کے زیادہ قریب ہے۔ 
طالب علم کا پر چہ چیک کر کے جو نمبر لگاتا ہے وہ اس کی قضا اور فیصلہ ہے۔ اسی طرح جو افسر گاڑی کی فٹ نیس کا سرٹیفکیٹ دیتا ہے ‘ یا میٹر کو صحیح قرار دیتا ہے ‘ یہ اس کی قضا اور فیصلہ ہے اور ڈاکٹر جو سرٹیفکیٹ دیتا ہے یہ اس کی ماہرانہ رائے ہے ۔ یہ تمام امور مشابہ بالقضاء ہیں ‘ شہادت نہیں۔ پس دینے کےلیے ضروری ہے کہ وہ کہے میں شہادت دیتا ہوں جیسا کہ ہم عنقریب باحوالہ بیان کریں گے۔ اس لیے اگر یہ لوگ غلط فیصلہ کریں گے اور خلاف واقعہ تحریر کریں گے ‘ تو عدل کے خلاف ہوگا ‘ اور ظلم اور جھوٹ ہوگا ‘ اور یہ کام موجب لعنت ہیں اور گناہ کبیرہ ہیں ‘ لیکن یہ شہادت کی تعریف میں نہیں آتے۔ اب ہم آپ کے سامنے شہادت کی تعریف اور ارکان بیان کر رہے ہیں ۔ 
شہادت کی تعریف : 
علامہ میر سید شریف علی بن محمد جرجانی متوفی ٨١٦ ھ لکھتے ہیں : 
قاضی کے سامنے ایک شخص کے دوسرے شخص پر حق کی لفظ شہادت کے ساتھ خبر دینا (مثلا کہے میں شہادت دیتا ہوں کہ فلاں آدمی کا فلاں شخص پر فلاں حق ہے) شریعت میں شہادت ہے۔ (کتاب التعریفات ‘ ص ٥٧‘ مطبوعہ ایران) 
علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں : 
شہادت کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قسم علم اور یقین کے قائم مقام ہے ‘ اس میں یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ میں جانتا ہوں بلکہ یہ کہنا ضروری ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں۔ دوسری قسم وہ ہے جو قسم کے قائم مقام ہے ‘ اس میں مثلا یہ کہے کہ میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں کہ زید چلنے والا ہے۔ (امفردات ‘ ص ٢٦٨) 
علامہ محمد بن محمود بابرتی حنفی متوفی ٧٨٦ ھ لکھتے ہیں :
جب گواہ مسموعات کی جنس سے کوئی بات سنے مثلا بیع ‘ اقرار یا حاکم کے حکم کو سنے ‘ یا مبصرات میں سے کسی چیز کو دیکھے مثلا کسی کو قتل کرتے ہوئے دیکھے ‘ یا کسی کو غصب کرتے ہوئے دیکھے تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ گواہی دے کہ میں گواہی دیتا ہوں فلاں شخص نے بیع کی ‘ یا حاکم نے فیصلہ کیا خواہ اس کو گواہ نہ بنایا گیا ہو۔ (عنایہ مع فتح القدیر ‘ ج ٧ ص ٣٥٧‘ طبع بیروت ‘ ١٤١٥ ھ) 
علامہ کمال الدین ابن ہمام متوفی ٨٦١ ھ نے لکھا ہے کہ شہادت میں لفظ شہادت (مثلا میں شہادت دیتا ہوں) کہنا ضروری ہے۔ کیونکہ قرآن مجید میں اسی لفظ کے ساتھ شہادت دینے کا حکم فرمایا ہے۔ 
(آیت) ” واشھدوا ذوی عدل منکم “۔ (الطلاق : ٢) 
ترجمہ : اور تم میں سے دو نیک شخص شہادت دیں۔ 
(آیت) ” واشھدوا اذا تبایعتم “۔ (البقرہ : ٢٨٢) 
ترجمہ : جب تم آپس میں خریدوفروخت کرو شاھد (گواہ) بنالو۔ 
(آیت) ” واستشھدوا شھیدین من رجالکم “۔ (البقرہ : ٢٨٢) 
ترجمہ : اور تم اپنے مردوں میں سے دو شاہد طلب کرو۔ 
(آیت) ” واقیموا الشھادۃ للہ “۔ (الطلاق : ٢) 
ترجمہ : اور اللہ کے لیے گواہی قائم کرو۔ 
امام ابو عبداللہ حاکم نیشاپوری متوفی ٤٠٥ ھ روایت کرتے ہیں : 
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شہادت کے متعلق سوال کیا۔ آپ نے فرمایا کیا تم سورج کو دیکھ رہے ہو ؟ اس نے کہا ہاں ! آپ نے فرمایا اس کی مثل ہو تو شہادت دو ‘ ورنہ چھوڑ دو ۔ (المستدرک ‘ ج ٤‘ ص ١٩٨‘ سنن کبری ‘ ج ١٠‘ ص ١٥٦،چشتی) 
ان تصریحات سے یہ واضح ہوگیا کہ کسی سنی ہوئی بات یا کسی وقوع پذیر ہونے والے حادثہ کی لفظ شہادت کے ساتھ خبر دینے کو شہادت کہتے ہیں۔ اور ڈاکٹر جو کسی مریض کے متعلق اپنی رائے لکھتا ہے ‘ یا ممتحن کی پر چہ پر نمبر لگاتا ہے ‘ اس میں کسی واقعہ یا حادثہ کی خبر نہیں دی جاتی ‘ بلکہ اپنی طرف سے ایک رائے دی جاتی ہے یا ایک حکم لگایا جاتا ہے۔ اس لیے ان امور کو شہادت کے ذیل میں لانا صحیح نہیں ہے۔ البتہ ! اگر بدنیتی کی وجہ سے صحیح رائے نہ لکھی جائے یا صحیح حکم نہ لگایا جائے تو یہ عدل کے خلاف ہے اور ظلم ہے ‘ اور اگر اس نے دانستہ اپنی فی الواقع رائے کے خلاف لکھا تو یہ جھوٹ ہے اور بہرحال گناہ کبیرہ ہے۔ 
نااہل شخص کو ووٹ دینے کا عدم جواز اور بحث ونظر :
مفتی محمد شفیع دیوبندی متوفی ١٣٩٦ ھ لکھتے ہیں : کامیاب ہونے والے والے فارغ التحصیل طلباء کو سند یا سرٹیفکیٹ دینا اس کی شہادت ہے کہ وہ متعلقہ کام کی اہلیت و صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر وہ شخص واقع میں ایسا نہیں ہے تو اس پر سرٹیفکیٹ یا سند پر دستخط کرنے والے سب کے سب شہادت کاذبہ کے مجرم ہوجاتے ہیں۔ 
اسی طرح اسمبلیوں اور کونسلوں وغیرہ کے انتخاب میں کسی امیدوار کو ووٹ دینا بھی ایک شہادت ہے۔ جس میں ووٹ دہندہ کی طرف سے اس کی گواہی ہے کہ ہمارے نزدیک یہ شخص اپنی استعداد اور قابلیت کے اعتبار سے بھی اور دیانت وامانت کے اعتبار سے بھی قومی نمائندہ بننے کے قابل ہے۔ 
اب غور کیجئے کہ ہمارے نمائندوں میں کتنے ایسے ہوتے ہیں جن کے حق میں یہ گواہی سچی اور صحیح ثابت ہو سکے ‘ مگر ہمارے عوام ہیں کہ انہوں نے اس کو محض ہار جیت کا کھیل سمجھ رکھا ہے۔ اس لیے ووٹ کا حق کبھی پیسوں کے عوض میں فروخت ہوتا ہے کبھی کسی دباؤ کے تحت استعمال کیا جاتا ہے ‘ کبھی ناپائدار دوستوں اور ذلیل وعدوں کے بھروسہ پر اس کو استعمال کیا جاتا ہے۔ 
اور تو اور ‘ لکھے پڑھے دیندار مسلمان بھی نااہل لوگوں کو ووٹ دیتے وقت کبھی یہ محسوس نہیں کرتے کہ ہم یہ جھوٹی گواہی دے کر مستحق لعنت و عذاب بن رہے ہیں۔ 
نمائدوں کے انتخاب کے لیے ووٹ دینے کی از روئے قرآن ایک دوسرے حیثیت بھی ہے جس کو شفاعت یا سفارش کہا جاتا ہے ‘ کہ ووٹ دینے والا گویا یہ سفارش کرتا ہے فلاں امیدوار کو نمائندگی دی جائے۔ اس کا حکم قرآن کریم کے الفاظ میں پہلے بیان ہوچکا ہے۔ ارشاد ہے : 
(آیت) ” ومن یشفع شفاعۃ حسنۃ یکن لہ نصیب منھا ومن یشفع شفاعۃ سیئۃ یکن لہ کفل منھا “۔ 
ترجمہ : یعنی جو شخص اچھی اور سچی سفارش کرے گا تو جس کے حق میں سفارش کی ہے اس کے نیک عمل کا حصہ اس کو بھی ملے گا اور جو شخص بری سفارش کرتا ہے یعنی کسی نااہل اور برے شخص کو کامیاب بنانے کی سعی کرتا ہے ‘ اس کو اس کے برے اعمال کا حصہ ملے گا۔ 
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ امیدوار اپنی کارکردگی کے پنج سالہ دور میں غلط اور ناجائز کام کرے گا ‘ ان سب کا وبال ووٹ دینے والے کو بھی پہنچے گا۔ 
ووٹ کی ایک تیسری شرعی حیثیت وکالت کی ہے کہ ووٹ دینے والا اس امیدوار کو اپنی نمائندگی کے لئے وکیل بناتا ہے۔ لیکن اگر یہ وکالت اس کے کسی شخصی حق کے متعلق ہوتی اور اس کا نفع نقصان صرف اسکی ذات کو پہنچتا تو اس کا یہ خود ذمہ دار ہوتا ‘ مگر یہاں ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ یہ وکالت ایسے حقوق کے متعلق ہے جس میں اس کے ساتھ پوری قوم شریک ہے۔ اس لیے اگر کسی نااہل کو اپنی نمائندگی کے لیے ووٹ دے کر کامیاب بنایا تو پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ بھی اسکی گردن پر رہا۔ 
خلاصہ یہ کہ ہمارا ووٹ تین حیثیتیں رکھتا ہے۔ ایک شہادت ‘ دوسرے شفاعت ‘ اور تیسرے حقوق مشترکہ میں وکالت۔ تینوں حیثیتوں میں جس طرح نیک صالح قابل آدمی کو ووٹ دینا موجب ثواب عظیم ہے اور اس کے ثمرات اس کو ملنے والے ہیں ‘ اسی طرح نااہل یا غیر متدین شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت بھی ہے اور بری شفاعت بھی اور ناجائز وکالت بھی اور اس کے تباہ کن ثمرات بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھے جائیں گے۔ 
اس لیے ہر مسلمان ووٹر پر فرض ہے کہ ووٹ دینے سے پہلے اس کی پوری تحقیق کرلے کہ جس کو ووٹ دے رہا ہے ‘ وہ کام کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں ‘ اور دیانت دار ہے یا نہیں ‘ محض غفلت و بےپرواہی سے بلاوجہ ان عظیم گناہوں کا مرتکب نہ بنے ۔ (معارف القرآن ج ٢ ص ٧٢۔ ٧١‘ مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی ‘ ١٣٩٧ ھ،چشتی) 
جو شخص علم اور عمل کے اعتبار سے نااہل ہو ‘ اس کو ووٹ دینا ہمارے نزدیک بھی ناجائز اور گناہ ہے ‘ لیکن اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ووٹ کسی کے حق میں شہادت ہے ‘ یا وکالت ہے ‘ یا شفاعت ہے ‘ اس کا شہادت نہ ہونا تو ہماری پہلی تقریر سے واضح ہوگیا۔ شہادت میں کسی دیکھے ہوئے یا سنے ہوئے واقعہ کی لفظ شہادت کے ساتھ خبر دی جاتی ہے ‘ اور ووٹ دینے کا معاملہ اس طرح نہیں ہے۔ شفاعت اس لیے نہیں ہے کہ شفاعت میں کسی تیسرے شخص کے پاس کسی منصب کے لیے سفارش کی جاتی ہے ‘ اور اس تیسرے شخص کے اختیار میں یہ معاملہ ہوتا ہے کہ خواہ اس شفاعت کو قبول کرے خواہ رد کر دے ‘ جبکہ ووٹ کی حیثیت اس طرح نہیں ہے۔ جس نمائندہ کے ووٹ ڈالے گئے ہیں ‘ اگر اس کے ووٹ اپنے مقابل سے زیادہ ہوں تو وہ اسمبلی کا ممبر بن جائے گا۔ اس میں کسی کے قبول کرنے نہ کرنے کا کوئی معاملہ نہیں ہے ‘ اس طرح ووٹ وکالت بھی نہیں ہے۔ کیونکہ وکالت میں موکل کسی شخص کو وکیل بنانے کے بعد اس کو معزول بھی کرسکتا ہے۔ (ھدایہ اخرین ‘ ص ١٩٩) اور ووٹر کسی امیدوار کو ووٹ ڈالنے کے بعد اپنے ووٹ کو کینسل نہیں کرسکتا ‘ اور نہ ہی منتخب ہونے کے بعد اس امیدوار کو معزول کرسکتا ہے۔ 
اگر کوئی شخص کسی تعلق یا لالچ یا دباؤ کی وجہ سے کسی نااہل شخص کو ووٹ ڈال رہا ہے ‘ تو اس عمل کے ناجائز ہونے کی صاف اور سیدھی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک منصب کے لیے نااہل شخص کو مقرر کرنے کی سعی کر رہا ہے۔ اور اسلام میں کسی نااہل کو منصب دینے سے منع کیا گیا ہے۔ 
امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : 
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا قیامت کب آئے گی ؟ آپ نے اپنی بات مکمل کر کے فرمایا : جب امانت ضائع کردی جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔ اس نے پوچھا امانت کیسے ضائع ہوگی ؟ آپ نے فرمایا جب کوئی منصب کسی نااہل کے سپرد کردیا جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔ (صحیح البخاری ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٥٩‘ مسند احمد بتحقیق احمد شاکر ‘ ج ٨‘ رقم الحدیث :‘ ٨٧١٤‘ الجامع الصغیر ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٨٨٧‘ الجامع الکبیر ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ١٨٩٥،چشتی) 
جو کسی ایسے شخص کو قومی یا صوبائی اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالتا ہے ‘ جو دینی اور دنیاوی علوم سے بہرہ مند نہ ہو اور اس کا بدچلن اور بدکردار ہونا بالکل واضح ہو تو وہ اس نمائندگی کے لیے نااہل شخص کو منتخب کر رہا ہے اور نااہل کو منصب کے لیے منتخب کرنا اس حدیث کے مطابق قیامت آجانے کے مترادف ہے۔ نیز اس سلسلہ میں مزید احادیث ہیں : 
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے کسی آدمی کو کسی جماعت کا امیر بنایا ‘ حالانکہ اس جماعت میں اس سے زیادہ اللہ کا فرماں بردار بندہ تھا ‘ تو بنانے والے نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور جماعت مسلمین سے خیانت کی۔ حاکم نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ (المستدرک ‘ ج ٤‘ ص ٩٣۔ ٩٢‘ مطبوعہ دارالباز ‘ مکہ المکرمہ) 
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس آدمی نے کسی شخص کو مسلمانوں کا عامل بنایا ‘ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ اس سے بہتر شخص موجود ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول کا زیادہ جاننے والا ہے تو اس آدمی نے اللہ تعالیٰ ‘ اس کے رسول اور تمام مسلمانوں سے خیانت کی۔ (کنزالعمال ‘ ج ٦ ص ٧٩‘ مطبوعہ موسسہ الرسالہ بیروت ‘ ١٤٠٥ ھ) 
حضرت ابوایوب بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ‘ جب کوئی اہل شخص دین کا والی ہو تو دین پر نہ رونا اور جب نااہل والی ہو تو پھر دین پر رونا۔ (علامہ احمد شاکر متوفی ١٣٧٧ ھ نے لکھا ہے ‘ اس حدیث کی سند صحیح ہے ‘ مسند احمد ‘ ج ١٧‘ رقم الحدیث : ٢٣٤٧٦‘ امام حاکم اور امام ذہبی نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ المستدرک ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث : ص ‘ ٤‘ ص ٥١٥‘ نیز امام طبرانی ‘ متوفی ٣٦٠ ھ نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ المعجم الاوسط ج ١ رقم الحدیث : ٢٨٦‘ المعجم الکبیر ج ٤‘ رقم الحدیث ٣٩٩٩) ان احادیث سے یہ واضح ہوگیا کہ جو شخص پیسوں کے لالچ ‘ برادری کے تعلق یا کسی بااثر آدمی کے دباؤ کی وجہ سے نااہل کو ووٹ ڈالتا ہے ‘ وہ اللہ اور اس کے رسول اور تمام مسلمانوں سے خیانت کرتا ہے۔ نیز اہل شخص کے ہوتے ہوئے نااہل شخص کو ووٹ ڈالنا ‘ ظلم ہے ‘ کیونکہ ظلم کا معنی ہی یہ ہے کسی چیز کو اس کے غیر محل میں رکھنا اور ظالموں پر اللہ نے لعنت فرمائی ہے ‘ اور ظلم گناہ کبیرہ ہے۔ 
نیز جب کوئی بدکردار اور فاسق وفاجر یا بدمذہب شخص اسمبلی میں پہنچے گا اور اس کو قانون سازی کا اختیار ملے گا ‘ تو یہ ممکن ہے کہ وہ خلاف شرع قانون بنائے ‘ یا اس کے حق میں ووٹ دے۔ جیسے ایوب خان کے دور میں عائلی قوانین بن گئے جو سراسر غیر اسلامی ہیں اور ١٩٩٣ ء تا ١٩٩٦ ء کی وقافی کا بینہ نے یہ مسودہ قانون منظور کیا کہ عورت خواہ قاتل ہو ‘ اس کو موت کی سزا نہیں دی جائے گی اور یہ صریح قرآن کے خلاف ہے۔ جن لوگوں نے ایسے بےدین لوگوں کو ووٹ دے کر اسمبلی میں پہنچایا ‘ یا جنہوں نے خلاف شرع قانون سازی کی ‘ وہ بھی برابر کے مجرم ہیں۔ اس لیے جو لوگ غیر متدین اور غیر صالح لوگوں کو ووٹ دے کر اسمبلی میں پہنچائیں گے ‘ وہ بھی برابر کے مجرم ہوں گے۔ اس لیے نااہل شخص کو ووٹ دینا بالکل جائز نہیں ہے۔ یہ اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت ہے ‘ ظلم ہے ‘ اور خلاف شرع قانون بنانے کا ذریعہ ہے ۔

طلبِ منصب کی تحقیق : ⏬

ہمارے ملک میں طریق انتخاب کی یہ بہت بڑی خامی ہے کہ قومی یا صوبائی اسمبلی کی نشست کیلیے ہر امیداوار از خود کھڑا ہوتا ہے۔ حالانکہ اسلام میں از خود عہدہ کی طلب کرنا ممنوع ہے۔ 
امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرے دو عم زاد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ! اللہ نے جن چیزوں پر آپ کو ولایت دی ہے ‘ ان میں سے بعض پر ہمیں امیر بنادیں ‘ دوسرے نے بھی اسی طرح کہا : آپ نے فرمایا بخدا ! ہم اس شخص کو کسی منصب پرامیر نہیں بنائیں گے جو اس کا سوال کرے گا ‘ اور نہ اس کو جو اس کی حرص کرے گا ۔ (صحیح مسلم ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث : ١٧٣٣‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت،چشتی) 
طالب منصب کو منصب نہ دینے میں یہ حکمت ہے کہ طالب منصب کے ساتھ اللہ کی توفیق اور تائید شامل نہیں ہوتی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ منصب کو طلب کرنا جائز ہے ‘ کیونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بادشاہ سے اپنے لیے حکومت کا عہدہ طلب کیا تھا۔ قرآن مجید میں ہے : 
(آیت) ” قال اجعلنی علی خزآئن الارض انی حفیظ علیم “۔ (یوسف : ٥٥) 
حضرت یوسف (علیہ السلام) نے (عزیز مصر سے) کہا ‘ ملک کے خزانے میرے سپرد کردیجئے میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔ 
یہ استدلال اس لیے صحیح نہیں ہے کہ یہ شریعت سابقہ ہے اور شریعت سابقہ کے جو احکام ہماری شریعت کے خلاف ہوں ‘ وہ ہم پر حجت نہیں ہوتے۔ ہمارے لیے یہ حکم ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بخدا ہم اس شخص کو عامل نہیں بنائیں گے جو اس کو طلب کرے گا اور نہ اس شخص کو عامل بنائیں گے جو اس کی حرص کرے گا۔ جیسا کہ اس حدیث میں ہے۔ 
دوسرا جواب یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نبی تھے اور نبی کا تقوی قطعی اور یقینی ہوتا ہے ‘ نبی کو وحی کی تائید حاصل ہوتی ہے ‘ اور وہ اپنے افعال کے متعلق اللہ کی رضا سے مطلع رہتے ہیں ‘ جبکہ عام آدمی کا تقوی قطعی اور یقینی نہیں ہوتا اور غیر قطعی کو قطعی پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا عہدہ طلب کرنا اللہ تعالیٰ کی اجازت سے تھا ‘ جو ان کو وحی سے حاصل ہوئی اور عام آدمی کے حق میں یہ متصور نہیں ہے۔ 
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب کوئی منصب کا اہل ہو ‘ اس کا محض خدمت کے لیے منصب کو طلب کرنا ضرورت کی بناء پر جائز ہے۔ ہمیں اس قاعدہ کی صحت سے انکار نہیں ہے ‘ لیکن جو چیز ضرورت کی بنا پر جائز کی گئی ہو ‘ اس کو صرف ضرورت کی حد تک محدود رکھنا صحیح ہے۔ اس کو عام رواج اور معمول بنا لینا صحیح نہیں ہے ‘ مثلا جب کوئی حلال چیز کھانے کے لیے دستیاب نہ ہو تو ضرورت کی بنا پر شراب اور خنزیر کی حرمت ساقط ہوجاتی ہے ‘ لیکن اگر کوئی شخص ضرورت کے حوالے سے خنزیر اور شراب کو کھانے پینے کا عام معمول بنا لے ‘ تو یہ صحیح نہیں ہے۔ 
موجودہ طریقہ انتخاب کا غیر اسلامی ہونا :
پاکستان میں انتخاب کے موقع پر ہر حلقہ انتخاب سے بکثرت امیدوار از خود کھڑے ہوتے ہیں اور زرکثیر خرچ کرکے اپنے لیے کنوینسگ کرتے ہیں اور مخالف امیدوار کی کردار کشی کرتے ہیں اور اس سلسلے میں غیبت ‘ افتراء اور تہمت کی تمام حدود کو پھلانگ جاتے ہیں۔ اور یہ طریقہ اسلام میں بالکل ناجائز ہے ‘ اور ہر امیدوار کے متعلق یہ کہنا کہ یہ ضرورت کی بناء پر کھڑا ہوا ہے ‘ بداہۃ باطل ہے۔ کیونکہ ہر حلقہ انتخاب سے بکثرت امیدوار کھڑے ہوتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے بارے میں یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ چونکہ اور کوئی اہل ہیں تھا ‘ اس لیے یہ سب امیداوار کھڑے ہوگئے ہیں ۔ 
امیداوار کےلیے شرائط اہلیت نہ ہونے کے غلط نتائج : ⏬

درحقیقت پاکستان کے آئین میں طلب منصب کی اجازت دینا ہی غیر اسلامی دفعہ ہے۔ جو امیدوار انتخاب کے لیے کھڑے ہوتے ہیں ‘ ان ہی میں سے منتخب افراد آگے چل کر وزیر اعظم ‘ صدر مملکت اور وزراء اعلی کا انتخاب کرتے ہیں اور یہی لوگ اسمبلی میں جا کر کسی قانون کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ملک کے سر برآوردہ علماء اور دانشوروں پر مشتمل اسلامی نظریاتی کونسل اتفاق رائے سے کسی قانون کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کا فیصلہ کرتی ہے ‘ لیکن وہ اس وقت تک نافذ نہیں ہوسکتا جب تک کہ قومی اسمبلی اس کو منظور نہ کرے اور قومی اسمبلی کے ممبروں کے لیے اسلامی علوم یا مروجہ علوم میں کسی علم کی کوئی شرط نہیں ہے۔ نیکی اور تقوی کی مبہم شرائط رکھی گئی ہیں اور ان کا دیانت داری سے متعلقہ امیدواروں پر اطلاق بھی نہیں کیا جاتا۔ حال ہی میں صدر مملکت چیف الیکشن کمشز اور بالواسطہ طور پر کہہ چکے ہیں کہ ان کا اطلاق کون کرے گا ؟ اور کبھی وہ کہتے ہیں کہ ایسے کڑے معیار پر کون اترے گا ؟ گویا وہ بالواسطہ طورکہہ رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی دفعات ٦٢ اور ٦٣ ناقابل عمل ہیں۔ نیزسیاسی تجربہ اور تدبر کی حتی کہ مرد ہونے کی بھی کوئی شرط نہیں ہے۔ دفتر میں کلرک بھرتی ہونے کے لیے بھی کم از کم میٹرک پاس ہونے کی شرط ہوتی ہے۔ بس چلانے والے ڈرائیور کے لیے بھی تجربہ کی شرط ہوتی ہے لیکن اس ملک کو چلانے کے لیے امیدواروں کے علم اور تجربہ کی کوئی شرط نہیں ہے۔ ہر فاسق وفاجر ‘ جاہل اور ناتجربہ کار شخص خواہ مرد ہو یا عورت ‘ انتخاب کے لیے کھڑا ہوسکتا ہے اور پیسہ اور اثر ورسوخ کے زور پر اسمبلی میں پہنچ کر صدر مملکت ‘ وزیر اعظم ‘ وزیر اعلی یا کسی بھی محکمہ کا وزیر بن سکتا ہے۔ اور وہ دینی علم ‘ تجربہ اور اچھے کردار کے بغیر بھی اسلامی نظریاتی کونسل کی پیش کردہ سفارشات کو مسترد کر سکتا ہے ‘ اور کسی بھی قانون کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کا فیصلہ کرسکتا ہے ۔ (ماخوذ تفسیر تبیان القرآن) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...