Saturday 6 January 2024

حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کا ملکی نظام ، فتوحات و کارنامے اوّل

0 comments
حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کا ملکی نظام ، فتوحات و کارنامے اوّل
محترم قارئینِ کرام : رحمتِ کُل عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصالِ ظاہری کے بعد تمام مہاجرین و انصار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی اور متفقہ طور پر آپ رضی اللہ عنہ کو پہلا ”خلیفۃُالمسلین“ تسلیم کر لیا ۔ (بخاری جلد 4 صفحہ 346 حدیث نمبر 6830)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو منصب خلافت پر متمکن ہوتے ہی طرح طرح کی صعوبات مشکلات اور خطرات کا سامنا کرنا پڑا ، ایک طرف جھوٹے مدعیان نبوت اٹھ کھڑے ہوئے تھے ، دوسری طرف مرتدین اسلام کی جماعت نے علم بغاوت بلند کردیا تھا منکرین زکوٰۃ کا بھی فتنہ اٹھ کھڑا تھا ۔ آپ رضی اللہ عنہ اپنے دورِ خلافت میں اسلام دشمن قوتوں کے خلاف ڈٹے رہے ، نبوت کے جھوٹے دعویداروں سے برسرِپیکار (جنگ پر آمادہ) ہوئے اور انہیں کیفرِ کردار تک پہنچایا ، اپنی حکمتِ عملی سے  نا پختہ ذہن رکھنے والے مرتد قبائل کی سر کوبی کی ، زکوٰۃ کے منکرین کے خلاف جہاد کا عَلَم (جھنڈا) بلند فرمایا اور انہیں شکست سے دوچار کیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں عراق و شام کے کئی شہر فتح ہوئے جن میں  اُردن ، اَجنادِین ، مقام ِحِیرَہ اور دَوۡمَۃُ الۡجَنۡدَل  کی فتوحات قابلِ ذکر ہیں ۔

ایرانی سلطنت انقلاب حکومت وطوائف الملوکی کے باعث اپنی اگلی عظمت وشان کھوچکی تھی۔ ’یزدگرد‘ شہنشاہ ایران نابالغ تھا، مآخذبیان کرتے ہیں کہ عراق کے عربی قبائل جو ایرانی حکومت کا ظلم وستم سہ چکے تھے ایسے موقعوں سے فائدہ اٹھانے کے متمنی تھے چنانچہ موقع پاکر نہایت زوروشور کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے اور قبیلہ وائل کے دو سر دار ’’مثنی شیبانی‘‘ و ’’سوید عملی‘‘ نے  ’واہلہ‘ کے نواح میں غارت گری شروع کردی۔ مثنی اسلام لاچکے تھے انھوں نے دیکھا کہ وہ تنہا اس حکومت سے نبردآزما نہیں ہوسکتے۔ وہ خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اورباقاعدہ فوج کشی کی اجازت حاصل کی اور اپنے قبیلہ کو لے کر ایران سرحد میں داخل ہوئے ۔اس وقت تک حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ مدعیان نبوت ومرتدین کی بیخ کنی سے فارغ ہوچکے تھے۔ لہٰذا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کو ایک دستہ کے ساتھ ’’مثنی‘‘ کی کمک کےلیے روانہ فرمایا ۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جنگ کی صورت میں بدل دی اور بانقیا ، کسکر وغیرہ فتح کرتے ہوئے شاہانِ عجم کے حدود میں داخل ہو گئے ۔ یہاں شاہ جاپان سے مقابلہ ہوا اور اس کو شکست سے دوچار ہونا پڑا پھر حیرہ کے بادشاہ نعمان سے جنگ آزما ہوئے ۔ نعمان ہزیمت اٹھاکر مدائن بھاگ گیا، یہاں سے خورلق پہنچے  اہل خورلق نے  خراج پر مصالحت کرلی غرض اس طرح حیرہ کا پورا علاقہ فتح ہوگیا ۔ (تاریخ یعقوبی جلد ۲ صفحہ ۴۷)

اس وقت کے حالات یہ تھے کہ جزیرہ نمائے عرب کی سرحد دنیا کے دو عظیم سلطنتوں سے ٹکراتی تھی۔ ایک طرف شام پر رومی اثر تھا، تو عراق پر کیانی خاندان کاتسلط تھا، ان دونوں ہمسایہ سلطنتوں نے ہمیشہ کوشش کی کہ عرب کے آزاد جنگجو باشندوں پر اپنی حکمرانی کا سکہ جمائیں، خصوصاً ایرانی سلطنت نے اس مقصد کے لیے بارہا اہم قربانیاں پیش کی۔ بڑی بڑی فوجیں اس مہم کو سر کرنے کے لیے بھیجیں اور بعض اوقات اس نے عرب کے ایک وسیع خطہ پر تسلط بھی کرلیا۔ چنانچہ شاپور بن اردشیر جو سلطنت ساسانیہ کادوسرا فرمان روا تھا اس کے عہد حجاز ویمن دونوں باجگداز ہوگئے تھے اسی طرح ساپور ذی الاکناف یمن وحجاز کو فتح کرتا ہوا مدینہ منورہ تک پہنچ گیاتھا۔ یہ عربوں کا حد درجہ دشمن تھا جو روسائے عرب گرفتار ہوکر جاتے تھے وہ ان کے شانے اکھاڑ ڈالتاتھا اسی وجہ سے یہ دو الاکتاف (شانوں والے) کے لقب سے مشہور ہوا ۔ (تاریخ الطوال صفحہ ۴۹)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ۱۳ھ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ  کے بعد شام پر لشکر کشی کی اور ہر علاقہ کے لیے الگ الگ فوج مقرر کی ۔ اس کی تفصیل اس طرح ہے۔ حضرت ابوعبیدہ حمص پر، یزید بن ابی سفیان دمشق پر، شرجیل بن حسنہ اردن پر اور عمرو بن العاص فلسطین پر مامور ہوئے۔ مجاہدین کی مجموعی تعداد ۲۷۰۰۰ تھی، ان سرداروں کو سرحد سے نکلنے کے بعد قدم قدم پر رومی جتھے ملے جن کو قیصر نے پہلے سے الگ الگ  سردار کے مقابلہ میں متعین کردیا تھا، یہ دیکھ کر افسران اسلام نے اپنی کل فوجوں کو ایک جگہ جمع کرلیا اور خلیفہ کو غنیم کی غیر معمولی کثرت کی اطلاع دے کر مزید کمک کے لیے لکھا کیوں کہ اس وقت دارالخلافت میں کوئی فوج موجود نہ تھی اس لیے حضرت ابوبکر کو نہایت تردد ہوا۔ آپ نےخالد بن ولید کو لکھا کہ عراق کی باگ ڈور مثنی کو دے کر شام کی طرف روانہ ہوجائیں یہ فرمان پا کر حضرت خالد، ایک فوجی دستہ کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہو گئے ۔ (تاریخ الرسول الملوک، ج۳، تذکرہ فتح الشام)

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو راستے میں بہت سے چھوٹے چھوٹے معرکوں سے گزرنا پڑا۔  حیرہ کے علاقہ سے روانہ ہوکر عین التمر پہنچے تو وہاں کسریٰ کی فوج سدراہ ہوئی، عقبہ بن ابی بلال الثمری اس فوج کاسپہ سالار تھا۔ حضرت خالد نے عقبہ کو قتل کرکے اس کی فوج کو شکست دی، آگے بڑھے توہذیل بن عمران کی سیادت میں بنی تغلب کی ایک جماعت نے مقابلہ کیا، ہذیل مارا گیا اور اس کی جماعت کے بہت سے لوگ اسیر ہوئے اور مدینہ روانہ کیے گئے ۔ پھر یہاں سے انباء پہنچے اور انبار سے صحرا طے کرکے قدمرمیں خیمہ زن ہوئے اہل قدمرنے  پہلے قلعہ بندہوکر مقابلہ کیا ، پھر مجبور ہوکر مصالحت کرلی ، قدمر سے گزر کر حوران آئے ، یہاں سخت جنگ پیش آئی ۔ اسے فتح کرکے شام کی اسلامی مہم میں شامل ہو گئے اور متحدہ قوت سے بصری نحل اور اجنادین کے علاقوں کو فتح کرلیا اجنادین کی جنگ نہایت شدید تھی ۔ لیکن فتح  مسلمانوں کو نصیب ہوئی ۔ اس طرح جمادی الاولی ۱۲۳ھ سے اجنا دین  اسلام کے تحت آگیا ۔ (یعقوبی جلد ۲ صفحہ ۱۵۱،چشتی)

اجنادین سے بڑھ کر اسلامی فوجوں نے دمشق کا محاصرہ کیا، لیکن اس کے مفتوح ہونے سے پہلے ہی خلیفہ اول ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نے مکران اور اس کے قرب وجوار کے علاقوں کو فتح کرکے، اسلامی حکومت میں شامل کیا، حضرت علاء بن حضری زارہ پر مامور ہوئے۔ انھوں نے زارہ اور اس کے اطراف کو فتح کرکے  مال غنیمت مدینہ روانہ فرمایا حضرت ابوبکر نے اس میں سے مدینہ منورہ کے ہر خاص وعام ، مرد ، عورت و آزاد وغلام کو ایک ایک دینار تقسیم فرمایا ۔ (یعقوبی جلد ۲ صفحہ ۱۵۱)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زندگی اہم  سیاسی، سماجی وفلاحی کارناموں سے لبریز ہے۔ انھوں نے  لازوال خدمات انجام دیں جو تاریخی اوراق سے محو نہیں  ہوسکتیں ۔ خلافت کی ابتدا آپ سے ہوئی ۔ اہم امور میںکبار صحابہ سے مشورہ کرتے تھے ۔ اس کی  مثال یہ ہے کہ جب شام پر لشکر کشی کاخیال آیا تو پہلے اس کو صحابہ کے سامنے برائے مشورہ پیش کیا۔ حضرت علیؓ نے اپنی صائب رائے سے نوازا ۔ (طبقات ابن سعد جلد ۲ صفحہ ۱۰۹)

اسی طرح  منکرین زکوٰۃ کے مقابلہ میں جہاد ، حضرت عمر کی جانشینی اور دوسرے اہم معاملات میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی رائے معلوم کی ، ابن سعد کے مطابق جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہو تا تو ممتاز مہاجرین وانصار جمع کیے جاتے اور ان سے رائے لی جاتی ۔ جب کوئی امر پیش آتا تھا تو حضرت ابوبکر صدیق اہل الرائے فقہاء صحابہ سے مشورہ لیتے تھے اور مہاجرین وانصار میں چند ممتاز لوگوں یعنی عمر، عثمان، علی، عبدالرحمن بن عوف، معاذ بن جبل، ابی بن کعب اور زید کو بلاتے تھے ۔ یہ سب حضرات ابوبکر کے عہد خلافت میں فتوے بھی دیتے تھے ۔ حکومت کےلیے اہم امر ملک کاانتظام وانصرام ہوتاہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بیرونی فتوحات کی ابتداء ہوئی اس لیے حکومت کادائرہ عرب تک محدود تھا۔ آپ نے عرب کو متعدد صوبوں، ضلعوں میں منقسم کردیا تھا۔ مدینہ، مکہ، طائف، صنعاء، نجران، حضرموت اور دومۃ الجندل الگ الگ صوبے تھے ۔ (طبقات ابن سعد جلد ۲ صفحہ ۱۰۹)

ہر صوبہ میں ایک عامل ہوتا تھا جو اپنے فرائض انجام دیتا تھا ، دارالخلافہ میں الگ الگ عہدہ دار مقرر کیے جاتے تھے ۔ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ شام کی سپہ سالاری سے قبل افسرمال تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ قضاء کے عہدہ پر فائز تھے  حضرت عثمان اورحضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہما دربار خلافت میں کاتب (منشی) کے عہدہ پر متمکن رہے ۔ (تاریخ الرسول والملوک جلد ۳ صفحہ ۴۲۷،چشتی)

عاملوں اور عہدہ داروں کے انتخاب میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہمیشہ ان لوگوں کو ترجیح دی جو عہدِ رسالت میں عامل یا عہدہ دار رہ چکے تھے اور ان سے انہی مقامات میں کام لیا جہاں وہ پہلے خدمت انجام دے چکے تھے ۔ عہدِ رسالت میں مکہ میں عتاب بن اسید ، طائف میں عثمان بن ابی العاص ، صنعاء میں مہاجربن امیہ ، حضرموت پر زیاد بن لبید اور بحرین میں علاء بن الحضرمی رضی اللہ عنہم مامور تھے ۔ خلیفہ وقت نے مذکورہ مقامات پران ہی لوگوں کو برقرار رکھا یہ آپ کی سیاسی بصیرت ، اور انتظامی صلاحیت کا شاہکارہے ۔ (تاریخ الرسول والملوک جلد ۳ صفحہ ۴۲۷)

جب آپ کسی کو کوئی ذمہ داری سپرد فرماتے تواس کے فرائض کی یادہانی کراتے تھے جب عمرو بن العاص اور ولید بن عقبہ کو قبیلہ قضاعہ پر محصل صدقہ بناکر روانہ فرمایا تو نصیحت فرمائی : خلوت و جلوت میں خوف خدا رکھو، جو خدا سے ڈرتا ہے وہ اس کے لیے ایسی سبیل اور اس کے رزق کا ایسا ذریعہ پیدا کر دیتا ہے جو کسی کے گمان میں نہیں آ سکتا جو خدا سے ڈرتا ہے وہ اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے ۔ اور اس کا اجر دوبالا کر دیتا ہے ۔ بے شک بندگان خدا کی خیرخواہی بہترین تقویٰ ہے ۔ تم خدا کی ایک ایسی راہ میں ہو جس میں افراط وتفریط اور ایسی چیزوں سے غفلت کی گنجائش نہیں ہے جس میں مذہب کا استحکام اور خلافت کی حفاظت مضمر ہے اس لیے سستی اور تغافل کو راہ نہ دینا ۔ آپ نے ملکی نظم ونسق کا کام فہم وفراست سے انجام دیا ۔ خوفِ الٰہی اور رعایا کے حقوق کا خیال رکھنا ضروری ہے تبھی فلاحی ریاست کی بنیاد ڈالی جا سکتی ہے ۔

حکومت کی کامیابی کاراز حکام کی نگرانی اور احتساب میں مضمر ہے ۔ آئین و دستور کتنا ہی مرتب و منظم ہو ۔ جب تک نگرانی نہ ہو نظم درست نہیں رہتا۔ حضرت ابوبکر انتہائی نرم خو تھے مگر انتظام حکومت میں کسی مداہنت کو روانہ رکھتے تھے اگر حکام سے کوئی غیر مناسب امر سرزد ہو جاتا تو سختی کے ساتھ احتساب کرتے ۔ جنگ یمامہ میں مجاعہ حنفی مسیلمہ کا سپہ سالار تھا ۔ اس نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو دھوکہ دے کر مسیلمہ کی تمام قوم کو مسلمانوں سے بچالیا ۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اس غداری پر اسے سزا دینے کے بجائے اس کی لڑکی سے شادی کرلی ، چونکہ اس جنگ میں بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم شہید ہوئے تھے ۔ لہٰذا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ پر سخت برہم ہوئے اور لکھا : تمہارے خیمہ کی طناب کے پاس مسلمانوں کاخون بہہ رہا ہے اور تم عورتوں کے ساتھ عیش وعشرت میں مصروف ہو ۔ (مسند احمد بن حنبل)

 ایک دوسرا واقعہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ہی سے متعلق ہے ۔ مالک بن نویرہ منکر زکوٰۃ تھا اس کی تنبیہ کےلیے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ مامور تھے ۔ انہوں نے زبانی ہدایت دینے سے قبل ہی اُسے قتل کر ڈالا ۔ مالک کا بھائی شاعر تھا ۔ اس نے پُر  درد مرثیہ لکھا اور ظاہر کیا کہ وہ تائب ہونے کےلیے تیار تھا ۔ مگر خالد نے اُسے قتل کر دیا ، اس کی خبر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ہوئی تو انہوں نے خالد بن ولید کو تنبیہ کی ۔  (تاریخ یعقوبی جلد ۲ صفحہ ۱۴۸)

جب کوئی فوج کسی مہم پر روانہ ہوتی تو اس کو مختلف دستوںمیں تقسیم کرکے الگ الگ افسر مقرر فرما تے ۔ چنانچہ شام کی جانب جب فوج روانہ ہوئی اس میں اس طریقہ پر عمل کیا گیا ، قبائل کے افسر اور جھنڈ ے الگ ہوتے ۔ امیر الامراء کمانڈر انچیف کا نیا عہدہ بھی خلیفہ اول کی ایجاد ہے اور سب سے پہلے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اس عہدہ پر فائز ہوئے تھے۔ (تاریخ یعقوبی جلد ۲ صفحہ ١٤٩،چشتی)

آپ رضی اللہ عنہ جب کسی دستہ کو روانہ فرماتے تو اس کی تربیت کرتے تھے ۔ نیز فوج کی روانگی کے وقت خود دور تک پیدل جاتے اور ان کو نصیحت فرماتے تھے چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے فوجی دستہ کو نصیحتیں فرمائیں : تم ایک ایسی قوم کو پاؤگے جنھوں نے اپنے آپ کو خدا کی عبادت کےلیے وقف کر دیا ہے ، ان کو چھوڑ دینا ، میں تم کو دس باتوں کی نصیحت کرتا ہوں کسی عورت ، بچے اور بوڑھے کو قتل نہ کرنا ، پھل دار درخت کو نہ کاٹنا ، کسی آباد جگہ کو ویران نہ کرنا ، بکری اور اونٹ کھانے کے سوا ذبج نہ کرنا ، نخلستان نہ جانا ، مال غنیمت میں غبن نہ کرنا اور بزدل نہ ہونا ۔ آپ رضی اللہ عنہ فوجی چھاؤنیوں کابذات خود معائنہ کرتے تھے اور کوئی خرابی نظر آتی تو اصلاح فرماتے تھے ۔ چنانچہ ایک مرتبہ مقام جرف میں فوجیں جمع تھیں۔ حضرت ابوبکر صدیق وہاں تشریف لے گئے بنی فزارہ کے پڑاؤ میں پہنچے تو سب تعظیم میں کھڑے ہو گئے انہوں نے ہر ایک کو مرحبا کہا ان لوگوں نے عرض کیا، یا خلیفہ ہم لوگ گھوڑوں پر خوب چڑھتے تھے اس لیے گھوڑے بھی ساتھ لائے ہیں آپ جھنڈ ہمارے ساتھ کردیجیے ، فرمایا خدا تمہاری ہمت وارادہ میں برکت دے، لیکن بڑا جھنڈ تم کو نہیں مل سکتا کیوں کہ وہ بنو عبس کے حصہ میں آ چکا ہے ۔ اس پر ایک فزاری نے کھڑے ہو کر کہا ، ہم لوگ عبس سے اچھے ہیں حضرت ابوبکر نے  خاموش کر دیا اس طرح فوجی چھاؤنیوں میں جاکر قبائل کی باہمی رقابت کا ازالہ کرتے اور اسلامی رواداری کا پیغام دیتے تھے ۔ (فتوح البلدان صفحہ ۱۱۵)    

فوج کےلیے جنگی سامان کاانتظام بھی کرتے تھے ۔ مختلف ذرائع سے جو آمدنی ہوتی تھی اس کا ایک حصہ جنگی سامان کی خریداری میں صرف فرماتے ۔  (کنزل العمال جلد ۳ صفحہ ۱۳۲) 

اونٹ گھوڑوں کی پرورش کےلیے مقام بقیع ایک مخصوص چراگاہ تیار کرائی تھی جس میں ہزاروں جانور پرورش پاتے تھے ۔ مقام ربذہ میں بھی ایک چراگاہ تھی جس میں صدقہ اور زکوٰۃ کے جانور چرتے تھے ۔ یہ خلافت صدیقی رضی اللہ عنہ کا فوجی نظام تھا جہاں اخلاقی ، ایمانی تربیت کا اہتمام تھا اور حقوق انسانی کی حفاظت کی جاتی تھی ۔ (کتاب الخراج صفحہ ۱۲)

 عہدِ صدیقی رضی اللہ عنہ میں پہلے سال آپ نے ایک فرد کو دس دس درہم عطا کیے دوسرے سال جب آمدنی زیادہ ہوئی تو بیس بیس درہم مرحمت فرمائے ایک شخص نے اس مساوات پر اعتراض کیا تو فرمایا کہ فضل و برتری اور چیز ہے اس کو رزق کی کمی بیشی سے کیا تعلق ہے ۔ (کنزل العمال جلد ۳ صفحہ ۱۳۲)

لیکن اس میں کبھی کسی بڑی رقم کے جمع ہونے کا موقع نہ آیا ۔ اس لیے بیت المال کی حفاظت کا نظم نہیں کیا گیا ۔ ایک مرتبہ کسی نے کہا کہ یا خلیفہ آپ بیت المال کی حفاظت کےلیے کوئی محافظ کیوں نہیں مقرر فرماتے ؟ فرمایا اس کی حفاظت کےلیے ایک قفل کافی ہے ۔ (طبقات ابن سعد جلد ۳ صفحہ ۱۵۱)

اگر گنجائش ہوتی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مجرموں کے ساتھ ہمدردانہ برتاؤ کرتے تھے چنانچہ اشعث بن قیس جو مدعی نبوت تھا گرفتار ہوکر آیا اور توبہ کر کے جان بخشی کی درخواست کی تو آپ رضی اللہ عنہ نے نہ صرف اس کو رہا کر دیا بلکہ اپنی ہمشیرہ ام فردہ سے اس کا نکاح کر دیا ۔ (طبقات ابن سعد جلد ۳ صفحہ ۱۵۱)

خلیفہ وقت کا پہلا فرض قوم وملت کی اخلاقی نگرانی اور رعایا کے حقوق کا تحفظ ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے  حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو پہرہ دار مقرر فرمایا اور بعض جرائم کی سزائیں متعین کر دیں ۔ مثلاً حد خمر کے تعلق سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور حکمرانی میں چالیس درے متعین فرمائے ۔ (الترغیب والترہیب جلد ۳ صفحہ ۱۱۶،چشتی)

ایک مرتبہ مہاجر بن امیہ رضی اللہ عنہ نے جو یمامہ کے امیر تھے دوگانے والی عورتوں کو رسولؐ کی ہجو کرنے اور مسلمانوں کو بُرا کہنے کی سزا دی اور پاداش میں ہاتھ کاٹ دیے اور دانت اکھڑوا ڈالے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے اس سزا پر برہمی ظاہر  فرمائی اور لکھا کہ انبیاء علیہم السلام کا سب و شتم بڑا جرم ہے اور اگر تم سزا میں عجلت نہ کرتے تو میں اُن کے قتل کاحکم دیتا گالی دینے سے وہ مرتد ہو گئی البتّہ اگر ذمیہ تھی تو اس کےلیے معمولی تنبیہ اور تادیب کافی تھی ۔ یہ تمہاری پہلی خطا نہ ہوتی تو تمہیں اس کا خمیازہ اٹھانا پڑتا دیکھو مثلہ سے ہمیشہ دور رہو یہ نہایت نفرت انگیز گناہ ہے ۔ (مسند ابن حنبل جلد ۱ صفحہ ۴)

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے حدود و تعزیرات کا نفاذ کرتے ہوئے حقوق انسانی کا خیال رکھا خاص طور پر غیر مسلم رعایا کے سلسلے میں  زور دیا کہ ان کے حقوق پامال نہ ہوں ۔

آپ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں شورش اور بغاتیں وجود میں آئیں مگر ان کو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی دانش مندی سے فرو کر دیا آپ کے زمانہ میں بعض جھوٹے مدعیانِ نبوت پیدا ہو چکے تھے مسیلمہ کذاب نے تو ۱۰ھ میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لکھا تھا کہ میں آپ کے ساتھ نبوت میں شریک ہوں ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ ۹۶)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات طیبہ کے بعد دیگر مدعیانِ نبوت نے سر اٹھایا ۔ طلحہ بن خویلد نے نبوت کا اعلان کیا  اس کی حمایت پر بنو غطفان تھے ، اور عیینہ بن حصن فزاری ان کا سردار تھا ۔ اسی طرح اسود عنسی نے یمن میں اور مسلمہ بن حبیب نے یمامہ میںنبی ہونے کے دعوے کیے ۔ ایک عورت سجاع بنت حارثہ تمیمیہ نے بھی نبوت کادعویٰ کیانیز اشعث بن قیس اس کا داعی خاص تھا ۔  سجاع نے اپنی نبوت مضبوط کرنے کےلیے مسیلمہ کذاب سے شادی کرلی تھی ۔ ان اسباب کی بنیاد پر ضروری تھا کہ اس مسموم فضاکو فوری طور پر روکا جائے چنانچہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ۱۱ھ میں حضرت ثابت بن قیس انصاری کے ساتھ مہاجرین وانصار رضی اللہ عنہم کی ایک جمعیت لے کر مدعیانِ نبوت کی سرکوبی کےلیے روانہ ہوئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے جواب دیا تھا : محمد کی طرف سے مسیلمہ کذاب کو اما بعد دنیا خدا کی ہے وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے گا اس کا وارث بنائے گا اور انجام پرہیزگاروں کے لیے ہے ۔ (ابن ہشام السیرۃ النبویۃ جلد ۱ صفحہ۶۰۱)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بہت سے سردارانِ عرب مرتد ہو گئے تھے ۔ ہر ایک اپنے حلقہ کا بادشاہ بن بیٹھا تھا ۔ نعمان بن منذر نے بحرین ، لقیط بن مالک نے عمان میں علم بغاوت بلند کیا۔ اس فتنہ کا انسداد بھی ضروری تھا ۔ چنانچہ مدعیان نبوت سے فراغت کے بعد اس فتنہ کا سر کچلا گیا ۔ مذکورہ گروہوں کے علاوہ ایک اور گروہ پیدا ہوگیا تھا ۔ یہ منکرین زکوۃ تھے ۔ یہ گروہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا تھا اور صرف زکوۃ ادا کرنے سے منکر تھا اس لیے اس کے خلاف تلوار اٹھانے میں خود صحابہ میں اختلافِ رائے ہو گیا تھا ۔ مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے صاف کہا کہ قسم خدا کی اگر ایک بکری کا بچہ بھی جو رسول کے زمانے میں دیا جاتا تھا کوئی دینے سے انکار کرے گا تو میں اس سے جہاد کروں گا ۔ اس تنبیہ کا اثر یہ ہوا کہ تمام منکرین زکوۃ بارگاہ خلافت میں حاضر ہوئے ۔ (ابن ہشام السیرۃ النبویۃ جلد ۱ صفحہ ۶۰۱)

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے طلیحہ کی جمایت پر حملہ کر کے اس کے متبعین کو قتل کیا اور عیینہ بن حصن کو گرفتار تیس قیدیوں کے ساتھ مدینہ روانہ کیا اور عیینہ بن حصن نے مدینہ پہنچ کر اسلام قبول کرلیا لیکن طلیحہ شام کی طرف بھاگ گیا اور وہاں سے خود خواہی کے طور پر دو شعر لکھ کر بھیجے اور تجدید اسلام کر کے اسلام میں داخل ہو گیا ۔ (تاریخ یعقوبی جلد ۳ صفحہ ۱۲۵،چشتی)

اس طرح مسیلمہ کذاب کی بیخ کنی کےلیے حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ روانہ کیے گئے ، لیکن قبل اس کے کہ وہ حملہ کی ابتدا کریں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ان کی اعانت کےلیے روانہ کیا گیا، چنانچہ انھوں نے مجاعہ کو شکست دی اس کے بعد خود مسیلمہ سے مقابلہ ہوا مسیلمہ نے اپنے متبعین کو ساتھ لے کر نہایت شدید جنگ کی اور مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس میں شہید ہوئی جس میں بہت سارے حفاظ قرآن تھے ۔ البتہ آخری فتح مسلمانوں کے ہاتھ رہی اور مسیلمہ کذاب حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے مارا گیا ، مسیلمہ کی بیوی سجاح خود مدعی نبوت تھی بھاگ کر بصرہ پہنچی اور کچھ دنوں کے بعد مر گئی ۔ (تاریخ یعقوبی جلد ۳ صفحہ ۱۴۷)

مدعیان نبوت اور مرتدینِ اسلام کی سرکوبی میں بہت سے حفاظ کرام رضی اللہ عنہ شہید ہوئے ۔ خصوصاً یمامہ کی خوں ریز جنگ میں چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اندیشہ ہوگیا کہ اگر صحابہ رضی اللہ عنہم کی شہادت کا یہی سلسلہ قائم رہا تو قرآن مجید کی حفاظت کس طرح ہو سکے گی ۔ اس لیے انھوں نے خلیفہ اول سے ایک جلد میں قرآن کی جمع و ترتیب کی تحریک کی ۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو پہلے عذر ہوا کہ جس کام کو رسولؐ نے نہیں کیا ہے میں اس کو کس طرح کروں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یہ کام اچھا ہے چنانچہ حضرت عمرؓ کے اصرار سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ذہن میں بھی بات آگئی انھوں نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو جو عہدِ نبوت میں کاتب وحی تھے قرآن کے جمع کرنے کا حکم دیا پہلے ان کو بھی اس کام میں عذر ہوا ، لیکن اس کی مصلحت سمجھ میں آگئی ۔ اورنہایت کوشش کے ساتھ تمام متفرق اجزاء کو جمع کر کے ایک جِلد کی صورت میں مدون کیا ۔ (طبری جلد ۲ صفحہ ۳۰۶،چشتی)

اسود عنسیٰ جو  نبوت کا دعویدار تھا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اس کی قوت زیادہ بڑھ گئی تھی اس کو قیس بن مکشوح اور فیروز دیلمی نے نشہ کی حالت میں واصل جہنم کیا ۔ (طبری جلد ۲ صفحہ ۳۰۶)

 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے تقریباً پانچ سو حدیثیں جمع فرمائی تھیں لیکن وفات کے کچھ دنوں پہلے اس خیال سے ان کو ضائع کردیا کہ شاید اس میں کوئی روایت خلاف واقعہ ہو تو یہ بار میرے سر رہ جائے گا لیکن علامہ ذہبی نے اس خیال کی تغلیط کی ہے۔ البتہ انھوں نے احادیث کے متعلق نہایت احتیاط سے کام لیا ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مسائل کی تحقیق و تنقید اور عوام کی آسانی کے خیال سے افتاء کا ایک محکمہ قائم کیا ۔ حضرت عمر ، حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرف عبدالرحمن بن عوف ، حضرت معاذ بن جبل ، حضرت ابی بن کعب ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم جیسے اہم فقیہہ و مجتہد اس خدمت پر مامور تھے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسلام کی دعوت و تبلیغ پر توجہ کی اور عرب کا بیش تر علاقہ حلقہ اسلام میں داخل کر لیا  ۔ یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ قرآن شریف کی آیتیں نازل ہونے پر کاتب اُن کو ، ہڈی ، چمڑے ، پتھر  یا کسی قسم کے کاغذ پر لکھ لیتے تھے ۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت کے مطابق ترتیب دیتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الگ الگ لکھواتے جاتے غرض اس طرح آپ کے زمانہ میں سورتیں مدون و مرتب ہوچکی تھیں اور ان کے نام بھی قرار پاچکے تھے ۔ حدیثوں میں ذکر آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز میں فلاں فلاں سورتیں پڑھیں ۔ یا فلاں سورت سے فلاں تک تلاوت فرمائی ، کتب میں ہے کہ آپ نے سورہ بقرہ ، آل عمراں اور نساء پڑھی ، سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص کے ذکر سے توشاید حدیث کی کوئی کتاب خالی نہ ہو گی ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں حضرت زید رضی اللہ عنہ نے قرآن شریف کے متفرق اجزاء کو جمع کر کے ایک جِلد کی صورت میں جمع کر دیا تھا ۔ ان حضرات کے علاوہ اور کسی کو فتویٰ دینے کی اجازت نہیں تھی ۔ (طبقات ابن سعد جلد ۳ صفحہ ۲۰۹) ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔