Tuesday 16 January 2024

موجودہ کپڑے یا اونی جرابوں پر مسح کرنے کا شرعی حکم

0 comments
موجودہ کپڑے یا اونی جرابوں پر مسح کرنے کا شرعی حکم
محترم قارئینِ کرام اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں احکامِ وضوبیان فرماتے ہوئے سورۃ المائدہ میں ارشاد فرمایا : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَیْنِؕ ۔ (سورہ المائدة آیت نمبر 6)
ترجمہ : اے ایمان والو جب نماز کو کھڑے ہونا چاہو تو اپنے منہ دھوؤ اور کہنیوں تک ہاتھ اور سروں کا مسح کرو اور گٹوں تک پاؤ ں دھوؤ  ۔

اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ نماز پڑھنے سے قبل وضو کرلیا کرو جس میں چار چیزیں ضروری ہیں ، جن کے بغیر وضو ہوہی نہیں سکتا ۔ (1) پورے چہرہ کا دھونا۔ (2) دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھونا ۔ (3) سر کا مسح کرنا ۔ (4) دونوں پیر ٹخنوں سمیت دھونا ۔

اہلِ سنت و جماعت کے تمام مفسرین و محدثین و فقہاء وعلماء کرام نے اس آیت و دیگر متواتر احادیث کی روشنی میں تحریر فرمایا ہے کہ وضو میں پیروں کا دھونا ہی شرط ہے ، سر کے مسح کی طرح پیروں کا مسح کرنا کافی نہیں ہے ۔ لیکن متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مرتبہ پیر دھونے کے بجائے چمڑے کے موزوں پر مسح بھی کیا ہے ۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں وضاحت کے ساتھ پیروں کے دھونے کا ذکر آیا ہے ، میں اُس وقت تک موزوں (چمڑے کے) پر مسح کا قائل نہیں ہوا جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل متواتر احادیث سے میرے پاس نہیں پہنچ گیا ۔

خُفَّین پر مسح کرنا متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض مرتبہ پیر دھونے کے بجائے چمڑے کے موزوں پر مسح بھی کیا ہے ۔ 

حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : قرآن کریم میں وضاحت کے ساتھ پیروں کے دھونے کا ذکر آیا ہے ، میں اُس وقت تک موزوں (چمڑے کے) پر مسح کا قائل نہیں ہوا جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل متواتر احادیث سے میرے پاس نہیں پہنچ گیا ۔

غرضیکہ قرآن کریم میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ وضو کے صحیح ہونے کےلیے دونوں پیروں کا دھونا شرط ہے ۔ لیکن اگر کوئی شخص وضو کرنے کے بعد (چمڑے کے) موزے پہن لے تو مقیم ایک دن وایک رات تک اور مسافر تین دن و تین رات تک وضو میں پیروں کو دھونے کے بجائے (چمڑے کے) موزوں کے اوپری حصہ پر مسح کر سکتا ہے ۔ جیسا کہ متواتر احادیث سے ثابت ہے ۔ اگر کوئی شخص چمڑے کے بجائے سوت یا اون یا ناٸیلون کے موزے پہنے ہوئے ہے تو جمہور فقہاء وعلماء کی رائے ہے کہ ان پر مسح کرنا جائز نہیں ہے بلکہ پیروں کا دھونا ہی ضروری ہے ۔ اس مسئلہ کو سمجھنے سے قبل موزوں کے اقسام کوسمجھیں : ⏬

اگر موزے صرف چمڑے کے ہوں تو اُنہیں خُفَّین کہا جاتا ہے ۔

اگر کپڑے کے موزے کے دونوں طرف یعنی اوپر ونیچے چمڑا بھی لگا ہوا ہے تو اسے مجلدین کہتے ہیں ۔

اگر موزے کے صرف نچلے حصہ میں چمڑا لگا ہوا ہے تو اسے منعلین کہتے ہیں ۔

جورب : سوت یا اون یا ناٸیلون کے موزوں کو کہا جاتا ہے ، ان کو جراب بھی کہتے ہیں ۔

موزے کی ابتدائی تینوں قسموں پر مسح کرنا جائز ہے ، لیکن جمہور فقہاء و علماء نے احادیثِ نبویہ کی روشنی میں تحریر کیا ہے کہ جراب یعنی سوت یا اون یا نایلون کے موزوں پر مسح کرنا اسی وقت جائز ہوگا جب ان میں ثخین (یعنی موٹا ہونے) کی شرائط پائی جاتی ہوں ، یعنی وہ ایسے سخت اورموٹے کپڑوں کے بنے ہوں کہ اگر ان پر پانی ڈالا جائے تو پاؤں تک نہ پہنچے ۔ معلوم ہوا کہ سوت یا اون یا ناٸلون کے موزوں جیسا کہ موجودہ زمانے میں عموماً پائے جاتے ہیں پر مسح کرنا جائز نہیں ہے جیسا کہ شرح وقایہ جلد اول باب المسح علی الخفین میں مذکور ہے : ویمسح علی الخفین او جوربیہ الثخینین ای بحیث یستمسکان علی الساق بلا شد منعلین و مجلدین الخ ۔
ترجمہ : دونوں مسح پر یا جرابوں پر مسح کریں جو کہ موٹے ہیں اس طرح کہ باندھے بغیر پنڈلی میں لگے رہے ۔
تو اصح قول کے مطابق اس پر بھی مسح درست ہے ۔

برِصغیر کے علماء حتیٰ کہ اہل حدیث علماء نے بھی یہی تحریر فرمایا ہے کہ عام ناٸیلون کے موزوں پر جیسا کہ عموماً موجودہ زمانے میں موزے استعمال کیے جاتے ہیں مسح کرنا جائز نہیں ہے ۔ مگر کچھ لوگوں کو دیکھ کر بعض سادہ لوگوں نے بھی عام موزوں پر مسح کرنا شروع کر دیا ہے خواہ موزوں پر مسح کرنے کے مسائل سے واقف ہیں یا نہیں ۔

جرابوں پر مسح کرنے کے بارہ میں غیر مقلدین اہلحدیث حضرات کے دو نظریے ہیں : ⏬

پہلا نظریہ : پہلا نظریہ یہ ہے کہ ہر قسم کی جرابوں پر مسح جائز ہے ۔ چناچہ اس بارہ میں سوال ہوا تو جواب دیا گیا کہ : پائتا {جراب} پر مسح کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے ۔ (فتاوٰی ثنائیہ جلد 1 صفحہ 441)
غیرمقلد عالم محمد صادق سیالکوٹی جرابوں پر مسح کی بحث کر کے آخر میں لکھتے ہیں : پس ثابت ہوا کہ جورب پاؤں کے لفافے یا لباس کو کہتے ہیں وہ لباس خواہ چرمی ہو ، خواہ سوتی یا اونی وغیرہ ہم اس پر مسح کر سکتے ہیں ۔ ( صلوۃ رسول صفحہ 111)

دوسرا نظریہ : دوسرا نظریہ ہے کہ پتلی جرابوں پر مسح کرنا درست نہیں ہے چنانچہ ایک سوال کے جواب میں غیرمقلد عالم ابوالبرکات صاحب لکھتے ہیں جس کی تصدیق غیرمقلد عالم محدث گوندلوی نے کی ہے ۔ جرابوں پر مسح والی حدیث ضعیف ہے جس سے قرآن کی تخصیص درست نہیں لہٰذا ہم شرط لگاتے ہیں کہ جرابیں موٹی ہونے کی صورت میں مسح جائز ہے ۔ اگر موٹی نہیں تو پھر جائز نہیں ۔ ( فتاوی برکاتیہ صفحہ 224 )

ایک سوال کے جواب میں غیرمقلد عالم مبارکپوری صاحب لکھتے ہیں : المسح علی الجوربۃ لیس بجائز لانہ لم یقم علا جوازہ دلیل صحیح ۔ ( فتاوی ثنائیہ جلد 1 صفحہ 243}
ترجمہ : جرابوں پر مسح جائز نہیں ہے اسلئے کہ اس کے جواز پر کوئی صحیح دلیل نہیں ہے ۔

ایک سوال ہو کہ اونی جرابوں پر مسح جائز ہے یا نہیں ؟
تو جواب دیا گیا مزکورہ جرابوں پر مسح جائز نہیں ہے ۔ ( فتاوی نزیریہ جلد 1 صفحہ 337 }

محترم قارئین : فیصلہ آپ خود فرما لیں ایک صاحب فرما رہیے ہیں کہ جرابوں پر مسح جائز ہے اور دوسرے حضرت فرما رہے ہیں کہ جائز نہیں ۔

محدث کبیر امام ابن منذر حضرت حسن بصری علیہما الرّحمہ سے نقل فرماتے ہیں : حدثنی سبعون من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم انہ مسح علی الخفین (الاوسط لابن المنذر جلد 1 صفحہ 430،چشتی)
ترجمہ : حضرت حسن بصری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میں نے ستر صحابہ رضی اللہ عنہم سے سنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے موزوں پر مسح فرمایا ۔

قد صرح جمع من الحفاظ بان المسح علی الخفین متواتروجمع بعضھم رواتہ فجاوزالثمانین ومنھم العشرة ۔ (فتح الباری کتاب الوضوء، باب المسح علی الخفین،چشتی)
ترجمہ : حدیث کے حفاظ کی ایک بڑی جماعت نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ خفین پر مسح کا حکم متواتر ہے ۔ بعض حضرات نے خفین کے مسح کی روایت کرنے والے صحابہ کرامؓ کی تعداد کو جمع کیا تو ان کی تعداد 80 سے بھی زیادہ تھی ، جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل تھے ۔

حضرت ملاعلی قاری علیہ الرحمہ مشکوٰة کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں : قال الحسن البصری ادرکت سبعین نفراًمن الصحابة یرون المسح علی الخفین ولٰہذا قال ابوحنیفة ماقلت بالمسح حتیٰ جاءنی فیہ مثل ضوءالنھار ۔ (المرقاة جلد 2 صفحہ 77،چشتی)
ترجمہ : حضرت حسن بصری علیہ الرحمہ نے فرمایا میں نے ستر ایسے صحابہ رضی اللہ عنہم کو پایا جو خفین پر مسح کے قائل تھے ۔ امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ نے اسی وجہ سے فرمایا کہ میں خفین پر مسح کا اس وقت تک قائل نہ ہواجب تک میرے پاس اس کے دلائل اس حد تک واضح و روشن نہ ہوئے جس طرح دن کی روشنی ہوتی ہے ۔

موزوں پر مسح کے جواز اورعدم جواز کے اعتبار سے اصولی طورپر اس کی تین قسمیں بنتی ہیں : ⏬

حقیقی خفین : (چمڑے کے موزے ) ان پر باجماع امت مسح کرنا جائز ہے ۔

حکمی خفین : (وہ موزے جو چمڑے کے نہ ہوں لیکن موٹے ہونے کی بناء پر ان میں اوصاف چمڑے کے موزوں ہوں) ایسے موزوں پر مسح کے بارے میں فقہاءکا اختلاف ہے ، جمہور فقہاء کا فتویٰ انہی موزوں پر جواز کا ہے ۔

غیر حقیقی غیرحکمی خفین : (مروجہ اونی ، سوتی یانائیلون کی جرابیں) ایسی جرابوں کے بارے میں جمہور امت کا اتفاق ہے کہ مسح جائز نہیں ۔

ملک العلماءامام علاءالدین ابوبکر بن سعود الکاسانی الحنفی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : فان کانا رقیقن یشفان الماء لایجوز المسح علیھا باجماع ۔ (بدائع الصنائع جلد 1 صفحہ 83 کتا ب الطہارة،چشتی)
ترجمہ : اگر موزے اتنے پتلے ہوں کہ ان میں سے پانی چھن جاتا ہو تو ان پر بالاجماع مسح جائز نہیں ۔

امام ابو محمد عبداللہ بن احمد بن قدامہ المقدسی الحنبلی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ”المغنی میں مسئلہ مسح علی الجوربین“ کے تحت فرمایا ہے : لایجوز المسح علیہ الا ان یکون مما یثبت بنفسہ ویمکن متابعة المشی فیہ واما الرقیق فلیس بساتر ۔ (المغنی لابن قدامہ جلد 1 صفحہ 377 مسئلہ نمبر 85)
ترجمہ : کپڑے کے موزے پر مسح جائز نہیں ۔ ہاں اگر موزے اتنے مضبوط ہوں کہ پنڈلی پر خود سے ٹھہرے رہیں اور ان کو پہن کر مسلسل اور غیر معمولی چلنا ممکن ہو ۔ جہاں تک پتلے موزوں کا معاملہ ہے (جن میں مذکورہ شرائط نہ ہوں) تو وہ پاؤں کےلیے ساتر نہیں ۔

ہر مسئلے کی طرح غیرمقلدین نے جمہور امت کے اجماع اور تعامل سے ہٹ کر اپنا ایک نیا اور امتیازی موقف اختیار کیا ہے ۔ اور مروجہ اونی ، سوتی یا نائیلون وغیرہ کی جرابوں کو موزوں کی مماثل قرار دے کر ان پر بھی مسح کو جائز کہا ۔ (نماز نبوی صفحہ 77)

اپنے اس موقف پر چند ان ضعیف روایات کا سہارا لیا جواصول جرح وتعدیل کے اعتبار سے قابل استدلال نہیں۔

جرابوں پر مسح کے قائلین کے مستدلات اور ان کا جائزہ : ⏬

عن مغیرة بن شعبة قال توضاالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ومسح علی الجوربین والنعلین ۔ (سنن ابی داود ج1ص33باب المسح علی الجوربین)

اس حدیث کے ذیل میں غیرمقلد عالم مولوی عبدالرحمان مبارک پوری نے مختلف ائمہ کے اقوال نقل کرکے اس کو ضعیف اور ناقابل استدلال ٹھہرایا ہے۔چنانچہ لکھا ہے ۔

(1) ضعفہ کثیر من ائمة الحدیث ۔
ترجمہ : حدیث کے کافی سارے اماموں نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے ۔

(2) امام مسلم بن الحجاج علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے راوی ابوقیس اودی اور ہزیل بن شرحبیل نے حدیث کے بقیہ تمام راویوں کی مخالفت کی ہے باقی رواة نے موزوں پر مسح کو نقل کیا ہے ۔ لہٰذا ابوقیس اور ہذیل جیسے راویوں کی وجہ سے قرآن کو نہیں چھوڑا جا سکتا ۔ (تحفة الاحوذی جلد 1 صفحہ 346,347 باب ماجاءفی المسح علی الجوربین)

(3) امام بیہقی علیہ الرحمہ نے اس حدیث کو منکر کہا ہے ۔ (سنن البیہقی جلد 1 صفحہ 290 کتاب الطہارة ،باب کیف المسح علی الخفین،چشتی)

عبدالرحمن مبارکپوری غیرمقلد حدیث کے ضعف پر ائمہ جرح و تعدیل کے اقوال نقل کرنے کے بعد حدیث کے بارے میں اپنا موقف سناتے ہیں کہ ”میرے نزدیک اس حدیث کا ضعیف قرار دینا مقدم ہے امام ترمذی علیہ الرحمہ کے حسن صحیح کہنے پر ۔ (تحفة الاحوذی جلد 1 صفحہ 347)

دوسری دلیل : عن ابی موسیٰ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم توضا ومسح علی الجوربین والنعلین ۔ (ابن ماجہ جلد 1 صفحہ 186 کتاب الطہارة باب ماجاءفی المسح علی الجوربین والنعلین)

یہ حدیث بھی غیرمقلدین کےلیے حجت نہیں بنتی ۔ اس لیے کہ اس کی سند پر ائمہ جرح و تعدیل نے کافی بحث کی ہے ۔ چنانچہ حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب تہذیب التہذیب میں امام یحییٰ بن معین علیہ الرحمہ کا قول نقل کیا ہے کہ اس حدیث کا راوی عیسیٰ بن سنان ضعیف الحدیث ہے ۔ (تہذیب التہذیب جلد 8 صفحہ 212)

امام الجرح والتعدیل حافظ شمس الدین الذہبی علیہ الرحمہ اپنی کتاب میزان الاعتدال میں عیسیٰ بن سنان کے متعلق لکھتے ہیں کہ اما م احمد بن حنبل ؒ نے اس کے متعلق فرمایا کہ وہ ضعیف ہے ۔ (میزان الاعتدال جلد 5 صفحہ 376)

مشہور غیرمقلد عالم عبدالرحمن مبارکپوری نے اپنی کتاب تحفۃ الاحوذی میں اس حدیث کی سند پر کلام کرتے ہوئے امام ابوداود علیہ الرحمہ کا قول نقل کیا ہے کہ ”یہ حدیث نہ متصل ہے اور نہ قوی ہے“ ابوحازم نے حدیث کے راوی سفیان کے متعلق لکھا ہے کہ اس نے حدیث لکھی تو ہیں لیکن بطور استدلال پیش نہیں کی جاسکتیں ۔

تیسری دلیل : عن بلال ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم یمسح علی الخفین والجوربین ۔ (طبرانی جلد 1 صفحہ 350 رقم 1063)

یہ حدیث بھی بطور حجت پیش نہیں کی جا سکتی اس لیے کہ امام زیلعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند میں یزید بن زیاد ہے اور وہ ضعیف ہے ۔ (نصب الرایہ للزیلعی جلد 1 صفحہ 185,186،چشتی)
حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ یزید ضعیف تھا، آخری عمر میں اس کی حالت بدل گئی تھی اور وہ شیعہ تھا ۔ (تقریب جلد 2 صفحہ 365)

چوتھی دلیل : عن ثوبان قال بعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سریة فاصابھم البرد فامرھم ان یمسحوا علی العمائم والتساخین ۔ (ابوداود جلد 1 صفحہ 19)

اس حدیث کے بارے میں عبدالرحمن مبارک پوری لکھتاہے کہ یہ حدیث منقطع ہے ۔ امام ابن ابی حاتم کتاب المراسیل صفحہ 22 پر امام احمد کا قول نقل کرتے ہیں کہ حدیث کے راوی راشد بن سعد کا سماع ثوبان سے ثابت نہیں ۔ (تحفة الاحوذی جلد 1 صفحہ 330)

تساخین کے لغت میں تین معانی کیے گئے ہیں ۔ (1) ہانڈیاں (2) موزے (3) علماء کے سر پر ڈالنے کا کپڑا ۔ (المنجد صفحہ 474)

لہٰذا متعین طور پر اس کو صرف جرابوں پر حمل کرنا درست نہیں ۔

مسح علی الجوربین کے بارے میں غیرمقلدین اکابرین کی رائے : ⏬

غیر مقلدین کا شیخ الکل میاں نذیر حسین دہلوی لکھتا ہے : مذکورہ (اونی یا سوتی) جرابوں پر مسح جائز نہیں کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں اور مجوزین نے جن چیزوں سے استدلال کیا ہے اس میں خدشات ہیں ۔ (فتاویٰ نذیریہ از نذیرحسین دہلوی جلد 1 صفحہ 327،چشتی) ۔ دوسری جگہ لکھتا ہے : خلاصہ یہ ہے کہ (باریک )جرابوں پر مسح کے جواز پر نہ قرآن سے کوئی دلیل ہے نہ سنت صحیحہ سے نہ قیاس سے ۔

مشہور اہل حدیث عالم محمد عبد الرحمن مبارکپوری نے ترمذی کی مشہور شرح تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی میں باب ما جاء فی المسح علی الجوربین والنعلین کے تحت اس موضوع پر جو تفصیلی بحث کی ہے اس کا خلاصۂ کلام یہ ہے : جرابوں (جیسا کہ آجکل موزے استعمال ہوتے ہیں) پر مسح کی کوئی دلیل نہیں ہے ، نہ تو قرآن کریم سے نہ سنت سے نہ اجماع سے اور نہ قیاس صحیح سے ۔ (چمڑے کے) موزوں پر مسح کی بابت بہت سی احادیث منقول ہیں جن کے صحیح ہونے پر علماء کا اجماع ہے ۔ متواتر احادیث کی وجہ سے ظاہر قرآن کو چھوڑ کر ان پر بھی عمل کیا گیا ۔ جب کہ جرابوں (جیسا کہ آجکل موزے استعمال ہوتے ہیں) پر مسح کی بابت جو روایات منقول ہیں ان پر بہت زیادہ تنقیدیں ہوئی ہیں ، پس اس قسم کی ضعیف روایات کی وجہ سے ظاہر قرآن کو کیونکر چھوڑا جاسکتا ہے ۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے موزوں کی طرح کی جرابوں پر آج کل کی باریک جرابوں کو قیاس کرنا قطعاً درست نہیں ۔ ہاں اگر آج بھی موزوں کی طرح کی جرابوں کو کوئی استعمال کرتا ہے تو ان پر مسح کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ (تحفۃ الاحوذی باب ما جاء فی المسح علی الجوربین والنعلین)

غیرمقلدین کے مشہور عالم ابوسعید شرف الدین دہلوی کا جرابوں پر مسح کے بارے میں فتویٰ : پھر یہ مسئلہ (جرابوں پر مسح) نہ قرآن سے ثابت ہے نہ احادیث مرفوعہ صحیحہ سے نہ اجماع سے نہ قیاس سے نہ چند صحابہ رضی اللہ عنہم کے فعل سے اور غسل رجلین قرآن سے ثابت ہے ۔ لہٰذا خف چرمی (موزوں) کے سوا جرابوں پر مسح ثابت نہیں ۔ (زبیر علی زئی متروک مردود عند الجمہور نے اس مسئلہ پر اپنی فطرت سے مجبور ہو کر امتِ مسلمہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے جسے آئندہ شمارہ میں واضح کیا جائے گا ۔ پتہ چلا کہ مسح علی الجوربین ایسا مسئلہ ہے جس کے جواز و عدمِ جواز کے بارے میں غیرمقلدین کے خود آپس متفرق اقوال ہیں ۔ لہٰذا ان ضعیف روایات کے بل بوتے پر پوری امت سے ہٹ کر ڈیڑھ اینٹ کی علیحدہ مسجد بنانا اور جمہور امت کے تعامل کو جو کہ قرآن و سنت ، آثار صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کے عین موافق ہے ، چھوڑنا ضد اور ہٹ دھرمی کے علاوہ کچھ نہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔