حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ
محترم قارئینِ کرام : اللہ تعالیٰ نے ہندوستان میں لوگوں کی روحانی تربیت اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور تحفظ و استحکام کے لیے طریقت کے جس خاندان کو منتخب فرمایا وہ سلسلۂ چشت ہے اس سلسلہ کی نامور اور بزرگ ہستی خواجہ غریب نواز حضرت معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کو ہندوستان میں اسلامی حکومت کی بنیاد سے پہلے ہی اس بات کا غیبی طور پر اشارا مل چکا تھا کہ وہ سرزمینِ ہند کو اپنی تبلیغی و اشاعتی سرگرمیوں کا مرکز بنائیں ۔ علم ومعرفت کے تاج دار ، آفتاب شریعت و طریقت ، اقلیمِ ولایت کے نیراعظم ، قطب المشائخ ، نائب رسول فی الہند ، خواجہ غریب نواز،سلسلہ چشتیہ کے مؤسس و بانی ، سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ 14 رجب المرجب 536ھ/1141ء کو پیر کے دن قصبہ ’’سجستان‘‘ میں متولد ہوئے ۔ آپ کے والدمحترم حضرت سیدنا خواجہ غیاث الدین رحمۃ اللہ علیہ علم ظاہری وباطنی میں یکتائے روزگار ، اپنے عہدکے بہت برگزیدہ اور کامل ولی اللہ تھے ۔ جب کہ آپ کی والدۂ محترمہ حضرت بی بی ماہِ نور رحمۃ اللہ علیہا بھی اپنے وقت کی بڑی عابدہ و زاہدہ خاتون اور ولیۂِ کاملہ تھیں ۔ سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ والدکی طرف سے ’’حسینی‘‘ اور والدہ کی طرف سے ’’حسنی‘‘ سیدیعنی آپ ’’نجیب الطرفین سید‘‘ ہیں ۔ آپ کاسلسلہ نسب تیرھویں پشت میں خلیفہ چہارم اور دامادِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم امیرالمؤمنین حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے جاملتاہے۔آپ کا سلسلہ نسب حسب ذیل ہے : حضرت خواجہ سید معین الدین بن سید غیاث الدین بن سید کمال الدین بن سید احمد حسین بن سید طاہر بن سید عبد العزیزبن سید ابراہیم بن امام علی رضا بن امام مو سیٰ کا ظم بن امام جعفر بن امام محمد باقر بن علی بن امام زین العابدین بن امام حسین بن حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم ۔
علوم ظاہری وباطنی کا حصول اورشرفِ بیعت
سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے مقتدائے زمانہ ہستیوں سے علومِ دینیہ یعنی علم قرآن،علم حدیث،علم تفسیر،علم فقہ ، علم منطق اورعلم فلسفہ وغیرہ کی تعلیم حاصل کی۔آپ نے علم ظاہری کے حصول میں تقریباًچونتیس (34)برس صرف کیے ، جب کہ علوم دینیہ کے حصول سے فارغ ہونے کے بعد علمِ معرفت و سلوک کی تمنا آپ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ کُشاں کشاں لے جاتی رہی ۔ چنانچہ عراقِ عجم (ایران) میں پہنچ کرعلمِ معرفت وسلوک کی تحصیل کےلیے آپ نے مرشدِ کامل کی تلاش کی اور گوہرِ مقصود بالآخر آپ کو نیشاپور کے قصبہ ’’ہاروَن‘‘ میں مل گیا ۔ جہاں آپ حضرت خواجہ شیخ عثمان ہاروَنی رحمۃ اللہ علیہ ایسے عظیم المرتبت اورجلیل القدربزرگ کی خدمت میں حاضرہوئے اورآپ کے دست مبارک پرشرف ِبیعت سے فیض یاب ہوئے۔حضرت شیخ عثمان ہارونی علیہ الرحمۃ نے نہ صرف آپ کو دولت بیعت سے نوازا بلکہ آپ کو خرقۂ خلافت بھی عنایت فرمایا اور آپ کواپناخاص مصلّٰی(جائے نماز) ، عصا اور پاپوش مبارک بھی عنایت فرمایا ۔
بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضری
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اپنے پیرو مرشد کے ہمراہ بیس سال تک رہے اور بغداد شریف سے اپنے شیخ طریقت کے ہمراہ زیارتِ حرمین شریفین کا مبارک سفر اختیار فر ما یا ۔ چنانچہ اس مقدس سفر میں اسلامی علوم و فنون کے عظیم مراکز مثلاً بُخارا، سمر قند، بلخ، بد خشاں وغیرہ کی سیرو سیاحت کی۔ بعد ازاں مکہ مکرمہ پہنچ کر مناسکِ حج ادا کر کے حضرت خواجہ شیخ عثمان ہا روَنی رحمۃ اللہ علیہ نے حضر ت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کا ہاتھ پکڑ ا اور میزابِ رحمت کے نیچے کھڑے ہو کر با رگاہِ خدا وندی میں اپنے ہاتھ پھیلا کر یوں دُعا فر ما ئی :’’اے میرے پروردگار! میرے معین الدین حسن کو اپنی با ر گاہ میں قبول فر ما‘‘ ! اسی وقت غیب سے آوازآئی:’’معین الدین ! ہمارا دوست ہے ، ہم نے اسے قبول فر ما یا اور عزت و عظمت عطا کی ‘‘۔ یہاں سے فراغت کے بعد حضرت خواجہ عثمان ہا رونی ، خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کو لے کر مدینہ منورہ میں بار گاہِ مصطفوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پہنچے اورآپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بار گاہِ مقدسہ میں ہدیہ درودو سلام پیش کیا الصلوٰ ۃ والسلام علیکم یا سید المرسلین و خاتم النبین ۔ روضۂ اقدس سے یوں جواب عنایت ہوا وعلیکم السلام یا قطب المشائخ حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمۃ با ر گاہ ِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سلام کا جواب اورقطب المشائخ کا خطاب سن کر بہت ہی خوش ہوئے ۔
لاہور آمد اور مزارِحضرت داتاگنج رحمۃ اللہ علیہ پر حاضری
چنا نچہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمۃ سیروسیاحت کرتے کرتے مختلف شہروں سے ہو تے ہوئے اور اولیاءِ کرام کی زیا رت و صحبت کا فیض حاصل کر تے ہوئے جب لا ہور تشریف لا ئے تو یہاں حضور دا تا گنج بخش سید علی ہجویری علیہ الرحمۃ کے مزار شریف پر حاضری دی اور چالیس دن تک معتکف بھی رہے اور یہاں بے بہا انوارو تجلیات سے فیضیاب ہو ئے تو رخصت ہو تے وقت یہ شعر بہ طورِ نذرانۂ عقیدت حضور داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں پیش کیا : ⬇
گنج بخش ، فیض عالم ، مظہر نورِ خدا
ناقصاں را پیر کامل ، کا ملاں را راہنما
حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمۃ کو جو فیوض برکا ت اور انوار و تجلیات یہاں سے حاصل ہوئیں ، اس کا اظہار و اعلان اس شعر کی صورت میں کر دیا۔ اس شعر کو اتنی شہرت ہو ئی کہ اس کے بعد حضور داتا گنج بخش سید علی ہجویری علیہ الرحمۃ کو لوگوں نے ’’داتا گنج بخش‘‘ کے نام سے مو سوم اور مشہور کر دیا ۔
چشت جس کی جانب اس سلسلہ کو منسوب کیا جاتا ہے وہ خراسان میں ہرات کے قریب ایک مشہور شہر ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے کچھ نیک بندوں نے انسانوں کی روحانی تربیت اور تزکیۂ نفس کےلیے ایک بڑا مرکز قائم کیا۔ ان حضرات کے طریقۂ تبلیغ اور رشد و ہدایت نے پوری دنیا میں شہرت و مقبولیت حاصل کرلی اور اسے اس شہر چشت کی نسبت سے ’’چشتیہ‘‘ کہا جانے لگا۔ چشت موجودہ جغرافیہ کے مطابق افغانستان میں ہرات کے قریب واقع ہے ۔
سلسلۂ چشتیہ کے بانی حضرت ابو اسحاق شامی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ سب سے پہلے لفظ ’’چشتی‘‘ ان ہی کے نام کا جز بنا، لیکن حضرت خواجہ معین الدین چشتی حسن سنجری رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت نے اس سلسلہ کے پرچم تلے دعوتِ حق کا جو کام انجام دیا اور آپ کو جو شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی اس سے لفظ ’’چشتی‘‘ دنیا بھر میں بے پناہ مشہور و مقبول ہوا۔ طریقت کے دیگر سلاسل کی طرح یہ سلسلہ بھی حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ سے ملتا ہے ۔
نام و نسب : سر زمینِ ہند میں سلسلۂ چشتیہ کے بانی اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے سر خیل اور سالار حضرت خواجہ غریب نوازمعین الدین چشتی حسن سنجری اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا نام ’’معین الدین‘‘ ہے ، والدین محبت سے آپ کو’’ حسن ‘‘کہہ کر پکارتے تھے، آپ حسنی اور حسینی سید تھے ۔ آپ کا سلسلۂ نسب بارہویں پُشت میں حضرت علیِ مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے ۔
پدری سلسلۂ نسب : خواجہ معین الدین بن غیاث الدین بن کمال الدین بن احمد حسین بن نجم الدین طاہر بن عبدالعزیز بن ابراہیم بن امام علی رضا بن موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن محمد باقر بن امام علی زین العابدین بن سیدناامام حسین بن علیِ مرتضیٰ رضوان اللہ علیہم اجمعین و رحمہم اللہ تعالیٰ۔
مادری سلسلۂ نسب : بی بی ام الورع موسوم بہ بی بی ماہ نور بنت سید داود بن سید عبداللہ حنبلی بن سید یحییٰ زاہد بن سید محمد روحی بن سید داود بن سید موسیٰ ثانی بن سید عبداللہ ثانی بن سید موسیٰ اخوند بن سید عبداللہ بن سید حسن مثنیٰ بن سیدنا امام حسن بن سیدنا علیِ مرتضیٰ رضوان اللہ علیہم اجمعین و ررحمہم اللہ تعالیٰ۔
ولادت اور مقامِ ولات : حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ِ باسعات ۵۳۷ ہجری بہ مطابق ۱۱۴۲ عیسوی کو سجستان جسے ’’سیستان‘‘ بھی کہا جاتا ہے ، کے قصبۂ سنجر میں ہوئی۔ اسی لیے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کوحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سنجری بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کی ولادت پوری دنیا کے لیے باعثِ رحمت اور سعادت بنی۔ آپ نے اس دنیا میں عرفانِ خداوندی، خشیتِ ربانی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا چرچا کیا اور کفر و شرک کی گھٹا ٹوپ کو اسلام و ایمان کی روشنی سے جگمگا دیا۔ آپ کی والدہ ماجدہ بیان کرتی ہیں :’’جب معین الدین میرے شکم (پیٹ) میں تھے تو میںاچھے خواب دیکھا کرتی تھی گھر میں خیر و برکت تھی ، دشمن دوست بن گئے تھے۔ ولادت کے وقت سارا مکان انوارِالٰہی سے روشن تھا۔ ‘‘ ( مرأۃ الاسرار)
بچپن : آپ کی پرورش اور تعلیم و تربیت خراسان میں ہوئی ، ابتدائی تعلیم والدِ گرامی کے زیرِ سایا ہوئی جو بہت بڑے عالم تھے۔ نو برس کی عمر میں قرآن شریف حفظ کرلیا پھر ایک مدرسہ میں داخل ہوکر تفسیر و حدیث اور فقہ (اسلامی قانون) کی تعلیم حاصل کی، خداداد ذہانت و ذکاوت، بلا کی قوتِ یادداشت اور غیر معمولی فہم وفراست کی وجہ انتہائی کم مدت میں بہت زیادہ علم حاصل کرلیا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ گیارہ برس کی عمر تک نہایت ناز و نعم اور لاڈ پیار میں پروان چرھتے رہے۔ جب حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی عمر پندرہ سال کی ہوئی تو آپ کے والد حضرت غیاث الدین حسن صاحب علیہ الرحمہ کا سایۂ شفقت و محبت سر سے اُٹھ گیا لیکن باہمت والدۂ ماجدہ بی بی ماہ نور نے آپ کو باپ کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا۔ والدِ گرامی کے اس دارِ فانی سے کوچ کرنے کے بعد ترکہ میں ایک باغ اور ایک پن چکی ملی۔ جوانی کے عالم میں اسی ترکہ کو اپنے لیے ذریعۂ معاش بنایا خود ہی باغ کی دیکھ بھال کرتے اور اس کے درختوں کو پانی دیتے اور باغ کی صفائی ستھرائی کا بھی خود ہی خیال رکھتے۔ اسی طرح پن چکی کا سارا نظام بھی خود سنبھالتے ، جس سے زندگی بڑی آسودہ اور خوش حال بسر ہورہی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو انسانوں کی تعلیم و تربیت اور کائنات کے گلشن کی اصلاح و تذکیر کے لیے منتخب فرمالیا تھا۔ لہٰذا آپ کی زندگی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس سے آپ نے دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور طریقت و سلوک کے مراتب طَے کرتے ہوئے وہ مقامِ بلند حاصل کیا کہ آج بھی آپ کی روحانیت کو ایک جہان تسلیم کررہا ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کا وہ واقعہ ذیل میں ملاحظہ فرمائیے جس نے آپ کی دنیا بدل دی ۔
مجذوبِ وقت ابراہیم قندوزی کی آمد اور حضرت خواجہ کا ترکِ دنیا کرنا
ایک دن ترکے میں ملے ہوئے باغ میں آپ درختوں کو پانی دے رہے تھے کہ اس بستی کے ایک مجذوب ابراہیم قندوزی اشارۂ غیبی پر باغ میں تشریف لائے۔ جب حضرت خواجہ کی نظر اِس صاحبِ باطن مجذوب پر پڑی تو ادب و احترام کے ساتھ ان کے قریب گئے اور ایک سایا دار درخت کے نیچے آپ کو بٹھا دیا اور تازہ انگور کا ایک خوشہ سامنے لاکر رکھ دیا ، خود دوزانو ہوکر بیٹھ گئے۔ حضرت ابراہیم قندوزی نے انگور کھائے اور خوش ہوکر بغل سے روٹی کا ایک ٹکڑا نکالا اور اپنے منہ میں ڈالا دانتوں سے چبا کر حضرت خواجہ غریب نواز کے منہ میں ڈال دیا اس طرح حق و صداقت اور عرفانِ خداوندی کے طالبِ حقیقی کو ان لذّتوں سے فیض یاب کردیا۔ روٹی کا حلق میں اترنا تھا کہ دل کی دنیا بدل گئی۔ روح کی گہرائیوں میں انورِ الٰہی کی روشنی پھوٹ پڑی ، جتنے بھی شکوک و شبہات تھے سب کے سب اک آن میں ختم ہوگئے ،دنیا سے نفرت اور بے زاری پیدا ہوگئی اور آپ نے دنیاوی محبت کے سارے امور سے کنارہ کشی اختیار کرلی، باغ، پن چکی اور دوسرے ساز و سامان کو بیچ ڈالا، ساری قیمت فقیروں اور مسکینوں میں بانٹ دی اور طالبِ حق بن کر وطن کو چھوڑ دیا اور سیر و سیاحت شروع کر دی ۔
علمِ شریعت کا حصول : زمانۂ قدیم سے یہ دستور چلا آرہا ہے کہ علمِ طریقت کی تحصیل کے خواہش مند پہلے علمِ شریعت کو حاصل کرکے اس میں کمال پیداکرتے ہوئے عمل کی دشوار گزار وادی میں دیوانہ وار اور مستانہ وار چلتے رہتے ہیں اور بعد میں علمِ طریقت کا حصول کرتے ہیں۔ چناں چہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی طریقۂ کار کو اپنایا اور وطن سے نکل کر سمرقند و بخارا کا رخ کیا جو کہ اس وقت پورے عالمِ اسلام میں علم و فن کے مراکز کے طور پر جانے جاتے تھے جہاں بڑی بڑی علمی ودینی درس گاہیں تھیں جن میں اپنے زمانے کے ممتاز اور جید اساتذۂ کرام درس و تدریس کے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔ ان درس گاہوں میں دنیا بھر سے علمِ دین کی طلب رکھنے والے افراد کھنچ کھنچ کر آتے اور اپنی تشنگی کو بجھاتے تھے۔ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ بھی یہاں آکر پورے ذوق و شوق اور لگن کے ساتھ طلبِ علم میں مصروف ہوگئے۔ تفسیر، حدیث، فقہ، کلام اور دیگر ضروری علوم کا درس لیا اور کامل مہارت حاصل کرلی ، آپ کے اساتذہ میں نمایاں طور پر مولانا حسام الدین بخاری اور مولانا شرف الدین صاحب شرع الاسلام کے نام لیے جاتے ہیں ۔ (چشتی)
پیرِ کامل کی تلاش : سمر قند اور بخارا کی ممتاز درس گاہوں میں جید اساتذۂ کرام کے زیرِسایا رہ کر حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے علومِ شریعت کی تکمیل کرنے کے بعد روحانی علوم کی تحصیل کے لیے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ اس زمانے میں علمِ طریقت کے مراکز کے طور پر پوری دنیاے اسلام میں عراق و حجازِ مقدس مشہور و معروف تھے، جہاں صالحین اور صوفیاے کاملین کی ایک کثیر تعداد بادۂ وحدت اور روحانیت و معرفت کے پیاسوں کی سیرابی کا کام کررہی تھی۔ حضرت خواجہ غریب نوازرحمۃ اللہ علیہ کائناتِ ارضی میں اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی مختلف اشیا کا مشاہدہ و تفکراور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں اولیا و علما اور صلحا و صوفیہ کی زیارت کرتے ہوئے بغداد، مکہ اورمدینہ کی سیر و سیاحت اور زیارت کی سعادتیں حاصل کیں۔ پھر پیرِ کامل کی تلاش و جستجو میں مشرق کی سمت کا رُخ کیا اورعلاقۂ نیشاپور کے قصبۂ ہارون پہنچے جہاں ہادیِ طریقت حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں روحانی وعرفانی مجلسیں آراستہ ہوتی تھیں۔ خانقاہِ عثمانی میں پہنچ کر حضرت خواجہ غریب نوا رحمۃ اللہ علیہ کو منزلِ مقصود حاصل ہوگئی اور آپ مرشدِ کامل حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوگئے اور ان کے مبارک ہاتھوں پر بیعت کی ۔
حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی بیعت کے واقعہ کو اس طرح بیان کیا ہے : ایسی صحبت میں جس میں بڑے بڑے معظم و محترم مشائخِ کبار جمع تھے میں ادب سے حاضر ہو ا اور روے نیاز زمین پر رکھ دیا ، حضرت مرشد نے فرمایا: دورکعت نماز ادا کر ، میں نے فوراً تکمیل کی۔ رو بہ قبلہ بیٹھ ، میں ادب سے قبلہ کی طرف منہ کرکے بیٹھ گیا، پھر ارشاد ہوا سورۂ بقرہ پڑھ ، میں نے خلوص و عقیدت سے پوری سورت پڑھی ، تب فرمایا : ساٹھ بار کلمۂ سبحان اللہ کہو، میں نے اس کی بھی تعمیل کی ، ان مدارج کے بعد حضرت مرشد قبلہ خود کھڑے ہوئے اور میرا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں لیا آسمان کی طرف نظر اٹھا کے دیکھا اور فرمایا میں نے تجھے خدا تک پہنچا دیا ان جملہ امور کے بعد حضرت مرشد قبلہ نے ایک خاص وضع کی ترکی ٹوپی جو کلاہِ چارتَرکی کہلاتی ہے میرے سر پر رکھی ، اپنی خاص کملی مجھے اوڑھائی اور فرمایا بیٹھ میں فوراً بیٹھ گیا ، اب ارشاد ہوا ہزار بار سورۂ اخلاص پڑھ میں اس کو بھی ختم کرچکا تو فرمایا ہمارے مشائخ کے طبقات میں بس یہی ایک شب و روز کا مجاہدہ ہے لہٰذا جا اور کامل ایک شب و روز کا مجاہدہ کر، اس حکم کے بہ موجب میں نے پورا دن اور رات عبادتِ الٰہی اور نماز و طاعت میں بسر کی دوسرے دن حاضر ہوکے ، روے نیاز زمین پر رکھا تو ارشاد ہوا بیٹھ جا، میں بیٹھ گیا، پھر ارشاد ہو ا اوپر دیکھ میں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو دریافت فرمایا کہاں تک دیکھتا ہے ، عرض کیا عرشِ معلا تک ، تب ارشاد ہوا نیچے دیکھ میں نے آنکھیں زمین کی طرف پھیری تو پھر وہی سوال کیا کہاں تک دیکھتا ہے عرض کیا تحت الثریٰ تک حکم ہوا پھر ہزار بار سورۂ اخلاص پڑھ اور جب اس حکم کی بھی تعمیل ہو چکی تو ارشاد ہو اکہ آسمان کی طرف دیکھ اور بتا کہاں تک دیکھتا ہے میں نے دیکھ کر عرض کیا حجابِ عظمت تک ، اب فرمایا آنکھیں بند کر ، میں نے بند کرلی ، ارشاد فرمایا ا ب کھول دے میں نے کھل دی تب حضرت نے اپنی دونوں انگلیاں میری نظر کے سامنے کی اور پوچھا کیا دیکھتا ہے ؟ عرض کیا اٹھارہ ہزار عالم دیکھ رہا ہوں ، جب میری زبان سے یہ کلمہ سنا تو ارشاد فرمایا بس تیرا کام پورا ہوگیا پھر ایک اینٹ کی طرف دیکھ کر فرمایا اسے اٹھا میں نے اٹھایا تو اس کے نیچے سے کچھ دینار نکلے ، فرمایا انھیں لے جاکے درویشوں میں خیرات کر۔ چناں چہ میں نے ایسا ہی کیا ۔ (انیس الارواح ، ملفوظاتِ خواجہ ، صفحہ ۱/ ۲،چشتی)
حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی خلافت و جانشینی
جب حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو آپ کے پیر ومرشد نے ولایت اور روحانیت کے تمام علوم و فنون سے آراستہ کرکے مرتبۂ قطبیت پر فائز کر دیا تو بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی حج کے بعد حضرت خواجہ کو قبولیت کی سند مل گئی۔ اس واقعہ کے بعد پیرو مرشد نے فرمایا کہ اب کام مکمل ہوگیا ، چناں چہ اس کے بعد بغداد میں ۵۸۲ھ / ۱۱۸۶ء کو حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو اپنا نائب اور جانشین بنا دیا۔ اس ضمن میں خود حضرت مرشدِ کامل نے یوں اظہارِ خیال فرمایا ہے : معین الدین محبوبِ خدا ہے اور مجھے اس کی خلافت پر ناز ہے ۔
حضرت خواجہ کی سیر و سیاحت اور ہندوستان کی بشارت
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کو پیر ومرشد نے اپنی خلافت و اجازت سے نواز کر رخصت کیا۔ آپ نے مرشدِ کامل سے فیض حاصل کر کے اللہ جل شانہ کی کائنات کا مشاہدہ اور اہل اللہ کی زیارت اور ملاقات کی غرض سے سیر وسیاحت کا آغاز کیا۔ سفر کے دوران آپ نے اپنے پیرومرشد کی ہدایت پر مکمل طور پر عمل کیا۔ چوں کہ حضرت خواجہ نے اپنی یہ سیاحت علومِ باطنی وظاہری کی مزید تحصیل کی غرض سے اختیار کی اس لیے وہ وہیں جاتے جہاں علما و صلحا اور صوفیہ و مشائخ رہتے۔ سنجان میں آپ نے حضرت شیخ نجم الدین کبرا رحمۃ اللہ علیہ اور جیلان میں بڑے پیرحضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ اور بغداد میں حضرت شیخ ضیاء الدین کی زیارت کی اور ان سے معرفت و ولایت کے علوم و فنون حاصل کیے ۔ (چشتی)
بغداد کے بعد حضرت خواجہ اصفہان پہنچے تو یہاں حضرت شیخ محمود اصفہانی سے ملاقات فرمائی حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ان دنوں اصفہان میں موجود تھے۔ جب آپ نے حضرت خواجہ کے چہرۂ زیبا کی زیارت کی تو بہت متاثر ہوئے دل کی دنیا بدل گئی اور آپ پر نثار ہوکر مریدوں میں شامل ہوگئے اور حضرت خواجہ کی اتنی خدمت کی کہ بعد میں وہی آپ کے جانشین ہوئے۔ اصفہان سے حضرت خواجہ ۵۸۳ھ / ۱۱۸۷ء میں مکۂ مکرمہ پہنچے اور زیارت و طوافِ خانۂ کعبہ سے سرفراز ہوئے۔ ایک روز حرم شریف کے اندر ذکرِ الٰہی میں مصروف تھے کہ غیب سے آپ نے ایک آواز سنی کہ : اے معین الدین ! ہم تجھ سے خوش ہیں تجھے بخش دیا جو کچھ چاہے مانگ ، تاکہ عطا کروں۔ ‘ حضرت خواجہ صاحب نے جب یہ ندا سنی تو بے حد خوش ہوئے اور بارگاہِ الٰہی میں سجدۂ شکر بجالایااور عاجزی سے عرض کیا کہ ، خداوندا! معین الدین کے مریدوں کو بخش دے۔ آواز آئی کہ اے معین الدین تو ہماری مِلک ہے جو تیرے مرید اور تیرے سلسلہ میں مرید ہوں گے انھیں بخش دوں گا ۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے مزید کچھ دن مکہ میں قیام کیا اور حج کے بعد مدینۂ منورہ کے لیے روانہ ہوئے۔ مدینۂ منورہ میں حضرت خواجہ ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مزارِ پاک کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ یہاں آپ اپنے روز و شب عبادت و ریاضت ، ذکرِ الٰہی اور درود وسلام میں بسر کرتے ، ایک دن بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کو ہندوستان کی ولایت و قطبیت کی بشارت اس طرح حاصل ہوئی کہ : اے معین الدین تو میرے دین کا معین ہے میں نے تجھے ہندوستان کی ولایت عطا کی وہاں کفر کی ظلمت پھیلی ہوئی ہے تو اجمیر جا تیرے وجود سے کفر کا اندھیرا دور ہوگا اور اسلام کا نور ہر سو پھیلے گا ۔ ( سیر الاقطاب صفحہ ۱۲۴،چشتی)
جب حضرت خواجہ نے یہ ایمان افروز بشارت سنی تو آپ پر وجد و سرور طاری ہوگیا۔ آپ کی خوشی و مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے جب مقبولیت اور ہندوستان کی خوش خبری حاصل کرلی تو تھوڑا حیرا ن ہوئے کہ اجمیر کہاں ہے؟ یہی سوچتے ہوئے آپ کو نیند آگئی ، خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہوئے ہیں۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو خواب کی حالت میں ایک ہی نظر میں مشرق سے مغرب تک سارے عالم کو دکھا دیا، دنیا کے تمام شہر اور قصبے آپ کی نظروں میں تھے یہاں تک کہ آپ نے اجمیر ، اجمیر کا قلعہ اور پہاڑیاں بھی دیکھ لیں۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خواجہ کو ایک انار عطا کرکے ارشاد فرمایا کہ ہم تجھ کو خدا کے سپرد کرتے ہیں ۔ (مونس الارواح صفحہ ۳۰)
نیند سے بیدار ہونے کے بعد آپ نے چالیس اولیا کے ہمراہ ہندوستان (اجمیر ) کا قصد کیا
حضر ت خواجہ کی اجمیر میں آمد : حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کس سن میں اجمیر تشریف لائے اس سلسلے میں آپ کے تذکرہ نگاروں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ ویسے زیادہ تر اس بات پر متفق ہیں کہ آپ ۵۸۷ھ / ۱۱۹۱ء کو اجمیر شہر پہنچے۔ جہاں پہلے ہی دن سے آپ نے اپنی مؤثر تبلیغ ،حُسنِ اَخلاق، اعلا سیرت و کردار اور باطل شکن کرامتوں سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ اہلِ اجمیر نے جب اس بوریہ نشین فقیر کی روحانی عظمتوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تو جوق در جوق مسلمان ہونے لگے۔ اس طرح رفتہ رفتہ اجمیر جو کبھی کفر و شرک اور بت پرستی کا مرکز تھا ، اسلام و ایمان کا گہوارہ بن گیا۔
حضرت خواجہ کا وصالِ پُر ملال : عطاے رسول حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیر ی رحمۃ اللہ علیہ نے تبلیغِ اسلام اور دعوتِ حق کے لیے ہندوستان کی سرزمین پر تقریباً ۴۵ سال گذارے۔ آپ کی کوششوں سے ہندوستان میں جہاں کفر و شرک اور بت پرستی میں مصروف لوگ مسلمان ہوتے گئے وہیں ایک مستحکم اور مضبوط اسلامی حکومت کی بنیاد بھی پڑ گئی۔ تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے کہ حضرت خواجہ کی روحانی کوششوں سے تقریباً نوے لاکھ لوگوں نے کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کیا۔ جو کہ ایک طرح کا ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے۔ اخیر عمر میں حضرت خواجہ کو محبوبِ حقیقی جل شانہ سے ملاقات کا شوق و ذوق بے حد زیادہ ہوگیا اور آپ یادِ الٰہی اور ذکرِ و فکر الٰہی میں اپنے زیادہ تر اوقات بسر کرنے لگے۔ آخری ایام میں ایک مجلس میں جب کہ اہل اللہ کا مجمع تھا آپ نے ارشاد فرمایا:’’اللہ والے سورج کی طرح ہیں ان کا نور تمام کائنات پر نظر رکھتا ہے اور انھیںکی ضیا پاشیوں سے ہستی کا ذرّہ ذرّہ جگمگا رہا ہے۔۔۔ اس سرزمین میں مجھے جو پہنچایا گیا ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ یہیں میری قبر بنے گی چند روز اور باقی ہیں پھر سفر درپیش ہے ۔ (دلیل العارفین صفحہ ۵۸،چشتی)
عطاے رسول سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ نے جس روز اس دارِ فانی سے دارِ بقا کی طر ف سفر اختیار فرمایا وہ ۶ رجب المرجب ۶۳۳ھ بہ مطابق ۱۶ مارچ ۱۲۳۶ء بروز پیر کی رات تھی۔ عشا کی نماز کے بعد آپ اپنے حجرہ میں تشریف لے گئے اور خادموں کو ہدایت فرمائی کہ کوئی یہاں نہ آئے۔ جو خادم دروازہ پر موجود تھے ساری رات وجد کے عالم میں پیر پٹکنے کی آواز سنتے رہے۔ رات کے آخری پہر میں یہ آواز آنا بند ہوگئی۔ صبح صادق کے وقت جب نمازِ فجر کے لیے دستک دی گئی تو دروازہ نہ کھلا چناں چہ جب خادموں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اپنے مالکِ حقیقی کے وصال کی لذت سے ہم کنار ہوچکے ہیں۔ اور آپ کی پیشانی پر یہ غیبی عبارت لکھی ہوئی ہے : ہٰذا حبیبُ اللہ ماتَ فِی حُب اللہ ۔
آپ کے صاحب زادے حضرت خواجہ فخر الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور آپ کا جسمِ مبارک اسی حجرے میں دفن کیا گیا جہاں آپ کی قیام گاہ تھی ۔
ازواج و اولاد : پہلی شادی: حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃاللہ علیہ کو دین کی تبلیغ و اشاعت کی مصروفیت کی بنا پر ازدواجی زندگی کے لیے وقت نہ مل سکا ایک مرتبہ آپ کو خواب میں سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ آپ نے فرمایا:’’ اے معین الدین! توہمارے دین کا معین ہے پھر بھی تو ہماری سنتوں سے ایک سنت چھوڑ رہا ہے۔ ‘‘ بیدار ہونے کے بعد آپ کو فکر دامن گیر ہوئی۔ اور آپ نے ۵۹۰ھ / ۱۱۹۴ء میں بی بی امۃ اللہ سے پہلا نکاح فرمایا ۔
دوسری شادی : ۶۲۰ھ / ۱۲۲۳ء کو سید وجیہ الدین مشہدی کی دخترِ نیک اختر بی بی عصمۃ اللہ سے دوسرا نکاح فرمایا ۔
اولاد و امجاد : حضرت خواجہ صاحب کی اولاد میں تین لڑکے: (۱) خواجہ فخر الدین چشتی اجمیری (وفات ۵ شعبان المعظم ۶۶۱ھ) (۲) خواجہ ضیاء الدین ابو سعید (۳) خواجہ حسام الدین ، جو بچپن میں ابدالوں کے زمرے میں شامل ہوکر غائب ہو گئے ۔ اور ایک دختر حافظہ بی بی جمال تھیں ۔ (ماخذ : حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمة الله عليه)۔(مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی انقلاب آفرین شخصیت ہندوستان کی تاریخ میں ایک نہایت ہی زریں با ب کی حیثیت رکھتی ہے ۔ آپ کے اس دور میں جہاں ایک طرف آپ کی توجہ اور تبلیغی مسا عی سے ظلمت کدہ ہند میں شمعِ اسلام کی روشنی پھیل رہی تھی ، دلوں کی تاریکیاں ایمان و یقین کی روشنی میں تبدیل ہو رہی تھیں ، لو گ جو ق در جوق حلقہ اسلام میں داخل ہو رہے تھے۔ تودوسری طرف ہندوستان میں مسلمانوں کا سیاسی غلبہ بھی بڑھ رہا تھا ۔ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدت مندوں اور مریدوں میں شامل سلطان شہاب الدین غوری اوراُن کے بعدسلطان قطب الدین ایبک اور سلطان شمس الدین التمش ایسے با لغ نظر ، بلند ہمت اور عادل حکمران سیاسی اقتدار کو مستحکم کر رہے تھے ۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے تبلیغ اسلام ، احیائے دین و ملت ، نفاذِ شریعت اور تزکیۂ قلوب واذہان کا اہم ترین فریضہ جس موثر اور دل نشین انداز میں انجام دیا ، وہ اسلامی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے ۔ آپ کی تشریف آوری کے بعد تو اس ملک کی کا یا ہی پلٹ گئی ۔ لا کھوں غیر مسلم آپ کے دست مبارک پر اسلام لائے ۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی حیاتِ مبارکہ قرآن و سنت کا قابل رشک نمونہ تھی ۔ آپ کی تمام زندگی تبلیغ اسلام ، عبادت و ریاضت اور سادگی و قناعت سے عبارت تھی ۔ آپ ہمیشہ دن کو روزہ رکھتے اور رات کو قیام میں گزارتے تھے ۔ آپ مکارمِ اخلاق اور محاسن اخلاق کے عظیم پیکر اور اخلاقِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مکمل نمونہ تھے ۔
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ غرباء اور مساکین کےلیے سرا پا ر حمت و شفقت کا مجسمہ تھے اور غریبوں سے بے مثال محبت و شفقت کی وجہ سے دنیا آپ کو ’’غریب نواز‘‘ کے عظیم لقب سے یا د کر تی ہے ۔ دنیا سے بے رغبتی اور زہد و قناعت کا یہ عالم تھا کہ آپ کی خدمت عالیہ میں جو نذرانے پیش کیے جا تے وہ آپ اسی وقت فقراء اور غرباء میں تقسیم فر ما دیتے تھے ۔ سخاوت و غریب نوازی کا یہ حال تھا کہ کبھی کوئی سائل آپ کے در سے خالی ہا تھ نہ جا تا تھا ۔ آپ بڑے حلیم و بر د بار ، منکسر المزاج اور بڑے متواضع تھے ۔
آپ کے پیش نظر زندگی کا اصل مقصد تبلیغ اسلام اور خدمت خلق تھا ۔ آپ کے بعض ملفوظاتِ عالیہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ بڑے صاحب دل ، وسیع المشرب اور نہایت دردمند انسان تھے ۔ آپ عمیق جذبہ انسانیت کے علمبردار تھے ۔ آپ اپنے مریدین ، معتقدین اور متوسلین کو یہ تعلیم دیتے تھے کہ وہ اپنے اندر دریا کی مانند سخاوت و فیاضی ، سورج ایسی گرم جوشی و شفقت اور زمین ایسی مہمان نوازی اور تواضع پیدا کیا کریں ۔
اسی طرح آپ فرماتے ہیں کہ : جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو اپنا دوست بناتا ہے تو اس کو اپنی محبت عطا فرماتا ہے اور وہ بندہ اپنے آپ کو ہمہ تن اور ہمہ وقت اس کی رضا وخوشنودی کے لیے وقف کر دیتا ہے تو خداوند قدوس اس کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے ، تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا مظہر بن جائے ۔(چشتی)
اسلام کی تبلیغ و اشاعت
سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ جب علم و عرفاں اور معرفت و سلوک کے منازل طے کر چکے اور اپنے شیخ طریقت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمۃ کے علمی وروحانی فیضان سے فیض یاب ہوئے تو پھر اپنے وطن واپس تشریف لے گئے ۔ وطن میں قیام کیے ابھی تھوڑی ہی مدت ہوئی تھی کہ آپ کے دل میں بیت اللہ اورروضہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کےلیے تڑپ پیدا ہوئی ۔ چنانچہ اسی وقت آپ اس مقدس سفر کےلیے چل پڑے ۔ حرمین طیبین پہنچنے کے بعد اپنے دل کی مرداپائی اور قلب کوتسکین حاصل ہوئی ۔ حضور سیدِ کُل عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے روضہ اقدس کے پاس کئی دنوں تک عبادت و ریاضت اور ذکر و فکر میں مشغول رہے ۔ ایک دن اسی طرح عبادت اور ذکر و فکر میں مستغرق تھے کہ روضہ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یہ سعادت افروز آوازآئی : اے معین الدین ! تو ہمارے دین کامعین و مددگار ہے ، ہم نے تمہیں ہندوستان کی ولایت پر فائز کیا ہے ، لہٰذا اجمیر جا کر اپنا قیام کرو کیوں کہ وہاں کفر و شرک اور گمراہی و ضلالت کی تاریکیاں پھیلی ہوئی ہیں اور تمہارے وہاں ٹھہرنے سے کفر و شرک کا اندھیرا دور ہوگا اور اسلام و ہدایت کے سورج کی روشنی چہار سو پھیلے گی ۔ ابھی آپ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ ہندوستان میں اجمیر کس جگہ پر ہے کہ اچانک اونگھ آگئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت سے شرف یا ب ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق تا مغرب اور شمال تا جنوب تمام ہندوستان کی سیر کر ادی اور اجمیر کا پہاڑ بھی دکھا دیا ۔
اجمیر شریف علم و عرفان کا مرکز
اجمیرشریف وسطیٰ ہند کا ایک مشہور شہر ہے ۔ جس طرح یہ شہر مرکزِ سلطنت بننے کےلیے موزوں تھا ، اسی طرح یہ شہرتوحید و رسالت کے انوار و تجلیات اور علم و عرفاں کا روحانی مرکز و منبع بننے کےلیے بھی بے حد مناسب تھا ۔ حضرتِ والا نے ایک مناسب جگہ منتخب کر کے اس کو اپنا مسکن بنالیا اور ذکر و فکر اور یادِ خداوندی میں مشغول ہو گئے ۔ لوگوں نے جب آپ کے سیرت و کردار ، علم و فضل اور ذکر و فکر کے انداز و اطور کو دیکھا تو وہ خود بخود آپ کی طرف متوجہ ہوتے گئے ۔ چنانچہ اجمیر کا جوبھی آدمی ایک مرتبہ آپ کی خدمت ِعالی میں حاضر ہو جاتا وہ اسی وقت آپ کا مرید و معتقد اور گرویدہ ہو جاتا ۔ تھوڑے ہی عرصہ میں ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں نے آپ کی صحبت کیمیا اثر اور آپ کے عظیم اخلاق و کردار کے باعث اسلام قبول کیا ۔ چنانچہ ایک مشہور روایت کے مطابق تقریباً نوے لاکھ (90لاکھ) غیر مسلم اسلام کی دولت سے فیض یاب ہو کر مسلمان ہوئے ۔
ہندوستان میں اسلام کی روشن کرنیں
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے مقام و منصب کا اندازہ اس بات سے بہ خوبی لگا یا جا سکتا ہے کہ آپ کو با رگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ’’قطب المشائخ‘‘ کا لقب عطا ہوا ۔ آپ نے دینِ حق کی تبلیغ کا مقدس فریضہ نہایت شاندار طریقے سے سر انجام دیا ۔ آج ہندوستان کا گوشہ گوشہ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے فیوض و برکات سے ما لامال ہے ۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مریدین و معتقدین کو اشاعت اسلام اور رشد و ہدایت کی مشعل روشن کر نے کےلیے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں روانہ کیا تا کہ ہندوستان کا گوشہ گوشہ اسلام کی ضیاء پا شیوں سے روشن و تاباں ہو جائے ۔ آپ نے اپنے عظیم کر دار اور اچھے اخلاق سے بہت جلد غیر مسلموں کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور وہ فوج در فوج اسلام قبول کر نے لگے اور یوں انتہائی قلیل مدت میں اجمیر شریف اسلامی آبادی کا عظیم مر کز بن گیا اور آپ کے حسنِ اخلاق سے آپ کی غریب نو ازی کا ڈنکا چہار دا نگِ عالم بجنے لگا ۔ یہ تھا ایمان و یقین اور علم و عمل کا وہ کرشمہ اور کرامت جو ایک مر دِ مو من نے سر زمینِ ہند پر دکھائی اور جس کی بدولت اس ملک میں جہاں پہلے ’’نا قوس ‘‘ بجا کر تے تھے ، اب وہاں جگہ جگہ ’’صدائے اللہ اکبر‘‘ گونجنے لگی ۔ (چشتی)
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اثر آفرین جد و جہد سے اس وسیع و عریض ملک کے باشندوں کو کفر و شرک اور گمراہی و ضلالت کے زنداں سے آزاد فر ما یا ۔ تبلیغ دین حق کےلیے آپ سراپا عمل بن کر میں میدان میں آئے اور محکم استقامت کا بے نظیر ثبوت دیا اور لو گوں کو اسلام ، حق و صداقت اور علم و عمل کی دعوت دی ، لا کھوں افراد آپ کی طرف متوجہ ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اُن کے دل درست عقائد ، عملِ صالح اور پا کیزہ اخلاق کے نشیمن بن گئے اور اصلاحِ معاشرہ کی تحریک کو روز افزوں استحکام نصیب ہوا ۔ یوں تو ہزاروں کرامتیں آپ سے ظہور پذیر ہوئیں اور آفتاب و مہتاب بن کر نمایاں ہوئیں لیکن آپ کی سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ آپ کے انقلاب آفرین جدو جہد اور اثر آفرین تبلیغِ اسلام کے طفیل ہندوستان میں دینِ اسلام کی حقانیت و صداقت کا بو ل با لا ہوا ۔ سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی ابدی سلطنت نے اجمیر شریف کو ہمیشہ ہمیشہ کےلیے بہشتِ عقیدت اور جنتِ معرفت بنا دیا ۔ آپ کے فیضِ با طنی سے اسلام کا آفتاب ہندوستان میں طلوع ہوا تو لاکھوں غیر مسلم آپ کی توجہ سے مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ تقریباً 45 برس تک آپ اجمیر شریف میں حیاتِ ظاہری کے ساتھ مخلوقِ خدا کو فیض یاب فر ما تے رہے ۔
ہندوستان میں اشاعتِ اسلام اور رشد وہدایت کی شمع روشن کر نا آپ کا سب سے تاریخی او ر عظیم کارنا مہ ہے ۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعوت و تبلیغ کی اہمیت اور اس پر اجر و ثواب کو اس طرح اجاگر اور واضح فرمایا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فعمل بھا بعدہ کتب لہ مثل اجر من عمل بھا ۔
ترجمہ : جس نے اسلام میں کسی نیک کا م کی ابتداء کی اوراس کے بعد اس پر عمل کیا گیا تو اس کے نامہ اعمال میں بھی اس طرح اجر لکھ دیا جائے گا جیسا کہ عمل کرنے والے کے اعمال نامہ میں لکھاجائے گا ۔ (صحیح مسلم کتاب العلم،چشتی)
چنانچہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مطابق آپ کی دعوت و تبلیغ ، سیرت و کردار اور کے قدومِ میمنتِ لزوم کی برکت سے دنیامیں جس قدر مسلمان ہوئے اور آئندہ قیامت تک جتنے مسلمان ہوں گے اور اُن مسلمانوں کے ہاں جو مسلمان اولاد پیدا ہو گی ، اُن سب کا اجر و ثواب حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی روحِ پر انوار کو پہنچتا رہے گا ، کیونکہ یہ ایک ایسا صدقہ جاریہ ہے کہ جس کا اجروثواب قیامت تک ملتا رہے گا ۔
اجمیر شریف آمد اور پرتھوی راج کی مخالفت
سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ لاہور سے دہلی تشریف لے گئے ، جہاں اس دورمیں ہر طرف کفرو شرک اور گمراہی کا دور دورہ تھا ۔حضرت خواجہ غریب نوازعلیہ الرحمۃ نے یہاں کچھ عرصہ قیام فرمایا اور پھر اپنے خلیفۂ خاص حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کو مخلوق کی ہدایت اور راہنمائی کےلیے متعین فرما کر خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان کے مطابق اجمیر جانے کا قصد فرمایا ، آپ کی آمد سے نہ صرف اجمیر بلکہ پورے ہندوستان کی قسمت جاگ اٹھی ۔ جب سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ اجمیر شریف رونق افروز ہوئے تو اُن دنوں وہاں پر ہندو راجہ پرتھوی کی حکمرانی تھی ۔ آپ کی آمد پر وہاں کا حاکم راجہ پرتھوی راج اور ہندو جوگیوں اور جادوگروں نے سخت مزاحمت کی کہ آپ اجمیر کو اپنا مرکز و مسکن نہ بنائیں ، لیکن آپ کو تو بطورِ خاص اسلام و ہدایت کی شمع روشن کرنے کےلیے یہاں بھیجا گیا تھا ، پھر آپ اپنے عظیم مقصد اور مقدس مشن سے کیسے باز آسکتے تھے ۔ آپ کی مخالفت ہوتی رہی اور مقابلہ بھی ہوتا رہا ، بد سے بدتر اور سخت سے سخت تر بھی سامنے آتے رہے لیکن آپ اپنے عظیم مقصد و مشن میں لگے رہے اور بالآخر کامیابی نے آپ ہی کے قدم چومے ۔ چنانچہ کچھ ہی عرصے میں راجہ پرتھوی راج کے سب سے بڑے مندر کا سب سے بڑا پجاری ’’سادھو رام‘‘ سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوا ۔ اس کے بعد اجمیر کے مشہور جوگی’’جے پال‘‘ نے بھی اسلام قبول کرلیا اور یہ دونوں بھی دعوتِ اسلام و ہدایت اور اسلامی و روحانی مشن کی تبلیغ و اشاعت میں خواجہ غریب نوازعلیہ الرحمۃ کے ساتھ ہو گئے ۔
راجہ پرتھوی راج کا انجام
اجمیر کا راجہ پرتھوی راج روزانہ نت نئے طریقوں سے حضرت والا کو تکلیف پہنچانے اور پریشان کرنے کی کوششیں کرتا رہتا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کی ہر تدبیر الٹی ہو جاتی ۔ آخر تھک ہار کر پرتھوی راجہ نے نہایت ناشائستہ انداز و الفاظ میں 18 ہزارعالمین کا مشاہدہ کرنے والے سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کو اجمیر سے نکل جانے کا کہا تو حضور خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ بے ساختہ مسکرا دیے اور جلال میں آکر فرمایا کہ : میں نے پرتھوی راج کوزندہ سلامت لشکرِ اسلام کے سپرد کر دیا ۔ چنانچہ آپ کافرمان درست ثابت ہوا اور تیسرے ہی روز فاتح ہند سلطان شہاب الدین غوری رحمۃ اللہ علیہ نے ہندوستان کو فتح کرنے کی غرض سے دہلی پر زبردست لشکر کشی کی ۔راجہ پرتھوی راج لاکھوں کا لشکر لے کرمیدان جنگ میں پہنچا اور معرکہ کارِ زار گرم کر دیا ۔ کفر و اسلام اور حق و باطل کے درمیان زبردست معرکہ جاری تھا اور دست بہ دست لڑائی اپنے عروج پرتھی کہ سلطان غوری نے پرتھوی راج اور اس کے لشکر کو شکستِ فاش دے کر پرتھوی راج کو زندہ گرفتار کر لیا اور بعد ازاں وہ قتل ہو کر واصلِ جہنم ہو گیا ۔ راجہ پرتھوی کے عبرت ناک قتل اور ذلت آمیز شکست اور سلطان غوری و لشکرِ اسلام کی عظیم الشان اور تاریخی فتح کے نتیجے میں ہزاروں لوگ فوج در فوج اسلام قبول کرنے لگے ۔یوں اجمیر شریف میں سب سے پہلے اسلامی پرچم سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے نصب فرمایا ۔
سلطان شہاب الدین غوری کا شرفِ بیعت
فاتح ہندسلطان شہاب الدین غوری بصد عجز و انکسار سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا اور آپ سے شرفِ بیعت حاصل کیا ۔چنانچہ روایت ہے کہ دہلی فتح کرنے کے بعد جب سلطان شہاب الدین غوری اجمیر شریف میں داخل ہوئے تو شام ہو چکی تھی ۔ مغرب کا وقت تھا ، اذانِ مغرب سنی تو دریافت کرنے پر معلوم ہواکہ ایک درویش کچھ عرصے سے یہاں اقامت پذیر ہیں ۔ چنانچہ سلطان غوری فوراً مسجد کی طرف چل پڑے ۔ جماعت کھڑی ہو چکی تھی اور سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ مصلیٰ امامت پر فائز ہو کر امامت فرما رہے ہیں ۔ سلطان غوری بھی جماعت میں شامل ہو گئے ۔ جب نماز ختم ہوئی اور اُن کی نظر خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ پر پڑی تویہ دیکھ کر آپ کو بڑی حیرت ہوئی کہ آپ کے سامنے وہی بزرگ جلوہ فرما ہیں ، جنہوں نے آپ کوخواب کے اندر’’فتح دہلی‘‘ کی بشارت دی تھی ۔سلطان شہاب الدین غوری فوراً آگے بڑھے اور خواجہ غریب نواز کے قدموں میں گر گئے اور آپ سے درخواست کی کہ حضور !مجھے بھی اپنے مریدوں اور غلاموں میں شامل فرمالیں ۔چنانچہ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی اس خواہش کو شرفِ قبولیت بخش کر آپ کو دولت بیعت سے نواز کر اپنا مرید بنا لیا ۔ یہ وہی سلطان شہاب الدین غوری رحمۃ اللہ علیہ ہیں جن کے نامِ نامی اسم گرامی سے ہمارے پیارے وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سُپر پاور اسلامی ایٹمی میزائل ’’غوری میزائل‘‘ موسوم ہے ، جوپاکستان کے عظیم فرزند ، قومی ہیرو ، محسن قوم ڈاکٹر عبدالقدیر خان معحوم اور آپ کے دیگر سائنس داں ساتھیوں نے تخلیق کیا ہے ۔ واضح رہے کہ ڈاکٹرعبدالقدیرخان سلطان شہاب الدین غوری کے عظیم خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ (چشتی)
علوم ظاہری وباطنی کا حصول اورشرفِ بیعت
سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے مقتدائے زمانہ ہستیوں سے علومِ دینیہ یعنی علم قرآن ، علم حدیث ، علم تفسیر ، علم فقہ ، علم منطق اور علم فلسفہ وغیرہ کی تعلیم حاصل کی ۔ آپ نے علم ظاہری کے حصول میں تقریباً چونتیس (34) برس صرف کیے ، جب کہ علوم دینیہ کے حصول سے فارغ ہونے کے بعدعلم معرفت و سلوک کی تمنا آپ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ کُشاں کشاں لے جاتی رہی ۔ چنانچہ عراقِ عجم (ایران) میں پہنچ کر علمِ معرفت و سلوک کی تحصیل کےلیے آپ نے مرشدکامل کی تلاش کی اور گوہر مقصود بالآخر آپ کو نیشاپور کے قصبہ ’’ہاروَن‘‘میں مل گیا ۔ جہاں آپ حضرت خواجہ شیخ عثمان ہاروَنی رحمۃ اللہ علیہ ایسے عظیم المرتبت اور جلیل القدر بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے دست مبارک پر شرفِ بیعت سے فیض یاب ہوئے ۔ حضرت شیخ عثمان ہارونی علیہ الرحمۃ نے نہ صرف آپ کو دولت بیعت سے نوازا بلکہ آپ کو خرقۂ خلافت بھی عنایت فرمایا اور آپ کو اپنا خاص مصلّٰی (جائے نماز) ، عصا اور پاپوش مبارک بھی عنایت فرمایا ۔
بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضری
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اپنے پیرو مرشد کے ہمراہ بیس سال تک رہے اور بغداد شریف سے اپنے شیخ طریقت کے ہمراہ زیارتِ حرمین شریفین کا مبارک سفر اختیار فر ما یا ۔ چنانچہ اس مقدس سفر میں اسلامی علوم و فنون کے عظیم مراکز مثلاً بُخارا، سمر قند، بلخ، بد خشاں وغیرہ کی سیرو سیاحت کی۔ بعد ازاں مکہ مکرمہ پہنچ کر مناسکِ حج ادا کر کے حضرت خواجہ شیخ عثمان ہا روَنی رحمۃ اللہ علیہ نے حضر ت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کا ہاتھ پکڑ ا اور میزابِ رحمت کے نیچے کھڑے ہو کر با رگاہِ خدا وندی میں اپنے ہاتھ پھیلا کر یوں دُعا فر ما ئی :’’اے میرے پروردگار! میرے معین الدین حسن کو اپنی با ر گاہ میں قبول فر ما‘‘! اسی وقت غیب سے آوازآئی:’’معین الدین !ہمارا دوست ہے ، ہم نے اسے قبول فر ما یا اور عزت و عظمت عطا کی ‘‘۔ یہاں سے فراغت کے بعد حضرت خواجہ عثمان ہا رونی ، خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کو لے کر مدینہ منورہ میں بار گاہِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بار گاہِ مقدسہ میں ہدیہ درودو سلام پیش کیا الصلوٰ ۃ والسلام علیکم یا سید المرسلین و خاتم النبین۔روضۂ اقدس سے یوں جواب عنایت ہوا وعلیکم السلام یا قطب المشائخ حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمۃ با ر گاہ ِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے سلام کا جواب اورقطب المشائخ کا خطاب سن کر بہت ہی خوش ہوئے ۔
لاہور آمد اور مزار حضرت داتا گنج رحمۃ اللہ علیہ پر حاضری
چنا نچہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمۃ سیروسیاحت کرتے کرتے مختلف شہروں سے ہو تے ہوئے اور اولیاءِ کرام کی زیا رت و صحبت کا فیض حاصل کر تے ہوئے جب لا ہور تشریف لا ئے تو یہاں حضور دا تا گنج بخش سید علی ہجویری علیہ الرحمۃ کے مزار شریف پر حاضری دی اور چالیس دن تک معتکف بھی رہے اور یہاں بے بہا انوارو تجلیات سے فیضیاب ہو ئے تو رخصت ہو تے وقت یہ شعر بہ طورِ نذرانۂ عقیدت حضور داتا صاحب کی شان میں پیش کیا ۔
گنج بخش ، فیض عالم ، مظہر نورِ خدا
ناقصاں را پیر کامل ، کا ملاں را راہنما
حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمۃ کو جو فیوض برکا ت اور انوار و تجلیات یہاں سے حاصل ہوئیں ، اس کا اظہار و اعلان اس شعر کی صورت میں کر دیا۔ اس شعر کو اتنی شہرت ہو ئی کہ اس کے بعد حضور داتا گنج بخش سید علی ہجویری علیہ الرحمۃ کو لوگوں نے ’’داتا گنج بخش‘‘کے نام سے مو سوم اور مشہور کر دیا۔
سیرت و کردار
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی انقلاب آفرین شخصیت ہندوستان کی تاریخ میں ایک نہایت ہی زریں با ب کی حیثیت رکھتی ہے ۔ آپ کے اس دور میں جہاں ایک طرف آپ کی توجہ اور تبلیغی مسا عی سے ظلمت کدہ ہند میں شمع ِ اسلام کی روشنی پھیل رہی تھی ، دلوں کی تاریکیاں ایمان و یقین کی روشنی میں تبدیل ہو رہی تھیں ، لو گ جو ق در جوق حلقہ اسلام میں داخل ہو رہے تھے۔ تودوسری طرف ہندوستان میں مسلمانوں کا سیاسی غلبہ بھی بڑھ رہاتھا۔
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدت مندوں اور مریدوں میں شامل سلطان شہاب الدین غوری اوراُن کے بعدسلطان قطب الدین ایبک اور سلطان شمس الدین التمش ایسے با لغ نظر ، بلند ہمت اور عادل حکمران سیاسی اقتدار کو مستحکم کر رہے تھے ۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے تبلیغ اسلام ، احیائے دین و ملت ، نفاذِ شریعت اور تزکیۂ قلوب واذہان کا اہم ترین فریضہ جس موثر اور دل نشین انداز میں انجام دیا ، وہ اسلامی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔ آپ کی تشریف آوری کے بعد تو اس ملک کی کا یا ہی پلٹ گئی ۔ لا کھوں غیر مسلم آپ کے دست مبارک پر اسلام لائے۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی حیاتِ مبارکہ قرآن و سنت کا قابل رشک نمونہ تھی ۔آپ کی تمام زندگی تبلیغ اسلام ، عبادت و ریاضت اور سادگی و قناعت سے عبارت تھی۔ آپ ہمیشہ دن کو روزہ رکھتے اور رات کو قیام میں گزارتے تھے ۔ آپ مکارمِ اخلاق اور محاسن اخلاق کے عظیم پیکر اوراخلاقِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکمل نمونہ تھے ۔
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ غرباء اور مساکین کے لیے سرا پا ر حمت و شفقت کا مجسمہ تھے اور غریبوں سے بے مثال محبت و شفقت کی وجہ سے دنیا آپ کو ’’غریب نواز‘‘کے عظیم لقب سے یا د کر تی ہے ۔دنیا سے بے رغبتی اورزہد و قناعت کا یہ عالم تھا کہ آپ کی خدمت عالیہ میں جو نذرانے پیش کیے جا تے وہ آپ اسی وقت فقراء اور غرباء میں تقسیم فر ما دیتے تھے۔ سخاوت و غریب نوازی کا یہ حال تھا کہ کبھی کوئی سائل آپ کے در سے خالی ہا تھ نہ جا تا تھا۔ آپ بڑے حلیم و بر د بار ، منکسر المزاج اور بڑے متوا ضع تھے۔
آپ کے پیش نظر زندگی کا اصل مقصد تبلیغ اسلام اور خدمت خلق تھا۔آپ کے بعض ملفوظاتِ عالیہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ بڑے صاحب دل،وسیع المشرب اور نہایت دردمند انسان تھے۔ آپ عمیق جذبہ انسانیت کے علمبردار تھے۔ آپ اپنے مریدین ، معتقدین اور متوسلین کو یہ تعلیم دیتے تھے کہ وہ اپنے اندر دریا کی مانند سخاوت و فیاضی، سورج ایسی گرم جوشی و شفقت اور زمین ایسی مہمان نوازی اور تواضع پیدا کیاکریں۔
اسی طرح آپ فرماتے ہیں کہ : ’’جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو اپنا دوست بناتا ہے تو اس کو اپنی محبت عطا فرماتا ہے اور وہ بندہ اپنے آپ کو ہمہ تن اور ہمہ وقت اس کی رضا وخوشنودی کے لیے وقف کر دیتا ہے تو خداوند قدوس اس کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے، تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا مظہر بن جائے‘‘۔(چشتی)
اسلام کی تبلیغ واشاعت
سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ جب علم وعرفاں اورمعرفت وسلوک کے منازل طے کرچکے اوراپنے شیخ طریقت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمۃ کے علمی وروحانی فیضان سے فیض یاب ہوئے توپھراپنے وطن واپس تشریف لے گئے۔وطن میں قیام کئے ابھی تھوڑی ہی مدت ہوئی تھی کہ آپ کے دل میں بیت اللہ اورروضہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لئے تڑپ پیدا ہوئی۔چنانچہ اسی وقت آپ اس مقدس سفرکے لئے چل پڑے۔حرمین طیبین پہنچنے کے بعداپنے دل کی مرداپائی اور قلب کوتسکین حاصل ہوئی۔ حضورسیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اقدس کے پاس کئی دنوں تک عبادت و ریاضت اورذکروفکرمیں مشغول رہے۔ایک دن اسی طرح عبادت اورذکرو فکر میں مستغرق تھے کہ روضہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سعادت افروزآوازآئی: ’’اے معین الدین!توہمارے دین کامعین ومددگار ہے،ہم نے تمھیں ہندوستان کی ولایت پرفائزکیاہے، لہٰذااجمیرجاکر اپناقیام کروکیوں کہ وہاں کفرو شرک اورگمراہی وضلالت کی تاریکیاں پھیلی ہوئی ہیں اور تمھارے وہاں ٹھہرنے سے کفروشرک کا اندھیرادور ہوگااوراسلام وہدایت کے سورج کی روشنی چہارسوپھیلے گی‘‘۔ ابھی آپ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ ہندو ستان میں اجمیر کس جگہ پر ہے کہ اچانک اونگھ آگئی اور حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے شرف یا ب ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق تا مغرب اور شمال تا جنوب تمام ہندوستان کی سیر کر ادی اور اجمیر کا پہاڑ بھی دکھا دیا ۔
اجمیر شریف علم وعرفان کا مرکز
اجمیر شریف ! وسطیٰ ہند کا ایک مشہور شہر ہے ۔ جس طرح یہ شہرمرکزِ سلطنت بننے کےلیے موزوں تھا،اسی طرح یہ شہرتوحیدورسالت کے انوارو تجلیات اور علم وعرفاں کاروحانی مرکزومنبع بننے کیلئے بھی بے حد مناسب تھا۔حضرت ِوالانے ایک مناسب جگہ منتخب کرکے اس کواپنامسکن بنالیااور ذکروفکراوریادخداوندی میں مشغول ہوگئے۔لوگوں نے جب آپ کے سیرت وکردار،علم وفضل اورذکروفکر کے اندازو اطور کودیکھاتووہ خودبہ خودآپ کی طرف متوجہ ہوتے گئے۔چنانچہ اجمیر کا جوبھی آدمی ایک مرتبہ آپ کی خدمت ِعالی میں حاضرہوجاتاوہ اسی وقت آپ کا مریدو معتقد اور گرویدہ ہو جاتا۔تھوڑے ہی عرصہ میں ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں نے آپ کی صحبت کیمیا اثراورآپ کے عظیم اخلاق وکردارکے باعث اسلام قبول گیا۔چنانچہ ایک مشہورروایت کے مطابق تقریباًنوے لاکھ (90لاکھ) غیر مسلم اسلام کی دولت سے فیض یاب ہوکرمسلمان ہوئے۔
ہندوستان میں اسلام کی روشن کرنیں : حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے مقام و منصب کا اندازہ اس بات سے بہ خوبی لگا یا جا سکتا ہے کہ آپ کو با ر گاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’قطب المشائخ‘‘کا لقب عطا ہوا۔آپ نے دین حق کی تبلیغ کا مقدس فریضہ نہایت شاندار طریقے سے سر انجام دیا۔ آج ہندوستان کا گوشہ گوشہ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے فیوض و برکات سے ما لامال ہے ۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مریدین و معتقدین کو اشاعت اسلام اور رشد و ہدایت کی مشعل روشن کر نے کے لئے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں روانہ کیاتا کہ ہندوستان کا گوشہ گوشہ اسلام کی ضیاء پا شیوں سے روشن و تاباں ہو جائے ۔ آپ نے اپنے عظیم کر دار اور اچھے اخلاق سے بہت جلد غیر مسلموں کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور وہ فوج در فوج اسلام قبول کر نے لگے اور یوں انتہائی قلیل مدت میں اجمیر شریف اسلامی آبادی کا عظیم مر کز بن گیا اور آپ کے حسنِ اخلاق سے آپ کی غریب نو ازی کا ڈنکا چہار دا نگِ عالم بجنے لگا۔ یہ تھا ایمان ویقین اور علم و عمل کا وہ کرشمہ اور کرامت جو ایک مر د ِ مو من نے سر زمینِ ہند پر دکھا ئی اور جس کی بدولت اس ملک میں جہاں پہلے ’’نا قوس ‘‘ بجا کر تے تھے ، اب وہاں جگہ جگہ ’’صدائے اللہ اکبر‘‘ گونجنے لگی ۔ (چشتی)
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اثر آفرین جدو جہد سے اس وسیع و عریض ملک کے باشندوں کو کفر و شرک اور گمراہی و ضلالت کے زنداں سے آزاد فر ما یا ۔ تبلیغ دین حق کے لئے آپ سراپا عمل بن کر میں میدان میں آئے اور محکم استقامت کا بے نظیر ثبوت دیا اور لو گوں کو اسلام ، حق و صداقت اور علم و عمل کی دعوت دی ، لا کھوں افراد آپ کی طرف متوجہ ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اُن کے دل درست عقائد، عملِ صالح اور پا کیزہ اخلاق کے نشیمن بن گئے اور اصلاحِ معاشرہ کی تحریک کو روز افزوں استحکام نصیب ہوا۔ یوں تو ہزاروں کرامتیں آپ سے ظہور پذیر ہوئیں اور آفتاب و مہتاب بن کر نمایاں ہوئیں لیکن آپ کی سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ آپ کے انقلاب آفرین جدو جہد اور اثر آفرین تبلیغ اسلام کے طفیل ہندوستان میں دین ِ اسلام کی حقانیت و صداقت کا بو ل با لا ہوا۔سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی ابدی سلطنت نے اجمیر شریف کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بہشتِ عقیدت اور جنت ِمعرفت بنا دیا۔ آپ کے فیضِ با طنی سے اسلام کا آفتاب ہندوستان میں طلوع ہوا تو لاکھوں غیر مسلم آپ کی توجہ سے مشرف بہ اسلام ہوئے ۔تقریباً 45برس تک آپ اجمیر شریف میں حیات ظاہری کے ساتھ مخلوقِ خدا کو فیض یاب فر ما تے رہے ۔
ہندوستان میں اشاعتِ اسلام اور رشد وہدایت کی شمع روشن کر نا آپ کا سب سے تاریخی او ر عظیم کا ر نا مہ ہے ۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت وتبلیغ کی اہمیت اور اس پر اجروثواب کو اس طرح اجاگر اور واضح فرمایا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فعمل بھا بعدہ کتب لہ مثل اجر من عمل بھا۔
ترجمہ: جس نے اسلام میں کسی نیک کا م کی ابتداء کی اوراس کے بعد اس پر عمل کیا گیا تو اس کے نامہ اعمال میں بھی اس طرح اجر لکھ دیا جائے گا جیسا کہ عمل کرنے والے کے اعمال نامہ میں لکھاجائے گا‘‘۔(صحیح مسلم، کتاب العلم،چشتی)
چنانچہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق آپ کی دعوت وتبلیغ، سیرت و کردار اور کے قدومِ میمنتِ لزوم کی برکت سے دنیامیں جس قدر مسلمان ہو ئے اور آئندہ قیامت تک جتنے مسلمان ہوں گے اور اُن مسلمانوں کے ہاں جو مسلمان اولاد پیدا ہو گی، اُن سب کا اجر و ثواب حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی روحِ پر انوار کو پہنچتا رہے گا،کیونکہ یہ ایک ایسا صدقہ جاریہ ہے کہ جس کا اجروثواب قیامت تک ملتا رہے گا۔
اجمیر شریف آمد اور پرتھوی راج کی مخالفت
سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ لاہورسے دہلی تشریف لے گئے،جہاں اس دورمیں ہر طرف کفرو شرک اورگمراہی کادوردورہ تھا۔حضرت خواجہ غریب نوازعلیہ الرحمۃ نے یہاں کچھ عرصہ قیام فرمایااورپھراپنے خلیفۂ خاص حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی رحمۃ اللہ علیہ کو مخلوق کی ہدایت اورراہنمائی کے لئے متعین فرماکرخودحضور سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اجمیرجانے کاقصد فرمایا،آپ کی آمدسے نہ صرف اجمیربلکہ پورے ہندوستان کی قسمت جاگ اٹھی ۔
جب سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ اجمیر شریف رونق افروز ہوئے تواُن دنوں وہاں پرہندوراجہ پرتھوی کی حکمرانی تھی۔آپ کی آمدپروہاں کاحاکم راجہ پرتھوی راج اور ہندوجوگیوں اورجادوگروں نے سخت مزاحمت کی کہ آپ اجمیرکواپنامرکزو مسکن نہ بنائیں،لیکن آپ کوتوبہ طورِ خاص اسلام وہدایت کی شمع روشن کرنے کے لیے یہاں بھیجاگیاتھا،پھرآپ اپنے عظیم مقصداورمقدس مشن سے کیسے بازآسکتے تھے۔ آپ کی مخالفت ہوتی رہی اور مقابلہ بھی ہوتارہا،بدسے بدتراورسخت سے سخت تربھی سامنے آتے رہے لیکن آپ اپنے عظیم مقصدومشن میں لگے رہے اوربالآخر کامیابی نے آپ ہی کے قدم چومے۔چنانچہ کچھ ہی عرصے میں راجہ پرتھوی راج کے سب سے بڑے مندرکا سب سے بڑا پجاری ’’سادھورام‘‘سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوا۔اس کے بعد اجمیرکے مشہور جوگی’’جے پال‘‘نے بھی اسلام قبول کرلیااوریہ دونوں بھی دعوتِ اسلام وہدایت اوراسلامی وروحانی مشن کی تبلیغ واشاعت میں خواجہ غریب نوازعلیہ الرحمۃ کے ساتھ ہوگئے۔
راجہ پرتھوی راج کاانجام
اجمیرکاراجہ پرتھوی راج روزانہ نت نئے طریقوں سے حضرت والاکو تکلیف پہنچانے اور پریشان کرنے کی کوششیں کرتا رہتا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کی ہرتدبیرالٹی ہوجاتی۔آخر تھک ہارکرپرتھوی راجہ نے نہایت ناشائستہ انداز و الفاظ میں18ہزارعالمین کامشاہدہ کرنے والے سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کواجمیرسے نکل جانے کا کہاتو حضور خواجہ غریب نوازرحمۃ اللہ علیہ بے ساختہ مسکرادیئے اورجلال میں آکر فرمایا کہ:’’میں نے پرتھوی راج کوزندہ سلامت لشکراسلام کے سپردکردیا‘‘۔چنانچہ آپ کافرمان درست ثابت ہوااورتیسرے ہی روزفاتح ہند سلطان شہاب الدین غوری رحمۃ اللہ علیہ نے ہندوستان کوفتح کرنے کی غرض سے دہلی پرزبردست لشکرکشی کی۔راجہ پرتھوی راج لاکھوں کا لشکر لے کرمیدان جنگ میں پہنچا اور معرکہ کارزارگرم کردیا۔کفرواسلام اورحق وباطل کے درمیان زبردست معرکہ جاری تھا اوردست بہ دست لڑائی اپنے عروج پرتھی کہ سلطان غوری نے پرتھوی راج اوراس کے لشکرکوشکستِ فاش دے کرپرتھوی راج کوزندہ گرفتارکرلیا اوربعدازاں وہ قتل ہوکرواصلِ جہنم ہوگیا۔ راجہ پرتھوی کے عبرت ناک قتل اور ذلت آمیزشکست اور سلطان غوری ولشکراسلام کی عظیم الشان اور تاریخی فتح کے نتیجے میں ہزاروں لوگ فوج درفوج اسلام قبول کرنے لگے۔یوں اجمیر شریف میں سب سے پہلے اسلامی پرچم سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے نصب فرمایا۔
سلطان شہاب الدین غوری کاشرفِ بیعت
فاتح ہندسلطان شہاب الدین غوری بہ صدعجزوانکسارسلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت عالیہ میں حاضرہوا اورآپ سے شرفِ بیعت حاصل کیا۔چنانچہ روایت ہے کہ دہلی فتح کرنے کے بعدجب سلطان شہاب الدین غوری اجمیرشریف میں داخل ہوئے تو شام ہوچکی تھی۔ مغرب کاوقت تھا،اذانِ مغرب سنی تودریافت کرنے پرمعلوم ہواکہ ایک درویش کچھ عرصے سے یہاں اقامت پذیرہیں۔ چنانچہ سلطان غوری فوراًمسجد کی طرف چل پڑے۔جماعت کھڑی ہوچکی تھی اور سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ مصلیٔ امامت پرفائزہوکرامامت فرما رہے ہیں ۔ سلطان غوری بھی جماعت میں شامل ہوگئے۔جب نمازختم ہوئی اوراُن کی نظر خواجہ غریب نوازرحمۃ اللہ علیہ پرپڑی تویہ دیکھ کرآپ کوبڑی حیرت ہوئی کہ آپ کے سامنے وہی بزرگ جلوہ فرماہیں، جنہوں نے آپ کوخواب کے اندر’’فتح دہلی‘‘ کی بشارت دی تھی۔سلطان شہاب الدین غوری فوراًآگے بڑھے اورخواجہ غریب نوازکے قدموںمیں گرگئے اور آپ سے درخواست کی کہ حضور!مجھے بھی اپنے مریدوں اورغلاموں میں شامل فرمالیں ۔چنانچہ حضرت خواجہ غریب نوازرحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی اس خواہش کو شرف ِقبولیت بخش کرآپ کودولت بیعت سے نوازکر اپنامرید بنالیا۔یہ وہی سلطان شہاب الدین غوری رحمۃ اللہ علیہ ہیں جن کے نام نامی اسم گرامی سے ہمارے پیارے وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سپرپاور اسلامی ایٹمی میزائل’’غوری میزائل‘‘موسوم ہے،جوپاکستان کے عظیم فرزند،قومی ہیرو، محسن قوم ڈاکٹرعبدالقدیر خان اور آپ کے دیگرسائنس داں ساتھیوں نے تخلیق کیاہے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹرعبدالقدیرخان سلطان شہاب الدین غوری کے عظیم خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔(چشتی)
خواجہ غریب نواز کا فیض عام
کون خواجہ اجمیری ! جو آفتابِ طریقت بھی تھے اور ماہتابِ شریعت بھی ۔ جو پاسبانِ حقیقت بھی تھے اور صاحبِ نسبت بھی۔۔۔جورہبرِ گمگشتگانِ راہ بھی تھے اور شبستانِ ہدایت بھی ۔ جو آلِ رسول بھی تھے اور بدرِ ولایت بھی ۔ کون خواجہ اجمیری!!!جس کی زندگی سادہ تھی،لباس پیوند دار تھا۔ خوراک سوکھی روٹی تھی،رہنے کیلئے ایک جھونپڑی تھی مگر بڑے بڑے اولوالعزم شاہانِ زمانہ آپ کے آستانہ پر حاضر ہو کر آپ کی قدم بوسی کو اپنے لئے سب سے بڑی سعادت اور اعزاز سمجھتے تھے۔سلطان شہاب الدین غوری آپ کی قدم بوسی کیلئے آیا۔کبھی سلطان شمس الدین التمش نے آپ کے سامنے سر ارادت جھکایااور یہ سلسلہ صرف ظاہری حیات میں ہی نہیں بلکہ بعد میں بھی جاری رہا۔ کبھی سلطان محمود خلجی آپ کے روضہ انوار پر حاضرہو کر فتح کی دعا مانگتا ہے تو فتح یاب ہوتا ہے اور کبھی اکبر بادشاہ آپ کی درگاہِ عالیہ میں اولاد کی درخواست پیش کرتا ہے تو بامراد لوٹتا ہے۔ کبھی جہانگیر اپنی شفایابی پر سرِ دربار آپ کا حلقہ بگوش غلام ہو جاتا ہے۔
اس وقت سے لے کر آج تک ہندوستان کے سارے حکمران بلا امتیاز عقیدہ و مسلک، اس آستانہ عالیہ پر اپنا سر نیاز جھکاتے آئے ہیں اور آپ کے تصدق اور آپ کے قدومِ میمنتِ لزوم کے صدقہ میں سر زمینِ ہند رشکِ آسمان بنی رہے گی۔۔۔اولیاءِکرام آپ کے دربار کی خاک کو چوم کر اپنے قلب و روح کو مجلّٰی کرکے عروج پاتے ہیں۔ آج بھی آپ کی شانِ غریب نوازی کار فرما ہے۔ آپ کا پیغامِ محبت فضائے عالم میں گونج رہا ہے۔آپ کی محبت پھولوں کی خوشبو کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔صاحب دل،اہلِ محبت اور اہلِ طریقت آپ کے حسنِ باطن اور عشقِ حقیقی کے تصرفات سے آج بھی فیض یاب ہو رہے ہیں۔ آپ کے نورِ ولایت کا آفتاب آج بھی چمک اور دمک رہا ہے۔ آپ کا قلبی نور آج بھی ضیاء بخش عالم ہے۔آپ کی آنکھوں سے نکلے ہوئے آنسو آج بھی آبِ حیات اور بارانِ رحمت کی طرح فیض رساں ہیں۔
نامورخلفاء کرام
حضرت خواجہ خواجگان، قطب الاقطاب، سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمہ اللہ سے حسبِ ذیل جلیل القدر ہستیوں کو بھی خلافت حاصل ہوئی : حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، حضرت بابا فرید گنج شکر، حضرت علاءو الدین علی بن احمد صابر کُلیری، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب ِالٰہی، حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی ؒ شامل ہیں۔۔۔یہ برگزیدہ اور عظیم المرتبت بزرگ اپنے وقت کے ولیٔ کامل اور باکرامت اولیاء اللہ ہوئے۔ ان حضرات نے حضرت خواجہ غریب نواز کی جلائی ہوئی شمعِ توحید سے نہ صرف خود روشنی حاصل کی بلکہ کروڑوں لوگوں کو اس شمعِ توحید کی ضیاء پاشیوں سے فیض یاب کیا، جس کی بدولت آج چہار عالم روشن و تاباں ہیں۔۔۔ چناں چہ خانقاہِ چشتیہ سلیمانیہ تونسہ شریف، گولڑہ شریف، سیال شریف،مکھڈشریف، چشتیاں شریف وغیرہ کی خانقاہوں کے چراغ اسی شمع کی بدولت روشن ہیں اور دوسروں کو بھی نور ایمان و ایقان اور نورِ علم و معرفت سے روشن کر رہے ہیں ۔
خواجہ غریب نواز کا فیضِ عام
کون خواجہ اجمیری ! جو آفتابِ طریقت بھی تھے اور ماہتابِ شریعت بھی ۔ جو پاسبانِ حقیقت بھی تھے اور صاحبِ نسبت بھی ۔ جو رہبرِ گمگشتگانِ راہ بھی تھے اور شبستانِ ہدایت بھی ۔ جو آلِ رسول بھی تھے اور بدرِ ولایت بھی ۔ کون خواجہ اجمیری ۔ جس کی زندگی سادہ تھی ، لباس پیوند دار تھا ۔ خوراک سوکھی روٹی تھی ، رہنے کےلیے ایک جھونپڑی تھی مگر بڑے بڑے اولوالعزم شاہانِ زمانہ آپ کے آستانہ پر حاضر ہو کر آپ کی قدم بوسی کو اپنے لیے سب سے بڑی سعادت اور اعزاز سمجھتے تھے ۔ سلطان شہاب الدین غوری آپ کی قدم بوسی کےلیے آیا ۔ کبھی سلطان شمس الدین التمش نے آپ کے سامنے سرِ ارادت جھکایا اور یہ سلسلہ صرف ظاہری حیات میں ہی نہیں بلکہ بعد میں بھی جاری رہا ۔ کبھی سلطان محمود خلجی آپ کے روضہ انور پر حاضر ہو کر فتح کی دعا مانگتا ہے تو فتح یاب ہوتا ہے اور کبھی اکبر بادشاہ آپ کی درگاہِ عالیہ میں اولاد کی درخواست پیش کرتا ہے تو بامراد لوٹتا ہے ۔ کبھی جہانگیر اپنی شفایابی پر سرِ دربار آپ کا حلقہ بگوش غلام ہو جاتا ہے ۔ اس وقت سے لے کر آج تک ہندوستان کے سارے حکمران بلا امتیاز عقیدہ و مسلک ، اس آستانہ عالیہ پر اپنا سر نیاز جھکاتے آئے ہیں اور آپ کے تصدق اور آپ کے قدومِ میمنتِ لزوم کے صدقہ میں سر زمینِ ہند رشکِ آسمان بنی رہے گی ۔اولیاءِکرام آپ کے دربار کی خاک کو چوم کر اپنے قلب و روح کو مجلّٰی کرکے عروج پاتے ہیں ۔ آج بھی آپ کی شانِ غریب نوازی کار فرما ہے ۔ آپ کا پیغامِ محبت فضائے عالم میں گونج رہا ہے ۔ آپ کی محبت پھولوں کی خوشبو کی طرح پھیلی ہوئی ہے ۔ صاحب دل ، اہلِ محبت اور اہلِ طریقت آپ کے حسنِ باطن اور عشقِ حقیقی کے تصرفات سے آج بھی فیض یاب ہو رہے ہیں ۔ آپ کے نورِ ولایت کا آفتاب آج بھی چمک اور دمک رہا ہے ۔ آپ کا قلبی نور آج بھی ضیاء بخش عالم ہے ۔ آپ کی آنکھوں سے نکلے ہوئے آنسو آج بھی آبِ حیات اور بارانِ رحمت کی طرح فیض رساں ہیں ۔
نامور خلفائے کرام
حضرت خواجہ خواجگان ، قطب الاقطاب ، سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمہ اللہ سے حسب ِ ذیل جلیلُ القدر ہستیوں کو بھی خلافت حاصل ہوئی : ⬇
حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ، حضرت بابا فرید گنج شکر ، حضرت علاءو الدین علی بن احمد صابر کُلیری ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب ِالٰہی ، حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی علجہم العحمہ شامل ہیں ۔ یہ برگزیدہ اور عظیمُ المرتبت بزرگ اپنے وقت کے ولیٔ کامل اور باکرامت اولیاءَ اللہ ہوئے ۔ ان حضرات نے حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کی جلائی ہوئی شمعِ توحید سے نہ صرف خود روشنی حاصل کی بلکہ کروڑوں لوگوں کو اس شمعِ توحید کی ضیاء پاشیوں سے فیض یاب کیا ، جس کی بدولت آج چہار عالم روشن و تاباں ہیں ۔ چنانچہ خانقاہِ چشتیہ سلیمانیہ تونسہ شریف ، گولڑہ شریف ، سیال شریف،مکھڈشریف ، چشتیاں شریف وغیرہ کی خانقاہوں کے چراغ اسی شمع کی بدولت روشن ہیں اور دوسروں کو بھی نور ایمان و ایقان اور نورِ علم و معرفت سے روشن کر رہے ہیں ۔
وصال مبارک
تاجدارِ علم و معرفت ، آفتابِ رشدوہدایت ، قطب المشائخ ، سلطان الہند ، خواجہ غریب نوازحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ایک طویل مدت تک مشارق و مغارب میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کرتے رہے ۔ رشد و ہدایت کی شمع جلاتے رہے ۔ علم و معرفت کو چہار سو پھیلاتے رہے ۔ لاکھوں افراد کو مشرف بہ اسلام کیا ۔ لا تعداد لوگوں کو صراطِ مستقیم پر گامزن کیا ۔ ہزاروں کو رُشد و ہدایت کا پیکر بنایا ۔ الغرض یہ کہ آپ کی ساری زندگی امر بالمعروف و نہی عن المنکرپر عمل کرتے ہوئے گزری ۔ بالآخریہ عظیم پیکرِ علم و عرفاں ، حامل سنت و قرآں ، محبوبِ یزداں ، محب سرورِ کون و مکاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، شریعت و طریقت کے نیرتاباں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ 6 رجب المرجب633ھ /1236ء کو غروب ہو کر واصلِ ربِّ دوجہاں ہو گیا ۔
روایات میں آتا ہے کہ جس وقت آپ کا وصال ہوا ، آپ کی پیشانی مبارکہ پر نورانی خط میں تحریر تھا مَاتَ حَبِیْبُ اللّٰہ،فِیْ حُبِّ اللّٰہ ، یعنی اللہ کا دوست ، اللہ کی محبت میں وصال فرما گیا ۔
خواجہ غریب نواز حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا مزار پُر انوار اجمیر شریف (انڈیا) میں مرجعِ خلائق ہے ۔ آپ کے مزارِ پر انوار پر صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو ، سکھ ، عیسائی اور دیگر مذاہب کے بھی لاکھوں افراد بڑی عقیدت و محبت کے ساتھ حاضر ہو تے ہیں ۔ اجمیر شریف میں آپ کی درگاہِ عا لیہ آج بھی ایمان و یقین اور علم و معرفت کے نو ر بر ساتی ہے اور ہزاروں خوش نصیب لو گ فیض یاب ہو تے ہیں ۔ آپ کا عرس مبارک ہر سال نہ صرف اجمیر میں بلکہ پورے پاک و ہند میں پورے عقیدت و احترام اور تزک و احتشام کے ساتھ منایاجاتا ہے ۔ علم و فضل کے عظیم پیکر ، تاجدارِ معرفت اور رُشد و ہدایت کے اس عظیم سورج کو غروب ہوئے کئی سو سال گزر چکے ہیں مگر اس کی گرمی و حرارت سے آج بھی طالبانِ علم و معرفت اسی طرح فیض یاب ہو رہے ہیں ، جس طرح آپ کی حیاتِ مبارکہ میں ہوتے تھے ۔ (ماخذ : تاریخ مشائخ چشت ، سیرالاقطاب ، سیر الاولیاء ، مخزن چشت ، ہند کے راجہ ، سلطان الہند ، تذکرہ اولیاء پاک و ہند و دیگر کتب سوانح) ۔
اللہ عزوجل نے انسانوں کی ہدایت کےلیے انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام مبعوث فرمائے ، حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک جتنے بھی انبیاء علیہم السلام تشریف لائے سب نے انسانوں کے ساتھ خیر خواہی کا بھر پور مظاہرہ فرمایا اور راہ بھٹکے انسانوں کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی دعوت دیتے رہے۔ ظاہرسی بات ہے کفر کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے اور ظلم و عصیاں کے سمندر میں ڈوبے ہوئے انسانوں کے لئے راہِ راست پر جلدی آنا آسان تو نہ تھا چنانچہ کبھی دعوتِ دین دینے والے مقدس انبیائے کرام علیہم السلام پر نصیحت کے جواب میں پتھر برسائے گئے اور کبھی نا شائستہ جملوں کے تیر برسا کر ان کے کلیجے کو چھلنی کیا گیا ۔ لیکن اللہ کے فرستادہ پیغمبر ہر ظلم سہتے رہے اور لوگوں پر شفقت و مہربانی کے بادل بن کر برستے رہے ۔
اگر ہم قرآنِ مقدس کا مطالعہ کریں تو بے شمار انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام انسانوں کو خود کے خیر خواہ ہونے کے دلائل پیش کرتے رہے ۔ جیسا کہ ’’ اُبَلِّغُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنْصَحُ لَکُمْ وَ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَ‘‘ ۔ (سورۂ ، آیت نمبر ۶۲)
ترجمہ : تمہیں اپنے رب کی رسالتیں پہنچاتا اور تمہارا بھلا چاہتا اور میں اللہ کی طرف سے وہ علم رکھتا ہوں جو تم نہیں رکھتے ۔
مذکورہ آیتِ کریمہ میں بھٹکے ہوئے انسانوں کے سامنے حضرتِ نوح علیہ السلام نے اپنا مقصد اور منصب بیان فرمایا۔ اسی طرح سے اگر ہم دوسرے مقام پر دیکھیں تو حضرتِ صالح علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بھی اپنی قوم سے اس طریقہ کا ارشاد فرمایا۔ جیسا کہ قرآنِ مقدس میں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا : لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَکُمْ وَ لٰکِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النَّاصِحِیْنَ ۔
ترجمہ : بے شک میں نے تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچادی اور تمہارا بھلا چاہا مگر تم خیر خواہوں کے غرضی ہی نہیں۔ (سورۂ اعراف، آیت ۷۹)
مذکورہ آیتِ کریمہ میں قوم کی ہٹ دھرمی اور عدم شناسی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت صالح علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا کہ خیر خواہوں سے تم کو کوئی غرض ہی نہیں۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جہالت کی وادیوں میں بھٹکنے والے انسان اور کفر و ضلالت کی تاریکی میں گم ہونے والی قوم بھلے اور برے کی تمیز سے محروم رہتی ہے ۔
اگر ہم حضرت صالح علیہ الصلوٰۃ و السلام کی قوم کا جائزہ لیں تو اس قوم کی بے راہ روی اور گمرہی کا اندازہ لگ سکتا ہے۔
اسی طرح سے حضرت شعیب علیہ الصلوٰۃ و السلام کا قول ’’یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَکُمْ فَکَیْفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ کٰفِرِیْنَ‘‘ اے میری قوم میں تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچا چکا اور تمہارے بھلے کو نصیحت کی تو کیوں کر غم کروں کافروں کا ۔
مذکورہ آیتِ کریمہ میں اللہ کے جلیل القدر پیغمبر نے اپنی ذمہ داریٔ منصب کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمادیا کہ رسالت اور نصیحت ہم نے پہنچا دی اب اگر تم ایمان نہ لائو تو قصور تمہارا ہے۔
ایک اور مقام پر حضرت ہود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اسی بات کو دوسرے انداز میں فرمایا ’’اُبَلِّغُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنَا لَکُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ‘‘ تمہیں اپنے رب کی رسالتیں پہنچاتا ہوں اور تمہارا معتمد خیر خواہ ہوں۔(سورۂ اعراف، آیت:۶۸)
کفّار کا حضرت ہود علیہ السلام کی جناب میں یہ گستاخانہ کلام کہ تمہیں بے وقوف سمجتے ہیں، جھوٹا گمان کرتے ہیں، انتہائی درجے کی بے ادبی اور کمینگی تھی اور وہ مستحق اس بات کے تھے کہ انہیں سخت ترین جواب دیا جاتا مگر آپ نے اپنے اخلاق و آداب اور شانِ حلم سے جو جواب دیا اس میں شان مقابلہ ہی نہ پیدا ہونے دی اور ان کی جہالت سے چشم پوشی فرمائی۔ اس سے دنیا کو سبق ملتا ہے کہ سفہاء اور بد خصال لوگوں سے اس طرح مخاطبہ کرنا چاہئے مع ہٰذا آپ نے اپنی رسالت اور خیر خواہی و امانت کا ذکر فرمایا اس سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ اہلِ علم و کمال کو ضرورت کے موقع پر اپنے منصب و کمال کا اظہار جائز ہے۔
انسانوں کی خیر خواہی کے لئے شب و روز کاوشیں کرنے والے انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام کو دنیا کیا کیا سمجھتی رہی اور کہتی رہی، لیکن صبر و استقامت کے پیکر بن کر وہ لوگوں کو دین حنیف کی طرف بلاتے رہے اور جواباً دنیا کیا کہہ رہی ہے اس کی پرواہ تک نہ کی اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ خالق عزت اللہ ہے اور بھلائی کی دعوت دینا یہ ہماری ذمہ داری ہے۔
حرص و دنیا کی لالچ میں اندھی قوم اور ’’دنیا ہی کے لئے جینا دنیا ہی کے لئے مرنا‘‘ اس ضابطہ پر عمل کرنے والی قوم یہ تصور کر تی رہی کہ نصیحت کے عوض میں انبیائِ کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام شاید ہمیں دعوتِ اسلام دے کر اور دین کی اعلیٰ قدروں سے آشنا کرا کر کچھ مال و منفعت کے خواہش مند ہوں گے تو دولت و ثروت کی لالچ دے کر دعوتِ دین کے فروغ کو روکنے کے لئے انہوں نے کوشش کی حتی کہ تاجدارِ کائنات ا سے جزیرۃ العرب کی جو زمین اور جو دوشیزہ پسند ہو اس کی پیش کش کی گئی لیکن معبودِ برحق کے فرستادہ پیغمبر دردِ انسانیت سے لبریز سینہ لے کر جس مقصد کے تحت اس فرشِ گیتی پر تشریف لائے تھے اس مقصد کو کیسے چھوڑ سکتے تھے، چنانچہ ان کے شکوک و شبہات کو رفع کرتے ہوئے اللہ کے پیارے محبوب ا نے صاف لفظوں میں فرمایا ’’لَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِیْ الْقُرْبٰی‘‘ اور واضح کر دیا کہ مال و زر کی حرص تو بہت دور کی بات ہے اگر چاند و سورج بھی میرے ہاتھوں میں رکھ دئے جائیں تو بھی لمحے بھر کے لئے میں اپنے مقصد سے انحراف نہیں کر سکتا۔
ارے جس رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اللہ اپنے خزانوں کی کنجیاں عطا فرمادے اور جس کے ارد گرد پہاڑ سونے اور چاندی کے بن کر چلنے کے لئے تیار ہوں اسے کسی انسان سے مال و دولت کی کیا حاجت۔ سچ کہا ہے بریلی کے تاجدار نے ؎
مالکِ کونین ہیں وہ پاس کچھ رکھتے نہیں
دو جہاں کی نعمتیں ہیں ان کے خالی ہاتھ میں
رسولِ معظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی شفقت ، رحمت اور بے غرضی سے انسانوں کے دلوں کا تزکیہ فرمایا اور دیکھتے دیکھتے تیئیس سال کی قلیل مدت میں ایک لاکھ سے زائد انسانوں کو شربتِ اسلام پلا کر نشۂ اسلام میں مخمور کر دیا اور وہ لوگ جن کے دل اتنے سخت تھے کہ جنہیں بچیوں کے زندہ در گور کرنے پر احساسِ جرم تک نہ تھا ان کے دلوں میں یتیم بچیوں کی پرورش کرنے کا جذبہ پیدا کرکے یہ واضح کر دیا کہ اسلام ہی وہ سچا مذہب ہے جس کے ایک ایک حکم میں ہزارہا بھلائیاں اللہ نے رکھی ہے ۔ چوں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اللہ کے آخری نبی بن کر تشریف لائے تھے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد کسی نبی کا آنا تو ممکن نہ تھا تو اللہ عزوجل نے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذریعہ فروغِ اسلام کا کام لیا، ان کے بعد تابعین نے یہ ذمہ داری سنبھالی اور پھر تبعِ تابعین نے ۔ غرض کہ خلافتِ راشدہ کے بعد چوں کہ ملوکیت کے دور کا آغاز ہو چکا تھا لہٰذا جو کام خلیفۂ وقت کیا کرتے اور مضطرب انسانوں کو قانونِ اسلام کا پابند کر کے اطمینان و چین کی دولت سے مالا مال فرماتے، وہ کام آہستہ آہستہ ملوکیت کے عروج کے ساتھ ساتھ مدہم پڑتا رہا۔ چوں کہ اسلام خیر خواہی کا مذہب ہے اس لئے بھٹکے ہوئے انسانوں کی خیر خواہی کےلیے اللہ کے وہ بندے جن کو رب نے اپنی دوستی کا تاج عطا فرمایا وہ میدانِ عمل میں کود پڑے اور اپنے پاکیزہ کردار کے ذریعہ اور بے لوثی کے ذریعہ مخلوقِ خدا کی وہ خدمت کی اور ایسا بھلا چاہا کہ دنیا ان کے حسنِ اخلاق و خیر خواہی سے متاثر ہو کر دامنِ اسلام میں پناہ لینے لگی۔ انہیں اولیاء میں سلطان الہند، عطائے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، خواجۂ خواجگاں معین الدین چشتی علیہ الرحمہ ہیں جن کے وصال کو آج صدیاں گزر گئیں لیکن آج بھی دکھی انسانوں کی خیر خواہی اور مضطرب انسانوں کو چین کی دولت اپنے مزارِ پر انوار سے بانٹتے نظر آتے ہیں۔(چشتی)
خواجۂ خواجگاں ، خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمۃ و الرضوان اپنی مرضی سے ہند کی زمین پر تشریف نہیں لائے بلکہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انہیں سلطان الہند بنا کر ہندوستان کی سرزمین پر اجمیر کے علاقے میں جانے کا حکم عطا فرمایا ۔ ہند کی سرحد میں داخل ہونے سے پہلے شہاب الدین غوری کی شکست خوردہ فوج کا ایک سپاہی جو پرتھوی راج سے شکست خوردہ فوج کا ایک سپاہی تھا، اس نے غریب نواز کو جب دیکھا کہ آپ عازمِ اجمیر ہیں تو عرض کرنے لگا اے اللہ کے برگزیدہ بندے! خدا کےلیے تم اجمیر نہ جاٶ ، ابھی ہم پرتھوی راج کی فوج سے شکست کھا کر لوٹ رہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے ساتھ کوئی برا سلوک وہ کر بیٹھے لہٰذا میری گزارش ہے کہ آپ اجمیر کا ارادہ ترک کر دو ۔
سلطان الہند غریب نواز علیہ الرحمہ نے اس کے کلمات جب سنے تو آپ کا عشق الٰہی جوش میں آیا اور برجستہ آپ نے ارشاد فرمایا ’’اے شہاب الدین غوری کی شکست خوردہ فوج کے سپاہی! کان کھول کر سن لے، تم لوگ جب چلے تھے تو تلواروں کے بھروسے پر اور معین الدین چلا ہے تو اللہ کے بھروسے پر ‘‘ کچھ ہی دنوں میں دنیا نے دیکھ لیا کہ بوسیدہ لباس میں ملبوس اور اللہ کے رنگ میں رنگے ہوئے اس عاشق نے صرف اجمیر کی دھرتی ہی کو تکبیر کے لاہوتی نغموں سے مسحور نہ کیا بلکہ لاکھوں انسانوں کے دلوںمیں شمعِ اسلام کو جلا کر یہ واضح کر دیا کہ جب بھی مادی طاقتوں کا مقابلہ روحانی طاقتوں سے ہوا تو اللہ عزوجل نے اپنے فرمان ’’قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی‘‘ کے مطابق کامیابی انہیں کو عطا فرمائی جن کا دل یادِ الٰہی اور یادِ رسول ا اور دردِ امت میں تڑپتا ہے ۔
حضرت خواجہ خاندانِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وہ روشن چراغ ہیں جس کی نورانی شعاعوں نے نہ صرف سر زمینِ ایشیا میں ہزاروں قلوب کو نورِ توحید و ضیائے معرفت سے منور کر دیا بلکہ تمام عالم میں اپنی لا زوال روشنی پھیلا دی، آپ کے آباء و اجداد کو علم و فضل، زہد و تقویٰ اور حق شناسی و خدا رسی میں طرۂ امتیاز حاصل رہا ہے، جس طرح سرورِ عالم ا کا شجرۂ نسب حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور ا تک نہ صرف جاہلیت سے پاک و صاف ہے بلکہ ہدایت خلق کےلیے بعض انبیاء علیہم السلام کا بھی حامل ہے، اسی طرح آپ کا نسب نامہ رسول خدا ا سے لے کر آپ کی ذات اقدس تک نہ صرف دینداری اور پرہیزگاری میں ممتاز ہے بلکہ اس میں مخلوق کی رہبری کےلیے بعض اماموں کی مقدس شخصیتیں بھی نظر آتی ہیں، یہ حضرات فقر و درویشی اور بزرگی میں یگانۂ روزگار ہوئے ہیں۔ آپ کے شجرہ میں بہت سے اختلافات ہیں مگر یہ امر مسلمہ ہے کہ آپ بلحاظ نسب نامۂ پدری حسینی ہیں اور بموجبِ شجرۂ مادری حسنی ہیں ۔
غوث الاعظم سے قرابت : حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلی المعروف بہ غوث پاک حضرت عبداللہ الحنبلی کے پوتے ہیں اور غریب نواز کی والدہ ماجدہ بی بی ماہِ نور حضرت عبداللہ الحنبلی کی پوتی ہیں۔ ان ہر دو کے والد آپس میں بھائی ہیں۔ اس رشتہ سے غریب نوازکی والدہ غوث الاعظم کی چچا زاد بہن ہیں اور غوث پاک غریب نواز کے ماموں ہیں۔ ایک دوسرے رشتہ سے غریب نواز اور غوثِ پاک آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں، تیسرے رشتہ سے غریب نواز غوث الاعظم کے ماموں ہوتے ہیں۔ ان رشتوں کی مطابقت اس طرح ہو جاتی ہے کہ غوثِ پاک کی والدہ غریب نواز کی ننہالی رشتہ میں خالہ اور ددھیالی رشتہ میں بہن ہیں ۔
آپ کی جائے ولادت میں اختلاف ہے ، مؤلف سیر العارفین نے آپ کا مولد سجستان لکھا ہے۔ بعض نے سنجار متصل موصل لکھا ہے۔ بعض نے متصل اصفہان سنجر لکھا ہے۔ مگر صحیح یہ ہے کہ حسبِ سیر الاقطاب آپ کا آبائی وطن سنجرستان (صوبہ سجستان یعنی سنجر یا سیسان ہے اور جائے ولادت صفاہان (اصفہان) ہے لیکن آپ کی بود و باش سنجان میں رہی جو سنجر کے نام سے مشہور ہے بقولِ ابوالفضل یہ قصبہ سنجر سیسان سے متعلق ہے۔ یہاں آپ کے خاندان کے افراد اب تک موجود ہیں، اس کے گرد پہاڑ ہیں پھل بکثرت ہوتے ہیں باشندگان نیک خصلت ہیں ۔
خلفائے عباسیہ سادات پر مظالم کرتے تھے اس لیے اغلب گمان ہے کہ آپ کے اجداد نے ان کے مظالم سے تنگ آکر دارالخلافت بغداد سے دور سنجر (جس کو ابوالفضل نے سنکر یا سنگر لکھا ہے اور گاف کو جیم سے بدل کر آپ کو سنجری لکھا ہے) میں اقامت اختیار کر لی تھی مگر آپ کی ولادت کے موقع پر آپ کی والدہ اصفہان میں تھیں۔ اس سیستان کے سنجری خاندانِ رسالت کی جائے قیام آبائی سابقہ نسبت مکانی کی وجہ سے اصفہان میں بھی سنجر (اصفہان کا مضافاتی محلہ) کہلائی۔
تاریخ و سنہ ولادت : آپ کی ولادت کے مختلف سنین ۵۲۳ھ اور ۵۳۷ھ کے درمیان لکھے گئے ہیں مگر بحوالہ کلمات الصادقین مؤلف مرأت الاسرار نے آپ کا بعمر ۹۷ سال ۶۲۷ھ میں وصال پانا لکھا ہے ۶۲۷ میں سے ۹۷ سال عمر کے کم کر دینے سے آپ کا سنہ ولادت ۵۳۰ھ بر آمد ہوتا ہے یہی سالِ ولادت مؤلف مرأت الانساب (ص:۱۶۰) اور خاندان زبیر کبنوی (جلد اول ص:۳۱۶) وغیرہ نے لکھا ہے۔ مرقعہ خواجگان نے ص:۱۱ پر بحوالہ آئینہ تصوف اور بعض دوسرے تذکرہ نویسوں نے آپ کی تاریخِ ولادت ۹؍جمادی الثانی لکھی ہے۔ ۵۳۰ھ کی یہ تاریخ ۱۵؍مارچ ۱۱۳۶ء روز یکشنبہ سے مطابقت کرتی ہے ۔
بعض کے نزدیک آپ کا پورا نام معین الدین حسن ہے مگر بعض کے نزدیک معین الدین ہے اور والدین کے پکارنے کا مختصر نام حسن ہے۔ بعدِ وصال آپ کی پیشانی پر بخط نور ’’ہٰذَا حَبِیْبُ اللّٰہِ‘‘ مرقوم تھا۔ اس لئے یہ دربارِ ایزدی سے عطا کردہ خطاب سمجھا جاتا ہے۔مدینہ منورہ پہنچ کر جب آپ نے دربارِ رسالت میں سلام پیش کیا تو جوابِ سلام کے ساتھ قطب مشائخ بر و بحر کا خطاب عطا ہوا۔ چوں کہ آپ نے ہندوستان میں بفیض رسالت محمدی نبیوں کی طرح خدمت انجام دیں اس لئے بعض پرانے تذکروں میں آپ کا خطاب ہند النبی مرقوم ہے۔ عام طور سے لوگ آپ کو عطائے رسول، خواجہ اجمیر، خواجہ بزرگ ہند الولی، غریب نواز، سلطان الہند، نائب رسول فی الہند و غیرہ کے خطابات سے یاد کرتے ہیں۔بعض حضرات فاتحہ کے موقعہ پر آپ کے نام کے ساتھ تاج المقربین و المحققین، سید العابدین، تاج العاشقین، برہان الواصلین، آفتابِ جہاں، رحمتِ ہندوستاں، پناہِ بے کساں، دلیل العارفین کے القاب لگاتے ہیں ۔
چشتی کہلانے کی وجہ تسمیہ : یہ خیال غلط ہے کہ چشتی سلسلہ حضرتِ خواجہ غریب نواز سے شروع ہوا بلکہ اس کی ابتدا حضرتِ خواجہ ابواسحاق سے ہوئی، مبدأ و منشأ چشتیاں حضرت خواجہ ابواسحاق شامی جب بقصدِ حصولِ بیت حضرت خواجہ ممشادعلودینوری کے یہاں بغداد میں حاضر ہوئے اور شرفِ بیعت و ارادت سے مشرف ہوئے تو حضرت خواجہ ممشاد علودینوری رحمۃ اللہ علیہ نے دریافت فرمایا ’’تیرا نام کیا ہے؟‘‘ عرض کیا اس عاجز کو ابو اسحاق شامی کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا آج سے ہم تجھ کو ابو اسحاق چشتی کہیں گے اور جو تیرے سلسلۂ ارادت میں تا قیامِ قیامت داخل ہوگا وہ بھی چشتی کہلائے گا۔ پس حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی حسبِ فرمانِ مرشد چشت (شاقلان جو ہرات سے تیس کوس ہے) میں تشریف لائے اور رشد و ہدایت میں مصروف ہوئے۔ آپ کے سلسلہ کے بزرگان میں سے حضرت خواجہ ابو احمد چشتی، حضرت خواجہ محمد چشتی، حضرت خواجہ ابو یوسف چشتی اور حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی بھی چشت میں قیام پذیر ہو کر مدفون ہوئے بایں وجہ یہ سلسلہ چشتی کے نام سے مشہور ہوا چوں کہ مذکورہ بالا حضرات حضور خواجہ غریب نواز کے پیرانِ سلسلہ ہیں اس لئے حضرت خواجہ غریب نواز بھی چشتی کہلائے ۔ آپ کا عہدِ طفلی عام بچوں جیسا نہ تھا بلکہ ایامِ رضاعت تک میں شانِ غریب نوازی کا اظہار فرماتے تھے ’’بزمانۂ رضاعت جب کوئی عورت اپنا بچہ لے کر آپ کے یہاں آ جاتی اور اس کا بچہ دودھ کے لئے روتا تو آپ کا اشارہ سمجھ جاتیں اور آپ کا دودھ اسے پلا دیتیں۔ اس نظارے سے آپ بہت بہت خوش ہوتے اور فرطِ مسرت سے ہنستے۔ تین چار سال کی عمر کے زمانہ میں آپ اپنے ہم عمر بچوں کو بلاتے اور انہیں کھانا کھلاتے ۔ ایک عید کے موقع پر حضرتِ خواجہ بزمانہ صغرِ سنی عمدہ لباس پہنے ہوئے نماز کےلیے جا رہے تھے، راستے میں آپ نے ایک نابینا لڑکے کو پھٹے پرانے کپڑوں میں دیکھا، آپ کو اس پر رحم آیا اسی وقت اپنے کپڑے اتار کر اس بچے کو دے دئے اور اس کو اپنے ساتھ عید گاہ لے گئے۔ آپ اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کبھی کھیل کود میں شریک نہ ہوتے تھے ۔ آپ کی نشو و نما خراسان میں ہوٸی ، ابتدائی تعلیم کے متعلق کتابوں میں تفصیلات نہیں ہیں مگر حال کے ایک تذکرہ میں لکھا ہے کہ ابتدائی تعلیم آپ نے گھر پر حاصل کی۔ نو سال کی عمر میں قرآنِ مجید حفظ کیا بعد ازآں آپ سنجر کے مدرسے میں داخل ہو گئے یہاں آپ نے تفسیر، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی اور تھوڑے عرصے میں بہت علم حاصل کر لیا ۔ ایک دن آپ اپنے باغ کو سیراب کر رہے تھے کہ اپنے وقت کے مشہور مجذوب حضرت ابراہیم قندوری کا وہاں سے گزر ہوا۔ حضرت خواجہ نے نہایت عزت و احترام کے ساتھ انہیں بٹھایا اور خوشۂ انگور سے ان کی تواضع کی۔ خواجہ کے حسنِ سلوک سے مجذوب کا دل خوش ہو گیا انہوں نے اپنی بغل سے سوکھی ہوئی روٹی کا ایک ٹکڑا نکالا اور دانت سے چبا کر حضرت خواجہ کو دیا، اسے کھاتے ہی دل کی حالت بدل گئی، کیف و سر مستی کے عالم میں باغ و پن چکی فروخت کر کے ساری قیمت فقراء اور مساکین میں تقسیم کر دی اور خراسان کی طرف نکل گئے ۔ (ماہنامہ استقامت کا اولیاء نمبر جولائی ۱۹۷۷ء صفحہ ۶۳،چشتی)
سَرزمینِ ہِند میں جہاں عرصۂ دراز سے کفر و شرک کا دَوْر دَوْرَہ تھا ، اور ظُلْم و جَوْر کی فَضا قائم تھی اور لوگ اَخلاق و کِردار کی پستی کا شِکار تھے ۔ اِس خطّے کے لوگوں کو نورِ ہدایت سے روشناس کروانے ، ظُلْم وسِتَم سے نجات دلانے اور لوگوں کے عقائد و اَعمال کی اِصلاح کرنے والے بُزرگانِ دین میں حضرت خواجہ مُعینُ الدِّین سیّدحَسَن چشتی اَجمیری رَحْمَۃُ اللہ علیہ کا اِسمِ گرامی بہت نُمایاں ہے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہ علیہ کی وِلادت 537 ھجری بمطابق 1142 عیسوی کو سِجِسْتان یا سِیْسْتان کے علاقے سَنْجَر میں ایک پاکیزہ اور علمی گھرانے میں ہوئی ۔ (اقتباس الانوار صفحہ 345) ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہ علیہ سر زمینِ ہِند تشریف لائے اور اَجمیر شریف (راجِستھان) کو اپنا مُسْتَقِل مسکن بناتے ہوئے دینِ اسلام کی تَرْوِیج و اِشَاعَت کا آغاز فرمایا ۔ خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی دینی خدمات میں سب سے اَہَم کارنامہ یہ ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنے اَخْلاق ، کِرْدَاراور گُفْتَار سے اس خطّے میں اسلام کا بول بالا فرمایا ۔ لاکھوں لوگ آپ کی نگاہِ فیض سے متاثّر ہو کرکفر کی اندھیریوں سے نکل کر اسلام کے نور میں داخل ہو گئے ، یہاں تک کہ جادوگر سادھو رام ، سادو اَجے پال اور حاکم سبزوار جیسے ظالم و سَرْکَش بھی آپ کے حلقۂ اِرادت (مریدوں) میں شامل ہو گئے ۔ (معین الہند حضرت خواجہ معین الدین اجمیری صفحہ 56)
ہِندمیں خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہ علیہ کی آمد ایک زبردست اسلامی ، روحانی اور سماجی اِنقلاب کا پَیْش خَیْمَہ ثابت ہوئی ۔ خواجہ غریب نواز ہی کے طُفیل ہِندمیں سِلسِلۂ چِشتیہ کا آغازہوا ۔ (تاریخ مشائخ چشت صفحہ 136)
آپ رَحْمَۃُ اللہ علیہ نے اِصلاح و تبلیغ کے ذریعے تَلَامِذَہ و خُلَفَا کی ایسی جماعت تیار کی جس نے بَرِّاعظیم (پاک و ہند) کے کونے کونے میں خدمتِ دین کا عظیم فَرِیْضہ سَرْ اَنْجَام دیا ۔ دِہلی میں آپ کے خلیفہ حضرت شیخ قُطْبُ الدِّین بَخْتیار کاکی رَحْمَۃُ اللہ علیہ نے اور ناگور میں قاضی حمیدُ الدِّین ناگوری رَحْمَۃُ اللہ علیہ نے خدمتِ دین کے فرائض سَر اَنْجَام دیے ۔ (تاریخ مشائخ چشت صفحہ 139 تا 142)
خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہ علیہ کے اس مِشَنْ کو عُرُوْج تک پہنچانے میں آپ کے خُلَفَا کے خُلَفَانے بھی بھر پور حصّہ ملایا ، حضرت بابا فرید گَنْجِ شَکَر رَحْمَۃُ اللہ علیہ نے پاکپتن کو ، شیخ جمالُ الدِّین ہَانْسْوی رَحْمَۃُ اللہ علیہ نے ہَانْسی کو اور شیخ نِظامُ الدِّین اَوْلِیا رَحْمَۃُ اللہ علیہ نے دِہلی کو مرکز بنا کر اِصلاح و تبلیغ کی خدمت سَرْ اَنْجَام دی ۔ (تاریخ مشائخ چشت صفحہ 147 تا 156)
خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہ علیہ نے تحریر و تصنیف کے ذریعے بھی اِشاعتِ دین اور مخلوقِ خدا کی اِصلاح کا فریضہ سر اَنجام دیا ۔ آپ کی تصانیف میں اَنِیْسُ الاَرْوَاح ، کَشْفُ الاَسْرَار ، گَنْجُ الاَسْرَار اور دیوانِ مُعِیْن کا تذکرہ ملتا ہے ۔ (معین الہند حضرت خواجہ معین الدین اجمیری صفحہ 103،چشتی)
خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہ علیہ نےتقریباً 45 سال سر زمینِ ہِند پر دینِ اِسْلام کی خدمت سَرْاَنْجَام دی اور ہِند کےظُلْمت کَدے میں اسلام کا اُجالا پھیلایا ۔ آپ کا وِصال 6 رجب627ھ کو اَجمیر شریف (راجِستھان ، ہند) میں ہوا اور یہیں مزارشریف بنا ۔ آج برِّ عظیم پاک و ہِند میں ایمان واسلام کی جو بہار نظر آرہی ہے اِس میں حضرت خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہ علیہ کی سعی بے مثال کا بھی بہت بڑا حصہ ہے ۔
ملفوظات ، اولیاء و صالحین کے اس دلنشین کلام کو کہا جاتا ہے جو وہ تشنگانِ علم و عرفان کے سامنے اپنے گہرے مشاہدات و تجربات اور علوم و معارف لدنیہ کی روشنی میں پیش کرتے ہیں اور جن کے جمع کرنے کا اہتمام ہمیشہ سے ہوتا چلا آرہا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زبانِ گہربار سے جو موتی نکلے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شانِ عشق نے بڑے اہتمام کے ساتھ اسے ضبط فرمایا اور پوری امانت و دیانت کے ساتھ آنے والی نسلوں کے سپرد کیا ، ان موتیو ں کا نام اصطلاح شریعت میں ’حدیث‘ ہے جو قرآنِ حکیم کی علمی اور عملی تشریح بھی ہے اور اسلامی اصولوں میں سے قرآنِ حکیم کے بعد دوسری بڑی بنیاد بھی ، یعنی وہ بڑی بنیاد جس پر اسلام کی عمارت قائم ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد صحابہ کرام ، تابعین ، فقہائے کرام اور اولیاء کرام رضی اللہ عنہم نسلاً بعد نسل اسلام کی دعوت کو نئے نئے اسلوب کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتے رہے ، ان کی پر اثر باتوں سے دلوں کا میل دھلتا رہا، اعمالِ حسنہ اور مضر رسوم و رواج کے درمیان تمیز قائم ہوتی رہی اور حق کی وضاحت کا عمل مسلسل جاری رہا، اولیا اللہ کی مختصر مگر دلنشین باتیں لوگوں میں حیران کن انقلاب برپا کرتی رہیں اور ان کی بدولت مسلمانوں کی تعلیم و تربیت اور ان کے تزکیہ نفوس میں بہت گہرے اور دور رس نتائج اور اثرات مرتب ہوئے اور یہ انہیں صاحبِ دل، صاحب علم و عمل، بوریا نشین،درویشانِ خدا مست کی باتوں کا اثر ہے کہ مرور زمانہ کے باوجود دین کی عملی و علمی شکل بالکل نکھری ہوئی ہے اور آج بھی اخلاص کے ساتھ عمل کرنے والے کیلئے دین حق پوری طرح واضح ہے، اولیاء اللہ کی انہیں دلنشین باتوں کا دوسرا نام ’ملفوظات‘ ہے ۔ ملفوظات کے اس لامتناہی اور طویل سلسلے کی اک اہم کڑی ہے ملفوظاتِ خواجہ الہند معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ جو "دلیل العارفین” کے نام سے مشہور و معروف ہیں ۔
عظیم مبلغ اسلام اور جلیل القدر صوفی حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری کے ایک نہایت اہم بزرگ ہیں ۔ آپ برِّصغیر پاک و ہند میں سلسلہَ چشت کے بانی تصور کئے جاتے ہیں اور ’سلطان الہند‘ اور ’غریب نواز‘ کے القاب سے مشہور ہیں ۔ آپ ہندوستان میں اسلام کے اولین مبلغین میں سے تھے اور آپ کی کاوشوں سے لاکھوں افراد دائرہَ اسلام میں داخل ہوئے ۔
ابوالحسن علی ندویدیوبندی لکھتا ہے : ہندوستان میں جو کچھ خدا کا نام لیا اور اسلام کا کام کیا گیاوہ سب چشتیوں اور ان کے مخلص اور عالی ہمت بانیِ سلسلہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے حسنات اور کارناموں میں شمارکئے جانے کے قابل ہے ۔ (تاریخ دعوت و عزیمت جلد ۳ صفحہ ۹۲)
نیز ابو الفضل اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’آئینِ اکبری‘ میں لکھتا ہے : [آپ] اجمیر میں عزلت گزیں ہوئے اور اسلام کا چراغ بڑی آب و تاب سے روشن کیا ، ان کے انفاسِ قدسیہ سے جوق در جوق انسانوں نے ایمان کی دولت پائی ۔ (بحوالہ تاریخ دعوت و عزیمت جلد۳:۰۳)
تبلیغِ اسلام کے مشن کے دوران آپ نے لمبے لمبے سفر کئے،آپ کے پیروں میں سوجن اور چھالے پڑگئے ۔ آپ نے تزکیہ نفس، اصلاح اخلاق اور روحانی تربیت کا مرکز اپنی خانقاہ کو بنایا اور اسلامی معاشرے کو مستحکم اور مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی انتھک کاوشیں کیں ۔ آپ نے اہل ہند کی زبان سیکھ کر اسے ابلاغ کا ذریعہ بنایا اور یوں لسانی عصبیت پر ضرب کاری لگائی ۔ (شرح دیوانِ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری : محمد علی چراغ : صفحہ ٣٠،چشتی)
اپنے روحانی کمالات اور علمی و اخلاقی طریقہَ تبلیغ سے آپ نے شمشیرِ کردار سے دلوں کو فتح کیا اور اقلیم ولایت کے ’سلطان‘ تسلیم ہوئے ۔ اپنی مومنانہ بصیرت و اعلیٰ اخلاق سے آپ لوگوں کو سادہ اور سیدھی نصیحتیں کرنے لگے اور اپنی اصلاحی مجالس سے دعوتِ دین کا کام کرنے لگے ۔ آپ نے دعوت الی اللہ کے کام کو قرآن مجید کے علم و حکمت اور تزکیہ و تصفیہ پر مبنی منہج پرچلانے کا عزم کیا اور اخلاص و امید سے اپنے کام کا آغاز کیا ۔ آپ نے دعوت و اصلاح کے کام کو قرآنی خطوط پر چلانے کی مخلص کوشش کی ، ایسا لگتا ہے کہ اللہ تعلی کا یہ فرمان ہمیشہ ان کے زیرِ نظر رہا ہے : اُدعُ اِلیٰ سَبِیلِ رَبِّکَ بِا الحِکمَۃِ وَالمَوعِظَۃِ الحَسَنَۃِ وَجَا دِلھُم بِا الَّتِی ھِیَ اَحسَنُ ط ۔ (۶۱:۵۲) ۔ ترجمہ: آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث بھی ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو ۔
حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے لیے حسین طرزِ تبلیغ کا انتخاب کیا جس میں علم و حکمت بھی ہے اور حسنِ کردار بھی، دلائل کی جولانی بھی اور روحانی اُبھار بھی ۔ ان ہی جیسے نفیس گلوں سے ان کے ملفوظات کا چمن بھی سر سبز و شاداب ہے ۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کےملفوظات کو دلیل العارفین کے نام سے ان کے مریدِ خاص اور علمی و روحانی جانشین حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اوشی رحمۃ اللہ علیہ نے مرتب فرمایا اور راہِ سلوک کے مسافروں پر احسانِ عظیم فرمایا ۔ دلیل العارفین حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی بارہ علمی و عرفانی مختصر مجالس پر مشتمل ہے جن کو مرتِب نے چارقسموں میں منقسم فرمایا ہے،فقر و صواب،مکتوبات و تسبیح،اوراد و وظائف اور فوائدِ سلوک ۔
اپنی پہلی مجلس کا آغاز ہی حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی رحمۃ اللہ علیہ اس سہانی گھڑی کے تذکرہ سے کرتے ہیں جب انکی حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ بیعت ہوئی جو ان کی زندگی کو ایک نئے رخ کی طرف لے گئی ۔ اپنے آپ کو حضرت خواجہ کے غلاموں میں سے ایک غلام کے طور پر پیش کرتے ہوئے وہ انکی قدم بوسی اور انکی مجالس میں شرکت کو اپنے لئے سرمایہَ افتخار قرار دیتے ہیں ۔ اس سے یہ صوفانہ اصول نکھر کر سامنے آتا ہے کہ احترام و تعظیم مرشد کے بغیر سالک ایک قدم بھی آ گے نہیں بڑھ سکتایوں نسبتِ شیخ سے دل کے اندھیروں میں علم و عرفان کا چراغ ضوفشانی کرتا ہے ۔ اسی مجلسِ اول میں حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ ایک جملہ بیان فرماتے ہیں جو اسلامی تصوف کا زریں اصول تصور کیا جاتا ہے ، آپ فرماتے ہیں : جو شخص اللہ تعلی کا فرض بجا نہیں لاتا، وہ کبھی اللہ تعلی کے حقوق سے عہدہ برآنہیں ہو سکتا ۔ ۔ ۔ اور جو شخص سنّت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ادا نہیں کرتا اور تجاوز کرتا ہے وہ شفاعتِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بے بہرہ رہے گا ۔۔۔ جس نے کچھ پایا ہے خدمت سے پایا ہے ۔ پس مرید کو لازم ہے کہ پیر کے فرمان سے ذرہ برابر بھی تجاوز نہ کرے۔۔۔شریعت میں ثابت قدم ہو جانے کے بعد دوسرا مرتبہ طریقت ہے ۔ طریقت میں شریعت کے امور بجا لانے کے بعد درجہ معرفت ہے، تو شناخت اور سنائی کا مقام آجاتا ہے، اس مقام پر ثابت قدم ہو جانے کے بعد درجہ حقیقت ہے ۔ یہ وہ مرتبہ ہے کہ جہاں پر جو طلب کیا جاتا ہے وہ پا لیا جاتا ہے ۔ (دلیل العارفین صفحہ ۵،۶،۹،چشتی)
حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے ان سنہرے الفاظ سے ایک طرف تو ہم دور حاضر کے کئی فتنوں سے نپٹ سکتے ہیں تو دوسری طرف یہ نتائج اخذ کر سکتے ہیں : ⬇
۱ ۔ اللہ تعلی کی ذات کو مرکز و محور تصور کرتے ہوئے اسکی بندگی و معرفت کے شعور کو پیدا کرنا سالک کا مقصدِ حیات ہے ۔
۲ ۔ خدا تک رسائی واسطہَ رسالت کے بغیر نا ممکن ہے اور خدا کی عبادت و بندگی وہی قابلِ قبول ہے جو سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے مطابق ہے ۔
۳ ۔ سنّت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے تجاوز کرنا ، حد سے بڑھ جانا افراط و تفریط کے راستہ پر ڈال دیتا ہے جو سالک کو شفاعتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے محروم کر دیتی ہے ۔
۴ ۔ شریعت کی پابندی کے بغیر نہ تو طریقت تک پہنچاجا سکتا ہے اور نہ ہی حقیقت تک ۔
۵ ۔ راہِ سلوک پر قدم قدم پر بھٹکنے اور گمراہ ہو جانے کا اندیشہ رہتا ہے لہذا ایک پابندِ شریعت مرشدکی صحبت ناگزیر ہے اور اس رہبری و رہنمائی کے بغیر حقیقت تک پہنچنا ناممکن ہے ۔
جہاں تک دور حاضر کا تعلق ہے ، ہم خدا پرستی کی جگہ مادہ پرستی، اعتدال کی جگہ افراط و تفریط اور امن کی جگہ خون خرابے کو پروان چڑھتا دیکھتے ہیں ۔ دور حاضر کا انسان اپنی مادی ضروریات و خواہشات کو پورا کرنے میں اپنی زندگی کھپا دیتا ہے اور یوں بے سکونی اور مایوسی کی دلدل میں پھنس کر رہ جاتا ہے ۔ جب ہم آج اپنے سماج پر نظر ڈالتے ہیں تو اکابر کے سلوک و تصوّف کا کہیں نام و نشان نظر نہیں آتا بلکہ اس کے برعکس نفس پرستی، قبر پرستی ، رسم پرستی اور پیر پرستی کے ایک طوفان کو دیکھتے ہیں جس نے صوفیانہ اخلاق و اقدار کو دیمک کی طرح چاٹ کر رکھ دیا ہے اور تصوف کو پیسے بٹورنے اور اپنا کاروبار چمکانے کے آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے ۔ جن اکابر نے خود پسندی کو فنا کر کے خداشناسی کو اپنا حرز جان بنانے کی تلقین کی تھی، آج ان اشخاص کو دیومالائی کردار بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور ان کی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال کردین و شریعت کا مذاق اڑایا جا رہا ہے ۔ کہیں پر تقویٰ و طھارت کا، کہیں پر نماز و وظائف کا، کہیں پر انفاق و صوم کا اور کہیں پر حجِ بیت اللہ کا مذاق اڈایا جاتا ہے ۔ حضرت خواجہ معین الدّین چشتی رحمۃ اللہ علیہ اپنے ملفوضات میں تصوف کو ہمیشہ قرآن و سنّت کے تابع رکھنے کی وکالت کرتے ہیں اور جاہل صوفیوں اور مکاروں سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ آپ علماء اور صوفیاء کے طبقات کو ایک دوسرے سے الگ اور متوازی نہیں سمجھتے بلکہ دونوں سے استفادہ کرنا ناگزیر سمجھتے ہیں ۔ چونکہ دلیل العارفین کی دوسری اور تیسری مجلس میں حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ طھارت اور نماز کے فضائل و مسائل کو موضوعِ سخن بناتے ہیں اور دعوتِ علم و عمل دیتے ہیں تاکہ پروردگار عالم کی خوشنودی حاصل ہو ۔ ساتویں مجلس میں سورہ فاتحہ اور قرآنِ مجید کے فضائل و اسرار پر روشنی ڈالتے ہیں اور قرآن مجید اور دیگر اورادو وظائف کو اپنا حرزِ جان بنانے کی نصیحت کرتے ہیں ۔ نہ صرف وہ عبادات کے باطنی اسرار و رموز پر گفتگو کرتے ہیں بلکہ فقہی اور علمی نکات بھی ساتھ ساتھ بیان کر تے ہیں ۔
حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ تصوف کو خدا پرستی اور خدمتِ خلق کا سنگھم قرار دیتے ہیں ۔ ان کے نزدیک سب سے اعلیٰ عبادت، طاعت کی صورت میں یہ تھی کہ مصیبت زدہ لوگوں کے دکھوں کا مداوا کیا جائے، بے یارو مددگار لوگوں کی ضروریات پوری کی جائیں اور بھوکوں کو کھانا کھلایا جائے کیونکہ یہی قرآنی تعلیمات ہیں ۔ محمد علی چراغ حضرت خواجہ اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں رقمطراز ہیں : آپ اپنے مریدوں کو یہ تعلیم دیتے تھے، کہ وہ اپنے اندر دریا کی سی فیاضی،سورج جیسی گرم جوشی اور ز میں جیسی مہمان نوازی پیدا کریں ۔ (شرح دیوانِ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری;231;: صفحہ ۶۳،چشتی)
ان کی نظر میں خدا کو پہچاننے والا وہی ہے جو دنیا اور اسکے فریبوں سے خود کو بچا کر طاعتِ خالق میں لگ جائے،حضرت خواجہ اجمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : محبت کے چار معنی ہیں :ذکر ِ اللہ میں جی جان سے خوش رہنا، ذکرِ اللہ کو ہی بڑا جاننا ، (طمعِ دنیا سے ) قطع تعلق کرنا،اپنی اور جو کچھ بھی اسکے سوا ہے سب کی حالت پہ رونا، جیسا کہ قرآنِ مجید میں آیا ہے: قُل اِن کَانَ اٰباء کُم وَ اَ بنَا ءَ کُم وَ اِخوَانکُم وَ اَزوَاجکُم ۔ ۔ ۔ الخ ۔ (توبہ : ۴۲)
ترجمہ : آپ فرما دیں : اگرتمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی، اور تمہاری بیویاں اور تمہارے رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جن کو تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ ) اور محبوں کی صفت یہ ہے کہ ان کی محبت ایثار بن جائے، اس کے بعد چار منزلیں طے کریں :محبت، علم ،حیا اور تعظیم ۔ محبت میں سچا وہی ہے جو والدین اور خویش و اقرباء کے بجائے خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے تعلق پیدا کرے، پس محبت کرنے والا وہ شخص ہے جو کلامِ الٰہی کے حکم پر چلے اور اللہ کے ساتھ محبت کے دعوے میں سچا ہو ۔ ۔ ۔ اللہ کی دوستی اس بات سے پیدا ہوتی ہے کہ جن چیزوں کو اللہ دشمن جانتا ہے ان چیزوں سے دشمنی کی جائے یعنی دنیا اور نفس ۔ (دلیل العارفین صفحہ ۳۴)
حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے اس ارشاد کو سامنے رکھا جائے تو شائد ہی آج و لایت کے اَ ن گنت دعوے داروں میں ہمیں آسانی سے کوئی ولی اللہ نظر آئے ۔ ان کی نظر میں تصوف دنیا و مافیہا اور نفسانی خواہشات کو ترک کرنے کا نام ہے کیونکہ ایک سچا طالب صرف اللہ کا طلب گار ہوتا ہے اور کسی دوسری طلب سے وہ مانوس نہیں ہوتا ۔ دیکھا جائے تو دور حاضرکا انسان طلبِ دنیا ، ہوائے نفس اور خود پسندی کا اسیر ہے اور یہی نہ صرف اس کے خدا سے دور ہونے کی وجہ ہے بلکہ اس کے سکونِ قلب کے حاصل نہ ہونے کا سبب بھی ۔ آخر میں خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ رحمہ کی حیات اور ان کے پیغام کو ان کے اس قول میں سمیٹا جا سکتا ہے : عارف آفتاب کی طرح روشن ہوتا ہے ، (اپنی روشنی کسی سے اخذ نہیں کرتا) سارے جہاں کو روشنی بخشتا ہے اور جس کی روشنی سے کوئی چیز خالی نہیں رہتی ۔ (دلیل العارفین صفحہ ۸۴)
"لا الہ الا اللہ چشتی رسول اللہ" کہنے کا حکم اور اس پر مرزا جہلمی اور اُس کے ہمنواٶں کے اعتراض کا علمی و تحقیقی جواب : ⏬
مرزا جہلمی اعتراض کرتے ہوئے لکھتا ہے : علماء کا نظریہ : خواجہ قطب الدین بختیار کاکی صاحب (جو خلیفہ تھے خواجہ معین الدین چشتی صاحب کے) ایک دفعہ ان کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ میں مرید ہونے آیا ہوں ۔ خواجہ صاحب نے فرمایا : جو کچھ ہم کہیں گے کرے گا اگر یہ شرط منظور ہے تو مرید کروں گا ۔ اُس نے کہا جو کچھ آپ کہیں گے وہی کروں گا۔خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے فرمایا:تو کلمہ اسطرح پڑھتا ہے ۔ [لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ] تو اب ایک بار اس طرح پڑھ [لا الہ الا اللہ چشتی رسول اللہ] چونکہ راسخ العقیدہ تھا اس نے فوراً پڑھ دیا ۔خواجہ صاحب نے اس سے بیعت لی اور بہت کچھ خلعت و نعمت عطا فرمایا اور کہا : میں نے فقط تیرا امتحان لیا تھا کہ تجھ کو مجھ سے کس قدر عقیدت ہے ورنہ میر امقصود نہ تھا کہ تجھ سے اس طرح کلمہ پڑھواٶں ۔ [بزرگ(بریلوی+دیوبندی) خواجہ فرید الدین گنج شکر صاحب ، ہشت بہشت (فوائد السالکین) صفحہ ۱۹ شبیر برادرز]
وحی کا فیصلہ : ترجمہ صحیح حدیث:سیدنا عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:اسلام کی بنیاد ۵ چیزوں پر رکھی گئی ہے:۱ گواہی دینا(لا الہ الا اللہ) اور یہ کہ (محمد رسول اللہ ﷺ) اور ۲۔نماز قائم کرنا ،اور ۳ زکوٰۃ ادا کرنا،اور ۴ حج کرنا اور ۵ رمضان کے روزے رکھنا ۔[صحیح بخاری کتاب الایمان حدیث نمبر ۸،صحیح مسلم کتاب الایمان حدیث نمبر ۱۱۳]
جواب : فقیر چشتی کی رائے میں اس انداز میں یہ جملہ خواجہ فریدالدین رحمۃ اللہ علیہ کے توسط سے خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کرنا درست نہیں ۔ یہ جملہ نہ خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ بول سکتے ہیں اور نہ خواجہ فریدالدین رحمۃ اللہ علیہ لکھ سکتے ہیں ۔ ہمیں اپنے بزرگوں سے ایسی توقع ہے اور نہ ہی ان کی طرف منسوب ایسی باتیں درست ہیں ۔ جس نے بھی یہ جملہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کیا ہے اس نے کذب بیانی کی ہے ۔ اگر یہ کسی کتاب میں ہے تو اسے نکال باہر کرنا چاہیے ۔ ہمارا معیار کتاب و سنت ہے ، جو چیز بھی اس کے موافق ہوگی ہم قبول کریں گے اور جو کسی بھی طرح ان سے ٹکرائے گی ہم اسے مسترد کریں گے ۔ جو حضرت خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ۔ چشتی رسول اللہ والا ملفوظ وضعی ہے فواد الفواد شریف میں نہیں ہے ۔ اس کا ذکر شاید سب سے پہلےحضرت نصیر الدین چراغ دھلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات میں ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کسی نے بہت بعد میں یا اردو ترجمہ کرتے ہوٸے حضرت نصیر الدین چراغ دھلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات میں داخل کیا ہے ۔ وجوہات درج ذیل ہیں : ⬇
(1) خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے عہد میں یہ سلسلہ ابھی چشتی کے نا م سے معروف ہی نہیں تھا ۔
(2) آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے نامی کے ساتھ کبھی چشتی استعمال ہی نہیں فرمایا ۔
(3) اس زمانے میں عموماً بزرگان دین اور اہلِ علم اپنے نام کے ساتھ شہروں یا خطوں کے نام سے پہچانے جاتے تھے ۔
(4) آپ معین الدین حسن سنجری یا سجزی رحمۃ اللہ علیہ سے معروف تھے ۔
(5) جو دیوان آپ رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب کیا جاتا ہے اس میں معینی تخلص سے ۔
(6) اگرچہ حضرت علو ممشاد دینوری رحمۃ اللہ علیہ کی بشارت میں سلسلہ کے نام کی بھی پیشین گوئی ہے لیکن بطور سلسلہ یہ نام بہت بعد میں رائج ہوا ۔
(7) شروع میں جو مشائخ قصبہ چشت صوبہ ہرات سے تعلق رکھتے تھے وہ اور ان کی اولاد چشتی کہلاتی تھی ۔
(8) حضرت خواجہ قطب الدین مودو چشتی رحمۃ اللہ علیہ سے یہ سلسلہ حضرت حاجی شریف زندنی رحمۃ اللہ علیہ سے ملا ان سے حضرت حضرت عثمان ہرونی رحمۃ اللہ علیہ جو اب ہارونی مستعمل ہے یہ اور ان کے خلفا اپنے نام کے ساتھ چشتی نہ لکھتے یا کہلاتے تھے ۔
(9) بلوچستان اور دکن وغیرہ میں حضرت مودود چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی جو اولاد امجاد آئی وہ بھی بالعموم مودودی کہلاتی ہے ۔
(10) چشتی لفظ کا استعمال ہمیں برصغیر میں سب سے پہلے حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں ملتا ہے اور آج بھی سرائیکی علاقوں میں چشتی سے مراد باوا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد امجاد ہوتی ہے نامور برزگ حضرت سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ جن کے دربار پراکبر حاضر ہوا باوا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں ہیں ۔
(11) خواجہ نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ جب اپنے مشائخ کا ذکر کرتے ہیں تو خواجگان ما یا مشائخ ما سے فرماتے ہیں مشائخ چشت یا خوجگان چشت کا لفظ استعمال ہی نہیں کرتے ۔
(12) سلسلوں کےحوالے سے تشخص برِ صغیر میں غالباً سلاطین کے آخری دور میں شروع ہو گیا اور عہد اکبری تک چار بڑے نام رائج ہو گۓ ۔
(13) حضرت نصیرالدین چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ شرعی امور میں حد درجہ احتیاط کے عادی تھے حتیٰ کہ اس ان معاملات میں کوئی ان کے شیخ کا حوالہ بھی دیتا تو بلاتکلف فرماتے (اس میں) قول شیخ حجت نہیں ہے قرآن اور حدیث سے دلیل لاؤ اور ان کے شیخ حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ ان کی اس بات پر مسرت اور تصدیق بھی فرماتے یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنا محتاط انسان اس ملفوظ کے مضمرات کی طرف متوجہ نہ ہو ۔
جہاں تک تعلق ہے ملفوظات کی کتابوں کا ان پر تو جامعات کی سطع پر تحقیقات ہو چکی ہیں ۔ ڈاکٹر نثار احمد فاروقی ڈاکٹر حبیب احمد ڈاکٹر خلیق نظامی پروفیسر محمد اسلم اور دیگر کئی ایک محقق فواد الفواد کے علاوہ سب کو جعلی سمجھتے ہیں ۔ لیکن علامہ اخلاق حسین دھلوی اور صباح الدین عبدالرحمن ان کے وجود کے تو قائل ہیں لیکن ان میں قطع و برید کے بھی قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ بہت احتیاط سے ان سے بات اخذ کرنی چاہیے ۔ فقیر چشتی کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جب برِ صغیر میں اشرف علی رسول اللہ کے حوالے سے لے دے شروع ہوئی تو بعض لوگوں نے چپکے سے ملفوظات کے ایک مختصر نسبتاً غیر معروف اور اس وقت غیر مطبوعہ مجموعے میں اسے شامل کر دیا تاکہ معاملہ بیلنس ہو جاۓ ۔ اور سب سے پہلے جواباً اس ملوظ کو اجاگر بھی انہوں نے کیا ہے اور طبع بھی ادھر سے ہی ہوا ۔ فافہم ۔ (چشتی)
اس طرح کا ایک قول حضرت ابوبکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ کہ طرف بھی منسوب ہے اب سوال یہ ہے اسے خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی طرف کس مقصد سے جوڑا گیا شاید برِ صغیر کے عوامی مزاج میں ان کی شخصیت اتنی معروف نہیں تھی کہ متاثر کن حوالہ بنے اس لیے خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا نام استعمال کیا ۔ اب مرزا جہلمی اور اُس کے ہمنوا مسلسل یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ یہ بریلویوں کا عقیدہ ہے ۔ بریلویوں کا اس میں کیا عمل دخل ؟ اول تو کتاب کا انتساب ہی مشکوک ہے کب نقل ہوئی کتنے لوگوں سے نقل ہوئی کب پہلی بار منظر عام پر آئی اور کب ترجمہ ہوئی کس نے طبع کی ؟
بریلوی علماء و عوام میں نہ یہ واقعہ رائج ہے نہ محفلوں میں بیان ہوتا ہے نہ ان کے مسلک اور عقیدے کا حصہ ہے اور نہ ہی وہ اسے کسی تاویل سے جائز کہتے ہیں جب کہ خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات و کرامات کا بیان بہت عام بھی ہے ۔ اب کوئی یہ کہے کہ کتاب چھپ کیوں رہی ہے تو اس میں عوام و علماء کا کیا قصور یہاں تو بہت کچھ غیر معیاری چھپ رہا ہے تاجر ۔ جسے سیلز آئٹم سمجھتے ہیں طبع کر دیتے ہیں کوئی ان کا احتیاط سے انتخاب مرتب کردے تو وہ بھی شائع کر دیں گے ۔ کئی کتابیں ایسی ہیں بہت سے لوگوں پورے وثوق اور تیقن سے کہتے ہیں کہ ان کی نہیں ہے یا اکثر حصہ جعلی ہے لیکن چھپ رہی ہیں ۔ اگر مرزا جہلمی اور اُس کے ہمنوا علمی کتابی ہونے کے دعویدار ہیں تو انہیں اعلیٰ پایہ کے محقین کی آراء نظر کیوں نہ آئیں اور انہوں نے علمی دیانت داری سے یہ بیان کیوں نہ کیا کہ یہ علماء و اہلِ تحقیق کا مصدقہ یا متفقہ واقعہ نہں ہے اس مطلب کہ وہ بھی اپنے پیرکاروں میں بس اپنا مطلوبہ مقصد ہی سامنے لاتے ییں تصویر کے دونوں رخ نہیں ۔
اور یہ کہ مرزا جہلمی نے فوائد السالکین کا حوالہ دے کر کون سا اہم کام کر دیا ہے ۔اس حوالہ کی بابت چند معروضات پیش خدمت ہیں ۔
اول : یہ کہ کسی بھی اعتراض کے جواب کئی طرح کے ہوتے ہیں ۔ ایک تحقیقی ۔ دوسرا الزامی اور تیسرا کسی بھی اعتراض کو فرضاً مان کر جواب ۔
دوم : چشتی رسول اللہ کا کلمہ پڑھوانا کسی بھی سند صحیحہ کے ساتھ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ سے ثابت نہیں ۔ اگر اعتراض کرنا ہے تو یہ بات با سند صحیح ثابت کریں ۔ کیونکہ یہ فوائد السالکین نامی کتاب تو حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی اپنی نہیں ہے ۔ (چشتی)
سوم : اگر کوئی یہ جواب دے کہ فوائد السالکین تو حضرت خواجہ قطب الدین کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات ہیں جو ان کے مرید اور خلیفہ حضور فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے جمع کیے ہیں ۔ تو اس بارے میں جواباً عرض یہ ہے کہ فوائد السالکین نامی کتاب کا حضرت قطب الدین کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے طرف انتساب اورحضرت گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کا ان ملفوظات کو جمع کرنا بھی مشکوک ہے غیر معتبر ہے ۔ کیونکہ اس کتاب کے جتنے بھی نسخے ابھی تک دریافت ہوئے یا جن لوگوں نے فوائد السالکین کا انتساب ان لوگوں کی طرف کیا ہے وہ سنداً ثابت نہیں ۔ فوائد الساکین میں درج تمام مجلسیں ۵۸۴ھ کی ہیں ۔ اور کسی نسخہ کے سند نہ تو متصل ہے اور نہ ہی اس دور کا لکھا یا مدون ہونا ثابت ہو سکا ۔ لہٰذا جو کتاب سنداً بھی ثابت نہ ہو تو ایک جید عالمِ دین اور عالمِ باصفا صوفی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف اس عبارت کا انتساب انتہائی جرات مندی ہوگی ۔
چہارم : اگرچہ فوائد السالکین کا انتساب بحیثیت ملفوظاتِ حضرت خوابہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف چند شخصیات نے کیا ہے ۔مگر اس بارے میں عرض یہ کہ اگر یہ احتمال درست مان بھی لیا جائے تو موجود ہ فوائد السالکین میں موجود کلمہ چشتی رسول اللہ کا اس کتاب میں ہونا تحریف اور گڑ بڑ کے علاؤہ کچھ بھی نہیں ۔ کیونکہ موجود دستیاب فوائد السالکین میں بہت ساری باتیں نہ تاریخی طور پر ثابت ہیں اور نہ تحقیقاً ۔ اور بہت سارے واقعات تو گھڑے ہوئے لگتے ہیں ۔ فوائد السالکین نامی موجودہ کتاب میں ایسے واقعات لکھے ہیں جو اس کتاب کے مدون ہونے کے بہت عرصے بعد رونما ہوئے تو یہ کیسے ہو گیا کہ ۵۰ یا ۱۰۰ سال بعد کے واقعے اس کتاب میں بیان کر دیے جائیں ۔ جس سے موجود ہ فوائد السالکین نامی کتاب غیر معتبر اور نا قابل اعتبار ٹھہرتی ہے ۔
لہٰذا تحقیقی طور پر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس کتاب کا انتساب ان بزرگ ہستیوں علیہم الرحمہ کے طرف انتساب جعلی اور موضوع ہے ۔ فوائد السالکین نہ تو خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات ہیں اور نہ ان کے جامع حضرت بابا گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ ہو سکتے ہیں ۔بلکہ صرف یہ کتاب ہی نہیں بلکہ صوفیاء کرام علیہم الرحمہ کے دیگر ملفوظات مثلاً فوائد الفوائد ، اسرار الاولیاء وغیرہ بھی کافی مشکوک اور سنداً غیر ثابت ہیں ۔ (چشتی)
محترم قارئینِ کرام : یہ بات کوئی اچھنبے کی بات نہیں بلکہ زمانہ قدیم سے اہل سنت و جماعت اور صوفیاء کرام علیہم الرحمہ کی کتابوں میں تحریف اور تدسیس ہوتی رہی ہے ۔ ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں کےساتھ بھی یہ ہوا ۔ جبکہ علامہ شعرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کا بر ملا اظہار کیا کہ ان کی حیات میں ان کی کتابوں میں تحریف ہوئی ۔ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اورشاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں کے ساتھ ان کی حیات میں جو ہوا وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ لہٰذا جب تک کوئی بات سنداً ثابت نہ ہو اس پر کسی قسم کا کلام اور اعتراض اصول اور انصاف کے منافی اور جہالت ہے ۔
پنجم : اہل سنت و جماعت نے چشتی رسول اللہ کے کلمہ کا جو جواب دیا ہے [(کہ یہ واقعہ شطیحات کے قبیل میں سے ہے لہٰذا س پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے) ان جوابات سے یہ اخذ کرنا کہ یہ عالم اس بات کوصحیح ثابت سمجھتے ہیں ۔ تو ایسی بات کرنا بھی جہالت ہے کیونکہ ان علماء کرام نے ایسی عبارتوں کو ہرگز صحیح نہیں مانا بلکہ ان کو بالفرض محال صحیح مان کر اس کے جوابات دیے ہیں جو اپنی جگہ پر درست ہیں ۔ مگر یہ بات اپنی جگہ قائم ہے کہ ان بزرگوں سے ایسے اقوال ثابت کرنے کےلیے قطعی ثبوت کی ضرورت ہے ۔ جبکہ دوسری طرف ایسی کتابوں کا انتساب کرنا بھی غلط ہے ۔ دوسری طرف ناشرین حضرات ایسی مشکوک طبع کرواتے ہیں ان کا الزام علماء کرام پر ڈالنا غلط اور لغو ہے ۔ علماء اور مشائخ ایسی کتابوں کے مندرجات سے بری الذمہ ہیں جن کا انتساب صحیح ثابت نہ ہو سکے ۔ اور ان کتابوں سے بری الذمہ ہونے کا اقرار خود اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد مقامات پر فتاویٰ رضویہ میں کیا ہے ۔ اور محدث کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایسی کتابوں کا انتساب ان بزرگان دین کی طرف کرنے پر بڑی شدد سے رد کیا ہے ۔ لہٰذا اہل سنت و جماعت کے علماء پر ایسے اعتراض کرنا جہالت ہے ۔
الزامی جواب : اہل سنت و جماعت پر اگر مخالفین اعتراض کرتے ہیں تو پھر غیر مقلد عالم قاضی سلیمان پوری پر اعتراض کر کے دکھائیں ۔ جنہوں نے خواجہ قطب الدین کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ایک شعر لکھا ہے : ⬇
مرشد کامل است سال وفات
سر تسلیم تاج رفعت یافت
اور حضرت بابا گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لکھا ہے : ⬇
آل شیخ فرید دین و دنیا
گنج شکرو خازنئی اصفیا
اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ الله عليه کے بارے میں لکھا ہے : ⬇
معین الدین حسن آں سید پاک
کہ از سنجر سوئے اجمیر آمد
ز شرع پاک مفتاح بقا یافت
زہیر باغ فانی اُو بقایافت
فقیر چشتی اُمید کرتا ہے کہ قارئین کرام اس تحقیق کو بغور مطالعہ کر کے حق اور سچائی کا ساتھ دیں گے اور مسلک حقہ اہلسنت و جماعت کی طرف اپنی توجہ ضرور مبذول کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان جدید فتوں سے محفوظ فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment