نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چار بیٹیاں ہیں حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّؕ-ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ۔ (سورہ الاحزاب آیت نمبر 59)
ترجمہ : اے نبی ! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیو ں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے او پر ڈالے رکھیں ، یہ اس سے زیادہ نزدیک ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انہیں ستایا نہ جائے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔
مشہور شیعیوں کے تراجم
مقبول احمد شیعہ دہلوی نے ترجمہ کیا : اے نبی تم اپنی ازواج سے ، اور اپنی بیٹیوں سے ، اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو ۔ (مقبول ترجمہ قرآن مجید صفحہ 849)
شیعہ عماد علی شاہ تفسیر عمدۃ البیان مطبوعہ لاہور 1290ھ میں اس آیت کا ترجمہ یوں کرتا ہے : اے پیغمبر بلند کہہ تو واسطے عورتوں اپنی کے ، اور بیٹیوں اپنی کے ، اور عورتوں مؤمنین کی کے ۔
غور فرمائیں ، شیعہ سنی تراجم میں "بَنَاتِکَ" کا ترجمہ بصیغہ جمع ہے، جس سے صاف ظاہر ہے کہ نبی علیہ السلام کی بیٹیاں ایک سے زائد تھیں ۔
یہ آیتِ مبارکہ واضح دلیل ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی ایک سے زائد بیٹیاں تھیں ، کیونکہ اس میں ’’بنات‘‘کا لفظ مستعمل ہے جو کہ ’’بنت‘‘کی جمع ہے ۔ جمع کے کم سے کم تین افراد ہوتے ہیں ۔ کسی خارجی دلیل کے ملنے پر جمع کے اقل افراد دو ہو سکتے ہیں ۔ ایک فرد کے جمع ہونے کا دنیا میں کوئی بھی قائل نہیں ۔ ایک تو مفرد حقیقی ہے ۔ اگر نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی حقیقی بیٹی صرف سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں تو ’’بنات‘‘ کہنے کا کیا معنیٰ ؟
حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا ، نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی سب سے بڑی صاحبزادی ہیں ۔ آپ حضر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئیں ۔ ان کی شادی ابوالعاص بن ربیع سے ہوئی تھی ۔ آپ کے بارے میں حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں : إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ الْمَدِینَۃَ، خَرَجَتِ ابْنَتُہٗ مِنْ مَّکَّۃَ مَعَ بَنِي کِنَانَۃَ، فَخَرَجُوا فِي أَثَرِہَا، فَأَدْرَکَہَا ہَبَّارُ بْنُ الْـأَسْوَدِ، فَلَمْ یَزَلْ یَطْعَنُ بَعِیرَہَا حَتّٰی صَرَعَہَا، فَأَلْقَتْ مَا فِي بَطْنِہَا، وَأُھْرِیْقَتْ دَمًا، فَانْطُلِقَ بِھَا، وَاشْتَجَرَ فِیہَا بَنُو ہَاشِمٍ وَبَنُو أُمَیَّۃَ، فَقَالَتْ بَنُو أُمَیَّۃَ : نَحْنُ أَحَقُّ بِہَا، وَکَانَتْ تَحْتَ ابْنِ عَمِّہِمْ، أَبِي الْعَاصِ بْنِ رَبِیعَۃَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ، فَکَانَتْ عِنْدَ ہِنْدٍ بِنْتِ رَبِیعَۃَ، وَکَانَتْ تَقُولُ لَہَا ہِنْدٌ : ہٰذَا فِي سَبَبِ أَبِیک، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ عَلَیْہِ السَّلَامُ لِزَیْدِ بْنِ حَارِثَۃَ : ’أَلَا تَنْطَلِقُ، فَتَجِيئَ بِزَیْنَبَ؟‘، قَالَ : بَلٰی یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! قَالَ : ’فَخُذْ خَاتَمِي ہٰذَا، فَأَعْطِہَا إِیَّاہُ‘، قَالَ : فَانْطَلَقَ زَیْدٌ، فَلَمْ یَزَلْ یَلْطُفُ وَتَرکَ بَعِیرَہٗ حَتّٰی أَتٰی رَاعِیًا، فَقَالَ : لِمَنْ تَرْعٰی؟ فَقَالَ : لِأَبِي الْعَاصِ بْنِ رَبِیعَۃَ، قَالَ : فَلِمَنْ ہٰذِہِ الْغَنَمُ ؟ قَالَ : لِزَیْنَبَ بِنْتِ مُحَمَّدٍ ـــ عَلَیْہِ السَّلَامُ ـــ، فَسَارَ مَعَہٗ شَیْئًا، ثُمَّ قَالَ لَہٗ : ہَلْ لَّکَ أَنْ أُعْطِیَکَ شَیْئًا تُعْطِیَہَا إِیَّاہُ، وَلَا تَذْکُرَہُ لِأَحَدٍ؟ قَالَ : نَعَم، فَأَعْطَاہُ الْخَاتَمَ، فَانْطَلَقَ الرَّاعِي، فَأَدْخَلَ غَنَمَہٗ، وَأَعْطَاہَا الْخَاتَمَ، فَعَرَفَتْہُ، فَقَالَتْ : مَنْ أَعْطَاکَ ہٰذَا؟ قَالَ : رَجُلٌ، قَالَتْ : وَأَیْنَ تَرَکْتَہُ؟ قَالَ : مَکَانَ کَذَا وَکَذَا، فَسَکَنَتْ حَتّٰی إِذَا کَانَ اللَّیْلُ خَرَجَتْ إِلَیْہِ، فَقَالَ لَہَا : ارْکَبِي بَیْنَ یَدَيَّ ! قَالَتْ : لَا، وَلٰکِنِ ارْکَبْ أَنْتَ، فَرَکِبَ وَرَکِبَتْ وَرَاء َہٗ، حَتّٰی أَتَتِ النَّبِيَّ عَلَیْہِ السَّلَامُ، فَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ عَلَیْہِ السَّلَامُ یَقُولُ : ’ہِيَ أَفْضَلُ بَنَاتِي، أُصِیبَتْ فِيَّ‘ ۔
ترجمہ : رسول اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ نے جب مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی صاحبزادی (سیدہ زینب رضی اللہ عنہا) بھی مکہ سے بنو کنانہ کے ساتھ روانہ ہوئیں۔کفار مکہ ان کے پیچھے آئے اور ہبار بن اسود نے ان کو پالیا۔وہ ان کے اونٹ کو نیزے مارتا رہا حتی کہ ان کو زمین پر گرا دیا۔ان کے بطن میں بچہ تھا،وہ گر گیا۔بہت سارا خون بھی ضائع ہوا۔ان کو واپس لے جایا گیا۔بنوہاشم اور بنوامیہ ان کے سلسلے میں جھگڑنے لگے۔بنوامیہ نے کہا کہ ہم ان کے زیادہ حق دار ہیں۔ دراصل سیدہ زینب رضی اللہ عنہا ان کے چچازاد ابوالعاص بن ربیعہ بن عبد شمس کے نکاح میں تھیں۔چنانچہ وہ ہند بنت ربیعہ کے پاس رہیں۔ہند انہیں کہا کرتی تھی کہ تیرے ساتھ یہ سب تیرے باپ کی وجہ سے ہوا ہے۔ ادھر رسول اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ نے سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا : کیا تم جا کر زینب کو نہیں لے آتے؟انہوں نے عرض کی : کیوں نہیں،اللہ کے رسول!آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : میری یہ انگوٹھی لو اور انہیں پہنچاؤ۔سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ روانہ ہوئے۔وہ چلتے چلتے ایک چرواہے کے پاس پہنچے۔اس نے پوچھا : کس کی بکریاں چرواتے ہو؟ اس نے جواب دیا: زینب بنت محمد صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی۔زید رضی اللہ عنہان کے ساتھ کچھ دیر چلے،پھر فرمایا : کیا تمہیں ایک چیز دی جائے تو رازداری سے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا تک پہنچا دو گے؟اس نے کہا : ہاں۔زید رضی اللہ عنہنے وہ انگوٹھی اسے دے دی۔چرواہے نے بکریاں گھر میں داخل کیں اور انگوٹھی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو دے دی۔جب سیدہ نے انگوٹھی دیکھی تو فوراً پہچان لی اور چرواہے سے کہا : یہ انگوٹھی تجھے کس نے دی ہے؟ چرواہے نے کہا : ایک انجان آدمی نے۔ سیدہ نے کہا: تُو اسے کہاں چھوڑ کر آیا ہے؟ اس نے وہ جگہ بتا دی۔سیدہ رات ہونے تک ٹھہری رہیں،پھر اس جگہ پہنچ گئیں۔سیدنا زید رضی اللہ عنہنے سیدہ سے کہا : آپ اونٹ پر آگے سوار ہو جائیے۔سیدہ نے فرمایا : نہیں،آگے آپ سوار ہوں۔سیدنا زید رضی اللہ عنہآگے سوار ہوئے اور سیدہ پیچھے۔یوں سیدہ زینب رضی اللہ عنہا رسول اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس پہنچ گئیں۔اس کے بعد رسولِ اکرم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ فرمایا کرتے تھے : یہ میری سب سے فضیلت والی بیٹی ہیں،کیونکہ انہوں نے میرے لیے مصائب اٹھائے ہیں ۔ (الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم : 2975)(المعجم الکبیر للطبراني : 432-431/22،چشتی)(شرح مشکل الآثار للطحاوي : 142)(والسیاق لہٗ، مسند البزّار [کشف الأستار] : 2666)(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 201-200/2، 44-43/4)(دلائل النبوّۃ للبیہقي : 157- 156 / 3، وسندہٗ حسنٌ)
حضرت سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : لَمَّا مَاتَتْ زَیْنَبُ بِنْتُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَنَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’اغْسِلْنَھَا وِتْرًا، ثَلَاثًا، أَوْ خَمْسًا، وَاجْعَلْنَ فِي الْخَامِسَۃِ کَافُورًا‘ ۔
ترجمہ : جب نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی بیٹی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی تو آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں فرمایا : انہیں طاق تعداد میں یعنی تین یا پانچ دفعہ غسل دو ۔ اور پانچویں (یا تیسری) مرتبہ کافور ملاؤ ۔ (صحیح البخاري : 167/1، ح : 1253، صحیح مسلم : 304/1، ح : 939)
حضرت سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّي، وَھُو حَامِلٌ أُمَامَۃَ بِنْتَ زَیْنَبَ، بِنْتِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلِأَبِي الْعَاصِ بْنِ رَبِیعَۃَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ، فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَھَا، وَإِذَا قَامَ حَمَلَھَا ۔
ترجمہ : بلاشبہ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی نواسی امامہ کو اٹھائے ہوئے نماز پڑھ لیتے تھے جو کہ آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی بیٹی زینب اور ابوالعاص بن ربیعہ بن عبدشمس کی لختِ جگر تھیں ۔ (صحیح البخاري : 74/1، ح : 516، صحیح مسلم : 205/1، ح : 543،چشتی)
نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی بیٹیوں کے ذکر میں اپنے داماد ابوالعاص کی تعریف فرمائی ۔ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہنے ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کا ارادہ کیا تھا تو آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا :
’أَمَّا بَعْدُ ! أَنْکَحْتُ أَبَا الْعَاصِ بْنَ الرَّبِیعِ، فَحَدَّثَنِي وَصَدَقَنِي‘ ۔ ’’حمد و ثنا کے بعد! میں نے ابوالعاص بن ربیع سے اپنی بیٹی کا نکاح کیا ۔انہوں نے مجھ سے جو بات بھی کی،اس میں سچے اُترے ۔ (صحیح البخاري : 528/1، ح : 3729، صحیح مسلم : 290/2، ح : 2449)
حضرت سیدہ رقیّہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی دوسری بیٹی ہیں ۔ آپ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہکی پہلی زوجہ محترمہ تھیں۔آپ بھی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن پاک سے پیدا ہوئیں ۔ ان کے بارے میں حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : إِنَّمَا تَغَیَّبَ عُثْمَانُ عَنْ بَدْرٍ، فَإِنَّہٗ کَانَتْ تَحْتَہٗ بِنْتُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَکَانَتْ مَرِیضَۃً، فَقَالَ لَہُ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’إِنَّ لَکَ أَجْرَ رَجُلٍ مِّمَّنْ شَہِدَ بَدْرًا، وَسَہْمَہٗ‘ ۔
ترجمہ : حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ غزوۂ بدر میں موجود نہ تھے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے نکاح میں رسول اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی لخت ِجگر تھیںاور وہ بیمار تھیں ۔ آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے فرمایا کہ آپ کے لیے بدر میں حاضر ہونے والوں کی طرح اجر اور حصہ ہے ۔ (صحیح البخاري : 442/1، ح : 3130،چشتی)
حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : إِنِّي تَخَلَّفْتُ یَوْمَ بَدْرٍ، فَإِنِّي کُنْتُ أُمَرِّضُ رُقَیَّۃَ بِنْتَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، حَتّٰی مَاتَتْ، وَقَدْ ضَرَبَ لِي رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِسَہْمِي، وَمَنْ ضَرَبَ لَہٗ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِسَہْمِہٖ، فَقَدْ شَہِدَ ۔
ترجمہ : میں بدر والے دن پیچھے رہا تھا ۔ اس کا سبب یہ تھا کہ میں نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی بیٹی رقیہ کی تیمارداری کر رہا تھا ، حتی کہ وہ وفات پا گئیں ۔ اللہ کے رسول صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ نے میرے لیے مالِ غنیمت میں حصہ بھی مقرر کیا تھا ۔ جس شخص کا حصہ اللہ کے رسول صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ مقرر فرما دیں ، وہ حاضر ہی شمار ہو گا ۔ (مسند الإمام أحمد : 68/1، ح : 490، وسندہٗ حسنٌ،چشتی)
حضرت سیدہ أم کلثوم رضی اللہ عنہا : حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن اطہر سے پیدا ہونے والی نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی تیسری بیٹی ہیں ۔ ان کی شادی ان کی بہن حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے ہوئی ۔ یوں رسول اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ نے یکے بعد دیگرے اپنی دو صاحبزادیاں ان کے نکاح میں دیں ۔ اسی بنا پر آپ رضی اللہ عنہ کو ذوالنورین کا لقب ملا ۔ (جس کی تفصیل ہم اپنے مضمون بعنوان ہو مبارک تم کو ذوالنورین دو شالہ نور کا میں لکھ چکے ہیں الحَمْدُ ِلله) ۔ حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے بارے میں : حضر سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : شَہِدْنَا بِنْتًا لِّرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ : وَرَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ عَلَی القَبْرِ، قَالَ : فَرَأَیْتُ عَیْنَیْہِ تَدْمَعَانِ، قَالَ : فَقَالَ : ’ہَلْ مِنْکُمْ رَجُلٌ لَّمْ یُقَارِفِ اللَّیْلَۃَ؟‘، فَقَالَ أَبُو طَلْحَۃَ : أَنَا، قَالَ : ’فَانْزِلْ‘، قَالَ : فَنَزَلَ فِي قَبْرِہَا ۔ ترمہ : ہم نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی بیٹی کی تدفین میں حاضر تھے ۔ رسول اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ قبر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ میں نے آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی دونوں آنکھوں سے زارو قطار آنسو بہتے دیکھے ۔ آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص ہے جس نے رات کو اپنی بیوی سے مباشرت نہ کی ہو ؟ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی : ہاں ، میں ہوں ۔ آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : قبر میں اترو وہ قبر میں اترے ۔ (صحیح البخاري : 171/1، ح : 1285) ۔ یہ روایت ان الفاظ سے بھی مروی ہے : لَمْ یُقَارِفْ أَھْلَہُ اللَّیْلَۃَ ۔ (شرح مشکل الآثار للطحاوي : 2514، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 47/4، وسندہٗ حسنٌ،چشتی)
اس حدیث میں نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی بیٹی حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا ہی مراد ہیں ، کیونکہ حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے وقت تو آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ غزوۂ بدر میں تھے ۔آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی غیرموجودگی میں ان کی تدفین ہو گئی تھی ۔ مسند احمد کی ایک روایت (229/3، ح : 13431، 270/3، ح : 13398) میں ،،إِنَّ رُقَیَّۃَ لَمَّا مَاتَتْ،، کے الفاظ ہیں ۔ ان کے بارے میں حافظ ابن حجر ر حمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : وَھِمَ حَمَّادٌ فِي تَسْمِیَتِھَا فَقَطْ ۔ حماد کو صرف نام میں وہم ہوا ہے ۔ (فتح الباري في شرح صحیح البخاري : 158/3)
حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے : إِنَّہٗ رَاٰی عَلٰی أُمِّ کُلْثُومٍ، عََلَیْھَا السَّلَامُ، بِنْتِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بُرْدَ حَرِیرٍ سِیَرَائَ ۔
تجمہ : انہوں نے رسول اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی بیٹی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے اوپر دھاری دار ریشم کی چادر دیکھی ۔ (صحیح البخاري : 5842، السنن الکبرٰی للنسائي : 9505،چشتی)
عبد اللہ بن عمر بن محمد بن ابان جعفی بیان کرتے ہیں : قَالَ لِي خَالِي حُسَیْنُ (بْنُ عَلِيٍّ) الْجُعْفِيُّ (م : 204ھـ) : یَا بُنَيَّ ! لِمَ یُسَمّٰی عُثْمَانُ ذُو النُّورَیْنِ؟ قُلْتُ : لَا أَدْرِي، قَالَ : لَمْ یَجْمَعْ بَیْنَ ابْنَتَيْ نَبِيٍّ مُنْذُ خَلَقَ اللّٰہُ آدَمَ إِلٰی أَنْ تَقُومَ السَّاعَۃُ غَیْرَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَلِذٰلِکَ سُمِّيَ ذُو النُّورَیْنِ ۔
ترجمہ : میرے ماموں حسین بن علی جعفی (م : 204ھ) نے مجھ سے فرمایا : بیٹے ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ذوالنورین کیوں کہا جاتا ہے ؟ میں نے عرض کی : میں نہیں جانتا۔فرمایا : سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر قیامت تک کسی بھی نبی کی دو بیٹیاں سوائے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے کسی شخص کے نکاح میں نہیں آئیں ۔ اسی لیے آپ کو ذوالنورین کہا جاتا ہے ۔ (الشریعۃ للآجرّي : 1405، معرفۃ الصحابۃ لأبي نعیم الأصبہاني : 239، السنن الکبرٰی للبیہقي : 73/7، واللفظ لہٗ، وسندہٗ حسنٌ،چشتی)
حضرت سیدہ طیبہ طاہرہ فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہا نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی سب سے چھوٹی اور چوتھی صاحبزادی ہیں اور حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی کے بطن پاک سے ہیں ۔ آپ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی والدہ ماجدہ ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہا کے بے شمار فضائل و مناقب کتب ِاحادیث میں بیان ہوئے ہیں (فقیر نے اس پر مکمل مضمون تفصیل کے لکھا بعنوان فضاٸل و مناقب) ۔ چونکہ باقی بناتِ رسول کا انکار کرنے والے حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بنتِ رسول ہونے کے اقراری ہیں اس لیے تفصیل کی ضرورت نہیں ۔
امام ابن عبد البر ر حمة اللہ علیہ (463-368ھ) فرماتے ہیں : وَوَلَدُہٗ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ مِنْ خَدِیجَۃَ أَرْبَعُ بَنَاتٍ ، لَا خِلَافَ فِي ذٰلِکَ ۔
ترجمہ : نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے چار بیٹیاں تھیں ۔اس میں کوئی اختلاف نہیں ۔ (الاستیعاب في معرفۃ الأصحاب : 50/1، وفي نسخۃ 89/1 بحاشیۃ الإصابۃ)
امام عبد الغنی مقدسی حمة اللہ علیہ (600 -541ھ) فرماتے ہیں : فَالْبَنَاتُ أَرْبَعٌ بِلَا خِلَافٍ ۔ ترجمہ : نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی چار بیٹیاں ہیں ۔ اس میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں ۔ (الدرّۃ المضیّۃ علی السیرۃ النبویّۃ : 8/6 مع التعلیق،چشتی)
حافظ صفدی حمة اللہ علیہ (764-696ھ) فرماتے ہیں : قَالَ الْحَافِظُ عَبْدُ الْغَنِيِّ : فَالْبَنَاتُ أَرْبَعٌ بِلَا خِلَافٍ ۔
ترجمہ : حافظ عبد الغنی حمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی چار بیٹیاں ہونے میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘(الوافي بالوفیّات : 79/1)
امام نووی حمة اللہ علیہ (676-631ھ) فرماتے ہیں : فَالْبَنَاتُ أَرْبَعٌ بِلَا خِلَافٍ ۔
ترجمہ : نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی بالاتفاق چار بیٹیاں ہیں ۔ (تہذیب الأسماء : 26/1)
5 حافظ مزی حمة اللہ علیہ (742-654ھ) فرماتے ہیں : وَکَانَ لَہٗ مِنَ الْبَنَاتِ أَرْبَعٌ بِلَا خِلَافٍ ۔
ترجمہ : نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی چار بیٹیاں تھیں ۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ۔ (تہذیب الکمال في أسماء الرجال : 57/1، وفي نسخۃ : 191/1)
شیعہ کتب سے ثبوت
شیعہ مذہب کی مشہور کتاب کافی جس کے صفحہ 1 پر لکھا ہے کہ حضرت امام مہید نے بعد از ملاحظہ مہرِ تصدیق ثبت کر کے فرمایا تھا کہ : "(هذا كاف تشيعتنا)" یہ کتاب ہمارے شیعوں کے لیے کافی ہے شاید اسی وجہ سے اس کا نام کافی رکھا گیا ۔ نیز صاحب تفسیر صافی نے لکھا ہے کہ محمد بن یعقوب کلینی اپنی اصولِ کافی میں وہ روایات نقل فرماتے ہیں جو ان کے نزدیک ثقہ و معتبر ہوں صفحہ 14 میں لکھا ہے : تزوج خديجة وهو ابن بضع وعشرين سنة فولدله منها قبل مبعثه القاسم ورقية وزيتب وام كلثوم وولد له بعد المبعث الطيب والطاهر والفاطمة ۔
ترجمہ : تقریبا پچیس (25) سال کی عمر میں نبی علیہ السلام نے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا ۔ بعثت سے پہلے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بطن سے قاسم رضی اللہ عنہ ، رقیہ رضی اللہ عنہا ، زینب رضی اللہ عنہا اور امِ کلثوم رضی اللہ عنہا پیدا ہوئے ۔ اور بعثت کے بعد طیب طاہر رضی اللہ عنہما ، اور فاطمہ رضی اللہ عنہا پیدا ہوئے ۔ (اصول كافى صفحہ نمبر 278)
اور ایک روایت میں ہے کہ بعد از بعثت صرف حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا ہی پیدا ہوئیں۔ اور طیب طاہر رضی اللہ عنہما بعثت سے پہلے پیدا ہوئے تھے۔ (اصول کافی ص278)
حدثنى جعفربن محمد عن ابيه قال ولد لرسول الله صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ من خديجه القاسم والطاهر وام كلثوم ورقية وفاطمة وزينب ۔ (شیعہ کتاب قرب الاسناد)
ترجمہ : امام جعفر اپنے باپ امام محمد باقر سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت امام محمد باقر رضی اللہ عنہم نے فرمایا : نبی صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی اولاد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے قاسم رضی اللہ عنہ، طاہر رضی اللہ عنہ ، اُمِ کلثوم رضی اللہ عنہا ، رقیہ رضی اللہ عنہا ، فاطمہ رضی اللہ عنہا ، زینب رضی اللہ عنہا پیدا ہوئی ۔
روى الصدوق فى الحصال باسناد عن ابى بصير عن ابى عبدالله قال ولد لرسول الله من خديجه االقاسم والطاهر وهو عبدالله وام كلثوم ورقية وزينب وفاطمة ۔ (مراة العقول شرح الاصول والفروع صفحہ 352،چشتی)
قال ابن شهر آشوب فى المناقب ولد من خديجة القاسم و الطاهر وهو عبدالله وهما الطاهر والطيب اوربع بنات وزينب ورقية وام كلثوم وهى امنة وفاطمة ۔ (مراۃ العقول 1 ص352)
فقال القرطبى اجتمع اهل النقل على انها ولدت له اربع كلهن ادركن الاسلام وهاجرن وزينب رقية وام كلثوم وفاطمه ۔ (مراۃ العقول ص352) ۔ تینوں کا ترجمہ اوپر گزر چکا ہے ۔
ابن بابونہ بسند معتبر ازاں حضرت امام جعفر صادق روایت کردہ است کہ از برائے حضرت محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم متولد از خدیجہ رضی اللہ عنہا، قاسم رضی اللہ عنہ، و طاہر رضی اللہ عنہ، ونام طاہر عبداللہ رضی اللہ عنہ بود، واُمِ کلثوم رضی اللہ عنہا و رقیہ رضی اللہ عنہا و زینب رضی اللہ عنہا و اطمہ رضی اللہ عنہا ۔ (حیات القلوب صفحہ 559 جلد 2)
حضرت جعفر صادق رضی اللہ عنہ روایت شدہ است کہ از برائے رسولِ خدا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ از خدیجہ رضی اللہ عنہا متولد شدند ، قاسم رضی اللہ عنہ ، فاطمہ رضی اللہ عنہا ، اُمِ کلثوم رضی اللہ عنہا و رقیہ رضی اللہ عنہا و زینب رضی اللہ عنہا ۔ (منتہی الامال شیخ عباس صفحہ نمبر 79،چشتی)
چہار دختر برائے حضرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم آوردہ، زینب رضی اللہ عنہا، رقیہ رضی اللہ عنہا، اُمِ کلثوم رضی اللہ عنہا، فاطمہ رضی اللہ عنہا ۔ (حیات القلوب2ص566،چشتی)
قال ابن عباس اورل من ولد لرسول الله صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ بمكة قبل النبوة القاسم ويكنى به ثم زينب ثم رقية ثم فاطمة ثم ام كلثوم ثم ولد فى الاسلام عبدالله فسمى الطيب والطاهر وامهم جميعا خديجة بنت خويلد ۔ (مراۃ العقول جلد 1 صفحہ 352)
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : مکہ معظمہ میں نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہاں نبوت سے قبل حضرت قاسم رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے ۔ جن کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ابوالقاسم تھی ۔ پھر حضرت زینب رضی اللہ عنہا، پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ، پھر حضرت امِ کلثوم رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں ۔ اور نبوت کے بعد حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے جن کو طیب طاہر کہا گیا ۔ اور ان سب کی والدہ حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا تھیں ۔
ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اگر نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی صاجزادیاں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن مبارک سے واقعی چار تھیں تو واقعہ تطہیر اور واقعہ مباہلہ نصاریٰ نجران کے وقت ان کو شامل کیوں نہ کیا گیا ، صرف حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا ہی کو کیوں شامل کیا گیا ؟
جواب : تفسیر حسینی پارہ نمبر 22 آیت تطہیر کے تحت مرقوم ہے کہ یہ آیت سنہ 9 ہجری میں نازل ہوئی ۔ اور منتہیٰ الامال میں قصہ مباہلہ نصاریٰ نجران کے متعلق مرقوم ہے کہ یہ واقعہ سنہ 10ہجری میں ہوا (جلد 1 صفحہ 69) اب جبکہ آیت تطہیر سنہ 9 ہجری میں نازل ہوئی ۔ اور مباہلہ نصاریٰ نجران سنہ 10ہجری میں وقوع پذیر ہوا ، اس وقت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سوا باقی تینوں صاجزادیاں زندہ ہی کب تھیں کہ آیت تطہیر یا مباہلہ کے وقت ان کی شمولیت کا سوال پیدا ہوتا ؟ چنانچہ ان تینوں صاجزادیوں کا سنِ وفات بھی ہم کتب شیعہ ہی سے نقل کرتے ہیں :
و رقیہ رضی اللہ عنہا در سال دوم ہجری در ہنگامے کہ جنگِ بدر بود وفات کرد ۔ (منتہیٰ الامال جلد 1 صفحہ 80)
و زینب رضی اللہ عنہا در سال ہفتم ہجرت ودر روایتے در سال ہشتم ہجری برحمت ایزی واصل شد ۔ (حیات القلوب جلد 2 صفحہ 560)
سوم امِ کلثوم رضی اللہ عنہا و اورا نیز عثمان رضی اللہ عنہ بعد از رقیہ رضی اللہ عنہا تزویج نمود کہ در سال ہفتم ہجری برحمتِ ایزدی واصل شد ۔ (حیات القلوب جلد 2 صفحہ 560)
یعنی : حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا سنہ 2ھ میں ، حضرت زینب رضی اللہ عنہا سنہ 7ھ یا سنہ 8ھ میں اور حضرت امِ کلثوم رضی اللہ عنہا سنہ 7ھ میں واصل بحق ہوئیں ۔
مندرجہ بالا دلاٸل کا خلاصہ یہ ہے کہ فریقین کی کتبِ تواریخ معتبرہ اور کتبِ صحاح اس بات پر متفق ہیں کہ تحت السماء و فوق الارض حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی سعادت مند اور خوش نصیب آدمی نہیں جس کے حِبالہ عقد میں کسی نبی علیہ السلام کی دو صاجزادیاں ہوں ۔
حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ کا فرمان : ایک موقعہ پر حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ :
انت اقرب الى رسول الله وشيحة رحم منهما وقد قلت من صهره مالم ينالا ۔ (نهج البلاغه مصرى صفحہ 85 جلد دوم)
ترجمہ شیعہ محقق علی نقی کی فیض الاسلام سے ملاحظہ فرمائیں : دراں حالیکہ تو از جہت خویشی برسولِ خدا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ از انہما نزدیک تری چوں عثمان رضی اللہ عنہ پسر عفان ابن ابی العاص ابن امیہ ابن عبد شمس ابن عبد مناف مے باشد و عبد مناف جد سوم حضرت رسول محمد رضی اللہ عنہ بن عبداللہ بن عبدالمطلب ابن ہاثم ابن عبد مناف ابن قصی ابن کلاب ابن کعب است۔ واما ابوبکر عبداللہ پسر ابوقحافہ عثمان ابن عامر ابن عمر ابن کعب ابن سعد ابن تیم ابن مرہ ابن کعب مے باشد و مرہ جد ششم پیغمبر اکرم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ است، وانا عمر پسر خطاب ابن نفیل ابن عبد العزی ابن رباح ابن عبداللہ ابن قرط ابن زراح ابن عدی بن کعب بود وکعب جد ہفتم رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم است، پس خویشاوندی عثمان رضی اللہ عنہ از ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ بہ پیغمبر اکرم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ نزدیک تراست و دامادی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم مرتبہ اے یافتہ ای کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ، وعمر رضی اللہ عنہ نیافتند، عثمان رضی اللہ عنہ، رقیہ رضی اللہ عنہا و امِ کلثوم رضی اللہ عنہا را کہ بنا بر مشہور دختران پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بودند بہمسری خود در آورد۔ در اول رقیہ رضی اللہ عنہا را و بعد از چند گاہ کہ آں وفات نمود امِ کلثوم رضی اللہ عنہا را بجائے خواہر باو داند ۔ (فیض الاسلام صفحہ 519،چشتی)
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا ، آپ کو جناب رسول اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ سے رشتہ میں زیادہ قرابت حاصل ہے ۔ کیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تیسرے دادے میں نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ نسب میں ملتے ہیں ۔ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ چھٹے میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ساتویں دادے میں نسب میں حضرت محمد رسول اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ سے ملتے ہیں ۔ تجھے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی دامادی کا ایسا شرف حاصل ہے جو ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کو نہیں ۔ کیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے حضرت محمد رسول اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی صاجزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ہوا ۔ پھر حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد دوسری صاجزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نکاح ہوا ۔ حالانکہ جناب صدیق رضی اللہ عنہ و فاروق رضی اللہ عنہ کو نبی صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی دامادی کا شرف حاصل نہیں ۔ رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ ۔
امام جعفر باقر رضی اللہ عنہ سے نقل کیاہے : وُلِدَ لِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ مِنْ خَدِیجَۃَ : الْقَاسِمُ ، وَالطَّاھِرُ ، وَ أُمُّ کُلْثُومٍ ، وَ رُقَیَّۃُ ، وَ فَاطِمَۃُ ، وَزَیْنَبُ ۔
ترجمہ : حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی اولاد یہ تھی : قاسم ، طاہر ، ام کلثوم ، رقیہ ، فاطمہ اور زینب رضی اللہ عنہم ۔ (قرب الإسناد للحمیري : 9/3،چشتی)(بحار الأنوار للمجلسي : 151/22)
شیعیوں کے اصولوں کے مطابق یہ قول بالکل صحیح اور ثابت ہے ۔
ایک اور شیعہ محقق امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے : وُلِدَ لِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ خَدِیجَۃَ : الْقَاسِمُ، وَالطَّاھِرُ، وَھُوَ عَبْدُ اللّٰہِ، وَأُمُّ کُلْثُومٍ، وَرُقَیَّۃُ، وَزَیْنَبُ، وَفَاطِمَۃُ ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن اطہر سے اولاد یہ تھی:قاسم ، عبد اللہ طاہر، ام کلثوم،رقیہ،زینب اور فاطمہ رضی اللہ عنہم ۔ (الخصال لابن بابویہ القمّي، ص : 404)
شیوں کے شیخ الشیوخ ،محمد باقر مجلسی رافضی (م : 1111ھ) نے رمضان المبارک میں پڑھی جانے والی تسبیح یوں ذکر کی ہے : اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی أُمِّ کُلْثُومٍ ابْنَۃِ نَبِیِّکَ، وَالْعَنْ مَنْ اٰذٰی نَبِیَّکَ فِیہَا، اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی رُقَیَّۃَ ابْنَۃِ نَبِیِّکَ، وَالْعَنْ مَنْ اٰذٰی نَبِیَّکَ فِیھَا ۔ ’’اے اللہ! تو اپنے نبی کی بیٹی ام کلثوم پر رحمتیں نازل فرما اور اس شخص پر لعنت فرما جس نے تیرے نبی کو ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے حوالے سے تکلیف دی ۔ اے اللہ! تُو اپنے نبی کی بیٹی رقیہ پر رحمتیں نازل فرما اور اس شخص پر لعنت فرما جس نے تیرے نبی کو رقیہ کے حوالے سے تکلیف پہنچائی ۔ (بحار الأنوار : 110/95)
شیعہ محقق ابن ابی الحدید (م : 656ھ) نے لکھا ہے : ثُمَّ وَلَدَتْ خَدِیجَۃُ مِنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْقَاسِمَ، وَالطَّاھِرَ، وَزَیْنَبَ، وَرُقَیَّۃَ، وَأُمَّ کُلْثُومٍ، وَفَاطِمَۃَ ۔
ترجمہ : حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے رسول اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کے دو بیٹے ، قاسم وطاہر رضی اللہ عنہما اور چار بیٹیاں، زینب،رقیہ،ام کلثوم اور فاطمہ رضی اللہ عنہم تھیں ۔ (شرح نہج البلاغۃ : 132/5)
شیعوں کا اہم اعتراض : انہیں رسول اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی بیٹیاں نہیں مانا جا سکتا کیونکہ آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کا نکاح جب ہو تو ان کی عمر 25 سال تھی اور پانچ سال تک کوئی اولاد نہیں ہوئی اور بعثت سے پہلے ہی ان کا نکاح عتبہ ، عتیبہ فرزندانِ ابو لہب سے اور ابو لعاص سے ہو چکا تھا اب یہ کیسے ممکن ہے 10 سال کے اندر یہ تینوں بیٹیاں پیدا بھی ہو گئیں انکا نکاح بھی ہو گیا ؟
جواب : جنابِ من اب مکمل جائزہ لیں نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی جب شادی ہوئی تو آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی عمر 25 برس تھی ۔ جب اعلانِ نبوت فرمایا تو 40 سال ۔ پھر آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ نے مکہ میں 8 سال تبلیغ کی ، اور ہجرت کے 8 یا 7 سال بعد آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی بیٹیوں کا وصال ہوا ، یعنی یہ دورانیہ 31 سال کا ہے ۔ اب بتائیے اس میں کون سی بات نا ممکن ہے ؟
آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ نے جب تک تبلیغ شروع نہیں کی تھی تب تک سب آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی بیحد عزت کرتے تھے ، تو آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی بیٹیوں کو طلاق کیونکر ہو سکتی تھی ؟
ظاہر ہے جب تبلیغ شروع کی پھر آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ سے مکہ میں کفار نے دشمنی شروع کی ۔ اور یہ بھی کم از کم 15 یا 16 سال کا عرصہ بنتا ہے ۔ اب ذرہ اور تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں ۔ آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی جب شادی ہوئی آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی عمر 25 سال تھی ، اور طالب ہاشمی "تذکار صحابیات” میں "باب بنات طاہرات” میں لکھتے ہیں : حضرت زینب بعثت سے 10 سال پہلے پیدا ہوئیں حضرت رقیہ بعثت سے 7 سال پہلے پیدا ہوئیں ، حضرت ام کلثوم بعثت سے 6 سال پہلے پیدا ہوئیں ۔
اور کچھ روایات کے مطابق آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ 3 سال اور شیعہ کتاب "عمدۃ الطالب” کے مطابق آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ مکہ میں 5 سال خفیہ طور پر تبلیغ کرتے رہے ۔ اور کھلم کھلا اعلان نبوت نہیں کیا ۔
یعنی بعثت سے کم از کم 3 سال تک بعد تک تو طلاق نہیں ہو سکتی ۔ اس حساب سے حضرت زینب کی عمر 13 سال بنتی ہے ، حضرت رقیہ کی عمر 10 سال اور حضرت ام کلثوم کی عمر 9 سال بنتی ہے رضی اللہ عنہن ۔ اور یہ بات واضع رہے کہ ان کا صرف نکاہ ہوا تھا ، رخصتی نہیں ، جوکہ شیعہ کی اپنی کتابوں میں بھی مذکور ہے ۔ امید ہے معترضین حضرات اس حقیقت کے افشاں ہونے کے بعد یہ اعتراض نہیں کرینگے ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment