حدیث لَانُوَرِّثُ مَاتَرَكْنَا فَهو صَدَقَةٌ کتب اہلسنت و شیعہ کی روشن میں حصّہ دوم
حدثنا سعيد بن عفير، قال : حدثني الليث، قال: حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال: اخبرني مالك بن اوس بن الحدثان،" وكان محمد بن جبير بن مطعم ذكر لي ذكرا من حديثه، فانطلقت حتى دخلت على مالك بن اوس، فسالته، فقال مالك: انطلقت حتى ادخل على عمر إذ اتاه حاجبه يرفا، فقال: هل لك في عثمان وعبد الرحمن والزبير وسعد يستاذنون؟ قال: نعم، فاذن لهم، قال: فدخلوا وسلموا، فجلسوا، ثم لبث يرفا قليلا، فقال لعمر: هل لك في علي وعباس؟ قال: نعم، فاذن لهما، فلما دخلا سلما وجلسا، فقال عباس: يا امير المؤمنين، اقض بيني وبين هذا، فقال الرهط: عثمان واصحابه يا امير المؤمنين، اقض بينهما وارح احدهما من الآخر، فقال عمر: اتئدوا انشدكم بالله الذي به تقوم السماء والارض، هل تعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: لا نورث ما تركنا صدقة"، يريد رسول الله صلى الله عليه وسلم نفسه، قال الرهط: قد قال ذلك فاقبل عمر على علي وعباس، فقال انشدكما بالله، هل تعلمان ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ذلك؟ قالا: قد قال ذلك، قال عمر: فإني احدثكم عن هذا الامر إن الله كان قد خص رسوله صلى الله عليه وسلم في هذا المال بشيء لم يعطه احدا غيره، قال الله: ما افاء الله على رسوله منهم فما اوجفتم عليه من خيل إلى قوله: قدير سورة الحشر آية 6 فكانت هذه خالصة لرسول الله صلى الله عليه وسلم والله ما احتازها دونكم ولا استاثر بها عليكم لقد اعطاكموها وبثها فيكم حتى بقي منها هذا المال، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينفق على اهله نفقة سنتهم من هذا المال، ثم ياخذ ما بقي، فيجعله مجعل مال الله، فعمل بذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم حياته، انشدكم بالله، هل تعلمون ذلك؟ قالوا: نعم، قال لعلي وعباس: انشدكما بالله، هل تعلمان ذلك؟ قالا: نعم، ثم توفى الله نبيه صلى الله عليه وسلم، فقال ابو بكر: انا ولي رسول الله، فقبضها ابو بكر يعمل فيها بما عمل به فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم وانتما حينئذ، واقبل على علي وعباس، تزعمان ان ابا بكر كذا وكذا والله يعلم انه فيها صادق بار راشد تابع للحق، ثم توفى الله ابا بكر، فقلت: انا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بكر، فقبضتها، سنتين اعمل فيها بما عمل رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر، ثم جئتماني وكلمتكما واحدة وامركما جميع جئتني تسالني نصيبك من ابن اخيك واتى هذا يسالني نصيب امراته من ابيها، فقلت: إن شئتما دفعته إليكما على ان عليكما عهد الله وميثاقه لتعملان فيها بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم وبما عمل به فيها ابو بكر وبما عملت به فيها منذ وليتها وإلا فلا تكلماني فيها، فقلتما: ادفعها إلينا بذلك، فدفعتها إليكما بذلك انشدكم بالله، هل دفعتها إليهما بذلك؟ فقال الرهط: نعم، قال: فاقبل على علي وعباس، فقال: انشدكما بالله، هل دفعتها إليكما بذلك؟ قالا: نعم، قال: افتلتمسان مني قضاء غير ذلك؟ فوالذي بإذنه تقوم السماء والارض لا اقضي فيها قضاء غير ذلك حتى تقوم الساعة، فإن عجزتما عنها فادفعاها فانا اكفيكماها ۔ (صحيح بخاری حدیث نمبر 5358)
ترجمہ : ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب زہری نے بیان کیا کہ مجھے مالک بن اوس بن حدثان نے خبر دی (ابن شہاب زہری نے بیان کیا کہ) محمد بن جبیر بن مطعم نے اس کا بعض حصہ بیان کیا تھا، اس لیے میں روانہ ہوا اور مالک بن اوس کی خدمت میں پہنچا اور ان سے یہ حدیث پوچھی۔ مالک نے مجھ سے بیان کیا کہ میں عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان کے دربان یرفاء ان کے پاس آئے اور کہا عثمان بن عفان، عبدالرحمٰن، زید اور سعد رضی اللہ عنہم (آپ سے ملنے کی) اجازت چاہتے ہیں کیا آپ انہیں اس کی اجازت دیں گے؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اندر بلا لو۔ چنانچہ انہیں اس کی اجازت دے دی گئی۔ راوی نے کہا کہ پھر یہ سب اندر تشریف لائے اور سلام کر کے بیٹھ گئے۔ یرفاء نے تھوڑی دیر کے بعد پھر عمر رضی اللہ عنہ سے آ کر کہا کہ علی اور عباس رضی اللہ عنہما بھی ملنا چاہتے ہیں کیا آپ کی طرف سے اجازت ہے؟ عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں بھی اندر بلانے کے لیے کہا۔ اندر آ کر ان حضرات نے بھی سلام کیا اور بیٹھ گئے۔ اس کے بعد عباس رضی اللہ عنہ نے کہا، امیرالمؤمنین میرے اور ان (علی رضی اللہ عنہ) کے درمیان فیصلہ کر دیجئیے۔ دوسرے صحابہ عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے بھی کہا کہ امیرالمؤمنین ان کا فیصلہ فرما دیجیے اور انہیں اس الجھن سے نجات دیجئیے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا جلدی نہ کرو میں اللہ کی قسم دے کر تم سے پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ، جو کچھ ہم انبیاء وفات کے وقت چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ خود اپنی ذات کی طرف تھا۔ صحابہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے پوچھا میں اللہ کی قسم دے کر آپ سے پوچھتا ہوں، کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا۔ انہوں نے بھی تصدیق کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واقعی یہ فرمایا تھا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب میں آپ سے اس معاملہ میں بات کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس مال (مال فے) میں مختار کل ہونے کی خصوصیت بخشی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا اس میں سے کسی دوسرے کو کچھ نہیں دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تھا «ما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم عليه من خيل» سے «قدير» تک۔“ اس لیے یہ (چار خمس) خاص آپ کےلیے تھے۔ اللہ کی قسم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں نظر انداز کر کے اس مال کو اپنے لیے خاص نہیں کر لیا تھا اور نہ تمہارا کم کر کے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے لیے رکھا تھا، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے تم سب میں اس کی تقسیم کی آخر میں جو مال باقی رہ گیا تو اس میں سے آپ اپنے گھر والوں کےلیے سال بھر کا خرچ لیتے اور اس کے بعد جو باقی بچتا اسے اللہ کے مال کے مصرف ہی میں (مسلمانوں کےلیے) خرچ کر دیتے ۔ آپ نے اپنی زندگی بھر اسی کے مطابق عمل کیا۔ اے عثمان! میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا تمہیں یہ معلوم ہے؟ سب نے کہا کہ جی ہاں، پھر آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا، میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا تمہیں یہ بھی معلوم ہے ؟ انہوں نے بھی کہا کہ جی ہاں معلوم ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی وفات کی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلیفہ ہوں ۔ چنانچہ انہوں نے اس جائیداد کو اپنے قبضہ میں لے لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مطابق اس میں عمل کیا۔ علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہو کر انہوں نے کہا۔ آپ دونوں اس وقت موجود تھے، آپ خوب جانتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا تھا اور اللہ جانتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اس میں مخلص، محتاط و نیک نیت اور صحیح راستے پر تھے اور حق کی اتباع کرنے والے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بھی وفات کی اور اب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جانشین ہوں۔ میں دو سال سے اس جائیداد کو اپنے قبضہ میں لیے ہوئے ہوں اور وہی کرتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس میں کیا تھا۔ اب آپ حضرات میرے پاس آئے ہیں، آپ کی بات ایک ہی ہے اور آپ کا معاملہ بھی ایک ہے ۔ آپ (عباس رضی اللہ عنہ) آئے اور مجھ سے اپنے بھتیجے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وراثت کا مطالبہ کیا اور آپ (علی رضی اللہ عنہ) آئے اور انہوں نے اپنی بیوی کی طرف سے ان کے والد کے ترکہ کا مطالبہ کیا۔ میں نے آپ دونوں سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو یہ جائیداد دے سکتا ہوں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ آپ پر اللہ کا عہد واجب ہو گا۔ وہ یہ کہ آپ دونوں بھی اس جائیداد میں وہی طرز عمل رکھیں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھا تھا، جس کے مطابق ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمل کیا اور جب سے میں اس کا والی ہوا ہوں، میں نے جو اس کے ساتھ معاملہ رکھا۔ اور اگر یہ شرط منظور نہ ہو تو پھر آپ مجھ سے اس بارے میں گفتگو چھوڑیں۔ آپ لوگوں نے کہا کہ اس شرط کے مطابق وہ جائیداد ہمارے حوالہ کر دو اور میں نے اسے اس شرط کے ساتھ تم لوگوں کے حوالہ کر دیا۔ کیوں عثمان اور ان کے ساتھیو ! میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں میں نے اس شرط ہی پر وہ جائیداد علی اور عباس رضی اللہ عنہما کے قبضہ میں دی ہے نا ؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر آپ علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا میں آپ حضرات کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا میں نے آپ دونوں کے حوالہ وہ اس شرط کے ساتھ کی تھی؟ دونوں حضرات نے فرمایا کہ جی ہاں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، کیا آپ حضرات اب اس کے سوا مجھ سے کوئی اور فیصلہ چاہتے ہیں ؟ اس ذات کی قسم ہے جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں اس کے سوا میں کوئی اور فیصلہ قیامت تک نہیں کر سکتا۔ اب لوگ اس کی ذمہ داری پوری کرنے سے عاجز ہیں تو مجھے واپس کر دیں میں اس اس کا بندوبست آپ ہی کر لوں گا ۔
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، قال: اخبرني مالك بن اوس بن الحدثان، وكان محمد بن جبير بن مطعم ذكر لي من حديثه ذلك، فانطلقت حتى دخلت عليه فسالته، فقال: انطلقت حتى ادخل على عمر، فاتاه حاجبه يرفا، فقال: هل لك في عثمان، وعبد الرحمن، والزبير، وسعد؟ قال: نعم، فاذن لهم، ثم قال: هل لك في علي، وعباس؟ قال: نعم، قال عباس: يا امير المؤمنين: اقض بيني وبين هذا، قال: انشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والارض، هل تعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال" لا نورث ما تركنا صدقة". يريد رسول الله صلى الله عليه وسلم نفسه، فقال الرهط: قد قال ذلك، فاقبل على علي، وعباس، فقال: هل تعلمان ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ذلك؟ قالا: قد قال ذلك، قال عمر: فإني احدثكم عن هذا الامر، إن الله قد كان خص رسوله صلى الله عليه وسلم في هذا الفيء بشيء لم يعطه احدا غيره، فقال عز وجل: ما افاء الله على رسوله إلى قوله قدير سورة الحشر آية 6 فكانت خالصة لرسول الله صلى الله عليه وسلم، والله ما احتازها دونكم، ولا استاثر بها عليكم، لقد اعطاكموها، وبثها فيكم حتى بقي منها هذا المال، فكان النبي صلى الله عليه وسلم ينفق على اهله من هذا المال نفقة سنته، ثم ياخذ ما بقي فيجعله مجعل مال الله، فعمل بذاك رسول الله صلى الله عليه وسلم حياته، انشدكم بالله هل تعلمون ذلك؟ قالوا: نعم، ثم قال لعلي، وعباس: انشدكما بالله هل تعلمان ذلك؟ قالا: نعم، فتوفى الله نبيه صلى الله عليه وسلم، فقال ابو بكر: انا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقبضها فعمل بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم توفى الله ابا بكر، فقلت: انا ولي ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقبضتها سنتين اعمل فيها ما عمل رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر، ثم جئتماني وكلمتكما واحدة، وامركما جميع، جئتني تسالني نصيبك من ابن اخيك، واتاني هذا يسالني نصيب امراته من ابيها، فقلت: إن شئتما دفعتها إليكما، بذلك فتلتمسان مني قضاء غير ذلك، فوالله الذي بإذنه تقوم السماء والارض لا اقضي فيها قضاء غير ذلك، حتى تقوم الساعة، فإن عجزتما فادفعاها إلي فانا اكفيكماها ۔ (صحيح بخاری حدیث نمبر 6728)
ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے مالک بن اوس بن حدثان نے خبر دی کہ محمد بن جبیر بن مطعم نے مجھ سے مالک بن اوس کی اس حدیث کا ایک حصہ ذکر کیا تھا۔ پھر میں خود مالک بن اوس کے پاس گیا اور ان سے یہ حدیث پوچھی تو انہوں نے بیان کیا کہ میں عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا پھر ان کے حاجب یرفاء نے جا کر ان سے کہا کہ عثمان، عبدالرحمٰن بن زبیر اور سعد آپ کے پاس آنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اچھا آنے دو۔ چنانچہ انہیں اندر آنے کی اجازت دے دی۔ پھر کہا، کیا آپ علی و عباس رضی اللہ عنہما کو بھی آنے کی اجازت دیں گے؟ کہا کہ ہاں آنے دو۔ چنانچہ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ امیرالمؤمنین میرے اور علی رضی اللہ عنہ کے درمیان فیصلہ کر دیجیے ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہماری وراثت تقسیم نہیں ہوتی جو کچھ ہم چھوڑیں وہ سب راہ اللہ صدقہ ہے ؟ اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خود اپنی ہی ذات تھی۔ جملہ حاضرین بولے کہ جی ہاں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا ۔ پھر عمر، علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا، کیا تمہیں معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا تھا ؟ انہوں نے بھی تصدیق کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر میں اب آپ لوگوں سے اس معاملہ میں گفتگو کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس فے کے معاملہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے کچھ حصے مخصوص کر دیے جو آپ کے سوا کسی اور کو نہیں ملتا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا «ما أفاء الله على رسوله» سے ارشاد «قدير» تک۔ یہ تو خاص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حصہ تھا ۔ اللہ کی قسم! نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے تمہارے لیے ہی مخصوص کیا تھا اور تمہارے سوا کسی کو اس پر ترجیح نہیں دی تھی، تمہیں کو اس میں سے دیتے تھے اور تقسیم کرتے تھے ۔ آخر اس میں سے یہ مال باقی رہ گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں سے اپنے گھر والوں کے لیے سال بھر کا خرچہ لیتے تھے، اس کے بعد جو کچھ باقی بچتا اسے ان مصارف میں خرچ کرتے جو اللہ کے مقرر کردہ ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ طرز عمل آپ کی زندگی بھر رہا۔ میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں، کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے؟ لوگوں نے کہا کہ جی ہاں۔ پھر آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا، میں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ لوگوں کو یہ معلوم ہے؟ انہوں نے بھی کہا کہ جی ہاں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہو گئی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہوں چنانچہ انہوں نے اس پر قبضہ میں رکھ کر اس طرز عمل کو جاری رکھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس میں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی وفات دی تو میں نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نائب کا نائب ہوں۔ میں بھی دو سال سے اس پر قابض ہوں اور اس مال میں وہی کرتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا۔ پھر آپ دونوں میرے پاس آئے ہو۔ آپ دونوں کی بات ایک ہے اور معاملہ بھی ایک ہی ہے۔ آپ (عباس رضی اللہ عنہ) میرے پاس اپنے بھتیجے کی میراث سے اپنا حصہ لینے آئے ہو اور آپ (علی رضی اللہ عنہ) اپنی بیوی کا حصہ لینے آئے ہو جو ان کے والد کی طرف سے انہیں ملتا۔ میں کہتا ہوں کہ اگر آپ دونوں چاہتے ہیں تو میں اسے آپ کو دے سکتا ہوں لیکن آپ لوگ اس کے سوا کوئی اور فیصلہ چاہتے ہیں تو اس ذات کی قسم جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، میں اس مال میں اس کے سوا اور کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا، قیامت تک، اگر آپ اس کے مطابق عمل نہیں کر سکتے تو وہ جائیداد مجھے واپس کر دیجیے میں اس کا بھی بندوبست کر لوں گا ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے ورثا درہم و دینار تقسیم نہ کریں ، میں نے اپنی بیویوں کے اخراجات اور اپنے عاملین کے مشاہرات (جاٸیداد کی دیکھ بھال کرنے والوں کی تنخواہ) کے علاوہ جو چھوڑا ہے وہ سب صدقہ ہے ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 2776)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہم جو انبیاء کی جماعت ہیں ، ہمارا کوئی وارث نہیں بنتا ، میں اپنے عاملوں اور بیویوں کے اخراجات کے بعد جو کچھ چھوڑوں ، وہ صدقہ ہو گا ۔ (مسند احمد حدیث نمبر 9973)
ام المومنین حضرت سیدتنا عاٸشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوا تو باقی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے نے ارادہ کیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجیں تاکہ وہ ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وراثت سے آٹھواں حصہ عنایت فرما دیں تو ام المومنین حضرت عاٸشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ان سے فرمایا : کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ نہیں فرما گۓ کہ ہمارا کوٸی وارث نہیں ہوتا ہم جو کچھ چھوڑ جاٸیں وہ صدقہ ہوتا ہے ۔ (سنن ابوداٶد حدیث نمبر 2976 ، 2977)
حدیث لَانُوَرِّثُ مَاتَرَكْنَا فَهو صَدَقَةٌ : اس حدیث پر ان حضرات کے علاوہ حضرت عمر ، حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت عباس ، حضرت عبدالرحمن بن عوف ، حضرت زبیر بن عوام اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم کی گواہی بھی موجود ہے کہ انہوں نے یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوۓ سُنا ہے اور یہ گواہی انہوں نے اللہ کی قسم پر دی ہے ۔ حضرت مالک بن اوس سے روایت ہے کہ وہ حضرت عمر کی خدمت میں موجود تھے اتنے میں حضرت عثمان ، حضرت عبد الرحمن بن عوف ، حضرت زبیر بن عوام اور حضرت سعد بن ابی وقاص تشریف لائے ، اور کچھ دیر بعد حضرت عباس اور حضرت علی بھی تشریف لے آئے اور وہ بنو نضیر کے مال فے کے بارے میں جھگڑ رہے تھے تو سب نے کہا ان میں صلح کروا دیں ، تو حضرت عمر نے سب کو اللہ کی قسم دے کر پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ ہم انبیا علیہم السلام کسی کےلیے وراثت نہیں چھوڑتے ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے ؟ تو سب نے جواب دیا جی ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا ہی فرمایا تھا ، پھر حضرت عمر نے حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کو مخاطب کر کے پوچھا کہ میں آپ دونوں کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا نبی نے یہ فرمایا تھا ؟ تو دونوں نے جواب دیا جی ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا تھا ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 3094 ، 5358)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حدیث حضرت عمر ، حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت عباس ، حضرت عبدالرحمن بن عوف ، حضرت زبیر بن عوام اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم اجمعین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خود سُنی ہے اور یہ گواہی انہوں نے اللہ کی قسم پر دی کہ واقعی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا فرمایا تھا ۔
امام ابو داؤد اس حدیث کو نقل کر کے اس کے تحت فرماتے ہیں کہ ان دونوں (حضرت عباس و حضرت علی رضی اللہ عنہما) حضرات کا سوال یہ تھا کہ اس مال فے کا انتظام ان دونوں کے مابین آدھا آدھا کر دیا جائے ، یہ بات نہیں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان سے لاعلم تھے کہ : ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ۔ جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے ۔ وہ دونوں بھی حق و صواب ہی چاہتے تھے ، حضرت عمر نے فرمایا میں اس مال پر تقسیم کا نام نہیں آنے دوں گا ، میں اسے ایسے ہی رہنے دوں کا جیسے کہ یہ ہے (یعنی جیسے نبی نے چھوڑی) ۔ (سنن ابوداٶد حدیث نمبر 2963،چشتی)
مسئلہ باغ فدک اور حدیث بخاری کا صحیح مفہوم شیعہ کتب کی روشنی میں
محترم قارئینِ کرام : امام بخاری رحمة اللہ علیہ صحیح بخاری میں حدیث پیش کرتے ہیں : حدثنا عبد الله بن محمد حدثنا هشام أخبرنا معمر عن الزهري عن عروة عن عائشة أن فاطمة والعباس عليهما السلام أتيا أبا بکر يلتمسان ميراثهما من رسول الله صلی الله عليه وسلم وهما حينئذ يطلبان أرضيهما من فدک وسهمهما من خيبر فقال لهما أبو بکر سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول لا نورث ما ترکنا صدقة إنما يأکل آل محمد من هذا المال قال أبو بکر والله لا أدع أمرا رأيت رسول الله صلی الله عليه وسلم يصنعه فيه إلا صنعته قال فهجرته فاطمة فلم تکلمه حتی ماتت ۔ (صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1645 ،- فرائض کی تعلیم کا بیان )
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رسول اللہ کے (ترکہ میں سے) اپنے میراث مانگنے آئے اور وہ دونوں اس وقت فدک کی زمین اور خیبر کی زمین سے اپنا حصہ وصول کر رہے تھے تو ان دونوں سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمارا کوئی وارث نہ ہوگا اور جو کچھ ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے صرف اس مال سے آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھائیں گے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا خدا کی قسم میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو کام کرتے ہوئے دیکھا ہے اس کو نہیں چھوڑتا ہوں چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملنا جلنا چھوڑ دیا اور ان سے گفتگو چھوڑ دی یہاں تک کہ وفات پاگئیں۔
منکرین حدیث اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں کہ اگر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس فیصلے کو ماننےسے انکار کیوں کیا ؟ اور ساتھ ہی یہ اعتراض بھی نقل کرتے ہیں کہ یہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی شان پر بھی چوٹ پڑتی ہے ۔ کیونکہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے مرتے دم تک ابوبکر رضی اللہ عنہ سے گفتگو کی اور نہ ہی ملاقات کی ۔
جواب : دراصل یہاں صرف اور صرف مغالطوں سے کام لینے کی کوشش کی جارہی ہے،کیونکہ اگر تمام طرق احادیث اسی مسئلہ پر جمع کیے جائیں تو یہ سارے اعتراضات کا لعدم ہوجاتے ہیں۔رہی بات اس مسئلے کی کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پیش کردہ حدیث مانے سے انکار کیوں کیا ؟ تو اس بات کو ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تک یہ حدیث نہ پہنچی تھی یا اس وقت ان کے ذہن میں نہ تھی، تب تو انہوں نے وراثت مانگی لیکن جب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ انہیں حدیث سنائی تو انہوں نے کبھی بھی وراثت کا سوال نہیں کیا۔اور نہ ہی کسی صحیح حدیث میں موجود ہے کہ انہوں نے حدیث سننے کے بعد حدیث کی مخالفت کی ہو۔لہذا یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماں رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل طور پر عاملہ تھیں۔
جن احادیث میں یہ ذکر ہو ہے کہ حضرت سیّدہ فاطمۃُ الزہرا رضی اللہ عنہا نے کبھی بھی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگواس امر پر محمل ہے کہ وراثت کے مسئلے کے لیے گفتگو نہ فرمائی لیکن ملاقات ترک نہ کی اور نہ اس کی کوئی واضح دلیل ہے۔
حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : فھجرتہ فاطمۃ فلم تکلمہ حتیٰ ماتت} ووقع عندبن شبۃ من وجہ اٰخر عن معمر(فلمہ تکلمہ فی ذالک المال}فتح الباری ،ج 6 ،ص164)
ترجمہ : حضرت سیّدہ فاطمۃُ الزہرا رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات ترک کی اور مرتے دم تک ان سے گفتگو نہ کی}معمر سے بطریق یہ روایت ہے کہ {جس روایت میں یہ ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگو نہ کی اس سے مراد یہ ہے کہ} فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے وراثت کے مال کے بارے میں گفتگو نہ کی ۔
یعنی وراثت کے مسئلے پر گفتگو نہ کی لہذا اگر کوئی ان باتوں سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مطلق ناراضگی مرادلے گا تو یہ غلط ہے۔کیونکہ دوسری روایت اس بات پر شاہد ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے گفتگو بھی فرمائی اور ان سے ملاقات بھی کی ۔
امام بیہقی رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب السنن الکبری میں زکر فرماتے ہیں : امام مرضت فاطمۃ رضی اللہ عنہا اتاھا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ فاستاذن علیھا فقال علیٰ : یافاطمۃ ؛ ھزا ابوبکر یستاذن علیک فقالت : اتحب ان اذن لہ قال نعم فاذنت لہ فدخل علیھا یترضاھا ۔ (السنن الکبری ، ج 6 ،ص 491 ،رقم 12735, چشتی)
ترجمہ : جب فاطمہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوئیں تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے پاس تشریف لائے اور آنے کی اجازت طلب کی تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : فاطمہ ، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے ہیں آپ سے ملنے کی اجازت طلب کر رہے ہیں۔ حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کیا آپ ان سے ملاقات کی اجازت دیں گے ؟ تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں پس وہ تشریف لائے اور ان کو راضی کیا ۔
سبحان اللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تمام اعمال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے لیے ہوا کرتے تھے ۔ الحمدللہ اس حدیث نے واضح کردیا کہ ان میں کو ئی بھی ایک دوسرے سے خفا نہیں تھا اور نہ ہی ناراضی تھی بلکہ احا دیث ہی پر عمل پیرا ہوتے تھے اور اپنی دنیا اور آخرت کی نجات بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم اتباع میں ہی سمجھتے تھے ۔
مسلہ باغ فدک شیعہ کتب کی روشنی
باغ فدک کیا ہے ؟ فدک خیبر کا ایک قصبہ ہے (وہاں ایک باغ ہے جسے باغ فدک کہا جاتا ہے) اور یہ بھی کہا گیا کہ حجاز کا ایک کنارہ ہے جس میں چشمےاور کھجوروں کے درخت ہیں یہ اللہ سبحانہ وتعالی نےاپنے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عطا کیا تھا ۔ (لسان العرب جلد2، صفحہ 473)
حضرت سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی حدیث سنائی کہ انبیاء علیہم السّلام کی وراثت مال نہیں علم ہے اور یہ بتایا کہ اس جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم اہلبیت کو دیا کرتے تھے وہ میں بھی جاری رکونگا تو حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا نے اپنے مطالبے سے رجوع کر لیا اور پھر ساری عمراس مسئلے پر کوئی بات نہیں کی بلکہ شیعوں کی اپنی کتاب میں ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ اس پر راضی ہو گئیں۔اس مسلے کو ہم کتب شیعہ سے لکھ رہے شاید کسی کو ہدایت نصیب ہوجائے اور وہ گستاخیاں چھوڑ دے یاد رہے اس مسلے کو بعض متعصب شیعہ علماء نے من گھڑت کہانیوں کے ذریعے اچھالا آیئے حقائق پڑھتے ہیں ۔
مشہور شیعہ مصنف اس کا نام کمال الدین میثم بن علی میثم البحرانی ہے۔ ساتویں صدی ہجری میں پیدا ہوا۔ ’’عالمِ ربانی، فلسفی، محقق، صاحبِ حکمت اور نہج البلاغۃ کی شرح کا مصنف ہے۔ محقق طوسی سے روایت کرتا ہے… کہا گیا ہے کہ خواجہ نصیر الدین طوسی نے فقہ کمال الدین میثم سے اور میثم نے حکمت خواجہ سے پڑھی تھی۔ ۶۷۹ھ میں وفات پائی اور ماحوذ کے قریب ایک بستی ہلتا میں دفن ہوا۔(الکنی والالقاب جلد ۱ ، صفحہ ۴۱۹)اسی نے کہا تھا ۔میں نے علوم و فنون اس لیے چاہے تھے کہ اس سے برتری حاصل کروں‘‘’’مجھے بس اسی قدر ملا کہ اسی تھوڑے سے میں بلند ہوگیا‘‘ ’’مجھے معلوم ہوگیا کہ سب کے سب محاسنفرع ہیں اور حقیقت میں مال ہی اصل ہے‘‘ ’’اس کی ایسی ایسی عجیب تصنیفات ہیں جن کے بارے میں زمانے میں سے کسی نے بھی نہیں سنا اور نہ ہی بڑے بڑوں میں سے کوئی اُسے پاسکا ہے ۔ (روضات الجنات ج ۲ ص ۲۱۸ اور مابعد)
شیعہ ابن میثم نہج البلاغہ کی شرح میں یہ روایت لکھتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا جو آپ کے والد محترم کا تھا وہ آپ کا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فدک میں سے آپ کیلئے کچھ رکھ لیا کرتے تھے باقی اللہ سبحانہ وتعالی کے راستے میں تقسیم کر دیا کرتے تھے اللہ کی قسم !میں آپ کے ساتھ ویسا ہی کروں گا جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیا کرتے تھے یہ سُن کر فاطمہ رضی اللہ عنہا خوش ہو گئیں اور اس بات کا آپ سے عہدلے لیا ۔ (شرح نہج البلاغ،جلد 5،صفحہ 7،از ابن میثم البحرانی مطبوعہ تہران،چشتی)
اسی جیسی ایک روایت شیعہ دنبلی نے اپنی شرح ’’الدرۃ النجفیہ صفحہ 331،332 مطبوعہ ایران‘‘ میں بیان کی ہے۔ (شرح نہج البلاغۃ جلد5 ،صفحہ 331،332ایران)
شیعہ ابن میثم،دنبلی،ابنِ ابی الحدید، اور معاصر شیعہ مصنف فیض الاسلام علی نقی نے یہ روایت نقل کی ہے : ابوبکر رضی اللہ عنہ باغِ فدک کے غلہ میں سے اتنا حصہ اہلِ بیت کو دے دیا کرتے تھے جو ان کی ضروریات کے لیئے کافی ہوتا۔ باقی سب تقسیم کردیا کرتے، آپ کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کرتے، عثمان رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کیا کرتے اور ان کے بعد علی رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے ۔ (شرح نہج البلاغۃ، لابنِ ابی الحدید جلد 4، صفحہ44)(شرح نہج البلاغۃ،لابنِ میثم البحرانی جلد 5، صفحہ 107،چشتی)(الدرۃ النجفیۃ‘‘ صفحہ 332)(شرح النہج البلاغہ،جلد 5،صفحہ 960، فارسی لعلی نقی ،مطبوعہ تہران)
شیعہ کتب گواہ ہں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی ویسا ہی کیا جیسا خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنھم نے کیا تو یہ شیعہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ پر کیا فتوی لگائیں گے ؟
نبی کریم اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم انبیاء علیہم السّلام کی وراثت مال نہیں ہے اس روایت کو متعصب شیعہ جھٹلاتے ہیں جبکہ یہ روایت خود شیعوں کی اپنی کتب میں موجود ہے، ان کی اپنی کتاب (کافی) میں جسےشیعہ سب سے صحیح کتاب کہتے ہیں اسی کتاب (کافی) میں شیعہ کلینی نےحماد بن عیسی سےاور حماد بن عیسی نےقداح سےجعفر ابو عبداللہ کی روایت نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ’’جو علم کو تلاش کرتے ہوئے علم کے راستے پر چلے، اللہ اسے جنت کے راستے پر چلا دیتا ہے ، اور عالم کی فضیلت عبادت گزار پر ایسی ہے، جیسے چودھویں کا چاند سارے ستاروں سے افضل ہے۔ علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں جو دینار و درہم وراثت میں نہیں چھوڑتے لیکن علم کی میراث چھوڑتے ہیں، جو اس میں سے کچھ حاصل کرلے اس نے بہت کچھ حاصل کرلیا ۔ (الاصول من الکافی کتاب فضل العلم، باب ثواب العالم والمتعلم جلد 1 صفحہ 34،چشتی)
جعفر ابوعبد اللہ نےایسی ہی ایک اور روایت میں کہا ہے: علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اور ان کا مالِ میراث درہم و دینار نہیں ہوتا، انہیں انبیاء علیہم السلام کی احادیث میراث میں ملتی ہیں ۔ (الاصول من الکافی باب صفۃ العلم وفضلہ وفضل العلماء جلد 1، صفحہ 32)
مزید دو روایتیں پیش خدمت ہیں جن سے اس روایت کی تائید ہوتی ہے، ان روایات کو بھی اس نے روایت کیا ہے جسے شیعہ قوم ’’صدوق‘‘ کے نام سے پکارتی ہے ۔
(1) براہیم بن علی رافعی نے اپنے باپ سے، اس نے اپنی دادی بنت ابی رافع سے روایت کیا ہے وہ کہتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرضِ وفات میں فاطمہ رضی اللہ عنہا بنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں بیٹوں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہنے لگیں”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دونوں آپ کے بیٹے ہیں، ان کو اپنی کچھ میراث دے دیجیے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ حسن رضی اللہ عنہ کے لیے میری ہیبت اور بزرگی ہے اور حسین رضی اللہ عنہ کے لیے میری جرأت اور میری سخاوت۔( کتاب الخصال‘‘ از قمی صدوق، صفحہ 77،چشتی)
(2) سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ کے دو بیٹے ہیں، انہیں کچھ عطا کیجیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حسن رضی اللہ عنہ کو میں نے اپنا رعب اور بزرگی دی اور حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی سخاوت اور شجاعت۔(کتاب الخصال“ از قمی صفحہ 77)
بعض متعصب شیعہ حضرات یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں نے باغِ فدک آپ کو اس لیئے نہیں دیا تھا کہ وہ علی رضی اللہ عنہ اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کو مفلس و قلاش کردینا چاہتے تھے تاکہ لوگ مال و دولت کے لالچ میں ان کی طرف راغب نہ ہو جائیں ۔ ہمیں ان پر اور ان کی عقلوں پر افسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ علی رضی اللہ عنہ اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کو اس آخری زمانے کے حکمرانوں جیسا سمجھتے ہیں جو دولت کے بل بوتے پر مال اور رشوت دے کر بڑے بڑے عہدے حاصل کرتے ہیں۔ اگر بالفرض یہ بات بھی تھی تو مال کی وافر مقدار ان کے پاس موجود تھی، دیکھئے شیعہ عالم کلینی اس کا ذکر کرتا ہے۔ دسویں امام ابو الحسن سے روایت ہے کہ سات باغات فاطمہ علیہا السلام کے لیے وقف تھے۔ وہ باغات یہ ہیں:(۱)دلال (۲) عوف(۳) حسنی (۴) صافیہ (۵) مالامِ ابراہیم (۶) مثیب (۷) برقہ ۔ (الفروع من الکافی‘‘ ،کتاب الوصایا ،جلد ۷ ،صفحہ ۴۷، ۴۸)
اب یہ بتا ئیں جو سات باغات کا مالک ہو اس کے پاس دولت کی کمی ہوگی ؟
محترم قارئین قابلِ غوریہ بات ہے کہ : اگر باغ فدک اور اس کی زمین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث تھی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اکیلی ہی اس کی وارث تو نہ تھیں، ابوبکر صدیق اور فاروق رضی اللہ عنہما کی بیٹیاں بھی اس کی وراثت میں شریک تھیں، اگر ابوبکر صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس وراثت سے محروم رکھا تو اپنی بیٹیوں کو بھی تو محروم رکھا۔ آخر اُن کی بات کوئی کیوں نہیں کرتا،ان کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہ بھی زندہ تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثاء میں وہ بھی شامل تھے۔
یاد رہے یہ اعتراض کرنے والے شیعہ حضرات اتنا بھی نہیں جانتے کہ ان کے مذہب میں عورت کو غیر منقولہ جائداد اور زمین کی وراثت میں کوئی حصہ نہیں ملتا۔ ان کے محدثین نے اس مسئلہ کو مستقل ابواب و عنوانات کے تحت بیان کیا ہے۔ دیکھیے کلینی نے ایک مستقل باب اس عنوان سے لکھا ہے: ’’عورتوں کو غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملتا‘‘ اس عنوان کے تحت اس نے متعدد روایات بیان کی ہیں۔چوتھے امام ابو جعفر سے روایت ہے کہ : انہوں نے کہا: ’’عورتوں کو زمین اور غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا۔(الفروع من الکافی‘‘ کتاب المواریث ،جلد7،صفحہ 137)
ابنِ بابویہ قمی صدوق نے اپنی صحیح ’’من لا یحضرہ الفقیہ‘‘ میں یہ روایت بیان کی ہے : ابو عبداللہ جعفر کی روایت ان کے پانچویں امام کی روایت میسر نے بیان کی ہے کہ میں نے آپ سے (یعنی جعفر سے) عورتوں کی میراث کے بارے میں پوچھا؟ آپ نے کہا: جہاں تک زمین اور غیر منقولہ جائداد کا تعلق ہے، اس میں عورتوں کی میراث نہیں۔(من لا یحضرہ الفقیہ““،کتاب الفرائض والمیراث جلد۴ ،صفحہ ۳۴۷،چشتی)
اسی طرح اور بہت سی روایات بھی بیان کی گئی ہیں جن کی بناء پر اُن کے علماء نے اتفاق کیا ہے کہ زمین اور غیر منقولہ جائداد میں عورتوں کو میراث نہیں دی جاتی ۔
اگر عورتوں کو زمین اور باغات وغیرہ کی جائیداد نہیں دی جاتی تو فاطمہ رضی اللہ عنہ نے بقول ان کے کس طرح فدک کا مطالبہ کیا تھا۔ کوئی کوڑھ مغز بھی اس سے اختلاف نہیں کرسکتا کہ یقینا فدک غیر منقولہ جائداد تھی۔
کیا حضرت سیّدہ طیّبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس مسلہ پر ناراض تھیں کا جواب شیعوں کے سب سے بڑے متعصب عالم مجلسی کے قلم سے پڑھیئے ، باوجود شدید نفرت و کراہت کے یہ بات کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ:سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا خفا ہوگئیں تو ان سے کہنے لگے: میں آپ کے فضل اور رسول اللہ علیہ السلام سے آپ کی قرابت کا منکر نہیں۔ میں نے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں فدک آپ کو نہیں دیا۔ میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ علیہ السلام کو یہ کہتے سنا ہے: ہم انبیاء کا گروہ، مالِ وراثت نہیں چھوڑتے۔ ہمارا ترکہ کتاب و حکمت اور علم ہے۔ اس مسئلے میں میں تنہا نہیں، میں نے یہ کام مسلمانوں کے اتفاق سے کیا ہے۔ اگر آپ مال و دولت ہی چاہتی ہیں تو میرے مال سے جتنا چاہیں لے لیں، آپ اپنے والد کی طرف سے عورتوں کی سردار ہیں، اپنی اولاد کے لیے شجرۂ طیبہ ہیں، کوئی آدمی بھی آپ کے فضل کا انکار نہیں کرسکتا۔(حق الیقین‘‘ ،صفحہ ۲۰۱، ۲۰۲ ،ترجمہ فارسی)
مولائے کائنات حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اقتدار پر فائز ہوتے ہی ابن سباء کی نسل کی اس سازش پر ضربِ کاری لگائی ۔ امامِ شیعہ، سید مرتضیٰ علم الہدیٰ لکھتا ہے:جب فدک کے انکار کا معاملہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تک پہنچا تو آپ نے کہا: مجھے شرم آتی ہے کہ میں اس چیز کو دے ڈالوں جس کو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے روک لیا تھا اور عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسی حال میں برقرار رکھا۔ (الشافی‘‘ للمرتضیٰ صفحہ ۲۳۱،چشتی)( شرح نہج البلاغۃ لابنِ ابی الحدید“، جلد ۴)
حضرت امام ابوجعفر محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کے بارے میں کثیر النوال نے پوچھا: ’’میں آپ پر قربان جاؤں۔ کیا آپ کا خیال ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کا حق روک کر آپ پر ظلم کیا ہے؟‘‘ یا ان الفاظ میں کہا کہ: ’’آپ کا کچھ حق تلف کیا ہے؟‘‘ آپ نے کہا: ’’ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس نے اپنے اس بندے پر قرآن نازل کیا جو سارے جہانوں کے لیے نذیر (ڈرانے والے) ہیں ، ہم پر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا گیا۔‘‘ میں نے کہا: ’’قربان جاؤں کیا میں بھی ان دونوں سے محبت رکھوں؟‘‘کہنے لگے: ’’ہاں تیرا ستیاناس! تو ان دونوں سے محبت رکھ، پھر اگر کوئی تکلیف تجھے پہنچے تو وہ میرے ذمے۔(شرح نہج البلاغۃ‘‘ لابنِ ابی الحدید، جلد ۴ ،صفحہ ۸۲)
ہم نے شیعہ مذھب کی معتبر کتابوں شیعہ جنہیں اپنا امام مانتے ہیں (آئمہ اہلبیت رضی اللہ عنہم) اور دیگر شیعہ نے صاف صاف یہ کہا کہ : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نےاُن پر کوئی ظلم نہیں کیا پھر یہ اجہل متعصب شیعہ کیوں ان مقدس ہستیوں پرتہمتیں لگاتے ہیں ؟ یا تو صآف لکھیں شیعہ مذھب کے تمام امام جھوٹے ہیں یا یہ شیعہ خود جھوٹے ہیں فیصلہ خود کیجیے ۔
امام محمد باقر رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت امام زید بن علی بن حسین رضی اللہ عنہم نے بھی فدک کے مسئلے میں وہی کچھ فرمایا جو آپ کے دادا مولا علی علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا پڑھیئے شیعہ مذھب کی معتبر کتاب کے حوالے سے : بحتری بن حسان کے پوچھنے پر حضرت امام زید بن علی بن حسین رضی اللہ عنہم نے کہا: ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تحقیر و توہین کے طور پر میں نے زید بن علی علیہ السلام سے کہا: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فدک فاطمہ رضی اللہ عنہا سے چھین لیا، یہ سن کر آپ کہنے لگے: ابوبکر رضی اللہ عنہ مہربان آدمی تھے، وہ ناپسند کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کیے ہوئے کسی کام میں تغیر و تبدل کریں۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا ان کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فدک دیا تھا، آپ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: آپ کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت ہے؟ آپ علی رضی اللہ عنہ کو لے آئیں ، انہوں نے اس بات کی گواہی دی۔ ان کے بعد ام ایمن رضی اللہ عنہا آئیں اور کہنے لگیں: کیا تم دونوں گواہی نہیں دیتے کہ میں اہلِ جنت میں سے ہوں، دونوں کہنے لگے کیوں نہیں، ابو زید نے کہا: یعنی انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ سے کہا، کہنے لگیں: میں گواہی دیتی ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فدک ان (فاطمہ رضی اللہ عنہا) کو دیا تھا، اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کسی اور آدمی یا عورت کو بھی اس جھگڑے میں فیصلہ کرنے کا حق دار سمجھتی ہیں، اس پر ابو زید کہنے لگے: اللہ کی قسم اگر فیصلہ میرے پاس آتا تو میں بھی وہی فیصلہ کرتا جو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا ہے۔(شرح نہج البلاغۃ‘‘ لابنِ ابی الحدید، جلد ۴ صفحہ ۸۲،چشتی)
الحمد للہ فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے مسلہ باغ فدک کے متعلق شیعہ مذھب کی معتبر کتابوں سے اس مسلہ کو علمی اور مہذب انداز میں پیش کر دیا ہے جو کچھ آئمہ اہلبیت رضی اللہ عنہم نے فرمایا اور جو کچھ شیعہ مذھب کے معتبر علماء نے لکھا یہی اہلسنت و جماعت کا مؤقف ہے مجھے حیرت ہوتی اجہل قسم کے شیعہ ذاکرین اور سننے پڑھنے والے شیعہ حضرات آئمہ اہلبیت رضی اللہ عنہم کی تعلیمات و ارشادات کو کیوں فراموش کر دیتے ہیں اس کی وجہ صاف ہے کہ یہ جھوٹی محبت کے دعویدار ہیں صرف امت مسلمہ میں فتنہ و فساد پھیلانا ان کا کام ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کہ اہل اسلام کو ابن سباء یہودی کے پھیلائے ہوئے اس فتنہ و شر سے محفوظ فرمائے اور حق کو قبول کرنے اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔
باغِ فَدَک اور حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کا فیصلہ
محترم قارئینِ کرام : یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ تمام کتب تواریخ اس پر شاہد ہیں کہ فدک زمانہ علوی میں بھی اسی طرح رہا جیسے صدیق و فاروق و عثمان رضی ﷲ عنہما کے دور خلافت میں تھا اور حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے بھی فدک میں وہی طریقہ جاری رکھا جو صدیق اکبررضی ﷲ عنہ نے جاری رکھا تھا ۔
آیئے پہلے اس کے متعلق پڑھتے ہیں کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ بھی خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی طرح فدک کو استعمال میں لائے :
شیعہ عالم الدکتور سعید السَّامرّائی لکھتا ہے : جب امر خلافت علی بن ابی طالب علیہ السّلام کے سپرد ہوا تو علی علیہ السّلام سے فدک کو اہلبیت کی طرف لوٹانے کے بارے میں کہا گیا تو علی علیہ السّلام نے جواب میں فرمایا کہ خدا کی قسم مجھے اس کام کو کرنے میں اللہ سے حیا آتی ہے جس کام کو ابوبکر عمر (رضی اللہ اللہ عنہما) نے نہی کیا ۔ (شیعہ کتاب : حجج النّھج صفحہ نمبر 277)
شیعہ محقق مرتضی علی موسوی لکھتا ہے : جب امر خلافت علی علیہ السّلام کے سپرد ہوا تو علی علیہ السّلام شیرخدا سے فدک کو اہلبیت کی طرف لوٹانے کے بارے میں کہا گیا تو علی علیہ السّلام نے جواب میں فرمایا کہ خدا کی قسم مجھے اس کام کو کرنے میں اللہ سے حیا آتی ہے جس کام کو ابوبکر عمر (رضی اللہ عنہما) نے نہیں کیا ۔ (شیعہ کتاب : الشافی فی الامامت صفحہ نمبر 76،چشتی)
شیعہ عالم الدکتور سعید السَّامرّائی لکھتا ہے : یہ سن کر سیدہ فاطمہ علیہا السّلام نے کہا کہ فدک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے ھبہ کردیا تھا ۔ابو بکر (رضی اللہ عنہ) نے پوچھا کہ اس بات کا کوئی گواہ تو حضرت علی علیہ السّلام اور ام ایمن بطور گواہ پیش ہوئے ۔ اور اس امر کی گواہی دی ۔ اتنے میں حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) اور عبدالرحمن بن عوف (رضی اللہ عنہ) بھی آگئے ۔ ان دونوں نے یہ گواہی دی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فدک کو تقسیم فرماتے تھے ۔ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ اے بنت پیغمبر توں نے بھی سچ کہا اے علی علیہ السّلام تم بھی سچے ہو ۔ اس لیے کہ اے فاطمہ علیہا السّلام تیرے لیے وہی کچھ ہے ۔ جو آپ کے والد کا تھا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فدک کی آمدنی سے تمہاری خوراک کا اہتمام فرماتے تھے ۔ اور باقی ماندہ کو تقسیم فرمادیتے اور اس میں سے فی سبیل اللہ سواری بھی لے دیتے ۔ تمہارے بارے میں اللہ سے معاہدہ کرتا ہوں کہ میں اسی طرح تم سے سلوک کروں گا جس طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سلوک فرمایا کرتے تھے ۔ تو یہ سن کر سیدہ فاطمہ حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے راضی ہوگئیں ۔ اور اسی بات پر ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) سے عہد لیا ۔ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) فدک کا غلہ وصول کرتے اور اہلبیت کو ان کی ضرورت کے مطابق دے دیتے ۔ ان کے بعد حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) بھی فدک کواسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے ، اس کے بعد عثمان (رضی اللہ عنہ) بھی فدک اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے ، اس کے بعد علی علیہ السّلام بھی فدک کو اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے ۔ (شیعہ کتاب : حجج النھج صفحہ نمبر 266،چشتی)
شیعہ محقق لکھتا ہے : جب امر خلافت علی رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوا تو علی شیرخدا رضی اللہ عنہ سے فدک کو اہلبیت رضی اللہ عنہم کی طرف لوٹانے کے بارے میں کہا گیا تو علی شیرخدا رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا کہ خدا کی قسم مجھے اس کام کو کرنے میں اللہ سے حیا آتی ہے جس کام کو ابوبکر عمر رضی اللہ عنہما نے نہیں کیا ۔ (شیعہ کتاب : شرح نھج البلاغہ ابن حدید جلد ۱۶ صفحہ ۲۵۲)
اب سوال یہ ہے کہ اگر حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ نے اپنے دور حکومت میں فدک غصب کرلیا تھا تو جناب حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کا فرض تھا کہ وہ فدک کو تقسیم کرتے اور اس وقت جو اس کے وارث موجود تھے ، ان کو دے دیتے اور جو ناجائز بات چلی آرہی تھی اور جو ظلم روا رکھا گیا تھا ، اس کو اپنے دور خلافت میں ختم کردیتے کیونکہ خود حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے میں کہ امام کےلیے پانچ امر ضروری ہیں : ⏬
(1) خوب وعظ کہنا ۔
(2) لوگوں کی خیر خواہی میں خوب قوت صرف کرنا ۔
(3) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنت کو زندہ کرنا ۔
(4) سزاؤں کے حق داروں کو سزا دینا ۔
(5) حق داروں کو ان کے حقوق واپس لوٹا دینا ۔ (نہج البلاغہ مصری جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 202)
اسی طرح شیعہ مذھب کی مشہور کتاب رجال کشی میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا یہ ارشاد مذکور ہے : انی اذا بصرت شیئا منکراً او قدت نارا و دعوت قنبراً ۔ (رجال کشی صفحہ نمبر 199،چشتی)
ترجمہ : جب میں خلافِ شریعت کام دیکھتا ہوں تو آگ جلاتا ہوں اور قنبر کو بلاتا ہوں ۔
اسی بناء پر آپ نے ان لوگوں کو آگ میں جلا دیا تھا ۔ جو آپ کو خدا کہنے لگ گئے تھے پھر فرماتے ہیں : ولا المعطل للسنۃ فیہلک الامۃ ۔ (نہج البلاغہ صفحہ 398)
ترجمہ : امام ایسا نہیں ہونا چاہئے جو پیغمبرکے طریقے کو چھوڑ دے، ورنہ امت ہلاک ہوجائے گی ۔
لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جناب حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ نے فدک میں وہی طریقہ جاری رکھا جو حضرت سیدنا صدیق اکبر اور حضرت عمر رضی ﷲ عنہما کا تھا یہ اس امر کی بہت بڑی دلیل ہے کہ حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کے نزدیک باغِ فَدک میں صدیقی طرز عمل حق و صواب تھا اور حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ صدیقی طرز عمل کو بالکل شریعت اسلامیہ کے مطابق جانتے تھے ۔
حقیقت یہ ہے کہ شیعہ حضرات کا صدیقی خلافت میں غصبِ فَدک کا قول کرنا حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کی امامت و خلافت پر شرمناک حملہ ہے ۔ کیونکہ اگر یہ مان لیا جائے کہ صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ نے باغِ فَدک غصب کرلیا تھا تو حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ پر بھی یہ الزام قائم ہوگا ۔ کہ انہوں نے فدک کو صدیقی خلافت کے دستو رپر جاری رکھ کر امت و خلافت کا حق ادا نہیں کیا ۔ حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ اگر غاصب فدک ثابت ہونگے تو حضرت مولا علی مرتضیٰ رضی ﷲ عنہ غصب کے برقرار رکھنے والے ثابت ہونگے ۔ سوچئے کہ غصب کرنے والا زیادہ مجرم ہے یا غصب کو برقرار رکھنے والا ۔ اور غاصبوں کے طرز عمل کی حکومت و سلطنت کے با وجود حمایت کرنے والا ۔ (معاذ ﷲ) ۔ غرضیکہ قضیہ فدک میں جناب حضرت مولا علی الممرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کا طرز عمل دنیائے شیعیت پر بہت بھاری حجت ہے ۔ اگر حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ کی خلافت پر اعتراض ہوگا تو حضرت سیدنا مولا علی رضی ﷲ عنہ کی خلافت پر بھی حرف آئے گا ۔ پس جناب حضرت مولا علی المرتضیٰ کا اراضی فدک کو اسی دستور پر رکھنا جس پر کہ جناب صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ نے رکھا تھا ، حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی حقانیت اور ان کے طرز عمل کی صحت پر دلیل قاہر ہے ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حدیث لَانُوَرِّثُ مَاتَرَكْنَا فَهو صَدَقَةٌ کتب اہلسنت و شیعہ کی روشن میں حصّہ سوم
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کو باغِ فَدَک دینے سے انکار فرمادیا تھا : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْمُغِيرَةِ ، قَالَ : جَمَعَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بَنِي مَرْوَانَ حِينَ اسْتُخْلِفَ ، فَقَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ لَهُ فَدَكُ فَكَانَ يُنْفِقُ مِنْهَا وَيَعُودُ مِنْهَا عَلَى صَغِيرِ بَنِي هَاشِمٍ وَيُزَوِّجُ مِنْهَا أَيِّمَهُمْ ، وَإِنَّ فَاطِمَةَ سَأَلَتْهُ أَنْ يَجْعَلَهَا لَهَا فَأَبَى فَكَانَتْ كَذَلِكَ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ ، فَلَمَّا أَنْ وُلِّيَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَيَاتِهِ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ ، فَلَمَّا أَنْ وُلِّيَ عُمَرُ عَمِلَ فِيهَا بِمِثْلِ مَا عَمِلَا حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ ، ثُمَّ أَقْطَعَهَا مَرْوَانُ ، ثُمَّ صَارَتْ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، قَالَ عُمَرُ : يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَرَأَيْتُ أَمْرًا مَنَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام لَيْسَ لِي بِحَقٍّ وَأَنَا أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ رَدَدْتُهَا عَلَى مَا كَانَتْ يَعْنِي عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ أَبُو دَاوُد : وَلِيَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْخِلَافَةَ وَغَلَّتُهُ أَرْبَعُونَ أَلْفَ دِينَارٍ ، وَتُوُفِّيَ وَغَلَّتُهُ أَرْبَعُ مِائَةِ دِينَارٍ وَلَوْ بَقِيَ لَكَانَ أَقَلَّ . (سنن ابی داؤد الجزء الثالث حدیث نمبر 2972 صفحہ نمبر 253،چشتی)
ترجمہ اردو : مغیرہ کہتے ہیں` عمر بن عبدالعزیز جب خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مروان بن حکم کے بیٹوں کو اکٹھا کیا پھر ارشاد فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس فدک تھا ، آپ اس کی آمدنی سے (اہل و عیال ، فقراء و مساکین پر) خرچ کرتے تھے ، اس سے بنو ہاشم کے چھوٹے بچوں پر احسان فرماتے تھے ، ان کی بیوہ عورتوں کے نکاح پر خرچ کرتے تھے، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فدک مانگا تو آپ نے انہیں دینے سے انکار کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی تک ایسا ہی رہا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انتقال فرما گئے ، پھر جب ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے ویسے ہی عمل کیا جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں کیا تھا، یہاں تک کہ وہ بھی انتقال فرما گئے ، پھر جب عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے بھی ویسے ہی کیا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ بھی انتقال فرما گئے ، پھر مروان نے اسے اپنی جاگیر بنا لیا ، پھر وہ عمر بن عبدالعزیز کے قبضہ و تصرف میں آیا ، عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : تو میں نے اس معاملے پر غور و فکر کیا ، میں نے اسے ایک ایسا معاملہ جانا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فاطمہ علیہا السلام کو دینے سے منع کر دیا تو پھر ہمیں کہاں سے یہ حق پہنچتا ہے کہ ہم اسے اپنی ملکیت میں رکھیں ؟ تو سن لو ، میں تم سب کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اسے میں نے پھر اس کی اپنی اسی حالت پر لوٹا دیا ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں تھا (یعنی میں نے پھر وقف کر دیا ہے) ۔ امام ابوداؤد علیہ الرحمہ کہتے ہیں : عمر بن عبدالعزیزخلیفہ مقرر ہوئے تو اس وقت ان کی آمدنی چالیس ہزار دینار تھی ، اور انتقال کیا تو (گھٹ کر) چار سو دینار ہو گئی تھی ، اور اگر وہ اور زندہ رہتے تو اور بھی کم ہو جاتی ۔
عَن المغيرةِ قَالَ: إِنَّ عمَرَ بنَ عبد العزيزِ جَمَعَ بَنِي مَرْوَانَ حِينَ اسْتُخْلِفَ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ لَهُ فَدَكُ فَكَانَ يُنْفِقُ مِنْهَا وَيَعُودُ مِنْهَا عَلَى صَغِيرِ بَنِي هَاشِمٍ وَيُزَوِّجُ مِنْهَا أَيِّمَهُمْ وَإِنَّ فَاطِمَةَ سَأَلَتْهُ أَنْ يَجْعَلَهَا لَهَا فَأَبَى فَكَانَتْ كَذَلِكَ فِي حَيَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَيَاتِهِ حَتَّى مَضَى لسبيلِه فَلَمَّا وُلّيَ أَبُو بكرٍ علم فِيهَا بِمَا عَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَيَاتِهِ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ فَلَمَّا أَنْ وُلِّيَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَمِلَ فِيهَا بِمِثْلِ مَا عَمِلَا حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ ثُمَّ اقْتَطَعَهَا مَرْوَانُ ثُمَّ صَارَتْ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَرَأَيْتُ أَمْرًا مَنَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ لَيْسَ لِي بِحَقٍّ وَإِنِّي أُشْهِدُكُمْ أَنِّي رَدَدْتُهَا عَلَى مَا كَانَتْ. يَعْنِي عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وعمَرَ . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد ۔ (حدیث مشکوٰۃ)
ترجمہ : روایت ہے حضرت مغیرہ سے ۱؎ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ابن عبدالعزیز نے مروان کی اولاد کو جمع فرمایا ۲؎ جب آپ خلیفہ ہوئے پھر فرمایا کہ فدک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تھا جس سے آپ خرچ فرماتے تھے اور اس سے بنی ہاشم کے بچوں پر لوٹاتے تھے اسی میں سے اور اسی سے ان کی بیوگان کا نکاح کرتے تھے۳؎ اور حضرت فاطمہ نے آپ سے سوال کیا تھا کہ یہ انہیں دے دیں تو انکار فرمادیا تھا ۴؎ پھر وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی شریف میں اسی طرح رہا حتی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی راہ تشریف لے گئے پھر جب ابوبکر صدیق خلیفہ بنائے گئے تو آپ نے اس میں وہ ہی عمل کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی زندگی شریف میں کرتے تھے حتی کہ آپ بھی اپنی راہ گئے پھر جب حضرت عمر ابن خطاب خلیفہ بنائے گئے تو انہوں نے اس میں وہ ہی کام کیے جو ان دونوں بزرگوں نے کیے تھے ۵؎ حتی کہ وہ بھی اپنی راہ گئے پھر اسے مروان نے بانٹ لیا ۶؎ پھر وہ عمر ابن عبدالعزیز کے پاس پہنچا تو میں سمجھتا ہوں کہ جس چیز کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب فاطمہ کو نہ دیا اس میں میرا حق نہیں کہ تم کو گواہ بناتا ہوں کہ میں اسے اسی حال کی طرف لوٹاتا ہوں جہاں پر وہ تھا یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکروعمر کے زمانہ میں ۷؎ (ابوداؤد،چشتی)۔(تاریخ الخلفاء مترجم اردو صفحہ نمبر 466 مطبوعہ پروگریسو بکس اردو بازار لاہور)
حکیم الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں : ۱؎ خیال رہے کہ مغیرہ تین ہیں : ایک صحابی،دو تابعی مغیرہ ابن شعبہ صحابی ہیں جن کے حالات بارہا بیان ہوچکے اور اکثر صرف مغیرہ کہنے سے یہ ہی مراد ہوتے ہیں۔دوسرے مغیرہ ابن زید موصلی یہ تابعی ہیں۔امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ منکرالحدیث ہیں۔تیسرے مغیرہ ابن مقسم کوفی نابینا تھے،فقہی ومتقی تھے،۱۳۳ھ میں ان کی وفات ہوئی۔یہاں یہ تیسرے مغیرہ مراد ہیں نہ کہ مغیرہ ابن شعبہ صحابی کیونکہ حضرت مغیرہ صحابی کا انتقال ۵۰ھ پچاس ہجری میں ہوا اور عمر ابن عبدالعزیز ۹۹ ننانوے ہجری میں والی بنے تو یہ واقعہ حضرت مغیرہ صحابی کیسے بیان کرسکتے ہیں۔(مرقات)مگر حضرت شیخ کو یہاں سخت دھوکا لگا کہ وہ مغیرہ ابن شعبہ فرماگئے،یہاں تیسرے مغیرہ یعنی ابن مقسم کوفی مراد ہیں۔
۲؎ آپ عمر ابن عبدالعزیز ابن مروان ابن حکم ہیں،قرشی ہیں،اموی ہیں،تابعی ہیں،آپ کی کنیت ابوحفص ہے،آپ کی والدہ لیلی بنت عاصم ابن عمرابن خطاب ہیں یعنی حضرت عمرفاروق کی پوتی،سلیمان ابن عبدالملک کے بعد خلیفہ ہوئے، ۹۹ھ میں اور ۱۰۱ ایک سو ایک میں وفات پائی،مدت خلافت کل دو سال پانچ مہینہ،عمر شریف چالیس سال ہوئی یا اس سے بھی چند ماہ کم،متقی زاہد شب بیدار،بہت ہی خوفِ خدا رکھنے والے بزرگ تھے،جب آپ کی بیوی فاطمہ بنت عبدالملک سے آپ کے زمانہ خلافت کے حالات پوچھے گئے تو فرمانے لگیں کہ خلیفہ بننے کے بعد کبھی غسل جنابت نہ کیا،رات کا اکثر حصہ آہ وزاری میں گزارتے تھے۔
۳؎ یعنی باغ فدک کی آمدنی سے حضور انور یہ کام کرتے تھے اولًا اپنے گھر بار پر خرچ،پھر فقراءواقارب پر خرچ فرماتے۔یعود کے معنی ہیں باربار ان پر خرچ فرمانا یہ فرق ہے عائدہ اور فائدہ کے درمیان،فائدہ ایک بارنفی اور عائدہ بار بارنفی۔
۴؎ یعنی حضرت فاطمہ زہرا نے حضور کی زندگی پاک میں باغ فدک حضور سے مانگا۔آپ نے تملیک سے انکار فرمادیا،حضور چاہتے تھے کہ باغ میرے بعد وقف رہے کیونکہ حضرات انبیاء کرام کا متروک مال وقف ہوتا ہے۔چنانچہ ایسا ہی ہوا حتی کہ حضرت علی نے بھی اسے اپنی خلافت میں تقسیم نہ فرمایا۔
۵؎ یعنی حضرت ابوبکرصدیق اور عمر فاروق نے صرف متولی ہونے کی حیثیت سے اس باغ کی آمدنی کا انتظام فرمایا،کسی نے اسے اپنی ملکیت قرار نہ دیا۔حضرات امہات المؤمنین نے عثمان غنی کو حضرت صدیق اکبر کے پاس طلب میراث کےلیے بھیجنا چاہا تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے منع فرمادیا وہ حدیث سنا کر کہ حضرات انبیاءکرام کی میراث تقسیم نہیں ہوتی۔(دیکھو اشعۃ اللمعات میں اس حدیث کی شرح)جناب فاطمہ زہرا نے صدیق اکبر سے میراث مانگی تو آپ نے وہ ہی حدیث سناکر تقسیم میراث سے انکار فرمادیا جسے حضرت زہرا نے قبول فرمایا اور اس کے متعلق کبھی ذکر تک نہ کیا ، کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ سرکار فرمان مصطفی سن کر ناراض ہوتیں۔فغضبت کے معنی ہیں کچھ اور ہیں جو ان شاء اللہ اپنے مقام پر بیان ہوں گے بہرحال یہ باغ وقف رہا ۔
۶؎ یعنی مروان ابن حکم نے اپنے دور حکومت میں باغ فدک پر اپنے آپ میں تقسیم کرلیا کہ کچھ حصہ اپنے پاس رکھا کچھ اپنے عزیزوں کو دیا یہ ہی صحیح ہے۔مرقات نے فرمایا کہ مروان کی یہ تقسیم خلافت عثمانی میں ہوئی محض غلط ہے۔یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حضرت عثمان و علی زندہ ہوں اور مروان کی یہ حرکت دیکھ کر خاموش رہیں اور حضرت علی اپنے دور حکومت میں اس کی یہ تقسیم قائم رکھیں مرقات نے یہ سخت غلطی کی ہے۔اشعۃ اللمعات نے یہ ہی فرمایا کہ مروان کی یہ حرکت اپنے دور حکومت میں تھی۔خیال رہے کہ مروان ابن حکم حضرت عمر ابن عبدالعزیز کا دادا ہے،یہ زمانہ نبوی میں پیدا تو ہوا مگر حضور کے دیدار سے محروم رہا کیونکہ حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے باپ حکم کو مدینہ سے طائف نکال دیا تھا،یہ اس وقت بہت کم سن تھا خلافت عثمان میں یہ مدینہ منورہ آیا لہذا مروان صحابی نہیں ۔
8۷؎ یعنی اس باغ میں میرا کچھ حصہ نہیں یہ اسی طرح وقف رہے گا جیسے ان حضرات کے زمانہ میں وقف تھا۔چنانچہ آپ نے تمام بنی امیہ سے وہ باغ واپس لے کر ویسے ہی وقف قرار دے دیا۔یہ عدل و انصاف آپ کے انتہائی تقویٰ،طہارت خوفِ خدا کی دلیل ہے۔ خیال رہے کہ حضرت عمر نے اپنی خلافت میں باغ فدک حضرت علی و عباس کی تولیت میں دے دیا تھا ، یہ دونوں حضرات متولی تھے نہ کہ مالک ، پھر ان دونوں نے اس کی تقسیم چاہی تو جناب فاروق نے فرمایا کہ تقسیم کیسی یہ تمہاری ملکیت نہیں صرف تولیت ہے ، یہ قصہ بخاری شریف وغیرہ میں بہت تفصیل سے مذکور ہے ۔ خیال رہے کہ حضرت علی و عباس نے ملکیت کی تقسیم نہ چاہی تھی بلکہ تولیت کی تقسیم کی خواہش کی تھی حضرت عمر نے اس کو بھی قبول نہ فرمایا تاکہ آگے چل کر یہ تقسیم ملکیت کا ذریعہ نہ بن جائے ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا متروکہ مال سارے مسلمانوں کے نفع پر خرچ ہوگا مگر اس کا انتظام یا بادشاہ کرے گا یا جسے بادشاہ اسلام مقرر فرمادے ۔ (مراۃ شرح مشکوٰۃ جلد نمبر 5 حدیث نمبر 4063،چشتی)
فیصلہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حق میں شیعہ کتب سے گواہی : ⏬
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا آلِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حق میں یہ فیصلہ اس قد رحق اور صواب تھا کہ سنی عُلما کی شہادتیں تو درکنار خود شیعہ اہل علم اپنے ائمہ اہل بیت کے حوالہ سے اس فیصلہ کو مبنی برحق و صواب تسلیم کرتے چلے آرہے ہیں ، جیسا کہ شیعہ علما لکھتے ہیں : ⏬
ابو حامد عبدالحمید المعروف ابن ابی الحدید شیعی (متوفی 656ھ) بہ اسنادِ جناب محمد باقر (امام پنجم شیعہ ) سے روایت کرتے ہیں : عن کثیر النواء قال قلت لأبي جعفر محمد بن علي جعلني الله فداك أرأیت أبابکر وعمر هل ظلماکم من حقکم شیئًا أو قال ذهبَا من حقکم بشيء فقال: لا والذي أنزل القرآن علىٰ عبده لیکون للعالمین نذیرًا، ما ظلمنا من حقنا مثقال حبة من خردل. قلت جعلت فداك، أفأتولاهما قال نعم: ویحك تولاهما في الدنیا والآخرة وما أصابك ففي عنقي، ثم قال: فعل الله بالمغيرة وتبيان، فإنهما كذبا علينا أهل البيت ۔ (شرح نہج البلاغۃ لابن ابی الحدید: 4؍113، الفصل الاول بحث فدک ؛ و رحماء بينهم: 1؍ 102)
ترجمہ : کثیر النوا کہتے ہیں ، میں نے امام محمد باقر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے تمہاری کوئی حق تلفی کی ہے تو اُنہوں نےمیرے جواب میں فرمایا : قرآن نازل کرنے والے ربّ تعالیٰ کی قسم! ان دونوں نے رائی کے دانے برابر بھی ہماری حق تلفی نہیں کی تو پھر میں نےپوچھا کہ کیا میں ان دونوں سے دوستی رکھوں تو اُنہوں نے فرمایا : دنیا اور آخرت دونوں میں ان کی دوستی کادم بھرو۔ اگر ان کی دوستی پر تجھ سے کچھ مؤاخذہ ہوا تو اس کی ذمہ داری میری گردن پر ہے۔ اللہ مغیرہ اور تبیان کو غارت کرے ، وہ آل نبی پر ظلم و ستم کے جھوٹے قصے اور داستانیں گھڑتے رہتے ہیں ۔
امام زید بن زین العابدین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : وأیم الله لو رَجع الأمر إلىٰ لقضیتُ فیه بقضاء أبي بکر ۔ (شرح نہج البلاغۃ لابن ابی الحدید جلد 4 صفحہ 113)
ترجمہ : امام زید شہید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! اگر فدک کی تقسیم کا مقدمہ میری طرف لوٹ کر آتا تو میں بھی اس کا وہی فیصلہ کرتا جو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نےفیصلہ کیا تھا ۔' یعنی امام کے نزدیک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا فیصلہ بالکل درست اور صحیح تھا ۔ (یہ فیصلہ السنن الکبریٰ از بیہقی 2؍302 باب بیان مصرف أربعة أخماس الفيء میں بھی موجود ہے)
امام محمد باقر اور امام زید رضی اللہ عنہما جیسے کبار ائمہ اہلبیت نے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بلا فصل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس فیصلہ کو صائب اور مبنی برحق فیصلہ اس لیے قرار دیا ہے کہ یہ متواتر حدیث «ومَا ترکنا صدقة» خود اَئمہ اہلبیت رضی اللہ عنہم کے علم و تحقیق کےمطابق زیرِ بحث قضیہ میں ایسی نصِ قطعی اور برہانِ جلی ہے کہ اس کا انکار ان بزرگوں کے نزدیک مکابرہ (مدافعة الحق بعد العلم به) اور پرلے درجہ کی ہٹ دھرمی کے متراف تھا ۔ او ریہ متواتر حدیث نہ صرف ان اَئمہ کرام کے علم میں تھی بلکہ یہ اہل علم کے ہاں اس قدر متداول ہے کہ اَکابر شیعہ محدثین بھی اس کو اپنی صحاح اور دوسری کتبِ معتبرہ میں روایت کرتے چلے آرہے ہیں : ⏬
چوتھی صدی کے مشہور شیعی محدث محمد بن یعقوب کلینی رازی (م329ھ) اپنی کتاب اُصولِ کافی میں بروایت ابوالبختری امام ابو عبداللہ جعفر صادق سے حسب ِذیل الفاظ میں روایت کرتے ہیں : عن أبي عبد الله قال إن العلماء ورثة الأنبیاء وذٰلك أن الأنبیاء لم یورثوا درهمًا ولا دینارًا وإنما ورثوا أحادیث من أحادیثهم فمن أخذ بشيء منها أخذ بحظ وافر ۔ (اُصول کافی جلد 1 صفحہ 32)
ترجمہ : حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہر گاہ علما انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں ، اس لیےکہ انبیاء علیہم السلام کی وراثت درہم و دینار کی صورت میں نہیں ہوتی ۔ وہ اپنی حدیثیں وراثت میں چھوڑتے ہیں جو اُنہیں لے لیتا ہے ، اُس نے پورا حصہ پالیا یعنی جو اِن احادیث کو حاصل کرلے ، وہی وراثتِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا حامل اور وارث ہوتا ہے ۔
ابو منصور احمد بن علی طبرسی شیعہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حسبِ ذیل حدیث بلا کسی ردّ و قدح کے یوں روایت کرتے ہیں : إني أشهد الله وکفٰى به شهیدًا أني سمعت رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یقول : نحن معاشر الأنبیاء لا نورث ذهبًا ولا فضة ولا دارًا ولا عقارًا وإنما نورث الکتاب والحکمة والعلم والنبوة وما کان لنا من طعمة فلولي الأمر بعدنا أن یحکم فیه بحکمه ۔ (احتجاج الطبرسی جلد 1 صفحہ 104،چشتی)
ترجمہ : حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کے مطالبۂ وراثتِ مالی کے جواب میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں اور اللہ کی گواہی کافی ہے ۔ ہرگاہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرماتے ہیں : ہم انبیاء کی جماعت اپنے بعد کسی کو سونے ، چاندی ، گھر اور اراضی کا وارث نہیں بناتے ۔ ہم صرف کتاب و حکمت ، علم اورنبوت سے متعلق اُمور کاوارث بناتے ہیں ، رہے ہمارے ذرائع معاش تو وہ ہمارے بعد ہونے والے خلیفہ کی سپرداری میں چلے جاتے ہیں ، وہ ان میں اپنی صوابدید کے مطابق فیصلہ کرتا ہے ۔
حدیث «مَا ترکنَا صَدقة» کی صحت اتنی عالم آشکارا ہے کہ شیخ ابوریہ محمود اور سید محمد باقر موسوی خراسانی جیسے کٹر شیعہ عالم بھی اس کو صحیح تسلیم کرتے ہیں ۔ احتجاج الطبرسی جلد 1 صفحہ 104 ، 105)
تیسری صدی کے مشہور شیعی محدث فرات بن ابراہیم ابن الفرات الکوفی اپنی تفسیر 'الفرات' میں روایت کرتے ہیں کہ ایک بار حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے پوچھا : ما أرث منك یارسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وراثت میں کیا پاؤں گا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے میرے جواب میں فرمایا : فقال : مَا ورِث الأنبیاء من قبلي ۔ جو کچھ مجھ سے پہلے انبیاء علیہم السلام اپنی وراثت میں دیتے رہے ہیں ، وہی آپ بھی حاصل کریں گے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پھر سوال کیا : ما ورثت الأنبیاء من قبلك ؟ ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے پہلے کے انبیائے کرام اپنی وراثت میں کیا چھوڑتے رہے ؟ ۔ اس پر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : کتاب ربهم وسنة نبیهم ۔ اپنے ربّ کی کتاب اور نبی کی سنت ۔ (کتاب تفسیر فرات صفحہ 82)
کیا حضرت سیدہ فاطمہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہما سے ناراض فوت ہوئیں ؟
پہلے ہم علماء اہل سنت کی شہرہ آفاق کتاب البدایہ والنہایۃ او ردیگرکتب ِاہل سنت کی روایات پیش کریں گے پھر شیعہ علماء کی کتب ِمعتبرہ کی روایات حوالہ قرطاس ہوں گی : ⏬
حافظ ابن کثیر (متوفی 774ھ) تصریح فرماتے ہیں : فلما مرضت جاءها الصدیق فدخل علیها فجعل یترضاها فرضِیت ۔ (البدایۃ والنھایۃ: 6؍33)(العواصم من القواصم: ص38)
ترجمہ : جب فاطمہ رضی اللہ عنہا بیمار ہو گئیں تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کےپاس تشریف لائے اور ان کو راضی کرنے لگے حتیٰ کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ ان سے راضی ہوگئیں ۔
امام محمد بن سعد (متوفی 230، 235ھ) کی تصریح : أخبرنا عبد الله بن عمر حدثنا إسماعیل عن عامر الشعبی قال جاء أبوبکر إلىٰ فاطمة حین مرضت فاستأذن. فقال علي: هٰذا أبوبکر على الباب فإن شئتِ أن تأذن له. قالت وذلك أحب إلیك، قال نعم فدخل علیها واعتذر إلیها وکلّمها فرضیتْ عنه ۔ (طبقات ابن سعد: 8؍17، تذکرہ فاطمہ؛ورحمآء بینهم : 1؍147)(ریاض النضرہ فی مناقب العشرة:1 ؍115،چشتی)
ترجمہ :حضرت عامر شعبی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئیں تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے پاس تشریف لائے اور دروازے پر کھڑے ہوکر اندر داخل ہونے کی اجازت طلب فرمائیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا : اے فاطمہ رضی اللہ عنہا ابوبکر رضی اللہ عنہ اندر آنے کی اجازت مانگ رہے ہیں (اگر اجازت ہو) تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر آپ کو ان کے اندر آنے پر اعتراض نہ ہو تو تشریف لے آئیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔ تب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اندر آگئے اور معذرت کرتے ہوئے ان کو راضی کرنے لگے ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ان کی معذرت کو پذیرائی بخشتے ہوئے صلح کرلی اور ان سے راضی ہو گئیں ۔
امام بیہقی کی تصریح : عن الشعبی قال لما مرضت فاطمة أتاها أبوبکر الصدیق فاستأذن علیها فقال علي: یا فاطمة! هٰذا أبوبکر یستأذن علیك فقالت أتحب أن أذن له قال نعم فأذنت له فدخل علیها یترضاها وقال والله ماترکت الدار والمال والأهل والعشیرة إلا ابتغاء مرضاة الله ومرضاة رسوله ومرضاتکم أهل البیت ثم ترضاها حتی رضیت. هٰذا مرسل حسن بإسناد صحیح ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی مع الجوہر النقی : 6؍301)(فتح الباری : 6 ؍151،چشتی)
ترجمہ : جب حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا بیمار ہوئیں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کی تیمار داری کےلیے تشریف لائے اور اندر آنے کی اجازت طلب فرمائی ۔ حضرت علی نے حضر ت فاطمہ رضی اللہ عنہما سےکہا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر ان کا آنا آپ کو پسند ہے تو ٹھیک ، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ان کا اندر آنا مجھے گوارا ہے ۔اجازت ہوئی ، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اندر تشریف لائے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی رضا مندی حاصل کرنے کی خاطر گفتگو شروع کرتے ہوئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رضا مندی کی خاطر اور آپ (اہل بیت رضی اللہ عنہم) کی خوشنودی کےلیے ہم نے گھر بار مال و دولت ، خویش و اقربا کو چھوڑا ۔ اس طرح کی گفتگو کاسلسلہ شروع رکھا حتیٰ کہ سیدہ فاطمہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما سے راضی ہو گئیں ۔
امام اوزاعی کی تصریح : عن الأوزاعی قال : فخرج أبوبکر حتی قام علىٰ بابها في یوم حار ثم قال لا أبرح مکاني حتی ترضی عني بنت رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فدخل علیها علي فأقسم علیها لترضی فرضیت ۔ (أخرجه ابن السمان في الموافقه، ریاض النضرۃ فی مناقب العشر المبشرۃ : 1؍156 ،157 و تحفۃ اثنا عشریۃ جواب طعن سیزدہم،چشتی)
ترجمہ : امام اوزاعی سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک گرم دن میں حضر ت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دروازہ پر پہنچے اور فرمایا : جب تک رسول زادی مجھ سے راضی نہ ہوگی یہاں سے ہٹنے کا نہیں ۔ حتیٰ کہ حضرت علی حضر ت فاطمہ رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور ان کو قسم دی کہ آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے راضی ہوجائیں تو اس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا راضی ہو گئیں ۔
اگر بالفرض حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ واقعی مطالبہ میراث پورا نہ ہونے پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ناراض ہوگئی تھیں تو ان چاروں روایات کے مطابق ان کا راضی ہو جانا بھی ثابت ہو رہا ہے ۔
شیعہ کتب سے گواہی : ⏬
ابن میثم بحرانی مشہور شیعہ فاضل اور شارح نہج البلاغہ اپنی کتاب میں روایت کرتے ہیں جس میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی باہمی بات چیت منقول ہے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے مخاطب ہیں : قال إن لك ما لأبیك کان رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یأخذ من فدك فوتکم ویقسم الباقي و یحمل منه في سبیل الله ولك علىٰ الله أن أضع بها کما کان یصنع فرضیت بذلك وأخذت العهد علیه ۔ (شرح نہج البلاغۃ لابن میثم بحرانی جلد 5 صفحہ 107،چشتی)
ترجمہ : ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ کےلیے حقوق وہی ہیں جو آپ کے والدِ گرامی کےلیے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فدک کی پیداوار سے آپ لوگوں کا خرچ خوراک علیحدہ کر کے باقی ماندہ آمدن کو محتاجوں میں بانٹ دیتے تھے اور کچھ حصہ سے اللہ کی راہ میں سواری اور ہتھیار وغیرہ خریدا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کےلیے آپ کا مجھ پرحق ہے ۔ فدک کے بارے میں وہی کچھ کروں گا جو طریقہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اختیار فرماتے تھے ۔ پس اس چیز پر وہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے راضی ہوگئیں اور اس پر اُنہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پختہ وعدہ اور اقرار لے لیا ۔
مشہور شیعہ عالم اور شارح نہج البلاغہ ابراہیم بن حاجی حسین بن علی انبلی لكھتے ہیں : وذلك إن لك ما لأبیك کان رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یأخذ من فدك قوتکم ویقسم الباقي ویحمل من في سبیل الله ولك علىٰ الله أن أصنع بها کما کانا یصنع فرضیت بذلك وأخذت العهد علیه به ۔ کتاب درہ تحفیہ شرح نہج البلاغۃ صفحہ 331 ، 332،چشتی)
ترجمہ : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو فدک کے بارے میں مطمئن کرتے ہوئے فرمایا : آپ کے والدِ گرامی کےلیے جو حقوق تھے وہی آپ کےلیے طے شدہ ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فدک کی پیداوار سے تمہارے اخراجات الگ کر لیتے تھے او رباقی کو حاجت مندوں میں تقسیم فرما دیتے تھے اور اللہ کی راہ میں اس سے سواری وغیرہ خرید لیتے تھے۔ رضائے الٰہی کے حصول کے لیے مجھ پر آپ کا حق ہے کہ فدک کے متعلق میں وہی طریقہ اپناؤں جو طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنا رکھا تھا۔ اس گفتگو کے بعد حضرت فاطمہؓ حضرت ابوبکر صدیقؓ سے خوش اور راضی ہو گئیں ۔ اور اس چیز کی پابندی کا حضرت ابوبکرؓ سے پکا اقرار نامہ اور پختہ وعدہ لے لیا ۔
شیعہ کی معتبر کتاب حجاج السالکین میں مرقوم ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہؓ کونہ صرف راضی کرلیا بلکہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ نےحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس صحیح فیصلہ کو بہ اعماقِ قلب تسلیم بھی فرما لیا تھا ۔ روایت حسب ِذیل ہے : ⏬
إن أبابکر لما رأی أن فاطمة انقبضت عنه وهجرته ولم تتکلم بعد ذلك في أمر فدك کَبُر ذلك عنده فأراد استرضاءها فأتاها فقال لها : صدقت یا ابنة رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فیما ادعیت ولکنی رأیت رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یقسمها فیعطی الفقراء والمساکین وابن السبیل بعد أن یعطی منها قوتکم والصانعین فقالت: افعل فیها کما کان أبي رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یفعل فیها ۔ قال أشهد الله علي أن أفعل فیها ما کان یفعل أبوك فقالت: والله لتفعلن فقال والله لأفعلن فقالت اللهم اشهد اللهم اشهد فرضیت بذلك وأخذت العهد علیه وکان أبوبکر یعطیهم منها قوتهم فیعطی الفقرآء والمسکین ۔ (آفتابِ ہدایت صفحہ 251)
ترجمہ : جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جناب فاطمہ رضی اللہ عنہا کشیدہ خاطر ہوگئی اور بات کرنا چھوڑ دیا تو یہ بات ابوبکر رضی اللہ عنہ کوشاق گزری اور جناب فاطمہ رضی اللہ عنہا کو رضا مند کرنےکی غرض سے ان کے پاس تشریف لے گئے اور کہا : آپ نے بلا شبہ سچ کہا ، اے رسول زادی ! لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فدک کی پیداوار کو تقسیم کر دیا کرتے تھے ، محتاجوں ، مسکینوں اور مسافروں کو دے دیا کرتے تھے ۔ جب کہ پہلے آپ اہل البیت کو خرچ دیتے تھے پھر کام کرنے والوں کو بھی اس سے دیتے تھے ۔ جنابِ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا آپ بھی ایسا ہی کریں جیسا میرے والد ماجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کیا کرتے تھے تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ ایسا ہی کروں گا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کیا کرتے تھے ۔ جناب فاطمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : آپ اللہ کی قسم کھاتے ہو کہ ایسے ہی کرو گے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نےکہا : اللہ کی قسم ایسا ہی کروں گا ۔ اس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ! گواہ رہنا۔ پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے اُن سے عہد لے لیا ۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پہلے ان کو خرچ مہیا کرتے او ربعد میں غربا و مساکین میں
تقسیم کر دیتے ۔ (مزید حصّہ چہارم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حدیث لَانُوَرِّثُ مَاتَرَكْنَا فَهو صَدَقَةٌ کتب اہلسنت و شیعہ کی روشن میں حصّہ چہارم
حضرت ابوبکر صدیق حضرت فاطمۃُ الزہرا رضی اللہ عنہما اور باغِ فَدک : شیعہ حضرات کا مشہور محقق ملاّ باقر مجلسی انتہائی تعصب کے باوجود لکھتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بہت سے فضائل و مناقب جنابِ حضرت سیّدہ فاطمۃُ الزہرا رضی اللہ عنہا کے بیان کیے اور فرمایا : اموال و احوال خودرا از تو مضائقہ ندارم آنچہ خواہی بگیر ۔ تو سیدہ امت پدرخودی و شجرہ طیبہ از برائے فرزندان خود انکار فضل تو کسے نمے تو اندکرد و حکم تو نافذ است درمال من۔ امادر گفتہ پدر تو نمے تو انم کرد ۔
ترجمہ : میں اپنا مال جائیداد دینے میں آپ رضی اللہ عنہا سے دریغ نہیں رکھتا ۔ جو کچھ مرضی چاہے لے لجیے ۔ آپ رضی اللہ عنہا اپنے باپ کی امت کی سیدہ ہیں اور اپنے فرزندوں کےلیے پاکیزہ اصل اور شجرہ طیبہ ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہا کے فضائل کا کوئی انکار نہیں کرتا آپ رضی اللہ عنہا کا حکم میرے ذات مرے مال میں چوں و چرا جاری و منظور ہے ۔ لیکن عام مسلمانوں کے مال میں آپ رضی اللہ عنہا کے والد بزرگوار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حکم کی مخالفت ہرگز نہیں کر سکتا ۔ (شیعہ مذہب کی مشہور کتاب حق الیقین مترجم جلد اوّل صفحہ نمبر 227 مطبوعہ مجلسِ اسلامی پاکستان،چشتی)
مسلہ باغ فدک شیعہ کتب کی روشنی : ⏬
باغ فدک کیا ہے ؟ فدک خیبر کا ایک قصبہ ہے (وہاں ایک باغ ہے جسے باغ فدک کہا جاتا ہے) اور یہ بھی کہا گیا کہ حجاز کا ایک کنارہ ہے جس میں چشمےاور کھجوروں کے درخت ہیں یہ اللہ سبحانہ وتعالی نےاپنے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عطا کیا تھا ۔ (لسان العرب جلد2، صفحہ 473)
حضرت سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی حدیث سنائی کہ انبیاء علیہم السّلام کی وراثت مال نہیں علم ہے اور یہ بتایا کہ اس جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم اہلبیت کو دیا کرتے تھے وہ میں بھی جاری رکونگا تو حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا نے اپنے مطالبے سے رجوع کر لیا اور پھر ساری عمراس مسئلے پر کوئی بات نہیں کی بلکہ شیعوں کی اپنی کتاب میں ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ اس پر راضی ہو گئیں۔اس مسلے کو ہم کتب شیعہ سے لکھ رہے شاید کسی کو ہدایت نصیب ہوجائے اور وہ گستاخیاں چھوڑ دے یاد رہے اس مسلے کو بعض متعصب شیعہ علماء نے من گھڑت کہانیوں کے ذریعے اچھالا آیئے حقائق پڑھتے ہیں ۔
باغِ فَدَک اور حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کا فیصلہ : ⏬
محترم قارئینِ کرام : یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ تمام کتب تواریخ اس پر شاہد ہیں کہ فدک زمانہ علوی میں بھی اسی طرح رہا جیسے صدیق و فاروق و عثمان رضی ﷲ عنہما کے دور خلافت میں تھا اور حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے بھی فدک میں وہی طریقہ جاری رکھا جو صدیق اکبررضی ﷲ عنہ نے جاری رکھا تھا ۔
آئیے پہلے اس کے متعلق پڑھتے ہیں کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ بھی خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی طرح فدک کو استعمال میں لائے : شیعہ عالم الدکتور سعید السَّامرّائی لکھتا ہے : جب امر خلافت علی بن ابی طالب علیہ السّلام کے سپرد ہوا تو علی علیہ السّلام سے فدک کو اہلبیت کی طرف لوٹانے کے بارے میں کہا گیا تو علی علیہ السّلام نے جواب میں فرمایا کہ خدا کی قسم مجھے اس کام کو کرنے میں اللہ سے حیا آتی ہے جس کام کو ابوبکر عمر (رضی اللہ اللہ عنہما) نے نہی کیا ۔ (شیعہ کتاب : حجج النّھج صفحہ نمبر 277)
شیعہ محقق مرتضی علی موسوی لکھتا ہے : جب امر خلافت علی علیہ السّلام کے سپرد ہوا تو علی علیہ السّلام شیرخدا سے فدک کو اہلبیت کی طرف لوٹانے کے بارے میں کہا گیا تو علی علیہ السّلام نے جواب میں فرمایا کہ خدا کی قسم مجھے اس کام کو کرنے میں اللہ سے حیا آتی ہے جس کام کو ابوبکر عمر (رضی اللہ عنہما) نے نہیں کیا ۔ (شیعہ کتاب : الشافی فی الامامت صفحہ نمبر 76،چشتی)
شیعہ عالم الدکتور سعید السَّامرّائی لکھتا ہے : یہ سن کر سیدہ فاطمہ علیہا السّلام نے کہا کہ فدک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے ھبہ کردیا تھا ۔ ابو بکر (رضی اللہ عنہ) نے پوچھا کہ اس بات کا کوئی گواہ تو حضرت علی علیہ السّلام اور ام ایمن بطور گواہ پیش ہوئے ۔ اور اس امر کی گواہی دی ۔ اتنے میں حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) اور عبدالرحمن بن عوف (رضی اللہ عنہ) بھی آگئے ۔ ان دونوں نے یہ گواہی دی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فدک کو تقسیم فرماتے تھے ۔ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ اے بنت پیغمبر توں نے بھی سچ کہا اے علی علیہ السّلام تم بھی سچے ہو ۔ اس لیے کہ اے فاطمہ علیہا السّلام تیرے لیے وہی کچھ ہے ۔ جو آپ کے والد کا تھا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فدک کی آمدنی سے تمہاری خوراک کا اہتمام فرماتے تھے ۔ اور باقی ماندہ کو تقسیم فرمادیتے اور اس میں سے فی سبیل اللہ سواری بھی لے دیتے ۔ تمہارے بارے میں اللہ سے معاہدہ کرتا ہوں کہ میں اسی طرح تم سے سلوک کروں گا جس طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سلوک فرمایا کرتے تھے ۔ تو یہ سن کر سیدہ فاطمہ حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے راضی ہوگئیں ۔ اور اسی بات پر ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) سے عہد لیا ۔ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) فدک کا غلہ وصول کرتے اور اہلبیت کو ان کی ضرورت کے مطابق دے دیتے ۔ ان کے بعد حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) بھی فدک کواسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے ، اس کے بعد عثمان (رضی اللہ عنہ) بھی فدک اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے ، اس کے بعد علی علیہ السّلام بھی فدک کو اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے ۔ (شیعہ کتاب : حجج النھج صفحہ نمبر 266،چشتی)
شیعہ محقق لکھتا ہے : جب امر خلافت علی رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوا تو علی شیرخدا رضی اللہ عنہ سے فدک کو اہلبیت رضی اللہ عنہم کی طرف لوٹانے کے بارے میں کہا گیا تو علی شیرخدا رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا کہ خدا کی قسم مجھے اس کام کو کرنے میں اللہ سے حیا آتی ہے جس کام کو ابوبکر عمر رضی اللہ عنہما نے نہیں کیا ۔ (شیعہ کتاب : شرح نھج البلاغہ ابن حدید جلد ۱۶ صفحہ ۲۵۲)
اب سوال یہ ہے کہ اگر حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ نے اپنے دور حکومت میں فدک غصب کرلیا تھا تو جناب حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کا فرض تھا کہ وہ فدک کو تقسیم کرتے اور اس وقت جو اس کے وارث موجود تھے ، ان کو دے دیتے اور جو ناجائز بات چلی آرہی تھی اور جو ظلم روا رکھا گیا تھا ، اس کو اپنے دور خلافت میں ختم کردیتے کیونکہ خود حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے میں کہ امام کے لئے پانچ امر ضروری ہیں : ⏬
(1) خوب وعظ کہنا ۔
(2) لوگوں کی خیر خواہی میں خوب قوت صرف کرنا ۔
(3) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنت کو زندہ کرنا ۔
(4) سزاؤں کے حق داروں کو سزا دینا ۔
(5) حق داروں کو ان کے حقوق واپس لوٹا دینا ۔ (نہج البلاغہ مصری جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 202)
اسی طرح شیعہ مذھب کی مشہور کتاب رجال کشی میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا یہ ارشاد مذکور ہے : انی اذا بصرت شیئا منکراً او قدت نارا و دعوت قنبراً ۔ (رجال کشی صفحہ نمبر 199،چشتی)
ترجمہ : جب میں خلافِ شریعت کام دیکھتا ہوں تو آگ جلاتا ہوں اور قنبر کو بلاتا ہوں ۔
اسی بناء پر آپ نے ان لوگوں کو آگ میں جلا دیا تھا ۔ جو آپ کو خدا کہنے لگ گئے تھے پھر فرماتے ہیں : ولا المعطل للسنۃ فیہلک الامۃ ۔ (نہج البلاغہ صفحہ 398)
ترجمہ : امام ایسا نہیں ہونا چاہئے جو پیغمبرکے طریقے کو چھوڑ دے، ورنہ امت ہلاک ہوجائے گی ۔
لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جناب حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ نے فدک میں وہی طریقہ جاری رکھا جو حضرت سیدنا صدیق اکبر اور حضرت عمر رضی ﷲ عنہما کا تھا یہ اس امر کی بہت بڑی دلیل ہے کہ حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کے نزدیک باغِ فَدک میں صدیقی طرز عمل حق و صواب تھا اور حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ صدیقی طرز عمل کو بالکل شریعت اسلامیہ کے مطابق جانتے تھے ۔
حقیقت یہ ہے کہ شیعہ حضرات کا صدیقی خلافت میں غصبِ فَدک کا قول کرنا حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کی امامت و خلافت پر شرمناک حملہ ہے ۔ کیونکہ اگر یہ مان لیا جائے کہ صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ نے باغِ فَدک غصب کرلیا تھا تو حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ پر بھی یہ الزام قائم ہوگا ۔ کہ انہوں نے فدک کو صدیقی خلافت کے دستو رپر جاری رکھ کر امت و خلافت کا حق ادا نہیں کیا ۔ حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ اگر غاصب فدک ثابت ہونگے تو حضرت مولا علی مرتضیٰ رضی ﷲ عنہ غصب کے برقرار رکھنے والے ثابت ہونگے ۔ سوچئے کہ غصب کرنے والا زیادہ مجرم ہے یا غصب کو برقرار رکھنے والا ۔ اور غاصبوں کے طرز عمل کی حکومت و سلطنت کے با وجود حمایت کرنے والا ۔ (معاذ ﷲ) ۔ غرضیکہ قضیہ فدک میں جناب حضرت مولا علی الممرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کا طرز عمل دنیائے شیعیت پر بہت بھاری حجت ہے ۔ اگر حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ کی خلافت پر اعتراض ہوگا تو حضرت سیدنا مولا علی رضی ﷲ عنہ کی خلافت پر بھی حرف آئے گا ۔ پس جناب حضرت مولا علی المرتضیٰ کا اراضی فدک کو اسی دستور پر رکھنا جس پر کہ جناب صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ نے رکھا تھا ، حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی حقانیت اور ان کے طرز عمل کی صحت پر دلیل قاہر ہے ۔
مشہور شیعہ مصنف اس کا نام کمال الدین میثم بن علی میثم البحرانی ہے۔ ساتویں صدی ہجری میں پیدا ہوا۔ ’’عالمِ ربانی، فلسفی، محقق، صاحبِ حکمت اور نہج البلاغۃ کی شرح کا مصنف ہے۔ محقق طوسی سے روایت کرتا ہے… کہا گیا ہے کہ خواجہ نصیر الدین طوسی نے فقہ کمال الدین میثم سے اور میثم نے حکمت خواجہ سے پڑھی تھی۔ ۶۷۹ھ میں وفات پائی اور ماحوذ کے قریب ایک بستی ہلتا میں دفن ہوا۔(الکنی والالقاب جلد ۱ ، صفحہ ۴۱۹)اسی نے کہا تھا ۔میں نے علوم و فنون اس لیے چاہے تھے کہ اس سے برتری حاصل کروں‘‘’’مجھے بس اسی قدر ملا کہ اسی تھوڑے سے میں بلند ہوگیا‘‘ ’’مجھے معلوم ہوگیا کہ سب کے سب محاسنفرع ہیں اور حقیقت میں مال ہی اصل ہے‘‘ ’’اس کی ایسی ایسی عجیب تصنیفات ہیں جن کے بارے میں زمانے میں سے کسی نے بھی نہیں سنا اور نہ ہی بڑے بڑوں میں سے کوئی اُسے پاسکا ہے ۔ (روضات الجنات ج ۲ ص ۲۱۸ اور مابعد)
شیعہ ابن میثم نہج البلاغہ کی شرح میں یہ روایت لکھتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا جو آپ کے والد محترم کا تھا وہ آپ کا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فدک میں سے آپ کیلئے کچھ رکھ لیا کرتے تھے باقی اللہ سبحانہ وتعالی کے راستے میں تقسیم کر دیا کرتے تھے اللہ کی قسم !میں آپ کے ساتھ ویسا ہی کروں گا جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیا کرتے تھے یہ سُن کر فاطمہ رضی اللہ عنہا خوش ہو گئیں اور اس بات کا آپ سے عہدلے لیا۔(شرح نہج البلاغ،جلد 5،صفحہ 7،از ابن میثم البحرانی مطبوعہ تہران)
اسی جیسی ایک روایت شیعہ دنبلی نے اپنی شرح ’’الدرۃ النجفیہ صفحہ 331،332 مطبوعہ ایران‘‘ میں بیان کی ہے ۔ (شرح نہج البلاغۃ جلد5 ،صفحہ 331،332ایران)
شیعہ ابن میثم،دنبلی،ابنِ ابی الحدید، اور معاصر شیعہ مصنف فیض الاسلام علی نقی نے یہ روایت نقل کی ہے:’’ابوبکر رضی اللہ عنہ باغِ فدک کے غلہ میں سے اتنا حصہ اہلِ بیت کو دے دیا کرتے تھے جو ان کی ضروریات کے لیئے کافی ہوتا۔ باقی سب تقسیم کردیا کرتے، آپ کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کرتے، عثمان رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کیا کرتے اور ان کے بعد علی رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔‘‘(شرح نہج البلاغۃ، لابنِ ابی الحدید جلد 4، صفحہ44، شرح نہج البلاغۃ،لابنِ میثم البحرانی جلد 5، صفحہ 107،الدرۃ النجفیۃ‘‘ صفحہ 332،شرح النہج البلاغہ،جلد 5،صفحہ 960، فارسی لعلی نقی ،مطبوعہ تہران،چشتی)
شیعہ کتب گواہ ہں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی ویسا ہی کیا جیسا خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنھم نے کیا تو یہ شیعہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ پر کیا فتوی لگائیں گے ؟
نبی کریم اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم انبیاء علیہم السّلام کی وراثت مال نہیں ہے اس روایت کو متعصب شیعہ جھٹلاتے ہیں جبکہ یہ روایت خود شیعوں کی اپنی کتب میں موجود ہے، ان کی اپنی کتاب (کافی) میں جسےشیعہ سب سے صحیح کتاب کہتے ہیں اسی کتاب (کافی) میں شیعہ کلینی نےحماد بن عیسی سےاور حماد بن عیسی نےقداح سےجعفر ابو عبداللہ کی روایت نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ’’جو علم کو تلاش کرتے ہوئے علم کے راستے پر چلے، اللہ اسے جنت کے راستے پر چلا دیتا ہے ، اور عالم کی فضیلت عبادت گزار پر ایسی ہے، جیسے چودھویں کا چاند سارے ستاروں سے افضل ہے۔ علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں جو دینار و درہم وراثت میں نہیں چھوڑتے لیکن علم کی میراث چھوڑتے ہیں، جو اس میں سے کچھ حاصل کرلے اس نے بہت کچھ حاصل کرلیا ۔ (الاصول من الکافی کتاب فضل العلم، باب ثواب العالم والمتعلم جلد 1،صفحہ 34)
جعفر ابوعبداللہ نےایسی ہی ایک اور روایت میں کہا ہے: علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اور ان کا مالِ میراث درہم و دینار نہیں ہوتا، انہیں انبیاء علیہم السلام کی احادیث میراث میں ملتی ہیں ۔(الاصول من الکافی باب صفۃ العلم وفضلہ وفضل العلماء جلد 1، صفحہ 32،چشتی)
مزید دو روایتیں پیش خدمت ہیں جن سے اس روایت کی تائید ہوتی ہے، ان روایات کو بھی اس نے روایت کیا ہے جسے شیعہ قوم ’’صدوق‘‘ کے نام سے پکارتی ہے ۔
(1) براہیم بن علی رافعی نے اپنے باپ سے، اس نے اپنی دادی بنت ابی رافع سے روایت کیا ہے وہ کہتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرضِ وفات میں فاطمہ رضی اللہ عنہا بنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں بیٹوں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہنے لگیں”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دونوں آپ کے بیٹے ہیں، ان کو اپنی کچھ میراث دے دیجیے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ حسن رضی اللہ عنہ کے لیے میری ہیبت اور بزرگی ہے اور حسین رضی اللہ عنہ کے لیے میری جرأت اور میری سخاوت ۔(کتاب الخصال‘‘ از قمی صدوق، صفحہ 77)
(2) سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ کے دو بیٹے ہیں، انہیں کچھ عطا کیجیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حسن رضی اللہ عنہ کو میں نے اپنا رعب اور بزرگی دی اور حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی سخاوت اور شجاعت۔(کتاب الخصال“ از قمی صفحہ 77)
بعض متعصب شیعہ حضرات یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں نے باغِ فدک آپ کو اس لیئے نہیں دیا تھا کہ وہ علی رضی اللہ عنہ اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کو مفلس و قلاش کردینا چاہتے تھے تاکہ لوگ مال و دولت کے لالچ میں ان کی طرف راغب نہ ہو جائیں ۔ ہمیں ان پر اور ان کی عقلوں پر افسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ علی رضی اللہ عنہ اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کو اس آخری زمانے کے حکمرانوں جیسا سمجھتے ہیں جو دولت کے بل بوتے پر مال اور رشوت دے کر بڑے بڑے عہدے حاصل کرتے ہیں۔ اگر بالفرض یہ بات بھی تھی تو مال کی وافر مقدار ان کے پاس موجود تھی، دیکھئے شیعہ عالم کلینی اس کا ذکر کرتا ہے۔ دسویں امام ابو الحسن سے روایت ہے کہ سات باغات فاطمہ علیہا السلام کے لیے وقف تھے۔ وہ باغات یہ ہیں:(۱)دلال (۲) عوف(۳) حسنی (۴) صافیہ (۵) مالامِ ابراہیم (۶) مثیب (۷) برقہ ۔ (الفروع من الکافی کتاب الوصایا جلد ۷ صفحہ ۴۷ ، ۴۸،چشتی)
اب یہ بتا ئیں جو سات باغات کا مالک ہو اس کے پاس دولت کی کمی ہوگی ؟
محترم قارئینِ کرام قابلِ غوریہ بات ہے کہ : اگر باغ فدک اور اس کی زمین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث تھی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اکیلی ہی اس کی وارث تو نہ تھیں، ابوبکر صدیق اور فاروق رضی اللہ عنہما کی بیٹیاں بھی اس کی وراثت میں شریک تھیں، اگر ابوبکر صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس وراثت سے محروم رکھا تو اپنی بیٹیوں کو بھی تو محروم رکھا۔ آخر اُن کی بات کوئی کیوں نہیں کرتا،ان کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہ بھی زندہ تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثاء میں وہ بھی شامل تھے ۔
یاد رہے یہ اعتراض کرنے والے شیعہ حضرات اتنا بھی نہیں جانتے کہ ان کے مذہب میں عورت کو غیر منقولہ جائداد اور زمین کی وراثت میں کوئی حصہ نہیں ملتا۔ ان کے محدثین نے اس مسئلہ کو مستقل ابواب و عنوانات کے تحت بیان کیا ہے۔ دیکھیے کلینی نے ایک مستقل باب اس عنوان سے لکھا ہے: ’’عورتوں کو غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملتا‘‘ اس عنوان کے تحت اس نے متعدد روایات بیان کی ہیں۔چوتھے امام ابو جعفر سے روایت ہے کہ : انہوں نے کہا: ’’عورتوں کو زمین اور غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا ۔ (الفروع من الکافی کتاب المواریث جلد 7 صفحہ 137،چشتی)
ابنِ بابویہ قمی صدوق نے اپنی صحیح ’’من لا یحضرہ الفقیہ‘‘ میں یہ روایت بیان کی ہے:ابو عبداللہ جعفر کی روایت ان کے پانچویں امام کی روایت میسر نے بیان کی ہے کہ
میں نے آپ سے (یعنی جعفر سے) عورتوں کی میراث کے بارے میں پوچھا؟ آپ نے کہا: جہاں تک زمین اور غیر منقولہ جائداد کا تعلق ہے، اس میں عورتوں کی میراث نہیں ۔ (من لا یحضرہ الفقیہ کتاب الفرائض والمیراث جلد ۴ صفحہ ۳۴۷)
اسی طرح اور بہت سی روایات بھی بیان کی گئی ہیں جن کی بناء پر اُن کے علماء نے اتفاق کیا ہے کہ زمین اور غیر منقولہ جائداد میں عورتوں کو میراث نہیں دی جاتی ۔
اگر عورتوں کو زمین اور باغات وغیرہ کی جائیداد نہیں دی جاتی تو فاطمہ رضی اللہ عنہ نے بقول ان کے کس طرح فدک کا مطالبہ کیا تھا۔ کوئی کوڑھ مغز بھی اس سے اختلاف نہیں کرسکتا کہ یقینا فدک غیر منقولہ جائداد تھی ۔
کیا حضرت سیّدہ طیّبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس مسلہ پر ناراض تھیں کا جواب شیعوں کے سب سے بڑے متعصب عالم مجلسی کے قلم سے پڑھیئے ، باوجود شدید نفرت و کراہت کے یہ بات کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ:سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا خفا ہوگئیں تو ان سے کہنے لگے: میں آپ کے فضل اور رسول اللہ علیہ السلام سے آپ کی قرابت کا منکر نہیں۔ میں نے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں فدک آپ کو نہیں دیا۔ میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ علیہ السلام کو یہ کہتے سنا ہے: ہم انبیاء کا گروہ، مالِ وراثت نہیں چھوڑتے۔ ہمارا ترکہ کتاب و حکمت اور علم ہے۔ اس مسئلے میں میں تنہا نہیں، میں نے یہ کام مسلمانوں کے اتفاق سے کیا ہے۔ اگر آپ مال و دولت ہی چاہتی ہیں تو میرے مال سے جتنا چاہیں لے لیں، آپ اپنے والد کی طرف سے عورتوں کی سردار ہیں، اپنی اولاد کےلیے شجرۂ طیبہ ہیں، کوئی آدمی بھی آپ کے فضل کا انکار نہیں کرسکتا ۔ (حق الیقین صفحہ ۲۰۱ ، ۲۰۲ ،ترجمہ فارسی،چشتی)
مولائے کائنات حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اقتدار پر فائز ہوتے ہی ابن سباء کی نسل کی اس سازش پر ضربِ کاری لگائی ۔ امامِ شیعہ، سید مرتضیٰ علم الہدیٰ لکھتا ہے:جب فدک کے انکار کا معاملہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تک پہنچا تو آپ نے کہا: مجھے شرم آتی ہے کہ میں اس چیز کو دے ڈالوں جس کو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے روک لیا تھا اور عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسی حال میں برقرار رکھا ۔ (الشافی‘‘ للمرتضیٰ صفحہ ۲۳۱)( شرح نہج البلاغۃ لابنِ ابی الحدید“، جلد ۴)
حضرت امام ابوجعفر محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کے بارے میں کثیر النوال نے پوچھا: ’’میں آپ پر قربان جاؤں۔ کیا آپ کا خیال ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کا حق روک کر آپ پر ظلم کیا ہے؟‘‘ یا ان الفاظ میں کہا کہ: ’’آپ کا کچھ حق تلف کیا ہے؟‘‘ آپ نے کہا: ’’ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس نے اپنے اس بندے پر قرآن نازل کیا جو سارے جہانوں کے لیے نذیر (ڈرانے والے) ہیں ، ہم پر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا گیا۔‘‘ میں نے کہا: ’’قربان جاؤں کیا میں بھی ان دونوں سے محبت رکھوں؟‘‘کہنے لگے: ’’ہاں تیرا ستیاناس! تو ان دونوں سے محبت رکھ، پھر اگر کوئی تکلیف تجھے پہنچے تو وہ میرے ذمے۔(شرح نہج البلاغۃ‘‘ لابنِ ابی الحدید، جلد ۴ ،صفحہ ۸۲،چشتی)
ہم نے شیعہ مذھب کی معتبر کتابوں شیعہ جنہیں اپنا امام مانتے ہیں (آئمہ اہلبیت رضی اللہ عنہم) اور دیگر شیعہ نے صاف صاف یہ کہا کہ : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نےاُن پر کوئی ظلم نہیں کیا پھر یہ اجہل متعصب شیعہ کیوں ان مقدس ہستیوں پرتہمتیں لگاتے ہیں ۔؟ یا تو صآف لکھیں شیعہ مذھب کے تمام امام جھوٹے ہیں یا یہ شیعہ خود جھوٹے ہیں فیصلہ خود کیجیے ۔
امام محمد باقر رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت امام زید بن علی بن حسین رضی اللہ عنہم نے بھی فدک کے مسئلے میں وہی کچھ فرمایا جو آپ کے دادا مولا علی علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا پڑھیئے شیعہ مذھب کی معتبر کتاب کے حوالے سے : بحتری بن حسان کے پوچھنے پر حضرت امام زید بن علی بن حسین رضی اللہ عنہم نے کہا: ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تحقیر و توہین کے طور پر میں نے زید بن علی علیہ السلام سے کہا: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فدک فاطمہ رضی اللہ عنہا سے چھین لیا، یہ سن کر آپ کہنے لگے: ابوبکر رضی اللہ عنہ مہربان آدمی تھے، وہ ناپسند کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کیے ہوئے کسی کام میں تغیر و تبدل کریں۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا ان کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فدک دیا تھا، آپ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: آپ کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت ہے؟ آپ علی رضی اللہ عنہ کو لے آئیں ، انہوں نے اس بات کی گواہی دی۔ ان کے بعد ام ایمن رضی اللہ عنہا آئیں اور کہنے لگیں: کیا تم دونوں گواہی نہیں دیتے کہ میں اہلِ جنت میں سے ہوں، دونوں کہنے لگے کیوں نہیں، ابو زید نے کہا: یعنی انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ سے کہا، کہنے لگیں: میں گواہی دیتی ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فدک ان (فاطمہ رضی اللہ عنہا) کو دیا تھا، اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کسی اور آدمی یا عورت کو بھی اس جھگڑے میں فیصلہ کرنے کا حق دار سمجھتی ہیں، اس پر ابو زید کہنے لگے: اللہ کی قسم اگر فیصلہ میرے پاس آتا تو میں بھی وہی فیصلہ کرتا جو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا ہے ۔ (شرح نہج البلاغۃ‘‘ لابنِ ابی الحدید، جلد ۴ ،صفحہ ۸۲)
الحمد للہ فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے مسلہ باغ فدک کے متعلق شیعہ مذھب کی معتبر کتابوں سے اس مسلہ کو علمی اور مہذب انداز میں پیش کر دیا ہے جو کچھ آئمہ اہلبیت رضی اللہ عنہم نے فرمایا اور جو کچھ شیعہ مذھب کے معتبر علماء نے لکھا یہی اہلسنت و جماعت کا مؤقف ہے مجھے حیرت ہوتی اجہل قسم کے شیعہ ذاکرین اور سننے پڑھنے والے شیعہ حضرات آئمہ اہلبیت رضی اللہ عنہم کی تعلیمات و ارشادات کو کیوں فراموش کر دیتے ہیں اس کی وجہ صاف ہے کہ یہ جھوٹی محبت کے دعویدار ہیں صرف امت مسلمہ میں فتنہ و فساد پھیلانا ان کا کام ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کہ اہل اسلام کو ابن سباء یہودی کے پھیلائے ہوئے اس فتنہ و شر سے محفوظ فرمائے اور حق کو قبول کرنے اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment