دم و تعویذات قرآن و حدیث اور دیگر دلائل کی روشنی میں حصّہ دوم
حدیث پر عمل کا دعوی اسی وقت درست ہے جب عمل بھی ہو, اپنے مطلب کی حدیث لے لینے والا اور دوسری کو چھوڑ دینے والا حدیث کا پیروکار نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مخالف اور دشمن حدیث ہے, ایسے لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے مصداق ہیں جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اخیر زمانے میں کچھ لوگ ایسی باتیں لائیں گے جن کو تم اور تمھارے باپ دادا نے نہ سنا ہوگا, ایک حدیث بیان کرنا اور دوسری چھوڑ دینا بلا شبہ حدیث کا غلط مطلب بیان کرنا اور نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا ہے اس لیے کہ کثیر احادیث ایسی ہیں جن کا مطلب دوسری احادیث سے ہی واضح ہوتا ہے. تعویذ اور جھاڑ پھونک کی قرآن و احادیث کی روشنی میں کیا حقیقت ہے ہم ذیل میں اسے بیان کرتے ہیں.قرآن پاک میں اللّٰه تعالی ارشاد فرماتا ہے " وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا ھُوَ شِفَاءٌ وَّرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِیْنَ " یعنی ہم قرآن کی وہ آیتیں اتارتے ہیں جو مؤمنین کےلیے شفا اور رحمت ہیں اولًا اس آیت مبارکہ ہی سے دم اور تعویذ کا ثبوت ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کو مومنین کے لیے شفا اور رحمت قرار دیا ہے، اور اس کا طریقہ یہی ہے کہ پڑھ کر کسی پر دم کردیا جائے یا تعویذ بنا کر مریض کے گلے میں لٹکا دیا جائے ، اس آیت پر غور کرنے کے بعد کوئی بھی ذی عقل تعویذ و دم کو ناجائز و حرام نہیں کہہ سکتا مگر وہی قرآن جن کے حلق سے نیچے نہیں اترتا. تعویذ اورجھاڑ پھونک وہ ممنوع و ناجائز ہیں جس میں جہالت بھرے الفاظ اور شرکیہ کلمات ہوں اور جس میں یہ باتیں نہ ہوں بلکہ قرآنی آیات اور سنت سے ثابت دعاؤں کے ذریعہ ہو وہ بلا شبہ جائز و مستحسن ہیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام جھاڑ پھونک (دم) فرمایا کرتے تھے. بخاری شریف میں ہے: 5412 حدثنی احمد ابن ابی رجاء حدثنا النضر عن ھشام بن عروۃ قال اخبرنی ابی عن عائشۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یرقی یقول امسح الباس رب الناس بیدک الشفاء لا کاشف لہ الا الا انت ۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دم کرتے تو کہا کرتے تکلیف کو مٹا دے اے لوگوں کے رب شفا تیرے دست قدرت میں ہے,اس مشکل کا آسان کرنے والا تیرے سوا کوئی نہیں. اس حدیث پاک میں صاف طور پر مذکور ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم دم فرمایا کرتے تھے. نيز بخاری اور مسلم دونوں کی روایت ہے : عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : " أَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَوْا عَلَى حَيٍّ مِنْ أَحْيَاءِ العَرَبِ ، فَلَمْ يَقْرُوهُمْ ، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ لُدِغَ سَيِّدُ أُولَئِكَ ، فَقَالُوا : هَلْ مَعَكُمْ مِنْ دَوَاءٍ أَوْ رَاقٍ ؟ فَقَالُوا: إِنَّكُمْ لَمْ تَقْرُونَا ، وَلاَ نَفْعَلُ حَتَّى تَجْعَلُوا لَنَا جُعْلًا ، فَجَعَلُوا لَهُمْ قَطِيعًا مِنَ الشَّاءِ ، فَجَعَلَ يَقْرَأُ بِأُمِّ القُرْآنِ ، وَيَجْمَعُ بُزَاقَهُ وَيَتْفِلُ ، فَبَرَأَ ، فَأَتَوْا بِالشَّاءِ ، فَقَالُوا: لاَ نَأْخُذُهُ حَتَّى نَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَسَأَلُوهُ ، فَضَحِكَ وَقَالَ: ( وَمَا أَدْرَاكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ ؟ خُذُوهَا ، وَاضْرِبُوا لِي بِسَهْمٍ ) " رواه البخاري ( 5736 ) ، ومسلم ( 2201،چشتی)
ترجمہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ اصحاب عرب کے کسی قبیلہ کے پاس گئے تو انھوں نے صحابہ کی طرف توجہ نہیں کی اسی درمیان ان کے سردار کو بچھو یا سانپ نے ڈس لیا, انھوں نے پوچھا کیا تمھارے پاس کوئی دوا یا دم کرنے والا ہے؟ اصحاب رسول نے فرمایا تم نے ھماری طرف توجہ نہیں دی, اور ہم دم نہیں کریں گے جب تک تم ہمارے لیے اجرت مقرر نہ کرو تو انھوں نے بکری کا ایک ریوڑ مقرر کر دیا تو وہ سورہ فاتحہ پڑھنے لگے اور تھوک جمع کرکے تھوکتے ایسا کرنے سے وہ سردار شفا یاب ہوگیا. اس قبیلہ کے لوگوں نے ریوڑ پیش کیا تو اصحاب نے کہا کہ ہم یہ اس وقت لیں گے جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیں گےپھر حضور سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا تمھیں کیا معلوم کہ وہ جھاڑ پھونک ہے؟ بکری لے لو اور ایک حصہ میرے لیے نکالو ۔
اس حدیث پاک میں واضح طور پر مذکور ہے کہ صحابی نے جھاڑ پھونک فرمائی اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپ نے اسے غلط قرار نہیں دیا بلکہ اس کی اجرت بھی قبول کرنے کا حکم دیا. اس دونوں حدیثوں سے ثابت ہوا کہ جھاڑ پھونک جائز ہے بشرطیکہ قرآنی آیات اور دعاے ماثورہ کے ذریعہ ہو نیز مسلم شریف میں ہے: وعَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : " نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرُّقَى ، فَجَاءَ آلُ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا : يَا رَسُولَ اللهِ ! إِنَّهُ كَانَتْ عِنْدَنَا رُقْيَةٌ نَرْقِي بِهَا مِنَ الْعَقْرَبِ ، وَإِنَّكَ نَهَيْتَ عَنِ الرُّقَى ، قَالَ: فَعَرَضُوهَا عَلَيْهِ ، فَقَالَ : مَا أَرَى بَأْسًا ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَنْفَعَ أَخَاهُ فَلْيَنْفَعْهُ ۔ (رواه مسلم 2199)
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھاڑ پھونک سے منع فرمایا تو عمرو بن حزم کی آل حضور کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے پاس ایک دم تھاجسے ہم بچھو کے کاٹنے پر کرتے تھے اور آپ نے دم کرنے سے منع فرمادیا ہے, حضور نے فرمایا وہ دم مجھے بتاؤ پھر فرمایا میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا, تم میں سے جو اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکے تو اسے پہنچانا چاہیے ۔ اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ جھاڑ پھونک میں اگر شرکیہ بات نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح سے مسلمان بھائی کو نفع پہنچانے کی ترغیب دلائی ہے مسلم شریف کی ایک اور حدیث ملاحظہ کیجیے جس میں حضور نے صاف طور فرمایا کہ جھاڑ پھونک میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ اس میں شرک نہ ہو وعَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، قَالَ : " كُنَّا نَرْقِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ ، فَقُلْنَا : يَا رَسُولَ اللهِ ! كَيْفَ تَرَى فِي ذَلِكَ ؟ فَقَالَ : ( اعْرِضُوا عَلَيَّ رُقَاكُمْ ، لَا بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ ) ۔ (رواه مسلم 2200)
ترجمہ : صحابی عوف بن مالک کا بیان ہے کہ ہم زمانہ جاھلیت میں جھاڑ پھونک کرتے تھے تو ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ اسے کیسا گمان کرتے ہیں؟ فرمایا: اپنی جھاڑ پھونک,دم مجھے بتاؤ, دم یا جھاڑ پھونک میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ اس میں کوئی شرک نہ ہو.(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی) ظاہر ہے کہ دم.جھاڑ پھونک اور دعا تعویذکرنے والے قرآنی آیات اور سنت سے ثابت دعاؤں کے ذریعہ کرتے ہیں ان کا یہ کام بالکل درست ہے اور حدیث سے اس کا قوی ثبوت ہے, کوئی اگر اب جھاڑ پھونک کو غلط قرار دیتا ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتا ہے اور صریح و مرفوع احادیث کا انکار کرتا ہے. اور یاد رہے کہ حضور نے فرمایا ہے کہ جو مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے تو اسے اپنا ٹھکانہ جھنم میں بنانا چاہیے. اب منکرین اپنے ایمان کا اندازہ لگائیں, تعویذ اور دم دونوں ہم معنی ہیں : مصباح اللغات میں ہے: عَوَّذَ تَعْوِیْذًا وَاَعَاذَ اِعَاذَۃً الرجل. حفاظت کی دعا کرنا اور اعیذک باللہ کہنا, منتر کرنا گلے میں تعویذ لٹکانا (ص: 583)رقی یرقی الرُّقی: منتر, تعویذ (ص: 310) حدیث میں یہ دونوں الفاظ آئے ہیں : جس طرح دم کرنے میں کوئی حرج نہیں اسی طرح لٹکانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہم اس تعلق سے بھی حدیث پیش کرتے ہیں : امام احمد بن حنبل اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حدثنا يزيد ، أخبرنا محمد بن إسحاق ، عن عمرو بن شعيب ، عن أبيه ، عن جده قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا كلمات يقولهن عند النوم ، من الفزع : " بسم الله ، أعوذ بكلمات الله التامة من غضبه وعقابه ، ومن شر عباده ، ومن همزات الشياطين وأن يحضرون " قال : فكان عبد الله بن عمرو يعلمها من بلغ من ولده أن يقولها عند نومه ، ومن كان منهم صغيرا لا يعقل أن يحفظها ، كتبها له ، فعلقها في عنقه . ورواه أبو داود ، والترمذي ، والنسائي ، من حديث محمد بن إسحاق ، وقال الترمذي : حسن غريب ۔ (سنن ابی داؤد ج: 2 ص: 187 مطبوعہ مطبع مجتبائی پاکستان لاہور) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں چند کلمات سکھائے جن کو ہم خوف اور دہشت کی وجہ سے سوتے وقت پڑھتے تھے وہ کلمات یہ تھے بسم الله ، أعوذ بكلمات الله التامة من غضبه وعقابه ، ومن شر عباده ، ومن همزات الشياطين وأن يحضرون. حضرت عبد اللہ بن عمرو بالغ بچوں کو سوتے وقت ان کلمات کے پڑھنے کی تلقین کرتے اور جو کم سن بچے ان کلمات کو یاد نہیں کر سکتے تھے ان کے گلے میں ان کلمات کو لکھ کر ان کا تعویذ ڈال دیتے ایک صحابی کا تعویذ لٹکانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں اس لیے کہ کوئی بھی صحابی نہ تو خلاف رسول کوئی کام کر سکتے ہیں اور نہ ہی اسے برداشت کر سکتے ہیں, معلوم ہوا کہ دم,جھاڑ پھونک تعویذ میں کوئی حرج نہیں حدیث پر عمل کا دعوی کرنے والوں سے میرا کہنا ہے کہ وہ اپنی سوچ کا محاسبہ کریں اور غور کریں کہ وہ کتنا حدیث پر عمل کر رہے ہیں اور ان کا ایمان کہاں تک سلامت ہے. کیا یہی حدیث پر عمل ہے کہ ایک حدیث کو لے لیا جائے اور اور دوسری کو چھوڑ دیا جائے؟ یہی تمہارا ایمان ہے ؟ حدیث کا انکار اور پھر بھی اس پر عمل کا دعوی ؟
حدیث پر عمل کا دعوی اسی وقت درست ہے جب عمل بھی ہو, اپنے مطلب کی حدیث لے لینے والا اور دوسری کو چھوڑ دینے والا حدیث کا پیروکار نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مخالف اور دشمن حدیث ہے, ایسے لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے مصداق ہیں جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اخیر زمانے میں کچھ لوگ ایسی باتیں لائیں گے جن کو تم اور تمھارے باپ دادا نے نہ سنا ہوگا, ایک حدیث بیان کرنا اور دوسری چھوڑ دینا بلا شبہ حدیث کا غلط مطلب بیان کرنا اور نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا ہے اس لیے کہ کثیر احادیث ایسی ہیں جن کا مطلب دوسری احادیث سے ہی واضح ہوتا ہے.
تعویذ اور جھاڑ پھونک کی قرآن و احادیث کی روشنی میں کیا حقیقت ہے ہم ذیل میں اسے بیان کرتے ہیں.قرآن پاک میں اللّٰه تعالی ارشاد فرماتا ہے " وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا ھُوَ شِفَاءٌ وَّرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِیْنَ "
یعنی ہم قرآن کی وہ آیتیں اتارتے ہیں جو مؤمنین کے لیے شفا اور رحمت ہیں
اولًا اس آیت مبارکہ ہی سے دم اور تعویذ کا ثبوت ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کو مومنین کے لیے شفا اور رحمت قرار دیا ہے، اور اس کا طریقہ یہی ہے کہ پڑھ کر کسی پر دم کردیا جائے یا تعویذ بنا کر مریض کے گلے میں لٹکا دیا جائے ، اس آیت پر غور کرنے کے بعد کوئی بھی ذی عقل تعویذ و دم کو ناجائز و حرام نہیں کہہ سکتا مگر وہی قرآن جن کے حلق سے نیچے نہیں اترتا.
تعویذ اورجھاڑ پھونک وہ ممنوع و ناجائز ہیں جس میں جہالت بھرے الفاظ اور شرکیہ کلمات ہوں اور جس میں یہ باتیں نہ ہوں بلکہ قرآنی آیات اور سنت سے ثابت دعاؤں کے ذریعہ ہو وہ بلا شبہ جائز و مستحسن ہیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام جھاڑ پھونک (دم) فرمایا کرتے تھے.
بخاری شریف میں ہے: 5412 حدثنی احمد ابن ابی رجاء حدثنا النضر عن ھشام بن عروۃ قال اخبرنی ابی عن عائشۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یرقی یقول امسح الباس رب الناس بیدک الشفاء لا کاشف لہ الا الا انت ۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دم کرتے تو کہا کرتے تکلیف کو مٹا دے اے لوگوں کے رب شفا تیرے دست قدرت میں ہے,اس مشکل کا آسان کرنے والا تیرے سوا کوئی نہیں.
اس حدیث پاک میں صاف طور پر مذکور ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم دم فرمایا کرتے تھے.
نيز بخاری اور مسلم دونوں کی روایت ہے : عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : " أَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَوْا عَلَى حَيٍّ مِنْ أَحْيَاءِ العَرَبِ ، فَلَمْ يَقْرُوهُمْ ، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ لُدِغَ سَيِّدُ أُولَئِكَ ، فَقَالُوا : هَلْ مَعَكُمْ مِنْ دَوَاءٍ أَوْ رَاقٍ ؟ فَقَالُوا: إِنَّكُمْ لَمْ تَقْرُونَا ، وَلاَ نَفْعَلُ حَتَّى تَجْعَلُوا لَنَا جُعْلًا ، فَجَعَلُوا لَهُمْ قَطِيعًا مِنَ الشَّاءِ ، فَجَعَلَ يَقْرَأُ بِأُمِّ القُرْآنِ ، وَيَجْمَعُ بُزَاقَهُ وَيَتْفِلُ ، فَبَرَأَ ، فَأَتَوْا بِالشَّاءِ ، فَقَالُوا: لاَ نَأْخُذُهُ حَتَّى نَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَسَأَلُوهُ ، فَضَحِكَ وَقَالَ: ( وَمَا أَدْرَاكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ ؟ خُذُوهَا ، وَاضْرِبُوا لِي بِسَهْمٍ ) " رواه البخاري ( 5736 ) ، ومسلم ( 2201 ) . یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ اصحاب عرب کے کسی قبیلہ کے پاس گئے تو انھوں نے صحابہ کی طرف توجہ نہیں کی اسی درمیان ان کے سردار کو بچھو یا سانپ نے ڈس لیا, انھوں نے پوچھا کیا تمھارے پاس کوئی دوا یا دم کرنے والا ہے؟ اصحاب رسول نے فرمایا تم نے ھماری طرف توجہ نہیں دی, اور ہم دم نہیں کریں گے جب تک تم ہمارے لیے اجرت مقرر نہ کرو تو انھوں نے بکری کا ایک ریوڑ مقرر کر دیا تو وہ سورہ فاتحہ پڑھنے لگے اور تھوک جمع کرکے تھوکتے ایسا کرنے سے وہ سردار شفا یاب ہوگیا. اس قبیلہ کے لوگوں نے ریوڑ پیش کیا تو اصحاب نے کہا کہ ہم یہ اس وقت لیں گے جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیں گےپھر حضور سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا تمھیں کیا معلوم کہ وہ جھاڑ پھونک ہے؟ بکری لے لو اور ایک حصہ میرے لیے نکالو ۔
اس حدیث پاک میں واضح طور پر مذکور ہے کہ صحابی نے جھاڑ پھونک فرمائی اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپ نے اسے غلط قرار نہیں دیا بلکہ اس کی اجرت بھی قبول کرنے کا حکم دیا. اس دونوں حدیثوں سے ثابت ہوا کہ جھاڑ پھونک جائز ہے بشرطیکہ قرآنی آیات اور دعاے ماثورہ کے ذریعہ ہو ۔
نیز مسلم شریف میں ہے: وعَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : " نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرُّقَى ، فَجَاءَ آلُ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا : يَا رَسُولَ اللهِ ! إِنَّهُ كَانَتْ عِنْدَنَا رُقْيَةٌ نَرْقِي بِهَا مِنَ الْعَقْرَبِ ، وَإِنَّكَ نَهَيْتَ عَنِ الرُّقَى ، قَالَ: فَعَرَضُوهَا عَلَيْهِ ، فَقَالَ: ( مَا أَرَى بَأْسًا ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَنْفَعَ أَخَاهُ فَلْيَنْفَعْهُ ) رواه مسلم ( 2199 ) . یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھاڑ پھونک سے منع فرمایا تو عمرو بن حزم کی آل حضور کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے پاس ایک دم تھاجسے ہم بچھو کے کاٹنے پر کرتے تھے اور آپ نے دم کرنے سے منع فرمادیا ہے, حضور نے فرمایا وہ دم مجھے بتاؤ پھر فرمایا میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا, تم میں سے جو اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکے تو اسے پہنچانا چاہیے ۔
اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ جھاڑ پھونک میں اگر شرکیہ بات نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح سے مسلمان بھائی کو نفع پہنچانے کی ترغیب دلائی ہے
مسلم شریف کی ایک اور حدیث ملاحظہ کیجیے جس میں حضور نے صاف طور فرمایا کہ جھاڑ پھونک میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ اس میں شرک نہ ہو
وعَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، قَالَ : " كُنَّا نَرْقِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ ، فَقُلْنَا : يَا رَسُولَ اللهِ ! كَيْفَ تَرَى فِي ذَلِكَ ؟ فَقَالَ : ( اعْرِضُوا عَلَيَّ رُقَاكُمْ ، لَا بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ ) " رواه مسلم ( 2200 ) .یعنی صحابی عوف بن مالک کا بیان ہے کہ ہم زمانہ جاھلیت میں جھاڑ پھونک کرتے تھے تو ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ اسے کیسا گمان کرتے ہیں؟ فرمایا: اپنی جھاڑ پھونک,دم مجھے بتاؤ, دم یا جھاڑ پھونک میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ اس میں کوئی شرک نہ ہو ۔
ظاہر ہے کہ دم.جھاڑ پھونک اور دعا تعویذکرنے والے قرآنی آیات اور سنت سے ثابت دعاؤں کے ذریعہ کرتے ہیں ان کا یہ کام بالکل درست ہے اور حدیث سے اس کا قوی ثبوت ہے, کوئی اگر اب جھاڑ پھونک کو غلط قرار دیتا ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتا ہے اور صریح و مرفوع احادیث کا انکار کرتا ہے. اور یاد رہے کہ حضور نے فرمایا ہے کہ جو مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے تو اسے اپنا ٹھکانہ جھنم میں بنانا چاہیے ۔ اب منکرین اپنے ایمان کا اندازہ لگائیں ۔
تعویذ اور دم دونوں ہم معنی ہیں : مصباح اللغات میں ہے: عَوَّذَ تَعْوِیْذًا وَاَعَاذَ اِعَاذَۃً الرجل. حفاظت کی دعا کرنا اور اعیذک باللہ کہنا, منتر کرنا گلے میں تعویذ لٹکانا (ص: 583)رقی یرقی الرُّقی: منتر, تعویذ (ص: 310)
حدیث میں یہ دونوں الفاظ آئے ہیں : جس طرح دم کرنے میں کوئی حرج نہیں اسی طرح لٹکانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہم اس تعلق سے بھی حدیث پیش کرتے ہیں : امام احمد بن حنبل اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حدثنا يزيد ، أخبرنا محمد بن إسحاق ، عن عمرو بن شعيب ، عن أبيه ، عن جده قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا كلمات يقولهن عند النوم ، من الفزع : " بسم الله ، أعوذ بكلمات الله التامة من غضبه وعقابه ، ومن شر عباده ، ومن همزات الشياطين وأن يحضرون " قال : فكان عبد الله بن عمرو يعلمها من بلغ من ولده أن يقولها عند نومه ، ومن كان منهم صغيرا لا يعقل أن يحفظها ، كتبها له ، فعلقها في عنقه ۔ ورواه أبو داود ، والترمذي ، والنسائي ، من حديث محمد بن إسحاق ، وقال الترمذي : حسن غريب ۔ (سنن ابی داؤد ج: 2 ص: 187 مطبوعہ مطبع مجتبائی پاکستان لاہور)
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں چند کلمات سکھائے جن کو ہم خوف اور دہشت کی وجہ سے سوتے وقت پڑھتے تھے وہ کلمات یہ تھے بسم الله ، أعوذ بكلمات الله التامة من غضبه وعقابه ، ومن شر عباده ، ومن همزات الشياطين وأن يحضرون. حضرت عبد اللہ بن عمرو بالغ بچوں کو سوتے وقت ان کلمات کے پڑھنے کی تلقین کرتے اور جو کم سن بچے ان کلمات کو یاد نہیں کر سکتے تھے ان کے گلے میں ان کلمات کو لکھ کر ان کا تعویذ ڈال دیتے ۔
ایک صحابی کا تعویذ لٹکانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں اس لیے کہ کوئی بھی صحابی نہ تو خلاف رسول کوئی کام کر سکتے ہیں اور نہ ہی اسے برداشت کر سکتے ہیں, معلوم ہوا کہ دم,جھاڑ پھونک تعویذ میں کوئی حرج نہیں ۔ حدیث پر عمل کا دعوی کرنے والوں سے میرا کہنا ہے کہ وہ اپنی سوچ کا محاسبہ کریں اور غور کریں کہ وہ کتنا حدیث پر عمل کر رہے ہیں اور ان کا ایمان کہاں تک سلامت ہے. کیا یہی حدیث پر عمل ہے کہ ایک حدیث کو لے لیا جائے اور اور دوسری کو چھوڑ دیا جائے ؟ یہی تمھارا ایمان ہے ؟ حدیث کا انکار اور پھر بھی اس پر عمل کا دعوی ؟ ۔
غیرمقلد وہابی حضرات کے مولوی تعویذ دیتے ہیں اور اُن سے پیسہ کمانے کا دھندا کرتے ہیں
محترم قارئینِ کرام : آج کل کے غیرمقلد نام نہاد اہلحدیث حضرات کے عوام اور ان کے علماء کو تعویذ اور تمیمہ میں کوئی بھی فرق معلوم نہیں اس لیئے ان کے نزدیک تعویذ مطلقاً شرک اور حرام ہے اور یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں مگر ان کے بڑے اسے جائز کہتے ہیں ، تعویذ دیتے ہیں اور اُن سے پیسہ کماتے ہیں پڑھیئے حوالہ اصل اسکن کے ساتھ ۔
مشہور غیرمقلد وہابی مولوی اور وہابیوں کے مؤرخِ عظیم جناب مولوی اسحاق بھٹی صاحب لکھتے ہیں : مولوی معین الدین لکھوی تعویذات دیتے عاشقوں کا ہجوم ہوتا اور بہت پیسہ کماتے تھے ۔ (بزم ارجمنداں صفحہ نمبر 460 ، 461 اسحاق بھٹی وہابی)
ہمارا سوال : غیرمقلدین جو تعویذ و دم کو شرک کہتے ہیں اُن سے یہ ہے کہ آپ کے مولوی معین الدین لکھوی اور کتاب لکھنے والے مورخ غیرمقلدین جناب اسحاق بھٹی اور تعویذ لینے والے وہابی حضرات یہ سب مشرک ہوئے کہ نہیں ؟ اگر نہیں تو کیوں ؟ اگر مشرک ہوئے تو کسی غیرمقلد وہابی نے آج تک ان پر فتوائے شرک دیا ہو تو ثبوت دیجیے ؟
یا تمہارا نام نہاد جُوشِ توحید اور فتوے بازی صرف مسلمانانِ اہلسنّت پر فتوے لگا کر فتنہ و فساد اور تفرقہ پھیلانے کےلیے ہے ؟
غیرمقلد وہابیوں کے مولوی صوفی عبداللہ صاحب دم کرتے تعویذ لکھ کر دیتے اور کہتے پہن لو یا باندھ لو شِفاء ہوگی اور شِفاء مل جاتی اور اپنی بات اللہ سے منوا لیتے ۔ (صُوفی عبد اللہ صفحہ نمبر 404۔چشتی)
ہمارا سوال : غیرمقلدین جو تعویذ و دم کو شرک کہتے ہیں اُن سے یہ ہے کہ آپ کے مولوی صوفی عبد اللہ اور کتاب لکھنے والے مورخ غیرمقلدین جناب اسحاق بھٹی صاحبان یہ سب مشرک ہوئے کہ نہیں ؟ اگر نہیں تو کیوں ؟
اگر مشرک ہوئے تو کسی غیرمقلد وہابی نے آج تک ان پر فتوائے شرک دیا ہو تو ثبوت دیجیے ؟
یا تمہارا نام نہاد جُوشِ توحید اور فتوے بازی صرف مسلمانانِ اہلسنّت پر فتوے لگا کر فتنہ و فساد اور تفرقہ پھیلانے کےلیے ہے ؟
غیرمقلد وہابی حضرات کے مولوی تعویذ دیتے ہیں اور اُن سے پیسہ کمانے کا دھندا کرتے ہیں
محترم قارئینِ کرام : آج کل کے غیرمقلد نام نہاد اہلحدیث حضرات کے عوام اور ان کے علماء کو تعویذ اور تمیمہ میں کوئی بھی فرق معلوم نہیں اس لیئے ان کے نزدیک تعویذ مطلقاً شرک اور حرام ہے اور یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں مگر ان کے بڑے اسے جائز کہتے ہیں ، تعویذ دیتے ہیں اور اُن سے پیسہ کماتے ہیں پڑھیئے حوالہ اصل اسکن کے ساتھ ۔
مشہور غیرمقلد وہابی مولوی اور وہابیوں کے مؤرخِ عظیم جناب مولوی اسحاق بھٹی صاحب لکھتے ہیں : مولوی معین الدین لکھوی تعویذات دیتے عاشقوں کا ہجوم ہوتا اور بہت پیسہ کماتے تھے ۔ (بزم ارجمنداں صفحہ نمبر 460 ، 461 اسحاق بھٹی وہابی)
ہمارا سوال : غیرمقلدین جو تعویذ و دم کو شرک کہتے ہیں اُن سے یہ ہے کہ آپ کے مولوی معین الدین لکھوی اور کتاب لکھنے والے مورخ غیرمقلدین جناب اسحاق بھٹی اور تعویذ لینے والے وہابی حضرات یہ سب مشرک ہوئے کہ نہیں ؟ اگر نہیں تو کیوں ؟ اگر مشرک ہوئے تو کسی غیرمقلد وہابی نے آج تک ان پر فتوائے شرک دیا ہو تو ثبوت دیجیے ؟
یا تمہارا نام نہاد جُوشِ توحید اور فتوے بازی صرف مسلمانانِ اہلسنّت پر فتوے لگا کر فتنہ و فساد اور تفرقہ پھیلانے کےلیے ہے ؟
غیرمقلد وہابیوں کے مولوی صوفی عبداللہ صاحب دم کرتے تعویذ لکھ کر دیتے اور کہتے پہن لو یا باندھ لو شِفاء ہوگی اور شِفاء مل جاتی اور اپنی بات اللہ سے منوا لیتے ۔ (صُوفی عبد اللہ صفحہ نمبر 404۔چشتی)
ہمارا سوال : غیرمقلدین جو تعویذ و دم کو شرک کہتے ہیں اُن سے یہ ہے کہ آپ کے مولوی صوفی عبد اللہ اور کتاب لکھنے والے مورخ غیرمقلدین جناب اسحاق بھٹی صاحبان یہ سب مشرک ہوئے کہ نہیں ؟ اگر نہیں تو کیوں ؟
اگر مشرک ہوئے تو کسی غیرمقلد وہابی نے آج تک ان پر فتوائے شرک دیا ہو تو ثبوت دیجیے ؟
یا تمہارا نام نہاد جُوشِ توحید اور فتوے بازی صرف مسلمانانِ اہلسنّت پر فتوے لگا کر فتنہ و فساد اور تفرقہ پھیلانے کےلیے ہے ؟
غیرمقلد وہابی اور تعویذ کا مسئلہ
محترم قرئین : آج کل کے غیرمقلد نام نہاد اہلحدیث حضرات کے عوام اور ان کے علماء کو تعویذ اور تمیمہ میں کوئی بھی فرق معلوم نہیں اس لیئے ان کے نزدیک تعویذ مطلقاً شرک اور حرام ہے اور یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں مگر ان کے بڑے اسے جائز کہتے ہیں پڑھیئے اصل اسکنیز کے ساتھ :
امام الوہابیہ ابن تیمیہ اور تعویذ پہننا
علامہ ابن کثیر ممدوح غیر مقلدین وہابی حضرات نے ابن تیمیہ کے جنازہ کے بارے میں بزارلی سے نقل کیا ہے کہ : إن الخيط الذي كان فيه الزئبق الذي كان في عنقه بسبب القمل، دفع فيه مائة وخمسون درهما ۔
ترجمہ : جوؤں کے باعث جو آپ نے اپنی گردن میں جو پارے والا دھاگہ ڈالا تھا ۔ اور ابن تیمیہ کی میت کے غسل کا پانی بطور تبرک پیا گیا ، پگڑی اور دھاگہ تبرک کے طور پر بیچے گئے ۔ ابن تیمیہ کی قبر پر ہزاروں لوگ زیارت کےلیئے جاتے رہے ۔ (البدایہ والنہایہ ج 14 صفحہ نمبر 158 ، 159 ترجمہ مولانا اختر فتح پوری،چشتی)
(1) سوال یہ ہے کہ کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں ابن تیمیہ سلفی فتویٰ کے مطابق شرک پر فوت ہوئے کیونکہ انہوں نے مرتے دم تک جوؤں سے بچنے کے لیئے اپنی گردن میں پارے والا دھاگہ ڈالے رکھا تھا اور وہ قرآنی تعویذ نہ تھا ۔ کیا یہ شرک نہیں ؟
(2) اور جتنے ابن تیمیہ کے پیروکاروں نے مردے کے غسل کا بچا ہوا پانی بطور تبرک پیا وہ مشرک ، بدعتی گمراہ ہوئے کہ نہیں ؟
(3) جن لوگوں نے ابن تیمیہ کا تعویذ والا دھاگہ ، ہگڑی وغیرہ بطور تبرک خریدی اور بیچنے والے وہ سب مشرک ، بدعتی گمراہ اور مردہ پرست ہوئے کہ نہیں ؟
(4) علامہ ابن کثیر بغیر کسی اعتراض کے یہ سب لکھ کر مشرکانہ عقائد و نظریات پھیلانے کے مرتکب قرار پائے کہ نہیں وہ مشرک ہوگئے یا مسلمان رہے ؟
برائے کرم تمام سوالوں کا علمی بحوالہ قرآن و حدیث جواب دیا جائے اُوٹ پٹانگ باتوں اور گھٹیا پوسٹوں سے گریز کیا جائے ۔
غیرمقلد وہابی اور تعویذ کا مسئلہ غیرمقلد وہابی حضرات کے شیخ الکل میاں نذیر حسين دہلوی صاحب لکھتے ہیں : تعویذ لکھ کر گلے میں ڈالنا جائز ہے کوئی حرج نہیں اور لکھ کر گلے میں لٹکائے تو حرج نہیں ہے ۔ (فتاویٰ نذیریہ جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 298،چشتی)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما یہ کلمات لکھ کر بچوں کے گلے میں ڈالتے تھے اور امام ترمذی نے اسے حسن کہا ہے ۔ (فتاویٰ نذیریہ جلد سوم صفحہ 299) ۔ لگاؤ فتویٰ ؟ ۔
غیرمقلدو کہہ دو یہ بھی تمہارا مولوی نہیں ہے ویسے غیرمقلد نام نہاد اہلحدیث مولوی اسی کے حقدار ہیں کہ ان کے مکتبہ فکر کے لوگ انہیں پہچاننے سے انکار کریں یہ سزا ہے آئمہ فقہا علیہم الرّحمہ کی گستاخی کی ، اے غیرمقلد وہابی مولویو سوچو اس سے پہلے کہ سوچنے کا وقت چلا جائے ۔
غیرمقلدین نام نہاد اہلحدیث حجرات کے مجدد نواب صدیق حسن خان صاحب نے س مسلہ پر کتاب الداء والدواء کتاب التعویذات نام کی پوری کتاب لکھی ہے اس میں لکھتے ہیں : تعویذ لکھ کر باندھنے اور دم کرنے میں کوئی حرج نہیں اس کی اصل حدیثِ پاک ہے ۔ (کتابُ التعویذات صفحہ نمبر 85 نواب صدیق حسن خان غیرمقلد)
نواب صدیق حسن خان کٹر غیر مقلد اہلحدیث وہابی تھے اہلحیثوں کے گھر سے
گواہی نمبر 1 : نواب صدیق حسن خان کٹر غیر مقلد اہلحدیث وہابی تھے ۔ ( اہل حدیث اور سیاست صفحہ 152،چشتی)
جی جناب کب تک انکار کروگے ؟ اپنے بڑوں کو پہچاننے سے میں نے آج تک ایسی اولاد نہیں دیکھی جو اپنے ماں باپ کو پہچاننے سے انکار کر دے سوائے غیر مقلد نام نہاد اہلحدیث حضرات کے پتہ نہیں ان کے بڑوں کا کیا جرم تھا جس کی پاداش میں آج ان کی روحانی اولادیں انہیں پہچاننے سے انکار کرتی ہیں موجودہ علمائے اہلحدیث کےلیئے لمحہ فکریہ ۔
گواہی نمبر 2 : نواب صدیق حسن خان پکے غیر مقلد اہلحدیث تھے علمائے اہلحدیث کی گواہی و اقرار ۔ (مجموعہ رسائل عقیدہ جلد اوّل صفحات 88 ، 89)
غیر مقلدو کب تک جھوٹ بولو گے ؟
نوٹ یہ حوالے ساتھ اس لیئے پیش کیئے جا رہہ ہیں کیونکہ اکثر غیر مقلدین حضرات کا طریقہ واردات یہ ہے جب ان کے بڑوں کا حوالہ دیا جائے تو سادہ لوح لوگوں کو کہتے ہیں یہ تو ہمارا عالم نہیں ہے ۔
غیرمقلد وہابی حضرات کے مجتہد العصر اور محدث عبد اللہ روپڑی صاحب لکھتے ہیں : قرآن مجید کی آیت کا تعویذ لکھ کر دینے میں کوئی حرج نہیں مڑھا لیا جائے ۔ (فتاویٰ اہلحدیث جلد سوم صفحہ نمبر 420،چشتی)
حُسنِ اتفاق ہے وہابی فتوے کا صفحہ نمبر 420 خیر اب کیا کہتے ہیں غیرمقلد وہابی حضرات اِس مولوی صاحب کے بارے میں ؟ ۔
غیرمقلد وہابی حضرات کے شیخ الاسلام جناب ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں : راجح قول یہ ہے کہ دعاؤں کا تعویذ بنا کر دینا جائز ہے اور حضرت عبد اللہ بن عمر بن عاص صحابی رضی اللہ عنہ تعویذ لکھ کر بچوں کے گلے میں ڈالتے تھے ۔ (فتاویٰ ثنائیہ جلد اوّل صفحہ نمبر 339)
غیرمقلد وہابیو اپنے شیخ الاسلام اور حضرت عبد اللہ بن عمر بن عاص صحابی رضی اللہ عنہ پر کیا فتویٰ لگاؤ گے ؟
غیرمقلد وہابیوں کے مولوی صوفی عبداللہ صاحب دم کرتے تعویذ لکھ کر دیتے اور کہتے پہن لو یا باندھ لو شِفاء ہوگی اور شِفاء مل جاتی اور اپنی بات اللہ سے منوا لیتے ۔ (صُوفی عبد اللہ صفحہ نمبر 404،چشتی)
ہمارا سوال : غیرمقلدین جو تعویذ و دم کو شرک کہتے ہیں اُن سے یہ ہے کہ آپ کے مولوی صوفی عبد اللہ اور کتاب لکھنے والے مورخ غیرمقلدین جناب اسحاق بھٹی صاحبان یہ سب مشرک ہوئے کہ نہیں ؟ اگر نہیں تو کیوں ؟ اگر مشرک ہوئے تو کسی غیرمقلد وہابی نے آج تک ان پر فتوائے شرک دیا ہو تو ثبوت دیجیئے ؟
یا تمہارا نام نہاد جُوشِ توحید اور فتوے بازی صرف مسلمانانِ اہلسنّت پر فتوے لگا کر فتنہ و فساد اور تفرقہ پھیلانے کےلیئے ہے ؟ ۔
مشہور غیرمقلد وہابی مولوی اور وہابیوں کے مؤرخِ عظیم جناب مولوی اسحاق بھٹی صاحب لکھتے ہیں : مولوی معین الدین لکھوی تعویذات دیتے عاشقوں کا ہجوم ہوتا اور بہت پیسہ کماتے تھے ۔ (بزم ارجمنداں صفحہ نمبر 460 ، 461 غیرمقلد وہابی اسحاق بھٹی ،چشتی)
ہمارا سوال : غیرمقلدین جو تعویذ و دم کو شرک کہتے ہیں اُن سے یہ ہے کہ آپ کے مولوی معین الدین لکھوی اور کتاب لکھنے والے مورخ غیرمقلدین جناب اسحاق بھٹی اور تعویذ لینے والے وہابی حضرات یہ سب مشرک ہوئے کہ نہیں ؟ اگر نہیں تو کیوں ؟ اگر مشرک ہوئے تو کسی غیرمقلد وہابی نے آج تک ان پر فتوائے شرک دیا ہو تو ثبوت دیجیئے ؟
یا تمہارا نام نہاد جُوشِ توحید اور فتوے بازی صرف مسلمانانِ اہلسنّت پر فتوے لگا کر فتنہ و فساد اور تفرقہ پھیلانے کےلیئے ہے ؟ ۔
امام احمد بن حنبل رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں تعویذ دینے میں کوئی حرج نہیں ۔اسلاف تعویذ دیا کرتے تھے۔(زادالمعاد جلد 3 ،4 صفحہ 572 علامہ ابن قیم جوزی ممدوح وہابیہ) ۔
قرآنی آیات پر مشتمل تعویذات کو تمیمہ کہنا قرآن و سنت کی ہتک ہے اس پاکیزہ کلام کو یہ بُرا نام دینا غُلو ہے ۔ اور فائدہ میں لکھا دم کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے اور اس کی تاثیر ہوتی ہے ۔ (سُنن ابُو داود جلد 4 صفحہ 47 زبیر علی زئی غیر مقلد اہلحدیث،چشتی)
اب کیا کہتے ہیں غیر کے مقلد وہابی نام نہاد اہلحدیث حضرات جو مسلکی تعصب میں اس حد تک گِر چکے ہیں کہ قرآن کریم کی آیات کو تمیمہ جیسا برا نام دے کر مخالفین پر کفر و شرک کے فتوے لگاتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ در اصل گستاخان قرآن ہیں جو قرآن کی آیات مقدسہ کی توہین و ہتک کرتے ہیں بقول محدث الوہابیہ غیر مقلدین زبیر علی زئی صاحب پڑھیئے ان کی شرح ابو داود کا اسکن اور ان گستاخوں بے ادبوں کے اصلی چہرے پہچانیئے ۔
تعویذ دینا جائز ہے وہ بھی غیر مسلم کو وہابی فتویٰ
شرع کے مطابق تعویذ پہننا اور دینا ایک جائز اور اچھی نیت پر باعث ثواب عمل ہے اِسے شرک، ناجائز، حرام وغیرہ کہنا جہالت اور علم دین سے دوری ہے جن احادیث میں تعویذکی ممانعت آئی ہے وہ شرکیہ الفاظ پر لکھے گئے تعویذات ہیں ۔
اگر کوئی میں نہ مانوں کا کلمہ ہی پڑھتا رہے اور ہر قسم کے تعویذات کو شرک اور گناہ سے تعبیر کرے تو اُسے چاہیے کہ پہلے اپنے مسلک کے اُن تعویذ فروش مولویوں پر فتوی لگائے جو نہ صرف مسلمانوں کو تعویذ دیتے تھے بلکہ اگر کوئی غیر مسلم بھی آجائے تو اُسے بھی اِس بدعت سے نوازتے تھے جیسا کہ "فتاوی اہلحدیث" جلد اوّل صفحہ نمبر 201 از وہابی محدث عبداللہ روپڑی امرتسری میں ایک سوال کے جواب میں اس کی تصریح ہے کہ : غیر مسلم کو تعویذ دیا جا سکتا ہے مگر آیات قرآنیہ نہ لکھی ہوں میں (عبد اللہ روپڑی) اس کا ترجمہ لکھ کر دے دیتا ہوں یا کچھ اور ۔ (فتاویٰ اہلحدیث جلد اوّل صفحہ نمبر 201 وہابی محدث عبد اللہ روپڑی،چشتی)
(1) اب ذریتِ نجدیہ سے بندہ پوچھے کہ غیر مسلم کو قرآنی آیات کا ترجمہ لکھ کر تعویذ بنا کر دینا جائز ہے کس حدیث میں آیا ہے کہ غیر مسلموں کو بھی تعویذ دیئے جاسکتے ہیں وہ بھی قرآنی آیات کے ترجمے کیساتھ ؟
(2) یہ جو آخر میں لکھا ہے "یا کچھ اور" اس سے مراد کیا ہے کیا اس کا ثبوت قرآن و حدیث میں ہے اگر نہیں تو آپ یہ کام کرکے اپنے ہی اصولوں کے مطابق بدعتی ٹھہرے
(3) نیز سعودی مطوے مسجد نبوی میں آئے دن کسی عام مسلمان کو گھیر کر اُسے پریشان کرتے ہیں کہ حدیث میں تعویذ پہننے کی سخت ممانعت ہے ، قرآن کی آیت کو گلے میں نہ ڈالو بلکہ پڑھو اس سے شفا ہوگی وغیرہ وغیرہ اِن مطوؤں کو اتنا بھی علم نہیں کہ پاکستانی کئی وہابی مولوی تعویذ کے جواز کے قائل ہیں اور دیتے بھی ہیں پارٹ ٹائم کئی نے تو دکانداری بھی کھولی ہے اور ہم یہاں حرم میں آدھی سے زیادہ اُمت کو مشرک بنارہے ہیں - پہلے اپنے گھر کی خبر لو بعد میں باہر تبلیغ کرنا - تمہارے مولوی تو کافروں کو بھی تعویذ دے رہے ہیں اور تمہیں مسلمان کے گلے میں لٹکا شرعی تعویذ تکلیف دے رہا -
کیا وجہ ہے تمہارا دین اور ہے یا اُن کا ؟
کون گنہگار ہے تم یا وہ ؟
حق پر کون باطل پر کون ہے ؟
پہلے آپس میں اس مسئلہ کو سُلجھا لو اُمت محمدیہ کو بعد میں جہنم بھیجنا اور بعد میں شرک کے فتوے لگانا ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment