علمائے کرام اور سیاست حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام : شرعی احکامات پر عمل پیرا رہتے ہوئے عملی سیاست میں حصہ لینا ہر کسی کےلیے جائز ہے خواہ عالم ہو یا غیرعالم ۔ کیونکہ سیاست بذات خود کوئی ناجائز کام نہیں ہے ۔ یہ خیال آج کا نہیں بہت پرانا خیال ہے ، بعض لوگ پہلے بھی کہا کرتے تھے کہ علماء کا سیاست سے کیا تعلق ؟ بات یہ ہے کہ جس عالم کے اندر صلاحیت ہو وہ صحیح طور پر سیاست میں شریک ہو کر دوسروں کو اپنا ہم خیال بنالے گا ، غلط بات پر نکیر کرے گا ، صحیح راہ عمل پیش کرے گا ، اس کا سیاست میں شریک ہونا درست ومفید ہے ۔
آج کل ایک گمراہ کن غلطی عام طور پر ہمارے معاشرہ میں پائی جاتی ہے کہ علماء اسلام کو ملکی سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہیے بلکہ مساجد میں بھی صرف نماز ، روزہ اور حج وغیرہ عبادات و اخلاقیات ہی کی بات کرنی چاہیے ۔ اس کے علاوہ ملکی معاملات پر گفتگو کرنا اور عام لوگوں کے سیاسی مسائل میں دلچسپی لینا علماء کےلیے غیر ضروری بلکہ نامناسب ہے۔ یہ غلط فہمی سامراج اور اس کے آلۂ کار افراد نے اتنے منظم طریقہ سے پھیلائی ہے کہ آج سامراجی نظام اس غلط فہمی کے سہارے مساجد و مدارس دینیہ میں سیاسیات کے تذکرہ کو روکنے کےلیے قانونی اقدامات کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے ۔
کیا علما کو عملی سیاست میں حصہ لینا چاہیے ؟ اس سوال کا جواب تلاش کرتے وقت دو باتیں پیش نظر رہنا چاہییں ۔ ایک تو یہ ہے کہ یہ شریعت کا نہیں ، حکمت وتدبر کا معاملہ ہے ۔ یہ جائز اور ناجائز کی بحث نہیں ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ شریعت نے علما کو سیاست میں حصہ لینے سے روک دیا ہے یا انہیں اس کے لیے حکم دیا ہے ۔ جب ہم اس سوال کو موضوع بناتے ہیں تو ہمارے پیش نظر محض یہ ہے کہ اس سے دین اور علما کو کوئی فائدہ پہنچا ہے یا نقصان ؟ دوسری بات یہ کہ عملی سیاست سے ہماری مراد اقتدار کی سیاست (Power Politics) ہے یعنی اقتدار کے حصول کےلیے جدوجہد کرنا یا کسی کے عزل ونصب کے لیے کوئی عملی کردار ادا کرنا ۔
قرآن مجید کی راہنمائی یہ ہے کہ ایک عالم دین کا اصل کام انذار کرنا ہے ۔ (توبہ :۱۲۲) انذار یہ ہے کہ لوگوں کو خبردار کیا جائے کہ انہیں ایک روز اپنے پروردگار کے حضور میں حاضر ہونا ہے اور ان اعمال کےلیے جواب دہ ہونا ہے جو وہ اس دنیا میں سرانجام دیں گے۔ اس جواب دہی کا تعلق اس کردار کے ساتھ ہے جو وہ اس دنیا میں ادا کریں گے ۔ اگر کوئی حکمران ہے تو اس کی جواب دہی کی نوعیت اور ہے ، اور اگر ایک عامی ہے تو اس کےلیے اور اسی انذار کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ علما دین کو اس طرح بیان کریں جیسے کہ وہ ہے۔ اگر دین کو کوئی فکری چیلنج درپیش ہے تو وہ دین کا مقدمہ لڑیں ۔ اگر مسلمان معاشرے میں کوئی علمی یا عملی خرابی در آئی ہے تو وہ اسے اصل دین کی طرف بلائیں۔ اس معاملے میں ان کی حیثیت ایک داروغہ کی نہیں ہے ۔ انہیں دین کا ابلاغ کرنا اور اسے دوسروں تک پہنچا دینا ہے ۔ اس کی ایک صورت ایسے مبلغین کی تیاری ہے جو اس کام کو لے کر معاشرے میں پھیل جائیں اور ایسے ادارے اور دار العلوم آباد کرنا ہے جہاں دین کے جید عالم تیار ہوں ۔ اس انذار کی ایک شکل عامۃ الناس کا تزکیہ بھی ہے ۔ یہ تزکیہ علم کا بھی ہوگا اور عمل کا بھی ۔ یہ وہ کام ہے جو ہمارے صوفیا کرتے رہے ہیں ۔ اس وقت تصوف ایک فلسفہ حیات کے طور پر زیر بحث نہیں ہے ۔ میں جس پہلو کی تحسین کر رہا ہوں ، وہ صوفیانہ حکمت عملی ہے جو خانقاہوں اور صوفیا کے حلقوں میں اختیار کی گئی ہے ۔
لہٰذا جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ علماء کا کام نہیں ہے یا تو لاعلمی میں ایسا کہتے ہیں یا پھر ان کا ذاتی مفاد اس سے وابستہ ہے ۔ نیز جو لوگ بغیر کسی شرعی وجہ کے عملی سیاست میں حصہ لینے والے علماء سے بدگمان رہتے ہیں ان کا عمل بھی درست نہیں ہے ۔ البتہ یہ بھی ملحوظ رہے کہ موجودہ حالات میں سیاست کو انتہائی گندا کردیا گیا ہے ، لہٰذا اس میں رہتے ہوئے شرعی احکامات کی پاسداری کرنا اگرچہ ناممکن نہیں ہے، لیکن انتہائی مشکل ضرور ہے ۔ اس لیے اکثر علماء عملی سیاست میں حصہ نہ لینے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں ۔ الأمور بمقاصدہا ۔ (الأشباہ والنظاٸر ۵۳،چشتی)
علماء کیوں سیاست میں حصہ نہ لیں جب کہ سیاست شرعیہ ہی دین کی بنیادی روح ہے ، و اعدو لھم ماستطعتم من قوہ ۔ کے مقصد کے حصول کا واحد ذریعہ سیاست ہے کہ امت مسلمہ کو دین کے زریں اصولوں پر جمع کر ایک مضبوط قوت میں تبدیل کیا جائے ، یاد رکھیں وہ قوم ذلت و پستی کی گہری کھائیوں میں گر جاتی ہے جس کے علماء سیاست سے لاتعلق ہوجاتے ہیں ، احادیث مبارکہ اور ان کی تشریح میں اس نکتہ کو دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سیاست انبیاء علیہم السلام کا وظیفہ ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے : کانت بنو اسرائیل تسوسھم الانبیاء ۔
بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کیا کرتے تھے ، اور دوسری جگہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : علماء امتي كأنبياء بني اسرائيل ۔ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہیں گے ، اب سوچنے کی بات ہے کہ جب سیاست انبیاء کا وظیفہ ہے تو اس کے معانی یہ ہوئے کہ جتنی بھی امتیں گزری ہیں رب کائنات نے ان امتوں کی قیادت اور سیاست ان کے انبیاء کے ہاتھوں دے دی تھی ، جب نبوت کا دروازہ آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر بند ہو گیا ، اور آپ نے یہ ارشاد بھی فرما دیا کہ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہوں گے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ امت مسلمہ کو اگر صحیح سمت میں چلانے کی قدرت اور وسعت کوئی رکھتا ہے تو وہ علماء دین ہیں اس لیے کہ علماء ہی ۔ انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء ۔ کے مصداق ہیں ۔ لوگ کہتے ہیں کہ سیاست جھوٹ کا نام ہے سیاست دغا اور دھوکے کا پلندہ ہے سیاست کی یہ بھونڈی تصویر بھی عوام کے ذہنوں میں ایک مقصد کے تحت پیدا کی گئی تاکہ عوام سیاست کو دین سے جدا سمجھ کو علماء کو مساجد اور منبروں تک محدود کردیں اور نااہل قسم کے ظالم حکمران ان پر مسلط رہیں اب اگر کوئی بھی ذی شعور شخص تھوڑا سا غور کرلے تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ آخر عبادات تو دین اسلام کے آنے سے قبل بھی ہوتی تھیں رب ذوالجلال کے سامنے جھکنے والے تو پہلے بھی موجود تھے، بیت اللہ شریف کا طواف اور حج تو پہلے بھی جاری تھا ۔ پھر وہ کیا چیز تھی جو کہ اس معاشرے میں موجود نہیں تھی ۔ دین اسلام نے وہ نئی چیز "اسلامی نظام مساوات" کی شکل میں دی عدل و انصاف کی شکل میں دی انسانوں کے برابری کے حقوق کی شکل میں دی یہ تاریخ انسانیت میں پہلا موقع تھا کہ اسلام کے آنے کے بعد حبشہ کے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو جوتوں سمیت کعبہ پر چڑھا کر اللہ اکبر کی صدا بلند کرنے کا کہا گیا یہ اسلام ہی تھا کہ جس نے عربی اور عجمی کی تفریق کو ختم کرکے تمام انسانوں کو ایک دوسرے کی نگاہوں میں برابر کردیا ۔
اگر شرعی اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سیاست تدبیر و انتظام کا نام ہے ۔ تدبیر و انتظام کرنا ایک ایسے معاشرے کا کہ جس کا نظام معیشت و امن ان بنیادی اصولوں پر استوار ہو جو کہ ریاست مدینہ کے اصول تھے ، وہ معاشرہ کہ جس میں انسانوں کی طبعی ضرورتیں "کھانا پینا" کپڑا لتہ" مکان " تعلیم اور صحت " کے انتظامات تمام لوگوں کے لیے ایک جیسے ہوں اسلامی سیاست کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جا سکے کہ ۔ جس میں کوئی انسان اپنی طاقت مال اور رعب کے نشے میں کسی کمزور پر ظلم نہ کرسکے ، ایک ایسا نظام جہاں کوئی شخص تعلیم سے بے بہرہ نہ رہ سکے - جہاں کوئی ذی آدم دواؤں کی عدم دستیابی یا مہنگا ہونے کے سبب ایڑیاں رگڑ رگڑ کر نہ مرے - جہاں عدل و انصاف کا بول بالا ہو - جہاں انسانی مساوات میں ذات پات کی تقسیم کو ختم کر دیا جائے ۔
سرمایہ دارانہ نظام کے حامیوں اور بادشاہوں نے ہر دور میں ہمیشہ یہ کوشش کی کہ سیاست کو دین سے جدا کر دیا جائے لہٰذا ایک مذموم سازش کے تحت یہ باتیں عام کی گئیں کہ دین صرف عبادات کا نام ہے ، سیاسی معاملات جیسا کہ ٹیکس وصول کرنا ، مخالفین سے جنگ یا صلح کرنا فوجداری اور دیوانی انتظامات یہ سب دین سے الگ ہیں جب کہ اگر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی مبارک پر غور کیا جائے تو بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ساری زندگی "جہاد اور عدل " کے قیام میں مصروف رہے ، نماز روزہ حج " فرض عبادات کے بعد جتنا بھی وقت ملتا وہ اسی طرح کے دنیاوی امور میں گزرتا ۔
قرآن کریم کی اشاعت ، باہر سے آنے والے وفود سے ملاقاتیں ، بادشاہوں کو قرآن کی دعوت دینا،مقدموں کے فیصلے لشکروں کی تیاری، مالیانے کی جمع " تعلیم کا انتظام ، غریبوں اور بے کسوں کی خبر گیری ، ان کے قرضوں کی ادائیگی کا اہتمام ، یتیموں کے لیے رھائش کا انتظام" بیواؤں کی نگرانی ، غرض ہر وہ کام جسے بعد میں سیاسی قرار دے کر دین سے جدا کردیا گیا، جس سے علماء نے ہاتھ اٹھا لیا ، اسلامی تاریخ کا حصہ ہے پس اگر سیاست "مذہب" یا دین سے الگ کوئی چیز ہے اور سیاست کا تعلق صرف دنیاداری سے ہے تو کہنا پڑتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پاکیزہ اور برکت والی زندگی "دینی" سے زیادہ "دنیاوی" تھی، لہٰذا اس وقت علماۓ دین ، اور اکابرین امت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام الناس میں اسلامی نظام حکومت و سیاست کے حوالے سے شعور بیدار کریں تاکہ عوام انتخابات میں دینی سمجھ اور سلامی طرز نظام حیات کو سمجھنے والے علماء کےلیے اقتدار کی راہ ہموار کریں اور صحیح معنوں میں مملکت اسلامیہ پاکستان میں امن آشتی ، انسانی حقوق و مساوات ، کا بول بالا ہو ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیاسی زندگی یا ان کے نظامِ سیاست پر گفتگو کی جاتی ہے تولوگوں کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم توایک روحانی پیشوا اور رسولِؐ خداتھے۔ عبادت اور تعلق باللہ کے داعی تھے۔ ان سے پہلے جو رسول دنیا میں تشریف لائے، وہ بھی روحانی پیشوا تھے۔ سیاست سے ان کاکیا تعلق ہے اور ان کی سیاسی زندگی کا مطلب کیاہے؟یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ آج کے زمانے میں سیاست کی جو شکل وصورت ہمارے سامنے موجود ہے، وہ ظلم وزیادتی، جھوٹ، فریب، دھوکا اور وعدہ شکنی پر قائم ہے۔ اس میں بدعنوانی اور انسانوں کا استحصال بھی شامل ہے۔ اس سیاست میں جولوگ شامل ہیں خواہ انتخابی سیاست ہو یا آمرانہ سیاست، ان کے بارے میں لوگوں کی رائے اچھی نہیں ہے۔ لہٰذا، ایسی سیاست سے نبی اور رسول کا تعلق کیسے ہوسکتاہے!
’سیاست‘ عربی زبان کی ایک اصطلاح ہے، جس کے معنی اصلاحِ ذات، اصلاحِ معاشرہ اور اصلاحِ حکومت کے ہیں: اَلْقِیَامُ عَلَی الشَّیْ ءِ بِـمَا یَصْلُحُہٗ ۔ (الزبیدی، تاج العروس، ج۱۶،ص ۱۵۷،چشتی)
سیاست کا مطلب ایسی تدبیر کرنا ہے جس سے کسی چیز کو استحکام مل جائے ، اس کی اصلاح ہوجائے اور وہ اپنی اصلی حالت پر قائم ہوجائے ۔ معروف معنی میں سیاست کا مفہوم ملک اور عوام کی اصلاح ہے ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمْ الْاَنْبِیَاءُ کُلَّمَا ھَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہٗ نَبِیٌّ وَ اِنَّہٗ لَانَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ ۔ (صحیح البخاری، کتاب الانبیاء: ۳۲۸۶) ۔ نبی اسرائیل کی سیاست ، یعنی قیادت انبیاء کرام فرماتے تھے ۔ جب کوئی نبی انتقال کر جاتے تو ان کی جگہ دوسرے نبی آتے ، اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا البتہ خلفاء ہوں گے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پہلے دنیا میں دو طرح کے مذاہب اور نظریے تھے ۔ ایک تو یہ تھا کہ اگر آپ روحانیت چاہتے ہیں تو ’رہبانیت‘ اختیارکریں، یعنی دنیاسے کنارہ کشی کریں ۔ اور اگر آپ سیاست کو دیکھناچاہتے ہیں تو ملوکیت کی طرف دیکھیں ۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف یہ جملہ منسوب ہے کہ جو ’’خدا کاہے وہ خدا کو دو اور جو قیصر کا ہے وہ قیصر کودو‘‘ ۔ یعنی خدا کے حقوق الگ تھے اور قیصر کے حقوق الگ تھے ۔ یہ تقسیم خدا اور قیصر کے حقوق کے درمیان تھی، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب دنیا میں تشریف لائے، تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس تفریق کو مٹایا اور دنیا کو یہ نظریۂ حکومت دیا کہ انسان زمین کا’مالک‘ نہیں بلکہ ’امین‘ ہے۔کوئی چیز انسان کی اپنی ملکیت نہیں ہے بلکہ ہر چیز اللہ کی ملکیت ہے۔ انسان اس کا امانت دار ہے ۔
اقتداراعلیٰ اور حاکمیت مطلقہ صرف اللہ کےلیے ہے ، باقی سارے انسان اس کے بندے اورغلام ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ کا یہ پیغام انسانوں تک پہنچایا : وَہُوَ الَّذِيْ فِي السَّمَاۗءِ اِلٰہٌ وَّفِي الْاَرْضِ اِلٰہٌ ۰ۭ وَہُوَالْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ۸۴ ۔ (الزخرف ۴۳ : ۸۴) وہی اللہ جو آسمان میں معبود ہے وہی زمین میں بھی معبود ہے او روہ حکمت اور علم والا ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انسانوں کو حکومت سازی کایہ نظریہ دیا:اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۰ۭ تَبٰرَكَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ۵۴ (الاعراف ۷: ۵۴) ۔ جس نے پیدا کیا ہے ، اس کی مخلوق پر حکم اسی کا چلے گا ۔بابرکت ہے اللہ تمام جہانوں کا ربّ ۔
چوں کہ انسانوں کو پیدا اللہ تبارک وتعالیٰ نے کیاہے، اس لیے اس کی مخلوق پر کسی اورکا حکم نہیں چلے گا بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ہی حکم چلے گا۔
مستشرقین کی غلط فہمی : بیسویں صدی میں مشہور برطانوی مستشرق منٹگمری واٹ نے دو کتابیں لکھیں : Mohammad at Mecca اور Mohammad at Madeena پھر ان دونوں کتب کو ایک مجموعے Mohammad Prophet and Statesman کے نام سے شائع کیا۔ موصوف نے یہ فتنہ پھیلایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نعوذباللہ مکہ مکرمہ میں تو ایک داعی ، ایک روحانی پیشوا اور ایک پیغامبر تھے، لیکن جب وہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو وہاں نعوذباللہ وہ ایک حکمران تھے، ایک آمر تھے ۔ (محمد پرافٹ اینڈ سٹیٹسمین، ۲۰۱۰ء) ۔ یہ فتنہ انھوں نے اس لیے پھیلایا کہ ان کی تعلیم و تربیت میں مذہب اور سیاست کی دوئی شامل ہے۔ ان کے سامنے عیسائیت کی تاریخ ہے ۔ وہاں خدا کا اقتدار اور اختیار الگ ہے اور قیصر کا اقتدار واختیار الگ ہے ۔ دونوں ایک دوسرے کی حدود میں مداخلت نہیں کر سکتے ۔ اسی تناظر میں واٹ نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت کو دیکھا ۔
اسی طرح ٹائن بی (۱۸۸۹ء- ۱۹۷۵ء) بھی معروف عیسائی تاریخ نویس نے ریاست مدینہ کے قیام کی تعبیر کرتے ہوئے لکھا : ’’اس میں شک نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب مدینہ میں حکومت قائم کرنے کی دعوت قبول کی تو انہوں نے اپنے ضمیر کو یہ کہہ کر مطمئن کرلیا کہ وہ اللہ کی راہ میں پوری دلجمعی کے ساتھ گامزن ہیں ۔ [حالانکہ] وہ اپنے آپ کو دھوکا دے رہے تھے ۔ (A Study of History ،ج۳، ص ۴۷۱، ۱۹۶۱ء) ۔ اس طرح ٹائن بی کم فہمی اور بدترین تعصب کا شکار ہوکر ، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ اور قرآنِ عظیم کے پیغام کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے میں ٹھوکر کھاتا ہے ۔
اس ڈگر میں استثناء مائیکل ، ایچ ہارٹ کا ہے کہ جب اس نے انسانی ’تاریخ کے سو عظیم رہنماؤں‘ کے حالات لکھے ، تو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سرفہرست رکھا اور وجہ یہ بیان کی کہ ’’وہ واحد انسان ہیں جو مذہب اور سیاست دونوں سطح پر یکساں طور پر کامیاب قائد ہیں ۔ (The 100، صفحہ ۳۳)
دین و دُنیا کی یکجائی : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب مکہ مکرمہ میں اسلام کی دعوت دی تو پہلے دن سے یہ بات ظاہر کردی تھی : سجدہ بھی خداہی کو کیاجائے گا اور حکم بھی خدا ہی کامانا جائے گا ، اور اقتدار بھی اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کا تسلیم کیا جائے گا ۔ جواب میں کفار نے آپ کی شدید مخالفت کی ۔ پتھر برسائے ، گالیاں دیں ، جان لیوا حملے کیے ، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی دعوت جاری رکھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شکایت ان کفار نے جنابِ ابوطالب سے کی جو آپ کے چچاجان تھے ۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بلایا اور کہا کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ اپنی دعوت سے باز آجائیں ورنہ یہ آپ کو نقصان پہنچائیں گے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان لوگوں کو ایک جواب دیا اور فرمایا : کَلِمَۃٌ وَاحِدَۃٌ تُعْـــطُوْنِیْہَا تَمْـــلِکُوْنَ بِہَا الْــعَرَبَ وَتُدِیْنُ لَکُمْ بِہَا الْعَـجَمُ ۔ (سیرۃ النبی ابن ہشام ج۳، ص۲۷، دارالفکر،چشتی) ۔ میں تم سے ایک کلمہ کہلوانا چاہتا ہوں ۔ اگر اس کو کہہ دوگے تو تم عرب کے اقتدار کے مالک ہو جاؤ گے اور تمھاری باج گزاری عجم کے لوگ بھی کریں گے ۔
یعنی جو کلمہ میں تم سے کہلوانا چاہتا ہوں اس کلمے میں یہ قوت ہے کہ اس کے ذریعے اقتدار عرب کا ہو یا عجم کا ہو وہ تمھارے قبضے میں آجائے گا۔ کفار کی نمائندگی ابوجہل کررہاتھا۔ ابوجہل نے کہا کہ اے بھتیجے! ایسا وہ کون سا کلمہ ہے جو تم ہم سے کہلوانا چاہتے ہو؟ ایسا ایک نہیں ہم دس کلمہ کہنے کے لیے تیار ہیں۔ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہو لاالٰہ الااللّٰہ اور اس کے علاوہ تمام بتوں کی پرستش چھوڑ دو۔ کفار یہ سنتے ہی مشتعل ہوگئے۔ ابوجہل نے کہا :
اَتُرِیْدُ یَا مُحَمَّدُ اَنْ تَجْعَلِ اْلآلِہَۃَ اِلٰــــہًا وَاحِدًا اِنَّ اَمْرَکَ لَعَـجَبٌ ۔ (سیرۃ النبی ابن ہشام ج۳، ص۲۷، دارالفکر،چشتی) ۔ اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیسی بات کرتے ہو ، ہم لوگ متفرق بتوں کوپوجنے والے ہیں، کیا تم چاہتے ہو کہ ہم سارے دیوتاؤں کوچھوڑ کر ایک خدا کومان لیں ؟ یہ بڑی عجیب بات ہے ۔
کفار مکہ کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جس دین کی دعوت دی وہ یہ تھی کہ اگر تم ایک خدا کومان لوگے، تو صرف آخرت میں جنت ہی نہیں ملے گی بلکہ دنیا کا اقتدار بھی تمھارے ہاتھ میں ہوگا۔ دنیا کا اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں تھاجو ظالم تھے، اور کمزوروں کا استحصال کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جس دین کے ساتھ بھیجا اس میں نہ صرف آخرت کی کامیابی اور سعادت شامل تھی بلکہ انسانوں کی دنیاوی راحت اور سعادت بھی شامل تھی۔ مگر کفار نے اپنا عناد جاری رکھا۔ کفار کی مخالفت کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی دعوت پر قائم رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مکہ چھوڑنا پڑا ۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب ہجرت فرمائی توکفار مکہ نے اعلان کیا کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو گرفتار کر کے لائے گا ، اس کے لیے سو اونٹوں کا انعام مقرر ہے۔ بہت سے لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تعاقب میں دوڑے ۔ دوڑنے والوں میں ایک شخص تھا جس کا نام سراقہ بن مالک تھا اور وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک پہنچ گیا۔ اس وقت آپ غارثور میں تھے ۔ پتھریلی زمین میں اس کا گھوڑا دھنس گیا۔ اس نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے دعا کی درخواست کی ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعا سے اسے مصیبت سے نجات ملی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سے فرمایا : کَیْفَ بِکَ یَاسُرَاقَۃُ اِذَا تَسَوَّرْتَ بِسِوَارَیْ کِسْرٰی، سراقہ وہ دن کیسا ہوگا جب کسریٰ کے کنگن تمھارے ہاتھوں میں ہوں گے ؟ اس کو یقین نہیں آیا ۔ انہوں نے کہاکہ کیا کسریٰ بن ہرمز کا کنگن میرے ہاتھوں میںہوگا ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں کسریٰ کے کنگن تمھارے ہاتھوں میں ہوں گے ۔ (السیرۃ الحلبیہ، از علی بن الحلبی ج۲، ص۴۵، بیروت)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں ایران فتح ہوا ۔ مالِ غنیمت خلیفہ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ مالِ غنیمت میں کسریٰ کا کنگن بھی تھا۔ حضرت عمرؓ نے سراقہ بن مالک کو بلایا اور کسریٰ کا کنگن ان کے ہاتھ میں پہنایا اور ان سے فرمایا: کہو:
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ سَلَبَہُمَا مِنْ کِسْرٰی بْنِ ھُرْمُزَ الَّذِیْ کَانَ یَقُوْلُ اَنَـا رَبُّ النَّاسِ ۔ (السیرۃ الحلبیہ) ۔ تعریف ہے اس خدا کےلیے جس نے یہ کنگن کسریٰ سے چھین لیے جو یہ کہتاتھا کہ میں لوگوں کا پروردگار ہوں ۔
عَصَیْبَۃٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ یَفَتَتِحُوْنَ اَلْبَیْتَ الْاَبْیَضَ بَیْتَ کِسْریٰ ۔ (مسلم، کتاب الامارۃ: ۳۴۸۶) ۔ مسلمانوں کی ایک جماعت کسریٰ کے دارالحکومت کو فتح کرلے گی ۔
کسریٰ کی حکومت مسلمانوں کی حکومت ہوگی اور رستم کی جگہ ایک مسلم حکمراں وہاں حکومت کرے گا۔ جس طرح لوگوں کو سورج کے نکلنے کا یقین ہوتا ہے، اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیش گوئی پر یقین تھا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ پیش گوئی کہ وہ کلمہ طیبہ جس کے لیے ہمیں مکہ مکرمہ سے نکالا جارہا ہے، ہمارے اصحاب کو گھروں سے نکالا جارہا ہے اور ہمیں ہماری سرزمین سے بے دخل کیاجارہا ہے،ایک وقت آئے گا کہ صرف مکہ ہی فتح نہیں ہوگا بلکہ دنیا کی سب سے بڑی شہنشاہیت ایران یا عجم یاکسریٰ مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوگی۔ ہجرت پر روانگی کے وقت آپ ؐ نے دعا فرمائی : رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِيْ مُخْــرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا ۔ (بنی اسرائیل ۱۷:۸۰) ۔ اے رب! اگر تو داخل کرے تو سچائی کے ساتھ اور اگر مکہ سے نکال رہا ہے تو سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے اقتدار کو میرا مددگار بنادے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی دعوت اور ہجرت سے واضح کردیا کہ اقتدار اللہ کا ہے اوراس کے صالح بندے اس اقتدار کے حق دار ہیں۔ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُہَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ ۔ (الانبیاء ۲۱:۱۰۵) ۔ ’’زمین کے اقتدار کے وارث نیک بندے ہوں گے‘‘۔ مکہ میں مومنوں کو ایک طرف بہت مارا گیا اور دوسری طرف مداہنت کی کوششیں بھی کی گئیں۔ کفار چاہتے تھے کہ کچھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جھک جائیں اور کچھ ہم جھک جائیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شرک کی آمیزش کوقبول نہیں کیا۔
اس نظام کو قائم کرنے کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ پہنچ کر جس ریاست کی بناڈالی اس کی بنیادی خصوصیات کے بارے میں پروفیسر یاسین مظہر صدیقی لکھتے ہیں : ’’۱۲؍ربیع الاول پہلی ہجری،۱۴ستمبر ۶۳۳ء کو جس اسلامی ریاست کی داغ بیل پڑی تھی ، وہ دوسری دنیاوی سلطنتوں اور حکومتوں اور ریاستوں کی مانند ایک اور دنیاوی ریاست یا حکومت نہ تھی، بلکہ وہ ایک ایسی مثالی ریاست اور قابل تقلید حکومت تھی، جس کی بنیادیں خدائے قادر مطلق کی حاکمیت اعلیٰ، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نیابت خداوندی، امت مسلمہ کی اخوت و مساوات اور احترام ومحبت،بنی آدم کے عظیم اصولوں اور عملی نمونوں پر قائم کی گئی تھیں۔ یہی وہ بنیادی خصوصیات ہیں جو اسلامی ریاست وحکومت کو اپنی تمام تر پیش رو اور جانشین حکومتوں اور ریاستوں میں ممتاز کرتی ہیں‘‘ ۔ (عہد نبوی میں تنظیم ریاست و حکومت، محمد یاسین مظہر صدیقی، صفحہ ۲۱،چشتی)
سیاسی حکمت عملی
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حکمت عملی کے چار پہلو تھے : ⬇
پہلا یہ کہ مشرکوں کی مخالفت کے اس طوفان میں عفو ودرگزر کیجیے، وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْـرِکِیْنَ۔ جتنی پریشانیاں آتی ہیں، جتنے طنز کے تیر چلتے ہیں ان کو نظر انداز کیجیے، ان کی دشنام طرازیوں کو نظرانداز کیجیے۔ کفار جو اذیتیں آپ کودیتے ہیں ان کو نظر انداز نہ کرسکیں تو پھر اس دعوت کے میدان میں قدم رکھنا اور اپنے آپ کو مومن کہناسود مند نہیں ہوگا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیاسی حکمت عملی کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ مشرکوںکے ظلم پر صبر کیجیے ۔ پتھر کے جواب میں پتھر نہیں برسانا بلکہ اولوالعزم رسولوں علیہم السلام کی طرح صبر کرناہے : فَاصْبِرْ كَـمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّہُمْ ۔ (الاحقاف۴۶: ۳۵) ۔ آپ صبر کیجیے جس طرح اولوالعزم رسولوں نے صبر کیا ہے اور ان کے معاملہ میں جلدی نہ کیجیے ۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود بھی صبر کیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی صبر کی تلقین فرمائی ۔ حضرت عمار بن یاسرؓ اوران کی والدہ سمیہؓ کو ایذا دی جارہی تھی۔ آپؐ وہاں سے گزرے آپؐ کی آنکھوں میں آنسو تھے، آپ ؐ نے ان مظلوموں کو دیکھااور فرمایا: آلِ یاسر صبر کرو، جنت کاوعدہ ہے ۔ (سیرۃ النبی، ابن ہشام، ج۱،ص ۳۴۲،چشتی)۔کفار مکہ کے ہاتھ میں تلوار تھی ، اور خون مسلمانوں کابہہ رہا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تلوار کامقابلہ صبرسے کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیاسی حکمت کا تیسرا پہلو یہ تھا کہ مکہ سے ہجرت کرو، اگر مکہ کی زمین تنگ ہوگئی ہے تو اللہ کی دوسری زمین کشادہ موجود ہے : وَمَنْ يُّھَاجِرْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ يَجِدْ فِي الْاَرْضِ مُرٰغَمًا كَثِيْرًا وَّسَعَۃً ۔ (النساء۴: ۱۰۰) ۔ جو شخص اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ منفعت اور وسعت پائے گا ۔
چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور نجاشی کے ملک میں جاکر پناہ لی۔ پھر دوسری مرتبہ مسلمانوں نے مدینہ منورہ ہجرت کی اور وہاں جاکر زندگی بسر کی۔ اس کے بعد بھی جب کفار نے مسلمانوں کو نہیں بخشا اور مدینہ میں چھاپہ مار کارروائیاں کیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حکم ہوا کہ اب مسلمانوں کو ہاتھ اُٹھانے کا حق مل گیا ہے اور ان کو اپنا دفاع کرنے کا حکم دیا ۔ یہ حکمت عملی کا چوتھا پہلو تھا : اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا ۔ وَاِنَّ اللہَ عَلٰي نَصْرِہِمْ لَقَدِيْرُۨ ۔ (الحج ۲۲:۳۹) ۔ جن لوگوں پر ظلم کیا گیا، جن لوگوں کو ان کے گھروںسے نکالا گیا ہے، جن کو ماراپیٹا گیا ہے صرف اس لیے کہ وہ خدائے وحدہٗ لاشریک پر یقین رکھتے ہیں، ان کو آج اجازت دی جارہی ہے کہ وہ بھی ہتھیار اُٹھالیں اور یقینا اللہ ان کی مدد پر قادر ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے انقلاب کے یہ چار پہلو تھے ، جن کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دنیا کے اندر ایک ایسا نظام قائم کیا، جس میں اللہ کی حکومت، اللہ کی عبادت اور اس کی حاکمیت کو نافذ کیا گیا۔
قانون سازی کی بنیاد
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو نظریۂ حکومت دیا، اس میں قانون سازی کاحق صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کا ہے ۔ انسان اس کا اتباع کرنے کامجاز ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰي شَرِيْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْہَا وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَاۗءَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ۔ (الجاثیہ۴۵: ۱۸) ۔ ہم نے ایک ایسا نظامِ قانون ، ایک ایسی شریعت اور ایک ایسا دستور آپ کو دیا ہے جس کا اتباع کرنا ہے اور نادانوں کے اتباع سے پرہیز کرنا ہے ۔
قرآن کی شکل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کے سامنے دستور حیات لے کرآئے اور اس کا اتباع کرنے کی دعوت دی۔ اس کے علاوہ دنیا میں جتنے قوانین ہیں وہ خواہشات ، تجربات اور امیدوں پر مبنی ہیں ۔ یہ غلطیوں کامجموعہ بھی ہو سکتے ہیں اور اچھائیاں بھی جزوی طور پر شامل ہوسکتی ہیں ۔ لیکن قرآن کریم ایسا نظام قانون ہے جواللہ کی طرف سے منزل ہے اور جس کا کوئی جز غلط نہیں ہوسکتا اور انسانوں کےلیے مضر نہیں ہوسکتا ۔ قانون سازی کاحق اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کونہیں دیا بلکہ اپنے ہاتھ میں رکھا ۔ یہ اس سیاستِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پہلی بنیاد تھی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کایہ پیغام بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لوگوں کو پہنچایا : وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ ۔ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ ۔ (الطلاق۶۵:۱) ۔ اللہ تعالیٰ نے کچھ حدود مقرر کیے ہیں ان کی پابندی کرو۔ اگر پابندی نہیں کروگے تو تم اپنے آپ پر ظلم کروگے ۔
اللہ کی شریعت اور اللہ کے قانون کو نظر انداز کرکے آج کا انسان ایک ظالمانہ نظام قانون کے اندر جکڑ گیا ہے ۔ جوقانون اللہ کے قانون سے ٹکراتا ہے وہ انسان کےلیے مفید نہیں ہوسکتا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : السَّمْعُ وَالطَّاعَۃُ عَلَی الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِیْمَـا اَحَبَّ وَکَرِہَ مَالَمْ یُؤْمَرْ بِمَعْصِیَۃٍ فَاِذَا اُمِرَ بِمَعْصِیَۃٍ فَلَا سَمْعَ وَلَاطَاعَۃَ ۔ (صحیح البخاری، کتاب الاحکام) ۔ہر مسلمان پر اپنے حاکم کی بات سننا اور ماننا لازم ہے بشرطیکہ وہ گناہ کا حکم نہ دے۔ اگر وہ گناہ کاحکم دیتا ہے تو سننا اور ماننا واجب نہیں ۔
یعنی اللہ کی نافرمانی میں کسی انسان کی فرماں برداری نہیںکی جاسکتی۔ قانون سازی کا اختیار صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کےلیے مخصوص ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے بعد اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ اختیار دیا گیا ۔ یہی اصل قانون ساز اور شارع ہیں ۔ چنانچہ قرآن کریم میں فرمایا گیا : وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ۔ وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا ۔ وَاتَّقُوا اللہَ ۔ اِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ ۔ (الحشر۵۹: ۷) ۔ اللہ کے رسول جو کچھ دیں اس کو لے لو اور جس چیز سے منع کردیں اس سے تم رُک جاؤ ۔ اللہ سے ڈرو ، اللہ سخت سزا دینے والا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ کیا انسان کو حکومت کرنے کا کوئی اختیار نہیں ؟ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا کہ انسان نائب ہے ۔ حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق فرشتوں سے فرمایا : اِنِّیْ جِاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ۔ (البقرہ ۲:۳۰) ’’میں زمین میں خلیفہ بنانے والے ہوں‘‘۔
خلیفہ وہ ہوتا ہے جو مالک کے قانون کو رد کر کے اپناقانون نہ چلائے بلکہ اپنے مالک کے قانون کودنیا کے اندر نافذ کرے ۔ لہٰذا انسان کی ذمہ داری یہ ہے کہ جس اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے، اس مالک کاحکم مانے اور اس کے حکم کو زمین میں نافذ کرے۔ اسی لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا : اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَــــوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ۔ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ ۔ (الحج ۲۲: ۴۱) ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوٰۃ دیں گے ، نیکی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے ۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔
یہ حکمران اور خلیفہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپناحکم چلانے کے بجائے اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم کو دنیا کے اندر نافذ کرے ۔ اسی لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا :
وَ مَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَ ۔ (المائدہ ۵: ۴۴) ۔ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں ، وہ لوگ کافر ہیں ۔
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ ۔ (المائدہ ۵: ۴۵) جولوگ اللہ کے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ لوگ فاسق ہیں ۔
گویا ، اللہ کے قانون کے برخلاف اپنا قانون چلانا ۔ اللہ کے نظام کوچھوڑ کر اپنا نظام چلانا ، ظلم و زیادتی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو نظام دیا اس کے اندر شخصی خواہشات اور شخصی حکم کی جگہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم کواور اللہ تبارک و تعالیٰ کی مرضی کونافذ کرنے کا بنیادی طور پر فلسفہ موجود ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۔ (النساء۴: ۵۹) ۔ اللہ کی اطاعت کرو ، اللہ کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکمراں کی اطاعت کرو ۔
حکمراں کی اطاعت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت کے بعد ہے ۔ یہی وجہ ہے جس جگہ اللہ اور اس کے رسول کا کوئی حکم موجود نہ ہو، وہاں حکمراں کوقانون سازی کا اختیار دیاگیاہے ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنایا تو ان کو رخصت کرنے سے پہلے پوچھا کہ تم لوگوں کے معاملات میں فیصلہ کس طرح کرو گے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا کہ اگر وہاں نہ پاؤ تو کیا کرو گے ؟ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا کہ اگر وہاں بھی تم نہ پاؤ تو کیا کرو گے ؟ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ تب رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوتاہی نہیں کروں گا ۔ (سنن ابی داؤد کتاب الاقضیہ،چشتی)
مشاورت و شورائیت
اس نظام میں ’شورائیت‘ کو حکومت کرنے کا اصول قرار دیا گیا ہے ۔ آمریت کی جگہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شورائیت کو پسند فرمایا ۔ مسلمانوں کا نظام حکومت آمریت پر مبنی نہیں ہوگا ، شورائیت پر مبنی ہوگا ۔ قرآن میں ہے ، وَاَمْرُھُمْ شُورٰی بَیْنَہُمْ ۔ (الشوریٰ۴۲:۳۸) ’’مسلمانوں کے معاملات شوریٰ سے طے ہوں گے ، مشورے سے چلیں گے‘‘۔ یعنی حکومت سازی کے اندر اورکاروبار حکومت کوچلانے کےلیے تمام اہل الرائے کی شرکت ہوگی ۔ ایسا نہیں ہوگا کہ ایک شخص اپنی مرضی کے مطابق حکم چلائے، باقی سب لوگ سرجھکاکر اس کی اطاعت کرنے لگیں۔ دوسرا اصول آزادی پر مبنی ہے۔ اس نظام میں ایسا نہیں ہوگا کہ کچھ لوگ غلام ہوں گے اور کچھ لوگ آزاد ہوںگے بلکہ تمام انسان مساوی ہیں، کسی کوکسی کے اوپر فضیلت نہیں ہے سوائے تقویٰ کے ۔ اللہ نے تمام انسانوں سے فرمایا:
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا۰ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۰ۭ (الحجرات ۴۹: ۱۳) لوگو تم کوہم نے ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا، پھر تمھارے قبیلے بنائے، تمھاری برادریاں بنائیں تاکہ تم باہم متعارف ہوسکو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں بہتر وہ ہیں جو خدا ترس ہیں۔
اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ کچھ لوگ پیدائشی طور پر افضل ہیں اورکچھ لوگ پیدائشی طور پر ارذل۔ حقیقی عزت والے اللہ کی نظر میں وہ لوگ ہیں، جن کے اندر خداترسی اورخشیت اور انابت ہے، جو اللہ سے ڈرتے ہیں۔ گویا فضیلت کا معیار تقویٰ ہے، ذات اور برادری نہیں۔ انسانوں کے مابین مساوات کاآخری مرتبہ اعلان آپ ؐ نے حجۃ الوداع کے موقعے پر فرمایا:
لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی عَـجَمِیٍّ وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰی اَحْمَرَ (فتح المنعم بشرح صحیح المسلم) تم میں سے کسی عربی کو کسی عجمی کے اوپر فضیلت ہے اور نہ کسی کالے کوکسی گورے پر، نہ کسی گورے کوکسی کالے پر سوائے تقویٰ کے۔
جن لوگوں میںخداترسی زیادہ ہے، وہ اللہ کی نظر میں سب سے زیادہ بلند ہیںاور جن میں خداترسی نہیں ہے، جو خدا سے نہیں ڈرے ان سے انسانوں کوڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اگر سارے انسان برابر ہیں تو سب کو آزادی ملنی چاہیے۔ اظہار رائے کی آزادی، عمل کی آزادی،فکر کی آزادی ملنی چاہیے۔ ایک موقع تھا کہ مصر کے گورنر کی شکایت ایک بدو نے حضرت عمرؓ کے سامنے کی کہ انھوں نے ناحق ان کومارا ہے۔ آپ نے انھیںبلایا اور بہت تاریخی جملہ فرمایا، آپ نے فرمایا:
مُذکَمْ تعَبَّدْتُمْ النَّاسَ وَقَدْ وَلَدَتْہُمْ أُمَّھَاتُھُمْ اَحْرَارًا؟ (کنزالعمال، ج۱۲،ص ۶۶۱) کب سے تم نے لوگوں کو غلام بنانا شروع کیا ہے۔ ان کی ماؤں نے انھیں آزاد پیدا کیا تھا۔
یہ آزادی انسان کابنیادی حق ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کو مجمع عام میں ایک شخص ٹوکتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ یہ بتادیں کہ سب کو مال غنیمت میںایک ایک چادر ملی تھی۔ آپ کودوچادریں کیوں ملیں؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے بیٹے عبداللہ کی چادر حاصل کی ہے ۔ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے گواہی دی ۔ (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرہ، ج۲،ص ۵۶، مصر،چشتی)
یہ نظام قانون ، یہ مساوات ، یہ آزادی اور حریت دنیا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عطا کی ۔
عدل و انصاف
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیاست کا تیسرا اصول یہ تھا کہ کسی انسان کے ساتھ کوئی ناانصافی نہ کی جائے، خواہ وہ دوست ہو یا دشمن۔ انصاف وہ قدر ہے کہ جس کے اوپر آسمان و زمین قائم ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نظام سیاست کا یہ آفاقی اصول دیا : وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا ۔ اِعْدِلُوْا ۔ ہُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى ۔ (المائدہ۵: ۸) ۔ کسی قوم کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم انصاف سے پھر جاؤ۔ انصاف کرو یہ تقویٰ سے قریب ہے۔
اسلام انسانوں کے درمیان منصفانہ نظام قائم کرنے کے لیے اور ان کے ساتھ انصاف کا سلوک کرنے کے لیے آیا ہے۔ جو نظام حکومت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دنیا کو دیا، اس کی اساس مساوات ، آزادی اور انصاف پر قائم ہے۔ جہاں بھی اسلامی حکومت ہوگی اس کابنیادی فرض ہوگا کہ وہ انسانوں کوانصاف عطا کرے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے زمانے میں انصاف کی بہترین مثالیں ملتی ہیں ۔
انسانی حقوق کا تحفظ
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو نظام سیاست دنیا کو دیا اس کا چوتھا اصول یہ تھا کہ انسانی حقوق کی پاسبانی کی جائے۔ انسانی حقوق کوضائع نہ ہونے دیاجائے۔ جس کاجو حق ہے وہ حق اس کو عطا کیا جائے۔ خطبہ حجۃ الوداع میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اِنَّ دِمَائَکُمْ وَاَمْوَالَکُمْ وَاَعْرَاضَکُمْ بَیْنَکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا فِیْ شَہْرِکُمْ ھٰذَا، فِیْ بَلَدِکُمْ ھٰذَا، لِیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ ۔ (صحیح البخاری، کتاب العلم:۶۷) تمھارا خون ، تمھارا مال اور تمھاری عزت ایک دوسرے کے اوپر حرام ہے اور ان کی حرمت کیسی ہے؟ جیسے آج کادن،آج کا شہر اورآج کا مہینہ۔ جولوگ یہاں موجود ہیں وہ یہ حکم دوسروں تک پہنچادیں۔
مکہ مکرمہ ، ذی الحجہ کا مہینہ اور یوم النہر کا جو تقدس ہے، اسی طرح انسانی جانوں اور مالوں کا تقدس ہے اور انسانی عزتوں کو تحفظ حاصل ہے۔ دنیا میں ناحق نہ کسی کا خون بہایا جا سکتا ہے اور نہ ناحق کسی کامال کھایا جا سکتا ہے اور نہ ناحق کسی کی عزت لی جاسکتی ہے۔ یہ آفاقی پیغام ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو نظام حکومت دنیا کودیا وہ ایک رفاہی نظام تھا۔ آمریت کانظام نہیں تھا اور ظلم و استحصال سے پاک تھا۔ اس میں ہر شخص خواہ وہ عورت ہو ، مرد ہو، غلام ہو، غریب ہو، نادار ہو، ان کے حقوق کی رعایت کی جاتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : السَّاعِیْ عَلَی الْاَرْمَلَۃِ وَالْمِسْکِیْنِ کَالْمُجَاھِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ ۔ (صحیح البخاری، کتاب النفقات: ۵۰۴۴،چشتی) بیواؤں اور ناداروں کی خدمت کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔
یہ تو زندہ انسانوں کی خدمت وراحت کے بارے میں فرمایا۔ مُردہ انسان کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : فَمَنْ مَاتَ وَعَلَیْہِ دِیْنٌ وَلَمْ یَتْرُکْ وَفَائً فَعَلَیْنَا قَضَاؤُہٗ وَمَنْ تَرَکَ مَالًا مَلِوَرَثَتِہٖ ۔ (صحیح البخاری، کتاب الفرائض: ۶۳۶۲) ۔ جو شخص مرگیا اور وہ قرض دار تھا تو اس کا قرض میں ادا کروں گا ، اورجوشخص مال چھوڑ کر مرا تواس کا مال اس کے وارثوں کو ملے گا۔
کیا دنیا میں کوئی مثال اس حکومت کی ملے گی کہ مرنے والا اگر قرض دار ہو تو اس کے قرض کی اداٸیگی حکومت کرے گی ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ منورہ میں رفاہی حکومت قائم کرنے کے بعد دنیا کے دوسرے بڑے بادشاہوں سے سفارتی تعلقات قائم کیے ۔ ان کواسلام لانے کی دعوت دی اور اسلامی حکومت کو تسلیم کرنے اور اس کی تابع داری کرنے کی نصیحت کی۔ کیوںکہ یہ ایک مثالی حکومت تھی اور دنیا کی تمام حکومتوں کےلیے قابل تقلید نمونہ تھی۔ چنانچہ حسب ذیل بادشاہوں کے پاس اپنے سفیروں کوبھیجا۔ قیصرروم ہرقل کے پاس حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔ ایرانی شہنشاہ کسریٰ کے پاس عبداللہ ابن حذافہ السہمی رضی اللہ عنہ کوبھیجا۔ حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس عمر و بن امیۃ الضمری رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔ غسان کے بادشاہ حارث بن شمر کے پاس شجاع بن وھب الاسلمی رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔ یمامہ کے بادشاہ ہوذہ بن علی الحنفی کے پاس سلیط بن عمرو العامری رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔ بحرین کے بادشاہ منذر بن ساوی کے پاس العلاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔ عمان کے بادشاہ جیفر اور عبد (دونوں بھائی) کے پاس عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو بھیجا ۔ (سیرۃ النبی ، ابن ہشام، ج۴، ص ۲۷۸،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ان سفیروں نے نہایت جرأت، حکمت اور بصیرت کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا پیغام ان بادشاہوں کے سامنے رکھا، اور ان کو دین اسلامی اور اسلامی حکومت کی اطاعت کرنے کی دعوت دی ۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سفیروں کا یہ پیغام بین الاقوامی سفارت کاری کا اعلیٰ نمونہ ہے ۔
ڈاکٹر محمد حمیداللہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیاسی زندگی میں رقم طراز ہیں : جس ملک میں کبھی کوئی حکومت ہی قائم نہیں ہوئی تھی اس میں پیدا ہونے اور پرورش پانے کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو دستور مملکت مرتب کیا اور جو نظامِ حکمرانی قائم فرمایا، اس پر عمل دنیا کی عظیم الشان مملکت کے لیے نہ صرف ہرطرح کارآمد و کافی ثابت ہوا بلکہ جب تک اس پر عمل رہا وہ دنیا کی مہذب ترین حکومت بنی رہی ۔ (محمد الرسول اللہ ص۱۵)
جواب دہی کا احساس
اس نظام حکومت کوقائم کرنے کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ذمہ داری اور جواب دہی کا تصور پیدا کیا۔ آپ نے فرمایا:اَلَا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ۔(صحیح البخاری،کتاب الاحکام) ۔ یاد رکھنا تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور ہر شخص کو اپنی زیر نگرانی رعیت کے بارے میں اللہ کے یہاں جواب دینا ہے۔
امت مسلمہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ اعزاز دیا : وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ ۔ (البقرہ۲:۱۴۳) ۔ اسی طرح ہم نے تم کو امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو۔
جولوگ صاحب ِاختیار اور صاحب ِاقتدار ہیں، وہ خود کو اس دنیا کا مالک نہ جانیں، بلکہ وہ یہ سمجھیں کہ امانت دارہیں اور اللہ کے حضور جواب دہ ہیں۔ اگر حکمرانوں میں جواب دہی کا احساس پیدا ہوجائے تو دنیا کے اندر امن قائم ہوجائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حکومت کا جلوہ دنیا کو نظر آجائے۔
آج لوگ اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں لیکن اپنی ذمہ داری کی بات نہیں کرتے۔ ہرشخص کواس کا حق چاہیے لیکن اس پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کو ادا کرنے سے آدمی کتراتا ہے۔ اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں پر انسان نظر رکھے۔ یعنی حکمراں ہے تو وہ اپنی ذمہ داریوں پر نظر رکھے، اگر وہ رعایا ہے تو اپنی ذمہ داریوں پر نظر رکھے۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں جنگیں بھی ہیں، معاہدے بھی ہیں، امن بھی ہے، بین الاقوامی تعلقات بھی ہیں، ان کو پڑھیے اور دیکھیے کہ آپ ؐ نے غیرمسلم دنیا کے ساتھ کیا معاملہ کیا تھا، کن اصولوں پر معاملہ کیاتھا؟ آج دنیا میں بے اصولی پائی جاتی ہے۔ نہ جنگ میں اصول ہے، نہ صلح میں اصول ہے، نہ امن میں اصول ہے اور نہ معاہدوں میں اصول ہے۔ کسی چیز میں اصول کی پابندی نہیں کی جاتی ہے،پابندی جس چیز کی کی جاتی ہے وہ اپنا مفاد ہے۔ اگر مفاد ہو تو امن کی بات آدمی کرتا ہے اور اگر مفاد نہ ہو تو جنگ کےلیے آمادہ ہوجاتا ہے۔ مفاد کی خاطر معاہدے توڑ دیے جاتے ہیں، غداری کی جاتی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دنیا کو ایسا نظام دیاجس میں ذاتی مفاد کی جگہ عام انسانوں کا مفاد اور اس سے بڑھ کر اللہ کی مرضی کو سربلند کرنے کی کوشش کی گئی۔
سیاست کومفاد اور اغراض کے بجائے اخلاق کے تابع کرنا اوراسے خداترسی وپرہیزگاری کے ساتھ چلانا اس ریاست کی اصل روح ہے۔ اس میں فضیلت کی بنیاد صرف اخلاقی فضیلت ہے۔ اس کے کارفرماؤں اور اہلِ حل و عقد کے انتخاب میں بھی ذہنی وجسمانی صلاحیت کے ساتھ اخلاقی پاکیزگی سب سے زیادہ قابل لحاظ ہے۔ اس کے داخلی نظام کا بھی، ہر شعبہ دیانت وامانت اور بے لاگ عدل و انصاف پر چلنا چاہیے اور اس کی خارجی سیاست کوبھی پوری راست بازی، قول وقرار کی پابندی، امن پسندی اوربین الاقوامی عدل اورحسن سلوک پر قائم ہونا چاہیے ۔ اگر مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت کو اپنالیں، ان کے حکمران نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت کواپنائیں اور ان کے علما نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت کو اپنائیں، ان کے تجار نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت کو اپنائیں اور ان کے طلبہ ، اور عوام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت کو اپنائیں اور ان کے پیغام کو دنیا تک پھیلانے کی کوشش کریں، تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ دنیا سے بدامنی کم ہوگی ، جہالت کی تاریکی دور ہوگی اور ظلم کے اندھیرے چھٹ جائیںگے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو حکمران مطلق نہیں بنایا بلکہ اس کو امین بنایا، اس کوقانون کا پابند بنایا۔ اللہ کی خشیت اور ذمہ داری اور جواب دہی سے جوڑا۔ اگر انسان جواب دہی اور اس ذمہ داری کو محسوس کرلے اور اللہ کے قانون کو نافذ کرنے کی کوشش کرے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت شامل ہوجاتی ہے اور جو شخص خواہش کی بنیاد پر حکومت طلب کرے تو وہ اللہ کی رحمت سے دور ہوجاتا ہے ۔ حضرت عبدالرحمٰن بن سمرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ’’کبھی حکومت کی تمنا نہ کرنا ،اگر تمنا کرنے سے یا خواہش کرنے سے تم کو اقتدار ملے گا تو تم اس کے حوالے کردیے جاؤگے، اور اگر تمھاری خواہش کے علی الرغم تم کو دی جائے تو اللہ کی مدد تمھارے اوپر آتی ہے ۔ (صحیح البخاری)
چنانچہ جولوگ اللہ کے حکم کے مطابق حکومت کرتے ہیں اللہ کے بندوں کو اللہ سے جوڑنے کے لیے، اللہ کے حقوق پہنچانے کے لیے، انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے حکمرانی کرتے ہیں وہی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت وشریعت کی پابندی کرتے ہیں، اور جو لوگ اپنا حکم چلاتے ہیں، اپنی خواہشات کا اتباع کرواتے ہیں، وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت سے کوسوں دُور ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں روحانیت بھی ہے اور اخلاق بھی، عبادت بھی ہے اور سیاست بھی،معاشرت بھی ہے اور معیشت بھی اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم کو دنیامیں نافذ کرنے کی جدوجہد بھی ہے۔ یعنی اللہ کے حکم کے مطابق انفرادی اور اجتماعی نظام زندگی گزارنے کا اسوہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دعا سکھائی ہے : قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِـمَّنْ تَشَاۗءُ ۔ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۔ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۔ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ۔ (اٰل عمرٰن۳: ۲۶) ۔ اے اللہ حکومت کا مالک ! تو جسے چاہے حکومت عطا کرے اور جس سے چاہے حکومت چھین لے ، جسے چاہے عزت بخشے اورجسے چاہے ذلت دے ، بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے ۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment