Sunday, 3 December 2023

کیا یہ تصویر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی ہے ؟

یہ یہ تصاویر امام یوسف بن اسماعیل نبھانی علیہ الرحمہ کی ہیں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ کی نہیں ہیں ۔ بعض لوگ انہیں امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ کی تصاویر بنا کر پیش کر رہے ہیں  غلط فہمی دور فرما لیں : ⏬

کیا یہ تصویر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی ہے ؟

محترم قارئینِ کرام : یہ تصویر علامہ سید احمد خالد شامی علیہ الرحمہ کی ہے ۔ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر یہ تصویر اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کے نام سے گردش کر رہی ہے جبکہ یہ تصویر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی نہیں بلکہ ہندوستان کے اک بزرگ حضرت علامہ و مولانا پیر سید احمد بن خالد شامی علیہ الرحمہ کی ہے
نام آپ علیہ الرحمہ کا نام  سید احمد علیہ الرحمہ تھا آپ حسینی نسب سید تھے آپ کے والد بزرگوار کا نام سید خالد تھا جو کہ اپنے وقت اک عظیم روحانی پیشوا اور جیئد عالم تھے ۔ حضرت علامہ خالد شامی علیہ الرحمہ کے آباء و اجداد ملک شام کے شھر طرابلس کے باشندے تھے علامہ شامی علیہ الرحمہ کی پیدائش بھی طرابلس میں ہی ہوئی ۔

تعلیم و تربیت : علامہ سید احمد شامی علیہ الرحمہ کا گھرانہ اک خالص مذہبی علمی گھرانہ تھا شام کے بڑے عالم حضرت سید محمد امین المعروف ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ جنہوں نے مشہور زمانہ کتاب ردالمحتار لکھی تھی وہ علامہ سید احمد شامی علیہ الرحمہ کے نانا کے بھائی تھے آپ کے والد بزگوار علیہ الرحمہ بھی شام کے جید عالم تھے علامہ شامی علیہ الرحمہ نے طرابلس و دیگر شہروں کے مختلف مدارس سے ظاہری علوم حاصل کیے اور شام کے بڑے علماء و اولیاء کاملین کی موجودگی میں آپ علیہ الرحمہ کی دستاربندی کی گئی والد بزگوار علیہ الرحمہ بے حد خوش ہوئے اور ظاہری علوم کی دستار فضیلت کے وقت ہی اپنی طرف سے باطنی روحانی علم بھی عطا فرمایا ۔ (تذکرہ علماء اہلسنت،چشتی)

والدین کا وصال : علامہ شامی علیہ الرحمہ کی والدہ ماجدہ اور والد بزگوار علیہما الرحمہ نے جب طرابلس میں وصال فرمایا تو آپ علیہ الرحمہ بے حد غمگین ہوئے اور پھر دل کے سکون و تسلی کےلیے آپ علیہ الرحمہ نےحج کا سفر کیا خانہ کعبہ پر حاضری کے بعد حضور پرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری دی کچھ عرصہ مدینہ منورہ میں قیام کیا جب دل کی کیفیت پرسکون ہوئی تو آپ نے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت لی اور اپنی دینی خدمات کے سفر کا آغاز کیا ۔

بیعت : آپ علیہ الرحمہ سلسلہ قادریہ و شاذلیہ میں بیعت فرماتے تھے ۔

تبلیغ دین کا سفر : عرب دنیا مصر ترکی افغانستان ایران سے ہوتے ہوئے آپ علیہ الرحمہ ہندوستان کی سرزمین پر تشریف لائے ہندوستان میں بمبئی شہر کو اپنا مسکن بنایا اور ہندوستان کے دیگر شہروں کا مختلف اوقات میں دورہ کرتے رہے پیران طریقت علماء نواب رئیس و ہر عام و خاص آپ علیہ الرحمہ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوا آپ نے ہند سندھ کشمیر و بلوچستان تک سیروسیاحت کی علماء و مشائخ سے ملاقاتیں کیں ۔

سندھ میں تشریف آوری :  سندھ کی سرزمین سے علامہ سید احمد خالد شامی علیہ الرحمہ کو بڑی انسیت تھی متعدد بار آپ علیہ الرحمہ سندھ تشریف لائے سندھ میں آپ علیہ الرحمہ کو لیکر آنے والے راشدی سادات خاندان کے چشم و چراغ حضرت پیر سید تراب علی شاھ راشدی علیہ الرحمہ تھے پیر تراب علی شاہ راشدی علیہ الرحمہ کی ہندوستان میں علامہ شامی علیہ الرحمہ سے ملاقات ہوئی آپ علیہ الرحمہ کے علم تقوی سے بے حد متاثر ہوئے سندھ تشریف لانے کی دعوت دی اور پیر صاحب راشدی علیہ الرحمہ نے علامہ شامی کے دست مبارک پر بیعت کر کے فیضِ روحانی حاصل کیا ۔ جب آپ علیہ الرحمہ سندھ تشریف لائے تو آپ علیہ الرحمہ کے فیضِ کرامت علم عرفان و شخصیت سے جہاں عام لوگ متاثر ہوئے وہاں پر بہت سارے پیران طریقت بھی آپ علیہ الرحمہ کے گرویدہ ہوئے اور آپ علیہ الرحمہ سے بیعت مریدی حاصل کی سندھ میں آپ علیہ الرحمہ کے حلقہ ارادت میں شامل ہونے والے پیران طریقت میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں : ⏬

علامہ پیرسید تراب علی شاہ راشدی علیہ الرحمہ گدی نشین خانقاہ راشدیہ قمبر ۔

حکیم پیرسید عبدالغفار شاہ راشدی علیہ الرحمہ سجادہ نشین درگاہ ریلن شریف لاڑکانہ ۔

علامہ پیرسید نجی اللہ شاہ راشدی علیہ الرحمہ سجادہ نشین خانقاہ وگن شریف لاڑکانہ ۔

جناب پیرسید علی انور شاہ راشدی علیہ الرحمہ گدی نشین درگاہ شاہ آباد لاڑکانہ ۔

جناب پیرسید ہدایت اللہ شاہ ثانی راشدی علیہ الرحمہ سجادہ نشین درگاہ ہادل شاہ پیرجو گوٹھ ۔

صاحبزادہ پیرسید میر مصطفیٰ شاہ راشدی علیہ الرحمہ درگاہ شاہ آباد لاڑکانہ ۔

جناب پیرسید فتح الدین شاہ راشدی علیہ الرحمہ درگاہ ٹھلاء شریف ۔

صاحبزادہ پیرسید علی قطب شاہ راشدی علیہ الرحمہ درگاہ ریلن شریف لاڑکانہ امل ہیں ۔

ان بزرگوں علیہم الرحمہ کے علاوہ شہدادکوٹ سندھ کے جیئد عالم علامہ غلام صدیق شہدادکوٹ والے علامہ گل محمد شہداکوٹی بھی علامہ شامی علیہم الرحمہ کے عقیدت مند تھے علامہ عبدالغفور ہمایونی علیہ الرحمہ سے بھی علامہ شامی نے ملاقات کی ۔

ہندوستان کے نامور حکیم اجمل بھی آپ کا معتقد تھا ۔

ملفوظات : درگاہ ھادل شاہ کے صاحبزادہ سید ثاقب شاہ راشدی صاحب کے بقول ان کے پڑ دادا پیر سید ہدایت اللہ شاہ ثانی راشدی علیہ الرحمہ نے اپنے پیر و مرشد علامہ احمد خالد شامی علیہ الرحمہ کی ملفوظات کو جمع کیا تھا جو ان کے ہاں قلمی صورت میں محفوظ ہے ۔

تذکرہ شامی : درگاہ ریلن شریف لاڑکانہ کے سجادہ نشین حضرت پیر سید عبدالغفار شاہ راشدی علیہ الرحمہ نے اپنے پیر بھائی جناب خلیفہ احمد یار پٹھان علیہ الرحمہ کو حکم کیا کہ پیر و مرشد علامہ شامی علیہ الرحمہ کی سوانح کو قلمبند کرو اس طرح احمد یار پٹھان علیہ الرحمہ نے اپنے مرشد علامہ شامی علیہ الرحمہ کی مختصر سوانح عمری بنام تذکرہ شامی کے جمع کی ۔

وصال مبارک : علامہ سید احمد خالد شامی علیہ الرحمہ نے مکمل حیات میں شادی نہیں کی مجرد رہے اس لیے آپ علیہ الرحمہ کا سلسلہ نسب آگے جاری نہ ہو سکا ۔ آپ علیہ الرحمہ نے ساری زندگی دینِ اسلام کی خدمت کرتے سفر میں گزاری بالآخر  1933ع میں آپ علیہ الرحمہ نے ہندوستان کے شہر بمبئی میں وصال فرمایا اور آپ علیہ الرحمہ کو بمبئی میں ہی پریل ہاسپٹل کے قریب پھوٹی واڑہ قبرستان میں مدفن کیا گیا ۔ (تذکرہ شامی)

نوٹ : سندھ کے راشدی سادات کے ہاں آج بھی علامہ سید احمد بن خالد شامی علیہ الرحمہ کی تصاویر راشدی سادات کے ساتھ موجود ہیں اس لیے سوشل میڈیا پر غلط پیغام دینے سے گریز کریں یہ تصویر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی نہیں ہے بلکہ حضرت علامہ سید احمد خالد شامی علیہ الرحمہ کی ہی ہے ۔ بقلم : پیر سید عمار یاسر الدین شاہ راشدی سندھ ۔ (ترتیبِ جدید و پیشکش ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...