انبیاءِ کرام علیہم السلام کی میراث درہم و دینار نہیں ہوتا حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ وَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ وَ قَالَ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ وَ اُوْتِیْنَا مِنْ كُلِّ شَیْءٍؕ ۔ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ ۔ (سورہ نمل آیت نمبر 16)
ترجمہ : اور سلیمان داؤد کا جانشین ہوا اور کہا اے لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی اور ہر چیز میں سے ہم کو عطا ہوا بیشک یہی ظاہر فضل ہے ۔
یہاں آیت میں نبوت ، علم اور ملک میں جانشینی مراد ہے مال کی وراثت مراد نہیں ۔ چنانچہ ابومحمد حسین بن مسعود بغوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں : حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں سے صرف حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کی نبوت ، علم اور ان کے ملک کے وارث بنے ۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ملک عطا ہوا اور مزید انہیں ہواؤں اور جِنّات کی تسخیر بھی عطا کی گئی ۔ (تفسیر بغوی، النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳/۳۵۰)
حضرت علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وصال کے بعد علم،نبوت اور ملک صرف حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا ہوئے ، ان کی باقی اولاد کو نہ ملے ۔ اسے یہاں مجازاً میراث سے تعبیر کیا گیا کیونکہ میراث در حقیقت مال میں ہوتی ہے جبکہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام روحانی کمالات کا وارث بناتے ہیں ان کے نزدیک مال کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ۔ (روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۶/۳۲۷،چشتی)
ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں : حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے انیس بیٹے تھے ، ان میں سے صرف حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت اور ملک کے وارث ہوئے ، اگر یہاں مال کی وراثت مراد ہوتی تو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سب بیٹے اس میں برابر کے شریک ہوتے ۔ (تفسیرقرطبی النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۷/۱۲۵، الجزء الثالث عشر)
ان کے علاوہ تفسیر طبری ، تفسیر بیضاوی ، تفسیر ابو سعود، تفسیر کبیر،تفسیر البحر المحیط اور تفسیر جلالین وغیرہ میں بھی یہی لکھا ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے علم، نبوت اور ملک کے وارث ہوئے ۔ لہٰذا اس آیت کو اس بات کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد نبی عَلَیْہِ السَّلَام کے مال کی وارث بنتی ہے ۔ اس کی مزید صراحت درج ذیل حدیث پاک میں موجود ہے ، چنانچہ حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کسی کو دینارو درہم کا وارث نہ بنایا بلکہ انہوں نے صرف علم کا وارث بنایا تو جس نے علم اختیار کیا اس نے پورا حصہ لیا ۔ (ترمذی ، کتاب العلم عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ ، ۴ / ۳۱۲ ، الحدیث: ۲۶۹۱،چشتی)
قرآن مجید کی بہ کثرت آیات میں کتاب کا وارث بنانے کا ذکر ہے اور وہاں مال کا وارث بنانے کو مراد نہیں لیا جاسکتا : فخلف من بعد ھم خلف ورثوالکتب ۔ (الاعراف : ٩٦١) ، پھر ان کے بعد ایسے لوگ جانشین ہوئے جو کتاب کے وارث ہوئے ۔
ثم اور ثنا الکتب الذین اصطفینا من عبادنا ج (فاطر : ٢٣) ، پھر ہم نے ان لوگوں کو الکتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا تھا ۔
واورثنا بنی اسرآء یل الکتب ۔ (المومن : ٣٥) ، اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا ۔
ان الذین اور ثوا الکتب من بعد ھم لفی شک منہ مریب ۔ (الشوری : ٤١) ، بیشک جن لوگوں کو ان کے بعد کتاب کا وارث بنایا گیا وہ اس کی طرف سے زبردست شک میں ہیں ۔
وراثت کا لغوی اور اصطلاحی معنی
امام لغت خلیل بن احمد فراہیدی متوفی 571 ھ لکھتے ہیں : الایراث : الا بقاء للشئی کسی چیز کو باقی رکھنا ‘ یورث ای یبقی میراثا کسی چیز کو بہ طور میراث باقی رکھنا ‘ کہا جاتا ہے اور ثہ العشق ھما عشقنی اس کو غم کا وارث بنادیا ‘ اور ثتہ الحمی ضعفا بخار نے اس کو کمزوری کا وارث بنادیا۔ (کتاب العین ج 3 ص 2491‘ مطبوعہ ایران ‘ 4141 ھ)
علامہ جمال الدین محمد بن مکرم بن منظور افریقی مصری متوفی 117 ھ لکھتے ہیں : الوارث اللہ کی صفات میں سے ایک صفت ہے اس کا معنی ہے باقی اور دائم ‘ وانت خیر الوارثین (الانبیا : 98‘ یعنی تمام مخلوق کے فنا ہونے کے بعد تو باقی رہنے والا ہے ‘ کہا جاتا ہے ورثت فلا نا مالا میں فلاں کے مال کا وارث ہوا ‘ قرآن مجید میں ہے : فھب لی من لدنک ولیا۔ یرثنی و یرث من ال یعقوب۔ (مریم : 6۔ 5) تو مجھے اپنے پاس سے وارث عطا فرما جو میرا (بھی) وارث ہو اور یعقوب کی آل کا (بھی) وارث ہو ۔ ابن سیدہ نے یہ کہا کہ وہ ان کا اور آل یعقوب کی نبوت کا وارث ہو اور یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ حضرت زکریا کو یہ خوف تھا کہ انکے رشتہ دار انکے مال کے وارث ہوجائیں گے کیونکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ہم گروہ انبیاء مورث نہیں بنائے جاتے ‘ ہم نے جو کچھ بھی چھوڑا وہ صدقہ ہے ‘ اور اللہ عزوجل کا ارشاد ہے : وورث سلیمان داود (النمل : 61) اور سلیمان دائود کے وارث ہوئے ‘ الزجاج نے کہا وہ ان کے ملک اور ان کی نبوت کے وارث ہوئے ‘ روایت ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے انیس بیٹے تھے ‘ ان میں سے صرف حضرت سلیمان ان کی نبوت اور ان کے ملک کے وارث ہوئے اور حدیث میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی یہ دعاہ ہے : اللھم متعنی بسمعی و بصری واجعلھا الوارث منی : اے اللہ کانوں اور میری آنکھوں سے مجھ کو نفع دے اور ان کو میرا وارث بنا دے ۔ (المستدرک ج 1 ص 325‘ مجمع الزوائد ج 01 ص 871)
ابن شمیل نے کہا اس کا معنی ہے میرے کانوں اور میری آنکھوں کو تاحیات صحیح اور سلامت رکھ ‘ اور ایک قول یہ ہے کہ جب بڑھاپے میں قویٰ نفسانیہ مضمحل ہوجاتے ہیں تو میری سماعت اور بصارت کو باقی رکھنا پس سماعت اور بصارت تمام قوتوں کے بعد باقی رہیں اور ان کی وارث ہوجائیں ۔ (لسان العربج 2 ص 102۔ 991‘ ملخصا ‘ مطبوعہ نشر ادب احلوذۃ ایران : 5041 ھ،چشتی)
علامہ الحسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی 205 ھ لکھتے ہیں وراثت کی تعریف یہ ہے : انتقال قنیۃ الیک عن غیرک من غیر عقد ولا مایجری العقد۔ غیر کی کمائی کا تمہاری طرف بغیر کسی عقد یا قائم مقام عقد کے تمہاری طرف منتقل ہونا۔
اسی وجہ سے میت کی جو کمائی وارثوں کی طرف منتقل ہوتی ہے اس کو میراث کہتے ہیں ۔
نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ارشاد ہے : اثبتوا علی مشاعر کم فانکم علی ارث ابیکم۔ تم اپنے مشاعر (میدان عرفات) پر ثابت قدم رہو کیونکہ تم اپنے باپ ابراہیم کے وارث ہو ۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : 9191‘ سنن ترمذی رقم الحدیث : 388‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 1103‘ المستدرک ج 1 ص 64)
قرآن مجید میں ہے ویرث من ال یعقوب (مریم : 6) یعنی وہ نبوت ‘ علم اور فضلیت کا وارث ہوگا نہ کہ مال کا ‘ کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) کے نزدیک مال کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے حتیٰ کہ وہ اس میں رغبت کریں ‘ وہ بہت کم مال جمع کرتے ہیں اور اس کے مالک ہوتے ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہمارے نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ہم گروہ انبیاء مورث نہیں بنائے جاتے ‘ ہم نے جو چھوڑا وہ صدقہ ہے (صحیح البخاری رقم الحدیث : 304)
اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ارشاد ہے : علماء انبیاء کے وارث ہیں (سنن ابودائود رقم الحدیث : 1463‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : 2862‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 322‘ مسند احمد ج 5 ص 691)
اور اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو بھی وارث فرمایا ہے کیونکہ تمام اشیاء اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتی ہیں وللہ میراث السموات والارض ۔ (آل عمران : 081) ” اللہ ہی کے لیے تمام آسمانوں اور زمینوں کی میراث ہے “ اور کوئی شخص جب کسی سے علم کا استفادہ کرے تو کہا جاتا ہے میں اس سے وارث ہوا ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ورثوالکتب (الاعراف : 961) ” بعد کے لوگوں نے اس کتاب کو حاصل کیا ورثو الکتب من بعدھم (الشوری : 41) ” بیشک جو لوگ انکے عبد کتاب کے وارث ہوئے “ ثم اوثنا الکتب الذین اصطفینا من عبادنا (فاطر : 23) ” پھر ہم نے ان لوگوں کو الکتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا “ کیونکہ وراثت حقیقیہ یہ ہے کہ انسان کو کوئی ایسی چیز حاصل ہو جس میں اس کے ذمہ نہ کوئی معاوضہ ہو نہ اس میں اس کا کوئی محاسبہ ہو اور جو اس طریقہ سے اس دنیا کو حاصل کرے گا اس سے نہ کوئی حساب لیا جائے گا نہ اس کو کوئی سزا دی جائے گی بلکہ اس کے لیے اس میں معافی اور در گزر ہوگا جیسا کہ حدیث میں ہے : قیامت کے دن اس شخص پر حساب آسان ہوگا جو دنیا میں اپنا حساب کرے گا ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : 9542) (المفردات ج 2 ص 376۔ 276‘ ملخصا ‘ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ 8141 ھ،چشتی)
خلاصہ یہ ہے کہ وراثت کا لغوی معنی ہے کسی کا کسی کے بعد باقی رہنا ‘ اور اصطلاحی معنی ہے کسی چیز کا ایک شخص سے دوسرے شخص طرف منتقل ہونا ‘ خواہ مال کا انتقال ہو یا ملک کا یا علم اور نبوت کا انتقال ہو یا فضائل اور محاسن کا ‘ اور قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں ان تمام معانی کے اعتبار سے وراثت کا استعمال کیا گیا ہے ۔
علم کا وارث بنانے اور مال کا وارث بنانے کے ثبوت میں روایات ائمہ اہل سنت
ایک طویل حدیث میں ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہما سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے : ہم مورث نہیں بنائے جاتے ہم نے جو کچھ چھوڑا ہے وہ صدقہ ہے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٣٠٤‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٥٧١‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٥٦٩٢‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٩١٧١‘ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٦٧٥١١‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٢٨٠٥٢)
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص علم کو طلب کرنے کےلیے کسی راستہ پر جاتا ہے اللہ اس کو جنت کے راستہ کی طرف لے جاتا ہے اور فرشتے طالب علم کی رضا کےلیے اپنے پر رکھتے ہیں اور تمام آسمانوں اور زمینوں کی چیزیں عالم کے لیے مغفرت طلب کرتی ہیں حتی کہ پانی میں مچھلیاں بھی ‘ اور عالم کی فضیلت عابد پر اس طرح ہے جس طرح چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے ‘ بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نہ دینار کا وارث کرتے ہیں نہ درھم کا وہ صرف علم کا وارث کرتے ہیں سو جس نے علم کو حاصل کیا اس نے بہت بڑے حصہ کو حاصل کیا ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٨٦٢‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٤٦٣‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٢٢‘ مسند احمد ج ٥ ص ٦٩١‘ سنن الداری رقم الحدیث : ٩٤٣‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٨٨‘ مسند الشامیین رقم الحدیث : ٣٢١‘ شرح السنۃ رقم الحدیث : ٩٢١)
شیعہ محقق و عالم ابو جعفر محمد بن یعقوب الکلینی الرازی المتوفی ٨٢٣ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : ابو البختری بیان کرتے ہیں کہ ابو عبداللہ علیہالسلام نے فرمایا : بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں ‘ کیونکہ انبیاء نہ درہم کا وارث کرتے ہیں نہ دینار کا ‘ وہ اپنی احادیث میں سے احادیث کا وارث کرتے ہیں ‘ پس جس شخص نے ان سے کسی چیز کو حاصل کیا اس نے بہت بڑے حصہ کو حاصل کیا ۔ الحدیث ۔ (الاصول من الکافی ج ١ ص ٢٣‘ مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ ایران ‘ ٨٨٣١ ھ)
محمد بن مسلم بیان کرتے ہیں کہ علم میں وراثت ہوتی ہے ‘ اور جب بھی کوئی عالم فوت ہوتا ہے تو وہ علم میں اپنا جیسا چھوڑ جاتا ہے۔ (الاصول من الکافی ج ١ ص ٢٢٢‘ مطبوعہ ایران ‘ ٨٨٣١ ھ،چشتی)
ترجمہ : ابو جعفر (علیہ السلام) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بیشک روئے زمین پر سب سے پہلے وصی ھبتہ اللہ بن آدم تھے اور جو نبی بھی گزرے ان کا ایک وصی ہوتا تھا ‘ اور تمام انبیاء ایک لاکھ بیس ہزار تھے ‘ ان میں سے پانچ اولوالعزم نبی تھے ‘ نوح ‘ ابراہیم ‘ موسیٰ ‘ عیسیٰ اور (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘ اور بیشک علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اللہ تعالیٰ کا عطیہ تھے ۔ وہ تمام اولیاء کے علم کے وارث ہوئے ‘ اور اپنے سے پہلوں کے علم کے وارث ہوئے ‘ اور بیشک (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سے پہلے انبیاء اور مر سلین کے علم کے وارث تھے ۔ (الاصول من الکافی ج ١ ص ٤٢٢‘ دارالکتب الاسلامیہ ‘ ایران ٨٨٣١ ھ)
یہی شیعہ محقق و عالم مزید لکھتا ہے کہ : المفصل بن عمر بیان کرتے ہیں کہ ابو عبد اللہ (علیہ السلام) نے کہا کہ بیشک سلیمان دائود کے وارث ہوئے ‘ اور بیشک (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سلیمان کے وارث ہوئے اور ہم (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وارث ہیں اور بیشک ہمارے پاس تورات ‘ انجیل اور زبور کا علم ہے ۔ (الاصول من الکافی ج ١ ص ٥٢٢۔ ٤٢٢‘ ایران)
ترجمہ : ابو بصیر بیان کرتے ہیں کہ ابو عبداللہ (علیہ السلام) نے فرمایا : بیشک دائود انبیاء (علیہم السلام) کے علم کے وارث تھے ‘ اور بیشک سلیمان دائود کے وارث تھے ‘ اور بیشک (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سلیمان کے وارث تھے اور بیشک ہم (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وارث ہیں اور بیشک ہمارے پاس حضرت ابراہیم کے صحائف ہیں اور حضرت موسیٰ کی الواح ہیں ۔ (الاصول من الکافی ج ١ ص ٤٢٢‘ مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ ایران ‘ ٨٨٣١ ھ)
ان تمام دلائل سے آفتاب سے زیادہ روشن ہوگیا کہ انبیاء علیہم السلام علم کا وارث بناتے ہیں مال کا وارث نہیں بناتے اور حضرت سلیمان علیہ السلام ‘ حضرت دائود علیہ السلام کے علم ‘ ان کے فضائل ‘ ان کے ملک اور ان کی نبوت کے وارث تھے ‘ اور اس آیت میں اسی وراثت کا ذکر ہے ‘ ان کے مال کی وراثت کا ذکر نہیں ہے ۔
وراثت کا لغوی اور اصطلاحی معنی : ⏬
امام لغت خلیل بن احمد فراہیدی متوفی ٥٧١ ھ لکھتے ہیں : الایراث : الا بقاء للشئی کسی چیز کو باقی رکھنا ‘ یورث ای یبقی میراثا کسی چیز کو بہ طور میراث باقی رکھنا ‘ کہا جاتا ہے اور ثہ العشق ھما عشقنی اس کو غم کا وارث بنادیا ‘ اور ثتہ الحمی ضعفا بخار نے اس کو کمزوری کا وارث بنادیا۔ (کتاب العین ج ٣ ص ٢٤٩١‘ مطبوعہ ایران ‘ ٤١٤١ ھ)
علامہ جمال الدین محمد بن مکرم بن منظور افریقی مصری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ١١٧ ھ لکھتے ہیں : الوارث اللہ کی صفات میں سے ایک صفت ہے اس کا معنی ہے باقی اور دائم ‘ وانت خیر الوارثین (الانبیا : ٩٨‘ یعنی تمام مخلوق کے فنا ہونے کے بعد تو باقی رہنے والا ہے ‘ کہا جاتا ہے ورثت فلا نا مالا میں فلاں کے مال کا وارث ہوا ‘ قرآن مجید میں ہے : فھب لی من لدنک ولیا۔ یرثنی و یرث من ال یعقوب۔ (مریم : ٦۔ ٥) تو مجھے اپنے پاس سے وارث عطا فرما جو میرا (بھی) وارث ہو اور یعقوب کی آل کا (بھی) وارث ہو ۔
ابن سیدہ نے یہ کہا کہ وہ ان کا اور آل یعقوب کی نبوت کا وارث ہو اور یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ حضرت زکریا کو یہ خوف تھا کہ انکے رشتہ دار انکے مال کے وارث ہوجائیں گے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہم گروہ انبیاء مورث نہیں بنائے جاتے ‘ ہم نے جو کچھ بھی چھوڑا وہ صدقہ ہے ‘ اور اللہ عزوجل کا ارشاد ہے : وورث سلیمان داود (النمل : ٦١) اور سلیمان دائود کے وارث ہوئے ‘ الزجاج نے کہا وہ ان کے ملک اور ان کی نبوت کے وارث ہوئے ‘ روایت ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) کے انیس بیٹے تھے ‘ ان میں سے صرف حضرت سلیمان ان کی نبوت اور ان کے ملک کے وارث ہوئے اور حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ دعاہ ہے :
اللھم متعنی بسمعی و بصری واجعلھا الوارث منی : اے اللہ کانوں اور میری آنکھوں سے مجھ کو نفع دے اور ان کو میرا وارث بنا دے ۔ (المستدرک ج ١ ص ٣٢٥‘ مجمع الزوائد ج ٠١ ص ٨٧١)
ابن شمیل نے کہا اس کا معنی ہے میرے کانوں اور میری آنکھوں کو تاحیات صحیح اور سلامت رکھ ‘ اور ایک قول یہ ہے کہ جب بڑھاپے میں قویٰ نفسانیہ مضمحل ہوجاتے ہیں تو میری سماعت اور بصارت کو باقی رکھنا پس سماعت اور بصارت تمام قوتوں کے بعد باقی رہیں اور ان کی وارث ہوجائیں ۔ (لسان العرب ج ٢ ص ١٠٢۔ ٩٩١‘ مطبوعہ نشر ادب احلوذۃ ایران : ٥٠٤١ ھ،چشتی)
علامہ الحسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٢٠٥ ھ لکھتے ہیں : وراثت کی تعریف یہ ہے : انتقال قنیۃ الیک عن غیرک من غیر عقد ولا مایجری العقد۔ غیر کی کمائی کا تمہاری طرف بغیر کسی عقد یا قائم مقام عقد کے تمہاری طرف منتقل ہونا۔
اسی وجہ سے میت کی جو کمائی وارثوں کی طرف منتقل ہوتی ہے اس کو میراث کہتے ہیں ۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : اثبتوا علی مشاعر کم فانکم علی ارث ابیکم۔ تم اپنے مشاعر (میدان عرفات) پر ثابت قدم رہو کیونکہ تم اپنے باپ ابراہیم کے وارث ہو ۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٩١٩١‘ سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٨٨‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١١٠٣‘ المستدرک ج ١ ص ٦٤)
قرآن مجید میں ہے ویرث من ال یعقوب (مریم : ٦) یعنی وہ نبوت ‘ علم اور فضلیت کا وارث ہوگا نہ کہ مال کا ‘ کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) کے نزدیک مال کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے حتیٰ کہ وہ اس میں رغبت کریں ‘ وہ بہت کم مال جمع کرتے ہیں اور اس کے مالک ہوتے ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہم گروہ انبیاء مورث نہیں بنائے جاتے ‘ ہم نے جو چھوڑا وہ صدقہ ہے (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٠٤ ( اور آپ کا ارشاد ہے : علماء انبیاء کے وارث ہیں (سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٤٦٣‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٨٦٢‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٢٢‘ مسند احمد ج ٥ ص ٦٩١) اور اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو بھی وارث فرمایا ہے کیونکہ تمام اشیاء اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتی ہیں وللہ میراث السموات والارض (آل عمران : ٠٨١) ” اللہ ہی کے لیے تمام آسمانوں اور زمینوں کی میراث ہے “ اور کوئی شخص جب کسی سے علم کا استفادہ کرے تو کہا جاتا ہے میں اس سے وارث ہوا ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ورثوالکتب (الاعراف : ٩٦١) ” بعد کے لوگوں نے اس کتاب کو حاصل کیا ورثو الکتب من بعدھم (الشوری : ٤١) ” بیشک جو لوگ انکے عبد کتاب کے وارث ہوئے “ ثم اوثنا الکتب الذین اصطفینا من عبادنا (فاطر : ٢٣) ” پھر ہم نے ان لوگوں کو الکتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا “ کیونکہ وراثت حقیقیہ یہ ہے کہ انسان کو کوئی ایسی چیز حاصل ہو جس میں اس کے ذمہ نہ کوئی معاوضہ ہو نہ اس میں اس کا کوئی محاسبہ ہو اور جو اس طریقہ سے اس دنیا کو حاصل کرے گا اس سے نہ کوئی حساب لیا جائے گا نہ اس کو کوئی سزا دی جائے گی بلکہ اس کے لیے اس میں معافی اور در گزر ہوگا جیسا کہ حدیث میں ہے : قیامت کے دن اس شخص پر حساب آسان ہوگا جو دنیا میں اپنا حساب کرے گا۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٩٥٤٢)،(المفردات ج ٢ ص ٣٧٦۔ ٢٧٦‘ ملخصا ‘ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ ٨١٤١ ھ،چشتی)
خلاصہ یہ ہے کہ وراثت کا لغوی معنی ہے کسی کا کسی کے بعد باقی رہنا ‘ اور اصطلاحی معنی ہے کسی چیز کا ایک شخص سے دوسرے شخص طرف منتقل ہونا ‘ خواہ مال کا انتقال ہو یا ملک کا یا علم اور نبوت کا انتقال ہو یا فضائل اور محاسن کا ‘ اور قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں ان تمام معانی کے اعتبار سے وراثت کا استعمال کیا گیا ہے ۔
اہل سنت کے نزدیک انبیاء علیہم السلام کسی کو مال وارث نہیں بناتے کیونکہ انبیاء کے نزدیک مال کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہے اور نہ وہ مال کو جمع کرتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام علم کا وارث کرتے ہیں اور ان کی جو اولاد ان کی وارث ہوتی ہے ‘ وہ علم اور نبوت میں ان کی وارث ہوتی ہے ‘ اور اہل تشیع کے نزدیک چونکہ حضرت سید تنا فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چھوڑے ہوئے باغ فدک کی وارثہ تھیں اس لیے وہ کہتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام مال جمع کرتے ہیں اور مال کا وارث بناتے ہیں ‘ اس لیے سنی مفسرین کے نزدیک وورث سلیمن داود (النمل : 61) کا معنی ہے حضرت سلیمان علیہ السّلام حضرت داؤد علیہ السلام کے مال کے وارث ہوئے ۔ سو ہم اس آیت کی تفسیر پہلے سنی مفسرین سے نقل کریں گے پھر شیعہ مفسرین سے نقل کریں گے پھر اس مسئلہ میں سنی ائمہ کی اور شیعہ ائمہ کی روایات احادیث پیش کریں گے پھر اخیر میں شیعہ مفسرین کے دلائل کے جوابات کا ذکر کریں گے ۔ فنقول وباللہ التوفیق ۔
سنی مفسرین کے نزدیک حضرت سلیمان ‘ حضرت داؤد کی نبوت اور علم کے وارث تھے نہ کہ مال کے
شیعہ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ انبیاء علیہم السّلام کی وراثت مال ہوتی ہے جو کہ غلط ہے کیونکہ اگر مال وراثت ہوتا تو حضرت داؤد علیہ السّلام کے انیس بیٹے تھے سب وارث بنتے۔(تفسیر مظہری مترجم اردوجلد ہفتم صفحہ نمبر 153 ،154)
حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کی کس چیز کے وارث ہوئے ‘ اس کے متعلق علامہ علی بن محمد ماوردی متوفی 054 ھ لکھتے ہیں :
(1) قتادہ نے کہا حضرت سلیمان ‘ حضرت دائود کی نبوت اور ان کے ملک کے وارث ہوئے ‘ کلبی نے کہا حضرت دائود کے انیس بیٹے تھے ‘ اور صرف حضرت سلیمان کو ان کی وارثت کے ساتھ خاص کیا گیا کیونکہ یہ نبوت اور ملک کی وراثت تھی اگر یہ مال کی وراثت ہوتی تو اس وراثت میں ان کی تمام اولاد برابر کی شریک ہوتی ۔
(2) ربیع نے کہا حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے بھی جنات اور ہوائوں کو مسخر کردیا گیا تھا ۔
(3) ضحاک نے کہا حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنی زندگی میں حضرت سلیمان کو بنی اسرائیل پر خلیفہ بنادیا تھا ‘ اور اس وراثت سے مراد ان کی یہی ولایت ہے اور اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں کیونکہ علماء دین میں انبیاء کے قائم مقام ہیں ۔
یہاں آیت میں نبوت ، علم اور ملک میں جانشینی مراد ہے مال کی وراثت مراد نہیں ۔ چنانچہ ابومحمد حسین بن مسعود بغوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں : حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں سے صرف حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کی نبوت، علم اور ان کے ملک کے وارث بنے۔حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ملک عطا ہوا اور مزید انہیں ہواؤں اور جِنّات کی تسخیر بھی عطا کی گئی ۔ (تفسیر بغوی، النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳/۳۵۰،چشتی)
حضرت علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ : حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وصال کے بعد علم ، نبوت اور ملک صرف حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا ہوئے ، ان کی باقی اولاد کو نہ ملے ۔ اسے یہاں مجازاً میراث سے تعبیر کیا گیا کیونکہ میراث در حقیقت مال میں ہوتی ہے جبکہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام روحانی کمالات کا وارث بناتے ہیں ان کے نزدیک مال کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ۔(روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۶/۳۲۷)
ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں : حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے انیس بیٹے تھے ، ان میں سے صرف حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت اور ملک کے وارث ہوئے، اگر یہاں مال کی وراثت مراد ہوتی تو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سب بیٹے اس میں برابر کے شریک ہوتے ۔ (تفسیرقرطبی النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۷/۱۲۵، الجزء الثالث عشر)
ان کے علاوہ تفسیر طبری ، تفسیر بیضاوی،تفسیر ابو سعود، تفسیر کبیر،تفسیر البحر المحیط اور تفسیر جلالین وغیرہ میں بھی یہی لکھا ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے علم، نبوت اور ملک کے وارث ہوئے۔ لہٰذا اس آیت کو اس بات کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد نبی عَلَیْہِ السَّلَام کے مال کی وارث بنتی ہے۔اس کی مزید صراحت درج ذیل حدیث پاک میں موجود ہے، چنانچہ حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کسی کو دینارو درہم کا وارث نہ بنایا بلکہ انہوں نے صرف علم کا وارث بنایا تو جس نے علم اختیار کیا اس نے پورا حصہ لیا ۔ (ترمذی ، کتاب العلم عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ ، ۴ / ۳۱۲ ، الحدیث: ۲۶۹۱،چشتی)
وَ قَالَ : اورفرمایا ۔ یعنی حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے لوگوں سے فرمایا: اے لوگو!ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور دنیا و آخرت کی بکثرت نعمتیں ہمیں عطا کی گئی ہیں ، بیشک یہی اللہ تعالٰی کاکھلا فضل ہے ۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر اللہ تعالٰی کی نعمتیں : مروی ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالٰی نے زمین کے مشرقوں اور مغربوں کی مملکت عطا فرمائی۔ چالیس سال آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس کے مالک ر ہے۔ پھر پوری دنیا کی مملکت عطا فرمائی، جن و اِنس، شیطان، پرندے، چوپائے، درندے سب پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی حکومت تھی اور ہر ایک شے کی زبان آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا فرمائی اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں عجیب و غریب صنعتیں ایجاد ہوئیں ۔ (خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳/۴۰۴)
امام الحسین بن مسعود بغوی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی 215 ھ لکھتے ہیں : حضرت سلیمان حضرت دائود کی نبوت ‘ ان کے علم اور ان کے ملک کے وارث ہوئے ‘ نہ کہ ان کی باقی اولاد ‘ حضرت دائود کے انیس بیٹے تھے ‘ حضرت سلیمان کو حضرت دائود کا ملک عطا کیا گیا اور ہوائوں اور جنات کی تسخیر ان کو زیادہ دی گئی ‘ مقاتل نے کہا حضرت سلیمان کا ملک حضرت دائود کے ملک سے زیادہ تھا اور وہ ان سے اچھا فیصلہ کرنے والے تھے۔ حضرت دائود ‘ حضرت سلیمان سے زیادہ عبادت گزار تھے اور حضرت سلیمان ان سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والے تھے۔ (معالم التنزیل ج 3 ص 494‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ 0241 ھ)
امام محمد بن عمر رازی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 606 ھ نے اس پر دلائل قائم کیے ہیں کہ اس آیت میں مال کی وراثت مراد نہیں ہے بلکہ اس میں علم اور نبوت کی وراثت مراد ہے وہ فرماتے ہیں : اگر یہاں مال کی وراثت مراد ہوتی تو پھر اس کے بعد یا یھا الناس علمنا منطق الطیر کا کوئی فائدہ نہ تھا اور جب اس سے مراد نبوت اور ملک کی وراثت ہو تو یہ کلام عمدہ ہے کیونکہ پرندوں کی بولی کا سکھانا بھی علوم نبوت کے ساتھ مربوط اور متصل ہوگا جبکہمال کے وارث کا پرندوں کی بولی کے ساتھ کوئی ربط نہیں ہے ‘ اس فضل کا تعلق بھی علم اور نبوت کی وراثت سے ظاہر ہے اور مال کے وارث کا فضیلت والا ہونا ظاہر نہیں ہے کیونکہ مال کا وارث تو کامل شخص بھی ہوتا ہے اور ناقص بھی ‘ نیک بھی اور بدکار ‘ اسی طرح اس کے بعد جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر کا ذکر کیا گیا اس کا ربط اور تعلق بھی اسی صورت میں ظاہر ہوگا جب اس وراثت سے مراد علم ‘ نبوت اور ملک کی وراثت ہو نہ کہ مال کی وراثت مراد ہو ۔ (تفسیر کبیر ج 8 ص 745‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ 5141 ھ)
امام عبدالرحمن علی بن محمد جوزی جنبلی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 795 ھ ‘ علامہ ابو عبد اللہ قرطبی مالکی متوفی 866 ھ ‘ حافظ ابن شافعی متوفی 477 ھ ‘ علامہ اسماعیل حقی متوقی ‘ 7311 ھ ‘ علامہ محمودآلوسی حنفی متوفی 0721 ھ ‘ ان سب نے یہی لکھا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ‘ نبوت اور ملک میں حضرت دائود (علیہ السلام) کے وارث ہوئے اور اس آیت میں مال کی وراثت مراد نہیں ہے ‘ کیونکہ حضرت دائود (علیہ السلام) کے انیس بیٹے تھے اور مال کی وراثت میں یہ سب برابر کے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے شریک تھے ‘ اور اس آیت میں صرف حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو حضرت دائود (علیہ السلام) کا وارث قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ حضرت دائود (علیہ السلام) کی نبوت ‘ انکے علم اور ان کے ملک کے وارث تھے۔ (زادالمسیر ج 6 ص 951‘ الجامع لاحکام القرآن جز 31 ص 351،چشتی)(تفسیر ابن کثیر ج 3 ص 493‘ دارالفکر ‘ 8141 ھ )(روح البیان ج 6 ص 024‘ داراحیاء التراث العربی ‘ 1241 ھ )(روح المعانی جز 91 ص 552‘ دارالفکر ‘ 7141 ھ)
شیعہ مفسرین کے نزدیک حضرت سلیمان ‘ حضرت دائود کے مال کے وارث تھے نہ کہ نبوت اور علم کے
شیعہ مفسر ابو جعفر محمد بن الحسن الطوسی المتوفی 064 ھ لکھتا ہے : اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ حضرت سلیمان حضرت دائود کے وارث ہوئے ‘ اب اس میں اختلاف ہے کہ وہ کس چیز کے وارث ہوئے ‘ ہمارے اصحاب نے کہا کہ وہ مال اور علم کے وارث ہوئے اور ہمارے مخالفین نے کہا وہ علم کے وارث ہوئے ‘ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد ہے ‘ ہم گروہ انبیاء مورث نہیں بنائے جاتے ‘ اور میراث کی حقیقت یہ ہے کہ گزرنے والے کی موت کے بعد اس کا ترکہ اس کے رشتہ داروں میں سے کسی دوسرے شخص کی طرف منتقل کردیا جائے اور اس کا حقیقی معنی یہ ہے کہ اعیان (ٹھوس مادی چیزوں مثلاً مال و دولت ‘ زمین اور سازوسامان وغیرہ) کو منتقل کیا جائے اور میراث کا لفظ جب علم کے معنی میں استعمال کیا جائے گا تو وہ مجاز ہوگا اور انہوں نے جس حدیث سے استدلال کیا ہے وہ خبر واحد ہے اور خبر واحد سے قرآن کے عام کو خاص کرنا جائز ہے اور نہ اس کو منسوخ کرنا جائز ہے ‘ اور بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ حضرت دائود کے انیس بیٹے تھے اور انمیں سے صرف حضرت سلیمان کو وارث بنایا گیا اگر اس آیت میں مال کی وراثت مراد ہوتی تو اس میں تمام بیٹے شریک ہوتے نہ کہ صرف حضرت سلیمان ‘ اس سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں علم اور نبوت کی وراثت مراد ہے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ چیز بھی خبر واحد سے ثابت ہے سو اس کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا ۔ (التبیان فی تفسیر القرآن ج 8 ص 38۔ 28‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی ‘ بیروت)
شیعہ مفسرین کے دلائل کے جوابات
شیخ طوسی کی دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ میراث کا لفظ عام ہے اور اہل سنت نے اس کو علم ‘ نبوت اور ملک کی وراثت کے ساتھ خاص کرلیا ہے ‘ اور قرآن مجید کے عام کو خاص کرنا جائز نہیں ہے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دلیل علماء شیعہ کے بھی خلاف ہے کیونکہ انہوں نے اس وراثت کو مال کے ساتھ خاصل کرلیا ہے جبکہ وراثت عام ہے خواہ اس سے مال کا نتقال ہو یا علم ‘ نبوت اور فضائل کا انتقال ہو ‘ دوسرا جواب یہ ہے کہ جب مخصص عقل یا عرف ہو تو عام کی تخصیص جائز ہے جیسے قرآن مجید میں ہے : قل نفس ذآئقۃ الموت ط۔ (الانبیائ : 53) ہر نفس موت کو چکھنے والا ہے ۔ اس آیت کے عموم میں اللہ تعالیٰ شامل نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ پر موت کا آنا محال ہے ‘ اور اس کا مخصص عقل ہے ۔
اسی طرح قرآن مجید میں ہے ؟ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے کہا : واو تینا من کل شیء ط۔ (النمل : 61) اور ہمیں ہر چیز سے عطا کیا گیا ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ٹینک ‘ طیارے اور میزائل نہیں عطا کیے گئے تھے ‘ اس کے لیے یہاں پر ” ہر چیز “ سے مراد ان کے زمانہ کی تمام چیزیں ہیں اور اس کا مخصص عرف ہے ۔
اسی طرح قرآن مجید میں ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے فرمایا : انی فضلتکم علی العلمین۔ (البقرہ : 74) بیشک میں نے تم کو تمام جہان والوں پر فضیلت دی ہے۔
اور ظاہر ہے بنی اسرائیل کو سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور آپ کی امت پر فضیلت نہیں دی گئی تھی ‘ سو یہاں بھی عرف اور عقل اس کا مخصص ہے اور مرد یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو انکے زمانہ کے لوگوں پر فضیلت دی گئی تھی ۔
اسی طرح قرآن مجید میں یہ آیت ہے : انما ولیکم اللہ ورسولہ والذین امنوا لذین یقیمون الصلوۃ ویؤ تون الزکوۃ وھم رکعون۔ (المائدہ : 55) تمہارا ولی صرف اللہ اور اس کا رسول ہے اور ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوۃ ادا کرتے ہیں ۔ اس آیت میں تمام ایمان والوں کو مسلمانوں کا ولی فرمایا ہے ‘ لیکن علماء شیعہ نے اس آیت کو حضرت علی کی ولایت اور امامت کے ساتھ خاص کرلیا ہے ۔ خود شیخ طوسی اس آیت کی تفسیر میں لکھتا ہے : یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد امیر المومنین علیہ السلام کی امامت بلا فصل پر واضح دلیل ہے ۔ (التبیان ج 2 ص 955‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت،چشتی)
چھٹی صدی کے علماء شیعہ میں سے شیخ ابو علی الفضل بن الحسن الطبرسی نے بھی یہی لکھا ہے نیز انہوں نے لکھا ہے : یہ آیت اس پر نص صریح ہے کہ ایمان والوں سے مراد حضرت علی ہیں اور یہ آیت ان کی امامت پر نص ہے اور اس آیت سے عموم مراد نہیں ہے اور یہ آیت حضرت علی کے ساتھ خاص ہے۔ (مجمع البیان ج 3 ص 623‘ مطبوعہ ایران ‘ 6041 ھ)
اسی طرح السید محمد حسین الطبا طبائی متوفی 3921 ھ نے لکھا ہے : انما ولیکم اللہ ورسولہ (المائدہ : 55) اور فان حزب اللہ ھم الغلبون (المائدہ : 651) یہ دونوں آیتیں عام نہیں ہیں ‘ یہ دونوں آیتیں حضرت علی کے ساتھ خاص ہیں اور یہ چیز سنی اور شیعہ کی بہ کثرت روایات سے ثابت ہے۔ (المیز ان ج 6 ص 5‘ مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ طہران ‘ 2631 ھ)
حالانکہ ان دونوں آیتوں میں الذین امنوا اور حزب اللہ کے الفاظ عام ہیں لیکن علماء شیعہ نے روایات کی بنا پر ان کو خاص کرلیا ہے ‘ اسی طرح قرآن مجید میں ہے :
یایھا الرسول بلغ مآ انزل الیک من ربک ط وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ ط واللہ یعصمک من الناس ط۔ (المائدۃ : 76) اے رسول ! آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے جو کچھ نازل کیا گیا ہے اس کو پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے (بالفرض) ایسانہ کیا تو آپ نے اپنے رب کا پیغام نہیں پہنچایا ‘ اور اللہ آپ کو لوگوں (کے ضرر) سے بچائے گا ۔
اس آیت میں لفظ ” ما “ عام ہے یعنی جو کچھ آپ کی طرف نازل کیا گیا یعنی تمام احکام شرعیہ اور تمام خبریں آپ پر امت کو پہچانی ضروری ہیں لیکن علماء شیعہ نے اس آیت کو حضرت علی کی خلافت کے ساتھ خاص کرلیا ہے ۔
شیخ طوسی لکھتا ہے : اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف وحی کی کہ وہ حضرت علی کو خلیفہ بنائیں ‘ اور آپ اس سے ڈرتے تھے کہ آپ کے اصحاب پر یہ دشوار ہوگا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی تاکہ آپ بہادری سے اللہ کا یہ حکم سنائیں۔ (التبیان ج 3 ص 885‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت)
شیعہ مفسر طبرسی لکھتا ہے : یہ آیت حضرت علی (علیہ السلام) کے متعلق نازل ہوئی ہے اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ حضرت علی کے متعلق تبلیغ کریں سو آپ نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر کہا میں جس کا مولیٰ ہوں علی اس کے مولیٰ ہیں ‘ اے اللہ ! جو علی سے محبت رکھے اس سے محبت رکھ اور جو علی سے عداوت رکھے اس سے عداوت رکھ ‘ اور حضرت ابو جعفر اور حضرت ابو عبد اللہ سے مشہور وایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف وحی کی کہ وہ حضرت علی کو خلیفہ بنائیں۔ (مجمع البیان ج 4 ص 443‘ مطبوعہ ایران ‘ 6041 ھ)
ان آیات میں قرآن مجید کے لفظ عام کو خاص کرنے کے باوجود شیخ طبرسی اور شیخ طبا طبائی نے وورث سلیمن داود (النمل : 61) کی تفسیر میں لکھا ہے اس سے مراد حضرت سلیمان کو مال کا وارث بنانا ہے اور علم اور نبوت کا وارث بنانا مراد نہیں ہے ۔ (مجمع البیان ج 7 ص 433‘ المیز ان ج 51 ص 283‘ مطبوعہ طہران ‘ 2631 ھ،چشتی)
قرآن مجید کی بہ کثرت آیات میں کتاب کا وارث بنانے کا ذکر ہے اور وہاں مال کا وارث بنانے کو مراد نہیں لیا جاسکتا : فخلف من بعد ھم خلف ورثوالکتب۔ (الاعراف : 961) پھر ان کے بعد ایسے لوگ جانشین ہوئے جو کتاب کے وارث ہوئے ۔
ثم اور ثنا الکتب الذین اصطفینا من عبادنا ج (فاطر : 23) پھر ہم نے ان لوگوں کو الکتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا تھا ۔
واورثنا بنی اسرآء یل الکتب۔ (المومن : 35) اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا ۔
ان الذین اور ثوا الکتب من بعد ھم لفی شک منہ مریب۔ (الشوری : 41) بیشک جن لوگوں کو ان کے بعد کتاب کا وارث بنایا گیا وہ اس کی طرف سے زبردست شک میں ہیں ۔
علم کا وارث بنانے اور مال کا وارث بنانے کے ثبوت میں روایات ائمہ اہل سنت
ایک طویل حدیث میں ہے حضرت عمر ؓ نے حضرت عباس اور حضرت علی سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ہے : ہم مورث نہیں بنائے جاتے ہم نے جو کچھ چھوڑا ہے وہ صدقہ ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3304‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : 7571‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : 5692‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : 9171‘ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : 67511‘ مسند احمد رقم الحدیث : 28052)
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص علم کو طلب کرنے کے لیے کسی راستہ پر جاتا ہے اللہ اس کو جنت کے راستہ کی طرف لے جاتا ہے اور فرشتے طالب علم کی رضا کے لیے اپنے پر رکھتے ہیں اور تمام آسمانوں اور زمینوں کی چیزیں عالم کے لیے مغفرت طلب کرتی ہیں حتی کہ پانی میں مچھلیاں بھی ‘ اور عالم کی فضیلت عابد پر اس طرح ہے جس طرح چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے ‘ بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نہ دینار کا وارث کرتے ہیں نہ درھم کا وہ صرف علم کا وارث کرتے ہیں سو جس نے علم کو حاصل کیا اس نے بہت بڑے حصہ کو حاصل کیا ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : 2862‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : 1463‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 322‘ مسند احمد ج 5 ص 691‘ سنن الداری رقم الحدیث : 943‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : 88‘ مسند الشامیین رقم الحدیث : 321‘ شرح السنۃ رقم الحدیث : 921)
علم کا وارث بنانے اور مال کا وارث نہ بنانے کے ثبوت میں روایات ائمہ شیعہ
شیعہ عالم ابو جعفر محمد بن یعقوب الکلینی الرازی المتوفی 823 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتا ہے : ابو البختری بیان کرتے ہیں کہ ابو عبداللہ علیہالسلام نے فرمایا : بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں ‘ کیونکہ انبیاء نہ درہم کا وارث کرتے ہیں نہ دینار کا ‘ وہ اپنی احادیث میں سے احادیث کا وارث کرتے ہیں ‘ پس جس شخص نے ان سے کسی چیز کو حاصل کیا اس نے بہت بڑے حصہ کو حاصل کیا۔ الحدیث۔ (الاصول من الکافی ج 1 ص 23‘ مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ ایران ‘ 8831 ھ)
محمد بن مسلم بیان کرتے ہیں کہ علم میں وراثت ہوتی ہے ‘ اور جب بھی کوئی عالم فوت ہوتا ہے تو وہ علم میں اپنا جیسا چھوڑ جاتا ہے۔ (الاصول من الکافی ج 1 ص 222‘ مطبوعہ ایران ‘ 8831 ھ)
ابو جعفر (علیہ السلام) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا بیشک روئے زمین پر سب سے پہلے وصی ھبتہ اللہ بن آدم تھے اور جو نبی بھی گزرے ان کا ایک وصی ہوتا تھا ‘ اور تمام انبیاء ایک لاکھ بیس ہزار تھے ‘ ان میں سے پانچ اولوالعزم نبی تھے ‘ نوح ‘ ابراہیم ‘ موسیٰ ‘ عیسیٰ اور (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ‘ اور بیشک علی بن ابی طالب (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لیے اللہ تعالیٰ کا عطیہ تھے۔ وہ تمام اولیاء کے علم کے وارث ہوئے ‘ اور اپنے سے پہلوں کے علم کے وارث ہوئے ‘ اور بیشک (سیدنا) محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے سے پہلے انبیاء اور مر سلین کے علم کے وارث تھے ۔ (الاصول من الکافی ج 1 ص 422‘ دارالکتب الاسلامیہ ‘ ایران 8831 ھ)
المفصل بن عمر بیان کرتے ہیں کہ ابو عبد اللہ (علیہ السلام) نے کہا کہ بیشک سلیمان دائود کے وارث ہوئے ‘ اور بیشک (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سلیمان کے وارث ہوئے اور ہم (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وارث ہیں اور بیشک ہمارے پاس تورات ‘ انجیل اور زبور کا علم ہے۔ (الاصول من الکافی ج 1 ص 522۔ 422‘ ایران)
ابو بصیر بیان کرتے ہیں کہ ابو عبد اللہ (علیہ السلام) نے فرمایا : بیشک دائود انبیاء (علیہم السلام) کے علم کے وارث تھے ‘ اور بیشک سلیمان دائود کے وارث تھے ‘ اور بیشک (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سلیمان کے وارث تھے اور بیشک ہم (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وارث ہیں اور بیشک ہمارے پاس حضرت ابراہیم کے صحائف ہیں اور حضرت موسیٰ کی الواح ہیں ۔ (الاصول من الکافی ج 1 ص 422‘ مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ ایران ‘ 8831 ھ)
ان تمام دلائل سے آفتاب سے زیادہ روشن ہوگیا کہ انبیاء علیہم السلام علم کا وارث بناتے ہیں مال کا وارث نہیں بناتے اور حضرت سلیمان علیہ السلام ‘ حضرت داٶد علیہ السلام کے علم ‘ ان کے فضائل ‘ ان کے ملک اور ان کی نبوت کے وارث تھے ‘ اور اس آیت میں اسی وراثت کا ذکر ہے ‘ ان کے مال کی وراثت کا ذکر نہیں ہے ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment