Sunday 24 December 2023

فتنہ صلح کلیت تعریف و پہچان ، وہ بھی سُنی میں بھی سُنی

0 comments
فتنہ صلح کلیت تعریف و پہچان ، وہ بھی سُنی میں بھی سُنی
محترم قارئینِ کرام : صلح کلی کے لفظ پر ہی اگر غور کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ تمام لوگوں سے صلح یعنی میل جول رکھنا اور یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب کہ کسی کا رد نہیں کیا جاۓ خواہ وہ کسی بھی عقیدے کا ہو مثلاً دیوبندی ، وہابی ، شیعہ ، تفضیلی وغیرہ ۔ جبکہ ان سب کا رد کرنا ضروری ہے ان سے میل جول رکھنا جائز نہیں ہے ۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے : ایاکم وایاھم لا یضلونکم ولا یفتنونکم ،، یعنی تم ان سے دور رہو اور ان کو اپنے سے دور رکھو کہیں تمہیں گمراہ نہ کر دیں اور تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں ۔ صلح کلی مخفف ہے صلح کل مذاہب کا جو آدمی سارے باطل فرقوں و مذہب والوں کو حق سمجھے کہ سنی بھی حق پر ، وہابی بھی حق پر ، رافضی بھی حق پر ، قادیانی بھی حق پر یہ بھی حق پر وہ بھی حق پر حقیقت میں صلح کلی وہی ہے ، ایسا صلح کلی اسلام سے رشتہ اور تعلق نہیں رکھتا ۔

عقیدہ کو الحق سمجھنے کے بجائے شعوری یا غیر شعوری طور پر ، التزامی یا لزومی طور پر الحق کو فرد کا حق محض سمجھنا جس کے نتیجہ میں الحق کے ساتھ مداہنت یا باطل کے ساتھ موالات ( نظری ، قلبی یا عملی) اختیار کرنا ، اس مخصوص رویہ کا نام صلح کلیت ہے ، جو رویہ سے عقیدہ میں منقلب ہوتا ہے ۔

صلح کلیت کا فتنہ ہمیشہ باطل نظام و سماج کا مسلط کردہ ہوتا ہے ۔ عصری تناظر میں یہ نظریہ باطل ، لبرل حلقوں نے مغربی نظریہ تکثیر حق Pluralistic ideology کے تناظر میں مسلم سماج پر مسلط کیا ہے ۔ جس کے نتیجہ میں عقیدہ الحق کی حاکمیت ختم ہو جاتی ہے اور یوں مذہب سیکیولر منہج تعقل میں فرد کی پسند و پاسند کی سرمایہ دارانہ پروڈکٹ قرار پاتا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس عصر سرمایہ کے صلح کلی نہ صرف فتنہ توہب سے قربت رکھتے ہیں بلکہ عالمی فتنہ تجدد کے آلہ کار بھی ثابت ہوئے ہیں ۔

امام ابراہیم نخعی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : لاتجالسوا اصحاب الاھواء فانی اخاف ان ترتد قلوبکم ۔
ترجمہ : بد مذہبوں کے ساتھ نہ اٹھو بیٹھو مجھے خوف ہےکہ کہیں وہ تمہارے قلوب کو ارتداد کی طرف نہ پھیر دیں ۔ (الابانة ، مطبوعہ دارالکتب العلمیة بيروت :137/1)

امام احمد رضا خان قادری قندھاری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : مشرک سے عہد باندھ کے مشرک ہوئے یہود ۔ یہ مشرکوں کے عبد  مسلمان ہی رہے ۔ (فتاوی رضویہ شریف، جامعہ نظامیہ لاہور : 489/14،چشتی)

امام احمد رضا خان قادری قندھاری رحمة اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ : ردبد مذہباں فرض ہے ۔ اور صاحب تفسیر روح البیان تحریر فرماتے ہیں کہ : ہمارے دور میں بد مذہب سے نرم پالیسی پر زور دیا جاتا ہے ہمارے نزدیک ایسی پالیسی سخت غلط اور پرلے درجے کی غلیظ عادت ہے ۔ اور یہی صاحب تفسیر روح البیان دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ : بد مذہبوں سے نرمی برتنا دین کو دنیا کے عوض بیچنا ہے اور یہ سیات میں سے ہے ۔ (تفسیر روح البیان پارہ ۲۹ صفحہ ۹۸،چشتی)

اور کبھی کبھی نرمی کرنے میں بدمذہبوں کی تعظیم بھی کرنی پڑتی ہے اور یہ ناجائز و حرام ہے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے من وقر صاحب بدعۃ فقد اعان علی ھدم الاسلام ، یعنی جس نے بد مذہبوں کی تعظیم کی اس نے اسلام کو ڈھانے پر مدد کی ۔ اور جو ایسی مذموم پالیسی اختیار کرے اس دور رہنا ضروری ہے ۔ کما قال اللہ تعالیٰ ۔ واما ینسینک الشیطن فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظالمین ۔ (پارہ ۷ سوة الانعام)

بہت افسوس ہوتا ہے کہ جدید مسائل میں اختلاف کے سبب اہل سنت و جماعت قریبا تیس سالوں کے اندر متعدد گروپ بن گئے ۔ گروہ بندی کا سب سے خطرناک نقصان یہ ہوا کہ اعتقادی امور کی تحقیق میں اختلاف ہونے لگا ۔ یہ بہت مشکل مرحلہ ہے ۔ نیم رافضیت ، تفضیلیت اور صلح کلیت سے بھی بہت ستمے لوگ متاثر ہوئے ۔ اب ہم سب پر لازم ہے کہ فقہی اختلافات کی زیادہ تشہیر نہ کریں ۔ تحقیق و تنقیح غلط نہیں ۔ لیکن گروپ بندی کرنا غلط ہے ۔ علمائے حق پر طعن و تشنیع غلط ہے ۔ فتنہ پھیلانے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے یہ موثر علاج ہے ۔ اعتقادی اختلاف کرنے والوں کی تفہیم کی جائے ۔ ان سے نظر ثانی کا مطالبہ کیا جائے ۔ نہ مانیں تو صحیح مسئلہ واضح کیا جائے ۔ جو لوگ بد اعتقادی میں مبتلا ہو جائیں ۔ ان سے جدا ہو جائیں : ایاکم وایاہم لا یضلونکم ولا یفتنونکم ۔ فقیر کو تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اعتقادی لغزشوں پر خاموشی رہتی ہے ۔ فقہی و فروعی اختلاف پر زیادہ شور ہوتا ہے ۔ حالاں کہ اعتقادی مسائل اہم ہیں ۔ اعتقادی فتنوں کا سد باب کیا جائے ۔

یاد رہے کہ اصل راستہ اور طریقہ مذہب ِاہل سنت ہے ، اس کے سوا کوئی راہ اختیار کرنا دین میں تفریق کرنا ہے ۔ اور یہ ممنوع ہے ۔ بعض لوگ یہ آیت (وَاعْتَصِمُوۡا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا۪) لے کر اہلسنّت سمیت سب کو غلط قرار دیتے ہیں ۔ یہ سراسر غلط ہے کیونکہ حکم یہ ہے کہ جس طریقے پر مسلمان چلتے آرہے ہیں ، جو صحابہ رضی اللہ عنہم سے جاری ہے اور سنت سے ثابت ہے اس سے نہ ہٹو ۔ اہلِ سنت و جماعت تو سنتِ رسول اور جماعتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے طریقے پر چلتے آرہے ہیں تو سمجھایا تو ان لوگوں کو جائے گا جو اس سے ہٹے نہ کہ اصل طریقے پر چلنے والوں کو کہا جائے کہ تم اپنا طریقہ چھوڑ دو ۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ایک خاندان اتفاق و اتحاد کے ساتھ صحیح اصولوں پر زندگی گزار رہا ہو ، ان میں سے ایک فرد غلط راہ اختیار کر کے اِنتشار پیدا کرے تو اُس جدا ہونے والے کو سمجھایا جائے گا نہ کہ خاندان والوں کو بھی اتحاد ختم کر کے غلط راہ چلنے کا کہنا شروع کر دیا جائے ۔ بِعَیْنِہٖ یہی صورتِ حال اہلسنّت اور دوسرے فرقوں کی ہے ۔ اصل حقیقت کو سمجھے بغیر صلح کُلِّیَّت کی رٹ لگانا اور سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا سراسر جہالت ہے ۔

مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے فتویٰ کی وضاحت صلح کلیوں کو علماۓ اہلسنت کی طرف سے جواب پڑھیں : ⬇

*وہابی، تبلیغی، رافضی وغیرہ باطل فرقوں کے ساتھ وقت کی نزاکت کی دہائی دے کر ایکتا اور سارے اعتقادی اختلاف کو بالائے طاق رکھ کر ایک ہونے کا راگ الاپنے والے اور دلیل میں حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے ایک حکیمانہ فتویٰ کو پیش کرنے والوں کا جواب*

سب سے پہلے استفتاء اور آپ کے فتویٰ کے الفاظ پڑھیے۔
پادرا وڈودرا گجرات سے ایک سوال آیا تھا
*استفتــــــــــــاء*
ریاست بڑودا کے اندر مسلمانان بڑودا راج کانفرنس نامی ایک انجمن واسطے حقوق طلبی و تحفظ اسلام قائم کی ہوئی ہے۔ یہ انجمن بیچ کوئی مذہبی امور کے دخل کرنے کے واسطے نہیں ہے صرف یہاں کے ہنود راجہ و ہنود رعایا کے سامنے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کا کام کرنے والی ہے. اس لیے اس میں بلا قید ہر فرقے کے کلمہ گو شامل ہو سکتے ہیں۔ کیا اس انجمن میں سنی حنفی مسلمانوں کو شریک ہونا جائز ہے ؟ بينوا توجروا
از پادرا گجرات مرسلہ جمال بھائی قاسم بھائی

*الجوابــــــــــــــــــــــــــــــ*
ایسی انجمن میں شرکت برائے تحفظ حقوق اہل سُنت بمقابله فرق باطلہ و تحفظ حقوق اسلام بمقابله اعدائے اسلام ضروری ہے۔ فرق باطلہ کے ساتھ وہ مجالست نا جائز و حرام ہے جو بر بنائے محبت و موالات ہو۔ نیز وہ جو بے ضرورت و حاجت و مصلحت شرعيه ہو۔ نہ وہ جو برائے تبلیغ و رد ہو۔ و الله تعالیٰ اعلم۔

یہ مکمل سوال و جواب کی عبارتیں ہیں۔
سب سے پہلے فتویٰ کا تجزیہ اور معنی کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں تا کہ بات سمجھنے میں آسانی ہو جائے۔

*فتویٰ کا پہلا ٹکڑا اور اس کا مطلب*
*تحفظ حقوق اہل سُنت بمقابله فرق باطلہ*
اس عبارت کا مطلب ہے باطل فرقے مثلاً وہابی دیوبندی رافضی وغیرہ کے مقابلہ میں اہل سنت کے حقوق کی حفاظت کرنا اس انجمن کا مقصد ہو ۔۔ نہ کہ ایمان و کفر کو ایک کرنے کا مشن ہو۔

اس عبارت سے صاف واضح ہے کہ یہ فتویٰ وہابیوں وغیرہ بد مذہبوں کے ساتھ سلام کلام اُلفت و محبت کے بارے میں ہے ہی نہیں بلکہ اسی پہلے جملہ سے صلح کلی ایکتا کے باطل نظریہ کا رد کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا جس انجمن میں عقیدہ اہل سُنت کی حفاظت نہ ہو پائے اس میں شرکت ہر گز جائز نہیں ہو گی۔
*فتویٰ کا دوسرا ٹکڑا اور اس کا مطلب*
*و تحفظ حقوق اسلام بمقابله اعدائے اسلام*
اس عبارت کا مطلب ہے کہ اسلام کے دشمنوں کے مقابلہ میں اسلام کے حقوق کی حفاظت اس انجمن کا مقصد ہو۔ نہ کہ کفر اور شرک کو ایک کرنا مقصد ہو۔
*فتویٰ کا تیسرا ٹکڑا اور اس کا مطلب*
فرق باطلہ کے ساتھ وہ مجالست نا جائز و حرام ہے جو بر بنائے محبت و موالات ہو۔ نیز وہ جو بے ضرورت و حاجت و مصلحت شرعيه ہو۔
یعنی باطل فرقوں مثلاً تبلیغی خارجی وغیرہ کے ساتھ اُن کے لیے دل میں نرمی محبت اور بھائی چارے کے ساتھ بیٹھنا نا جائز و حرام ہے ۔ ساتھ ہی ان کے ساتھ میٹنگ کرنے میں نہ کوئی شرعی ضرورت ہو نہ دینی حاجت ہو نہ کوئی مذہبی فائدہ تب بھی حرام ہی ہے۔

اور یہاں تو معاملہ ہی بر عکس ہے، وہابیوں کے ساتھ سلام کلام کھانا پینا اُن کا دفاع آن کے تعلق سے نرمی برتنے والے صلح کلیت کے وائرس زدہ لوگ اپنا اُلو سیدھا کرنے کے لیے اس صلح کلیت شکن مبارک فتویٰ کا نا جائز سہارا لے کر اپنے الحادی کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کی ناپاک کوشش کر رہے ہیں۔
🌼 نیز اس فتویٰ میں یہ کہاں ہے کہ مذہبی و اعتقادی اختلاف کو بھلا کر ان سے ایک ہو جائیں ۔۔ *ہرگز ہرگز نہیں ہے ۔۔۔* اگر کوئی یہ مطلب نکالتا ہے تو یقینا یہ سرکار مفتی اعظم ہند پر بہتان لگاتا ہے۔ استغِرُاللہ
کیوں کہ ان سے ہمارا اختلاف تھا ہے اور رہےگا یہ اسی وقت ختم ہو سکتا ہے جب کہ سنیت کے سچے عقائد کو وہ تسلیم و قبول کرلیں اور اپنی بد مذہبی سے سچی توبہ کر کے سنی ہو جائیں۔
🌼 نیز اس فتویٰ میں ایسی انجمن میں اہل سُنت کے حقوق کی حفاظت کے لیے سنیت کا نمائندہ بن کے شریک ہونے کی بات ہے۔ یہ کہاں فرمایا کہ وہابیوں کے ساتھ شریک ہو جاؤ۔ اُن سے ہاتھ ملا لو ، اُن سے ایک ہو جاؤ ؟؟

الحمدللہ ہم نے پورے فتویٰ کی درست وضاحت کر کے بتا دیا کہ ایکتا اور صلح کلیت کی بین بجانے والے اس فتویٰ سے عوام کو جو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں یہ بالکل غلط اور باطل ہے۔ اور اس فتویٰ سے یہ ثابت ہی نہیں ہوتا کہ وقت کی نزاکت کو دیکھ کر ان سے اتفاق کر لیا جائے۔
لہٰذا سنی عوام سے گزارش ہے کہ وہ ہر حال میں وہابی دیوبندی رافضی وغیرہ بد مذہبوں سے دور ہی رہیں انہیں اپنے قریب نہ آنے دیں نہ خود ان سے قریب ہوں اسی میں ایمان و اسلام کی حفاظت ہے۔

*✍🏻حضرت علامہ حافظ محمد توفیق خان رضوی مصباحی صاحب قبلہ*
خادم علم شریف
دار العلوم مصطفائيه، ہلدروا
گجرات ۔
صدر جماعت رضائے مصطفی پٹلاد، آنند گجرات 7698502040

*تصدیقات*
⬅️ حضرت علامہ مفتی اشرف رضا صاحب قادری برہانی
مہتمم جامعہ مدینۃ العلوم رتنپور کھیڑا گجرات
*ما شاء اللہ میں نے پورے فتویٰ کو پڑھا وقت کے حساب سے اچھی وضاحت فرمائی ہے ۔ میں اس کی تصدیق اور تائید کرتا ہوں۔*

⬅️ فاضل جامع ازہر مصر حضرت علامہ مفتی جنید صاحب ازہری قادری
نڈ یاد گجرات
*ما شاء اللہ فتویٰ کا بالکل صحیح مطلب اور صحیح مفہوم آپ نے بیان کیا اور بہت اچھی ترجمانی کی۔*

⬅️ حضرت علامہ اسماعیل امجدی صاحب قبلہ
سورت گجرات

*حضور مفتی اعظم علیہ الرحمہ کے فتویٰ کی آپ نے بالکل درست وضاحت فرمائی ہے میں اس کی تصدیق کرتا ہوں۔*

⬅️ حضرت علامہ مفتی عبد الستار رضوی صاحب قبلہ
استاذ و مفتی مدرسہ ارشد العلوم عالم بازار کلکتہ *الجواب صحیح واللہ تعالیٰ اعلم*

محترم قارٸینِ کرام : ایساشخص صلح کلی ہے جو ہر مذہب کو صحیح کہے اور کبھی ادھر بھاگےکبھی ادھر بھاگے مطلب یہ کہ جس کاپلہ بھاری ہو اسی کی طرف چلاجائے یہ صلح کلیت ہے جیسا کہ علامہ شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ صلح کلی کےمتعلق فرماتے ہیں کہ :  صلح کلی وہ ہے جوسارے مذاہب کو صحیح مانے اور جو باطل پرستوں پر احکام شرعیہ ہے اس کو تسلیم نہ کریں مثلایہ کہے کہ مسلمان بھی صحیح راستے پر ہیں ہندو بھی صحیح راستے پر ہیں شیعہ بھی صحیح راستے پر ہیں سنی بھی صحیح راستے پر ہیں غیر مقلد بھی صحیح راستے پر ہیں مطلب یہ کہ سب کوصحیح مانے کسی کو غلط نہ کہے یہی صلح کلی ہوتا ہے ۔ (فتاوی شارح بخاری جلدسوم صفحہ نمبر 155،چشتی) ۔ ایسےشخص کو سمجھایاجائے اگرمان جائے تب ٹھیک ہے ورنہ اس کابائیکاٹ کیاجائے اس سے کلام کھانا پینا سب بند کیا جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا : وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ۔ (سورہ انعام آیت نمبر 68)
ترجمہ : اور اگر شیطان تمہیں بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالموں کے پاس نہ بیٹھ ۔

حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ آخری زمانہ میں جھوٹے دجال ہوں گے جو تمہارے پاس وہ احادیث لائیں گے جو نہ تم نے سنیں ، نہ تمہارے باپ داداؤں نے ، ان کو اپنے اور اپنے کو ان سے دور رکھو، وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں ، فتنہ میں نہ ڈال دیں ۔ (مسلم، باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء والاحتیاط فی تحمّلہا، صفحہ ۹، الحدیث : ۷،چشتی)

البتہ علماء جو ان بد مذہبوں کارد کرنے کےلیے جاتے ہیں وہ اِس حکم میں داخل نہیں۔یاد رہے کہ بد مذہبوں کی محفل میں جانا اور ان کی تقریر سننا ناجائز و حرام اور اپنے آپ کو بدمذہبی و گمراہی پر پیش کرنے والا کام ہے۔ ان کی تقاریر آیاتِ قرآنیہ پر مشتمل ہوں خواہ احادیثِ مبارَکہ پر ، اچھی باتیں چننے کا زعم رکھ کر بھی انہیں سننا ہر گز جائز نہیں ۔ عین ممکن بلکہ اکثر طور پر واقع ہے کہ گمراہ شخص اپنی تقریر میں قرآن و حدیث کی شرح ووضاحت کی آڑ میں ضرور کچھ باتیں اپنی بد مذہبی کی بھی ملا دیا کرتے ہیں ، اور قوی خدشہ بلکہ وقوع کا مشاہدہ ہے کہ وہ باتیں تقریر سننے والے کے ذہن میں راسخ ہو کر دل میں گھر کر جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گمراہ و بے دین کی تقریر و گفتگو سننے والا عموماً خود بھی گمراہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے اسلاف اپنے ایمان کے بارے میں بے حد محتاط ہوا کرتے تھے ،لہٰذا باوجودیہ کہ وہ عقیدے میں انتہائی مُتَصَلِّب و پختہ ہوتے پھر بھی وہ کسی بدمذہب کی بات سننا ہر گز گوارا نہ فرماتے تھے اگرچہ وہ سو بار یقین دہانی کراتا کہ میں صرف قرآن و حدیث بیان کروں گا ۔ چنانچہ امام احمد رضا خان قادری قندھاری رحمة اللہ علیہ اس بارے میں اسلاف کا عمل نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’سیدنا سعید بن جبیر شاگردِ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو راستہ میں ایک بد مذہب ملا۔ کہا، کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ فرمایا، میں سننا نہیں چاہتا۔ عرض کی ایک کلمہ۔ اپنا انگوٹھا چھنگلیا کے سرے پر رکھ کر فرمایا، ’’وَ لَا نِصْفَ کَلِمَۃٍ‘‘ آدھا لفظ بھی نہیں۔ لوگوں نے عرض کی اس کا کیا سبب ہے۔ فرمایا، یہ ان میں سے ہے یعنی گمراہوں میں سے ہے۔
امام محمد بن سیرین شاگردِ انس رضی اللہ عنہما کے پاس دو بد مذہب آئے۔ عرض کی، کچھ آیاتِ کلام اللہ آپ کو سنائیں ! فرمایا، میں سننا نہیں چاہتا۔ عرض کی کچھ احادیثِ نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سنائیں ! فرمایا، میں سننا نہیں چاہتا۔ انہوں نے اصرار کیا۔ فرمایا، تم دونوں اٹھ جاؤ یا میں اٹھا جاتا ہوں۔ آخر وہ خائب و خاسر چلے گئے۔ لوگوں نے عرض کی: اے امام! آپ کا کیا حرج تھا اگر وہ کچھ آیتیں یا حدیثیں سناتے ؟ فرمایا، میں نے خوف کیا کہ وہ آیات و احادیث کے ساتھ اپنی کچھ تاویل لگائیں اور وہ میرے دل میں رہ جائے تو ہلاک ہو جاؤں ۔ پھر فرمایا ’’ائمہ کو تو یہ خوف اور اب عوام کو یہ جرأت ہے، وَلَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہْ۔ دیکھو! امان کی راہ وہی ہے جو تمہیں تمہارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بتائی ،’’اِیَّاکُمْ وَ اِیَّا ھُمْ لَا یُضِلُّوْنَکُمْ وَلَا یَفْتِنُوْنَکُمْ‘‘ان (بدمذہبوں) سے دور رہو اور انہیں اپنے سے دور کرو ، کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں ، کہیں وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں ۔ دیکھو! نجات کی راہ وہی ہے جو تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے بتائی ،’’فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ۔ (انعام: ۶۸) ، یاد آئے پر پاس نہ بیٹھ ظالموں کے ۔
بھولے سے ان میں سے کسی کے پاس بیٹھ گئے ہو تو یاد آنے پر فوراً کھڑے ہو جاؤ ۔ (فتاویٰ رضویہ، ۱۵ / ۱۰۶ ، ۱۰۷،چشتی)

وہ بھی سُنی میں بھی سُنی تو پہچان کیسے ؟

محترم قارئین کرام : جب سنیت کا لبادہ اوڑھنے والوں نے گستاخی کرنا شروع کی ، جب ٹوپی والوں نے گستاخی کرنا شروع کی ، جب نماز پڑھنے والوں نے گستاخی شروع کی ، جب روزہ رکھنے والوں نے گستاخی شروع کی ، جب پیروں نے گستاخی شروع کی ، جب خطیبوں نے گستاخی شروع کی ، جب مریدوں نے گستاخی شروع کی ، جب نقیبوں نے گستاخی شروع کی ، جب قادری ، چشتی ، نقشبندی اور سہروردی کہلانے والوں نے گستاخی کرنا شروع کی ، تو پہچان کیسے کی جائے ؟ ۔ داڑھی سنیوں کی بھی ہے ، داڑھی اُن کی بھی ہے ، ٹوپی سنی بھی لگاتا ہے ، ٹوپی وہ بھی لگاتے ہیں ، نماز وہ بھی پڑھتے ہیں ۔ بظاہر ہم سے زیادہ پڑھتے ہیں ۔ اب شناخت کیسے کی جائے کہ وفادارِ رسول کون ہیں ؟ وہ بھی اہلسنت کہتے ہیں ، ہم بھی اہلسنت کہتے ہیں ، وہ بھی سُنی کہتے ہیں ، ہم بھی اپنے آپ کو سُنی کہتے ہیں ، تو بزرگوں نے کہا کہ اس کی شناخت ایسے کی جائے گی کہ نعرہ لگایا جائے گا ، مسلکِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا نعرہ لگایا جائے گا ، مسلکِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ (زندہ باد) مسلکِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ (زندہ باد) ۔ مسلکِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا نعرہ لگایا جائے گا تو شناخت ہو جائے گی کہ یہ وفادارِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں ، یہ غدار رسول نہیں ہیں ۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ کے غدار نہیں ہیں ۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ کے وفادار ہیں ۔ اللہ سے یہی دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ! جب ہمارا خاتمہ ہو ، جب ہم دنیا سے جائیں تو ہم مسلکِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ پر جائیں ۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک کا دامن چُھوٹا تو جنت کا راستہ چُھوٹا ۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے جو مسلکِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ کا نعرہ لگانے سے منع کرتے ہیں آمین ۔

عرف ناس شاہد ہے کہ اعلی حضرت کا لفظ اس زمانے میں” اہل سنت و جماعت” سے کنایہ ہوتا ہے ، جیسے حاتم کا لفظ سخاوت سے ،موسی کا لفظ حق، اور فرعون کا لفظ مبطل سے کنایہ ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج یہ لفظ اہل سنت و جماعت کی شناخت اور پہچان بن چکا ہے ۔ کسی بھی مقام پر کوئی شخص اگر لفظ "اعلی حضرت بول دیتا ہے تو سننے والے بلاتامل یقین کر لیتے ہیں اور ہر شخص سمجھ جاتا ہے یہ اہل سنت و جماعت سے ہے ۔

اجل علمائے مکہ معظمہ حضرت مولانا سید محمد مغربی رحمۃ اللہ علیہ شیخ الحدیث حرم مکہ فرماتے ہیں : جب ہندوستان سے کوئی آتا ہے تو ہم اس سے مولانا شاہ احمد رضا خان صاحب کے بارے میں پوچھتے ہیں اگر وہ ان کی تعریف کرتا ہے تو ہم جان لیتے ہیں کہ اہل سنت سے ہے اور اگر ان کی برائی کرتا ہے تو ہم جان لیتے ہیں کہ بدمذہب ہے ۔ یہی ہماری کسوٹی ہے پہچاننے کا ۔

حضرت علامہ سید محمد علوی مالکی رحمۃ اللہ علیہ قاضی القضاۃمکہ معظمہ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں فرماتے ہیں :کہ ہم اعلی حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب کو ان کی تصنیفات و تالیفات سے پہچانتے ہیں ان کی محبت سنیت کی علامت ہے اور بغض رکھنا بد مذہبی کی پہچان ہے ۔

الحاصل اعلی حضرت کا لفظ سنیت کی شناخت اور پہچان ہے ۔ عرف عام میں اہلسنت کا مترادف ہے اس لیے مسلک اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا معنی ہے مسلک اہل سنت جس کا اطلاق بلاشبہ جائز ہے ۔ ممکن ہے کسی کے دل میں یہ شبہ گزرے کہ جب اس کا معنی مسلک اہل سنت ہے تو پھر لفظ اعلی حضرت کے ذکر سے کیا فائدہ ہے ؟
اس کا جواب کسی ذی ہوش سے پوشیدہ نہیں آج حالت یہ ہے کہ سنی کا لفظ شیعہ کے مقابلے میں بولا جاتا ہے ۔ اس لیے سنی کا لفظ آج وہابیوں دیوبندیوں ، ندویوں وغیرہ سے امتیاز کےلیے کافی نہ رہا ، یہی حال آج لفظ اہل سنت کا بھی ہے ۔ وہابی اپنےکو وہابی اور دیوبندی اپنے کو دیوبندی نہیں کہتے بلکہ وہ بھی اپنے آپ کو اہل سنت ہی کہتے ہیں اور اپنے علماء کو حامی سنت اور امام اہل سنت کا خطاب دیتے ہیں ۔ اس لیے یہ لفظ بھی آج اہل سنت اور اہل بدعات وہابیہ و دیابنہ غیروں کے درمیان امتیاز کےلیے کافی نہ رہا ۔

اب وہ احباب جو کسی ذاتی رنجش اور باہمی چپقلش کی وجہ سے اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی شان گھٹانے میں لگے ہوئے ہیں تھوڑی دیر کےلیے خالی الذہن ہوکر ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ بدمذہبوں سے امتیاز کےلیے کونسا جامع مختصر لفظ انتخاب کیا جائے ، ہمیں یقین ہے کہ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ مسلکِ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے لفظ سے زیادہ موضوع کوئی لفظ نہیں ، کیونکہ سنیت کا شعار یہی لفظ ہے ۔ اہل سنت کی شناخت یہی کلمہ ہے ، بدمذہبوں سے امتیاز اسی کا خاصہ ہے ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ باہمی اختلاف کے نتیجے میں کچھ کرم فرماؤں نے اسے سوالیہ نشان بنانے کی کوشش کی جو بے دلیل ہونے کی وجہ سے سابقہ اتفاق میں رخنہ انداز نہیں ہو سکتا ۔ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جسے مسلمان اچھا جانے وہ اللہ تعالی کے نزدیک بھی اچھا ہے۔ مسند احمد بن حنبل ۔

صحابی رسول حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کہ قبر میں دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر یہ سوال کرتے ہیں کہ مادینک یعنی تیرا دین کیا ہے ؟ تو وہ کہتا ہے دینی الاسلام یعنی میرا دین اسلام ہے ۔ (مشکوۃ شریف صفحہ 25،چشتی)

اس حدیث میں ایک فردخاص کی طرف دین کی نسبت ہے تو اعلی حضرت کی طرف مسلک کی نسبت میں کیا قباحت ہے ، جبکہ لفظ اعلی حضرت معیار حق ہے ۔ اس تمہید کو ذہن میں رکھنے کے بعد ترتیب وار ہر سوال کا جواب ملاحظہ فرمائیے ۔

(1) مسلکِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ کا انعام ہوا ۔ قرآن شریف کی پہلی سورہ ،سورہ فاتحہ میں ہے صراط الذین انعمت علیہم” ان لوگوں کا راستہ جن پر اللہ تبارک و تعالی نے انعام فرمایا ۔

صدرالافاضل حضرت علامہ مولانا نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : صراط مستقیم طریقہ اہل سنت ہے جو اہل بیت و اصحاب اور سنت و قرآن و سوادِ اعظم سب کو مانتے ہیں ۔

یہ وہ مسلک ہے جس پر حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور آپ کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم رہے ۔ حدیث میں ہے صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ملت ناجیہ کون ہے ؟ سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں ۔بعض روایتوں میں ہے یعنی جماعت اہلسنت ہے ۔ (مشکوۃشریف صفحہ30)

یہ مسلک سوادِ اعظم ہے ۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : سواد اعظم کی پیروی کرو ۔

مبلغ اسلام حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ نے آخری وقت مدینہ منورہ میں یہ وصیت تحریر فرمائی تھی ۔” الحمدللہ میں مسلک اہل سنت پر زندہ رہا اور مسلک حق اہلسنت وہی ہے جو اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں میں مرقوم ہیں ، اور الحمداللہ آخری وقت اسی مسلک پر حضور پر نور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قدم مبارک میں خاتمہ بالخیر ہو رہا ہے ۔ (ماہنامہ رضائے مصطفی گوجرانوالہ شمارہ صفر 1416ھجری صفحہ 10 بحوالہ ماہنامہ ترجمان اہلسنت کراچی شمارہ ذی الحجہ 1397 ہجر ی،چشتی)

مسلک اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا ابھی جو تعارف کرایا گیا اس کے ثبوت کےلیے کھلے ذہن سے آپ کی تصانیف مبارکہ جیسے : حسام الحرمین ،فتاوی الحرمین الدولۃ المکيہ، الکوکبۃالشہابيۃ، سبحان الصبوح، النہی الاکيد ،ازالۃ الاثار،اطائب الصیب، رسالہ في علم العقائد والکلام ،تمہيدايمان، الامن والعلا ،تجلی اليقين ،الصمصام ،رد الرفضہ ،جزاء الله يعجبه ،خالص الاعتقاء، انباء المصطفى، الزبده الزكيه،شمائم العنبر، دوام العيش، انفس الفكر،الفضل الموہبی ۔ ان ساری کتابوں کا مطالعہ کرنا کافی ہے ۔

جب یہ حقیقت بخوبی واضح اور عیاں ہوگئی کہ مسلک اعلی حضرت کا معنی مسلک حق اہلسنت و جماعت ہے ، تو ان امور میں جو موقف اور جو حکم اہل سنت کے نزدیک لفظ” اہل سنت و جماعت کا ہے وہی حکم مسلکِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے ۔ اب ہر شخص اپنے طور پر انصاف اور دیانت کے ساتھ خود فیصلہ کرے اور عناد سے باز رہے ۔

ہم ان احباب سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ ذرا یہ بھی سوچیں کہ وہ کس روش پرچل رہے ہیں ؟ کیا ٹھیک اس طرح کی باتیں ایک بدبودار غیر مقلد نہیں کرتا ہے ، کہ مسلمانوں کا مذہب تو صرف ایک اسلام ہے یہ چار مذاہب کہاں سے پیدا کیے گئے ۔ کیا حنفی ، مالکی ، شافعی ، حنبلی مذاہب اسلام کے زمانے میں تھے وغیرہ وغیرہ ۔ ٹھیک اسی طرح کی باتیں کیا تصوف کے دشمن مشرب قادری ، چشتی ، نقشبندی ، سہروردی پھر ان کے گوناگوں شاخوں کے بارے میں نہیں کرتے ؟ ذرا اور قریب آئیے کیا رضوی ، بریلوی اور اشرفی کہنا شدت پسندی ہے ؟ کیا اسلاف نے اپنے آپ کو رضوی کہا ہے ؟ یہ سب عامیانہ باتیں ہیں جو جاہل عوام کو فقہا ، صوفیا ، علماسے برگشتہ کرنے کےلیے ان کے معاند کہا کرتے ہیں ۔ تو ہمارے بعض احباب کو تو کم از کم ان کی روش پر نہ چلنا چاہیے جو لوگ عرف و عادت اور حالتِ زمانہ سے آنکھیں بند رکھتے ہیں ، انہیں یہی سب سوجھتا رہتا ہے ۔ فقہا فرماتے ہیں : جو زمانہ کے حالات سے واقف نہیں ہے تو وہ جاہل ہے ۔

آج کل ہر طرف جماعت اہلسنت میں اختلاف و انتشار زور پکڑے ہوۓ ہے ۔ دور حاضر میں اہلسنت جس کی تعبیر مسلکِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے کی گںٔی ہے اس سچے مسلک سے سادہ لوح خوش عقیدہ مسلمانوں کو برگشتہ کرنے اور اس امتیازی نام کو مٹانے کےلیے فرقہاۓ باطلہ کے علاوہ سنی کہلانے والے نام نہاد محققین ، ایڈٹڑس ، آزاد خیال مولوی ، مفتی ، مجاور وغیرہ صلح کلیت کو فروغ دینے کےلیے ایڑی چوٹی کے زور لگاۓ ہوۓ ہیں ۔ ایسے سر پھروں کے جواب میں چند مشاہیر شخصیات کے ارشادات ملاحظہ کریں : ⬇

میرا مسلک شریعت و طریقت میں وہی ہے جو اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کا ہے , میرے مسلک پر چلنے کےلیے اعلی حضرت مولانا شاہ احمد رضا بریلوی کی کتابوں کا مطالعہ کیا جاۓ ۔ (از مکتوبہ ۲۹/ذی الحجہ ۱۳۳۹ھ حضرت شاہ اشرفی میاں کچھوچھہ شریف) یہ مسلکِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے انحرافیت نہ ہونے پر ایک عظیم دلیل ہے ۔

دینِ اسلام و مذہبِ اہلسنت کا سچا خلاصہ “مسلکِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ” ہے یہی وہ مجمع البحار ہے , جس پر آج حنفیت , شافعیت , مالکیت و حنبلیت اور قادریت , چشتیت و سہروردیت , اشرفیت , مجددیت اور برکاتیت وغیرہم سب سمندروں کا سنگم ہے ۔ (شیر بیشہ اہلسنت پیلی بھیت)

الحمدالله میں مسلکِ اہلسنت پر زندہ رہا اور مسلک اہلسنت وہی ہے جو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں میں مرقوم ہے اور الحمدلله اسی (مسلکِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ) پر میری عمر گزری اور الحمدلله آخری وقت اسی مسلک پر مدینہ طیبہ میں خاتمہ بالخیر ہو رہا ہے اور مسلک اہلسنت وہی ہے جو مسلک اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ ہے ۔ (مبلغ اسلام حضرت علامہ عبدالعلیم میرٹھی علیہ الرحمہ)

میں تمام مسلمانوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ بریلی شریف کے تاجدار اعلی حضرت امام اہلسنت مجدد دین وملت مفتی محمد احمد رضا خاں صاحب بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا جو مسلک ہے وہی میرا مسلک ہے ۔ مسلمانوں کو اسے مضبوطی سےپکڑے رہنا چاہیے ۔ (حضرت مولانا مفتی وصی احمد محدث سورتی)

جو میرا مرید مسلکِ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے ذرا سا بھی ہٹ جاۓ تو میں اس کی بیعت سے بیزار ہوں اور میرا کوںٔی ذمہ نہیں ہے ۔ مزید یہ بھی فرمایا یہ میری زندگی میں نصیحت ہے اور میرے وصال کے بعد میری وصیت ہے ۔ نیز یہ بھی فرمایا مسلک اعلیحضرت رحمۃ اللہ علیہ در حقیقت کوںٔی نںٔی چیز نہیں ہے بلکہ یہی مسلکِ صاحب البرکات ہے مسلکِ غوث اعظم ہے , مسلک امام اعظم ہے ۔ مسلک صدیق اکبر ہے ۔ (اہلسنت کی آواز ۲۸/جمادالاولی ۱۴۱۶ھ حضور احسن العلماء مارہرا شریف،چشتی)

اس زمانے میں اہلسنت کو تمام فرقہاۓ باطلہ سے ممتاز کرنے کےلیے سواۓ مسلکِ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے کوںٔی لفظ موزوں ہوتا ہی نہیں ۔ کچھ معاندین اس کے بالمقابل مسلک امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ بولتے ہیں ۔ لیکن یہ لفظ امتیاز کےلیے کافی نہیں ۔ غیر مقلد کو چھوڑ کر سارے وہابی اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں- مثلا دیوبندی , مودودی , نیچری حتی کو قادیانی اپنے کو مسلک امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ پر گامزن بتاتے ہیں یہی حال اہل سنت کے لفظ کا بھی ہے کہ ان میں کے بہت سے لوگ اپنے آپ کو سنی بتاتے ہیں ۔ اس تفصیل کی روشنی میں میں نے بہت غور کیا , سواۓ مسلکِ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے کوںٔی لفظ ایسا نہیں جو صحیح العقیدہ سنی مسلمانوں کو تمام بد مذہبوں سے ممتاز کر دے ۔ (ماہنامہ اشرفیہ اپریل۱۹۹۹ ھ از شارح بخاری مفتی شریف الحق رحمۃ اللہ علیہ)

سارے فرقہاۓ باطلہ کے مقابلے میں اپنی دینی جماعتی شناخت کےلیے ہمارے پاس بریلوی یا مسلک اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے لفظ سے زیادہ جامع کوںٔی دوسرا لفظ نہیں ہے ۔ (رںٔیس القلم علامہ ارشد القادری جمشید پور)

مسلکِ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ واقعتاً مسلک اہلسنت و جماعت کا دوسرا نام ہے اور اس دور میں مذہب حق واہل حق کی پہچان ہے ۔ اس کی پہچان کو جو مٹانا چاہتا ہے وہ اسلام کی شناخت کو مٹانا چاہتا ہے , گویا ہے کہ وہ اسلام اور غیر اسلام کو ایک کرنا چاہتا ہے, آپ نے اپنے اشعار میں بھی یہی تعلیم دی ہے فرماتے ہیں : ⬇

عیش کرلو یہاں منکرو ! چار دن
مرکے ترسو گے اس زندگی کے لیے
صلح کلی نبی کا نہیں سنیوں !
سنی مسلم ہے سچانبی کے لیے
مسلک اعلی حضرت پہ قاںٔم رہو
زندگی دی گںٔی ہے اسی کےلیے
نبی سے جو ہو بیگانہ اسے دل سے جدا کر دیں
پدر مادر, برادر جان و دل ان پر فدا کردیں
(حضرت تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ بریلی شریف)

مسلکِ اعلی حضرت سے انحراف پر اہم بات : مفتی انوار الحق صاحب مصطفوی خلیفہ حضور مفتی اعظم لیچی باغ , بریلی شریف (یوپی) ” کہ مدینہ ومنورہ میں ایک ولی کامل سے سنا کہ قرب قیامت حق و ایمان مسلکِ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ میں سمٹ جاۓ گا , جو مسلکِ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے منحرف ہوگا اور مٹے گا خواہ وہ کسی سلسلہ سے وابستہ ہو ابلیس لعین اس کو گمراہیت وکفر کے گڑھے میں ڈال دے گا ۔ والعیاذ بالله الی نوذ بالله من ذلک ۔

مجھ سے طیبہ میں کہا اک مرد حق نے باخدا
حشر میں کام آۓ گا بس مسلک احمد رضا
نار دوزخ سے بچنا چاہتا ہے بے شبہ
باغ جنت میں اسے مسلک یہی لے جاۓ گا

(انوار تملیک صفحہ ۲۷تا۲۸,مطبوعہ ۱۴۳۸ھ بمطابق ۲۰۱۷،چشتی)

مسلکِ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ حقیقت میں سوادِ اعظم کے طریقہ مرضیہ اور متوارثہ کا نام ہے جو عہد رسالت سے آج تک سواد اعظم کا مسلک ہے ۔ (مفتی اعظم راجستھان جودھپوری)

بریلوی بے شک نیا فرقہ نہیں ہے یہ تو سچے پکے خالص حقیقی واقعی اصلی اہلسنت کی علامت و نشان ، شناخت و پہچان ہے ۔ اس فتنوں کے دور میں دیوبندی وہابی بھی اہلسنت کہلا رہے ہیں ۔ غیر مقلد وہابی بھی اہلسنت کہلا رہے ہیں ۔ سعودی نجدی علماء بھی حنبلی بن کر اہلسنت کہلا رہے ہیں ۔ ندوی اور مودودی بھی اہلسنت کہلا رہے ہیں ۔ شیعہ رافضی بھی اہلسنت ہونے کے دعویدار ہیں ۔ کچھ سجدہ تعظیمی والے جہلاء اور گمراہ گر بھی اہلسنت کا لیبل لگائے پھرتے ہیں ۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے اور اس بیسوں کتب کے معتبر حوالہ جات نقد موجود ہیں ۔ اور اسی طرح وہابی دیوبندی خود کو دیوبندی اور دیوبندی مسلک و مسلک دیوبندی کہتے اور لکھتے ہیں، ملاحظہ ہوں… مکمل تاریخ دارالعلوم دیوبند جس کا مقدمہ قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے لکھا ہے، میں صاف صاف لکھا ہے، مسلک دیوبند ص 424و ص 428 و ص 431 و ص 476 بیسوں صفحات پر مسلک دیوبند، دیوبندی مسلک لکھا ہوا ہے ۔

کتب خانہ مجیدیہ ملتان کے شائع کردہ المہند عقائد علماء دیوبند کے مصنفہ مولوی خلیل انبیٹھوی کے صفحہ 20 صفحہ 21، صفحہ 164، صفحہ 165، صفحہ 187 پر بار بار مسلک دیوبند مسلک حق دیوبند، دیوبندی مسلک لکھا ہے۔ انجمن ارشاد المسلمین کے پاکستانی ایڈیشن حفظ الایمان کے متعدد صفحات پر دیوبندی، بریلوی، دیوبندی لکھا ہے۔ پاکستان دیوبندیوں کے مصنف اعظم مولوی سرفراز صفدر گکھڑوی نے اپنی کتاب عبارات اکابر کے صفحات 143,115,58,18,15 پر بار بار دیوبندی مسلک دیوبندی مسلک لکھا ہے ۔

مولوی منظور سنبھلی مولوی رفاقت حسین دیوبندی کی کتاب بریلی کا دلکش نظارہ کے پاکستانی ایڈیشن شائع کردہ مکتبہ مدینہ صفحہ 35، صفحہ 181وغیرہ پر متعدد صفحات پر دیوبندی بریلوی دیوبندی دیوبندی لکھا ہے ۔

مولوی خلیل بجنوری بدایونی کی کتاب انکساف حق کی پاکستانی ایڈیشن کے صفحہ 6 صفحہ 7 پر دیوبندی، بریلوی، بریلوی دیوبندی ہر دو اہلسنت لکھا ہے ۔

مولوی عارف سنبھلی ندوۃ العلماء کی کتاب بریلوی فتنہ کا نیا روپ صفحہ 121، صفحہ 124پر مسلک دیوبندی، علماء دیوبند کا مسلک لکھا ہے ۔

دیوبندیوں کے خر دماغ ذہنی مریض کذاب مصنف پروفیسر خالد محمود مانچسٹروی اپنی تردید شدہ کتاب مطالعہ بریلویت جلد اول کے صفحہ 401، صفحہ 402 پر دیوبندی مسلک دیوبندی دیوبندی لکھتا ہے۔ اسی کتاب کی جلد 3 کے صفحہ 202 پر اہلسنت بریلوی دیوبندی لکھا ہے ۔

مطالعہ بریلویت جلد دوم صفحہ 16 پر دیوبندی بریلوی، مطالعہ بریلویت صفحہ 234 پر دیوبندی بریلوی، صفحہ 235 جلد 4 دیوبندیوں، بریلویوں دیوبندیوں جلد 4 صفحہ 237، دیوبندیوں صفحہ 238 جلد 4 دیوبندیوں بریلیوں، بار بار دیوبندیوں بریلویوں صفحہ 239، دیوبندیوں، دیوبندی بار بار دیوبندی صفحہ 240، جلد 4 دیوبندیوں صفحہ 316، اہلسنت والجماعۃ دیوبند مسلک، دیوبندی بریلوی، صفحہ 317، دیوبندی، دیوبندیوں، دیوبندی مسلک، مسلک دیوبند وغیرہ وغیرہ، بکثرت مقامات پر دیوبندیوں نے خود کو بقلم خود دیوبندی لکھا ہے ۔

مولوی اشرف علی تھانوی دیوبندی الاقاضات الیومیہ جلد 5 صفحہ 220، دیوبندیوں اور بریلیوں، مولوی انور کاشمیری صدر مدرس و شیخ الحدیث مدرسہ دیوبند کتاب حیات انور صفحہ 333، مضمون وقت کی پکار نوائے وقت لاہور، 8 مارچ 1976، جماعت دیوبندی ۔

دیوبندی امیر شریعت عطاء اﷲ بخاری احراری دیوبندی لکھتے ہیں… مولانا غلام اﷲ خان دیوبندی بھی اہلسنت و الجماعت ہین، وہ ابن تیمیہ کے پیروکار ہیں (مکتوب بنام فقیر محمد حسن علی قادری رضوی) دیوبندی جمعیت العلماء اسلام کے ناظم اعلیٰ مولوی غلام غوث ہزاروی لکھتے ہیں … اہلسنت و جماعت مسلمانوں کی تمام شاخیں حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث سب مسلمان ہیں (خدام الدین لاہور)

قصص الاکبر ص 205 میں تھانوی لکھتے ہیں ’’میرا مسلک شیخ الہند کا مسلک‘‘ (دیوبندی مسلک، الافاضات الیومیہ جلد 5 صفحہ 135) میرا مسلک تھانوی (اشرف السوانح جلد 3ص 153 وصفحہ 164، تھانوی مسلک ۔

ایک کتاب ’’آئینہ بریلویت‘‘ مولوی عبدالرحیم رائے پوری دیوبندی اور مولوی حسن احمد ٹانڈوی وغیرہ اکابر دیوبند کے پڑپوتے مرید مولوی عبدالرحمن شاہ عالمی مظفر گڑھ کی ہے ۔اس کے صفحہ 24، 27، 30، 34، 40، 42، 43، 45، 54، 57، 61، 63، چالیس صفحات پر بار بار دیوبندی مسلک، مسلک دیوبند، دیوبندیوں، دیوبندی اہلسنت دیوبندی لکھا ہے اور فخریہ طور پر اپنے دیوبندی ہونے کا اقرار کیا ہے ۔

ایک کتاب تسکین الاتقیاء فی حیاۃ الانبیاء مرتبہ مولوی محمد مکی دیوبندی صفحہ 79 مسلک اکابر دیوبند، صفحہ 99، اکابر دیوبند کا مسلک صفحہ 100اکابردیوبند کا مسلک، صفحہ 01 مسلک دیوبند، صفحہ 102 علماء دیوبند کا مسلک، صفحہ 103، علماء دیوبند کا مسلک، صفحہ 106، صفحہ 107 بار دیوبندی دیوبندی… اس کتاب پر پاکستان کے صف اول کے اکابردیوبند مولوی محمد یوسف بنوری شیخ الجامعہ مدرسہ عربیہ اسلامیہ کراچی، مولوی شمس الحق افغانی، صدر وفاق المدرس العربیہ دیوبند، مفتی محمد حسن مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور، مفتی محمد شفیع سابق مفتی دیوبند مہتمم دارالعلوم کراچی، مولوی عبدالحق دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک، مولوی ظفر احمد عثمانی شیخ الحدیث دارالعلوم الاسلامیہ ٹنڈو الہ یار سندھ، مولوی محمد ادریس کاندھلوی شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاوہر، مولوی محمد رسول خان جامعہ اشرفیہ نیلا گنبد لاہور، مولوی احمد علی امیر خدام الدین وامیر جمعیت العلماء اسلام، مولوی محمد صادق، ناظم محکمہ امور مولوی حامد میاں جامعہ مدینہ، مولوی مسعود احمد سجادہ نشین درگاہ دین پور وغیرہ اٹھارہ اکابر دیوبند کی تصدیقات ہیں ۔ اس قسم کے حوالے اگر فقیر چاہے تو اللہ کے فضل و کرم سے پچاسوں نقل کر سکتا ہے ۔

اور بحوالہ کتب یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ ہم اہلسنت اور ہمارے مسلمہ اکابر علماء و مشائخ ایک مدت مدید ایک سو سال سے بھی پہلے کے حنفی بریلوی، اہلسنت بریلوی کہلا رہے ہیں، محکمہ اوقاف، محکمہ تعلیم اور افواج پاکستان میں بطور امام و خطیب ہمیں بریلوی اہلسنت حنفی بریلوی لکھا گیا ہے۔ اب حاسدین سارے سرکاری محکموں سے بریلوی کا انتساب اور علامتی و شناختی نشان کیسے تلف کروائیں گے۔ دنیا آپ کو دیوانہ سمجھے گی۔ ہماری مسجدوں اور ہمارے مدارس کو سرکاری اداروں میں اہلسنت بریلوی، حنفی بریلوی لکھ کر رجسٹریشن کی جاتی ہے، رجسٹرڈ کروانے میں اگر ہم اپنا شناختی و امتیازی نشان بریلوی نہ لکھوائیں صرف مسلمان یا صرف اہلسنت لکھوا دیں تو ایک تو رجسٹریشن ناممکن اور پھر مسجدوں، مدرسوں پر بدمذہبوں کے قبضہ کا خطرہ، لڑائی جھگڑوں، مقدمہ بازیوں تک نوبت پہنچے گی یا نہیں… کیونکہ ہر باطل فرقہ یہ کہہ کر قبضہ کرلے گا ہم بھی مسلمان ہیں، ہم بھی اہلسنت ہیں، ہم بھی حنفی ہیں۔ خدا جانے آپ کیوں عقل و شعور فراست و بصیرت سے ریٹائر ہوکر خالص سنیت کے علامتی نشان بریلوی کو مٹانا چاہتے ہیں۔ ذرا غور کر کے بتاٶ ۔ ہمارے مرکزی مدارس کے بانی و مہتمم و ناظم اعلیٰ منصرم و منتظم اور حضرات شیوخ الاحادیث کیا فہم و فراست سے بالکل خالی تھے جنہوں نے اپنے مدارس کو حنفی بریلوی متعارف کرایا اور سرکاری اداروں کے ریکارڈ میں بریلوی کا اندراج کرایا ۔

آپ ہی اپنی اداٶں پر ذرا غور کریں
ہم اگر بات کریں گے تو شکایت ہوگی

دیکھیے ہمارے مسلمہ اکابر علماء و مشائخ کس فراخدلی اور خندہ پیشانی سے اپنے مدارس دینی اداروں کا عقیدہ و مسلک بریلوی حنفی بریلوی قرار دے رہے ہیں۔ ملاحظہ کتاب جائزہ مدارس عربیہ پاکستان دارالعلوم حزب الاحناف لاہوریہ دارالعلوم حضرت علامہ سید محمد دیدار علی شاہ محدث الوری علیہ الرحمہ شاگرد و خلیفہ حضرت مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادی علیہ الرحمہ نے قائم کیا۔ بعد میں سیدنا مجدد اعظم اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے بھی خلافت سے سرفراز فرمایا۔ آپ کے وصال کے بعد شیخ المشائخ حضور سیدنا شاہ علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی کے مرید وخلیفہ اور حضور سیدنا صدر الافاضل مولانا شاہ نعیم الدین مراد آبادی کے شاگرد مفتی پاکستان علامہ سید ابوالبرکات، سید احمد قادری ناظم اعلیٰ و شیخ الحدیث ہوئے۔ اپنے دارالعلوم حزب الاحناف کا مسلک حنفی بریلوی لکھا اور کتاب جائزہ میں بریلوی کے علاوہ احناف بریلوی لکھا ہے۔ دارالعلوم جامعہ نعیمیہ لاہور بانی و مہتمم مفتی محمد حسین نعیمی حضرت صدر الافاضل علیہ الرحمہ کے مرید اور جامعہ نعیمیہ مراد آباد شریف کے فاضل ہیں اور حضرت علامہ مفتی عزیز احمد قادری بدایونی فاضل دارالعلوم قادریہ بدایوں شریف وغیرہ حضرات مدرسین تھے۔ کتاب جائزہ صفحہ 22 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ صفحہ 49 دارالعلوم نعمانیہ لاہور مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ صفحہ 36 جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ یہ دارالعلوم نائب اعلیٰ حضرت محدث اعظم علامہ ابوالفضل محمد سردار احمد قدس سرہ کے حکم پر قائم کیاگیا۔ حضرت قبلہ محدث اعظم علیہ الرحمہ نے ہی افتتاح فرمایا۔ یہاں پہلے محدث اعظم پاکستان قدس سرہ کے داماد محترم اور شاگرد رشید المعقول علامہ غلام رسول رضوی علیہ الرحمہ صدر مدرس و مہتمم تھے۔ بعد میں علامہ مفتی عبدالقیوم قادری رضوی ہزاروی علیہ الرحمہ مہتمم و شیخ الحدیث ہوئے۔ دارالعلوم کی بیشتر روئیدادوں میں مسلک اعلیٰ حضرت لکھا ہے۔ غوث العلوم جامعہ رحیمیہ رضویہ سمن آباد لاہور صفحہ 41 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ جامعہ صدیقیہ سراج العلوم لاہور مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے صفحہ 41، دارالعلوم گنج بخش داتا دربار لاہور مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے (کتاب جائزہ صفحہ 43) دارالعلوم جامعہ حنفیہ قصور صفحہ 59 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ صفحہ 63 پر جامعہ نقشبندیہ فیض لاثانیہ رائے ونڈ نزد مرکز دیوبندی تبلیغی جماعت رائے ونڈ مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ جامعہ اویسیہ رضویہ بہاولپوریہ دارالعلوم حضور سیدنا محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمہ کے جلیل القدر محقق فاضل شاگرد اور سلسلہ اویسیہ کے روحانی پیشوا علامہ مفتی فیض احمد اویسی علیہ الرحمہ نے قائم کیا۔ صفحہ 68 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ آپ مصنف کتب کثیرہ ہیں۔ مسلک اعلیٰ حضرت کے عظیم مبلغ و ناشر تھے۔ دارالعلوم فیضیہ رضویہ احمد پور شرقیہ، بہاولپور یہ جامعہ علامہ محمد منظور احمد فیضی چشتی علیہ الرحمہ نے قائم کیا۔ صفحہ 72 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ اسلامیہ عربیہ سید المدارس بہاولنگر صفحہ 84 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ فیض العلوم فقیر والی بہاول نگر اور مدرسہ اسلامیہ عربیہ کمال العلوم آستانہ عالیہ توگیرہ بہاول نگر صفحہ 89 پر مسلک حنفی بریلوی ہے۔ دارالعلوم جامعہ رضویہ عربیہ ہارون آباد صفحہ 91 مسلک حنفی بریلوی ہے۔ جامعہ قطبیہ رضویہ جھنگ صفحہ 119 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ عربیہ صدیقیہ شاہ جمالیہ فیض آباد ڈیرہ غازی خان صفحہ 122، مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ جامعہ رضویہ ضیاء العلوم راولپنڈی یہ جامعہ علامہ محب النبی صاحب اجازت از حضرت خواجہ پیر سید مہر علی شاہ صاحب قادری چشتی نظامی علیہ الرحمہ، و علامہ مشتاق احمد صاحب کانپوری صفحہ 125 پر مسلک حنفی بریلوی ہے۔ اس جامعہ میں شیخ الحدیث و ناظم اعلیٰ استاذ العلماء علامہ حسین احمد صاحب فاضل جامعہ رضویہ مظہر اسلام لائل پور ہیں۔ جامعہ غوثیہ مظہر الاسلام راولپنڈی صفحہ 144 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ صدر مدرس مولانا محمد سلمان فاضل جامعہ رضویہ مظہر اسلام فیصل آباد لائل پور ہیں۔ جامعہ اسلامیہ تدریس القرآن اسلام آباد راولپنڈی صفحہ 125 مسلک حنفی بریلوی ہے۔ جامعہ محمدیہ رضویہ رحیم یار خان مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ عربیہ سراج العلوم خان پور صفحہ 125 مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ جامعہ فریدیہ ساہیوال منٹگمری صفحہ 163 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ علامہ ابوالنصر منظور احمد چشتی فریدی نظامی خلیفہ حضرت خواجہ میاں علی محمد خان صاحب بسی شریف چشتی نظامی مہتمم و شیخ الحدیث ہیں۔ دارالعلوم حنفیہ فریدیہ بصیرپور ضلع اوکاڑہ صفحہ 168 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ بانی و اولین شیخ الحدیث استاذ العلماء علامہ محمد نور اﷲ نعیمی علیہ الرحمہ، دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ ضلع سرگودھا صفحہ 186 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے ۔

دارالعلوم جامعہ حنفیہ سیالکوٹ صفحہ 200 پر مسلک حنفی بریلوی ہے۔ مدرسہ خدام الصوفیہ گجرات جامعہ شاہ ولایت گجرات امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری نقشبندی رحمتہ اﷲ علیہ کے خلیفہ حضرت پیر سید ولایت شاہ نقشبندی رحمتہ اﷲ علیہ، 1920ء میں قائم کیا صفحہ 219 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ غوثیہ نعیمیہ گجرات شیخ التفسیر علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی بدایونی علیہ الرحمہ اس کے بانی تھے۔ صفحہ 220ء پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ حنفیہ رضویہ سراج العلوم گوجرانوالہ یہ جامعہ محدث اعظم پاکستان قدس سرہ کے حکم سے قائم کیاگیا۔ حکیم الامت علامہ ابو دائود، مولانا محمد صادق صاحب قادری رضوی مدظلہ اس کے مہتمم و بانی ہیں۔ مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ (جائزہ مدارس عربیہ ص 234) دارالعلوم جامعہ رضویہ مظہر اسلام لائل پور فیصل آباد نائب اعلیٰ حضرت محدث اعظم پاکستان قدس سرہ نے قائم فرمایا۔ یہاں سے ہزاروں علماء فارغ التحصیل ہوئے مغربی یورپی افریقی ممالک میں خدمات دینیہ سرانجام دے رہے ہیں۔ صفحہ 253 پر مسلک حنفی رضوی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ اسلامیہ عربیہ انوارالعلوم ملتان غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی علیہ الرحمہ نے قائم کیا۔ آپ کے برادر اکبر اور استاد محترم و پیر و مرشد علامہ قاری سید محمد خلیل کاظمی قدس سرہ بھی خدمات تدریس انجام دے چکے ہیں۔ مدرسہ کے آغاز و افتتاح پر شہزادۂ اعلیٰ حضرت مفتی اعظم شیخ العلماء علامہ شاہ مصطفی رضا خان بریلوی محدث اعظم ہند ابو المحامد سید محمد محدث کچھوچھوی محدث اعظم پاکستان علامہ محمد سردار احمد لائل پوری قدس سرہ کی تشریف آوری کی بابرکت موقع پر ہوا۔ صفحہ 311 پر مسلک حنفی بریلوی ہے۔ حضرت علامہ کاظمی علیہ الرحمہ فرماتے تھے وہ میرا مرید نہیں، ہاں وہ میرا مرید نہیں جو مسلک اعلیٰ حضرت پر نہیں ایک بار چوک حسین آگاہی ملتان کے جلسہ میں ڈپٹی کمشنر ملتان کی موجودگی میں دیوبندی احراری مولوی محمد علی جالندھری نے کہا کہ میں لوہے کی لٹھ دیوبندی ہوں۔ علامہ کاظمی علیہ الرحمہ نے اپنی جوابی تقریر میں کہا لوہا پگھل جاتا ہے اور فرمایا میں پتھر کی طرح سخت بریلوی ہوں، پتھر پگھلتا نہیں۔ دارالعلوم امجدیہ کراچی علامہ مفتی محمد ظفر علی نعمانی قادری رضوی مصباحی فاضل اشرفیہ مبارک پور نے قائم کیا۔ فخر الاسلام علامہ عبدالمصطفی ازہری، علامہ مفتی وقار الدین رضوی یہاں شیخ الحدیث رہ چکے ہیں، علامہ قاری محمد مصلح الدین صدیقی مصباحی علامہ قاری محبوب رضا بریلوی یہاں مدرس اور مفتی رہ چکے ہیں۔ صفحہ 483 پر مسلک حنفی بریلوی ہے۔ 1966ء سے آج تک دارالعلوم امجدیہ کی سالانہ روئیداد اور امجدیہ کے سالانہ مجلہ رفیق علم میں مسلک اعلیٰ حضرت لکھا ہوتا ہے۔ دارالعلوم حامدیہ رضویہ کراچی صفحہ 487 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ صبغۃ الہدیٰ جامعہ راشدیہ گوٹھ غلام علی تھرپارکر صفحہ 494 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ دارالعلوم احسن البرکات حیدرآباد سندھ بانی علامہ مفتی محمد خلیل خاں برکاتی امجدی رحمتہ اﷲ علیہ صفحہ 511 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ رکن الاسلام جامعہ مجددیہ میدان ہیراآباد حیدرآباد علامہ مفتی محمد محمود صاحب نقشبندی مجددی خلف الرشید شیخ طریقت حضرت مولانا صوفی رکن الدین نقشبندی علیہ الرحمہ صفحہ 513 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ جامعہ راشدیہ پیر گوٹھ سندھ جامعہ راشدیہ کے بانی حضرت پیر صاحب پاگارہ ہیں۔ حضرت علامہ مفتی محمد صاحبداد خان صاحب علیہ الرحمہ، حضرت علامہ مفتی محمد تقدس علی خاں صاحب علیہ الرحمہ، شیخ الحدیث و صدر مدرس و مفتی رہ چکے ہیں۔ صفحہ 531 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ سفینۃ العلوم احمد پور خیرپور سندھ صفحہ 533 مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ محمدیہ کنزالعلوم دادو سندھ صفحہ 534 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ جامعہ راشدیہ سے منسلک مدارس کی تعداد 21 ہے، سب پر حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ انوار العلوم مورو نواب شاہ صفحہ 561 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ کتاب جائز و مدارس میں صفحہ 688 پر 1972ء حنفی بریلوی مدرس کی تعداد 122 ہے۔ اب حنفی بریلوی مدارس 570 ہیں

اتنے جلیل القدر اکابر علماء کرام اور مشائخ طریقت نے جو خود کو اور اپنے مدارس و مراکز دینیہ کو حنفی بریلوی کا نام دیا اور مسلک اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کو اختیار کیا۔ کیا ان کو جماعتی نقصان اور نسبت بریلوی کے مضمرات کا پتہ نہ تھا۔ کیا آپ حضرات ان اکابر سے زیادہ وسعت علم کے حامل ہیں۔ یہاں یہ بات بھی بطور خاص ملحوظ خاطر رہے کہ ہم نے بفضلہ بریلوی اور مسلک اعلیٰ حضرت کے اطلاق و استعمال کے باب میں صرف قادری برکاتی رضوی اکابر اعاظم بزرگان اہلسنت ہی نہیں، جملہ سلاسل اربعہ قادری، چشتی، نقشبندی، سہروردی اکابرین کرام اور جملہ سلاسل کے علماء کے زیر اہتمام مدارس و جامعات دینیہ کو بحوالہ کتب معتبرہ بیان کیا ہے تاکہ ان جیسے سطحی سوچ رکھنے والوں کو یہ شوشہ چھوڑنے اور عوام اہلسنت کو جھانسہ دینے کا موقع نہ ملے کہ بریلوی کہلانے اور مسلک اعلیٰ حضرت کا نعرہ لگانے سے دوسری خانقاہوں دوسرے سلسلہ کے بزرگوں کو ماننے والوں کی دل آزاری ہوتی ہے ۔ وہ بریلوی اور مسلک اعلیٰ حضرت کو قبول نہیں ہے ۔ یہ چند نابالغ مولویوں اور پیروں کی ذاتی و انفرادی سوچ ہے ۔ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ ۔

آل انڈیا سنی کانفرنس کی اولین تاسیس اور سنی کی تعریف میں مسلک اعلیٰ حضرت کی شرط ہے۔ یاد رہے کہ سنی کانفرنس میں حضرت صدر الشریعہ اعظمی، حضرت صدر الافاضل مراد آبادی حضور مفتی اعظم نوری بریلوی، حضور محدث اعظم ہند کچھوچھوی حضور پیر سید جماعت علی شاہ علی پوری، مبلغ الاسلام علامہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی، حضور محدث اعظم پاکستان لائل پوری، علامہ ابوالحسنات قادری، علامہ ابوالبرکات سید احمد قادری، مفتی محمد عمر نعیمی مراد آبادی، پیر صاحب بھرچونڈی شریف، پیر صاحب سیال شریف علماء بدایوں، پیر صاحب مشوری شریف سندھ وغیرہم کثیر اکابر اہلسنت علیہم الرحمہ شامل تھے ۔ یہاں بھی مسلک اعلیٰ حضرت کی شرط ہے (سواد اعظم لاہور جلد 2 صفحہ 23,24، وصفحہ 41 مطبوعہ لاہور،چشتی)

جامع اشرفیہ اور مصباح العلوم مبارک پور کا ایک جہاں بھر میں نام روشن ہے اور ہزاروں علماء یہاں سے فیض یاب ہیں۔ حضور سیدنا حافظ ملت بانی اشرفیہ قدس سرہ کی ذات گرامی مینارہ نور ہے۔ وہ حضور محدث اعظم پاکستان علامہ ابوالفضل محمد سردار احمد قدس سرہ کے استاد بھائی ہم سبق و ہم مدرس تھے۔ دونوں حضرات کو سیدنا صدر الصدور صدر الشریعہ قدس سرہ نے ایک دن ایک وقت خلافت و اجازت عطاء فرمائی تھی۔ دستور اساسی دارالعلوم جامعہ اشرفیہ مبارکپور ص 5 ملاحظہ ہو۔ صاف صاف لکھا ہے ’’ادارہ کا مسلک موجود زمانہ میں جس کی واضح نشانی یہ ہے جو اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان صاحب بریلوی سے عقائد و اعمال میں بالکل متفق ہو ۔ (دستور اساسی صفحہ 5 جامعہ اشرفیہ مبارکپور ہے)

دارالعلوم فیض الرسول براٶن شریف کا ایک دنیا میں نام ہے جس کو حضور شعیب الاولیاء مولانا شاہ یار علی شاہ صاحب قبلہ قدس سرہ نے قائم فرمایا تھا جہاں بحرالعلوم علامہ غلام جیلانی، علامہ عبدالمصطفے اعظمی، علامہ بدرالدین احمد قدست اسرارہم جیسے مشاہیر کرام شیخ الحدیث و صدر مدرس رہے، فتاویٰ دارالعلوم فیض الرسول ایک نظر ملاحظہ ہو۔ پچاسوں مقام پر مسلک اعلیٰ حضرت کی جلوہ گری ہے۔

خدا جانے حاسدین رضابے خبری و لاعلمی کی کن وادیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ انہیں کچھ پتہ نہیں یا تجاہل عارفانہ ہے۔ ذرا ایک نظر بمبئی سے شائع ہونے والا ماہنامہ المیزان کا امام احمد رضا نمبر اور جامعہ اشرفیہ مبارکپور کا حافظ ملت نمبر، مجاہد ملت نمبر، صدر الشریعہ نمبر ہی ایک نظر ملاحظہ کرلیتے۔ بالخصوص ماہنامہ اشرفیہ مبارکپور کا طویل و ضخیم شاہکار سیدین نمبر میں اور اس میں شہنشاہ برکات و خانوادہ عالیہ برکاتیہ کے مسلمہ اکابر حضور سیدنا تاج العلماء اولاد رسول مولانا شاہ محمد میاں برکاتی، حضور سیدنا سید العلماء سید شاہ آل مصطفے میاں حضور سیدنا شاہ اسماعیل حسن برکاتی، سیدنا حضرت احسن العلماء الشاہ حافظ مصطفے حیدر حسن، میاں حضرت علامہ حسنین میاں نظمی برکاتی، حضرت علامہ ڈاکٹر امین میاں برکاتی (قدست اسرارہم و دامت برکاتہما) کے مسلک اعلیٰ حضرت سے متعلق ارشادات و فرمودات سرسری نظر سے ہی دیکھ لیتے۔

فقیر کے خیال میں تو ان باغیان مسلک اعلیٰ حضرت نے رضا اکیڈمی ممبئی سے شائع ہونے والی طویل وضخیم معارف شارح بخاری بھی دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کی وہاں بھی مسلک اعلیٰ حضرت اور بریلوی کی جلوہ گری ہے۔ عالمی مبلغ اسلام علامہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ اور قائد جمعیت العلماء پاکستان مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی مسلک اعلیٰ حضرت اپنے لیے اعزاز سمجھتے تھے۔ مولانا نورانی میاں نے دارالعلوم امجدیہ میں عرس امجدی میں خطاب کرتے ہوئے بتایا ’’میرے والد گرامی مبلغ اسلام مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی کی ایک نصیحت میرے پاس موجود ہے۔ فرمایا الحمدﷲ میں مسلک اہلسنت پر زندہ رہا۔ مسلک اہلسنت وہی ہے جو مسلک اعلیٰ حضرت ہے جو اعلیٰ حضرت کی کتابوں میں مرقوم ہے اور الحمدﷲ اسی پر میری عمر گزری اور الحمدﷲ آخری وقت اسی مسلک اعلیٰ حضرت پر حضور پرنور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قدم مبارک میں خاتمہ بالخیرہورہا ہے ۔ (ماہنامہ ترجمان اہلسنت کراچی ذی الحجہ 1397ھ و ماہنامہ سنی آواز ناگپور ستمبر اکتوبر 1995)

کہاں تک لکھا جائے اور کون شمار کرسکتا ہے ، کتنے بڑے بڑے جلیل القدر اساطین امت نے مسلک اعلیٰ حضرت اور بریلوی کی مقدس نسبت کو اپنایا اور اختیار کیا اور تو اور بالخصوص پاکستان میں جو سرکاری ادارے اور سرکاری محکمے مساجد اور دینی مدارس کو رجسٹرڈ کرتے ہیں ، سرکاری ادارے جو فارم فراہم کرتے ہیں وہاں جمہور اہلسنت کو حنفی بریلوی ، بریلوی حنفی اہلسنت بریلوی لکھنا پڑتا ہے ۔ اسی طرح جب مساجد اور دینی مدارس کےلیے جب اراضی (زمین) خریدنی ہو تو تحصیل ہیڈ کوارٹر میں اہلسنت کو حنفی بریلوی ، اہلسنت بریلوی ، بریلوی حنفی لکھنا اور لکھوانا پڑتا ہے ۔ دوسرے فرقے اپنا عقیدہ و مسلک لکھتے ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔