Thursday 7 December 2023

وسیلہ قرآن اور حدیث کی روشنی میں حصّہ اوّل

0 comments
وسیلہ قرآن اور حدیث کی روشنی میں حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام : وسیلہ ،وہ واسطہ ہے جس کے ذریعے کسی چیز تک پہونچا جائے اور اس کا قرب حاصل کیا جائے ، اور شر یعت کی زبان میں بارگاہِ الٰہی میں قرب حاصل کر نے کےلیے یا حصول مراد کےلیے بوقتِ دعا کسی مقبول عمل ، صالح بزرگ یا با بر کت چیز وغیرہ کا واسطہ پیش کر نے کو وسیلہ کہتے ہیں ۔ الحمد للہ ! وسیلہ کے جواز پہ قرآنِ کریم اور احادیث مبارکہ میں بہت سے دلائل موجود ہیں ، ان میں سے کچھ مند رجہ ذیل ہیں : ⏬

وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ۔ (سورة النساء آیت نمبر 64)
ترجمہ : اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آستانہ پر آجائیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی چاہیں اور آپ بھی اے رسول ان کی سفارش کریں توبیشک یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے ۔

اللہ عزوجل کے پسندیدہ بندے خواہ وہ زندہ ہوں یاوفات یافتہ ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں مسلمانوں کا وسیلہ عظمیٰ ہیں ان کی ذات اور نام وسیلہ اور ان سے منسوب چیزیں وسیلہ یعنی جس چیز کو ان سے نسبت ہو جائے وہ وسیلہ ۔ اس کا ثبوت قرآنی آیات ' احادیث نبویہ' اقوال بزرگاں ، اجماع امت اور دلائل عقلیہ سے ہے ۔ اوپر دی گئی آیتِ مبارکہ سے یہ معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر مجرم کےلیے ہر وقت تاقیامت وسیلہ مغفرت ہیں ظلموں میں کوئی قید نہیں اور اجازت عام ہے یعنی ہر قسم کا مجرم ہمیشہ آپ کے پاس حاضر ہو ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۔ (سورة المائدہ آیت نمبر 35) ۔
ترجمہ : اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرتے رہو ۔ اوررب کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو ۔

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ اعمال کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں کا وسیلہ ڈھونڈھنا ضروری ہے کیونکہ اعمال تو اتقواللہ میں آگئے اور اس کے بعد وسیلہ کا حکم فرمایا ۔ معلوم ہواکہ یہ وسیلہ اعمال کے علاوہ ہے ۔

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۔ (سورة التوبہ آیت نمبر 103)
ترجمہ : اے محبوب ! ان مسلمانوں کے مالوں کاصدقہ قبول فرماٸیں اور اس کے ذریعہ آپ انہیں پاک و صاف کریں اور ان کے حق میں دعائے خیر کریں کیونکہ آپ کی دعا ان کے دل کاچین ہے ۔

معلوم ہوا کہ صدقہ و خیرات اعمال صالحہ طہارت کا وسیلہ کافی نہیں ۔ بلکہ طہارت تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کرم سے حاصل ہوتی ہے ۔

وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا ۔ (سورة البقرہ آیت نمبر 89)

مفسرینِ کرام علیہم الرحمہ اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ اہل کتاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل کفار پر فتح کی دعا کرتے تھے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے اہلِ کتاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کے وسیلہ سے جنگوں میں دعائے فتح کرتے تھے اور قرآن کریم نے ان کے اس فعل پر اعتراض نہ کیا بلکہ تائید کی اور فرمایا کہ '' ان کے نام کے وسیلہ سے تم دعائیں مانگا کرتے تھے اب ان پر ایمان کیوں نہیں لاتے ۔ معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک نام ہمیشہ سے وسیلہ ہے ۔

فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۔ (سورة البقرہ آیت نمبر 37)
آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی طرف سے کچھ کلمے پائے جن کے وسیلہ سے دعا کی اور رب نے ان کی توبہ قبول کی ۔
بہت سے مفسرین کرام علیہم الرحمہ فرماتے ہیں کہ وہ کلمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پاک کے وسیلہ سے توبہ کرناتھا۔ جس سے توبہ قبول ہوئی معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انبیائے کرام علیہم السلام کا بھی وسیلہ ہیں ۔

قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۔ (سورة البقرہ آیت ننبر 144)
ترجمہ : ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے کو آسمان کی طرف پھرتے دیکھ رہے ہیں اچھا ہم آپ کو اس قبلہ کی طرف پھیر دیتے ہیں جس سے آپ راضی ہیں ۔

معلوم ہوا کہ تبدیلی قبلہ صرف اسی لیے ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہی خواہش تھی یعنی کعبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے قبلہ بنا ۔ جب کعبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ کا محتاج ہے تو دوسروں کا کیا پوچھنا ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک نابینا صحابی کو اپنے وسیلہ سے دعا مانگنے کا خود حکم دیا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ارشاد فرمایا : اچھے طریقہ سے وضو کرے اور دو رکعتیں پڑھنے کے بعد یہ دعا کرے اللھم انی اسئلک واتوجہ الیک بمحمد نبی الرحمۃ یا محمد انی قدتوجھت بک الی ربی فی حاجتی ھذہ لتقضیٰ اللھم فشفعہ فیّ ۔
ترجمہ : اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور رحمت والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کے وسیلے سے اپنی اس حاجت میں اپنے رب کی طرف توجہ کرتا ہوں تاکہ اسے پورا کر دیا جائے ۔ اے اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کو میرے حق میں قبول فرما ۔ (ھٰذا حدیث صحیح ، سنن ابن ماجہ صفحہ۱۰۰،مسند احمد جلد ۴ صفحہ ۱۳۸)(المستدرک جلد۱صفحہ۳۱۳،۵۱۹،۵۲۶)(عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی صفحہ ۲۰۲،چشتی)(دلائل النبوۃ للبیہقی جلد۶صفحہ۱۶۷)(السنن الکبریٰ للنسائی جلد ۶ صفحہ ۱۶۹)(الاذکار للنووی صفحہ۱۶۷)(عمل الیوم واللیلۃ للنسائی صفحہ ۴۸۱)(الترغیب والترہیب جلد۱صفحہ۴۷۳)(صحیح ابن خزیمہ جلد۲صفحہ۲۲۵)(ترمذی جلد۲صفحہ ۱۹۸)(البدایہ والنھایہ جلد ۱ صفحہ ۱۳۰۱مطبوعہ دار ابن حزم)(الخصائص الکبریٰ جلد۲صفحہ ۲۰۲)(الجامع الصغیر جلد۱صفحہ۴۹ صحیح کہا)

واضح رہے اس حدیث کو غیرمقلد وہابی عالم وحید الزمان حیدرآبادی نے (ھدیۃ المھدی صفحہ ۴۷) ۔ نواب صدیق حسن خان بھوپالوی وہابی نے (نزل الابرار صفحہ۳۰۴،چشتی) ۔ غیر مقلد نجدیوں کے’’ مجتہد‘‘ قاضی شوکانی نے تحفۃ الذکرین صفحہ ۱۳۷ پر نقل کیا اور یہ بھی لکھا ہے کہ ائمہ حدیث نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔

غیر مقلد وہابیوں اور دیوبندیوں کے’’ بزرگ‘‘ ابن تیمیہ حرانی نے فتاویٰ ابن تیمیہ جلد ۱ صفحہ ۲۷۵ پر نقل کیا اور ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وان کانت لک حاجۃ فافعل مثل ذلک ۔ ترجمہ : تجھے جب بھی کوئی حاجت درپیش ہو تو اسی طرح کرنا ۔ اسی حدیث کو اشرف علی تھانوی دیوبندی نے نشرالطیب صفحہ ۲۵۳ ۔ اور شبیر احمد دیوبندی نے یا حرف محبت اور باعث رحمت ہے صفحہ ۴۲ پر نقل کیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہ عمل صرف اس وقت کے ساتھ خاص نہیں بلکہ قیامت تک کےلیے عام ہے ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ دورِ فاروقی میں ایک مرتبہ قحط پڑ گیا ، بارش کی سخت ضرورت تھی اور لوگ جاں بلب تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام اور دیگر حضرات کو ساتھ لیا اور بارگاہِ ربوبیت میں دستِ سوال دراز کیا۔ دعا میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا) کو وسیلہ بنایا اور مالک الملک کی بارگاہ میں عرض کیا ۔ اللھم انا کنا نتوسل الیک نبینا صلی اللّٰہ تعالی علیہ وآلہ وسلم فتسقینا وانا نتوسل الیک بعم نبینا فاسقنا قال فیسقون ۔ اے اللہ !ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پیش کیا کرتے تھے تو تو ہمیں سیراب فرماتا تھا اور اب ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی کے چچا کا وسیلہ لے کر آئے ہیں ، ہمیں سیراب فرما ! حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہیں سیراب کیا گیا ۔ (بخاری ، جلد اول کتاب الاستقاء حدیث نمبر:956،چشتی)

منکرین اب اب کہہ دیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی ضعیف حدیثیں لکھتے تھے ۔

صرف یہی نہیں بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو خطاب فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے ویسا ہی سلوک کیا کرتے تھے ، جیسا ایک بیٹا اپنے باپ سے کرتا ہے ۔ پس اے لوگو ! تم بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقہ کو اپناتے ہوئے آپ سے ویسا ہی سلوک کرو ! واتخذوہ وسبیلۃ الی اللّٰہ ۔ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا وسیلہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں پیش کرو ! ۔ (فتح الباری) ۔ دیکھ رہے ہیں آپ ! کس قدر محبت تھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو محبوب دو جہاں ، تاجدارِ مرسلاں ، رسول انس و جاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہ ان کے چچا کا وسیلہ پیش کر رہے ہیں ۔ معلوم ہوا نبیوں علیہم السّلام کے علاوہ دوسرے بزرگوں کا وسیلہ پیش کرنا بھی درست ہے ۔ (تیسیر الباری شرح بخاری غیر مقلد وہابی علامہ نواب وحید الزّمان)

اس حدیث مبارک سے ثابت ہوا کہ طلبِ حاجات میں اللہ کے نیک بندوں کا وسیلہ پکڑنا جائز ہے ۔ منکرین وسیلہ کی طرف سے اگر یہ کہا جائے کہ اس حدیث سے زندوں کا وسیلہ پکڑنا جائز ثابت ہوتا ہے مُردوں کا نہیں ۔ اس لیے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ زندہ تھے ۔ بلکہ اگر غور کیا جائے تو اسی حدیث سے فوت شدہ بزرگوں کے توسل کی نفی ہوتی ہے ۔ کیوں کہ حدیث میں مذکور ہے کہ اے اللہ ! ہم تیرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پکڑا کرتے تھے ۔ اب تیرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس کا وسیلہ پکڑتے ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پکڑتے تھے ۔ اگر کسی بزرگ کے فوت ہو جانے کے بعد اس کا وسیلہ جائز ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی سے توسل کرتے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بجائے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے توسل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ کسی بزرگ کے فوت ہو جانے کے بعد اس سے توسل جائز نہیں ۔
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ حدیث مبارک میں نہایت واضح اور غیر مبہم الفاظ میں توسل مذکور ہے ۔ جس میں زندہ اور مردہ کاکوئی تفاوت نہیں اور نہ حدیث کا کوئی لفظ فوت شدہ بزرگوں سے توسل کی نفی پر دلالت کرتا ہے ۔ رہا یہ امر کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ یہاں کیوں نہ پکڑا تو جواباً عرض ہے کہ کسی حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ بنانے کی نفی نہیں بلکہ کثرت احادیث سے روزِِ روشن کی طرح ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد بھی سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل کو جائز سمجھتے تھے ۔ اس باب میں البتہ یہاں ایک شبہ باقی رہ جاتا ہے ۔ وہ یہ کہ جب زندہ اور فوت شدہ دونوں قسم کے بزرگوں کا وسیلہ پکڑنا جائز ہے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس خاص موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بجائے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے توسل کیوں کیا تو اس کے جواب میں حدیثِ اعرابی جو شفاء السقام میں منقول ہے رفع شبہات کےلیے کافی ہے جس میں مذکور ہے کہ صحابہ کرام کی موجودگی میں وہ اعرابی سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزار مقدس پر حاضر ہوا اور سرکارِ کل عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل کیا وہ اعرابی اپنے گناہوں کی مغفرت کی حاجت لے کر مزار پر انوار پر حاضر ہوا تھا ۔ سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسل کی برکت سے اس کی حاجت پوری ہوئی اور قبر انور سے آواز آئی ’’ان اللّٰہ قد غفرلک‘‘ بے شک اللہ تعالیٰ نے تیرے گناہوں کو معاف فرما دیا ۔ (تفصیل آگے پیش کی جاۓ گی ان شاء اللہ)

نیز مشکوٰۃ شریف صفحہ ۵۴۵ باب الکرامات میں بروایت دارمی ایک حدیث مرقوم ہے۔ وہو ہذا : عَنْ اَبِی الجَوْزَاء قَالَ قُحِطَ اَھْلُ الْمَدِیْنَۃِ قَحْطًا شَدِیْداً فَشَکَوْا اِلٰی عَائِشَۃَ قَالَتْ اُنْظُرُوْا قَبْرَ النَّبِیّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاجْعَلُوْ ا مِنْہُ کُویً اِلَی السَّمَائِ حَتّٰی لَا یَکُوْنَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ السَّمَائِ سَقْفٌ فَفَعَلُوْا فَمُطِرُوْا مَطَرًا حَتّٰی نَبَتَ الْعَشَبُ وَ سَمَنَتِ الْاِبِلُ حَتّٰی تَفَتَّقَتْ مِنَ الشحم فَسُمِّیَ عَامَ الْفَتَقِ رَوَاہ الدَارمی ۔
ترجمہ : حضرت ابوالجوزاء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک سال اہلِ مدینہ سخت قحط میں مبتلا ہو گئے تو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس شکایت لائے ۔ انہوں نے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزار اقدس کو دیکھو اور مزارِ اقدس سے ایک روشن دان آسمان کی طرف کھول دو ۔ یہاں تک کہ مزار انور اور آسمان کے درمیان چھت نہ ہو۔ اہل مدینہ نے ایسے ہی کیا ۔ تو خوب بارش ہوئی حتیٰ کہ جانوروں کا چارہ بھی بکثرت پیدا ہوا اور اونٹ چربی سے خوب موٹے ہو گئے ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ چربی سے پھٹے جاتے ہیں تو اس سال کا نام عام الفتق رکھ دیا گیا ۔ اس حدیث کو دارمی نے روایت کیا ہے ۔

امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں کہ : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ ظاہری میں بھی قحط سالی اور خشک سالی میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل کیا کرتے تھے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے وصالِ اقدس کے بعد بھی مزارِ انور سے توسل کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسل کی برکت سے خلق اللہ اسی طرح خوشحال ہوئی، جس طرح پہلے ہوتی تھی ۔ اس مبارک حدیث سے آفتاب عالمتاب سے زیادہ روشن اور واضح ہو گیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل کرتے تھے اور دونوں توسلوں میں کوئی فرق نہ تھا ۔ دیکھیے سرکارِ کل عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات میں بھی بارانِ رحمت کی طلب اور قحط سالی دور ہونے کےلیے توسل کیا گیا اور وصال کے بعد بھی قبرِ انور سے خشک سالی دور ہونے اور بارانِ رحمت نازل ہونے کےلیے توسل کیا گیا ۔ اب منکرین کا یہ کہنا کہ فوت شدہ بزرگوں سے توسل جائز نہیں  ۔ نیز یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بعد از وصال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل نہ کرتے تھے کیونکر درست ہو سکتا ہے ؟ دوسرے شبہ کا جواب یہ ہے کہ اگر غور کیا جائے تو اچھی طرح واضح ہو جائے گا کہ یہاں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی ذات سے توسل نہیں ۔ یہ توسل بھی حضور سیدِ کل عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی سے ہے ۔ کیوں کہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں ’’اِنَّا نتوسل الیک بِعَمِّ نَبِیِّکَ‘‘ اے اللہ ! ہم تیرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کا وسیلہ اختیار کرتے ہیں ۔ عم مضاف ہے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف یعنی حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے جو توسل کیا جا رہا ہے وہ اس نسبت اور اضافت کی بنا پر ہے جو انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہے ۔ اس نسبت سے قطع نظر کر کے توسل نہیں ۔ جب توسل کا دار و مدار اس نسبت و اضافت پر ہوا تو ثابت ہوا کہ یہ توسل حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ قبل الوصال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بلا واسطہ توسل ہوتا تھا اور یہ توسل بالواسطہ ہے ۔ اور بالواسطہ توسل میں حکمت یہ ہے کہ اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہمیشہ بلا واسطہ توسل کرتے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی کا بغیر واسطہ کے وسیلہ اختیار کرتے رہتے ۔ نیز سرکارِ کل عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی غلام کے واسطہ سے کبھی توسل نہ کرتے تو منکرین وسیلہ کہہ دیتے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کسی سے توسل جائز ہی نہیں ۔ اگر جائز ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کبھی تو کسی غیر نبی کا وسیلہ پکڑتے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے توسل کر کے اس دعویٰ پر دلیل قائم کر دی کہ جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بلا واسطہ توسل جائز ہے ، اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کے واسطہ سے بھی بلاشبہ توسل جائز اور صحیح ہے ۔ اب قیامت تک ہر ولی اللہ اور بزرگ کے ساتھ وسیلہ پکڑنے کا جواز ظاہر ہو گیا ۔ مختصر یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے توسل فرما کر توسل کو آگے بڑھایا اور وسیلہ کو عام کیا اور اس امر پر نص فرما دی کہ یہ توسل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نسبت اور اضافت پر مبنی ہے ۔ لہٰذا قیامت تک اللہ تعالیٰ کا جو نیک بندہ بھی اس نسبت اور اضافت کے شرف سے مشرف ہو ، اس کے ساتھ وسیلہ اختیار کرنا شرعاً جائز اور درست ہے ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔