وسیلہ قرآن اور حدیث کی روشنی میں حصّہ دوم
حصّہ اوّل میں پیش کی گٸی حدیث وسیلہ راویت دارمی پر منکرین کے اعتراض کا جواب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے دعا کا فرمایا ۔ (مسند دارمی جلد1صفحہ 227) ۔ (اس روایت کے رجال ثقہ ہیں)
منکرین احادیث کے جاہلانہ اعتراض کا جواب انہی کے عالم سے ۔
توسل کے متعلق سنن دارمي والی حدیث عائشہ (رضي الله عنها)کا دفاع ۔
زبیرعلی زئی نے مشکوٰۃ کی تحقیق میں سنن دارمی کی اس روایت کا رد کیا ہے ۔ حدیث : حدثنا : أبو النعمان ، حدثنا : سعيد بن زيد ، حدثنا : عمرو بن مالك النكري ، حدثنا : أبو الجوزاء أوس بن عبد الله قال :" قحط أهل المدينة قحطاً شديداً فشكواً إلى عائشة فقالت : إنظروا قبر النبي (صلی اللہ علیہ وسلم) فإجعلوا منه كوى إلى السماء حتى لا يكون بينه وبين السماء سقف ، قال : ففعلوا فمطرنا مطراً حتى نبت العشب وسمنت الإبل حتى تفتقت من الشحم فسمي عام الفتق" ۔
ترجمہ : ابی الجوزاء“ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مدينہ ميں شديد قحط پڑ گيا بعض لوگ حضرت عائشہ كى خدمت ميں گئے اور ان سے چارہ جوئی كے ليے كہا_ حضرت عائشہ نے فرمايا جاؤ پيغمبر اكرم ؐ کی قبر پر چلے جاؤ اور قبر والے كمرے كى چھت ميں سوارخ كرو، اس انداز ميں كہ آسمان اندر سے نظر آئے اور پھر نتيجہ كى انتظار كرو لوگ گئے انہوں نے اسى انداز ميں سوراخ كيا كہ آسمان وہاں سے نظر آتا تھا; بارش برسنا شروع ہوگئی اس قدر بارش برسى كہ كچھ ہى عرصہ ميں بيابان سرسبز ہوگئے اور اونٹ فربہ ہوگئے.اور اس سال کا نام عام الفتق یعنی (خوشحالی کا سال) رکھا گیا ۔(مشکاۃ مصابیح بتحقیقی / جلد ٣ / باب فضائل و شمائل / صفحہ ٤٧٨ / رقم ٥٩٥٠ / طبع دھلی،چشتی)
اعتراض : وقال ابن عدی (الکامل: ۴۱۱): حدّث عنه عمرو بن مالک قدر عشرۃ أحادیث غیر محفوظة ۔
امام ابن عدی نے فرمایا ہے کہ ابو الجوزاء سے عمرو بن مالک نے تقریباً دس غیر محفوظ احادیث بیان کی ہیں ۔ (تھذیب التھذیب لابن حجر: ۳۳۶/۱)
جواب : یہ جرح مردود ہے ۔ اس کا جواب مہشور ناصبی کفایت اللہ سنابلی نے یوں دیا ہے وہ ابن عدی کے اس کلام پر یوں کہتا ہے : "عرض ہے دس احادیث کوئی بڑی تعداد نہیں کہ اس وجہ سے اس طریق ( زیر بحث حدیث کی سند بھی یہی ہے ) کو ضعیف کہا جائے .نیز یہ فیصلہ بھی صرف امام ابن عدی کا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان احادیث میں قصور النکری کا نہیں بلکہ انکے نیچھے رواہ کا ہو جیسا کہ امام ابن حبان نے صراحت کرتے ہوئے کہا : عمرو بن مالک النکری, ابو مالک , یہ یحییٰ بن عمرو کے والد ہے, ان کی حدیث میں نکارت ان سے انکے بیٹے کی روایات میں ہے اور یہ فی النفس صدوق ہے ۔( مشاھیر علماء الامصار صفحہ ١٥٥ )
ابن حبان کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ عمرو بن مالک النکری کی ان روایات میں نکارت ہیں جنہیں اس سے ان کے بیٹے نے روایت کیا ہے. لہذا ھم اس نکارت کی ذمہ داری خود عمرو بن مالک النکری پر نہیں ڈال سکھتے.یہی وجہ ہے کہ دیگر محدثین نے انہیں علی الطلاق ثقہ قرار دیا". حوالہ : نوار البدر فی وضع الیدین علیٰ الصدر – کفایت اللہ سنابلی / صفحہ 212 / طبع ممبئ - (محقق حسین سلیم الدرانی نے اس حدیث کے بارے میں کہا ۔ "رجاله ثقات" حوالہ : سنن دارمي- جلد ١ / صفحہ ٢٢٧ / رقم 227)
غیر مقلد حافظ زبیر علی زئی کے شاگرد شیخ غلام مصطفیٰ امن پوری نے امام نسائی کی کتاب ” وفاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تحقیق کرتے ہوئے سنن دارمی کی ایک روایت کا رد کیا ہے.روایت اس طرح ہے : أبو النعمان ، حدثنا : سعيد بن زيد ، حدثنا : عمرو بن مالك النكري ، حدثنا : أبو الجوزاء أوس بن عبد الله قال : قحط أهل المدينة قحطاً شديداً فشكواً إلى عائشة فقالت : إنظروا قبر النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فإجعلوا منه كوى إلى السماء حتى لا يكون بينه وبين السماء سقف ، قال : ففعلوا فمطرنا مطراً حتى نبت العشب وسمنت الإبل حتى تفتقت من الشحم فسمي عام الفتق ۔
ابی الجوزاء“ سے نقل ھوا ھے کہ ایک مرتبہ مدينہ ميں شديد قحط پڑ گيا بعض لوگ حضرت عائشہ كى خدمت ميں گئے اور ان سے چارہ جوئی كے ليے كہا_ حضرت عائشہ نے فرمايا جاؤ پيغمبر اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر پر چلے جاؤ اور قبر والے كمرے كى چھت ميں سوارخ كرو، اس انداز ميں كہ آسمان اندر سے نظر آئے اور پھر نتيجہ كى انتظار كرو لوگ گئے انہوں نے اسى انداز ميں سوراخ كيا كہ آسمان وہاں سے نظر آتا تھا; بارش برسنا شروع ہوگئی اس قدر بارش برسى كہ كچھ ہى عرصہ ميں بيابان سرسبز ہوگئے اور اونٹ فربہ ہوگئے ۔ (سنن دارمی-امام دارمی : ١ /١٥٨ / رقم ٩٣ , مشکاۃ مصابیح -امام تبریزی : ٥٩٥٠)
غلام مصطفیٰ صاحب نے اس کو ضعیف کہا ہے وہ کہتے ہے : اس کی سند ضعیف ہے ۔ اس کے راوی عمرو بن مالک النکری (ثقہ حسن الحدیث) کی روایت ابو الجوزاء سے غیر محفوظ ہوتی ہے.یہ روایت بھی ایسی ہی ہے. حافظ ابن حجر لکھتے ہے : امام ابن عدی نے فرمایا ہے کہ عمرو بن مالک النکری نے ابو الجوزاء سے تقریباً دس غیر محفوظ احادیث نقل کی ہے – ( تہذیب التہذیب ١ /٣٣٦،چشتی)(وفاۃ النبی للنسائی بتحقیقی / صفحہ 235-236 / طبع پاکستان )
ان کے استاد شیخ زبیر علی زائی نے بھی مشکواۃ کی تحقیق میں اس روایت کو اسکی وجہ سے ضعیف کہا ہے ۔ (مشکاۃ مصابیح بتحقیقی / جلد ٣ / باب فضائل و شمائل / صفحہ ٤٧٨ / رقم ٥٩٥٠ / طبع دھلی)
لیکن ان دونون کی یہ جرح مردود ہے ۔ اس کا جواب مہشور ناصبی سلفی کفایت اللہ سنابلی نے یوں دیا ہے وہ ابن عدی کے اس کلام پر یوں کہتے ہے : عرض ہے دس احادیث کوئی بڑی تعداد نہیں کہ اس وجہ سے اس طریق ( زیر بحث حدیث کی سند بھی یہی ہے ) کو ضعیف کہا جائے .نیز یہ فیصلہ بھی صرف امام ابن عدی کا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان احادیث میں قصور النکری کا نہیں بلکہ انکے نیچھے رواہ کا ہو جیسا کہ امام ابن حبان نے صراحت کرتے ہوئے کہا : عمرو بن مالک النکری, ابو مالک , یہ یحییٰ بن عمرو کے والد ہے, ان کی حدیث میں نکارت ان سے انکے بیٹے کی روایات میں ہے اور یہ فی النفس صدوق ہے ۔ (مشاھیر علماء الامصار صفحہ ١٥٥)
ابن حبان کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ عمرو بن مالک النکری کی ان روایات میں نکارت ہیں جنہیں اس سے ان کے بیٹے نے روایت کیا ہے ۔ لہٰذا ھم اس نکارت کی ذمہ داری خود عمرو بن مالک النکری پر نہیں ڈال سکھتے ۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر محدثین نے انہیں علی الطلاق ثقہ قرار دیا ۔ ( نوار البدر فی وضع الیدین علیٰ الصدر کفایت اللہ سنابلی / صفحہ 212 / طبع ممبئ)
نوٹ : اس کا مقدمہ مہشور اھل الحدیث عالم ارشاد الحق الاثری نے لکھا ہے ۔
ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور ان کی بہن اسماء بنت ابی بکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کرتے سے بیماری میں شفا حاصل کرتی تھیں ۔ صحیح مسلم اللباس والزينة تحريم استعمال إناء الذهب والفضة على الرجال والنساء ۔
حدثنا يحيى بن يحيى أخبرنا خالد بن عبد الله عن عبد الملك عن عبد الله مولى أسماء بنت أبي بكر وكان خال ولد عطاء قال أرسلتني أسماء إلى عبد الله بن عمر فقالت بلغني أنك تحرم أشياء ثلاثة العلم في الثوب وميثرة الأرجوان وصوم رجب كله فقال لي عبد الله أما ما ذكرت من رجب فكيف بمن يصوم الأبد وأما ما ذكرت من العلم في الثوب ۔
فإني سمعت عمر بن الخطاب يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إنما يلبس الحرير من لا خلاق له فخفت أن يكون العلم منه وأما ميثرة الأرجوان فهذه ميثرة عبد الله فإذا هي أرجوان فرجعت إلى أسماء فخبرتها فقالت هذه جبة رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخرجت إلي جبة طيالسة كسروانية لها لبنة ديباج وفرجيها مكفوفين بالديباج فقالت هذه كانت عند عائشة حتى قبضت فلما قبضت قبضتها وكان النبي صلى الله عليه وسلم يلبسها فنحن نغسلها للمرضى يستشفى بها ۔
ترجمہ : حضرت اسماء کے مولیٰ عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہم نے کسروانی طیلسان کا جبہ نکالا جس کے گریبان اور چاکوں پر ریشم کا کپڑا لگا ہوا تھا ۔ کہنے لگیں : یہ ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا۔ جب وہ فوت ہوئیں تو یہ جبہ میرے قبضے میں آ گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو پہنتے تھے۔ اور اب ہم بیماروں کہ لیے اس کو دھوتے ہیں اور اس سے بیماروں کے لیے شفاء طلب کرتے ہیں ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب اللباس والزينة، باب : تحريم استعمال إناء الذهب والفضة علي الرجال، 3 : 1641، رقم : 2069،چشتی)(أبوداود، السنن، کتاب اللباس، باب : الرخصة في العلم وخيط الحرير، 4 : 49، رقم : 4054)(بيهقي، السنن الکبريٰ، 2 : 423، رقم : 4010)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں : وفي هذا الحديث دليل علي استحباب التبرک بآثار الصالحين وثيابهم ۔
ترجمہ : اس حدیث میں آثارِ صالحین اور ان کے ملبوسات سے حصولِ تبرک کے جائز و پسندیدہ ہونے کی دلیل ہے۔(نووي، شرح علي صحيح مسلم، 14 : 44)
کیا اب بھی کوئی ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور ان کی صحابیہ بہن حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کی گواہی کو جھٹلا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو ایک طرف، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کرتہ تک اتنا بابرکت تھا کہ مدینے کے صحابہ بیماری کی حالت میں اس سے شفا حاصل کرتے تھے (حالانکہ بیماری سے شفا دینا اصل میں اللہ کا کام ہے)
کیا ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسماء بنت ابی بکر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس جبہ سے فائدہ طلب کر کے اس کو اللہ کا شریک بنا دیا ؟
اور انہوں نے اللہ سے براہ ِراست بیماری سے شفا کیوں نہیں مانگ لی ؟
خود سوچیے کہ جب انہوں نے جبہ سے بیماری کے خلاف مدد طلب کی تو کیا یہ مدد حقیقی معنوں میں تھی؟ یا پھر انہوں نے یہ مدد حقیقی معنوں میں اللہ سے ہی طلب کی تھی اور جبہ سے مدد مانگنے کا مطلب صرف اور صرف یہ تھا کہ اس کے وسیلے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی برکت بھی شامل ہو جائے جس کے بعد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی مقبولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ؟
انتہائی اہم اصول : ظاہری عمل بمقابلہ چھپی ہوئی نیت
اگرچہ کی ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور اسماء بنت ابی بکر نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جبہ سے شفا طلب کرتے ہوئے اللہ کا نام تک نہیں لیا، مگر پھر بھی تمام مسلمان (بشمول اہلحدیث حضرات) یہ یقین رکہتے ہیں کہ ان دونوں نے ایسا کر کے شرک نہیں کیا ہے ۔
اس قسم کے اعمال کو سمجھنے کے دو طریقے ہیں : ظاہری عمل کی بنیاد پر فتویٰ دینا کہ شفا حقیقی معنوں میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جبہ سے طلب کی جا رہی تھی اور شرک کیا جا رہا تھا ۔
عمل کے پیچھے چھپی ہوئی باطنی نیت کو دیکہنا جو یہ بتا رہی ہے کہ جبہ سے شفا کے لیے مدد مانگنا مجازی معنوں میں تھا اور اصل مدد حقیقی معنوں میں اللہ سے ہی طلب کی جا رہی تھی۔ اور یہ باطنی نیت وہ چیز ہے جسے عمل کے ظاہر پر فوقیت حاصل ہے اور ہر عمل کا دار و مدار اس کے ظاہر پر نہیں ہے بلکہ اس کی نیت پر ہے ۔
اسی لیے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔ مگر اہلحدیث حضرات نے اس کا بالکل الٹ کیا اور یہ عقیدہ گھڑا کہ : اعمال کا دار و مدار اُن کے ظاہر پر ہے ۔ لاحول واللہ قوۃ اللہ باللہ ۔
رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد طلب کرنے کا مطلب اُن کی شفاعت کے ذریعے مدد طلب کرنا ہے ۔
جب ہم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد طلب کر رہے ہوتے ہیں تو یہ مجازی معنوں میں ہوتا ہے اور باطنی نیت یہی ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست ہے کہ وہ اللہ کے حضور ہمارے حق میں دعا فرما کر ہماری مدد فرمائیں ۔
اہلحدیث حضرات کے دوہرے معیار (ڈبل سٹینڈرڈ)
اگرچہ کہ اہلحدیث حضرات میں انتہا درجہ کی ظاہر پرستی کی بیماری پائی جاتی ہے، مگر پھر بھی ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسماء بنت ابی بکر کے معاملے میں وہ اس قابل ہیں کہ اس عمل کے پیچھے چھپی ہوئی ان کی باطنی نیتوں کو سمجھ سکیں۔ مگر جب ہمارا معاملہ آتا ہے اور ہم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مجازی معنوں میں مدد طلب کرتے ہیں کہ وہ اپنی شفاعت/دعا کے ذریعے ہماری مدد فرمائیں(اور حقیقی معنوں میں ہم اللہ سے ہی مدد طلب کر رہے ہوتے ہیں) تو یہی اہلحدیث حضرات ایسی کسی باطنی نیت کا انکار کر رہے ہوتے ہیں اور وہ تمام آیات ہم پر چسپاں کرنے لگتے ہیں جو کہ کفار اور ان کے بتوں کےلیے نازل ہوئی ہیں ۔
اور اگر اب بھی ان کا خیال ہے کہ وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں ، تو پھر وہ ان آیات کو جنابِ عائشہ صدیقہ اور اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہم پر چسپاں کیوں نہیں کرتے ؟ مثلاً یہ آیت کہ : إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ۔ ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تچھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ۔ اور اسی طرح قران کو وہ تمام آیات بھی ان پر چسپاں کیوں نہیں کرتے جس میں اللہ فرما رہا ہےکہ اللہ کے سوا کوئی انہیں نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان ۔
قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْ ۔ (القران 21:66) (ابراہیم نے) کہا، „تو کیا تم اللہ کے سوا ایسوں کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں کسی قسم کا فائدے پہنچا سکیں اور نہ نقصان ؟ ۔ اگر یہ ڈبل سٹینڈرڈ اور منافقت نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟
عن انس انّ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا ن اذا قحطوا استسقی بالعباس بن عبد المطلب، فقال اللھم ان کنا نتوسل الیک بنبینا فتسقینا ،و انا نتوسل الیک بعم نبینا فاسقنا ،قال:فیسقون ۔
تر جمہ : حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ :جب لوگ قحط کے شکار ہوئے تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہما کے وسیلے سے اس طرح دعا مانگا:اے اللہ!بے شک ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے وسیلے سے دعا کرتے تھے تو ہمیں بارش عطا فرماتا ، اور اب ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے چچا کے وسیلے سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں بارش عطا فرما ، راوی کہتے ہیں : تو بارش ہوئی ۔ (الصحیح البخاری،رقم الحدیث:۱۰۱۰،چشتی)
عن عثمان بن حنیف ان رجلا ضریر البصر اتی النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم فقال:ادع اللہ لی ان یعافینی،فقال :ان شئت اخرّت لک و ھو خیر و ان شئت دعوتُ،فقال:ادعہ،فامرہ ان یتو ضأ فیحسن وضوء ہ و یصلی رکعتین و ید عو ا بھذاالدعا : اللھم انی اسألک و اتو جہ الیک بمحمد نبی الرحمۃ یا محمد انّی قد تو جھت بک الی ربی فی حا جتی ھذہ لتُقضی،اللّٰھم فشفعہ فِیّ ۔
تر جمہ : حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نا بینا شخص نبی کر یم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے پاس آیا ا ور اس نے کہا :میر ے لئے اللہ سے دعا کیجئے کہ اللہ تعالی مجھے عا فیت بخشے،تو حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے کہا :اگر تم چاہو تو میں مو خر کردوں اور وہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر چاہو تو دعا کر دوں ،تو انہوں نے کہا :دعا کر دیجئے،تو اس کو حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے حکم دیا کہ وہ اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نماز پڑ ھے اور اس طر ح سے دعا کرے:ائے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں اور تیری طرف رحمت والے نبی محمد صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے وسیلے سے متوجہ ہو تا ہوں ،یا محمد صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم!بے شک میں نے آپ کے وسیلے سے اپنے رب کی طرف لَو لگائی اپنی اس ضرورت میں تاکہ میری یہ ضرورت پو ری ہو جائے،ائے اللہ تو میری اس ضرورت کو پو ری فر ما ۔ (ابن ماجہ،رقم الحدیث:۱۳۸۵،ترمذی ،رقم الحدیث: الحدیث:۳۵۷۸)
عن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم:لما اقترف آدم الخطیئۃقال: یارب أسألک بحق محمد لما غفرت لی فقال اللہ :یا ٓدم وکیف عرفت محمد ولم اخلقہ ؟قال: یارب لأنک خلقتنی بیدک ونفخت فی من روحک ورفعت رأسی فرأیت علی قوائم العرش مکتوبا لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ فعلمت انک لم تضف الی اسمک الی أحب الخلق فقال اللہ :صدقت یا آدم انہ لأحب الخلق الی ادعنی بحقہ فغفرت لک و لو لا محمد ما خلقتک ۔ھذا حدیث صحیح الاسناد ۔
تر جمہ : حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے کہا :جب حضرت آدم سے خطائے اجتہادی سرزد ہوئی تو انہوں نے دعا کیا : ائے میرے رب !میں تجھ سے محمد صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما،اس پر اللہ رب العزت نے فر مایا:ائے آدم !تونے محمد صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو کس طرح پہچان لیا حالانکہ ابھی میں نے انہیں پیدا بھی نہیں کیا،؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا :مولا! جب تونے اپنے دست قدرت سے مجھے پیدا کیا اور اپنی روح میرے اند ر پھونکی میں نے اپنا سر اوپر اٹھایاتو عرش کے پایوں پر لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا دیکھا ہوا ،میں نے جان لیا کہ تیرے نام کے ساتھااسی کا نام ہو سکتا ہے جو تمام مخلوق میں سے تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے ،اس پر اللہ تعالی نے فر مایا:ائے آدم !تو نے سچ کہا:مجھے ساری مخلوق میں سب سے زیادہ وہی ہیں ،اب جبکہ تم نے اس کے وسیلے سے مجھ سے دعا کی ہے تو میں نے تجھے معاف کردیا اور اگر محمد(صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم)نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہیں کرتا۔یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم حدیث:۴۲۲۸،چشتی)
عن ابن عمر رضی اللہ عنہما انہ قال: استقی عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ عام الرمادۃ بالعباس بن عبد المطلب فقال: اللھم ھذا عم نبیک العباس نتوجہ الیک بہ فاسقینا فما برحوا حتی سقاھم اللہ،قال: فخطب عمر الناس فقال: ایھا الناس ! ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کان یری للعباس ما یری الولد لوالدہ یعظمہ ویفحمہ و یبر قسمہ فا قتدو ا، ایھا الناس بر سول اللہ فی عمۃ العباس واتخذوہ وسیلۃ الی اللہ عزوجل فیما نزل بکم
تر جمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ :حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے قحط و ہلاکت کے سال حضرت عباس بن عبد المطلب کو وسیلہ بنا کر اللہ تعالی سے بارش کی دعا مانگی تو کہا:ائے اللہ! یہ تیرے نبی کے چچا عباس ہیں اِن کے وسیلے سے ہم تیری طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ہمیں بارش عطا فر ما،تو اللہ تعالی نے بارش عطا فر مائی،راوی کہتے ہیں ،پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو خطبہ دیا تو کہا: ائے لوگوں!حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ویسا ہی مقام وحیثیت دیتے تھے جیسا بیٹا اپنے باپ کو دیتا ہے،آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ان کی تعظیم و توقیر کرتے اور ان کی قسموں کو پورا کرتے تھے،لوگوں! تم بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی اقتدا کرو اور انہیں اللہ تعالی کی بارگاہ میں وسیلہ بنائوتاکہ وہ تم پر بارش برسائے ۔ (المستدرک علی الصحیحین، حدیث نمبر ۵۴۳۸،چشتی)
عن ابو الجوزاء اوس بن عبد اللہ قال: قحط اھل المدینۃ قحطا شدیدا فشکوا الی عائشۃ فقالت انظروا قبر النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم فاجعلوا منہ کووا الی السماء حتی لا یکون بینہ وبین السماء سقف قال: ففعلوا فمطرنا مطرا حتی نبت العشب و سمنت الابل حتی تفتقت من الشحم فسمی عام الفتق ۔
تر جمہ : حضرت ابو جوزاء اوس بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ:مدینہ منورہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہوگئے ،تو ان لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے شکایت کی ،ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے قبر انور کے پاس جائواور اس سے ایک کھڑکی (سوراخ یا روشندان) آسما ن کی طرف اس طرح کھولو کہ قبر انور اور آسمان کے در میان کوئی پردہ حائل نہ رہے ۔راوی کہتے ہیں کہ:انہوں نے ایسا ہی کیاتو بہت زیادہ بارش ہوئی یہاں تک کہ خوب سبزہ اُگ آیا اور اونٹ اتنے موٹے ہوگئے کہ محسوس ہوتا کہ چربی سے پھٹ پڑیں گے لہذا اس سال کانام ہی ’ عام الفتق ‘(پیٹ) پھٹنے کا سال رکھ دیاگیا ۔ (سنن الدارمی،باب ما اکرم اللہ تعالی نبیہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم بعد موتہ،حدیث:۹۲،چشتی)
عن مالک الدار قال: وکان خازن عمر علی الطعام قال: اصاب الناس قحط فی زمن عمر فجاء رجل الی قبر النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم فقال: یارسول اللہ!استسق لامتک فانھم قد ھلکوا ،فاتی الرجل فی المنام فقیل لہ ائت عمر فاقرئہ السلام واخبرہ انکم ستسقون وقل لہ علیک الکیس علیک الکیس فاتی عمر فاخبرہ فبکی عمر ثم قال: یارب!لا آلواالا ما عجزت عنہ ۔
ترجمہ : مالک الدار،جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وزیر خوراک تھے ،وہ بیان کرتے ہیں کہ:حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگوں پر قحط آیا،تو ایک شخص(صحابی رسول حضرت بلال بن حارث مزنی) حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے قبر انور پر آئے اور عرض کیا :یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم! اپنی امت کے لئے بارش کی دعا کیجئے کیو نکہ وہ قحط سے ہلاک ہورہے ہیں ،نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ان کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا:عمر کے پاس جائو،ان کو سلام کہواور یہ خبر دو کہ تم پر یقینا بارش ہوگی،اور ان سے کہوکہ تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے،تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے،پھر وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان کو یہ خبر دی حضرت عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور کہا:ائے اللہ !میں کوتاہی نہیں کرتا مگر یہ کہ میں عاجز ہو جائوں۔حافظ ابن کثیر نے کہاکہ:یہ صحیح اسناد سے مروی ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ،جلد ۱۲،ص:۳۲،البدایۃ والنھایۃ، جلد:۷، ص:۹۱۔۹۲،قال الحافظ ابن کثیر ھذا اسناد صحیح) ، بعد از وصال وسیلہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم والی روایت جس میں مالک دار رضی اللہ عنہ کی متابعت حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کر رکھی ہے اگر بلفرض مالک کو مجھول مان لیا جائے تو مضرنہیں اور دوسری سند میں اعمش بھی نہیں ہے لہٰذا تدلیس والا بھی بہانہ ختم ہو جاتا ہے ۔ ( الریاض النضرہ فی مناقب العشرہ نمبر678 باب ذکراحالتہ من سائلہ فی منامہ الدعاء علیہ مترجم اردو جلد اوّل کے صفحات نمبر 668 ، 669 مطبوعہ مکتبہ نور حسینیہ بلال گنج لاہور،چشتی)
عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما عن النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم قال :بینما ثلاثۃ نفر یمشون اخذھم المطر فأووا الی غار فی جبل ،فانحطت علی فم غار ھم صخرۃ من الجبل ،فا نطبقت علیھم فقال بعضھم لبعض:انظروا اعمالا عملتمو ھا صالحۃ للہ ،فادعو اللہ بھا لعلہ یفرجھا عنکم ،قال احدھم :اللھم!انہ کان لی والدان شیخان کبیران ،ولی صبیۃ صغار کنت ارعی علیھم ،فاذا علیھام حلبت ،فبدأت بوالدی أسقیھما قبل بَنِیّ ،وانّی استاخرتُ ذات یوم و لم آتِ حتی امسیتُ ،فو جد تھما ناما ،فحلبت کما کنت احلبُ فقمت عند رئوسھما اکرہ ان او قظھما ،و اکرہ ان اسقی الصبیۃ ،والصبیۃ یتضا غون عند قدمی حتی طلع الفجر ،فا ن کنت تعلم انّی فعلتہ ابتغاء وجھک ،فافرج لنا فر جۃ نری منھا السمائ،ففرج اللہ فرأوالسمائ،وقال الاٰخر :اللّٰھم! انھا کانت لی بنت عم احببتھا کاشد ما یحب الرجال النساء ،فطلبت منھا ،فابت حتی أتیتھا بمأئۃ دینار ،فبغیتُ حتی جمعتھا فلما وقعت بین رِجلیھا قالت:یا عبد اللہ اتق اللہ و لا تفتح الخاتم الّا بحقہ ،فقمت،فان کنت تعلم اِنّی فعلتہ ابتغاء و جھک ،فافرج عنا فر جۃ ،ففرج،وقال الثالث:اللّٰھم !اِنّی استأجرت أجیرا بفرق أرُزّ،فلما قضی عملہ قال:اعطنی حقی ،فعر ضت علیہ فرغب عنہ ،فلم ازل ازرعہ حتی جمعت منہ بقرا و رعا تھا ،فجائنی ،فقال:اتق اللہ،فقلتُ :اذھب الی ذالک البقر و رعاتھا فخذ،فقال :اتق اللہ ولاتستھزی بی ،فقلتُ:انی لا استھزی بک ،فخذ ،فأخذہ ،فان کنت تعلم انی فعلت ذالک ابتغاء وجھک،فافرج ما بقی ، ففرج اللہ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا :تین آدمی سفر میں جارہے تھے کہ زور دار بارش ہو نے لگی،تو انہوں نے پہاڑ کے ایک غار میں پناہ لی ،اتنے میں غار کے منہ پہ پہاڑ کا ایک چٹان آگرا اور یہ لوگ اس میں بند ہو گئے ۔پھر انہوں نے ایک دوسرے سے کہا :تم لوگوں اپنے نیک کاموں پر غور کرو جو تم نے صرف اللہ کی رضا اور خوشنودگی کےلیے کیا ہے ،اور ان نیک کاموں کے وسیلے سے اللہ تعالی سے دعا کرو ،شاید اللہ تعالی تم سے یہ مصیبت دور کر دے ۔تو اس میں سے ایک آدمی نے دعا کیا :ائے اللہ !میرے بوڑ ھے ماںباپ تھے ،اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے تھے ،میں بکریاں چرا تا تھا ،جب میں واپس آتا تو دودہ دوہتا اور اپنے بچوں سے پہلے اپنے ماں باپ کو دودہ پلاتا ،ایک دن مجھے آنے میں تا خیر ہو گئی ،تو میں رات سے پہلے نہ آسکا ،جب میں آیا تو میرے ماں باپ سو چکے تھے ،میں نے حسب معمول دودہ دوہا اور ایک بر تن میں دودہ ڈال کر ماں باپ کے سر ہانے کھڑا ہو گیا ،میں ان کو نیند سے بیدار کر نا نا پسند کر تا تھا اور ان سے پہلے اپنے بچوں کو دودہ پلانا بھی نا پسند کر تا تھا ،حالانکہ بچے میرے قدموں مین چیخ رہے تھے،میں اسی طرح کھڑا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ائے اللہ! یقینا تو جا نتا ہے کہ یہ کام میں نے تیری رضا کے لئے کیا تھا ،تو ہمارے لئے کچھ کشادگی کردے تاکہ ہم غار میں سے آسمان کو دیکھ لیں۔تو اللہ تعالی نے کچھ کشادگی کر دی تو ان لوگوں نے آسمان کو دیکھ لیا ۔
پھر دو سرے آدمی نے دعا کی :ائے اللہ !میر ے چچا کی ایک لڑکی تھی جس سے میں بہت محبت کر تا تھا ،میں نے اس سے مقاربت کی درخواست کی،اس نے انکار کیا اور کہا پہلے سو دینار لائو۔میں نے بڑی محنت کر کے سو دینار جمع کیا اور اس کے پاس گیا ،جب میں جنسی عمل کر نے پر قادر ہو گیا تو اس نے کہا :ائے اللہ کے بندے اللہ سے ڈر اور ناجائز طریقے سے مہر نہ توڑ ،تو میں اسی وقت اس سے الگ ہو گیا ۔ائے اللہ! تجھے یقینا معلوم ہے کہ میں نے یہ کا م صرف تیری خوشی کے لئے کیا تھا ،پس تو ہمارے لئے اس غار کو کچھ کھول دے،تو اللہ تعالی نے غار کو مزید کھول دیا۔
پھرتیسرے شخص نے کہا:ائے اللہ !میں نے ایک شخص کو ایک فر ق(یعنی ایک پیمانہ آٹھ کلو گرام)چا ولوں کی اجرت پہ رکھا تھا ،جب اس نے اپنا کام پورا کر لیا تو اس نے کہا مجھے میری اجرت دو ،میں نے اسے مقررہ اجرت دے دی مگر اس نے اس اعراض کیا ،میں ان چاولوں کی کاشت کر تا رہا یہاں تک کہ میں نے اس کی آمدنی سے بیل اور چر واہے جمع کر لئے،پھر ایک دن وہ شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا :اللہ سے ڈرو اور میرا حق نہ مارو ،میں نے کہا :یہ بیل اور چر واہے لے جاؤ۔اس نے کہا اللہ سے ڈر اور میرے ساتھ مذاق نہ کرو ، میں نے کہا میں مذاق نہیں کرتا یہ بیل اور چر واہے لے لو ،وہ ان کو لے کر چلا گیا ۔ اے اللہ !تو یقینا جا نتا ہے کہ میں نے یہ کام صرف تیری خوشی اور رضا کے لئے کیا تھا ،تو اب تو غار کا با قی منہ بھی کھول دے ۔ تو اللہ تعالی نے غار کا باقی منہ بھی کھول دیا ۔ (الصحیح البخاری،رقم الحدیث : ۲۳۳۳) ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment