Thursday 7 December 2023

وسیلہ قرآن اور حدیث کی روشنی میں حصّہ پنجم

0 comments
وسیلہ قرآن اور حدیث کی روشنی میں حصّہ پنجم
بعد از وصال وسیلہ کی حدیث مع منکرین کے اعتراض کا جواب : أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَةَ وَأَبُو بكر الفارسي قالا : حدثنا أبو عمر بْنُ مَطَرٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَلِيٍّ الذُّهْلِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ مَالِكٍ مَالِکٍ الدَّارِ رضی الله عنه قَالَ : أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ ص، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلٰی قَبْرِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ ﷲِ، اسْتَسْقِ لِأُمَّتِکَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَکُوْا، فَأَتَی الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيْلَ لَهُ : ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْ هُ السَّلَامَ، وَأَخْبِرْهُ أَنَّکُمْ مَسْقِيُوْنَ وَقُلْ لَهُ : عَلَيْکَ الْکَيْسُ، عَلَيْکَ الْکَيْسُ، فَأَتَی عُمَرَ، فَأَخْبَرَهُ، فَبَکَی عُمَرُ، ثُمَّ قَالَ : يَا رَبِّ، لَا آلُوْ إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ.رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي الدَّلَاءِلِ. وَقَالَ ابْنُ کَثِيْرٍ : إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ : رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ ۔
ترجمہ : حضرت مالک دار رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ قحط پڑا، ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی قبر شریف پر حاضر ہوکر عرض کیا: ”یا رسول اللہ ! اپنی امت کیلئے بارش کی دعا فرمائیں وہ ہلاک ہورہی ہے ۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس شخص کے خواب میں تشریف لاۓ اور فرمایا : ”عمر کے پاس جاؤ ، میرا سلام کہو اور بشارت دو کے بارش ہوگی اور یہ بھی کہو کے نرمی اختیار کریں“، اس شخص نے حاضر ہوکر خبر دی (تو) خبر سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھیں نم ہو گئیں اور فرمایا اے رب جو چیز میرے اختیار میں ہے اس میں تو میں نے کبھی کوتاہی سے کام نہیں لیا ۔ (علامہ ابن کثیر کہتے ہیں اس کی اسناد صحیح ہیں)۔(المصنف ج ١٢ ص ٣٢‘ مطبوعہ ادارۃ القرآن ‘ کراچی ‘ ١٤٠٦ ھ،چشتی)

اِس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے المصنف میں اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے دلائل النبوۃ میں روایت کیا ہے ۔ علامہ ابن کثیر نے فرمایا : اِس کی اسناد صحیح ہے ۔ امام ابن ہجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمایا : امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اسنادِ صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ سب سے پہلے تو ان اعتراض کے جواب میں صرف اتنا ہی کہنا کافی ہوگا کہ : اس حدیث کو مخالفین و موافقین سب کے نزدیک مسلم ائمہ و محدثین الحافظ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ ابن کثیر نے اس کی سند کو " صحیح " کہا ہے، (الفتح الباری ٢/ ٤٩٥)(البداية والنهاية ٨ / ٨٤ ، البدایہ والنہایہ مترجم اردو جلد نمبر 7 صفحہ نمبر 126 ،127)

یہاں ہی حجت تمام ہو جاتی ہے ، لیکن اعتراض کا تھوڑا تفصیلی جواب بھی ضروری ہے ، مالک الدار رضی الله تعالی عنہ کی توثیق ! آپ مشور تابعی ہیں اور آپ حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ کے خادم اور وزیر خزانہ تھے .علّامہ ابن سعد نے مالک الدار کو تابعین میں شمار کیا ہے اور فرمایا کہ وہ حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضرت ابوبکر رضی الله تعالی عنہ اور حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں اور ان سے ابو صالح السمّان نے اور فرمایا " کان معروفا " ۔ (الطبقات الکبیر ، ٦ / ١٢/ ١٤٢٣،چشتی)

امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الثقات میں فرمایا ، مالک بن عیاض الدار ، حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ اور ابو صالح السمّان سے روایت کی ہیں . (" الكتاب: الثقات جلد ٥ ص ٣٨٤")

الحافظ امام شمس الدین ذھبی رحمۃ اللہ علیہ نے تجريد الأسماء الصحابه میں فرمایا ، مالك الدار مولي عمر بن خطاب ٠روي عن ابي بكر٠حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضرت ابوبکر رضی الله تعالی عنہ روایت کرتے ہیں.( تجريد الأسماء الصحابه ٢ / ٤٤ ،چشتی)

الحافظ امام ابن الحجر العسقلانی مالک الدار کو صحابی رسول شمار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ نے نبی کریم علیہ السلام کو دیکھا اور تفصیل سے آپ کے حالات نقل کئیے.("الاصابة في تميز الصحابة ٦ / ١٦٤ ")

اسی لئے کہتے جھوٹ کے پیر نہیں کذاب البانی نے التوسل میں اس حدیث پر ضعیف کا حکم لگایا مالک الدار کو مجہول کہ کر مگر صحیح الترغیب و الرھیب میں مالک الدار والی ایک روایت پر البانی حسن کا فتویٰ صادر کر رہے ہیں ؟ یہ البانی کا ایک دجل اور ملاحضہ فرمائیں ۔ (صحیح الترغیب و الرھیب ١/ ٩٢٦)

جواب : امام اعمش کی تدلیس ، امام اعمش بخاری و مسلم کے باالجماع ثقہ راوی ہیں ، ایک اہم نقطہ، وہابیوں کا کذاب محدث و امام ناصر الدین البانی نے بھی اس حدیث پر امام اعمش کی ممکنہ تدلیس پرکوئی اعتراض نہیں کیا جس کا شور شرابہ آج کا جاہل وہابی کرتا پھرتا ہے ۔

تدلیس کے اعتبار سے محدثین نے رواۃ حدیث کے مختلف طبقات بنائے ہیں،بعض طبقات کی روایات کو صحت حدیث کے منافی جبکہ دوسرے بعض کی روایات کو مقبول قرار دیاہے۔ مذکورہ راوی کے بارے میں تحقیق پیشِ خدمت ہے : امام اعمش مدلس ہیں مگر انکی حدیث ٢ امور کی بنا پر مقبول ہے، چاہے سماع کی تصریح کرے یا نا کرے، امام اعمش کا شمار مدلسین میں مرتبہ ثانیہ میں ہوتا ہے .

اور محدثین علیہم الرّحمہ نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ طبقہ ثانیہ کے مدلس کی روایت مقبول ہے، طبقہ ثانیہ کے مدلسین کی تدلیس مضر نہیں . ( التدلیس والمدلسون للغوری ص104،چشتی)(جامع التحصیل فی احکام المراسیل ص113، روایات المدلسین للعواد الخلف ص32)

امام اعمش رحمۃ اللہ علیہ طبقہ ثانیہ کے مدلس ہیں ہیں جن کے بارے میں الحافظ امام ابن الحجر العسقلانی فرماتے ہیں.من احتمل الائمة تدليسه وأخرجوا له في الصحيح ، یعنی اس طبقے میں ان آئمۃ حدیث کو شمار کیا گیا ہے جن سے تدلیس کا احتمال ہے اور ان سے بخاری اور مسلم نے اپنی صحیح میں روایت لی .

علامہ ابن حزم محدثین کا ضابطہ بیان کرتے ہوئے ان مدلسین کی فہرست بتاتے ہیں جن کی روایتیں باوجود تدلیس کے صحیح ہیں اور ان کی تدلیس سے صحت حدیث پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ منهم كان جلة أصحاب الحديث وأئمة المسلمين ١.كالحسن البصري ٢.وأبي إسحاق السبيعي و٣.قتادة بن دعامة و٤.عمرو بن دينار٥. وسليمان الأعمش ٦.وأبي الزبير و٧.سفيان الثوري و٨.سفيان بن عيينة ۔ (الاحکام لابن حزم ج2،ص141 ،142 فصل من یلزم قبول نقلہ الاخبار،چشتی)

اور اس میں یہی سليمان الأعمش بھی ہیں . اگر بالفرض وہابیوں کے اس اعتراض کو تسلیم بھی کرلیا جاے کہ اس حدیث کو سماع کی تصریح کی وجہ سے ہی قبول کریں جیسا کہ اہل مرتبہ ثالثہ اور بعد کے مدلسین کا مقام ہے پھر بھی یہ حدیث مقبول ہے کیوں کہ یہاں امام اعمش نے ابن ابی صالح سے اسکو روایت کیا ہے ، اور امام الائمہ فی الحدیث امام شمس الدین ذھبی " میزان الاعتدال" میں رقمطراز ہیں . ومتى قال: عن تطرق إليه احتمال التدليس إلا في شيوخ له أكثر عنهم كـ إبراهيم وأبي وائل وأبي صالح السمان فإن روايته عن هذا الصنف محمولة على الاتصال ۔ (ميزان الاعتدال ٢ / ٢٢٤)
ترجمہ : امام اعمش رحمۃ اللہ علیہ جب " عن " کہیں تو تدلیس کا احتمال عارض ہوتا ہے ، مگر علاوہ ان شیوخ کے جن سے وہ اکثر روایت لیتے ہیں، جسے، ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ ، ابی وائل رحمۃ اللہ علیہ اور ابی صالح السمّان رحمۃ اللہ علیہ . بلا شبہ اس نوع سے ان کی روایت اتصال پر محمول ہوتی ہے ۔ (ميزان الاعتدال ٢ / ٢٢٤)

نیز حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : حافظ ابوبکر بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ مالک سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں (ایک بار) قحط واقع ہوا ایک شخص (حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجئے کیونکہ وہ (قحط سے) ہلاک ہو رہی ہے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس شخص کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا : عمر کے پاس جاؤ ان کو سلام کہو اور یہ خبر دو کہ تم پر یقیناً بارش ہوگی ‘ اور ان سے کہو : تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے ‘ تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے ‘ پھر وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان کو یہ خبر دی ‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عنہ نے کہا : اے میرے رب ! میں صرف اسی چیز کو ترک کرتا ہوں جس میں میں عاجز ہوں ۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے ۔ (البدایہ والنہایہ ج ٧ ص ٩٢۔ ٩١ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت)(حافظ ابوعمرو بن عبدالبر ، حافظ عمرو یوسف بن عبداللہ عبدالبر قرطبی مالکی متوفی ٤٦٣ ھ ‘ الاستیعاب علی ہامش الاطابہ ج ٢ ص ٤٦٤‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت،چشتی) ، اور حافظ ابن کثیر نے بھی اس روایت کو ذکر کیا ہے ۔ (الکامل فی التاریخ ج ٢ ص ٣٩٠۔ ٣٨٩‘ مطبوعہ دارالکتاب العربیہ بیروت ‘ ١٤٠٠ ھ)

علم حدیث میں حافظ ابن کثیر کی شخصیت موافقین اور مخالفین سب کے نزدیک مسلم ہے اور حافظ ابن کثیر نے امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور اس روایت میں یہ تصریح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ نے آپ کے قبر انور پر جا کر آپ سے بارش کی دعا کے لیے درخواست کی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ واقعہ اور اپنا خواب بیان کیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو مقرر رکھا اور اس پر انکار نہیں کیا ‘ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک بھی وصال کے بعد صاحب قبر سے دعا کی درخواست کرنا جائز ہے ۔

اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : امام ابن ابی شیبہ نے سند صحیح کے ساتھ حضرت عمر کے خازن مالک الدار سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں (ایک بار) قحط واقع ہوا ‘ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجئے ‘ کیونکہ وہ ہلاک ہو رہی ہے ‘ پھر اس شخص کو خواب میں آپ کی زیارت ہوئی اور یہ کہا گیا کہ عمر کے پاس جاؤ ‘ الحدیث۔ سیف نے ” فتوح “ میں روایت کیا ہے کہ جس شخص نے یہ خواب دیکھا تھا وہ یکے از صحابہ حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ تھے۔ (فتح الباری ج ٢ ص ٤٩٦ مطبوعہ دار نشر الکتب الاسلامیہ ‘ لاہور ١٤٠١ ھ) ۔

اس حدیث کو حافظ ابن کثیر اور حافظ ابن حجر عسقلانی دونوں نے سندا صحیح قرار دیا ہے اور ان دونوں کی تصحیح کے بعد کسی تردد کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور نہ کسی کا انکار درخور اعتناء ہے ۔

مذکورہ دلاٸل سے ثابت ہوا کہ کسی ایسے بزرگ کے وسیلے سے بھی دعا کرنا جائز ہے جو ابھی پیدا بھی نہ ہوئے ۔ در اصل وسیلہ میں خا ص نکتہ یہی ہے کہ جس کو ہم وسیلہ بنا رہے ہیں وہ اللہ کی بارگا ہ میں پسندیدہ اور مقبول ہو ۔ چا ہے وہ ابھی دنیا میں موجود ہو یا دنیا سے جا چکا ہو یا ابھی آیا ہی نہ ہو۔ان سب کو وسیلہ بنانا جائز ہے ۔ اور جو اللہ کی بارگا ہ میں مردود ہو، اس کو وسیلہ بنانا ہر گز جائز نہیں چاہے وہ دنیا میں موجود ہو یا جا چکا ہو یا ابھی آیا ہی نہ ہو ۔ چنانچہ ہم ایک فاسق و فاجر یا کافر ، مشرک کی ذات کو کسی صورت میں وسیلہ نہیں بنا سکتے ۔ چا ہے وہ زندہ ہو یا مردہ ۔ اور اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہستیوں جیسے انبیائے کرام علیہم السلام ، صحابہ عظام رضی اللہ عنہم اور اولیائے کرام علیہم الرحمہ کو ہر حال میں وسیلہ بنا سکتے ہیں ۔ کیو نکہ وہ ہر حال میں اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہیں ۔ بہت سارے سادہ لوح قسم کے لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے ۔ اس لیے اس نکتہ کو خوب سمجھ لیں کہ وسیلہ بنانے کےلیے اُس ذات کا زندہ یا موجود ہونا شرط نہیں بلکہ اس کا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہونا شرط ہے ۔

بعد وصال بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر بزرگانِ دین علیہم الرحمہ کے وسیلے سے دعا کر نا جائز ہے : وصال کر جا نے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقبولیت اور محبوبیت ختم نہیں ہوئی بلکہ اب بھی ہی ہے جیسے حیات مبارکہ میں تھی ، بلکہ اب تو اور زیا دہ بڑھ گئی کہ قرآن حکیم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تعلق سے ارشاد ہوا ’’وللاٰ خرۃخیر لک من الاولی‘‘ کہ آپ کی ہر آنے والی گھڑی پچھلی گھڑی سے بہتر ہے ۔ اس لیے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے دعا کر نا جائز تھا ویسے ہی اب بھی جائز ہے بلکہ قبولیت د عا کا سب سے عظیم ذریعہ ہے ۔ چنانچہ امام دارمی علیہ الرحمہ اپنی سنن میں اوس بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے صحیح اسناد کے ساتھ روایت کر تے ہیں کہ:ایک مر تبہ مد ینہ شریف کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہو گئے تو انہوں نے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے اپنے حالات کی شکایت کی ، تو آپ رضی اللہ عنھا نے فر مایا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کے پاس جاٶ اور اس کی ایک کھڑکی آسمان کی طرف اس طرح کھول دو کہ قبر مبارک اور آسمان کے درمیان کو ئی پر دہ نہ رہے ۔ راوی کہتے ہیں کہ :انہوں نے ایسا ہی کیا،تو خوب بارش ہوئی ۔ اور اُس سال خوب سبزہ اُگا جس کی وجہ سے اونٹ اتنے موٹے ہو گئے کہ محسوس ہوتا کہ چربی کی وجہ سے پھٹ پڑیں گے ۔ اس لیے اُس سال کا نام ہی ’’ عام الفتق‘ پیٹ پھٹنے کا سال رکھ دیا گیا ۔ (سنن دارمی،باب ما اکرم اللہ تعالیٰ نبیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعد موتہ، حدیث:۹۲)۔(اس حدیث پر ہم تفصیل سے عرض کر چکے ہیں)

اب آپ خود ہی سوچیں کہ مصیبت سے نجات حاصل کرنے کےلیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سیدھے اللہ عزوجل سے کیوں نہ دعا کی ؟ پھر اس وقت صحابہ کرام اور جلیل القدر تابعین رضی اللہ عنہم بھی تو زندہ تھے ۔ انہوں نے شر ک کا فتوی کیوں نہ لگایا ؟ کیا آج کے منکرین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور دیگر صحابہ کرام اور تابعین عظام رضی اللہ عنہم سے بڑھ کے تو حید پرست ہیں ؟ اگر اِن سوالوں میں سے ہر ایک کا جواب ’’ نہیں ‘‘ ہے تو بلاشبہ جس طر ح باحیات بزرگوں کے وسیلہ سے دعا کرنا جائز ہے ۔ اسی طر ح وفات یافتہ بزرگوں کے وسیلہ سے بھی دعا کرنا جائز ہے ۔

وسیلہ ، کے جواز اور اس کے استحسان پر تمام علمائے اہل سنت و جماعت متفق ہیں ۔چنانچہ ائمہ اربعہ ، امام طبرانی،امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی،امام فخر الد ین رازی،امام قر طبی،علامہ ابن حجر عسقلانی،امام احمد بن محمد شہاب الدین قسطلانی،ملا علی قاری ،علامہ جلال الدین سیوطی،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمائے امت علیہم الرحمۃ والرضوان نے اس کے جواز کا فتوی صادر فرمایا ۔ فقیر یہاں پر بنظرِ اختصار صرف امام ابو زکریا محی الدین بن شرف نووی رحمۃ اللہ علیہ کے قول پر اکتفا کرتا ہے ۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ ’کتاب الاذکار‘ کے باب ’الاذکار فی الاستسقا‘ میں کسی بزرگ کے وسیلے سے دعا کرنے کے جواز پر اس طرح سے اظہار خیال فر ماتے ہیں : جب تم میں کو ئی ایسا آدمی ہو جس کا زہد و تقوی مشہور ہو تو اس کی ذات کے وسیلے سے بارش طلب کیا کرو ، اور یوں دعا مانگا کرو ’’ اے اللہ ! ہم تیرے فلاں بندے کے وسیلے سے بارش اور شفاعت طلب کر تے ہیں ۔ جس طرح بخاری شر یف میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے بارش طلب فر مائی ۔ (کتاب الاذکار صفحہ ۱۴۰)

الحمد للہ : وسیلہ کے جواز پر قرآن کریم ، احادیث مبارکہ ، معمولات صحابہ رضی اللہ عنہم اور اقوال ائمہ علیہم الرحمہ سے ، بہت سارے دلائل فراہم کیے گئے ہیں جو متلاشیانِ حق کےلیے کافی سے زائد ہیں ۔ مگر اس کے باوجود کوئی انکار کرے ، اسے شرک و بدعت اور ناجائز و حرام کہے اور مسلمانوں کے درمیان بلا وجہ لڑائی جھگڑے کی صورت پیدا کرے اور اپنی مخصوص ذ ہنیت لوگوں پر مسلط کرنا چاہے تو دنیا میں اس کا کوئی علاج نہیں ۔ ہاں ! البتہ جب میدانِ محشر بپا ہو گا اور لوگ اس دن کے سخت مصائب و الام سے گھبرا کر انبیائے کرام علیہم السلام کو پریشانیوں سے نجات پانے کےلیے وسیلہ بنائیں گے اور ان کی بارگاہوں میں جا کر ان سے فریاد کریں گے ۔ سب دوسرے کے پاس جانے کا مشورہ دیں گے اور آخر میں حضو ر رحمۃ للعا لمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ’’اَناَ لَھاَ‘‘ کا مژدہ سنائیں گے ، تب جا کے لو گوں کو سکون نصیب ہو گا ۔ تو یقیناً اس دن یہ لوگ مان جائیں گے کہ : ہاں ہم بغیر وسیلہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارگاہِ خداوندی میں نہیں پہنچ سکتے ۔ مگر اس دن ماننے سے فائدہ بھی کیا ہو گا جبکہ دنیا میں انکار کر چکے ۔ پھر انجام کیا ہو گا ؟ ٹھنڈے دل سے سو چیے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔