Friday 8 December 2023

دم و تعویذات قرآن و حدیث اور دیگر دلائل کی روشنی میں حصّہ اوّل

0 comments
دم و تعویذات قرآن و حدیث اور دیگر دلائل کی روشنی میں حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام : آج کل منکرین حدیث کا ایک گروہ نئے لیبل غیرمقلدین نام نہاد اہلحدیث حضرات کا ہے جن کا دعویٰ تو قرآن و حدیث کا ہے مگر یہ گروہ اپنی خواہش نفس کا غلام ہے جو بات ان کی خواہش نفسانی کے مطابق ہو وہ درست باقی سب غلط یہی سلوک یہ احادیث مبارکہ کے ساتھ کرتے ہیں دم اور تعویذات کے بارے میں بھی ان کا یہی رویہ ہے خود ان کے مولوی کریں تو جائز اور جب مسلمانانِ اہلسنّت کی باری آتی ہے تو شرک کے فتوے آیئے اس حقیقت کو جانتے ہیں ۔ دورِ جدید کے اِن منکرین حدیث کی حقیقت کو بھی آپ پہچان لیں گے ان شاء اللہ ۔

تعویذ کے لغوی معنی "حفاظت کی دعا کرنا" ہے . (مصباح اللغات : 583) ۔ فعل کے حساب سے (عربی میں) مادہ عوذ کے تحت "عَوَّذَ تَعوِِِيذًا وِ أعَاذَ" باب تفعيل کے وزن سے تعویذ بنتا ہے . (المنجد : صفحہ ٥٩٣) ۔ دوسرے لفظوں میں آپ اسے اسم کے حساب سے "تحریری دعا" کہہ لیجیے ۔ جس طرح زبانی دعا کی قبولیت و اثر پذیری الله تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے ، ٹھیک اسی طرح پر قرآن کی آیات پر مشتمل تعویذ یعنی "تحریری دعا" کے اثرات و فوائد بھی الله تعالیٰ کی مشیت و مرضی پر ہی منحصر ہے. مَثَلاً : حدیثِ بخاری و مسلم میں ہے کہ رسول الله (صلی الله علیہ وآلہ وسلم) پر لبید بن اعصم یہودی کے کیے ہوۓ سحر (جادو) کے اثرات ختم کرنے کے لئے وحی الہی کی ہدایت پر آپ (صلی الله علیہ وآلہ وسلم) پر "معوذتين" یعنی سوره الفلق اور سوره الناس کا تلاوت کرنا، (تفسیر ابن عباس) صحابی رسول حضرت ابو سعید خدری (رضی الله عنہ) سے مروی وہ حدیث جس میں انہوں ایک سفر میں سورہ الفاتحہ پڑھ کر دم کرنے کے عمل سے سانپ کے کاٹے ہوۓ ایک مریض کا علاج کیا تھا اور وہ تندرست ہوگیا تھا اور بعد میں رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے سارا واقعہ سنکر سورہ الفاتحہ کی اس تاثیر کی تصدیق فرمائی تھی ۔

تعویذ کے شرعا جائز ہونے کی تین شرائط ہیں

(1) کسی جائز مقصد کے لیے ہو، ناجائز مقصد کے لیے ہرگز نہ ہو ۔

(2) اس کو مؤثر بالذات نہیں سمجھا جائے ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہی مؤثر حقیقی سمجھا جائے ۔

(3) وہ تعویذ قرآن و حدیث یا اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات پر مشتمل ہو، یا عربی یا کسی اور زبان کے ایسے الفاظ پر مشتمل ہو جن میں کفر و شرک یا گناہ کی بات نہ ہو اور ان کا مفھوم بھی معلوم ہو ۔

اگر مذکورہ شرائط نہ پائی جائیں تو پھر تعویذ کرنا اور پہننا شرعا ناجائز ہوگا ۔

وہ تعویذات جن میں شرکیہ الفاظ نہ ہوں ، قرآنی آیات حدیثوں میں ذکر شدہ دعاؤوں پر مشتمل ہوں ان کا استعمال جائز ہےاورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے ۔ اس لیئے جائز تعویذات کا استعمال جائز ہے ، انہیں ناجائز کہنا یا سمجھنا گمراہی ہے ۔

حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہما اپنے والد سے اور وہ ان کے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی نیند میں ڈر جائے تو یہ دعا پڑھے أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرَّهُ وَکَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يُلَقِّنُهَا مَنْ بَلَغَ مِنْ وَلَدِهِ وَمَنْ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهُمْ کَتَبَهَا فِي صَکٍّ ثُمَّ عَلَّقَهَا فِي عُنُقِهِ (یعنی۔ میں اللہ کے غضب، عقاب، اسکے بندوں کے فساد، شیطانی وساوس اور ان (شیطانوں) کے ہمارے پاس آنے سے اللہ کے پورے کلمات کی پناہ مانگتا ہوں) اگر وہ یہ دعا پڑھے گا تو وہ خواب اسے ضرر نہیں پہنچا سکے گا۔ عبدالرحمن بن عمرو یہ دعا اپنے بالغ بچوں کو سکھایا کرتے تھے اور نابالغ بچوں کے لیے لکھ کر ان کے گلے میں ڈال دیا کرتے تھے ۔ (جامع ترمذی جلد دوم حدیث نمبر 1479 (29413) دعاؤں کا بیان : (سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 503 (18572،چشتی) – طب کا بیان : تعویز کیسے کیے جائیں)(مصنف ابن أبي شيبة » كِتَابُ الطِّبِّ » مَنْ رَخَّصَ فِي تَعْلِيقِ التَّعَاوِيذِ, رقم الحديث: 22933)

تمائم و تعویذات میں فرق

التميمة : وهي خرزات كانت العرب تعلقها على أولادهم , يتقون بها العين في زعمهم ۔ (النهاية لابن الأثير : ج 1 ، ص 197)
ترجمہ : تميمة : "یہ خرزات (پتھر، منکے اور کوڑیوں کی مالا) کو کہتے ہیں جنہیں (زمانہ جاہلیت میں) عرب لوگ ( موثر بالذات سمجھ کر) بچوں کو اس کے ذریعہ سے نظرِ بد سے بچانے کے زعم (عقیدہ و نظریہ) سے پہناتے تھے ۔

امام بغوی فرماتے ہیں : ’’ اَلتَّمَائِمُ جَمْعُ تَمِیْمَۃٍ وَ ہِیَ خَرَزَاتٌ کَانَتِ الْعَرَبُ تُعَلِّقُہَا عَلٰی اَوْلاَدِہِمْ یَتَّقُوْنَ بِہَا الْعَیْنَ بِزَعْمِہِمْ فَاَبْطَلَہَا الشَّرْعُ ۔ (شرح السنۃ 12۔ 158)
ترجمہ : تمائم، تمیمہ کی جمع ہے، اور یہ گھونگے ہیں جنھیں عرب اپنے گمان میں اپنی اولاد کو نظربد وغیرہ سے بچانے کےلیے پہناتے تھے ، شریعت نے انھیں باطل قرار دیا ہے۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ : (( لَیْسَتِ التَّمِیْمَۃُ مَا تَعَلَّقَ بِہ بَعْدَ الْبَلاَئِ اِنَّمَا التَّمِیْمَۃُ مَا تَعَلَّقَ بِہ قَبْلَ الْبَلاَئِ ۔
ترجمہ : تمیمہ وہ نہیں جو بلاء (مرض) کے بعد لٹکایا جائے ، تمیمہ تو وہ ہے جو بلاء سے پہلے لٹکایا جائے ۔ (المستدرک للحاکم :۴/۲۱۷ , الترغیب : ج۵ ص۲۷۱ ؛ طحاوی : ٢/٣٦٠)

اسماء اللہ تعالیٰ یا ادعیہٴ ماثورہ کے تعویذ کو بھی شرک قرار دینا تحکم و زیادتی ہے ، اس لیئے کہ اس قسم کے تعویذ کے لینے دینے اور استعمال کی اجازت کتب حدیث سے ملتی ہے ، (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، مرقات شرح المشکاة، ص:۳۲۱ و ۳۲۲، ج۸، الترغیب والترہیب، ج۵ ص۲۷۱، ابوداوٴد شریف، ج۲، ص۹۲ وغیرہا) لہٰذا بعض لوگوں کا تعویذ پہننے کو مطلقاً شرک قرار دینا غلط ہے .

جہاں تک ان احادیث كا تعلق ہے جس میں آپ (صلی الله علیہ وسلم) نے تعویذ لٹکانے سے منع فرمایا ہے تو یہ اس صورت پر محمول ہیں . اس سے مراد شرکیه ، کفریه الفاظ پر مشتمل ، ناجائز تمیمه وغیره هے . ( مسند احمد بن حنبل،رقم الحدیث 6696،ج،6،ص،246)(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الطہارۃ 8، 36)۔(جامع الترمذي » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » بَاب مَا جَاءَ فِي عَقْدِ التَّسْبِيحِ بِالْيَدِ ۔۔۔ رقم الحديث: 3475 (3528)(سنن أبي داود » كِتَاب الطِّبِّ » بَاب كَيْفَ الرُّقَى ۔۔۔ رقم الحديث: 3397 (3893)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم انہیں کلمات کو پڑھ کر دم کرتے تھے اورفرماتے تھے کہ حضرت ابراہیم واسماعیل اوراسحاق علیہم السّلام انہیں کلمات سے تعویذ کرتے تھے ۔ اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَھَامَّۃٍ وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَامَّۃٍ ۔ (بخاری:۲/۴۷۷)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس صحابی سے جنہوں نے قرآن کریم سے جھاڑ پھونک کی تھی اور اس پر اجرت بھی لی تھی، فرمایا : ’’وہ لوگ بھی تو ہیں جو باطل جھاڑ پھونک پر اجرت لیتے ہیں، تم نے تو برحق دم کر کے اجرت لی (مَنْ أخَذ برُقْية باطِلٍ فقد أَخَذْت بِرُقْية حَقٍّ)‘‘اور جیسے حضور کا یہ فرمان جو حدیث جابر میں ہے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :اعْرِضُو ْهَا عَلَيَ فعرَضْناها فقال لا باْس بها اِنما هی مواثِيقُ. کأَنّه خاف أَن يقع فيها شيی ممّا کانوا يتلفظون به و يعتقدونه من الشرک فی الجاهلية وما کان بغير اللسان العربی ممّا لا يعرف له ترجمته ولا يمکن الوقوف عليه فلا يجوز استعماله ۔
ترجمہ : وہ دم جھاڑ میرے سامنے لاؤ ! ہم نے پیش کر دیا فرمایا کوئی حرج نہیں یہ تو وعدے معائدے ہیں۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈر تھا کہ کہیں دم میں کوئی ایسا حرف نہ ہو جسے وہ بولا کرتے اور جس شرک کا دورِ جاہلیت میں عقیدہ رکھتے تھے یا جو عربی زبان میں نہ ہو جس کا ترجمہ نہ آئے اور نہ اس کا مفہوم تک پہنچنا ممکن ہو ایسا دم جائز نہیں۔ رہا سرکار کا یہ فرمان کہ : ’’نظربد اور بخار کے علاوہ کسی اور مقصد کیلیے دم درود نہیں‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دم سے بڑھ کر کوئی دم بہتر اور نفع دینے والا نہیں۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سے زائد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جھاڑ پھونک کا حکم دیا۔ اور ایک بڑی جماعت کے بارے میں سنا کہ وہ جھاڑ پھونک کرتے تھے اور آپ نے ان پر انکار نہیں فرمایا۔ الخ ۔(علامه ابن منظور افريقی، متوفی711ه، لسان العرب، 5 : 294، طبع بيروت،چشتی)(علامه سيد مرتضي الحسينی الواسطی الزبيدی الحنفی، تاج العروس شرع القاموس، 10 : 154، طبع بيروت)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رخَّصَ رَسُوْلُ اللہ صلی الله عليه وآله وسلم فِی الرُّقْيَةَ مِنَ العين وَالحُمَةِ والنَّمْلة ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین چیزوں کےلیے جھاڑ پھونک کی اجازت دی ۔ (1) نظربد ۔ (2) بچھو وغیرہ کے کاٹے پر ۔ (3) پھوڑے پھنسی کیلیے ۔ (مسلم، الصحيح، 4 : 1725، رقم : 2196)(حميدی، الجمع بين الصحيحين، 2 : 655، رقم : 2164)(نسائی، المتوفی 303ه، السنن، 4 : 366، رقم : 7541، دارالکتب العلمية. بيروت، سن اشاعت 1991ء،چشتی)(ابن ابی شيبه، المتوفی 235ه، المصنف، 5 : 43، رقم : 23536، مکتبة الرشد. الرياض، سن اشاعت 1409ه)(احمد بن حنبل، المتوفی 241، المسند، 3 : 118، رقم : 12194، مؤسسة قرطبة. مصر)

امّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے : أن رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم کان يأمرها أن تسترقی من العين .
ترجمہ : رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان (حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) کو نظربد سے بچنے کیلیے جھاڑ پھونک کا حکم دیا کرتے تھے ۔
(بخاری، الصحيح، 5 : 2166، رقم : 5406)(مسلم، الصحيح، 4 : 1725، رقم : 2195)(ابن ماجه، السنن، 2 : 1161، رقم : 3512)(هندي، المتوفی 975ه، کنزالعمال، 7 : 51، رقم : 18369، دارالکتب العلمية. بيروت، سن اشاعت 1998ء)

امّ المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے : انَّ النّبیّ صلی الله عليه وآله وسلم رَأی فی بيتها جاريةً فی وَجْهِهَا سَفْعَةً فقال اِسْتَرْقُوْا لها فانّ بها النظرة .
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے گھر ایک لڑکی دیکھی جس کا چہرہ زرد تھا۔ فرمایا : اسے جھاڑ پھونک کرو، اسے نظر لگ گئی ہے ۔
(بخاری، الصحيح، 5 : 2167، رقم : 5407)(مسلم، الصحيح، 4 : 1725، رقم : 2197)(حاکم، المستدرک، 4 : 236، رقم : 7486)(حميدی، الجمع بين الصحيحين، 4 : 228، رقم : 3441)

فقہائے اسلام کے نزدیک گنڈا تعویذ، دم درود اور جھاڑ پھونک

الاسترقاء بالقرآن نحو أن يقرأ علی المرض و الملدوغ أو يکتب فی ورق و يعلق أو يکتب فی طست فيغسل و يسقی المريض فأباحه عطاء و مجاهد و أبو قلابة...فقد ثبت ذلک فی المشاهير من غير اِنکار و الذی رعف فلا يرقأ دمه فأراد أن يکتب بدمه علٰی جبهته شيْاً من القرآن يجوز و کذا لو کتب علی جلد ميتة اذا کان فيه شفاء ولا باس بتعليق التعويذ و لٰکن يترعه عند الخلاء و القربان.
ترجمہ : قرآن کریم سے دم (جھاڑ پھونک) کرنا یوں کہ مریض اور (سانپ، بچھو وغیرہ سے) ڈسے پر قرآن پڑھے یا کاغذ پر لکھ کر گلے وغیرہ میں لٹکائے یا پلیٹ پر لکھ کر اور اس تحریر کو دھو کر بیمار کو پلائے اسے عطاء، مجاہد اور ابو قلابہ نے جائز قرار دیا ہے، مشہور ائمہ میں یہ عمل بغیر انکار ثابت ہے۔ اور جس کی نکسیر نہ رُکتی ہو اور وہ اپنے اُسی خون سے اپنی پیشانی پر قرآن کریم کی کوئی آیت لکھنا چاہے تو یہ جائز ہے۔ یونہی مردار کے (رنگے ہوئے) چمڑہ پر لکھنا جب اس میں شفاء (کی امید)ہو جائز ہے۔ اور گلے میں تعویذ لٹکانے میں حرج نہیں، ہاں بیت الخلاء یا بیوی سے قربت کے وقت اتار دے ۔ (الشیخ نظام و جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ المشہور فتاویٰ عالمگیری، 5 : 356، طبع کوئٹہ)

التميمة المکروهة ما کان بغير القرآن... ولا بأس بالمعاذات اِذا کتب فيها القرآن أو أسماء اللہ تعالٰی... انما تکره العوذة اِذا کانت لغير لسان العرب ولا يدري... أو شی من الدعوات فلا باس به.
ترجمہ : مکرہ تعویذ وہ ہے جو قرآن کے علاوہ ہو، ان گنڈے تعویذوں سے شفاء حاصل کرنے میں حرج نہیں جن میں قرآن یا اللہ کے نام لکھے ہوں۔ اور وہ تعویذات جو عربی زبان کے علاوہ ہوں اور پتہ نہ چلے یہ کیا ہے، ممکن ہے اس میں جادو، کفر وغیرہ شامل ہو جائے۔ مگروہ گنڈہ تعویذ جو قرآن سے ہو یا کوئی دعا ہو، اس میں حرج نہیں ۔
(ابن عابدين شامی، ردالمحتار، 6 : 363، دار الفکر للطباعة و النشر. بيروت)

اختلف فی الاستشفاء بالقرآن بايقرأ علی المريض أو الملدوغ الفاتحة أو يکتب فی ورق و يعلّق عليه أو فی طست و يغسل و يسقٰی و عن النبی صلی الله عليه وآله وسلم أنه کان يعوذ نفسه و علی الجواز عمل الناس اليوم وبه و ردت الأثار ولا بأس بأن يشدّ الجنب و الحائض التعاويذ علی العضر اذا کانت ملفوفة.
ترجمہ : قرآن کے ذریعہ شفاء حاصل کرنے میں اختلاف ہے۔ مثلاً بیمار یا (سانپ، بچھو وغیرہ سے) ڈسے پر فاتحہ پڑھنا یا کسی کاغذ میں لکھ کر اس کے گلے وغیرہ پر لٹکا دیا جائے یا پلیٹ پر لکھ کر اور اس لکھے کو دھو کر پلایا جائے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ اپنے اوپر دم کیا کرتے تھے۔ اور آج لوگوں کا جواز پر ہی عمل ہے اور روایات و احادیث اسی کی تائید میں وارد ہیں ۔ اور جُنبی اور حیض والی لفافے میں بند (جیسے چاندی یا چمڑے میں ہوتا ہے) تعویذ بازُو پر باندھیں، اس میں حرج نہیں ۔ (ابن عابدين شامی، ردالمحتار، 6 : 364)

علمائے اہل حدیث

غیر مقلدین کے امام شوکانی لکھتے ہیں : اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ صرف شرک والی صورتیں منع ہیں باقی جائز ہیں ۔ (علامه شوکانی، نيل الاوطار، 1 : 345، فصل ردشرک، الرقیٰ والتمائم)

غیر مقلدین کے فتویٰ فتاویٰ علمائے حدیث ج ١٠، ص ٨٢ ، کتاب الایمان و العقائد میں لکلھا ہے کہ : کچھ شک نہیں کہ نفس دم (رقیہ) یعنی ذات دم کی یا ذات تعویذ یا ذات عمل حب (تولہ) کی نہیں بلکہ ان کی بعض قسمیں شرک ہیں ؛ اور اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے ؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم ان منتروں کو پڑھ کر مجھ کو سناؤ جب تک ان میں شرک نہ ہو میں کوئی حرج نہیں دیکھتا"۔" (صحيح مسلم » كِتَاب السَّلَامِ » بَاب لَا بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ ...رقم الحديث: 4086)

وہابی حضرات کے فتاویٰ ثانیہ : ج ١ ، ص ٣٣٩ ، باب اول : عقائد و مہمات دین میں لکھا ہے کہ : "مسئلہ تعویذ میں اختلاف ہے ، راجح یہ ہے کہ آیات یا کلمات صحیحہ دعائیہ جو ثابت ہوں ان کا تعویذ بنانا جائز ہے ، ہندو ہو یا مسلمان . صحابہ کرام نے ایک کافر بیمار پر سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا ۔

علمائے دیوبند

حکیم الامت دیوبند علامہ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں : امروہہ میں ایک ہندو تھا وہ حضرت عبدالباری سے کمال اعتقاد رکھتا تھا۔ اس نے آپ سے عرض کیا کہ میرے کوئی اولاد نہیں ہے تعویذ دیجیے۔ حضرت نے تعویذ دے کر فرمایا کہ ابھی تو اپنی بیوی کے بازو پر باندھ دو اور بعد تولّدِ فرزند، اس کے بازو پر باندھ دینا۔ تعویذ کی برکت سے اس کے لڑکا پیدا ہوا۔ جب وہ سنِ تمیز کو پہنچا باغوائے بعض ہنود اس تعویذ کو کھول ڈالا اس میں ’’اُڑری بھنبیری ساون آیا‘‘ لکھا تھا۔ پڑھ کر اس نے تعویذ پھینک دیا ۔ پھینک کر وہ نہانے کو گیا دریا میں ڈوب کر مر گیا ۔ (اشرف علی تهانوی، امداد المشتاق الیٰ اشرف الاخلاق، ص : 118، طبع لاهور)

جماعت اسلامی کے بانی مودودی صاحب لکھتے ہیں : بعض احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھاڑ پھونک سے بالکل منع فرما دیا تھا لیکن بعد میں اس شرط کے ساتھ اس کی اجازت دے دی کہ اس میں شرک نہ ہو، اللہ کے پاک ناموں یا اس کے کلام سے جھاڑا جائے، کلام ایسا ہو جو سمجھ میں آئے اور یہ معلوم کیا جا سکے کہ اس میں کوئی گناہ کی چیز نہیں ہے، اور بھروسہ جھاڑ پھونک پر نہ کیا جائے کہ وہ بجائے خود شفاء دینے والی ہے، بلکہ اللہ پر اعتماد کیا جائے کہ وہ چاہے گا تو اسے نافع بنا دے گا۔ یہ مسئلہ شرعی واضح ہو جانے کے بعد اب دیکھیے کہ احادیث اس بارے میں کیا کہتی ہیں۔‘‘ اس کے بعد مولانا مودودی نے وہ تمام احادیث نقل کر دیں جو ہم نقل کر آئے ہیں۔( تفهيم القرآن، 6 : 558، طبع لاهور،چشتی)
مزید لکھتے ہیں : اب اگر دوا اور علاج کرنے کے ساتھ اللہ کے کلام اور اس کے اسمائے حُسنٰی سے بھی استفادہ کیا جائے، یا ایسی جگہ جہاں کوئی طبی امداد میسر نہ ہو، اللہ ہی کی طرف رجوع کر کے اس کے کلام اور اسمائے و صفات سے استعانت کی جائے تو مادہ پرستوں کے سوا کسی کی عقل کے بھی خلاف نہیں ہے ۔ (تفهيم القرآن، 6 : 560، طبع لاهور)

صحابی رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ یہ دعا سکھاتے اور جو نابالغ ہوتا تھا تو اس کو لکھ کر اُس کے گلے میں لٹکا دیتے تھے ۔ (جامع ترمذی جلد دوم صفحہ 971 ،972 ترجمہ و تحقیق غیر مقلد وہابی علماء)

حدیث پر عمل کا دعوی اسی وقت درست ہے جب عمل بھی ہو اپنے مطلب کی حدیث لے لینے والا اور دوسری کو چھوڑ دینے والا حدیث کا پیروکار نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مخالف اور دشمن حدیث ہے ، ایسے لوگ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اس حدیث کے مصداق ہیں جس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ اخیر زمانے میں کچھ لوگ ایسی باتیں لائیں گے جن کو تم اور تمھارے باپ دادا نے نہ سنا ہوگا ، ایک حدیث بیان کرنا اور دوسری چھوڑ دینا بلا شبہ حدیث کا غلط مطلب بیان کرنا اور نبی محترم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر جھوٹ باندھنا ہے اس لیے کہ کثیر احادیث ایسی ہیں جن کا مطلب دوسری احادیث سے ہی واضح ہوتا ہے ۔

تعویذ اور جھاڑ پھونک کی قرآن و احادیث کی روشنی میں کیا حقیقت ہے ہم ذیل میں اسے بیان کرتے ہیں

قرآن پاک میں اللّٰه تعالی ارشاد فرماتا ہے : وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیۡنَ ۙ وَ لَایَزِیۡدُ الظّٰلِمِیۡنَ اِلَّا خَسَارًا ۔ ﴿سورۃ الاسراء آیت نمبر 82﴾
ترجمہ : اور ہم قرآن میں وہ چیز اتارتے ہیں جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے اور اس سے ظالموں کو خسارہ ہی بڑھتا ہے ۔
اولًا اس آیت مبارکہ ہی سے دم اور تعویذ کا ثبوت ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کو مومنین کے لیے شفا اور رحمت قرار دیا ہے، اور اس کا طریقہ یہی ہے کہ پڑھ کر کسی پر دم کردیا جائے یا تعویذ بنا کر مریض کے گلے میں لٹکا دیا جائے ، اس آیت پر غور کرنے کے بعد کوئی بھی ذی عقل تعویذ و دم کو ناجائز و حرام نہیں کہہ سکتا مگر وہی قرآن جن کے حلق سے نیچے نہیں اترتا ۔
تعویذ اورجھاڑ پھونک وہ ممنوع و ناجائز ہیں جس میں جہالت بھرے الفاظ اور شرکیہ کلمات ہوں اور جس میں یہ باتیں نہ ہوں بلکہ قرآنی آیات اور سنت سے ثابت دعاؤں کے ذریعہ ہو وہ بلا شبہ جائز و مستحسن ہیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام جھاڑ پھونک (دم) فرمایا کرتے تھے ۔

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیۡنَ : اور ہم قرآن میں وہ چیز اتارتے ہیں جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے ۔ قرآن شفا ہے کہ اس سے ظاہری و باطنی اَمراض، گمراہی اور جہالت وغیرہ دور ہوتے ہیں اور ظاہری و باطنی صحت حاصل ہوتی ہے۔ باطل عقائد، رذیل اخلاق اس کے ذریعے دفع ہوتے ہیں اور عقائد ِحقہ ، معارفِ الٰہیہ ، صفاتِ حمیدہ اور اَخلاقِ فاضلہ حاصل ہوتے ہیں کیونکہ یہ کتابِ مجید ایسے علوم و دلائل پر مشتمل ہے جو وہم پر مَبنی چیزوں کواور شیطانی ظلمتوں کو اپنے انوار سے نیست و نابُود کر دیتے ہیں اور اس کا ایک ایک حرف برکات کا گنجینہ و خزانہ ہے جس سے جسمانی امراض اور آسیب دور ہوتے ہیں ۔ (تفسیر خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳/۱۸۹،چشتی)(تفسیرروح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۲، ۵/۱۹۴)

قرآنِ مجید میں جسمانی امراض کی بھی شفا موجود ہے

یاد رہے کہ قرآنِ کریم کی حقیقی شفا تو روحانی امراض سے ہے لیکن جسمانی امراض کی بھی اس میں شفا موجود ہے اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَقوال و اَفعال سے ثابت ہے،اس کی دو مثالیں درج ذیل ہیں :

حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ : نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعض صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ عرب کے کسی قبیلے میں گئے ، اس قبیلے کے لوگوں نے ان کی مہمان نوازی نہ کی۔ اسی دورا ن قبیلے کے سردار کو ایک بچھو نے ڈنک مار دیا تو وہ لوگ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْکے پاس آ کر کہنے لگے کہ کیا تم میں سے کسی کے پاس دوا ہے یا تم میں کوئی دم کرنے والا ہے ؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے کہا ’’تم نے چونکہ ہماری مہمان نوازی نہیں کی اس لئے ہم اس وقت تک دم نہیں کریں گے جب تک تم ا س کی اجرت نہ دو گے ۔ چنانچہ انہوں نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے لئے بکریوں کا ایک ریوڑ مقرر کیا ، پھر (ایک صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے) سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کیا اور اپنے تھوک کی چھینٹیں اس پر ڈالیں تو وہ تندرست ہو گیا۔ پھر قبیلے کے لوگ بکریاں لے کر آئے تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے کہا ’’ہم اس وقت تک یہ بکریاں نہیں لیں گے جب تک (ان کے بارے میں)رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پوچھ نہ لیں ۔ جب صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسکرائے اور ارشاد فرمایا ’’ تمہیں کس نے بتایا تھا کہ یہ دم ہے ؟ ان بکریوں کو لے لو اور اس میں سے میرا حصہ بھی نکال لو ۔ (بخاری، کتاب الطب، باب الرّقی بفاتحۃ الکتاب، ۴/۳۰، الحدیث: ۵۷۳۶)
اس حدیث پاک میں واضح طور پر مذکور ہے کہ صحابی نے جھاڑ پھونک فرمائی اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسل:م تک یہ بات پہنچی تو آپ نے اسے غلط قرار نہیں دیا بلکہ اس کی اجرت بھی قبول کرنے کا حکم دیا ۔

حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں : جس مرض میں رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی روح قبض کر لی گئی تھی ، اس مرض میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سورۂ فلق اور سورۂ والناس پڑھ کر اپنے اوپر دم فرماتے تھے اور جب طبیعت زیادہ ناساز ہوئی تو میں وہ سورتیں پڑھ کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دم کیا کرتی اور خود آپ کے ہاتھ کو پھیرتی کیونکہ وہ(میرے ہاتھ سے زیادہ) بابرکت ہے ۔ (صحیح بخاری، کتاب الطب، باب فی المرأۃ ترقی الرجل، ۴/۳۴، الحدیث: ۵۷۵۱،چشتی) ۔ البتہ آیت کے آخر میں فرمایا کہ مومنوں کیلئے تو قرآن شفا ہے مگر اس قرآن کے ذریعے ظالموں یعنی کافروں کا خسارہ ہی بڑھتا ہے کہ کفرو ضد میں بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔

بخاری شریف میں ہے: 5412 حدثنی احمد ابن ابی رجاء حدثنا النضر عن ھشام بن عروۃ قال اخبرنی ابی عن عائشۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یرقی یقول امسح الباس رب الناس بیدک الشفاء لا کاشف لہ الا الا انت ۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دم کرتے تو کہا کرتے تکلیف کو مٹا دے اے لوگوں کے رب شفا تیرے دست قدرت میں ہے,اس مشکل کا آسان کرنے والا تیرے سوا کوئی نہیں.
اس حدیث پاک میں صاف طور پر مذکور ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم دم فرمایا کرتے تھے ۔

نیز مسلم شریف میں ہے: وعَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : " نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرُّقَى ، فَجَاءَ آلُ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا : يَا رَسُولَ اللهِ ! إِنَّهُ كَانَتْ عِنْدَنَا رُقْيَةٌ نَرْقِي بِهَا مِنَ الْعَقْرَبِ ، وَإِنَّكَ نَهَيْتَ عَنِ الرُّقَى ، قَالَ: فَعَرَضُوهَا عَلَيْهِ ، فَقَالَ: ( مَا أَرَى بَأْسًا ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَنْفَعَ أَخَاهُ فَلْيَنْفَعْهُ ) رواه مسلم ( 2199 )
ترجمہ : حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھاڑ پھونک سے منع فرمایا تو عمرو بن حزم کی آل حضور کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہمارے پاس ایک دم تھا جسے ہم بچھو کے کاٹنے پر کرتے تھے اور آپ نے دم کرنے سے منع فرمادیا ہے , حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا وہ دم مجھے بتاؤ پھر فرمایا میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا , تم میں سے جو اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکے تو اسے پہنچانا چاہیے ۔
اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ جھاڑ پھونک میں اگر شرکیہ بات نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس طرح سے مسلمان بھائی کو نفع پہنچانے کی ترغیب دلائی ہے ۔

مسلم شریف کی ایک اور حدیث ملاحظہ کیجیے جس میں حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے صاف طور فرمایا کہ جھاڑ پھونک میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ اس میں شرک نہ ہو ۔

وعَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، قَالَ : " كُنَّا نَرْقِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ ، فَقُلْنَا : يَا رَسُولَ اللهِ ! كَيْفَ تَرَى فِي ذَلِكَ ؟ فَقَالَ : ( اعْرِضُوا عَلَيَّ رُقَاكُمْ ، لَا بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ ) " رواه مسلم ( 2200 )
ترجمہ : صحابی عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم زمانہ جاھلیت میں جھاڑ پھونک کرتے تھے تو ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ اسے کیسا گمان کرتے ہیں ؟ فرمایا : اپنی جھاڑ پھونک,دم مجھے بتاؤ , دم یا جھاڑ پھونک میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ اس میں کوئی شرک نہ ہو ۔

ظاہر ہے کہ دم.جھاڑ پھونک اور دعا تعویذکرنے والے قرآنی آیات اور سنت سے ثابت دعاؤں کے ذریعہ کرتے ہیں ان کا یہ کام بالکل درست ہے اور حدیث سے اس کا قوی ثبوت ہے, کوئی اگر اب جھاڑ پھونک کو غلط قرار دیتا ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر جھوٹ باندھتا ہے اور صریح و مرفوع احادیث کا انکار کرتا ہے . اور یاد رہے کہ حضور نے فرمایا ہے کہ جو مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے تو اسے اپنا ٹھکانہ جھنم میں بنانا چاہیے . اب منکرین اپنے ایمان کا اندازہ لگائیں ۔

تعویذ اور دم دونوں ہم معنی ہیں

مصباح اللغات میں ہے: عَوَّذَ تَعْوِیْذًا وَاَعَاذَ اِعَاذَۃً الرجل. حفاظت کی دعا کرنا اور اعیذک باللہ کہنا, منتر کرنا گلے میں تعویذ لٹکانا (ص: 583) رقی یرقی الرُّقی: منتر, تعویذ (ص: 310)

حدیث میں یہ دونوں الفاظ آئے ہیں : جس طرح دم کرنے میں کوئی حرج نہیں اسی طرح لٹکانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہم اس تعلق سے بھی حدیث پیش کرتے ہیں : امام احمد بن حنبل اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حدثنا يزيد ، أخبرنا محمد بن إسحاق ، عن عمرو بن شعيب ، عن أبيه ، عن جده قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا كلمات يقولهن عند النوم ، من الفزع : " بسم الله ، أعوذ بكلمات الله التامة من غضبه وعقابه ، ومن شر عباده ، ومن همزات الشياطين وأن يحضرون " قال : فكان عبد الله بن عمرو يعلمها من بلغ من ولده أن يقولها عند نومه ، ومن كان منهم صغيرا لا يعقل أن يحفظها ، كتبها له ، فعلقها في عنقه . ورواه أبو داود ، والترمذي ، والنسائي ، من حديث محمد بن إسحاق ، وقال الترمذي : حسن غريب ۔ (سنن ابی داؤد ج: 2 ص: 187 مطبوعہ مطبع مجتبائی پاکستان لاہور)
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں چند کلمات سکھائے جن کو ہم خوف اور دہشت کی وجہ سے سوتے وقت پڑھتے تھے وہ کلمات یہ تھے بسم الله ، أعوذ بكلمات الله التامة من غضبه وعقابه ، ومن شر عباده ، ومن همزات الشياطين وأن يحضرون. حضرت عبد اللہ بن عمرو بالغ بچوں کو سوتے وقت ان کلمات کے پڑھنے کی تلقین کرتے اور جو کم سن بچے ان کلمات کو یاد نہیں کر سکتے تھے ان کے گلے میں ان کلمات کو لکھ کر ان کا تعویذ ڈال دیتے ۔

صحابی رضی اللہ عنہ کا تعویذ لٹکانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں اس لیے کہ کوئی بھی صحابی رضی اللہ عنہ نہ تو خلافِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کوئی کام کر سکتے ہیں اور نہ ہی اسے برداشت کر سکتے ہیں معلوم ہوا کہ دم جھاڑ پھونک تعویذ میں کوئی حرج نہیں ۔

حدیث پر عمل کا دعوی کرنے والوں سے میرا کہنا ہے کہ وہ اپنی سوچ کا محاسبہ کریں اور غور کریں کہ وہ کتنا حدیث پر عمل کر رہے ہیں اور ان کا ایمان کہاں تک سلامت ہے ۔ کیا یہی حدیث پر عمل ہے کہ ایک حدیث کو لے لیا جائے اور اور دوسری کو چھوڑ دیا جائے ؟ یہی تمھارا ایمان ہے ؟ حدیث کا انکار اور پھر بھی اس پر عمل کا دعوی ؟ ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)







0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔