Monday, 4 December 2023

بارہ امام رضی اللہ عنہم اور چودہ معصومین کے متعلق تحقیق

بارہ امام رضی اللہ عنہم اور چودہ معصومین کے متعلق تحقیق
محترم قارئینِ کرام : اللہ تعالیٰ کے انبیاء کرام علیہم السلام اور ملائکہ کے علاوہ کوئی بھی معصوم نہیں اور نہ ہی معصوم عن الخطاء ۔ اس لئیے چودہ معصومین والا معاملہ یہاں ختم ہو گیا ۔ اگر ہم مسلمان اپنے موجودہ عقائد کے تناظر میں بات کریں تو رسول اللہ صلی ﷲ تعالی علیہ و آلہ وسلّم کے بعد کوئی بھی معصوم نہیں ۔ اس لیے یہ عقیدہ رکھنا کہ فلاں امام یا شخصیت معصوم ہے ، یہ غلط ہے ۔ انبیاء اور ملائکہ علیہم السّلام کے علاوہ کوئی بھی معصوم نہیں ۔ اہلِ بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کےبارہ امام ، جن کے نام لوگوں میں مشہور ہیں ، ان سے متعلق اہلسنت و جماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ ائمہ اہل بیت  رضی اللہ عنہم ہیں ، یہ نہایت متقی پارسا اور اعلی درجہ کی بزرگی ، ولایت اور مقام  و مرتبہ کے حامل ہوئے اور  مقام غوثیت  پربھی فائز ہوئے ۔ ان میں سے ایک امام مہدی رضی اللہ عنہ ہیں ، جو ابھی آئیں گے ، جن کے پاس خلافت عامہ ہوگی ۔ ان بارہ اماموں میں سے خلافت عامہ صرف  حضرت مولا علی اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہما کوملی اور ایک حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ  کو ابھی ملے گی ۔ وبس ۔ اس کے ساتھ ساتھ درج ذیل گذارشات ذہن نشین رہیں : ⏬

(1) تمام انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام ان بارہ اماموں سے افضل ہیں ، ان بارہ اماموں رضی اللہ عنہم میں سے کوئی بھی کسی نبی کے برابر یا اس سے افضل نہیں ہے کیونکہ ان میں سے کوئی امام رضی اللہ عنہ بھی نبی نہیں ہے اور جو نبی نہ ہو ، وہ کسی نبی علیہ السلام کے برابر یا اس سے افضل نہیں ہو سکتا ۔ جو ان میں سےکسی کو کسی نبی علیہ السلام کے برابر یا افضل جانے وہ کافر ہے ۔

ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری میں ہے : النبي أفضل من الولي وهو أمر مقطوع به، والقائل بخلافه كافر لأنه معلوم من الشرع بالضرورة ۔
ترجمہ : نبی ، ولی سے افضل ہے اور یہ قطعی امر ہے ، اور جو اس کے خلاف کا قائل ہو وہ کافر ہے کیونکہ نبی کا ولی سے افضل ہونا شریعت سے بدیہی طور پر معلوم ہے ۔ (ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری کتاب العلم جلد 1 صفحہ 214 المطبعة الكبرى الأميرية مصر،چشتی)

المعقتد المنتقد میں ہے : ا نّ نبیا واحداً أفضل عند اللہ من جمیع الأولیاء ، ومن فضل ولیاً علی نبي یخشی علیہ الکفر بل ہوکافر ۔
ترجمہ : بیشک ایک نبی اللہ تعالی کے نزدیک تمام اولیاء سے افضل ہے اور کو کسی ولی کو کسی نبی پر فضیلت دے تو اس پر کفر کا خوف ہے بلکہ وہ کافر ہے ۔ (المعقتد المنتقد باب النبوات صفحہ 125)

(2) ان بارہ اماموں میں سےکوئی بھی امام معصوم نہیں ہےکہ معصوم صرف اورصرف انبیاء و ملائکہ علیہم الصلاۃ والسلام ہیں ۔ جو انبیا اور ملائکہ علیہم الصلوۃ والسلام کے علاوہ کسی اور کے معصوم ہونے کا عقیدہ رکھے وہ اہلسنت سے خارج ہے ۔ بہار شریعت میں ہے : عصمت نبی اور مَلَک کا خاصہ ہے ، کہ نبی اور فرشتہ کے سوا کوئی معصوم نہیں ۔ (بہار شریعت جلد 1 حصہ 1 صفحہ 38 مکتبۃ المدینۃ)

فتاوی رضویہ میں ہے : اجماعِ اہلسنت ہے کہ بشر میں انبیا ء علیہم الصلاۃ والسلام کے سوا کوئی معصوم نہیں ، جو دوسرےکو معصوم مانے اہلسنت سے خارج ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد 14 صفحہ 186 رضا فاؤنڈیشن لاہور)

علامہ سعدالدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : ان الانبیاء علیھم السلام معصومون ۔ یعنی تمام انبیاء معصوم ہیں ۔ (شرح العقائد النسفیہ صفحہ نمبر 306)

جامع المعقول والمنقول علامہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : الملائکة عباد اللہ تعالی العاملون بامرہ ۔ یرید انھم معصومون ۔
ترجمہ : ملائکہ بھی اللہ کے بندے ہیں اور اس کے حکم کے مطابق تمام امور سرانجام دیتے ہیں اور اس سے مراد یہ ہے کہ وہ معصوم ہیں ۔ (شرح العقائد کی شرح النبراس صفحہ نمبر 287)

امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : الانبیاء علیہم السلام کلھم منزھون ۔ ای معصومون ۔ یعنی تمام انبیاء علیہم السلام معصوم ہیں ۔ (منح الروض الازھر صفحہ نمبر 56،چشتی)

امام اہلسنت امام احمد رضا خان قادری ماتریدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بشر میں انبیاء علیہم السلام کے سوا کوئی معصوم نہیں ۔ (فتاوی رضویہ جلد نمبر 14 صفحہ نمبر 187)

صدرالافاضل استاذ العلماء حضرت مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : انبیاء اور فرشتوں علیہم السّلام کے سوا معصوم کوئی بھی نہیں ہوتا ، اولیاء (کو اللہ تَعَالٰی اپنے کرم سے گناہوں سے بچاتا ہے مگر معصوم صرف انبیاء اور فرشتے علیہم السّلام ہی ہیں ۔ (کتاب العقائد صفحہ نمبر 21،چشتی)

عصمت انبیاء و ملائکہ علیہم السّلام کا معنی یہ ہے کہ ان کے لیے حفظ الہی کا وعدہ ہو چکا ہے جس کے سبب ان سے صدور گناہ محال ہے ۔ انبیاء و ملائکہ علیہم السّلام کی طرح کسی دوسرے کو معصوم سمجھنا گمراہی و بد دینی ہے ۔ اور رہی بات بچوں کو معصوم کہنے والی تو اس کا جواب یہ ہے کہ بچوں کو معصوم کہنا اس معنی میں نہیں ہوتا جس معنی میں شرعی اصطلاح ہے اس لیئے بچوں کو معصوم کہنے والے پر کوئی حکم نہیں ۔ عرفِ حادِث میں بچوں کو بھی ”معصوم“ کہہ دیا جاتا ہے لیکن شرعی اصطلاحی معنیٰ جو اوپر بیان کئے گئے اس سے وہ مراد نہیں ہوتے بلکہ لغوی معنیٰ یعنی بھولا ، سادہ دل ، سیدھا سادھا ، چھوٹا بچہ ، نا سمجھ بچہ ، کم سن ، والے معنیٰ میں کہا جاتا ہے ۔ اس لئے اس معنیٰ میں بچوں کو معصوم کہنے پر کوئی گرفت نہیں اسے ناجائز بھی نہیں کہہ سکتے ۔

جہاں تک ائمہ کی بات ہے تو فقہ میں چار ائمہ ہیں، ان کے اسمائے گرامی ذیل میں ہیں : ⏬

امام اعظم سیدنا امام   ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ

سیدنا امام مالک رضی اللہ عنہ

سیدنا امام شافعی رضی اللہ عنہ

سیدنا امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ

ان کے علاوہ کچھ لوگ امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کو بھی فقہ میں امام مانتے ہیں۔ امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ آلِ رسول اور امت کے عظیم امام ہیں ۔ ہمارے لئیے لائقِ احترام اور حصول فیض و برکت کا ذریعہ ہیں ۔

بارہ امام

ان کا ذکر احادیث میں ہے ؟

یہ مجتہد تھے یا مقلد ؟

کتب صحاح میں ان کے روایات ہیں ؟
ان کی امامت کون سی ہے ؟

ان کی طرف منسوب اقوال کہاں تک درست ہے ؟

کتب صحاح میں ان سے کم روایات لینے کی وجہ ؟

بارہ امام والے معاملے پر ہم امام اہل سنت مجدد دین و دملت سیدنا الشاہ امام احمد رضا خان قادری رحمة اللہ علیہ کا قول نقل کر دیتے ہیں کیونکہ آپ کی تحقیق حق ہے ۔ چنانچہ امام اہل سنت مجدد دین و دملت سیدنا الشاہ امام احمد رضا خان قادری رحمة اللہ علیہ اس سے متعلقہ ایک سوال کے جواب میں رقم طراز ہیں : امامت اگر بمعنی مقتدٰی فی الدین ہونے کے ہے توبلاشبہہ ان کے غلام اور غلاموں کے غلام مقتدٰی فی الدین ہیں ، اوراگر اصطلاح مقامات ولایت مقصود ہے کہ ہر غو ث کے دو وزیر ہوتے ہیں عبدالملک و عبدالرب ، انہیں امامین کہتے ہیں ، تو بلاشبہہ یہ سب حضرات خود غوث ہوئے ۔ اوراگرامامت بمعنی خلافت عامہ مراد ہے تووہ ان میں صرف امیرالمومنین مولٰی علٰی و سیدنا امام حسن مجتبٰی کو ملی اور اب سیدنا امام مہدی کوملے گی وبس رضی ﷲ تعالٰی عنہم اجمعین ، باقی جو منصب امامت ولایت سے بڑھ کرہے وہ خاصہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام ہے جس کوفرمایا انّی جاعلک للناس اماما (میں تمہیں لوگوں کاپیشوا بنانے والاہوں ۔ت) وہ امامت کسی غیرنبی کے لئے نہیں مانی جاسکتی ، اطیعوﷲ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم (حکم مانو ﷲ کا اور حکم مانو رسول ﷲ کا اور ان کا جوتم میں حکومت والے ہیں۔ت) ہر غیر نبی کی امامت اولی الامرمنکم تک ہے جسے فرمایا : وجعلنٰھم ائمۃ یھدون بامرنا (اور ہم نے انہیں امام کیاکہ ہمارے حکم سے بلاتے ہیں۔ت) مگر اطیعوا الرسول کے مرتبے تک نہیں ہو سکتی اس حد پر ماننا جیسے روافض مانتے ہیں صریح ضلالت وبے دینی ہے ۔ امام جعفر صادق رضی ﷲ تعالٰی عنہ تک تو بلاشبہہ یہ حضرات مجتہدین وائمہ مجتہدین تھے ، اور باقی حضرات بھی غالباً مجتہد ہوں گے ۔ وﷲ تعالٰی اعلم ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد 26 کتاب الفرائض صفحہ 428،چشتی)

امام اہل سنت مجدد دین و دملت سیدنا الشاہ امام احمد رضا خان قادری رحمة اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ : بارہ امام جن کے نام عوام میں مشہور ہیں ان میں باستثنائے جناب امام علی مرتضی کرم ﷲ وجہہ حضرت امام حسن و حضرت امام حسین و حضرت امام مہدی کے کسی اور امام کی نسبت صحیح حدیثوں میں اشارۃ یاصراحۃ کوئی خبر آئی ہے ؟ امامت ان کی ولایت کے درجے پر ماننا چاہئے ان کے عقائد و احکام و اعمال وغیرہ ائمہ مجتہدین میں سے کسی ایک کے مشابہ تھے یاسب سے الگ ؟ یہ خود مجتہد تھے یا مقلد؟ بعض اعمال و جفر وغیرہ کی کتابوں میں ان کے اقوال ملتے ہیں یہ کہاں تک صحیح ہیں ؟ بعض کا یہ اعتراض ہے کہ صحاح کی کتابوں میں ان کی روایتیں بہت کم لی گئی ہیں حالانکہ ان کا خاندانی علم تھا ان سے زیادہ دوسرے کو کہاں تک واقفیت ہوسکتی ہے اہلسنت کی کتابوں میں ان کے حالات کم لکھنے کی کیا وجہ ہے ؟
الجواب : کتب احادیث میں ان کا ذکر امام باقر رضی ﷲ تعالی عنہ کی بشارت بتصریح نام گرامی صحیح حدیث میں ہے جابر بن عبدﷲ انصاری رضی ﷲ تعالی عنہما سے ہے حضور اقدس صلی ﷲ تعالی علیہ و آلہ وسلّم نے ان کا ذکر فرمایا : کہ ان سے ہمارا سلام کہنا ۔ سیدنا امام محمد باقر رضی ﷲ تعالی عنہ طلب علم کےلیے سیدناجابر رضی ﷲ تعالی عنہ کے پاس آئے انہوں نے ان کی غایت تکریم کی اور کہا : رسول ﷲ صلی ﷲ تعالی علیہ و آلہ وسلّم یسلم علیك ۔ (تاریخ دمشق الکبیر ترجہ ۶۹۰۱ محمدبن علی بن حسین داراحیاء التراث العربی بیروت ۵۷/ ۲۱۵،۲۱۶،چشتی) ۔ رسول ﷲ صلی ﷲ تعالی علیہ و آلہ وسلّم آپ کوسلام فرماتے ہیں ، اور ۔ اخرج منکما الکثیر الطیب ۔ (تنزیہ الشریعۃ باب فی مناقب السبطین وامہما وآل البیت دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۴۱۱)) (ﷲ تعالی تم دونوں کو کثیر پاکیزہ اولاد عطافرمائے) میں ان سب حضرات کی بشارت ہے ۔

ان کی امامت کون سی ہے ؟

امامت اگر بمعنی "مقتدی فی الدین" ہونے کے ہے تو بلاشبہہ ان کے غلام اور غلاموں کے غلام مقتدی فی الدین ہیں ، اور اگر اصطلاح مقامات ولایت مقصود ہے کہ ہر غو ث کے دو وزیر ہوتے ہیں عبدالملک و عبدالرب ، انہیں امامین کہتے ہیں ، تو بلاشبہہ یہ سب حضرات خود غوث ہوئے ۔ اور اگر امامت بمعنی خلافت عامہ مراد ہے تو وہ ان میں صرف امیرالمومنین مولی علی و سیدنا امام حسن مجتبی کو ملی اور اب سیدنا امام مہدی کو ملے گی و بس رضی ﷲ تعالی عنہم اجمعین ، باقی جو منصب امامت ولایت سے بڑھ کر ہے وہ خاصہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام ہے جس کو فرمایا : انی جاعلك للناس اماما (القرآن الکریم ۲/ ۱۲۴) (میں تمہیں لوگوں کاپیشوا بنانے والاہوں۔ت) وہ امامت کسی غیر نبی کے لئے نہیں مانی جاسکتی ، اطیعوا ﷲ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم (القرآن الکریم ۴/ ۵۹) (حکم مانو ﷲ کا اورحکم مانو رسول ﷲ کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔ت) ہر غیر نبی کی امامت اولی الامر منکم تک ہے جسے فرمایا: و جعلنھم ائمة یھدون بامرنا ۔ (القرآن الکریم ۲۱/ ۷۳)
(اور ہم نے انہیں امام کیا کہ ہمارے حکم سے بلاتے ہیں۔ت) مگر "اطیعوا الرسول" کے مرتبے تک نہیں ہوسکتی اس حد پر ماننا جیسے روافض مانتے ہیں صریح ضلالت وبے دینی ہے ۔ امام جعفر صادق رضی ﷲ تعالی عنہ تک تو بلاشبہہ یہ حضرات مجتہدین و ائمہ مجتہدین تھے ، اور باقی حضرات بھی غالبا مجتہد ہوں گے ۔ وﷲ تعالی اعلم ۔

باطنی طور پر ان کا مقام

یہ نظر بظاہر ہے ورنہ باطنی طور پر کوئی شک کا مقام نہیں کہ یہ سب حضرات عین الشریعۃ الکبری تک واصل تھے ۔

ان کی طرف منسوب اقوال کہاں تک درست ہے ؟

جو بسند صحیح ثابت یا کسی فقہ معتمد کی نقل ہے اس کاثبوت مانا جائے گا ورنہ مجاہیل یا عوام یا ایسی کتاب کی نقل جو رطب و یابس سب کی جامع ہوتی ہے کوئی ثبوت نہیں ۔ 

صحاح میں روایت کم ہونے کی وجہ

صحاح میں صدیق اکبر و فاروق اعظم رضی ﷲ تعالی عنہما کی روایات بھی بہت کم ہیں ، رحمت الہی نے حصے تقسیم فرمادیے ہیں کسی کوخدمت الفاظ ، کسی کو خدمت معانی ، کسی کو تحصیل مقاصد ، کسی کوایصال الی المطلوب ، نہ ظاہری روایت کی کثرت وجہ افضلیت ہے نہ اس کی قلت وجہ مفضولیت ۔ صحیحین میں امام احمد سے صدہا احادیث ہیں اور امام اعظم و امام شافعی سے ایک بھی نہیں ، اور باقی صحاح میں اگر ان سے ہیں بھی تو بہت شاذ و نادر ، حالانکہ امام احمد امام شافعی کے شاگرد ہیں ، اور امام شافعی امام اعظم کے شاگردوں کے شاگرد رضی ﷲ تعالی عنہم اجمعین ، بلکہ امام احمد کا منصب بھی بہت ارفع و اعلی ہے مصطفی صلی ﷲ تعالی علیہ و آلہ وسلّم نے انہیں ربع اسلام کہا ہے۔ *ہزاروں محدثین جو فقیہ تک نہ تھے ان سے جتنی روایات صحاح میں ملیں گے صدیق و فاروق بلکہ خلفائے اربعہ سے اس کا دسواں حصہ بھی نہ ملے گا رضی ﷲ تعالی عنہم اجمعین ۔

کیا ان کے احوال اہلسنت کی کتابوں میں کم ہیں ؟

یہ محض غلط و افتراء ہے کہ ان کے احوال اہلسنت کی کتابوں میں کم ہیں ، اہلسنت کی جتنی کتابیں بیان حالات اکابر میں ہیں سب ان پاک مبارک محبوبان خدا کے ذکر سے گونج رہی ہیں اور خود ان کے ذکر میں مستقل کتابیں ہیں ۔ وﷲ تعالی اعلم ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد 26 کتاب الفرائض صفحہ 428 تا 432،چشتی)

بارہ اماموں پر یقین یا ایمان رکھنے والوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ امام مہدی رضی اللہ عنہ کی ولادت ہو چکی ہے اور وہ قرآن لے کر چھپ گئے تھے اب قربِ قیامت میں ان کا ظہور ہو گا، یہی وجہ ہے کہ   اہل ِ تشیع حضرات اپنی دعاؤں میں ایک دعا یہ بھی کرتے ہیں کہ اے اللہ امامِ زمانہ امام مہدی کا جلدی ظہور فرما۔ ایسے عقائد رکھنے والوں کو “شیعہ اثنا عشری” کہا جاتا ہے۔   یہ عقائد اہل سنت کے نزدیک باطل و گمراہ کن ہیں اور امام مہدی رضی اللہ عنہ کی ولادت ابھی نہیں ہوئی ۔

اہلِ تشیع حضرات اپنا یہ مؤقف درست ثابت کرنے کے لئیے   بخاری و مسلم کی یہ روایت پیش کرتے ہیں :حضرت جابر ابن سمرہ سے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے سنا کہ اسلام بارہ خلیفوں تک غالب رہے گا جو سارے کے سارے قریش کے ہوں گے اور ایک روایت میں ہے کہ لوگوں کا دین جاری رہے گا جب تک ان میں بارہ شخص والی ہوں جو سب قریش سے ہوں گے اور ایک روایت میں ہے کہ دین قائم رہے گا حتی کہ قیامت قائم ہو جاوے یا ان پر بارہ خلیفہ ہوں جو سارے قریش سے ہوں ۔

اس حدیث کی شرح میں حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : یہاں خلافت سے مراد خلافت نبوت نہیں یعنی خلافت راشدہ کیونکہ اس کی مدت صرف تیس سال ہے جو امام حسن پر ختم ہوتی ہے بلکہ خلافت امارت مراد ہے ، خلیفہ بمعنی امیر ہے ۔ اہل سنت کے نزدیک اس فرمان عالی کے چند معنی کیے گئے ہیں : ایک یہ کہ یہ واقعہ امام مہدی کے بعد سے قیامت تک ہوگا ڈیڑھ سو سال میں یہ بارہ خلفاء ہوں گے ، پہلے پانچ خلیفہ سبط اکبر یعنی امام حسن کی اولاد ہیں ، پھر پانچ خلیفہ سبط اصغر یعنی امام حسین کی اولاد میں ، پھر ایک خلیفہ امام حسین کی اولاد میں جیسا کہ بعض احادیث میں ہے ۔ دوسرے یہ کہ حضور انور صلی الله علیہ و آلہ وسلّم کے بعد سے لے کر قیامت تک یہ خلفاء مختلف وقتوں میں ہوں گے۔تیسرے یہ کہ حضور انور صلی الله علیہ و آلہ وسلّم کے بعد سے مسلسل بارہ امیروں کے زمانہ تک دین غالب رہے گا کفار کا غلبہ نہ ہوسکے گا اگرچہ ان میں سے بعض فاسق ظالم ہوں گے جیسے یزید ابن معاویہ وغیرہ ۔ چوتھے یہ کہ آخری زمانہ میں بیک وقت بارہ بادشاہ مختلف ممالک میں ایسے ہوں گے جن کے سبب اسلام غالب ہوگا ۔ والله اعلم ! (اشعۃ اللمعات) ۔ اس حدیث سے شیعہ اپنے بارہ امام ثابت کرتے ہیں جو حسب ذیل ہیں : علی ، حسن ، حسین ، امام زین العابدین ، محمد باقر ، جعفر صادق ، موسیٰ کاظم ، علی رضا ، محمد تقی ، علی تقی ، حسن عسکری ، آخری میں امام مہدی (رضی اللہ عنہم) کہ یہ حضرات خلفاء برحق ہیں یعنی مستحق خلافت اگرچہ ان میں سے اکثر بظاہر خلیفہ نہ ہوئے ۔(مرقات) مگر یہ قول صراحۃً باطل ہے کہ شیعہ کے نزدیک ان کا زمانہ تاقیامت ہے ان کے زمانوں میں دین کہاں غالب رہا دین مغلوب ہوگیا حتی کہ امام مہدی کو غار میں چھپ جانا پڑا اب وہ قریب قیامت ہی آئیں گے ۔ اہل سنت کی مذکورہ چار شرحوں میں تیسری شرح قوی معلوم ہوتی ہے ، ان میں بارہ بادشاہوں میں آخری بادشاہ ولید ابن یزید ابن عبدالملک ابن مروان ہے ، اس بادشاہ کے قتل ہونے پر مسلمانوں میں بڑا اختلاف پیدا ہوگیا ، دیکھو اشعۃ اللمعات یہ ہی مقام ۔ خلافت راشدہ اور غیر راشدہ اور امارت و سلطنت کا فرق ملحوظ رہے ۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد نمبر 8 صفحہ نمبر 228،چشتی)

خلاصہ کلام یہ کہ بارہ امام نہ ہی ہمارے عقائد کا حصّہ ہیں اور نہ ہی ان پر ایمان لانا ضروری ، نبی کریم صلی ﷲ تعالی علیہ و آلہ وسلّم کے تمام صحابہ کرام ، آلِ نبی و ائمہ اہل بیت اور تمام بزرگان دین رضوان اللہ علیہم اجمعین ہمارے لیے لائقِ احترام ، قابلِ تعظیم اور ذریعہ بخشش و نجات ہیں لیکن انبیاء کرام اور ملائکہ مقربین علیہم السّلام کے بعد امت میں کوئی بھی معصوم نہیں ۔

بارہ خلفا یا بارہ امام رضی اللہ عنہم

محترم قارئینِ کرام : کسی حدیث شریف میں بارہ اماموں کی صراحت نہیں ہے ، البتہ بارہ خلفاء کا تذکرہ ضرور موجود ہے : وَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : لَا يَزَالُ الْإِسْلَامُ عَزِيزًا إِلَى اثْنَيْ عَشَرَ خَلِيفَةً كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ ۔ وَفِي رِوَايَةٍ : لَا يَزَالُ أَمْرُ النَّاسِ مَاضِيًا مَا وَلِيَهُمُ اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ ۔ وَفِي رِوَايَةٍ:«لَا يَزَالُ الدِّينُ قَائِمًا حَتَّى تَقُومَ السَّاعَة أَويَكُونُ عَلَيْهِمُ اثْنَاعَشَرَ خَلِيفَةً كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْش ۔
ترجمہ : روایت ہے حضرت جابر ابن سمرہ سے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے سنا کہ اسلام بارہ خلیفوں تک غالب رہے گا (1) جو سارے کے سارے قریش کے ہوں گے اور ایک روایت میں ہے کہ لوگوں کا دین جاری رہے گا جب تک ان میں بارہ شخص والی ہوں جو سب قریش سے ہوں گے اور ایک روایت میں ہے کہ دین قائم رہے گا حتی کہ قیامت قائم ہو جاوے یا ان پر بارہ خلیفہ ہوں جو سارے قریش سے ہوں (2) (مشکواة المصابیح حدیث نمبر 5983 مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ)۔(صحیح بخاری رقم/7222))(صحیح مسلم واللفظ له (رقم/1821)

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمة اللہ علیہ اس حدیثِ مبارکہ کی شرح فرماتے ہوۓ لکھتے ہیں : ⏬

(1) : یہاں خلافت سے مراد خلافت نبوت نہیں یعنی خلافت راشدہ کیونکہ اس کی مدت صرف تیس سال ہے جو امام حسن پر ختم ہوتی ہے بلکہ خلافت امارت مراد ہے،خلیفہ بمعنی امیر ہے ۔ اہل سنت کے نزدیک اس فرمان عالی کے چند معنی کیے گئے ہیں: ایک یہ کہ یہ واقعہ امام مہدی کے بعد سے قیامت تک ہوگا ڈیڑھ سو سال میں یہ بارہ خلفاء ہوں گے ، پہلے پانچ خلیفہ سبط اکبر یعنی امام حسن کی اولاد ہیں،پھر پانچ خلیفہ سبط اصغر یعنی امام حسین کی اولاد میں ، پھر ایک خلیفہ امام حسین کی اولاد میں جیساکہ بعض احادیث میں ہے ۔ دوسرے یہ کہ حضور انور صلی الله علیہ و آلہ وسلّم کے بعد سے لے کر قیامت تک یہ خلفاء مختلف وقتوں میں ہوں گے۔تیسرے یہ کہ حضور انور کے بعد سے مسلسل بارہ امیروں کے زمانہ تک دین غالب رہے گا کفار کا غلبہ نہ ہوسکے گا اگرچہ ان میں سے بعض فاسق ظالم ہوں گے جیسے یزید ابن معاویہ وغیرہ۔چوتھے یہ کہ آخری زمانہ میں بیک وقت بارہ بادشاہ مختلف ممالک میں ایسے ہوں گے جن کے سبب اسلام غالب ہوگا۔والله اعلم! (اشعۃ اللمعات) اس حدیث سے شیعہ اپنے بارہ امام ثابت کرتے ہیں جو حسب ذیل ہیں: علی،حسن،حسین،امام زین العابدین،محمد باقر،جعفر صادق،موسیٰ کاظم،علی رضا،محمدتقی،علی تقی،حسن عسکری ، آخری میں امام مہدی (رضی اللہ عنہم) کہ یہ حضرات خلفاء برحق ہیں یعنی مستحق خلافت اگرچہ ان میں سے اکثر بظاہر خلیفہ نہ ہوئے ۔ (مرقات) مگر یہ قول صراحۃً باطل ہے کہ شیعہ کے نزدیک ان کا زمانہ تاقیامت ہے ان کے زمانوں میں دین کہاں غالب رہا دین مغلوب ہوگیا حتی کہ امام مہدی کو غار میں چھپ جانا پڑا اب وہ قریب قیامت ہی آئیں گے۔ اہل سنت کی مذکورہ چار شرحوں میں تیسری شرح قوی معلوم ہوتی ہے،ان میں بارہ بادشاہوں میں آخری بادشاہ ولید ابن یزید ابن عبدالملک ابن مروان ہے، اس بادشاہ کے قتل ہونے پر مسلمانوں میں بڑا اختلاف پیدا ہوگیا ،دیکھو اشعۃ اللمعات یہ ہی مقام۔خلافت راشدہ اور غیر راشدہ اور امارت و سلطنت کا فرق ملحوظ رہے ۔

(2) : ان دونوں روایتوں کے الفاظ مختلف ہیں مطلب دونوں کا ایک ہی ہے ۔ (مراة شرح مشکواة جلد نمبر 8)

امام نووی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : ويحتمل أن يكون المراد مستحقي الخلافة العادلين ، وقد مضى منهم من عُلم ، ولا بد مِن تمام هذا العدد قبل قيام الساعة " انتهى ۔
ترجمہ : ممکن ہے اس حدیث سے مراد خلافت کے ایسے حقدار ہوں ، جو عادل و انصاف پسند ہونگے،جن میں سے کچھ معلوم ہیں اور باقی قیامت تک مکمل ہونگے ۔ (صحیح شرح مسلم 12/202)

امام قرطبی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : هم خلفاء العَدْلِ ؛ كالخلفاء الأربعة ، وعمر بن عبد العزيز ، ولا بُدَّ من ظهور من يَتَنَزَّلُ مَنْزِلَتهم في إظهار الحق والعدل ، حتى يَكْمُل ذلك العدد ، وهو أولى الأقوال عندي " انتهى ۔ (المفهم شرح صحیح مسلم (4/8)
ترجمہ : اس سے عادل خلفاء مراد ہیں ، جیسے خلفاء اربعہ ، اور عمر بن عبد العزیز ، اور ہر وہ خلیفہ جو اظہار حق اور عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے والا ہو گا وہ اس حدیث کا مصداق بنے گا ، حتی کہ یہ تعداد پوری ہو جائے ۔

اس حدیث سے شیعہ اپنے عقیدے کے مطابق جو یہ استدلال کرتے ہیں کہ اس سے مراد بارہ امام ہیں ، باطل و فاسد ہے ۔ جو تعصب و جہالت اور خواہشات نفس پر مبنی ہے ۔ کیونکہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے (اثْنَا عَشَرَ خَلِيفَةً) فرمایا ہے (اثْنَا عَشَرَ اماما ) نہیں فرمایا ، نیز شیعہ کے بارہ اماموں میں سے متعدد کا خلافت کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہ تھا ۔

اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس سے مراد وہ خُلفاء ہیں کہ والیانِ اُمّت ہوں اور عدل و شریعت کےمطابق حکم کریں، ان کا متصل مسلسل ہونا ضرور نہیں۔ نہ حدیث میں کوئی لفظ اس پر دال ہے ، اُن میں سے خلفائے اربعہ وامام حسن مجتبٰے و امیر معاویہ و حضرت عبداللہ بن زبیر و حضرت عمر بن عبدالعزیز معلوم ہیں اور آخر زمانہ میں حضرت سیدنا امام مہدی ہوں گے ۔ رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ۔ یہ نو ہوئے باقی تین کی تعین پر کوئی یقین نہیں ۔ واللہ تعالٰی اعلم ۔ (فتاوی رضویہ جلد نمبر 27،چشتی)

محترم قارٸینِ کرام : مذکورہ حدیث مبارکہ مختلف الفاظ کے ساتھ کتب احادیث میں موجود ہے :

بخاری شریف میں ہے کہ "بارہ امیر ہوں گے اور وہ سب قریش سے ہونگے (صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 1073 کتاب الاحکام باستخلاف،چشتی)

مسلم شریف میں ہے : یہ معاملہ قیامت تک اسی طرح جاری رہے گا یہاں تک کہ اس امت میں بارہ خلفا آجائیں وہ سب قریش سے ہون گے ۔ (صحیح مسلم شریف جلد 2 صفحہ 119 کتاب الامارۃ مطبع نور محمد کراچی)

سنن ابی داؤد میں ہے : تم پر بارہ خلیفہ ہوں گے ان تمام پر امت کا اجماع ہوگا وہ تمام قریش سے ہوں گے ۔ (سنن ابی داؤد جلد 2 صفحہ 232 کتاب المہدی ایچ ایم سعید)

کتب شیعہ مین حدیث مذکورہ کے الفاظ

خصال شیخ صدوق میں ہے : یہ امت اس وقت تک بہتر رہے گی اور اس کا اپنے دشمنوں پر قبضہ رہے گا جب تک بارہ بادشاہ نہیں آتے ۔ (خصال شیخ صدوق جلد 2 صفحہ 239،ایران)

الخصال شیخ صدوق میں ہے : بارہ امیر ہوں گے سب کے سب قریشی ہوں گے ۔ (الخصال جلد 2 صفحہ 242،چشتی)

مندرجہ بالا کتب کے حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ ان بارہ اشخاص کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے تین ناموں سے ذکر فرمایا :

(1) خلیفہ (2) امیر (3) ملک

لہٰذا اس حدیث مبارکہ کا مصداق وہ اشخاص ہوں گے جو خلیفہ بادشاہ یا امیر گذرے ہوں گے اس کے علاوہ کوئی اور اس کا مصداق نہیں ہوسکتا ۔

کتب شیعہ سے خلیفہ اور امیر کی شرائط

(1) ۔ اسلامی ملک کی سرحدوں کی ذمہ داری خلیفہ و امام پر عائد ہوتی ہے ۔ (اصول کافی جلد1 صفحہ 200)

(2) ۔ حدود کا قیام (یعنی زانی شرابی قازف ڈاکو پر حدود جاری کرنا جو اللہ تعالی نے مقرر فرمائی ہیں زکوۃ و عشر جزیہ کی وصولی اور نظام اسلام کا قیام امام کی ذمہ داری ہے ۔ (کشف الغمہ فی معرفۃ الائمہ جلد 1 صفحہ 56 فی عدد الائمہ،چشتی)

(3) ۔ دنیا سے شر فساد اور ظلم و ستم مٹانا بھی خلیفہ اور امیر کی ذمہ داری ہے ۔ (حدیقۃ اشیعۃ صفحہ 473 مقدس اردبیلی مطبوعہ تہران)

(4) ۔ خمس وصول کرنا خلیفہ وقت کی ذمہ داری ہے ۔ (اصل الشیعۃ صفحہ 185)

(5) ۔ امام و خلیفہ کا بہادر ہونا ضروری ہے تاکہ فریضہ جہاد بھی ادا کرسکے ۔ (عیون الحیوۃ ملا باقر مجلسی صفحہ 84،تنویر ششم تہران)

ان شرائط امامت و خلافت کو پڑھ لینے کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح واض ہو ہوجاتی ہے کہ مذکورہ بالا حدیث مبارکہ کے مصداق وہ اشخاص نہیں جن کو شیعہ منصوص بارہ امام سمجھتے ہیں کیونکہ ایک تو حدیث میں الفاظ خلیفہ امیر اور ملک کے آئے اور دوسرے یہ خلافت کی شرائط آئمہ میں نہیں پائی جاتی لہٰذا اس حدیثِ مبارکہ کے مصداق خلفا میں سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ سرِ فہرست ہیں ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ان بارہ خلفا میں سے شروع والوں کی تعین نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خود فرمادی ہے ۔ جس کے بعد کسی کو اپنے عقلی گھوڑے دوڑانے کی اجازت نہیں ۔

امام ابو القاسم سلیمان ابن احمد طبرانی علیہ الرحمۃ سند صحیح کے ساتھ روایت فرماتے ہیں کہ نبی کرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : یکون بعدی اثنا عشر خلیفۃ ابو بکر صدیق لا یلبث بعدی الا قلیلا ۔
ترجمہ : میرے بعد بارہ خلفا ہوں گے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھوڑے دن ہی رہں گے پھر عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اللہ عنہما کا ذکر فرمایا ۔ (المعجم الکبیر لطبرانی جلد 1 صفحہ 21 دار الکتب العلمیہ بیروت)(طبرانی اوسط جلد 8 صفحہ 319 مجمع الزوائد جلد 5 صفحہ 178)

مذکورہ بالا دلائل سے معلوم ہوا کہ بارہ خلفا سے مراد وہ خلفا ہیں جو والیانِ امت ہوں اور عدل و شریعت کے مطابق حکم کریں ۔ ان کا متصل ہونا ضروری نہیں اور نہ حدیث میں کوئی لفظ اس میں دلالت کرتا ہے کہ وہ متصل ہوں گے ۔ باقی اہل سنت و جماعت کو ان بارہ اماموں رضی اللہ عنہم کی ولایت میں ذرہ برابربھی شک نہیں وہ مرتبہ غوثیت کے حامل افراد ہیں اور حقیقت میں اہل سنت و جماعت کے امام ہیں لیکن اس حدیث مبارکہ کا مصداق نہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...