کرسمس اور ہولی منانا و مبارکباد دینا
محترم قارئینِ کرام : کرسمس ڈے کی حقیقت اور حضرت عیسٰی علیہ السّلام کی تاریخ پیدائش ۔ حضرت عیسٰی علیہ السّلام انبیاء کرام علیہم السّلام میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں ، اللہ تعالی نے اپنی قدرت کا شاہکار بناکر اور معجزانہ انداز میں آپ کو دنیا میں بھیجا ،آپ کی زندگی شروع ہی سے غیر معمولی رہی ، اللہ تبارک و تعالٰی نے معجزانہ طورپر بغیر باپ کے پیدا فرمایا اور پھر زندہ ہی آسمان پر اٹھا لیا دوبارہ قربِ قیامت آپ دنیا میں تشریف لائیں گے ۔ حضرت عیسی علیہ السّلام کی زندگی نہایت سبق آموز اور عبرت انگیز ہے۔اللہ تعالی نے قرآن کریم میں مختلف مقامات پر الگ الگ اسلوب و اندازمیں آپ کی شخصیت کا ذکر فرمایا ۔ لیکن آپ کے ماننے والوں نے آپ کے ساتھ بہت ہی ناروا سلوک کیا اور آپ کی جانب اور آپ کے ماں حضرت مریم کی جانب بہت سی غیر ضروری اور لایعنی و مشرکانہ باتوں کو جوڑ دیا،عقائد ونظریات کو منسوب کردیا ، اور آپ کی پیدائش کے نام پر جو تہذیب و شرافت کے خلاف اور حقائق سے ناواقف ہوکر رسوم ورواج کو انجام دینے کا ایک سلسلہ شروع کردیا ہے ۔ آئیے ایک مختصرنظر کرسمس ڈے کی حقیقت پر ڈالتے ہیں اور اس نام پر جو خرافات انجام دی جاتی ہیں ان کو ملاحظہ کرتے ہیں ۔
چناںچہ 25 دسمبر کو دنیا بھر میں عیسائی کرسمس ڈے مناتے ہیں ، جس تاریخ کے بارے میں ان کاخیال ہے کہ اسی تاریخ کو حضرت عیسٰی علیہ السّلام کی ولادت ہوئی ہے ، اسی خوشی میں وہ اس دن کو عید کی طرح مناتے ہیں ، خوشیوں کا اہتمام کرتے ہیں ، جشن ومسرت سے سرشار ہوکر خود حضرت عیسی علیہ السّلام کی تعلیمات کے خلاف کام انجام دیتے ہیں ۔ اس کی کیا حقیقت ہے اس کو ملاحظہ کیجیے ۔
کرسمس (Christmas) دو الفاظ کرائسٹ (Christ) اور (Mass) کا مرکب ہے ۔ کرائسٹ (Christ) مسیح (علیہ السّلام) کوکہتے ہیں اور ماس (Mass) اجتماع ، اکھٹاہونا ہے ۔ یعنی مسیح کے لئے اکھٹا ہونا ، مسیحی اجتماع یا یومِ میلاد مسیح علیہ السّلام ۔ یہ لفظ تقریباً چوتھی صدی کے قریب قریب پایا گیا ، اس سے پہلے اس لفظ کا استعمال کہیں نہیں ملتا ۔ دنیا کے مختلف خطوں میں کرسمس کو مختلف ناموں سے یاد کیا اور منایا جاتا ہے ۔۔۔ مسیح علیہ السّلام کی تاریخ پیدائش بلکہ سن پیدائش کے حوالے سے بھی مسیحی علماء میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے ۔ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کلیسا اسے 25 دسمبر کو ، مشرقی آرتھوڈوکس کلیسا 6 جنوری کو اورارمنی کلیسا 19جنوری کو مناتا ہے ۔ کرسمس کا تہوار25 دسمبر کو ہونے کا ذکر پہلی مرتبہ شاہِ قسطنطین (جو کہ چوتھی صدی عیسوی میں بت پرستی ترک کرکے عیسائیت میں داخل ہو گیا تھا) کے عہد میں 325 عیسوی میں ہوا ۔ یاد رہے کہ صحیح تاریخ پیدائش کا کسی کو علم نہیں ۔ تیسری صدی عیسوی میں اسکندریہ کے کلیمنٹ نے رائے دی تھی کہ اسے 20 مئی کو منا یا جائے ۔ لیکن 25 دسمبر کو پہلے پہل رول ( اٹلی) میں بطور مسیحی مذہبی تہوار مقرر کیا گیا تاکہ اس وقت ایک غیر مسیحی تہوار زحل (یہ رومیوں کا ایک بڑا تہوار تھا) کو جو سورج کے راس الجدی پر پہنچنے کے موقع پر ہوتا تھا ، پسِ پشت ڈال کر اس کی جگہ مسیح کی سالگرہ منائے جائے ۔ (قاموس الکتاب :ص147 بحوالہ کرسمس کی حقیقت :6)
کینن فیرر نے بھی اپنی کتاب لائف آف کرائسٹ میں اس بات کا اعتراف کیا کہ مسیح علیہ السلام کے یوم ولادت کا کہیں پتہ نہیں چلتا ۔ یہ ہے کرسمس ڈے کی حقیقت جسے دنیا میں حضرت عیسی کا یوم پیدائش سمجھ کر دھوم دھام کے ساتھ منایا جاتا ہے ، تاریخی حقیقت سے سب ناواقف ہوکر اور صحیح ترین روایتوں کے فقدان کے سبب خود اپنے پوپ و پادریوں کی من گھڑت بیان کردہ تاریخ کے مطابق پوری عیسائی دنیا اندھیرے میں پڑی ہوئی ہے ، اور اس پرمستزاد یہ ہے اسے اپنے نبی کی ولادت سے منسوب کرتے ہیں اور خود نبی کی تعلیمات اور شرافت و پاکیزگی والی ہدایات کو فراموش کرکے طوفان بد تمیزی قائم کرتے ہیں ، شراب و شباب کے نشے میں دھت ہوکر انسانی اور اخلاقی حدوں کوپامال کرتے ہیں ۔ کرسمس کا آغاز ہوا تھا تو اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں میں مذہبی رجحان پیدا کیا جائے یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ ابتداء میں یہ ایک ایسی بدعت تھی جس کی واحد فضو ل خرچی ’’موم بتیاں‘‘ تھیں لیکن پھر ’’کرسمس ٹری‘‘ آیا ، پھر موسیقی ، پھر ڈانس اور آخر میں شراب بھی اس تہوار میں شامل ہوگئی ۔ شراب داخل ہونے کی دیر تھی کہ یہ تہوار عیاشی کی شکل اختیا ر کیا گیا ۔ صرف برطانیہ کا یہ حال ہے کہ ہر سال کرسمس پر 7 ارب 30 کروڑ پاؤنڈ کی شراب پی جاتی ہے ۔ 25 دسمبر 2005ء میں برطانیہ میں جھگڑوں ، لڑائی ، مار کٹائی کے دس لاکھ واقعات سامنے آئے ، شراب نوشی کی بنا پر 25 دسمبر 2002 میں آبروریزی اور زیادتی کے 19 ہزار کیس درج ہوئے ۔ (کرسمس کی حقیقت تاریخ کے آئینہ میں :11،چشتی)
اس طرح یہ لوگ خود ساختہ مذہبی دن کی دھجیاں اڑاتے ہیں ، اور اپنے پیغمبر علیہ السّلام کے نام پر تما م ناروا چیزوں کو اختیار کرتے ہیں ۔
حضرت عیسی علیہ السّلام کی شخصیت نہایت ہی قابل احترام ہے ، اور ان کی سیرت و زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اللہ تعالی نے قرآن کریم میں بیان کیا ، ان کی پاک و صاف زندگی اور ان کی ماں حضرت مریم علیہا السّلام کے پاکیزہ کردار کی شہادت قرآن کریم نے دی ہے ، جتنی سچائیوں کو قرآن نے بیان کیا ان کی تحریف کردہ کتابوں میں بھی وہ نہیں ہیں ۔ لیکن ان لوگوں نے خود ان مبارک ناموں پر اپنی عیش و مستیوں کو پورا کیا اور اس بے حیا ئی کے طوفان میں پوری دنیا کو لے جا نا چاہتے ہیں ، دیہاتوں ،قریوں کے مسلمانوں پر ان کے ایمان لیوا حملے ، دین سے دور مسلمانوں کو عیسائیت کے جال میں پھانسنے کی تدبیریں دن بدن بڑھتی ہی جارہی ہیں ، حقائق کو بھلاکر کفر وشرک کے دلدل میں انسانوں کو پھنسانے کی کوشش میں مال و دولت کے انبار لٹارہے ہیں ۔ایسے میں مسلمانوں کو ان حقائق سے باخبر رہنا ضروری ہے ، ان تمام رسموں اور رواجوں اور غیر وں کے تہواروں سے اپنے آپ کو بچانا ضروری ہے ۔بالخصوص عیسائی مشنری اسکولوں میں تعلیم پانے والے مسلمان بچوں کو ان تما م چیزوں محفوظ رکھنا ضروری ہے ۔چوں کہ وہ اپنے اسکولوں میں اپنے مذہب کی تبلیغ کا کام بہت ہی خاموش انداز میں انجام دیتے چلے جاتے ہیں اور ہم معیاری تعلیم کے خوابوں میں کہیں اپنی اولاد کودین وایمان سے دور نہ کردیں ۔
کرسمس کے متعلق شرعی حکم
محض رسمی تعلقات کی بنا پر مبارکباد دینا گناہ ہے ـ کفر نہیں جبکہ اس دن کو ان کے دین کے باعث اچھا یا لائقِ تعظیم نہ جانتا ہو ۔ اور اگر کافروں کے کسی دن کو باعظمت جان کر اسکی مبارکباد دیتا ہو تو ایسے شخص پر حکُمِ کفر ہے چنانچہ بحر الرائق میں ہے : الموفقة مھم فیما یفعلون في ذٰلك الیوم و بشرائه یوم النیروز شیاء لم یکن یشتر به قبل ذلك تعظیماً للنیروز لا لِاَکل و الشرب وباھدائه ذالك الیوم للمشرکین و لو بیضة تعظیماً لذالك الیوم ۔
ترجمہ : یعنی کفار کی موافقت کرنا اس کام میں جو خاص اس روز وہ لوگ کرتے ہوں اسی طرح یومِ نیروز (کفار کے مذہبی دن) میں کچھ خریدنا اس دن کے باعث ، جبکہ اس سے قبل وہ چیزیں نہیں خریدتا ، ہاں مگر عام کھانے پینے کی چیز ہو تو کچھ حرج نہیں پھر مشرکین کو ہدیہ کرنا خاص روز کی تعظیم کی خاطر اگرچہ ایک انڈہ ہی ہو ۔ (شرح فقه الاکبر، صفحہ نمبر 106 دار الکتب العلمیہ بیروت)
اور افسوس کہ آج کل یہ مناظر عام ہوتے چلے جا رہے ہیں ایسے تمام لوگوں کو ڈرانا چاہیئے کہ اس دن کو قابلِ تعظیم سمجھتے ہوئے مذکورہ کام کرنا کفر ہے
اللہ تعالٰی مسلمانوں کو اپنی رضا والے کام کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے آمین ۔
کرسمس ڈے ہو یا ہولی دیوالی کفار کی غیر اسلامی عیدوں پرہرگز ہرگز کافروں کو مبارکباد تحفے کھانے مٹھائیاں وغیرہ نہ دیا کریں اور اگر وہ دیں تو ہرگز ہرگز نہ لیا کریں ، اللہ تعالی اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی تمام مسلمانوں کو توفیق عطا فرمائے . (بہار عقائد و مسائل صفحہ نمبر 201)
نہ اسے قتل کیا اور نہ اسے سولی دی
ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور ان کے اس کہنے پر کہ ہم نے مسیح عیسی بن مریم اللہ کے رسول کو شہید کیا اور ہے یہ کہ انہوں نے اسے قتل کیا اور نہ اسے سولی دی بلکہ ان کیلے اس کی شبیہ کا ایک بنادیا گیا اور جو اس کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں ضرور اس کی طرف سے شبہہ میں پڑے ہوئے ہیں ، انہیں اس کی کچھ بھی خبر نہیں مگر یہی گمان کی پیروی اور بیشک انہوں نے اس کو قتل نہیں ۔ (پارہ نمبر 6 سورہ النساء آیت نمبر 157)
حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر
حضرت عیسی علیہ الصَّلٰوۃُ والسَّلَام یہودیوں کے ہاتھوں مقتول نہیں ہوئے اور اللہ تعالی نے آپ کو آسمانوں پر اٹھالیا ، جو یہ عقیدہ رکھے کہ حضرت عیسی علیہ الصَّلٰوۃُ والسَّلَام قتل ہوگۓ اور سولی پر چڑھ گے جیسا کہ نصاری کا عقیدہ ہے تو وہ شخص کافر ہے ، کیونکہ قران مجید میں صاف صاف مذکور ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نہ مقتول ہوئے نہ سولی پر لٹکائے گے . (عجائب القرآن مع غرائب القرآن صفحہ نمبر 74،76،چشتی)
کرسمس ڈےکا کیا مطلب ہے ؟
عیسائیوں کا بڑادن حضرت عیسی علیہ الصَّلٰوۃُ والسَّلَام کی پیدائش کا دن 25 دسمبر عید نصاری ۔ (فیروزاللغات ص1003)
لیکن ! مسلمانوں کو کرسمس ڈے کی رسومات میں شرکت کرنا مبارکباد دینا ، وغیرہ کسی طرح بھی جائز نہیں ہے اور بعض صورتوں میں کفر ہے ۔
ٓجس نے کافروں کے دن کی تعظیم کیلے کوئی کام کیا مثلا کوئی چیز خریدی اس پر حکم کفر ہے یہی حکم کرسمس منانے کا ہے اور اس دن لوگ کافروں کو مبارکباد دیتے ہیں اور بہت جگہ تو مختلف برادریوں کی طرف سے بینرز لگے ہوتے ہیں جن پر کافروں کے نام کرسمس پر مبارک بادیاں تحریر ہوتی ہے ایسے تمام لوگوں پر جو کرسمس ڈے کو قابل تعظیم سمجھ کر یہ کام کرتے ہیں حکم کفر ہے ۔ (بہار عقائد ومسائل جلد اول صفحہ نمبر 201)
نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک صحابی کو حضرت عیسی علیہ الصَّلٰوۃُ والسَّلَام کے متعلق بتایا کہ وہ وہ اس دنیا میں دوبارہ نزول فرمائیں گے اور پھر وہ مدینہ آئیں گے ، اور رسول اللہ صل اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مزید فرمایا اور جب عیسی علیہ الصَّلٰوۃُ والسَّلَام میری قبر کے پاس کھڑے ہوں گے تو مجھے یا محمد کہہ کر پکاریں گے اور میں ان کی پکار کا جواب دوں گا ۔ (ابن حجر العسقلانی ، کتاب مطالب الاولیاء جلد 4 حدیث نمبر 3953،چشتی)
کفار کے میلوں تہواروں میں شرکت کا حکم
کفار کی غیر اسلامی عیدوں کےدن کفار کو تحائف دینا وغیرہ دینا حرام ہے وگناہ ہے اور ان غیراسلامی عیدوں کے تعظیم مقصود ہوتو کفر ہے ۔ (ایمان کی حفاظت صفحہ نمبر 117 ، 118 ، 120)
کافروں کے دن کی تعظیم یا مبارکباد دینے کا شرعی حکم
جس نے کافروں کے دن کی تعظیم کیلے کوئی کام کیا مثلا” کوئی شے خریدی اس پر حکم کفر ہے . یہی حکم کرسمس منانے کا ہے ۔ (بہار عقائد و مسائل صفحہ نمبر 200)
میری کرسمس کا مطلب ہے اللہ کے بیٹا ہوا ہے ، مبارک ہو ۔ الله کی پناہ ، نعوذ بااللہ من ذلک ۔ ایسا عقیدہ رکھنا کفر ھے جو مسلمان سے ایمان ختم کر دیتا ہے ۔ اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے ۔ ترجمہ : اے محبوب علیہ السلام ! آپ فرما دیجئے اللہ ایک ہے. وہ کسی کا محتاج نہیں ھے نہ اس نے کسی بیٹے کو جنا. اور نہ اس کو کسی نے جنا ہے .اور نہ کوئی اس جیسا ہو سکتا ہے ۔ (سورة إخلاص)
ہم مسلمان ہیں ہمیں میری کرسمس Happy Christmas نہیں کہنا چاہئے ۔ عیسی عليه الصلاة والسلام کو غیر مسلم عیسائی اللہ کا بیٹا مانتے ہیں اور ان کی پیدائش کی خوشی میں کرسمس ڈے مناتے ہیں ۔ تو برائے کرم مسلمان ہونے کے ناتے کبھی میری کرسمس Happy Christmas نہ کہنا ۔ پچیس 25 دسمبر سے پہلے پہلے ہر مسلمان بھائی تک پہنچانے کی کوشش کیجئے اس پر آپ کو اجر ملےگا ۔ اس موقع پر سوشل میڈیا و ٹی وی TV میڈیا پر اس تہوار پر مشتمل کسی بھی قسم کا کوئی پروگرام و نیوز ہرگز مت سنیں نہ دیکھیں اور اپنے بچوں پر بھی نظر رکھیں ۔
بالخصوص سکول و کالج یونیورسٹی میں کرسمَس ڈے Day Christmas پروگرام رکھے جاتے ہیں اور انہیں سیلیبریٹ یعنی منایا جاتا ہے ۔ بچوں کو ہرگز اس کا حصہ نہ بننے دیں نہ خود شرکت کریں نہ بچوں کو شرکت کروائیں ۔
پاکستان میں اسلام مخالف سوچی سمجھی سوچ کے تحت دین سے بیزار لبرل ازم میڈیا کے ذریعے عوام میں اتاری جا رہی ہے اور یہ ناپاک سوچ سیاستدانوں میں بڑھتی جا رہی ھے جو آئے دن اسلامی تعلیمات کی مخالفت میں زبان درازی کرتے نظر آتے ہیں ۔ اسی طرح کفار کے مذہبی تہوار منانا بھی عام ہو رہا ہے ۔ ان تہواروں کو منانے والے وہی میڈیا کی اینکرز ، سیاستدان اور بعض مذہبی حلیے والے بدمذہب بھی ہیں جو پاکستان سمیت پوری دنیا میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف نہیں بولتے ۔ یہ لوگ جب بھی بطور اعتراض بولیں گے اسلام کے احکام و مسلمانوں اور علمائے دین کے خلاف ہی بولیں گے اور ان کی زبانوں پر دن رات اقلیتوں کے حقوق سوار ہوں گے ۔ وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ چند دنیاوی مفادات کی خاطر انگریزوں کے ذہنی غلام ہونے کے ساتھ عملی غلام بھی بن چکے ہیں اور ہر دم اپنے انگریز آقاؤں کو خوش کرنے کے چکر میں رہتے ہیں ۔
کرسمس ڈے بھی کفار کے تہواروں میں سے عیسائیوں کا مذہبی تہوار ہے ۔ جس کو منانے والے مسلمان ہرسال بڑھتے جا رہے ہیں اور اس کے منانے کو عجیب و غریب انداز سے صحیح ثابت کیا جا رہا ھے ۔ نعوذبااللہ
شرعی نقطہ نظر سے کرسمس ڈے منانا ناجائز و حرام اور بعض صورتوں میں کفر ہے ۔ قارئین کے سامنے مستند حوالہ جات پیش کرکے ثابت کیا جا رہا ھے کہ کفار کے دینی تہوار کو منانا اسلامی شرعیہ میں حرام و کفر ہے ۔
کرسمس دو الگ لفظوں کا مجموعہ ہے ۔ لفظ Christ سے مراد حضرت عیسی علیہ السلام لی جاتی ہے اور لفظ Mas سے مراد پیدائش لی جاتی ہے ۔ گویا کرسمیس کا مطلب ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ۔
انٹرنیٹ پر ایک عیسائی شخص *ل''David J. Meyer'' نے باقاعدہ انگلش ڈکشنری و تاریخ سے ثابت کیا ہے کہ کرسمس کا مطلب حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش نہیں بلکہ اس کا مطلب ہے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات چنانچہ وہ کہتا ہے :
Here let it be noted that most people think that the word, "Christmas" means "the birth of Christ." By definition, it means "death of Christ", and I will prove it by using the World Book Encyclopedia....the word "Mass" in religious usage means a "death sacrifice." The impact of this fact is horrifying and shocking; for when the millions of people are saying"Merry Christmas", they are literally saying "Merry death of Christ!" ۔
یعنی یہ بات غور طلب ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ کرسمس کا مطلب ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ۔ جبکہ اس کا مطلب ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ۔ اس بات کو میں ورلڈ بک انسائیکلوپیڈیا سے ثابت کروں گا ۔ لفظ Mass مذہب میں موت کی قربانی میں استعمال ہوتا ہے ۔ یہ بات کافی حیران کن ہے کہ جب لاکھوں لوگ کہتے ہیں کہ کرسمس مبارک ہو تو درحقیقت وہ یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات مبارک ہو ۔ (www.lasttrumpetministries.org/tracts/tract4.html)
کرسمس ڈے عیسائیوں کا مذہبی شعار ہے اس میں عیسائیوں کے ساتھ شرکت کرنا حدیث پاک کی رو سے جائز نہیں چنانچہ سنن ابو داؤد کی حدیث پاک ہے : من جامع المشرک وسکن معہ فانہ مثلہ ۔
ترجمہ : جو مشرک سے یکجا ہو اور اس کے ساتھ رہے وہ اسی مشرک کی مانند ہے ۔ (سنن ابی داؤد ،کتاب الجہاد،باب فی الإقامۃ بأرض الشرک ،جلد 3،صفحہ 93، المکتبۃ العصریۃ بیروت)
مسئلہ : جب فقط شرکت کرنا حرام ہے تو ایک مسلمان کا مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کرنا ، ان کی تقریب کو ٹی وی TV چینل اور اخبارات کے ذریعے مشہور کروانا، مرد و عورت کے اختلاط میں کیک کاٹنا، مصافحہ کرنا وغیرہ حرام ہے ۔
مسئلہ : اگر کوئی اس دن عیسائیوں کی تقریبات میں اس دن کی تعظیم کرتے ہوئے شریک ہو تو وہ کفر کا مرتکب ہے ۔ فتاوی ہندیہ میں ہے : یکفر بخروجہ الی نیروز المجوس لموافقتہ معھم فیما یفعلون فی ذلک الیوم ۔
ترجمہ : جو مجوسیوں کے نیروز میں ان کی موافقت کرنے کےلیے جائے جس دن میں وہ خرافات کرتے ہیں تو اس کی تکفیر کی جائے گی ۔ (فتاوی ہندیہ،کتاب السیر،الباب التاسع فی احکام المرتدین، مطلب موجبات الکفر، جلد 2،صفحہ 276،دار الفکر ،بیروت،چشتی)
مسئلہ : اگر شرکت نہ کی جائے ویسے ہی اس دن کی تعظیم کرے اور عیسائیوں کی ان خرافات کو اچھا سمجھے تو کفر ہے ۔ فتاوی تار تار خانیہ میں ہے : واتفق مشایخنا ان من رای امر لکفار حسنا فھو کافر ۔
ترجمہ : مشائخ عظام کا اس بات پر اتفاق ہےکہ جو کافر کے کسی امر کو اچھا جانے وہ کافر ہے ۔ (تار تار خانیہ ،کتاب احکام المرتدین،فصل فی الخروج الی النشیدۃ۔۔،جلد 5،صفحہ 354،قدیمی کتب خانہ ،کراچی)
مسئلہ : اس دن عیسائیوں کو مبارکباد دینا ، تحائف دینا ناجائز و حرام ہے اور اگر تعظیم کی نیت سے یہ سب کرے تو کفر ہے ۔ فتاوی تار تار خانیہ میں ہے : حکی عن ابی حفص الکبیر لو ان رجلا عبد اللہ خمسین سنۃ ثم جا ء یوم النیروزفاھدی الی بعض المشرکین بیضۃ یرید بہ تعظیم ذلک الیوم فقد کفر باللہ و احبط عملہ ۔
ترجمہ : حضرت ابو حفص الکبیر سے حکایت کیا گیا کہ اگر آدمی پچاس سال اللہ عزوجل کی عبادت کرے پھر نیروز کا دن (کافروں کا مخصوص دن) آ جائے اور وہ اس دن کی تعظیم میں بعض مشرکین کو کوئی تحفہ دے اگرچہ انڈہ ہی ہو تو بےشک اس نے کفر کیا اور اس کے اعمال برباد ہوگئے ۔ (تار تار خانیہ ،کتاب احکام المرتدین،فصل فی الخروج الی النشیدۃ جلد 5 صفحہ 354،قدیمی کتب خانہ ،کراچی)
کرسمس ڈے منانے کے بعض حمایتی کہتے ہیں کہ : یہ بھی ایک نبی کی پیدائش کا دن ہے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کا دن بارہ ربیع الاول ہے ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ مستند دلائل سے ثابت ہے کہ یہ دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا نہیں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ خود کو مسلمان کہلوانے والا جو طبقہ اس دن کو مناتا ہے اس میں شاید ہی کوئی ہو جو ایک نبی کی ولادت کی خوشی میں مناتا ہے عام طور پر یہ منانے والے سیاستدان ، اینکرز ، این جی اوز والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو مشہور شخصیات ہوتی ہیں اور انٹرنیشنل لیول میں خود کو عیسائیت کا خیر خواہ ثابت کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب تک تصویر یا مووی نہ بنے تب تک یہ لوگ کرسمس کیک نہیں کاٹتے اور سرعام بینرز اور پوسٹروں پر یہ نبی کی ولادت کی خوشی نہیں لکھتے بلکہ عیسائیوں سے اظہارِ یکجہتی والے کلمات ہوتے ہیں اور واضح الفاظ میں عیسائیوں کو مبارکباد دے رہے ہوتے ہیں ۔
مستند علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش 25 دسمبر نہیں ہے یہ تو بعد میں بنا لی گئی ہے ۔ بلکہ ایک عیسائی ''David J. Meyer'' نے بھی یہ کہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش 25دسمبر نہیں چنانچہ کہتا ہے :
Jesus was not born on December 25th.
http://www.lasttrumpetministries.org/tracts/tract4.html
مفتی عبد الواجد قادری مفتی اعظم ہالینڈ فتاوٰی یورپ میں فرماتے ہیں : عیسائیوں کے یہاں کرسمس ڈے کی کوئی تاریخی حیثیت نہیں ہے یہ چودہویں صدی عیسوی کا ایک حادث تیوہار (تہوار) ہے ۔ لیکن دنیا بھر کے عیسائیوں نے اس اختراعی تیوہار (تہوار) کو اتنی مضبوطی سے تھاما کہ یہ صدیوں سے عیسائیت کی پہچان و شعار بن گیا ہر چرچ اور عیسائی تنظیم گاہیں اس تاریخ میں مزین کی جاتی ہیں اور دنیا کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ گویا یہ مسیحیوں کا عظیم الشان تیوہار ھے، *جس میں اربوں ڈالر کی شراب نہ صرف Drinke پی جاتی ہے ۔ پھر اربوں ڈالر کی آتشبازی اور آتشی مادّوں سے یورپ و امریکہ کے درودیوار اور آسمانی فضا تھرا اٹھتی ہے ۔
ہفتہ عشرہ تک گندھک کی بدبو سے ملک کا ملک مہکتا رہتا ہے ۔ بہرحال (کرسمس ڈے) ان کا مذہبی تہوار ہو یا نہ ہو مگر آج قومی تہوار کی حیثیت اختیار کر گیا ہے جس سے مسلمانوں کا دور رہنا لازم و ضروری ہے ۔ (Fatwa ID : 366-365 N = 4/1437-E )
. ہولی کےمسائل
ہولی وغیرہ کی مبارک باد دینا اشد حرام بلکہ منجر الی الکفر ہے جو مسلمان ایسا کرتے ہیں ان پر توبہ تجدید ایمان و نکاح لازم ہے ۔ (فتاوی شارح بخاری ج 2ص566)
ہولی جو کہ غیرمسلموں کا شعار ہے اس میں شرکت حرام بد کام بدانجام -شریک ہونے والوں پر توبہ فرض ہے اور تجدید ایمان وتجدید نکاح بھی کر لیں ۔ (فتاوی تاج الشریعہ ج 2ص 74)
شارح بخاری حضرت علاّمہ مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :ہولی وغیرہ کی مبارک باد دینا اشد حرام بلکہ منجر الی الکفر ہے جومسلمان ایسا کرتے ہیں ان پر توبہ تجدید ایمان ونکاح لازم ہے ۔ (فتاوی شارح بخاری جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 565 ، 566)
ہولی کہ غیرمسلموں کا شعار ہے اس میں شرکت حرام بد کام بدانجام - شریک ہونے والوں پر توبہ فرض ہے اور تجدید ایمان وتجدید نکاح بھی کرلیں(فتاوی تاج الشریعہ جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 74)
ہولی کے موقع پررنگ کو برا جانتے ہوے تھوڑا سا لگوانا بھی ناجائز و گناہ ہے ۔ (فتاوی مرکزتربیت افتاء جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 380)
ہولی کے موقع پر رنگ کو برا جانتے ہوے تھوڑا سا لگوانا بھی ناجائز و گناہ ۔(فتاوی مرکزتربیت افتاء ج 2 ص 380)
کافر اگر ہولی یا دیوالی کے دن مٹھائی دیں تونہ لے ہاں اگر دوسرے روز دے تو لےلیں مگر یہ نہیں سمجھیں کہ ان کے خبثاء کے تہوار کی مٹھائی ہے بلکہ مال موذی نصیب غازی" سمجھے ۔ (ملفوظات اعلی حضرت حصہ اول صفحہ 163)
اپنے ایمان کی حفاظت کےلیے کافروں کے تیوہاروں سے اپنے آپ کو دور رکھیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے ایمان کو سلامت رکھے آمین۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment