ایمان والدینِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حصّہ دوم
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو مجھے بہتر لوگوں اور بہتر زمانے میں رکھا اور سارے قبیلوں میں سب سے بہتر قبیلے اور سارے گھروں میں سب سے بہتر گھر میں پیدا فرمایا تو میں ذاتی طور پر اور گھر کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہوں ۔ (شفاءشریف جلد 1 صفحہ145)
مذکورہ روایت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بے مثال رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حسب و نسب ، زمانہ اور جائے پیدائےش کو بھی بے مثال بنایا ۔
چنانچہ آپ کے والدین کریمین رضی اللہ عنہما سے لے کر حضرت آدم و حوا علیہما السلام تک تمام آباﺅ اجداداور اُمہات کو اللہ تعالیٰ نے زنا و فحاشی اور کفر و شرک سے محفوظ رکھا بلکہ سب کے سب مومن و موحد یعنی توحید پرست تھے ۔
حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے طرف اشارہ کر کے فرمایا : بے شک یہ قریشی نبی حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے بارگاہ خدا میں نور تھا ،یہ نور اللہ کی تسبیح بیان کرتا تو فرشتے بھی ان کی تسبیح کیساتھ تسبیح بیان کرتے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو یہ نور ان کے صلب میں رکھا ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے صلب آدم میں رکھ کر زمین پر اُتارا ۔ پھر صلب نوح علیہ السلام میں حتیٰ کہ صلب ابراہیم علیہ السلام میں ڈالا ، پھر اللہ تعالیٰ اصلاب کریمہ اور ارحام طاہرہ میں مجھے منتقل فرماتا رہا یہاں تک کہ مجھے میرے والدین کریمین سے پیدا فرمایا اور میرے آباﺅ اجداد کبھی زنا کے قریب بھی نہ گئے ۔ (کتاب الشفاء جلد 1)
اس حدیث پاک سے جہاں اس بات پر صراحت کیساتھ روشنی پڑتی ہے کہ آپ کے آباﺅ اجداد زنا سے پاک تھے ، وہیں اس بات کا بھی ثبوت ملتا ہے کہ وہ حضرات مومن و موحد تھے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود ارشاد فرمایا ! کہ میں معزز صلبوں اور پاک رحموں سے منتقل ہوتا ہوا آیا ہوں اور ظاہر ہے کہ کفار و مشرکین کو پلید ہونے کی وجہ سے یہ شرف حاصل نہیں کیونکہ قرآن نے بھی ان کو نجس کہا ہے ۔ اِنَّمَا المُشرِکُوَ نَجَس ۔ بیشک مشرک نجس ہیں ۔ یعنی ان کا باطن خبیث ہے اور وہ نہ طہارت کرتے ہیں نہ نجاستوں سے بچتے ہیں ۔ (پارہ 10رکوع 10)
تو جب مشرکین کو قرآن پاک نے ناپاک کہا ہے تو پھر ان پر معزز اور طاہر ہونے کا اطلاق کیسے درست ہو سکتا ہے ؟
اس حدیث پاک کی تائید میں اور بھی احادیث کریمہ ہیں ۔ حضرت سیدناعبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:”میں زمانہ جاہلیت کی کسی برائی سے متولد نہیں ہوا ہوں ، میں ہمیشہ اسلامی نکاح سے ہی پیدا ہوا ہوں ۔ (بیہقی)
چونکہ زمانہ جاہلیت میں رواج تھا کہ جاہل او ربے وقوف قسم کے لوگ اپنی بیویوں کو شرفا کے پاس بھیجتے تھے تاکہ وہ ان کے نطفے سے حاملہ ہوں اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کوئی عورت کسی مرد سے مدتوں زنا کرتی رہتی پھر عرصہ دراز کے بعد وہ اس سے نکاح کر لیتی تھی ۔ (مدارج النبوة جلد 2)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اس طرح کی برائی کے ذریعہ متولد ہونے سے میں پاک وصاف ہوں ۔
ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے ہمیشہ اصلاب طیبہ سے ارحام طاہرہ مصفا و مہذبہ میں منتقل فرمایا۔ ان میں جب بھی دو قبیلے بنتے تو مجھے ان میں بہتر قبیلے میں رکھا جاتا ۔ (مدارج النبوة جلد 2)
ایک اور حدیث میں اس طرح ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : میں ہمیشہ پاک مردوں کی پاک پستوں اور پاک عورتوں کے پاک رحموں سے منتقل ہوتا ہوا تشریف لایا ہوں ۔ (تفسیر کبیر جلد 2)
مذکورہ احادیث کریمہ سے اس وضاحت میں کوئی کمی نہیں رہ جاتی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تمام اجداد زنا اور کفر و شرک سے پاک تھے ۔ لہٰذا آذر کے شرک کو لے کر اعتراض کرنا صحیح نہیں کیونکہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ نہیں بلکہ چچا تھے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد تارخ تھے ۔ (حاشیہ جلالین پارہ 7)
فقیہ ابو اللیث سمرقندی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بعض قاریوں نے ”لَقَد جَآئَ کُم رَسُول مِّن اَنفُسِکُم“میں فاکو فتحہ کیساتھ پڑھا ہے ۔ (تفسیر روح البیان ،کتاب الشفاء جلد 1 صفحہ 39،چشتی)
تو اگر ”اَنفُسَکُم “کے فا کو فتحہ کیساتھ پڑھا جائے تو یہ مدح و ثناءکی انتہا ہے کیونکہ مطلب یہ ہو گا کہ رسول نفیس ترین جماعت سے پیدا ہوئے ۔
یہ قرات بتا رہی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ تک سارے لوگ نفیس تھے کوئی خسیس نہ تھا اور کافر خسیس ہوتا ہے ۔ تو آذر جو کافر و مشرک تھا حضور سید الطاہرین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طیب و طاہر نسب میں کیسے آسکتا ہے ؟
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آذر سے سخت الفاظ میں خطاب فرمایا تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا کلام جسے رب تعالیٰ نے قرآن حکیم میں نقل فرمایا ہے ۔اس کا ترجمہ یہ ہے ::” اور یاد کرو جب ابراہیم نے اپنے باپ آذر سے کہا،کیا تم بتوں کو خدا بناتے ہو؟بیشک میں تمہیں اور تمہاری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں ۔“(پارہ 7رکوع 15)
تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ سخت گفتگو بتا رہی ہے کہ آذر آپ کا باپ نہیں کیونکہ ماں باپ اگر چہ کافر ہوں مگر ان سے گفتگو نرم اور تبلیغ نرمی سے کرنی چاہیے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : فَلَا تَقُل لَّھُمَا اُفٍّ وَّلَا تَنھَر ھُمَا وَقُل لَّھُمَا قَولًا کَرِیمًا ۔ تو ان سے ”ہوں“ نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا ۔ (پارہ 15رکوع 3)
مذکورہ بیانات سے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ آذر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ نہیں بلکہ چچا تھا ۔ لہٰذا آذر کے شرک کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تمام آباﺅ اجداد کے مومن و موحد ہونے پر ہرگز اعتراض نہ ہو گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنی والدہ مکرمہ کےلیے استغفار کی اجازت نہ ہونا معاذ اللہ ان کے کفر کی دلیل نہیں ہے بلکہ اس سے گناہوں سے پاک ہونے کی طرف واضح اشارہ ملتا ہے ۔ کیونکہ غیر نبی کےلیے استغفار کرنے سے گناہوں کا وہم پیدا ہوتا ہے اور چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والدین کریم ایسے زمانہ میں تھے جو نبی سے خالی تھا اس لیے ان کی نجات کےلیے صرف رب تعالیٰ کی واحدنیت کا اعتقاد ہی کافی تھا ۔ کوئی شریعت اس وقت موجود نہ تھی جس کی پابندی نہ کرنے سے گناہ ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان کے حق میں استغفار کرنے سے روک دیا گیا تاکہ ان کی طرف گناہوں کا وہم نہ چلا جائے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اپنے والدین کریمین کو زندہ کرنے کے بعد کلمہ پڑھانا بھی اس لئے نہ تھا کہ معاذ اللہ ان کی موت کفر پر واقع ہوئی تھی بلکہ ان کو مرتبہ صحابیت پر فائز کرنے کےلیے آپ نے کلمہ پڑھایا تاکہ آپ پر ایمان لانے کی فضیلت بھی انہیں حاصل ہو جائے ۔
اور فقہ اکبر کی عبارتوں ”ما تا علی الکفر “ کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے والدین کریمین کی موت کفر کے زمانہ میں واقع ہوئی ۔ اصل میں ”ماتا علی عھد الکفر“ ہے اور ملا علی قاری جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والدین کے کفر کے قائل تھے اخیر عمر میں انہوں نے اپنے اس قول سے رجوع کر لیا تھا ۔ جیسا کہ حاشیہ نبر اس میں صفحہ 526 پر ہے : و نقل توبتہ عن ذالک ۔ یعنی ”اس قول سے ان کی توبہ نقل کی گئی ہے ۔ (مقالات کاظمی)
معلوم ہوا کہ آپ کے تمام آباﺅ اجداد کفر و شرک اور زنا کی برائی سے بالکل پاک و صاف تھے ۔
بیشک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین مومن تھےحضور شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ فتاویٰ شارح بخاری میں تحریر فرماتے ہیں کہ صحیح اور راجح یہی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ابوین کریمین حضرت سیدنا عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ و حضرت سیدتنا آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قبل وفات بھی مسلمان موحد اور ناجی تھے ۔ (فتاویٰ شارح بخاری جلد ١ صفحہ ٢٧٩)
علامہ احمد خطیب قسطلانی المواہب اللدنیہ میں لکھتے ہیں کہ ’’وکذیٰ رویٰ من حدیث عائشه ایضا احیاء ابویه صلی اللہ علیه وسلم حتی اٰمن به اوردہ سھیلی (فی الروض) وکذا الخطیب فی السابق واللاحق"حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین کریمین زندہ کئے گئے یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاۓ ، اسے سہیلی نے روض الانف میں اور خطیب نے سابق لاحق میں ذکر کیا ۔ (مواہب لدنیہ جلد اول و زرقانی وغیرہ)
اگر کوئی اس سے انکار کرتا ہے تو وہ خاطی ہے اس انکار کی وجہ سے وہ گمراہ یا بد دین نہیں ہوا ۔ (فتاویٰ شارح بخاری جلد ١ صفحہ ٢٨٠)
مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ فتاویٰ فیض الرسول میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ابوین کریمین پہلے ہی سے مسلمان تھے پھر سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں زندہ فرما کر اس لیے کلمہ پڑھایا تاکہ وہ لوگ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحابیت سے مشرف ہو جائیں ۔ (فتاویٰ فیض الرسول جلد ١ صفحہ ١٢٩،چشتی)
سیدی سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فتاویٰ رضویہ میں تحریر فرماتے ہیں : اخرج الخطیب عن عائشۃ رضی اللہ تعالیٰ عنھا قالت حج بنا رسول الله صلی ﷲ علیه وسلم فمربی علی عقبۃ الجحون وھو باک حزین مغتم ثم ذھب وعاد وھو فرح متبسم فسألته فقال ذھبت الی قبرامی فسألت الله ان یحییھا فاٰمنت بی وردھا الله‘‘حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے ہمراہ حج کیا ، جب عقبہ جحون پر پہنچے تو رو رہے تھے اور غمگین تھے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں تشریف لے گئے اور جب واپس آئے تو مسرور تھے اور تبسم فرما رہے تھے ، فرماتی ہیں (حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) میں نے سبب دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایامیں اپنی والدہ محترمہ کی قبر پر گیا تھا میں نے اپنے اللہ سے سوال کیا اس (اللہ تعالیٰ) نے ان (میری والدہ) کو زندہ کیا وہ (میری ماں) ایمان لائیں پھر انتقال فرما گئیں ۔ (الخصائص الکبریٰ)
ففی مجمع بحار الانوار روح احیاء ابوی النبی صلی ﷲ علیه وسلم حتیٰ اٰمنا به قال فی اسناده مجاھیل وانه منکر جد ایعارضه ما ثبت فی الصحیح‘‘مجمع بحار الانوار میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین کو زندہ فرمایا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد ٣٠ صفحہ ٧٢٣،چشتی)
حضور نبی پاک صاحب لولاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین کریمین کے شان ایمان کے بارے میں اعلیٰ حضرت ، امام اہلسنت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کا رسالہ ’’شمول الاسلام لاصول الکرام‘‘ طالب عرفان کو حقائق سے آشنا کر دیتا ہے ۔ جس میں آپ نے متعدد دلائل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین کریمین کے ایمان کو ثابت کیا ہے ۔ درج ذیل مضمون اس کے ضروری حصے کی تلخیص ہے ۔ اور امام جلال الدین سیوطی علیہ الرّحمہ کا رسالہ ایمان ابوین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور الحاوی للفتاویٰ بھی قابل دید ہے اس موضوع پر : ⏬
پہلی دلیل : قرآن مجید کی رو سے یہ طے ہے کہ ایک مسلمان ، کافر و مشرک سے بہرحال بہتر ہے اگرچہ غلام ہی کیوں نہ ہو ۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ ہر قرن وطبقے میں روئے زمیں پر کم از کم سات مسلمان ضرور رہے ہیں ۔ صحیح بخاری اور دیگر کتب احادیث کی روایات سے ثابت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن سے پیدا ہوئے ، وہ لوگ ہر زمانے میں خیار قرن یعنی بہترین طبقے سے تعلق رکھتے تھے تو واجب ہوا کہ مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء و امہات ہر قرن و ہر طبقے میں انہی بندگان صالح و مقبول میں سے ہوں ورنہ معاذ اللہ قرآن عظیم میں ارشاد حق جل وعلا اور صحیح بخاری میں ارشاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالف ہوگا ۔ یہ دلیل امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ و قدس سرہ سے افادہ فرمائی ہے ۔
دوسری دلیل : قرآن مجید میں طے کردیا گیا ہے کہ کافر تو ناپاک ہی ہیں ۔ احادیث کریمہ میں بیہقی ، زرقانی اور کتاب الشفاء وغیرہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مجھے ہمیشہ پاک مردوں (کرم والی پشتوں) سے پاک بیبیوں کے طہارت والے شکموں میں منتقل فرماتا یہاں تک کہ مجھے میرے ماں باپ سے پیدا کیا ۔ تو ضروری ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آبائے کرام طاہرین اور امہات کرام طاہرات رضی اللہ عنہم سب اہل ایمان و توحید ہوں کہ بنص قرآن عظیم کسی کافر و کافرہ کا کرم و طہارت سے حصہ نہیں ۔ یہ دلیل امام فخر الدین رازی نے افادہ فرمائی اور امام جلال الدین سیوطی و دیگر اکابر نے اس کی تائید و تصویب کی ۔
تیسری دلیل : امام فخر الدین آیہ کریمہ ’’وتقلبک فی الساجدین‘‘ کے تحت فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور پاک ساجدوں سے ساجدوں کی طرف منتقل ہوتا رہا تو یہ آیت اس پر دلیل ہے کہ سب آبائے کرام مسلمین تھے ۔ امام سیوطی ، امام ابن حجر اور علامہ زرقانی و دیگر اکابر نے اس کی تائید و تصویب کی نیز ابو نعیم اس کی تائید کرتے ہوئے ایک روایت حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کرتے ہیں ۔ یہ امر پیش نظر رہے کہ قرآن مجید تمام وجوہ (طرق و جہات) سے قابل استدلال ہے اور اس حوالے سے کوئی تاویل دوسری تاویل کی نفی نہیں کرتی۔ اس پر علماء کا عمل گواہ ہے ۔
چوتھی دلیل : قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا کہ عنقریب تجھے تیرا رب اتنا دے گا کہ تو راضی ہو جائے گا ۔ صحیح مسلم مں حدیث قدسی میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ہم تجھے تیری امت کے بارے میں راضی کردیں گے اور تیرا دل برا نہ کریں گے ۔
غور و فکر کا مقام ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جذبہ ترحم کی وجہ قرابت داری ہے یا احسان مندی ؟ احسان مندی اس لیے باطل ہے کہ قرآن مجید کی رو سے کافر کا ہر عمل بعد موت باطل ہے۔ اب رہی قرابت داری تو کیا والدین کریمین سے زیادہ قرب ابو طالب کو حاصل ہے؟ یقینا نہیں ۔ اگر معاذ اللہ والدین کریمین کافر ہوتے تو یہ سارا جذبہ ترحم بلکہ اس سے بھی زیادہ والدین کے حق میں منقول ہوتا اور سب سے ہلکے عذاب کی روایت ان کے بارے میں ہوتی۔ ازروئے قربت بھی اور اس لحاظ سے بھی کہ ان تک دعوت اسلام پہنچی ہی نہیں تھی، حالانکہ ایسا نہیں تو مان لیجیے کہ سرکار عالی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین کریمین رضی اللہ عنہما مومن و صالح تھے ۔
پانچویں دلیل : سنن نسائی میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبدالمطلب کی صاحبزادی کو آتے دیکھ کر باز پرس کی اور ارشاد فرمایا کہ اگر تم ان کے ساتھ قبرستان جاتیں تو اس وقت تک جنت نہ دیکھتیں جب تک عبدالمطلب نہ دیکھتے ۔ اس حدیث پاک سے حضرت عبدالمطلب کا جنتی ہونا ثابت ہے ۔ اس سلسلے میں پہلے چار اصول مذکور ہیں جن سے استدلال کرکے نتیجہ مرتب کیا جاسکتا ہے ۔ اصول ملاحظہ ہوں : ⏬
1 ۔ کوئی معصیت مسلمان کو جنت سے محروم نہیں کرسکتی، مسلمان کا جنت میں جانا واجب شرعی ہے ۔
2 ۔ کافر کا جنت میں جانا محال شرعی ہے کہ ابدالآباد تک کبھی ممکن ہی نہیں ۔
3 ۔ نصوص کو ظاہر پر محمول کرنا واجب اور بے ضرورت تاویل ناجائز ہے ۔
4 ۔ عصمت ، نوع بشر میں خاصہ انبیاء علیہم السلام ہے باقی سب سے گناہ ممکن ہے ۔
زیر نظر حدیث میں مذکور خاتون اگر قبرستان جاتیں تو جزاء جہنم قرار پاتی تو یہ حدیث حضرت عبدالمطلب کے ایمان یا کفر پر مشروط ہے ۔ یعنی اگر حضرت عبدالمطلب کافر ہوتے تو وہ دائما جہنمی قرار پاتیں جبکہ مومن یا مومنہ پر دخول جنت واجب شرعی ہے۔ لہذا حضرت عبدالمطلب کو مومن ماننا واجب ہے ۔
چھٹی دلیل : قرآن مجید میں فرمایا گیا کہ عزت تو اللہ و رسول اور مسلمان ہی کےلیے ہے ، مگر منافقوں کو علم نہیں ۔ اسی طرح فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار (متقی) ہے۔ ان دو آیات کریمہ کی رو سے عزت و کرامت مسلمان ہونے پر منحصر ہے ۔
کسی عزت دار شخص کےلیے کسی لیئم و ذلیل کی اولاد سے ہونا باعث عزت و تعریف نہیں لہٰذا کافر آباء واجداد پر فخر کرنا حرام ہے ۔ مسند امام احمد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث پاک کی رو سے کفار آباٶ اجداد کی طرف فخر و مباہات کے طور پر اپنی نسبت کرنے والا جہنمی ہے ۔
حضور نبی اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روز حنین اور دیگر غزوات کے موقع پر ایسے رجز منقول ہیں جن میں اپنے آباٶ امہات پر فخر کا اظہار پایا جاتا ہے ۔ مثلاً : ⏬
انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب
انا النبی العواتک من بنی سلیم
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدات میں کم از کم نو خواتین کا نام عاتکہ تھا ، جن میں سے تین یا چار بنی سلیم سے تھیں ۔ ان رجزیہ کلمات سے آپ کے اجداد و امہات کا ایمان بالبداہت ثابت ہوتا ہے ۔ نیز آپ نے اپنے فضائل و مداح کے بیان میں اکیس پشت تک اپنا شجرہ نسب مبارکہ بیان کرکے فرمایا میں نسب میں سب سے افضل ہوں ۔
ساتویں دلیل : سورہ نوح کی آیت کریمہ انہ لیس من اہلک یہ تمہارے اہل (گھر والوں) سے نہیں، نے مسلم و کافر کا نسب منقطع فرمادیا۔ لہذا کافر و مسلم شرعا ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوتے یعنی ایک دوسرے کے ترکے سے حصہ نہیں پاتے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں نحن بنو نضر بن کنانۃ لا ننتفی من ابینا (ہم نضر بن کنانہ کے بیٹے ہیں ، ہم اپنے باپ سے اپنا نسب جدا نہیں کرتے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ان کے ایمان کی دلیل ہے ۔
آٹھویں دلیل : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اکیسویں پشت میں حضرت عدنان تک اپنا شجرہ نسب بیان کرکے فرمایا کہ جب بھی لوگوں میں دو گروہ ہوئے ، اللہ نے مجھے بہتر گروہ میں کیا ، میں اپنے والدین سے ایسا پیدا ہوا کہ زمانہ جاہلیت کی کوئی بات مجھ تک نہ پہنچی ۔ میں آدم سے لے کر اپنے والدین تک خالص نکاح صحیح سے پیدا ہوا۔ میرا نفس کریم تم سب سے بہتر ہے اور میں نسب اور والد کے لحاظ سے تم سب سے زیادہ بہتر ہوں ۔
ملحوظ ہو کہ اس حدیث کے مخاطبین میں وہ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی شامل ہوں گے جن کے والدین نے بھی اسلام قبول کیا ۔
نویں دلیل : صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے والد زید بن عمرو (جو قبل اسلام وفات پاچکے تھے) کے بارے میں نبی مکرم رسول محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے زید بن عمرو کو بخش دیا اور ان پر رحم فرمایا کہ وہ دین ابراہیم پر فوت ہوئے ۔ نیز ان ہی کے بارے میں ایک اور حدیث میں ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اسے جنت میں ناز کے ساتھ دامن کشاں دیکھا ۔
سطور سابقہ میں مذکور (بحوالہ دلیل ثامن) حدیث پاک کا اطلاق حضرت سعید بن زید پر بھی ہوتا ہے جس کے ضمن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد گرامی کا حضرت سعید بن زید کے والد گرامی سے بہتر ہونا لازم ہے جبکہ حضرت زید بن عمرو کا جنتی ہونا خود حدیث سے ثابت ہے ۔
دسویں دلیل : حضرات ابوین کریمین رضی اللہعنہما کا انتقال عہد اسلام سے پہلے تھا تو اس وقت تک وہ صرف اہل توحید تھے بعدہ رب العزت نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے ان پر اتمام نعمت کےلیے اصحاب کہف کی طرح انہیں زندہ کیا کہ انہوں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاکر شرف صحابیت پاکر آرام فرمایا ۔ امام ابن حجر مکی نے فرمایا کہ متعدد حفاظ حدیث نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور اس میں طعن کرنے والے کی بات کو قابل التفات نہیں جانا ہے ۔
گیارہویں دلیل : امام ابن حجر مکی فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ میں توقف کرنے والے علماء نے کیا خوب فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین کریمین کو کسی نقص کے ساتھ ذکر کرنے سے بچو کہ اس سے رسول اکرم سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف پہنچتی ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مردوں کو برا کہہ کر زندوں کو ایذاء نہ دو تو عاقل کو چاہئے کہ ایسی جگہ سخت احتیاط سے کام لے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے قابل ایذاء بات نہ کہے ۔
والدینِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق اہلسنت و جماعت کا عقیدہ یہی ہے کہ وہ موحِّد یعنی توحید پر قائم ، مسلمان تھے اور جنتی ہیں ۔ یہی اہلسنت و جماعت کا مٶقف ہے ۔
امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بیہقی وابن عساکر کی حدیث میں بطریق مالک عن الزھری عن انس رضی اللہ عنہ ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : انا محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ھاشم بن عبدمناف بن قصی بن کلاب بن مرۃ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فھر بن مالک بن النضربن کنانۃ بن خزیمۃ بن مدرکۃ بن الیاس بن مضربن نزاربن معدبن عدنان ،ما افترق الناس فرقتین الاجعلنی اللہ فی خیر ھما فاخرجت من بین ابوین فلم یصبنی شیئ من عھد الجاھلیۃ وخرجت من نکاح ولم اخرج من سفاح من لدن اٰدم حتی انتھیت الی ابی وامی فانا خیرکم نفسا وخیرکم ابا ، وفی لفظ فانا خیرکم نسباً وخیرکم اباً ۔
ترجمہ : میں ہوں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فہربن مالک بن نضربن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضربن نزاربن معدبن عدنان ۔ لوگ کبھی دوگروہ نہ ہوئے مگر مجھے اللہ پاک نے بہتر گروہ میں کیا ، تو میں اپنے ماں باپ سے ایسا پیدا ہوا کہ زمانۂ جاہلیت کی کوئی بات مجھ تک نہ پہنچی اورمیں خالص نکاحِ صحیح سے پیدا ہوا ، آدم سے لے کر اپنے والدین تک ، تو میرا نفسِ کریم تم سب سے افضل اورمیرے باپ تم سب کے والدین سے بہتر ۔ اس حدیث میں اول تو نفی عام فرمائی کہ عہدِ جاہلیت (زمانۂ جاہلیت) کی کسی بات نے نسبِ اقدس میں کبھی کوئی راہ نہ پائی، یہ خود دلیلِ کافی ہے اور ۔۔۔ قال اللہ عزوجل (اللہُ اعلم حیث یجعل رسٰلتہ) (یعنی اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا : اللہ خوب جانتا ہے ، جہاں اپنی رسالت رکھے ۔(پارہ8، سورۃ: الاَنعام، آیت:124) ۔ آیہ کریمہ شاہد کہ رب العزۃ عَزّوَعَلا سب سے زیادہ معزز و محترم موضع (مقام) ، وضعِ رسالت کےلیے انتخاب فرماتا ہے ، ولہٰذا کبھی کم قوموں ، رذیلوں میں رسالت نہ رکھی ، پھر کفر و شرک سے زیادہ رذیل کیا شے ہو گی ؟ وہ کیونکر اس قابل کہ اللہ عزوجل نورِ رسالت اس میں ودیعت (امانت) رکھے ۔ کفار محلِ غضب و لعنت ہیں اور نورِ رسالت کے وضع کو محلِ رضا ورحمت درکار ۔ (فتاوی رضویہ جلد 30 صفحہ 282۔283 رضا فاؤنڈیشن لاھور،چشتی)
مزید تفصیل کےلیےدرج ذیل کتب دیکھی جاسکتی ہیں : ⏬
(1) عظیم محدث حضرت علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ کے رسائل ۔ (مسالک الحنفاء فی والدی المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم)(التعظیم والمنۃ فی ان ابوی النبی فی الجنۃ صلی اللہ علیہ وسلم)(الدرج المنیفہ فی الآباء الشریفۃ)(نشر العلمین المنیفین فی احیاء الابوین الشریفین)(المقامۃ السندسیۃ فی النسبۃ المصطفویۃ)(السبل الجلیۃ فی الآباء العلیۃ)
(2) فتاوی رضویہ جلد 30 میں موجود رسالہ ”شمول الاسلام لا صول الرسول الکِرام“ یعنی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین کریمَین اور آباء و اجداد کے مسلمان ہونے کا ثبوت ، کا مطالعہ فرمائیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment