Wednesday 13 December 2023

ایصالِ ثواب قرآن و حدیث اور مستند دلائل کی روشنی میں حصہ دوم

0 comments

ایصالِ ثواب قرآن و حدیث اور مستند دلائل کی روشنی میں حصہ دوم

زندوں کی عبادت (بدنی و مالی) کا ثواب دوسرے مسلمان کو بخشنا جائز ہے جس کا ثبوت قرآن و حدیث اور اقوال فقہاء سے ثابت ہے ۔ ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارا قرآن و حدیث پر ایمان و عمل ہے اور پھر معتزلہ کی طرح ایصال ثواب کا انکار کرتے ہیں انہیں اپنی سوچ پر نظر ثانی اور ان دلائل پر غور کرنا چاہیے ، فقیر نے اس مضمون مسئلہ ایصالِ ثواب قرآن و حدیث اور مستند دلائل کی روشنی میں مکمل حوالہ جات دیانتداری سے نقل کر دیے ہیں انہیں پڑھنا ان پر غور کرنا اور پھر انصاف کرنا آپ کا کام ہے ۔ بقول شاعر : ⏬

کوئی منصف ہو تو انصاف کا چہرہ دمکے
کوئی عادل ہو تو زنجیر ہلائی جائے

اگر آپ تعصب ، بغض ، حسد اور میں نہ مانوں کی عینک اتار کر یہ مضمون مکمل پڑھیں گے تو ان شاء اللہ ضرور فائدہ ہوگا ۔

دنیا سے پردہ کرنے والوں کے حق میں زندوں کی دعا کا یہ کتنا واضح ثبوت ہے اور بھی کئی آیات ہیں مگر اختصار کے پیش نظر اسی پر اکتفاء کرتا ہوں ۔ حدیث پاک میں آتا ہے : الدعاء مخ العبادۃ ۔“ دعا عبادت کا مغز ہے ۔“ایک اور جگہ ہے ۔ الدعاء ھو العبادۃ ۔ “دعا عبادت ہے“ ۔

ثابت ہوا زندوں کی عبادت دنیا سے جانے والوں کےلیے فائدہ مند ہے ۔ حضرت امام جلالالدین سیوطی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : وقد نقل غیر واحدالاجماع علی ان الدعاء ینفع المیت و دلیلہ من القرآن قولہ تعالٰٰی والذین جاءوا ۔ ( الی الاخر) ۔
ترجمہ : اور اس امر پر بہت سے علماء نے اجماع نقل کیا ہے کہ بے شک دعا میت کو نفع دیتی ہے ۔ اور اس کی دلیل قرآن شریف میں اللہ تعالٰٰی کا یہ قول ہے ۔ (مذکورہ آیت کریمہ والذین جاءوا حصّہ اوّل میں دی گٸی ہے)۔( شرح الصدور صفحہ نمبر 127،چشتی)

شرح عقائد نسفی میں ہے : وفی دعاء الاحیاء للاموات او صدقتھم عنھم نفع لھم خلافا للمعتزلۃ ۔
ترجمہ : زندوں کی دعا اور صدقے سے مردوں کو نفع پہنچتا ہے ۔ معتزلہ اس کے خلاف ہیں ۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من مات و علیہ صیام صام عنہ ولیہ ۔ (صحیح مسلم شریف)
ترجمہ : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر مرنے والے کی ذمہ روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ۔ ایک عورت نے حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کی کہ میری ماں نے حج کی نذر مانی تھی مگر اس کا انتقال ہو گیا کیا میں اس کی طرف سے حج کرکے اس کی نذر پوری کر سکتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قال حجی عنہا ۔  ، تم اس کی طرف سے حج کرو ۔ (صحیح بخاری)

ام المونین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو کوئی فوت ہو جائے اور اس کے ذمہ روزے (باقی) ہوں تو اُس کا ولی اس کی طرف سے وہ روزے رکھے ۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے ۔ اور ایک روایت میں حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر اس (فوت ہونے والے) پر کسی نذر کا پورا کرنا باقی ہو (جو اس نے مانی تھی) تو اُسے اس کی طرف سے اس کا ولی پوری کرے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الصوم، باب من مات وعليه صوم، 2 / 690، الرقم : 1851، ومسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب قضاء الصيام عن الميت، 2 / 803، الرقم : 1147، وأبو داود في السنن، کتاب الصيام، باب فيمن مات وعليه صيام، 2 / 315، الرقم : 2400-2401، وأيضًا في کتاب الأيمان والنذور، باب ما جاء فيمن مات وعليه صيام صام عنه وليه، 3 / 237، الرقم : 3311، والنسائي في السنن الکبری، 2 / 175، الرقم : 2919)

ام المونین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا : میری والدہ اچانک فوت ہو گئی ہے اور میرا خیال ہے کہ اگر وہ (بوقت نزع) گفتگو کر سکتی تو صدقہ (کی ادائیگی کا حکم) کرتی. اگر میں اس کی طرف سے خیرات کروں تو کیا اسے ثواب پہنچے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں .‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے ۔ امام مسلم نے ’’صدقات کے ثواب کا فوت شدگان کو پہنچنا‘‘ کے باب میں یہ حدیث نقل کی ہے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجنائز، باب موت الفجأة البغتة، 1 / 467، الرقم : 1322، ومسلم في الصحيح، کتاب الوصية، باب وصول ثواب الصدقات إلی الميت، 3 / 1254، الرقم : 1004، وأبوداود في السنن، کتاب الوصايا، باب ما جاء فيمن مات وصية يتصدق عنه، 3 / 118، الرقم : 2881، والنسائي في السنن، کتاب الوصايا، باب إذا مات الفجأة هل يستحب لأهله أن يتصدقوا عنه، 6 / 250، الرقم : 3649، وابن ماجه في السنن، کتاب الوصايا، باب من مات ولم يوصی هل يتصدق عنه، 2 / 906، الرقم : 2717)

حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ (قبیلہ) جُہَینہ کی ایک عورت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کیا : میری والدہ نے حج کی منت مانی تھی لیکن وہ حج نہ کر سکی یہاں تک کہ فوت ہوگئی. کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں تم اس کی طرف سے حج کرو. بھلا بتاؤ تو اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا نہ کرتیں؟ پس اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرو کیونکہ وہ زیادہ حق دار ہے کہ اُس کا قرض ادا کیا جائے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الإحصار وجزاء الصيد، باب الحج والنذور عن الميت، والرّجل يحجّ عن المرأة، 2 / 656، الرقم : 1754، والنسائي في السنن، کتاب مناسک الحج، باب الحج عن الميت الذي نذر أن يحج، 5 / 116، الرقم : 2632، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 346، الرقم : 3041)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی والدہ کا انتقال ہوگیا اور وہ اس وقت موجود نہ تھے ۔ وہ بارگاہِ رسالت میں عرض گزار ہوئے : یا رسول اللہ ! میری والدہ محترمہ کا انتقال ہوگیا ہے اور میں اُس وقت حاضر نہ تھا، اگر میں ان کی طرف سے کوئی صدقہ و خیرات کروں تو کیا انہیں ثواب پہنچے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں ۔ حضرت سعد عرض گزار ہوئے کہ میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میرا مخراف نامی باغ ان کی طرف سے صدقہ ہے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الوصايا، باب إذا قال أرضي أو بستاني صدقة عن أمي فهوجائز، 3 / 1013، الرقم : 2605، وعبد الرزاق في المصنف، 9 / 159، الرقم : 16337، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 18، الرقم : 537، والبيهقي في السنن الکبری، 6 / 278، الرقم : 12411، وابن سعد في الطبقات الکبری، 3 / 615،چشتی)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا : یا رسول اللہ ! میری والدہ فوت ہو چکی ہے اگر میں اس کی طرف سے صدقہ دوں تو کیا وہ اسے کوئی نفع دے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں ! اس آدمی نے عرض کیا : میرے پاس ایک باغ ہے، آپ گواہ رہیں کہ میں نے یہ باغ اس کی طرف سے صدقہ کر دیا ۔ اِسے امام ترمذی، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن ہے، اور علماء کا یہی قول ہے، وہ فرماتے ہیں : ’’میت کو صدقہ اور دعا پہنچتی ہے۔ بعض محدثین نے یہ حدیث بواسطہ حضرت عمرو بن دینار اور حضرت عکرمہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مرسلاً روایت کی ہے ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الزکاة، باب ما جاء في الصدقة عن الميت، 3 / 56، الرقم : 669، وأبو داود في السنن، کتاب الوصايا، باب ما جاء في من مات وصية يتصدق عنه، 3 / 118، الرقم : 2882، والنسائي في السنن، کتاب الوصايا، باب فضل الصدقة عن الميت، 6 / 252، الرقم : 3655، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 370، الرقم : 3504)

حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : یا رسول اللہ! اُمّ سعد (یعنی میری والدہ ماجدہ) کا انتقال ہوگیا ہے۔ سو (ان کی طرف سے) کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پانی (پلانا) تو انہوں نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا : یہ اُمّ سعد کا کنواں ہے ۔ (أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الزکاة، باب في فضل سقي المائ، 2 / 130، الرقم : 1681، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 41، الرقم : 1424، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 1 / 362، الرقم : 1912)

حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُن کی والدہ فوت ہو گئیں تو انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میری والدہ فوت ہوگئی ہے، کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں ! انہوں نے عرض کیا : تو کونسا صدقہ بہتر رہے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پانی پلانا. (تو انہوں نے ایک کنواں خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کر دیا.) پس یہ کنواں مدینہ منورہ میں سعد یا آل سعد کی پانی کی سبیل (کے نام سے مشہور) تھا ۔ (أخرجه النسائي في السنن، کتاب الوصايا، باب ذکر اختلاف علی سفيان، 6 / 254-255، الرقم : 3662-3666، وابن ماجه في السنن، کتاب الأدب، باب فضل صدقة المائ، 2 / 1214، الرقم : 3684، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 284، الرقم : 22512، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 20، الرقم : 5379)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول ﷲ ! میرے والد فوت ہو گئے ہیں اور اُنہوں نے مال چھوڑا ہے ، لیکن اُنہوں نے وصیت نہیں کی . اگر میں اُن کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا یہ (صدقہ) اُن کے گناہوں کا کفّارہ ہو جائے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں .‘‘ اِسے امام مسلم، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الوصية، باب وصول ثواب الصدقات إلی الميت، 3 / 1254، الرقم : 1630، والنسائي في السنن، کتاب الوصايا، باب فضل الصدقة عن الميت، 6 / 251، الرقم : 3652، وابن ماجه في السنن، کتاب الوصايا، باب من مات ولم يوص هل يتصدق عنه، 2 / 206، الرقم : 2716، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 371، الرقم : 8828،چشتی)

حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اور عرض کیا : (یا رسول ﷲ) میری والدہ فوت ہو گئی ہیں اور اُن پر ایک ماہ کے روزے واجب ہیں . آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ بتاؤ اگر اُس پرکچھ قرض ہوتا تو کیا تم اُس کی طرف سے وہ قرض ادا کرتیں؟ اُس عورت نے عرض کیا : ہاں . آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس ﷲ تعالیٰ زیادہ حقدار ہے کہ اس کا قرض (پہلے) ادا کیا جائے ۔‘‘ اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب قضاء الصيام عن الميت، 2 / 804، الرقم : 1148، وابن حبان في الصحيح، 8 / 299، 335، الرقم : 3530، 3570، والبيهقي في السنن الکبری، 4 / 255، الرقم : 8012)

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک عورت آئی اور عرض کیا : میں نے اپنی ماں کو ایک باندی صدقہ میں دی تھی اور اب میری ماں فوت ہو گئی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہیں ثواب مل گیا اور وراثت نے وہ باندی تمہیں لوٹا دی . اس عورت نے عرض کیا : یا رسول ﷲ ! میری ماں پر ایک ماہ کے روزے (بھی باقی) تھے، کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، اس کی طرف سے روزے رکھو. اس نے عرض کیا : میری ماں نے حج بھی کبھی نہیں کیا تھا کیا میں اس کی طرف سے حج بھی ادا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، اس کی طرف سے حج بھی ادا کرو (اسے ان سب اعمال کا ثواب پہنچے گا).‘‘اِسے امام مسلم، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب قضاء الصيام عن الميت، 2 / 805، الرقم : 1149، والترمذي في السنن، کتاب الزکاة، باب ما جاء في المتصدّق يرث صدقته، 3 / 54، الرقم : 667، والنسائي في السنن الکبری، 4 / 66-67، الرقم : 6314-6316، وابن ماجه في السنن، کتاب الصدقات، باب من تصدق بصدقه ثم ورثها، 2 / 800، الرقم : 2394، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 349، 351، 359، 361، الرقم : 23006، 23021، 23082، 23104)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! میری بہن کا انتقال ہوگیا ہے اور اس پر دو ماہ کے روزے باقی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تیری بہن پر قرض ہوتا تو کیا تو ادا کرتی؟ اُس نے جواب دیا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا حق زیادہ ادا کرنے کے لائق ہے ۔ (أخرجه النسائي في السنن الکبری، 2 / 173-174، الرقم : 2912-2915، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب من مات وعليه صيام من نذر، 1 / 559، الرقم : 1758،چشتی)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا : میری بہن وفات پا چکی ہے اور اُس نے حج نہیں کیا تھا تو کیا میں اُس کی طرف سے حج کر سکتا ہوں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر اس پر قرض ہوتا تو تم یقینا ادا کر دیتے، پس اللہ تعالیٰ وفاء کا زیادہ حق دار ہے ۔ (أخرجه ابن حبان في الصحيح، باب الکفارة، 9 / 306، الرقم : 3993، وابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 339، الرقم : 14724)

حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : میرے والد فوت ہو گئے ہیں اور اُنہوں نے حج ادا نہیں کیا تھا. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو اپنے والد کی طرف سے حج کر لے ۔‘‘ اِسے امام نسائی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه النسائي في السنن، کتاب الحج، باب الحج عن الميت الذی لم يحج، 5 / 116، الرقم : 2634، والطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 87، الرقم : 5877، وأيضًا في المعجم الکبير، 18 / 284، الرقم : 727، وبدر الدين العيني في عمدة القاري، 10 / 213)

حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص وفات پا جائے اور اُس کے ذمہ رمضان شریف کے روزے باقی ہوں تو اُس کی طرف سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء من الکفارة، 3 / 96، الرقم : 718، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب من مات وعليه صيام رمضان قد فرط فيه، 1 / 558، الرقم : 1757، وابن خزيمه في الصحيح،3 / 273، الرقم : 2056،چشتی)

حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : میرے والد فوت ہو گئے ہیں اور اُنہوں نے حج ادا نہیں کیا تھا. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو اپنے والد کی طرف سے حج کر لے۔‘‘ اِسے امام نسائی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه النسائي في السنن، کتاب الحج، باب الحج عن الميت الذی لم يحج، 5 / 116، الرقم : 2634، والطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 87، الرقم : 5877، وأيضًا في المعجم الکبير، 18 / 284، الرقم : 727، وبدر الدين العيني في عمدة القاري، 10 / 213)

حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص وفات پا جائے اور اُس کے ذمہ رمضان شریف کے روزے باقی ہوں تو اُس کی طرف سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء من الکفارة، 3 / 96، الرقم : 718، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب من مات وعليه صيام رمضان قد فرط فيه، 1 / 558، الرقم : 1757، وابن خزيمه في الصحيح،3 / 273، الرقم : 2056،چشتی)

ابراہیم بن صالح بن درہم کا بیان ہے کہ انہوں نے اپنے والد ماجد کو فرماتے ہوئے سنا : ہم حج کے ارادے سے گئے تو ایک آدمی نے ہم سے کہا : کیا تمہارے ایک طرف اُبلّہ نامی بستی ہے؟ ہم نے کہا : ہاں . اس نے کہا : تم میں سے کون ہے جو مجھے اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ مسجد عشار میں میرے لیے دو یا چار رکعتیں پڑھے اور کہے کہ ان کا ثواب ابو ہریرہ کے لیے ہے ؟ میں نے اپنے خلیل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے : اللہ تعالیٰ قیامت کے روز مسجد عشار سے ایسے شہیدوں کو اُٹھائے گا کہ شہدائے بدر کے ساتھ اُن کے سوا کوئی اور کھڑا نہ ہوگا .‘‘ اِسے امام ابو داود نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الملاحم، باب في ذکر البصرة، 4 / 113، الرقم : 4308)

حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیںکہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : یا رسول اللہ! عاص بن وائل نے دورِ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ وہ سو اُونٹنیوں کی قربانی کریں گے اور ہشام بن العاص نے اپنے باپ کی طرف سے پچاس اونٹنیوں کی قربانی کی تو کیا اس کا ثواب اُنہیں ملے گا؟ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تمہارا باپ توحید کو ماننے والا تھا اور تم نے اس کی طرف سے روزے رکھے یا صدقہ کیا تو یہ اسے نفع پہنچائیں گے ۔‘‘ اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 181، الرقم : 6704)

حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : یا رسول اللہ! عاص بن وائل نے دورِ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ وہ سو اونٹنیوں کی قربانی کریں گے اور (ان کے بیٹے) ہشام بن العاص نے اپنے والد کی طرف سے پچاس اونٹنیوں کی قربانی کی تو کیا اس کا ثواب انہیں ملے گا؟ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تمہارا والد توحید کو ماننے والا تھا اور تم نے اِس کے لیے روزے رکھے یا صدقہ کیا یا کوئی غلام آزاد کیا تو ان چیزوں کا ثواب اُسے ملے گا .‘‘ اِسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 58، الرقم : 12078، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 / 192، وبدر الدين العينيفی عمدة القاري، 3 / 119)

حضرت عطا حضرت سفیان اور حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہم سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا میں اپنے مرحوم باپ کی طرف سے غلام آزاد کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں .‘‘ اِسے امام ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 59، الرقم : 12083، والبيهقي في السنن الکبری، 6 / 279، الرقم : 12421، وبدر الدين العيني في عمدة القاري، 3 / 119)

حضرت ابو جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت حسن اور حسین رضی ﷲ عنہما حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد اُن کی طرف سے غلام آزاد کرتے تھے ۔ (أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 59، الرقم : 12088، وبدر الدين العيني في عمدة القاري، 3 / 119)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے اپنے والدین کی طرف سے حج کیا یا اُن کا قرض ادا کیا وہ روزِ قیامت نیکوکاروں کے ساتھ اُٹھایا جائے گا ۔ (أخرجه الدارقطني في السنن، کتاب الحج، باب المواقيت، 2 / 260، الرقم : 110، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 11، الرقم : 7800، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 146)

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر کوئی آدمی اپنے والدین کے لئے حج کرتا ہے تو اُس کا اور اُس کے والدین کا حج قبول کر لیا جاتا ہے، آسمانوں میں اُن کی اَرواح کو بشارتیں دی جاتی ہیں اور اُس بندے کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک نیکو کار لکھ دیا جاتا ہے ۔ (أخرجه الدار قطني في السنن، کتاب الحج، باب المواقيت، 2 / 259، الرقم : 109، وابن قدامة في المغني، 3 / 102)

حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایسا سینگوں والا مینڈھا لانے کا حکم دیا، جس کے ہاتھ، پیر اور آنکھیں سیاہ ہوں. سو قربانی کرنے کے لیے ایسا مینڈھا لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عائشہ! چھری لاؤ، پھر فرمایا : اس کو پتھر سے تیز کرو. میں نے اس کو تیز کیا. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چھری لی، مینڈھے کو پکڑا، اس کو لٹایا اور ذبح کرنے لگے ، پھر فرمایا : اللہ کے نام سے، اے اللہ! محمد، آلِ محمد اور اُمتِ محمد کی طرف سے اس کو قبول فرما. پھر اس کی قربانی کی.‘‘ اِسے امام مسلم، ابو داود اور احمد نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الأضاحي، باب استحباب الضحية وذبحها مباشرة بلا توکيل والتسمية والتکبير، 3 / 1557، الرقم : 1967، وأبو داود في السنن، کتاب الضحايا، باب ما يستحب من الضحايا، 3 / 94، الرقم : 2792، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 78، الرقم : 24535، وابن حبان في الصحيح، 13 / 236، الرقم : 5915، وأبو عوانة في المسند، 5 / 62، الرقم : 7791،چشتی)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اِن دونوں مُردوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور اُنہیں کسی بڑے گناہ کے سبب عذاب نہیں دیا جا رہا. ان میں سے ایک تو اپنے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا. جب کہ دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک تر ٹہنی منگوائی اور چیر کر اُس کے دو حصے کر دیئے۔ ایک حصہ ایک قبر پر اور دوسرا حصہ دوسری قبر پر نصب کر دیا. پھر فرمایا : جب تک یہ خشک نہ ہوں گی ان کے عذاب میں تخفیف رہے گی ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأدب، باب الغيبة، 5 / 2249، الرقم : 5705، ومسلم في الصحيح، کتاب الطهارة، باب الدليل علی نجاسة البول ووجوب الاستبراء منه، 1 / 240، الرقم : 292، والنسائي في السنن، کتاب الطهارة، باب التنزه عن البول، 1 / 30، الرقم : 31، وأبو داود في السنن کتاب الطهارة باب الاستبراء من البول 1 / 6 الرقم  20)

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی ﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اُن کی طرف گئے۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کی نماز جنازہ پڑھ لی، اُنہیں قبر میں رکھ دیا گیا اور قبر کو برابر کر دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تسبیح فرمائی . پس ہم نے بھی طویل تسبیح کی . پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر فرمائی تو ہم نے بھی تکبیر کہی. اِس پر عرض کیا گیا : یا رسول اللہ ! آپ نے تسبیح و تکبیر کیوں فرمائی ؟ ارشاد ہوا : اس نیک بندے پر قبر تنگ ہو گئی تھی . (ہم نے تسبیح و تکبیر کی) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اِس پر فراخی فرما دی ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 360، الرقم : 14916)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے (ان کا اجر اسے برابر ملتا رہتا ہے) : ایک وہ صدقہ جس کا نفع جاری رہے، دوسرا وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے اور تیسری وہ نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الوصية، باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته، 3 / 1255، الرقم : 1631، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 28، الرقم : 38، وأبو داود في السنن، کتاب الوصايا، باب ما جاء في الصدقة عن الميت، 3 / 117، الرقم : 2880، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب ثواب معلم الناس الخير، 1 / 88، الرقم : 239)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا ﷲُ کی تلقین کرو ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب تلقين الموتی لا إله إلا ﷲ، 2 / 631، الرقم : 916، والترمذي في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في تلقين المريض عن الموت والدعاء له عنده، 3 / 306، الرقم : 976، وأبو داود في السنن، کتاب الجنائز، باب في التلقين، 3 / 190، الرقم : 3117، والنسائي في السنن، کتاب الجنائز، باب تلقين الميت، 4 / 5، الرقم : 1826)

ایک روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا ﷲُ کی تلقین کرو ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب تلقين الموتی لا إله إلا ﷲ، 2 / 631، الرقم : 917، وابن ماجه في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في تلقين الميت لا إله إلا ﷲ، 1 / 464، الرقم : 1444، وابن أبي شيبة في المصنف، کتاب الجنائز، باب في تلقين الميت، 2 / 446، الرقم : 10857)

امام ابن عابدین شامی رحمة اللہ علیہ اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اہل سنت و جماعت کے نزدیک حدیث مبارکہ - اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا ﷲُ کی تلقین کرو - کو اس کے حقیقی معنیٰ پر محمول کیا جائے گا کیوں کہ ﷲ تعالیٰ تدفین کے بعد مردے میں زندگی لوٹا دیتا ہے اور اس پر واضح آثار (روایات) موجود ہیں ۔ (ابن عابدين الشامي في رد المحتار، 2 / 191،چشتی)

حضرت سعید بن عبد ﷲ اَودی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا درآں حالیکہ وہ حالتِ نزع میں تھے۔ اُنہوں نے فرمایا : جب میں فوت ہوجاؤں تو میرے ساتھ وہی کچھ کرنا جس کا حکم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں فرمایا ہے۔ ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تمہارا کوئی مسلمان بھائی فوت ہوجائے اور اسے قبر میں دفن کرچکو تو تم میں سے ایک آدمی اُس کے سرہانے کھڑا ہوجائے اور اسے مخاطب کر کے کہے : اے فلاں ابن فلانہ! (فلانہ مؤنث کا صیغہ ہے جس سے مراد ہے کہ اسے اُس کی ماں کی طرف منسوب کرکے پکارا جائے گا.) بے شک وہ مدفون سنتا ہے لیکن جواب نہیں دیتا. پھر دوبارہ مردے کو مخاطب کرتے ہوئے کہو : اے فلاں ابن فلانہ! اس آواز پر وہ بیٹھ جاتا ہے۔ پھر کہو : اے فلاں ابن فلانہ! اس پر وہ مردہ کہتا ہے : ﷲ تم پر رحم فرمائے، ہماری رہنمائی کرو. لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ہوتا. پھر وہ کہے : اُس اَمر کو یاد کرو جس پر تم دنیا سے رُخصت ہوتے ہوئے تھے اور وہ یہ کہ اِس اَمر کی گواہی کہ ﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور پیغمبر ہیں؛ اور یہ کہ تو ﷲ تعالیٰ کے رب ہونے، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغمبر ہونے، اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا. جب یہ سارا عمل کیا جاتا ہے تو منکر نکیر میں سے کوئی ایک دوسرے فرشتے کا ہاتھ پکڑتا ہے اور کہتا ہے : مجھے اِس کے پاس سے لے چلو، ہم اس کے ساتھ کوئی عمل نہیں کریں گے کیونکہ اس کو اِس کی حجت تلقین کر دی گئی ہے ۔ سو ﷲ تعالیٰ اس کی حجت بیان کرنے والا ہوگا منکر نکیر کے علاوہ. پھر ایک آدمی نے کہا : یا رسول ﷲ ! اگر میں اس کی ماں کو نہ جانتا ہوں تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر اُسے اماں حواء کی طرف منسوب کرو. (اور یوں کہو : ) اے فلاں ابن حوا .‘‘ اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے فرمایا : اس کی اسناد صالح ہیں، جب کہ ضیاء مقدسی نے اسے احکام میں قوی قرار دیا ہے۔ ابن ملقن انصاری نے فرمایا : اس کے صرف ایک راوی سعید بن عبد اﷲ کو میں نہیں جانتا، لیکن اس روایت کے کثیر شواہد ہیں جو اسے تقویت بہم پہنچاتے ہیں ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 8 / 249، الرقم : 7979، والهيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 324؛ 3 / 45، والعسقلاني في تلخيص الحبير، 2 / 135-136، وابن الملقن في خلاصة البدر المنير، 1 / 274-275، الرقم : 958، والهندي في کنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، 15 / 256-257، الرقم : 42406)

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی میت کی تدفین سے فارغ ہو جاتے تو اس کی قبر پر ٹھہرتے اور فرماتے : اپنے بھائی کے لیے مغفرت طلب کرو اور (اللہ تعالیٰ سے) اس کے لیے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے بارے میں پوچھے جانے والے سوالات میں) ثابت قدمی کی التجا کرو، کیونکہ اب اس سے سوال کیے جائیں گے ۔‘‘ اِس حدیث کو امام ابو داود اور بزار نے روایت کیا ہے ۔ امام حاکم نے فرمایا : یہ حدیث صحیح ہے اور امام مقدسی نے فرمایا : اِس کی اسناد حسن ہیں ۔ (أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الجنائز، باب الاستغفار عند القبر للميت في وقت الإنصراف، 3 / 215، الرقم : 3221، والبزار في المسند، 2 / 91، الرقم : 445، والحاکم في المستدرک، 1 / 526، الرقم : 1372، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 1 / 522، الرقم : 378)

امام ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ اِس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : ’’حافظ ابن حجر عسقلانی کا کہنا ہے کہ اِس روایت میں میت کو دفن کر چکنے کے بعد تلقین کرنے کی طرف اشارہ ہے اور ہمارے مذہب (اَہل سنت و جماعت) کے مطابق یہ معتمد سنت ہے ، بخلاف اُس شخص کے جس نے یہ گمان کیا کہ یہ بدعت (سیئہ) ہے ۔ اور یہ کیسے ہو سکتا ہے جب کہ اس ضمن میں واضح حدیث بھی موجود ہے جس پر فضائل کے باب میں بالاتفاق نہ صرف عمل کیا جاسکتا ہے بلکہ وہ اتنے شواہد سے مضبوط ہے کہ وہ درجہ حسن تک جا پہنچی ہے ۔ (مرقاة المفاتيح، 1 / 327)

فتاوٰی عزیزی میں شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : آرے زیارت و تبرک بقبور صالحین و امداد ایشاں بایصال ثواب و تلاوت قرآن ودعائے خیر و تقسیم طعام و شرینی امر مستحسن و خوب است ۔
ترجمہ : ہاں صالحین کی قبروں کی زیارت کرنا اور ان کی قبروں سے تبرک حاصل کرنا اور ایصال چواب تلاوت قرآن دعائے خیف تقسیم طعام و شیرینی سے ان کی مدد کرنا بہت ہی خوب اور بہتر ہے ۔

اور اس پر علمائے امت کا اجماع ہے ۔ دیکھئے : ما من رجل مسلم یموت فیقوم علی جنازتہ اربعون رجلالا تشرکون بااللہ شیئا الا شقعھم اللہ فیہ ۔ (سنن ابو داؤد)
ترجمہ : اگر کسی مسلمان کی نماز جنازہ پر 40 آدمی ایسے کھڑے ہو جائیں جنہوں نے کبھی کسی کو اللہ تعالٰی کا شریک نہ ٹھرایا ہو تو ان کی شفاعت میت کے حق میں اللہ تعالٰی قبول فرماتا ہے۔ یعنی بخش دیتا ہے ۔

بخاری ، مسلم اور مشکوٰۃ میں ہے : دو قبر والوں پر عذاب ہو رہا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کی ایک تر شاخ منگواہ کر آدھی ایک قبر پر اور آدھی دوسری قبر پر رکھ دی اور فرمایا جب تک یہ چاخیں ہری رہیں گی قبر والوں کے عذاب میں تحفیف رہے گی ۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت سعد ابن معاذ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کی قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد آپ نے تکبیر و تسبیح پڑھنی شروع کردی ۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے تکبیر و تسبیح پڑھنے کے بابت پوچھا تو آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قال لقد تضایق علٰی ھذا العبد الصالح قبرہ حتٰی فرجہ اللہ عنہ ۔ (مشکوۃ)
ترجمہ : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ اس نیک آدمی پر قبر تنگ ہو گئی تھی یہاں تک کہ اب اللہ تعالٰی نے اس کی قبر کو فراغ کر دیا ہے ۔

معلوم ہوا کہ زندوں کی عبادت سے اہل قبور کو فائدہ پہنچتاہے اور دفن کے بعد قبر کے پاس تسبیح وغیرہ (کلام پاک) پڑھنا جائز ہے ۔ میت پر تین دن خاص کر سوگ کیا جاتا ہے ۔ بزرگوں نے فرمایا تین دن سوگ کیا ہے ۔ اب اٹھنے سے پہلے گھر کے چند افراد مل کر کچھ پڑھو کچھ صدقی کرو اوع اس کا ثواب میت کی روح کو پٔہنچا کراٹھو ۔ اس کا نام سوئم یا تیجہ ہو گیا ۔ ثبوت ملاحظہ فرمائیں :

شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ملفوظات عزیزی ، صفحہ نمبر 55 شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے تیجہ کے متعلق فرماتے ہیں : روز سوئم کثرت ہجوم مردم آں قدر بود “ کہ تیسرے دن لوگوں کے بیرون از حساب است بہشتاد ویک کا ہجوم اسقدر تھا کلام بشمار آمدہو زیادہ بہم شدہ یا شد کہ شمار سے باہر ہے ۔ وکلمہ سا حضر نیست اکیاسی کلام اللہ ختم ہوئے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوئے ہوں گے اور کلمہ طیبیہ کا تو ابدازہ ہی نہیں ۔

حضرت سعید بن منذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر استطاعت ہوتو تین دن میں قرآن ختم کرو ۔ (جامع صغیر)
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی عرض پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن ہر مہینے ختم کرو ۔ انہوں نے پھر عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں تو آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تین دن میں ختم کرو ۔ (بخاری جلد اول) حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کو جب حد زنا لگنے سے سنگسار کر دیا تو بعد از دفن جب دو دن یا تین گزر گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے جہاں صحابہ کرام بیٹھے تھے پس سلام کیا آپ نے اور بیٹھ گئے اور صحابہ کرام کو فرمایا کہ ماز بن مالک کی بخشش کی دعا کرو تو صحابہ کرام نے ماز بن مالک رضی اللہ عنہ کی مغفرت کی دعا مانگی ۔ (صحیح مسلم جلد دوم) بفضلہ تعالٰی اہل سنت و جماعت کا یہی معمول ہے ۔

ساتواں

حضرت طاؤس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ بے شک مردے سات دن تک اپنی قبروں میں آزمائے جاتے ہیں تو صحابہ کرام سات روز تک ان کی جانب سے کھانا کھلانا مستحب سمجھتے تھے ۔ (شرح الصدور ابو نعیم فی الحلیہ) ۔ چناچہ شیخ المحدثین حجرت شاہ عند الحق محدچ دہلوی نے فرمایا وتصدیق کردہ شود از میت بعد رفتن اواز عالم تا ھفت روز ۔ ( اشعتہ اللمعات شرح مشکوٰۃ) “ اور میت کے مرنے کے بعد سات روز تک صدقہ کرنا چاہیئے ۔“

دسواں : فرمایا دس دنوں میں قرآن ختم کرو ۔ (صحیح بخاری شریف، جلد اول)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ قرآن کتنے دنوں میں پڑھا جائے فرمایا دس دنوں میں۔ ( ابو داؤد مترجم جلد اول) لہذا قرآن پڑھ کر میت کو بخشنے میں کوئی حرج نہیں!

چہلم

دن مقرر ہونے کی وجہ سے احباب اکٹھے ہو کر میت کے لئے دعا و استغفار کرتے ہیں ۔ ایک حکمے یہ بھی ہے کہ عام لوگوں کے لئے تین دن سوگ ہے۔ مگر عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ چالیس روز تک سوگ کرے ۔ ہر عورت کے رشتہ دار اور اولاد وغیرہ اس کے غم میں شریک رہتے ہیں آخری دن کچھ پڑھ کر فاتحہ دلا کر اٹھتے ہیں ۔

چالیس کا قرآن سے ثبوت

واذ وعدنا موسٰی اربعین لیلۃ ۔ (سورہ بقرہ آیت نمبر 50)
ترجمہ : اور جب ہم نے وعدہ دیا موسٰی کو چالیس رات کا ۔

اقراء القرآن فی اربعین ۔ (جامع ترمذی شریف)
ترجمہ : قرآن مجید چالیس دنوں میں پڑھا کرو ۔

بزرگان دین فرماتے ہیں کہ میت کی روح کو چالیس دن تک اپنے گھر اور مقامات سے‌کاص تعلق رہتا ہے ۔ جو بعد میں نہیں رہتا ۔ چناچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ مؤمن پر چالیس روز تک زمین کے وہ ٹکڑے جن پر وہ خدا تعالٰی کی عبادت و اطاعت کرتا تھا اور آسمان کے وہ دروازے جن سے کہ ان کے عمل چڑھتے تھے اور وہ کہ جن سے ان کی روزی اترتی تھی روتے رہتے ہیں ۔ (شرح الصدور ، ص 24)

اسی لئے بزرگان دین نے چالیسویں روز بھی ایصال ثواب کیا کہ اب چونکہ وہ خاص تعلق منقطع ہو جائے گا لہذا ہماری طرف سے روح کو کوئی ثواب پہنچ جائے تاکہ وہ خوش ہو جائیں اور ان سب کی اصل یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سید الشھداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے لئے تیسرے، دسویں، چالسویں دن اور چھٹے مہینے اور سال کے بعد صدقہ دیا ۔ ( کذا فی الانوار ساطقہ مغریا الی مجموعۃ الرویات حاشیہ خزانتہ الرویات)

چہلم کا ایک اور حوالہ

وقیل الٰی اربعین فان المیت یشوق الٰی بیتہ ۔
ترجمہ : اور فرمایا صدقہ دینا چالیس دن پس میت شوق رکھتی ہے ان دنوں اپنے گھر کا۔ (شرح برزخ فیض الاسلام 5، ص 34، کتاب الوجیز، ص 64۔چشتی)

عرس ، برسی

حضرت یحیٰی علیہ السلام کے لئے ارشاد باری تعالٰی : وسلام علیہ یوم ولد و یوم یموت و یوم یبعث حیاہ ۔ ( سورہ مریم: آیت 15)
ترجمہ : اور سلامتی ہو اس پر جس دن وہ پیدا ہوا اور جس دن فوت ہوگا ۔

حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں : والسلام علی یوم ولدت و یوم اموت و یوم ابعث حیاہ ۔ (سورہ مریم آیت 33)
ترجمہ : اور سلامتی ہو مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن میں مروں گا اور جس دن اٹھوں گا، زندہ ہوکر ۔

تفسیر ابن جریر طبری میں ہے : حدیث بیان کی مثنٰی نے سوید سے کیا خبر دی ابن مبارک نے ابراہیم بن محمد سے انہوں نے سہیل بن ابھی صالح نے انہوں نے محمد ابراہیم سے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے جاتے شہدا کی قبروں پر ہر سال پھر فرماتے : سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبٰی الدار ۔ اور سیدنا صدیق اکبر اور فاروق اعظم اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنھم اجمعین بھی اپنے زمانے میں ہر سال قبور شہداء پر جایا کرتے تھے ۔ (تفسیر ابن جریر مطبوعہ مصر جلد نمبر 13،چشتی)

اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہے کہ آپ ہر سال شہداء کی قبور پر تشریف لے جاتے اور فرماتے سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبٰی الدار اور اسی طرح چاروں خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی اسی پر عمل پیرا رہے ۔ (تفسیر کبیر مطبوعہ مصر جلد نمبر 5)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ تشریف لے جاتے ہر شروع سال مین قبور شہداء پر پس فرماتے : سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبٰی الدار ۔ (تفسیر کشاف مطبوعہ بیرون لبنان، جلد دوم) تفسیر کشاف کے حوالے کے بعد تو مخالفین کے انکار کی گنجائش نہیں رہنی چاہیئے ۔

مخالفین کے ایک بڑے کا ایک حوالہ اور ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر سال شھدائے احد کی قبروں پر تشریف لے جاتے پھر فرماتے : سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبٰی الدار ۔ (البدایہ و النہایہ مطبوعہ مصر، جلد سوم) سرور کائنات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر سال شہدائے احد کی قبور پر تشریف لے جاتے پھر چاروں خلفاء کا اپنے اپنے زمانہ میں اس سنت مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل پیرا رہنا عرائس بزرگان دین کیلئے اتنی زبردست دلیل ہے جس کا رد نا ممکن ہے ۔

حضرت فاطمہ خزائیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو دیکھا اور آفتاب قبور شہداء پر غروب ہو چکا تھا اور میرے ساتھ میری بہن تھی ۔ میں نے اس سے کہا آؤ قبر حمزہ رضی اللہ عنہ پر سلام کریں ۔ اس نے کہا ہاں پھر ہم ان کی قبر پر ٹھرے ۔ ہم نے کہا ۔ السلام علیک یا عم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے ایک کلام سنا کہ ہم پر رد کیا گیا ( یعنی لوٹایا گیا) وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ کہا کہ ہمارے قریب کوئی آدمی نہ تھا ۔ ( اخرج البیہیقی)۔(طی الفراسخ الٰی منازل البرازخ مطبوعہ آگرہ 1306 ھ۔سید ذوالفقار احمد وہابی تلمیذ صدیق حسن بھو پالی)

دیوبندی حضرات اور اہل حدیث حضرات مذکورہ حوالہ جات پر ضرور غور فرمائیں ۔ اور ہمارے ساتھ مل کر دنیا سے کوچ کر جانے والوں کے لئے ایصال ثواب کرکے ان کی مدد کریں ۔

ایصال ثواب کے متعلق ضروری وضاحت

ایصال ثواب کے عمل میں دکھاوا اور ریاکاری نہیں کرنی چھاہیئے ۔ اگر ایصال ثواب کا مقصد نمود و نمائش ہے تو اس کا ثواب حاصل نہ ہوگا ۔ اور ایسا دکھاوے کا عمل حرام اور گناہ ہے ۔ عام طور پر بہت سے لوگ قرض لیکر میت کے لئے ایصا ل ثواب کرتے ہیں ۔ اور عام لوگوں کو دعوتیں دیتے ہیں ۔ شریعت میں ایسی دعوتوں کی اجازت نہیں ۔ میت کے ایصال ثواب کے لئے جو کھانا ہے وہ حسب استطاعت ہو اور اسے مستحق اور غریبوں لوگوں کو کھلایا جائے ۔ (صاحبان حیثیت حضرات کو اس کھانے سے اجتناب کرنا چاہیئے) اسی طرح بعض گھروں میں ایصال ثواب کے موقع پر دس بیبیوں کی کہانی ، شہزادے کا سر، داستان عجیب اور جناب سیدہ کی کہانی وغیرہ پڑھی جاتی ہیں۔ جن کی کوئی اصل نہیں اسی طرح ایک پمفلٹ : وصیت نامہ“ جس میں “ شیخ احمد“ کا خواب درج ہے ۔ اسے بھی علمائے کرام نے خود ساختہ قرار دیا ہے۔ ان چیزوں سے بچیں ۔

نوٹ : بزرگانِ دین کی فاتحہ وغیرہ کا کھانا اور چیزہے یہ تبرک ہے اور اسے امیر لوگ بھی کھا سکتے ہیں ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : واگر فاتحہ بنام بزرگے دادہ شود اغنیا را ہم خور دن جائز است ۔ (زبدۃ النصائح صفحہ 132)
ترجمہ : اور اگر کسی بزرگ کی فاتحہ دی جائے تو مالداروں کو بھی کھانا جائز ہے ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔